نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145019
ڈاؤنلوڈ: 2578

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145019 / ڈاؤنلوڈ: 2578
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

تیسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے بائیں جانب ہوتے ہیں اور ان فرشتوں کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں اوروہ شخص کہ جس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہوتوبائیں جانب سلام نہ کرے ،ہاں اگر اس کے دائیں جانب دیوارہواورکوئی نمازی دائیں طرف نہ ہواوربائیں طرف کوئی نمازی موجودہوجواس کے ہمراہ امام جماعت کے پیچھے نمازپڑھ رہاتھاتواس صورت میں بائیں طرف سلام کرے

مفضل کہتے ہیں :میں نے امام(علیه السلام) سے معلوم کیا:امام جماعت کس لئے سلام کرتاہے اورکس چیزکاقصدکرتاہے؟امام(علیه السلام) نے جواب دیا:دونوںفرشتوں اورمامومین کوسلام کرتاہے ،وہ اپنے دل میں ان دونوں فرشتوں سے کہتاہے :نمازکی صحت وسلامتی کولکھواوراسے ان چیزوں سے محفوظ رکھو جونمازکوباطل کردیتی ہیں اورمامومین سے کہتاہے تم لوگ اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے محفوظ وسالم رکھو

فضل کہتے ہیں: میں نے امام(علیه السلام) سے کہا:سلام ہی کوکیوں تحلیل نمازکیوں قرادیاگیاہے؟(تکبیر،تسبیح یاکسی دوسری چیزکوکیوں نہیں قراردیاگیاہے؟)امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے ذریعہ (دونوں کاندھوں پرمو کٔل)دونوںفرشتوں کاسلام کیاجاتاہے اورنمازکااس کے پورے آداب شرائط کے ساتھ بجالانااور رکوع وسجودوسلام نمازبندہ کانارجہنم سے رہائی کاپروانہ ہے ،روزقیامت جس کی نمازقبول ہوگئی اس کے دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے ،اگرنمازصحیح وسالم ہے تودوسرے اعمال بھی صحیح واقع ہونگے اورجس کی نمازردکردی گئی اس کے دوسرے اعمال صالح بھی ردکردئے جائیں گے ۔(۱)

”معانی الاخبار”میں عبدالله ابن فضل ہاشمی سے مروی ہے میں نے امام صادق سے سلام نمازکے معنی ومقصودکوپوچھاتوامام(علیه السلام) نے فرمایا:سلام امن وسلامتی کی علامت ہے اورتحلیل نمازہے کہ جس کے ذریعہ نمازسے فارغ ہواجاتاہے ،میں نے کہا:اے میرے امام !میری جان آپ پرقربان ہومجھے آگاہ کیجئے کہ نمازمیں سلام کوواجب قراردئے جانے کی وجہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:

____________________

.۱) علل الشرایع/ص ١٠٠۵

۲۴۱

گذشتہ زمانہ میں لوگوں کی یہ روش تھی کہ اگرآنے والاشخص لوگوں کوسلام کردیاکرتاتھاتواس کامطلب یہ ہوتاتھاکہ لوگ اسکے شرسے امان میں ہیں اوراگرآنے والے کواپنے سلام کاجواب مل جاتاتھاتواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ وہ بھی ان لوگوں کے شرسے امان میں ہے ،لیکن اگرآنے والاشخص سلام نہیں کرتاتھا تواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ لوگ اس کے شرسے محفوظ نہیں ہیں اوراگرآنے سلام کرتاتھامگردوسری طرف سے کوئی جواب سلام نہیں دیاجاتھاتویہ اس چیزکی پہچان تھی کہ آنے والاشخص کی خیرنہیں ہے اوروہ ان کے شرسے ا مان میں نہیں ہے اوریہ اخلاق عربوں کے درمیان رائج تھا،پس سلام نمازسے فارغ ہونے کی علامت ہے اورسلام مومنین سے کلام کرنے کے جائزہونے کی پہچان ہے ،اب بندوں سے باتیں کرناجائزہے، “سلام ”الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے کہ جسے نمازگزارخداوندعالم کی طرف معین کئے گئے دوفرشتوں سے مخاطب ہوکرانجام دیتاہے۔(۱)

فضل بن شاذان سے روایت ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:نمازمیں سلام کوتحلیل نمازاس لئے قراردیاگیاہے اوراس کے بدلہ میں تکبیر،تسبیح یااورکسی دوسری چیزکوتحلیل نماز قرارنہیں دیاگیاہے کیونکہ جب بندہ تکبیرکے ذریعہ نمازمیں داخل ہوجاتاہے تو اس کابندوں سے ہمکلام ہوناحرام ہوجاتاہے اورفقط خداکی جانب متوجہ رہناہوتاہے لاجرم نمازسے خارج ہونے میں مخلوق سے کلام حلال ہوجاتاہے اورپوری مخلوق کواپنے کلام کی ابتد اسلام کے ذریعہ کرنی چاہئے لہٰذانمازگذارجب نمازسے خارغ ہوتاہے پہلے مخلوق سے ہمکلام ہونے کوحلال کرے یعنی پہلے سلام کرے اوراس کے بعدکوئی کلام کرے اسی نمازکے آخرمیں سلام کوقراردیاگیاہے۔(۱)

روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب +سے پوچھا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی!امام جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تو امام (علیه السلام) نے فرمایا:

انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمته لاهل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله یوم القیامة ۔

کیونکہ امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے کہتاہے :تمھیں روزقیامت کے الٰہی عذاب سے امان ونجات مل گئی ہے ۔(۳)

____________________

.۱) معانی الاخبار/ص ١٧۶

۲). علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢ ۔عیون اخبارالرضا/ج ١/ص ١١۵

۳). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠

۲۴۲

مفضل ابن عمروسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:کیاوجہ ہے کہ سلام نمازکے بعدتین مرتبہ ہاتھوں کوبلندکیاجائے اورتین مرتبہ“الله اکبر” کہاجائے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:جس وقت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مکہ فتح کیاتواپنے اصحاب کے ساتھ حجراسودکے قریب نمازظہراداکی اورسلام پڑھاتواپنے ہاتھوں کواوپرلے گئے اورتین مرتبہ تکبیرکہی اسکے بعدیہ دعاپڑھی:

لَااِلٰهَ اِلّااللهُ وَحْدَه وَحْدَه ، اَنْجَزَوَعْدَه ، وَنَصَرَعَبْدَه ، وَاَعَزَّجُنْدَه ، وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَه ، فَلَهُ الْمُلْکُ ، وَلَهُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَی قَٔدِیْرٌ.

اس کے بعداپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے ارشادفرمایا:اس تکبیراوردعاکوکسی بھی واجب نمازکے بعدترک نہ کرناکیونکہ جوشخص سلام کے بعداس دعاکوپڑھے گویااس نے اس شکرکوجواسلام وسپاہیان اسلام کاشکراس کے اوپرواجب تھااداکردیاہے۔(۱)

____________________

۱). علل الشرائع /ج ٢/ص ٣۶٠

۲۴۳

رازقنوت

لغت میں خضوع وخشوع اوراطاعت وفرمانبرداری کوقنوت کہتے ہیں اوردعا ونمازاورعبادت کوبھی قنوت کہتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم حضرت مریم کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے : ی( ٰامَرْ یَمُ اُقْت نیْ لِرَبِّکِ ) (١) (اے مریم ! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو

محمدابن مسعودکی “تفسیرعیاشی ”میں امام صادق سے نقل کیاگیاہے کہ :اس قول خداوندی( قوموالله قانتین ) (۲) میں“ قانتین ” سے “مطیعین”مرادہے یعنی نمازکوخضوع وخشوع اوراطاعت خداوندی کے ساتھ بجالاو ۔ٔ

فقہا کی اصطلاح میں نمازمیں ایک مخصوص موقع پرایک خاص طریقہ سے دعاکرنے کوقنوت کہاجاتاہے اوردعاکے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں کوچہرے کے مقابل دونوں ہاتھوں کوآپس میں ملاکرہتھیلیوں کے رخ کوآسمان کی جانب قراردیاجائے اورہتھیلیوں پرنگاہ کھی جائے

قنوت میں کسی مخصوص ذکرکاپڑھناشرط نہیں ہے بلکہ جائزہے نمازی جس دعاوذکراورمناجات کوبھی چاہے پڑھے لیکن مستحب ہے کہ قنوت میں معصومسے منقول یہ دعاپڑھی جائے:

امام صادق فرماتے ہیں:قنوت میں یہ دعاپڑھناکافی ہے:اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا،وَارْحَمْنَا،وَعَافِنَا،وَاعْفُ عَنَّافِی الدُّنْیَاوَالآخِرَةِ ،اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیْر ۔(۳)

اورامام صادق فرماتے ہیں: نمازجمعہ کی پہلی رکعت میں قرائت کے بعد کلمات فرج کوذکرکیاجائے اوروہ یہ ہیں:

لااله الّاالله الحلیم الکریم ،لااله الّاالله العلی العظیم ، سبحان الله ربّ السموات السبع وربّ الارضین سبع ،ومافیهنّ ،ومابینهنّ، وربّ العرش العظیم، والحمدللهربّ العالمین ،اللّٰهم صلّ علی محمدوآله کماهدیت نابه ۔(۴)

____________________

.۱)آل عمران /آیت ۴٢

.۲)بقرہ /آیت ٢٣٨ تفسیرعیاشی /ج ١ج/ص ١٢٧

۳). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٧

۴). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ١٨

۲۴۴

رازنمازقصر

سفراورخوف کی حالت میں آٹھ شرائط کے ساتھ چاررکعتی نمازکودورکعت پڑھناواجب ہے لیکن نمازصبح اورمغرب کوپوری پڑھناواجب ہے اوراس بارے میں علمائے کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہمسافر کو قصرو اتمام کے درمیان کوئی اختیارنہیں ہے بلکہ قصرپڑھناواجب ہے۔

قال رسول صلی الله علیه وآله :ان الله عزوجل تصدق علی مرضی امتی ومسافریهابالتقصیروالافطار، وهل یسراحدکم اذاتصدق بصدقة ان تردعلیه. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:بیشک خدائے عزوجل نے میری امت کے مریضوں اورمسافروں پرنمازکے قصرہونے اورروزے کانہ رکھنے کاتصدق عطاکیاہے ،اگرتم کسی کے ساتھ کوئی اچھائی کرواوروہ تمھارے اس تصدق کوواپس کردے توکیاتمھیں اس سے کوئی خوشی ملے گی ؟۔(۱)

زرارہ اورمحمدابن مسلم سے روایت ہے: ہم دونوں نے امام محمدباقر سے عرض کیا:سفرکی حالت میں نمازپڑھنے کے بارے میں کیاحکم ہے ،اورکس طرح سے نمازپڑھنی چاہئے اورکت نی رکعت پڑھنی چاہئے ؟ اما م(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ کونہیں پڑھاہے جسمیں خداوندعالم ارشادفرمایاتاہے:

( وَاِذَاضَرَبْتُمْ فِی الاَرْضِ فَلَیْسَعَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْامِنَ الصَّلاةِ ) ترجمہ:اورجب تم زمین میں سفرکروتوتمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنی نمازیں قصرکرو۔(۲)

یہ آیہ مبارکہ اس چیزپردلالت کرتی ہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں نمازکوپوری پڑھناواجب ہے ،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام (علیه السلام) نے سے عرض کیا:خداوندعالم نے آیہ مبارکہ میں( لیس علیکم جناح ) فرمایاہے کہ جس سے وجوب کے معنی نہیں سمجھے جاتے ہیں اوراس نے “افعلوا” نہیں کہاہے کہ جس سے وجوب کے معنی سمجھ میں ائیں پس اس آیہ مبارکہ سے کس طرح ثابت کیاجاسکتاہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں پوری واجب ہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: کیاخداوندعالم نے صفااورمروہ کے بارے میں ارشادنہیں فرمایاہے:

____________________

۱). کافی/ج ۴/ص ١٢٧

۲). سورہ نساء /آیت ١٠١

۲۴۵

( فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ یَطُوْفَ بِهِمَا ) جوشخص بھی حج یاعمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کادونوں پہاڑیوں کاچکرلگائے ۔(۱)

اورکیاتم نہیں جانتے ہوکہ ان دونوں کاچکرلگاناواجب ہے کیونکہ خدائے عزوجل نے اس کا اپنی کتاب میں ذکرکیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے انجام دیاہے پس اسی طرح سفرمیں نمازکوقصرپڑھنا واجب ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سفرمیں نمازکوقصرپڑھا ہے اورخداوندعالم نے قصرکواپنی کتاب میں ذکرکیاہے،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام باقر سے عرض کیا: اگرکوئی شخص سفرمیں نمازکوچاررکعتی پڑھے،اسے اپنی نمازکااعادہ کرناچاہئے یانہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

اگراس کے سامنے آیہ تٔقصیرکوپڑھاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں بتایاگیاہے تواعادہ کرناواجب ہے لیکن اگرآیت کی قرائت نہیں کی گئی ہے اوراسے تقصیرسے آگاہ نہیں کیاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں تعلیم نہیں دی گئی ہے تواس کااعادہ نہیں ہے ،اس کے بعدامام (علیه السلام)نے فرمایا:

الصلوات کلهافی السفررکعتان کل صلاة الّاالمغرب فانهاثلاث لیس فیها تقصیرترکهارسول الله صلی الله علیه وآله فی السفروالحضرثلاث رکعات . نمازمغرب کے علاوہ روزانہ کی تمام نمازوں میں سے ہرنمازکوسفرمیں دورکعت پڑھناواجب ہے، نمازمغرب میں کوئی تقصیرنہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سفراورحضرمیں نمازمغرب کواسی طرح پڑھتے تھے ۔(۲)

عیون اخبارالرضا میں فضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ : سفرمیں نمازکے قصرپڑھنے کاحکم کیوں جاری ہواہے؟تواسے اس طرح جواب دو:کیونکہ نمازاصل میں دس رکعت واجب تھی اورسات رکعت کابعدمیں(پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی فرمائش سے ) اضافہ کیاگیاہے اس کے بعدخداوندعالم نے مسافرکے لئے ان زحمت ومشقت کی وجہ سے جواسے سفرمیں اٹھانی پڑتی ہیں اورچونکہ نمازالله کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے اسی لئے اس نے نمازمغرب کے علاوہ تمام اضافی کی گئی رکعتوں کوختم کردیاہے اورنمازمغرب سے اس لئے کوئی رکعت کم نہیں کی ہے کیونکہ نمازمغرب اصل میں مقصورہ ہے ۔(۳)

____________________

. ۱)سورہ بقرہ/آیت/ ١۵٨

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣۴

۳). عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶

۲۴۶

محمدابن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں ان سے معلوم کیاکہ: سفراورحضرمیں نمازمغرب کوتین رکعت کیوں پڑھاجاتاہے اوربقیہ نمازوں کودورکعت ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)پرنمازدودورکعتی واجب کیاگیاتھااوراورآنحضرت نے تمام نمازوں میں دودورکعت کاضمیمہ کیااورپھرنمازمغرب سے ایک رکعت کوکم کردیااورسفرمیں ہرنماز میں سے دورکعت کوکم کردیالیکن نمازمغرب کوسفرمیں اسی تین رکعت کی حالت پررکھاکیونکہ اورفرمایا:نمازمغرب سے کسی رکعت کوکم کرتے ہوئے مجھے حیاآتی ہے اسی لئے نمازمغرب کوسفروحضرمیں تین رکعت ہی پڑھی جائے ۔(۱)

نمازصبح کوسفروحضرمیں اسی دورکعتی حالت پررکھاگیاہے اس بارے میں سعدنے مسیب سے منقول امام علی بن الحسین کی ایک روایت“پنچگانہ نمازوں”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی ضرورت نہیں ہے ۔

عیون اخبارالضا میںفضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آٹھ فرسخ کے سفرمیں ہی نمازکوکیوں قصرقراردیاگیاہے اس سے کم میں کیوں نہیں؟تواس کاجواب یہ ہے:کیو نکہ عموماً قافلہ اورحیوان بردارلوگ اوردیگرمسافروں کے لئے آٹھ فرسخ ایک دن کی سیرہے اسی لئے ایک دن کی سیرکے حساب سے نمازکوقصرقراردیاگیاہے

اوراگرکوئی یہ کہے کہ ایک دن کی سیرکی مقدارمیں نمازکوقصرکیوں رکھاگیاہے ؟اس کاجوب یہ ہے کہ اگرایک دن کی سیرمیں نمازکے قصرہونے کوواجب قرارنہ دیاجاتاتو ہزارسال کی سیرمیں بھی قصرکوواجب قرارنہ دیاجاتاکیونکہ ہروہ دن جوآج کے بعدآتاہے وہ بھی آج ہی کے مانند ہوتاہے یعنی دن سب برابرہیں اج ہویاکل،آج اورکل کے دن میں کوئی فرق نہیں ہے ،اگرایک دن کی سیرمیں نمازکوقصرنہ رکھاجاتاتواس کے نظیرمیں بھی قصرنہ رکھاجاتا اگرکوئی یہ کہے کہ سیرمیںفرق ہوتاہے اونٹ ایک دن میں اٹھ فرسخ راستہ طے کرتاہے مگرگھوڑامثلاًبیس فرسخ راستہ طے کرتاہے (اورآج کے زمانہ میں انسان ایک دن جہازکے ذریعہ نہ معلوم کت نی دورپہنچ جاتاہے)پس یہ ایک دن کی مسافت کوآٹھ فرسخ کیوں قراردیاگیاہے ؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ اونٹ اورقافلے والوں کی سیرغالب آٹھ فرسخ ہوتی ہے اوراونٹ اورقافلے والے لوگ غالباًاس مقدارمسافت کوایک دن میںطے کرتے ہیں۔(۲)

____________________

. ۱)بحارالانوار/ج ٨۶ /ص ۵۶

۲). عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶

۲۴۷

حیض کی حالت میں ترک شدہ نمازوں کاحکم

دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک وجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔

عن ابی جعفروابی عبدالله علیهماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة .

امام باقراورامام صادق فرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔(۱)

حالت حیض میں ترک شدہ نمازوں کی قضاکیوں واجب نہیں ہے ؟ حیض ونفاس کی حالت میں ترک شدہ نمازکی قضاہے مگرروزہ کی نہیں ہے دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔عن ابی جعفروابی عبدالله علیهماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة.

امام باقراورامام صادق +فرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔(۲)

اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ نمازروزہ سے افضل ہے ،جب حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابدرجہ اولیٰ واجب ہے کیونکہ نمازروزہ سے افضل ہے ؟ اس کاجواب یہ کہ ایک چیزکوکسی دوسری چیزپرقیاس نہیں کیاجاسکتاہے لہٰذانمازکاروزہ پرقیاس کرناباطل ہے،یہی قیاس ابوحنیفہ نے کیاتھااورکہاتھا کہ جب نمازروزہ سے افضل ہے اورروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابطریق اولیٰ واجب ہے روایت میں آیاہے کہ امام صادق نے ابوحنیفہ سے پوچھا:یہ بتاؤ نمازافضل ہے یاروزہ ؟ کیانمازافضل ہے (جب حائضہ روزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی بطریق قضاواجب ہے )آپ نے امام(علیه السلام) نے فرمایا:تم نے قیاس کیاہے پس تقوائے الٰہی اختیارکرواورقیاس نہ کرو بلکہ حکم شرعی یہ ہے حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے اورنمازکی قضانہیں ہے ۔(۳)

____________________

.۱) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠

۲). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠

۳) علل الشرائع/ج ١/ص ٨٧

۲۴۸

حیض ونفاس کی حالت میں عورت کے لئے نہ روزہ رکھناصحیح ہے اورنہ نمازپڑھنا۔ فضل بن شاذان مروی ہے امام علی فرماتے ہیں:اگرکوئی سوال کرے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہوتواس کے لئے روزہ رکھنااورنمازپڑھناکیوںصحیح نہیں ہے؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ کیونکہ حیض حدّنجاست میں ہے ،لاجرم خداوندمتعال یہ چاہتاہے کہ عورت فقط طہارت کی حالت میں اس کی عبادت کرے اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کی نمازصحیح نہ ہواورجس کےلئے اصل میں نمازکومشروع نہ کیاگیاہوتوروزہ بھی اس کے مشروعیت نہیں رکھتاہے

اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ وہ نمازیں جوعورت سے حیض کے ایام میں ترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناکیوں واجب نہیں ہے اورروزہ کی قضابجالاناکیوں واجب ہے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ چند(مندرجہ ذیل)وجوہات کی بناپرعورت پرنمازکی قضاواجب ہے مگرروزہ کی قضاواجب نہیں ہے:

١۔ روزہ رکھناعورت کوروزانہ کے ضروری کام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتاہے ،روزہ نہ امورخانہ داری سے منع کرتاہے ،نہ شوہرکی خدمت کرنے سے ،نہ شوہرکے فرمان کوانجام دینے سے منع کرتاہے ،نہ گھرکی صفائی کرنے اورنہ کپڑوں وغیرہ کی دھلائی کرنے سے منع کرتاہے ،روزہ کی حالت میں ان سب کاموں کوانجام دیاجاسکتاہے لیکن نمازکے لئے وقت درکارہوتاہے اورنمازکی قضاکابجالاناعورت کے لئے امورخانہ داری ،صفائی ،دھلائی وغیرہ میں مانع واقع ہوتاہے کیونکہ نمازروزانہ بطورمکررواجب ہوتی ہے اورعورت اس چیزکی قدرت نہیں رکھتی ہے کہ اپنی روزانہ کی نمازیں بھی پڑھے اورناپاکی کی حالت میں ترک کی گئی نمازوں بھی کی قضابجالائے اورگھروزندگی کے ضروری کاموں کوبھی انجام دے لیکن روزے میں ایسانہیں ہے ،عورت روزہ کی حالت میں امورخانہ داری کوانجام دے سکتی ہے ۔

٢۔ نمازپڑھنے میں رکوع وسجود،تشہدوسلام وغیرہ کے لئے اٹھنے ،بیٹھنے ، کی زحمت ہوتی ہے لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے،بلکہ روزہ میں اپنے آپ کوکھانے پینے سے روکناپڑتاہے اورکھانے پینے سے رکنے کے لئے نہ اٹھنے کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ بیٹھنے کی ضرورت ہوتی اورنہ کوئی حرکت کرنی پڑتی ہے ۔

٣۔ شب وروزکی مدت میں ایک وقت کے بعدجب دوسراوقت شروع ہوتاہے تواس وقت میں دوسری نمازواجب ہوجاتی ہے (نمازظہرکے بعدنمازعصرواجب ہوجاتی ہے ،نمازمغرب کے عشاکی نمازواجب ہوجاتی ہے اورجیسے ہی صبح ہوتی ہے تونمازصبح واجب ہوجاتی ہے )لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے ،ماہ رمضان المبارک کے بعدکوئی روزہ نہیں آتاہے کہ جواس پرواجب ہوجائے لہٰذاروزہ رکھنے کاوقت خالی رہتاہے مگرنمازتووقت کے ساتھ ساتھ واجب ہوتی رہتی ہے ۔(۱)

____________________

. ۱)علل الشرائع /ج ١/ص ٢٧١

۲۴۹

قبولیت نمازکے شرائط

ہر شخص کی نمازدوحالت سے خالی نہیں ہوتی ہے یااس کی نماز بارگارب العزت میں قبول ہوتی ہے اورخداعالم اس نمازی پردنیاوآخرت میں نعمتیں نازل کرتاہے یاقبول نہیں ہوتی ہے اورخداوندعالم جس نمازکوقبول نہیں کرتاہے اسے نمازی کی طرف واپس کردیتاہے جیساکہ حدیث میں آیاہے:

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا کی جانب سے ایک فرشتہ نماز کے کا موں کے لئے مامور ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسراکام نہیں کر تاہے،جب بندہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے تو وہ فرشتہ اس کی نماز کو آسمان پر لے جاتاہے اگر اس کی نماز قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ بارگا ہ رب ا لعزت میں قبول ہوجاتی ہے اور اگر قبول ہونے کی صلالیت نہیں رکھتی ہے تواس فرشتے کو حکم دیا جاتاہے کہ اس نماز کو صاحب نماز کی طرف واپسلوٹا دے، وہ فرشتہ نماز کو واپسلے کر زمین پر آتا ہے اور اسے صا حب نماز کے منہ پر مارکر کہتا ہے : وائے ہو تجھ پر کیونکہ تیری اس نماز نے مجھے زحمت میں ڈالاہے اور واپس لے کر آناپڑاہے۔(۱)

روزقیامت صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوگی جونمازکو پورے آداب شرائط کے ساتھ انجام دیتے ہیں،وہ لوگ جو نماز کو اس کے تمام آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ انجام دیتے ہیں توان کی یہ صحیح اورمکمل نماز بقیہ دوسرے انجام دئے گئے واجبات کے قبول ہونے کاسبب واقع ہوگی اوروہ لوگسعادتمند محسوب ہونگے لیکن وہ لوگ جونمازکواس کے پورے آداب وشرایط کے ساتھ انجام نہ دیتے ہیں تو وہ بدبخت اور بدنصیب شمارہونگے ۔قال صادق علیه السلام :اوّل مایحاسب به العبد،الصلاة،فاذاقبلت قبل منه سائرعمله واذاردت علیه ردعلیه سائرعمله .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:روزقیامت سب سے پہلاسوال نمازکے بارے میں کیاجائے جن لوگوں کی نمازقبول ہوگی ان کے دوسرے اعمال بھی قبول ہونگے اورجن کی نمازقبول نہیں ہوگی ان بقیہ اعمال بھی قبول نہیں ہونگے ۔

____________________

. ۱) ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٣٠

.۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨

۲۵۰

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لکل شی ؤجه ووجه دینکم الصلاة فلایشیئنّ احدکم وجه دینه .(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہو تا ہے جو اس کی اصل وحقیقت کوبیان کرتا ہے اور نماز تمھارے دین کاچہرہ ہے ، ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے دین کی شکل و صورت کو نہ بگاڑےدین اسلام بھی انسان کی طرح اپنے جسم میں اعضاء جوارح رکھتاہے ،جس طرح انسان اپنے جسم میں ہاتھ ،پیر،آنکھ ناک ،کان رکھتاہے اسی طرح دین اسلام بھی رکھتاہے انسان کے جسم کاارجمندترین حصہ اس کاسرہے اورسرکابہترین حصہ انسان کاچہرہ ہے کیونکہ چہرہ میں حساس اعضاء پا ئے جاتے ہیں : جیسے آنکھ، کان ،ناک ، زبان ، دانت وغیرہ اسی طرح دین اسلام کے اعضا میں نمازمقدس ترین حصہ ہے جسے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے دین اسلام کاچہرہ قراردیاہے اورنمازکودین اسلام کاچہرہ قراردئے جانے کارازیہ ہے کہ انسان کا بدن چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے خوشنما معلوم ہو تاہے اگر کسی کا چہرہ خوبصورت نہیں ہے تو اسے حسین نہیں کہا جاتا ہے ،جس طرح بدن کی خوبصورتی چہرہ سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح دین اسلام بھی نمازسے تعلق رکھتاہے ،اگر نماز میں حُسن وکمال پایا جا تا ہے تو دین بھی حسین وخو بصورت معلوم ہو تا ہے ۔ مثال کے طورپراگرہم خلوص کے ساتھ کسی شخص کے دیداروملاقات کے لئے اس کے گھرجاتے ہیں تو وہ پہلے ہمارے چہرہ پرنگاہ ڈالتاہے ،اگرہمارے چہرے چہرے کے تمام اعضاء صحیح و سالم ہوں ، اور دونوں اَبرو آپس میں پیوستہ ہوں ،آنکھوں میں کشش پائی جاتی ہو، ناک حالت زیبائی رکھتی ہو ،ہونٹوں پرکلیوں کی طرح مسکراہٹ ہو،دانت صدف کے ماننددرخشاں ہوں پیشانی پر نور خشاں ہو یقیناً ایساچہرہ مکمل زیبا اورباعث اشتیاق ہو گااوروہ شخص ہمارے اس چہرے کودیکھ کر خوشحال ہو جا ئے گااورعطوفت ومہربانی کااظہارکرے گا،ہمیں اپنے قریب میں جگہ دے گا،ہم سے میٹھی اورنرم باتیں کرے گا لیکن اگرہمارے چہرے بگڑے ہوئے ہوں، پیشانی کے تیورچڑھے ہوں ، چہرے پرکمال درخشندگی نہ ہو،ابروکے بال بالکل صاف ہوں ، آنکھیں غضبناک ہوں، ناک پرورم آگیا ہو ،ہو نٹ زخمی ہوں ، دانت گر چکے ہیں(یقیناًایسا چہرے کودیکھ دل میں نفرت پیداہوجاتی ہے) تو ہمیں اس طرح دیکھ کراس کے تیوربھی چڑھ جائیں گے ،اب وہ اپنے بٹھاناتو دورکی بات اپنے دربارمیں کھڑے ہونے کی مہلت بھی نہیں دے گااورہمیںفوراً اپنے دربارسے باہرنکال دے گااورسزابھی سنائے گا

____________________

. ١)کافی /ج ٣/ص ٢٧٠ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص

۲۵۱

بس اسی طرح جب قیامت میں تمام لوگوں کوقبرسے بلندکیاجائے توسب پہلاسوال

نمازکے بارے جائے گا،جن ہم سے لوگوں نے دنیامیں نمازیں نہیں پڑھی ہونگی انھیں واصل جہنم کردے گااورجن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہونگی ان کی نمازوں کودیکھاجائے گا اگرہماری وہ نمازیں اس کے معیارکے مطابق ہونگی اورپروردگار خوشنودی کا سبب واقع ہو نگی تو وہ ہم پراپنا رحم وکرم کرے گااورہمیں جنت عطاکرے گالیکن اگر خدا وندعالم ہماری نمازوں سے ناراض ہوگیا تو ہم اس کی رحمت ومغفرت سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری بقیہ دوسری عبادتیں ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچائیں گی۔

جس طرح انسان کاچہرہ اعضاء رکھتاہے اوراعضائے چہرہ کی وجہ سے خوبصورت معلوم ہوتاہے اسی طرح نمازجودین اسلام کاچہرہ ہے اس کے بھی اعضاء ہیں وہ بھی اپنے چہرے پر آنکھ ناک ، کان ،دانت وغیرہ رکھتی ہے اگروہ سب اعضامناسب ہوں توالله تبارک تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کاسبب ہوتے ہے ،خضوع وخشوع ،حضورقلب ،ارکان نماز(نیت ،تکبیر ة الاحرام ،قیام ، قرئت ،ذکر، رکوع، سجوداور تشہدوسلام )اور مستحبات نماز اعضاء وجوارح کا حکم رکھتے ہیں، اگرنمازکاچہرہ خوبصورت ہے اوراس کے تمام اعضاء صحیح و کامل ہیں یعنی نمازکوخضوع وخشوع، حضورقلب اورارکان نمازکی رعایت کے ساتھ اداکیاہے تووہ خدا کی خوشنودی اور اس کی بارگاہ میں قبولیت کا سبب واقع ہو گی اور اگر نماز کی شکل و صورت بگڑی ہو ئی ہو اور ارکان نماز کو مکمل طور سے رعایت نہ کی گئی ہو تو یہ نماز خداکے غضبناک ہو نے کا سبب واقع ہوتی ہے اور خدا وندعالم ایسی نماز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا بلکہ ایسی نماز کو اسی نمازی کے منہ پر ماردے گا۔

یہ ممکن ہے کہ انسان کی نمازظاہری اعتبارسے بالکل صحیح ہواوراس میں کوئی کمی نہ ہو،روبقبلہ پڑھی گئی ہو،طمانینہ کی بھی رعایت کی گئی ہومگروہ بارگاہ خداوندی مقبول نہ کیونکہ ظاہری آداب کے لئے کچھ قلبی آداب بھی ہیں کہ جن کی رعایت کے سبب ہماری نمازیں بارگاہ خداوندی میں مقبول واقع ہوتی ہیں،اگرہماری نمازوں میں وہ شرائط موجودہیں توقبول واقع ہوسکتی ہیں اوران کے ذریعہ خداکا تقرب اوراس کی رضایت حاصل ہوسکتی ہے اوروہ شرائط یہ ہیں:

١۔حضورقلب

وہ الفاظ اورذکروتسبیح کہ جنھیں نمازگزار اپنے زبان سے اداکررہاہے اگرانھیں سے دل بھی کہے اوران کے معنی ومفہوم کوذہن میں رکھنے کے ساتھ زبان پرجاری کرے اوراپنی نمازسے بالکل غافل نہ ہواوراس طرح خداکی طرف متوجہ ہوگیاہوکہ وہ یہ بھی نہ جانتاہوکہ میرے برابرمیں کون ہے اورکیاکررہاہے

۲۵۲

تو اسے حضورقلب کہاجاتاہے۔ نمازی کے لئے ضروری ہے کہ نمازکی حالت میں اس کے تمام اعضاء وجوارح اور دل ودماغ سب کچھ خداکی طرف ہواس کے دل میں خداکاعشق اوراس سے ہمکلام ہونے کاشوق ہو،سستی اورکسلمندی نہ پائی جاتی ہوعبادت میں لذت محسوس کرتاہوکیونکہ جس مقدارمیں نمازی کادل خداکی طرف متوجہ رہے گااسی مقداراس کی نمازبارگاہ خداوندی میں باعث قبول ہوگی ،اگرعبادت کی حالت میں نمازی کادل دنیاکی طرف مبذول ہوتواس کی وہ عبادت کی کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے اور ہر نمازی حضو ر قلب وخوف خداکے اعتبار سے اجر وثواب حاصل کرتا ہے جو نمازی اپنے دل خت نازیادہ خوف خدا رکھتا ہے اسی مقدار میںثواب ونعمت حاصل کرتا ہے کیونکہ خدا وند متعال نمازگزار کے قلب پر نگاہ رکھتا ہے نہ اسکی ظاہری حر کتوں پر، روزقیامت صرف وہی نمازوعبادت کام آئے گی جوسچے دل سے انجام دی گئی ہو ۔( وَ لِکُلِّ دَرَ جٰا تٌ مِمَّا عَمِلوُاوَمَارَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمّایَعْمَلُونَ ) (۱) بے شک ہر ایک شخص کے لئے اسکے اعمال کے مطابق درجات ہیں اورجوکچھ تم انجام دیتے ہوتمھاراپروردگارہرگزاس سے غافل نہیں ہے( یَوْمٌ لایَنْفَعُ مَالٌ وَلابَنُونَ، اِلَّاْ مَنْ اَتَی الله بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) (۲) روزقیامت نہ مال کام آئے اورنہ اولاد ،فقط وہی لوگ نجات پائیں گے جو قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ باری تعالیٰ میں حاضر ہوتے ہیں ۔

بعض نماز یں ایسی ہیں جو آدھی قبول ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو ایک سوم یا ایک چہارم ،ایک پنجم یا ایک دہم قبول ہوتی ہیں اور بعض نماز یں ایسی ہیں جو ایک بوسیدہ کپڑے میں لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیری نماز تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے فقط وہی نماز تیرے کام آسکتی ہے جنھیں توحضور قلب کے ساتھ انجام دیتاہے ۔(۳)

٢۔خضوع وخشوع

( قَدْ اَ فْلَحَ المُو مِنُونَ الَّذِ یْنَ هُمْ فِی صَلاٰ تِهِمْ خٰشِعُونَ ) (۴) یقیناً صاحبانِ ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ہیں۔

____________________

. ۱)سورہ أنعام /آیت ١٣٢

. ٢)سورہ شٔعراء /آیت ٨٨ ۔ ٨٩

۳). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١

. ۴)سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢

۲۵۳

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جب تم نمازپڑھوتوخضوع اور حضور قلب رکھاکروکیونکہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( اَلَّذِینَ هُمْ فی صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) ۔ روزقیامت وہی لوگ نجات پائیں گے جواپنی نمازوں میں حضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے ہیں۔(۱)

اعضاء وجوارح اوربدن میں نشاط پائے جانے اورجسم پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونے کوخضوع خشوع کہاجاتاہے

ایک شخص نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خشوع کے معنی معلوم کئے توآپ نے فرمایا: نمازی کوچاہئے کہ اپنے اعضاء وجوارح بھی نماز میں شامل کرے اوراپنے دائیں بائیں جانب نگاہ نہ کرے ،ہاتھ پیرنہ ہلائے ،روایت میں آیاہے کہ ایک دن رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نماز پڑھتے ہو ئے اپنی ڈاڈھی سے کھیل رہا ہے ، آپ نے فرمایا:

لوخشع قلبه لخشعت جوارحه ” اگر اس نماز ی کا دل خضوع وخشوع رکھتا ہے تو اُس کے اعضاء وجوارح کو بھی خاشع و خاضع ہو نا چا ہئے ۔(۲)

خشو ع یعنی نماز میں تواضع کا استعمال کرنا اورکسی بندہ کا پورے دل اورنشاط کے ساتھ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے کوخشوع کہاجاتاہے(۳)

فقہ الّرضا میں منقول ہے کہ امام علی رضا فرماتے ہیں : جب تم نماز کے لئے قیام کرو تو اپنے آپ کو کھیل کو داور خواب وکسالت سے دورکرلیاکرواوروقارو سکون قلب کے ساتھ نماز ادا کیا کرواورتم پرلازم ہے کہ نماز میں خضوع وخشوع کی حالت بنائے رکھو، خدا کے لئے تواضع کرو،اپنے جسم پرخوف وخشوع کی حالت طاری رکھو اور اپنی حالت ایسی بناؤ جیسے کوئی فراری اور گنا ہگا ر غلام اپنے مولا وآقا کی خدمت میں آکر کھڑاہو جاتا ہے اور اپنے دو پیروں کے درمیان (چار انگلیوں کے برابر) فاصلہ دیا کرو ، بالکل سیدھے کھڑ ے ہو اکرو ، دائیں بائیں چہرے کو نہ گھمایاکرو اور یہ سمجھوکہ گویا خدا سے ملاقات کررہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہومگر وہ توتمھیں دیکھ رہا ہے۔(۴)

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ۶٨۵

۲). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١

۳). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١٠٣

۴). فقہ الرضا/ص ١٠١

۲۵۴

عن النبی صلیه الله علیه وآله :لاصلاة لمن لایتخشع فی قلبه . نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔(۲)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے پوری مخلوق سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تجھ سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو۔(۳)

خدا وند متعا ل نے حضرت داو دٔپروحی نازل کی :اے داو دٔ!بہت سے نماز ی ایسے ہیں جو اپنی نماز وں میں خضوع وخشوع رکھتے ہیں اورگر یہ وزاری کرتے ہیں اور رکعتوں کوطول دیتے ہیں ،ان کی یہ طولانی رکعتیں میرے نزد یک ایک فتیلہ(۴) کی بھی قیمت نہیں رکھتی ہیں کیو نکہ جب میں ان کے قلوب پر نگا ہ کر تا ہو ں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل ایسے ہیں کہ اگر نماز سے فراغت پا نے کے بعد کو ئی عورت ت نہائی میں ان سے ملاقات کر ے اوراپنے آپ کو اس نمازی کے حوالے کر دے تو وہ اس عورت پر فر یفتہ ہوجائیں گے اور گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائیں گے اوراگرکسی مومن سے کوئی معاملہ کریں تواس کے ساتھ دھو کااورخیانت کریں گے۔(۵)

____________________

.۱) میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢

. ۲)میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢

۳). / من لایحضرہ الفقیہ /ج ٣٣٢

۴)لغت عرب میں فتیلہ اس باریک دھاگے کوکہاجاتاہے جوخرماکی گٹھلی کے درمیان پایاجاتاہے.

. ۵)بحارالانوار/ج ١۴ /ص ۴٣

۲۵۵

معصومین اورحضورقلب وخشوع

جب آپ حضورقلب ،خضوع وخشوع کے معنی ومفہوم اوران کی اہمیت سے آگاہ ہوگئے تواسی جگہ پران روایتوں کوبھی ذکرکردینامناسب ہے کہ جن میں معصومین کی طرزنمازاوران کے اخلاص وحضورقلب اورخضوع وخشوع کوذکرکیاگیاہے اوروہ احادیث یہ ہیں: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے بارے میں آیاہے:

کان النبی صلی الله علیه واله:اذاقام الی الصلاة تربد وجهه خوفامن الله تعالیٰ (۱) جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازکے لئے قیام کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔

ان النبی صلی الله علیه واله:کان اذاقام الی الصلاة کانّه ثوب ملقی (۲) جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازمیں مشغول ہوتے تھے توایسے نظرآتے تھے جیسے گوشہ میں کوئی کپڑاپڑارہتاہے۔

امام علی بن ابی طالب +کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ آپ نمازمیں اس قدرحضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے تھے کہ ایک جنگ کے دوران آپ کے پائے مبارک میں تیر پیوست ہوگیا تھااور لوگوں نے تیر کو نکالنے کی کوشش کی مگر تیر ہڈّی میں اس طرح پیوست ہوگیاتھا کہ گوشت وپوست کے کاٹے بغیر تیرکانکالنامحال تھا ،لہٰذا آپ کے فرزندوں نے کہا: اگریہی صورتحال ہے تو صبرکیا جائے اورجب امام (علیه السلام)نمازمیں مشغول ہوجائیں توپائے مبارک سے آسانی سے تیر نکالاجاسکتاہے اورآپ کوخبربھی نہیں ہوگی جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوئے ،توطبیب نے گوشت وپوست کوکاٹ کر یہاں تک کہ ہڈّی کو توڑکر تیرنکالا اورزخم پرمرہم لگاکر پٹّی باندھی ،جب امام(علیه السلام) نماز سے فارغ ہوئے توفرمایاکہ :میرے پیر میں تیرپیوست ہے مگر اسوقت پیر میں کوئی دردوتکلیف محسوس نہیں ہورہی ہے ؟سب نے کہا:نماز کی حالت میں آپ کے پیر سے گوشت وپوست کو کاٹ کر تیر نکالیا گیا، اور آپ کو محسوس بھی نہ ہوا امام (علیه السلام)نے فرمایا : جب میں ذکرویادالٰہی میں مشغول رہتاہوں اگردنیا بھی زیروزبر ہوجائے یا میرے بدن میں تیغ وتبر بھی مارے جائیں تومجھے اپنے پروردگار سے مناجات کی لذت میں کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوگی۔

____________________

. ۱)میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣

٢)فلاح السائل/ص ١۶١

۲۵۶

فلاح السائل میں نقل کیاگیاہے کہ حضرت علیجب نمازکے لئے قیام کرتھے تو آیہ مبارکہ( اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَالسَّمَوٰاتِ وَالْاَرْض وَمَااَنَامِنَ المُشْرکِین ) (۱) (میرارختمامتراس خداکی طرف ہے جس نے آسمانوں کوپیداکیاہے اورمیں باطل سے کنارہ کش ہوں اورمشرکین ) میں سے نہیں ہوںاورزمین کی تلاوت کرتے تھے اورآپ کے چہرہ کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔(۲)

امام علیجب نمازپڑھتے تھے توآپ سیدھے ستون کی مانندنظرآتے تھے اوربالکل بھی حرکت نہیں کرتھے اوررکوع وسجودکی حالت میں آپ کے جسم پر پرندہ بھی آکربیٹھ جاتاتھااورامام علی (علیه السلام) وامام زین العابدین +کے علاوہ کوئی بھی رسول اکرم کی حالت نمازکاانعکاس نہیں کرسکتاتھا۔(۳)

امیرالمومنین حضرت علی جس وقت آپ نماز کے لئے قیام کرناچاہتے تھے توخوف خدا میں پورابدن کا نپ جاتاتھااورچہر ے کا رنگ متغیرہوجاتاتھا اور کہتے تھے : بارالٰہا! اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آگیاہے ، جس کو سات زمین وآسمان عرضہ کیاگیا اور وہ اس کے تحمل کی قوت نہیں رکھتے تھے۔(۴)

روایت میں آیاہے کہ: ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت آیااورآپ کی خدمت میں دواونٹ بطورہدیہ پیشکئے ، آنحضرت نے فرمایا: من صلی رکعتین ولم یحدث فیہما نفسہ من امورالدنیاغفراللھلہ ذنبہ. جو شخص دورکعت نماز اس طرح پڑھے کہ نماز کسی بھی دنیاوی چیز کی طرف توجہ پیدانہ کرے تو میں ان میں سے ایک اونٹ اسے عطا کردوں گا ،علی ابن ابی طالب+کے علاوہ کوئی بھی شخص آنحضرت کی اس درخواست پرعمل کرنے کوتیارنہ ہوااور رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے دونوں اونٹو ں کو حضرت علی کو عطا کر دئے۔(۵)

حضرت فاطمہ زہرا کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں آیاہے:

کانت فاطمة سلام الله علیهات نهج فی الصلاة فی خیفة الله تبارک وتعالی حضرت فاطمہ زہرا نماز کی حالت میں خوف خدا میں اس طرح لرزتی تھیں کہ آپ پر ) جاں کنی کی حالت طاری ہو جاتی تھی(۶)

____________________

١)سورہ أنعام /آیت ٧٩

. ٢)فلاح السائل /ص ١٠١

۳). دعا‏‏ئم الاسلام /ج ١/ص ١۵٩

۴). میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣

۵). میزا ن الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٨

۶)بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠

۲۵۷

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : میری لخت جگرحضرت فاطمہ دونوں جہاں گذشتہ اورآئندہ کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہ جسوقت محراب عبادت میں اپنے پروردگارکے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو آپ کے چہرہ سے ایک نورساطع ہوتاہے وہ نور آسمان کے ملائکہ کے لئے اسی طرح درخشاں ہو تا ہے جیسے اہل زمین کے لئے ستاروں کا نور چمکتا ہے ،جب یہ نورساطع ہوتاہے توخدا وندعالم اپنے فرشتوں سے کہتاہے : اے میرے فرشتوں!تم ذرا میرے حبیب کی لخت جگرپر نگاہ ڈالو ، میری کنیز وں کی سردار میرے پاس کھڑی ہے اور میرے خوف سے اس کے تمام اعضاء وجوارح لرزرہے ہیں اور خلوص دل سے میری عبادت کررہی ہے ، میں تم فرشتوں کو شاہد قرار دیتا ہوں کہ میں نے ان ) کے تمام شیعوں پر آتشجہنم کو حرام قرار دیتا ہوں۔(۱)

امام زین العابدین کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال مولاناالصادق علیه السلام :کان علی بن الحسین علیه السلام اذاحضرت الصلاة اِقشعرّجلده ، واصفرّلونه وارتعدکالسعفة .(۲) امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف خدامیں)بدن کے بال کھڑے ہوجاتے تھے اوررنگ پیلاہوجاتھا اورخرمے کے سوکھے ہوئے درخت کے مانندلرزتے رہتے تھے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال :کان علی بن الحسین علیه السلام صلوات الله علیهمااذ اقام فی الصلاة کانه ساق شجرة لایتحرک منه شی ألاماحرکه الریح منه .( ۳) امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف خدامیں) اس ساقہ دٔرخت کے مانندکھڑے رہتے تھے کہ جس کی کوئی چیزحرکت نہیں کرتی تھی مگروہی کہ جوہواکی وجہ سے ہلتی تھی ۔

ایک روایت میں آیاہے کہ ایک دن حضرت امام زین العابدینکے گھرمیں اگ لگ گئی اورآپ اس وقت نمازمیں اس طرح مشغول تھے کہ آپ کوگ لگنے کااحساس بھی نہ ہوا،جب نمازسے فارغ ہوئے توآپ کوگھر میں آگ لگ جانے کی اطلاع دی گئی توامام (علیه السلام)نے فرمایا:آتش جہنم کی یادنے مجھے اس دنیاوی آگ سے بالکل بے خبرکردیاتھا۔(۴)

____________________

۱)بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠.

۲)مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ٩٣

۳)کافی /ج ٣٠٠.

۴). تحلیلی اززندگانی امام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧

۲۵۸

اوردوسری روایت میں آیاہے کہ امام زین العابدین کے بچے اس انتظارمیں رہتے تھے کہ امام (علیه السلام) کب نماز شروع کرتے ہیں تاکہ ہم پورے شوروغل کے ساتھ کھیل کود کرسکیں، بچےّ آپس میں کہتے تھے کہ جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں توخداکی یاد میں اس طرح غرق ہوجا تے ہیں کہ انھیں ہماری طرف کوئی دھیان نہیں رہتا ہے ، چاہے ہم کت ناہی زیادہ شوروغل مچائیں۔(۱)

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ : میں نے حضرت امام سجاد کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ آپ کی عباء دوش مبارک سے نیچے گرگئی اور آپ نے کوئی تو جہ نہ کی ،جب آپ نمازسے فارغ ہوئے تومیں نے آپ سے پو چھا : نماز کی حالت میں آپ کی عبادوش سے نیچے گر گئی اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں کی ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ابوحمزہ ثمالی ! کیا تم نہیں جانتے ہو میں کس کی بارگاہ میں کھڑاتھا ؟ بے شک بندے کی نماز الله کی بارگاہ میں اسی مقدارمیں قبول ہو تی ہے جس مقدار میں نمازی کادل اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گا ۔(۲)

امام صادق کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں آیاہے: حضرت امام جعفر صادق کے ایک صحابی“حمّادبن عیسیٰ ”سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : ایک دن امام (علیه السلام) نے مجھ سے پوچھا: اے حماد!تم نمازکس طرح پڑھتے ہواورکیااسے پورے آداب وشرائط کے اداکرتے ہو؟ میں نے کہا : اے میرے مولاو آقا ! میں“ حریزبن عبدالله سجستانی ”کی لکھی ہوئی کتاب نمازپڑھتاہوں

امام (علیه السلام)نے فرمایا : یہ کافی نہیں ہے بلکہ تم ابھی اٹھواور میرے سامنے دورکعت نماز پڑھو

حمّاد کہتے ہیں :میں نے امام (علیه السلام) کی فرمائش پر عمل کیا اورامام (علیه السلام)کے حضور میں روبقبلہ کھڑے ہوکر نماز شروع کی ، رکوع وسجود کو انجام دیا اور نماز کو تمام کیا

امام (علیه السلام)نے فرمایا :اے حماد!تم نے نمازاس کے آداب وشرائط کے مطابق نہیں پڑھی ہے اور تعجب ہے کہ تمہاری عمرساٹھ یا ستّر سال ہو گئی ہے اور تم صحیح و مکمل طور سے نماز نہیں پڑھ سکتے ہو!

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢١٨ /ص ۶٨

۲) تحلیلی اززندگانی مام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧

۲۵۹

حمّاد کہتے ہیں : میں امام (علیه السلام)کی یہ باتیں سنکر بہت ہی شرمندہ ہوا اور میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : اے میرے مولا آپ پرقربان جاؤں آپ مجھے صحیح اورمکمل نماز کی تعلیم دیجئے

امام صادق اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور روبقبلہ کھڑے ہوئے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو آپس میں چسپاں کیا اور دستہائے مبارک کومرتب طریقہ سے ران پر رکھا ،دونوں کے درمیا ن چار انگلی کے برابر فاصلہ دیا اور پیروں کی انگلیوں کو روبقیلہ قرار دیا اور خضوع وخشوع کے “الله اکبر”کہہ کر نمازکاآغازکیا،سورئہ حمد و سورئہ“( قُلْ هَوَا لله اَحَد ) ”کو سکون واطمینان کے ساتھ قرائت کیا پھرایک سانس کے برابر صبر کیا اور حرکت کئے بغیر“الله اکبر”کہا ،اسکے بعد رکوع میں گئے ،

رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو زانوپر رکھا اوردونوں زانوبالکل سیدھے تھے اور کمراس طرح سیدھی تھی کہ اگر کمر پر کوئی قطرئہ آب یا روغن گر جاتا تو وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتا تھا اور رکوع میں گردن کو سیدھا رکھا اور آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ “سبحان الله”کہا : اسکے بعد“سبحان ربی العظیم و بحمدہ ”کہا ،پھررکوع سے بلند ہو ئے اور اطمینان کے ساتھ “سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَہ ” کہا اور دونوں ہاتھوں کو کانوں تک لاکر “الله اکبر ”کہا ،پھر سجد ے میں گئے اور دونوں زانوں کو زمین پر رکھنے سے پہلے دونوں ہا تھوں کو زمین پر رکھا اور سجدے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ بدن کا کوئی حصّہ آپس میں چسپاں نہیں تھا اور آٹھ اعضاء بدن ( پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں زانو کے سرے ، دونوں پیرکے انگوٹھے اور ناک کی نوک) کو زمین پر رکھے ہو ئے تھے ، ناک کی نوک کو زمین پر رکھنا مستحب ہے اور بقیہ چیزیں واجب ہیں آپ نے سجدے میں تین مرتبہ “سُبَحَانَ رَبِّیَ الْاَعَلیٰ وبَحَمْدِهِ ”کہا اور سجدے سے سرکو بلند کیا “الله اکبر ”کہا اور بائیں پیرپرزور دیکر بیٹھے اور“اُسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّیْ وَاَ تُوبُ اِلَیهْ ”کہا اور “ا لله اکبر ”کہنے کے بعد دوسرے سجدے میں گئے اور پہلے سجدے کی طرح دوسرا سجدہ کیا اور سجدے میں کہنیوں کو زمین پر قرار نہیں دیا اور اسی طرح دوسری رکعت پڑھ کرنمازکو تشہدوسلام کے ساتھ تمام کیا ، اور نماز کے بعد فرمایا: اے حمّاد ! نماز پڑھنے کا یہی طریقہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، پس نماز کی حالت میں ہاتھ، پاؤں ، ڈاڑھی و غیرہ سے کھیل نہ کرو ، اپنی انگلیوں سے بھی کھیل نہ کرو ،اپنے دائیں بائیں نگاہ نہ کرو اور قبلہ کی سمت بھی نگاہ نہ کرو کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے نماز میں خضوع وخشوع نہیں پایا جاتا ہے اورجونمازی کے حواس اڑجانے کا سبب واقع ہو تے ہیں

۲۶۰