نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145060
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145060 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

٣۔ گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا

اگرانسان نیندسے بیدارہونے ، یااسنتجاکرنے کے بعدوضوکرے تومستحب ہے پہلے ایک مرتبہ دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھوئے اوراگرپاخانہ سے فارغ ہونے کے بعدوضوکرے تودومرتبہ دھوئے اوراگرمجنب ہونے کے بعدوضوکرتاہے توتین مرتبہ ہاتھوں کودھوئے

عبدالله ابن علی حلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق پوچھا:اس سے پہلے کہ انسان وضوکے لئے برت ن ہاتھ ڈالے اسے اپنے دائیں ہاتھ کوکت نی مرتبہ دھوناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:

واحدة من حدث البول واثنتان من حدث الغائط وثلاث من الجنابة .(۱) اگرپیشاب کے بعدوضوکرے توایک مرتبہ حدث مرتبہ ،پاخانہ کے بعددومرتبہ اوراگرجنابت کے وضوکرے توتین مرتبہ دھوئے ۔

۴ ۔ تین مرتبہ کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا

دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھونے کے بعدمستحب ہے کہ تین مرتبہ کلی کی جائے اس کے تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالاجائے ،اگرکوئی شخص وضومیں کلی کرنایاناک میں ڈالنابھول جائے توکوئی حرج نہیں ہے

عن ابی جعفروابی عبدالله علیهم السلام انهماقالا:المضمضة والاست نشاق لیسامن الوضوء لانّهمامن الجوف .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا(واجبات )وضومیں سے نہیں ہیں کیونکہ دودونوں باطن وضومیں محسوب ہوتے ہیں اوراعضائے وضوظاہرہوتے ہیں

____________________

. ١)استبصار/ج ١/ص ۵٠ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶

۲) علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٧

۸۱

۵ ۔ چہرہ اورہاتھوں پردوسری مرتبہ پانی ڈالنا

واجب ہے کہ چہرہ اورہاتھوں پرایک مرتبہ پانی ڈالاجائے اوردوسری مرتبہ مستحب ہے لیکن تیسری مرتبہ پانی ڈالناحرام وبدعت ہے

قال ابوجعفرعلیه السلام:انّ الله تعالی وترٌ یحب الوتر فقدیجزیک من الوضوء ثلاث غرفات : واحدة للوجه ، واثنتان للذراعین ، وتمسح ببلة یمناک ناصیتک ومابقی من بلة یمناک ظهرالقدمک الیمنی ، وتمسح ببلة یسراک ظهرقدمک الیسری (۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:خدایکتاویگانہ ہے اوریکتائی کوپسندکرتاہے لہٰذاوضومیں تمھارے لئے تین چلوپانی کافی ہے ،ایک چلوچہرہ کے لئے ،ایک دائیں ہاتھ اورایک بائیں ہاتھ کے لئے ،اب وہ تری جوتمھارے دائیں ہاتھ میں ہے اس سے سرکے اگلے حصہ کامسح کریں،اس بعدجوتری دائیں باقی رہ گئی ہے اس سے دائیں پیرکامسح کریں اوروہ تری جوتمھارے بائیں ہاتھ پرلگی ہے اس کے ذریعہ بائیں پیرپرمسح کریں۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الوضوء واحدة فرض ، واثنتان لایوجر ، والثالث بدعة. (۲) امام صادق فرماتے ہیں:وضومیں(چہرہ وہاتھوں کا) ایک مرتبہ دھوناواجب ہے اوردوسری دھونے میں کوئی اجرنہیں ملتاہے لیکن تیسری مرتبہ دھونابدعت ہے

شدیدتقیہ کی صورت میں جبکہ جان ،مال ،عزت وآبروکاخطرہ ہوتو تین مرتبہ دھوناجائزہے بلکہ واجب ہے اسی طرح دونوں پیروں کادھوناواجب ہے

رویات میں آیاہے کہ علی ابن یقطین نے امام علی ابن موسی الرضا کے پاس ایک خط لکھاکہ اصحاب کے درمیان پیروں کے مسح کرنے کے بارے میں اختلاف پایاجاتاہے ،میں آپ سے التجاکرتاہوں کہ آپ ایک خط اپنے ہاتھ سے تحریرکیجئے اوراس میں مجھے بتائیں کہ میں کس طرح وضوکروں؟

____________________

. ١)کافی /ج ١/ص ٢۵ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶٠

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ۴٠١ )

۸۲

امام (علیھ السلام)نے علی ابن بقطین کوخط کے جواب میں تحریرکیااورلکھا کہ میں سمجھ گیاہوں میں کہ اصحاب وضوکے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں لہٰذامیں تمھیں جو حکم دے رہاہوں تم اسی طرح کرنااوروہ حکم یہ ہے کہ تم اس طرح وضوکرو:

تمضمض ثلاثا ، وتست نشق ثلاثا ، وتغسل وجهک ثلاثا ، تخلل شعرلحیتک وتغسل یدیک الی المرفقیه ثلاثا ، ومسح راسک کله ، وتمسح ظاهراذنیک وباطنهما ، وتغسل رجلیک الی الکعبین ثلاثا ، ولاتخالف ذلک الی غیره

اے علی ابن یقطین !تین مرتبہ کلی کرو ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالو ، تین مرتبہ چہرہ دھوو ،ٔ اورپانی کواپنی ڈاڑھی کے بالوں کوجڑوں تک پہنچاؤاور تین مرتبہ ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوو ،ٔ پورے سرکااس طرح مسح کرو کہ کانوں پردونوںطرف ظاہری وباطنی حصہ پرہاتھ پھیرو ، اور اپنے دونوں پیروں کوٹخنوں تک تین مرتبہ دھوو ،ٔاوراپنے وضوکودوسروں کے وضوسے فرق میں نہ رکھواوریادرکھو!اس حکم کے خلاف نہ کرنا.

جب یہ خط علی ابن یقطین کے پاس پہنچاتواسے پڑھ کربہت تعجب کیاکہ یہ بالکل شیعوں خلاف حکم دیاہے ،لہٰذادل میں سوچا:میرے امام بہترجانتے ہیں اورحالات سے وافق ہیں لہٰذااس کے بعدعلی ابن یقطین امام (علیھ السلام)کے فرمان کے مطابق وضوکرنے لگے ہارون رشیدپاس یہ خبرپہنچی کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اوروہ تیرامخالف ہے ،ہارون رشیدنے اپنے ایک خواص سے کہا:تم علی ابن یقطین کے بارے میں بہت باتیں بناتے ہواوراس پر رافضی ہونے کی تہمت لگاتے ہو جبکہ میں اس کی دیکھ بھال کرتاہوں،میں چندمرتبہ اس کاامتحان لے چکاہوں،یہ تہمت جوتم اس پرلگارہے ہومیں نے ایسابالکل نہیں دیکھاہے ،میں اسے وضوکرتے ہوںئے دیکھتاہوں،جھوٹاہے وہ شخص جویہ کہتاہے کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اگرامام رضا علی ابن یقطین کواس طرح وضوکرنے کاحکم نہ دیتے توہارون رشیدکومعلوم ہوجاتاکہ یہ شخص رافضی ہے اورفوراًقتل کرادیتا

جب علی یقطین کے بارے میں ہارون رشید کے نزدیک صفائی ہوگئی تو علی ابن یقطین نے دوبارہ امام (علیھ السلام)کے پاس خط لکھااوروضوکاطریقہ معلوم کیاتوامام (علیھ السلام)نے لکھا:تم اس طرح وضوکروجسطرح خدانے وضوکرنے کاحکم دیاہے یعنی:

اغسل وجهک مرة فریضة ، واخریٰ اسباغا ، واغتسل یدیک من المرفقین کذلک وامسح بمقدم راسک وظاهرقدمیک من فضل نداوة وضوئک فقدزال ماکنانخاف علیک والسلام اے علی ابن یقطین!چہرہ کوایک مرتبہ واجبی طورسے دھوو ،ٔ اوردوسری مرتبہ اسباغی و تکمیل کی نظرسے ، اپنے دونوں ہاتھوں کہنیوں سے انگلیوں کے پوروں تک دھوو أوراسی آب وضوکی تری سے سرکے اگلے حصہ

کااورپیروں کے اوپری حصہ کامسح کرو،جس چیزکاہمیں ) خوف تھاوہ وقت تمھارے سرسے گذرگیاہے والسلام علیکم ۔(۱)

____________________

. ١)ارشاد(شیخ مفید)/ص ٣١۴

۸۳

۶۔ آنکھوں کوکھولے رکھنا

مستحب ہے کہ چہرہ دھوتے وقت آنکھوں کوبندنہ کریں بلکہ کھولے رکھیں لیکن آنکھوں کے اندرپانی کاپہنچاناواجب نہیں ہے اورآنکھوں کے کھلے ر’ہنے وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے :

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:افتحواعیونکم عندالوضوء لعلهالاتری نارجهنم (۲) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :وضوکرنے وقت اپنی آنکھوں کوکھولے رکھواس لئے تاکہ تم نارجہنم کونہ دیکھ پاو ۔ٔ

٧۔ عورت ہاتھوں کے دھونے میں اندرکی طرف اورمردکہنی پرپانی ڈالے

مردکے لئے مستحب ہے کہ دائیں اوربائیں ہاتھ کودھونے کے لئے جب پالی مرتبہ پانی ڈالے کہنی کی طرف پانی ڈالے اورجب دوسری مرتبہ پانی ڈالے تواندرکی طرف ڈالے اورعورت کے لئے مستحب ہے وہ مردکے برخلاف کرے یعنی جب پہلی مرتبہ اندرکی طرف پانی ڈالے اوردوسری مرتبہ باہرکی طرف ۔

عن ابی الحسن الرضاعلیه السلام قال:فرض الله علی النساء فی الوضوء للصلاة ان یبتدئن بباطن اذرعهن وفی الرجل بظاهرالذراع (۲)

جب عورت نمازکے لئے وضوکرے تواس کے لئے مستحب ہے کہ اپنی کہنی اندرکی طرف سے پانی ڈالے اورمردکے لئے مستحب ہے کہ ہاتھ باہری حصہ پرپانی ڈالے ۔

٨۔ چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونا

مستحب ہے کہ انسان اپنے چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں کرےکان امیرالمومنین علیه السلام اذااخذت الوضوء یتغیّروجهه من خیفة الله تعالیٰ (۳) جس وقت امیر المومنین حضرت علی وضوکرتے تھے ، خوف خدامیں آپ کے چہرے کا رنگ متغیرہوجاتا تھا۔

کان حسین بن علی علیهماالسلام :اذااَخذت الوضوء یتغیرلونه ،فقیل لهُ فی ذٰلک ؟فقال:حقٌّ مَن ارادَاَنْ یدخلَ علیٰ ذی العَرْشِیتغیّرلهُ .(۴)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٠

۲)کافی /ج ٣/ص ٢٩ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٧٧

۳) عدة الداعی /ص ١٣٨ ۔بحارالانواپر/ج ٨٠ /ص ٣۴٧

۴) الخصائص الحسینیّہ/ص ٢٣

۸۴

حضرت امام حسین کے بارے میں روایت نقل ہوئی ہے کہ : جب بھی آپ وضو کرتے تھے تو پورابدن کانپ چاتاتھا اور چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا ، جب لوگ آپ سے اس کی وجہ معلوم کرتے تھے تو امام(علیه السلام) فرماتے تھے ، حق یہی ہے کہ جسوقت بندہ مٔومن خدا ئے قہّا ر کی بار گاہ میں قیام کرے تو اس کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو جائے اور اس کے جسم میں لرزاں پیدا ہو نا چاہئے ۔کان الحسن (عاذافرغ من وضوئه یتغیر (۱)

امام حسن جب وضوسے فارغ ہوتے تھے توآپ کے چہرے کارنگ متغیرہوتاتھا۔

٩۔ رحمت خداسے قریب ہونے اوراس مناجات کرنے کا ارادہ کرنا

قال الصادق علیه السلام :اذااردت الطهارة واالوضوء فتقدم الی الماء تقدمک الی رحمة اللهفانّ الله تعالی قدجعل الماء مفتاح قربته ومناجاته ودلیلاالٰی بساط خدمته وکماان رحمته تطهرذنوب العبادفکذٰلک نجاسات الطاهرة یطهرالماء لاغیرفطهرقلبک بالتقوی والیقین عندطهارة جوارحک ۔(۲)

حضرت امام صادق فرما تے ہیں : جب آپ وضو وطہارت کا ارادہ کر یں تو یہ سو چ کر پانی کی طرف قدم بڑ ھا ئیں کہ رحمت خدا سے قریب ہورہے ہیں کیو نکہ پانی مجھ سے تقرب ومنا جا ت حاصل کر نے کی کنجی ہے اور میرے آ ستا نے پر پہنچنے کے لئے ہدایت ہے لہٰذا اپنے بد ن وا عضا ء کو دھوتے وقت اپنے قلب کو تقویٰ ویقین سے پاک کرلیا کر یں

١٠ ۔ پانی میں صرفہ جوئی کرنا

سوال یہ ہے کہ جب ہم پاک صاف ہوکر الله کی بندگی کرتے ہیں توخداہماری دعاؤں کومستجاب کیوں نہیں کرتاہے ؟اکثرمومنین جب وضوکرتے ہیں توپانی کابہت زیادہ اسراف کرتے ہیں اوردین اسلام میں اسراف کرنے کوسختی سے منع کیاگیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اسراف کومدنظر رکھتے تھے اوروضومیں اس مقدارمیں پانی خرچ کرتے تھے:عن ابی بصیرقال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الوضوء فقال:کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یتوضا بِٔمد من ماءٍ ویغتسل بصاعٍ (۳)

____________________

. ۱)میزان الحکمة /ج ٢/ح ١٠۶٠٨

. ۲)مصباح الشریعة/ص ١٢٨

. ۳)استبصار/ج ١/ص ١٢١ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ١٣۶

۸۵

ابوبصیرسے مروی ہے :میں نے امام صادق سے آب وضوکی مقدارکے بارے پوچھاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا: پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)ایک مدّ،پانی سے وضوکرتے اورایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے ، مدیعنی تین چلّوپانی ،صاع ،یعنی تین کلوپانی، پس آنحضرتوضومیں ایک چلّوپانی چہرے پراورایک داہنے پراورایک بائیں ہاتھ پرڈالتے تھے اورغسل میں تین کلوپانی استعمال کرتے تھے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : الوضوء مد ، والغسل صاع وسیاتی اقوام بعدی یستقلون ذلک (۱)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : وضوکرنے کے لئے دس سیر اور غسل کرنے کے لئے تین کلو پانی کافی ہے لیکن آئندہ ایسے بھی لو گ پیدا ہونگے جو اس مقدا ر کو غیر کا فی سمجھیں گے( اور صرفہ جوئی کے بد لے اسراف کریں گے ) اور وہ لوگ میری روش اور سیرت کے خلاف عمل کریں گے ۔

وضو کے آثار وفوائد

رویناعن علی ، عن رسول الله صلی الله علیه وآله سلم انّه قال: یحشره الله اُمّتی یوم القیامة بین الامم ، غرّاًمُحجّلین مِن آثارالوضوء (۲)

حضرت علیسے مروی ہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم روزقیامت میری امت کودوسری امتوں کے درمیان اس طرح محشورکرے گاکہ میری امت کے چہروں پروضوکے آثارنمایاں ہونگے اورنورانی چہروں کے ساتھ واردمحشرہونگے۔

حضرت امام باقر فرماتے ہیں : ایک روز نمازصبح کے بعدسیدالمرسلین حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے، طلو ع آفتاب کے بعد تمام اصحاب یکے بعد اٹھ کراپنے گھرجاتے رہے لیکن دو شخص (انصاری وثقفی)آنحضرت کے پاس بیٹھے رہ گئے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں جانتاہوں تم مجھ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں ، اگرتم چاہو تو میں دونوں کی حاجتوں کوبیان کرسکتا ہوں کہ تم کس کام کے لئے ٹھہرے ہوئے ہواوراگرتم چاہوتوخودہی بیان کرو ، دونوں نے نہایت انکساری سے کہا:

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣۴

٢ )دعائم الاسلام /ج ١/ص ١٠٠

۸۶

یارسول الله ! آپ ہی بیان کیجئے آنحضرت نے انصاری سے کہا:تمھاری منزل نزدیک ہے اورثقفی بدوی ہے ،انھیں بہت جلدی ہے اورکوئی ضروری کام ہے لہٰذپہلے ان کے مسئلہ کاجواب دے دوں اورتمھارے سوال کاجواب دوں گا،انصاری کہا:بہت اچھا،پس آنحضرت نے فرمایا : اے بھائی ثقفی ! تم مجھ سے اپنے وضوونمازاوران کے ثواب کے بارے میں مطلع ہوناچاہتے ہوتو جان لو:

جب تم وضوکے لئے پانی میں ہاتھ ڈالتے ہواور“بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوتوتمھارے اپنے ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام دئے گئے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے چہرے کودھوتے ہوتوجوگناہ تم نے اپنی ان دونوں انکھوں کی نظروں سے اوراورمنہ کے ذریعہ بولنے سے انجام دئے ہیں سب معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے دونوں ہاتھوں کودھوتے ہوتووہ گناہ جوتمھارے اپنے دائیں وبائیں پہلوسے سرزدہوئے ہیں معاف ہوجاتے ہیں اورجب تم اپنے سروپاو ںٔ کامسح کرتے ہوتووہ تمام گناہ کہ جن طرف تم اپنے ان پیروں کے ذریعہ گئے ہوسب معاف ہوجاتے ہیں،یہ تھاتمھارے وضوکاثواب ،اسکے بعدآنحضرت نے نمازکے ثواب کاذکرکیا۔(۱)

قال امیرالمومنین علیه السلام لابی ذر:اذانزل بک امر عظیم فی دین او دنیا فتوضا وارفع یدیک وقل :یاالله سبع مرّات فانّه یستجاب لک ۔(۲) حضرت علی نے ابوذر غفاری سے فرمایا : جب بھی تمھیں دینی یا دنیاوی امور میں کوئی مشکل پیش آئے تو وضو کرو اور درگاہ الٰہی میں اپنے دونوں ہاتھو ں کو بلند کر کے سات مرتبہ“ یَا اَللهُ ” کہو! یقینًا خداوندعالم تمھاری دعامستجاب کرے گا۔

گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منهم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد،فیصلّی فی الجماعة (۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : پروردگارعالم کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیر کسی حساب وکتاب کے بہشت میں بھیجا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص/ ٨٠ ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے ۔

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص

. ٢ )بحارالانوار/ ٨٠ /ص ٣٢٨

۳)مستدرک الوسائل/ج ۶/ص ۴۴٩

۸۷

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:مکتوب فی التوراة انّ بیوتی فی الارض المساجد، فطوبیٰ لمن تطهرثمّ زارنی وحقّ علی الزور اَن یکرم الزائر .(۱) امام صادق فرماتے ہیں:توریت میں لکھاہے :مساجدزمین پرمیرے گھرہیں، خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئےخوشبحال ہے جواپنے گھرمیں وضوکرتے ہیں اس کے بعدمجھ سے ملاقات کے میرے گھرآئے ،مزورکاحق ہے کہ وہ اپنے زائر کااحترام واکرام کرے۔

کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب

حضرت صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک ایسے شخص کو خدا کی بار گاہ خداوندی میں حاضرکیاجائے گاکہ جس کے اعمال نامہ میں کوئی نیکی نہ ہوگی اور اس نے دنیا میں کو ئی کارخیر انجا م نہیں دیا ہوگا ،اس سے پوچھاجائے گا : اے شخص ! ذرا سو چ کر بتا کیا تیرے دنیامیں کوئی نیک کام انجام دیاہے ؟ وہ اپنے اعمال گذ شتہ پر غور وفکر سے نگاہ ڈال کر عرض کرے گا : پرور دگار ا! مجھے اپنے اعمال میں ایک چیز کے علاوہ کوئی نیک کام نظرنہیں آتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک دن تیرافلاں مومن بندہ میرے پاس سے گذررہاتھا ،اس نے وضوکے لئے مجھ سے پانی کاطلب کیا، میں نے اسے ایک ظرف میں پانی دیا اور اس نے وضو کرکے تیری نمازپڑھی ، اس بندہ کی یہ بات سن کرخدا وند عالم کہے گا:میں تجھے تیرے اس نیک کام کی وجہ سے بخش دیتاہوں اورپھرفرشتوں کو حکم دے گامیرے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ ۔(۲)

ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب

ہرنمازکےلئے جداگانہ طورسے وضوکرنامستحب ہے اورہمارے رسول وآئمہ اطہار بھی ہرنمازکے لئے الگ وضوکرتے تھے جیساکہ روایت میں آیاہے: إنّ النبی صلی الله علیہ وآلہ : کان یجددالوضوء لکل فریضة ولکل صلاة پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)تمام فریضہ الٰہی اورنمازکوانجام کودینے کے لئے تجدید ) وضو کرتے تھے ۔(۳)

عن علی علیه السلام انّه کان یتوضا لٔکلّ صلاةٍ ویقرء: “ اذاقمتم الی الصلاة فاغسلواوجوهکم(۴)

حضرت علی ہر نماز کے لئے جداگا نہ وضو کرتے تھے اورآیہ “ٔ( یاایهاالذین آمنوا اذاقمتم الی الصلاة فاغسلوا وجوهکم ) ”کی تلاوت کرتے تھے ۔

____________________

. ۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٣١٨

۲)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠۶

.. ۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٩

. ۴)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ٢٩٣

۸۸

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :الوضوء علی الوضوء نورٌعلیٰ نورٌ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: وضو پر وضو کرنا “نورٌ علیٰ نور ” ہے۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من جدّدوضوئه لغیرحدث جدّدالله توبته من غیراستغفار .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکے علاوہ کسی دوسرے کام کے لئے تجدیدوضوکرتا ہے خداوندمتعال استغفارکئے بغیرہی اسکی توبہ قبول کرلیتاہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :من توضاعلی طهرکتب له عشرحسنات ۔(۳) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص وضوپروضوکرے اس کے لئے دس لکھی جاتی ہیں۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مومن بندہ ہمیشہ باوضورہتاتھاجب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگیاتوایک دوسرے مومن نے اسے خواب میں دیکھاکہ اس کاچہرہ نورانی ہے اوربہشت کے باغات میں سیرکررہاہے ، میں نے اس سے معلوم کیا:اے بھائی! تم دنیامیں اتنابڑے متقی وپرہیزگارتونہیں تھے پھرتم دنیامیں ایساکونسا کام کرتے تھے جس کی وجہ سے تجھ کویہ منزلت حاصل ہوئی اورتم یہ پر نورانیت کس طرح آئی؟اس نے جواب دیا:اے بھائی ! میں دنیامیں ہمیشہ باوضورہتا تھاجس کی وجہ سے خداوندمتعال نے میرے ان اعضاء کونوربخشا( وَاللهُ یُحِبُّ المُتَطَهّرِین ) (۴) اورخداپاک رہنے والوں کودوست رکھتاہے.

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:یااَنس!اکثرمن الطهوریزیده اللهفی عمرک،وان استتطعت ان تکون باللیل والنهارعلی طهارة فافعل،فانّک تکون اذامتّ علیٰ طهارةٍ شهیداً.وعنه صلی الله علیه وآله وسلم:من احدث ولم یتوضا فٔقد جفانی .(۵)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرما تے ہیں : اے انس!اکثراوقات باوضو رہاکرو تاکہ خدا آپ کی عمرمیںزیادتی کرے اور اگر ہوسکے تو دن اوررات وضو سے رہو کیونکہ اگر تمھیں وضوکی حالت میں موت آگئی تو تمھاری موت شہیدکی موت ہوگی اورآنحضرتدوسری حدیث میں فرماتےہیں:اگر کسی شخص سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی

____________________

. ۱)محجة البیضاء/ج ١/ص ٣٠٢

۲)ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣٨

۳)وسائل الشیعہ /ج ١/ص ٢۶۴ )

۴)سورہ تٔوبة /آیت ١٠٨

.۵) نماز،حکایتہاوروایتہا/ ١۵ )

۸۹

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یقول الله تعالیٰ:من احدث ولم یتوضا فٔقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤلم یصلّ رکعتین فقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤصلّ رکعتین ودعانی ولم اَجبه فیماسئلنی من اَمردینه ودنیاه فقدجفوته ولستُ برب جافٍ .(۱)

حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی اور اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروضوبھی کرلے لیکن وہ دورکعت نماز نہ پڑھے تواس نے بھی مجھ پر جفا کی، اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروہ وضوبھی کرے اوردورکعت نمازبھی پڑھے اس کے بعد مجھ سے کسی چیزکاسوال کرے اورمیں اس کے سوال امر دین و دنیا کوپورانہ کروں تو گویااس شخص پرجفاکی اور میں جفا کار پر ور دگار نہیں ہوں ۔

کامل طورسے وضوکرنے کاثواب

کامل طورسے وضوکرنے سے مرادکیاہے اس چیزکوہم اسی موردکے فوراً بعد ذکر کریں گے لیکن یہاں پرفقط کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ذکرکررہے ہیں

عن ابی الحسن العسکری علیه السلام قال:لما کلّم الله عزّوجل موسیٰ علیه السلام قال:الٰهی مَاجَزَاء مَنْ اَتَمّ الوضوء مِنْ خِشْیَتِک؟قال:اَبْعَثه یوم القیامة ولهُ نورٌبین عینیه یتلا لٔا(۱) امام حسن عسکری فرماتے ہیں :جب(کوہ طورپر) خداوندعالم حضرت موسی سے ہمکلام ہواتوحضرت موسیٰ نے بارگاہ ربّ العزت میں عرض کی : پروردگار ا ! اگر کوئی تیرے خوف میں مکمل طور سے وضوکرے اسکا اجروثواب کیاہے ؟ خداوند عالم نے فرمایا : روزقیامت اس کو قبرسے اس حال میں بلند کروں گا کہ اس کی پیشانی سے نور ساطع ہوگا ۔

فی الخبراذاطهرالعبدیخرج الله عنه کل خبث ونجاسة وانّ من توضافاحسن الوضوء خرج من ذنوبه کیوم ولدته من امه ۔(۲)

روایت میں آیاہے جب کوئی وضوکرتاہے توخداوندعالم اسے ہرنجاست وخباثت سے پاک کردیتاہے اورجوشخص مکمل طورسے وضوکرتاہے توخدااسے گناہوں سے اس طرح پاک کردیتاہے جیسے اس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیاہو۔

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ١/ص ٢۶٨

۲)بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٣٠١

. ۳)مستدرک الوسائل/ج ١/ص ٣۵٨

۹۰

قال النّبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یٰااَنس اَسبغ الوضوء تمرُّعلی الصراط مرٌالسحاب .(۱) رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : اے انس ! وضو کومکمل اوراس کے تمام آداب شرائط کے ساتھ انجام دیاکرو تا کہ تم تیز ر فتا ر با دل کے مانند پل صراط سے گزر سکو ۔

آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی

جناب نفیسہ خاتون جوکہ اسحاق بن امام جعفرصادق کی زوجہ اورحسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ کی صاحبزادی تھیں،آپ ایک عظیم و با ایمان خاتو ن تھیں اور مدینہ میں زندگی بسرکرتی تھیں،اس عظیم خاتون نے پورا قرآن مع التفسیر حفظ کررکھاتھا ، دن میں روزہ رکھتی اور راتوں کو عبادت ومناجات کرتی تھیں،آپ تیس مرتبہ حج بیت ا للھسے مشرف ہوئیں اور غالباً سفرحج کو پیدل طے کرتی تھیں جبکہ آپ بہت زیادہ صاحب ثروت تھیں لیکن اپنے مال ودولت کوبیماروں وحاجتمندوں پرخرچ کرتی تھیں

آپ کی بھتیجی “زینب بنت یحییٰ ”کہتی ہیں کہ :میں نے اپنی زندگی کے چالیسبرس اپنی پھو پھی کی خدمت میں گذارے ہیں، اس مدت کے دوران میں نے انھیں رات میں کبھی سوتے ہوئے اور دن میں کوئی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ،آپ رات میں عبادت کرنے اور دنوں میں روزہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوچکی تھیں ایک دن میں ان سے کہا: آپ اپنا علاج کیوں نہیں کرتی ہیں ؟ جواب دیا: میں اپنے نفس کا علاج کس طرح کروں ابھی تو راستہ بہت دشوار ہے اوراس راستہ سے فقط ناجی لوگ ہی گزرسکتے ہیں۔

ایک سال جب جناب نفیسہ نے اپنے شوہر (حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ) کے ہمراہ حضرت ابراہیم کی قبر کی زیارت کے لئے فلسطین کا سفر کیا اورزیارت کے بعدسفرسے واپسی کے درمیان مصرمیں قیام کیاآپ کے ہمسایہ میں ایک یہو دی رہتا تھاجس کے گھرمیں ایک نابینا لڑکی تھی ،ایک دن اس یہودی لڑکی نے نفیسہ کے وضو کے پانی کو بعنوان تبرک اپنی آنکھوں پر ڈالا توفوراً شفاپاگئی جب اس خبرکومصرکے یہودیوں نے سناتو ان میں سے اکثرنے دین اسلام قبول کیا اور وہاں کے اکثر لوگ آپ کے عقیدتمندہوگئے، جب آپ نے مدینہ واپس جا نے کا ارادہ کیا تو اہل مصرنے اصرارکیا کہ آپ یہیں پر قیام پذیرہوجائیں ،آپ نے ان کی درخواست کو منظور کر لیااوروہیں پرزندگی گذارنے لگیں ۔

____________________

۱) خصال(شیخ صدوق)/ص ١٨١

۹۱

جناب نفیسہ نے مصرمیں اپنے ہاتھوں سے ایک قبربنارکھی تھی اور سفر آخرت کا انتظا ر کرتی تھیں ، روزانہ اس قبر میں داخل ہوتی اور کھڑے ہوکر نماز پڑ ھتی تھیں اور اسی قبرمیں بیٹھ کر چھ ہزار مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق ١٩٠ /مرتبہ قرآن ختم کیا ہے اور آپ ماہ رمضان المبارک ٢٠٨ ئھ میں روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے داربقاء کی طرف کوچ کر گئیں(۱)

آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا

جوادا لآ ئمہ حضرت امام محمدتقی کی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ : جس وقت آپ اپنے شیعوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بغدادسے مدینہ کا سفر طے کررہے تھے تو غروب آفتاب کے وقت کوفہ کے قریب پہنچے اورایک جگہ پرجس کا نام“دارمسیب”ہے قیام کیا اوروہاں کی مسجد میں داخل ہوئے کہ مسجدکے صحن مسجد میں ایک درخت تھا جس پرکوئی پھل نہیں لگتاتھا

حضرت امام محمدتقی نے ایک برت ن میں پانی طلب کیا اور اس درخت کے نیچے بیٹھ کر وضوکیا اور نمازمغرب کو اوّل وقت اداکیااورلوگوں نے آپ کی اقتداء میں جماعت سے نمازپڑھی ،امام (علیه السلام)نے پہلی رکعت میں حمدکے بعد “اذاجاء نصرالله” اور دوسری رکعت میں حمدکے بعد“( قل هوالله احد ) ” کی قرائت کی اورسلام نماز کے بعد ذکرخدا اور تسبیح میں مشغول ہوگئے اس کے بعد چار رکعت نافلہ نمازپڑھی اور تعقیبات نمازپڑھ کر سجدہ شکر ادا کیا،اورنماز عشاکے لئے کھڑے ہوگئے ،جب لوگ نمازودعاسے فارغ ہونے کے بعد اٹھ کرمسجد سے باہرآنے لگے اور صحن مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہیں اس معجز ے کو دیکھ کر سب کے سب حیرت زدہ ہوگئے اور سب نے درخت سے پھل توڑکر کھاناشروع کیا تو دیکھا کہ میوہ بہت ہی زیاد ہ میٹھا ہے اور اس کے اندر کوئی گٹھلی بھی نہیں ہے اس کے بعد امام محمدتقی (علیه السلام)اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مد ینہ کی طرف ) راوانہ ہوگئے ۔(۲)

____________________

. ١)سفینة البحار/ج ٢/ص ۶٠۴ ۔ ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣۶

٢ )ارشادشیخ مفید/ص ۶٢٨ باب ٢۵

۹۲

راز تیمم

اگروضوکے لئے پانی کاملناممکن نہ ہو،یاپانی تک رسائی نہ ہو،یاپانی کااستعمال مضرہو،یاکسی نفسکے لئے خطرہ ہوتوان صورتوں میں وضوکے بجائے تیمم کرناواجب ہے قرآن کریم ارشادباری تعالی ہے:

( وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضیٰ اَوعَلٰی سَفَرٍاَوْجَاءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ اَوْلَاْمَسْتُمْ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوامَآءً فَتَیَمَّمُواصَعِیْدًاطَیِّبًافَامْسَحُوابِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْهُ ) (۱) اگرتم مریض ہویاسفرکے عالم ہویاپاخانہ وغیرہ نکل آیاہے یاعورتوں کوباہم لمس کیاہے اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلواوربھی اس طرح سے اپنے چہرے اورہاتھوں کامسح کرلو۔

اس آیہ مبارک میں تیمم کاطریقہ یہ بیان کیاگیاہے کہ تیمم کی نیت کرکے دونوں ہاتھوں کوگرد،خاک ،ریت،ڈھیلے ،پتھرپرماریں اوراس کے بعددونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی اوراس دونوںطرف جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں،ابرووں تک اورناک اوپرتک پھیریں،اس کے بعددائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں ہاتھ کی پشت پرگٹے سے انگلیوں کے سرے تک پھیریں،اس کے بعداسی طرح بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں ہاتھ کی پشت پرپھیریں۔ جسچیزپرتیمم کیاجائے اس کاپاک ہوناضروری ہے کیونکہ خداوندعالم نے آیہ مٔبارکہ میں “صعیداًطیباً ” کہاہے

رازتیمم یہ ہے کہ:جب آپ کووضوکے لئے پانی دستیاب نہ ہوسکے توخاک کوجوکہ پست ترین پدیدہ جٔہان ہے اپنے ہاتھ اورچہرے پر ملیں تاکہ آپ کے اندرسے غروروتکبّراورشہوت نفسانی اورشیطانی خواہشیں دور ہوجائیں اورشایدخداکوآپ کی اس تواضع وخاکساری پررحم آجائے اورراہ راست کی ہدایت کردے۔

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ /آیت ۶

۹۳

خداوندعالم نے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ کیوں قراردیاہے اوران دونوں کووسیلہ طٔہارت قراردینے کی کیاوجہ کیاہے؟

کشف الاسرارمیں اس حکم خداکی دو حکمت اس طرح بیان کی ہیں:

١۔ خداوندعالم نے انسان کو پانی اور مٹّی سے پیدا کیا ہے ،ان دونوں نعمتوں پرخداکاشکر کرناچاہئے اسی لئے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے تاکہ ہم اس مطلب کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ان دونوں نعمتوں کودیکھ کرخداکا شکرخدا کریں

٢۔ دوسری حکمت اس طرح بیان کی جاتی ہے: خداوندعالم نے آب وخاک کو طہارت کا ذریعہ اس لئے قراردیا ہے کہ انسان اس کے ذریعہ دنیاوی آگ (آتش شہوت) اور آخرت کی آگ (نارجہنم وعقوبت)کو خاموش کرسکے کیونکہ مومن کے لئے دوآگ درپیش ہیں :

١۔دنیاوی آگ جسے شہوت نفسانی کی آگ کہاجاتاہے

٢۔ آخرت کی آگ جسے نارعقوبت و جہنم کہاجاتاہے ) اورانسان آب وخاک کے ذریعہ دنیوی اوراخروی آگ کوخاموش کرسکتاہے۔(۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:سرکے بعض اورپیروں کے بھی بعض حصے کے مسح کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم نے آیہ مبارکہ فلم تجدوماء فتیمموا صعیداً طیباًفامسحوابوجوہکم پانی نہ ملنے کی صورت میں دھونے کے وجوب کوساقط کردیااوراسکے بدلے میں کرناواجب کردیااورفرمایا: “فامسحوابوجوہکم” یعنی اپنے چہرے کامسح کرواوراس کے بعدفرمایا:“وایدیکم”یعنی اپنے ہاتھوں کابھی مسح کرو،ہاتھوں کے مسح کرنے کوچہرے کے مسح کرنے عطف کیااوراس کے بعد“منہ” فرمایا:یعنی پانی نہ ملنے کی صورت میں خاک پاک پرتیمم کرواوراپنے چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواب یہ جوکہاجاتاہے کہ چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم جانتاہے کہ پورے چہرے پرخاک نہیں ملی جاتی ہے کیونکہ جب ہاتھوں کوخاک پرمارتے ہیں توتھوڑی سی خاک ہاتھوں پرلگ جاتی ہے اوربقیہ تواپنی جگہ پررہتی ہے اورہاتھوں پرنہیں لگتی ہے لہٰذاجب ہاتھوں چہرے پرملتے ہیں تواس میں سے کچھ خاک چہرے پرلگ جاتی ہے نہ کہ پوری خاک، اس کے بعدخداوندعالم ارشادفرماتاہے:( مَایُرِیْدُاللهَ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ )

خداوندعالم تمھیں کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتاہے ۔(۲)

____________________

. ١)کشف الاسرار/ج ٣/ص ۴٩ ۔ ۵٠

۲). کافی /ج ٣/ص ٣٠

۹۴

رازوجوب ستر

مردکے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنی شرمگاہ ( آگے پیچھے کاحصے)کو چھپائے چاہے اسے کوئی دیکھ رہاہویانہ، اوربہترہے کہ ناف سے زانوتک چھپائے ۔ عورت کے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے بدن کوچھپائے یہاں تک کہ اپنے بال اورسرکوبھی چھپائے ،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ پاؤں کھلے رہ سکتے ہیں لیکن یہ یقین کرنے کے لئے کہ مقدارواجب کوچھپالیاگیاہے تھوڑاساچہرے کے اطراف اورگٹوں سے نیچے کوبھی چھپائے ۔

جب ہم کسی کی مہمانی میں جاتے ہیں توعقلمنداورصاحب عفت انسان کی عقل یہی حکم دیتی ہے کہ بہترین لباس پہن کرجائیں اوروہ بھی ایسالباس کہ جس سے لوگ ہمارے جسم کے قبائح پرنظرنہ ڈال سکے ،اگرکوئی بغیرلباس کے مہمانی میں جائے توصاحب خانہ اوروہاں پرموجودلوگ اس کے جسم پرنگاہ نہیں کریں گے؟اسی لئے نمازکی حالت میں سترکوواجب قراردیاگیاہے تاکہ اپنے رب کی مہمانی میں بغیرکسی خوف کے خضوع وخشوع کے ساتھ نمازپڑھ سکے ۔

نمازکی حالت میں بدن کے ڈھانپنے کی وجہ روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے: امام صادق فرماتے ہیں:مومنین کامزین ترین لباس تقویٰ وہیزگاری کالباس ہے اوران کالطیف ترین لباس ایمان وعقیدہ کالباس ہے جیساکہ خداوندمتعال اپنی کاتا میں ارشادفرماتاہے :

( لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ ) (۱) لباس تقویٰ بہترین لباس ہے ،لیکن لباس ظاہری خداوندعالم کی نعمتوں سے کہ جسے اولادآدم(علیه السلام) کے لئے ساترقراردیاگیاہے ،اولادآدم کوچاہئے کہ لباس کے ذریعہ اپنی عورت کوچھپائے ذریت آدم(علیه السلام) کے لئے سترعورت ایک خاص کرامت ہے جسے انسان کے علاوہ کسی بھی موجودات عطانہیں کیاگیاہے پس مومنین پرواجب ہے کہ اسے واجبات الٰہی کوانجام دینے میں ضروراستعمال کرے ،اورتمھارابہترین لباس وہ ہے کہ جوتمھیں یادخداسے غافل نہ کرے اوردوسرے کام میں مشغول نہ کرے بلکہ شکروذکراوراطاعت پروردگارسے نزدیک کرے ،پس ایسے لباس سے پرہیزکیاجائے جوانسان کویادپروردگارغافل اوردوری کاسبب بنے ،اورجان لوکہ لباس بلکہ تمام مادی امورہیں کہ جوانسان کے ذات پروردگارسے دوری اوراشتغال دنیاکاسبب واقع ہوتے ہیں اورتمھارے اس نازک سے دل میں ایک برااثرڈالتے ہیں اورریاکاری ،فخر،غرورمیں مبتلاکرتے ہیں،یہ سب دین تمھارے دین کونابودکرنے والے ہیں اوردل میں قساوت پیداکرتے ہیں

____________________

۱). سورہ اعراف /آیت ٢۶ مصباح الشریعة /ص ٣٠

۹۵

جب تم اس ظاہری لباس کواپنے ت ن پرڈالوتواس چیزکویادکروکہ خداوندمتعال اپنی رحمت کبریائی سے تمھارے گناہوں کوچھپاتاہے لیکن بہ بھی یادرہے ظاہری پہنے کے ساتھ باطنی لباس سے غفلت نہ کرو،جس طرح تم ظاہری طورسے اپنے آپ کوچھپارہے ہوباطنی طورسے بھی ملبس کرو،تمھیں چاہئے کہ جس طرح تم ظاہری طورسے کسی خوف کی بناپراپنے آپ کوملبس کرتے ہواسی باطنی میں ملبس کرواوراپنے رب کے فضل وکرم سے عبرت حاصل کروکہ اس نے تمھیںظاہری لباس عطاکیاتاکہ تم اپنے ظاہری عیوب کوپوسیدہ کرسکو،اس نے تمھارے لئے توبہ کادوروازہ کھول رکھاہے تاکہ تم اپنی باطنی شرمگاہوں کوبھی لطف گناہوں اوربرے کارناموں سے پوشیدہ کرسکو،یادرکھوکسی ایک رسوانہ کرناتاکہ تمھارپروردگارتمھیں رسوانہ کرے ،اپنے عیوب کی تلاش کروتاکہ تمھاری اصلاح ہوسکے اورچیزتمہاری اعانت نہ کرسکے اس سے صرف نظرکرو،اوراس چیزسے دوری کروکہ تم دوسروں کے عمل کی خاطراپنے آپ کوہلاکت میںڈالواوردوسرے کے اعمال کانتیجہ تمھارے نامہ اعمال میں لکھاجائے اوروہ تمھارے سرمایہ میں تجاوزکرنے لگیں اورتم اپنے آپ کوہلاک کرلو،کیونکہ انجام دئے گئے گناہوں کو بھول جانے سے ایک خداوندعالم دنیامیں اس پرایک سخت عقاب نازل کرتاہے اورآخرت میں بھی اس کے لئے دردناک عذاب ہے

جب تک انسان اپنے آپ کوحق تعالی کی اطاعت سے دوررکھتاہے اوراپنے آپ کودوسروں کے عیوب کی تلاش میں گامزن رکھتاہے اورجب تک انسان اپنے گناہوں بھولے رکھتاہے اوراندرپائے جانے والے عیوب کونہیں جانتاہے اورفقط قوت پراعتمادرکھتاہے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتاہے۔

۹۶

رازمکان و لباس

رازطہارت بدن ،لباس اورمکان

نمازی کے بدن اورلباس کاپاک ہوناشرط صحت نمازہے،خواہ انسان واجبی نمازپڑھ رہاہویامستحبی ،اگربدن یالباس پرنجاست لگی ہوتواس کاپاک کرناواجب ہے خواہ بال یاناخن ہی نجسہوں سجدہ کرنے کی جگہ پاک ہوناچاہئے اگرسجدہ گاہ نجس ہوچاہے ہوخشک ہی کیوں نہ ہونمازباطل ہے البتہ سجدہ گاہ کے علاوہ دوسری جگہ کاپاک ہوناضروری نہیں ہے اگرنمازی کی جگہ سجدہ گاہ کے علاوہ نجس ہو تووہ ایسی ترنہ ہوکہ اس کی رطوبت بدن یالباس سے لگ جائے ورنہ نمازباطل ہے البتہ اگرنجاست کی مقدارمعاف ہونے کے برابرہے تونمازصحیح ہے ۔ نمازکی حالت میں انسان کے بدن ولباس اورمکان کاظاہری اورباطنی طورسے پاک ہوناواجب ہے یعنی لباس کاپاک ومباح ہوناواجب ہے ان تینوں چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے: کیونکہ خدوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاک وپاکیزہ رہنے والوں کودوست بھی رکھتاہے،خداوندعالم نظیف ہے اورنظافت کودوست رکھتاہے کیونکہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنَّ اللهُ یُحِبّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ ) (۱)

خداتوبہ کرنے اورپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:

( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ ) (۲)

خداپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

رازاباحت لباس ومکان

انسان جس لباس میں اورجس جگہ پرنمازپڑھ رہاہے _ان دونوں کامباح ہوناواجب ہے ،اگردونوں میں ایک چیزبھی غصبی ہوتونمازباطل ہے اورمباح لباس ومکان میں نمازکااعادہ کرناواجب ہے کیونکہ نمازمیں بدن کاچھپاناواجب ہے اورکسی حرام چیزکے ذریعہ بدن کوچھپاناحرام ہے اورکسی حرام کام کے ذریعہ واجب کوادانہیں کیاجاستاہے کیونکہ نمازمیں نیت ضروری ہے اورنیت میں قربت ہوناضروری ہے اورحرام کام کے ذریعہ قربت کاحاصل کرناغیرممکن ہے پسقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔

____________________

۱)سورہ بقرة/آیت ٢٢٣

۲) سورہ تٔوبہ/آیت ١٠٨

۹۷

چوری اورغصب حرام اورقبیح ہیں ، اورنمازمیں قربت کی نیت ضروری ہے اورقباحت وقربت ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں پس نمازباطل ہے ۔

اگرکسی شخص پرخمس یازکات واجب ہے اور وہ خمس یازکات نہ نکالے اور اس خمس کے مال سے کوئی لباس یامکان خریدے اوراس میں نمازپڑھے تووہ نماز باطل ہے کیونکہ اس لباسیامکان میں دوسرے کاحق ہے جسے ادانہیں کیاگیاہے گویااسکے اس خریدے ہوئے لباس یامکان میں دوسروں کاپیسہ بھی شامل ہے جسے اس نے غصب کرلیاہے اوراس میں نمازپڑھ رہاہے لہٰذااس کی یہ نمازباطل ہے ۔

امیرالمومنین حضرت علی جناب کمیل سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یاکمیل ! انظرفی ماتصلی وعلی ماتصلی ان لم یکن من وجهه وحله فلاقبول ۔(۱) اے کمیل! تم ذرایہ دیکھاکروکہ کس لباس میں اورکس جگہ پر نمازپڑھ رہے ہو،اگروہ تمھارے لئے مباح وحلال نہیں ہے توتمھاری نمازقبول نہیں ہے ۔

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال:المسلم اخوالمسلم لایحلّ ماله الّاعن طیب نفسه ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ،کسی شخص کے لئے مالک کی رضایت کے بغیراسکے مال کاستعمال کرناجائزنہیں ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ایمارجل اتی رجلافاستقرض منه مالاوفی نیته ان لایو دٔیه فذلک اللص .

امام صادق فرماتے ہیں:کت نے لوگ ایسے ہیں جوکسی دوسرے شخص کے پاس جاتے ہیں اورکوئی مال ادھارلیتے ہیں لیکن معاوضہ دینے کی نیت نہیں رکھتے ہیں،ایسے لوگ چورشمارہوتے ہیں۔(۳)

____________________

. ١)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٢٣

. ٢)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٣١

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/ص ١٨٣

۹۸

نمازی کالباس مردہ حیوان سے نہ بناہو

نمازی کالباس خون جہندہ رکھنے والے مردہ حیوان کے کسی ایسے اجزاء سے نہ ہوکہ جن میں حیات حلول کرتی ہے جیسے کھال چاہے اسے پیراستہ کردیاگیاہولیکن وہ اجزاء کہ جن میں حیات حلول نہیں کرتی ہے ان میں نمازپڑھناجائزہے جیسے بال اوراون جبکہ وہ حلال گوشتی جانورسے اخذکی گئی ہو۔نمازی کے پاس کسی مردارکے ان اجزاء میں سے کوئی چیزنہ ہوجوروح رکھتی ہیں لیکن وہ اجزاء کہ جن میں روح نہیں ہوتی ہے جیسے بال اون اگریہ نمازی کے ہمراہ ہوں ہوتوکوئی حرج نہیں ہے ۔

امام صادق سے اس قول خداوندی کے بارے میں پوچھاگیاکہ جواس نے حضرت موسیٰ (علیه السلام)سے کہا:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۱)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا:کانتامن جلدحمارمیت. وہ دونوں جوتیاں مردہ گدھے کی کھال سے بنی ہوئی تھیں۔(۲)

حرام گوشت جانورکے اجزابنے سے لباس میں نمازکے باطل ہونے کی وجہ:

نمازی کالباس حرام گوشت جانورکی کھال،بال ،اون وغیرہ سے نہ بناہوبلکہ اگرحرام گوشت جانورکے بال بھی نمازی کے ہمراہ ہوں تونمازباطل ہے اسی طرح حرام گوشت جانورکالعب دہن ،ناک یاکوئی دوسری رطوبت نمازی کے بدن یالباس پرلگی ہوتو نمازباطل ہے اوراسی طرح اگرحلال گوشت جانورکہ جسے غیرشرعی طورسے ذبح کیاگیاہواس کی کھال،بال،اون وغیرہ سے بھی بنائے گئے لباس میں پڑھی جانے والی نمازباطل ہے،لیکن حلال گوشت جانورکے بال،کھال ،اون وغیرہ کے لباس میں نمازپڑھناجائزہے جبکہ اسے تذکیہ کیاگیاہواسی بارے میں چنداحادیث مندرجہ ذیل ذکرہیں:

حدثناعلی بن احمدرحمه الله قال:حدثنامحمدبن عبدالله بن محمدبن اسماعیل باسنادیرفعه الیٰ ابی عبدالله علیه السلام قال:لایجوزالصلاة فی شعرووبرمالایوکل لحمه لانّ اکثرهامسوخ ۔(۳)

حرام گوشت جانورکی کھال وبال میں نمازپڑھناجائزنہیں ہے کیونکہ وہ جانورکہ جن کاگوشت کھاناحرام ہے ان میں سے اکثرجانورمسخ شدہ ہیں۔

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴٨

. ۳)علل الشرایع /ص ٣۴٢

۹۹

مردکا لباس سونے اورخالصریشم کانہ ہو

مردکالباس سونے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کیونکہ مردوں کااپنے آپ کوسونے سے زینت دیناحرام ہے مثلاسونے کی انگوٹھی یازنجیرپہننا،گھڑی کابندسونے کاہونایہ سب نمازاورغیرنمازحالت میں حرام ہیں خواہ وہ سونے کی چیزیں ظاہرہوں یاپنہاں ہوں نمازباطل ہے لیکن عورتوں اورلڑکیوں کے لئے نمازاورغیرنمازکی حالت میں اپنے آپ کوسونے سے زینت دیناجائزہے ۔

سونے کے تاروں سے بنے ہوئے لباس مردوں کے لئے حرام ہیں،خواہ ظاہرہوں یاپنہاں ہوں ،اگرکسی کااندرونی لباس مثلابنیان وغیرہ سونے سے بناہواوروہ دکھائی نہ دیتاہوتوتب بھی نمازباطل ہے یعنی معیارسوناپہنناہے خواہ وہ دکھائی دیتاہویانہعن ابی عبدالله(ع قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لامیرالمومنین (ع:لاتختم بالذهب فانّه زینتک فی الآخرة ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)امیرالمومنین علی ابن ابی طالب +سے فرماتے ہیں :سونے کی انگوٹھی نہ پہنناکیونکہ یہ تمھارے لئے آخرت کی زینت ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الحدید انه حلیة اهل النار ، والذهب حلیة اهل الجنة ، وجعل الله الذهب فی الدنیازینة النساء فحرم علی الرجال لبسه والصلاة فیه . امام صادق فرماتے ہیں:لوہااہل جہنم کازیورہے اور سونااہل بہشت کازیورہے اورخداوندعالم نے دنیامیں سونے کوعورت کازیورقراردیاہے اورمردکے لئے سوناپہننااوراس میں نمازپڑھنا حرام ہے ۔(۲)

نمازی کے لئے مستحب ہے کہ نمازپڑھتے وقت تحت الحنک کے ساتھ سر پر عمامہ لگائے ،دوش پرعباڈآلے خصوصاً پیش نماز،پاکیزہ اورسفیدلباس پہنے، عطر و خوشبو لگائے ،عقیق کی انگوٹھی پہنے۔

____________________

۱)کافی /ج ۶/ص ۴۶٨

۲)تہذیب الاحکام/ج ١/ص ٢٢٧

۱۰۰