نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145016
ڈاؤنلوڈ: 2578

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145016 / ڈاؤنلوڈ: 2578
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

حدّثنایحیی بن یحیی قال:قراتُ علی مالکٍ عن ابی الزّبیرعن سعیدبن جُبَیرٍعن ابن عبّاس قال:صلّیٰ رسول الله صلی الله علیه وسلم الظّهرَوالعصرَجمیعاًوالمغرب والعشاء جمیعا فی غیرخوفٍ ولاسفرٍ ۔(۱)

ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے بغیرکسی خوف اور سفرکے نمازظہروعصرکویکے بعددیگرے اورنمازمغرب وعشاکوبھی یکے بعددیگرے پڑھا۔

حدّثنااحمدبن یونس وعون بن سلّٰام جمیعاًعن زُهیرقال ابن یونس: حدّثناابوالزّبیرعن سعیدبن جُبیرعن ابن عبّاس قال:صلّیٰ رسول الله صلی الله علیه وسلم الظّهرَوالعصرَجمیعاًبالمدینة فی غیرخوفٍ ولاسفرٍ.قال ابوالزّبیر:فسئلتُ سعیداًلِمَ فَعَلَ ذٰلک ؟فقال:سئلتُ ابن عبّاس کماسئلت نی فقال:اَرادَاَنْ لایُحرِجَ اَحَداًمِن امّته (۲)

ابوزبیرسے مروی ہے کہ سعیدابن جبیرنے ابن عباس سے نقل کیاہے :وہ کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)نے مدینہ میں بغیرکسی خوف اورسفرکے نمازظہروعصرکو یکے بعددیگرے انجام دیا، ابوزبیرکہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا:آنحضرت نے ایساکیوں کیا؟توسعیدنے مجھے جواب دیا:جوسوال تونے مجھ سے کیاہے یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیاتھاتوانھوں نے جواب دیاتھا: نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)یہ چاہتے تھے کہ ان کی امت میں کوئی شخص کسی تکلیف اورزحمت سے دوچارنہ ہو۔

حدّثناابوبکربن ابی شیبة وابوکریب قالا:حدّثناابومعاویة وحدّثناابوکریب وابوسعیدالاشجع واللفظ لابی کریب قالا:حدّثناوکیعٌ کلاهماعن الاعمش عن حبیب ابن ابی ثابت عن سعیدبن جبیرعن ابن عباس قال:جَمَعَ رسول الله صلی الله علیه وسلم بَینَ الظّهرِوَالعصرِوالمغربِ وَالعشاءِ بِالمدینةِ فی غیرِخوفٍ ولامطرٍ(فی حدیث وکیع قال:قلتُ لابن عباس :لِمَ فَعَلَ ذٰلک ؟قال:کی لایحرج امته(وفی حدیث ابی معاویةقیلَ لابن عباس :مااراداِلیٰ ذلک؟قال:اَرادَاَنْ لایُحرِجَ امّته (۳)

سعیدابن جبیرابن عباس سے نقل کرتے ہیں :وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازظہروعصراور مغرب وعشاء کوبغیرکسی خوف وبارش کے ایک ساتھ اداکیا(وکیع کی روایت میں آیاہے)سعیدنے کہا:میں نے ابن عباس سے معلوم کیا:پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)نے ایساکیوں کیا؟ جواب دیا:اس لئے تاکہ آپ کی امت کسی مشقت میں نہ پڑے (ابومعاویہ کی روایت میں آیاہے) ابن عباس سے پوچھا: آنحضرت نے ایساکیوں کیا؟کہا:تاکہ آپ کی امت کوکوئی زحمت ومشقت نہ ہو۔

____________________

. ۱)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵١

. ٢)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵١

. ۳)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵٢ (

۶۱

روزانہ نمازکے تکرارکی وجہ

اگرکوئی شخص پنجگانہ نمازوں کے بارے میں یہ سوال کرے کہ روازنہ گذشتہ نمازکی تکرارہوتی ہے جب دن بدل جاتاہے تونمازمیں تبدیلی کیوں نہیں ہوتی ہے ؟ ہرروزگذشتہ روزکی طرح صبح وشام کی بھی تکرارہوتی ہے اسی لئے نمازکی بھی تکرارہوتی ہے مگراس سوال کاحقیق جواب یہ ہے کہ انسان حضورقلب کے ساتھ جت نی زیادہ نماز یں پڑھتے جائیں گے ،اتناہی زیادہ انسان کا مرتبہ بلند ہوتا جائے گا اوراس کے اندراتناہی زیادہ خلاص پیداہوتاجائے گا،وہ الله تبارک تعالی سے اتناہی زیادہ قریب ہوتاجائے گا۔ اس مطلب کوواضح کرنے کے لئے تین بہترین مثال ذکرہیں:

١۔وہ شخص جوکسی بلندی پرجانے کے لئے زینہ کی پہلی پیڑی پرقدم رکھتاہے اس کے بعددوسری پیڑی پرقدم رکھتاہے پھر تیسری پیڑی پرقدم رکھتاہے اوراسی طرح قدم رکھنے کی تکرارکرتاجاتاہے اورجت نابلندہوتاجاتاہے ہمت ات نی زیادہ بڑھتی جاتی ہے پہاں تک کہ وہ اپنے مقصدتک پہنچ جاتاہے ،نمازبھی زینہ پرقدم رکھنے کے مانندہے ،جت نازیادہ نمازکی تکرارکی تکرارکرتے جائیں گے اتناہی ایمان میں تازگی پیداہوتی رہے اورخداسے قربت بھی حاصل ہوتی جائے ۔

٢۔وہ شخص جوپانی حاصل کرنے کے لئے کسی بیلچہ یاکسی مشینری کااستعمال کرتاہے اورزمین کوکھودناشروع کرتاہے ، کنواں کھودنے کے لئے زمین میں بیلچہ مارناظاہراً ایک تکرار ی کام ہے لیکن بیلچہ کے ذریعہ جت نازیادہ زمین کوکھودتے جائیں گے اور مٹّی باہر نکا لتے رہیں گے اسی مقدار میں پانی سے نزدیک ہوتے جا ئیں گے یہاں تک ایک روزاپنے مقصدمیں کامیاب ہوجائیں گے

ہر بیلچہ مارنے پر ایک قدم پانی سے قریب ہوتے جائیں گے اسی طرح جت نی زیادہ نماز یں پڑھتے جائیں گے اتناہی زیادہ خدا سے قریب ہوتے جائیں گے۔

٣۔اگر کوئی شخص کسی ایسے کنو یں کے اندر موجو دہے کہ اوروہ ہاتھوں سے رسی کوپکڑاوپرکی طرف آتارہے تواسے ہاتھوں کے چلانے کی تکرارکرے گااورکنویں کے کنارے سے قریب ہوتاجائے گالیکن ہاتھوں کی اس تکرارکی وجہ سے وہ جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گااس کے دل میں خوف وہراس زیادہ پیداہوتاجائے گاکہ ہاتھ سے رسی چھٹ گئی توکنویں گرمرجائے گایاہاتھ پیرٹوٹ جائیں گے لہٰذارسی کومضبوطی سے پکڑنے کی کوشش کرے گاکیونکہ یہ رسی اس کی حیات کی ضامن ہے بس یہی حال نمازکابھی ہے جب تک اس کی روزانہ تکرارہوتی رہی گی توانسان کے ایمان میں تازگی ، دل میں خوف خدااورزیادہ پیداہوتاجائے گااوراسی مقدارمیں خداسے قریب ہوتاجائے گا۔

۶۲

نمازکے آداب وشرائط

نمازکے کچھ آداب وشرائط ایسے ہیں کہ جن کالحاظ کرنااوران کی رعایت کرناواجب ولازم ہے اورکچھ آداب ایسے ہیں کی رعایت کرناسنت مو کٔدہ ہے اورایسے ہیں جن کاترک کرنامستحب ہے اورانجام دینامکروہ ہے وہ شرائط کہ جن کی رعایت کرناواجب ہے ان میں ایک وقت ہے جس کے بارے میں ذکرکرچکے ہیں اوراس کے اسرارکوبھی بیان کرچکے ہیں،اوربقیہ شرائط کوبھی یکے بعددیگرے ذکرکررہے ہیں

رازطہارت

طہارت کی دوقسم ہیں : ١۔ظاہری طہارت ٢۔باطنی طہارت

باطنی طہارت

طہارت باطنی یہ ہے کہ جوحلال رزق وروزی اورگناہوں سے دوری کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے،یہ طہارت جہنم کی آگ کوخاموش کرنے صلاحیت رکھتی ہے اورباطنی طہارت حاصل کرنے کے کچھ شرائط ہیں جوحسب ذیل ذکرہیں:

١۔گذشتہ میں انجام دئے گئے گناہوں پرنادم ہونا۔

٢۔ تہہ دل سے توبہ کے ذریعہ اعضاء وجوارح کوشرک جیسی نجاست سے پاک کرنا جسے خدوندعالم نے ظلم عظیم سے تعبیرکیاہے:

( اِنّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) (١) اورخداوندعالم نے مشرک کونجس قراردیاہے :( اِنّمَاالْمُشْرِکُوْنَ نَجِسٌ ) (٢) اورسورہ یٔوسف میں ارشادفرمایاکہ: اکثرلوگ ایسے ہیں جوایمان بھی لاتے ہیں توشرک کے ساتھ :( وَمَایُو مِٔنُ اَکْثَرُهُمْ بِالله الّاوَهُمْ مُشْرِکُوْنَ ) (٣) اوران لوگوں میں اکثریت ایسی ہے جوخداپرایمان بھی لاتے ہیں توشرک کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی صحبت میں بیٹھنے والے کچھ صحابی ایسے بھی تھے جوتہہ دل سے خداورسول پرایمان نہیں رکھتے تھے فقط ظاہری طورسے اللھورسول اورقرآن پرایمان رکھتے تھے اورباطنی طورسے شرک جیسی نجاست سے آلودہ تھے پس وضوکرنے والے کے لئے ضروری ہے وہ اپنی اندرونی نجاست کوبھی پاک کرے اوراپنے قلب کوغیرخداسے مکمل طورسے خالی کرے تاکہ پروردگارسے مناجات میں لذّت حاصل کرے اوریکتاپرستی کاثبوت بھی دے سکے۔

____________________

١)سورہ لٔقمان /آیت ١٣

٢)سورہ تٔوبہ /آیت ٢٨

. ٣)سورہ یٔوسف /آیت ١٠۶.

۶۳

٣۔زبان کومخلوق کی حمدوستائشسے پاک کرنا.

۴ ۔نفسکوصفات ذمیّہ سے پاک کرنا.

۵ ۔قلب کوماسوی الله کی یادسے خالی کرنا.

۶. دل سے کینہ اوربغض وحسددورکرنا.

٧۔ اپنے دل ودماغ کوعداوت اہلبیت اطہار سے اچھی طرح پاک کرنا۔

ظاہری طہارت

ظاہری وہ ہے کہ جوآب وخاک کے ذیعہ (وضووغسل وتیمم کی شکل میں)حاصل ہوتی ہے اوراسی آب وخاک کے ذریعہ حدث وخبث کی نجاست کودورکیاجاتاہے اورآب وخاک دونوں ایسی چیزیں ہیں جوآتش دنیاکو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اسی لئے خدانے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے لہٰذاانسان خداکی بارگاہ میں حاضرہونے کے لئے اعضائے وضوکوپانی سے دھوئے اوراگرپانی میسرنہ ہوتوتیمم کرے ۔

نمازکی حالت میں انسان کے بدن،لباس اورمکان کاظاہری اورباطنی طورسے پاک ہوناواجب ہے یعنی لباس کاپاک ومباح ہوناواجب ہے جیساکہ ہم آئندہ ذکرکریں گے ان تینوں چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے: کیونکہ خدوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاک وپاکیزہ رہنے والوں کودوست بھی رکھتاہے،خداوندعالم نظیف ہے اورنظافت کودوست رکھتاہے کیونکہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنَّ اللهُ یُحِبّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ )

خداتوبہ کرنے اورپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔(۱)

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:

( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ )

خداپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔(۲)

____________________

۱)سورہ بقرة/آیت ٢٢٣

۲)سورہ تٔوبہ/آیت ١٠٨

۶۴

وضوکے اسرار

خداوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاکیزگی کودوست رکھتاہے لہٰذااس نے اپنی بارگاہ میں حاضرہونے والوں کوحکم دیا:

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِذَاقُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُواوُجُوهَکُم وَاَیْدِیَکُمْ اِلٰی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوابِرُو سِٔکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ اِلٰی الْکَعْبَیْنِ ) (۱)

اے ایمان والو!جب بھی تم نمازکے لئے اٹھوتوپہلے اپنے چہروں اورکہنیوں تک ہاتھوں کودھولیاکرواوراپنے سراورگٹّے تک پیروں کامسح کرو۔

اس آیہ مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ نمازکے لئے وضوکرناواجب ہے اوراس کے بغیرپڑھنی جانے والی نمازباطل ہے اورسنت میں بھی اسکے واجب ہونے کوبیان کیاگیاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : مفتاح الصلاة الطهور وَتحریمِها التکبیر ، وتحلیلهاالسّلام ، ولایقبل الله صلاةبغیرالطهور .(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله اکبر)اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے۔

قال امیرالمومنین علی علیه اسلام : افتتاح الصلاة الوضوء ، وتحریمها التکبیر، وتحلیله االتسلیم.

مولائے متقیان حضرت علی فرماتے ہیں:وضو نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله اکبر)اس کی تحریم اورسلام اس کی تحلیل ہے۔

اسی حدیث کومرحوم شیخ کلینی نے کتاب کافی میں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) کی زبانی نقل کیاہے(۳)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال : لاصلاة الّا بطهور .(۴) امام باقر فرماتے ہیں:وضوکے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔

____________________

١)سورہ مائدہ /آیت ۶

۲).٣١۶/ بحارالانوار/ج ٧٧

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣ ۔کافی/ج ٣/ص ۶٩

. ۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١۴٠

۶۵

امام صادق فرماتے ہیں:ایک متقی وعالم شخص کوجب قبرمیں رکھ دیاگیاتوالله کی طرف سے مو کٔل فرشتوں میں ایک فرشتہ نے کہا:ہمیں تیرے جسم پر سوتازیانے لگانے کاحکم دیاگیاہے اس نے کہا:میرے جسم میں ات نے تازیانہ کھانے کی ہمت نہیں ہے ،فرشتہ نے کہا:ہم ایک تازیانہ کم کردیتے ہیں ،کہا:اب بھی زیادہ ہیں ،خداوندعالم اس وجہ سے کہ وہ اخیارلوگوں میں سے تھاتعدادکے کم کرنے قبول کرتاگیا یہاں تک کہ جب ٩٩ /تازیانے کم کردئے گئے تواس شخص نے جب آخری تازیانہ کے معافی چاہی توفرشتہ نے کہا:اس کوہرگزمعاف نہیں کیاجاسکتاہے اوریہ تازیانہ ضرورلگناہے لہٰذایہ تازیانہ توضرورکھاناپڑے گا،اس شخص نے پوچھا:آخروہ کونساگناہ ہے کہ جس کی سزا کو معاف نہیں کیاجاسکتاہے ،فرشتہ نے جو اب دیا:تونے ایک روزوضوکئے بغیرنمازپڑھی تھی اورتوایک مظلوم ضعیف کے پاس سے گزرالیکن تونے اس کی کوئی مددنہیں کی ،جیسے ہی اس کے جسم پر تازیانہ ماراگیاتوقبرسے آگ ) بھڑک اٹھی۔(۱)

وضومیں چار چیزیں واجب ہیں:

١۔نیت ٢۔چہرے کادھونا

،وضومیں چہرہ دھونے کے لئے ضروری ہے کہ لمبائی میں چہرے کوپیشانی کے اوپرسے (جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں) ٹھوڑی کے نیچے تک اورچوڑائی میں بیچ والی انگلی اورانگوٹھے کے درمیان جت ناحصہ آجائے دھوناضروری ہے اگراس بتائی گئی مقدارمیں سے تھوڑا سا بھی حصہ نہ دھویاجائے تووضوباطل ہے لیکن یہ یقین پیداکرنے کے لئے کہ چہرے کا پورا حصہ دھولیاگیاہے بہترہے کہ بتائی گئی مقدارسے تھوڑازیادہ دھویاجائے ۔

٣۔ دونوں ہاتھوں کادھونا،اورہاتھوں کواس دھویاجائے کہ انسان اپنے دائیں ہاتھ کواس طرح دھوئے کہ بائیں ہاتھ کے ذریعہ داہنے ہاتھ کی کلائی پرپانی ڈالے اوراسے اوپرسے نیچے کی طرف انگلیوں کے سرے تک ملے ،اگرکوئی اس کی خلاف ورزی کرے یعنی ہاتھوں کودھونے میں انگلیوں کی طرف سے پانی ڈالے یانیچے سے کہنی طرف ہاتھ پھیرے تواس کاوضوباطل ہے ۔

۴ ۔ہاتھوں کے دھونے کے بعدوضوکے پانی تری جوہاتھ رہ گئی ہے اسی سے سرکے اگلے حصہ کامسح کرناچاہئے اوریہ ضروری نہیں ہے کہ اوپرسے نیچے کی طرف کیابلکہ نیچے سے اوپرکی طرف بھی مسح کرناجائزہے ۔

۵ ۔سرکامسح کرنے کے بعدہاتھ میں باقیماندہ تری سے پیروں کی انگلیوں کے سرے سے پیرکی پشت کے ابھارتک مسح کرناواجب ہے

____________________

. ١) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ۵٨

۶۶

رازوجوب وضو

امام علی رضا نے وضوکے واجب قراردئے جانے کی چندمندرجہ ذیل وجہ بیان کی ہیں :انّمااُمربِالْوُضوءِ وَبدءَ بهِ :لاَن یکون العبد طاهراًاِذاقامَ بینَ یدیِ الجبار عندَمناجاتهِ ایّاه ، مطیعاًله فیماامره ، نقیاًمن الادناس والنجاسة مع مافیه من ذهاب الکسل وطردالنعاس وتزکیة الفوادللقیام بین یدی الجبار ۔

نمازکے لئے وضوکو اس لئے واجب قرار دیاگیا ہے کہ جب بندہ خدائے جبارکی بارگاہ میں مناجات کے لئے قیام کرے تواسے پاک وپاکیزہ ہوناچاہئے ،اور چونکہ اس نے ادناس ونجاسات سے دوری کاحکم دیاہے اس لئے وضوکاحکم دیاہے تاکہ بندہ اُس کے اس حکم پرعمل کرسکے اورتاکہ اس کے ذریعہ انسان اپنے آپ سے نینداورکسالت سے دورکرسکے اورقلب کوباطنی قذورات ونجاست سے پاک کرکے خدائے جبارکی بارگاہ قیام کرے ۔(۱)

انسا ن کوچاہئے کہ بار گاہ رب العزت میں کھڑے ہو نے سے پہلے اپنے حقیقی مولاکے امرکی اطاعت کرنے اورپلیدگی ونجاست سے دورہنے کی خاطر اپنے جسم وروح سے ناپاکی وآلودگی کو برطرف کرے۔

اس حدیث یہ واضح ہے کہ وضوکے واجب ہونے کاایک رازیہ بھی ہے تاکہ نماز شروع کرنے پہلے انسان کے جسم سے کسالت دورہوجائے اور چہرہ شاداب ہوجائے تاکہ خضوع ونشاط کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکے اور باوضوہوکر بارگاہ خدا وندی میں قیام کرنے سے انسان کا دل نورانی ہوجاتاہے۔

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:انّماالوضوء حدٌّمِن حدودِالله،لیعلم الله مَن یطیعه و من یعصیه .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں: وضو خداوند متعال کی حدو د میں سے ایک حد ہے ،(جسے اللھنے اس لئے واجب قرار دیا ہے)تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ اس کی اطاعت وبندگی کرتے ہیں اور کون اس کے حکم کی خلاف ورزی اورسرکشی کرتے ہیں اوربیشک مومن کوئی چیزنجس نہیں کرسکتی ہے ۔

____________________

۱). علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٧

۲)کافی/ج ٣/ص ٢١

۶۷

رازوجوب نیت

انسان جس کام کوانجام دیتاہے اس کی طرف متوجہ ہونے اوراس کے مقصدسے آگاہ ہونے کونیت کہاجاتاہے یعنی اس کام کے انجام کادل میں ارادہ کرنے اوراس کے مقصدآگاہی رکھنے کونیت کہاجاتاہے اورہرکام کے انجام پرثواب وعقاب کاتعلق نیت سے ہوتاہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی جیسی نیت ہوتی ہے اسی کے مطابق اسے اجربھی دیاجاتاہے ،اگردل میں خداسے قربت حاصل کرنے کاقصدکیاہے تواسے عبادت میں لطف آئے گااورخداسے قریب ہوجائے گالیکن اگردل میں ریاکاری ،خودنمائی یاچہرہ اورہاتھوں کوٹھنڈک پہنچانے کاارادہ کیاہے تووضوباطل ہے اوراس کام پرالله سے دوری کے علاوہ کوئی اجرنہیں ملتاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : انّماالاعمال بالنیات ولکلّ امرءٍ مانویٰ،فمن غزیٰ ابتغاء ماعندالله فقدوقع اجره علی الله،ومن غزیٰ یریدعرض الدنیاا ؤنویٰ عقالاًلم یکن له الّامانواه ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:انسان کے ہر عمل کاتعلق اس کی نیت سے ہوتاہے اور عمل کی حقیقت نیت کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اورثواب بھی نیت کے حساب دیاجاتاہے ،اس کے نصیب میں وہی ہوتاہے جس چیزکاوہ قصدکرتاہے ،پس وہ جو شخص رضای الٰہی کی خاطرجنگ کرتاہے اورکسی نیک کام خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کااجروثواب عطاکرتاہے ضروراجرعطاکرتاہے اورجوشخص متاع دنیاکوطلب کرتاہے اسے اس کے علاوہ جسچیزکی اس نے نیت کی ہے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔

اگرکوئی شخص قصدقربت کے ساتھ کسی ریاکاری کابھی قصدرکھتاہووہ شخص مشرک ہے اورشرک حرام ہے جب شرک حرام وہ اسکاوہ عمل بھی بیکارہےعن ابی جعفرعلیه السلام قال:لوانّ عبدا عمل عملایطلب به وجه الله عزوجل والدارالآخرة فادخل فیه رضی احدمن الناس کان مشرکا .(۲)

اگرکوئی شخص کسی عمل خیرکوانجام دے اوراس میں خداسے قربت اورعاقبت بخیرکاارادہ کرے اوراس کے ساتھ کسی شخص کی رضایت حاصل کرنے کابھی قصدرکھتاہوتووہ شخص مشرک ہے ۔

____________________

١)تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٨٣ ۔ج ۴/ص ١٨۶

. ٢)تہذیب الاحکام /ج ۴/ص ١٨۶

۶۸

چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز

وضو میں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

١۔روایت میں ایاہے کہ ایک دن یہودی کی ایک جماعت نبی اکرم پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں مشرف ہوئی اوران سب سے بڑے عالم نے آنحضرتسے مختلف چیزوں کے بارے میں سوالات کئے اورمتعددمسائل کی علت بھی دریافت کی،انھوں نے آنحضرت سے ایک سوال یہ بھی کیا:اے محمد!آپ ہمیں اس چیزسے مطلع کریں کہ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کارازکیاہے جبکہ یہ انسان کے بدن کے نظیف اورپاکیزہ ترین اعضا ہیں؟آنحضرت نے ان سے فرمایا:

لمّااَن وَسوَسَ الشَّیطَان اِلٰی آدَم علیه السلام دَنامِنَ الشَّجرةِ فَنَظَرَاِلَیْهَا فَذَ هَبَ ماء وَجهِهِ ،ثمّ قام ومشی الیهاوهی اوّل قدم مشت الی الخطیئة ثمّ ت ناول بیده منهامماعلیهاواَکل فطارالحلی والحل عن جسده فوضع آدم یده علی راسه وبکی فلمّاتاب الله عزّوجل فرض الله علیه وذریته تطهیرهذه الجوارح الاربع فاَمرالله تعالی لغسل الوجه لمّانظرالی الشجرة ،واَمره بغسل الیدین الی المرفقین لمّات نامنها،واَمره بمسح الراس لمّاوضع یده علی ام راسه ،واَمره بمسح القدمین لما مشی بها الی الخطیئة .

جب شیطان نے حضرت آدم (علیھ السلام)کے دل میں وسوسہ ڈالااورآپ کواس درخت سے قریب کردیاکہ جس کے قریب جانے سے منع کیاگیاتھا،جیسے ہی آدم (علیھ السلام)نے اس درخت پرنگاہ ڈالی توآپ کے چہرے کی رونق ونورانیت چلی گئی ،اس کے بعدآپ کھڑے ہوگئے اورپھر درخت کی جانب حرکت کی ،عالم ہستی میں کسی خطاکی طرف اٹھنے والا سب سے پہلاقدم تھا،پھرآپ نے ہاتھوں سے درخت سے میوہ توڑکرت ناول کیاتوآپ کے جسم سے لباس وزینت اترگئے جس کی وجہ سے آپ اپنے سرپہ ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے اورروکرتوبہ کرنے لگے،جب خداوندعالم نے آدم کی توبہ قبول کی توآپ پراورآپ کی اولادپران چاراعضا کے دضودینے کوواجب قراردیا۔خداوندعالم نے حضرت آدم(علیھ السلام) کوچہرہ دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے اس درخت کی جانب نگاہ کی تھی تواس کی وجہ سے چہرہ کی رونق چلی گئی تھی اورکہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے ہاتھوں کے ذریعہ درخت سے پھل توڑکرت ناول کیاتھااورسرکے مسح کرنے کاحکم اسلئے دیاکیونکہ جب آپ برہنہ ہوئے تواپنے سرپر ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے تھے جس کی وجہ سے خدانے سرکے مسح کرنے کاحکم دیااورچونکہ آدم (علیھ السلام) اپنے ان دونوں پیروں کے ذریعہ چل کرممنوعہ درخت کی جانب ) گئے تھے توخدانے حکم دیا:اے آدم!اپنے دونوں پاؤں کابھی مسح کرو۔(۱)

____________________

. ١ )من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵۶

۶۹

روایت میں آیاہے : رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)نماز صبح کے بعد بین الطلوعین(طلوع فجروطلوع آفتاب) مسجد میں بیٹھتے تھے اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے تھے کہ ایک دن دولوگوں نے اپنے سوال کوآنحضرت کی خدمت میں مطرح کر ناچاہا توجس شخص کی نوبت پہلے تھی آنحضرت نے اس سے فرمایا : اے بھائی!اگر چہ تم اپنے اس دوسرے بھائی پر مقدم ہو اگر اجازت ہو تو اپنی نوبت اس شخص کو دیدو کیونکہ اسے ایک بہت ضروری کام درپیش ہے اس شخص نے آنحضرت کی فرما ئش کو قبول کیا،اس کے بعدآپ نے فرمایا : اے بھائی! میں بتاؤ تم مجھ سے کیامعلوم کرنا چا ہتے تھے یاخودہی بتاناپسندکروگے ؟ دونوں نے عرض کیا : یارسول ا لله ! آپ ہی بیان کیجئے ، رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: تم میں ایک شخص حج کے بارے میں سوال کرناچاہتاہے اور دوسرا شخص ثواب وضو سے مطع ہونا چاہتا ہے ،پہلے آپ نے ثواب وضوسے مطلع ہونے شخص کاجواب دیاتاکہ دوسراشخص بھی اس سے مطلع ہوجائے لہٰذاآپ نے فرمایا:

وضومیں چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سروپیروں کا مسح کرنے میں ایک راز پایاجاتاہے، وضو میں چہرہ دھونے کارازیہ ہے بارالٰہا!میں تیری بارگاہ میں کھڑے ہوکر عبادت کررہا ہوں اور پاک پیشانی کے ساتھ خاک پر سررکھتاہوں ، وضو میں ہاتھوں کا دھونے کے معنی یہ ہیں: خدایا !میں ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام پانے والے گناہوں کو ترک کررہاہوں اور اب تک ان ہاتھوں کے ذریعہ جن گنا ہوں کا مرتکب ہواہوں ان سب نادم ہوں اورانھیں اپنے ان ہاتھوں سے پاک کرہا ہوں ، وضو میں سرکا مسح کرنے کامعنی ہیں: یعنی بارالٰہا ! وہ خیا ل باطل اور نا پاک ارادے جومیں نے اپنے سرمیں داخل کئے ہیں ان سب ناپاک ارادوں کو ذہن سے خارج کرتا ہوں، پیروں کا مسح کرنے کے معنی ہیں: بارلہا ! میں اپنے ان قدموں کوہر برائی کی طرف جانے سے اپنے قدموں کو محفوظ رکھوں گا اور جت نے بھی گناہ ان پیروں سے سرزدہوئے ہیں ان سب کو اپنےآپ سے دورکرتا ہوں۔(۱)

فضل بن شاذان سے روایت ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاؤں کامسح کرناکیوں واجب ہے تواسے اس طرح جواب دو:

لانّ العبداذاقام بین یدی الجبارقائماینکشف من جوارحه ویظهرماوجب فیه الوضوء وذلک انّه بوجهه یستقبل ویسجدویخضع وبیده یسئل ویرغب ویرهب ویتبتل وبراسه یستقبل فی رکوعه وسجوده وبرجله یقوم ویقعد.

____________________

. ١)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶٧ /ص ۵٣

۲) علل الشرائع/ج ١/ص ٢۵٧

۷۰

جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں قیام کرتاہے تواپنے اعضاء وجوارح سے مانع اورحاجب کودورکرتاہے اوروہ اعضاکہ جن کووضومیں دھوناہے یامسح کرناواجب ہے ان کے ذریعہ بندگی کااظہارکرتاہے،کیونکہ نمازمیں چہرے کاقبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اوراس کے ذریعہ سجدہ کیاجاتاہے اورخضوع وخشوع کااظہارکیاجاتاہے اورہاتھوں کے ذریعہ بارگاہ ربوبیت میں سوال کیاجاتاہے ،حاجتوں کوطلب کیاجاتاہے اورغیرخداکواپنے آپ سے منقطع قراردیاجاتاہے اورہاتھوں ہی کے ذریعہ ایک حالت سے دوسری میں منتقل ہوجاتاہے اوررکوع و سجودمیں جانے کے لئے اورقیام وقعودکے بھی دونوں ہاتھوں کاسہارالیاجاتاہے ، اورسرکے ذریعہ اپنے آپ کورکوع وسجودمیں قبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اورپیروں کے ذریعہ اٹھااوربیٹھاجاتاہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسج کرنے حکم دیاگیاہے۔

وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟

وضومیں چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاو ںٔ کامسح کرناواجب قرار دیا گیا ہے،وضومیں نہ تمام دھوناہے اورنہ تمام کومسح کرناہے بلکہ بعض کودھویاجاتاہے اوربعض کومسح کیاجاتاہے اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وضومیں تمام اعضا کودھوناکیوں نہیں ہے یاتمام کومسح کومسح کرناکیوں نہیں ہے اس کی وجہ اوررازکیاہے؟

فضل ابن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا نے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کا دھونے اورسروپاو ںٔ کامسح کرنے کی چندوجہ بیان کی ہیں:

١۔رکوع وسجودیہ دونوں ایسی عظیم وبرترعبادت ہیں کہجنھیں چہرے اوردونوں ہاتھوں سے انجام دیاجاتاہے نہ سراوردونوں پاو ںٔ کے ذریعہ لہٰذاواجب ہے کہ وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کودھویاجائے تاکہ اس ذریعہ سے اورزیادہ طہارت اورپاکیزگی حاصل ہوجائے ۔

٢۔انسان روزانہ چندمرتبہ اپنے سراوردونوں پاو ںٔ کودھونے کی قوت نہیں رکھتاہے کیونکہ سردی گرمی،سفروحضر،صحت وبیماری ،رات اور دن وغیرہ جیسے تمام حالات میں سراورپاو ںٔ کے دھونے میں دشواری ہے لیکن سروپاو ںٔ کے دھونے کے مقابلہ میں چہرہ اورہاتھوں کاکوئی مشکل کام نہیں ہے اورسروپاؤں کے دھونے سے بہت زیادہ آسان ہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھونے اورسروپاو ںٔ کے دھونے کاحکم دیاگیاہے ۔

٣۔ چہرہ اوردونوں ہاتھ غالباًکھلے رہتے ہیں لیکن سرٹوپی، عمامہ یاپگڑی سے چھپارہتاہے اورپاو ؤں بھی جوتے اورموزہ سے چھپے رہتے ہیں اس لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھویاجاتاہے اورسروپاو ؤں پرفقط مسح کیاجاتاہے۔(۱)

____________________

.۱)عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١

۷۱

وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کے چند علل واسباب اوربھی ذکرکئے گئے ہیں جومندرجہ ذیل ذکرہیں:

١۔ چونکہ انسان ان اعضاء کو بہت زیادہ بروئے کارلاتاہے اوران کواپنے کاموں میں بہت زیادہ استعمال کرتاہے اس لئے خدانے بعض اعضاء کے دھونے اوربعض کے مسح کرنے کاحکم دیاہے ۔

٢۔ انسان دوسرے اعضاء کے مقابلے میں ان اعضاء کے ذریعہ گناہوں کازیادہ مرتکب ہوتاہے جسکی وجہ سے یہ اعضاء آلودہ ہوجاتے ہیں۔

٣۔ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے کواس لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ انسان اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ جس طرح ان اعضاء کودھوناضروری ہے دل ودماغ کوگناہوں کی گندگی سے پاک کرنااس سے کہیںزیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان دل ہی کے ذریعہ نمازمیں باری تعالیٰ کی متوجہ ہوتاہے اورخدالوگوں کے چہروں کونہیں دیکھتا بلکہ دلوں پرنگاہ ڈالتاہے کیونکہ دل تمام اعضائے بدن کابادشاہ اورفرمانرواہوتاہے اوراعضائے وضودل ہی کے حکم سے گناہوں کی طرف حرکت کرتے ہیں اورانسان کویادالٰہی سے غافل کرتے ہیں لہٰذاان اعضاء کودھونے سے پہلے قلب کودھولیناچاہئے تاکہ انسان ظاہری اورباطنی پلیدگی سے پاک ہوکرمعبودحقیقی کی عبادت کرے۔

۴ ۔ ان اعضاء دھونے کاایک رازیہ بھی ہے کہ ہاتھ اورچہرہ کے دھو نے کامقصدیہ ہے کہ ہم دنیاسے ہاتھ دھورہے ہیں اورغیرخداکی طرف ہونے سے منہ پھیررہے ہیں۔ انسان کوسعادت اورخوش بختی اسی وقت نصیب ہوسکتی ہے جب اس کے ہاتھ اورصورت دنیاوی پلیدگی میں آلودہ نہ ہوں کیونکہ دنیاوآخرت دوایسی چیزیں ہیں کہ انسان ان دونوں میں سے جس سے جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گا دوسری سے اتناہی زیادہ دورہوتاجائے گالہٰذاانسان کوچاہئے کہ بارگاہ خداوندی میں قیام کرنے سے پہلے دنیاسے ہاتھ دھوئے اوراسسے اپنامنہ پھیرلے۔

۵ ۔ وضومیں سب سے پہلے چہرہ دھویاجاتاہے جس کاراز یہ ہے کہ ظاہری صورت باطنی صورت کاآئینہ ہوتی ہے اورچہرے پرخداکی طرف متوجہ ہونے کے آثاردوسرے اعضاء وضو کے مقابلہ میںزیادہ نمایاں ہوتے ہیں اسی لئے وضومیں چہرہ دھونے کومقدم کیاگیاہے۔

۷۲

۶ ۔وضومیں ہاتھوں کے کہنیوں سمیت دھونے کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ یہی ہاتھ ہوتے ہیں جودوسرے اعضاء کے مقابلے میں دنیاوی امورکی طرف زیادہ درازہوتے ہیں اور گناہوں میں آلودہ ہوتے ہیں لہٰذاخداوندمتعال کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ہاتھوں کوآلودگی سے پاک کرلیناضروری ہے۔

٧۔سرکے مسح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ دماغی طاقت اسی کے اندرواقع ہے اوردنیاوی(مادّی وشہوتی) مقاصدحاصل کرنے کاارادہ اسی کے ذریعہ شروع ہوتاہے اورمادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونامعنوی توجہ پیدانہ کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں اورمادی وشہوتی امورکی طرف سرہی کے ذریعہ متوجہ ہواجاتاہے لہٰذاسرکے مسح کرنے کامقصدیہ ہے کہ ہم مادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونے سے دوری اختیارکررہے ہیں اوراپنارخ خداکی جانب کررہے ہیں۔

٨۔ پیروں کے مسح کرنے کارازیہ ہے کہ انسان انھیں کے ذریعہ تمام دنیاوی مقاصدکی جانب بڑھتاہے اورانھیں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے لہٰذاہم سرکے اگلے حصہ پرمسح کے ذریعہ اپنی جہت کوبدل رہے ہیں اور خداکی جانب حرکت کررہے ہیں کیونکہ عبادت خداکے ذریعہ اسی وقت سعادت نصیب ہوسکتی ہے اورالله کے ذکرسے اسی وقت دل کوآرام مل سکتاہے ) جب ہم اپنی راہ کودنیاوی مقاصدسے خداکی طرف موڑدیں۔(۱)

محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں جوخط لکھے گئے ان میں ایک خط میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ وضومیں چہرہ اوراہاتھوں کے دھوے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے اس خط کے جواب میں تحریرکیااوراس طرح وجہ بیان کی: وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کوواجب قراردیاگیاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرتاہے توان چاراعضاوجوارح سے اس سے ملاقات کرتاہے ،چہرے کے دھونے کواس واجب قراردیاگیاہے کیونکہ اس کے ذریعہ سجوداورخضوع کرناواجب ہے اوردونوں ہاتھوں کے دھونے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ انھیں حرکت دی جاتی ہے اوران کے ہی ذریعہ میل ورغبت ،خوف وحشت اورقطع کرناوجداکرناانجام پاتاہے لہٰذاان دونوں کے دھونے کوواجب قراردیا گیاہے اورسرودونوں پاؤں کے مسح کرنے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ یہ دونوں ظاہرومکشوف یعنی کھلے رہتے ہیں اورتمام حالات میں ان کے ذریعہ استقبال کیاجاتاہے اوروہ خضوع خشوع جوچہرے اوردونوں میں نہیں پائی جاتی ہے وہ ان دونوں میں پائی جاتی ہے ۔(۲)

____________________

. ١ )قصص الصلاة/ج ٢/ص ٢۴ ۔ ٢۶

.۲)علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٠

۷۳

مرحوم کلینی نے اپنی کتاب “الکافی” میں ایک روایت نقل کی ہے:ابن اذینہ سے مروی ہے کہ ایک دن امام صادق نے مجھ سے فرمایا:یہ ناصبی لوگ کس طرح کی روایت نقل کرتے ہیں؟میں نے کہا:آپ پرقربان جاؤں کس بارے میں؟آپ (علیھ السلام) نے فرمایا: اذان، رکوع ،سجودکے بارے میں؟ میں عرض کیا:وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو“ابی ابن کعب” نے خواب میں دیکھاہے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:وہ جھوٹ کہتے ہیں، دین خداتو خواب میں دیکھنے سے بھی کہیں درجہ بلندوبالاہے ،راوی کہتاہے کہ اسی وقت سدیرصیرفی نے امام (علیھ السلام) سے عرض کیا:ہم آپ پرقربان جائیں !آپ ہمارے لئے اس بارے میں کچھ بیان کیجئے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)معراج پرگئے اورساتوے آسمان پرپہنچے آنحضرت سے کہاگیا:اے محمد!اپنے سرکوبلندکرواوراوپرکی طرف نگاہ کرو،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کہتے ہیں کہ :میں نے جیسے ہی سربلندکیاتودیکھاکہ آسمان کے تمام طبقے شکافتہ ہوگئے ہیں اورآسمان کے تمام پردے اٹھالئے گئے ہیں ،اسکے بعدمجھ سے کہاگیا:

اے محمد!اب نیچے کی طرف بھی دیکھو!میں نے جیسے نیچے کی طرف نگاہ ڈالی توخانہ کٔعبہ کے مانند ایک گھرنظرآیااورمسجدالحرام کے مانندایک حرم دیکھا،اگرمیں اس وقت اپنے ہاتھ سے کوئی چیزنیچے کی طرف چھوڑتاتووہ سیدھی اسی حرم میں آکرگرتی ،اس وقت مجھ سے کہاگیا:یامحمدااِنّ هذالحرم وانت الحرام ولکل مثل مثال ثمّ اوحی الله الیّ :یامحمد! ادن من “صاد”فاغسل مساجدک وطهرهاوصلّ لربّک ۔

اے محمد!یہ حرم ہے اورتومحترم اورہرایک چیزکی ایک مثالی تصویرہوتی ہے ،اس کے بعدمجھ پروحی نازل ہوئی اورمجھ سے کہا گیا :اے محمد!صاد(١) کے قریب جاؤاوراپنے اعضاء سجدہ کوپانی سے دھوؤاوراپنے پروردگارکے لئے نمازپڑھو،رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)صادکے قریب پہنچے اوردائیں ہاتھ کی چلّومیں پانی لیا ،چونکہ نبی نے دائیں ہاتھ سے پانی چلومیں لیاتو اسی لئے دائیں ہاتھ سے وضوکرناسنت قرار پایا، پھر خدا نے وحی نازل کی:اغسل وجهک فانک ت نظرالیٰ عظمتی ثمّ اغسل ذراعیک الیمنیٰ والیسریٰ فانّک تلقی بیدک کلامی ثمّ امسح راسک بفضل مابقی فی یدک من الماء ورجلیک الیٰ کعبیک ۔ اپنے چہرہ دھوؤکیونکہ تم اس کے ذریعہ میری عظمتوں کامشاہدہ کرتے ہو،اس کے بعداپنے دائیں اوربائیں ہاتھ کوکہنیوں سمیت دھوؤکیونکہ تم ان ہی ہاتھوں کے ذریعہ میرے کلام کوحاصل کرتے ہو،اس کے بعدہاتھ پرباقیماندہ پانی کی رطوبت کے ذریعہ سرکا اورپیروں کاکعبین تک مسح کروپھرمیں تمھیں ایک خوشی طعاکروں گااورتمھارے قدموں کووہاں تک پہنچادوں گاکہ ) جہان پرآج تک کسی نے قدم نہیں رکھاہے(۲)

____________________

١)کافی /ج ٣/ ص ۴٨۵

۲)صادوہ پانی ہےجوعرشکی بائیں پنڈلی سے جاری ہے

۷۴

۴ ۔خروج پیشاب ،پیخانہ اورریح سے وضوکے باطل ہونے کی وجہ

پیشاب ،پیخانہ ،ریح کے خارج ہونے اورمجنب ہوجانے سے وضوباطل ہوجاتی ہے خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ ) . وضوکرو!اگرتم میں سے کسی پاخانہ نکل آئے یاعورت کولمس کرواورمنی نکل ( توطہارت کرو)۔(۱)

عن زرارة قال:قلتُ لابی جعفر،وابی عبدالله علیهماالسلام :ماینقض الوضوء ؟ فقالا:مایخرج من طرفیک الاسفلین : من الذکروالدبر ، من الغائط والبول ، ا ؤالمنی ا ؤریح ، والنوم حتی یذهب العقل .

زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر اورامام جعفرصادق +سے پوچھا:کن چیزوں کے ذریعہ وضوباطل ہوجاتاہے ؟پس دونوں امام (علیھ السلام)نے فرمایا:وہ چیزکہ جوتمھارے نیچے کے دونوں حصے آلہ ت ناسل اوردبرسے خارج ہوتی ہیں یعنی پیشاب اورپاخانہ ،منی ،ریح،ایسی نیندکہ جسکے ذریعہ عقل ضائع ہوجائے۔(۲)

امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وہ چیزیں جوطرفین سے یعنی قُبل ودُبرسے خارج ہوتی ہیں ان کے ذریعہ اورنیندکے ذریعہ وضوباطل ہو جاتی ہے کسی دوسری چیزکے ذریعہ وضوکیوں باطل نہیں ہوتی ہے ؟اس کاجواب یہ ہے: کیونکہ طرفین یعنی قُبل ودُبردوایسے راستے ہیں جن کے ذریعہ نجاست خارج ہوتی ہے اورانسان میں ان دوراستوں کے علاوہ نجاست خارج ہونے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے جوانسان سے خودبخودلگ جائے اوراسے مت نجس کردے لہٰذاجس وقت ان دوراستوں سے نجاست خارج ہوتی ہے توانسان پاک ہوتاہے اوران دوراستوں کے ذریعہ نجاست نکلتے ہیں مت نجسہوجاتاہے لہٰذاطہارت حکم دیاگیاہے ۔

لیکن نیندکہ جب وہ انسان پرغالب آجاتی ہے تواس کے ذریہ بھی وضوباطل ہوجاتی ہے کیوں نکہ جوچیزانسان میں منافذہوتی ہے وہ کھل جاتی ہیں اورسست ہوجاتی ہیں اورغالباًایسے حال میں چندچیزیں خارج ہوتی ہیں کہ جسکی وجہ سے وضوکرناواجب ہوتاہے ۔(۳)

____________________

۱)سورہ نٔساء/آیت ۴٣ ۔سورہ مٔائدہ/آیت ۶

.۲) کافی /ج ٣/ص ٣۶

۳) عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١

۷۵

کھانے ،پینے سے وضوکے باطل نہ ہونے کی وجہ

کسی چیزکے کھانے پینے سے وضوباطل نہیں ہوتی ہے ،اس کی وجہ حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : توضو أممایخرج منکم ، ولاتوضو أ ممایدخل فانه یدخل طیبایخرج خبیثا .

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:ان چیزوں کی وجہ سے باطل ہوجاتاہے کہ جوتمھارے بدن سے خارج ہوتی ہیں اوران چیزوں سے وضوباطل نہیں ہوتاہے کہ تمھارے بدن میں داخل ہوتی ہیں کیونکہ بدن میں پاک چیزجاتی ہے اوربدن سے خارج ہونے والی چیزخباثت کاحکم رکھتی ہیں۔(۱)

آب وضوکے پاک، مباح اورمطلق ہونے اوربرت ن کے مباح ہونے کی وجہ

جس پانی سے وضویاغسل کرتے ہیں اس کاپاک ،مطلق اورمباح ہوناضروری ہے ، اگرانسان عمداًیاسہواًنجس ، مضاف یاغصبی پانی سے وضویاغسل کرے تووہ وضواورغسل باطل ہے اوراس سے پڑھی جانے والی نمازیں بھی باطل ہیں،خواہ نمازکے لئے وقت باقی ہویانہ ہواورچاہے پہلے سے پانی کے نجس یاغصبی ہونے کاعلم رکھتاہویانہ کیونکہ نجس یاغصبی پانی سے وضوکرنے سے خداسے تقرب حاصل نہیں ہوسکتاہے بلکہ خداسے تقرب حاصل کرنے کے لئے طہارت شرط ہے ۔

غصبی پانی یاغصبی برت ن سے وضوکے باطل ہونے کاسبب یہ ہے کیونکہ اگرغیرمباح ظرف یاپانی سے وضوکیاجائے تواسے تصرف غصبی میں شمارہوجائے گااورتصرف غصبی حرام ہے پس جب تصرف حرام ہے توعبادت بھی باطل ہے دوسرے یہ کہ وضومیں قصدقربت شرط ہے ،غصبی پانی کے ذریعہ وضو کرنے سے قصدقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے پس جب قصدقربت کاوجودنہیں ہے تووضوباطل ہے ۔

قال امیرالمومنین علیه السلام : انّ الله تعالیٰ فرض الوضوء علی عباده بالماء الطاهروکذلک الغسل من الجنابة.

حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم نے اپنے بندوں پرواجب قراردیاہے کہ وضوکوپاک پانی کے ذریعہ انجام اووراسی طرح غسل جنابت کو۔

___________________

۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢٨٢

۷۶

۶ ۔خودوضوکرنے کی شرط کی وجہ:

وضوکے شرائط میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپناوضوخودکرے یعنی اپنے چہرے، دونوں ہاتھوں کوخود دھوئے اورسروپاو ںٔ کامسح بھی خودکرے ،اگرکوئی شخص بغیرکسی مجبوری کے کسی دوسرے سے وضوکرائے یعنی کوئی دوسراشخص اس کے چہرے کویاہاتھوں کودھوئے ،سریاپیرکامسح کرے تواس کی وضوباطل ہے مگریہ کہ خودوضوکرنے کی قدرت نہیں رکھتاہواوربغیرکسی مجبوری کے کسی دوسرے سے پانی وضوکے لئے پانی ڈلوانامکروہ ہے جسکی وجہ قرآن وسنت اس طرح بیان کی گئی ہے:

( فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاًصَالِحًاوَّلَایُشْرِک بِْعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَدًا ) جوبھی اپنے رب سے ملاقات کاامیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اورکسی کواپنے پروردگارکی عبادت میں شریک قرارنہ دے ۔(۱)

شیخ صدوقنے “من لایحضرہ الفقیہ”میں ایک روایت نقل کی ہے:کان امیرالمومنین علیه السلام اذاتوضا لٔم یدع یصب علیه الماء قال:لاا حٔبّان اشرک فی صلاتی احداً .

امیرالمومنین حضرت علیجب بھی وضوکرتے تھے توکسی کوپانی ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اورفرماتے تھے :میں اپنی نمازوعبادت میں کسی کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:خصلتان لااُحب ان یشارکنی فیهمااحد:وضوئی فانه من صلاتی وصدقتی فانهامن یدی الی یدالسائل فانهاتقع فی یدالرحمن . نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:دوخصلت ایسی ہیں کہ میں ان میں کسی دوسرے کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں: ایک میراوضوکیونکہ وہ میری نمازکاحصہ ہے دوسرے میراصدقہ کیونکہ میرے ہاتھوں سے سائل کے ہاتھوں میں پہنچتاہے اورچونکہ وہ خدائے کے ہاتھوں میں پہنچتاہے۔(۳)

____________________

۱)سورہ کٔہف/آیت ١١٠

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣

۳) خصال (شیخ صدوق)ص ٣٣

۷۷

٧۔سورج کے ذریعہ گرم پانی سے وضوکرنے کی کراہیت کی وجہ:

سورج کے ذریعہ گرم شدہ پانی سے کوئی حرج نہیں ہے البتہ مکروہ ہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : الماء الذی تسخنه الشمس لاتتوضو أ به ، ولاتغسلوا به ولاتعجنوا به ، فانه یورث البرص .

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:وہ پانی کہ جسے سورج نے گرم کردیاہے اس سے وضونہ کرواورغسل بھی نہ کرواوراس کے ذریعہ آٹے کوخمیربھی نہ کروکیونکہ اس کے ذریعہ برص کے مرض کاخطرہ ہے ۔(۱)

وضوکے آداب

١۔وضوسے پہلے مسواک کرنا

مستحب ہے کہ جب انسان نمازکاارادہ کرے تووضوسے پہلے مسواک کرے اور پاک ومعطردہن کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قدم رکھے کیونکہ معصومین کی یہی سیرت رہی ہے کہ وہ وضوسے پہلے مسواک کرتے تھے اورمسواک کرنے کی فرمائش ونصیحت بھی کرتے تھے ۔

قال رسوللله صلی الله علیه وآله وسلّم لِعلیّ فی وصیّته:علیک بالسواک عندوضوء کلّ صلاة (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)مولائے کائنات حضرت علی سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اے علی! تم ہر نماز سے وضوکرتے وقت مسواک ضرورکیاکرو۔

یاعلی !علیک بالسواک وان استطعت ان لاتقل منه فافعل فانّ کل صلاة تصلیهابالسواک تفضل علی الّتی تصلیهابغیرسواک اربعین یوما .(۳)

اے علی ! میں تم کو مسواک کے بارے میں وصیت کرتا ہوں اور اگرتم اس کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتے تو خوداسے انجام دیتے رہوکیونکہ ہر وہ نمازکہ جس سے پہلے مسواک کی جاتی ہے وہ نماز ان چالیس دن کی نماز وں سے افضل ہیں جو نماز بغیر مسواک پڑھی جاتی ہیں ۔

____________________

۱)علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨١

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٣

. ۳)مکارم الاخلاق /ص ۵١

۷۸

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:رکعتان بالسواک افضل من سبعین رکعة بغیرسواک (۱) امام صادق فرماتے ہیں:مسواک کے ذریعہ دورکعت پڑھی جانے والی نماز بغیر مسواک کے پڑھی جانے والی سترنمازوں سے افضل ہے ۔

قال سول الله صلی الله علیه وآله وسلم : لولاان اشق علی امتی لامرتهم بالسواک مع کل صلاة (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں: اگرمیری امت پرمسواک کرناباعث مشقت نہ ہوتاتومیں انھیں ہرنمازکے ساتھ مسواک کرنے کولازم قراردیتا۔

٢۔ وضوکرتے وقت معصوم (علیھ السلام)سے منقول ان دعاؤں کوپڑھنا

امام صادق فرماتے ہیں:ایک دن امیرالمومنیناپنے فرزند“محمدابن حنفیہ ”کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا:اے محمد!میرے لئے ایک ظرف میں پانی لے کرآو تٔاکہ میں نمازکے لئے وضوکروں،محمدپانی لے کرآئے اور امام(علیھ السلام) نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پرپانی ڈالااوریہ دعاپڑھی:

بسم اللهوباللهوالحمدلله الذّی جعل الماء طهوراًولم یجعله نجساً

اس کے بعدامام(علیھ السلام) نے اسنتجاکیا اوریہ دعاپڑھی:

اللّهم حصّن فرجی وَاَعِفّه ،وَاسترعورتی وَحرّمنی علی النّار.

اس کے بعد(تین مرتبہ کلی کی )اوریہ دعاپڑھی:

اللّهم لقّنی حُجّتی یوم اَلْقاک واطلق لسانی بذکراک واجعلنی ممن ترضی عنه

اس کے بعد ناک میں پانی ڈالا اورپروردگارسے عرض کیا:

اللّهم لاتحرّم علیّ ریح الجنّة وَاجْعلنی ممّن یشمّ ریحهاوروحهاوطیبها ۔

اس کے بعدچہرہ دھویااوریہ دعاپڑھی:

اللّهم بیّض وجهی یوم تسودّفیه الوجوه ولاتسوّدوجهی یوم تبیضّ فیه الوجوه.

اس کے بعد داہناہاتھ دھوتے وقت یہ دعاپڑھی:

اللّهم اعطنی کتابی بیمینی والخلد فی الجنان بیساری وحاسبنی حساباًیسیراً.

____________________

۱)

٢)کافی /ج ٣/ص ٢٢

۷۹

بائیں ہاتھ کودھوتے وقت یہ دعاپڑھی:

اللّهم لاتعطنی کتابی بیساری ولاتجعلهامغلولة الیٰ عنقی واعوذبک(ربی من مقطعات النیران.

سرکامسح کرتے وقت بارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

اللّهم غشنی برحمتک وبرکاتک وعفوک. دو

نوں پیرکامسح کرتے وقت یہ دعاء پڑھی:

اللّهم ثبت نی علٰی الصراط یوم تزل فیه الاقدام،واجعل سعیی فیمایرضیک عنّی یاذوالجلال والاکرام.

جب وضوسے فارغ ہوئے توسربلندکرکے“محمدابن حنفیہ ”سے مخاطب ہوکرارشادفرمایا:یامحمد !من توضّاَبمثل مَاتوضّاتُ وَقالَ مثل ماقُلتُ خلق الله من کلّ قطرة ملکاًیقدسه ویسبحه ویکبّره ویهلله ویکتب له ثواب مثل ذٰلک.

اے محمد!جوشخص میری طرح وضوکرے اوروضوکرتے وقت میری طرح ان اذکار کو زبان پرجاری کرے خداوندمتعال اس کے آب وضوکے ہرقطرے سے ایک فرشتہ خلق کرتا ہے تسبیح ) وتقدیساورتکبیرکہتارہتاہے اوراسکے لئے قیامت تک اس کاثواب لکھتا رہتا ہے(۱) زرارہ سے مروی ہے امام محمدباقرفرماتے ہیں:جب تم اپنے ہاتھ کوپانی میں قراردیں توکہیں: “بسم اللهوبالله اجعلنی من التّوابین واجعلنی من المطهّرین ”اورجب وضو سے فارغ ) ہوجاو تٔو“الحمدللّٰه ربّ العالمین ”کہیں۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من توضا فٔذکر اسم اللهطهرجمیع جسده وکان الوضوء الی الوضوء کفّارة لمابینهما من الذنوب ومن لم یسم لم یطهرمن جسده الّا ما اصابه الماء .(۳) اگر کوئی شخص وضو کرے اور خداکا نام زبان پر جاری کرے تو اس کا پورا جسم طیب وطاہر ہوجاتا ہے اور ہر وضو بعدوالی وضو کے انجام دینے تک ان گناہوں کا کفارہ ہوتاہے جو دونوں وضوکے درمیان سرزد ہوئے ہیں اوراگرنام خدازبان پرجاری نہیں کرتاہے تواس کے بدن کا وہی حصّہ پاک ہوتاہے جسپروہ پانی ڈالتاہے۔

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ۴٢ /حدیث ٨۴

. ٢)تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٧۶

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٠

۸۰