نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار21%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173973 / ڈاؤنلوڈ: 4522
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نمازاورحضرت ادریس

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی کان یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعاالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه .(١)

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جس میں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھے جوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔

نمازاورحضرت نوح

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:کان شریعة نوح علیه السلام ا نٔ یعبدالله بالتوحید والاخلاص وخلع الاندادوهی الفطرة التی فطرالناس علیهاواخذمیثاقه علی نوح علیه السلام والنبیین ا نٔ یعبدوالله تبارک وتعالی ولایشرکوا به شیئاوامره بالصلاة والامروالنهی والحرام والحلال .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:حضرت نوح کااصول یہ تھاکہ آپ خدائے یکتاکی عبادت کرتے تھے اس کی بارگاہ میں اخلاص کااظہارکرتے تھے ،اسے بے مثل مانتے تھے اورآپ کی یہ وہی فطرت تھی کہ جس فطرت پرخداوندعالم نے لوگوں کوقراردیاہے پروردگارعالم نے حضرت نوح اورتمام انبیائے کرام سے عہدلیاہے کہ وہ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کریں اورکسی بھی چیزکواس کاشریک قرارنہ دیں سے دوری کریں اورخداوندعالم نے حضرت نوح(علیھ السلام) کونمازپڑھنے ،امربالمعروف ونہی عن المنکرکرنے اورحلال وحرام کی رعایت کرنے کاحکم دیاہے۔

____________________

١)بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

. ٢) کافی /ج ٨/ص ٢٨٢

۲۱

نمازاورحضرت ابراہیم

حضرت ابرہیم اولوالعزم پیغمبر وں میں سے تھے ا ورآپ کوبت شکن ،حلیم ،صالح ، مخلص اورموحدجیسے بہترین القاب سے یادکیاجاتاہے ،آپ نے اپنی عمر کے دوسوبرس کفروشرک سے مقابلہ اور لوگوں کو تو حیدباری تعالیٰ وا طاعت خداوندی کی دعوت کرنے کی راہ میں گزارے ہیں. مکتب حضرت ابراہیم میں آپ کی پیر وی کرنے والوں کے درمیان نماز وعبادت کو ایک عمدہ واجبات میں شمارکیاجاتاتھا،جب خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند اسمعیل (علیھ السلام)کو ساتھ لے کر سرزمین مکہ کی طرف ہجرت کرجائیں ،آپ نے حکم خدا پر عمل کیااورشام سے مکہ میں خانہ کعبہ تک پہنچے تو آپ نے وہاں اس آپ وگیاہ سرزمین پرایک نہایت مختصرطعام اورپانی کے ساتھ زمین پراتارا. بیوی اوربچے سے خداحافظی کرکے واپسی کارادہ کیاتوجناب ہاجرہ نے ابراہیم (علیھ السلام) کادامن پکڑکرعرض کیا:ہمیں اس بے آب وگیاہ زمین پرجگہ کیوں چھوڑے جارہے ہو؟جواب دیاکہ:یہ حکم خداہے ،جیسے ہی ہاجرہ نے حکم خداکی بات سنی توخداحافظ کہااورعرض کیا:جب حکم رب ہے تواس جگہ آب وگیاہ زمین پرہماری حفاظت بھی وہی کرے گا،جب ابراہیم (علیھ السلام)چلنے لگے توبارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

( رَبَّنّااِنَّنِیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَبَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّناَلِیُقِیْمُواالَصَّلوٰةَ ) (۱)

اے ہما رے پروردگا ر!میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آ ب وگیاہ وادی میں چھوڑدیا ہے تاکہ نمازیں قائم کریں یعنی تاکہ وہ یہاں سے لوگوں کو دعوت نماز کی آواز بلند کی کریں اور نماز یں قائم کریں اور قیام نماز کو دینی ذمہ داری سمجھیں اور تو میری اس ذریت کو نہ ت نہا نماز پڑھنے والے بلکہ مقیم نماز بھی قرار دے (اور جب نماز قائم ہوئے گی تو لوگ شرک وطغنانی سے پاک ہوجائیں گے )۔ حضرت ابراہیم بارگاہ خداوندی میں بہت زیادہ دعاکرتے تھے اورآپ کی دعائیں قبول ہوتی تھی ،آپ کی دعاؤں میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ آپ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں :( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ) (۲) پروردگارا!مجھے اورمیری ذریّت کونماز قائم کرنے والوں میں قراردے اور اے پروردگارتومیری دعاء کوقبول کرلے۔ تاریخ میں یہ بھی ملتاہے کہ: جب اسماعیل (علیھ السلام)کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہم (علیھ السلام) آٹھ ذی الحجہ کو اپنے فرزند کو لے کر“لبّیک لاشریک لَکَ لبّیک ”ٔکہتے ہوئے منیٰ کے میدان میں پہنچے اور اپنی پیروی کرنے والوں کے ساتھ نماز ظہرین ومغربین باجماعت انجام دی اوراس وقت سے لیکر آج تک واد ی مٔنی اور صحرائے عرفات میں بڑے وقاروعظمت کے ساتھ نماز جماعت برگزار ہوتی ہے اور خدا کی وحدانیت کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔

____________________

١)سورہ أبراہیم /آیت ٣٧

. ۲)سورہ أبراہیم/آیت ۴٠

۲۲

عن جابربن عبدالله الانصاری قال:سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول:مااتخذالله ابراهیم خلیلا،الالاطعامه الطعام ،وصلاته باللیل والناس ینام .(١)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے حضرت ابراہیم کو دوکام انجا م دینے کی وجہ سے اپنا خلیل منتخب کیا ہے ١۔فقیروں ومسکینوں کو کھانادینا ، ٢۔ رات میں نمازشب پڑھناکہ جب سب لوگ سوتے رہتے ہیں ۔

نمازاورحضرت اسماعیل

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( وَاذْکرْفِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْل اِنّه کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًانَّبِیًا ) (٢)

اپنی کتاب میں اسماعیل کاتذکرہ کروکیونکہ وہ وعدے کے سچے اورہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۳) حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

نمازاوراسحاق ویعقوب وانبیائے ذریت ابراہیم

حضرت اسحاق ،یقوب، لوط اورانبیائے ذریت ابراہیم کے بارے میں قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:

( وَوَهَبْنَالَه اِسْحٰقَ وَیْقُوْبَ نَافِلَةً وَکُلاجَعَلْنَاصٰلِحِیْنَ وَجَعَلْناهُمْ آئمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَاوَا ؤحَیْنَا الیهم فِعْلَ الخیراتِ وَاِقَامَ الصلٰوةِ وَاِیتاءَ الزکوٰةِ وکانوالَنَا عٰبدِیْنَ ) (۴)

اورپھر ابراہیم کواسحاق اوران کے بعدیعقوب عطاکئے اورسب کوصالح اورنیک کردارقراردیا،اورہم نے ان سب کو پیشواقراردیا جوہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کا ر خیر کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے ۔

____________________

١)علل الشرایع /ج ١/ص ٣۵

. ٢)سورہ مریم/آیت ۵٣

. ٣ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۴)سورہ أنبیاء ایت ٧٣

۲۳

نمازاورحضرت شعیب

جب حضرت شعیب اپنی قوم کو غیرخدا کی عبادت،مالی فساداور کم فروشی سے منع کیا تو انھوں نے آپ سے کہا:

( یَاشُعیْبُ اَصَلٰوتُُکَ تَاْمُرُکَ ا نَْٔ نَتْرُ کَ مَا یَعْبُدُآ بَآؤُ نَا ا ؤْ ا نْٔ نَّفْعلَ فیِ ا مَْٔوَا لِنَا مَا نَشَؤ اِنَّکَ لَاَ نْتَ الحَلِیْمُ الرَّشَیْدُ ) .(۱) اے شعیب ! کیاتمھاری نمازتمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑدیں یااپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ، تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو ۔

نمازاورحضرت موسی

اولوالعزم پیغمبرحضرت موسیٰ جب کوہ طوروسیناپرپہنچے توآپ نے یہ آوازسنی:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۳)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو،اورہم نے تم کومنتخب کرلیاہے لہٰذاجووحی جاری کی جارہی ہے اسے غورسے سنو، میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی خدانہیں ہے پس تم میری عبادت کرواوریادکے لئے نمازقائم کرو۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے اپنی پوری مخلوق میں سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تم سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو ۔(۳)

____________________

. ۱) سورہ ۂود/آیت ٨٧

۲)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢ ۔ ١۴

۳)اصول کافی/ج ٣/ص ١٨٧

۲۴

نمازاورحضرت لقمان

قرآن کریم میں ایاہے کہ حضرت لقمان اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:

( یابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصابَکَ ) (۱)

بیٹا!نمازقائم کرو،نیکیوں کاحکم دو،برائیوں سے منع کرواوراس راہ میں تم پرجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکرو۔

نمازاورحضرت عیسیٰ

خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے کہ:جب حضرت مریم بچے کواٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تولوگوں نے کہا:مریم!یہ تم نے بہت براکام کیاہے ،ہارون کی بہن!نہ تمھاراباپ براآدمی تھااورنہ تمھاری ماں بدکردارتھی ،پس حضرت مریم اپنے بچہ طرف اشارہ کیاکہ اس سے معلوم کرلیں، میں نے کوئی گناہ نہیں کیاہے قوم نے کہا:ہم اس سے کیسے بات کریں جوبچہ ابھی گہوارہ میں ہے ،بچے نے گہوارہ سے کلام کیا:

( اِنِّیْ عَبْدُ اللهِ اٰتٰنِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیاوَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًااَیْنَ مَاکُنْتُ وَاَوْ صٰنِی بِالصّلٰوة وَالزّ کٰوة ماَدُمتُ حیّاً ) (۲)

میں الله کابندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی ہے اورمجھے نبی بنایاہے ،اورجہاں بھی رہوں بابرکت قراردیاہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے نماز وزکات کی وصیت کی ہے۔

نمازاورحضرت سلیمان

حضرت سلیمان غالباًراتوں کونمازمیں گذارتے تھے اورخوف خدامیں اپ کی آنکھوں سے انسوں جاری رہتے تھے اور کثرت نمازوعبادت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان کثیرا الصلاة کے نام سے مشہورتھے علامہ مجلسی “بحارالانوار”ارشاد القلوب سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: حضرت سلیمان کہ جن کے پاس حکومت وبادشاہت اورہرطرح کے وسائل موجود تھے لیکن آپ بالوں کانہایت ہی سادہ لباس پہنا کرتے تھے ، رات میں کھڑے ہوکر اپنی گردن کودونوں ہاتھوں کی انگلیوں آپس میںڈال کرباندھ لیاکرتے تھے اور پوری رات یادخدا میں کھڑے ہوکر رویا کرتے تھے حضرت سلیمان خرمے کی چھال سے ٹوکریاں بنایاکرتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے خداسے حکومت وبادشاہت کی درخواست کی تاکہ کافروطاغوت بادشاہوں سرنگوں کر ) سکوں۔(۳)

____________________

. ۱)سورہ لٔقمان/آیت ١٧.

۲ )سورہ مٔریم آیت ٢٧ ۔ ٣١

.۳)بحارالانوار/ج ١۴ /ص ٨٣

۲۵

نمازاورحضرت یونس

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( لَولَااَنّه کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطَنِهِ اِلٰی یَومِ یُبْعَثُونْ ) (١)

اگرحضرت یونس تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہو تے تو قیامت تک شکم ماہی میں ہی پڑے رہتے ۔

تفسیر مجمع البیان میں قتادہ سے نقل کیاگیاہے کہ تسبیح یونس سے نمازمراد ہے کیونکہ وہ نماز گزاروں میں سے تھے اور نماز ہی کی وجہ سے ان کو خدانے انھیں اس رنج ومصیبت سے نجات دی ہے۔(۲)

نمازاورحضرت زکریا

ہ( ُنَالِکَ دَعَازَکَرِیارَبَّه قَالَ هَبَْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَاءِ فَنَاْدَتْهُ الْمَلٰئِکَةُ وَهُوَقٰائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْ الْمَحْرَاْبِ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْییٰ ) (۳)

جس وقت حضرت ذکریانے جناب مریم کے پاس محراب عبادت میں عنایت الٰہی کامشاہدہ کیااورجنت کے کھانے کودیکھاتوآپ نے اپنے پروردگارسے دعاکی کہ :مجھے ایک پاکیزہ اولادعطافرماکہ توہرایک کی دعاکاسننے والاہے تو ملائکہ نے انھیں اس وقت آوازدی کہ جب وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے نمازمیں مشغول تھے کہ خدا تمھیں یحییٰ کی بشارت دے رہاہے ۔

نمازاورحضرت یوسف

حضرت یوسف کی سوانح حیات میں ملتاہے کہ آپ کو عزیز مصرنے ایک تہمت لگاکرزندان میں ڈالدیااس وقت عزیزمصرکاایک غلام اپنے آقاکو غضبناک کرنے کی وجہ سے زندان میں زندگی گزاررہاتھا، وہ غلام حضرت یوسف کے بارے میں کہتا ہے کہ: آپ ہمیشہ رات میں نماز پڑھتے اوراپنے رب کی بارگاہ میں رازونیازکرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے تھے ، بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، مریضوں کے لئے دوائیاں بھی مہیاکرتے تھے ، مظلوم وستم دیدہ لوگوں کوخوشیاں عطاکرتے اور تسلی دیا کرتے تھے. بعض اوقات دوسرے قیدیوں کو خداپرستی کی دعوت دیاکرتے تھے،نہایت خوشی سے زندان کے ایک گوشہ میں اپنے معبودکی راہ میں قدم آٹھاتے تھے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے تھے :( رَبِّ اسِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْ عُونَنِیْ اِلَیْهِ ) .(۴) پرودگارا! یہ قید مجھے اُس کام سے زیادہ مجبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔(۵)

____________________

١)سورہ صٔافات/آیت ١۴٣ ۔ ١۴۴ --. ٢)تفسیرمجمع البیان/ج ٨/ص ٣٣٣ -- ٣ )سورہ آٔل عمران آیت/ ٣٨ ۔ ٣٩

. ۴)سورہ یٔوسف/آیت ٣٣ --. ۵)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۵۶١ /ص ١٧٧

۲۶

تمام انبیاء وآئمہ نے نمازکی وصیت کی ہے

قرانی آیات اور احادیث معصومین سے یہ ظاہرہے کہ ہرنبی کے زمانے میں نمازکاوجودتھا اورتمام انبیائے کرام اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے اورنمازکے بارے میں وصیت بھی کرتے تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۱)

حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

( یٰابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةوَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ ) (۲)

حضرت لقمان نے اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:اے بیٹا ! نماز قائم کرو، نیکیوں کا حکم دو ، برائیوں سے منع کرو، اورجب تم پرمصیبت پڑے صبر کرو بے شک یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

( وَاَوْحَیْنَااِلٰی مُوسٰی وَاَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰلِقَومِکُمَابِمِصْرَبُیُوْتًاوَاجْعَلُوابُیُوْتَکُمْ قِبْلَةً وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ وَبَشِّرِالْمُو مِٔنِیْنَ ) (۳)

اورہم نے موسی اوران کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصرمیں گھربناؤاوراپنے گھروں کوقبلہ قراردواورنمازقائم کرواورمومنین کوبشارت دیدو۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:سمعته یقول:احبّ الاعمال الی الله عزوجل الصلاة وهی آخروصایا الانبیاء (علیهم السلام .(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل نمازہے اورہرتمام انبیائے کرام نے آخری وصیت نمازکے بارے میں کی ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: قال لقمان لابنه اذاجاء وقت الصلاة فلاتو خٔرهالشی ،ٔ صلّها و استرح منها،فانّهادین ،وصلّ فی الجماعة ولوعلی راس زجّ .(۵)

____________________

. ۱ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۲ )سورئہ لقمان آیت ١٧

. ۳)سورہ یونس/آیت ٨٧

۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١٠

۵)عروة الوثقی / ٢/ص ۴١۶

۲۷

حضرت امام صادق -فرماتے ہیں کہ:حضرت لقماننے اپنے فرزندسے وصیّت کرتے ہوئے کہا:اے بیٹا !جب نمازکاوقت پہنچ جائے تواسے کسی دوسرے کام کی وجہ سے تاخیرمیں نہ ڈالنابلکہ اول وقت نمازاداکرنااوراس کے ذریعہ اپنی روح کوشادکرناکیونکہ نمازہمارادین ہے اورہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنا خواہ تم نیزے پرہی کیوں نہ ہوں۔

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی وفات کے بعدکعب نے عمرابن خطاب سے پوچھا :وہ آخری جملہ کیاہے جسے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله) نے انتقال کے وقت بیان کیا تھا ؟ عمرابن خطاب نے کہا :اس بارے میں علی (علیھ السلام)سے معلوم کرو،جب کعب نے امام علی سے پوچھاتو آپ نے فرمایا:اسندت رسول الله صلی الله علیه وآله الی صدری فوضع راسه علیٰ منکبِی، فقال:الصلاة الصلاة

جب رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے انتقال کیاتواس وقت آپ کاسرمبارک میرے شانہ پررکھاتھامیں نے رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کوان کی عمرکے آخری لمحوں میں اپنے سینے سے لگایااور آنحضرت نے اپنے سر مبارک کومیرے شانہ پر قرار دیا اورمجھ سے کہا : نماز ! نماز! ۔(۱)

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)خطبہ دے رہے تھے کہ حمدوثنائے الٰہی کے بعد لوگوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

علیکم بالصلاة ،علیکم بالصلاة ،فانّهاعموددینکم ۔

تم پرنمازواجب ہے ،تم پرنمازواجب ہے کیونکہ نمازتمھارے دین کاستون ہے ۔(۲)

روایت میں ایاہے کہ امیرالمومنین حضرت علی نے شہادت کے وقت تین مر تبہ نماز کے بارے میں وصیت کی:”الصلاة الصلاة الصلاة ” نماز !نماز !نماز ! ۔(۳)

____________________

١)المراجعات/ص ٣٢٩

. ٢)مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٢٨.

٣)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٠

۲۸

ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادق کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیشکرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیھ السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیھ السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیھ السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :

انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة

نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(۱)

نمازمومن کی معراج ہے

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے خدا وعالم نے دنیامیں جت نے بھی نبی اورپیغمبربھیجے ہیں ان میں سے ہرایک نبی کے لئے ایک خاص معراج مقرر کی ہے اور مو مٔنین کے لئے بھی ایک معراج معین کی ہے کہ جسے نمازکہتے ہیں حضرت آدم کی معراج یہ تھی کہ خداوندعالم انھیں عدم سے وجو د میں لایا اور بہشت میں جگہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا:

یٰ( آدم اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجَکَ الْجَنّة ) (۲) اے آدم ! تم اور تمہاری زوجہ ( حضرت حوا)جنت میں داخل ہوجاؤ ۔

حضرت ادریس کی معراج یہ تھی کہ آپ ایک فرشتے کے پروں پر سوار ہوئے اور اس سے کہا : کہ مجھ کو آسمان کی سیرکرائے اور بہشت میں داخل کردے ، اذن پر ور دگار سے ایساہی ہوا( وَرَفَعنَاهُ مکاناً عَلِیا ) (۳) اورہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا یا۔

حضرت نوح کی معراج یہ تھی کہ جب آپ میں اپنی قوم کے ظلم واذیت تحمل کرنے کی قوت باقی نہ رہی اوریہ یقین ہوگیاکہ اب صرف ان چندلوگوں کے علاوہ کوئی اورشخص ایمان لانے والانہیں ہے توخداکی بارگاہ میں دست دعابلندکئے اورکہا:بارالٰہا!اب کوئی شخص ایمان لانے والانہیں ہے لہٰذاتواس قوم پراپناعذاب نازل کردے ، خدانے آپ کوحکم دیا:

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

۲)سورہ بٔقرہ /آیت ٣۵

. ۳)سورہ مٔریم/آیت ۵٧

۲۹

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَاوَوَحْیِنَا ) (۱)

اے نوح !ہماری نظارت میں ہماری وحی کے اشارے پر ایک کشتی بناو ۔ٔ

طوفان نوح (علیھ السلام)کی مختصرداستان یہ ہے کہ حضرت نوح (علیھ السلام)نے حکم خداسے ایک کشتی بنائی ،جب کشتی بن کرتیارہوگئی توت نورسے پانی نکلااورطوفان شروع ہوگیا،حضرت نوح (علیھ السلام)نے ہرقسم کے جانور،چرندوپرند اوردرندوں کاایک ایک جوڑا کشتی میں سوارکیا،جوآپ پرایمان رکھتے تھے انھیں بھی سوارکیا اورخودبھی اس میں سوار ہوئے ،جب کشتی چلنے لگی توآپ نے اس کے ذریعہ پوری دنیا کی سیرکی اورپوری دنیاکاچکرلگانے کے بعدکوہ جودی پرپہنچ کرکشتی رک گئی ،حضرت نوح (علیھ السلام) کشتی سے زمین پر آئے اورزمین کو دوبارہ آبادکیا۔معراج حضرت ابراہیم یہ تھی کہ جس وقت نمرودنے آپ کو منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالا تو وہ آگ حکم خدا سے گلزار ہو گئی( یٰانَارُکُونِی بَرْداًوَسَلَامًا ) (٢) اے آگ !تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامت بن جا ۔

معراج حضرت اسمعیل یہ تھی کہ جسوقت آپ کا گلا باپ کے خنجر کے نیچے تھا اور وہ آپ کو را ہ خدا میں قربان کررہے تھے کہ خدا وند عالم نے جنت سے ایک دنبہ بھیجا جو ذبح ہوگیا اور اسماعیل بچ گے أور خداوند عالم نے کہا :( وَفَدَ یْنٰاهُ بَذبحٍ عظیم ) (۳) ہم نے اسمعیل کی قربانی کو ذبحِ عظیم میں تبدیل کردیا ہے ۔

حضرت موسیٰ کی معراج یہ تھی کہ جس وقت آپ مناجات کے لئے کوہ طور پر گئے تو ( آپ نے شیرین لہجے میں خداوند عالم کے کلمات کوسنا( وَکَلَّمَ الله مُو سٰی تکلیما ) (۴) اورخداوندعالم نے حضرت موسٰی سے کلام کیا ۔

خاتم الانبیا، سرورکائنات حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کی معراج یہ ہے کہ خداوندعالم نے آپ کوآسمانوں کی سیرکرائی اورارشادفرمایا:( سُبْحَانَ الّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی ) (۵) پاک وپاکیز ہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجدالاقصی تک۔

____________________

١)سورہ ۂود/آیت ٣٧

. ٢)سورہ أنبیاء/آیت ۶٩

. ۳)سورہ صٔافات/آیت ١٠٧

۴)سورہ نٔساء/آیت ١۶۴

۵)ُسورۂ اسراء/آیت ١

۳۰

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے دل میں خیال آیاکہ خداوندعالم نے ہرنبی کے لئے ایک معراج معین کی ہے میں یہ چاہتاہوں کہ میری امت کے مومنین کے لئے بھی کوئی معراج ہونی چاہئے لہٰذاآپ نے نمازکومومن کی معراج قراردیااورارشادفرمایا:

الصلاةمعراج المومن (۱)

نمازمومن کی معراج ہے

اوردوسری حدیث میں فرماتے ہیں:

اَلصَّلَاةُ مِعْرَاجُ اُمَّتِی (۲)

نماز میری امت کی معراج ہے ۔

بچوں کونمازکاحکم دیاکرو

نمازکی اہمیت اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ احادیث میں والدین کواس بات کی وصیت کی گئی ہے اپنے بچوں کونمازکاعادی بنائیں اورانھیں نمازکاحکم دیں،اگربچے نمازنہ پڑھیں توانھیں ڈرایااورمارابھی جاسکتاہے

قال الصادق السلام قال: انّانا مٔرصبیاننابالصلاة اذاکانوا بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاةاذاکانو ابنی سبع سنین ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : جب ہمارے فرزند پانچ سال کے ہو جاتے ہیں ہم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جب تمہارے فرزندسات سال کو پہنچ جائیں توانھیں نماز پڑھنے کا حکم دو۔

حسن ابن قارون سے مروی ہے کہ:میں نے امام علی رضا سے سوال کےا یاکسی دوسرے نے سوال کےا اورمیں سن رہاتھا کہ:ایک شخص ہے جواپنے لڑکے کوڈانٹ پھٹکارکے ساتھ نمازپڑھواتا ہے اوروہ لڑکاایک ،دودن نمازنہیں پڑھتاہے ،امام علی رضا نے پوچھا:اس کالڑکے کی عمرکت نی ہے ؟جواب دیا: اس کی عمر آٹھ سال ،یہ سن کرامام (علیھ السلام)نے تعجب سے فرمایا: سبحان الله ! وہ آٹھ سال کا بچہ ہے اور نماز کو ترک کرتا ہے،میں نے عرض کیا:وہ بچہ مریض ہے ،امام(علیھ السلام) نے فرمایا:جسصورت ممکن ہواسے اس سے نمازپڑھوائیں ۔(۴)

____________________

. ١)مستدرک سفینة البحار/ج ۶/ص ٣۴٣

. ٢)معراج المومن/ص ٢

۳)الاستبصار/ج ١/ص ۴٠٩

۴)من لایحضرہ افقیہ /ج ١/ص ٢٨٠

۳۱

عن معاویة بن وهب قال: سئلت اباعبدالله علیه السلام فی کم یو خٔذالصبی بالصلاة ؟فقال:فیمابین سبع سنین وست سنین ۔(۱)

معاویہ ابن وہب سے مروی ہے:میں نے امام صادق سے پوچھا:بچوں کوکت نی عمرسے نمازشروع کرناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:جب بچہ چھ ،سات سال کی عمرکوپہنچ جائے ۔

اگرماں باپ نمازی ہیں توبچہ بھی نمازی بنتاہے،ماں باپ کونمازپڑھتے ہوئے دیکھ کربچہ بھی نمازکی رغبت پیداکرتاہے کسی بھی نمازی کودیکھ کریہ معلوم ہوتاہے کہ اس کے ماں باپ نمازی ہیں اورانھوں نے بچہ کی اچھی تربیت کی ہے یہ ابوطالب کی تربیت کااثرتھاکہ آج علی کو“کرم الله وجہ”(۲) کانام دیاجاتاہے۔

تاریخ کے اوراق میں لکھاہے کہ : امام حسینکی شہادت کے بعدجب ابن زیادکے سپاہیوں نے حضرت مسلم ابن عقیل کے دونوں بچوں کو گرفتارکرکے زندان میں ڈال دیا، اوررات میں د ربان نے قیدخانہ میں پرنگاہ ڈالی تودیکھاکہ دونوں بچے نمازمیں مشغول ہیں، نگہبان دونوں بچوں کو نمازوعبادت کی حالت میں دیکھ کرسمجھ گیاکہ یہ بچے کسی معصوم سے کوئی نسبت ضروررکھتے ہیں ،لہٰذابچوں کے پاس آیااورمعلوم کیاتوچلاکہ یہ مسلم ابن عقیل کے بچے ہیں پس رات کی تاریکی میں دونوبچوں کوقیدخانہ سے باہرنکال دیامگرجب ابن زیادکے سپاہیوں نے بچوں کوقیدخانہ میں نہ پایاتوانھیں جنگل میں تلاش کرکے دوبارہ گرفتار کرلیا ،ابن زیادنے جلادکودونوں بچوں کاسرقلم کردینے کاحکم دیا،جب جلادنے دونوں کا سرقلم کرناچاہا تو بچوں نے زندگی کے آخری لمحات میں نماز پڑھنے کی مہلت ما نگی ، جب نماز کی مہلت مل گئی تو دونوں بچّے نماز میں مشغول ہو گئے اور نماز کے بعد دونوں کو شہید کردیا گیا ۔

____________________

۱)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ١٣

۲)وہ ذات کہ جسنے زندگی کبھی بھی بت کے سامنے سرنہ جھکایاہو

۳۲

نمازکے آثارو فوائد

نمازپڑھنے ،روزہ رکھنے ،حج کرنے ،زکات دینے ،صدقہ دینے ، اوردیگرواجبات ومستحبات الٰہی کوانجام دینے سے خداکوکوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے اورواجبات ومستحبات کوترک کرنے سے خداکاکوئی نقصان پہنچتاہے بلکہ انجام دینے سے ہم ہی لوگوں کوفائدہ پہنچتاہے اورترک کرنے پرہماراہی نقصان ہوتاہے ہم اس کی عبادت کریں وہ تب بھی خداہے اور نہ کریں وہ تب بھی خداہے ،ہماری نمازوعبادت کے ذریعہ اس کی خدائی میں کسی چیزکااضافہ نہیں ہوتاہے اورنمازوعبادت کے ترک کردینے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اس کی عبادت کرنے سے ہم ہی لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے ،جب ہم اس کی عبادت کریں گے توہمیں اس کااجروثواب ضرورملے گا ،خداوندعالم کاوعدہ ہے وہ کسی کے نیک کام پراس کے اجروثواب ضائع نہیں کرتاہے ۔

( وَالّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتَابِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) (۱) اورجولوگ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اورانھوں نے نمازقائم کی ہے توہم صالح اورنیک کردارلوگوں کے اجرکوضایع نہیں کرتے ہیں۔

( اِنّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُوْالصّٰلِحٰتِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُواالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَرَبِّهِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْوَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (۲)

جولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے ،نمازقائم کی ،زکات اداکی ان کے لئے پروردگارکے یہاں اجرہے اوران کے لئے کسی طرح کاخوف وحزن نہیں ہے۔

دنیامیں نمازکے فوائد

دنیامیں نام زندہ رہتاہے جب کوئی بندہ کسی نیک کام کوانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس نیکی کااجروثواب دنیامیں بھی عطاکرتاہے اورآخرت میں بھی عطاکرے گادنیامیں نمازایک فائدہ یہ ہے نمازی کانام دنیامیں زندہ رہتاہے ، تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے اکثرلوگ اسے ایک اچھے انسان کے نام سے یادکرتے ہیں ،کیونکہ خداوندعالم کاوعدہ کہ جومجھے یادکرے گامیں بھی اسے یادکروں گااوراس کانام روشن رکھوں گاجیساکہ قرآن کریم میں ارشادرب العزت ہے:

( فَاذْکُرُونِی وَاذْکُرْکُمْ ) ( ۳) تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔

____________________

١)سورہ أعراف /آیت ١٧٠

.٢)سورہ بٔقرہ/آیت ٢٧٧

۳)سورئہ بقرہ /آیت ١۵٢

۳۳

گناہوں سے دورزہتاہے

نمازکے لئے شرط ہے کہ نمازی کالباس ، بدن اورمحل سجدہ پاک ہوناچاہئے ،نمازی کے لئے باوضوہوناشرط ہے اور وضومیں شرط یہ ہے کہ وضوکا پانی اوراس کابرت ن پاک ہوناچاہئے اورنمازکی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وضوکے پانی کابرت ن اورنمازی کالباس اورنمازپڑھنے کی جگہ مباح ہونی چاہئے ان سب شرائط اورواجبات کی رعایت کرنے کایہ نتیجہ حاصل ہوگاکہ انسان مال حلال وپاک کوذہن میں رکھے گا،رزق حلال حاصل کرے گا،حلال چیزوں کامالک رہے گا،حلال کپڑاپہنے گااورگناہوں سے دوررہے گا۔

حقیقی نمازانسان کی رفتار،گفتار،کرداراوراس کے اعمال افعال پرمو ثٔرہوتی ہے لہٰذاجن کی نمازان کے اعمال وافعال،رفتاروگفتاراورکردارپرمو ثٔرہوتی ہے وہ بارگاہ میں الٰہی قبول ہوتی ہے اورجن کی نماز گناہ ومنکرات سے نہیں روکتی ہے ہرگزقبول نہیں ہوتی ہیں لہٰذاہم یہاں پران آیات وروایات کو ذکرکررہے ہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ نمازانسان کوگناہ وبرائیوں سے روکنے کی ایک بہترین درسگاہ ہے:

( اَقِمِ الصَّلاةَ ، اِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰهی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُونَ ) (۱)

نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔اوراحادیث میں بھی آیاہے کہ نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے

عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهِ اَنّهُ قَالَ:مَن لَم ت نهه صَلاتَهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِلَم یَزِدْمِن اللهِ اِلّابُعداً ۔(۲)

جس شخص کی نمازاسے گناہ و منکرات سے دورنہیں رکھتی ہے ا سے اللھسے دوری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من احبّ ان یعلم اقبلت صلاته ام لم تقبل فلینظرهل صنعته صلاته من الفحشاء والمنکرمامنعته قبلت منه ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:جوشخص یہ دیکھناچاہتاہے کہ اس کی نمازبارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ہے یانہیں تووہ یہ دیکھے کہ اس کی نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دورکیاہے یانہیں،اب جس مقدارمیں نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دوررکھاہے اسی مقدارمیں اس کی نمازقبول ہوتی ہے ۔

____________________

. ١)سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵

. ٢)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢

٣)بحارالانوار/ج ١۶ /ص ٢٠۴

۳۴

عن النبی صلی الله وآله انه قال:لاصلوة لمن لم یطع الصلوة وطاعة الصلوة ان ینتهی عن الفحشاء والمنکر ۔(۱)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) فرماتے ہیں : جو شخص مطیع نماز نہ ہو اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور اطاعت نمازیہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتاہے (یعنی نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے)۔

جابرابن عبدالله انصاری سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے شکایت کی گئی فلاں شخص دن بھرنمازیں پڑھتاہے اوررات میں چوری کرتاہے ،آنحضرت نے یہ بات سن کرفرمایا:

انّ صلاته لتردعه

یقینااس کی نمازاسے اس کام سے بازرکھے گی (اور پھروہ کبھی چوری نہیں کرےگا) ۔(۲)

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:

( اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهٰارِ،وَزُلْفًامِنَ الَّیْلِ ،اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السِّیِّئاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاْکِرِیْنَ ) (۳)

(اے پیغمبر)آپ دن کے دونوں حصوں میں اوررات گئے نمازقائم کروکیونکہ نیکیاں برائیوں کوختم اورنابودکردیتی ہیں اوریہ ذکرخداکرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ۔ روایت میں ایاہے کہ ایک دن نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنے اصحاب سے پوچھا:اگرتم میں سے کسی شخص کے گھرکے سامنے سے پاک وصاف پانی کی کوئی نہرگزررہی ہواوروہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ اپنے جسم کودھوئے کیاپھربھی اس کے جسم پرگندگی رہے گی؟سب نے کہا:ہرگزنہیں!اسکے بعد آنحضرت نے فرمایا:

نمازکی مثال اسی جاری نہرکے مانندہے ،جب انسان نمازپڑھتاہے تودونمازوں کے درمیان ) اس سے جت نے گناسرزدہوئے ہیں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔(۴)

____________________

. ١)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶١

. ۲)تفسیرمجمع البیان/جج ٨/ص ٢٩

. ۳)سورہ ۂود/آیت ١١۴ )

۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ٢٣٧

۳۵

قال رسول الله صلی الله عیه وآله :اذاقام العبدالی الصلاة فکان هواه وقلبه الی الله تعالی انصرف کیوم ولدته امه ۔(۱) پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے اوراس کادل وہواخداکی طرف ہو تووہ نمازکے بعدایساہوجاتاہے جیساکہ اس نے ابھی جنم لیاہے۔ ابوعثمان سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں اور سلمان فارسی ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہو تھے جس کے پتّے خشک ہوچکے تھے، سلمان نے درخت کی شاخ کوپکڑکرہلاےااس کے خشک پتّے زمین پر گرنے لگے توسلمان نے کہا : اے ابن عباس !کیا تم درخت کوہلانے کی وجہ نہیں پوچھوگے ؟ میں نے کہا: ضروراس کی وجہ بیان کیجئے ،سلمان نے کہا: میں ایک روز نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ اسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، آنحضرت نے بھی یہی کام کیا تھا جب میں نے آنحضرت سے کہا یا رسول الله ! اس کی وجہ بیان فرمائےے ؟توآپنے فرمایا:

اِنّ العبد المسلم اذاقام الی الصلاة عنه خطایاه کماتحات ورق من الشجرة جب کو ئی مسلما ن بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے تواس کے تمام گناہ اسی طرح گرجاتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتے گرے۔(٢)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:مامن صلاة یحضروقتهاالانادیٰ ملک بین یدی الناس ایهاالناس!قومواالی نیرانکم التی اوقدتموهاعلی ظهورکم فاطفئوهابصلاتکم (۳) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جےسے ہی نمازکاوقت شروع ہوتاہے ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آوازبلندکرتاہے :اے لوگو!اٹھواوروہ آگ جوتم نے اپنے پیچھے لگارکھی ہے اسے اپنی نمازکے ذریعہ خاموش کردو ۔

حضرت علی فرماتے ہیں :ہم پیغمبر اسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور نماز کے وقت کا انتظار کر ہے تھے کہ ایک مردنے کھڑے ہوکرکہا:یارسول الله! میں ایک گنا ہ کا مرتکب ہوگیا ہوں اس کے جبران کے لئے مجھے کیا کام کرنا چاہئے ؟ آنحضرت نے اس سے روگردانی کی اوراس کی بات پر کوئی توجہ نہ کی ،ےہاں تک کہ نمازکاوقت پہنچ گیااورسب نماز میں مشغول ہوگئے ، نماز ختم ہونے کے بعد پھراس شخص نے اپنے گناہ کے جبران کے بارے میں پوچھا تورسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی کےاتم نے مکمل طورسے وضونہیں کےا؟اس نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول الله ،آنحضرت نے فرمایا : تیری یہی نماز تیرے گناہ کا کفّارہ ہے۔(۴)

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٣۶

٢)امالی شیخ صدوق/ص ١۶٧

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨

. ۴)تفسیرمجمع البیان/ج ۵/ص ٣۴۵

۳۶

حضرت علی نہج البلاغہ میں ارشادفرماتے ہیں:

وانهالتحت الذنوب حت الورق وتطلقهااطلاق الربق وشبههارسول الله بالحمة تکون علی باب الرجل فهویغتسل منهاالیوم واللیل خمسمرات فماعسی ان یبقی علیه من الدرن ۔(۱) نماز گنا ہوں کو اسی طرح پاک کردیتی ہے جیسے درخت سے پتّے صاف ہوجاتے ہیں اور انسا ن کو گناہوں سے اسی طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے کسی کورسّی کے پھندوں سے آزادکردیاجائے اور رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے پنچگانہ نمازوں کواس گرم پانی کی نہریاچشمہ سے مثال دی ہے کہ جو کسی انسان کے گھر کے سامنے ہو ا ور وہ اس میں روزا نہ پانچ بار نہا تا ہوتو اسکے بد ن پر ذرہ برابر کثافت وگندگی باقی نہیں رہے گی ۔

چہرے پرنوربرستاہے

ا بان ابن تغلب سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا :اے فرزندرسول خدا حضرت فاطمہ کو زہرا یعنی درخشاں کیوں کہا جاتاہے ؟امام (علیھ السلام) نے فرما یا : کیونکہ جناب فاطمہ کے چہرہ مبارک سے روزانہ تےن مرتبہ اےک نورساطع ہوتا تھا:

پہلی مرتبہ اس وقت جب آپ نماز صبح کے لئے محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے وجود مبارک سے ایک سفیدنور سا طع ہوتاتھاجس کی سفیدی سے مدینہ کا ہر گھرنورانی ہو جاتاتھا،اہل مدینہ اپنے گھروں کونورانی دیکھ کر نہاےت تعجب کے ساتھ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں حاضرہوتے اور اپنے گھر وں کے منّور ہوجانے کی وجہ دریا فت کر تے تھے،آنحضرت انھیں جواب دیتے تھے:تم میری لخت جگر کے دروازہ ے پر جا ؤاوران سے اس کی وجہ دریافت کرو، جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تومعلوم ہوتاتھاکہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک نور سا طع ہے جسکی روشنی سے مدینہ کے گھر چمک رہے ہیں۔

دو سری مرتبہ اس وقت جب آپ نمازظہرین اداکر نے کے لئے محراب عبادت میں قیا م کرتی تھیں توچہرہ اقدس سے پیلے رنگ کانورظاہر ہو تاتھااوراس نورکی زردی سے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے یہاں تک کہ ان کے چہرے اورلباس کارنگ بھی زردہوجاتاتھالہٰذالوگ دوڑے ہوئے آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس وجہ معلوم کرتے تھے

____________________

. ١)نہج البلاغہ/خطبہ ١٩٩ /ص ١٧٨

۳۷

توآنحضرتانھیں اپنی کے گھرکی طربھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک زردرنگ کانور سا طع ہے اورسمجھ جاتے تھے ہمارے گھرجناب سیدہ کے نورسے چمک رہے ہیں۔

تیسری مرتبہ اس وقت کہ جب سورج غروب ہوجاتاتھااورآپ نماز مغربین میں مشغول عبادت ہوتی تھیں توچہرہ اقدس سے سرخ رنگ کانورساطع ہوتاتھااوریہ آپ کے بارگاہ رب العزت میں خوشی اورشکرگزاری کی علامت تھا،جناب سیدہ کے اس سرخ رنگ کے نورسے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے اوران کے گھروں کی دیواریں بھی سرخ ہوجاتی تھی ،پسلوگ آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس کی وجہ دریافت کرتے تھے توآپانھیں اپنی لخت جگر کے گھرطرف بھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ سیدةنساء العا لمین محراب عبادت میں تسبیح وتمجیدالٰہی میں مشغول ہیں اورسمجھ جاتے تھے ان کے نورسے ہمارے گھرنورانی ہوجاتے ہیں۔

حضرت امام صادق - فرماتے ہیں :یہ نورہرروزتین مرتبہ اسی طرح سے ان کی پیشانیٔ مبارک سے چمکتارہتاتھا اورجب امام حسین- متولدہوئے تووہ نور امام حسین- کی جبین اقدس میں منتقل ہوگیا اور پھربطور سلسلہ ایک امام سے دوسرے امام کی پیشا نی میں منتقل ہورہا ہے اور جب بھی ایک امام (علیھ السلام)نے دنیاسے رخصت ہواتوان کے بعدوالے امام (علیھ السلام)کی پیشانی ہوتاگیایہاں تک کہ جب امام زمانہ ظہور کریں گے تو ان کی پیشانی سے وہی نورساطع ) ہوگا۔(١)

____________________

. ١)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٠

۳۸

بے حساب رزق ملتاہے

روایت میں آیاہے کہ حبیب خداحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیھ و آلھ)کی لخت جگرکے گھرمیں دودن سے میں کھانے پینے کے لئے کوئی سامان موجودنہیں تھا،جوانان جنت کے سردار حسنین رات میں کھانا کھائے بغیرہی سوجایاکرتے کرتھے ، جب تیسرادن ہوااورامام علی سے کچھ کھانے پینے کاانتظام کرسکے لہٰذاتاکہ بچوں کے سامنے شرمند نہ ہوناپڑے توشام کے وقت مسجدپہنچے اوراپنے رب سے رازونیازکرتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی نمازکاوقت ہوگیا،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی اقتدامیں جماعت سے نمازاداکی ،نمازختم ہونے کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) نے حضرت علیسے عرض کیا :یا علی ! میں آج کی رات آپ کے گھرمہمان ہوں جبکہ امام (علیھ السلام) کے گھر کھا نے کا کچھ بھی انتظام نہیں تھا اور فاقے کی زندگی گزار رہے تھے لیکن پھربھی امام (علیھ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)سے عرض کیا : یا رسول الله !آپ کا ہمارے گھرتشریف لانا ہمارے لئے ارجمند و بز رگواری کاباعث ہو گا

نبی اورامام دونوں مسجدسے خارج ہوئے لیکن راستہ میں امام (علیھ السلام)کی حالت یہ تھی کہ جسم سے عرق کی بوندیں ٹپک رہی تھی اور سوچ رہے تھے کہ آج حبیب خداکے سامنے شرمندگی کاسامناکرناپڑے گا،لہٰذاجیسے ہی گھرپہنچے توحضرت فاطمہ زہرا سے کہا :

اے رسول خداکی لخت جگر ! آج تمھارے باباجان ہمارے گھرمہما ن ہیں اورمگر اس وقت گھرمیں کھانے کے لئے کچھ بھی موجودنہیں ہے ، جناب سیدہ نے باباکا دیدارکیااوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں اورمصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ،جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔

حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھراہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔

۳۹

روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان!( هُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ ) .(١)

یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:

( کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذا قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللهِ اِنَّ اللهَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ ) .(۲)

جب بھی حضزت زکریا (علیھ السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔

جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواسسے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے

حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔

وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردارہوں،وہ گھرکہ جسمیں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،خدااس گھرمیں کس طرح فاقہ گذارنے دے سکتاہے ،ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے خداوندعالم اس کے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔

____________________

. ١)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

. ٢)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٣۔ گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا

اگرانسان نیندسے بیدارہونے ، یااسنتجاکرنے کے بعدوضوکرے تومستحب ہے پہلے ایک مرتبہ دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھوئے اوراگرپاخانہ سے فارغ ہونے کے بعدوضوکرے تودومرتبہ دھوئے اوراگرمجنب ہونے کے بعدوضوکرتاہے توتین مرتبہ ہاتھوں کودھوئے

عبدالله ابن علی حلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق پوچھا:اس سے پہلے کہ انسان وضوکے لئے برت ن ہاتھ ڈالے اسے اپنے دائیں ہاتھ کوکت نی مرتبہ دھوناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:

واحدة من حدث البول واثنتان من حدث الغائط وثلاث من الجنابة .(۱) اگرپیشاب کے بعدوضوکرے توایک مرتبہ حدث مرتبہ ،پاخانہ کے بعددومرتبہ اوراگرجنابت کے وضوکرے توتین مرتبہ دھوئے ۔

۴ ۔ تین مرتبہ کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا

دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھونے کے بعدمستحب ہے کہ تین مرتبہ کلی کی جائے اس کے تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالاجائے ،اگرکوئی شخص وضومیں کلی کرنایاناک میں ڈالنابھول جائے توکوئی حرج نہیں ہے

عن ابی جعفروابی عبدالله علیهم السلام انهماقالا:المضمضة والاست نشاق لیسامن الوضوء لانّهمامن الجوف .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا(واجبات )وضومیں سے نہیں ہیں کیونکہ دودونوں باطن وضومیں محسوب ہوتے ہیں اوراعضائے وضوظاہرہوتے ہیں

____________________

. ١)استبصار/ج ١/ص ۵٠ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶

۲) علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٧

۸۱

۵ ۔ چہرہ اورہاتھوں پردوسری مرتبہ پانی ڈالنا

واجب ہے کہ چہرہ اورہاتھوں پرایک مرتبہ پانی ڈالاجائے اوردوسری مرتبہ مستحب ہے لیکن تیسری مرتبہ پانی ڈالناحرام وبدعت ہے

قال ابوجعفرعلیه السلام:انّ الله تعالی وترٌ یحب الوتر فقدیجزیک من الوضوء ثلاث غرفات : واحدة للوجه ، واثنتان للذراعین ، وتمسح ببلة یمناک ناصیتک ومابقی من بلة یمناک ظهرالقدمک الیمنی ، وتمسح ببلة یسراک ظهرقدمک الیسری (۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:خدایکتاویگانہ ہے اوریکتائی کوپسندکرتاہے لہٰذاوضومیں تمھارے لئے تین چلوپانی کافی ہے ،ایک چلوچہرہ کے لئے ،ایک دائیں ہاتھ اورایک بائیں ہاتھ کے لئے ،اب وہ تری جوتمھارے دائیں ہاتھ میں ہے اس سے سرکے اگلے حصہ کامسح کریں،اس بعدجوتری دائیں باقی رہ گئی ہے اس سے دائیں پیرکامسح کریں اوروہ تری جوتمھارے بائیں ہاتھ پرلگی ہے اس کے ذریعہ بائیں پیرپرمسح کریں۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الوضوء واحدة فرض ، واثنتان لایوجر ، والثالث بدعة. (۲) امام صادق فرماتے ہیں:وضومیں(چہرہ وہاتھوں کا) ایک مرتبہ دھوناواجب ہے اوردوسری دھونے میں کوئی اجرنہیں ملتاہے لیکن تیسری مرتبہ دھونابدعت ہے

شدیدتقیہ کی صورت میں جبکہ جان ،مال ،عزت وآبروکاخطرہ ہوتو تین مرتبہ دھوناجائزہے بلکہ واجب ہے اسی طرح دونوں پیروں کادھوناواجب ہے

رویات میں آیاہے کہ علی ابن یقطین نے امام علی ابن موسی الرضا کے پاس ایک خط لکھاکہ اصحاب کے درمیان پیروں کے مسح کرنے کے بارے میں اختلاف پایاجاتاہے ،میں آپ سے التجاکرتاہوں کہ آپ ایک خط اپنے ہاتھ سے تحریرکیجئے اوراس میں مجھے بتائیں کہ میں کس طرح وضوکروں؟

____________________

. ١)کافی /ج ١/ص ٢۵ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶٠

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ۴٠١ )

۸۲

امام (علیھ السلام)نے علی ابن بقطین کوخط کے جواب میں تحریرکیااورلکھا کہ میں سمجھ گیاہوں میں کہ اصحاب وضوکے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں لہٰذامیں تمھیں جو حکم دے رہاہوں تم اسی طرح کرنااوروہ حکم یہ ہے کہ تم اس طرح وضوکرو:

تمضمض ثلاثا ، وتست نشق ثلاثا ، وتغسل وجهک ثلاثا ، تخلل شعرلحیتک وتغسل یدیک الی المرفقیه ثلاثا ، ومسح راسک کله ، وتمسح ظاهراذنیک وباطنهما ، وتغسل رجلیک الی الکعبین ثلاثا ، ولاتخالف ذلک الی غیره

اے علی ابن یقطین !تین مرتبہ کلی کرو ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالو ، تین مرتبہ چہرہ دھوو ،ٔ اورپانی کواپنی ڈاڑھی کے بالوں کوجڑوں تک پہنچاؤاور تین مرتبہ ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوو ،ٔ پورے سرکااس طرح مسح کرو کہ کانوں پردونوںطرف ظاہری وباطنی حصہ پرہاتھ پھیرو ، اور اپنے دونوں پیروں کوٹخنوں تک تین مرتبہ دھوو ،ٔاوراپنے وضوکودوسروں کے وضوسے فرق میں نہ رکھواوریادرکھو!اس حکم کے خلاف نہ کرنا.

جب یہ خط علی ابن یقطین کے پاس پہنچاتواسے پڑھ کربہت تعجب کیاکہ یہ بالکل شیعوں خلاف حکم دیاہے ،لہٰذادل میں سوچا:میرے امام بہترجانتے ہیں اورحالات سے وافق ہیں لہٰذااس کے بعدعلی ابن یقطین امام (علیھ السلام)کے فرمان کے مطابق وضوکرنے لگے ہارون رشیدپاس یہ خبرپہنچی کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اوروہ تیرامخالف ہے ،ہارون رشیدنے اپنے ایک خواص سے کہا:تم علی ابن یقطین کے بارے میں بہت باتیں بناتے ہواوراس پر رافضی ہونے کی تہمت لگاتے ہو جبکہ میں اس کی دیکھ بھال کرتاہوں،میں چندمرتبہ اس کاامتحان لے چکاہوں،یہ تہمت جوتم اس پرلگارہے ہومیں نے ایسابالکل نہیں دیکھاہے ،میں اسے وضوکرتے ہوںئے دیکھتاہوں،جھوٹاہے وہ شخص جویہ کہتاہے کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اگرامام رضا علی ابن یقطین کواس طرح وضوکرنے کاحکم نہ دیتے توہارون رشیدکومعلوم ہوجاتاکہ یہ شخص رافضی ہے اورفوراًقتل کرادیتا

جب علی یقطین کے بارے میں ہارون رشید کے نزدیک صفائی ہوگئی تو علی ابن یقطین نے دوبارہ امام (علیھ السلام)کے پاس خط لکھااوروضوکاطریقہ معلوم کیاتوامام (علیھ السلام)نے لکھا:تم اس طرح وضوکروجسطرح خدانے وضوکرنے کاحکم دیاہے یعنی:

اغسل وجهک مرة فریضة ، واخریٰ اسباغا ، واغتسل یدیک من المرفقین کذلک وامسح بمقدم راسک وظاهرقدمیک من فضل نداوة وضوئک فقدزال ماکنانخاف علیک والسلام اے علی ابن یقطین!چہرہ کوایک مرتبہ واجبی طورسے دھوو ،ٔ اوردوسری مرتبہ اسباغی و تکمیل کی نظرسے ، اپنے دونوں ہاتھوں کہنیوں سے انگلیوں کے پوروں تک دھوو أوراسی آب وضوکی تری سے سرکے اگلے حصہ

کااورپیروں کے اوپری حصہ کامسح کرو،جس چیزکاہمیں ) خوف تھاوہ وقت تمھارے سرسے گذرگیاہے والسلام علیکم ۔(۱)

____________________

. ١)ارشاد(شیخ مفید)/ص ٣١۴

۸۳

۶۔ آنکھوں کوکھولے رکھنا

مستحب ہے کہ چہرہ دھوتے وقت آنکھوں کوبندنہ کریں بلکہ کھولے رکھیں لیکن آنکھوں کے اندرپانی کاپہنچاناواجب نہیں ہے اورآنکھوں کے کھلے ر’ہنے وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے :

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:افتحواعیونکم عندالوضوء لعلهالاتری نارجهنم (۲) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :وضوکرنے وقت اپنی آنکھوں کوکھولے رکھواس لئے تاکہ تم نارجہنم کونہ دیکھ پاو ۔ٔ

٧۔ عورت ہاتھوں کے دھونے میں اندرکی طرف اورمردکہنی پرپانی ڈالے

مردکے لئے مستحب ہے کہ دائیں اوربائیں ہاتھ کودھونے کے لئے جب پالی مرتبہ پانی ڈالے کہنی کی طرف پانی ڈالے اورجب دوسری مرتبہ پانی ڈالے تواندرکی طرف ڈالے اورعورت کے لئے مستحب ہے وہ مردکے برخلاف کرے یعنی جب پہلی مرتبہ اندرکی طرف پانی ڈالے اوردوسری مرتبہ باہرکی طرف ۔

عن ابی الحسن الرضاعلیه السلام قال:فرض الله علی النساء فی الوضوء للصلاة ان یبتدئن بباطن اذرعهن وفی الرجل بظاهرالذراع (۲)

جب عورت نمازکے لئے وضوکرے تواس کے لئے مستحب ہے کہ اپنی کہنی اندرکی طرف سے پانی ڈالے اورمردکے لئے مستحب ہے کہ ہاتھ باہری حصہ پرپانی ڈالے ۔

٨۔ چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونا

مستحب ہے کہ انسان اپنے چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں کرےکان امیرالمومنین علیه السلام اذااخذت الوضوء یتغیّروجهه من خیفة الله تعالیٰ (۳) جس وقت امیر المومنین حضرت علی وضوکرتے تھے ، خوف خدامیں آپ کے چہرے کا رنگ متغیرہوجاتا تھا۔

کان حسین بن علی علیهماالسلام :اذااَخذت الوضوء یتغیرلونه ،فقیل لهُ فی ذٰلک ؟فقال:حقٌّ مَن ارادَاَنْ یدخلَ علیٰ ذی العَرْشِیتغیّرلهُ .(۴)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٠

۲)کافی /ج ٣/ص ٢٩ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٧٧

۳) عدة الداعی /ص ١٣٨ ۔بحارالانواپر/ج ٨٠ /ص ٣۴٧

۴) الخصائص الحسینیّہ/ص ٢٣

۸۴

حضرت امام حسین کے بارے میں روایت نقل ہوئی ہے کہ : جب بھی آپ وضو کرتے تھے تو پورابدن کانپ چاتاتھا اور چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا ، جب لوگ آپ سے اس کی وجہ معلوم کرتے تھے تو امام(علیه السلام) فرماتے تھے ، حق یہی ہے کہ جسوقت بندہ مٔومن خدا ئے قہّا ر کی بار گاہ میں قیام کرے تو اس کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو جائے اور اس کے جسم میں لرزاں پیدا ہو نا چاہئے ۔کان الحسن (عاذافرغ من وضوئه یتغیر (۱)

امام حسن جب وضوسے فارغ ہوتے تھے توآپ کے چہرے کارنگ متغیرہوتاتھا۔

٩۔ رحمت خداسے قریب ہونے اوراس مناجات کرنے کا ارادہ کرنا

قال الصادق علیه السلام :اذااردت الطهارة واالوضوء فتقدم الی الماء تقدمک الی رحمة اللهفانّ الله تعالی قدجعل الماء مفتاح قربته ومناجاته ودلیلاالٰی بساط خدمته وکماان رحمته تطهرذنوب العبادفکذٰلک نجاسات الطاهرة یطهرالماء لاغیرفطهرقلبک بالتقوی والیقین عندطهارة جوارحک ۔(۲)

حضرت امام صادق فرما تے ہیں : جب آپ وضو وطہارت کا ارادہ کر یں تو یہ سو چ کر پانی کی طرف قدم بڑ ھا ئیں کہ رحمت خدا سے قریب ہورہے ہیں کیو نکہ پانی مجھ سے تقرب ومنا جا ت حاصل کر نے کی کنجی ہے اور میرے آ ستا نے پر پہنچنے کے لئے ہدایت ہے لہٰذا اپنے بد ن وا عضا ء کو دھوتے وقت اپنے قلب کو تقویٰ ویقین سے پاک کرلیا کر یں

١٠ ۔ پانی میں صرفہ جوئی کرنا

سوال یہ ہے کہ جب ہم پاک صاف ہوکر الله کی بندگی کرتے ہیں توخداہماری دعاؤں کومستجاب کیوں نہیں کرتاہے ؟اکثرمومنین جب وضوکرتے ہیں توپانی کابہت زیادہ اسراف کرتے ہیں اوردین اسلام میں اسراف کرنے کوسختی سے منع کیاگیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اسراف کومدنظر رکھتے تھے اوروضومیں اس مقدارمیں پانی خرچ کرتے تھے:عن ابی بصیرقال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الوضوء فقال:کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یتوضا بِٔمد من ماءٍ ویغتسل بصاعٍ (۳)

____________________

. ۱)میزان الحکمة /ج ٢/ح ١٠۶٠٨

. ۲)مصباح الشریعة/ص ١٢٨

. ۳)استبصار/ج ١/ص ١٢١ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ١٣۶

۸۵

ابوبصیرسے مروی ہے :میں نے امام صادق سے آب وضوکی مقدارکے بارے پوچھاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا: پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)ایک مدّ،پانی سے وضوکرتے اورایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے ، مدیعنی تین چلّوپانی ،صاع ،یعنی تین کلوپانی، پس آنحضرتوضومیں ایک چلّوپانی چہرے پراورایک داہنے پراورایک بائیں ہاتھ پرڈالتے تھے اورغسل میں تین کلوپانی استعمال کرتے تھے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : الوضوء مد ، والغسل صاع وسیاتی اقوام بعدی یستقلون ذلک (۱)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : وضوکرنے کے لئے دس سیر اور غسل کرنے کے لئے تین کلو پانی کافی ہے لیکن آئندہ ایسے بھی لو گ پیدا ہونگے جو اس مقدا ر کو غیر کا فی سمجھیں گے( اور صرفہ جوئی کے بد لے اسراف کریں گے ) اور وہ لوگ میری روش اور سیرت کے خلاف عمل کریں گے ۔

وضو کے آثار وفوائد

رویناعن علی ، عن رسول الله صلی الله علیه وآله سلم انّه قال: یحشره الله اُمّتی یوم القیامة بین الامم ، غرّاًمُحجّلین مِن آثارالوضوء (۲)

حضرت علیسے مروی ہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم روزقیامت میری امت کودوسری امتوں کے درمیان اس طرح محشورکرے گاکہ میری امت کے چہروں پروضوکے آثارنمایاں ہونگے اورنورانی چہروں کے ساتھ واردمحشرہونگے۔

حضرت امام باقر فرماتے ہیں : ایک روز نمازصبح کے بعدسیدالمرسلین حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے، طلو ع آفتاب کے بعد تمام اصحاب یکے بعد اٹھ کراپنے گھرجاتے رہے لیکن دو شخص (انصاری وثقفی)آنحضرت کے پاس بیٹھے رہ گئے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں جانتاہوں تم مجھ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں ، اگرتم چاہو تو میں دونوں کی حاجتوں کوبیان کرسکتا ہوں کہ تم کس کام کے لئے ٹھہرے ہوئے ہواوراگرتم چاہوتوخودہی بیان کرو ، دونوں نے نہایت انکساری سے کہا:

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣۴

٢ )دعائم الاسلام /ج ١/ص ١٠٠

۸۶

یارسول الله ! آپ ہی بیان کیجئے آنحضرت نے انصاری سے کہا:تمھاری منزل نزدیک ہے اورثقفی بدوی ہے ،انھیں بہت جلدی ہے اورکوئی ضروری کام ہے لہٰذپہلے ان کے مسئلہ کاجواب دے دوں اورتمھارے سوال کاجواب دوں گا،انصاری کہا:بہت اچھا،پس آنحضرت نے فرمایا : اے بھائی ثقفی ! تم مجھ سے اپنے وضوونمازاوران کے ثواب کے بارے میں مطلع ہوناچاہتے ہوتو جان لو:

جب تم وضوکے لئے پانی میں ہاتھ ڈالتے ہواور“بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوتوتمھارے اپنے ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام دئے گئے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے چہرے کودھوتے ہوتوجوگناہ تم نے اپنی ان دونوں انکھوں کی نظروں سے اوراورمنہ کے ذریعہ بولنے سے انجام دئے ہیں سب معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے دونوں ہاتھوں کودھوتے ہوتووہ گناہ جوتمھارے اپنے دائیں وبائیں پہلوسے سرزدہوئے ہیں معاف ہوجاتے ہیں اورجب تم اپنے سروپاو ںٔ کامسح کرتے ہوتووہ تمام گناہ کہ جن طرف تم اپنے ان پیروں کے ذریعہ گئے ہوسب معاف ہوجاتے ہیں،یہ تھاتمھارے وضوکاثواب ،اسکے بعدآنحضرت نے نمازکے ثواب کاذکرکیا۔(۱)

قال امیرالمومنین علیه السلام لابی ذر:اذانزل بک امر عظیم فی دین او دنیا فتوضا وارفع یدیک وقل :یاالله سبع مرّات فانّه یستجاب لک ۔(۲) حضرت علی نے ابوذر غفاری سے فرمایا : جب بھی تمھیں دینی یا دنیاوی امور میں کوئی مشکل پیش آئے تو وضو کرو اور درگاہ الٰہی میں اپنے دونوں ہاتھو ں کو بلند کر کے سات مرتبہ“ یَا اَللهُ ” کہو! یقینًا خداوندعالم تمھاری دعامستجاب کرے گا۔

گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منهم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد،فیصلّی فی الجماعة (۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : پروردگارعالم کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیر کسی حساب وکتاب کے بہشت میں بھیجا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص/ ٨٠ ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے ۔

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص

. ٢ )بحارالانوار/ ٨٠ /ص ٣٢٨

۳)مستدرک الوسائل/ج ۶/ص ۴۴٩

۸۷

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:مکتوب فی التوراة انّ بیوتی فی الارض المساجد، فطوبیٰ لمن تطهرثمّ زارنی وحقّ علی الزور اَن یکرم الزائر .(۱) امام صادق فرماتے ہیں:توریت میں لکھاہے :مساجدزمین پرمیرے گھرہیں، خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئےخوشبحال ہے جواپنے گھرمیں وضوکرتے ہیں اس کے بعدمجھ سے ملاقات کے میرے گھرآئے ،مزورکاحق ہے کہ وہ اپنے زائر کااحترام واکرام کرے۔

کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب

حضرت صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک ایسے شخص کو خدا کی بار گاہ خداوندی میں حاضرکیاجائے گاکہ جس کے اعمال نامہ میں کوئی نیکی نہ ہوگی اور اس نے دنیا میں کو ئی کارخیر انجا م نہیں دیا ہوگا ،اس سے پوچھاجائے گا : اے شخص ! ذرا سو چ کر بتا کیا تیرے دنیامیں کوئی نیک کام انجام دیاہے ؟ وہ اپنے اعمال گذ شتہ پر غور وفکر سے نگاہ ڈال کر عرض کرے گا : پرور دگار ا! مجھے اپنے اعمال میں ایک چیز کے علاوہ کوئی نیک کام نظرنہیں آتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک دن تیرافلاں مومن بندہ میرے پاس سے گذررہاتھا ،اس نے وضوکے لئے مجھ سے پانی کاطلب کیا، میں نے اسے ایک ظرف میں پانی دیا اور اس نے وضو کرکے تیری نمازپڑھی ، اس بندہ کی یہ بات سن کرخدا وند عالم کہے گا:میں تجھے تیرے اس نیک کام کی وجہ سے بخش دیتاہوں اورپھرفرشتوں کو حکم دے گامیرے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ ۔(۲)

ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب

ہرنمازکےلئے جداگانہ طورسے وضوکرنامستحب ہے اورہمارے رسول وآئمہ اطہار بھی ہرنمازکے لئے الگ وضوکرتے تھے جیساکہ روایت میں آیاہے: إنّ النبی صلی الله علیہ وآلہ : کان یجددالوضوء لکل فریضة ولکل صلاة پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)تمام فریضہ الٰہی اورنمازکوانجام کودینے کے لئے تجدید ) وضو کرتے تھے ۔(۳)

عن علی علیه السلام انّه کان یتوضا لٔکلّ صلاةٍ ویقرء: “ اذاقمتم الی الصلاة فاغسلواوجوهکم(۴)

حضرت علی ہر نماز کے لئے جداگا نہ وضو کرتے تھے اورآیہ “ٔ( یاایهاالذین آمنوا اذاقمتم الی الصلاة فاغسلوا وجوهکم ) ”کی تلاوت کرتے تھے ۔

____________________

. ۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٣١٨

۲)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠۶

.. ۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٩

. ۴)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ٢٩٣

۸۸

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :الوضوء علی الوضوء نورٌعلیٰ نورٌ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: وضو پر وضو کرنا “نورٌ علیٰ نور ” ہے۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من جدّدوضوئه لغیرحدث جدّدالله توبته من غیراستغفار .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکے علاوہ کسی دوسرے کام کے لئے تجدیدوضوکرتا ہے خداوندمتعال استغفارکئے بغیرہی اسکی توبہ قبول کرلیتاہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :من توضاعلی طهرکتب له عشرحسنات ۔(۳) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص وضوپروضوکرے اس کے لئے دس لکھی جاتی ہیں۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مومن بندہ ہمیشہ باوضورہتاتھاجب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگیاتوایک دوسرے مومن نے اسے خواب میں دیکھاکہ اس کاچہرہ نورانی ہے اوربہشت کے باغات میں سیرکررہاہے ، میں نے اس سے معلوم کیا:اے بھائی! تم دنیامیں اتنابڑے متقی وپرہیزگارتونہیں تھے پھرتم دنیامیں ایساکونسا کام کرتے تھے جس کی وجہ سے تجھ کویہ منزلت حاصل ہوئی اورتم یہ پر نورانیت کس طرح آئی؟اس نے جواب دیا:اے بھائی ! میں دنیامیں ہمیشہ باوضورہتا تھاجس کی وجہ سے خداوندمتعال نے میرے ان اعضاء کونوربخشا( وَاللهُ یُحِبُّ المُتَطَهّرِین ) (۴) اورخداپاک رہنے والوں کودوست رکھتاہے.

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:یااَنس!اکثرمن الطهوریزیده اللهفی عمرک،وان استتطعت ان تکون باللیل والنهارعلی طهارة فافعل،فانّک تکون اذامتّ علیٰ طهارةٍ شهیداً.وعنه صلی الله علیه وآله وسلم:من احدث ولم یتوضا فٔقد جفانی .(۵)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرما تے ہیں : اے انس!اکثراوقات باوضو رہاکرو تاکہ خدا آپ کی عمرمیںزیادتی کرے اور اگر ہوسکے تو دن اوررات وضو سے رہو کیونکہ اگر تمھیں وضوکی حالت میں موت آگئی تو تمھاری موت شہیدکی موت ہوگی اورآنحضرتدوسری حدیث میں فرماتےہیں:اگر کسی شخص سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی

____________________

. ۱)محجة البیضاء/ج ١/ص ٣٠٢

۲)ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣٨

۳)وسائل الشیعہ /ج ١/ص ٢۶۴ )

۴)سورہ تٔوبة /آیت ١٠٨

.۵) نماز،حکایتہاوروایتہا/ ١۵ )

۸۹

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یقول الله تعالیٰ:من احدث ولم یتوضا فٔقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤلم یصلّ رکعتین فقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤصلّ رکعتین ودعانی ولم اَجبه فیماسئلنی من اَمردینه ودنیاه فقدجفوته ولستُ برب جافٍ .(۱)

حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی اور اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروضوبھی کرلے لیکن وہ دورکعت نماز نہ پڑھے تواس نے بھی مجھ پر جفا کی، اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروہ وضوبھی کرے اوردورکعت نمازبھی پڑھے اس کے بعد مجھ سے کسی چیزکاسوال کرے اورمیں اس کے سوال امر دین و دنیا کوپورانہ کروں تو گویااس شخص پرجفاکی اور میں جفا کار پر ور دگار نہیں ہوں ۔

کامل طورسے وضوکرنے کاثواب

کامل طورسے وضوکرنے سے مرادکیاہے اس چیزکوہم اسی موردکے فوراً بعد ذکر کریں گے لیکن یہاں پرفقط کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ذکرکررہے ہیں

عن ابی الحسن العسکری علیه السلام قال:لما کلّم الله عزّوجل موسیٰ علیه السلام قال:الٰهی مَاجَزَاء مَنْ اَتَمّ الوضوء مِنْ خِشْیَتِک؟قال:اَبْعَثه یوم القیامة ولهُ نورٌبین عینیه یتلا لٔا(۱) امام حسن عسکری فرماتے ہیں :جب(کوہ طورپر) خداوندعالم حضرت موسی سے ہمکلام ہواتوحضرت موسیٰ نے بارگاہ ربّ العزت میں عرض کی : پروردگار ا ! اگر کوئی تیرے خوف میں مکمل طور سے وضوکرے اسکا اجروثواب کیاہے ؟ خداوند عالم نے فرمایا : روزقیامت اس کو قبرسے اس حال میں بلند کروں گا کہ اس کی پیشانی سے نور ساطع ہوگا ۔

فی الخبراذاطهرالعبدیخرج الله عنه کل خبث ونجاسة وانّ من توضافاحسن الوضوء خرج من ذنوبه کیوم ولدته من امه ۔(۲)

روایت میں آیاہے جب کوئی وضوکرتاہے توخداوندعالم اسے ہرنجاست وخباثت سے پاک کردیتاہے اورجوشخص مکمل طورسے وضوکرتاہے توخدااسے گناہوں سے اس طرح پاک کردیتاہے جیسے اس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیاہو۔

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ١/ص ٢۶٨

۲)بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٣٠١

. ۳)مستدرک الوسائل/ج ١/ص ٣۵٨

۹۰

قال النّبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یٰااَنس اَسبغ الوضوء تمرُّعلی الصراط مرٌالسحاب .(۱) رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : اے انس ! وضو کومکمل اوراس کے تمام آداب شرائط کے ساتھ انجام دیاکرو تا کہ تم تیز ر فتا ر با دل کے مانند پل صراط سے گزر سکو ۔

آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی

جناب نفیسہ خاتون جوکہ اسحاق بن امام جعفرصادق کی زوجہ اورحسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ کی صاحبزادی تھیں،آپ ایک عظیم و با ایمان خاتو ن تھیں اور مدینہ میں زندگی بسرکرتی تھیں،اس عظیم خاتون نے پورا قرآن مع التفسیر حفظ کررکھاتھا ، دن میں روزہ رکھتی اور راتوں کو عبادت ومناجات کرتی تھیں،آپ تیس مرتبہ حج بیت ا للھسے مشرف ہوئیں اور غالباً سفرحج کو پیدل طے کرتی تھیں جبکہ آپ بہت زیادہ صاحب ثروت تھیں لیکن اپنے مال ودولت کوبیماروں وحاجتمندوں پرخرچ کرتی تھیں

آپ کی بھتیجی “زینب بنت یحییٰ ”کہتی ہیں کہ :میں نے اپنی زندگی کے چالیسبرس اپنی پھو پھی کی خدمت میں گذارے ہیں، اس مدت کے دوران میں نے انھیں رات میں کبھی سوتے ہوئے اور دن میں کوئی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ،آپ رات میں عبادت کرنے اور دنوں میں روزہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوچکی تھیں ایک دن میں ان سے کہا: آپ اپنا علاج کیوں نہیں کرتی ہیں ؟ جواب دیا: میں اپنے نفس کا علاج کس طرح کروں ابھی تو راستہ بہت دشوار ہے اوراس راستہ سے فقط ناجی لوگ ہی گزرسکتے ہیں۔

ایک سال جب جناب نفیسہ نے اپنے شوہر (حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ) کے ہمراہ حضرت ابراہیم کی قبر کی زیارت کے لئے فلسطین کا سفر کیا اورزیارت کے بعدسفرسے واپسی کے درمیان مصرمیں قیام کیاآپ کے ہمسایہ میں ایک یہو دی رہتا تھاجس کے گھرمیں ایک نابینا لڑکی تھی ،ایک دن اس یہودی لڑکی نے نفیسہ کے وضو کے پانی کو بعنوان تبرک اپنی آنکھوں پر ڈالا توفوراً شفاپاگئی جب اس خبرکومصرکے یہودیوں نے سناتو ان میں سے اکثرنے دین اسلام قبول کیا اور وہاں کے اکثر لوگ آپ کے عقیدتمندہوگئے، جب آپ نے مدینہ واپس جا نے کا ارادہ کیا تو اہل مصرنے اصرارکیا کہ آپ یہیں پر قیام پذیرہوجائیں ،آپ نے ان کی درخواست کو منظور کر لیااوروہیں پرزندگی گذارنے لگیں ۔

____________________

۱) خصال(شیخ صدوق)/ص ١٨١

۹۱

جناب نفیسہ نے مصرمیں اپنے ہاتھوں سے ایک قبربنارکھی تھی اور سفر آخرت کا انتظا ر کرتی تھیں ، روزانہ اس قبر میں داخل ہوتی اور کھڑے ہوکر نماز پڑ ھتی تھیں اور اسی قبرمیں بیٹھ کر چھ ہزار مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق ١٩٠ /مرتبہ قرآن ختم کیا ہے اور آپ ماہ رمضان المبارک ٢٠٨ ئھ میں روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے داربقاء کی طرف کوچ کر گئیں(۱)

آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا

جوادا لآ ئمہ حضرت امام محمدتقی کی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ : جس وقت آپ اپنے شیعوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بغدادسے مدینہ کا سفر طے کررہے تھے تو غروب آفتاب کے وقت کوفہ کے قریب پہنچے اورایک جگہ پرجس کا نام“دارمسیب”ہے قیام کیا اوروہاں کی مسجد میں داخل ہوئے کہ مسجدکے صحن مسجد میں ایک درخت تھا جس پرکوئی پھل نہیں لگتاتھا

حضرت امام محمدتقی نے ایک برت ن میں پانی طلب کیا اور اس درخت کے نیچے بیٹھ کر وضوکیا اور نمازمغرب کو اوّل وقت اداکیااورلوگوں نے آپ کی اقتداء میں جماعت سے نمازپڑھی ،امام (علیه السلام)نے پہلی رکعت میں حمدکے بعد “اذاجاء نصرالله” اور دوسری رکعت میں حمدکے بعد“( قل هوالله احد ) ” کی قرائت کی اورسلام نماز کے بعد ذکرخدا اور تسبیح میں مشغول ہوگئے اس کے بعد چار رکعت نافلہ نمازپڑھی اور تعقیبات نمازپڑھ کر سجدہ شکر ادا کیا،اورنماز عشاکے لئے کھڑے ہوگئے ،جب لوگ نمازودعاسے فارغ ہونے کے بعد اٹھ کرمسجد سے باہرآنے لگے اور صحن مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہیں اس معجز ے کو دیکھ کر سب کے سب حیرت زدہ ہوگئے اور سب نے درخت سے پھل توڑکر کھاناشروع کیا تو دیکھا کہ میوہ بہت ہی زیاد ہ میٹھا ہے اور اس کے اندر کوئی گٹھلی بھی نہیں ہے اس کے بعد امام محمدتقی (علیه السلام)اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مد ینہ کی طرف ) راوانہ ہوگئے ۔(۲)

____________________

. ١)سفینة البحار/ج ٢/ص ۶٠۴ ۔ ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣۶

٢ )ارشادشیخ مفید/ص ۶٢٨ باب ٢۵

۹۲

راز تیمم

اگروضوکے لئے پانی کاملناممکن نہ ہو،یاپانی تک رسائی نہ ہو،یاپانی کااستعمال مضرہو،یاکسی نفسکے لئے خطرہ ہوتوان صورتوں میں وضوکے بجائے تیمم کرناواجب ہے قرآن کریم ارشادباری تعالی ہے:

( وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضیٰ اَوعَلٰی سَفَرٍاَوْجَاءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ اَوْلَاْمَسْتُمْ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوامَآءً فَتَیَمَّمُواصَعِیْدًاطَیِّبًافَامْسَحُوابِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْهُ ) (۱) اگرتم مریض ہویاسفرکے عالم ہویاپاخانہ وغیرہ نکل آیاہے یاعورتوں کوباہم لمس کیاہے اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلواوربھی اس طرح سے اپنے چہرے اورہاتھوں کامسح کرلو۔

اس آیہ مبارک میں تیمم کاطریقہ یہ بیان کیاگیاہے کہ تیمم کی نیت کرکے دونوں ہاتھوں کوگرد،خاک ،ریت،ڈھیلے ،پتھرپرماریں اوراس کے بعددونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی اوراس دونوںطرف جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں،ابرووں تک اورناک اوپرتک پھیریں،اس کے بعددائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں ہاتھ کی پشت پرگٹے سے انگلیوں کے سرے تک پھیریں،اس کے بعداسی طرح بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں ہاتھ کی پشت پرپھیریں۔ جسچیزپرتیمم کیاجائے اس کاپاک ہوناضروری ہے کیونکہ خداوندعالم نے آیہ مٔبارکہ میں “صعیداًطیباً ” کہاہے

رازتیمم یہ ہے کہ:جب آپ کووضوکے لئے پانی دستیاب نہ ہوسکے توخاک کوجوکہ پست ترین پدیدہ جٔہان ہے اپنے ہاتھ اورچہرے پر ملیں تاکہ آپ کے اندرسے غروروتکبّراورشہوت نفسانی اورشیطانی خواہشیں دور ہوجائیں اورشایدخداکوآپ کی اس تواضع وخاکساری پررحم آجائے اورراہ راست کی ہدایت کردے۔

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ /آیت ۶

۹۳

خداوندعالم نے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ کیوں قراردیاہے اوران دونوں کووسیلہ طٔہارت قراردینے کی کیاوجہ کیاہے؟

کشف الاسرارمیں اس حکم خداکی دو حکمت اس طرح بیان کی ہیں:

١۔ خداوندعالم نے انسان کو پانی اور مٹّی سے پیدا کیا ہے ،ان دونوں نعمتوں پرخداکاشکر کرناچاہئے اسی لئے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے تاکہ ہم اس مطلب کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ان دونوں نعمتوں کودیکھ کرخداکا شکرخدا کریں

٢۔ دوسری حکمت اس طرح بیان کی جاتی ہے: خداوندعالم نے آب وخاک کو طہارت کا ذریعہ اس لئے قراردیا ہے کہ انسان اس کے ذریعہ دنیاوی آگ (آتش شہوت) اور آخرت کی آگ (نارجہنم وعقوبت)کو خاموش کرسکے کیونکہ مومن کے لئے دوآگ درپیش ہیں :

١۔دنیاوی آگ جسے شہوت نفسانی کی آگ کہاجاتاہے

٢۔ آخرت کی آگ جسے نارعقوبت و جہنم کہاجاتاہے ) اورانسان آب وخاک کے ذریعہ دنیوی اوراخروی آگ کوخاموش کرسکتاہے۔(۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:سرکے بعض اورپیروں کے بھی بعض حصے کے مسح کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم نے آیہ مبارکہ فلم تجدوماء فتیمموا صعیداً طیباًفامسحوابوجوہکم پانی نہ ملنے کی صورت میں دھونے کے وجوب کوساقط کردیااوراسکے بدلے میں کرناواجب کردیااورفرمایا: “فامسحوابوجوہکم” یعنی اپنے چہرے کامسح کرواوراس کے بعدفرمایا:“وایدیکم”یعنی اپنے ہاتھوں کابھی مسح کرو،ہاتھوں کے مسح کرنے کوچہرے کے مسح کرنے عطف کیااوراس کے بعد“منہ” فرمایا:یعنی پانی نہ ملنے کی صورت میں خاک پاک پرتیمم کرواوراپنے چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواب یہ جوکہاجاتاہے کہ چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم جانتاہے کہ پورے چہرے پرخاک نہیں ملی جاتی ہے کیونکہ جب ہاتھوں کوخاک پرمارتے ہیں توتھوڑی سی خاک ہاتھوں پرلگ جاتی ہے اوربقیہ تواپنی جگہ پررہتی ہے اورہاتھوں پرنہیں لگتی ہے لہٰذاجب ہاتھوں چہرے پرملتے ہیں تواس میں سے کچھ خاک چہرے پرلگ جاتی ہے نہ کہ پوری خاک، اس کے بعدخداوندعالم ارشادفرماتاہے:( مَایُرِیْدُاللهَ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ )

خداوندعالم تمھیں کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتاہے ۔(۲)

____________________

. ١)کشف الاسرار/ج ٣/ص ۴٩ ۔ ۵٠

۲). کافی /ج ٣/ص ٣٠

۹۴

رازوجوب ستر

مردکے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنی شرمگاہ ( آگے پیچھے کاحصے)کو چھپائے چاہے اسے کوئی دیکھ رہاہویانہ، اوربہترہے کہ ناف سے زانوتک چھپائے ۔ عورت کے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے بدن کوچھپائے یہاں تک کہ اپنے بال اورسرکوبھی چھپائے ،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ پاؤں کھلے رہ سکتے ہیں لیکن یہ یقین کرنے کے لئے کہ مقدارواجب کوچھپالیاگیاہے تھوڑاساچہرے کے اطراف اورگٹوں سے نیچے کوبھی چھپائے ۔

جب ہم کسی کی مہمانی میں جاتے ہیں توعقلمنداورصاحب عفت انسان کی عقل یہی حکم دیتی ہے کہ بہترین لباس پہن کرجائیں اوروہ بھی ایسالباس کہ جس سے لوگ ہمارے جسم کے قبائح پرنظرنہ ڈال سکے ،اگرکوئی بغیرلباس کے مہمانی میں جائے توصاحب خانہ اوروہاں پرموجودلوگ اس کے جسم پرنگاہ نہیں کریں گے؟اسی لئے نمازکی حالت میں سترکوواجب قراردیاگیاہے تاکہ اپنے رب کی مہمانی میں بغیرکسی خوف کے خضوع وخشوع کے ساتھ نمازپڑھ سکے ۔

نمازکی حالت میں بدن کے ڈھانپنے کی وجہ روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے: امام صادق فرماتے ہیں:مومنین کامزین ترین لباس تقویٰ وہیزگاری کالباس ہے اوران کالطیف ترین لباس ایمان وعقیدہ کالباس ہے جیساکہ خداوندمتعال اپنی کاتا میں ارشادفرماتاہے :

( لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ ) (۱) لباس تقویٰ بہترین لباس ہے ،لیکن لباس ظاہری خداوندعالم کی نعمتوں سے کہ جسے اولادآدم(علیه السلام) کے لئے ساترقراردیاگیاہے ،اولادآدم کوچاہئے کہ لباس کے ذریعہ اپنی عورت کوچھپائے ذریت آدم(علیه السلام) کے لئے سترعورت ایک خاص کرامت ہے جسے انسان کے علاوہ کسی بھی موجودات عطانہیں کیاگیاہے پس مومنین پرواجب ہے کہ اسے واجبات الٰہی کوانجام دینے میں ضروراستعمال کرے ،اورتمھارابہترین لباس وہ ہے کہ جوتمھیں یادخداسے غافل نہ کرے اوردوسرے کام میں مشغول نہ کرے بلکہ شکروذکراوراطاعت پروردگارسے نزدیک کرے ،پس ایسے لباس سے پرہیزکیاجائے جوانسان کویادپروردگارغافل اوردوری کاسبب بنے ،اورجان لوکہ لباس بلکہ تمام مادی امورہیں کہ جوانسان کے ذات پروردگارسے دوری اوراشتغال دنیاکاسبب واقع ہوتے ہیں اورتمھارے اس نازک سے دل میں ایک برااثرڈالتے ہیں اورریاکاری ،فخر،غرورمیں مبتلاکرتے ہیں،یہ سب دین تمھارے دین کونابودکرنے والے ہیں اوردل میں قساوت پیداکرتے ہیں

____________________

۱). سورہ اعراف /آیت ٢۶ مصباح الشریعة /ص ٣٠

۹۵

جب تم اس ظاہری لباس کواپنے ت ن پرڈالوتواس چیزکویادکروکہ خداوندمتعال اپنی رحمت کبریائی سے تمھارے گناہوں کوچھپاتاہے لیکن بہ بھی یادرہے ظاہری پہنے کے ساتھ باطنی لباس سے غفلت نہ کرو،جس طرح تم ظاہری طورسے اپنے آپ کوچھپارہے ہوباطنی طورسے بھی ملبس کرو،تمھیں چاہئے کہ جس طرح تم ظاہری طورسے کسی خوف کی بناپراپنے آپ کوملبس کرتے ہواسی باطنی میں ملبس کرواوراپنے رب کے فضل وکرم سے عبرت حاصل کروکہ اس نے تمھیںظاہری لباس عطاکیاتاکہ تم اپنے ظاہری عیوب کوپوسیدہ کرسکو،اس نے تمھارے لئے توبہ کادوروازہ کھول رکھاہے تاکہ تم اپنی باطنی شرمگاہوں کوبھی لطف گناہوں اوربرے کارناموں سے پوشیدہ کرسکو،یادرکھوکسی ایک رسوانہ کرناتاکہ تمھارپروردگارتمھیں رسوانہ کرے ،اپنے عیوب کی تلاش کروتاکہ تمھاری اصلاح ہوسکے اورچیزتمہاری اعانت نہ کرسکے اس سے صرف نظرکرو،اوراس چیزسے دوری کروکہ تم دوسروں کے عمل کی خاطراپنے آپ کوہلاکت میںڈالواوردوسرے کے اعمال کانتیجہ تمھارے نامہ اعمال میں لکھاجائے اوروہ تمھارے سرمایہ میں تجاوزکرنے لگیں اورتم اپنے آپ کوہلاک کرلو،کیونکہ انجام دئے گئے گناہوں کو بھول جانے سے ایک خداوندعالم دنیامیں اس پرایک سخت عقاب نازل کرتاہے اورآخرت میں بھی اس کے لئے دردناک عذاب ہے

جب تک انسان اپنے آپ کوحق تعالی کی اطاعت سے دوررکھتاہے اوراپنے آپ کودوسروں کے عیوب کی تلاش میں گامزن رکھتاہے اورجب تک انسان اپنے گناہوں بھولے رکھتاہے اوراندرپائے جانے والے عیوب کونہیں جانتاہے اورفقط قوت پراعتمادرکھتاہے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتاہے۔

۹۶

رازمکان و لباس

رازطہارت بدن ،لباس اورمکان

نمازی کے بدن اورلباس کاپاک ہوناشرط صحت نمازہے،خواہ انسان واجبی نمازپڑھ رہاہویامستحبی ،اگربدن یالباس پرنجاست لگی ہوتواس کاپاک کرناواجب ہے خواہ بال یاناخن ہی نجسہوں سجدہ کرنے کی جگہ پاک ہوناچاہئے اگرسجدہ گاہ نجس ہوچاہے ہوخشک ہی کیوں نہ ہونمازباطل ہے البتہ سجدہ گاہ کے علاوہ دوسری جگہ کاپاک ہوناضروری نہیں ہے اگرنمازی کی جگہ سجدہ گاہ کے علاوہ نجس ہو تووہ ایسی ترنہ ہوکہ اس کی رطوبت بدن یالباس سے لگ جائے ورنہ نمازباطل ہے البتہ اگرنجاست کی مقدارمعاف ہونے کے برابرہے تونمازصحیح ہے ۔ نمازکی حالت میں انسان کے بدن ولباس اورمکان کاظاہری اورباطنی طورسے پاک ہوناواجب ہے یعنی لباس کاپاک ومباح ہوناواجب ہے ان تینوں چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے: کیونکہ خدوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاک وپاکیزہ رہنے والوں کودوست بھی رکھتاہے،خداوندعالم نظیف ہے اورنظافت کودوست رکھتاہے کیونکہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنَّ اللهُ یُحِبّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ ) (۱)

خداتوبہ کرنے اورپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:

( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ ) (۲)

خداپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

رازاباحت لباس ومکان

انسان جس لباس میں اورجس جگہ پرنمازپڑھ رہاہے _ان دونوں کامباح ہوناواجب ہے ،اگردونوں میں ایک چیزبھی غصبی ہوتونمازباطل ہے اورمباح لباس ومکان میں نمازکااعادہ کرناواجب ہے کیونکہ نمازمیں بدن کاچھپاناواجب ہے اورکسی حرام چیزکے ذریعہ بدن کوچھپاناحرام ہے اورکسی حرام کام کے ذریعہ واجب کوادانہیں کیاجاستاہے کیونکہ نمازمیں نیت ضروری ہے اورنیت میں قربت ہوناضروری ہے اورحرام کام کے ذریعہ قربت کاحاصل کرناغیرممکن ہے پسقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔

____________________

۱)سورہ بقرة/آیت ٢٢٣

۲) سورہ تٔوبہ/آیت ١٠٨

۹۷

چوری اورغصب حرام اورقبیح ہیں ، اورنمازمیں قربت کی نیت ضروری ہے اورقباحت وقربت ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں پس نمازباطل ہے ۔

اگرکسی شخص پرخمس یازکات واجب ہے اور وہ خمس یازکات نہ نکالے اور اس خمس کے مال سے کوئی لباس یامکان خریدے اوراس میں نمازپڑھے تووہ نماز باطل ہے کیونکہ اس لباسیامکان میں دوسرے کاحق ہے جسے ادانہیں کیاگیاہے گویااسکے اس خریدے ہوئے لباس یامکان میں دوسروں کاپیسہ بھی شامل ہے جسے اس نے غصب کرلیاہے اوراس میں نمازپڑھ رہاہے لہٰذااس کی یہ نمازباطل ہے ۔

امیرالمومنین حضرت علی جناب کمیل سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یاکمیل ! انظرفی ماتصلی وعلی ماتصلی ان لم یکن من وجهه وحله فلاقبول ۔(۱) اے کمیل! تم ذرایہ دیکھاکروکہ کس لباس میں اورکس جگہ پر نمازپڑھ رہے ہو،اگروہ تمھارے لئے مباح وحلال نہیں ہے توتمھاری نمازقبول نہیں ہے ۔

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال:المسلم اخوالمسلم لایحلّ ماله الّاعن طیب نفسه ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ،کسی شخص کے لئے مالک کی رضایت کے بغیراسکے مال کاستعمال کرناجائزنہیں ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ایمارجل اتی رجلافاستقرض منه مالاوفی نیته ان لایو دٔیه فذلک اللص .

امام صادق فرماتے ہیں:کت نے لوگ ایسے ہیں جوکسی دوسرے شخص کے پاس جاتے ہیں اورکوئی مال ادھارلیتے ہیں لیکن معاوضہ دینے کی نیت نہیں رکھتے ہیں،ایسے لوگ چورشمارہوتے ہیں۔(۳)

____________________

. ١)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٢٣

. ٢)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٣١

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/ص ١٨٣

۹۸

نمازی کالباس مردہ حیوان سے نہ بناہو

نمازی کالباس خون جہندہ رکھنے والے مردہ حیوان کے کسی ایسے اجزاء سے نہ ہوکہ جن میں حیات حلول کرتی ہے جیسے کھال چاہے اسے پیراستہ کردیاگیاہولیکن وہ اجزاء کہ جن میں حیات حلول نہیں کرتی ہے ان میں نمازپڑھناجائزہے جیسے بال اوراون جبکہ وہ حلال گوشتی جانورسے اخذکی گئی ہو۔نمازی کے پاس کسی مردارکے ان اجزاء میں سے کوئی چیزنہ ہوجوروح رکھتی ہیں لیکن وہ اجزاء کہ جن میں روح نہیں ہوتی ہے جیسے بال اون اگریہ نمازی کے ہمراہ ہوں ہوتوکوئی حرج نہیں ہے ۔

امام صادق سے اس قول خداوندی کے بارے میں پوچھاگیاکہ جواس نے حضرت موسیٰ (علیه السلام)سے کہا:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۱)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا:کانتامن جلدحمارمیت. وہ دونوں جوتیاں مردہ گدھے کی کھال سے بنی ہوئی تھیں۔(۲)

حرام گوشت جانورکے اجزابنے سے لباس میں نمازکے باطل ہونے کی وجہ:

نمازی کالباس حرام گوشت جانورکی کھال،بال ،اون وغیرہ سے نہ بناہوبلکہ اگرحرام گوشت جانورکے بال بھی نمازی کے ہمراہ ہوں تونمازباطل ہے اسی طرح حرام گوشت جانورکالعب دہن ،ناک یاکوئی دوسری رطوبت نمازی کے بدن یالباس پرلگی ہوتو نمازباطل ہے اوراسی طرح اگرحلال گوشت جانورکہ جسے غیرشرعی طورسے ذبح کیاگیاہواس کی کھال،بال،اون وغیرہ سے بھی بنائے گئے لباس میں پڑھی جانے والی نمازباطل ہے،لیکن حلال گوشت جانورکے بال،کھال ،اون وغیرہ کے لباس میں نمازپڑھناجائزہے جبکہ اسے تذکیہ کیاگیاہواسی بارے میں چنداحادیث مندرجہ ذیل ذکرہیں:

حدثناعلی بن احمدرحمه الله قال:حدثنامحمدبن عبدالله بن محمدبن اسماعیل باسنادیرفعه الیٰ ابی عبدالله علیه السلام قال:لایجوزالصلاة فی شعرووبرمالایوکل لحمه لانّ اکثرهامسوخ ۔(۳)

حرام گوشت جانورکی کھال وبال میں نمازپڑھناجائزنہیں ہے کیونکہ وہ جانورکہ جن کاگوشت کھاناحرام ہے ان میں سے اکثرجانورمسخ شدہ ہیں۔

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴٨

. ۳)علل الشرایع /ص ٣۴٢

۹۹

مردکا لباس سونے اورخالصریشم کانہ ہو

مردکالباس سونے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کیونکہ مردوں کااپنے آپ کوسونے سے زینت دیناحرام ہے مثلاسونے کی انگوٹھی یازنجیرپہننا،گھڑی کابندسونے کاہونایہ سب نمازاورغیرنمازحالت میں حرام ہیں خواہ وہ سونے کی چیزیں ظاہرہوں یاپنہاں ہوں نمازباطل ہے لیکن عورتوں اورلڑکیوں کے لئے نمازاورغیرنمازکی حالت میں اپنے آپ کوسونے سے زینت دیناجائزہے ۔

سونے کے تاروں سے بنے ہوئے لباس مردوں کے لئے حرام ہیں،خواہ ظاہرہوں یاپنہاں ہوں ،اگرکسی کااندرونی لباس مثلابنیان وغیرہ سونے سے بناہواوروہ دکھائی نہ دیتاہوتوتب بھی نمازباطل ہے یعنی معیارسوناپہنناہے خواہ وہ دکھائی دیتاہویانہعن ابی عبدالله(ع قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لامیرالمومنین (ع:لاتختم بالذهب فانّه زینتک فی الآخرة ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)امیرالمومنین علی ابن ابی طالب +سے فرماتے ہیں :سونے کی انگوٹھی نہ پہنناکیونکہ یہ تمھارے لئے آخرت کی زینت ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الحدید انه حلیة اهل النار ، والذهب حلیة اهل الجنة ، وجعل الله الذهب فی الدنیازینة النساء فحرم علی الرجال لبسه والصلاة فیه . امام صادق فرماتے ہیں:لوہااہل جہنم کازیورہے اور سونااہل بہشت کازیورہے اورخداوندعالم نے دنیامیں سونے کوعورت کازیورقراردیاہے اورمردکے لئے سوناپہننااوراس میں نمازپڑھنا حرام ہے ۔(۲)

نمازی کے لئے مستحب ہے کہ نمازپڑھتے وقت تحت الحنک کے ساتھ سر پر عمامہ لگائے ،دوش پرعباڈآلے خصوصاً پیش نماز،پاکیزہ اورسفیدلباس پہنے، عطر و خوشبو لگائے ،عقیق کی انگوٹھی پہنے۔

____________________

۱)کافی /ج ۶/ص ۴۶٨

۲)تہذیب الاحکام/ج ١/ص ٢٢٧

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370