نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار15%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173977 / ڈاؤنلوڈ: 4522
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نمازاورحضرت ادریس

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی کان یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعاالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه .(١)

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جس میں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھے جوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔

نمازاورحضرت نوح

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:کان شریعة نوح علیه السلام ا نٔ یعبدالله بالتوحید والاخلاص وخلع الاندادوهی الفطرة التی فطرالناس علیهاواخذمیثاقه علی نوح علیه السلام والنبیین ا نٔ یعبدوالله تبارک وتعالی ولایشرکوا به شیئاوامره بالصلاة والامروالنهی والحرام والحلال .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:حضرت نوح کااصول یہ تھاکہ آپ خدائے یکتاکی عبادت کرتے تھے اس کی بارگاہ میں اخلاص کااظہارکرتے تھے ،اسے بے مثل مانتے تھے اورآپ کی یہ وہی فطرت تھی کہ جس فطرت پرخداوندعالم نے لوگوں کوقراردیاہے پروردگارعالم نے حضرت نوح اورتمام انبیائے کرام سے عہدلیاہے کہ وہ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کریں اورکسی بھی چیزکواس کاشریک قرارنہ دیں سے دوری کریں اورخداوندعالم نے حضرت نوح(علیھ السلام) کونمازپڑھنے ،امربالمعروف ونہی عن المنکرکرنے اورحلال وحرام کی رعایت کرنے کاحکم دیاہے۔

____________________

١)بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

. ٢) کافی /ج ٨/ص ٢٨٢

۲۱

نمازاورحضرت ابراہیم

حضرت ابرہیم اولوالعزم پیغمبر وں میں سے تھے ا ورآپ کوبت شکن ،حلیم ،صالح ، مخلص اورموحدجیسے بہترین القاب سے یادکیاجاتاہے ،آپ نے اپنی عمر کے دوسوبرس کفروشرک سے مقابلہ اور لوگوں کو تو حیدباری تعالیٰ وا طاعت خداوندی کی دعوت کرنے کی راہ میں گزارے ہیں. مکتب حضرت ابراہیم میں آپ کی پیر وی کرنے والوں کے درمیان نماز وعبادت کو ایک عمدہ واجبات میں شمارکیاجاتاتھا،جب خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند اسمعیل (علیھ السلام)کو ساتھ لے کر سرزمین مکہ کی طرف ہجرت کرجائیں ،آپ نے حکم خدا پر عمل کیااورشام سے مکہ میں خانہ کعبہ تک پہنچے تو آپ نے وہاں اس آپ وگیاہ سرزمین پرایک نہایت مختصرطعام اورپانی کے ساتھ زمین پراتارا. بیوی اوربچے سے خداحافظی کرکے واپسی کارادہ کیاتوجناب ہاجرہ نے ابراہیم (علیھ السلام) کادامن پکڑکرعرض کیا:ہمیں اس بے آب وگیاہ زمین پرجگہ کیوں چھوڑے جارہے ہو؟جواب دیاکہ:یہ حکم خداہے ،جیسے ہی ہاجرہ نے حکم خداکی بات سنی توخداحافظ کہااورعرض کیا:جب حکم رب ہے تواس جگہ آب وگیاہ زمین پرہماری حفاظت بھی وہی کرے گا،جب ابراہیم (علیھ السلام)چلنے لگے توبارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

( رَبَّنّااِنَّنِیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَبَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّناَلِیُقِیْمُواالَصَّلوٰةَ ) (۱)

اے ہما رے پروردگا ر!میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آ ب وگیاہ وادی میں چھوڑدیا ہے تاکہ نمازیں قائم کریں یعنی تاکہ وہ یہاں سے لوگوں کو دعوت نماز کی آواز بلند کی کریں اور نماز یں قائم کریں اور قیام نماز کو دینی ذمہ داری سمجھیں اور تو میری اس ذریت کو نہ ت نہا نماز پڑھنے والے بلکہ مقیم نماز بھی قرار دے (اور جب نماز قائم ہوئے گی تو لوگ شرک وطغنانی سے پاک ہوجائیں گے )۔ حضرت ابراہیم بارگاہ خداوندی میں بہت زیادہ دعاکرتے تھے اورآپ کی دعائیں قبول ہوتی تھی ،آپ کی دعاؤں میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ آپ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں :( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ) (۲) پروردگارا!مجھے اورمیری ذریّت کونماز قائم کرنے والوں میں قراردے اور اے پروردگارتومیری دعاء کوقبول کرلے۔ تاریخ میں یہ بھی ملتاہے کہ: جب اسماعیل (علیھ السلام)کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہم (علیھ السلام) آٹھ ذی الحجہ کو اپنے فرزند کو لے کر“لبّیک لاشریک لَکَ لبّیک ”ٔکہتے ہوئے منیٰ کے میدان میں پہنچے اور اپنی پیروی کرنے والوں کے ساتھ نماز ظہرین ومغربین باجماعت انجام دی اوراس وقت سے لیکر آج تک واد ی مٔنی اور صحرائے عرفات میں بڑے وقاروعظمت کے ساتھ نماز جماعت برگزار ہوتی ہے اور خدا کی وحدانیت کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔

____________________

١)سورہ أبراہیم /آیت ٣٧

. ۲)سورہ أبراہیم/آیت ۴٠

۲۲

عن جابربن عبدالله الانصاری قال:سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول:مااتخذالله ابراهیم خلیلا،الالاطعامه الطعام ،وصلاته باللیل والناس ینام .(١)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے حضرت ابراہیم کو دوکام انجا م دینے کی وجہ سے اپنا خلیل منتخب کیا ہے ١۔فقیروں ومسکینوں کو کھانادینا ، ٢۔ رات میں نمازشب پڑھناکہ جب سب لوگ سوتے رہتے ہیں ۔

نمازاورحضرت اسماعیل

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( وَاذْکرْفِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْل اِنّه کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًانَّبِیًا ) (٢)

اپنی کتاب میں اسماعیل کاتذکرہ کروکیونکہ وہ وعدے کے سچے اورہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۳) حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

نمازاوراسحاق ویعقوب وانبیائے ذریت ابراہیم

حضرت اسحاق ،یقوب، لوط اورانبیائے ذریت ابراہیم کے بارے میں قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:

( وَوَهَبْنَالَه اِسْحٰقَ وَیْقُوْبَ نَافِلَةً وَکُلاجَعَلْنَاصٰلِحِیْنَ وَجَعَلْناهُمْ آئمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَاوَا ؤحَیْنَا الیهم فِعْلَ الخیراتِ وَاِقَامَ الصلٰوةِ وَاِیتاءَ الزکوٰةِ وکانوالَنَا عٰبدِیْنَ ) (۴)

اورپھر ابراہیم کواسحاق اوران کے بعدیعقوب عطاکئے اورسب کوصالح اورنیک کردارقراردیا،اورہم نے ان سب کو پیشواقراردیا جوہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کا ر خیر کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے ۔

____________________

١)علل الشرایع /ج ١/ص ٣۵

. ٢)سورہ مریم/آیت ۵٣

. ٣ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۴)سورہ أنبیاء ایت ٧٣

۲۳

نمازاورحضرت شعیب

جب حضرت شعیب اپنی قوم کو غیرخدا کی عبادت،مالی فساداور کم فروشی سے منع کیا تو انھوں نے آپ سے کہا:

( یَاشُعیْبُ اَصَلٰوتُُکَ تَاْمُرُکَ ا نَْٔ نَتْرُ کَ مَا یَعْبُدُآ بَآؤُ نَا ا ؤْ ا نْٔ نَّفْعلَ فیِ ا مَْٔوَا لِنَا مَا نَشَؤ اِنَّکَ لَاَ نْتَ الحَلِیْمُ الرَّشَیْدُ ) .(۱) اے شعیب ! کیاتمھاری نمازتمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑدیں یااپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ، تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو ۔

نمازاورحضرت موسی

اولوالعزم پیغمبرحضرت موسیٰ جب کوہ طوروسیناپرپہنچے توآپ نے یہ آوازسنی:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۳)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو،اورہم نے تم کومنتخب کرلیاہے لہٰذاجووحی جاری کی جارہی ہے اسے غورسے سنو، میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی خدانہیں ہے پس تم میری عبادت کرواوریادکے لئے نمازقائم کرو۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے اپنی پوری مخلوق میں سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تم سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو ۔(۳)

____________________

. ۱) سورہ ۂود/آیت ٨٧

۲)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢ ۔ ١۴

۳)اصول کافی/ج ٣/ص ١٨٧

۲۴

نمازاورحضرت لقمان

قرآن کریم میں ایاہے کہ حضرت لقمان اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:

( یابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصابَکَ ) (۱)

بیٹا!نمازقائم کرو،نیکیوں کاحکم دو،برائیوں سے منع کرواوراس راہ میں تم پرجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکرو۔

نمازاورحضرت عیسیٰ

خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے کہ:جب حضرت مریم بچے کواٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تولوگوں نے کہا:مریم!یہ تم نے بہت براکام کیاہے ،ہارون کی بہن!نہ تمھاراباپ براآدمی تھااورنہ تمھاری ماں بدکردارتھی ،پس حضرت مریم اپنے بچہ طرف اشارہ کیاکہ اس سے معلوم کرلیں، میں نے کوئی گناہ نہیں کیاہے قوم نے کہا:ہم اس سے کیسے بات کریں جوبچہ ابھی گہوارہ میں ہے ،بچے نے گہوارہ سے کلام کیا:

( اِنِّیْ عَبْدُ اللهِ اٰتٰنِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیاوَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًااَیْنَ مَاکُنْتُ وَاَوْ صٰنِی بِالصّلٰوة وَالزّ کٰوة ماَدُمتُ حیّاً ) (۲)

میں الله کابندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی ہے اورمجھے نبی بنایاہے ،اورجہاں بھی رہوں بابرکت قراردیاہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے نماز وزکات کی وصیت کی ہے۔

نمازاورحضرت سلیمان

حضرت سلیمان غالباًراتوں کونمازمیں گذارتے تھے اورخوف خدامیں اپ کی آنکھوں سے انسوں جاری رہتے تھے اور کثرت نمازوعبادت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان کثیرا الصلاة کے نام سے مشہورتھے علامہ مجلسی “بحارالانوار”ارشاد القلوب سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: حضرت سلیمان کہ جن کے پاس حکومت وبادشاہت اورہرطرح کے وسائل موجود تھے لیکن آپ بالوں کانہایت ہی سادہ لباس پہنا کرتے تھے ، رات میں کھڑے ہوکر اپنی گردن کودونوں ہاتھوں کی انگلیوں آپس میںڈال کرباندھ لیاکرتے تھے اور پوری رات یادخدا میں کھڑے ہوکر رویا کرتے تھے حضرت سلیمان خرمے کی چھال سے ٹوکریاں بنایاکرتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے خداسے حکومت وبادشاہت کی درخواست کی تاکہ کافروطاغوت بادشاہوں سرنگوں کر ) سکوں۔(۳)

____________________

. ۱)سورہ لٔقمان/آیت ١٧.

۲ )سورہ مٔریم آیت ٢٧ ۔ ٣١

.۳)بحارالانوار/ج ١۴ /ص ٨٣

۲۵

نمازاورحضرت یونس

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( لَولَااَنّه کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطَنِهِ اِلٰی یَومِ یُبْعَثُونْ ) (١)

اگرحضرت یونس تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہو تے تو قیامت تک شکم ماہی میں ہی پڑے رہتے ۔

تفسیر مجمع البیان میں قتادہ سے نقل کیاگیاہے کہ تسبیح یونس سے نمازمراد ہے کیونکہ وہ نماز گزاروں میں سے تھے اور نماز ہی کی وجہ سے ان کو خدانے انھیں اس رنج ومصیبت سے نجات دی ہے۔(۲)

نمازاورحضرت زکریا

ہ( ُنَالِکَ دَعَازَکَرِیارَبَّه قَالَ هَبَْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَاءِ فَنَاْدَتْهُ الْمَلٰئِکَةُ وَهُوَقٰائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْ الْمَحْرَاْبِ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْییٰ ) (۳)

جس وقت حضرت ذکریانے جناب مریم کے پاس محراب عبادت میں عنایت الٰہی کامشاہدہ کیااورجنت کے کھانے کودیکھاتوآپ نے اپنے پروردگارسے دعاکی کہ :مجھے ایک پاکیزہ اولادعطافرماکہ توہرایک کی دعاکاسننے والاہے تو ملائکہ نے انھیں اس وقت آوازدی کہ جب وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے نمازمیں مشغول تھے کہ خدا تمھیں یحییٰ کی بشارت دے رہاہے ۔

نمازاورحضرت یوسف

حضرت یوسف کی سوانح حیات میں ملتاہے کہ آپ کو عزیز مصرنے ایک تہمت لگاکرزندان میں ڈالدیااس وقت عزیزمصرکاایک غلام اپنے آقاکو غضبناک کرنے کی وجہ سے زندان میں زندگی گزاررہاتھا، وہ غلام حضرت یوسف کے بارے میں کہتا ہے کہ: آپ ہمیشہ رات میں نماز پڑھتے اوراپنے رب کی بارگاہ میں رازونیازکرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے تھے ، بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، مریضوں کے لئے دوائیاں بھی مہیاکرتے تھے ، مظلوم وستم دیدہ لوگوں کوخوشیاں عطاکرتے اور تسلی دیا کرتے تھے. بعض اوقات دوسرے قیدیوں کو خداپرستی کی دعوت دیاکرتے تھے،نہایت خوشی سے زندان کے ایک گوشہ میں اپنے معبودکی راہ میں قدم آٹھاتے تھے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے تھے :( رَبِّ اسِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْ عُونَنِیْ اِلَیْهِ ) .(۴) پرودگارا! یہ قید مجھے اُس کام سے زیادہ مجبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔(۵)

____________________

١)سورہ صٔافات/آیت ١۴٣ ۔ ١۴۴ --. ٢)تفسیرمجمع البیان/ج ٨/ص ٣٣٣ -- ٣ )سورہ آٔل عمران آیت/ ٣٨ ۔ ٣٩

. ۴)سورہ یٔوسف/آیت ٣٣ --. ۵)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۵۶١ /ص ١٧٧

۲۶

تمام انبیاء وآئمہ نے نمازکی وصیت کی ہے

قرانی آیات اور احادیث معصومین سے یہ ظاہرہے کہ ہرنبی کے زمانے میں نمازکاوجودتھا اورتمام انبیائے کرام اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے اورنمازکے بارے میں وصیت بھی کرتے تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۱)

حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

( یٰابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةوَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ ) (۲)

حضرت لقمان نے اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:اے بیٹا ! نماز قائم کرو، نیکیوں کا حکم دو ، برائیوں سے منع کرو، اورجب تم پرمصیبت پڑے صبر کرو بے شک یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

( وَاَوْحَیْنَااِلٰی مُوسٰی وَاَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰلِقَومِکُمَابِمِصْرَبُیُوْتًاوَاجْعَلُوابُیُوْتَکُمْ قِبْلَةً وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ وَبَشِّرِالْمُو مِٔنِیْنَ ) (۳)

اورہم نے موسی اوران کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصرمیں گھربناؤاوراپنے گھروں کوقبلہ قراردواورنمازقائم کرواورمومنین کوبشارت دیدو۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:سمعته یقول:احبّ الاعمال الی الله عزوجل الصلاة وهی آخروصایا الانبیاء (علیهم السلام .(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل نمازہے اورہرتمام انبیائے کرام نے آخری وصیت نمازکے بارے میں کی ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: قال لقمان لابنه اذاجاء وقت الصلاة فلاتو خٔرهالشی ،ٔ صلّها و استرح منها،فانّهادین ،وصلّ فی الجماعة ولوعلی راس زجّ .(۵)

____________________

. ۱ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۲ )سورئہ لقمان آیت ١٧

. ۳)سورہ یونس/آیت ٨٧

۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١٠

۵)عروة الوثقی / ٢/ص ۴١۶

۲۷

حضرت امام صادق -فرماتے ہیں کہ:حضرت لقماننے اپنے فرزندسے وصیّت کرتے ہوئے کہا:اے بیٹا !جب نمازکاوقت پہنچ جائے تواسے کسی دوسرے کام کی وجہ سے تاخیرمیں نہ ڈالنابلکہ اول وقت نمازاداکرنااوراس کے ذریعہ اپنی روح کوشادکرناکیونکہ نمازہمارادین ہے اورہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنا خواہ تم نیزے پرہی کیوں نہ ہوں۔

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی وفات کے بعدکعب نے عمرابن خطاب سے پوچھا :وہ آخری جملہ کیاہے جسے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله) نے انتقال کے وقت بیان کیا تھا ؟ عمرابن خطاب نے کہا :اس بارے میں علی (علیھ السلام)سے معلوم کرو،جب کعب نے امام علی سے پوچھاتو آپ نے فرمایا:اسندت رسول الله صلی الله علیه وآله الی صدری فوضع راسه علیٰ منکبِی، فقال:الصلاة الصلاة

جب رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے انتقال کیاتواس وقت آپ کاسرمبارک میرے شانہ پررکھاتھامیں نے رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کوان کی عمرکے آخری لمحوں میں اپنے سینے سے لگایااور آنحضرت نے اپنے سر مبارک کومیرے شانہ پر قرار دیا اورمجھ سے کہا : نماز ! نماز! ۔(۱)

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)خطبہ دے رہے تھے کہ حمدوثنائے الٰہی کے بعد لوگوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

علیکم بالصلاة ،علیکم بالصلاة ،فانّهاعموددینکم ۔

تم پرنمازواجب ہے ،تم پرنمازواجب ہے کیونکہ نمازتمھارے دین کاستون ہے ۔(۲)

روایت میں ایاہے کہ امیرالمومنین حضرت علی نے شہادت کے وقت تین مر تبہ نماز کے بارے میں وصیت کی:”الصلاة الصلاة الصلاة ” نماز !نماز !نماز ! ۔(۳)

____________________

١)المراجعات/ص ٣٢٩

. ٢)مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٢٨.

٣)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٠

۲۸

ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادق کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیشکرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیھ السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیھ السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیھ السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :

انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة

نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(۱)

نمازمومن کی معراج ہے

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے خدا وعالم نے دنیامیں جت نے بھی نبی اورپیغمبربھیجے ہیں ان میں سے ہرایک نبی کے لئے ایک خاص معراج مقرر کی ہے اور مو مٔنین کے لئے بھی ایک معراج معین کی ہے کہ جسے نمازکہتے ہیں حضرت آدم کی معراج یہ تھی کہ خداوندعالم انھیں عدم سے وجو د میں لایا اور بہشت میں جگہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا:

یٰ( آدم اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجَکَ الْجَنّة ) (۲) اے آدم ! تم اور تمہاری زوجہ ( حضرت حوا)جنت میں داخل ہوجاؤ ۔

حضرت ادریس کی معراج یہ تھی کہ آپ ایک فرشتے کے پروں پر سوار ہوئے اور اس سے کہا : کہ مجھ کو آسمان کی سیرکرائے اور بہشت میں داخل کردے ، اذن پر ور دگار سے ایساہی ہوا( وَرَفَعنَاهُ مکاناً عَلِیا ) (۳) اورہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا یا۔

حضرت نوح کی معراج یہ تھی کہ جب آپ میں اپنی قوم کے ظلم واذیت تحمل کرنے کی قوت باقی نہ رہی اوریہ یقین ہوگیاکہ اب صرف ان چندلوگوں کے علاوہ کوئی اورشخص ایمان لانے والانہیں ہے توخداکی بارگاہ میں دست دعابلندکئے اورکہا:بارالٰہا!اب کوئی شخص ایمان لانے والانہیں ہے لہٰذاتواس قوم پراپناعذاب نازل کردے ، خدانے آپ کوحکم دیا:

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

۲)سورہ بٔقرہ /آیت ٣۵

. ۳)سورہ مٔریم/آیت ۵٧

۲۹

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَاوَوَحْیِنَا ) (۱)

اے نوح !ہماری نظارت میں ہماری وحی کے اشارے پر ایک کشتی بناو ۔ٔ

طوفان نوح (علیھ السلام)کی مختصرداستان یہ ہے کہ حضرت نوح (علیھ السلام)نے حکم خداسے ایک کشتی بنائی ،جب کشتی بن کرتیارہوگئی توت نورسے پانی نکلااورطوفان شروع ہوگیا،حضرت نوح (علیھ السلام)نے ہرقسم کے جانور،چرندوپرند اوردرندوں کاایک ایک جوڑا کشتی میں سوارکیا،جوآپ پرایمان رکھتے تھے انھیں بھی سوارکیا اورخودبھی اس میں سوار ہوئے ،جب کشتی چلنے لگی توآپ نے اس کے ذریعہ پوری دنیا کی سیرکی اورپوری دنیاکاچکرلگانے کے بعدکوہ جودی پرپہنچ کرکشتی رک گئی ،حضرت نوح (علیھ السلام) کشتی سے زمین پر آئے اورزمین کو دوبارہ آبادکیا۔معراج حضرت ابراہیم یہ تھی کہ جس وقت نمرودنے آپ کو منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالا تو وہ آگ حکم خدا سے گلزار ہو گئی( یٰانَارُکُونِی بَرْداًوَسَلَامًا ) (٢) اے آگ !تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامت بن جا ۔

معراج حضرت اسمعیل یہ تھی کہ جسوقت آپ کا گلا باپ کے خنجر کے نیچے تھا اور وہ آپ کو را ہ خدا میں قربان کررہے تھے کہ خدا وند عالم نے جنت سے ایک دنبہ بھیجا جو ذبح ہوگیا اور اسماعیل بچ گے أور خداوند عالم نے کہا :( وَفَدَ یْنٰاهُ بَذبحٍ عظیم ) (۳) ہم نے اسمعیل کی قربانی کو ذبحِ عظیم میں تبدیل کردیا ہے ۔

حضرت موسیٰ کی معراج یہ تھی کہ جس وقت آپ مناجات کے لئے کوہ طور پر گئے تو ( آپ نے شیرین لہجے میں خداوند عالم کے کلمات کوسنا( وَکَلَّمَ الله مُو سٰی تکلیما ) (۴) اورخداوندعالم نے حضرت موسٰی سے کلام کیا ۔

خاتم الانبیا، سرورکائنات حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کی معراج یہ ہے کہ خداوندعالم نے آپ کوآسمانوں کی سیرکرائی اورارشادفرمایا:( سُبْحَانَ الّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی ) (۵) پاک وپاکیز ہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجدالاقصی تک۔

____________________

١)سورہ ۂود/آیت ٣٧

. ٢)سورہ أنبیاء/آیت ۶٩

. ۳)سورہ صٔافات/آیت ١٠٧

۴)سورہ نٔساء/آیت ١۶۴

۵)ُسورۂ اسراء/آیت ١

۳۰

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے دل میں خیال آیاکہ خداوندعالم نے ہرنبی کے لئے ایک معراج معین کی ہے میں یہ چاہتاہوں کہ میری امت کے مومنین کے لئے بھی کوئی معراج ہونی چاہئے لہٰذاآپ نے نمازکومومن کی معراج قراردیااورارشادفرمایا:

الصلاةمعراج المومن (۱)

نمازمومن کی معراج ہے

اوردوسری حدیث میں فرماتے ہیں:

اَلصَّلَاةُ مِعْرَاجُ اُمَّتِی (۲)

نماز میری امت کی معراج ہے ۔

بچوں کونمازکاحکم دیاکرو

نمازکی اہمیت اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ احادیث میں والدین کواس بات کی وصیت کی گئی ہے اپنے بچوں کونمازکاعادی بنائیں اورانھیں نمازکاحکم دیں،اگربچے نمازنہ پڑھیں توانھیں ڈرایااورمارابھی جاسکتاہے

قال الصادق السلام قال: انّانا مٔرصبیاننابالصلاة اذاکانوا بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاةاذاکانو ابنی سبع سنین ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : جب ہمارے فرزند پانچ سال کے ہو جاتے ہیں ہم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جب تمہارے فرزندسات سال کو پہنچ جائیں توانھیں نماز پڑھنے کا حکم دو۔

حسن ابن قارون سے مروی ہے کہ:میں نے امام علی رضا سے سوال کےا یاکسی دوسرے نے سوال کےا اورمیں سن رہاتھا کہ:ایک شخص ہے جواپنے لڑکے کوڈانٹ پھٹکارکے ساتھ نمازپڑھواتا ہے اوروہ لڑکاایک ،دودن نمازنہیں پڑھتاہے ،امام علی رضا نے پوچھا:اس کالڑکے کی عمرکت نی ہے ؟جواب دیا: اس کی عمر آٹھ سال ،یہ سن کرامام (علیھ السلام)نے تعجب سے فرمایا: سبحان الله ! وہ آٹھ سال کا بچہ ہے اور نماز کو ترک کرتا ہے،میں نے عرض کیا:وہ بچہ مریض ہے ،امام(علیھ السلام) نے فرمایا:جسصورت ممکن ہواسے اس سے نمازپڑھوائیں ۔(۴)

____________________

. ١)مستدرک سفینة البحار/ج ۶/ص ٣۴٣

. ٢)معراج المومن/ص ٢

۳)الاستبصار/ج ١/ص ۴٠٩

۴)من لایحضرہ افقیہ /ج ١/ص ٢٨٠

۳۱

عن معاویة بن وهب قال: سئلت اباعبدالله علیه السلام فی کم یو خٔذالصبی بالصلاة ؟فقال:فیمابین سبع سنین وست سنین ۔(۱)

معاویہ ابن وہب سے مروی ہے:میں نے امام صادق سے پوچھا:بچوں کوکت نی عمرسے نمازشروع کرناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:جب بچہ چھ ،سات سال کی عمرکوپہنچ جائے ۔

اگرماں باپ نمازی ہیں توبچہ بھی نمازی بنتاہے،ماں باپ کونمازپڑھتے ہوئے دیکھ کربچہ بھی نمازکی رغبت پیداکرتاہے کسی بھی نمازی کودیکھ کریہ معلوم ہوتاہے کہ اس کے ماں باپ نمازی ہیں اورانھوں نے بچہ کی اچھی تربیت کی ہے یہ ابوطالب کی تربیت کااثرتھاکہ آج علی کو“کرم الله وجہ”(۲) کانام دیاجاتاہے۔

تاریخ کے اوراق میں لکھاہے کہ : امام حسینکی شہادت کے بعدجب ابن زیادکے سپاہیوں نے حضرت مسلم ابن عقیل کے دونوں بچوں کو گرفتارکرکے زندان میں ڈال دیا، اوررات میں د ربان نے قیدخانہ میں پرنگاہ ڈالی تودیکھاکہ دونوں بچے نمازمیں مشغول ہیں، نگہبان دونوں بچوں کو نمازوعبادت کی حالت میں دیکھ کرسمجھ گیاکہ یہ بچے کسی معصوم سے کوئی نسبت ضروررکھتے ہیں ،لہٰذابچوں کے پاس آیااورمعلوم کیاتوچلاکہ یہ مسلم ابن عقیل کے بچے ہیں پس رات کی تاریکی میں دونوبچوں کوقیدخانہ سے باہرنکال دیامگرجب ابن زیادکے سپاہیوں نے بچوں کوقیدخانہ میں نہ پایاتوانھیں جنگل میں تلاش کرکے دوبارہ گرفتار کرلیا ،ابن زیادنے جلادکودونوں بچوں کاسرقلم کردینے کاحکم دیا،جب جلادنے دونوں کا سرقلم کرناچاہا تو بچوں نے زندگی کے آخری لمحات میں نماز پڑھنے کی مہلت ما نگی ، جب نماز کی مہلت مل گئی تو دونوں بچّے نماز میں مشغول ہو گئے اور نماز کے بعد دونوں کو شہید کردیا گیا ۔

____________________

۱)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ١٣

۲)وہ ذات کہ جسنے زندگی کبھی بھی بت کے سامنے سرنہ جھکایاہو

۳۲

نمازکے آثارو فوائد

نمازپڑھنے ،روزہ رکھنے ،حج کرنے ،زکات دینے ،صدقہ دینے ، اوردیگرواجبات ومستحبات الٰہی کوانجام دینے سے خداکوکوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے اورواجبات ومستحبات کوترک کرنے سے خداکاکوئی نقصان پہنچتاہے بلکہ انجام دینے سے ہم ہی لوگوں کوفائدہ پہنچتاہے اورترک کرنے پرہماراہی نقصان ہوتاہے ہم اس کی عبادت کریں وہ تب بھی خداہے اور نہ کریں وہ تب بھی خداہے ،ہماری نمازوعبادت کے ذریعہ اس کی خدائی میں کسی چیزکااضافہ نہیں ہوتاہے اورنمازوعبادت کے ترک کردینے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اس کی عبادت کرنے سے ہم ہی لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے ،جب ہم اس کی عبادت کریں گے توہمیں اس کااجروثواب ضرورملے گا ،خداوندعالم کاوعدہ ہے وہ کسی کے نیک کام پراس کے اجروثواب ضائع نہیں کرتاہے ۔

( وَالّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتَابِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) (۱) اورجولوگ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اورانھوں نے نمازقائم کی ہے توہم صالح اورنیک کردارلوگوں کے اجرکوضایع نہیں کرتے ہیں۔

( اِنّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُوْالصّٰلِحٰتِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُواالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَرَبِّهِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْوَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (۲)

جولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے ،نمازقائم کی ،زکات اداکی ان کے لئے پروردگارکے یہاں اجرہے اوران کے لئے کسی طرح کاخوف وحزن نہیں ہے۔

دنیامیں نمازکے فوائد

دنیامیں نام زندہ رہتاہے جب کوئی بندہ کسی نیک کام کوانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس نیکی کااجروثواب دنیامیں بھی عطاکرتاہے اورآخرت میں بھی عطاکرے گادنیامیں نمازایک فائدہ یہ ہے نمازی کانام دنیامیں زندہ رہتاہے ، تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے اکثرلوگ اسے ایک اچھے انسان کے نام سے یادکرتے ہیں ،کیونکہ خداوندعالم کاوعدہ کہ جومجھے یادکرے گامیں بھی اسے یادکروں گااوراس کانام روشن رکھوں گاجیساکہ قرآن کریم میں ارشادرب العزت ہے:

( فَاذْکُرُونِی وَاذْکُرْکُمْ ) ( ۳) تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔

____________________

١)سورہ أعراف /آیت ١٧٠

.٢)سورہ بٔقرہ/آیت ٢٧٧

۳)سورئہ بقرہ /آیت ١۵٢

۳۳

گناہوں سے دورزہتاہے

نمازکے لئے شرط ہے کہ نمازی کالباس ، بدن اورمحل سجدہ پاک ہوناچاہئے ،نمازی کے لئے باوضوہوناشرط ہے اور وضومیں شرط یہ ہے کہ وضوکا پانی اوراس کابرت ن پاک ہوناچاہئے اورنمازکی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وضوکے پانی کابرت ن اورنمازی کالباس اورنمازپڑھنے کی جگہ مباح ہونی چاہئے ان سب شرائط اورواجبات کی رعایت کرنے کایہ نتیجہ حاصل ہوگاکہ انسان مال حلال وپاک کوذہن میں رکھے گا،رزق حلال حاصل کرے گا،حلال چیزوں کامالک رہے گا،حلال کپڑاپہنے گااورگناہوں سے دوررہے گا۔

حقیقی نمازانسان کی رفتار،گفتار،کرداراوراس کے اعمال افعال پرمو ثٔرہوتی ہے لہٰذاجن کی نمازان کے اعمال وافعال،رفتاروگفتاراورکردارپرمو ثٔرہوتی ہے وہ بارگاہ میں الٰہی قبول ہوتی ہے اورجن کی نماز گناہ ومنکرات سے نہیں روکتی ہے ہرگزقبول نہیں ہوتی ہیں لہٰذاہم یہاں پران آیات وروایات کو ذکرکررہے ہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ نمازانسان کوگناہ وبرائیوں سے روکنے کی ایک بہترین درسگاہ ہے:

( اَقِمِ الصَّلاةَ ، اِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰهی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُونَ ) (۱)

نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔اوراحادیث میں بھی آیاہے کہ نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے

عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهِ اَنّهُ قَالَ:مَن لَم ت نهه صَلاتَهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِلَم یَزِدْمِن اللهِ اِلّابُعداً ۔(۲)

جس شخص کی نمازاسے گناہ و منکرات سے دورنہیں رکھتی ہے ا سے اللھسے دوری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من احبّ ان یعلم اقبلت صلاته ام لم تقبل فلینظرهل صنعته صلاته من الفحشاء والمنکرمامنعته قبلت منه ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:جوشخص یہ دیکھناچاہتاہے کہ اس کی نمازبارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ہے یانہیں تووہ یہ دیکھے کہ اس کی نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دورکیاہے یانہیں،اب جس مقدارمیں نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دوررکھاہے اسی مقدارمیں اس کی نمازقبول ہوتی ہے ۔

____________________

. ١)سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵

. ٢)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢

٣)بحارالانوار/ج ١۶ /ص ٢٠۴

۳۴

عن النبی صلی الله وآله انه قال:لاصلوة لمن لم یطع الصلوة وطاعة الصلوة ان ینتهی عن الفحشاء والمنکر ۔(۱)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) فرماتے ہیں : جو شخص مطیع نماز نہ ہو اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور اطاعت نمازیہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتاہے (یعنی نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے)۔

جابرابن عبدالله انصاری سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے شکایت کی گئی فلاں شخص دن بھرنمازیں پڑھتاہے اوررات میں چوری کرتاہے ،آنحضرت نے یہ بات سن کرفرمایا:

انّ صلاته لتردعه

یقینااس کی نمازاسے اس کام سے بازرکھے گی (اور پھروہ کبھی چوری نہیں کرےگا) ۔(۲)

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:

( اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهٰارِ،وَزُلْفًامِنَ الَّیْلِ ،اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السِّیِّئاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاْکِرِیْنَ ) (۳)

(اے پیغمبر)آپ دن کے دونوں حصوں میں اوررات گئے نمازقائم کروکیونکہ نیکیاں برائیوں کوختم اورنابودکردیتی ہیں اوریہ ذکرخداکرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ۔ روایت میں ایاہے کہ ایک دن نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنے اصحاب سے پوچھا:اگرتم میں سے کسی شخص کے گھرکے سامنے سے پاک وصاف پانی کی کوئی نہرگزررہی ہواوروہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ اپنے جسم کودھوئے کیاپھربھی اس کے جسم پرگندگی رہے گی؟سب نے کہا:ہرگزنہیں!اسکے بعد آنحضرت نے فرمایا:

نمازکی مثال اسی جاری نہرکے مانندہے ،جب انسان نمازپڑھتاہے تودونمازوں کے درمیان ) اس سے جت نے گناسرزدہوئے ہیں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔(۴)

____________________

. ١)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶١

. ۲)تفسیرمجمع البیان/جج ٨/ص ٢٩

. ۳)سورہ ۂود/آیت ١١۴ )

۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ٢٣٧

۳۵

قال رسول الله صلی الله عیه وآله :اذاقام العبدالی الصلاة فکان هواه وقلبه الی الله تعالی انصرف کیوم ولدته امه ۔(۱) پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے اوراس کادل وہواخداکی طرف ہو تووہ نمازکے بعدایساہوجاتاہے جیساکہ اس نے ابھی جنم لیاہے۔ ابوعثمان سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں اور سلمان فارسی ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہو تھے جس کے پتّے خشک ہوچکے تھے، سلمان نے درخت کی شاخ کوپکڑکرہلاےااس کے خشک پتّے زمین پر گرنے لگے توسلمان نے کہا : اے ابن عباس !کیا تم درخت کوہلانے کی وجہ نہیں پوچھوگے ؟ میں نے کہا: ضروراس کی وجہ بیان کیجئے ،سلمان نے کہا: میں ایک روز نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ اسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، آنحضرت نے بھی یہی کام کیا تھا جب میں نے آنحضرت سے کہا یا رسول الله ! اس کی وجہ بیان فرمائےے ؟توآپنے فرمایا:

اِنّ العبد المسلم اذاقام الی الصلاة عنه خطایاه کماتحات ورق من الشجرة جب کو ئی مسلما ن بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے تواس کے تمام گناہ اسی طرح گرجاتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتے گرے۔(٢)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:مامن صلاة یحضروقتهاالانادیٰ ملک بین یدی الناس ایهاالناس!قومواالی نیرانکم التی اوقدتموهاعلی ظهورکم فاطفئوهابصلاتکم (۳) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جےسے ہی نمازکاوقت شروع ہوتاہے ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آوازبلندکرتاہے :اے لوگو!اٹھواوروہ آگ جوتم نے اپنے پیچھے لگارکھی ہے اسے اپنی نمازکے ذریعہ خاموش کردو ۔

حضرت علی فرماتے ہیں :ہم پیغمبر اسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور نماز کے وقت کا انتظار کر ہے تھے کہ ایک مردنے کھڑے ہوکرکہا:یارسول الله! میں ایک گنا ہ کا مرتکب ہوگیا ہوں اس کے جبران کے لئے مجھے کیا کام کرنا چاہئے ؟ آنحضرت نے اس سے روگردانی کی اوراس کی بات پر کوئی توجہ نہ کی ،ےہاں تک کہ نمازکاوقت پہنچ گیااورسب نماز میں مشغول ہوگئے ، نماز ختم ہونے کے بعد پھراس شخص نے اپنے گناہ کے جبران کے بارے میں پوچھا تورسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی کےاتم نے مکمل طورسے وضونہیں کےا؟اس نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول الله ،آنحضرت نے فرمایا : تیری یہی نماز تیرے گناہ کا کفّارہ ہے۔(۴)

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٣۶

٢)امالی شیخ صدوق/ص ١۶٧

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨

. ۴)تفسیرمجمع البیان/ج ۵/ص ٣۴۵

۳۶

حضرت علی نہج البلاغہ میں ارشادفرماتے ہیں:

وانهالتحت الذنوب حت الورق وتطلقهااطلاق الربق وشبههارسول الله بالحمة تکون علی باب الرجل فهویغتسل منهاالیوم واللیل خمسمرات فماعسی ان یبقی علیه من الدرن ۔(۱) نماز گنا ہوں کو اسی طرح پاک کردیتی ہے جیسے درخت سے پتّے صاف ہوجاتے ہیں اور انسا ن کو گناہوں سے اسی طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے کسی کورسّی کے پھندوں سے آزادکردیاجائے اور رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے پنچگانہ نمازوں کواس گرم پانی کی نہریاچشمہ سے مثال دی ہے کہ جو کسی انسان کے گھر کے سامنے ہو ا ور وہ اس میں روزا نہ پانچ بار نہا تا ہوتو اسکے بد ن پر ذرہ برابر کثافت وگندگی باقی نہیں رہے گی ۔

چہرے پرنوربرستاہے

ا بان ابن تغلب سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا :اے فرزندرسول خدا حضرت فاطمہ کو زہرا یعنی درخشاں کیوں کہا جاتاہے ؟امام (علیھ السلام) نے فرما یا : کیونکہ جناب فاطمہ کے چہرہ مبارک سے روزانہ تےن مرتبہ اےک نورساطع ہوتا تھا:

پہلی مرتبہ اس وقت جب آپ نماز صبح کے لئے محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے وجود مبارک سے ایک سفیدنور سا طع ہوتاتھاجس کی سفیدی سے مدینہ کا ہر گھرنورانی ہو جاتاتھا،اہل مدینہ اپنے گھروں کونورانی دیکھ کر نہاےت تعجب کے ساتھ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں حاضرہوتے اور اپنے گھر وں کے منّور ہوجانے کی وجہ دریا فت کر تے تھے،آنحضرت انھیں جواب دیتے تھے:تم میری لخت جگر کے دروازہ ے پر جا ؤاوران سے اس کی وجہ دریافت کرو، جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تومعلوم ہوتاتھاکہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک نور سا طع ہے جسکی روشنی سے مدینہ کے گھر چمک رہے ہیں۔

دو سری مرتبہ اس وقت جب آپ نمازظہرین اداکر نے کے لئے محراب عبادت میں قیا م کرتی تھیں توچہرہ اقدس سے پیلے رنگ کانورظاہر ہو تاتھااوراس نورکی زردی سے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے یہاں تک کہ ان کے چہرے اورلباس کارنگ بھی زردہوجاتاتھالہٰذالوگ دوڑے ہوئے آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس وجہ معلوم کرتے تھے

____________________

. ١)نہج البلاغہ/خطبہ ١٩٩ /ص ١٧٨

۳۷

توآنحضرتانھیں اپنی کے گھرکی طربھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک زردرنگ کانور سا طع ہے اورسمجھ جاتے تھے ہمارے گھرجناب سیدہ کے نورسے چمک رہے ہیں۔

تیسری مرتبہ اس وقت کہ جب سورج غروب ہوجاتاتھااورآپ نماز مغربین میں مشغول عبادت ہوتی تھیں توچہرہ اقدس سے سرخ رنگ کانورساطع ہوتاتھااوریہ آپ کے بارگاہ رب العزت میں خوشی اورشکرگزاری کی علامت تھا،جناب سیدہ کے اس سرخ رنگ کے نورسے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے اوران کے گھروں کی دیواریں بھی سرخ ہوجاتی تھی ،پسلوگ آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس کی وجہ دریافت کرتے تھے توآپانھیں اپنی لخت جگر کے گھرطرف بھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ سیدةنساء العا لمین محراب عبادت میں تسبیح وتمجیدالٰہی میں مشغول ہیں اورسمجھ جاتے تھے ان کے نورسے ہمارے گھرنورانی ہوجاتے ہیں۔

حضرت امام صادق - فرماتے ہیں :یہ نورہرروزتین مرتبہ اسی طرح سے ان کی پیشانیٔ مبارک سے چمکتارہتاتھا اورجب امام حسین- متولدہوئے تووہ نور امام حسین- کی جبین اقدس میں منتقل ہوگیا اور پھربطور سلسلہ ایک امام سے دوسرے امام کی پیشا نی میں منتقل ہورہا ہے اور جب بھی ایک امام (علیھ السلام)نے دنیاسے رخصت ہواتوان کے بعدوالے امام (علیھ السلام)کی پیشانی ہوتاگیایہاں تک کہ جب امام زمانہ ظہور کریں گے تو ان کی پیشانی سے وہی نورساطع ) ہوگا۔(١)

____________________

. ١)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٠

۳۸

بے حساب رزق ملتاہے

روایت میں آیاہے کہ حبیب خداحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیھ و آلھ)کی لخت جگرکے گھرمیں دودن سے میں کھانے پینے کے لئے کوئی سامان موجودنہیں تھا،جوانان جنت کے سردار حسنین رات میں کھانا کھائے بغیرہی سوجایاکرتے کرتھے ، جب تیسرادن ہوااورامام علی سے کچھ کھانے پینے کاانتظام کرسکے لہٰذاتاکہ بچوں کے سامنے شرمند نہ ہوناپڑے توشام کے وقت مسجدپہنچے اوراپنے رب سے رازونیازکرتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی نمازکاوقت ہوگیا،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی اقتدامیں جماعت سے نمازاداکی ،نمازختم ہونے کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) نے حضرت علیسے عرض کیا :یا علی ! میں آج کی رات آپ کے گھرمہمان ہوں جبکہ امام (علیھ السلام) کے گھر کھا نے کا کچھ بھی انتظام نہیں تھا اور فاقے کی زندگی گزار رہے تھے لیکن پھربھی امام (علیھ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)سے عرض کیا : یا رسول الله !آپ کا ہمارے گھرتشریف لانا ہمارے لئے ارجمند و بز رگواری کاباعث ہو گا

نبی اورامام دونوں مسجدسے خارج ہوئے لیکن راستہ میں امام (علیھ السلام)کی حالت یہ تھی کہ جسم سے عرق کی بوندیں ٹپک رہی تھی اور سوچ رہے تھے کہ آج حبیب خداکے سامنے شرمندگی کاسامناکرناپڑے گا،لہٰذاجیسے ہی گھرپہنچے توحضرت فاطمہ زہرا سے کہا :

اے رسول خداکی لخت جگر ! آج تمھارے باباجان ہمارے گھرمہما ن ہیں اورمگر اس وقت گھرمیں کھانے کے لئے کچھ بھی موجودنہیں ہے ، جناب سیدہ نے باباکا دیدارکیااوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں اورمصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ،جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔

حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھراہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔

۳۹

روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان!( هُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ ) .(١)

یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:

( کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذا قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللهِ اِنَّ اللهَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ ) .(۲)

جب بھی حضزت زکریا (علیھ السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔

جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواسسے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے

حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔

وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردارہوں،وہ گھرکہ جسمیں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،خدااس گھرمیں کس طرح فاقہ گذارنے دے سکتاہے ،ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے خداوندعالم اس کے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔

____________________

. ١)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

. ٢)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

اگرانسان کے جسم میں جان ہے اوروہ کاروکوشش کرستاہے ،روزی کی تلاش میں نکلے تووہ اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے پیسہ حاصل کرسکتاہے اوروہ کسب معاش کی راہ کوچھوڑ کردعاکے لئے مصلے پربیٹھ جاتاہے کیاایسے شخص کوخداوندعالم اسے گھربیٹھے روزی عطاکرسکتاہے ،ہرگزنہیں،یادرکھواگرکسی چیزکی کنجی ہمارے ہاتھوں میں ہوتوایسے میں دعا کاکوئی اثرنہیں ہوتاہے ،مثال کے طورپراگرکسی شخص کے پاس زمین وجائدادہے اورصاحب زمین اپنے گھرمیں بیٹھ جائے، زمین میں نہ ہل چلائے اورنہ اس میں کوئی دانہ ڈالے ،نہ زمین کی آبیاری کرے اورہرروزدعاکرتے رہے اورکھیتی کے پکنے کاوقت پہنچے تواسے کاٹنے کے لئے جنگل میں جائے توکیااسے اپنے کھیتوں میں کوئی چیزنظرآئے گی ؟ہرگزنہیں کیونکہ جب محنت وزحمت ہی نہیں توپھل کیسے نصیب ہوسکتاہے ،انسان کوفقط دعاپراکتفانہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعاکاکام یہ نہیں ہے کہ تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کرگھرمیں بیٹھ جاؤاورکھیتی کے پکنے انظارکرتے رہے بلکہ انسان کوچاہئے کہ زمین میں ہل چلائے ،دانہ ڈالے ،آبیاری کرے اس کے ساتھ ساتھ دعاکرے کہ بارالٰہا!میری کھیتی کوآفت سے محفوظ رکھنااوراس میں برکت عطاکرنا،اگرہم انبیاء وآئمہ کی زندگی پرنگاہ ڈالیں تومعلوم ہوگاکہ وہ فقط دعاپراکتفانہیں کرتے تھے بلکہ کاروکوششکرتے تھے اورجہاں کام ہاتھ سے نکل جاتاتھاوہاں دعاکرتے تھے ایوب اخی ادیم سے مروی ہے کہ ہم امام صادق کی خدمت میں موجودتھے کہ علاء ابن کامل آئے اورامام (علیه السلام) کے برابرمیں بیٹھ گئے اورامام (علیه السلام) سے عرض کیا:آپ میرے دعاکردیجئے کہ خداوندعالم مجھ پرروزی کوآسان کردے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:میں تمھارے لئے دعانہیں کروں گابلکہ تم جاؤاورجس طرح خداوندمتعال نے تمھیں روزی حاصل کرنے حکم دیاہے تحصیل مال ومتاع کرو۔(۱)

ایک اورروایت میں آیاہے کہ ایک فقیراورمقروض شخص حضرت امام صادق کی خدمت میں آیااورعرض کیا:اے فرزندرسول خدا!آپ میرے حق میں دعاکیجئے کہ خداوندعالم مجھے وسعت عنایت کرے اورمجھے رزق وروزی عطاکرے ،کیونکہ بہت ہی زیادہ فقیروت نگدست ہوں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:میں تیرے لئے ایسی کوئی دعاہرگزنہیں کروں گاکیونکہ خداوندعالم نے روزی حاصل کرنے کے وسیلے پیداکئے ہیں اورہمیں ان وسیلوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے کے ) لئے حکم دیاہے مگرتویہ چاہتاہے کہ اپنے گھرمیں بیٹھارہے اوردعاکے ذریعہ روٹی کھاتارہے۔(۲)

____________________

۱). کافی /ج ۵/ص ٧٨

.۲)کلیدسعادت/ص ۶۵

۳۴۱

کن چیزوں کے بارے میں دعاکی جائے

انسان کوچاہئے کہ وہ الله تبارک کی بارگاہ میں عافیت ،ت ندرستی ،سلامتی ،عاقبت بخیر،باعزت طول ،علم ومعرفت اوروسعت رزق کے لئے دعاکرے ،دعاکرے کہ الله تبارک تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے مددگاروں میں قرادے ،خداوندعالم ہمیں شیطان،منافق اورظالموں کے شرسے محفوظ رکھ ،خداوندعالم ہمیں اپنے قریب کرے ،ہمیں واجبات کے اداکرنے اورمحرمات سے بچنے کی توفیق عطاکر،ہمیں گناہ ومعصیت سے دوررکھ ،ہمیں نیک اورصالح اولادعطاکر،ہمیں امام مہدی عجل اللھفرجہ الشریف کے انصارواعوان میں قرار دے ،امام زمانہ سلامت رکھے اوربہت جلدان کاظہورکرے،ہمیں انبیاء وآئمہ معصومین اور اولیائے کرام کی سیرت طیبہ پرعمل کرنے توفیق عطاکر،ہمیں ان کی سیرت کوزندہ و قائم رکھنے کی توفیق دے ،علمائے دین کاسایہ ہمارے سروں پرقائم رکھ ،کفار و منافیقین اورظالمین کونیست ونابودکر مومنین ومومنات اورمسلمین ومسلمات زندہ ہیں یا اس دنیاسے کوچ کرگئے ان کے گناہوں گومعاف فرما،وہ مسلمان لوگ جوظالموں کے قیدوں میں نذربندہیں ان سب آزادی عطاکر،جومقروض ہیں ان کے قوضوں کواداکر،بیماران اسلام کوصحت وت ندرستی عطاکر،حاجی اورزائرین خانہ خداورعتبات عالیات کوصحیح و سالم اپنے وطن واپس کر،گمشدہ لوگوں کوان کے خاندان میں لوٹادے ،مسلمین کے درمیان اتحادعطاکر، خداوندعالم ہمیں قرآن اوراہلبیت اطہار کے سایہ میں روز محشربہشت میں واردکرےاس بارے میں ہم عنقریب قرآن کریم کی دعاؤں کوذکرکریں گے اورکسنمازکے بعدکونسی دعاپڑھی جائے ۔

کن لوگوں کی دعاقبول نہیں ہوتی ہے

کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی دعائیں بارگاہ رب العزت میں قبول نہیں ہیں اوریہ لوگ ہیں: جولوگ الله کی معرفت کے بغیراس سے کوئی حاجت طلب کرتے ہیں،وہ لوگ جوگناہوں میں آلودہ رہتے ہیں اوراپنے گناہوں کی توبہ بھی نہیں کرتے ہیں،وہ لوگ جوحرام اورناپاک غذائیں کھاتے ہیں،وہ لوگ جودوسروں پرظلم کرتے ہیں،وہ لوگ جواپنی دعاؤں میں ریاکاری کرتے ہیں،وہ لوگ جومعصومین کووسیلہ قرارنہیں دیتے ہیں،وہ لوگ جودعاپرکوئی اعتقادنہیں رکھتے ہیں اورفقط دعاکوآزمانے کے لئے دعاکرتے ہیںان تمام مواردکے بارے میں دعاکے آداب وشرائط میں احادیث نقل کرچکے ہیں لہٰذادوبارہ تکرارکی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کے علاوہ اوربھی لوگ ہیں کہ جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔

۳۴۲

امام صادق فرماتے ہیں :چار لوگ ایسے ہیں کہ جن کی کوئی دعااورنفرین قبول نہیں ہوتی ہے اوروہ لوگ یہ ہیں:

١۔ وہ شخص جواپنے گھرمیں ہاتھ پرہاتھ رکھے ہوئے آرام سے بیٹھاہواہے اوررزق وروزی کی تلاش میں کھرباہرقدم نہیں نکالتاہے اوربارگاہ خداوندی میں عرض کرتاہے :بارالٰہا!تومجھے رزق وروزی عطاکر (یادرکھو!)خداوندعالم ایسے شخص کی دعاہرگزقبول نہیں کرتاہے بلکہ اس دعاکرنے والے شخص سے کہتاہے:کیامیں نے تجھے کسب معاش کی تلاش میں گھرسے باہرنکلنے کاحکم نہیں دیاہے؟

٢۔ وہ شخص کہ جس کی زوجہ اسے اذیت پہنچاتی ہے اوروہ مرداس اذیت کے بدلہ میں اپنی بیوی کے لئے بددعاکرتاہے توخداوندعالم اس مردسے کہتاہے: کیاہم اس کے امرکوتیرے حوالہ نہیں کیاہے؟(یعنی کیاہم نے طلاق کو مردکے اختیارمیں قرارنہیں دیاہے ،اب تیری مرضی چاہے اسے طلاق دے یااپنے پاس رکھے مگروہ اسے طلاق نہیں دیتاہے اور بیوی کے ظلم واذیت پرتحمل کرتاہے اوراس کے لئے بددعاکرتاہے ،خداایسے شخص کی دعاکوقبول نہیں کرتاہے(.

٣۔ وہ شخص کہ جسے خداوندعالم نے مال ودولت عطاکی ہے مگروہ اپنے مال کوبیہودہ خرچ کرتاہے یہاں تک کہ اس کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے اب جبکہ اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے توخداسے کہتاہے:بارالٰہا!تومجھے رزق وروزی عطاکر،خداوندعالم ایسے شخص سے کہتاہے :کیاہم نے تجھے میانہ روی اوراقتصادکاحکم نہیں دیاہے ؟اورکیاہم نے تجھے اصلاح مال کاحکم نہیں دیاہے ،اس کے بعدامام(علیه السلام) نے اس آیہ مٔبارکہ شاہدقراردیا:

( وَالَّذِیْنَ اِذَااَنْفَقُوْالَمْ یُسْرِفُوْاوَلَمْ یَقْتَرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا )

ترجمہ:اورجب یہ لوگ خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اورنہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوروسط درجہ کاراستہ اختیارکرتے ہیں یعنی میانہ روی اختیاری کرتے ہیں.(۱)

۴ ۔ وہ شخص کہ جس نے اپنے مال کوکسی دوسرے کو قرض دیاہواوراس پراس نے مقروض سے نہ کوئی رسیدحاصل نہ کی ہواورنہ کوئی گواہ رکھاہو،جب واپس لینے کاوقت آئے تووہ مدیون پیسہ دینے سے انکارکردے (اورکہے کہ میں نے آپ سے کوئی پیسہ قرض نہیں لیاتھا)اوراس وجہ سے ان دونوں میں جھگڑاہوجائے اس کے بعدقرض دینے والاشخص بارگاہ خداوندی میں اس کے لئے بددعاکرے توخداایسے شخص کی دعاکوقبول نہیں کرتاہے بلکہ اس سے کہتاہے:کیاہم نے تجھے حکم نہیں دیاہے کہ قرض دیتے وقت کسی کوگواہ رکھو(۲)

____________________

۱)سورہ فٔرقان/آیت ۶٧

. ٢)کافی /ج ٢/ص ۵١١

۳۴۳

١۔ نمازترک وضایع کرنے یاہلکاسمجھنے والوں کی دعا

ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں کہ جولوگ نمازضایع کرتے ہیں اوراسے اول وقت ادانہیں کرتے ہیں بلکہ تاخیرسے پڑھتے ہیں یااول وقت پڑھتے ہیں مگرنمازکوایک آسان کام سمجھتے ہیں ،خداوندعالم ایسے لوگوں کی کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے ،اس چیزکوہم “کن لوگوں کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں اورایسے لوگوں کی کوئی بھی قبول نہیں ہوتی ہے ،اس عنوان سے متعلق

------

--------

۴ ۔ نافرمان اولادکی دعا

قرآن کریم اوراقوال معصومین سے معلوم ہوتاہے کہ والدین کااحترام کرنا اوران کی اطاعت کرنا،ان کے حقوق کواداکرنا،ان کے ساتھ حسن سلوک کرناواجب ہے اوران چیزوں کاترک کرناحرام وگناہ کبیرہ ہے اورجولوگ ان چیزوں کاخیال نہیں کرتے ہیں توخداوندعالم ان کسی بھی عمل کوقبول نہیں کرتاہے اورنہ ان کی کوئی دعاقبول کرتاہے ،جو شخص اپنے والدین کی اطاعت کرتاہے اوراس کے ماں باپ اس سے خوش رہتے ہوں توالله بھی اس سے خوش رہتاہے اوراس نمازودعاکوقبول کرتاہے اورجوشخص اپنے والدین کی نافرمانی کرتاہے اورانھیں رنجیدہ کرتاہے توخدابھی اس سے ناراض ہوجاتاہے اوراس کی نمازودعاکوقبول نہیں کرتاہے ۔

قال صلی الله علیه وآله:رضی الله مع رضی الوالدین، وسخط الله مع سخط الوالدین .(۱)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :الله کی رضاوخوشنودی ماں باپ کی رضاوخوشنودی کے ساتھ ہے اورالله کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی کے ساتھ ہے۔عن ابی عبدالله علیه قال:من نظرالیٰ ابویه نظرماقت وهماظالمان له لم یقبل الله له صلاته .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جواپنے ماں باپ کی طرف غصہ اورغضب کی نگاہ کرے خواہ وہ دونوں اپنی اولادپرظلم کیوں نہ کررہے ہوں تو خداندعالم ایسے شخص نمازقبول نہیں کرتاہے ۔

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ٧١ /ص ٨٠

. ٢)کافی /ج ٢/ص ٢٣٩

۳۴۴

۵ ۔ محبّ دنیاوریاکارکی دعا

جولوگ دنیاسے محبت کرتے ہیں اوراپنی عاقبت وآخرت کے بارے میں کوئی فکرنہیں کرتے ہیں اورمال ومتاع دنیاکے حصول کی خاطرظاہری طورسے نیک اورکارخیرکرتے ہیں اوراپنے متقی پرہیزگارہونے کااظہارکرتے ہیں مگران کاباطن بہت خراب ہوتاہے اورکبھی بھی دل سے خداکویادنہیں کرتے ہیں خداوندعالم ان لوگوں کی نمازودعاکوقبول نہیں کرتاہےقال رسول الله صلی الله علیه وآله:سیاتی علی امتی تختب فیه سرائرهم وتحسن فیه علانیتهم طمعاًفی الدنیالایریدون یه ماعندالله عزوجل یکون امرهم ریائاً لایخالطه خوفٌ یعمُّهم الله منه بعقاب فیدعونه دعاء الغریق فلایستجاب .(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت میں ایسے بھی لوگ ہوں گے جوحصول دنیاکی خاطرظاہری طورسے نیک کام کریں گے اوراپنے آپ کواچھااورنیک انسان دکھائیں گے مگران کاباطن بہت ہی خراب ہوگااورکبھی خداکویادنہیں کریں گے ،ان کے تمام کام ریاکاری کے محورپہ گھومتے ہونگے اورانھیں کسی طرح کاکوئی خوف نہیں ہوگا ،خداوندعالم ایسے لوگوں کوسخت عذاب میں مبتلاکرے گا،اس کے بعدوہ مشکلوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی طرح دعاکریں گے مگرخداوندعالم ان کی دعاہرگزقبول نہیں کرے گا۔

۶ ۔ امربالمعروف ونہی عن المنکرترک کرنے والوں کی دعا

اگرکوئی شخص کسی انسان کوگناہ کرتے ہوئے دیکھتاہے یاکسی کوظلم کرتے ہوئے دیکھتاہے یاکسی کوچوری کرتے ہوئے دیکھتاہے ،کسی کوبے نمازی پاتاہے اورشرعی طورسے اس پرامربالمعروف ونہی عن المنکرواجب ہے مگرامربالمعروف ونہی عن المنکرنہیں کرتاہے توبارگاہ خداوندی میں اس کی دعاقبول نہیں ہوتی ہےعن محمدبن عمرعرفة قال:سمعت اباالحسن علیه السلام یقول:لَتامرُنَّ بالمعروفِ ولتنهونَ عن النکرِالّالَیسلّطنّ الله علیکم شرارکم فیدعواخیارکم فلایستجاب لهم ۔(۲)

محمدابن عمرعرفہ سے مروی ہے :میں نے امام ابوالحسن کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے : امربالمعروف ونہی عن المنکرکرو،اگرتم اس کام سے خودداری کرتے ہوتوان کی برائیاں اورخرابیاں تم پرمسلط ہوجائیں گی اس کے بعدتم جت نی بھی دعاکروگے وہ ہرگزقبول نہیں ہونگی ۔

____________________

۱)کافی /ج ٢/ص ٢٩۶

. ٢)کافی /ج ۵/ص ۵۶

۳۴۵

٧۔ شرابی کی دعا

جن گھروں میں ناچ گانایاشراب اورجوے کے آلات موجودہوں خواہ وہ انھیں استعمال کرتے ہوں یانہ ،خواہ خوداستعمال کرتے ہیں یاکسی کوکرائے وغیرہ پہ دیتے ہوں وغیرہ ،خداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاؤں کومستجاب نہیں کرتاہے۔

قال ابوعبدالله علیه السلام:بیت الغناء لایو مٔن فیه الفجیعة ولایجاب فیه الدعوة ولایدخله الملائکة .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جس گھرمیں ناچ گاناہوتاہے ،وہ گھرناگہانی بلاؤں و مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتاہے ،اس میں دعامستجاب نہیں ہوتی ہے اورفرشتہ بھی داخل نہیں ہوتاہے۔

قال علیه السلام :لاتدخل الملائکة بیتاًفیه خمرٌاودَف اَوطَنبورٌاَونردٌولاتسجاب دعا ۔(۲) معصوم فرماتے ہیں :جس گھرمیں شراب ہویاسٹّہ ،جوے یاناچ گانے کے وسائل موجودہوں توان گھروں میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں اوران اہل خانہ کی دعائیں مستجاب نہیں ہوتی ہے اوران گھروں سے برکت بھی چلی جاتی ہے ۔

مال حرام کھانے والوں کی دعا

دعاکرنے کرنے والے کوچاہئے کہ وہ اپنے رزق وروزی کی طرف نگاہ کرے اوردیکھے کہ جورزق اس کے پاس ہے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کرکھارہاہے وہ حلال طریقہ سے حاصل کیاگیاہے یامال حرام کھارہاہے

دین اسلام میں مال حرام کھانے سے سخت منع کیاگیاہے اورپاک وپاکیزہ غذا کھانے اورعمل صالح انجام دینے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے

( یٰٓااَیُّهَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْاصَالِحاًاِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٍ ) (۳) ترجمہ:اے میرے رسولو!تم پاکیزہ غذائیں کھاؤاورنیک کام کروکہ میں تمھارے اعمال سے خوب باخبرہوں۔

( یَااَیُّهَاالنَّاسُکُلُوْا مِمَّافِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًاوَلَاثَعْثَوْاخطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ ) .(۴) اے انسانو! زمین میں جوکچھ حلال اورطیب وطاہرہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کااتباع نہ کروکیونکہ وہ تمھاراکھلاہوادشمن ہے ۔

____________________

.۱)کافی/ج ۶/ص ۴٣٣

. ٢)وسائل الشیعہ/ج ١٢ /ص ٢٣۵

.۳)سورہ مٔومنون/آیت ١٩

)سورہ بٔقرہ/آیت ١۶٨

۳۴۶

عن النبی صلی الله علیه وآله:من احبّ ان یستجاب دعائه فلیطیب مطعمه ومکسبة ۔(۱)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص اپنی دعاقبول ہونے کی تمنا رکھتاہے تواسے چاہئے کہ پاک وپاکیزہ کھائے اورپہنے۔امام صادق فرماتے ہیں:تم میں جوشخص اپنے دل میں دعاکے قبول ہونے کی تمنارکھتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے کسب معاش کوحلال وپاک کرے اورلوگوں کے مظالم سے باہرآئے کیونکہ جس انسان کے شکم میں حرام غذاہوتی ہے یااس کی گردن پردوسروں پرکئے ) گئے ظلم کابوجھ ہوتاہے تواسبندہ کی دعابارگاہ خداوندی تک پہنچائی جاتی ہے ۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من اکل لقمة حرام لم تقبل صلاته اربعین لیلةً ولم تستجیب له دعوة اربعین صباحاًوکلّ لحم ینبته الحرام فالناراَولیٰ بهِ وانّ اللقمة الواحدة ت نبت اللحم ۔(۳)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص ایک لقمہ بھی مال حرام کھاتاہے چالیس رات تک اس کی کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے اورنہ چالیس صبح تک اس کی کوئی دعاقبول ہوتی ہے اورمال کھانے سے بدن میں جت نابھی گوشت بڑھتاہے وہ جہنم کاحصہ بن جاتاہے اوریادرہے ایک لقمہ سے بھی بدن میں گوشت بڑھتاہے ۔

دعاقبول نہ ہونے کی وجہ

کیاوجہ ہے کہ لوگ دعائیں کرتے ہیں مگررب العزت ان کی دعائیں کاکوئی جواب نہیں دیتاہے اورانھیں قبول نہیں کرتاہے ؟جبکہ خداوندعالم نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کو دعاقبول ہونے کاوعدہ دیاہے

( اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (۴) تم دعاکروتومیں قبول کرتاہوں۔

( اِذَاسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاْعِِ اِذَادَعَانَ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُو مِٔنُوْابِیْ لَعَلَّهُمْ یُرْشَدُوْنَ ) (۵)

اے پیغمبر!اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں ان سے قریب ہوں،پکارنے والے کی آوازسنتاہوں جب بھی پکارتاہے لہٰذامجھ سے طلب قبولیت کریں اورمجھ ہی پرایمان واعتقادرکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پرآجائیں۔

____________________

۱)مستدرک سفینة البحار/ج ٣/ص ٢٨٨

. ۲)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣٢١

۳)بحارالانوار/ج ۶٣ /ص ٣١۴

۴)سورہ غٔافر/آیت ۶٠

. ۵)سورہ بٔقرہ/آیت ١٨۶

۳۴۷

روایت میں آیاہے کہ حضرت علیجیسے ہی نمازجمعہ کے خطبہ سے فارغ ہوئے توایک شخص نے بلندہوکر مولائے کائنات سے عرض کیا:اے ہمارے مولاوآقا!الله تبارک تعالیٰ کاارشادہے :( اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (تم دعاکروتومیں قبول کرتاہوں)پھرکیاوجہ ہے کہ ہم دعاکرتے ہیں مگروہ بارگاہ خداوندی میں درجہ مٔقبولیت تک پہنچتی ہے ؟مولائے کائنات نے اس شخص کے اس سوال کو سن کراسے بہت ہی عمدہ جواب دیااوردعاقبول نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

تمھارے دل ودماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے جن کی وجہ سے تمھاری دعاقبول نہیں ہوتی ہے اوروہ آٹھ چیزیں یہ ہیں:

١۔ تم نے خداکوپہچانتے ہومگرتم اس کے حق کواس طرح ادانہیں کرتے ہو جس طرح اس نے واجب قراردیاہے لہٰذا تمھاری معرفت تمھارے کوئی کام نہ آتی ہے اورنہ تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ہے اسی لئے تمھاری دعاقبول نہیں ہے

٢۔تم اس کے بھیجے ہوئے رسول پرایمان تولائے ہومگران کی سنت کی مخالفت کرتے ہو اوران کی شریعت کوپامال وبربادکرتے ہوپھرایسے میں تمھارے ایمان کاکیانتیجہ ہوگا ؟(بس یہی کہ پروردگارتمھاری کوئی دعاقبول نہیں کرے گا

٣۔ تم نے اس کی نازل کردہ کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو اور“سمعناواطعنا” بھی کہتے ہومگراس کے فرمان کے مطابق عمل نہیں کرتے ہوبلکہ اس کے حکم کے برخلاف عمل کرتے ہوپھر تمھاری کوئی دعاکس طرح دعاقبول ہوسکتی ہے ؟

۴ ۔ تم نے جہنم کے بارے میں یہ وعدہ کرتے اورکہتے ہوکہ :ہم خداکے عذاب سے ڈرتے ہیں حالانکہ تم گناہوں کے باعث اسی کی طرف قدم بڑھارہے ہوپھرتمھارے دل میں نارجہنم سے تمھاراخوف کہاں رہاہے؟

۵ ۔ تم کہتے ہوکہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ کام ایسے کرتے ہوجوتمھیں اس سے دورلے جاتے ہیں توپھرتمھارے اندرجنت کی وہ رغبت وشوق کہاں باقی ہے ؟

۶ ۔ تم اپنے مولیٰ کی نعمتیں کھاتے ہومگرشکرکاحق ادانہیں کرتے ہوتوکس طرح تمھاری دعائیں قبول ہوسکتی ہیں؟۔

٧۔ خدانے تمھیں شیطان سے عداوت ودشمنی رکھنے کاحکم دیاہے اورفرمایاہے :( اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌفَاتَّخَذُوْهُ عَدُوا ) (یقیناشیطان تمھارادشمن ہے پس تم بھی اسے دشمن رکھو)تم زبان سے شیطان سے دشمنی کادعویٰ کرتے ہوحالانکہ تم اسے اپنادوست رکھتے ہو

٨۔ تم نے دوسروں کی (غیبت اور)عیب جوئی کواپنانصب العین بنارکھاہے اوراپنے تمام عیوب بھلادئے ہیں ،تم دوسروں کی مذمت کرتے ہوجبکہ تم اس سے بھی زیادہ مذمت کے مستحق ہو

۳۴۸

جب تمھارے اندریہ سب باتیں پائی جاتی ہیں توپھرایسی حالت میں کس طرح دعاکے قبول ہونے کی امیدرکھتے ہواورکس طرح تمھاری دعائیں مستجاب ہوسکتی ہیں؟جبکہ تم نے اپنے لئے دعاقبول ہونے کے تمام دروازے بندکررکھے ہیں،پستم خداسے ڈرو اورتقویٰ وپرہیزگاری اختیارکرواوراپنے اعمال کی اصلاح کرو،اپنی نیتوں میں اخلاص پیداکرواورامربالمعروف ونہی عن المنکرکروتاکہ خدا تمھاری دعاقبول کرلے ۔(۱)

تاخیرسے دعاقبول کی وجہ

اس کی کیاوجہ کہ انسان دعاکرتاہے اورپورے شرائط کے ساتھ دعاکرتاہے مگرپھر بھی اس کی دعاقبول ہونے میں تاخیرکیوں ہوتی ہے ؟اوربعض لوگوں کی دعاجلدی کیوں پوری ہوجاتی ہے ؟

ممکن ہے ہم کسی کام کے لئے دعاکریں اوروہ کام الله کے نزدیک ہماری لئے اس وقت مصلحت نہ رکھتاہو،ہم اسے پسندکرتے ہوں مگرخدااسے ہمارے نفع کی خاطر اس وقت عطاکرنا پسندنہ کرتاہو،مثال کے طورپراگرکوئی شخص مریض ہے اوروہ اپنے ڈاکٹرسے کسی ایسی چیزکی درخواست کرے جواس وقت مریض کے لئے مصلحت نہ رکھتی ہوتووہ ڈاکٹراسے اس چیزسے انکارکردے گااوراس کی مرضی کے مطابق نسخہ ایجادنہیں کرے بلکہ مریض کے مرض کے مطابق نسخہ ایجادکرے گابساسی طرح ہم سب بندے الله کے مریض ہیں اوروہ ہمارے لئے ایک طبیب کاحکم رکھتاہے ،وہ اچھی طرح جانتتاہے ہمارے لئے اس وقت کونسی چیزبہترہے اورکون نقضان پہنچانے والی ہے

قال رسول صلی الله علیه وآله:یاعبادالله!انتم کالمرضیٰ وربّ العالمین کالطبیب فصلاح المرضی فیمایعلم الطبیب وتدبیره به لافیمایشتهیه المریض ویقترحه اَلافسلّموالله امره تکونوامن الفائزون .(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اے الله کے بندو!تم ایک بیمارکے مانندہواورپروردگارعالم ایک تمھاراطبیب ہے ،بیمارکی خیراوربھلائی اسی چیزمیں ہے کہ جسے طبیب اپنے مریض کے لئے حکم دیتاہے نہ اس چیزمیں کہ جسے مریض پسندکرتاہے ،پس آگاہ ہوجاو أورخودکوخدائے عزوجل کے سپردکردوتاکہ تم کامیاب ہوجاؤ

____________________

. ۱)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣٧۶

. ٢)تفسیرامام حسن عسکری /ص ٩۴۵

۳۴۹

تاخیرسے دعاقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خداوندعالم اپنے اس بندہ کواتنازیادہ محبوب رکھتاہے کہ ہروقت اس آوازکوبہت زیادہ دوست رکھتاہے ،اگرمیں نے اس دعاجلدی قبول کردی توممکن ہے کہ پھریہ بندہ رازونیازمیں کمی نہ کردے اورمیں اپنے بندہ کی آوزسننے کوترسجاؤں جیساکہ حدیث میں آیاہے:

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ المو مٔن لیدعوالله عزوجل فی حاجته فیقول الله عزوجل اَخّروااِجابته شوقًاالیٰ صوته ودعائه فاذاکان یوم القیامة قال الله عزوجل :عبدی دعوت نی فاَخّرتُ اجبتک وثوابک کذاوکذاوَدعوت نی فی کذاوکذافَاَخّرتُ اجابتک وثوابک کذاوکذاقال:فیتمنی المو مٔن انّه لم یستجب له دعوة فی الدنیاممایریٰ من حسن الثواب .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ جب کوئی مومن بندہ الله تبارک تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرتاہے ،لیکن خدااپنے فرشتوں کوحکم دیتاہے : میرے اس بندہ کی حاجت کوپوراکرنے میں تاخیرکرومجھے اس کی آوازودعاکے سننے کابہت شوق ہے ،پس جب قیامت کادن ہوگاتوخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہے گا:تونے مجھے پکارااوردعاکی اورتیری دعاکے قبول کرنے میں دیرکی ،لہٰذااب تیرے لئے اس کی جزایہ اوریہ ہے۔

قال ابوعبدالله علیه السلام:انّ العبدالولی یدعوالله عزوجل فی الامرینوبه فیقول للملک الوو کٔل به اِقضِ لعبدی حاجته ولاتعجلهافانی اشتهی ان اسمع ندائه وصوته وانّ العبدالعدوَّلِلّٰهِ لیدعوالله عزوجل فی الامرینوبه فیقال الملک المو کٔل به اِقضِ حاجته وعجّلهافانّی اکره ان اسمع ندائه وصوته .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:وہ بندہ جوخداکادوست ہے ،وہ اپنی مشکلوں کو خدا کی بارگاہ میں بیان کرتاہے اوردعاکرتاہے توخداوندعالم اپنے اس فرشتے سے جسے اجابت دعاکے لئے مو کٔل کیاہے کہتاہے :میرے اس بندہ کی حاجت کوپوراکردے مگراس کے اداکرنے میں جلدی نہ کرناکیونکہ میں اپنے اس بندہ کی آوازکواورزیادہ سنناچاہتاہوں اوروہ بندہ جودشمن خداہوتاہے ،جب اس کے سامنے کوئی مشکل اورحادثہ پیش آتاہے اوروہ درگاہ خداوندی میں دعاکرتاہے توخداوندعالم اپنے اس مو کٔل فرشتہ کوحکم دیتاہے :اس کی حاجت

کوپوراکرواورفوراًعطاکردوکیونکہ میں اس کی آوازبالکل نہیں سنناچاہتاہوں۔

____________________

۱)کافی /ج ٢/ص ۴٩٠

. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٩٠

۳۵۰

اس روایت سے یہ واضح ہوتاہے کہ مومن کی دعافوراًقبول ہوجاتی ہے مگراس تک کچھ دیرسے پہنچتی ہے کیونکہ خداوندعالم اس کی آوازکودوست رکھتاہے تاکہ حبیب و محبوب میں دیرتک گفتگوہوتی رہے مگرجن کوخدادوست نہیں رکھتاہے ان کی دعا فوراً قبول کرلیتاہے اوراسے فوراًعطاکردیتاہے کیونکہ پروردگارعالم اسسے ہمکلام ہونا پسندنہیں کرتاہے امام علی ابن ابی طالب “نہج البلاغہ ” میں اپنے فرزندامام حسن مجتبیٰ کے نام لکھے گئے ایک خط میں تاخیرسے دعاقبول ہونے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں: جن چیزوں کوطلب کرناتمھارے لئے صحیح ہے ان کے خزانوں کی کنجیاں تمھارے ہاتھوں میں دی رکھی ہے ،تم جب بھی چاہوان کنجیوں سے رحمت کے دروازے کھول سکتے ہواوررحمت کی بارش برساسکتے ہو،یادرکھو!اگرتمھاری دعاکے قبول ہونے میں تاخیرہوجائے تومایوس وناامیدنہ ہوناکیونکہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہواکرتاہے اورکبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیرکردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجرمیں اضافہ اورامیدوارکے عطیہ میں زیادتی کاامکان پایاجاتاہے اورہوسکتاہے تم کسی شئے کاسوال کرواوروہ نہ ملے لیکن اس کے بعدجلدی یادیرسے اس سے بہترمل جائے یااسے تمھاری بھلائی کے لئے روک دیاگیاہو،اس لئے اکثرایسابھی ہوتاہے کہ جس چیزکوتم نے طلب کیاہے اگر مل جائے تودین کی تباہی کاخطرہ ہے لہٰذااسی چیزکاسوال کروجس میں تمھاراحسن باقی رہے اورتم وبال سے محفوظ ) رہو،مال نہ باقی رہنے والاہے اورنہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔(۱)

____________________

. ۱)نہج البلاغہ نامہ ٣١ٔ

۳۵۱

قرآنی دعائیں

قرآن کریم کے کچھ ایسے سورے ہیں جومکمل طورسے دعاشمارہوتے ہیں جیسے سورہ حٔمد،فلق ،ناس ،توحیداورکچھ سورے ایسے ہیں جن میں ایک یااس سے زیادہ آیتیں بطوردعانازل ہوئی ہیں ،ہم ان میں چندآیتوں کوذکرکررہے ہیں:

( رَبَّنَااٰت نافِیْ الدُّنْیَاحَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَاعَذَاْبَ النَّارِ ) (۱)

ترجمہ:پروردگارا!ہمیں دنیامیں بھی نیکی عطافرمااورآخرت میں بھی اورہم کوعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔( رَبَّنَالَاتُزِغْ قُلُوْبَنَابَعْدَاِذْهَدَیْت ناوَهَبْ لَنَامِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ) (۲) ترجمہ:پروردگا!جب تونے ہمیں ہدایت دی ہے تواب ہمارے دلوں میں کجی نہ ہونے پائے اورہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرماکہ توبہترین عطاکرنے والاہے۔

( رَبَّنَاآمَنَّافَاغْفِرْلَنَاذُنُوْبَنَاوَقِنَاعَذَاْبَ النَّاْرِ ) (۳) ترجمہ:پروردگارا!ہم ایمان لے لائے ،ہمارے گناہوں کوبخش دے اورہمیں آتش جہنم سے بچالے۔( رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآء ) (۴) ترجمہ:حضرت زکریانے اپنے پروردگارسے دعاکی مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولادعطافرماکہ توہرایک کی دعاسنے والاہے۔( رَبَّنَافَاغْفِرْلَنَاذُنُوْبَنَاوَاِسْرَاْفَنَافِیْ اَمْرِنَاوَثَبِّتْ اَقْدَاْمِنَاوَانْصُرْنَاعَلَی الْقُوْمِ الْکَافِرِیْنَ ) (۵) ترجمہ:پروردگار!ہمارے گناہوں کوبخش دے ،ہمارے امورمیں زیادتیوں کومعاف فرما،ہمارے قدموں کوثابت عطافرمااورکافروں کے مقابلہ میں ہماری مددفرما۔

( رَبَّنَااغْفِرْلِیْ وَلِوَاْلِدَیَّ وَلِلْمُو مِٔنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ. ) (۶)

ترجمہ:پروردگارا!مجھے اورمیرے والدین کواورتمام مومنین کواس دن بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا۔

( رَبِّ ارْحَمْهُمَاکَمَارَبَّیٰنِیْ صَغِیْراً. ) (۷)

ترجمہ:(والدین کے لئے اس طرح دعاکرو)پروردگارا!ان دونوں پراسی طرح رحمت نازل فرماجسطرح انھوں نے بچپنے میں مجھے پالاہے۔

( رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عَقْدَةً مِّنْ لِسَاْنِیْ ) .(۸)

ترجمہ:حضرت موسیٰ دعاکی :پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے ،میرے کام کوآسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کوکھول دے۔

____________________

. ١)بقرہ ٢٠١ --.. ٢)آل عمران/ ٨ --٣)آل عمران/ ١۶ –۴)آل عمران/ ٣٨ --۵)آل عمران/ ١۴٧ --. ۶)ابراہیم/ ۴١ -

٧)اسراء / ٢۴ --. ٨) طٰہٰ/ ٢۵ ۔ ٢٨ )

۳۵۲

سجدہ شٔکر

تعقیبات نمازمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب انسان نماز،تسبیح اوردعاسے فارغ ہوجائے تومستحب ہے کہ فوراًسجدہ شکرکرے جس کاطریقہ یہ ہے کہ پیشانی کوزمین پررکھے اوردونوں کہنی ،سینہ اور پیٹ کوبھی زمین پرلگائے ،دائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھے اورمستحب ہے کہ اس کے بعددائیں رخسارکوزمین پررکھے یعنی بائیں جانب رخ کرے ،اس کے بعدبائیں رخسارکوزمین پررکھے اسکے بعدپھردوبارہ پیشانی کوزمین پررکھے ۔ اورمستحب ہے کہ جب انسان بھی انسان کوکوئی نعمت ملے یااس کی کوئی مصیبت دورہوجائے توسجدہ شکرکیاجائے ،سجدہ شٔکرکرنے کے بارے روایتوں میں بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے

امام صادق فرماتے ہیں:ہرمسلمان پرخداکااداکرنالازم ہے کیونکہ اس کے ذریعہ تمھاری نمازمکمل ہوتی ہے اوراس ذریعہ تمھاراپروردگارتم سے راضی ہوجاتاہے اورملائکہ کے تعجب کاباعث ہوتاہے ،جب کوئی بندہ نمازپڑھتاہے اوراس کے بعدسجدہ شکرکرتاہے تو خداوندعالماپنے اس بندہ اورملائکہ کے درمیان کے حجاب کوہٹادیتاہے اوراپنے ملائکہ سے کہتاہے:اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کودیکھو،اس نے میرے واجب کو ادا کیا اور میرے عہدکومکمل کیااورپھران نعمتوں کے بدلے میں جومیں نے اسے عطاکی ہیں سجدہ شٔکراداکیا ،اے میرے فرشتو!تم ہی بتاؤ اس شکرگزاربندہ کی جزا کیاہے؟ تو وہ جواب میں کہتے ہیں:اے ہمارے پروردگار!تیری رحمت ،اس کے بعددوبارہ اپنے فرشتوں سے سوال کرتاہے :اس کے علاوہ اورکیاجزاہے؟ملائکہ جواب دیتے ہیں :تیری جنت، خداوند عالم پھرمعلوم کرتاہے اس کے علاوہ اورکیاجزاہے ؟ملائکہ جواب دیتے ہیں:اس کے تمام رنج ومشکل کوبرطرف کرنا،اس کے بعدخداوندعالم پھرمعلوم کرتاہے اس کے علاوہ اورکیاجزاہے؟توملائکہ جواب دیتے ہیں:اے ہمارے پرودگار!اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ہیں،پسپروردگارکہتاہے :جسطرح اسنے میراشکراداکیاہے میں بھی اس کاشکرگزارہوں ) اورمیں اس پراپنافضل وکرم نازل کرتاہوں اورروزقیامت اسے رحمت عظیم عطاکروں گا۔(۱)

حضرت امام علی رضا فرماتے ہیں : واجب نماز پڑھنے کے بعد ایک سجدہ کر نا چاہئے کیونکہ فریضہ الہٰی کو ادا کر نے کی وجہ سے جو نعمات وکرامات خداوندمتعال ہم کو عطا کرتا ہے ، ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سجدئہ شکر میں بس یہی کافی ہے کہ تین مرتبہ “شُکْراًلِلّٰہ”کہا جائے. راوی کہتا ہے : میں نے امام رضا سے عرض کیا : “شُکْراً لِلّٰہِ” کے کیا معنی ہیں؟ امام نے فرمایا : یعنی نماز ی یہ کہتا ہے کہ میرایہ سجدہ خداکاشکرادا کر نے کے لئے ہے اس چیزکے بدلہ میں کہ اس نے مجھے اپنی خدمت کی توفیق عطاکی یعنی اس نے مجھے ادائے واجب کی توفیق عطاکی اورشکرادا کرنا رحمت وبرکت ونعمت کی زیادتی کا سبب واقع ہو تاہے ، اور اگر نماز میں کوئی نقص پایاجاتا ہے اور نافلہ نماز کے ذریعہ وہ نقص پورا نہیں ہو پاتا ہے تو ) سجدئہ شکر اس نماز کو مکمل کردیتا ہے ۔(۲)

____________________

. ١)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١١٠ --. ٢)علل الشرائع /ج ٢/ص ٣۶٠

۳۵۳

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:میرے باباعلی ابن الحسین جب بھی کسی نعمت خداکاذکرکرتے تھے توسجدہ شٔکر کرتے تھے اور جب قرآن کریم تلاوت کے دوران کسی آیت سجدہ پر پہنچتے تھے تواسی و قت ایک سجدہ کرتے تھے اورجب بھی خداآپ کی راہ سے کسی ناگوارحادثہ یادشمن کے مکروفریب کودور کردیتاتھاتوسجدہ میں گرجاتے تھے اورجب بھی نمازواجب سے فارغ ہوتے تھے تو سجدہ شٔکرکرتے تھے اورجب بھی دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوجاتے تھے تب بھی ایک سجدہ شٔکرکرتے تھے اورآپ کے جسم کی حالت یہ تھی کہ تمام اعضائے سجدہ پر گٹھا پڑگئے تھے اسی لئے آپ کو “سجاد”کے لقب ) سے یادکیاجاتاہے(۱)

مختارثقفی کے بارے میں ان کے اکثر ساتھیوں سے نقل ہوا ہے کہ جناب مختار نے اپنی ایاّم حکومت کے دوران قاتلان حضرت امام حسین سے بدلہ لیا اور سب کو سر کوب وفِی النار کرنے کے بعد شکرخداکے لئے ایک سجدہ بجا لائے ،اورنقل کیاگیاہے کہ جناب مختاراکثرایّام میں روزہ رکھتے تھے اور کہتے تھے : میرے یہ روزے شکر کے لئے ہیں،آپ اصغربے شیرکے قاتل حرملہ کو واصل جہنم کرنے کے بعدگھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک طولانی سجدئہ شکرادا کیا ۔(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:خداوندعالم نے حضرت موسیٰ ابن عمرانپروحی نازل کی:اے موسیٰ! کیاتم جانتے ہومیں نے اپنی مخلوق میں سے صرف تم ہی کواپنے سے ہمکلام ہونے کوکیوں منتخب کیاہے ؟حضرت موسیٰ نے کہا:اے میرے پروردگار!میں نہیں جنتاہوں(توہی بتاکہ تونے مجھے کیوں منتخب کیاہے؟) خداوندعالم نے وحی نازل کی :اے موسی! میں نے اپنے تمام بندوں کی ظاہری وباطنی حالتوں پرنگاہ ڈالی تومیں نے تمھارے علاوہ کسی کواس قدرمتواضع نہ پایاجواپنے آپ کومیری بارگاہ میں اس قدرحقیرسمجھتاہوکیونکہ جب تم نمازسے ) فارغ ہوتے ہوتواپنے دونوں رخسار کو زمین پر رکھتے ہو۔(۳)

مستحب ہے کہ سجدہ شکرمیں سومرتبہ “ شکراًلله ” کہاجائے اورتین مرتبہ بھی کافی ہے

سلیمان ابن حفص مروزی سے مروی ہے کہ میں نے امام علی رضا کی خدمت میں ایک خط لکھااور سجدہ شٔکرکے بارے میں معلوم کیاتوآپ (علیه السلام)نے میرے سوال کے جواب میں مجھے خط میں تحریرکیا: سجدہ شٔکرمیں سومرتبہ “ شکراً، شکراً ” کہویاچاہوتو“ عفواً، عفواً ”کہو۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ سجدہ شکرکرے اورایک سانس “یاربّ یارب”کہے توپروردگاراپنے بندے سے کہتاہے :اے میرے بندے! میں حاضرہوں تواپنی حاجت توبیان ) کر۔(۵)

____________________

۱)علل الشرائع /ج ١/ص ٢٣٣

٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩٧ /ص ٣۴.

.۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٢.--. ۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٢ -- ۵)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٣

۳۵۴

قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب “الدعوات ”میں یہ روایت نقل ہے کہ امام موسیٰ کاظم سجدہ شکرمیں یہ دعابہت زیادہ پڑھتے اورتکرارکرتے تھے: ) ”اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الرَّاحَةَ عِنْدَالْمَوتِ وَالْعَفْوَعِنْدَالْحِسِابِ ”.(۱)

ابوبصیرسے مروی ہے :امام صادق فرماتے ہیں:اگر کوئی بندہ سجدہ میں تین مرتبہ “یاالله یاربّاہ یاسیداہ” کہے توالله تبارک وتعالیٰ جواب میں کہتاہے :اے میرے بندے!میں حاضرہوں ) تواپنی حاجت بیان کر۔(۲)

مستحب ہے کہ سجدہ شکرکے بعدہاتھ کوسجدہ گاہ پر مس کرے اورپھرہاتھ کوچہرے پراس طرح ملے کہ بائیں جانب کی پیشانی سے شروع کرے اوراسی طرف کے رخسارپرملے اس کے بعداسی طرح دائیں جانب ملے اورتین باریہ دعاپڑھے اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، لَااِلٰہَ اِلّااَنْتَ ، عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ ، اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ، اَللّٰہُمَّ اَذْہَبْ عَنِّیْ الْہَمَّ وَالْحُزْنَ وَالْغَیَرَوَالْفِت ن ، مَاظَہَرَمِنْہٰا،وَمَابَطَنَ. ترجمہ: بارالٰہا!تمام حمدوثناتیرے لئے ہیں،تیرے سواکوئی معبودنہیں ہے ،ظاہراورغیب کاعلم تیرے پاس ہے ،توہی بخشنے اوررحم کرنے والاہے ، بارالٰہا!تومیرے رنج وغم اورتعصب ودگرگونی اورفت نوں کودورکردے جوظاہروآشکارہیں اوروہ کہ جوباطن میں ہیں۔(۳)

راززیارت

تعقیبات نمازمیں سے ایک یہ بھی ہے جب نمازگزارتسبیح ودعااورسجدہ شکرے فارغ ہوجائے توکھڑے ہوکرزیارت پڑھے ،اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہار پردرودوسلام بھیجے اورمستحب ہے کہ نمازکے بعدزیارت امام حسین،زیارت امام علی رضا ،زیارت حضرت حجت صاحب الزماں پڑھی جائے ۔ اہل بیت اطہار سے توسل کے بارے میں ہم نے نمازکے قبول ہونے کے شرائط میں کچھ باتیں اوراحادیث نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ توسل کاکیافائدہ ہے ،نمازکے بعدزیارت پڑھنابھی ایک توسل ہے ۔نمازکے بعدامام حسین کی زیارت پڑھی جائے کیونکہ انھوں نے کرب وبلامیں اپنے پوراگھر قربان کردیااورنمازکوہمیشہ کے لئے زندہ وجاویدکردیاہو،کیانمازکے بعدان پرسلام نہ بھیجائے ؟امام حسین اورامام علی رضا ایسے شہیدہیں کہ جنھیںغریب الوطنی میں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہیدکیاگیاہے ۔نمازکے بعدامام زمانہ کی زیارت اس پڑھتے ہیں کہ ہم ان کی سلامتی کی دعاکرتے ہیں اورباری تعالیٰ سے ان کے ظہورکی تعجیل کے لئے التجاکرہیں۔ اللٰہمّ عجّل فرجہ الشریف واجعلنامن انصارہ واعوانہ.آمین. زیارت تکمیل ایمان کی علامت ہے ،اس کے ذریعہ رزق میں برکت ہوتی ہے اورعمرطولانی ہوتی ہے رنج وغم دورہوتے ہیں،نماز یں قبول ہوتی ہیں،اوران کے طرف سلام کاجواب بھی آتاہے ،نمازی کے دل اہل بیت اطہار کی محبت میں اضافہ ہوتاہے اورعشق ومحبت اہل بیت کے خداوندعالم سے تقرب حاصل ہوتاہے ۔

____________________

. ۱)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٣٠٠ --. ٢)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ١١٣١ --۳)مفاتیح الجنان (شیخ عباس قمی

۳۵۵

فہرست

پیشگفتار ۴

وجہ تالیف: ۴

وجہ تسمیہ “نمازکے آداب واسرار“ ۵

رازاطاعت وبندگی ۶

١۔انسان عبادت کے لئے پیداہواہے ۶

٢۔شکرمنعم واجب ہے ۷

٣۔انسان کی فطرت میں عبادت کاجذبہ پایاجاتاہے ۱۱

۴ ۔ پروردگارکی تعظیم کرناواجب ہے ۱۲

۵ ۔ہرانسان محتاج اورنیازمندہے ۱۳

عبادت اوربندگی کاطریقہ ۱۴

رازوجوب نماز ۱۵

نمازکی اہمیت ۱۸

نمازکی اہمیت کے بارے میں معصومین سے چندروایت ذکرہیں: ۱۹

تمام انبیائے کرام نمازی تھے ۱۹

نمازاورحضرت س آدم ۲۰

نمازاورحضرت ادریس ۲۱

نمازاورحضرت نوح ۲۱

نمازاورحضرت ابراہیم ۲۲

نمازاورحضرت اسماعیل ۲۳

۳۵۶

نمازاوراسحاق ویعقوب وانبیائے ذریت ابراہیم ۲۳

نمازاورحضرت شعیب ۲۴

نمازاورحضرت موسی ۲۴

نمازاورحضرت لقمان ۲۵

نمازاورحضرت عیسیٰ ۲۵

نمازاورحضرت سلیمان ۲۵

نمازاورحضرت یونس ۲۶

نمازاورحضرت زکریا ۲۶

نمازاورحضرت یوسف ۲۶

تمام انبیاء وآئمہ نے نمازکی وصیت کی ہے ۲۷

نمازمومن کی معراج ہے ۲۹

بچوں کونمازکاحکم دیاکرو ۳۱

نمازکے آثارو فوائد ۳۳

دنیامیں نمازکے فوائد ۳۳

گناہوں سے دورزہتاہے ۳۴

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۳۵

چہرے پرنوربرستاہے ۳۷

بے حساب رزق ملتاہے ۳۹

رزق میں برکت ہوتی ہے ۴۱

دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۴۱

۳۵۷

رحمت خدانازل ہوتی ہے ۴۱

دل کوسکون ملتاہے اوررنج وغم دورہوتے ہیں ۴۲

عورت کی عزت آبروقائم رہتی ہے ۴۳

قرآن کریم متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے ۴۳

قبض روح میں اسانی ہوتی ہے ۴۳

برزخ اورقیامت میں نمازکے فوائد ۴۴

روزانہ پانچ ہی نمازکیوں واجب ہیں ۴۵

ان اوقات میں نمازکے واجب ہونے کی وجہ ۴۹

پہلی روایت ۴۹

دوسری روایت ۵۲

تیسری روایت ۵۳

چوتھی روایت ۵۴

پانچوی روایت ۵۵

تعدادرکعت کے اسرار ۵۵

رازجمع بین صلاتین ۵۹

روزانہ نمازکے تکرارکی وجہ ۶۲

نمازکے آداب وشرائط ۶۳

رازطہارت ۶۳

باطنی طہارت ۶۳

ظاہری طہارت ۶۴

۳۵۸

وضوکے اسرار ۶۵

رازوجوب وضو ۶۷

رازوجوب نیت ۶۸

چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز ۶۹

وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟ ۷۱

۴ ۔خروج پیشاب ،پیخانہ اورریح سے وضوکے باطل ہونے کی وجہ ۷۵

کھانے ،پینے سے وضوکے باطل نہ ہونے کی وجہ ۷۶

آب وضوکے پاک، مباح اورمطلق ہونے اوربرت ن کے مباح ہونے کی وجہ ۷۶

۶ ۔خودوضوکرنے کی شرط کی وجہ: ۷۷

٧۔سورج کے ذریعہ گرم پانی سے وضوکرنے کی کراہیت کی وجہ: ۷۸

وضوکے آداب ۷۸

١۔وضوسے پہلے مسواک کرنا ۷۸

٢۔ وضوکرتے وقت معصوم (علیھ السلام)سے منقول ان دعاؤں کوپڑھنا ۷۹

٣۔ گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا ۸۱

۴ ۔ تین مرتبہ کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا ۸۱

۵ ۔ چہرہ اورہاتھوں پردوسری مرتبہ پانی ڈالنا ۸۲

۶۔ آنکھوں کوکھولے رکھنا ۸۴

٧۔ عورت ہاتھوں کے دھونے میں اندرکی طرف اورمردکہنی پرپانی ڈالے ۸۴

٨۔ چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونا ۸۴

٩۔ رحمت خداسے قریب ہونے اوراس مناجات کرنے کا ارادہ کرنا ۸۵

۳۵۹

١٠ ۔ پانی میں صرفہ جوئی کرنا ۸۵

وضو کے آثار وفوائد ۸۶

گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب ۸۷

کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب ۸۸

ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب ۸۸

کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ۹۰

آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی ۹۱

آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا ۹۲

راز تیمم ۹۳

رازوجوب ستر ۹۵

رازمکان و لباس ۹۷

رازطہارت بدن ،لباس اورمکان ۹۷

رازاباحت لباس ومکان ۹۷

نمازی کالباس مردہ حیوان سے نہ بناہو ۹۹

حرام گوشت جانورکے اجزابنے سے لباس میں نمازکے باطل ہونے کی وجہ: ۹۹

مردکا لباس سونے اورخالصریشم کانہ ہو ۱۰۰

مسجد ۱۰۳

مسجدکی اہمیت ۱۰۳

مساجدفضیلت کے اعتبارسے ۱۰۷

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب ۱۰۸

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370