نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار15%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173917 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کا نام: نماز کے آداب واسرار

مولف : رجب علی حیدری

۳

پیشگفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه الّذی جعل الصلاةقربان کلّ تقی واَحد اَرکان دینه والصّلاة والسّلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین ابی القاسم محمّد الذی یقف فی الصلاة حتی ترم قدماه والسّلام علیٰ اهل بیته المعصومین لاسیّماعلیٰ علی بن ابیطالب الّذی ردّالشمس لصلاته وعلٰی الحسین الشهیدالذی قتل مظلومافی حال الصلاة وعلیٰ علی بن الحسین الذی یقال له السجادلکثرة السجود ، و علی المهدی حین یصلّی ویقنت وحین یرکع و یسجد،الّذی تصلّی المسیح ابن مریم خلفه یوم ظهوره،و علیٰ عبادالله الصّالحین( اَلَّذِینَ هُمْ فی صَلاتِهِمْ خَاشِعُون ) واللّعنةالدّائمة علٰی اعدائهم اجمعین من یومناهٰذاالٰی قیام یوم الدّین

امّابعد :

وجہ تالیف:

ہروہ شخص جو دین اسلام میں اصول وفروع دین میں سے کسی بھی موضوع کے متعلق کوئی کتاب، مقالہ ،مجلہ وغیرہ کی تالیف کرتاہے توخداوندمتعال دنیامیں اس پر اپنی نعمت وکراماتنازل کرتاہے، قبض روح میں اسانی ہوتی ہے اورآخرت میں معصومین کے قرب وجوارمیں جگہ عنایت کرتاہے ۔ جب تک لوگ اس کی کتاب سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اوراس پرعمل کرتے رہتے ہیں توکتاب کے لکھنے والے کوبھی اس کاثواب ملتارہتاہے پس صدقہ جاری کے طورسے اس کتاب کے تالیف کرنے کوشش کی ہے اورپروردگار سے دعاہے کہ وہ میری اس کوشش کوبحق محمدوآل محمد قبول فرمائے، ہمیں اس کتاب پرعمل کرنے کی توفیق عطاکرے اوراسے ہم سب کی بخششکاسامان قراردے۔قال نبی صلی الله علیه وآله:اذامات الانسان انقطع عمله الّامن ثلاث:صدقة جاریة ا ؤعلم ینتفع به ، ا ؤلدصالح یدعوله نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں:جب انسان مرجاتاہے تواس کے تمام عمل منقطع ہوجاتے ہیں لیکن چیزیں ایسی ہیں جن وجہ سے اسے مرنے بعدبھی ثواب پہنچتارہتاہے

١۔صدقہ جاریہ

٢۔علم کہ جس سے لوگ استفادہ کرتے ہیں

٣۔فرزندصالح جومرنے کے : بعداپنے والدکے لئے دعائے مغفرت کرتاہے ۔ عوالی اللئالی /ج ٢/ص ۵ ٣

۴

وجہ تسمیہ “نمازکے آداب واسرار“

نماز ایک ایسی عبادت ہے جسے انبےائے کرام اورمعصومین نے اپنا سر لوحہ عٔبادت قرار دےاہے اوراپنے زمانے کے لوگوں کو اس کے بجالانے کا حکم بھی د ےا ہے انمازتمام انبیاء وآئمہ اطہار اورجملہ مومنین ومومنات کی روح وجان ہے ،ان کی آنکھوں کی روشنی ہے،معراج امت محمدی ہے ، دردمندوں کے لئے باعث شفاہے ،ضرورتمندوں کی حاجت کوپوری کرتی ہے ،انسان کوبرائیوں سے دور رکھتی ہے جس کے ذریعہ دل کوسکون واطمینان روح کوتازگی، رنج وغم سے نجات اورحیات جاودانی نصیب ہوتی ہے،لیکن یہ یادرہے صرف وہی نمازانسان کوگناہوں سے دورنہیں رکھ سکتی ہے جسے وہ اسے اس کے پورے آداب شرائط کے ساتھ اورمحمدوال محمد کی محبت اوران کی ولایت کے زیرسایہ انجام دیتاہے۔

اس کتاب کانام“نمازکے آداب واسرار”رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں تمام افعال واعمال نمازاسرارکو بیان کیاگیاہے ،مثلاًالله کی اطاعت وبندگی کارازکیاہے ، روزانہ پانچ ہی نمازیں کیوں واجب قراردی گئی ہیں اس سے کم یازیادہ کیوں نہیں ،ان ہی اوقات میں نمازکوکیوں واجب قراردیاگیاہے ،نمازکے لئے طہارت کے واجب قراردئے جانے کی وجہ کیاہے ،نمازکوتکبیرکے ذریعہ کیوں آغازکیاجاتاہے

کتاب ہذامیں احکام نمازکوذکرنہیں کیاگیاہے کیونکہ اگراحکام نمازکوذکرکیاجاتاتواس بارے میں مراجع عظام کے فتووں کے مطابق روایتوں کوذکرکیاجاتااوران کے اختلاف کوبھی ذکرکیاجاتاکہ جسکے لئے ایک مستقل استدلالی کتاب کی ضرورت ہے ۔ کتاب ہذامیں تعقیبات نمازکے آداب واسرارکوبھی ذکرکیاگیاہے مثلاتسبیح حضرت زہرا کا آغاز کب اورکیسے ہوا،دعاکرناکیوں ضروری ہے ،دعاکرنے کاطریقہ کیاہے ،کن لوگوں کی دعاقبول ہوتی ہے اورکن کی دعاقبول نہیں ہوتی ہے اورمومن کی دعاتاخیرسے کیوں قبول ہوتی ہے۔ امیدہے کہ میرے محترم قارئین اس کتاب کے ذریعہ تمام اعمال وافعال نمازکے آداب واسرارکے بارے میں کلام خداورسول وآئمہ اطہارعلیہم الصلاة والسلام نورانی کلمات سے مستفیض ہونگے اوراپنے آپ کوتحت تاثیرقرارپائیں گے اوراپنے اندرایک عجیب نورانیت محسوس کریں گے اورامید ہے کہ یہ کتاب بارگاہ خداوندی ومعصومین میں مقبولیّت کا شرف حاصل کرے گی اورناشر ومترجم اوراس کتاب سے فیضیاب ہونے والوں کے گناہوں کے لئے بخششکا سبب واقع ہوگی

۔ رجب علی حیدری

١٧ /ربیع الاول ١ ۴ ٢ ۶ مطابق ٢ ۶ / جنوری ٢٠٠ ۵

۵

رازاطاعت وبندگی

١۔انسان عبادت کے لئے پیداہواہے

الله تبارک وتعالیٰ نے دنیامیں کسی بھی مخلوق کو بے کار و بیہودہ خلق نہیں کیاہے بلکہ ان سب کی کوئی وجہ خلقت ضرورہے اوران سب چیزوں کے خلق کرنے میں کوئی راز و فلسفہ و سبب پایاجاتاہے اوروہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے جن وانس کو اس لئے پیداکیاہے کہ وہ اس کی عبادت کریں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:( وَمَا خَقَلْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلّا لِیَعْبُدُون ) .(١)

میں نے جن وانسکونہیں پیدا کیا مگریہ کہ وہ( میری )عبادت وبندگی کریں۔

جمیل ابن دراج سے مروی ہے میں نے امام صادق سے اس آیہ مٔبارکہ کے بارے میں سوال کیااورکہا:اے میرے مولا!آپ پرمیری جان قربان ہو،آپ مجھے اس قول خداوندی کے معنی ومفہوم سے آگاہ کیجئے ؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:یعنی خداوندعالم نے تمام جن وانس کوعبادت کے لئے پیداکیاہے ،میں کہا:خاص لوگوں یاعام لوگوں کو؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:عام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے خلق کیاہے ۔(٢)

دنیاکی ہرشے رٔب دوجہاں کی تسبیح وتقدیسکرتی ہے بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ قیام کے مانند کھڑا رہتے ہیں الله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ، بکریاں

____________________

١)سورہ زاریات/آیت ۵۶

.۲)علل الشرائع/ج ١/ص ١۴.

۶

وغیرہ اوربعض ایسے بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَه مَنْ فِیْ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرِصٰآفّٰاتٍ کُلُّ قَدْعَلِمَ صَلَاتَه وَتَسْبِیْحَه وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَایَفْعَلُوْنَ ) .(۱)

کیاتم نے نہیں دیکھاہے کہ الله کے لئے زمین وآسمان کی تمام مخلوقات اور فضاکے صف بستہ طائرسب تسبیح کررہے ہیں اورسب اپنی اپنی نمازوتسبیح سے باخبر ہیں اورالله بھی ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

٢۔شکرمنعم واجب ہے

زمین وآسمان،آفتاب وماہتاب، چگمگاتے تارے ، پھول اورپودے ،پھولوں میں خوشبو، کلیوں میں مسکراہٹ ،غنچوں میں چٹخ ،چڑیوں میں چہک ،زمین میں ہرے بھرے جنگل ، میٹھےاوررسیلے پھلوں سے لدے ہوئے درخت ،یہ موج مارتے دریاوسمندر، آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے، چہکتی ہوئی چڑیاں،آسمان سے نازل ہونے والے برف وبارش کے قطرے، درختوں کے پتے ،یہ ہیرے وجواہرات، یہ سونے وچاندی اورنمک وکوئلے کی کانیں،یہ جڑی بوٹیاں اوردیگربےشماراوربے حساب نعمتیں جوالله کی طرف سے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہیں اورپوری زندگی ہرطرف سے اورہرآن میں نازل ہوتی رہتی ہیں۔

اس نے ہمیں سوچنے ،سمجھنے اورغوروفکرکرنے کے لئے عقل وشعور،علم وفہم، رنگوں اورشکلوں کی پہچان کے لئے قوت بینائی ،آوازوں کو سننے کے لئے قوت سامعہ، ذائقہ چکھنے لئے زبان،

____________________

. ١)سورہ نٔور/آیت ۴١

۷

خوشبو اور بدبوکی شناخت کے لئے قوت شامہ ،گرم و ٹھنڈا محسوس کرنے لئے قوت لامسہ عطاکی ہے اوراس نے ہمیں اس معاشرے میں عزت وشرافت ،جود وسخاوت اور مال ودولت وغیرہ جیسی نعمتیں عطاکی ہیں،کیا تمام نعمتوں پراسکاشکرادانہ کیاجائے.

اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کوایک تھیلی اشرفی عطاکردے تووہ کس قدراس کامریدبن جاتاہے ،کس قدراسے یادکرتاہے اوراس کی کت نی زیادہ تعریفیں کرتاہے لیکن جس نے ہمیں ان نعمتوں سے مالامال کیاہے اس کی ان تمام نعمتوں کودیکھ کرہماہمارافرض بنتاہے کہ اس کی عطاکی ہوئی بے کراں نعمتوں کا شکراداکریں،اس کی تعظیم واکرام کریں،اس کے ہرحکم کے آگے اپناسرتسلیم کریں،اس کی عظمت کی خاطرزمین سجدہ کے لئے پیشانی رکھدیں،اس کی حمدوثناکریں ،اس کی عبادت اورپرستش کریں،لیکن جس نے تمھیں رحم مادرمیں جگہ دی ہو اور وہاں چند اندھیرے پردوں میں تمھاری حفاظت کی ہے خداوندعالم نے قرآن کریم می ۰کرمنعم کوواجب اور کفران نعمت کوحرام قراردیاہے :

( وَاشْکُرُوْلِیْ وَلَاتَکْفُرُوْنِ ) (۱) تم میراشکر ادا کرو اورکفران نعمت نہ کرو۔

اورسورہ قٔریشمیں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرماتاہے:

( فَلْیَعْبُدُوْارَبَّ هٰذَاالْبَیْتِ الّذِیْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خُوْفٍ ) (٢)

اے رسول !اپنے زمانے کے ان لوگوں سے کہدیجئے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔

علامہ ذیشان حیدرجوادی “ترجمہ وتفسیرقرآن کریم”میں اس آیہ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

چھٹی صدی عیسوی میں مکہ کی آبادی تین حصوں پرمنقسم تھی ۔نصربن کنانہ کی اولادقریش ،قریش کے حلیف دوسرے عرب اورغلام ،مکہ مکرمہ میں قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اوران کے سال میں

____________________

۱)سورہ قٔریش/آیت ٣۔ ۴

.٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١۵٣

۸

دوسفرتجارت ہواکرتھے ، سردی میں یمن کی طرف اورگرمی میں شام کی طرف ،یہ اپنی تجارت میں لئے مضبوط اورکامیاب تھے کیونکہ مکہ کے رہنے والے تھے اورشام ویمن کے لوگ ان سے مرعوب رہاکرتے تھے اوردہشت زدہ بھی تھے ،ان کے مرعوب رہنے کی ایک وجہ تھی کہ بالآخرانہیں حج کے موسم میں مکہ جاناپڑتاہے لہٰذاقدرت نے اسی احسان کویاددلاکربتلایاکہ ہراحسان کاایک تقاضہ ہوتاہے اورہمارے احسان کاتقاضہ یہ ہے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔

رب العالمین نے اپنی عبادت کوشکرکرنے کاطریقہ قراردیاہے:

( بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ ) (١)

تم صرف الله کی عبادت کرواوراسکے شکرگزاربندے بن جاؤ۔

انبیائے کرام اورآئمہ اطہار سے نہ کوئی خطا سرزد ہوئی ہے اورنہ ہوسکتی ہے کیونکہ وہ سب معصوم ہیں اورمعصوم سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہوسکتاہے لیکن شکرگزاری اوربندہ نوازی کے طورسے اس قدر نمازیں پڑھتے تھے کہ ان کے پیروں پرورم کرجاتے اور پیشانی و زانوئے مبارک پرگٹھے پڑگئے تھے ۔

زہری سے مروی ہے کہ : میں علی بن الحسین کے ہمرا ہ عبدا لملک بن مروان کے پاس پہنچا توجیسے ہی عبدالملک کی نظر امام (علیھ السلام) پر پڑی تو آپ(علیھ السلام) کی پیشانی پرسجدوں کے نشا ن دیکھ کر تعجب سے کہا :

اے ابامحمد ! تمھاری پیشانی پر عبادت کے آثا ر نمایاں ہیں ،تمھیں اسقدر نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟جبکہ خداوندعالم نے تمام خیرو نیکی کوتمھارے مقدرمیں لکھ رکھاہے، تم سے نہ کوئی گناہ سرزدہواہے اورنہ ہوسکتاہے ،کیونکہ تم پیغمبر خدا کے پارہ ت ن ہو،تمھارا ان سے مضبوط ومحکم رشتہ ہے ،تم

____________________

. ١)سورہ زٔمر/آیت ۶۶

۹

اپنے خاندان اور اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے ہو، وہ علم وفضیلت اورتقوی ودین جو تمھارے پاس ہے وہ تمھارے خاندان میں نہ کسی کے پاس تھا اور نہ اس وقت کسی کے پاس موجود ہے،ان تمام مراتب رکھنے کے باوجودپھربھی تم ات نی نمازیں پڑھتے ہوکہ پیشانی پرگٹھاپڑگیاہے۔

جب عبداالملک نے آپ کی اس طرح بہت زیادہ مدح سرا ئی کی تواس وقت امام سجاد -

نے فرمایا: یہ خداکے عطاکئے ہوئے تمام فضائل وکمالات جو تو نے میرے بارے میں بیان کئے ہیں کیا ان تمام نعمتوں پر شکرخدا نہ کروں ؟ اوراسکے بعدامام (علیھ السلام)نے عبدالملک سے کہا:

نبی اکرم (ص) اس قدرنمازیں پڑھتے تھے کہ پاہائے مبارک ورم کرجاتے تھے، جب آنحضرتسے کسی نے پوچھا:اے الله کے پیارے نبی! جب خدانے تمھارے اگلے پچھلے تمام گناہ(١) معاف کردئے ہیں توپھرتمھیں یہ سب زحمت اٹھانے اوراس قدرنمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟آنحضرت نے فرمایا :

اَفَلااَکُونُ عَبْداًشُکُوْراً ”کیاالله کے ان تمام احسانات پراوراس کی نازل کی ہوئی نعمتوں پراس کاشکرگزاربندہ نہ بنوں؟

اس کے بعدامام (علیھ السلام) نے عبدالملک ابن مروان سے خطاب فرمایا: تعریف کرتاہوں خداکی ہر عطا کی ہوئی نعمت پر کہ جن کے ذریعہ وہ ہماراامتحان لیتا ہے ، دنیا و آخرت میں تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، خدا کی قسم اس کی عبادت میں اگر میرا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے،میری آنکھیں نکل کرمیرے سینہ پرگرجائیں پھربھی اس کی عطاکردہ نعمتوں میں ایک نعمت کاایک دہائی شکرنہیں اداکرسکتاہوں، دنیا میں جت نے بھی لوگ خداکی حمدوثناکرتے ہیں ان سب کی حمدوثناخداکی ایک نعمت کے برابربھی نہیں ہوسکتی ہے

____________________

١)سورہ فٔتح /آیت ٢.لیغفراللهماتقدم من ذنبک میں ذنب سے وہ گناہ مرادہیں

۱۰

جوکفارکے خیال میں نبی اکرم پرلگائے جاتے تھے ،کفارقریش آپ پرجادوگر،جنون،شاعر،کہانت اورہوس اقتدارکے الزام لگاتے تھے۔

بس میری زند گی یہی ہے کہ رات دن اور خلو ت وآشکا ر میں اس کا ذکر کر تا رہوں ،بیشک میرے اہل خانہ اور دوسرے لوگ بھی مجھ پرکچھ حقوق رکھتے ہیں( جن کااداکر نا مجھ پرلازم ہے )اگریہ حقوق میری گردن پرنہ ہوتے تو میں اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اور د ل کو خدا کی طرف متوجہ کر لیتا یہاں تک کہ میرے بدن سے روح قبض ہو جا تی اور میں ہر گزاس کی طرف سے اپنے دل اورآنکھوں کو نہ ہٹاتا اور وہ بہترین حکم کر نے والا ہے یہ کہہ کے امام سجاد رونے لگے اور عبدا لملک بھی رونے لگا۔(١)

٣۔انسان کی فطرت میں عبادت کاجذبہ پایاجاتاہے

خداوندعالم نے انسان کی طینت وفطرت میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے،لہٰذاانسان دنیامیں آنے کے بعدجیسے ہی عقل وشعور کی راہ میں قدم رکھتاہے تواس میں یہ فطرت پیداہوجاتی ہے کہ مجھے کسی عظیم ذات کی اطاعت وعبادت کرنی چاہئے لہٰذاجب انسان اپنی فطرت کے مطابق عبادت کی راہ قدم اٹھاتاہے تو وہ معبودحقیقی کی عبادت کرتاہے جوراہ مستقیم ہے یاپھرگمراہی کاشکارہوکرجھوٹے اورباطل خداؤں کی پوجاکرناشروع کردیتاہے۔ بت ،چاند،سورج ،دریا،پہاڑکی پرستش وعبادت کرنایہ سب باطل اورگمراہی کے نمونے ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کوخدانے خلق کیاہے اورکسی بھی مخلوق کوخدائی کا درجہ دیناحرام اورباطل ہے ۔

( اِنَّنِی اَنَاالله لااِلٰهَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی ) (٢)

میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پستم میری عبادت کرو۔

اب جولوگ معبودحقیقی کی تلاش میں گمراہی کاشکارہوجاتے ہیں اورالله کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش کرنے لگتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے خداوندعالم نے بہترین انتظام کیاہے،اس نے ہرزمانہ میں راہ مستقیم سے ہٹ کرچلنے والے اورالله کے علاوہ کے کسی دوسرے کی عبادت کرنے والے

____________________

١)بحارالانوار/ج ۴۶ /ص ۵۶

. ٢)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴.

۱۱

لوگوں کوراہ حق کی ہدایت کے لئے ایک ہادی بھجتارہاہے۔

( وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلّ اُمَّةٍ رَسُوْلًااَنِِ اعْبُدُوااللهَ وَاجْت نبُواالطَّاْغُوْتَ ) (١)

ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا(تاکہ وہ تم سے کہیں کہ)الله کی عبادت کرو اور

طاغوت سے اجت ناب کرو (اورآج بھی اس کاایک ہادی پردہ غٔیب میں رہ کرہمیں ہدایت کررہاہے )۔

امیرالمومنین حضرت علینے نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے مبعوث کئے جانے کے رازومقصدکو نہج البلاغہ میں اس طرح بیان فرمایاہے :فَبَعَثَ اللهُ مُحمّداًلِیَخرجَ عِبادَهُ مِن عبادَةِ الاَوثَانِ اِلٰی عبادته ۔(۲)

الله نے حضرت محمد (صلی الله علیھ و آلھ) کواس لئے مبعوث کیاہے تاکہ وہ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کرخداپرستی کی طرف لے آئیں۔

خداوندعالم زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنانمائندہ اوررہبربھیجتارہاہے،سب سے پہلے حضرت آدم(علیھ السلام) (علیھ السلام)کوبھیجاتاکہ اپنی اولادکوکفر سے دوررہنے کی ہدایت کریں،اسی طرح یکے بعددیگرے ہدایت کے لئے انبیاء ورسل آتے رہے اورآخری نبی کے بعدان کی نسل سے آئمہ طاہرین کا سلسلہ شروع ہوااورآج بھی الله کی طرف سے ایک ہادی موجودہے جوپردہ غٔیب سے لوگوں ہدایت کرتے رہتے ہیں لیکن اکثرلوگ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے الله کے ان بھیجے ہوئے نبیوں کی باتوں کونہیں مانتے ہیں اوردنیامیں کسی طاقتورچیزکودیکھ کراسی کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔

۴ ۔ پروردگارکی تعظیم کرناواجب ہے

جب انسان کسی عظیم مرتبہ شخصیت سے ملاقات کرتاہے اورایک بڑے عالم وقابل شخص کادیدارکرتا ہے ، تویہ ملاقات اوردیدارانسان کوتواضع اوراس کے سامنے جھکنے پرآمادہ کرتی ہے ۔

____________________

. ١)سورہ نحل/آیت ٣۶

. ٢)نہج البلاغہ خطبہ ١۴٧

۱۲

ایک عالم وقابل شخص کادیدارانسان کواس کے ادب واحترام وتعظیم وتکریم پرمجبورکردیتا ہے اورانسان اپنے آپ کواس کی عظمت اوراس کے علم وکمال کے آگے خودکوناچیزاورکم علم شمارکرتاہے تواس کاادب وتعظیم کرنے لگتاہے ۔ خداوندعالم تمام عظمتوں اورجلالتوں کامالک ہے ،وہ سب سے بڑاہے ،سب سے بڑاعالم ہے ،حی ہے، قدیرہے،یہ تمام صفات ثبوتیہ اورسلبیہ اس کی عظیم ہونے کی واضح دلیل ہیں اوروہی سب کاحقیقی مولاوآقاہے لہٰذاہرانسان پرلازم ہے کہ اپنے حقیقی مولاوآقاکی تلاش کرے اوراس کاادب واحترام اورتعظیم کرے لہذاجب انسان حقیقی مولاکی تلاش کرتاہے تواپنے آپ کواس کی عظمت وجلالت کے آگے ناچیزاورکم علم حساب کرتاہے ،اپنے آپ کوذلیل وحقیرپاتاہے تواس کے ادب واحترام ،اس کی تعظیم وتکریم پرآمادہ ہوجاتاہے۔

۵ ۔ہرانسان محتاج اورنیازمندہے

اشرف المخلوقات انسان خواہ کت نی مال ودولت کامالک بن جائے اورکت نے ہیں عیش وآرام کاسامان جمع کرلے لیکن پھربھی اپنے آپ کوعاجزوانکسار،ضعیف وناتواں اورمحتاج وضرورتمندمحسوس کرتاہے اورکسی طرح سے اپنی غرض اورضرورت کوحاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اورانسان پرلازم ہے کہ اپنی حاجتوں کوپوری کرنے کے لئے کسی ایسی ذات کی طرف رجوع کرے جو کسی کامحتاج نہ ہو،جودینے سے انکارنہ کرے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہ آسکے اوریہ صرف پروردگارکی ذات ہے جوہرچیزسے بے نیازاورغنی مطلق ہے،سب کی حاجت اورضرورت کوپوراکرتاہے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ رحمت کوئی نہیں آسکتی ہے اس نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کووعدہ دیاہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی حاجتوں کوصرف ہی سے بیان کرو اورطلب کرو( یٰااَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ ) (١)

اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ ) (۲)

اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔

____________________

١)سورہ فٔاطر/آیت ١۵

. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠.

۱۳

عبادت اوربندگی کاطریقہ

جب پروردگارنے جن وانس کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورطینت وفطرت انسانی میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے اورشکرمنعم کوواجب قراردیاہے ان تمام چیزوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ الله کی اطاعت وبندگی کرنالازم ہے مگرسوال یہ ہے کس طرح اس اطاعت وبندگی اورتعظیم کرتکریم کی جائے کس طرح اس کاادب واحترام کیاہے اگراس کی اطاعت وبندگی کرنے کاکوئی خاص طریقہ ہے تو اپنے بندوں کواس سے آگاہ کر ے خداوندعالم نے قرآن کریم کی چندمتعددآیتوں میں نمازکو شکرنعمت اوربندگی کاطریقہ قراردیاہے:

( اِنَّااَعْطَیْنَاکَ الْکُوثَرَفَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْاِنَّاشَانِئَکَ هُوَالاَبْتَرُ ) (١)

اے رسول بر حق بےشک ہم نے تمھیں کوثر عطا کیالہٰذاتم اپنے رب کے لئے

نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔

کتب تفاسیر میں لفظ کوثر کے متعدد معنی ذکرہوئے کئے گئے ہیں:خیرکثیر، بہشت میں ایک نہر جناب سیدة کی نسل سے اولاد کثیر، شفاعت،قرآن، اسلام، علمائے دین واصحاب ویاران باوفا ، نبوت ۔

ان مذ کو ر مواردمیں سے ہر ایک پر کوثر کا مصداق ہو تا ہے اور ممکن ہے ان سب کےمجموعہ کوکوثر کہا جاتاہولیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم نے جس قدرخیرکثیراورنعمتیں اپنے حبیب حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کوعطاکی ہیں کسی اورکونہیں دی ہیں،انتہایہ ہے کہ آنحضرت کے دشمنوں کوابتربنادیاہے اوران کی نسلوں کومنقطع کرکے اپنے حبیب کی لخت جگرسے ایک ایسی نسل پیداکی جوقیامت تک باقی رہے گی، لہٰذاخداوندعالم نے ان تمام نعمتوں کے نازل کرنے پراپنے رسول سے کہا: اے میرے حبیب تم ان نعمتوں کے نزول پر میرا اس طرح شکر اداکرو:

( فَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْ،اِنَّاشَانِئَکَ هُوَالاَبْتَرُ )

اپنے رب کے لئے نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔

اللھ نے اپنے حبیب سے ان تمام نعمتوں پر شکراداکرنے کے لئے نمازاورقربانی کامطالبہ کیاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ انسان کوجب بھی کوئی خیرونعمت نصیب ہوتواس کافرض بنتاہے کہ خداکاشکرخدااداکرے اورشکرخداکابہترین طریقہ یہ ہے کہ نمازقائم کرے اورراہ خدامیں قربانی دے۔

____________________

. ١)سورہ کٔوثر/آیت ١۔ ٢۔ ٣

۱۴

)( اِنَّنِی اَنَااللهُ لااِلٰهَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی وَاَقِمِ الصَّلاةَلِذِکْرِی ) (١)

میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پس تم میری عبادت کرواورمیری یادکے لئے نمازقائم کرو۔

ان مذکورہ دونوں ایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ الله کی عبادت اوربندگی کرنے کاایک خاص

طریقہ ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کے لئے نمازقائم کی جائے تاکہ نمازکے ذریعہ اس کی نعمتوں کاشکراداکیاجائے اورنعمتوں کے نزول کاسلسلہ جاری رہنے کے لئے دعاء کی جائے اورنمازکی صورت میں اس کاادب واحترام کیاجائے۔

رازوجوب نماز

اس سے پہلے کہ ہم نمازکے واجب ہونے کے رازکوذکرکریں خودنمازکے واجب ہونے کو بیان کردینامناسب سمجھتے ہیں،سورہ کوثروطٰہٰ آیت ١ ۴ کے علاوہ اوربھی آیتیں ہیں جو نماز کے واجب ہونے پردلالت کرتی ہیں جن میں سے چندآیت ذکرکررہے ہیں :

( اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُومِنِیْنَ کِتَاباًمَوقُوتاً ) (۲)

بے شک نمازکوصاحبان ایمان پرایک وقت معین کے ساتھ واجب کیاگیاہے۔

زرارہ سے مروی ہے کہ امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میں فرماتے ہیں : موقوت ) سے مفروض مرادہے ۔( ٢

( اَقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاتَّقُوهُ هُوَ الَّذِیْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ) (۴)

نمازقائم کرواوراللھسے ڈروکیونکہ وہ وہی ہے جسکی بارگاہ میں حاضرکئے جاؤگے ۔

( مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَوَلَاتَکُوْنَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (۵)

تم سب اپنی توجہ خداکی طرف رکھواوراس سے ڈرتے رہو،نمازقائم کرواورخبردارمشرکین میں سے نہ ہوجانا۔

( وَاقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ ) (۶) اورنمازقائم کرواورزکات اداکرو۔

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴

۲)سورہ نٔساء/آیت ١٠٣

۳)کافی/ج ٣/ص ٢٧٢.

.۴)سورہ أنعام/آیت ٧٢

. ۵)سورہ رٔوم/آیت ٣١

. ۶)سورہ بٔقرہ /آیت ١١٠ ۔مزمل /آیت ٢٠

۱۵

ان مذکورآیات کریمہ سے نمازکاواجب ہوناثابت ہے اورمعصومین سے ایسی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں واضح طورسے نمازکے واجب بیان کیاگیاہےعن عبدالله بن سنان عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ان الله فرض الزکاة کمافرض الصلاة .(١)

امام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم نے زکات کواسی طرح واجب قراردیاہے جس طرح نمازکوواجب قراردیاہے ۔عن الحلبی قال:قال ابوعبدالله علیه السلام فی الوترقال:انماکتب الله الخمس ولیستالوترمکتوبة ان شئت صلیتهاوترکهاقبیح .(۲)

حلبی سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے نمازشب کے بارے میں معلوم کیاتوآپ نے فرمایا:خداوندعالم نے پانچ نمازیں واجب کی ہیں اورنمازشب کوواجب قرارنہیں دیاہے، چاہوتواسے پڑھوالبتہ نمازشب کاترک کرناقبیح ہے ۔

احادیث معصومین میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح بیان کی گئی ہیں:

عمربن عبدالعزیزسے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام بن حکم نے بتایا کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:جب نمازوعبادت لوگوں ان کی حاجتوں اورضرورتوں کوپورا کرنے سے دور رکھتی ہے اوران کے بدن کوزحمت میںڈالتی ہے پس خداوندعالم نے نمازکوکیوں واجب قراردیا ہے؟ امام (علیھ السلام) نے فرمایا:نمازکے واجب قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن کی وضاحت اس طرح سے ہے:اگرلوگوں کو اسی طرح چھوڑدےاجاتااورانھیں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل پاک) کے ذکرویادکے بارے میں کوئی ت نبیہ اورتذکرنہ دےاجاتااورصرف کتاب خداکوان کے ہاتھوں میں دے دیاجاتاتوان لوگوں کاوہی حال ہوتاجواس (اسلام کے قبول کرنے)سے پہلے تھایعنی وہ اپنی حالت پرباقی رہتے ،اورنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل اطہار )کہ جنھوں نے دین اسلام اپنایااورقبول کےااورکتابوں کوبھی وضع وجعل کیااورلوگوں کواپنے مذہب میں داخل کیااورانھیں اپنے مذہب کی طرف دعوت دی اورکبھی کبھی دشمنان دین سے جنگ بھی کی لیکن جب وہ دنیاسے چلے جائیں گے ان کانام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گاان کاحکم مندرس ہوجائے گااوروہ ایسے ہوجائیں کہ گویااصلاوہ اس دنیامیں موجودہی نہ تھے پس خداوندعالم نے ارادہ کیاکہ حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیھ و آلھ)کادین ومذہب اوران کاامرکوباقی رکھاجائے اور بھلایانہ جائے لہٰذاخداندعالم نے ان کی امت پرنمازکوواجب قرار دیا

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص ٣

.۲)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١١

۱۶

اسی نمازمیں پوری دنیاکے تمام مسلمان روزانہ پانچ مرتبہ بلندآوازسے اس پیغمبرکانام لیتے ہیں اور افعال نمازکوانجام دینے کے ذریعہ خداوندتبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوراس کاذکر کرتے ہیں پس اسی لئے خداوندعالم نے امت محمدی پرنمازکوواجب قراردیاتاکہ وہ آنحضرت (اوران کی آل پاک ) کے ذکرسے غافل نہ ہوسکیں اور انھیں نہ بھول سکیں اورنہ ان کاذکرمندرس نہ ہوسکے۔(١)

محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں جوخط لکھے گئے ان میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ خداوندعالم نے نمازکوکس لئے واجب قراردیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے خط کے جواب میں تحریرکیااوراس میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح وجہ بیان کی: نمازکے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ خداوندعزوجل کی ربوبیت کااقرارکیاجائے اورخداکوشریک جاننے سے انکارکیاجائے اورنمازکے ذریعہ خداوندجل جلالہ کی بارگاہ میں عجزوانکساری، تواضع ، خضوع اوراعتراف گناہ کااظہارکیاجائے ،نمازکے ذریعہ گذشتہ گناہوں کے بارے میں طلب بخشش کی جائے ،خداوندعالم کی عظمت کوذہن میں رکھ کراس کے سامنے روزانہ پانچ مرتبہ پیشانی کوزمین پررکھاجائے ،انسان خداکے علاوہ کسی کی تعریف نہ کرے اورطغیان وسرکشی نہ کرے ،انسان اپنے آپ کوخداکے سامنے ذلیل و حقیرمحسوس کرے اورخداسے دین ودنیاکی بھلائی کی تمناکرے،انسان شب وروزہمیشہ اپنے رب کی یادتازہ کرے اوراپنے مولاومدبراورخالق یکتاکونہ بھول سکے ،اپنے رب کاذکرکرے اوراس کی بارگاہ میں قیام کرے تاکہ گناہوں اورہرقسم کے فسق وفجورسے محفوظ رہے ۔(٢)

____________________

. ١)وسائل الشیعہ/ج ٢/ص ٣١٧

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١۴

۱۷

نمازکی اہمیت

قرآن واحادیث میں نمازکوجواہمیت دی گئی ہے وہ اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں فروع واحکام دین سے متعلق جو آیات موجودہیں ان میں جت نی آیتیں نمازکے بارے میں نازل ہوئی ہیں ات نی مقدارمیںفروع دین میں سے کسی کے بارے میں موجودنہیں ہیں،

خمس کے بارے میں ایک ، روزہ کے بارے میں ٣١ / حج کے بارے میں ١٨ / اورزکات سے متعلق ٣٣ آیتیں موجود ہیں لیکن خداوندعالم نے اس عظیم عبادت (نماز) کے بارے میں ١٢٢ /یااس سے بھی زیادہ زیادہ آیتیں نازل کی ہیں کہ جن میں نماز کی اہمیت ا وراس کے اہم احکام ومسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ مکتب تشیع میں فقہی روایات کا ایک تہائی حصّہ نماز اور مقد ما ت نماز سے مر بوط ہے ،کتب اربعہ اور “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل” کواٹھاکردیکھیں توان میں سب سے زیادہ احادیث نمازسے تعلق رکھتی ہیں،تحقیق کے مطابق “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل”دونوں ایسی مفصل کتا بیں ہیں کہ جن میں مکتب تشیع کی تمام قفہی احادیت وروایات درج ہیں ان دونوں کتابوں کی احا دیث کی تعداد مجموعاً ساٹھ ہزار ہے اور ان دونوں کتابوں کی ساٹھ ہزار روایتوں میں بیس ہزار احادیث نماز سے تعلق رکھتی ہیں ۔

فروع دین میں نمازکواس کی اہمیت کی بنیادپرپہلے ذکرکیاگیاہے اور اصل اسلام قراردیاگیاہے جیساکہ روایت میں آیاہے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:اے الله کے نبی!میں یہ جانناچاہتاہوں کہ دین اسلام میں کونسی چیزاصل ہے اورکون اس کی شاخ وفرع ہے اورکون اس کی چوٹی ہے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے فرمایا: نمازدین اسلام کی جڑہے، زکات اس کی فرع اورشاخ ہے اور جہاد اس کی بلند تر ین چوٹی ہے ۔(۱)

____________________

١)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢۴٢

۱۸

نمازکی اہمیت کے بارے میں معصومین سے چندروایت ذکرہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لکل شی ؤجهة ووجه دینکم الصلاة (۱)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہرچیزکاایک چہرہ ہوتاہے اورنمازتمھارے دین کاچہرہ ہے۔

.قال علی علیه السلام:الصلاة قربان کل تقی (۲)

حضرت علیفرماتے ہیں :نمازہرپرہیزگارکاخداوندعالم سے تقرب حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:الدعاء مفتاح الرحمة والوضوء مفتاح الصلاة والصلاة مفتاح الجنة .(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :دعارحمت کی کنجی ہے اوروضونمازکی کنجی ہے اورنمازبہشت کی کنجی ہے۔

قال علی علیه السلام:الصلاة حصن الرحمٰن ومدحرة الشیطان .(١)

حضرت علیفرماتے ہیں:نمازخدائے مہربان کاقلعہ ہے اورشیطان کودورکرنے کابہترین وسیلہ ہے۔

تمام انبیائے کرام نمازی تھے

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ تمام ادیان الٰہی میں نمازکاوجودتھا،

تمام انبیاء کی شریعت میں رائج وموجود تھی اوردنیامیں جت نے بھی نبی ورسول آئے سب الله کی عبادت کرتے تھے ، اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے لیکن ہرنبی کی شریعت میں نمازوعبادت کاطریقہ طریقہ یکساں نہیں تھا،جس طرح ہرنبی کے زمانے کاکلمہ یکساں نہیں تھااسی طرح نمازکاطریقہ بھی مختلف تھا ،تمام انبیاء کی شریعت میں نمازکے رائج ہونے کی سب سے یہ ہے کہ خداندعالم نے قرآن وحدیث میں اکثرانبیاء کے ساتھ نمازکاذکرکیاگیاہے اوربیان کیاگیاہے کہ تمام نبی نمازی تھے اورنمازکی دعوت بھی دیتے تھے

____________________

. ۱)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٣٨.

. ۲)نہج البلاغہ /کلمات قصار/ش ١٣۶ /ص ٣٨۶

. ۳)نہج الفصاحة /ح ١۵٨٨ /ص ٣٣١

. ۴)غررالحکم/ج ٢/ش ٢٢١٣ /ص ١۶۶

۱۹

نمازاورحضرت س آدم

حسین ابن ابی العلاء سے مروی ہے ،امام صادق فرماتے ہیں :جب خداوندعالم نے آدم(علیھ السلام) کوجنت سے نکال کردنیامیں بھیجاتوآپ کے پورے جسم پرسر سے پیروں کے تلووں تک سیاہ رنگ کے داغ پڑگئے(جسے عربی میں شامہ کہتے ہیں) جس کی وجہ سے آپ کے جسم سے بدبوآنے لگی ، حضرت آدم (علیھ السلام)اپنے جسم سے آنے والی بدبوسے پریشان ہوگئے اوربہت زیادہ غمگین رہنے لگے اوررونے وگڑگڑانے لگے ،ایک دن جبرئیل امین حضرت آدم (علیھ السلام) کے پاس آئے اورپوچھا:

اے آدم! تمھارے رونے کاسبب کیاہے ؟حضرت آدم (علیھ السلام)نے جواب دیا:ان کالے داغ اوران کے اندرپیداہونے والی بدبونے مجھے غمگین کردیاہے ،جبرئیل نے کہا:اے آدم! اٹھواورنمازپڑھو کیونکہ یہ پہلی نماز(یعنی نمازظہر)کاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے اٹھ کرنماز(ظہرپڑھی توفوراًآپ کے جسم سے سروگردن کارنگ بالکل صاف ہوگیااورجب دوسری نماز(یعنی عصر)کاوقت پہنچاتوجبرئیل نے کہا:اے آدم(علیھ السلام)!اٹھواورنمازپڑھوکیونکہ اب یہ دوسری نمازکاوقت ہے،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نے نمازعصرپڑھی توناف تک بدن کارنگ صاف ہوگیا

اس کے بعدجب تیسری نماز(یعنی مغرب )کاوقت پہنچاتوجبرئیل نے پھرکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھواورنماز(مغرب)پڑھوکیونکہ اب یہ تیسری نمازکاوقت ہے، جیسے حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز(مغرب) پڑھی تودونوں گھٹنوں تک بدن کارنگ صاف ہوگیا،جب چوتھی نماز (یعنی عشا) کاوقت پہنچاتوکہا:اے آدم(علیھ السلام)!اٹھواورنماز(عشا)پڑھوکیونکہ اب یہ چوتھی نمازکاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز (عشا) پڑھی تو پیروں تک بدن کا رنگ بالکل صاف ہوگیا جب پانچوی نماز(یعنی صبح )کاوقت پہنچاتوکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھو اور نماز (صبح) پڑھو کیونکہ اب یہ پانچوی نمازکاوقت ہے ،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نماز (صبح) سے فارغ ہوئے تومکمل طورسے پورے کارنگ صاف ستھراہوگیااورآپ نے خداکی حمدوثنا کی،جبرئیل نے کہا: اے آدم!تمہاری اولادکی مثال ان پنجگانہ نمازوں میں ایسی ہی ہے جس طرح تم نے نمازپنجگانہ کے ذریعہ اس شامہ سے نجات پائی ہے پس تمہاری اولادمیں جوشخص شب وروزمیں یہ پانچ نمازیں پڑھے گاوہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجائے گاجیسے تم اس شامہ سے پاک وصاف ہوئے ہو ۔(۱)

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢١۴

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

محدثین نے بھی اسے نقل کیا ہے .اور جو لوگ اس علم میں مہارت نہیں رکھتے ،ان کا اس حدیث کو ضعیف قرار دیناکوئی اعتبا ر نہیں رکھتا(۱)

۵ ۔ قرطبی : حدیث مؤاخات ، حدیث خیبر اور حدیث غدیر ساری کی ساری ثابت شدہ ہیں.(۲)

کیا وجہ ہے کہ علمائ و محدثین اسلام کی گواہی کے باوجود ہم اس حدیث کے مطابق حضرت علی(رض) کی خلافت بلا فصل کو ماننے کو تیار نہیں اور ہاں کیا اگر یہی حدیث حضرت ابو بکر (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہوتی تو پھر بھی ہمارا رویہ یہی ہوتا؟ !

۔کیا حضرت معاویہ(رض) کی مخالفت جرم ہے

سوال ۵۵: کیا یہ درست ہے کہ ہمارے علمائ حضرت معاویہ (رض) اور عمرو بن عاص کی مخالفت کو ناقابل بخشش گناہ سمجھتے ہیں جبکہ حضرت علی (رض) کی مخالفت کو اہمیت بھی نہیں دیتے اور اسے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ہیں ؟ جیسا کہ امام ذہبی نے دو مقامات پر نسائی اور حریز بن عثمان کے بارے میں لکھا ہے :

امام نسائی کے متعلق لکھا ہے : وہ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص سے منحرف تھے خدا ان کو معاف کرے(۳) جبکہ حریز بن عثمان جو حضرت علی(رض) پر لعنت کیا کرتا تھا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ثقہ اور عادل تھے!(۴)

۔سفیان ثوری کاحضرت علی(رض) سے کینہ رکھنا

سوال۵۶: کیا یہ درست ہے کہ سفیان ثوری جو ہم اہل سنّت کے بہت بڑے محدّث شمار ہوتے ہیں وہ حضر ت علی(رض) کے فضائل ومناقب کو ناپسند کرتے اور ناراض ہو پڑتے ہیں؟ جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے:

____________________

۱۔ اسنی المطالب : ۷۴.تواتر عن امیرالمؤمنین وهو متواتر أیضا عن النبیّ رواه، الجمّ الغفیر ولا عبرة بمن حاول تضعیفه ممّن لا اطلاع له، فی هذا العلم .

۲۔استیعاب ۲: ۳۷۳.حدیث المواخاةوروایة خیبر والغدیر هذه کلّها آثار ثابتة

۳۔سیر اعلام النبلائ ۴۱: ۲۳۱

۴۔العبر ۱: ۵۸۱؛میزان الاعتدال ۱: ۶۷۴؛ سیر اعلام النبلائ ۷: ۰۸؛تہذیب الکمال ۴:۳۳۲

۴۱

عن سفیان ثوری قال: ترکتنی الرّوافض وأنا أبغض أن أذکر فضائل علیّ رضی اللّٰه عنه (۱)

شیعوں نے مجھے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے فضائل بیان کرنے کو پسند نہیں کرتا

البتہ امام ذہبی نے صحابہ کرام کا یہ قول بھی نقل کیاہے :

ما کنّا نعرف المنافقین الاّ ببغض علیّ (۲)

ہم منافقین کو علی (رض) سے بغض کے ذریعہ پہچانا کرتے تھے

کیا یہ درست ہے کہ ایسے شخص کی روایات پر یقین کرلیا جائے اور اسے ا پنے زمانہ کا ابوبکر (رض) و عمر(رض) سمجھ لیا جائے :کان الثّوری عندنا امام النّاس وکان فی زمانه کأبی بکر وعمر فی زمانهما (۳) یا یہ کہ حضرت ابو بکر (رض)اور حضرت عمر (رض) بھی ایسے ہی تھے ؟

۔ہمارا حضرت فاطمہ(رض) کی مخالفت کرنا

سوال ۵۷: کیا یہ صحیح ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کائنات کی تمام عورتوں میں سے حضرت فاطمہ (رض) سب سے افضل اور سیدہ نسائ العالمین ہیں.(۴)

تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز جمعہ کے خطبے میں حضرت عائشہ (رض) کانام تو لیاجاتا ہے جبکہ سیدہ نسائ العالمین کا کبھی تذکرہ تک نہیں ہوتا ؟

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۷: ۳۵۲؛ حلیۃ الأولیائ ۷: ۷۲

۲۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۳۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۴۔ شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۷۱.کیف تکون عائشة أو غیرها فی منزلة فاطمة وقد أجمع المسلمون کلّهم من یحبّها ومن لا یحبّها منهم : أنّهاسیّدة نسائ العالمین .ابوبکر داؤد کہتے ہیں :لاأُفضل ببضعة من رسول الله صلی الله علیه وسلم ۔أحدا. ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری ۶: ۰۱؛ غالیۃ المواعظ ۱: ۰۷۲؛ تاریخ الخمیس ۱: ۵۶۲؛ الروض الأنف ۱:۰۶۱

۴۲

حضرت عائشہ(رض) اور دیگر امہات المؤمنین(رض)

۔کیا ازواج پیغمبر(ص)دوگروہ میں بٹی ہوئی تھیں

سوال ۵۸: کیا یہ صحیح ہے جیسا کہ امام ذہبی وغیرہ نے بیان فرمایا ہے کہ پیغمبر (ص) کی ازواج مطہّرات دو گروہ میں بٹی ہوئی تھیں ایک گروہ میں حضرت عائشہ (رض) وحفصہ (رض) تھیں اور دوسرے میں حضرت امّ سلمہ وبقیہ ازواج مطہرات(۱) اور حکومتیں حضرت عائشہ(رض) کی حمایت کیا کرتیں .جس کے مندرجہ ذیل نمونے ذکر کر رہے ہیں :

۱ ۔ خلیفہ دوم پیغمبر (ص) کی تمام ازواج کو بیت المال میں سے دس ہزار دینار(درہم) دیا کرتے جبکہ حضرت عائشہ(رض) کو دو ہزار ،ان سے زیادہ دیا جاتا.

۲ ۔ حضرت معاویہ (رض) نے ایک لاکھ درہم (دینار) کا حوالہ حضرت عائشہ(رض) کی خدمت میں ارسال کیا ۔

۳ ۔ اسی طرح ایک لاکھ درہم کا ایک گردن بند بھی انہیں دیا۔

۴ ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے ایک لاکھ درہم حضرت عائشہ (رض) کے سپرد کیا(۲)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸۱؛صحیح بخاری ۲: ۹۸،کتاب الھبہ ؛المعجم الکبیر ۳۲: ۰۵،ح ۲۳۱؛ مقدمہ فتح الباری : ۲۸۲؛ تحفہ احوذی ۰۱: ۵۵۲

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸ا

۴۳

۔حضرت عائشہ(رض) پہلے سے شادی شدہ تھیں

سوال ۵۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) حضور علیہ الصلاۃ والسّلام سے پہلے کسی اور سے شادی کر چکیتھیں اور ان کے شوہر کا نام جبیر تھا پھر حضرت ابوبکر نے جبیر سے طلاق دلوا کر پیغمبر سے ان کا نکاح کروا دیا ؟

اور ان کا بار باریہ اصرار کرنا کہ جب رسول خدا سے میری شادی ہوئی تومیں کنواری تھی ،تویہ محض اس لئے تھا تاکہ کوئی ان کی پہلی شادی کے بارے میں شک نہ کر پائے

ابن سعد:خطب رسول الله عائشة الی أبی بکر الصّدیق : فقال : یارسول الله انّی کنت أعطیتها مطعما لابنه جبیر فدعنی حتّی أسلّمها منهم فطلقها ، فتزوّجها رسول الله (۱)

البتہ جہاں تک میرے علم میں ہے کوئی بھی شیعہ ایسا عقیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی کسی کتاب کے اندر کوئی ایسی بات ملتی ہے جبکہ افسوس یہ ہے کہ ہماری قدیمی ترین کتب میں یہ بات موجود ہے

لقد أعطیت تسعا ما أعطیتها امرأة بعد مریم:لقد نزل جبرائیل بصورتی ...ولقد تزوّجنی بکرا وما تزوّج بکرا غیری ...وان کان الوحی لینزل علیه وانّی لمعه فی لحافه (۲)

۔امام حسن (رض) کا جنازہ دفن نہ ہونے دینا

سوال ۶۰:کیا یہ درست ہے کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض)کے حکم پر جوانان جنّت کے سردار حضرت امام حسن مجتبٰی (رض)کاجنازہ پیغمبر (ص) کے روضہ مبارک کے پاس لانے سے روک دیا گیا؟ جبکہ خود حضرت عائشہ (رض) نے دستور دیا کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ کو مسجد میں نبوی میں لا کر اس پر نماز جنازہ ادا کی جائے ) تو کیا حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین نہ تھیں یا امام حسن (رض)مومن نہ تھے کہ ان کے جنازہ کو روک دیا گیا؟

____________________

۱۔لطبقات الکبرٰی ۸: ۹۵

۲۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۰۴۱و ۱۴۱ ۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۵۰۶؛طبقات ابن سعد ۳: ۸۴۱

۴۴

۔ابن زبیر کاحضرت عائشہ(رض) کو گمراہ کرنا

سوال ۶۱:کیا یہ بھی درست ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) کو فریب دیکر جنگ جمل کے لئے آمادہ کیا جس میں کتنے مسلمانوں کا ناحق خون بہا .جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر(رض) نے یہ تلخ حقیقت حضرت عائشہ(رض) کے گوش گزار فرمائی اور امام ذہبی نے اسے یوں نقل کیا :

قالت عائشه اذا مرّ ابن عمر ، یا عبدالرحمن مامنعک أن تنهانی عن سیری ؟ قال : رأیت رجلا قد غلب علیک یعنی ابن الزّبیر (۱)

ان تمام تر حقائق کے باوجود ہمارے علمائ کس لئے جنگ جمل کی غلط توجیھات کر تے اور عبداللہ بن زبیرکی حمایت کرتے ہیں جو کتنے صحابہ کرام(رض) کے قتل کا باعث بنا ؟

۔حضرت عائشہ (رض) کا حضور(ص) کی توہین کرنا

سوال ۶۲:کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) ایسی ایسی روایات نقل کیا کرتیں جن میں پیغمبر کی توہین کی جاتی اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان انہیں برداشت نہیں کر سکتا(۲) یقینا ان میں سے بعض جھوٹی اور شریعت وسیرت پیغمبر کے کاملا مخالف ہیں :

۱ ۔ حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں: تزوّجنی بکرا جب پیغمبر(ص)نے مجھ سے شادی کی تو باکرہ تھی

۲ ۔ وہی فرماتی ہیں:کان رسول الله یأتیه الوحی ، وأنا وهو فی لحاف

جب آپ (ص) پر وحی نازل ہوتی تو ہم ایک ہی لحاف میں ہوتے(۳)

۳ ۔انّ عائشة تخبر النّاس أنّه صلّی الله علیه وسلّم کان یقبّل وهو صائم (۴)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱،۱۹۱و ۲۷۱

۳۔ حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۲: ۲، کتاب العیدین ، باب الحرب والدرق یوم العید ،اور ۴: ۷۴، کتاب الجھاد ، باب الدرق ؛ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶، کتاب الصّلاۃ.

۴۵

حضرت عائشہ (رض) لوگوں کو یہ بتایا کرتیں کہ آںحضرت (ص) حالت روزہ میں (اپنی بیوی کا) بوسہ لیا کرتے ۔

۴ ۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں:ایک دن حضور (ص) تشریف لائے تو میرے پاس گانے والی دو کنیزیں گانے میں مشغول تھیں لیکن آپ(ص) توجہ کئے بغیر اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے .اتنے میں حضرت ابو بکر (رض) تشریف لائے تو ناراض ہوتے ہوئے فرمایا: گانا اور وہ بھی پیغمبر(ص) کے گھر میں !! آںحضرت (ص) نے فرمایا: انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو .(تاکہ وہ گانے گا سکیں)جیسے ہی حضرت ابوبکر (رض) نے توجہ ہٹائی تو میں نے ان دونوں کنیزوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔دخل علیّ رسول الله وعندی جاریتان تغنّیان بغنائ بعاث فاضطجع علی الفراش وحوّل وجهه ودخل أبو بکر فانتهزنی وقال مزمار الشیطان عند النبیّ فأقبل علیه رسول الله وقال دعها ...(۱)

۵ ۔ عید کے د ن پیغمبر(ص) نے مجھے کٹھ پتلیوں کا کھیل دکھایا(۲)

۶ ۔ ایک دن عید کے روز حبشہ سے کچھ رقص کرنے والی آئیں تو آنحضرت (ص) نے مجھے بلا کر میرا سر اپنے شانے پر رکھا اور ان کا رقص دیکھنا شروع کیا(۳)

۔جوان کا رضاعی بھائی بن سکنا

سوال ۶۳:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا نظریہ یہ تھا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کا پانچ مرتبہ دودھ پی لے تو وہ اس کا رضائی بیٹا اور محرم بن جائے گا یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ (رض) کسی مردکو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینا چاہتیں تو وہ اس سے کہتیں کہ پہلے جاؤ میری بہن اسمائ کادودھ پیو تا کہ اس طرح آپ ان کی خالہ اور محرم بن جائیں. جبکہ دوسری طرف پیغمبر اکرم کی تمام ترا زواج مطہّرات اس نظریے کی شدید مخالف تھیں جیسا کہ ابودؤود سے نقل ہوا ہے :

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔ صحیح بخاری ۲: ۲۰۲

۳۔ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶ ، کتاب صلاۃ العیدین

۴۶

عن عائشة واُمّ سلمة أنّ أبا حذیفة کان تبنّیٰ سالما وأنکحه، ابنةأخیه...فجائت امرأة أبی حذیفة فقالت : یا رسول الله ! انّاکنّا نریٰ سالما ولدا وکان یأوی معی ومع أبی حذیفة فی بیت واحد ویرانی فضلا .وقد أنزل الله فیهم ماقد علمت فکیف ترٰی فیه ؟

فقال لها النبیّ : أرضعیه ، فأرضعته خمس رضاعات فکان بمنزلة ولدها من الرّضاعة .فبذٰلک کانت عائشة تأمر بنات أخواتها وبنات اخوتها أن یرضعن من أحبّت عائشة أن یراها ویدخل علیها وان کان کبیرا ، خمس رضاعات ثمّ یدخل علیها وأبت اُمّ سلمة وسائرأزواج النّبی أن یدخلن علیهنّ بتلک الرّضاعةأحدا حتّٰی یرضع فی المهد(۱)

حضرت عائشہ اورحضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا اور اس کا نکاح اپنی بھتیجی سے کیا ایک دن اس کی بیوی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی : ہم نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا ہے جبکہ وہ ہمارے ساتھ رہتا اور ہمیں گھر کے لباس میںبھی دیکھتا ہے جبکہ حکم پروردگار بھی اس بارے میں نازل ہو چکا ہے جیسا کہ آپ (ص) (ص) جانتے ہیں تو اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟

آنحضرت نے فرمایا : اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دو تو وہ تمہارا رضاعی بیٹا بن جائے گا .یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) جب کسی کو اپنے پاس بلانا چاہتیں یا اسے دیکھنا چاہتیں تو اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں سے فرماتیں کہ اسے پانچ بار دودھ پلا دیں اگرچہ وہ شخص جوان ہی کیوں نہ ہوتا جبکہ پیغمبر

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۲: ۲۲۲؛ صحیح مسلم ۷: ۴

۴۷

کی باقی بیویاں اس کی مخالفت کیا کرتیں اور ایسے افراد کو گھر میں داخل نہ ہونے دیتیں.

۔مصحف حضرت عائشہ(رض)

سوال ۶۴:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا جسے مصحف عائشہ کہا جاتا(۱) اور اسی طرح بعض صحابہ کرام کے پاس بھی اپنے اپنے مصحف موجود تھے جیسے مصحف سالم مولٰی حذیفہ ، مصحف ابن مسعود ، مصحف ابی بن کعب ، مصحف مقداد ، مصحف معاذ بن جبل ، مصحف ابو موسٰی اشعری وغیرہ(۲)

ان مصحف اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کے مصحف میں کیا فرق ہے ؟ اگر ایک ہی چیز ہیں تو پھر ہم شیعوں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں حضرت فاطمہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا !

۔ صحابہ کرام(رض)کا حضرت عائشہ(رض) پر زناکی تہمت لگانا

سوال ۶۵: کیا یہ حقیقت ہے کہ رسالت مآب کے بعض صحابہ جیسے مسطح بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ(۳) نے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور رسول نے ان پر تہمت کی حد بھی جاری کی تھی ؟ ایسی بری بات شیعوں کی کتب میں موجود نہیں ہے جبکہ ہم اس تہمت کو ان کی طرف نسبت دیتے ہیں تاکہ کوئی ہمارے بارے میںایسا گمان ہی نہ کرنے پائے!

۔امّ المؤمنین کا بیس ہزار اولادکو قتل کروادینا

سوال ۶۶: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے جنگ جمل میں مؤمنین اور اپنی اولاد کے بیس ہزار افراد مروا ڈالے اور اگر کوئی ان پر اس بارے میں اعتراض کرتا تو اسے دشمن خداقرار دے کر اس سے انتہائی سختی سے پیش آتیں .یہاں تک کہ امّ اوفٰی کو اسی بات کی وجہ سے اپنی محفل سے نکال دیا؟ جیسا کہ ابن عبد ربُہ

____________________

۱۔تفسیر نسائی ۲: ۰۷۳؛ تفسیر بغوی ۲: ۱۳۳۲۔اسدالغابہ ۴: ۶۱۲

۳۔اسد الغابہ ۵: ۸۲۴.کانت ممّن قال فی الافک علی عائشة ...انّهاجلدت مع من جلد فیه.اور ۴: ۵۵۳،شهد مسطح بدرا وکان ممّن خاض فی الافک علی عائشة فجلده، النبّی فیمن جلده اور ۲:۶، وکان حسان بن ثابت ممّن خاض فی الافک فجلد فیه.

۴۸

نے لکھا ہے:

دخلت اُمّ اوفٰی العبدیة بعد الجمل علی عائشة فقالت لها:ما تقولین فی امرأة قتلت ابنا لها صغیرا؟ فقالت: وجبت لها النّار .قالت : فما تقولین فی امرأة قتلت من أولادها الأکابرعشرین ألفا فی صعید واحد : فقالت خذوا بید عدّوة الله (۱)

جنگ جمل کے بعدامّ اوفیٰ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : ایسی عورت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے اپنے چھوٹے بچے کو قتل کر ڈالا ہو ؟ تو فرمایا: اس کی سزا جہنّم ہے .عرض کیا : اگر کوئی عورت اپنی بیس ہزار نوجوان اولاد مروا دے تو اس کا کیا حکم ہو گا ؟ تو اس پر حضرت عائشہ (رض) (ناراض ہو گئیں اور)فرمایا: اس دشمن خداکو پکڑلو.

۔بعض امّہات المؤمنین کا مرتدہوجانا

سوال۶۷:کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعض بیویاں یعنی امّہات المؤمنین مرتد ہو گئی تھیں ؟ جیسے اشعث بن قیس کی بہن قتیلہ کہ جب اس نے پیغمبر کی وفات کی خبر سنی تو مرتد ہو گئی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے جاکر شادی کر لی .یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) چاہتے تھے کہ عکرمہ کو آگ میں جلا دیں اس لئے کہ اس نے پیغمبر کی تو ہین کی تھی.جیسا کہ ابن اثیر نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے :

انّ النبّی توفّٰی وقد ملک امرأة من کندة، یقال لها قتیلة فارتدّت مع قومها فتزوّجها بعد ذلک عکرمة بن أبی جهل بکرا ، فوجد أبوبکر من ذلک وجدا شدیدا .(۲)

۔حضرت عمر (رض) کا نبی (ص) کی بیوی کو طلاق دینا

سوال ۶۸:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ کی بعض بیویوں کو طلاق دے کر انہیں

____________________

۱۔لعقد الفرید ۴: ۵۰۳

۲۔اسد الغابہ ۷: ۰۴۲؛ السمتدرک علی الصحیحین ۴: ۰۴؛ کنزالعمال ۳۱: ۴۰۳؛ دلائل النبوّۃ ۷: ۸۸۲؛ الاصابۃ ۸:۲۹۲؛عن ابن عباس : أنّ النّبیّ تزوّج قتیلة أخت الأشعث ومات قبل أن یخبرها وهذا موصول قوی الاسناد

۴۹

ام المومنین ہونے سے خارج کر دیا تھا ؟جیسا کہ علاّمہ طحاوی نے لکھا ہے:

عن الشعبی : أن نبیّ الله تزوّج قتیلة بنت قیس ومات عنها ثمّ تزوّج عکرمة فأراد أبو بکر أن یقتله، فقال له، عمر أنّ النّبی لم یحجبها ولم یقسّم لها ولم یدخل بها وارتدّت مع أخیها عن الاسلام وبرئت من الله تعالٰی ومن رسوله ،فلم یزل به حتّی ترکه ، (۱)ففی هذا الحدیث أنّ أبابکر أراد أن یقتل عکرمة لمّا تزوّج هذه المرئة لأنّها کانت عنده، من أزواج النبّی الّاتی کنّ حرمن علی النّاس بقول الله تعالٰی : وما کان لکم أن تؤذوا رسول الله ...وانّ عمر أخرجها من أزواج النبّی بردتها الّتی کانت منها اذاکان لایصلح لها معها أن تکون للمسلمین (۲)

____________________

۱۔مشکل الآثار ۲: ۹۱۱

۲۔مشکل الآثار ۲: ۳۲۱؛ دلائل النبوّۃ ۷:۸۸۲

۵۰

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم

۔پیغمبر (ص) نے فقط عبداللہ بن سلام کو جنّت کی بشارت دی

سوال ۶۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضور علیہ الصلاّۃ والسّلام نے عبداللہ بن سلام کے علاوہ کسی کو جنّت کی بشارت نہیں دی ؟ جیسا کہ سعد وقاص نے بیان کیا ہے :

ما سمعت النبیّ یقول لأحد یمشی علی الأرض انّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۱) وبہ نقل صحیح مسلم :لاأقول لأحد من الأحیائ أنّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۲)

پس اس حدیث کو عشرہ مبشرہ والی حدیث سے کیسے مطابقت دی جاسکتی ہے جب کہ یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں اسے نقل کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس عشرہ مبشرہ والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ نہ تو اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے اور نہ ہی مسلم نے ؟

۔کیا بعض صحابہ کرام(رض) منافق تھے

سوال ۷۰:کیا یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر کے کچھ صحابی منافق تھے اور کبھی بھی جنّت میں نہیں جا پائیں گے ؟ جیسا کہ ہماری معتبر کتاب صحیح مسلم میں پیغمبر (ص) کا فرمان نقل ہوا ہے:

فی أصحابی اثنا عشر منافقا ، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنّة حتٰی یلج الجمل فی

____________________

۱۔صحیح بخاری باب المناقب ، مناقب عبداللہ بن سلام

۲۔ صحیح مسلم ،باب فضائل عبداللہ بن سلام،ح ۳۸۴۲؛ فتح الباری ۷: ۰۳۱؛ سیر اعلام النبلائ ۴: ۹۴۳

۵۱

سمّ الخیاط (۱)

میرے صحابہ میں بارہ افراد منافق ہیں جن میں سے آٹھ ایسے ہیں کہ جن کا جنّت میں جانا محال ہے.

۔کیا حضرت عثمان (رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے

سوال ۷۱:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی صحابہ کرام ہی تھے جیسا کہ ہماری کتب میں نقل ہواہے :

۱ ۔فروہ بن عمرو انصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے(۲)

۲ ۔محمد بن عمرو بن حزم انصاری .یہ وہ صحابی رسول ہیں جن کا نام بھی پیغمبر (ص) نے رکھا تھا(۳)

۳ ۔جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری .یہ وہ صحابی رسول (ص) تھے جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیاتھا(۴)

۴ ۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقا ئ خزاعی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کا گلا کاٹا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح مسلم ۸: ۲۲۱، کتاب صفات المنافقین ؛ مسند احمد ۴: ۰۲۳؛البدایۃ والنھایۃ ۵: ۰۲

۲۔استیعاب ۳: ۵۲۳؛ اسدالغابہ ۴: ۷۵۳.قال ابن وضاح : انّما سکت مالک فی الموطأ عن اسمه لأنه ، کان ممّن أعان علی قتل عثمان

۳۔ استیعاب۳: ۲۳۴.ولد قبل وفاة رسو ل الله بسنتین ...فکتب الیه أی الی والده رسول الله سمّه محمد ...وکان أشدّ النّاس علی عثمان المحمّدون : محمد بن أبی بکر ،محمد بن حذیفة ،ومحمد بن عمرو بن حزم

۴۔انساب ۶:۰۶۱؛ تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱.هو أوّل من أجترأ علی عثمان ...لمّا أرادوا دفن عثمان ، فانتهوا الی البقیع ، فمنهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه ، فیه .

۵۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۷۶۵.أسلم مع أبیه قبل الفتح وشهد الفتح ومابعدها ...انّه ممّن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه

۵۲

۵ ۔ محمد بن ابو بکر(رض) : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمان(رض) کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے(۱)

۶ ۔عمروبن حمق : یہ بھی صحابی پیغمبر(ص)تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر (ص) کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) پرخنجر کے پے در پے نو وار چلاتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اپنی طرف سے :

وثب علیه عمرو بن الحمق وبه عثمان رمق وطعنه، تسع طعنات وقال : ثلاث لله وستّ لمّا فی نفسی علیه .(۲)

۷ ۔ عبدالرحمن بن عدیس : یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان(رض) (رض)کے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان(رض) کو قتل کر ڈالا(۳)

۔کیا ہم صحابہ کرام (رض) کو گالیاں دیتے ہیں

سوال ۷۲: کیا یہ درست ہے کہ ہم اہل سنّت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت

____________________

۱۔تاریخ الاسلام : ۱۰۶.ولدته اسمائ بنت عمیس فی حجة الوداع وکان أحد الرّؤوس الّذین ساروا الی حصا ر عثمان.

۲تهذیب الکمال۴۱:۴۰۲؛ تهذیب التهذیب ۸:۲۲.بایع النبیّ فی حجة الوداع وصحبه، ...کان أحد من ألّب علی عثمان بن عفان.وقال الذّهبی انّ المصریین أقبلوا یریدون عثمان ...وکان رؤوسائهم أربعة : ...وعمرو بن حمق الخزاعی ...تاریخ الاسلام (الخلفائ):۱۰۶و ۱۴۴

۳۔استیعاب ۲: ۳۸۳؛ تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۴۵۶.عبدالرّحمن بن عدیس مصری شهد الحدیبیة وکان ممّن بایع تحت الشجرة رسول الله وکان أمیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الّذین حصروا عثمان وقتلوه،

۵۳

کرتے ہیں ؟جیسا کہ حضرت عثمان(رض) کے قاتلوں پر لعنت اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں جبکہ وہ سارے کے سارے صحابہ کرام ہی تھے ان میں سے بعض بدری ، بعض اصحاب شجری، بعض اصحاب عقبہ اور بعض نے جنگ احد و حنین میں رسالت مآب کے ساتھ شرکت کی

امام ذہبی فرماتے ہیں :کلّ من هؤلائ نبرئ منهم ونبغضهم فی الله ...نرجو له ، النّار (۱) ہم ان سب سے بری الذمہ ہیں ،ان سے خدا کی خاطر بغض رکھتے ہیں اور ان کے لئے جہنّم کی آرزو کرتے ہیں

امام ابن حزم لکھتے ہیں:

لعن الله من قتله، والرّاضین بقتله ...بل هم فسّاق محاربون سافکون دما حراما عمدا بلا تأویل علی سبیل الظّلم والعدوان فهم فسّاق ملعونون (۲)

خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں ...یہ لوگ فاسق ، محارب اور بغیر تاویل کے محترم خون بہانے والے ہیں لہذافاسق و ملعون ہیں

اسی طرح ہمارے ایک اور عالم دین لکھتے ہیں: کوفہ اور بصرہ کے بے دین باغیوں نے حضرت عثمان (رض) کے خلاف بغاوت کی ...یہ باغی اور ظالم جہنّمی ہیں(۳)

کیا وجہ ہے کہ جب امام حسین(رض) کے قاتلوں کی بات آتی ہے تو ہمارے علمائ فرماتے ہیں یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور ہمیں حق حاصل نہیں ہے کہ ہم یزید یا کسی دوسرے کو برابھلا کہیں جبکہ حضرت عثمان(رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے پھر بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں کیا یہ امام حسین(رض) سے دشمنی کی علامت نہیں ہے؟

۔کیا صحابہ کرام(رض) ، پیغمبر (ص) کو قتل کردینے میں ناکام ہو گئے

سوال ۷۳ : کیا یہ حقیقت ہے کہ عقبہ والی رات جنگ تبوک سے واپسی پر جب پیغمبر ایک گھاٹی

____________________

۱۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ ) ۴۵۶

۲۔الفصل ۳: ۴۷و ۷۷

۳۔شہسوار کربلا : ۱۲، ۲۲اور ۵۲

۵۴

سے گذرنے لگے تو بارہ صحابہ کرام(رض) نے انہیں قتل کرنے کی خاطران پر حملہ کردیا...ہاں یہ کونسے صحابہ تھے ؟ جب میں نے امام حزم کا یہ قول پڑھا کہ جس میں انہوں نے ان میں سے پانچ کے نام ذکر کئے ہیں تو مجھے بہت تعجب ہوا:

أنّ أبا بکر وعمر وعثمان وطلحه وسعد بن أبی وقاص أرادوا قتل النبّی والقائه، من العقبة فی تبوک (۱)

اگرچہ امام ابن حزم نے اس حدیث کے راوی ولید بن جمیع کو ضعیف لکھا ہے لیکن ہمارے علمائے رجال جیسے ابو نعیم ، ابو زرعہ ، یحیٰی بن معین ، امام احمد بن حنبل ، ابن حبان ، عجلی اور ابن سعد اسے مؤثق راوی شمار کرتے ہیں(۲)

استاد بزرگوار یہ حدیث پڑھ کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی کہ ہمارے سلف صالح صحابہ کرام(رض) کا اپنے نبی کے ساتھ کیسا رویہ تھا ؟!

۔کیا بعض صحابہ کرام (رض) خارجی تھے

سوال۷۴ : کیا یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ صحابہ کرام (رض)خارجی اور حدیث پیغمبر کے مطابق کافر(۳) اور جہنّم کے کتّے تھے.(۴)

ان صحابہ کرام(رض) کے نام کچھ اس طرح ہیں :

۱ ۔ عمران بن حطان : اس نے عبدالرحمن بن ملجم حضرت علی(رض) کے قاتل کی تعریف کی ہے(۵)

____________________

۱۔المحلّیٰ ۱۱: ۴۲۲

۲۔ الثقات : ۵۶۴؛ تاریخ الاسلام ( خلفائ) : ۴۹۴؛ البدایۃ والنھایۃ ۵: ۵۲

۳۔سنن ابن ماجہ: ۲۶،ح۶۷۱، مقدمہ ، ب ۲۱

۴۔مسند احمد ۴۱: ۵۵۳،الخوارج کلاب اھل النّار.

۵۔الاصابۃ ۳: ۹۷۱

۵۵

۲ ۔ ابووائل شقیق بن سلمہ : اس نے رسول اللہ سے ملاقات کی اور ان سے روایت بھی نقل کی ہے(۱)

۳ ۔ ذوالخویصرۃ : یہ خوارج کا سردار تھا(۲)

۴ ۔ حرقوص بن زہیرسعدی :یہ بھی خوارج کے بڑوں میں سے تھا(۳)

۵ ۔ ذوالثدیۃ : یہ جنگ نہروان میں مارا گیا تھا(۴)

۶ ۔ عبداللہ بن وہب راسبی : یہ بھی خوارج کے سرداروں میں سے تھا(۵)

کیا ایسے لوگ جنہیں پیغمبر نے کافر اور جہنّمی کتّے قرار دیا ہو وہ بھی عادل ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ سارے کے سارے صحابہ عادل تھے اور ان میں سے جس کی پیروی کی جائے درست ہے!!(۶)

۔کیا حضرت ابوبکر وعمر (رض) کے فضائل جھوٹ ہیں

سوال ۷۵: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو بکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی شان میں نقل کی جانے والی بہت سی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں جیسا کہ ا مام عسقلانی فرماتے ہیں :

ینبغی أن یضاف الیها الفضائل، فهذه أودیة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ...أمّا الفضائل فلا تحصٰی کم من وضع الرّافضة فی فضل اهل بیت وعارضهم

____________________

۱۔اسد الغابہ ۳: ۳؛ الاصابہ ۲: ۸۴. دارالکتب العلمیۃ

۲۔البتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے بعد میں توبہ کر لی تھی. شرح ابن ابی الحدید۴: ۹۹

۳۔حوالہ سابق

۴۔ تاریخ طبری : ۴؛ مسند احمد ۵۵۷۴۱؛ ااصابہ ۲: ۴۷۱

۵۔ الاصابۃ ۵: ۶۹؛ مختصرمفید ۱۱: ۶۳۱

۶۔الاصابۃ ۱: ۹

۵۶

جهلة أهل السّنة بفضائل معاویة ، بدؤا بفضائل الشیخین (۱)

۔کیا حضرت ابو ہریرہ (رض) چور تھے

سوال ۷۶: کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) چور تھے اور انہوں نے بیت المال سے بہت زیادہ مال چرا یاتھا ؟ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے انہیں دشمن خدا کے لقب سے نوازتے ہوئے فرمایا :

یا عدوّ الله وکتابه، سرقت مال الله (۲)

اے دشمن خدا و قرآن ! تو نے مال خدا کو چرا لیا

کیا ایسے شخص کو احادیث رسول اور دین کا امین بنایا جاسکتا ہے جودنیا کے مال میں خیانت کر رہاہو اور پھر فاروق (رض) کی نظر میں شمن خداہو ؟!

۔ کیا ابوہریرہ(رض) کی روایات مردود ہیں

سوال ۷۷:کیا یہ درست ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو پانچ ہزار احادیث کے راوی اور امام بخاری نے بھی چار سو سے زیادہ احادیث انہیں سے بخاری شریف میں نقل کی ہیں وہ حضرت علی(رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) اُمّ المؤمنین کے نزدیک قابل اعتماد انسان نہیں تھے ؟ )

اسی طرح امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ عادل ہیں سوا ابو ہریرہ اور انس بن مالک و...کے.(۴)

حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:یا عدوّ الله وعدوّ کتابه

اے دشمن خدا و قرآن(۵)

____________________

۱۔ لسان المیزان ۱: ۶۰۱، طبعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت

۲۔الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳؛ سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶

۳۔شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۱۳

۴۔شرح ابن ابی الحدید ۴: ۹۶.الصحابة کلّهم عدول ماعدا رجالا منهم ابو هریرة و انس بن مالک.

۵۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶؛ الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳

۵۷

حضرت عائشہ(رض) نے ا س پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا:أکثرت عن رسول الله

تو نے رسول خدا(ص) سے احادیث نقل کرنے میں مبالغہ کیا ہے(۱) ایک اور مقام پر فرمایا:

ما هذه الاحادیث الّتی تبلغنا أنّک تحدّث بها عن النّبی هل سمعت الّا ما سمعنا ؟ وهل رأیت الاّ ما رأینا ؟ (۲) یہ کیسی احادیث ہیں جو ہم تک تمہارے واسطے سے پہنچی ہیںجنہیں تو پیغمبر (ص) سے نقل کرتا ہے. کیا تو نے کوئی ایسی بات آنحضرت (ص) سے سن لی تھی جو ہم نے نہ سنی یا کوئی ایسی چیز دیکھ لی تھی جو ہم نے نہ دیکھی ؟

مروان بن حکم نے اعتراض کرتے ہوئے ابوہریرہ سے کہا :

انّ النّاس قد قالوا: أکثر الحدیث عن رسول الله(ص) وانّما قد قبل وفاته بیسیر

لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس قدراحادیث کیسے رسول (ص) سے نقل کرلیں جبکہ وہ تو آن حضرت کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہے ؟(۳)

کبھی کبھار کہا کرتے میرے خلیل ابولقاسم (پیغمبر (ص))نے مجھ سے فرمایا،توحضرت علی (رض) روکتے ہوئے ان سے فرماتے : متی کان خلیلا لک کب پیغمبر (ص) تمہارے خلیل رہے ہیں !!(۴)

فخر رازی کہتے ہیں:انّ کثیرا من الصحابة طعنوا فی أبی هریرة وبیّناه من وجوه: أحدها : أنّ أبا هریرة روی أنّ النبیّ قال : من أصبح جنبا فلا صوم له، .فرجعوا الی عائشة وامّ سلمة فقالتا: کان النبّی یصبح ثمّ یصوم فقال: هما أعلم بذلک ،أنبأنی

____________________

۱۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۴۰۶

۲۔ حوالہ سابق

۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۱۶

۴۔ اسرار الامامۃ ۵۴۳،(حاشیہ) ،المطالب العا لیۃ ۹: ۵۰۲

۵۸

هذالخبر الفضل بن عباس واتّفق أنّه، کان میّتا فی ذلک الوقت (۱)

بہت سے صحابہ کرام(رض) ابو ہریرہ کو اچھا نہ سمجھتے اور اس کی چند ایک وجوہات بیان کی ہیں:

ان میں سے ایک یہ کہ ایک مرتبہ ابو ہریر ہ نے کہا : آنحضرت نے فرمایا: جو شخص جنابت کی حالت میں فجرکے بعد بیدار ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے جب یہی سوال حضرت عائشہ(رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: پیغمبر ایسی صورت میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے جب ابو ہریرہ کو اس کی خبر ملی تو کہنے لگے : وہ مجھ سے بہتر جانتی ہیں اور مجھے تو فضل بن عباس نے یہ خبر دی تھی جبکہ اس وقت فضل فوت ہو چکے تھے

ابراہیم نخعی اس کی ان کی احادیث کے بارے میں کہتے ہیں:

کان أصحابنا یدعون من حدیث أبی هریرة (۲)

ہمارے ہم مذہب ابوہریرہ کی احادیث کو ترک کر دیتے تھے

اسی طرح کہا ہے:ماکانوا یأخذون من حدیث أبی هریرة الاّ ماکان من حدیث جنّة أو نار (۳) ہمارے ہم مذہب افراد ابو ہریرہ کی احادیث میں سے فقط انہیں کو نقل کیا کرتے جو جنّت یا جہنّم کے متعلق ہوا کرتیں

۔حضرت ابوہریرہ(رض) کا توہین آمیز روایات نقل کرنا

سوال ۷۸: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ (رض) انبیائ علیہم السّلام کے متعلق ایسی ایسی احادیث نقل کیا کرتے جن سے ان کی توہین ہوتی .جیسا کہ امام بخاری نے ان روایات کو اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے:

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔سیراعلام النبلائ ۲: ۹۰۶؛تاریخ ابن عساکر۹۱: ۲۲۱

۳۔حوالہ سابق

۵۹

۱ ۔لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاثة کذبات

حضرت ابراہیم (ص) نے تین بار جھوٹ بولا (نعوذ باللہ).(۱)

جبکہ امام فخر رازی فرماتے ہیں:لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزّندیق

انبیائ (ع)کی طرف جھوٹ کی نسبت زندیق ہی دے سکتا ہے(۲)

دوسرے مقام پر فرمایا: حضرت ابراہیم (ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے سے آسان یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی (ابوہریرہ) کو ہی جھوٹا کہا جائے(۳)

۲ ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں :ایک دن حضرت موسٰی (ع) غسل کرنے کے بعد ننگے بنی اسرائیل کے درمیان پہنچ گئے .(نعوذ باللہ)(۴)

۔کیا عشرہ مبشرہ والی حدیث جھوٹی ہے

سوال۷۹: کیا یہ درست ہے کہ حدیث عشرہ مبشرہ جھوٹی اور بنو امیہ و بنو عباس کی گھڑی ہوئی احادیث میں سے ہے اس لئے کہ اگر صحیح حدیث ہوتی تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی اسے نقل کیا جاتا ؟

اور اگریہ حدیث صحیح تھی تو پھر روزسقیفہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے اس سے استدلال کیوں نہ کیاجبکہ اس کے علاوہ ہر ضعیف حدیث کا سہارا لیا درحالانکہ اس حدیث سے استدلال کرنا ان کے مدّعا کو بہت فائدہ پہنچا سکتا تھا ؟

کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ہیں ایک میں حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے جس نے اس حدیث کو اپنے باپ سے نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک سال کا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح بخاری ۴: ۲۱۱

۲۔تفسیر رازی ۲۲: ۶۸۱و۶۲: ۸۴۱ ۳۔حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۴: ۹۲۱؛ بدئ الخلق ۲: ۷۴۲،طبع دارالمعرفۃ

۵۔تہذیب التہذیب ۳: ۰۴

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370