حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں0%

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 25933
ڈاؤنلوڈ: 4251

تبصرے:

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25933 / ڈاؤنلوڈ: 4251
سائز سائز سائز
حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

امام زمانہ (عج) کے وجود مقدس کی تکوینی اور تشریعی برکات و فوائد

تمہید

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اول زمانہ میں ولادت اور آخری زمانہ میں ولادت ہونے کا فرق۔

بعض کا یہ خیال ہے کہ اس نظریہ کو اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پہلے ہو چکی ہے کیونکہ پہلے زمانہ میں ولادت ہو جانا یا بعد میں آخری زمانہ میں ان کی ولادت ہونا ان دو نظریات میں عملی طورپر کوئی فرق موجود نہیں ہے کیونکہ جس بات کی اہمیت ہے وہ اس پر اجمالی ایمان لانا ہے اور یہ کہ جب وہ آخری زمانہ میں خروج کریں گے تو ان کی نصرت اور مدد کرنا ہے یہ گفتگو اس لحاظ سے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت سے مرتبط ہے اور نظریہ مہدویت پر اجماع مسلمین کی صورت بنتی ہے تو اس پہلو سے اس کا ایک عنوان بنتا ہے امام مہدی علیہ السلام کی نصرت کے لئے تمام کوششوں کا یکجا ہونا اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں مل کر دور کرنا اور آپ کی حکومت کے لئے مقدمات فراہم کرنا، مسلمانوں کی جانب سے عام لام بندی ہو تو یہ بہت ہی اہمیت والی بات ہے اس تصور کو مضبوط کیا جائے اور عام کیا جائے تاکہ سارے مسلمان تیاری کے عمل میں شریک ہو جائیں بلکہ پورے جہاں کے محروم اور کمزور طبقات کو بھی ساتھ لیا جائے۔

ہم اس بارے بعد میں بات کریں گے جس وقت ہم امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے سیاسی، علمی، ثقافتی، عسکری تیاری بارے گفتگو کرےںگے۔

لیکن بات یہ ہے کہ آپ کے لئے لمبی غیبت کبریٰ ہے یا آپ علیہ السلام اتنا لمبا عرصہ زندہ اور موجود ہیں اسی زمین پر موجود ہیں تو اس نظریہ اور عقیدہ کے بہت سارے فائدے اور عملی اثرات ہیں بعض کا تو آپ کی حکومت کے قیام سے متعلق مقدمات کی فراہمی سے بہت ہی گہرا تعلق ہے اور خود آپ کی جانب سے عمومی اور خصوصی تیاری اور آمادگی سے بھی اس کا تعلق ہے۔

کیونکہ تیاری جو ہے وہ یک دم اور ظہور کی گھڑی میں نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تیاری اس لمبی جدوجہد اور سالہا سال کی محنت کے نتیجہ میں ہو گی بلکہ صدیوں کی محنت کے نتیجہ میں ہو گی بلکہ صدیوں کی تیاری کا ماحصل ہوگا یہ بات فرق کرتی ہے اس صورت میں جب ہم یہ کہیں کہ امام مہدی علیہ السلام موجود ہیں جیسے حالات سازگار ہوں گے تو حکومت سنبھال لیں گے اور اس نظریہ کا اختیار کرنا ہے تاکہ ابھی انہوں نے پیدا ہونا ہے اور معلوم نہیں کب پیدا ہوں گے اور جب پیدا ہوں گے تو پھر تیاری کا عمل شروع ہو گا ان دونوں باتوں میں مثبت اور منفی حوالوں سے فرق بڑا واضح ہے جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا۔

ہم ذیل میں چند ایسے امور پر روشنی ڈالتے ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس کی برکات ہیں اور آپ کے مبارک وجود کے اثرات سے ہیں۔

اثرات اور برکات دو طرح کے ہیں۔

۱ ۔ تکوینی اثرات و برکات

۲ ۔ تشریعی اثرات و برکات

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مقدس وجود کا غیبت کے باوجود فائدہ

الکلینی نے اسحق بن یعقوب سے روایت نقل کی ہے کہ محمد بن عثمان کے وسیلہ سے ان کے پاس ناحیہ مقدسہ سے یہ تحریر موصول ہوئی جس پہ درج تھا”باقی رہا یہ سوال کہ میری غیبت میں مجھ سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے گا؟ تو یہ اس طرح ہے جس طرح جب بادل سورج کے سامنے آجائیں اور اسے غیب کر دیں تو سورج فائدہ دے رہا ہوتا ہے اور یہ کہ میں زمین والوں کے لئے اس طرح امان ہوں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں۔(الاحتجاج ۳۶۲ ، کمال الدین ج ۲ ص ۲۶۱)

امام علیہ السلام کے انوار کی سورج کی شعاوں سے شباہت کے پہلو مخفی ہیں ہر ایک اس تشابہ کو شاید نہ سمجھ پائے تو اس جگہ کوئی حرج نہیں کہ علامہ مجلسی نے جو آٹھ پہلو شباہت کے بیان کئے ہیں ان کو اس جگہ بیان کر دیا جائے اختصار کے پیش نظر باقی پہلووں کو چھوڑ دیا ہے جو علامہ مجلسی نے بیان کئے ہیں۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۲۹)

پہلی وجہ:۔ وجود اور ہدایت کا نور امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وسیلہ سے پہنچنا ہے کیونکہ آپ ہی بندگان اور ان کے رب رحمان کے درمیان واسطہ ہیں کیونکہ اگر آپ نہ ہوتے تو اللہ کے لطف و کرم اور فیضان رحمت کا سلسلہ بند ہوجاتا(اس بارے مزید تفصیل آگے بیان ہو گی)

دوسری وجہ:۔ آفتاب جو بادلوں کی اوٹ میں ہوتا ہے اس سے جو منفعت حاصل ہو رہی ہوتی ہے اس کے علاوہ لوگ بادلوں کے چھٹ جانے کی انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ اس سے مزید استفادہ کر سکیں پس اسی طرح اہل البیت علیہم السلام کے شیعہ امام علیہ السلام کے خروج سے مزید استفادہ حاصل کرنے کی خاطر انتظار کر رہے ہیں(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

تیسری وجہ:۔ امام علیہ السلام اور احنالہ الفداءکے وجود کا منکر تمام تر آثار اور نشانیوں کے باوجود ایسا ہے جس طرح کوئی سورج کی موجودگی کا انکار کر دے جو بادلوں کی اوٹ میں موجود ہوتاہے۔

چوتھی وجہ:۔ آفتاب کا بادلوں کی اوٹ میں چلے جانا آفتاب کے سامنے موجود ہونے سے زیادہ سود مند ہوتا ہے اگرچہ ایسا بعض اوقات کے لئے ہوتا ہے یا بعض جگہوں کے لئے اس کا بادلوں کے پیچھے چلا جانا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے اسی طرح امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت آپ کے ظہور سے بعض زمانوں میں جو گذر چکے ہیں زیادہ فائدہ مند ہے، بعض لوگوں کے حالات کے پیش نظر امام علیہ السلام کا غیبت کے پردہ میں رہنا خود ان لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔

پانچویں وجہ:۔ انسان بادل کے بغیر سورج کی جانب نہیں دیکھ سکتا وگرنہ سورج کی تیز شعائیں اسے اندھا کر دیں گی اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس سے براہ راست فیض یاب ہونا حق سے دور ہو جانے کا سبب بن رہا ہو تو پردہ غیبت میں رہنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ انسان غیبت کے دوران حق کی معرفت اس طرح حاصل کر لے کہ وہ امام علیہ السلام سے براہ راست استفادہ کر سکے۔

چھٹی وجہ:۔ امام علیہ السلام سورج کی مانند ہیں عام منفعت پہچان کے لحاظ سے جو اندھا ہوتا ہے وہ سورج کے وجود کی عمومی منفعت سے محروم رہتا ہے اسی طرح امام کے وجود کی برکت سے عقل کا اندھا ہی محروم رہے گا، جو عقل سلیم رکھتا ہے تو وہ اس کے وجود کے عمومی فوائد کو حاصل کر سکے گا۔

آٹھویں وجہ:۔ سورج کی شعائیں گھروں میں اتنی مقدارمیں داخل ہوتی ہیں جتنی مقدار میں اس گھر کے اندر سوراخ ہوتے ہیں، جتنی کھڑکیاں ہوتی ہیں اور جتنی رکاوٹیں دور ہوں گی اتنی مقدار میں شعائیں اندر داخل ہوتی ہیں، پس اسی طرح نور امام علیہ السلام ہے اور ارواح العالمین لہ الفدائ“ اس سے بھی لوگ اتنی مقدار میں فائدہ اٹھائیں گے جس قدر انہوں نے اپنے دلوں کو پاک و طاہر کر لیا ہو گا اور دل کے آئینہ سے گناہوں کی میل کچیل ہٹادی ہوگی۔

علامہ مجلسی کا بیان اس جگہ ختم ہوا۔

اس جگہ میں (مصنف)اپنے مہربان قاری کی آنکھوں کے سامنے کچھ اور پہلووں کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں جو میری سوچ اور فکر میں آئے ہیں، اس تشابہ سے ان امور کو بھی سمجھا جا سکتاہے۔

پہلی وجہ:۔ سورج کی طرف بعض ایسے افراد دیکھ سکتے ہیں جن کی نگاہ مضبوط و قوی ہوتی ہے یا اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کچھ ایسے آلات لگا لئے ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ سورج کی طرف دیکھ سکتا ہے اسی طرح بعض افراد اپنی بصیرت کے مضبوط اور طاقتور ہونے یا بعض عبادتوں کے انجام دینے کی مدد سے امام علیہ السلام کے نور کا مشاہدہ کرسکتاہے۔

دوسری وجہ:۔ لوگ سورج سے اپنی اپنی ضروریات کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں، زرعی زمین کا مالک اپنی زمین کے لئے سورج کی انتظار میں ہوتا ہے( کوئی کپڑے خشک کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے انتظارمیں ہوتاہے ، ہر شخص اپنی ضرورت کو سورج سے پورا کرنے کے لئے سورج کے ظاہر ہونے اور بادل کی اوٹ سے باہر آنے کے لئے انتظار کر رہا ہوتا ہے، کچھ سن باتھ کرنے کے لئے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، کوئی اس کی شعاوں سے بجلی پیدا کر کے بڑا فائدہ لینے کے لئے انتظار میں ہوتا ہے....مترجم)

اسی طرح امام منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے اپنی ضروریات کے مطابق فائدہ اٹھانے کے لئے آپ علیہ السلام کے ظہور کی انتظار میں ہیں،کچھ بڑی حاجات رکھتے ہیں اور کچھ چھوٹی حاجات۔

تیسری وجہ:۔ علامہ مجلسی نے جو چھٹی وجہ بیان کی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سورج کی منفعت عام ہے جو اندھا ہو وہ اس سے استفادہ نہیں کر سکتا اسی طرح امام غائب عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں۔

ہم اس پر مزید یہ کہتے ہیں کہ سورج کے دو قسم کے فائدے ہیں۔

۱ ۔ ایک فائدہ وہ ہے جس سے فقط وہ استفادہ کرتا ہے جس کی نگاہ سالم ہے کہ سورج کے نور سے اشیاءکو دیکھنے کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

۲ ۔ دوسری قسم وہ ہے جس سے بینا اور نابینا دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں جیسا کہ سورج کی وجہ سے دونوں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح امام علیہ السلام سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی دو قسم کاہے، ایک خاص ہے جو ان کے لئے ہے جن کے دل کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور اپنے دل کی آنکھوں کو اس نے امام علیہ السلام کی ذات پر، امام علیہ السلام کے علوم پر اور امام علیہ السلام سے ہدایت لینے پر گاڑ رکھا ہو۔

ایک منفعت عام ہے جو سب کے لئے ہے، مومن کے لئے، کافر کے لئے، مسلمان کے لئے، منکر کے لئے، دشمن کے لئے، موالی کے لئے سب کے لئے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ اور اللہ کے بندگان کے درمیان فیضان رحمت کا واسطہ ہیں جس طرح آپ علیہ السلام مومن کے رزق کے لئے واسطہ ہیں اسی طرح کافر کے رزق کے لئے بھی واسطہ ہیں۔

چوتھی وجہ:۔ سورج جو ہے وہ ہاتھوں کی پہنچ سے منزہ اور پاک ہے کیونکہ اس کی جگہ بلند ہے اور اس کے نور کی قوت تیز ہے، اسی طرح امام علیہ السلام ”روحی لہ الفدا “ عام ہاتھوں سے منزہ ہیں اور ہر ایک کی دسترس آپ علیہ السلام تک نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام کی شان بلند ہے آپ کا نور قوی اور مضبوط ہے۔

پانچویں وجہ:۔ سورج غائب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ظاہر ہوتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاتا ہے تو اس طرح امام علیہ السلام غائب نہیں ہوتے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

ساتویں وجہ:۔ سورج آسمان کے لئے امان ہے اور آسمانی ستاروں کے لئے امان ہے، اسی طرح امام علیہ السلام زمین اور زمین والوں کے لئے امان ہیں اگر امام علیہ السلام کا وجود زمین پر نہ ہو تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جائے گی اور برباد ہو جائے گی۔

آٹھویں وجہ:۔ سورج کا نور ذاتی ہے یہ دوسرے کو روشنی دیتا ہے ، اپنی نورانیت اور روشنی کو کسی اور سے نہیں لیتا جب کہ شمع کا نور اس کے برعکس ہوتا ہے امام علیہ السلام کا علم ذاتی ہے آپ نے یہ علم کسی فرشتہ یا کسی مخلوق میں سے کسی اور سے کسب نہیں کیابلکہ اللہ تعالیٰ سے لیاہے آپ علیہ السلام یہ علم دوسروں کو دیتے ہیں آپ کسی سے لیتے نہیں اور جس طرح سورج کا نور دینے سے ختم نہیں ہوتا اسی طرح امام علیہ السلام کا علم آگے دینے سے ختم نہیں ہوتا۔

نویں وجہ:۔ سورج ذاتی طور پر خود مخلوق سے غائب نہیں ہوتا بلکہ جو چیز سورج کو لوگوں سے غائب کر دیتی ہے وہ بادل ہوتے ہیں یا گاڑھے قسم کا گردوغبار ہوتا ہے جو سورج اور مخلوق کے درمیان حائل ہو جاتاہے، یا سمندر سے اٹھنے والے بخارات جو بعد میںگہرے اور بھاری بادل بن جاتے ہیں وہ بخارات حائل ہو جاتے ہیں اسی طرح امام علیہ السلام ہیں آپ خود غائب نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے کسی کام کی وجہ سے غائب ہوتے ہیں بلکہ جو چیز آپ علیہ السلام کو بندگان سے غائب کرتی ہے وہ ان بندگان کے گناہ ہوتے ہیں جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں گناہوں کے گھنے بادل بندگان کو ان کے امام علیہ السلام سے غائب کر دیتے ہیں جیسا کہ امام علیہ السلام سے سابقہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے برے اعمال نے انہیں آپ سے پردہ میں پہنچا دیاہے۔(حاجب اور رکاوٹ مشاہدہ کے لئے بندگان کے برے اعمال ہیں)(البحار ج ۳۵ ص ۱۲۳ حدیث کا حوالہ)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے تکوینی اثرات اور فوائد

پہلا فائدہ:۔کائنات کا استقرار اور اثبات(زمین و آسمان)

روایات شریفہ سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات کا ثبات اور بقاءاہل بیت علیہم السلام سے مربوط ہے اگر وہ حضرات علیہ السلام نہ ہوں تو کوئی شئی باقی نہ رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کو اس لئے خلق فرمایا کہ ان ذوات کو خلق فرمایا(اللہ تعالیٰ کمال مطلق ہے کمال لامتناہی ہے، وہاں سے نیچے تک فیض اور رحمت آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت تامہ اور اپنے کمال مطلق کے اظہار کے لئے اہل بیت علیہم السلام کو خلق فرمایا اور انہیں اپنی تمام صفات کمالیہ اور جلالیہ اور جمالیہ کا مظہر بنایا اور پھر باقی مخلوقات کے مراتب اور مدارج کے مطابق انہیںخلق فرمایا جو درحقیقت ان ذوات مقدسہ کے کمالات کا پرتو اور سایہ کے مانند ہیں جب کہ خود یہ ذوات مقدسہ اللہ تعالیٰ کے کمال کا مکمل اثر ہیں۔

اسی تناظر میں اہل البیت علیہم السلام کے وجود سے ساری کائنات کے موجودات کا وجود ہے اور کائنات میں تمام زندگی کے آثار ان کی وجہ سے ہیں یہ سسٹم خداوند تبارک وتعالیٰ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور اس کے کمال کا تقاضا ہی یہی تھا یہ اس کے جودوسخا و لطف و کرم اور رحمت اور کمال مطلق کا تقاضا تھا کہ اس نے اپنے تمام جمالات و کمالات وجلالیات کے اظہار کے لئے اہل البیت علیہم السلام کے وجودات کو خلق فرمایا۔

پس یہ نہ رہیں تو پھر کچھ نہ رہے گا، ساری مخلوقات ان کی وجہ سے خلق ہوئی ہے اس کا معنی یہی ہے اور امام علیہ السلام کا فرمان کہ ”ہم اپنے اللہ اور رب کی صفت و مصنوع و مخلوق ہیں جب کہ ہمارے بعد ساری مخلوقات ہماری پروردہ احسان ہیں، ان کی وجودی حیثیت کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ مربوط کر دیا ہے ہم ہوں گے تو وہ سب ہوں گے اگر ہم نہ ہوں گے تو پھر کوئی نہ ہوگا....ازمترجم)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ہے، حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہیں: اے علی علیہ السلام! میں اور تم ایک درخت سے ہیں ہماری اصل ایک ہے، اگر ہمارا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو خلق نہ فرمایا، نہ انبیاءعلیہ السلام کو خلق فرماتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ فرشتوں کو خلقت وجود عطاءکرتا(بحارالانوار ج ۶۲ ص ۹۴۳ حدیث ۳۲ ، الہدایہ الکبریٰ ص ۱۰۱)

شاعر نے کیا خوب کہاہے:

لولا کم مااستدارت الاکر

ولا استشارت شمس ولاقمر

اگر آپ نہ ہوتے تو کرات کی چکی نہ گھومتی۔۔۔۔ اور نہ سورج و چاند کی روانی ہوتی

ولا تدلی عفن ولاثم

ولاتندی ورق ولاخضر

نہ ٹہنی جھومتی نہ پھل لگتا۔۔۔نہ پتے پر شبنم گرتی نہ سبزہ ہوتا

لا سری برق ولا مطر

نہ بجلی چمکتی نہ بادل برستا۔(مشارق انوار البیض ص ۶۴۲،۷۴۲)

حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے حدیث میں آیاہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”ہم ہی تو وہ ہیں جن کے وسیلہ سے رحمت پہنچتی ہے ہمارے وسیلہ سے بارش سے تم سیراب ہوتے ہو اور ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ تم سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا“۔

(بصائر الدرجات ص ۳۶ ، باب انعم حجة اللہ وبابہ، بحارالانوار ج ۶۲ ص ۹۴۲ ، حدیث ۸۱ باب جوامع مناقبھم)

ایک اور روایت میں ہے:

”ہم زمین والوں کےلئے، آسمان والوں کے لئے امان ہیں، اگر ہم نہ ہوں تو سب کچھ تباہ ہو جاتا“۔(مشارق الانوار ص ۶۵)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر سے فرمایا:

”اے جابر!یاد رکھو جس شخص نے میرے خلفائ، میرے اوصیائ، میری اولاد اور میری عترت کی اطاعت کی تو اس نے بتحقیق خود میری اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی....اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین والوں سے عذاب کوروک رکھتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ وہ زمین پرنہ آ گرے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اذن سے گرے ،ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو روکا ہوا ہے کہ وہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جائے۔

(الاختصاص ص ۴۲۲ ، بحار الانوار ج ۷۲ ص ۰۲۱ حدیث ۹۹)

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے، اللہ ان کے وسیلہ سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے ذریعہ رحمت کو بھیجتا ہے، ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور ان کے ذریعہ سے زندوں کو مارتاہے۔(التوحیدص ۷۶۱ تا ۴۲ ج ۱)

آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وصف میں آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے ارکان بنایا تاکہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل نہ جائے(اصول الکافی ج ۱ ص ۷۹۱ حدیث ۲۰۳)

اسی طرح کی حدیث حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی ہے امام ابوعبداللہ جعفر صادقعلیہ السلام سے ہے اگر زمین امام کے بغیر ہو تو زمین دھنس جائے ، برباد ہو جائے۔

(بصائرالدرجات ص ۸۸۳ ،باب ان الارض لایبقی بلا امام، اصول الکافی ج ۱ ص ۹۷۱ ، باب ان الارض لاتخلومنہ ج ۱)

حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے ہے اگر امام علیہ السلام کو ایک گھڑی کے لئے زمین سے اٹھا لیا جائے تو زمین دھنس جائے، تباہ ہو جائے، اپنے اہل سمیت اور زمین اس طرح طوفانی شکل اختیار کر لے جس طرح سمندر بپھر جاتا ہے اور ہر شئی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔(بصائرالدرجات ص ۸۸۴ ،اصول الکافی ج ۱ ص ۹۷۱ ،حدیث ۲۱)

اس باب میں بصائرالدرجات اور اصول الکافی میں بہت ساری احادیث بیان ہوئی ہیں۔

الاصبغ بن نباتہ سے روایت ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام باہر آئے آپ علیہ السلام کا ہاتھ اس وقت اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا اور آپ علیہ السلام اس وقت یہ فرما رہے تھے کہ ایک دن رسول ہمارے پاس آئے اور آپ نے فرمایا”اللہ تعالیٰ ان (اہل بیت علیہ السلام)کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور ان کے ذریعہ شہروں کو آباد کرے گا۔(کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ حدیث ۵)

(ازمترجم....اسی مناسبت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت مطلقہ میں چندجملے ہیں جن کو میں یہاں پر محبان اہل بیت علیہم السلام کے لئے بیان کردینا اپنے لئے سعادت سمجھتاہوں اس زیارت کو شیخ الکلینی نے اپنی سند سے حسین بن تویر سے نقل کیاہے کہ اس نے بتایا کہ میں خود یونس بن طبیان،المفصل بن عمر، ابوسلمہ السراج حضرت ابوعبداللہ جعفر صادقعلیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے، یونس نے ہم میں سے بات چھیڑی، وہ ہم میں سِن کے لحاظ سے بڑا تھا۔

میں آپ پر قربان جاوں میں بہت دفعہ ان لوگوں کے پروگراموںمیں شریک ہوتا ہوں(یعنی بنی عباس، حکمرانوں کی محافل میں جاتاہوں)تو میں کیا کہوں؟تو آپ نے فرمایا تم یہ کہا کرو”اللهم ارناالرخاءوالسرور “ اے اللہ!ہمیں خوشحالی اور سکون نصیب فرما تاکہ تم کو وہ کچھ ملے جو تم چاہتے ہو اور رجعت بھی نصیب ہو، پھر اس نے اگلا سوال کیا، میں بہت مرتبہ امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتا ہوں تو اس وقت میں کیا کہوں؟

تو آپ نے فرمایا:تین مرتبہ یہ جملے کہاکروں”صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ“تو آپ کو قریب اور دور دونوں حالتوں کا ثواب ملے گا۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو پھرآپ پر سات آسمانوں نے سات زمینوں نے اور جو کچھ ان میں تھا اور جو کچھ ان کے درمیان تھا سب نے جنت اور جہنم نے اور جو کچھ جنت اور جہنم کے اندر کام کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوقات خلق کی ہیں چاہے وہ نظر آتی ہیں یا نظر نہیں آتیں سب نے گریہ کیاکوئی جگہ ایسی نہیں تھی جنہوں نے گریہ نہ کیا ۔

۱ ۔بصرہ، ۲ ۔دمشق، ۳ ۔آل عثمان

اس کے بعد اس نے کہامام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے وقت کیا پڑھا جائے ، تو امام علیہ السلامکی زیارت کے آداب بیان کئے اور پھر جو زیارت تعلیم فرمائی اس کے چند جملے ملاحظہ ہوں جو ہمارے سابقہ بیان کی تائید میں ہیں یہ زیارت صحیحہ ہے اس میں جو خطاب ایک امام علیہ السلام کو ہے تو یہ سب کے لئے ہے اور آج یہی خطاب امام زمانہ علیہ السلام کے لئے ہے۔اس زیارت میں زائر اس طرح اپنے امام علیہ السلام سے مخاطب ہوتاہے۔

جو شخص خدا تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے آپ سے ہی آغاز کرنا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے معیار پر جھوٹ کو واضح کرتا ہے آپ کے وسیلہ سے زمانہ کی چیرہ دستیوں کو دور فرماتاہے، اللہ تعالیٰ نے آپ سے (کائنات کا)آغاز کیا اور آپ ہی پر(کائنات ) کا اختتام کرے گا۔یعنی کائنات کا آغاز آپ سے اور کائنات کا اختتام آپ پر ہے، اللہ آپ کے معیار پر جس فیصلہ کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس فیصلہ کو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہماری گردنوں میں پڑے ہوئے ذلت و رسوائی کے طوق کو دور فرمائے گا اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہر مومن کے خون ناحق کا بدلہ چکائے گا آپ کے وجود کی برکت ہے کہ زمین درختوں کو نکالتی ہے اور پھلوں کو دیتی ہے، آپ ہی تو سبب ہیں کہ آسمان بارش برساتا ہے اور اپنے قطرات باران کو زمین پر گراتا ہے اور روزی کا وسیلہ فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کرب اور پریشانی کو آپ کے توسط سے دور فرماتا ہے اور اللہ آپ کی موجودگی کی وجہ سے بارش دیتا ہے آپ زمین پر موجود ہیں کہ زمین اللہ کی تسبیح کرتی ہے وہ زمین جس نے آپ کے اجسام کو اٹھا رکھا ہے اور زمین پر موجود پہاڑ اپنی جگہ پر آپ کی وجہ سے قائم ہیں اور برقرار ہیں اللہ تعالیٰ کا تمام معاملات میں فیصلہ اور ارادہ آپ کے پاس پہنچتا ہے اور پھر آپ کے گھروں سے نافذ ہونے کے لئے جاتاہے بندگان کے متعلق جو بھی فیصلہ جات ہوئے سب آپ کے دروازہ سے ہو کر جاتے ہیں۔(مفاتیح الجنان، باب زیارات، کامل الزیارات)

اس زیارت کے جملے بہت ہی واضح اور روشن ہیں جو امام زمانہ(عج) کی غیبت میں ہونے کے باوجود آپ کے جو فوائد اس پوری مخلوق کو مل رہے ہیں اس کو بیان کر رہے ہیں اس سے بڑا واضح بیان تکوینی اثرات جو امام علیہ السلام کے غیبت میں ہونے کے باوجود حاصل ہیں اور کوئی نہیں ہو سکتا، خداوند ہمیں ان باریک، دقیق، اسرار و رموز پر یقین کامل اور ایمان لانے کی توفیق دے۔(آمین)

مصنف کا بیان ہے: اس قسم کے مضامین پر مشتمل روایات کثرت سے موجود ہیں جو واضح کر رہی ہیں کہ کرہ ارض پر حیات اور اس کا استقرار و اثبات، اس کی بقاءاور اس زمین کے سارے ثمرات تو اس پر رہنے والی مخلوقات کو مل رہے ہیں سب کے سب امام مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود سے ہیں ، یہ اثراور فائدہ جو تکوینی امور سے مربوط ہے اس کا انکار کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا اور ان مضامین کی دلالت اپنے معانی پر واضح ہے اور اس میں کوئی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔

دوسرا فائدہ اور اثر:۔ آسمان سے بارش کا اترنا

حضرت امام علی ھادی نقی علیہ السلام سے جو زیارت جامعة روایت ہوئی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے....آئمہ کے وسیلہ سے آسمان بارش برساتاہے“۔

یعنی آپ اہل البیت علیہم السلام کے لئے اللہ کے ہاں یہ مقام و شان ہے کہ آسمان سے بارشیں آپ کی وجہ سے برستی ہیں۔حضرت ابوجعفر باقر علیہ السلام سے روایت ہے، ہم اس کے لئے سراج(چراغ) ہیں جو ہمارے ذریعہ روشنی لینا چاہے، ہم ہی راستہ ہیں جو ہمارے ذریعہ طے کرنا چاہے، ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رحمت اتارتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اتارنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہمیں قرار دیتاہے،ہمارے وسیلہ سے سب کو بارش سے سیراب کیا جاتاہے، ہم ہی تو وہ ہیں جن کی وجہ سے تم سے عذاب کوہٹالیا گیاہے۔

(روایت کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ ص ۵ اوردوسری الکافی ج ۴ ص ۶۷۵ حدیث ۲)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی علیہ السلام! آئمہ علیہ السلام تیری اولادسے ہیں میری امت کو ان کے وسیلہ سے بارش ملے گی اور ان کے توسل سے دعا قبول کی جائے گی اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے مصائب کو لوگوں سے دور کرے گا اور ان کے وسیلہ سے آسمان سے رحمت اترے گی اور آپ نے امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: یہ ان آئمہ میں پہلا ہے اور حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کر کے فرمایا: باقی آئمہ علیہ السلام ان کی اولادسے ہوں گے(حسین علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام ہیں اور باقی نو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہیں)

(فرائد السمطین ج ۲ ص ۴۵۲ حدیث ۳۳۵ ،تفسیر البرہان ج ۴ ص ۰۸ حدیث ۸۱)

الاصبغ بن نباتہ: ایک دن ہمارے پاس حضرت امیرالمومنین علیہ السلام باہر تشریف لائے آپ علیہ السلام کا ہاتھ اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلامکے ہاتھ میں تھا ، آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا”اور ان کے وسیلہ سے اللہ کے بندگان کو روزی دی جائے گی اور ان کی وجہ سے آسمان سے بارش کے قطرات گریں گے، یہ ہیں میرے اصفیائ، یہ ہیں میرے خلفائ، اور یہ سب مسلمانوں کے آئمہ علیہ السلام ہیں اور یہ ہیں مومنوں کے رہبران“(آپنے یہ جملے حضرت علی علیہ السلام ، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ سے نو آئمہ علیہ السلام اور اپنی بیٹی حضرت سیدة نساءالعالمین سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا کے لئے فرمائے جو کہ اہل بیت علیہ السلام ہیں اللہ کے نمائندگان ہیں اللہ کی زمین پراللہ اور اللہ کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں....مترجم) (کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ حدیث ۵)

تیسرا فائدہ:زمین سے سبزیوں،پھلوں اور اناج کا اگنا

زیارت جامعہ میں یہ جملہ موجود ہے ”اے اہل البیت علیہم السلام آپ کے ذریعہ زمین اگاتی ہے....یعنی زمین سے جو کچھ اگتا ہے اس کا ذریعہ آپ علیہ السلام ہی ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث ہے”آپ کے وسیلہ سے زمین درخت نکالتی ہے، آپ کے وسیلہ سے زمین اپنے ثمرات اور پھل دیتی ہے،آپ کے ذریعہ سے آسمان پانی برساتاہے اور آسمان روزی کے اسباب کو مہیا کرتا ہے، آپ علیہ السلام کے وسیلہ سے بارش اترتی ہے“(کامل الزیارات ص ۰۰۲ باب ۹۷)

اصبح بن نباتہ کی اوپر بیان کی ہوئی حدیث میں یہ جملہ بھی موجود ہے”ان کے وسیلہ سے زمین اپنی برکات باہر نکالے گی“زمین سے جو بھی برکات انسانوں کو حاصل ہیں وہ آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی وجہ سے ہیں۔(الکافی ج ۴ ص ۶۷۵ حدیث ۲)

چوتھا فائدہ:۔ آپ علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں

آپ علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمادیا ہے کہ آپ علیہ السلام کا وجود زمین پر سب رہنے والوں کے لئے امان ہے آپ علیہ السلام نے کسی خاص گروہ کو معین نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی جگہ کو خاص کیا گیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ ساری زمین کے واسطے اور زمین پر سب رہنے والوں کے لئے رحمت ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”( کُلًّا تُمِدُّ هٰٓو لَآئِ وَهٰٓو لَآئِ مِن عَطَاء رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ محظُورًا ) “(سورہ الاسراءآیت ۰۲)

ترجمہ:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ”اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بندگان پر اپنی آنکھ قرار دیا ہے اور اپنے بندوں پر رحمت اور مہربانیوں سے بھرا ہوا سخاوت وجود کا ہاتھ قرار دیاہے“۔(التوحیدص ۱۵۱ باب ۲۱ حدیث ۵)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے ”ہم وہ ہیں جن کے توسط سے رحمت اترتی ہے اور ہم ہی وہ ہیں جن کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو ٹال دیتاہے“۔(تفسیرالبرہان ج ۴ ص ۰۸ ذیل ۷۱)

امان سے متعلق احادیث

توقیع الشریف جو محمد بن عثمان کے واسطہ سے روایت ہوئی ہے، امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے اس تحریر میں بیان فرمایا ہے:”بہرحال میری غیبت میں مجھ سے فائدہ اور منفعت اٹھاناایسے ہے جس طرح سورج جب بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بے شک میں حتمی طور پر زمین والوں کے لئے اسی طرح امان ہوں جس طرح سفارت آسمان والوں کے لئے امان ہیں۔

(الاحتجاج ص ۳۶۲ ، کمال الدین ج ۲ ص ۵۸۴ باب ۵۴ توقیعات کے ذکر میں حدیث ۴)

اس حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ آپ زمین والوں کے لئے ان خطرات سے امان ہیں جو زمین پر رہنے والوں کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتے ہیں اسی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین پر بسنے والوں کے لئے جو بھی کوئی بڑا اورہولناک خطرہ بن سکتا ہو جس سے ان کی حیات و زندگی کا چراغ بجھ جائے تو میں اس خطرہ کے لئے امان ہوں۔

خحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے کہ ابن عباس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:”ستارے زمین والوں کے لئے امان ہیں اسی طرح کہ انہیں غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں کہ انہیں اختلاف اور انتشار سے بچاتے ہیں، اگر عربوں کے قبیلہ نے جس وقت بھی ان کی مخالفت کی تو وہ انتشار کا شکار ہوںگے اور ابلیس کی جماعت سے بن جائیں گے۔

(مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۹۴۱ ، مناقب اہل بیت علیہ السلام من کتاب المعرفة، کنزالعمال ج ۲۱ ص ۲۰۱ حدیث ۹۸۱۴۳)

خحاکم نے محمد بن المتکدر سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے نبی اکرم سے قیامت کے بارے حدیث کے ضمن میں اسے نقل کیا ہے....پھر رسول اللہ نے اپنا سرمبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں اگر آسمان سے ستارے محو ہو جائیں تو وہ گھڑی آجائے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے(قیامت)اور میں اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں جب میں ان کے درمیان سے اٹھ جاوں گا تو ان پر وہ کچھ آئے گا جس کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں تو جب میرے اہل بیت علیہ السلام چلے گئے اورموجود نہ رہے تو میری امت پر وہ کچھ آئے گا جس کا وعدہ دیا گیا ہے(مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۷۵۴ ، مناقب المنکدر کے ذکر میں نوادرالاصول نے اختصارج ۳ ص ۶۶ ، الاصل ۲۲۲)

الطبرانی نے ایاس بن سلمہ سے اور اس نے اپنے باپ سے اس نے نبی اکرم سے یہ بیان نقل کیا ہے ستاروں کو آسمان والوں کے لئے امان قرار دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں۔(المعجم الکبری ج ۷ ص ۲۲ حدیث ۰۶۲۶ ، ایاس کے حالات زندگی میں، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۷۱ ، البضیہ ج ۹ ص ۷۷۲ ، حدیث ۵۲۰۵۱)

حضرت علی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے رسول اللہ نے فرمایا:”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں جب ستارے چلے جائیں گے تو پھر آسمان والے نہ رہیں گے، میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور جب میرے اہل بیت علیہ السلام نہ رہیں گے تو پھر زمین والے بھی نہ رہیں گے، اس حدیث کو حاکم اور احمد نے المناقب میں، الدیلمی نے الفردوس میں اور قرشی نے بھی اسے نقل کیا اور اس میں یہ جملہ پڑھایا ہے اور بربادی ہے پھٹکار ہے ان کے واسطے جنہوں نے اہل البیت علیہ السلام کو چھوڑ دیا اوران سے دشمنی کی ہے“۔(فضائل الصحابہ احمد کی ج ۲ ص ۱۷۶ ، حدیث ۵۴۱۱ ، مستدرک ج ۲ ص ۸۴۴ ، سورہ ....کی تفسیر میں الفردوس ج ۴ ص ۱۱۳ حدیث ۳۱۹۶ ، کنوز الحقائق ج ۲ ص ۰۴۲ ص ۷۱۲۸ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۷۱ ، البغیہ ص ۷۷۲ حدیث ۵۲۰۵۱ ، دررقرشی کی مسند شمس الاخیار ج ۱ ص ۷۲۱ ، باب ۴۱)

ابن المظفر نے انس سے اس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر میرے اہل بیت علیہ السلام زمین پر نہ رہے تو پھر زمین والوں کے لئے وہ سب نشانیاں آجائیں گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیاہے۔(جواہرالقعدین ص ۰۵۲ باب خامس)

ابوسعیدالحذری نے بتایا کہ رسول اللہنے فرمایا:”میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کےلئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کےلئے امان ہیں“(کتابة الاثرص ۹۲)

سوال کیا گیا یا رسول اللہ!کیا آپ کے بعد آئمہ علیہ السلام آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے ہوں گے؟تو آپ نے فرمایا:جی ہاں!میرے بعد آئمہ علیہ السلام بارہ ہیں جو حسین علیہ السلام کی صلب سے ہیں وہ سب امانتدار ہیں معصوم علیہ السلام ہیں ہم ہی سے اس امت کے مہدی ہیں آگاہ رہو کہ یہ سب میرے اہل بیت علیہ السلام اور میری عترت ہیں“(کفایة الاثر، ص ۹۲)

حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنی بیعت کی تقریب کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا”ہم مسلمانوں کے امام علیہ السلام ہیں اور تمام جہانوں پر اللہ کے صحیح(نمائندگان)ہیں، ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں، ہمارے وسیلہ سے بارش برستی ہے، ہمارے ذریعہ رحمت پھیلائی جاتی ہے، ہمارے ذریعہ سے زمین کی برکات حاصل ہوتی ہیں، اگر ہم میں سے کوئی بھی زمین پر نہ ہو تو زمین تباہ ہو جائے گی،ویران ہو جائے گی، آبادی کا خاتمہ ہو جائے گی(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ۳۷) ثقة الصادی کے ص ۵ طبع مصر میں یہ اشعار دیئے ہیں۔

هم الراقدون فی اوج الکمال....هم اهل المعارف والمعالی

ترجمہ: وہ تو کمال کی بلندیوں پر ٹھہرے ہیں، وہ معارف والے اور بلند مرتبت ہیں

هم سفن النجاة اذا ترامت....باهل الارض امواج الضلال

جب زمین والوں کو گمراہی کی تندوتیزلہریں اپنے گھیرے میں لے لیں تو اس وقت نجات کی کشتیاں آپ علیہ السلام ہی ہیں۔

امان الارض من غرق وجعت....وحصن الملة الصعب المنال

زمین کو غرق ہونے اور تباہ ہونے سے امان دینے والے ہیں اور اس مشکل گھری امت کے لئے سہارا اور دفاعی قلعہ ہیں۔

حدیث امان سے مراد اور مقصود

السیدالمسھودی نے ان احادیث کوذکر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے اس جگہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام جو امت کے لئے امان ہیں اس سے مراد اہل بیت علیہ السلام سے جو علماءہیں وہ مراد ہیں کہ جن کے وسیلہ سے ہدایت اور رہنمائی لی جاتی ہے جیسا کہ آسمان کے ستاروں سے راہنمائی لی جاتی ہے اور یہ ذوات اگر زمین پر موجود نہ ہوں تو زمین والوں کے وہ ساری نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور زمین والے سب ختم ہو جائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب حضرت مہدی علیہ السلام کی موت واقع ہو گی جس کے بارے نبی اکرم نے اطلاع دی ہے۔(جواہرالعقدین ص ۲۶۲ باب خامس)

ان روایات کے ذکر کرنے سے یہ فائدہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بعد زمین میں کوئی خیر نہیں ہے....

السمہودی اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتاہے”اس بات کا احتمال موجود ہے اور میرے نزدیک زیادہ بات یہی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل البیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں تو مطلق امان ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اس کے تمام لوازمات سمیت نبی اکرم کی خاطر خلق فرمایا ہے تو اس دنیا کے دوام کو اس کے دوام کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور آپ کے اہل البیت علیہ السلام کیونکہ خود آپ سے ہیں اس لئے اہل البیت علیہ السلام کے دوام سے دنیا کا دوام ہے۔ جب تک اہل البیت علیہم السلام ہیں دنیا باقی ہے جب وہ نہ رہے تو پھر دنیا موجود نہ رہے گی اور اس کی ساری بساط کو الٹ دیا جائے گا شاید اس بات کا راز اور حکمت و فلسفہ بھی یہی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اہل البیت علیہم السلام کو بہت سارے امور میں نبی اکرم کے مساوی قرار دیا ہے۔

فخررازی نے وہ امور پانچ شمار کئے ہیں جیسا کہ ذکرنمبر ۳ میں بیان ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَن تَ فِی ہِم “(سورہ الانفال آیت ۳۳)

ایسا تو بالکل نہیں ہو سکتا کہ جب تم ان میں موجود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے دے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اہل بیت علیہ السلام کے وجود کو امت میں نبی کے وجود کا تسلسل قرار دیا ہے اور انہیں ان کے لئے امان قرار دیا ہے یہ اس فرمان کی روشنی میں ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ نبی اکرم نے فرمایا: ”اے اللہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“ اس بات کو اس سے مزید تقویت ملتی ہے کہ جناب فاطمہ علیہ السلام نبی اکرم کی نصف ہیں، ان کا ٹکڑا ہیں، انکا حصہ ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد نبی کے اس حصہ کی اولاد ہے جسے نبی نے اپنا ٹکڑا قرار دیا ہے تاکہ آپ کی اولاد بالواسطہ نبی اکرم کا حصہ ہوں گے اسی طرح ان کے باپ کی اولاد ہو گی اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھے گاپس ہرزمانہ میں جو بھی ان میں سے ہو گاوہ بالواسطہ رسول اللہ کا حصہ ہو گا پس ان کے وجود کو امت کے لئے امان ہونے میں نبی اکرم کے وجود کا قائمقام قرار دیا گیاہے۔(شیخ رفاعی کی بھی مفیدگفتگو اس بارے موجود ہے کہ اہل بیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں دیکھیں(ضوءالشمس ج ۱ ص ۲۲۱) السمہودی کی کلام ختم ہو گئی(جواہرالعقدین ص ۲۶۲ ، ۳۶۲ باب خامس)

صاحب الذخائرالمجمدیہ والے نے اہل بیت علیہ السلام کے خصائص کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے آثار کو زمین میں عالم کی بقاءاور اس کی حفاظت کاذریعہ قراردیا ہے جب ان کے ارشاد موجود رہیں گے یہ عالم باقی رہے گا جب ان کے آثار ختم ہو جائیں گے تو یہ دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔(الذخائرالمحمدیہ ص ۳۴۳ ، خصائص اہل بیت علیہ السلام)

الحکم الترمذی نے امان والی حدیث کے بعد کہا ہے کہ ان کی ستاروں کے ساتھ شباہت اس حوالے سے ہے کہ ان کے ذریعہ ہی اطاعت و اقتداءکی جا سکتی ہے اور وہ اصھاب سے بھی ان کی تعداد کم ہے ستاروں کی طرح کیونکہ وہی بصیرت والے ہیں ان کے لئے اجتہاد بھی جائز ہے یقین اور بصیرت رکھنے کی وجہ سے....

وہ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے نبی اکرم کا یہ فرمان”میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں“ تو آپ علیہ السلام کے اہل بیت علیہ السلام آپ علیہ السلام کے بعد آپ کے طریقہ اور سنت پر ہیں وہی صدیقین ہیں وہی ابدال ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے روایت کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابدال شام میں ہوں گے اور ان کی تعداد چالیس ہے سب مرد ہیں، جب ان میں ایک مرے گا تو اس کی جگہ دوسرا لے لے گا اللہ اس کے بدلے میں اور کو قرار دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ابدال کے ذریعہ بارش برساتا ہے ان کے ذریعہ دشمنوں پر مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زمین والوں سے مصائب کو ٹالتاہے۔(الحدیث اومافی معقاہ فی الحاوی للفتادی ج ۲ ص ۶۲۴،۸۴۴ ۔ ۰۳۴)

پس یہ اہل بیت علیہ السلام رسول اللہ ہیں اس امت کے لئے امان ہیں، اگر یہ مر گئے تو زمین فاسد ہو جائے گی دنیا ویران ہو جائے گی۔(نوادرالاصول ص ۳۶۲ ، الاصل ۲۲۲)

ابن حجر نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ ”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَن تَ فِی ہِم “ کے ذیل میں بیان کیا ہے۔حضرت نبی اکرم نے اس معنی کا اشارہ اہل بیت علیہ السلام کے وجود میں بھی دیا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح خود رسول اللہ زمین والوں کے لئے امان تھے، اس مضمون کی بہت ساری اور احادیث بھی موجود ہیں جو اس کتاب میں آئیں گی۔(الصواعق المحرقہ ص ۲۵۱ طبع مصر ص ۳۳۲ ، طبع بیروتنمبر ۷ ، المشرع الروی ج ۱ ص ۷)

(از مترجم....یہ سب روایات اہل سنت کے علماءسے لی گئی ہیں جب یہ طے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام سے ہیں تو اس زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام ہی زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آپ نے خود اپنی تحریر میں بیان فرما دیا جیسا کہ گذر چکا ، اس ساری بحث سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک مسلمان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی زندگی کی رونقیں امام مہدی علیہ السلام کے وجود سے ہیں، اسے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے اپنا کردارادا کرناچاہیے“۔

پانچواںفائدہ:۔ امام مہدی علیہ السلام فیض الٰہی کاواسطہ ہیں

دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں”اے اللہ! ہماری نماز کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وسیلہ سے قبول کر لے، ہمارے گناہوں کو ان کے صدقہ سے معاف کر دے، ہماری دعا کو ان کے وسیلہ سے قبول فرمالے ہماری روزیاں ان کی خاطر وسیع کر دے، ان کے توسط سے ہماری پریشانیوں کو دور کر دے اور ہماری حاجات کو ان کے ذریعہ پورا کردے۔

بحارالانوار میں ابومحمد حسن العسکری علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا: جس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اس امت کے مہدی کو عطا کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو بھیجا تو وہ دونوں مہدی کو ”سرادق عرش‘ میں لے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضورمیں انہیں پہنچا دیا۔تو اللہ تعالیٰ نے مہدی علیہ السلام سے اسی طرح خطاب فرمایا:میرے عبد، میرے بندے مرحبا، میرے دین کی نصرت کی خاطر، میرے امر کو غلبہ دینے کی خاطر اور میرے بندگان کو ہدایت دینے کی خاطر میں نے قسم اٹھا لی ہے کہ میں تیرے ذریعہ ہی ان کے اعمال کووصول کروں گا اور تیرے ذریعہ سے جو کچھ دینا ہے دنیا کو دوں گا تیری وجہ سے معافی دوں گا اور تیری وجہ سے عذاب دوں گا۔

(بحارالانوار ج ۱۵ ص ۷۲ باب ۱ ، ذیل ۷۳)

حضرت ابوعبداللہ جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے”جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے رسول اللہ کے لئے بھیج دیتا ہے پھر وہ فیصلہ امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اسی طرح ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس جاتا ہے یہاں تک کہ وہ الٰہی ارادہ اور فیصلہ امام مہدی علیہ السلام کے پاس آجاتا ہے اور پھر امام مہدی علیہ السلام سے وہ دنیا میں نافذ ہونے کے لئے چلا جاتاہے اور جس وقت فرشتے کوئی عمل اللہ عزوجل کی خدمت میں لے جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے صاحب الزمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں پھر ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس وہ عمل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ عمل رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے ہو کر وہ عمل اللہ کے پاس جاتا ہے ، بس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ بھی اترتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر اترتا ہے اور پھر آگے جاتا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس جاتا ہے تو وہ ان کے ہاتھوں سے ہو کر جاتا ہے اور وہ سب ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہیں۔(یعنی ہر لمحہ ہر آن وہ اللہ سے رابطہ میں ہیں اور اللہ کے محتاج ہیں اللہ سے کسی بھی حال میں مثتثنیٰ نہیں ہیں)پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی بے نیازی اللہ سے نہیں۔

(غیبة الطوسی ص ۸۸۳ ، النجم الثاقب ص ۹۸۴)

حضرت رسول اللہ سے ایک طولانی حدیث میں یہ بات آئی ہے ”ہم اللہ کا یمین(دایاں ہاتھ)ہیں ہم اللہ کے اعضاءہیں....جو ہمارے اوپر ایمان لے آیا وہ اللہ پر ایمان لے آیاجس نے ہماری بات ٹھکرا دی تو اس نے اللہ کی بات کو ٹھکرا دیا جس نے ہمارے بارے شک کیا تو اس نے اللہ کے بارے شک کیا، جس نے ہمیں پہچان لیا تو اس نے اللہ کو پہچان لیا جس نے ہماری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ہم اللہ تک جانے کا وسیلہ ہیں، ہم اللہ کے رضوان سے جوڑنے کا ذریعہ ہیں، ہمارے لئے عصمت، خلافت اور ہدایت ہے۔(بحارالانوار ج ۵۲ ، ص ۲۲،۳۲ ، باب بدءخلقھم ص ۳۸)

دعاءندبہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے خطاب ہے ”وہ باب اللہ کہاں ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ کے پاس آیا جاتا ہے وہ سبب متصل کہاں ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔

(بحارالانوارج ۲۰۱ ص ۴۰۱)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: ہم تمہارے اور اللہ کے درمیان سبب و ذریعہ اور واسطہ ہیں“۔(بشارة المصطفیٰ ص ۰۹)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث روایت ہے” جس میں آل علیہ السلام محمد کی توصیف بیان کی گئی ہے، اورہم وجود کی علت ہیں، ہم معبود کی حجت ہیں جو شخص ہمارے حق سے جاہل رہا اللہ اس کا کوئی عمل بھی قبول نہیںفرماتا“۔(بحارالانوارج ۶۲ ، ص ۹۵۲ حدیث ۶۳)

حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے”ہم اللہ کی حجت ہیں ہم اللہ تک جانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے ترجمان زبان ہیں، ہم اللہ کی پہچان کا چہرہ ہیں، ہم اللہ کی مخلوق میں اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں، ہم اللہ کے بندگان میں اللہ کے والیان امر ہیں، پھر آپ نے راوی سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے اسودبن سعید!ہمارے اور ہر زمین کے درمیان ایک تعلق اور رابطہ کی زنجیر موجود ہے جس طرح ایک بلڈنگ کی بنیاد سے لے کر اس کے اختتام تک ایک مسلسل جوڑ، ربط اور اتصال ہوتاہے، جس وقت ہم کو کسی بات کا امر ہوتا ہے اور ہم نے کسی زمین پراسے لاگو کرنا ہوتا ہے تو ہم نے اس رابطہ والی لائن کو اپنی جانب کھینچنا ہوتا ہے اسی طرح وہ زمین اپنے اہل سمیت، بازاروں سمیت، گھروں سمیت ہماری طرف آ جاتی ہے اور ہم اس میں اپنا امر اور فیصلہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہوتا ہے جاری کر دیتے ہیں۔

(بحارالانوار ج ۵۲ ص ۴۸۳ ، باب غرائب افعالھم حدیث ۰۴ ، بصائرالدرجات ص ۱۶ اختصار کے ساتھ)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے”بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے تحت ایک مخلوق کو خلق فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو اپنے نور اور اپنی رحمت سے خلق فرمایا ہے اور اس مخلوق کو اپنی رحمت کے لئے خلق فرمایا ہے پس وہ مخلوق اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں اور اس کے سننے والے کان ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر اس امر پر امناءہیں جو اللہ تعالیٰ نے حجت کے طور ، ڈرانے کے لئے عذر خواہی کے حوالے سے جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس پر وہ امناءہیں، اللہ کی مخلوق میں حجت ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ برائیوں کو مٹاتا ہے اور ان کے توسط سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے وسیلہ سے رحمت کو اتارتا ہے ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے، ان کے ذریعہ سے اپنی مخلوق کی آزمائش کرتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اپنے مخلوق میں فیصلے فرماتا ہے۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا! میں آپ پر قربان جاوں وہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا وہ اوصیاءہیں۔(التوحیدللصدوق ص ۷۶۱ باب ۴۲ ص ۱)

(ازمترجم....مصنف نے ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد حکماءاور فلسفیوں کے بیانات سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ ذوات مقدسہ مخلوق اور اللہ کے درمیان واسطہ فی الفیض ہیں۔ میرے خیالات میں اتنی واضح روایات اور احادیث کو بیان کرنے کے بعد کسی فلسفی یا عقلی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ان کے لئے لکھی جا رہی ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کو اپنا فریضہ قرار دیتے ہیں، لہٰذا اس بحث کا ترجمہ نہیں کیا،اگرچہ مختصر تھی۔ اصل کتاب کے ص ۷۹ ،ص ۸۹ سے دیکھ سکتے ہیں)

ابن عربی(عالم اہل سنت) کا بیان ہے، کائنات میں جو بھی رزق موجود ہے یہ سب بقیة اللہ کے ذریعہ سے ہے، اس بیان کے بعد اس نے اپنے طریقہ کے مطابق اس نظریہ کے اثبات پر دلائل دیئے ہیں۔(دیکھئے الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۹۷)

چھٹافائدہ:۔ محتاجوں پریشان حالوں کی مددکرنا

میری جان ان پر قربان جائے آپ پسے ہوئے طبقات پر، محروموں پر، کمزوروں پر بہت ہی مہربان ہیں آپ ان کی مدد ہیں جن کا کوئی مددگار نہیں روایت بیان ہوئی ہے کہ جس کو کوئی حاجت ہو تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق”جب کوئی شخص صحرا میں راستہ بھٹک جائے تو وہ اس اپنے امام علیہ السلام کو آواز دے“۔

یا اباصالح ارشدتاعلی الطریق یرحمک الله تعالیٰ

اے اباصالح! ہمارے لئے راستہ کی نشاندہی کردیں اللہ آپ علیہ السلام پررحمت فرمائے“۔

(من لایحضرہ الفقیہ ج ۲ ص ۸۹۲ حدیث ۶۰۵۲ ، مکارم الاخلاق ص ۹۵۲ ، مجمع البحرین ج ۲ ص ۶۲۶ ، اللمقہ البضیاءص ۲۶۵)

یہ بات یاد رہے کہ خشکی پر ابوصالح مقرر ہے اور سمندروں پر حمزہ موکل ہیں۔

(الاداب الدینیہ ص ۰۰۱)( شاید یہ دو نام امام زمانہ کے مراد لیے گئے ہوں کہ جب خشکیوں، صحراوں میں مسئلہ ہو تو ابوصالح پکاریں جب سمندروں میں مسئلہ ہو توحمزہ کہہ کرپکاریں....مترجم)

شیخ مفیدؒ کو جو آپ نے خط بھیجا اس میں یہ جملہ موجود ہے :”انا غیرمهملین لمراعاتکم ولاناسین لذکرکم لولاذلک لنزل بکم اللاواءواصطلمکم الاعدائ

بتحقیق ہم نے تمہاری حفاظت کے معاملہ کو اسی طرح نہیں چھوڑ رکھا اور نہ ہی ہم نے تمہاری یاد کو بھلا دیا ہے اگر ایسا نہ ہو تو تمہارے اوپر تباہ کن مصائب آئیں گے اور دشمن تمہیں ختم کر دیں گے“۔بہت سارے واقعات اور حالات کتب میں موجود ہیں جو حاجت مندوں نے آپ سے توسل کیا، پریشانی کے وقت آپ کو آواز دی تو اس کی حاجات پوری ہوئیں، پریشانیوں کا ازالہ ہوا، محدث نوری نے بہت سارے واقعات نقل کیے ہیں۔(النجم الثاقب ج ۲ ص ۱۲۴ سے ۶۲۴ ، مکیال المکارم ج ۱ ص ۸۳،۹۳۱)

ان واقعات میں بحرین کے مومنوں کو استعماری ایجنٹوں اور کارندوں سے بچایا گیا۔(النجم الثاقب)

عنیزہ قبیلہ نے جب کربلا کاراستہ زواروں پر بند کیا تو اسے زائرین کے لئے کھول دیاگیا۔(مشخص الامال ج ۲ ص ۶۲۳)

صحرا اسود کو اس کی اپنی جگہ رکھنے کا واقعہ۔(منتخب الاثر ص ۶۰۴ ،الخرائج والجرائح ص ۹۲)

مالی امداد کے واقعات بھی ہیں بیماروں کی شفایابی کے واقعات ہیں۔

(سابقہ حوالوں کے علاوہ، کشف الغمہ ج ۳ ص ۷۸۲)

ابن عربی نے اس جگہ بہت ہی علمی اور فلسفی بحث کی ہے اور اس میں یہ تالیف کیا ہے کہ کس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔

(الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۸۷ ،باب ۶۶۳)

(ازمترجم....ہمارے زمانہ کے بہت سارے واقعات ہیں جس میں امام زمانہ(عج) کی امداد بڑی واضح ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، امریکی طیاروں کاطبس کے صحرا میں تباہ ہونا، ایران کے انقلاب کے خلاف تمام عالمی طاقتوں کی مشترکہ سازشیں اور علاقائی اسلامی ممالک کی بھرپورمخالفت اور عالمی طاقتوں کا ساتھ نہ دینے کے باوجودانقلاب کا باقی رہنا اور ہر آنے والے دن میں مضبوط سے مضبوط ترہونا، امام زمانہ علیہ السلام کی زندہ امداد کی مثالیں ہیں، افغانستان میں شیعوں کی حفاظت کا انتظام، دہشت گردوں کو ناکامی اور شیعوں کو ان کے حقوق ملنا، اپریل ۷۰۰۲ سے اکتوبر ۸۰۰۲ تک تمام تر محاصرہ کے باوجود پارہ چنار ، کرم ایجنسی میں شیعوں کی فتوحات اور کامیابیاں اور ملک دشمن ، اسلام دشمن طالبان کی مسلسل ناکامی، جولائی ۶۰۰۲ کی جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیل کی بری طرح ناکامی اور پھر ۸۰۰۲ ءمیں سیاسی میدان میں حزب اللہ کی کامیابی،اسی صدام کی ۶۳ سالہ حکومت کا خاتمہ اور عراق میں شیعوں کی کامیابیاں سعودی عرب میں شیعوں کا باقی رہ جانا اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کو تقویت ملنا، روس کی سلطنت عظمیٰ کا خاتمہ اور امریکی اقتدار کا روبزوال ہونا یہ سب ایسے واقعات ہیں کہ ان کے پیچھے امام زمانہ (عج) کی غیبی امدادشامل ہے، شیعہ اہل بیت علیہ السلام کے خلاف تمام عالمی طاقتیں ہیں، منافق حکمران ہیں لیکن ہر آنے والا دن شیعوں کی مضبوطی کی خبر لا رہا ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ منجی بشریت، عالمی مصلح، امن عالم کا داعی، موعود امم، عدل الٰہی کا نمائندہ، صاحب الزمان امام مہدی علیہ السلام کے اقتدار کا زمانہ قریب ہے، سوال یہ تھا کہ امام مہدی علیہ السلام پردہ غیبت میں رہ کر کیا فائدہ دے رہے ہیں تو اس بارے تکوینی فوائد اور اثرات احادیث کی روشنی میں بیان ہوئے اور ہم اپنے زمانہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ حاضر اور موجود آثار ہیں جو آپ کے وجودذیجود کی برکات سے ہیں، خداوند آپ کی برکات اور زیادہ ہمارے نصیب کرے اور ہم اسی زمانہ میں یہودیوں کے اقتدار کا خاتمہ اور آل علیہ السلام محمد کے اقتدار کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں۔(آمین)مصنف نے اس دور میں ظاہر ہونے والی کچھ غیبی امدادات کا تذکرہ کیاہے)

ساتواں فائدہ:۔ مجاہدوں کی مدد کرنا

حضرت امام زمانہ (عج) ہر اس کی مدد کو پہنچتے ہیں جو ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے، بہت سارے اسلامی خطوں میں امام زمانہ (عج) کی مدد کی گواہی موجود ہے، جمہوری اسلامی ایران میں مجاہدین کے لئے امام زمانہ (عج) کی امدادبڑی روشن اور واضح ہے چاہے وہ انقلاب کے ابتدائی ایام ہوں یا صدام ملعون کی طرف سے مسلط کردہ جنگ ہو یا اس کے بعد والے امام ہوں۔

اسی طرح لبنان میں مجاہدین کے لئے آپ علیہ السلامکی مدد کسی پر مخفی نہیں چاہے اسلامی مزاحمتی تحریک کا ابتدائی زمانہ ہو یا اس کے بعد کا زمانہ ہو، یہ جنگ جس میں حزب اللہ کے مجاہدین داخل ہوئے جو ایک اسطورہ اور خیالی کہانی لگتی ہے ۶۰۰۲ ءمیں یہ تو ایک ایسا امر ہے جسے دنیا کا کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا غیبی امداد کی انکار ناممکن ہے کہ چالیس ہزار مسلح افواج کا لشکر بے کراں تھا، ٹینکوں، توپخانہ، جنگی جہازوں اور ایسا اسلحہ جسے کسی نے اس سے پہلے دیکھا تک نہ تھا چوبیس گھنٹے مجاہدین کے اوپر دشمن کے جنگی طیارے پرواز کر رہے تھے اور بمباری میں مصروف تھے جب کہ مجاہدین کی تعداد ۰۰۵۱ سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس درمیانہ درجہ کے ہتھیار تھے۔

جو مجاہدین بالفعل میدان میں لڑ رہے تھے انہوں نے جو واقعات اور حکایات بیان کی ہیں اور جو آپ بیتی ہر ایک مجاہد نے سنائی ہے وہ سب غیبی امداد پر دلیل ہے۔

اسی طرح جو کچھ دشمن کے سپاہیوں، عسکری کمانڈروں نے واقعات اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بیان کیے ہیں کہ جنگ کے دوران انہوں نے سفید لباس والے سپاہی، سفید گھوڑوں پر سوار افراد، تلواریں اٹھائے ہوئے دیکھے ہیں، تلوار سے ایک کمانڈر نے اپنا کٹا ہوا ہاتھ بھی ٹیلی ویژن کی سکرین پر انٹرویو کے دوران دکھایا یہ سب کچھ غیبی امداد کی نشانیاں ہیں یہ سب واقعات و حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ اس جنگ میں غیبی ہاتھ مجاہدین کے سرپر موجود تھا اور امام زمانہ (عج) کی خصوصی عنایات شامل تھیں جس وجہ سے مجاہدین کو حیرت انگیز کامیابی ہوئی اسرائیل کو ایسی شکست ہوئی کہ جس سے اس کا وجود خطرہ میں پڑچکاہے۔”والحمدللہ ولہ اشکرعلی انعمہ“۔

آٹھواں فائدہ:۔ امام زمانہ علیہ السلام(عج) ہمارے ولی نعمت ہیں

اور ہمارے رزق کے ولی بھی ہیں

زیارت جامعہ میں ہےوقادة الامم واولیاءالنعم وعناصرالابرار

(بحارالانوار ج ۷۹ ص ۴۷۱)

سلام ہو آپ پر اے اقوام کی قیادت کرنے والے رہبروں اور اے نعمتوں کے اولیاءاور وارثان، اے ابرار، نیکوکاروں کے لئے بنیادون،عناصر“

دعاءندبہ میں ہے....اے اللہ!ہماری روزیوں کو ان کے وسیلہ سے وسیع کر دے، پھیلا دے، ان کے ذریعہ ہماری پریشانیوں کو ٹال دے، ان کے وسیلہ سے ہماری حاجت کو پورا کردے“۔

الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے بیان نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا....”ہم اللہ تعالیٰ تک لیجانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے آسمانوں میں خزانہ دار ہیں، اللہ کی زمین میں اللہ کے خزانہ دار ہیں، ہمارے ذریعہ سے درختوں کو پھل لگتے ہیں اور پھل پکتے ہیں، دریا بہتے ہیں، آسمان سے پانی برستا ہے، زمین گھاس اگاتی ہے، ہماری عبادت کے ذریعہ اللہ کی عبادت ہوئی یعنی لوگوں نے ہماری عبادت کودیکھ کر سیکھا اور اللہ کی عبادت کی، اگر ہم موجود نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی ہے۔

(الکافی ج ۱ ص ۴۴۱ ، باب النوادر حدیث ۵)

الخرائج میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”اے داود ! اگر ہم موجود نہ ہوتے تو دریاوں کو نہ بہایا جاتا،پھلوں کو نہ پکایا جاتا، اور درختوں پر سبزہ نہ ہوتا“۔(مکیال المکارم ج ۱ حدیث ص ۱۴ حدیث ۷۳)

الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام کی طرف سے حدیث کو نسبت دی ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور دنیا کا ایک ٹکڑا اس کے لئے مخصوص کردیا، جو آدم علیہ السلام کے لئے ہے وہ سب کچھ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول اللہ کے لئے ہے وہ آل محمد علیہم السلام سے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے لئے ہے۔(الکافی ج ۱ ص ۹۰۴ ، باب ان الارض کلھا للامام حدیث ۷)

حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ دنیا کا آخری دور اور جو کچھ دنیا میں موجود ہے اس کا آخری مرحلہ، اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اللہ کے رسول کے لئے ہے اور ہمارے لئے مخصوص ہے، پس جو کوئی دنیا سے کچھ پالیتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اپنے بھائیوں پر احسان کرے، ان سے نیکی کرے اور جو دنیا سے حاصل شدہ مال دنیا میں حاصل ہونے والے اختیارات کا استعمال اس طرح نہ کرے گا تو ہم ان سے بری اور بیزار ہیں، وہ ہم سے دور ہے۔(الکافی ج ۱ ص ۸۰۴ حدیث ۲)

دارالسلام میں کتاب بصائرالدرجات سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ:

امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:

اے اباحمزہ تم طلوع آفتاب سے پہلے ہرگز نہ سویا کرو، کیونکہ اس وقت میں سونے کو میں تیرے لئے پسند نہیں کرتا ہوں، تمہیں اللہ تعالیٰ اس وقت میں رزق اور روزی تقسیم فرماتا ہے اور اس رزق کو ہمارے ہاتھوں سے جاری فرماتا ہے۔

(مکیال المکارم ج ۱ ص ۲۴ حدیث ۴)

مکیال المکارم کی ج ۱ ص ۷۷۲ میں اشعار اس معنی میں ذکر کیے گئے ہیں جن کو یہاں پر لانے کی چنداں ضرورت نہ ہے۔

مذکورہ احادیث اور بیانات سے واضح ہو گیاکہ ہمارے ولی نعمت امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور ہمارے رزق کا ذریعہ امام زمانہ علیہ السلام ہیں....مترجم

تکوینی آثار بیان ہو چکے ان کی مزید تفصیل بھی دی جا سکتی ہے جو کچھ بیان ہو چکا یہ ایک غیرمتعصب کے لئے کافی ہے اور صاحب ایمان کے یقین کو بڑھانے کا وسیلہ یہ بیانات ہیں۔

حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے وجود مبارک سے تشریعی فوائد

پہلا فائدہ:۔ مراجع الدین اور فقھاءکی راہنمائی فرمانا

شرعی احکام استنباط کرنے کے منابع چار ہیں ( ۱) قرآن مجید( ۲) سنت، روایات شریعہ ( ۳) عقل( ۴) اجماع (المصلحات ص ۵۶)

یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیعہ فقہاءکے نزدیک ہر اجماع حجت اور دلیل نہیں اور اس کی پیروی کرنا لازم نہیں مگر جو اجتماع حجت ہے اور شرعی احکام کے لئے ماخذ بھی ہے وہ اجماع کشفی ہے وہ ایسا اجماع ہے جس میں پورے فقہاءکا اتفاق ہوتا ہے ایک بھی مخالف رای والا موجود نہیں ہوتا، گویا کہ جس چیز پر پوری امت کا اتفاق ہو جائے اور اس میں ایک بھی مخالف نہ ہو تو اس سے یہ بات کشف اور معلوم ہو جائے گی کہ اس اجماع میں امام وقت جو کہ معصوم اور نمائندہ الٰہی ہیں وہ بھی موجود ہیں پس اس لئے ایسے اجماع سے حکم اخذ کرنا صحیح ہے۔

شیخ الطالقہ الطوسیؒ اوردوسرے فقہاءنے واضح کیا ہے کہ اس اجماع میں کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کا وجود یقینی ہوتاہے۔اس لئے یہ اجماع حجت ہے، اگر ایسا اجماع نہ مل سکے تو پھر اجماع کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔(رسائل المرتضیٰ ج ۱ ص ۶۱ ، المعتبر للعلامہ الحلی ج ۱ ص ۹۳،۳۵ ، روض الجنان ص ۰۸ ، تہذیب الاصول للامام الخمینیؒ ج ۲ ص ۸۶۱)

کیونکہ اگر امام علیہ السلام اس فیصلہ پر راضی نہ ہوں تو وہ یقینی طور پر کسی فقیہ کے ذہن میں اس کے مخالف حکم ڈال دیں گے اور اس طرح اجماع ٹوٹ جائے گا اور ایسا اقدام کرنا امام علیہ السلام کے اختیار اور قدرت میں ہے اورایسا کرنا ضروری بھی ہوگا کیونکہ اگرایسانہ ہوتو لوگ گمراہ ہوجائیں گے گمراہی سے بچانے کے لئے اقدامات کرناامام وقت کی ذمہ داری ہے اگرچہ امام غائب ہی کیوں نہ ہوں۔

امام علیہ السلام ایک چھوٹے سے فقہی اور شرعی مسئلہ کی رہنمائی کے لئے فقہاءکی غیر محسوس طریقہ سے مدد فرماتے ہیں اسی طرح اگر امت کی تقدیر کا فیصلہ ہو، امت کی بقاءاوراستحکام کا مسئلہ ہو، امت کی ہلاکت اور حیات کا مسئلہ ہو تو اس میں امام علیہ السلام کی مدداور لازمی ہو جاتی ہے یہ امام کا اپنا لطف و کرم اور مہربانی ہے کہ وہ امت کے امور کو چلانے والوں کے لئے راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔محقق اردبیلی ان فقہاءسے ہیں جنہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام سے شرف ملاقات تھا اور وہ امام علیہ السلام سے سوال کر لیا کرتے تھے جب بھی کسی مسئلہ میں الجھ جاتے اور اس کی سمجھ نہ آ رہی ہوتی اور وہ حل نہ ہوتا تو امیرالمومنین علیہ السلام کے محراب عبادت مسجد کوفہ میں تشریف لے جاتے اور مخصوص اعمال بجا لاتے اور امام علیہ السلام سے اس سوال کا جواب حاصل کر لیتے تھے جس کا جواب انہیں معلوم نہ ہوتاتھا۔

(النجم الثاقب منتہی المال ج ۲ ص ۹۱۳)

شیخ مفیدؒ کا بہت بڑا نصیب ہے کہ امام علیہ السلام ان کی برابر راہنمائی فرماتے تھے خطوط کے ذریعہ بھی اور بالواسطہ طور پر کسی اور کے ذریعہ بھی اور براہ راست بھی....

ایک خط میں آپ شیخ مفیدؒ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم تمہارے ساتھ یہ عہد کرتے ہیں اے مخلص ولی ہماری خاطر دشمنوں سے جہاد کرنے والے....یہ کہ جس شخص نے تیرے دینی بھائیوں سے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس سے حصہ نکال کر اس کے مستحق کو دینا ہے تو وہ باطل پر لے جانے والے فتنہ سے محفوظ رہے گا اور اس فتنہ کے تاریک اور خوفناک مناظر سے بچا رہے گا اور ان میں سے جو بخل اور کنجوسی کرے گا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے گاتو وہ اس کی وجہ سے خسارے میں ہوگا اپنی دنیا میں بھی اور اپنی آخرت میں بھی۔

(علماءکرام اور فقہاءعظام کے حالات زندگی میں ایسے بہت سارے واقعات اور حالات درج ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام نے کسی طرح ان کی راہنمائی فرمائی اور انہیں بھٹکنے سے بچایا، یہ سلسلہ آج کے دور میں بھی جاری ہے، البتہ ہمارے عظیم القدر فقہاءنے اپنی زندگی میں امام زمانہ علیہ السلام سے راہنمائی لینے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا ان کی وفات کے بعد ان کی خودنوشت سے یا ان کے متعمد ترین اور امین ساتھیوں کے ذریعہ ان واقعات سے آگہی ہوئی، اگر امام علیہ السلام کی راہنمائی نہ ہوتی اور آپ اپنے شیعوں کا خیال نہ رکھتے اور انہیں یاد نہ فرماتے تو اس لمبی ظالم تاریخ کے تندوتیز، جھگڑوں میں شیعوں کا نام مٹ جاتا اور امامعلیہ السلام نے اپنے شیعوں کی راہنمائی کے لئے فقہاءاور مراجع دین کی خصوصی سرپرستی جاری رکھی اسی لئے ہمارے فقہاءہر دور کے مسائل سے نبردآزما ہوتے رہے اور کامیاب ہو کر ہر میدان سے نکلے اور آج بھی شیعیان آل محمد کی راہنمائی فرمارہے ہیں....ازمترجم)

امام علیہ السلام کی توقیعات دیکھنے کے لئے(الاحتجاج ج ۲ ص ۳۲۳،۴۲۳ ، علماءکے حالات کے لئے ہر معروف فقیہ کا اپنا تفصیلی زندگی نامہ ان کی زندگی کے واقعات پر مشتمل کتابیں،ہمارے دور میں حضرت امام خمینیؒ، آیت اللہ سید شہاب مرعشی نجفیؒ اور کچھ پہلے کے سید آیت اللہ سیدمہدی بحرالعلوم، کے حالات کو پڑھ سکتے ہیں اور قصص العلماءمیں بھی بہت کچھ اس ضمن میں مل جائے گا۔

دوسرا فائدہ:۔ امام علیہ السلام کی موجودگی لطف الٰہی ہے

لطف ہر اس حالت کو کہتے ہیں جوعبدکو مولا کے قریب کردینے کا ذریعہ بنے یا جو حالت اطاعت کرنے پر آمادہ کر دے یہ اصطلاحی معنی ہے ۔

تلطف اور لطف کا معنی مولا کا اپنے بندگان پر مہربانی کرنا،کرم کرنا، رحمت سے نوازتا ہے، اس میں محبت اور پیار کا عنصر شامل ہے نبوت اور امامت کے باب میں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندگان پر لطف ہے کہ اس نے اس کی ہدایت کے لئے انبیاءعلیہ السلام و رسل علیہ السلامبھیجے اور پھر ان کے لئے اوصیاءقرار دے، نبوت کی طرح امامت کا عہدہ اور منصب بھی لطف الٰہی ہے۔

سید مرتضیٰ علم الہدیٰ نے فرمایا:ریاست اورقیادت جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے واجب کو انجام دینے اور حرام سے بچنے کے لئے لطف الٰہی ہے، ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس لطف سے خالی نہ چھوڑے اور الطاف الٰہیہ کے ہونے پر جو دلیل قائم ہے وہ اسے بھی شامل ہے

(الذخیرہ فی علم الکلام ، باب اللطف ص ۶۸۱ ، باب الامامة ص ۰۱۴ ، لفین للعلامہ الحلی ص ۵۱ بحث نمبر ۴)

علامہ حلیؒ فرماتے ہیں:امام معصوم کا جوہم نے معنی کیا ہے اور جو خصوصیات ہم نے ان کے لئے متعین کردی ہیں وہ اللہ کی طرف سے منصوب ہوتا ہے ایک بندہ اس کے وسیلہ سے اطاعت کر کے قرب الٰہی حاصل کرتا ہے، اور اس کے وسیلہ سے نافرمانیوں سے بچتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر معاملہ الٹ ہو جاتا، یہ حکم ہر عاقل کے لئے تجربہ سے ظاہرہے اور ضروری اورواضح ہے کوئی ایک بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا ہر وہ امر جو مکلفین کو اللہ کی اطاعت کے قریب کر دے اور بندگان کو اللہ کی نافرمانی سے دورکر دے وہ لطف ہے اصطلاح میں بس امام کا وجود لطف ہے۔

(الذخیرہ فی علم الکلام ، باب اللطف ص ۶۸۱ ، باب الامامة ص ۰۱۴ ، لفین للعلامہ الحلی ص ۵۱ بحث نمبر ۴)

نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام زمانہ (عج) کا وجود مبارک انسان کو اللہ کی اطاعت کے قریب کر دیتا ہے اور اللہ کی نافرمانی سے دور کرتا ہے بلکہ اللہ کی اطاعت زیادہ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے یہ اس طرح ہے کہ جب انسان یہ محسوس کرتا ہے اور اس پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور یقین کامل اس پر رکھتا ہے کہ اس کا امام زندہ اور موجود ہے جو کہ معصوم ہے اور اس کی نظر اس کے چھوٹے بڑے سارے اعمال پر ہے تو وہ معصیت اور گناہ کرتے وقت شرم اور حیاءمحسوس کرے گا کہ اپنے مہربان امام کے سامنے اور ان کی موجودگی میں گناہ کرے۔

اس طرح وہ گناہ پر اصرار بھی نہیں کرے گا اگر ایک دفعہ اس سے غلطی ہو جائے تو پھر اس کو دہرائے گا نہیں اسی طرح اسے شرم آئے گی کہ وہ کس طرح اپنے آقا ومولا امام کے سامنے واجبات کو ترک کر دے وہ حضرت امام زمانہ(عج)کے وجود کا یقین رکھتاہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان کامل گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے

ازمترجم....اس جگہ آپ ذرا تصور کریں ہم عام طور پر یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ عوام میں ایسا عام ہے کہ جب کوئی جوان جو سگریٹ نوشی کرتا ہے سامنے کسی عالم کو آتے دیکھے تو فوراً سگریٹ بجھا دیتا ہے اسی طرح عمامہ والے، عالم دین کو دیکھ کرباادب ہو جاتا ہے بے ہودہ حرکات کو چھوڑ دیتا ہے، آپ نے بے پردہ خواتین کو دیکھا ہو گا کہ جب کسی عالم دین اور بزرگ شخصیت کا سامنا کرتی ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کس حد تک خود کو حجاب میں لے آئیں، آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا بلکہ پاکستان میں تو یہ عام ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو تووہ خواتین جو سر پر دوپٹہ نہیںلیتیں وہ فوراً دوپٹہ لے لیتی ہیں جب انہیں کسی عالم کے پاس جانا پڑے تو دوپٹہ اوڑھ لیتی ہیں یا جن کا حجاب کچھ خراب ہوتا ہے تو وہ عالم کے سامنے صحیح حجاب کر لیتی ہیں اسی طرح جب عوام میں عالم دین موجود ہو تو اس وقت وہ دینی اعمال اور شرعی عبادات کے بارے زیادہ اہتمام کرتے ہیں پس ان مثالوں کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ جس کویقین ہے کہ میرا امام موجود ہے میرا امام میرے ہر عمل سے واقف ہے، میرے امام کی نظر میرے اعمال پر ہے، میرے امام علیہ السلام سے میرے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں اور امام کی قدرت اور اختیار ات سے بھی واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میرے امام کا فرمان ہے کہ جو اللہ کا اطاعت گزار بندہ ہے وہ ہمارا شیعہ اور موالی و محب ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے، معصیت کار ہے، وہ ہمارا مخالف اور ہمارا دشمن ہے، اچھے اعمال کو وہ پسند کرتے ہیں اور برے اعمال انہیں ناپسند ہیں، شیعوں کے اچھے کاموں سے انہیں خوشی محسوس ہوتی ہے اور ان کے برے کاموں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے اور برے اعمال کو دیکھ کر انہیں حزن وملال ہوتا ہے، تو کون بدبخت ہے جو اپنے امام علیہ السلام، اپنی ولی نعمت، بقیة اللہ الاعظم مہدی امم کو ناراض کرے، کون ہے جو چاہے گا کہ اپنے امام کو غمزدہ اور دکھی کرے بلکہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے امام کو خوش کریں ان کے آرام اور سکون کے اسباب مہیا کریں) پس امام کے وجود کا دوسرا بڑا فائدہ اور اہم فائدہ یہ ہے کہ آپ کاوجود لطف الٰہی ہے جس کے وسیلہ سے بندگان خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور ان ہی کے وسیلہ سے خدا کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں اعمال پیش کرنے کے بارے روایات

روایات میں ہے کہ بندگان کے اعمال حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں ، چند روایات ملاحظہ ہوں۔

۱ ۔ حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”جب اللہ تعالیٰ کسی فیصلہ کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے رسول اللہ پر پیش کیا جاتا ہے پھر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اسی طرح ترتیب وار سب آئمہ علیہ السلام سے ہوتا ہوا وہ فیصلہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے پاس آتا ہے اور وہاں سے دنیا میں لاگو اور نافذ ہونے کے لئے جاتاہے اور جب فرشتے کسی عمل کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں تو اس عمل کو حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے پھر ترتیب وار باقی آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں وہ عمل لے جایا جاتا ہے اسی طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وہ عمل جاتا ہے پس جو کچھ اللہ کی طرف سے اترتا ہے تو وہ ان کے ہاتھوں پر اترتا ہے اور جو بھی اللہ کی طرف جاتا ہے تو وہ ان کے وسیلہ سے جاتا ہے اور وہ سب پلک جھپکنے کی مقدار کے برابر بھی اللہ سے بے نیاز نہیں ہیں۔

(غیبت شیخ طوسیؒ ص ۸۸۳ ،النجم الثاقب ۹۸۴)

۲ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”اے مفضل ! جو شخص یہ خیال رکھے کہ آل محمد علیہ السلام سے جو امام ہے اس سے کوئی چیز چوک جاتی ہے اور جوحتمی امر ہوتا ہے اس سے وہ ناآگاہ ہے تو ایسا خیال کرنے والا شخص کافر ہے اس نے اس کا انکار کر دیا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترا ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے یہ یقینی امر ہے کہ ہم آپ کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور تمہارا کوئی امر ہم سے پوشیدہ نہیں ہے بتحقیق اعمال کو ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس وقت روح رہ جائے گی بدن روح سے خالی ہو جائے گا تو اس وقت ان کے انوار ظاہر ہوں گے ان کے اسرار کا پتہ چلے گا اور عالم الغیب کا ادراک ہوگا۔(مشارق انوار البقینص ۸۳۱)

۳ ۔ امام زمانہ (عج) سے روایت ہے کہ اپنے اصحاب اور ساتھیوں کو یہ بات بتا دو اور میری جانب سے انہیں سلام پہنچاو اور ان کے لئے ہر بات بیان کر دو کہ میں خود اور جو بھی آئمہ علیہ السلام سے میرے مقام پر ہے تو ہمارے لئے یہ بات ضروری ہے کہ ہم آپ کے جنازوں پر حاضری دیں تم جس شہر میں بھی رہتے ہو تم اپنے بارے اللہ کا تقویٰ اختیارکرو“۔(بحارالانوارج ۸۴ ،ص ۳۷ ص ۰۰۱)

۴ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:”خدا کی قسم! اگر میں چاہوں تو تم میں سے ہر آدمی کے نکلنے کی جگہ، اندر جانے کی جگہ باہر آنے کی جگہ، اس کی رفت و آمد کے سارے حالات وواقعات اور جو کچھ بھی اس سے متعلق ہے اسے بتا دوں، لیکن مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم میری وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہ کردو اور کافر نہ ہو جاو، آگاہ رہو یہ سب کچھ میں اپنے خواص کے لئے بیان کرتاہوں“۔(نہج البلاغہ خطبہ ۵۷۱،۰۵۲)

۵ ۔ الکافی میں امام ابوعبداللہ صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:امام جب اپنی ماں کے شکم میں ہوتا ہے تواس وقت سنتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان یہ جملہ لکھا جاتا ہے ”( وَتَمَّت رَبِّکَ صِد قًا وَّعَدلاً لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰاتِهِ وَهُوَالسَّمِیعُ العَلِیمُ ) “(سورہ الانعام ۴۱۱)

اور جب معاملات اس امام کے سپرد ہوتے ہیں تو ان کے لئے روشنی کا ایک ستون قائم ہو جاتا ہے جس کے ذریعہ ہر شہر والوں کے جو بھی اعمال ہوتے ہیں وہ انہیں دیکھتے ہیں۔(الکافی ج ۱ ص ۷۷۳ ، باب موالیدالائمہ حدیث ۴)

۶ ۔ حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے ہے کہ ہر صبح رسول اللہ کی خدمت میں سب بندگان کے اعمال ہوتے ہیں۔(ص ۹۱۲ باب عرض الاعمال علی النبی)

روایت میں آیت”( اِعمَلُوا فَسَیَریَ اللّٰهُ عَمَلَکُم وَرَسُولُهُ وَالمُومِنُو نَ ) “(سورة التوبہ آیت ۵۰۱) کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس جگہ مومنون سے مراد آئمہ اطہار علیہ السلام ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی معنی بنتا ہی نہیں کیونکہ ایک مومن کو دوسرے مومن کے سارے اعمال کی بالکل خبر نہیں ہوتی وہ تو ظاہری عمل جو وہ اس کے سامنے کرے اسے بڑی مشکل سے دیکھ پاتاہے۔

(اصول الکافی ج ۱ ص ۹۱۲ ، عرض الاعمال عمل النبی ج ۲ ۔ ۱)

۱: ۔عبدالرزاق اہل سنت کے عالم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث اخراج کی ہے، تمہارے ناموں اور تمہارے شکلوں سمیت تمہیں میرے سامنے پیش کیا جاتاہے“۔(المصنف ج ۲ ص ۴۱۲ ،حدیث ۱۱۳) مجاہد سے روایت ہے ۔

۲: ۔ بخاری نے ادب المفرد میں ابوذر سے اس روایت کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: میری امت کے سارے نیک اور بداعمال میرے پاس پیش ہوتے ہیں میں نے تمہاری اچھائیوں پر نظر ڈالی۔(الادب المفروض ۰۸ ، حدیث ۲۰۳ ، باب امامة الادبی ۶۱۱)

۳: ۔ حارث اوربزاز نے حضرت رسول اللہ سے روایت نقل کی ہے، میری زندگی تمہارے لئے خیروبرکت ہے تم باتیں کرتے ہو اور ہم تم سے حدیث بیان کرتے ہیں، میری موت بھی تمہارے لئے خیروبرکت ہے کہ تمہارے سارے اعمال میرے پاس پیش کیے جاتے ہیں۔(المطالب العالیہ ج ۴ ص ۲۲ حدیث ۳۵۸۳ ۔ المطالب العالیہ ج ۴ ص ۲۲ ، ص ۳۵،۸۳ ۔ اس بارے اور روایات بہت زیادہ ہیں ۔دیکھیں:۔جامع الاصول ج ۶ ص ۸۴۲ ص ۳۹۴ ،الرسائل المبشرہ للسیوطی ص ۸۹۱ ، السنن الکبریٰ ج ۳ ص ۹۴۲ ، الفردوس بانوارالخطاب ج ۲ ص ۸۳۱ حدیث ۱۰۷۲ ،صلح الاخوان ص ۵۷)

اعمال کا امام کے پاس جانے کے بارے

اس باب میں چند روایات پر اکتفاءکیا گیا ہے یہ بات ہمارے مسلمہ عقائد میں سے ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے پاس ہمارے اعمال لے جائے جاتے ہیں، اس بارے تفصیلات عقائد کی بڑی کتابوں میں موجود ہیں اس کی چندصورتیں ہیں جو کچھ روایات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

۱: ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے لئے اللہ کی جانب سے احاطہ علمی ہے کہ کائنات کی ہرشی کا علم امام کے پاس موجود ہوتاہے اور روزانہ کے اعمال کا علم اور اشیاءمیں ردوبدل کا علم جزئیات و کلیات کا علم امام کے لئے حاصل ہے، سورہ یٰسین میں آیت ”( کُلُّ شَی اَحصَینَاهُ فِی اِمَامٍ مُبِّین ) “ (سورہ یٰسین آیہ ۲۱) کی تفسیر میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کی توقیعات میں بھی ہے کہ آپ بندگان کے تمام اعمال بارے احاطہ علمی رکھتے ہیں اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔

۲: ۔ فرشتے مامور ہیں جو باقاعدہ ہر آدمی کے اعمال نامہ کو آپ کے پاس لے آتے ہیں ہر روز ایسا ہوتا ہے یا ہر شب جمعہ کو ہوتا ہے، سارے اعمال روزانہ پیش ہوتے ہیںیا ہفتہ میں ایک بار پیش ہوتے ہیں اس بارے تفصیلی بحث عقائد کی کتابوں میں موجود ہے اور یہ وہ فرشتے ہوتے ہیں جو ہر آدمی پر اس کے اعمال لکھنے پر مامور ہوتے ہیں یعنی ہر شخص کے اعمال کی رپورٹ اس شخص پر متعین فرشتے امام زمانہ (عج) کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر امام علیہ السلام کی ہدایات کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔

۳: ۔ ایک بڑا ہی جلیل القدر فرشتہ ہے جس کا نام روح القدس ہے جس کی ڈیوٹی آئمہ علیہ السلام پر ہے وہ ہر امام کی خدمت میں موجود رہتا ہے، امام کی حفاظت کرتاہے، امام کی ضروریات پوری کرتاہے، امامعلیہ السلام کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے آج کی اصطلاح میں وہ ہر امام علیہ السلام کے لئے خصوصی سیکرٹری کا درجہ رکھتاہے۔

اس سے زیادہ خاص اور کوئی نہیں ہے وہ ہر امام کے بارے مکمل آگاہ ہوتا ہے اور امام کے ہر حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو امام تک لے آتا ہے، الٰہی علوم کو بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے امام علیہ السلام کی طرف منتقل کرتاہے۔گویا تازہ اورباقاعدہ معلومات امام علیہ السلام تک ساری کائنات کے بارے پہنچانا اس کی ذمہ داریوں سے ہے پس یہ روح القدس ہے جو امام علیہ السلام کی خدمت میں بندگان میں سے ہر ایک کے بارے تفصیلی معلومات پہنچاتا رہتا ہے، اس کی مزیدتفصیلات عقائد کی کتابوںمیں دیکھیں۔

تیسرافائدہ:۔ امام مہدی علیہ السلام کے موجودہونے سے اللہ کی عبادت ہو رہی ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو خلق فرمایا ہے تو یہ زمین اللہ کی حجت اور نمائندگی سے خالی نہیں رہی یا تو وہ حجت ظاہر اًموجود تھی یا پھر پردہ میں پوشیدہ موجود تھی یہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہو گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اگر زمین پر اللہ کی حجت موجود نہ ہو تو پھر اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔اللہ تعالیٰ کی عبادت حجت کے وجود کی وجہ سے ہے۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۲۹)

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ایک بہت ہی اہم حقیقت کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ کی عبادت کرنا توقیفی اور تعبدی ہے، اللہ تعالیٰ بندگان سے یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ جس طرح چاہیں عبادت کریں ، وہ چاہتا ہے کہ وہ عبادت اس طرح کریں جس طرح وہ خود چاہتا ہے، اسی طریقہ پر عبادت کریں جو اس نے عبادت کے لئے بنایا ہے اسی کیفیت اور ترتیب سے عبادت کریں جس طرح اس نے قرار دی ہے عبادت کی شرائط اس کی تفصیلات سب اللہ کی جانب سے معین ہیں کسی کو اس میں اپنی مرضی سے ردو بدل کا اختیار نہیں ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاءکو اپنی رحمت سے دور کر دیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اللہ کی عبادت کرنے کی ٹھان لی تھی۔

( وَاتلُ عَلَیهِم نَبَاَالَّذِی اَتَینٰهُ اَیٰتِنَا فَان سَلَخَ مِنهَا فَاَتبَعَهُ الشَّیطٰنُ فَکَانَ مِنَ الغٰوِینَ وَلَو شِئنَا لَرَفَقنٰهُ بِهَا وَلٰکِنَّهُ اَخلَدَ اِلَی الاَرضِ وَاتَّبَعَ هَوٰئهُ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الکَل بِاِن تَحمِل عَلَیهِ يلهَث اَو تَترُکهُ یَلهَث ذٰلِکَ مَثَلُ القَو مِ الَّذِینَ کَذَّبُوابِاَیَتِنَا فَاقصُصِ القَصَصَ لَعَلَّهُم یَتَفَکَّرُونَ )

”اور (اے رسول)تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخر کار وہ گمراہ ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہیں آیتوں کی بدولت بلندمرتبہ کر دیتے مگر وہ توخود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ہے کہ اگر اس کو دھتکاردو تو بھی زبان نکالے رہے اور اس کوچھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے یہ مثل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔اے رسول یہ قصے ان لوگوں سے بیان کردو تاکہ یہ لوگ خود بھی غور کریں“(سورہ اعراف آیت ۵۷۱ تا ۶۷۱)

روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بلعم نامی شخص اولیاءاللہ سے تھا وہ عرش الٰہی کا نظارہ کرتا تھا اس کی دعا قبول ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ، کیونکہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر اعتراض کر دیا اور ان کے ساتھ حسد کیا اور یہ کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں میں یہ عبادت اپنے طریقہ پر کروں گا اس طریقہ پر عبادت نہیں کروں گا جو موسیٰ علیہ السلام نے تعلیم دیاہے اس نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہی اور اللہ تعالیٰ کی حجت اور نمائندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طریقہ کو اختیار کرنے سے انکار کردیا۔(تاریخ المدینہ ج ۱ ص ۵۵)

پس اللہ کی عبادت ان شروط کے ساتھ ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں اس میں بندے کی مرضی شامل نہیں ہے۔

نماز پڑھنے کا طریقہ توقیفی ہے

(ازمترجم....نماز اسی طرح اور اسی کیفیت اور ان ہی اذکار و تسبیحات و قرائت و دعا کے ساتھ پڑھنی ہے جو اللہ کی طرف سے بیان ہوئی ہے کوئی اپنی مرضی سے مستحبی نمازوں کے لئے باجماعت پڑھنے کا حکم دے دے تو یہ عبادت اللہ کو قبول نہیں ہے اور کوئی نماز کے تشہد سے درود شریف کو نکال دے یا رسول اللہ پر درود پڑھے اور آل پر نہ پڑھے یہ اللہ کو قبول نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی اپنی مرضی سے اور بغیر کسی مضبوط شرعی ثبوت اور حوالہ سے تشہد میں دوسری گواہی کے ساتھ تیسری گواہی علی علیہ السلام مولا کی ولایت کی شروع کر دے ، علی علیہ السلام کی ولایت برحق ہے اور علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام کی ولایت اور محبت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہے اس شخص کی عبادت جس میں محمد وآل علیہ السلام محمد سے محبت نہیں اس کے منہ پر مار دی جائے گی اور خدا کو بغیر محبت علی علیہ السلام والی عبادت قبول نہیں، لیکن علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کس جگہ کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے یہ بندے کے اختیار میں نہیں یہ اللہ کے اختیار میں ہے لہٰذا نماز میں دو گواہیوں کے بعددرود پڑھنے کا حکم ہے درمیان میں تیسری چوتھی پانچویں بہت ساری اور شہادتیں ہیں جن کے کہنے اور اقرار کرنے کا حکم ہے ان سب شہادات کو نماز کی حالت میں دینے کا حکم نہیں ہے پس اپنی مرضی سے تیسری شہادت شامل کرنے پر خداکو یہ عبادت قبول نہ ہو گی کیونکہ خدا اس عبادت کو قبول کرتا ہے جس عبادت کو اسی طرح انجام دیا جائے جس طرح اس نے خود فرمایا ہے مومنین اس امر پر توجہ کریںکیونکہ نمازکی حیثیت ترکیبی اور اس کے اذکار اور اوراد توفیقی ہیں اللہ کی طرف سے طے شدہ ہیں اس میں کمی یا زیادتی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ اللہ کی عبادت معصوم کی موجودگی کے بغیر نہ ہو گی، اللہ کی عبادت کے لئے ہر زمانہ میں ایک معصوم امام علیہ السلام کی موجودگی ضروری ہے ، کیونکہ وہی امام معصوم بندگان اور اللہ کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اگر وہ واسطہ موجود نہ ہوگا تو اللہ کی عبادت نہ ہوگی۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کا اہم تشریعی اثر

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس کے اہم آثار اور فوائد میں یہ انتہائی اہم تشریعی اثر اور فائدہ ہے۔

الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔

بتحقیق! اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلق فرمایا ہے اور ہمیں اپنے بندگان میں اپنی آنکھ قرار دیاہے،اپنی مخلوق میں ہمیں اپنی بولنے والی زبان قرار دیا ہے، اپنے بندگان کے سروں پر ہمیں اپنی رحمت و شفقت و کرم و فضل کا پھیلا ہوا ہاتھ بنایا ہے اور ہم ہی اللہ کا وہ رخ انور ہیں جس کی جانب توجہ کر کے خدا تک پہنچا جاتا ہے خدا سے وصل ہو جاتا ہے اور ہم ہی اللہ کا وہ دروازہ ہیں جس کے ذریعہ خدا کے پاس جانا ہوتاہے....اور ہماری عبادت کی وجہ اوروسیلہ سے اللہ کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم موجود نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔(الکافی ج ۱ ص ۴۴۱ ، باب النوادر)

یعنی آئمہ اطہار علیہم السلام اللہ کی عبادت کرنے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں، ایک واسطہ کاموجودہونا خدا اور بندگان کے درمیان ضروری ہے جو اللہ کی مرضی اور منشاءکو بندگان سے بیان کرے اور بندگان اس کے بیان کردہ دستور کے مطابق اللہ کی عبادت کریں اگر ایسا واسطہ نہ ہو گا تو پھر بندگان کو کس طرح پتہ چلے گا کہ ان کا رب ان سے کس قسم کی اور کس طرح کی کس کیفیت اور شرائط کے تحت ہم سے عبادت چاہتا ہے۔

آئمہ علیہم السلام نے خود عبادت کا طریقہ بیان کیا، اللہ کی عبادت کر کے دکھائی اور اللہ کی عبادت کے طریقے تفصیل سے بیان بھی کئے تو اس سے پھربندگان کو پتہ چلا کہ ہم نے اللہ کی اس طرح عبادت کرتا ہے ، پس اللہ کی عبادت آئمہ علیہم السلام کے وجود سے مشروط ہے اوریہ عبادت اس لئے ہو رہی ہے کہ حضرت ولی العصر علیہ السلام زمین پرموجود ہیں....ازمترجم)

دعاءندبہ میں یہ جملے موجودہیں:

”اے اللہ! ہماری نمازوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ اور واسطہ سے قبول کرلے(یعنی قبولیت نماز کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کا واسطہ اور وسیلہ ضروری ہے....مترجم)ہمارے گناہوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے صدقہ میں بخش دے، امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے ہماری دعا قبول کر لے، ہماری روزی کو امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے بڑھا دے، ہمارے غموں اور پریشانیوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے بابرکت وجود کے صدقہ میں ٹال دے اور ہماری ساری حاجات کو امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے پورا کر دے“۔

پس نماز کاقبول ہونا، دعا کا منظور ہونا، پریشانیوں کا دور ہونا، حاجات کا پورا ہونا، حضرت مولانا صاحب العصر والزمان امام مہدی علیہ السلام کے وجود ذیجود کے تشریعی آثار اور فوائد سے ہے۔(خدا ہمیں ان کی ساری برکات اور مہربانی نصیب کرے۔آمین)

چوتھافائدہ:۔ بندگان کی ہدایت

تمام اہل ایمان کی ہدایت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے نور کی روشنی اورضیاءکے صدقہ میں ہو رہی ہے یہ ان فیوض و برکات کے علاوہ ہے جو آپ علیہ السلام نے اپنی توقیعات اور خطوط کے ذریعہ احکام بیان فرمائے اور فقہاءکی راہنمائی کی۔

آپ علیہ السلام نے جو تحریر شیخ مفید کو بھیجی اس میں یہ جملہ موجود ہے:

”ہم نے تمہاری مراعات کو ایسے نہین چھوڑا ہوا اور بے توجہی کے سپرد تمہارے معاملات نہیں ہیں، تم ہمیں یاد ہو اور ہم نے تمہارا ہر لحاظ سے خیال رکھا ہوا ہے اگر ہماری عنایات تمہارے لئے نہ ہوتیں تو تمہارے اوپر مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے اور ظالموں کا تم شکار بنتے، دشمن تمہارا صفایا کر دیتے“۔(الاحتجاج ،ج ۲ ص ۳۲۳)

احتجاج میں ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ شیعوں کی ایک جماعت میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آئمہ علیہ السلام کے سپرد رزق اور خلق کے معاملات کر دیئے ہیں اوران کے ذمہ ہے کہ وہ خودخلق کریں اورخودمخلوق کورزق دیں۔

ایک گروہ نے یہ نظریہ اپنایا کہ یہ بات محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کیونکہ اجسام خوداجسام کو خلق کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، یہ قدرت فقط اللہ کے لئے ہے غیر اللہ کے لئے نہیں ہے، دوسرے گروہ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ آئمہ علیہم السلام کو یہ قدرت خود دی ہے کہ وہ ایسا کریں پس اللہ نے معاملہ ان کے سپرد کر دیاہے پس انہوں نے خلق کیا اور انہوں نے رزق دیا اس بارے بہت شدید جھگڑا کھڑا ہو گیاان میں سے کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ تم اس بارے آپس میں لڑتے جھگڑتے کیوں ہو؟

ابوجعفر محمد بن عثمان کے پاس یہ سوال کیوں نہیں لے جاتے تاکہ اس بارے تمہارے لئے حق واضح اور روشن ہو جائے کیونکہ وہ اس وقت جب حضرت صاحب الزمان علیہ السلام تک رسائی کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں، پس انہوں نے اس پر اتفاق کر لیا اور ابوجعفر کے پاس ساری صورتحال لکھ بھیجی تو جب ان کو خط ابوجعفر کے وسیلہ سے امام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ علیہ السلام کی طرف سے جو جواب آیا وہ اس طرح ہے۔

بتحقیق اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اجسام کو خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے ارزاق(روزیاں) تقسیم کی ہیں کیونکہ اللہ جسم نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کسی جسم میں حلول کئے ہوئے ہے اور اللہ کی مثال کوئی بھی چیز نہیں ہے اور اللہ سمیع و بصیر ہے(اس سے یہ اشارہ دیا گیا کہ اجسام کو وہی خلق کر سکتا ہے جو خود جسم نہ ہو، جسم میں حلول بھی نہ کیا ہو، اس کی مثال کوئی نہ ہو سمیع وبصیرہو)باقی بات رہی آئمہ علیہم السلام کی(جو اللہ کے اللہ کی زمین پر نمائندگان ہیں)تو وہ اللہ سے سوال کرتے اور اللہ خلق فرمادیتا ہے وہ اللہ سے سوال کرتے ہیں تو اللہ روزی دے دیتا ہے اللہ ان کے سوال کو پورا کرتا ہے اور ان کے حق کو عظمت اور بزرگی دیتاہے۔(الاحتجاج ج ۲ ص ۴۸۲ ، توقیعات الناحیہ المقدسہ)

اس باب میں بہت سارے واقعات ہیں کہ آپ بعض بندگان کو دعائیں تعلیم دیں، مناجات کے طریقے بتائے، توسل کرنے کاانداز بتایا(خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام پردہ غیبت میں رہتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا سامان مہیا کئے ہیں جہاں ضرورت پڑی براہ راست ہدایت فرما دیتے ہیں اور جہاں پر چاہتے ہیں بالواسطہ ہدایت کردیتے ہیں، آپ ہدایت کا منبع ہیں آپ کے وجود مقدس کی نورانی شعائیں جہالت و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں اور تاریکیوں میں ہدایت کا سامان ہیں اور صراط مستقیم پر برقرار رکھنے کا وسیلہ ہیں۔(ملاحطہ ہو۔النجم الثاقب، مفاتیح الجنان)

پانچواں فائدہ:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے تربیتی دروس اور آپ علیہ السلام کے آداب

کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنے ذرائع سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر خطبہ دیا اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”اے اللہ! ضروری ہے کہ تیری زمین پر تیری حجت تیری مخلوق پر موجود ہو جو انہیں تیری جانب ہدایت دے اور تیرا علم ان تک پہنچائے تاکہ تیری دلیل جو ہے وہ باطل نہ ہو جائے اور تیرے اولیاءکے پیروکار گمراہ نہ ہوجائیں جب کہ تو نے انہیں ان کے ذریعہ سے ہدایت دے دی ہے، ہدایت لینے کے بعد گمراہ نہ ہو جائیں بوجہ اس کے کہ تیری حجت موجود نہ ہو تیری زمین پر یاتو تیری حجت ظاہر اورصاف ہو گی لیکن اس کی اطاعت نہ ہو رہی ہو گی یا تیری حجت پردہ میں انتظار کر رہی ہوگی، اگر وہ لوگوں سے حضوری کے لحاظ سے غائب ہو گا لیکن ان لوگوں سے اس کا علم غائب نہ ہو گا یعنی امام غائب کا علم لوگوں میں موجود رہے گا اور ان کے تربیتی دروس اور آداب زندگی مومنوں کے دلوں میں ثابت و موجود اورقائم ہوں گے اور وہ لوگ ان آداب کے مطابق عمل کر رہے ہوں گے۔(کمال الدین ج ۱ ص ۲۰۳ ، باب ۶۲ حدیث ۱۱)

الاصفہانی نے آداب کے معنی میں تحریر کیا ہے، آداب ادب کی جمع ہے جیسا کہ القاموس میںبیان ہوا ہے اس کا معنی حالت اور عادت کے ہیں۔

تو اوپر والے بیان کا معنی یہ ہو گا کہ ان کی عادات اور ان کے پسندیدہ اوصاف مومنوں کے دلوں میں موجود ہوں گے جو سبب بنیں گے کہ وہ ایسا عمل کریں جو امام علیہ السلام کی پسند ہو اس بناءپر کہ وہ علت اور وجہ بیان کرنے کے لئے موجودہیں۔

یا اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے آداب مومنوں کے دلوں میں قائم ہوں گے یہ مومنین ایسے اعمال کریں گے جو امام علیہ السلام کے آداب اورآپ کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہوں گے تو اس صورت میں عربی عبارت میں موجوداللام کو بائ(وسیلہ) کے معنی میں لیں گے جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ مومنین امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اعمال صالحہ کو بجا لائیں گے تاکہ اس طرح وہ امام علیہ السلام کے آداب سے تربیت لے سکیں اور خود کو امام علیہ السلام کی صفات سے آراستہ کر یں اس صورت میں اللام غرض اور غایت کے معنی میں ہوگا، جو بھی ہو مطلوب و مقصود ثابت ہے کہ مومنوں کی صفات سے یہ ہے کہ ان کا دل و دماغ اور افکار میں امام غائب کے تربیتی دروس اور آداب موجود ہوں ان کے ایمان کے لوازمات سے ہے اس پر گواہ یہ بات ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام امام غائب حضرت امام مہدی علیہ السلامکے آداب آپ علیہ السلام کی صفات، آپ علیہ السلام کے اعمال کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ آپ علیہ السلام کے زمانہ والے مومنین ان صفات اور خصوصیات کو اپنے دلوں میں بٹھائیں خٰود کو ان صفات اور آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ علیہ السلام کے لئے ہیں آپ علیہ السلام کے آداب میں کیچھ امتیازی خصوصیات موجود ہیں جو باقی آئمہ علیہ السلام کے ادوار میں موجود نہ تھیں۔

یہ سب کچھ نہیں ہے مگر اس لئے کہ ان کی صفات کی معرفت حاصل کی جائے ان کی خصوصیات کو جانا جائے، اس کی وجہ بھی بڑی واضح ہے کہ آپ علیہ السلام جیسی ہستی کی غیبت میں آپ کے منصب کے جھوٹے دعوے داروں کی پہچان ہو سکے۔

پس ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام بارے ان کی خصوصی صفات، ان کے رہن سہن کے خصوصی آداب زندگی، ان کی عملی زندگی، سیرت و کردار، اخلاقیات سب کی معلومات رکھنا۔ تاکہ اگرکوئی ملحد اس منصب کا دعویٰ کر بیٹھے تواس کے حق پر ہونے کے بارے ذرا برابربھی شک و خیال دل میں نہ آئے۔

(مکیال المکارم ج ۲ ص ۵۹ حدیث ۸۵۱۱)