نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145040
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145040 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

اوردوسری روایت میں آیاہے کہ حضر ت امام مو سیٰ کاظم بچپن میں اپنے وا لد ماجدحضرت امام جعفر صادق کے حضور میں نما ز اداکررہے تھے کہ اس وقت شہر کا ایک متفکراوردانشمند شخص امام (علیه السلام)کی خدمت میں موجود تھا ،اس نے دیکھاکہ یہ فرزند کھُلے ہو ئے درازہ کے سا منے کھڑے ہوکرنماز پٹرھ رہا ہے جو کہ مکر وہ ہے لہٰذاامام صادق سے کہا:آپ کا یہ فرزند کھُلے دروازہ کے سامنے نماز کیو ں پٹرھ رہا ہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا : بہتر ہے کہ آپ اپنے اس سوال کا جواب خود بچّے سے معلوم کریں ! اس عا لم ومتفکر نے بچے کی جانب رخ کیا اور پو چھا ! تم کھُلے دروازے کے سا منے نماز کیوں پٹرھ رہے ہو ؟کمسن بچے(امام کا ظم ) نے جواب دیا :وہ ذات کہ جسکی طرف میں نماز پٹرھتا ہوں وہ اسی درواز ہ سے مجھ سے بہت زیا دہ قریب ہے ۔(۱)

٣۔ایمان

دریامیں کشتی اسی وقت حرکت کرسکتی ہے جبکہ اسے پانی میں مسقرکیاجائے لہٰذاکشتی کوحرکت کرنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے ،اگراسے کسی خشک زمین پررکھاجائے تووہ خشکی میں ذرّہ برابر حرکت نہیں کر سکتی ہے، نماز بھی کشتی کے مانند ہے ،نمازی کوچاہئے کہ وہ اللھورسول ،قرآن اورغیب پرایمان رکھتاہو تاکہ اس کی کشتی حرکت کر سکے اوراسے دریاکے دوسری طرف ساحل تک پہنچاسکے،جب تک اس کی نماز اللھورسول ،قرآن ،معاداورغیب پرایمان کے دریامیں قرارنہ پائے اس وقت تک اس کابارگاہ خداوندی میں قبول ہوناغیرممکن ہے۔

اگر دریامیں کشتی کی حرکت کے لئے پانی موجودنہیں ہے توکشتی کے وجودکاکوئی فائدہ نہیں ہے اسی طرح اگرنمازگزارخداورسول ،قرآن ،معاداورغیب پرایمان نہیں رکھتاہے تواس کی وہ نماز کسی بھی کام کی نہیں ہے اورہرگزقبول نہیں ہوسکتی ہے ۔ قرآن کریم کی چندآیتوں میں ایمان اورنمازکوایک ساتھ ذکرکیاگیاہے:

( اِنَّمَایَعْمرُمَسَاجِدَالله مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآ خَراَقَامَ الصَّلٰوةَ ) (۲) الله کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جنھوں نے نماز قائم کی ہے ۔

( وَالمُو مِنُونَ یُومِنُونَ بِمَا اُنْرِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالَمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَالْمُوْتُوْنَ الزَّکٰوةَ ) وَالْمُوْمِنُوْنَ بَاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اُولٰئِکَ سَنُوتِیْهِمْ اَجْراًعَظِیْماً ) ( ۳)

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶ /ص ١٢

۲)سورہ تٔوبہ/آیت ١٨

. ۳)سورہ نٔساء/آیت ١۶٢

۲۶۱

اے رسول !مومنین حضرات جوتم پر نازل ہوا ہے یا تم سے پہلے نازل ہو چکاہے ان سب پرایمان رکھتے ہیں اور نماز بھی برگزار کرتے ہیں اورہم عنقریب نماز قائم کر نے والے اور زکات دینے والے اور آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کو اجر عظیم عطاکریں گے۔( اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَوَمَمّارَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُو نَ ) (۱) متقی وپر ہیز گا ر وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز اداکر تے ہیں اور ہم نے جوکچھ رزق ونعمت عطاکی ہیں ان میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔

امام علی ابن ابی طالب “ نہج البلاغہ ” میں نمازاورایمان کوخداسے تقرب حاصل کرنے کاذریعہ قراردیتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:انّ افضل ماتوسل به المتوسلوں الی اللهسبحانه وتعالیٰ ،الایمان به وبرسوله واقام الصلاة فانّهاالملة ۔(۲)

بے شک سب سے بہترین شی کٔہ جس کے ذریعہ خدا سے قربت حاصل کیا جاسکتا ہے وہ خدا ورسول پر ایمان رکھنا اور نماز کا قائم کرناہے جو کہ دین کا ستون ہے۔

۴ ۔دلایت

نمازقبول ہونے کی سب سے اہم شرط یہ کہ نمازگزاراپنے دل میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے علاوہ ان کی آل اطہارکی بھی محبت رکھتاہواوران کے دشمن سے بیزاری بھی کرتاہو،الله کی بارگاہ میں صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوتی ہے جوآ ل محمدکی محبت ومودت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں اوراپنے دلوں میں ال رسول کی محبت کاچراغ روشن رکھتے ہیں لیکن اگران کی محبت کاچراغ دل میں روشن نہیں ہے تووہ عبادت بے کارہے اورالله کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی ہے،نمازو عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں بےکارہیں۔

وہ نمازجواس کے تمام ظاہری آداب شرائط کے ساتھ انجام دی گئی ہو،قبلہ کی سمت رخ کرکے پڑھی گئی ہو،حمدوسورہ قرائت بھی صحیح طرح کی گئی ہو،رکوع وسجودمیں طمانینہ کابھی خیال رکھاگیاہواوردیگرشرائط کوبھی ملحوظ خاطررکھاگیاہویہاں تک خدارسول پرایمان کے ساتھ انجام دی گئی ہو،نمازپڑھنے والامتقی وپرہیزگاربھی ہومگردل میں آل رسول کی محبت نہ پائی جاتی ہوتوہرگزقبول نہیں ہوتی ہے

____________________

. ۱) سورئہ بقرہ آیت ٣

۲)نہج البلاغہ /خطبہ ١١٠

۲۶۲

مثال کے طور پر: اگرپولیس والاکسی ڈرائیورسے ڈرائیوری کارٹ طلب کرے لیکن اس ڈرائیورکے پاس ڈرائیوری کارٹ موجودنہ ہوتو وہ پولیس والااسے آگے جانے دے گااورسزاکامستحق قراردے گا،چاہے ڈارئیورلاکھ کہے :جناب پولیس !میں نے ڈرائیوری کے تمام قوانین کی رعایت کی ہے اورکسی طرح کی کوئی غلطی نہیں کی ہے ،میں اپنی لائن پرگاڑی چلارہاتھااورآپ کی یہ بات صحیح ہے کہ میرے پاس ڈرائیوری کارٹ نہیں لیکن میرے پاس شناختی کارٹ موجودہے،پاسپورٹ بھی موجودہے لہٰذاتم ان کاغذات کودیکھ کرمجھے آزادکردیجئے،مگروہ پولیس اس کی ایک بات بھی سنی گی اورکہے گاتھمارے یہ کاغذات یہاں پرکسی کام نہیں آسکتے ہیں مجھے صرف ڈرائیوری کارٹ چاہئے ،اگر تمھارے پاس نہیں ہے توتمھیں سزادی جائے اورآگے سزاملنے کے بعدنہیں جاسکتے ہو علامہ طباطبائی “ تفسیرالمیزان ”میں لکھتے ہیں :اہلبیت اطہار کی محبت وولایت کے بغیرنمازکاکوئی نہیں ہوتاہے اسی لئے ہم لوگ نمازسے پہلے اپنی اذان واقامت میں “اشهدانّ علیّاًولی الله ”اور قرائت نمازمیں( اِهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم ) اور تشہدمیں درودشریف پڑھتے ہیں اورمحمدوآل محمدمحبت اوران کی ولایت کاثبوت پیش کرتے ہیں اور آئمہ اطہار کی امامت کااقرار کرتے ہیں

ہم لوگ سورہ حٔمدکی قرائت میں( اِهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم ) کے یہ معنی مرادلیتے ہیں: بارا لہٰا ! تو ہم کو آئمہ کی راہ پرگا مزن رکھ اور ہمیں امامت کے پیرو کاراور دوستدا رولایت میں سے قرار دے اوراس بارے میں امام صادق فرماتے ہیں : صراط المستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں اور حضرت امام سجاد فرماتے ہیں :“نحن صراط المستقیم ” ہم (آئمہ طا ) ہرین )صراط مستقیم ہیں۔(۱)

تفسیرنمازمیں لکھاہے:جنگ نہروان میں حضرت علی کے مقابلہ میں آنے والے سب لوگ(جنھیں تاریخ اسلام میں خوارج کے نام دیاگیاہے ) بے نمازی نہیں تھے بلکہ ان میں اکثرنمازی وروزے دارتھے اوران کی پیشانیوں پر مکرر اور طولانی سجدوں کی وجہ سے گٹھے پڑے ہو ئے تھے لیکن ان کے دل اہلبیت کی محبت سے خالی تھے اورولایت اہلبیت کے منکر تھے،ان لوگوں نے امام علی ابن ابی طالب کے مقا بلے میں قیام کیا اور آپ کی طرف تلوار یں چلائی(ان لوگوں کی نمازیں ہرگزقبول نہیں ہیں)(۲) ۔

اسی جنگ نہروان میں حضرت علینے جب یہ سناکہ دشمنوں میں ایک شخص ایسابھی ہے جوشب بیدار ی کرتا ہے رات بھر نماز یں پڑھتا ہے ، قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپ نے فرمایا:

نومٌ علیٰ یقین خیرٌمن صلاة فی شکّ (۳)

____________________

۱)تفسیرالمیزان /ج ١/ص ۴١

.۲)تفسیرنماز/ص ٣٩

. ۳)نہج البلاغہ /کلمات قصار/ش ٩٧ /ص ٣٧۶

۲۶۳

اس شخص کا یقین کے ساتھ سونا ان دو قلبی نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے یعنی وہ شخص جو الله اوراس کے رسول کومانتاہومگردل میں آل سے دشمنی رکھتاہوتوخداوندعالم اس کی نمازہرگزقبول نہیں کرتاہے بلکہ ایسے شخص کارات میں نمازیں پڑھنے کے بجائے چین کی نیندسونابہترہے۔

جنگ صفین کے بارے تاریخ کے اوراق اٹھاکردیکھیں تویہی معلوم ہوگاکہ دشمنوں نے نیزوں پرقرآن بلندکررکھے اورناطق ومفسرقرآن سے جنگ کرنے آئے تھے ۔ کرب وبلاکی المناک تاریخ کودیکھیں تواس میں بھی ملے گاکہ جولوگ حضرت امام حسین اور ان کی اولاد واصحاب کو شہیدکرنے کے لئے کربلائے معلی میں یزیدی لشکرمیں موجودتھے وہ سب تارک الصلوة نہیں تھے بلکہ ان میں اکثرنمازی تھے اورجماعت کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے،کیاان سب دشمنان اہلبیت کی نمازقبول ہے؟ہرگزنہیں قبول ہے۔ اہلبیت اطہار کی محبت کے بغیرنمازپڑھناایساہی ہے جیسے کوئی بغیرطہارت کے نمازپڑھتاہے ایک ایرانی شاعرکیاخوب کہاہے:

بہ منکر علی بگو نماز خو د قضاکند نمازبے ولائے اوعبادتی است بی وضو

علی (علیه السلام)کی ولایت سے انکارکرنے والے چاہئے کہ اہلبیت رسول کی ولایت کااقراکرتے ہوئے اپنی نمازی کی قضابجالائے کیونکہ علی کی ولایت کے بغیرنمازپڑھنابغیروضوکے نمازپڑھنے کے مانندہے جس طہارت کے بغیرنمازقبول نہیں ہوتی ہے اسی طرح آئمہ اطہار کی ولایت کے بغیربھی نمازقبول نہیں ہوتی ہے ،فقط وہی نمازقبول ہوتی ہے جسپراہلبیت (علیه السلام)کی ولایت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ولایت اہلیت سے متعلق امام شافعی کاایک مشہور شعرہے:

یا آل رسول الله حبکم فرض من الله فی القرآن انزله کفاکم من عظیم القدرانّکم من لم یصل علیکم لاصلاة له

اے اہلبیت رسالت آپ کی محبت تواس قرآن میں واجب کی گئی ہے جس کوخدانے نازل فرمایاہے اور آپ کی قدرمنزلت کے بارے میں بس اتناجان لیناکافی ہے کہ جوتم پرنمازمیں ) درودنہ بھیجے اس کی نمازہی نہیں ہے ۔(۱)

ابوحازم سے مروی کہ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین سے معلوم کیا: وہ کو نسی چیز ہے جوبارگاہ رب العزت میں نماز کے قبول ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا :

ولایتناوالبرائة من اعدائنا ہماری ولایت ومحبت اور ہما رے دشمنوں سے اظہارنفرت وبیزاری بارگاہ خداوندی میں ) نمازوں کے قبول ہونے کاسبب واقع ہو تی ہے ۔(۲)

____________________

.۱)ینابیع المو دٔة /ج ٢/ص ٣۴٣ .(صواعق محرقہ باب/ ١١ فصل ١ (

۲)مناقب آل ابی طالب /ج ٣/ص ٢٧۴ (

۲۶۴

حضرت امام صادق اس قول خداوندی( اِلَیهِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُه وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَیِّئَاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ) (۱) (پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلندہوتے ہیں اورعمل صالح انھیں بلندکرتاہے اورجولوگ برائیوں کی تدبیرکرتے ہیں ان کے لئے شدیدعذاب ہے )کے بارے میںفرماتے ہیں:

ولاییتنااهل البیت، فمن لم بتولنالم یرفع الله عملا ۔ جوبھی ہماری ولایت کوقبول نہیں کرتاہے اورہماری رہبری پرسرتسلیم خم نہیں کرتاہے خداوندعالم اس کے کسی بھی عمل کوقبول نہیں کرتاہے۔(۳) اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :

من صلی صلاة ولم یصل علیّ فیهاوعلیٰ اهل بیتی لم تقبل منه ۔(۳)

جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔

عن محمدبن مسلم قال:سمعت ا بٔاجعفرعلیہ السلام یقول:کلّ من دان الله بعبادة ) یجہدفیہانفسہ ولاامام لہ من الله فسعیہ غیرمقبول۔( ١ امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص خداپرایمان رکھتاہواورعمدہ طریقہ سے عبادت کرتاہولیکن خداکی طرف سے معین کسی امام صالح کی پیروی نہ کرتاہواس ساری محنت ومشقت بےکارہے اوروہ قبول بھی نہ ہونگی۔(۴)

۵ ۔تقویٰ

نمازقبول ہوے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نمازگزارگناہ کبیرہ وصغیرہ سے دوری کرتاہو،غیبت سے پرہیزکرتاہو،والدین کے حکم کی نافرمانی نہ کرتاہو،مال حرام نہ کھاتاہو،شراب ومسکرات کااستعمال نہ کرتاہو،اپنے دینی بھائیوں سے بغض وحسدنہ کرتاہو،مرداپنی بیوی کواوربیوی اپنے شوہرکواذیت نہ کرتے ہوں،اپنے ہمسایہ کے لئے رنج واذیت کاباعث نہ ہو،ظام وجابرشخص کی ہمایت نہ کرتاہو،وغیرہ وغیرہ ۔

____________________

. ۱)سورہ فاطر/آیت ١٠ )

۲)الکافی /ج ١/ص ۴٣٠

. ۳)الغدیر(علامہ امینی)/ج ٢/ص ٣٠۴

۴)کافی /ج ١/باب معرفت امام (علیه السلام).

۲۶۵

خداوندعالم انسان کے ظاہری عمل کونہیں دیکھتاہے بلکہ اس کے تقویٰ پرہیزگاری کونظرمیں رکھتاہے اب اگرکوئی شخص اپنے دل میں ریاکاری کاقصدرکھتے ہوئے اپنے مال سے خمس نکالے یا اسے لوگوں کے درمیان خیرات کرے یاکسی دوسرے کامال چوری کرکے خمس نکالے یاغریبوں میں تقسیم کرے یہ کام الله کے نزدیک قبولیت کادرجہ نہیں رکھتے ہیں اورنہ ایسے کاموں پروہ شخص کسی اجروثواب کاحق رکھتاہے بس اسی طرح اگرکوئی شخص نمازبھی پڑھتاہے اورگناہوں کابھی مرتکب ہوتاہے ،اپنے ماں باپ کے ساتھ گرم مزاجی سے کلام کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،عزیزواقارب کے ساتھ صلہ رحم نہیں کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،عورت اپنے شوہرکی درآمدسے فائدہ اٹھاتی ہے مگراس کے ساتھ تمکین نہیں کرتی ہے ،اس کی اجازت کے بغیرگھرسے باہرقدم نکالتی ہے یااپنی زبان وغیرہ سے اسے اذیت کرتی ہے اورنمازبھی پڑھتی ہے،یاشوہراپنے زوجہ کے ساتھ بدسلوکی کرتاہے،اسے آزارواذیت دیتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،یاانسان کسی دوسرے کی غیبت کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے،کسی دوسرے پرظلم وستم بھی کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،غیبت بھی کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے دوسروں کی ناموس کوبری نگاہ سے دیکھتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے یاکسی معصوم (علیه السلام)کی قبرمطہر کی زیارت کرتاہے خداایسی نمازوزیارت کوہرگزقبول نہیں کرتاہے پس صاب تقویٰ وپرہیزگارہونادینداری کی پہچان ہے جیساکہ امام رضا فرماتے ہیں: لادینَ لِمن لاوَرَع لہ۔ ) جوشخص ورع وتقویٰ نہ رکھتاہووہ دین بھی نہیں رکھتاہے۔(۱)

نمازقبول نہ ہونے کے اسباب

ایساہرگزنہیں ہے کہ دنیامیں جت نے بھی نمازی ہیں ان سب کی نمازیں بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہیں بلکہ نمازقبول ہونے کچھ ظاہری آداب ہیں اورقلبی آداب ہیں اب جولوگ ظاہری آداب کے علاوہ قلبی آداب کی بھی رعایت کرتے ہیں خداوندعالم ان نمازوں کوقبول کرتاہے لیگن وہ لوگ کہ جن کی نمازیں بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوتی ہیں اورانھیں اپنی نمازوں سے الله سے دوری اوراٹھ بیٹھ لگانے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتاہے ،پس کچھ چیزیں ایسی ہیں جوانسان کی نمازوعبادت کے قبول نہ ہونے کاسبب واقع ہوتی ہیں اورچیزیں کہ جنھیں معصومین نے عدم قبولیت نمازوعبادت کاسبب قراردیاہے یہ ہیں :

____________________

. ۱)کمال الدین وتمام النعمة /ص ٣٧١

۲۶۶

١۔ولایت اہلبیت کامنکرہونا

وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں اہلبیت کی محبت کاچراغ دل میں روشن نہیں رکھتے ہیں توان کی نمازوعبادت ہرگزقبول نہیں ہوتی ہے ،نمازو عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں بےکارہیں۔

وہ نمازجواس کے تمام ظاہری آداب شرائط کے ساتھ انجام دی گئی ہو،قبلہ کی سمت رخ کرکے پڑھی گئی ہو،حمدوسورہ قرائت بھی صحیح طرح کی گئی ہو،رکوع وسجودمیں طمانینہ کابھی خیال رکھاگیاہواوردیگرشرائط کوبھی ملحوظ خاطررکھاگیاہویہاں تک خدارسول پرایمان کے ساتھ انجام دی گئی ہومگراس نمازپراہلبیت کی محبت کی مہرلگی ہو تووہ نمازقبول ہوسکتی ہے چاہے نمازکو کت ناہی خضوع وخشوع کیوں انجام دیاگیاہومگراہلبیت اطہار کی محبت دل نہ ہوتووہ نمازبیکارہے۔

نمازقبول ہونے کے شرائط میں ولایت کوذکرچکے ،ہم نے وہاں پرولایت کے بغیرپڑھی جانے والی کوباطل قراردئے جانے احادیث کوذکرکیاہے اورشافعی کاوہ مشہورشعربھی ذکرکیاہے کہ جس میں انھوں نے صاف طورسے اہلبیت رسول کی محبت کے بغیر پڑھی جانے والی نمازغیرمقبول قراردیاہے لہٰذامطلب کوتکرارکرنے کی ضرورت نہیں ہے

٢۔والدین کی اطاعت نہ کرنا

وہ لوگ جواپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں،ان کاادب احترام نہیں کرتے ہیں اوراپنے والدین کے لئے اذیت کاباعث ہوتے ہیں قرآن کریم میں چندآیات کریمہ میں جہاں الله کی اطاعت کاحکم دیاگیاہے اسی کے فورابعدوالدین کے بھی مقام کوبیان کیاگیاہے یہاں تک کہ والدین کواف تک کہنے سے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے:

( وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَاتَعْبُدُوْااِلَّااِیَّاهُ وَبِالْوِالِدَیْنِ اِحْسَانًااِمَّایَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُهُمَااَوْکِلَاهُمَافَلَاتَقُلْ لَهُمَااُفٍّ وَّلَات نهَرْهُمَاوَقُلْ لَهُمَاقَوْلًاکَرِیْمًاوَاخْفِض لَْهُمَاجَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَاکَمَارَبَّیٰنِیْ صَغِیْراً )

تمھارے پروردگارفیصلہ یہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی عبادت نہ کرنااورماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤکرنااوراگران دونوں میں سے کوئی ایک یادونوں بوڑھے جائیں توخبرداران سے اف بھی نہ کہنااورانھیں جھڑکنابھی نہیں اوران سے ہمیشہ شریفانہ گفتگوکرتے رہنا،اوران کے حق میں دعاکرتے رہناکہ پروردگاران دونوں پراسی طرح رحمت نازل فرماجس طرح کہ انھوں نے بچپنے میں مجھے پالاہے۔(۱)

____________________

. سورہ أسراء /آیت ٢٣ ۔ ٢۴

۲۶۷

اوراحادیث میں بھی والدین کی نافرمانی کرنے کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے خداوندعالم ایسے لوگوں کی کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من نظرالی ابویه نظرماقت وهماظالمان له لم یقبل له صلاته ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں :ہر وہ شخص جو دشمن اور بعض وکینہ کی نظروں سے اپنے ماں باپ کی طرف نگاہ کرتاہے ،خداوندعالم ایسے شخص کی نماز ہر گز قبول نہیں کرتا ہے ، خواہ اس کے والدین نے اپنے فرزند پر ظلم وستم ہی کیوں نہ کئے ہوں۔

٣۔چغلخوری کرنا

وہ لوگ جودوسروں کی غیبت کرتے ہیں ،دوسروں کے پوشیدہ عیوب سے پردہ اٹھاتے ہیں توخداان کی کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے اورجب تک صاحب غیبت اسے معاف نہیں کردیتاہے خدابھی معاف نہیں کرتاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :من اغتاب مسلماًا ؤمسلمة لم یقبل الله صلاته ولاصیامه اربعین یوماًولیلة الّاان یغفرله صابه ۔(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اگرکوئی مسلمان مردیاعورت کسی دوسرے مسلمان کی غیبت کرے توخداوندعالم چالیس روزتک اس کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے مگرکہ جسکی غیبت کی گئی ہے وہ اسسے راضی ہوجائے اوراسے معاف کردے ۔

۴ ۔مال حرام کھانا

وہ لوگ جودوسروں کامال کھاتے ہیں خدوندعالم ان کی نمازقبول نہیں کرتاہے، خواہ مال کو چوری کیاگیاہویاغصب کیاگیا،یاکسی جگہ پڑاہوامل گیاہو ہوچاہے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :

اَلْعِبَادَةُ مَعَ اَکْلِ الْحَرَامِ کَاْ لبِنَاءِ عَلیَ الرَّ مْلِ.

مال حرام کھانے والے لوگوں کی عبادت ریگ پر گھر تعمیر کرنے کے مانند ہے ۔(۴)

____________________

. ۱)کافی /ج ٢/ص ٣۴٩

.۲)خصال شیخ صدوق /ص ١٢٣

. ۳)بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٨ )

۲۶۸

۵ ۔نمازکوہلکاسمجھنا

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا کی قسم ! اس سے بڑھ کر اور کیا گناہ ہو سکتا ہے کہ ایک مرد کی عمرپچاس ہوگئی ہے مگر خدا نے ابھی تک اس کی ایک بھی نماز قبول نہیں کی ہے ، خدا کی قسم تم بھی اپنے بعض دوست اور عزیرو ہمسایہ کو جانتے ہیں کہ اگر وہ تمھارے لئے نماز پڑھیں تو ہر گزان کی نماز قبول نہیں کرو گے کیونکہ انھوں نے بے توجہّی کے ساتھ میں نمازپڑھی ہے جب تم اس نماز کو قبول نہیں کر سکتے ہو تو خداکیسے قبول کر سکتاہے جنکو انسان ہلکا اور آسان سمجھ کر انجام دیتا ہے؟۔

۶ ۔شراب ومسکرکااستعمال کرنا

عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من شرب الخمرلم یقبل الله لہ صلاة اربعین یوما. امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص شراب پیتاہے خداوندعالم چالیس روزتک اس کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے ۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: من شرب مسکرا لم تقبل منه صلاته اربعین یوما فان مات فی الاربعین مات میتة جاهلیة ، وان تاب تاب الله عزوجل علیه .

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسکرات کااستعمال کرتاہے چالیس روزتک اس کی قبول ہونے سے رک جاتی ہے ،اگروہ ان چالیس روزکے درمیان انتقال کرجائے توجاہلیت کی موت مرتاہے ،ہاں اگروہ توبہ کرتاہے توخداوندعالم اس توبہ قبول کرلیتاہے ۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: مدمن الخمریلقی الله کعابدوثن .

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص شراب ونشے کے عالم میں خداسے ملاقات کرتاہے اوراس کی عبادت کرتاہے وہ بت پرست کے مانندہے ۔(۳)

____________________

.۱) کافی /ج ۶/ص ۴٠١ ۔تہذیب الاحکام /ج ٩/ص ١٠٧

۲)کافی/ج ۶/ص ۴٠٠

۳). کافی /ج ۶/ص ۴٠۴

۲۶۹

حسین ابن خالدسے مروی ہے:میں نے امام رضاسے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی اس حدیث کے بارے میں پوچھاکہ جسمیں انحضرت فرماتے ہیں:انّ من شرب الخمرلم یحتسب صلاته اربعین صباحاً.

شراب پینے والے شخص کی چالیسشبانہ روزتک کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے امام (علیه السلام)نے جواب دیا:یہ حدیث صحیح ہے ،میں نے کہا:شرابی کے چایس روزکیوں معین کئے گئے ہیں ،اس سے کم یازیادہ کیوں نہیں؟امام (علیه السلام) نے جواب دیا: کیونکہ خداوندعالم نے انسان کے لئے چالیس روزمعین کررکھے ہیں،جب انسان کانطفہ رحم مادرمیں قرارپاتاہے توچالیس تک نطفہ رہتاہے اس کے بعدچالیس روزتک علقہ رہتاہے ،پھرچالیس روزتک مضغہ رہتاہے اسی طرح شرابخورکے منہ سے بھی چالیس روزتک شراب کی بدبوباقی رہتی ہے لہٰذاچالیسروزتک اس کی کوئی بھی نمازقبول نہیں ہوتی ہے۔(۱)

٧۔حاقن وحاقب

عن اسحاق بن عمار ، قال : سمعت اباعبدالله علیہ السلام یقول : لاصلاة لحاقن ولالحاقب ولالحاذق والحاقن الذی بہ البول ، والحاقب الذی بہ الغائط والحازق بہ ضغطة الخف اسحاق ابن عمارسے مروی ہے کہ امام صادق فرماتے ہیں:حاقن وحاقب اورحاذن کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے ، حاقن وہ شخص کہ جوپیشاب کوروکے رکھے،حاقب وہ شخص کہ جوغائط کوروکے رکھے ،اورحازق اس شخص کوکہتے ہیں جودونوں پیروں کوایک دوسرے سے ملائے رکھے ۔(۲)

٨۔ خمس وزکات نہ دینا

قرآن کریم میں متعددآیتوں میں زکات اداکرنے کو قیام نماز کے پہلو میں ذکر کیا گیا ہے: سورہ بٔقرہ /آیت ١١٠ ۔ ۴ ٣ ۔ ٢٧٧ حج/ ۴ ١ ۔ ٧٨ توبہ/ ١١ ۔ ١٨ ۔ ٧١ ۔ مائدہ / ۵۵ نمل/ ٣. لقمان/ ۴ مریم/ ٣١ ۔ ۵۵ انبیاء/ ٧٣ نساء/ ٧٧ ۔ ١ ۶ ٢ نور/ ۵۶ بینہ/ ۵. اوران آیتوں کے علاوہ بعض دیگر آیتوں میں نمازکوانفاق کے ساتھ ذکرکیاگیاہے۔

اور متعدد احادیث میں آیا ہے کہ جولوگ اپنے مال سے زکات نہیں نکالتے ہیں ان کی نماز قبول نہیں ہو تی ہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاتقبل الصلاة الّابالزکٰوة ۔(۳) رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرما تے ہیں : زکات اداکئے بغیر نماز قبو ل نہیں ہے۔

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ٢/ص ٣۴

.۲) معانی الاخبار/ص ٢٣٧

۳)منہج الصادقین /ج ۶/ص ٢٠٣

۲۷۰

٩۔گناہ ومنکرات کوانجام دینا

عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهِ اَنّهُ قَالَ:لاصلاة لمن لم یطع الصلوة وطاعة الصلوة ان ینتهی عن الفحشاء والمنکر ۔(۱)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص مطیع نماز نہ ہو اس کی نمازہی نہیں ہے اور گناہوں ومنکرات سے دوری اختیا ر کرنے کواطاعت نماز کہاجاتا ہے۔

عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهِ اَنّهُ قَالَ:مَن لَم ت نهه صَلاتَهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِلَم یَزِدْمِن اللهِ اِلّابُعداً ۔(۲)

جس کی نمازاسے بدی ومنکرات سے دورنہیں رکھتی ہے اسے اللھسے دوری کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتی ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: من احب ان یعلم ا قٔبلت صلاته ا مٔ لم تقبل فلینظرهل منعته صلاته عن الفحشاء والمنکرفبقدرمامنعته قبلت منه ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: اگر کوئی دیکھنا چا ہتا ہے کہ اس کی نماز بارگاہ خدا وندی میں قبول ہوئی ہے یا نہیں تو اس چیز کودیکھے کہ اس کی نمازنے اسے برے کام اور گنا ہوں سے دور رکھا ہے یانہیں کیو نکہ جس مقدا ر میں وہ نماز کی وجہ سے گنا ہوں سے دور رہتا ہے اسی مقدارکے مطابق اس کی نمازبار گاہ باری تعالیٰ میں قبول ہوتی ہے ۔

١٠ ۔مومنین سے بغضوحسدرکھنے والے

بہت سے نمازی ایسے بھی جومتقی وپرہیزگارلوگوں سے اس وجہ سے بغض وحسدرکھتے ہیں وہ لوگوں کے درمیان عزّت وشرف اورمقبولیت کیوں رکھتے ہیں اورہم کیوں نہیں رکھتے ہیں لہٰذااس سے دشمنی کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے بارے میں خداوندعالم حدیث قدسی میں حضرت داؤد سے ارشادفرماتاہے:

____________________

. ۱)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢

۲)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢

۳)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢.

۲۷۱

وربماصلی العبدفاضرب بهاوجهه واحجب عنی صوته ،ا تٔدری مَن ذلک ؟یاداو دٔ!ذاک الّذی یکثرالالتفات الی حرم المومنین بعین الفسق وذاک الّذی یُحدّث نفسه اَنْ لووُلّیَ ا مٔراًلضرب فیه الرقاب ظلماً ۔

کت نے بند ے ایسے ہیں کہ جو نماز پڑھتے ہیں مگران کی نماز وں کو انھیں کے منہ پہ مار دیتاہوں اور اپنے اوراس کی نماز و دعاکی آواز کے درمیان ایک پر دہ ڈالدیتا ہوں ، اے داو دٔ ! کیا تم جانتے ہو وہ بند ے کون ہیں ؟اے داؤ د سنو!یہ وہ نمازی ہیں جو مو من بندوں کی عزّ ت وشرف وعصمت کو جرم و گنا ہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خود سے کہتے ہیں : اگر مجھ میں ہمت و قدرت پیدا ہو گئی تو ظلم و جفا کے سا تھ ان لوگوں کی گرد نیں کاٹ کررکھ دوں گا ۔

قابیل اپنے بھائی سے بغض وحسدرکھتاتھاکہ جس کے نتیجہ میں خدانے اس کی قربانی کوقبول نہیں کیا،خداوندعالم قرآن کریم میں حضرت آدمکے ان دونوںفرزندکی داستان اس طرح بیان کرتاہے:

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْقَرََّبَاقُرْبَانًا ، فَتَقَبَّلَ مِنْ اَحَدِهِمَاوَلَمْ یَتَقَبَّلُ مِنَ الاٰخَرِ، قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنّمَایَتَقَبَّلُ اللهَ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ )

پیغمبر!آپ ان کوآدم کے دونوںفرزندوں کاسچاقصہ پڑھ کرسنائیےکہ جب دونوں نے راہ خدامیں قربانی پیش کی توہابیل کی قربانی قبول ہوگئی اورقابیل کی قربانی ردکردی گئی توشیطان نے قابیل کے دل میں حسدآگ بھڑکادی اورقابیل نے ہابیل سے کہا:میں تجھے قتل کردوں گا،ہابیل نے جواب دیا:میراکیاقصورہے خداصرف صاحبان تقویٰ کی اعمال قبول کرتاہے۔(۱)

١١ ۔موذی عورت ومرد

وہ عورتیں جواپنے شوہرکے لئے اذیت کاباعث ہوتی ہیں،اورہ وہ عورت جواپنے شوہرکے لئے عطروخوشبوکااستعمال نہیں کرتی ہے اورجب کسی شادی ومحفل میں جاتی ہے یاگھرپہ کوئی مہمان آتاہے توخوشبوکااستعمال کرتی ہے اورعمدہ لباس پہنتی ہے مگراپنے شوہرکے لئے ایساکچھ نہیں کرتی ہے توخداوندعالم اس کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے ،اگرایساکرتاہے تویہی حکم اس کابھی ہے

امام صادق فرماتے ہیں:وہ عورت جو(بسترپہ )سوجائے اوراس کاشوہراس سے برحق ناراض ہوتوخداوندعالم اس عورت کی کوئی جب تک اس شوہراس سے راضی نہ ہوجائے کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے اوروہ عورت کہ جواپنے شوہرکے علاوہ کسی دوسرے کے لئے خوشبولگائے توخداوندعالم ایسی عورت کی بھی کوئی نمازاس وقت تک قبول نہیں کرتاہے جب تک وہ اس خوشبوکاایسے غسل نہیں کرلیتی جس طرح جنابت کاغسل کرتی ہے(۲)

____________________

.۱) سورہ مٔائدہ /آیت ٢٧

.۲)۔من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/ص ۴۴٠ / کافی /ج ۵٠٧

۲۷۲

اوراسی طرح وہ مردجواپنی زوجہ کواذیت کرتے ہیں، خداوندعالم ان عورت مرودوں کی نمازیں قبول نہیں کرتاہے جیساکہ روایت میں آیاہے:

رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : وہ عورت جو اپنے شوہر کواذیت پہنچاتی ہے ،خداوندعالم ایسی عورت کی کوئی نمازاورنیک عمل اس وقت قبول نہیں کرتاہے جب تک وہ اپنے شوہرکوراضی نہیں کرلیتی ہے ،خواہ وہ ایک زمانے تک روزے رکھے اورراہ خدامیں جہادکرے اورراہ خدامیں کت ناہی مال خرچ کرے ،ایسی عورت کوسب سے جہنم میں ڈالاجائے ، اس کے بعدرول اکرم (صلی الله علیه و آله)ے نے فرمایا:مردکابھی یہی حکم ہے اوراس کابھی یہی گناہے ۔(۱)

١٢ ۔ہمسایہ کواذیت پہنچانا

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانے میں ایک مسلمان خاتوں جوروزانہ روزے رکھتی تھی اور رات بھر نماز وعبادت کرتی تھی لیکن بہت زیادہ بداخلاق تھی اور اپنی زبان سے ہمسایوں کو آزار واذیت پہنچاتی تھی

ایک دن لوگوں نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے کہا: یا رسول الله! فلاں عورت دنوں میں روزہ رکھتی ہے ،راتوں میں نماز وعبارت میں مشغول رہتی ہے لیکن اس میں ایک عیب یہ پایاجاتاہے کہ وہ بد اخلاق ہے اوراپنی زبان سے پڑوسیوں کواذیت پہنچاتی ہے تورسول اکرم نے فرمایا:

لَاْخَیْرَفیها،هِیَ مِنْ اَهْلِ النار ۔

ایسی عورت کے لئے کو ئی خیر و بھلائی نہیں ہے اوراہل جہنم ہے اس بعدلوگوں نے کہا:ایک فلاں عورت ہے جو(فقط)پنجگانہ نمازیں پڑھتی ہے اور(فقط)ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھتی ہے اوراپنے پڑوسیوں کواذیت بھی نہیں پہنچاتی ہے تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

هی من اهل الجنة.

وہ عورت اہل بہشت ہے۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ /ج ١۴ /ص ١١۶

.۲) مستدرک الوسائل/ج ٨/ص ۴٢٣

۲۷۳

امام علی رضافرماتے ہیں :خداوندعالم نے تین چیزوں کوتین چیزوں کے ساتھ بجالانے کاحکم دیاہے:

١۔ نمازکوزکات کے ساتھ اداکرنے کاحکم دیاہے، پس جوشخص نمازپڑھتاہے اورزکات نہیں نکالتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے.

٢۔ خدانے اپناشکربجالانے کووالدین کاشکراداکرنے کے ساتھ حکم دیاہے ،پس جوشخص والدین کاشکرنہیں کرتاہے جب بھی خداکاشکرکرتاہے خدااس کاشکرقبول نہیں کرتاہے ۔ ٣۔ تقویٰ اورپرہیزگاری کوصلہ رحم کے ساتھ حکم دیاہے پس جوشخص صلہ رحم نہیں ) کرتاہے خدااس کے تقویٰ وپرہیزگاری کوقبول نہیں کرتاہے۔(۱)

حضرت امام صادق سے مروی ہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:آٹھ لوگوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتی ہیں:

١۔ وہ غلام جواپنے مالک سے فرارہوگیاہوجب تک وہ اپنے مولاکے پاس لوٹ کرنہیں آتاہے اس کی کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے

٢۔ وہ عورت جوکہ ناشزہ ہے اوراس کاشوہراس پرغضبناک رہتاہے۔

٣۔ جولوگ زکات ادانہیں کرتے ہیں۔

۴ ۔جولوگ بغیروضوکے نمازپڑھتے ہیں۔

۵ ۔وہ بچّیاں جوسرچھپائے بغیرنمازپڑھتی ہیں۔

۶ ۔ وہ شخص کہ جولوگوں کے لئے امامت کے فرائض انجام دے مگرمومنین اسے پسندنہ کرتے ہوں اوراس امام سے کوئی رغبت نہ ر کھتے ہوں (لیکن وہ امام جماعت اپنی عزّت وآبرو کی وجہ سے مسجد کو ترک کرنے کے لئے حاضر نہ ہوجسکانتیجہ یہ ہوگاکہ ہرزوزمسجد میں آنے والے مومنین کی تعداد کم ہوتی جائے گی اور ایک دن وہ بھی آجائے گا کہ مسجد میں اس کے پیچھے کے لئے کوئی شخص نہیں آئے )۔

٧۔ ٨۔ زبین لوگ:نبی اکرمسے پوچھاگیا:یارسول اللھیہ کون لوگ ہیں ؟آنحضرت نے جواب دیا: وہ لوگ جو نماز کی حالت میں اپنے پیشاب وپاخانہ یا ریح کو روکے رکھتے ہیں( جس کی وجہ سے جسمانی امراض پیداہوجاتے ہیں ،یہ کام جسم کی سلامتی کوخطرہ میں ڈالنے کے علاوہ نماز کے تمرکز کو بھی خراب کردیتے ہیں اور نماز میں حضورقلب بھی نہیں پایاجاتا ہے )یہ ) آٹھ لوگ ہیں کہ جن کی نمازیں قبول نہیں ہوتی ہیں ۔(۲)

____________________

. ۱)خصال (شیخ صدوق) /ص ١٢٣

۲)معانی الاخبار(شیخ صدوق)/ص ۴٠۴

۲۷۴

حضرت امام صادق فرماتے ہیں :چارلوگوں کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے: ١۔ظالم وستمکارپیشوا ۔ ٢۔وہ مردجوکسی گروہ کی امامت کرتاہواوروہ لوگ اسے پسندنہ کرتے ہوں ٣۔وہ غلام جوبغیرکسی عذرومجبوری کے اپنے آقاسے فرارہوگیاہو۔ ۴ ۔وہ عورت جواپنے شوہرکی اجازت کے گھرسے باہرجاتی ہو۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں :تین لوگوں کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے:

١۔ وہ غلام جواپنے مالک سے فرارہوگیاہو،جب تک وہ لوٹ کراپنے ہاتھوں کواپنے مولاہاتھوں پہ نہیں رکھ دیتاہے اس کی کوئی نمازفبول نہیں ہوتی ہے

٢۔ وہ عورت جو(بسترپہ)سوجائے اوراس کاشوہراس سے ناراض ہو

٣۔ وہ شخص جوکسی جماعت کی امامت کررہاہواوروہ لوگ اسے پسندنہ کرتے ہوں(۱)

ترک نماز

کسی بھی حال میں نمازکاترک کرناجائزنہیں نمازکی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائداوراس کے واجب ہونے کے بارے میں ذکرکی گئی آیات قرآنی واحادیث معصومین سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی بھی حال میں اس کاترک کرناجائز نہیں ہے اورجس صورت میں ممکن ہوسکے اورجس مقدارمیں بھی ممکن ہوسکے نمازپڑھی جائے اورانسان جس طرح سے مضطرہوتاجائے اسی کے اعتبارسے نمازمیں بھی تخفیف ہوتی ہوتی رہے ۔

عبدالرحمن ابن ابی عبداللھسے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے دریافت کیا:اگرآپ سواری حالت میں ہیں یاپیدل ہیں اورکسی چیزکاخوف ہے توکس طرح نمازپڑھیں گے ؟اورمیں نے پوچھا: اگرکسی کوچوریادرندہ کاخوف ہے تووہ کسی طرح نمازپڑھے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:

یکبرویومی براسه ایماء

وہ شخص تکبیرکہے اوراپنے سرکے اشارے سے نمازپڑھے۔(۲)

____________________

۱).۵/ کافی /ج ۵٠٧

۲). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٣٠٠

۲۷۵

اگرکوئی شخص کسی درندہ وغیرہ کے چنگل میں پھنسجائے گیاہے اورنمازکاوقت بھی ہوتو اس صورت میں بھی نمازکاترک کرناجائز نہیں ہے بلکہ حسب امکان نمازکاپڑھناواجب ہے خواہ آنکھوں کے اشارہ ہی سے نمازپڑھے لیکن نمازکاترک کرناجائزنہیں ہے۔ روایت میں آیاہے کہ علی ابن جعفر (علیه السلام)نے اپنے بھائی امام موسیٰ کاظم سے دریافت کیا: اگر کوئی شخص کسی حیوان درندہ کے چنگل میں گرفتار ہوجائے اور بالکل بھی حرکت نہ کرسکتا ہو اور نماز کا وقت پہنچ گیا ہواوروہ اس درندہ کے خوف کی وجہ سے بالکل بھی حرکت نہ کرسکتاہو،اگروہ کھڑے ہوکرنمازپڑھے تورکوع وسجودکی حالت میں اس کااورزیادہ خطرہ ہے اوروہ شخص سمت قبلہ بھی نہ ہواب اگروہ اپنے چہرے کوقبلہ کی سمت کرے توپھربھی خطرہ ہے کہ وہ درندہ پیچھے سے حملہ کردے گاتواس صورت میں وہ شخص کیاکرے اورکسی طرح نمازپڑھے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:یصلی ویومی راسه ایماء وهوقائم وان کان الاسدعلی غیرالقبلة. ایسے موقع پر اس شخص کا وظیفہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکرنمازپڑھے اورسرکے ذریعہ رکوع وسجودکی طرف اشارہ کرتارہے خواہ وہ شیرپشت بہ قبلہ ہی کیوں نہ ہو۔(۱) سماع ابن مہران سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے دریافت کیا:وہ شخص جومشرکین کے ہاتھوں گرفتارہوجائے اورنمازکاوقت پہنچ جائے اوراسے خوف ہوکہ یہ مشرک مجھے نمازنہیں پڑھنے سے منع کریں گے تووہ کیاکرے اورکس طرح نمازپڑھے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:

یومی ایماء . وہ شخص فقط شارہ سے نمازپڑھے۔(۲)

قال ابوعبدالله علیه السلام:من کان فی مکان لایقدرعلی الارض فلیو مٔ ایماء . اما م صادق فرماتے ہیں:اگرکوئی کسی جگہ میں گرفتارہوجائے وہ زمین پرنہ ٹھہراہوبلکہ (پانی غرق ہورہاہویاصولی پرلٹکاہو)تووہ اشارہ سے نمازپڑھے۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :مریض شخص کوچاہئے کہ کھڑے ہوکر نمازپڑھے اوراگرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتاہے توبیٹھ کرنمازپڑھے ،اگربیٹھنے سے بھی مجبورہے تودائیں کروٹ لیٹ کرنمازپڑھے اوراگردائیں کروٹ نہ لیٹ سکتاہو توبائیں کروٹ لیٹ کر نمازپڑھے اوربائیں کروٹ بھی نہیں لیٹ سکتاہے توسیدھالیٹ کرنمازپڑھے اوراپنے چہرے کوقبلہ کی سمت رکھے اور(رکوع سجودوغیرہ کواشارہ کے ذریعہ انجام دے )جب سجدہ کے لئے اشارہ کرے توجت نااشارہ رکوع کے لئے کیاتھااسسے تھوڑازیادہ اشارہ کرے۔(۴)

____________________

. ١)کافی/ج ٣/ص ۴۵٩

۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴۶۴

۳) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ١٧۵

. ۴)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣۶٢

۲۷۶

امام صادق فرماتے ہیں:مریض شخص کوچاہئے کہ کھڑے ہوکر نمازپڑھے اوراگرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتاہے توبیٹھ کرنمازپڑھے ،اگربیٹھنے سے بھی مجبورہے تولیٹ کرنمازپڑھے،تکبیرکہے اورقرائت کرے ،جب رکوع کرنے کاراداہ کرے تواپنی آنکھوں کوبندکرے اورتسبیح کرے ،جب تسبیح کرلے توآنکھوں کوکھولے جورکوع سے بلندہونے کااشارہ ہے اورجب سجدہ کرنے کاارادہ کرے توآنکھوں کوبندکرے اورتسبیح کرے اس کے بعدآنکھوں کوکھولے جوسجدہ سے سربلندکرنے کااشارہ ہے (گویاہررکعت کواشارہ سے پڑھے )اس کےبعدتشہدوسلام پڑھے اورنمازکوتمام کرے ۔(۱)

عمربن اذینہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کی خدمت میں ایک خط لکھااورپوچھاکہ اس مرض کی حدکیاہے کہ جس کی وجہ سے انسان روزہ کوافطارکرسکتاہے اوروہ مرض کہ جس کی وجہ انسان کھڑے ہوکرنمازپڑھنے کوترک کرسکتاہے اس کی حدکیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:

بل انسان علیٰ نفسه بصیرة،ذاک هوا عٔلم بنفسه ۔

)اس کی کوئی حدنہیں ہے بلکہ)ہرانسان اپنے نفس کے بارے میں خودجانتاہے اورمرض کیمقدارکوتشخیص دیناخودمریض سے مربوط ہے ،وہ اپنے مرض کے بارے میں زیادہ علم رکھتاہے (کہ میں کت نامریض ہوں،کھڑے ہونے کی قدرت ہے یانہیں ،بیٹھنے کی ہمت ہے یانہیں )۔(۲)

معصومین کی تاریخ میں جنگ کے چندواقعات ایسے ملتے ہیں کہ انھوں نے جنگ جیسے پرآشوب ماحول میں بھی نمازکوترک نہیں کیااورمسلمانوں کودرس دے دیاکہ دشمن سے سے نبردآزمائی کے وقت بھی نمازکاترک کرناجائزنہیں ہے ۔ امام علی ابن ابی طالبکی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ آپ جنگ صفین میں دشمنان اسلام سے جنگ کررہے تھے کہ اچانک سورج کی طرف دیکھنے لگے ،ابن عباس نے کہا:یاامیرالمومنین ! یہ آپ کیاکررہے ہیں ؟حضرت علینے جواب دیا:اَنْظُرُاِلَی الزَّوَالِ حتّی نُصَلِّی ”میں دیکھ رہاہوں کہ ابھی ظہرکاوقت ہواہے یانہیں تاکہ(معمول کے مطابق اورہمیشہ کی طرح اول وقت )نمازاداکروں،ابن عباس نے تعجب سے کہا:کیایہ نمازکاوقت ہے؟اس وقت ہم اسلام کے دشموں سے جنگ میں مشغول ہیں، اگرہم نے جنگ سے ہاتھوں کوروک لیاتودشمن ہم پرغالب آجائیں گے ،مولائے کائنات نے جواب دیا: ”علیٰ مانقاتلهم ؟انّمانقاتلهم علی الصلاة ”ہماری ان سے کس لئے جنگ ہورہی ہے ؟بے ) شک اسی نمازہی کے لئے توان سے جنگ ہورہی ہے ۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ۴١١ ۔من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣۶١ ۔تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١۶٩

. ۲)استبصار/ج ٢/ص ١١۴

.۳)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ١٧٩

۲۷۷

تاریخ کربلامیں یہی ملتاہے ہے کہ امام حسین نے دشمنوں کے نرغہ میں جنگ کے درمیان بھی نمازکوترک نہیں بلکہ نمازوعبادت ہی وجہ سے دشمنوں سے ایک رات کی مہلت طلب کی تھی ،کرب سے ایک درس یہ بھی ملتاہے کہ دشمن کے نرغہ میں گھرجانے بعدنمازکاترک کرناجائزنہیں ہے

نواسہ رٔسول سیّد الشہداء حضرت اباعبدالله الحسیننے اسی نمازاوردین اسلام ناناکی قبرسے رخصت ہوئے ،بھائی کی قبرکوالوداع کہا،اور ٢٨ /رجب کوایک چھوٹاساکاروان لے کرمکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن جب امام حسیننے حالات ایسے دیکھے کہ یہ دنیامیرے خون کی پیاسی ہے اورامام(علیه السلام) نہیں چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ نبی کے نواسہ کے خون سے رنگین ہوجائے لہٰذاکربلاکی طرف رخ کیااوردومحرم الحرام کوخاک کربلاپروارد ہوئے، ہرطرف سے دشمنوں کے لشکرپہ لشکرآنے لگے ،لاکھوں کے تعدامیں میں تیر،تلوار، نیزے وغیرہ ہاتھوں میں لئے ہوئے رسول کے مختصرسے کنبہ کاخاتمہ کردینے کے لئے تیارکھڑے ہیں ، ٩/محرم کی شام آئی توامام حسیننے ( جونمازومناجات کوبہت ہی زیادہ دوست رکھتے تھے )دشمنوں سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ زندگی کی آخری رات اصحاب باوفاکے ساتھ نمازوعبادت میں گذاریں،شب عاشورامام (علیه السلام)کے صحابی نمازودعامیں مشغول تھے ،کوئی رکوع میں تھا،توکوئی سجدہ میں گڑگڑارہاتھا،دشمن نے بھی اس بات کااقرارکیا ہے کہ حسین (علیه السلام)کے خیموں سے شہدکی مکھیوں کی آوازکے مانند پوری رات نمازومناجات کی آوازیں بلندتھیں

جب صبح عاشورنمادارہوئی توشبیہ رسول حضرت علی اکبرنے اذان کہی اورتمام دوستداران اہلبیت نے امام (علیه السلام)کی اقتدامیں نمازصبح اداکی ،نمازکے بعدامام (علیه السلام)جنگ کے لئے تیارکیانے وہ وقت بھی آیاکہ عمرابن سعدنے چلہ کمان میں تیرلگایااور خیام حسینی کی طرف پرتاب کرتے ہوئے کہا:اے لوگو!گواہ رہنامیں نے پہلاتیرچلایاہے ،یہیں سے دشمن کی طرف سے جنگ کاآغازہوا۔

اصحاب امام (علیه السلام)یکے بعدیگرے امام حسین کی خدمت میں آتے اوراذن جہادلے کرمیدان کارزارمیں جاتے اورجام شہادت پیتے رہے اورامام (علیه السلام)لاشے اٹھاکرلاتے رہے ،جب ظہرکاوقت پہنچاتواپنے ساتھیوں کوحکم دیاکہ نمازظہرکااہتمام کیاجائے

۲۷۸

علامہ مجلسی “بحارالانوار” میں لکھتے ہیں:کتاب ابوثمامہ صیداوی نے جب یہ دیکھا کہ اصحاب امام (علیه السلام)یکے بعد دیگر ے میدان کا رزار میں جاکر اپنی شجاعت کے جوہر دکھا رہے ہیں اور درجہ شٔہادت پر فائز ہورہے ہیں تو امام حسین کی خدمت میں اکر عرض کیا : یا اباعبد الله ! میں آپ پر قربان جاؤں دشمنوں کے لشکر بالکل قریب آگئے ہیں اس سے پہلے کہ وہ آپ پر کوئی حملہ کریں میں قربان ہوجاؤں اوراب چو نکہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں چاہتا ہو ں کہ پہلے نماز پڑھوں اور اس کے بعد شہید ہو جاؤ ں امام (علیه السلام) نے فرمایا : تم نے نماز کو یاد کیا خدا تم کو نماز گزار وں میں سے قرار دے ،امام (علیه السلام)ابوثمامہ سے کہا: اے ابو ثمامہ ! نمازکااول وقت ہے لہٰذاتم دشمنوں سے کہوکہ وہ ہم کوہمارے حال پرچھوڑدیں (اورجنگ بندکردیں تا کہ ہم نماز پڑھ سکیں)ابوثمامہ نے جیسے ہی یہ پیغام دشمن تک پہنچا یاتو حصین بن نمیربولا :تمہاری نماز قبول نہیں ہے،حبیب ابن مظاہرنے فوراً جواب دیا : اے خبیث ،کیا تو گمان کرتا ہے کہ فرزندرسول کی نماز قبول نہیں ہے اورتیری نمازقبول ہے ؟یہ جواب سن کرحصین نے حبیب پرحملہ کیا،پھرحبیب نے بھی اس پرحملہ شروع کردیااورتلوار سے اس کے گھوڑے کامنہ کاٹ ڈالا.

زہیر ابن قین اور سعید ابن عبد اللھ حنفی،ہلال بن نافع اورچنددیگرصحابی دشمنوں کے وحشیانہ ہجوم سے مقابلہ کرنے کے لئے دیواربن کر امام (علیه السلام)کے آگے کھڑے ہوگئے اس کے بعد امام (علیه السلام) نے اپنے آدھے صحابیوں کے ساتھ نمازظہرشروع کی چونکہ آپ نرغہ أعداء میں تھے اسلئے نمازخوف بجالائے۔(۱)

تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ:جب امام (علیه السلام)نے نمازشروع کی توسعید ابن عبدالله حنفی حضرت امام حسین کے آگے کھڑے ہوئے اوردشمن کی طرف سے آنے والے ہر تیرکو اپنے سینے پر کھاتے رہے ،جس طرف بھی کوئی تیرآتا تھافوراً آگے بڑھ کراسے اپنے سینہ پرکھالیاکرتے تھے اوراپنے آپ کو سپر قرار دیتے تھے ،اسی طرح امام (علیه السلام)کی حفاظت کرتے رہے یہاں تک کہ پے درپے بہت زیادہ تیر کھانے کے بعد اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اورزمین پر گرنے کے بعد کہ رہے تھے:

پروردگارا!قوم عادوثمودکے عذاب کو ان دشمنوں پر نازل کرد ے اور اپنے رسول کی خدمت میں میرا سلام پہنچا .اور جوکچھ دردوزخم مجھ تک پہنچے ہیں ان کی بھی اپنے رسول کوخبر دے اور میں تیر ے رسول کے نواسہ کی مدد کے بدلے میں اجروثواب کا خواہشمند ہوں اس کے بعدسعیدابن عبدالله کی روح بار گاہ ملکو تی کی طرف پرواز کر گئی اور حالت یہ تھی کہ نیزہ اور شمشیر کے زخموں کے علاوہ ١٣ / تیر بدن میں پیوست تھے۔(۲)

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ۵۴ /ص ٢١

. ٢)مقتل الشمس/ص ٢١٧ ۔ ٢١٨

۲۷۹

تار ک الصلاة کاحکم

تارک الصلاة کافرہے

تارک الصلاة لوگوں کے دوگروہ ہیں کچھ بے نمازی ایسے ہیں جونمازکے واجب ہونے سے انکارکرتے ہیں اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نمازواجبات دین میں سے نہیں ہے ،وہ لوگ جوعمدانمازترک کرتے ہیں اورنمازسے کسی اجروثواب کی امیدنہیں رکھتے ہیں اورترک نمازکے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتے ہیں وہ مسلمان کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں اورمرتدو کافربن جاتے ہیں اوریہودی ،یانصرانی یامجوسی کی موت مرتے ہیں۔

منکرنمازایساہے کہ گویا اس نے حکم قرآن کے برخلاف ایک نیاحکم وضع کیاہے اوراسنے حلال خداکوحرام اورحرام خداکوحلال قراردیاہے لہٰذادین اسلام سے خارج ہوجاتاہے اوروہ اس طغیانی اورسرکشی کی وجہ سے عذاب وعقاب کامستحق ہے ،اس بات کوسب جانتے ہیں کہ خدانے شیطان کواپنی بارگاہ سے اس لئے نکالاتھاکہ اس نے الله کاحکم کوماننے سے انکارکردیاتھااورصرف انکارسجدہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے لعنت کاطوق اس کی گردن میں پڑگیا۔

نمازکے واجب ہونے سے انکارکرنے والوں کاحکم یہ ہے کہ ایسے لوگ کافراورمرتدہیں ،ان کابدن پاک نہیں ہے بلکہ وہ لوگ نجس ہیں ،دین اسلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے ،اگرکوئی مسلمان منکرنمازکو قتل کردے تواس کاقصاص نہیں ہے لیکن چونکہ خدادنیامیں سب پراپنا رحم وکرم نازل کرتاہے اس لئے وہ دنیامیں آرام سے زندگی بسرکرتاہے لیکن عالم برزخ وآخرت میں سخت عذاب الٰہی میں مبتلاہوگااورہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتارہے گاجیساکہ قران میں ارشادخداوندی ہے:

( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْاوَکَذَّبُوْابِاٰیٰت نآاُوْلٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِهُمْ فِیْهَاخَالِدُوْنَ ) (۱) جولوگ کافرہوگئے اورانھوں نے ہماری نشانیوں کوجھٹلادیاوہ جہنمی ہیں اورہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔

کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جونمازکوواجب سجھتے ہیں لیکن چندعلل واسباب کی بناء پر(جنھیں ہم ذکرکریں گے)نمازکوبہت ہی آسان اورہلکاسمجھتے ہیں اورنمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے ،اس کے اداکرنے میں لاپرواہی کرتے ہیں ،نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں ،اوراصلاًنمازنہیں پڑھتے ہیں یاایک دن پڑھتے ہیں اوردوسرے دن ترک کردیتے ہیں یاایک وقت پڑھتے اوردوسرے وقت کی قضاکردیتے ہیں اورقضاکی ہوئی نمازوں کوانجام دینے کی فکربھی نہیں کرتے ہیں

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ٣٨

۲۸۰