نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145058
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145058 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

رزق میں برکت ہوتی ہے

عن ضمرة بن حبیب قال:سئل النبی صلی الله علیه وآله عن الصلاة فقال:الصلاة من شرایع دین وبرکة فی الرزق ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:نمازشریعت دین اسلام میں سے ہےاورکے ذریعہ نمازی کے رزق میں برکت ہوتی ہے

دعائیں مستجاب ہوتی ہیں

قال رسول الله صلی علیه وآله:من ادی الفریضة فله عنداللهدعوة مستجابة ۔

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جوشخص فریضہ الٰہی (نماز)کوانجام دیتاہے(اوراس کے بعدالله تبارک تعالیٰ سے کوئی چیزطلب کرتاہے تو)اس کی دعابارگاہ خداوندی میں ضرورمستجاب ہوتی ہیں۔(۲)

رحمت خدانازل ہوتی ہے

خدا وندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:( وَالْمُومِنُوْنَ وَالْمُومِنَاتِ بَعْضُهُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یَا مُٔرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُوتُونَ الزَّکٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ اُولٓئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌحَکِیْمٌ ) (۳) مومن مرداورمومنہ عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی ومددگارہیں کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کونیکیوں کاحکم دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں ،نمازقائم کرتے ہیں ،زکات اداکرتے ہیں اورالله ورسول کی اطاعت کرتے ہیں ،یہی سب وہ لوگ ہیں جن پر خدارحمت نازل کرے گا۔( اَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُوالزَّکٰوةَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ) (۴)

نمازقائم کرو ،زکات اداکرواوررسول کی اطاعت کروکہ شایداسی طرح تمھارے حال پررحم کیاجائے۔

قال علی علیه السلام:الصّلٰوة ینزل الرحمة ۔(۵)

حضرت علیفرماتے ہیں:نمازرحمت خداکے نازل ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے۔

____________________

. ۱)الخصال شیخ صدوق/ص ۵٢٢ --. ۲)بحارالانوار/ج ٧٩ /ص ٢٠٧

۳)سورہ تٔوبہ /آیت ٧١

. ۴)سورہ نٔور/آیت ۵۶

۵)میزان الحکمة /ج ۵/ص ٣۶٧

۴۱

قال الصادق علیه السلام:اذاقام المصلی الی الصلاة نزلت علیه الرحمة من اعیان السماء الی الارض وحفت به الملائکة ونادی ملکٌ:لویعلم المصلی ماله فی الصلاة ماانْفتل ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں:جب نمازگزارنماز کے لئے کھڑہوتاہے آسمان سے لے

کرزمین تک اس پررحمت نازل ہوتی رہتی ہے اورفرشتے اسے اپنے احاطہ میں لے لیتے ہیں اورایک فرشتہ آوازبلندکرتاہے :اگراس نمازگزارکریہ معلوم ہوجائے کہ نمازمیں کیاکیاچیزیں ہیں توہزگزنمازسے نہیں رک سکتاہے ۔

دل کوسکون ملتاہے اوررنج وغم دورہوتے ہیں

نمازایسی واجب الٰہی ہے کہ جس کے ذریعہ نمازی دل کوسکون ملتاہے کلیجہ کوٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ،رنج وغم دورہوتاہے کیونکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( اَلابِذِکْرِالله تَطْمَئِنَ الْقُلُوب ) (۲)

آگاہ ہوجاؤ! الله کے ذکرسے دلوں کوسکون ملتاہے۔

امام صادق فرماتے ہیں: جب بھی تمھیں دنیامیں کوئی مشکل پیش آئے تووضوکرکے مسجدجاؤاور دورکعت نمازپڑھواورنمازمیں دعاکروکیونکہ خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:

( وَاسْتَعِیْنُوابِالصَّبْرِوَالصَّلاةِ ) (۳) نمازاورصبرکے ذریعہ اللھسے مددطلب کرو۔(۴)

____________________

. ۱)آثارالصادقین /ج ١١ /ص ٩٩

. ۲)سورہ رعد/آیت ٢٨

۳)سورہ بقرہ /آیت ۴۵

.۴)مجمع البیان /ج ١/ص ١٩۴.

۴۲

عورت کی عزت آبروقائم رہتی ہے

عورت پرواجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے جسم کوچھپائے یہاں تک کہ بالوں کوبھی خواہ اسے کوئی نہ دیکھ رہاہو،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ وپاؤں کاکھلارہناجائزہے ،نمازکایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عورت نمازکے ذریعہ پردہ کی عادی بن جاتی ہے ،نمازی وپرہیزگارعورت گھرسے باہر(گلی ،کوچہ ،محفل اورمجلس میں)بھی اپنے پردے کاخیال ضروررکھتی ہے۔

بے حجاب عورت کی مثال پھلدار درخت کی اس شاخ کے مانند ہے جو کسی باغ یاگھرکی چہاردیواری سے باہرنکلی ہوئی رہتی ہے کہ جسپاسسے گذرنے ہرشخص اس شاخ کی طرف دست درازکرتاہے اوراس کے پھل کوتوڑکرکھانے کی کوشش کرتا ہے اوربے حجاب عورت کی مثال چمن کھلے ہوئے اس پھول کے مانندہے جس کی رنگت اورخوبصورتی کودیکھ کرہرشخص کے دل میں اس پھول کوچھونے ، مس کر نے اوراس کی خوشبو سونگھے کی رغبت پیداہوتی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ اس قدرتجاوزکرجاتے ہیں کہ اس پھول کوشاخ سے توڑکراس کی خوشبوسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

حجاب عورت کے لئے ایک ایسا حصا ر و حافظ ہے جو عورت کو بیگانہ اور اجنبی لوگوں کے خوف وخطرسے محفوظ رکھتا ہے ، حجاب کا درس حاصل کرنے اور اس کی عادت ڈالنے کی بہتر ین درسگاہ نماز ہے کیونکہ ہرمسلمان عورت پر واجب ہے کہ وہ روزانہ پانچ مرتبہ حجاب کا مل کے ساتھ خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں کھڑی ہوکر نماز پڑھے اور اپنے رب کے ساتھ رازونیاز کرے ۔

قرآن کریم متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے

نمازکے فوائدمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس کے ذریعہ متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے اورنمازمیں اسی لئے قرئت کوواجب قراردیاگیاہے تاکہ قران متروک ہونے سے محفوظ رہے کیونکہ ممکن ہے انسان کسی کام میں مشغولیت کی بناپر،یاکسالت اورسستی کی وجہ سے روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے لیکن خدوندعالم نے اس لئے تاکہ انسان تلاوت کے اجروثواب اوراس کے فوائدسے محروم نہ رہے نمازمیں نمازمیں قرئت کوواجب قراردے دیا،اس بات کومکمل طورسے رازقرائت میں ذکرکریں گے۔

قبض روح میں اسانی ہوتی ہے

ایک شخص نے امام صادق سے مومن کی موت کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیھ السلام) نے فرمایا:

لِلْمُومِن کَاَطْیَب رِیح یَشمّه، فَیَنْعَسُلِطِیبِهِ ،وَیَنْقَطَعِ التّعَبَ وَالْاَلَم کُلّهُ عَنْهُ ۔(۱) مومن کی موت ایک خوشبودارپھول سونگھنے کے مانندہے، موت آتے ہی اس کے تمام رنج وغم ختم ہوجاتے ہیں۔

____________________

. ١)معانی الاخبار/ص ٢٨٧

۴۳

برزخ اورقیامت میں نمازکے فوائد

انسان کے مرنے کے بعددنیااورتمام عزیزواقارب سے ہرطرح کاتعلق منقطع ہو جاتے ہیں ،دنیاکی کوئی چیزاس کے ساتھ قبرمیں نہیں جاتی ہے بلکہ ماں باپ،بھائی بہن، مال ودولت ،اولادوہمسر،سب کادامن ہاتھ سے چھٹ جاتاہے اورجب تمام عزیزواقارب اسے دفن کرکے واپس چلے جاتے ہیں تو میت پراس ت نگ اوراندھیری کوٹھری میں ت نہائی کی وجہ سے ایک ہولناک وخوفناک وحشت طاری ہوتی ہے اورجب کوئی اسے اس وحشت سے نجات دلانے والانہیں ملتاہے تواس کی نمازاسے قبرکی ت نہائی سے نجات دلاتی ہے ،عالم برزخ میں نمازکے مونسہونے کے بارے میں چندحدیث مندرجہ ذیل ذکرہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان الصلاة تاتی المیت فی قبره بصورة شخص انوراللون یونسه فی قبره ویدفع عنه اهوال البرزخ ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :عالم برزخ میں نمازایک نورانی اورخوبصورت شخص کی شکل میں قبرمیں داخل ہوتی ہے جوقبرمیں انسان کی مددگارثابت ہوتی ہے اوربرزخ کی وحشت کواس سے دورکرتی ہے ۔

عن ضمرة بن حبیب، قال: سئل النبی صلی الله علیه وآله عن الصلاة فقال: الصلاة من شرایع دین وشفیع بینه وبین ملک الموت ،وانس فی قبره ،وفراش تحت جنبه،وجواب لمنکرونکیر ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:نمازشریعت دین اسلام میں سے ہےنمازوہ ہے کہ جوملک الموت اوراس نمازی کے درمیان شفیع واقع ہوتی ہے ،قبراس کی مددگارثابت ہوتی ہے ،اوراس کے لئے بہترین بچھوناہوتی ہے ،منکرونکیرکے سوالوں کاجوابگوہوتی ہے ۔لیکن یہ بات یادرہے کہ ہرنمازانسان کوبرزخ میں قبرکی وحشت سے نجات نہیں دلاسکتی ہے بلکہ صرف وہ نمازکام آئے گی جوپورے آداب وشرائط کے ساتھ انجام دی گئی ہوخصوصاًوہی نمازکام آئے گی جومحمدوآل کی محبت کے ساتھ انجام دی گئی ہو۔ عبدالرحمن ابن سمیرسے مروی ہے :ایک دن ہم چند لوگ رسولخدا (صلی الله علیھ و آلھ) کی خدمت میں جمع تھے ، آنحضرت نے فرمایا : میں نے کل رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے ، میں نے عرض کیا : یا رسول الله ! آپ پر ہماری اور ہماری اولاد کی جانیں قربان ہو جائیں آپ ہمیں بتائیں کہ خواب میں کیا دیکھا ہے ؟ پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے خواب بیان کرنا شروع کیا اورفرمایا: میں نے ایک مرد کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اس کا محاصرہ کررکھا ہے اسی وقت اس شخص کی نماز آئی اور اسے عذاب کے فرشتوں سے آزاد کر ایا ۔(۳)

____________________

. ١)الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢ --. ۲)الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢

۳)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٨٣.

۴۴

ایک دن جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا: نمازشریعت دین اسلام میں سے ہےاورروزمحشرنمازی کے سرکاتاج ہوگی ،نمازی کے چہرے پرنوربرستاہوگا،نمازاس کے بدن کالباس ہوگی اورجنت وجہنم کے درمیان ایک حجاب وسپر واقع ہوگی ،نمازی اورخدائے عزوجل کے درمیان حجت ہوگی ،اس کے جسم کونارجہنم سے نجات دلائے گی اورپل صراط سے آسانی سے گزرنے کاسبب واقع ہوگی ،نمازجنت کی ) کنجی ہے اورنمازگزارنمازکے وسیلے سے بلندمقام تک پہنچے گا ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک بوڑھے شخص کو حاضر کیا جائے گا اور اس کا نامہ أعمال اس کے ہاتھوں میں دیا جائے گا اورسب اس کو دیکھتے ہو نگے ،اسے اپنے نامہ أعمال میں گناہوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آئے گا، جب حساب لیتے ہو ئے بہت دیر ہو جائے گی تو وہ بوڑھا شخص کہے گا : بارالہا ! مجھ کو ایسالگتا ہے کہ تو مجھے دوزخ میں ڈالنے کا حکم دینے والاہے ؟ خطاب ہو گا : اے بوڑھے انسان مجھے تجھ پر عذاب نازل کرتے ہوئے حیا آتی ہے ، کیونکہ تو نے دنیا میں نمازیں پڑھی ہیں اس کے بعد پرور دگار اپنے فرشتہ ) سے کہے گا : میر ے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ۔(۲)

روزانہ پانچ ہی نمازکیوں واجب ہیں

خداووندعالم نے روزانہ پانچ نمازوں کوواجب قراردیاہے:ظہروعصر،مغرب، عشا اور صبح کی نماز،قرآن کریم اورروایت میں پانچ ہی نمازوں کاذکرہواہےقال ابوعبدالله علیه السلام فی الوتر:انماکتب الله الخمس ولیست الوترمکتوبة ان شئت صلیتهاوترکهاقبیح.

امام صادق نمازوتر کے بارے میںفرماتے ہیں:خداوندعالم نے پانچ نمازیں واجب قراردی ہیں اورنمازوترواجب نہیں ہے،اگرچاہیں تواسے پڑھیں اورنمازوترکاترک کرناقبیح ہے۔(۳)

عن معمریحیی قال:سمعت اباجعفر علیه السلام یقول:لایسئل الله عبدا عن صلاة بعدالخمس .

معمربن یحییٰ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر علیہ السلام کویہ فرماتے سناہے :(روزقیامت) کسی بھی بندے سے پانچ نمازوں کے علاوہ کسی بھی نمازکے متعلق سوال نہیں کیاجائے گا۔(۴)

____________________

. ١ )الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢

. ٢)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢٧

.۳) تہذیب الاحکام/ ٢/ص ١١

۴)تہذیب الاحکام /ج ۴/ص ١۵۴

۴۵

زرارہ سے مروی ہے: میں نے امام محمدباقرسے پوچھا:خدانے روزانہ کت نی نمازیں واجب قراردی ہیں؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:اسنے ایک شبانہ روزمیں پانچ نمازیں واجب قراردی ہیں،میں نے امام(علیھ السلام) سے دوبارہ پوچھا: کیاخداوندمتعال نے ان نمازوں کے ناموں کوبھی بیان کیاہے اورانھیں اپنی کتاب (قرآن مجید)میں ذکرکیاہے؟امام(علیھ السلام) نے فرمایا: ہاں الله تبارک وتعالیٰ اپنے نبی سے ارشادفرماتاہے:

( اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللّیْلِ ) (۱) زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نمازقائم کرو ۔

آیہ مبارکہ میں لفظ “دلوک” زوال کے معنی میں استعمال ہواہے ،زوال آفتاب سے لے کرآدھی رات تک چارنمازیں پڑھی جاتی ہیں جن نمازوں کاالله تعالیٰ نے ایک مخصوص نام رکھاہے اوران کااپنی کتاب میں ذکرکیاہے اورہرنمازوقت کابھی بیان کیاہے اور “غسق لیل ”سے آدھی رات مرادہے۔اور ایک نمازجوصبح کے وقت پڑھی جائے جسے خداوندعالم نے قرآن فجرکانام دیاہے اورکہاہے:( وَقُرْآنَ الْفَجْرِ،اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْهُودا ) (۲)

اورنمازصبح بھی پڑھاکروکیونکہ نمازصبح کے لئے گواہی کاانتظام کیاگیاہے۔ امام (علیھ السلام)فرماتے ہیں کہ قرآن فجرسے نمازصبح مرادہے اوریہ پانچ نمازیں ہیں جن کانام خداوندعالم نے قرآن کریم میں ذکرکیاہے ۔

اس کے بعدامام صادق نے ارشادفرمایا:ان ہی پانچ نمازوں کے نام اوراورقات کے بارے میں خداوندعالم قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشادفرماتاہے:( وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِوَزُلْفاًمِنَ اللَّیْلِ ) (۳)

دن کے دونوں کنارے میں اور رات گئے تک نمازقائم کرو۔ آیہ مبارکہ مٔیں دن کے دونوں کناروں سے مرادیہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعداورطلوع ہونے سے پہلے نمازقائم کرو،سورج ڈوبنے کے بعدپڑھی جانے والی نماز کو نماز مغرب کہتے ہیں اورسورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھی جانے والی نمازکونمازصبح کہتے ہیں اوررات گئے پڑھی جانے والی نمازکونمازعشاء کہتے ہیں۔

اس کے بعدامام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم ایک اور آیت میں ارشادفرماتاہے:( حَافِظُواعَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوا لِلّٰهِ قَانِتِیْنَ ) (۴) اپنی نمازوں بالخصوص نمازوسطیٰ کی محافظت اور پابندی کرواورالله کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔

____________________

. ۲)سورہ اسراء /آیت ٧٨

. ۳)سورہ ۂود/آیت ١١۶

. ۴)سورہ بٔقرہ /آیت ٢٣٨

۴۶

وهی صلاة الظهر، وهی اوّل صلاة صلاهارسول الله صلی الله علیه وآله ، وهی وسط النهارووسط الصلاتین بالنهارصلاة الغداة وصلاة العصر ۔

آیہ مٔبارکہ میں نمازوسطیٰ سے نمازظہر مرادہے اوریہ پہلی نمازہے جسے رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے سب پہلے پڑھااوریہ نمازدن کے درمیانی حصے میں اوردن کی دونمازوں کے درمیان پڑھی جائے اوروہ دونمازیں صبح اورعصر کی نمازہیں۔

اورامام (علیھ السلام)نے فرمایا:بعض قرائت کے مطابق نمازوسطیٰ سے نمازعصرمراد ہے کیونکہ نمازعصروہ نمازہے جونمازیومیہ کی پانچ واجب نمازوں میں درمیانی نمازہے دونمازیں(صبح اورظہر)اس سے پہلے پڑھی جاتی ہیں اوردونمازیں(مغرب وعشا)نمازعصرکے بعدپڑھی جاتی ) ہیں(۱) اگرکوئی یہ سوال کرے کہ خداوندعالم نے روزانہ پانچ ہی نمازوں کوکیوں واجب قراردیاگیاہے اس سے کم یازیادہ کیوں نہیں؟تواس جواب یہ ہے جوہم ایک روایت کے ضمن میں پیشکررہے ہیں:

روایت میں آیاہے کہ:جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پر تشریف لے گئے توپروردگارعالم نے آپ کو حکم دیا :اے رسول! آپ اپنی امت سے کہد یجئے کہ ہرروزوشب پچاس نماز پڑھا کر یں اس کے بعدجب آنحضرت معراج سے واپس ہورہے تھے توہرنبی کے پاس سے گزرہواکسی نے کچھ نہیں کہایہاں تک کہ حضرت موسیٰ ابن عمرانکے پاس پہنچے توحضرت موسیٰ نے پوچھا: پروردگارنے تمھیں کس چیزکاحکم دیاہے ؟(اور تمھاری امت پر کت نی نمازوں کوواجب قراردیاہے) آنحضرت نے کہا:پچاس نمازیں پڑھنے کاحکم دیاہے ،حضرت موسیٰ نے کہا:اپنے پروردگارسے تخفیف طلب کیجئے تمھاری امت کے لئے واجب نمازوں کی یہ تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ روزانہ ات نی نمازیں پڑھنے کی قوت نہیں رکھتے ہیں لہٰذا اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کیجئے ۔

پیغمبر اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے امت اسلام کی خاطرحضرت موسیٰ کی فرمائش کو قبول کیا اور بارگاہ رب العالمین میں تخفیف کا مطالبہ کیا تو خدانے ان کی تعدادمیں دس نمازیں کم کردی اس کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)واپس ہوئے تودوبارہ ہرنبی کے پاس سے گزرہواکسی سے کوئی سوال نہیں کیایہاں تک کہ حضرت موسیٰ ابن عمران -کے پاس آئے توحضرت موسی (علیھ السلام)نے دوبارہ پوچھا:اب کت نی نمازوں کاحکم دیاہے؟آنحضرت نے کہا:چالیس نمازوں کاحکم دیاہے حضرت موسی (علیھ السلام)نے کہا: اب بھی تعدادزیادہ ہے،آنحضرت نے دوبارہ خداسے تخفیف چاہی تو خدانے چالیس کوتیس میں تبدیل کردیا،حضرت موسیٰ نے پھرکہا:یہ بھی زیادہ ہے الغرض خدانے بیس کودس سے بدلااس کے بعد دس کوپانچ ) میں تبدیل کیااورواجب نمازوں کی تعدادکم کرتے کرتے پچاس سے پانچ ہوگئی ۔(۲)

____________________

. ١)کافی /ج ٣/ص ٢٧١

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ١٩٧ ۔ ١٩٨

۴۷

زید ابن علی بن الحسین سے مروی ہے :میں نے اپنے والدسیدالعابدین (حضرت امام زین العابدین)سے سوال کیااورکہا :اے میرے والد محترم آپ مجھے اس بات سے آگاہ کریں کہ جب ہمارے جدبزرگوار( نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ))آسمان پرمعراج کے لئے گئے اورپروردگارنے آنحضرت کوپچاس نمازیں پڑھنے حکم دیاتواسی وقت پروردگارسے نمازمیں تخفیف کامطالبہ کیوں نہیں کیا لیکن جب معراج سے واپس ہوئے توحضرت موسی سے ملاقات ہوئی ،حضرت موسیٰ نے آنحضرت سے کہا : اپنی امت کے لئے خداسے تخفیف کراؤکیونکہ تمھاری امت اس قدرنمازیں پڑھنے کی قوت نہیں رکھتی ہے( پسآنحضرت نے خداسے نمازوں میں تخفیف کرائی یہاں تک واجب نمازوں کی تعدادپچاس سے کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئی)؟

امام زین العابدین نے فرمایا:اے میرے بیٹا!نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)اپنی طرف سے خداسے کوئی فرمائش نہیں کرناچاہتے تھے لہٰذاجب معراج سے واپس ہوئے اورحضرت موسیٰ سے ملاقات ہوئی توحضرت موسیٰ نے کہا:تم اپنی امت کے شفیع ہوپس تم اپنی امت کی شفاعت کے لئے خداسے نمازوں میں تخفیف کراؤکیونکہ تمھاری امت اس قدر نمازیں پڑھنے کاحوصلہ نہیں رکھتی ہے لہٰذاپیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے خداسے نمازوں میں تخفیف کرائی یہاں تک کہ واجب نمازوں کی تعدادپانچ رہ گئی

زیدابن علی کہتے ہیں کہ :میں نے اپنے والدسے دوبارہ پوچھا:آنحضرت نے امت اسلام کے لئے پانچ سے بھی کم نمازوں کا تقاضا کیوں نہیں کیا ؟ امام زین العابدیننے جواب دیا: اے بیٹا! رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے پا نچ پر اس لئے اکتفاء کی کیونکہ انہی پا نچ نمازوں کے ذریعہ پچاس نماز وں کا اجر و ثواب حاصل ہو سکتا ہے جیساکہ خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

( مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُاَمْثَالِهَا ) (۱)

جو شخص بھی کوئی ایک نیکی کرے گا اسے اس کادس برابراجروثواب ملے گا اس کے بعدامام (علیھ السلام)نے کہا:اے بیٹا!کیاتم نہیں جانتے ہوکہ جب ہمارے جدحضرت نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)آسمانوں کی سیرکرکے زمین پرتشریف لائے توجبرئیلنازل ہوئے اورکہا:

یامحمد!انّ ربک یقرئک السلام ویقول:انّهاخمس بخمسین،مایبدل القول لدی وماانابظلام للعبید ۔

اے محمد!تمہاراپروردگارتم پردرودوسلام بھیجتاہے اورکہتاہے:یہ پانچ نمازیں پچاس نمازوں ) کے برابرہیں (اور انھی پانچ نمازوں کے ذریعہ پچاس نمازوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے)(۲)

____________________

. ١)سورہ أنعام /آیت ١۶٠

. ٢)علل الشرائع /ج ١/ص ١٣٣

۴۸

ان اوقات میں نمازکے واجب ہونے کی وجہ

گذشتہ مطالب اورروایت سے یہ واضح ہوگیاہے کہ روزانہ پانچ نمازیں واجب ہیں مگراب سوال یہ پیداہوتاہے کہ خداوندعالم نے ان پانچ نمازوں کے لئے الگ الگ وقت کیوں معین کیاہے، پانچوں نماز کوایک ہی وقت میں کیوں واجب قرارنہیں دیا،پانچوں نمازکو صبح میں یادوپہرمیں یاعصرمیں یارات میں کسی بھی وقت واجب قراردے دیتا،یاکہہ دیتاکہ جسکے پاس رات دن میں جب بھی وقت مل جائے پانچوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لیاکرے ، مگرخدانے ایسانہیں کیااور پانچوں نمازکوالگ الگ وقت میں واجب قراردیا اس کی کیاوجہ ہوسکتی ہے اوراس میں کیارازپایاجاتاہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے ایک نمازکوزوال کے وقت ،دوسری عصرکے وقت ،تیسری مغرب کے وقت ،چوتھی رات کی تاریکی میں اورپانچوی نمازکوسورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھنے کاحکم دیاہے ؟اس بارے میں چندروایت ذکرہیں :

پہلی روایت

امام حسنسے مروی ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں آئی اوراس جماعت کے سب سے بڑے عالم نے آنحضرت سے چندسوال کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا: آپ ہمیں اس چیزکے بارے میں خبردیجئے کہ خداوندعالم نے آپ کی امت پرروزانہ ان پنچگانہ نمازوں کو ان ہی پانچ وقتوں میں کیوں واجب قراردیاہے ؟ پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اس یہودی عالم کے سوال کاجواب دیااورپنچگانہ نمازوں کوان پانچ اوقات میں واجب قراردئے کی وجہ بیان کی اورفرمایا:

زوال کے وقت سورج کے لئے ایک حلقہ (بن جاتاہے جس میں وہ داخل ہوجاتاہے اورجیسے ہی سورج اس دائرے میں داخل ہوتاہے توعرش کے علاوہ اس کے نیچے موجوددنیاکی ہر چیزخدائے عزوجل کی تسبیح کرنے لگتی ہیں اوریہ وہی گھڑی ہے کہ جب میراپروردگارمجھ پردرودبھیجتاہے لہٰذاخدائے عزوجل نے مجھ پراورمیری امت پراس وقت نمازمیں کوواجب قراردیااورفرمایا:

( وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللّیْل ) (۱)

نمازقائم کروزوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک۔

یہ وہی گھڑی ہے کہ جس وقت روزقیامت جہنم کو سامنے لایاجائے گا،پس جومومن شخص بھی (دنیامیں) زوال کے وقت سجدہ یارکوع یاقیام کی حالت میں رہتاہوگاخداوندعالم اس کے جسم کونارجہنم پرحرام قراردے گا۔

حلقہ سے دائرہ نٔصف النہار مرادہے اور یہ وہ وقت ہے جب سورج نصف النہارکے دائرے میں داخل ہوجاتاہے

____________________

. ١)سورہ أسراء /آیت ٧٨

۴۹

وقت نمازکے بارے میں پنچگانہ نمازوں کے وقت کیاہیں اوران ہی اوقات میں نمازکے قراردئے جانے کی وجہ کیاہے اورہرنمازکے لئے ایک مخصوص وقت کیوں معین کیاگیاہے ؟ اس کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازعصرکے واجب قراردئے جانے کی یہ وجہ بیان فرمائی:

نمازعصرکاوقت وہ وقت ہے کہ جب آدم (علیھ السلام)نے ممنوعہ درخت سے پھل توڑکرکھایاتوخدانے انھیں جنت سے باہرنکال دیااوران کی ذریت پرروزقیامت تک اس وقت میں نمازکوواجب قراردیااورخدانے اسی وقت میں نماز(ظہر)کومیری امت پربھی واجب قراردیاکیونکہ یہ نمازالله کے نزدیک سب سے زیاہ محبوب ہے اورمجھے (پنچگانہ نمازوں)اس وقت کی نماز کے پابندرہنے کی بہت زیادہ نصیحت اوروصیت کی گئی ہے۔

اس کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازمغرب کے واجب قراردئے جانے کی یہ وجہ بیان فرمائی:

نمازمغرب کاوقت وہ وقت ہے کہ جب الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت ادم (علیھ السلام)کی توبہ قبول کی اورحضرت آدم (علیھ السلام)کے درخت سے پھل توڑکرکھانے میں اوران کی توبہ قبول ہونے میں دنیاکے تین سوسال کافاصلہ تھااورنمازعصرومغرب کے درمیان قیامت کے ایک دن (جوکہ دنیاکے ایک ہزارسال کے برابرہے )کے برابرکافاصلہ تھااورآدم (علیھ السلام)نے توبہ قبول ہوتے ہی تین رکعت نمازپڑھی ،ایک رکعت اپنے خطااورلغزش کی بناپرجوآپ سے سرزدہوئی تھی اوردوسری رکعت حوا کے گناہ کے جبران کی وجہ سے اورتیسری رکعت بارگاہ خداوندی میں توبہ قبول ہوجانے کے شکرکی وجہ سے لہٰذاخداوندمتعال نے میری امت پران تین رکعت نمازوں کوواجب قراردیااوریہ وقت ایساہے کہ جس میں دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لہٰذامیرے پروردگارنے مجھے وعدہ دیاہے کہ جوشخص اس وقت دعا کرے گامیں اس کی دعاکوضرورقبول کروں گااوریہ وہی وقت ہے کہ جب میرے پروردگارنے مجھے حکم دیا:

( فَسُبْحَانَ اللهِحِیْنَ تُمْسُونْ وَحِیْنَ تُصْبِحُونَ ) (۱)

تم لوگ تسبیح پروردگارکرواس وقت جب شام کرتے ہوجب صبح کرتے ہو۔

____________________

. ١)سورہ رٔوم /آیت ١٧

۵۰

اس کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازعشاکے واجب قراردئے جانے کی یہ وجہ بیان فرمائی:

خداوندعالم نمازعشاکواس لئے واجب قراردیاتاکہ انسان اس نمازکے ذریعے آخرت کویادکرے کیونکہ قبرمیں اندھیراہوتاہے اورقیامت میں بھی اندھیراہوگاپس پروردگارعالم نے مجھ پراورمیری امت پررات کے وقت میں نمازعشا کو واجب قراردیاتاکہ انسان اس نمازکے ذریعہ قبرکومنورکرسکے اورمیری امت اس نمازکی روشنی میں پل صراط سے گزرسکے لہٰذاجولوگ اس نمازکوپرھنے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں خدائے عزوجل ان کے جسم کوآتش جہنم پرحرام کردیتاہے اوریہ وہ نمازہے جسے پروردگارنے اپنے ذکرکے لئے مجھ سے پہلے والے نبیوں پرواجب قراردیاتھا ۔

اس کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازصبح کے واجب قراردئے جانے کی یہ وجہ بیان فرمائی:

صبح کے وقت نمازکواس لئے واجب قراردیاہے کیونکہ صبح میں جب سورج طلوع ہوتاہے توشیطان کے دونوں شاخ ظاہروآشکارہوجاتے ہیں اسی لئے پروردگارنے مجھے سورج طلوع ہونے سے پہلے نمازصبح پڑھنے کا حکم دیااورصبح کے وقت نمازکواس لئے واجب قراردیاکیونکہ جب سورج طلوع ہو تا ہے توکافروآفتاب پرست سورج کو سجدہ کرتے ہیں لہٰذاس سے پہلے کہ کافر سورج (بت اورشیطان وغیرہ ) کو سجدہ کریں خداوندعالم نے میری امت پرنمازصبح کوواجب قراردیااورنمازصبح کاوقت الله کے نزیک محبوب ترین وقت ہے اورنمازصبح وہ نمازہے جس میں رات اوردن دونوں کے ملائکہ شاہداورحاضررہتے ہیں (یعنی رات والے ملائکہ بھی اس نمازکوآسمان پرلے جاتے ہیں اوردن کے ملائکہ بھی جسسے نمازی کودوبرابراجروثواب ملتاہے ( جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)پانچ نمازوں کے وقت کے رازکوبیان کرچکے تواس یہودی آنحضرت سے عرض کیا:

صدّقت یامحمد !

اے محمد!آپ نے یہ رازبالکل صحیح فرمائے ہیں۔(۲)

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١٢

۵۱

دوسری روایت

حسین ابن ابی العلاء سے مروی ہے ،امام صادق فرماتے ہیں :جب خداوند عالم نے آدم (علیھ السلام) کوجنت سے نکال کردنیامیں بھیجاتوآپ کے پورے جسم پرسر سے پیروں کے تلووں تک سیاہ رنگ کے داغ پڑگئے(جسے عربی میں شامہ کہتے ہیں) جس کی وجہ سے آپ کے جسم سے بدبوآنے لگی ، حضرت آدم (علیھ السلام)اپنے جسم کی یہ حالت دیکھ کراورزیادہ غمگین ہوگئے اورجب ایک درازمدت تک روتے وگڑگڑاتے رہے توجبرئیل نازل ہوئے اورپوچھا: اے آدم! تمھارے رونے کاسبب کیاہے ؟حضرت آدم (علیھ السلام)نے جواب دیا:ان کالے داغ اوران کے اندرپیداہونے والی بدبونے مجھے غمگین کردیاہے ،جبرئیل نے کہا:اے آدم! اٹھواورنمازپڑھوکیونکہ یہ پہلی نماز(یعنی نمازظہر)کاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے اٹھ کرنماز(ظہرپڑھی توفوراًآپ کے جسم سے سروگردن کارنگ بالکل صاف ہوگیا،جب دوسری نماز(یعنی عصر)کاوقت پہنچاتوجبرئیل نازل ہوئے اور کہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھو اور نمازپڑھوکیونکہ اب یہ دوسری نمازکاوقت ہے،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نے نمازعصرپڑھی توناف تک بدن کارنگ صاف ہوگیا،جب تیسری نماز(یعنی مغرب )کاوقت پہنچاتوجبرئیل آئے اورکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھواورنماز(مغرب)پڑھوکیونکہ اب یہ تیسری نمازکاوقت ہے ،جیسے حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز(مغرب) پڑھی تو دونوں گھٹنوں تک بدن کارنگ صاف ہوگیا،جب چوتھی نماز(یعنی عشا)کاوقت پہنچاتوکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھو اورنماز(عشا)پڑھوکیونکہ اب یہ چوتھی نمازکاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز(عشا)پڑھی توپیروں تک بدن کارنگ بالکل صاف ہوگیا،جب پانچوی نماز(یعنی صبح )کاوقت پہنچاتوجبرئیل نے کہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھواورنماز(صبح) پڑھوکیونکہ اب یہ پانچوی نمازکاوقت ہے ،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نماز(صبح)سے فارغ ہوئے تومکمل طورسے پورے کارنگ صاف ستھراہوگیااورآپ نے خداکی حمدوثنا کی،جبرئیل نے کہا: اے آدم!تمہاری اولادکی مثال ان پنجگانہ نمازوں میں ایسی ہی ہے

جس طرح تم نے نمازپنجگانہ کے ذریعہ اس ان دانوں سے نجات پائی ہے پس تمہاری اولادمیں جوشخص شب وروزمیں یہ پانچ نمازیں پڑھے گاوہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجائے گاجیسےتمھارابدن ان دانوں سے پاک وصاف ہوگیاہے ۔(۱)

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢١۴ (

۵۲

تیسری روایت

فضل بن شاذان سے روایت ہے کہ امام رضا فرماتے ہیں: اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ ان ہی اوقات میں نمازکوکیوں واجب قرار دیا گیا ہے اورانھیں ان کے اوقات سے نہ پہلے بجالایاجاسکتاہے اورنہ مو خٔرکیاجاستاہے یعنی قدم کیاپہلے نہ بعدپہلے انھیں وقت سے پہلے یابعدمیں کیوں پڑھاجاسکتاہے؟اس کاجواب یہ ہے کہ چاراوقات ایسے مشہوراورمعروف اوقات ہیں جوکرہ أرض پررہنے والے تمام لوگوں کواپنے دائرے میں شامل کرتے ہیں اورہرجاہل وعالم ان اوقات سے مطلع ہے اوروہ اوقات یہ ہیں: غروب مشہورومعروف وقت ہے لہٰذااس وقت میں نمازوغرب پڑھی جائے ،سقوط شفق بھی مشہوروقت ہے لہٰذااس وقت میں نمازعشا پڑھی جائے ،طلوع فجربھی مشہوروقت ہے لہٰذااس وقت میں نمازصبح پڑھی جائے ،آفتاب کازوال کرنااورسایہ اپنی کمی کوپہنچنے کے بعدمشرق کی طرف بڑھناشروع کرنامشہورومعروف وقت ہے لہٰذاانسان پرواجب ہے کہ اس وقت نمازظہرپڑھے اورعصرکاوقت بھی بہت زیادہ مشہورہے اس وقت میں نمازپڑھنے کانظیرموجودنہیں ہے لہٰذااس نمازکے وقت کوپہلی نماز(ظہر)کے ختم ہونے کے بعدرکھاگیاہے کہ جب ہرچیزکاسایہ چاربرابرہوجائے ۔

ان اوقات میں نمازکے واجب قراردئے جانے کی ایک علت یہ بھی ہے کہ خداوند عزوجل اس چیزکوبہت زیادہ دوست رکھتاہے کہ لوگ اپنے روزانہ کے ہرعمل کی ابتدااس کی اطاعت اورعبادت کے ساتھ انجام دیں اسی لئے حکم دیاکہ انسان دن کی ابتدہوتے ہی (صبح سویرے نیندسے بیدارہوکر) پہلے اس کی عبادت کرے اوراس کے بعدکسب معاش کی تلاش میں گھرسے باہرقدم نکالے ،پس نمازصبح کواس لئے واجب کیاگیاتاکہ انسان عبادت خداوندی کے ساتھ اپنے آرام کوترک کرے اوراپنے دن اورکام کی ابتدااس کے نام سے کرے اورخداکویادکرکے گھرسے باہرقدم نکالے۔

جب دن اپنے درمیان کوپہنچتاہے یعنی جب آدھادن گذرجاتاہے تولوگ اپنے شغل وحرفہ سے ہاتھ روک لیتے ہیں اوربدن سے اس کام کے لباس کواتاردیتے ہیں اور دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے اورتھوڑاسا آرام کے لئے گھر آتے ہیں ،قیلولہ بھی کرتے ہیں لہٰذاخداوندعالم نے حکم دیاصبح سے مشغول کام کونماز ظہر کے ذریعہ ختم کریں اور دوپہر کے ان کاموں کوالله کی عبادت کے ذریعہ شروع کریں

۵۳

جب ظہرکاوقت گذرجائے اورلوگ اپنے گھروں سے دن کے دوسرے حصہ میں کام کرنے کے لئے نکلناچاہتے ہیں توپھراپنے کام کی ابتداحق تعالیٰ کے عبادت کے ذریعہ کریں،اس کے بعداپنے کام پرجائیں لہٰذاخداوندعالم نے اس وقت میں نمازکوواجب قراردیا جیسے ہی سورج ہوتاہے توانسان دن کے دوسرے حصہ میں کام سے فارغ ہوکراپنے گھرکی طرف آتاہے تواسے چاہئے کہ تو کام کی انتہانماز مغرب کے ذریعہ کرے اس کے بعد رات کا کھانا کھائے لہٰذااس وقت خداوندعالم نے نمازمغرب کوو اجب قراردیا اور جب انسان بستر پر لیٹنا چاہے تو رات کے آرام کی ابتدا بھی نماز کے ذریعہ کرے اورلیٹنے سے پہلے حق تعالیٰ کی عبادت کرے اسی لئے اس وقت خداوندعالم نے نماز عشاکوواجب قراردیا

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب لوگ اس دستورپرعمل کریں گے اوراپنے ہرکام کی ابتدا عبادت خداوندی سے شروع کریں گے اورنمازکوبتائے گئے طریقہ سے انجام دیں گے اوراس کے بعداپنے دنیاوی حاجتوں میں کی تلاش میں نکلیں گے توہرگزخداکونہیں بھول سکیں گے اوراس کے ذکرسے غافل نہیں رہیں گے توہرگزدل میں قساوت نہیں رہے گی اورمیل ورغبت بھی کم نہیں ہوسکے گی ۔(۱)

چوتھی روایت

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: اذازالت الشمس فتحت ابواب السماء وابواب الجنان واستجیب الدعاء فطوبیٰ لمن رفع له عمل صالح ۔(۲) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جب زوال کاوقت پہنچتاہے توآسمان اوربہشت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں اودعائیں قبول ہوتی ہیں اوریہ خوشحالی ہے ان لوگوں کے لئے کہ جن کے اعمال صالح اوپرپہنچتے ہیں ۔

____________________

. ١)علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٣

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢١۴

۵۴

پانچوی روایت

عن اسحاق بن عمارقال:قلت لابی عبدالله علیه السلام:اخبرنی عن افضل المواقیت فی صلاةالفجر؟ قال:مع طلوع الفجر،انّ الله تعالیٰ یقول: ( اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُودا ) یعنی صلاة الفجرتشهدملائکة اللیل وملائکة النهار، فاذا صلی العبد صلاة الصبح مع طلوع الفجر اثبت له مرتین تثبته ملائکة اللیل وملائکة النهار .

اسحاق ابن عمارسے مروی ہے کہ میں امام صادق سے پوچھا:نمازصبح کاافضل ترین وقت کیاہے؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:نمازصبح کاافضل ترین وقت فجریعنی صبح صادق ہے کیونکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنّ قَرْآنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْهُوداً ) (۱)

نمازصبح بھی پڑھاکروکیونکہ نمازصبح کے لئے گواہی کاانتظام کیاگیاہے آیہ مبارکہ میں قرآن فجرسے نمازصبح مرادہے کہ جس وقت کی نمازکی گواہی کے لئے رات کے ملائکہ حاضرہوتے ہیں اوردن والے ملائکہ بھی حاضرہوجاتے ہیں پس جب کوئی بندہ فجرکے وقت نمازصبح اداکرتاہے تواس نمازکاثواب دومرتبہ اس کے نامہ اعمال میں لکھاجاتاہے ،رات کے ملائکہ ) بھی اس کے ثواب کونامہ اعمال میں درج کرتے ہیں اوردن کے ملائکہ بھی۔(۲)

تعدادرکعت کے اسرار

جب یہ ثابت ہوگیاکہ روزانہ پانچ نمازیں(ظہروعصر،معرب وعشااورصبح)واجب ہیں اوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ ان اوقات میں نمازکوکیوں واجب قراردیاگیاہے اب سوال پیداہوتاہے کہ ان میں ہرنمازکت نی رکعت ہے اورات نی رکعت قراردئے جانے کی وجہ ہے مثلانمازظہرسفرمیں اورحضرمیں کت نی رکعت ہے اوراس کی وجہ کیاہے،نمازصبح سفراورحضردونوں میں دوہی رکعت ہے اس کی کیاوجہ ہے؟ ۔

جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)معراج پرگئے توخداوندعالم نے آنحضرتپرپانچ نمازوں کوواجب قراردیااور ہرنمازکودورکعتی طورپرواجب قراردیا،اس طرح پانچوں نمازکی رکعتوں کی تعداددس ہوتی ہے مگرجب پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ) مکہ سے مدینہ ہجرت کی اورامام حسین کی ولادت ہوئی جب امام حسن اورامام حسین اس دنیامیں آگئے اورخداوندعالم نے پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کوکھلی ہوئی تبلیغ کاحکم دیاتوآنحضرت نے سات رکعت کااضافہ کیا،اوراس طرح سے روزانہ سترہ رکعات نمازواجب ہوتی ہے اس بارے میں میں چندروایت قصرکی بحث میں ذکرکریں گے اورچندروایت یہاں پرذکرہیں:

____________________

. ١)سورہ أسراء /آیت ٧٨

. ٢)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ٣٧

۵۵

١۔فضیل ابن یسارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کو اپنے بعض اصحاب سے یہ فرماتے سناہے:کہ خداوندعالم نے پنچگانہ نمازوں میں سے ہرنمازکودودورکعت واجب قراردیاہے، اس طرح پنجگانہ نمازوں کی رکعتوں کی تعداددس ہوتی ہے ،اس کے بعدرسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) نے (نمازصبح اورمغرب کے علاوہ نماز ظہر و عصر اور عشا کی ) ہردورکعت کے ساتھ دورکعت کااضافہ کیااورنمازمغرب میں ایک رکعت کااضافہ کیااوریہ سات ر کعت کہ جنھیں پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اضافہ کیاہے انھیں کی طرح واجب ہیں یعنی جس طرح وہ دس رکعتیں واجب ہیں اسی یہ سات رکعت بھی واجب ہیں، سفرکے علاوہ کسی بھی حالت میں ان سات رکعت کاترک کرناجائزنہیں ہے البتہ سفرکی حالت میں نمازمغرب کواسی حالت میں رکھناہے یعنی نمازگزارچاہے سفرمیں یاحضرمیں دونوں حالتوں میں نمازمغرب کومکمل انجام دیناہے اورخداوندعالم نے آنحضرت کواضافہ کرنے کی ترخیص دی ہے لہٰذااس زیادتی کے ساتھ واجب نمازسترہ رکعت ہوتی ہے ۔(۱)

٢۔امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:(الله کی طرف سے )روزانہ دس رکعت نمازواجب قراردی گئی تھی ،ظہرکی دورکعت ،عصرکی دورکعت،صبح کی دورکعت، مغرب کی دورکعت ،عشاکی دورکعت،یہ دس رکعات نمازایسی ہیں کہ جس میں چون وچراکی گنجائش نہیں ہے ،اگرکوئی ان میں سے کسی چیزکے بارے میں کوئی چون وچراکرے گویااس نے نمازسے روگردانی کی ہے اوریہ وہ نمازہے جسے خدائے عزوجل نے قرآن کریم میں مومنین پرواجب قراردیاہے اورحضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کی طرف واگذارکیاہے پس نبی اکرم نے ان دس رکعات میں سات رکعات کااضافہ کیااوریہ سات رکعتیں سنت ہیں اسی لئے تیسری اورچوتھی رکعت میں قرائت نہیں ہے بلکہ ان سات رکعتوں میں تسبیح وتہلیل اورتکبیرودعاہے ،ہاں اس چیزمیں اشکال کرسکتے ہیں کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے مسافرین کے علاوہ حاضرین پردورکعت ظہرمیں ،دورکعت عصرمیں ،دورکعت عشاکی نمازمیں اضافہ کیاہے اورنمازمغرب میں مسافرومقیم دونوں پرایک کااضافہ کیاہے ۔(۲)

____________________

. ۱)کافی /ج ١/ص ٢۶۶

۲). کافی /ج ٣/ص ٢٧٣

۵۶

٣۔امام محمدباقر فرماتے ہیں: جب پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پر گئے توخداوندعالم نے دس رکعت نمازدودورکعت کرکے واجب قراردی لیکن جب امام حسن اورامام حسین کی ولادت ہوئی توآنحضرت نے شکرخداکے خاطران دس رکعتوں میں سات رکعت کااضافہ کےا کےونکہ خداوندعالم نے آنحضرت کواضافہ کرنے کی ترخیص دی ہے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازصبح میں کسی رکعت کااضافہ نہیں کیابلکہ اسے ضیق وقت کی وجہ سے اسی طرح رہنے دیاکیونکہ صبح کے وقت رات کے ملائکہ بھی حاضررہتے ہیں اوردن کے ملائکہ بھی حاضرہوتے ہیں ،جب پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے سات رکعت کااضافہ کیاتوخداوندعالم نے حکم دیاکہ سفرمیں نمازکوآدھی پڑھاجائے لہٰذاپیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے زیادہ کی گئی رکعتوں میں چھ رکعت کوکم کردیالےکن نمازمغرب سے اضافہ کی گئی رکعت کوکم نہیں کیابلکہ اسے اسی طرح رہنے دیا،سفرکی حالت میں پیغمبر کی اضافہ کی ہوئی سات رکعتوں میں سے چھ رکعت نمازترک کرناواجب ہے ،پس جوشخص نمازکی اصلی دورکعتوں میں شک کرتاہے گویاوہ نمازکامنکرہے۔(۱)

۴ ۔سعدابن مسیب سے مروی ہے کہ میں نے امام علی بن الحسین سے پوچھا : یہ نمازکہ جسے ہم سب اس کیفیت کے ساتھ پڑھتے ہیں اسے خداوندعالم نے مسلمانوں پرکس وقت واجب قراردیاہے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:جب رسول اسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کوکھلی ہوئی تبلیغ کاحکم ملااوراسلام قوی ہوگیاتوخداوندعالم نے مسلمانوں پرنمازکوواجب قراردیا،اورجس وقت الله تعالیٰ نے مسلمانوں پرجہادکوواجب کیاتوپیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے (دس رکعت میں )سات رکعت کااضافہ کیا،دورکعت کونمازظہرمیں ،دورکعت کونمازعصرمیں ، ایک رکعت کونمازمغرب میں اوردورکعت کونمازعشا میں اضافہ کیااورنمازصبح کواسی طرح دورکعت رہنے دیاجس طرح سے واجب کیاگیاتھا(۲) اورنمازصبح میں کسی رکعت کااس لئے اضافہ نہیں کیاکیونکہ رات کے ملائکہ کوآسمان کی طرف پلٹنے کی جلدی ہوتی ہے تاکہ دن کے ملائکہ بھی جلدی زمین پرپہنچ جائیں اوررات کے ملائکہ بھی پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کے ساتھ نمازصبح کی شہادت دیتے ہیں اسی لئے الله تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( قُرْآنَ الْفَجْرِ،اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْهُودا )

نمازصبح بھی پڑھاکروکیونکہ نمازصبح کے لئے گواہی کاانتظام کیاگیاہے۔مسلمان بھی اس کی شہادت دیں گے اورشب وروزکے ملائکہ بھی شہادت دیں ) گے۔(۳)

____________________

۱) کافی /ج ٣/ص ۴٨٧

۲)پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سات رکعت نمازکااضافہ کیاہے اوراس طرح پنجگانہ نمازوں کی رکعتوں کی تعدادسترہ قرارپائی ہے ۔

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴۵۵

۵۷

۵ ۔فضل بن شاذان سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ خداندعالم نے اصل نمازکودودورکعتی کیوں واجب قراردیاہے(ایک رکعتی یااسسے بھی کم کیوں نہیں)؟ اورپھربعدمیں( نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے کہ جنھیں الله تبارک وتعالیٰ نے نمازمیں اضافہ کی ترخیص دی ہے )کسی نمازمیں ایک رکعت اورکسی میں دورکعت کااضافہ کیااورکسی نمازمیں ایک رکعت بھی اضافہ نہیں کی،اس وجہ کیاہے؟

امام (علیھ السلام)فرماتے ہیں:اس کاجواب یہ ہے کہ:اصل نمازکودورکعتی واجب قراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اصل میں نمازایک رکعتی ہے کیونکہ اصل عددایک ہے ،اگرایک میں سے کچھ کم کرلیاجائے تووہ عددنہیں کہلاتاہے اسی طرح اگرنماز کوایک رکعت سے بھی کم رکھاجاتاتووہ رکعت نہ کہلاتی اس لئے نمازکوایک رکعت سے کم نہیں قراردیاگیااورنمازکوایک رکعتی اس لئے قرارنہیں دیاگیاہے کیونکہ ،خداوندعالم اس چیزکاعلم رکھتاتھاکہ اس کے بندے ایک رکعت نمازکوزیادہ اہمیت نہیں دیں گے اوراسے مکمل وتمام(آداب شرائط کے ساتھ) ادانہیں کرسکتے ہیں اوراس کے اداکرنے میں دلچسپی نہیں رکھیں گے اوراس میں حضورقلب نہیں رکھ سکیں گے لہٰذاخداوندعالم نے ایک کے سات ایک اوررکعت کااضافہ کیاتاکہ دوسری رکعت رکعت اول کے نقص کوپوراکرسکے اوراس طرح سے ہرنمازدورکعتی قرارپائی.(۱)

پس حقیقت یہ ہے کہ خداوندعالم نے ہرنمازکودورکعتی قراردیالیکن پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)بھی اپنی امت کے بارے میں اس چیزکاعلم رکھتے تھے الله کے بندے ان دورکعت کوتمام طورسے جس طرح حکم دیاگیاہے اسے کاملاًاورتماماًادانہیں کرسکتے ہیں لہٰذاآنحضرت نے ظہروعصراورعشاکی نمازمیں ہرایک کے ساتھ دودورکعت کاضمیمہ کیاتاکہ شروع کی دورکعتیں مکمل ہوجائیں اورآنحضرت یہ بھی جانتے تھے کہ مغرب ایک ایساوقت ہے کہ جس وقت غالباًلوگوں کونمازپڑھنے کے علاوہ اوراپنے گھروں میں کام میںزیادہ مصروف رہتے ہیں،مثلاًافطارکرنا،کھاناپینا،وضو کرنا،مقدمات استراحت آمادہ کرنااورسونے کی تیاری کرناجیسے کام میں مشغول رہناپڑتاہے لہٰذاتاکہ لوگوں کوآسانی رہے نمازمغرب میں صرف ایک رکعت کااضافہ کیا.

نمازمغرب میں ایک اضافہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ شبانہ روزکی پانچ نمازوں میں سے ایک نمازطاق رہےنمازصبح کو اسی حالت پرچھوڑدیایعنی اس کی دورکعت میں کسی رکعت کاضمیمہ نہیں کیااس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت انسان زیادہ مشغول رہتاہے کیونکہ اسے اپنے کاروبارکی طرف جانے کے لئے جلدی بھی ہوتی ہے اوردوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت انسان کادل دماغ فکروخیالات سے خالی رہتاہے کیونکہ رات میں ایسے وقت پر لوگوں سے معاملات کم ہوتے ہیں ،لینادینابھی کم ہوتاہے، لہٰذاانسان کادل اس نمازمیں دوسری نمازکے مقابلہ میں انسان دل خداکی طرف زیادہ رہتاہے اسلئے اسمیں کسی رکعت کااضافہ نہیں کیا ۔

_____________________

۱)علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶١

۵۸

رازجمع بین صلاتین

زوال کے بعدجب چاررکعت نمازپڑہنے کاوقت گذرجائے نمازعصرکاوقت بھی شروع ہوجاتاہے،اس وقت سے لے کرجب سورج غروب ہونے میں صرف چاررکعت نمازکاوقت باقی رہ جائے تواس وقت تک نمازظہروعصرکامشترک وقت ہوتاہے اسی طرح سورج غروب ہونے کے بعدجب تین رکعت نمازپڑھنے کاوقت گذرجائے تونمازعشاکاوقت بھی شروع ہوجاتاہے اس وقت سے لے کرجب آدھی رات ہونے صرف چاررکعت نمازپڑھنے کاوقت باقی رہ جائے تواس وقت نمازمغرب اورعشاکامشترک وقت ہوتاہے لہٰذانمازظہرکے فوراًبعدنمازعصرکاپڑھناصحیح ہے اورنمازمغرب کے فوراًبعدنمازعشاکاپڑھناصحیح ہے ۔

نمازظہرکے فوراًبعدنمازعصر پڑھنے اوراسی طرح نمازمغرب کے فوراً بعد نماز عشا کے پڑھنے کوجمع بین صلاتین کہاجاتاہے اس میں کوئی فرق نہیں انسان کسی حال میں ہو سفرمیں ہویاحضر،دونمازوں کے مشترک وقت میں پہلاوقت ہویاآخری وقت ،دین اسلام نے جمع بین صلاتین کو جائز قراردیاہے جس کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)بارش وباران اورموسم کی خرابی کی وجہ سے نمازظہرکے بعد نماز عصر پڑھتے تھے اورنمازمغرب بعدعشاکی نمازپڑھتے تھے اورموسم کی خرابی کے بغیر اختیاری وعادی حالت میں بھی نمازظہرکے بعدعصراورنمازمغرب کے بعدعشاکی نماز پڑھتے تھے ،اس بارے میں اہل سنت کی روایتیں موجودہیں،احمدابن حنبل نے اس بارے میں متعددروایتیں نقل کی ہیں اورصحیح مسلم وصحیح بخاری میں بھی انکا ذکر موجود ہے ،خودصحیح مسلم اورسنن دارمی وغیرہ جیسی کتابوں میں “الجمع بین صلاتین فی الحضر”کے نام سے ایک باب موجودہے،جمع بین صلاتین سے متعلق مکتب تشیّع وتسنن چند روایت ذکرتے ہیں کہ جن میں جمع کرنے کی وجہ بھی ذکرکی گئی ہے

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:کان رسو ل الله صلی علیه وآله اذاکان فی سفرا ؤعجلت به حاجة یجمع بین الظهروالعصروبین المغرب والعشاء الآخرة .

امام صادق فرماتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)جب کبھی سفرمیں ہوتے تھے یاحضرمیں کسی حاجت کی جلدی ہوتی تھی توظہروعصرکوایک ساتھ جمع کرتے تھے اورمغرب وعشاء کوایک ساتھ جمع کرتے تھے ۔(۱)

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ۴٣١ ۔تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢٣٣

۵۹

عن جعفربن محمدعن ابیه عن علی علیهم السلام قال:کان رسو ل الله صلی علیه وآله یجمع بین المغرب والعشاء فی اللیلة المطیرة وفعل ذلک مرارا.

حضرت علی فرماتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) بارانی راتوں میں نمازمغرب وعشاء کوجمع کرتے تھے اوراس کام کوچندبارانجام دیاہے ۔(۱)

عن عبدالله بن سنان عن الصادق علیه السلام: انرسو ل الله صلی علیه وآله جمع بین الظهروالعصرباذان واقامتین و جمع بین المغرب والعشاء فی الحضرمن غیرعلة باذان واحد واقامتین . امام صادق فرماتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نمازظہروعصرکوایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرتے تھے اورمغرب وعشاء کوبغیرمجبوری حضرمیں بھی ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرتے تھے ۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: ان رسو ل الله صلی علیه وآله صلی الظهر والعصر فی مکان واحدمن غیرعلة ولاسبب فقال عمروکان اجرء القوم علیه :احدث فی الصلاة شی ؟ٔقال(صلا،ولکن اردتُ ان اوسع علی امتی.

امام صادق فرماتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازظہروعصرکوایک ہی جگہ پرکسی مجبوری وسبب کے بغیرایک ساتھ پڑھاتوعمرابن خطاب نے کہا:امت اسی پر عمل کرنے لگے گی اورایک نئی چیزایجادکردے گی ؟آنحضرت نے فرمایا:ایسانہیں ہے بلکہ میں نے اپنی امت پرتوسعہ کرنے کاارادہ کیاہے یعنی تاکہ میری امت پرنمازمیں اسانی ہوجائے ۔(۳)

عن سعید بن جبیرعن ابن عباس قال:جمع رسول الله صلی الله علیه وآله بین الظهروالعصرمن غیرخوف ولاسفرفقال:اراداَن لایحرج علی احد من امته .

ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے بغیرکسی خوف اورسفرکے نمازظہروعصرکویکے بعددیگرے پڑھااورابن عباس نے فرمایاکہ :پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کاارادہ یہ تھاکہ ان کی امت میں کسی شخص نمازپڑھنے میں کوئی حرج پیشنہ آئے۔(۴)

____________________

۱). وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ١۶٠

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٨٧

۳). علل الشرائع /ج ٢/ص ٣٢١

۴)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٢١

۶۰