حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں0%

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 25931
ڈاؤنلوڈ: 4251

تبصرے:

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25931 / ڈاؤنلوڈ: 4251
سائز سائز سائز
حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

حضرت امام زمانہ (عج)کی حکومت میں اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار، حکومتی پالیسیاں

روایات جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف کو بیان کرتی ہیں ان میں بہت سارے اہداف کو ذکر کیا گیا ہے اور پھر ان کی تطبیق اور نفاذ کی بات کی گئی ہے لیکن یہ اہداف کتنی مدت میں حاصل ہوں گے اس کا ذکر موجود نہیں ہے اور کیسے ان اہداف کو حاصل کیا جائے گا اسے ہم پانچویں فصل میں بیان کریں گے۔اہداف کے حصول میں کتنا وقت لگے گا تو اس کا تعلق اس اسلوب اور طریقہ کار سے ہے جو اختیار کیا جائے گا ۔

مثال کے طور پر براعظم افریقہ میں اسلامی حکومت قائم کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے علمی اور ثقافتی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کے لئے ایک معین عرصہ درکار ہے اور اگر جنگی طریقہ ہو گا تو پھر اس کے لئے وقت کم درکار ہوگا اسی طرح باقی اہداف کے بارے ہے۔

ہماری اس جگہ گفتگو کا مقصد اہداف کے تحقق کی مدت کا تعین نہیں ہے نہ ہی یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کتنے سال لگیں گے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ ان سالوںمیںاستعداد اور قابلیت کی مدت بارے جو امراس استعداد کی نوعیت، کیفیت اور حجم پر اثر انداز ہو گی اس کا ذکر کرنامقصود ہے۔

مثال:ایک بستی میں اسلامی قانون نافذ کرنے کے لئے ایک مہینہ کی ضرورت ہے تو اس میں دو جج ضرورت پڑیں گے ایک سوسپاہی کی ضرورت ہوگی لیکن اس بستی میں ایک سال وقت درکار ہو تو پھر وہ تعداد ناکافی ہے نتیجہ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا اور سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھانا ہوگی۔

اس اعتبار سے اس فصل کا اور بعد والی فصول کا باہمی ربط اور تعلق ہے اوران دونوںابواب کے مطالب پچھلی فصل میں جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس پر بھی اثر پذیر ہوں گے۔

اہداف

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔

۱ ۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا نفاذ

۲ ۔ اسلامی حکومت کا قیام

۳ ۔ عدالت کا عام کرنا ظلم و جور کا خاتمہ

پہلا ہدف:۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا نفاذ

اللہ کے قانون کا نفاذ اسلامی حکومت ہی میں ہو سکتا ہے وہ اس طرح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بعض احکام اور قوانین کا نفاذ مراد ہو اور وہ بھی محدود جگہ پر اور محدود وقت کے لئے تو پھر کسی حکومت کو تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری بحث یہ ہے کہ سارے احکام کا نفاذ ہو اور غیرمعین مدت کے لئے اور زمین کے ہر کونے پراسلامی قوانین رائج ہوں۔

جی ہاں!امام علیہ السلام کے ظہور کے آغاز میں اور امام علیہ السلام کے سارے اہداف کے پورے ہونے سے پہلے ایک زمنی مرحلہ ہو گا جس میں اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہو گا اور وہ بغیر حکومت کے قیام کے ہوگا اوروہ نفاذ محدود علاقوں میں ہوگایہ اسی حوالے سے ہے کہ امام علیہ السلامکا پہلا ہدف اللہ کے قانون کا نفاذ ہے۔

حضرت امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے احکام کی نوعیت

امام علیہ السلام جن احکام اور قوانین کا نفاذ کریں گے وہ ظاہری احکام ہوں گے یا واقعی حقیقی اور اصلی احکام ہوں گے؟اس اعتبار سے کہ وہ اصلی احکام کا نفاذ کریں تو اس میں ماضی کے حوالے سے بھی فیصلے کئے جائیں گے یا نہیں؟ جوواقعہ گذر چکا ہے اور جس جرم کا ارتکاب پہلے کیا جا چکا ہے اس حوالے سے عام معافی دے دی جائے گی؟ موجودہ حال اور مستقبل میں اصلی احکام کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا؟امام علیہ السلام کے لئے اصلی احکام کی پابندی کیوں ضروری ہے؟ اور اس سے ہدف کیا ہے؟

پشیمانی سے پہلے تنبیہ، خبردار کرنا

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس بات پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اسے پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے لوگوں کے دلوں میں رعب ڈالا جائے اور نہ ہی اس کی تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ کس طرح عمل کریں گے۔ بلکہ یہ تو خبردار کرنا ہے کہ شرعی احکام کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور شرعی احکام کی پابندی پر اکسایا اور آمادہ کیا جائے تاکہ انسان بعد میں پشیمان نہ ہو کیونکہ اس وقت اصلاح کا موقع ہی نہ ملے گا یا اس حالت سے واپس آنے کا وقت ہی نہ رہاہوگا۔

جو شخص امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے یہ بات جانتا ہوکہ امام علیہ السلام اسے رسوا کر دیں گے اس کے اموال جن کا ظاہری طور پر وہ مالک ہے اور ظاہری دستاویزات بھی اس کے پاس موجودہیں لیکن اصلی مالک وہ نہیں، غیر شرعی طریقہ سے اس کے پاس یہ اموال آئے ہوئے ہیں، اس کے پاس انہیں نہ چھوڑا جائے گا جو شخص اس بات سے واقف ہے کہ اس کی بیوی کو اس سے الگ کر دیا جائے گا جو اصل میں اس کی بہن ہے یا ایسی عورت سے اس کی شادی ہوچکی ہے جو پہلے سے شادی شدہ تھی تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اور اس منکر سے بچ جائے گا۔

اسی طرح کے بہت سارے اعمال ہیں جن کا انسان ارتکاب کرتا ہے چھپ کر اور امام علیہ السلام جانتے ہیں کہ اس نے ان جرائم کا چھپ کر ارتکاب کیاہوا ہے ۔

بعض کا ارتکاب اس نے جان بوجھ کر کیا ہوتا ہے اور بعض کے بارے اسے معلوم ہی نہیں اور وہ جرم کر چکا ہوگا۔ امام علیہ السلام اس کے اعمال سے اس وقت واقف تھے جس وقت اس نے وہ اعمال انجام دیئے تھے کیونکہ اس کے اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں تو یہ شخص خلاف کاریوں سے بچے گا۔

امام علیہ السلام اصل اور واقعیت کے مطابق فیصلہ دیں گے

روایات میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام آل داود علیہ السلام کی مانند فیصلے دیں گے جو واقعیت اور اصلیت پر مبنی ہوں گے ۔ کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی سند سے، ابان بن تغلب سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت امام ابوعبداللہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: عنقریب تمہاری مسجد میں ۳۱۳ آدمی آئیں گے یعنی مکہ کی مسجد میں، مکہ والے جانتے ہوں گے کہ یہ سارے لوگ انکے شہر سے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے آباو اجداد اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کے پاس تلواریں ہوں گی ہر تلوار پر ایک لفظ لکھا ہوگا جس سے ایک ہزار نقطہ(کلمہ)لکھیں گے(ظاہر ہے اس سے مراد مخصوص قسم کا بٹن یا چابی مراد ہے جیسا کہ کمپیوٹر کے لئے ”کی بورڈ“ استعمال ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کچھ اور مراد ہو)اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا اور اس میں سے آواز دی جائے گی ”یہ مہدی علیہ السلام ہیں داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام جیسے فیصلے دیں گے ان فیصلوں کے لئے گواہ طلب نہیں کریں گے۔“

(کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۶ باب ۸۵ ذیل ۹۱)

اسی کتاب میں مزید بیان ہواہے:

حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت قائم علیہ السلام ظہورفرمائیں گے کوئی شخص بھی رحمن کی مخلوق سے ان کے سامنے نہیں آئے گا مگر یہ کہ آپ علیہ السلام اسے پہچان لیں گے کہ وہ نیک ہے یا بد ہے کیونکہ اس میں متوسمین( )کے لئے نشانی ہے اوریہی سبیل مقیم( )ہے

(کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۶ باب ۸۵ ، ذیل ۰۲)

بحارالانوار میں کتاب الغیبہ تالیف علی بن عبدالحمید سے اپنی سند سے نقل ہے کہ ابوبصیر نے حضرت ابوجعفر باقر علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: حضرت قائم(عج)بعض واقعات بارے ایسا فیصلہ سنائیں گے کہ جن لوگوں کی جانب وہ واقعات منسوب ہوں گے وہ انکار کر دیں گے بلکہ آپ علیہ السلام کے بعض ایسے ساتھی بھی انکار کر دیں گے جنہوں نے آپ کے حکم پرتلوار چلائی ہو گی جب کہ آپ کا فیصلہ تو حضرت آدمعلیہ السلام کے فیصلہ کے مطابق ہوگاجس کے نتیجہ میں آپ ان کے خلاف بغاوت کا جرم عائد کریںگے اور ان کی گردنیں اڑادیں گے اس کے بعد آپ دوسرا فیصلہ سنائیںگے تو اس کا بھی ایک جماعت انکار کر دے گی یہ بھی ان میں سے ہوں گے جنہوں نے آپ علیہ السلام کے سامنے تلوار چلائی ہو گی اور یہ داود علیہ السلام جیسا فیصلہ ہو گا پس آپ انہیں سامنے لائیں گے اور ان کی گردنیں بھی اڑا دیں گے پھر تیسرا فیصلہ دیں گے کہ اس کا بھی ایک جماعت انکار کر دے گی یہ بھی وہ ہوں گے جنہوں نے آپ کے سامنے تلوار چلائی ہو گی یہ فیصلہ حضرت ابراہیم علیہ السلام والا فیصلہ ہوگا پس آپ انہیں سامنے لائیں گے اور ان کی گردنیں اڑا دیں گے پھر چوتھا فیصلہ دیں گے اور وہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا فیصلہ ہوگا تو پھر اس کا کوئی انکار نہ کرے گا۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۹۸۳ ، باب ۷۲ ذیل ۷۰۲)

اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ساتھ دینے والے ایسے ہوں گے جنہوں نے کچھ جرائم کا ارکتاب کیا ہوگا جس وقت باقاعدہ اسلامی عدالت لگے گی اور سابقہ جرائم کی سماعت شروع ہو گی تو ان کے بارے حضرت امام مہدی علیہ السلام یہ فیصلہ سنائیں گے تو ان کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کر دیں گے اور بغاوت پر اتر آئیں گے جن کے ساتھ امام علیہ السلام کوئی رعایت نہ کریں گے اور انہیں باغی کی سزا دی جائے گی جب کہ ان میں سے بعض ایسے افراد ہوں گے جن کا تعلق آپ کے ہمراہ جنگی محاذ پر لڑنے والوں سے بھی ہوگا لیکن آپ احکام الٰہی کے نفاذ میں کسی قسم کی نرمی نہیں کریں گے۔(مترجم)

الکافی میں صحیح سند سے عمار الساباطی کی روایت ہے۔

راوی: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے سوال کیا کہ اگر آپ علیہ السلام کی حکومت ہو تو آپ علیہ السلام فیصلے کس طرح دیں گے؟

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اوراللہ کی معین کردہ حدود کے مطابق فیصلے دیں گے اگر ہمارے پاس کوئی ایسافیصلہ آئے کہ اس کا ریکارڈ موجود نہ ہو تو روح القدس ہمارے پاس اس کی تفصیل لے آتاہے(پھر اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتاہے)۔(اصول کافی ج ۲ ص ۷۹۳)

٭اصول الکافی میں صحیح سندسے آبان کی روایت ہے۔

ابان: میں نے حضرت اباعبداللہ علیہ السلام سے سنا، آپ علیہ السلام نے فرمایا:

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: دنیا ختم نہیں ہوگی مگر یہ کہ میری اولاد سے ایک مرد خروج کرے گا جو آل داود علیہ السلام کی حکومت جیسے فیصلے کرے گا اوروہ فیصلہ دیتے وقت گواہ نہیں لیں گے ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے گا۔(اصول الکافی ج ۲ ص ۷۹۳)

٭الدیلمی نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ بیان نقل کیا ہے ۔

امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے تو لوگوں کے درمیان داود علیہ السلام جیسے فیصلے دیں گے گواہوں کی ضرورت نہ ہو گی اللہ انہیں الہام کرے گا اور وہ اسی کے مطابق فیصلے دیں گے۔ ان کے فیصلے ان کے اپنے علم کے مطابق ہوں گے وہ ہر جماعت کو اس بات کی خبر دیں گے جوبات ان کے اندرکی ہو گی جس بات کو انہوںنے چھپا رکھا ہو گا اور آپ اپنے دوست کو اپنے دشمن سے خاص نشانی کے ذریعہ پہچان لیں گے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”( اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّلمُتَوَسِّمِینَ وَاِنَّهَا لَسَبِیلٍ مُّقِیمٍ ) (سورة الحجر آیت ۵۷،۶۷)

(بحارالانوارج ۲۵ ص ۹۳۳ باب ۷۲ ذیل ۶۷)

سوال: اگرچہ یہ پوچھا جائے کہ کیا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فیصلوں میں غلطی کرتے تھے جب کہ آپ جو فیصلہ دیتے وقت گواہوں کو طلب کرتے تھے اورگواہوں کی گواہی کی روشنی میںفیصلہ دیتے تھے اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فیصلے دیا کرتے تھے؟

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ گواہوں کی گواہی دینا غلط کام نہیں ہوتا،کیونکہ گواہوں کے لئے شرائط ہیں جن شرائط کی ان میں موجودگی ضروری ہے جیسے گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عادل ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، معتمد ہو، یابعض کیسوںمیں دو گواہوں کایا چار گواہوں کا ایک ہی بات پر متفق ہونا، اسی ایک ہی واقعہ پراور یہ کہ ایک ہی وقت ہو اور اس کے علاوہ گواہی میںخصوصیات ہیںجن کا لحاظ ضروری ہے۔ یہ ساری شرائط وقیود گواہوں کی غلط گواہی کے امکان کو بہت ہی کم کر دیتی ہیں ایک عام قاضی اور حاکم جو ذہین و فطین ہے، سمجھدار ہے، جو گواہی کو سن رہا ہے تو اس سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے چہ جائیکہ جب وہ گواہ ایک معصوم کے سامنے کسی واقعہ کی گواہی دے رہے ہوں تو یقینی امر ہے کہ غلطی یا توبالکل ہوگی نہیں اور اگر احتمال کی بات کریں تو بہت ہی کمزور اور ضعیف احتمال ہے کہ گواہی غلط دی گئی ہو اور معصوم نے اس گواہی کے مطابق فیصلہ دے دیا ہو۔(جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی فقط ایک فرضی احتمال میں ہے۔مترجم)

دوسری بات: اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءعلیہ السلام اور اپنے اولیاءکی حفاظت عن الخطاءدنیا میں فرما دی ہے اور انہیں معصوم بنایاہے۔

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

”اے ایماندارو!خدا سے ڈرو اور اس کے رسول(محمد) پر ایمان لاو تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا جس(کی روشنی) میں تم چلو گے اور تم کو بخش بھی دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے“۔

(سورہ حدید آیت ۲۸ ، پارہ ۷۲)

( أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ )

”کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور بنایا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں(بے تکلف)چلتا پھرتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ (ہرطرف سے)اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا(جس طرح مومنوں کے واسطے ایمان آراستہ کیا گیاہے)اسی طرح کافروں کے واسطے ان کے اعمال(بد)آراستہ کر دیئے گئے ہیں“۔

(سورہ الانعام آیت ۱۲۲ ، پارہ ۷)

( أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

”تو کیا وہ شخص جس کے سینہ کو خدا نے (قبول)اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار (کی ہدایت)کی روشنی پر(چلتا)ہے(گمراہوں کے برابر ہو سکتاہے)افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کے دل خدا کی یاد سے(غافل ہوکر)سخت ہو گئے ہیں“(سورہ الزمر آیت ۲۲ ۔پارہ ۳۲)

انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءعلیہ السلام پر فرشتوں کا نزول اس لئے ہوتا ہے کہ وہ کہیں غلطی نہ کریں، انہیں خطاءسے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ فرشتے ان کے واسطے ایک مخیرکا کردار ادا کرتے ہیں اور انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءعلیہ السلام اللہ کو تمام حالات سے باخبر رکھتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہے ناپسندیدہ(مکروہ) افعال سے بھی انہیں دور رکھا جاتا ہے یہ بات قرآنی آیات سے نص اور واضح بیان ہے کہ انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءاللہ علیہ السلام خطا سے محفوظ ہوتے ہیں۔

آخری آیت جو ہے وہ مختلف واقعات میں فیصلہ صادر کرنے کے بارے ہے کیونکہ عام طور پر استقامت کا عنوان حاکم اور جج کے لئے بولا جاتاہے۔

لغت کی کتاب الصبحاح میں استقامت کا لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ”استقام اله الامر “ یعنی اس کا مقابلہ اپنی جگہ پر درست ہو گیا اس میں کوئی سقم اور خرابی نہیں رہی۔(الصحاج ج ۵ ص ۷۱۰۲)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے( وَاستَقِم کَمَا اُمِر تَ وَلَاتَتَّبِع اَهوَائهُم ) (شوریٰ ۵۱)

استقامت دکھاو جیسا کہ تمہیںحکم دیا گیا ہے اورلوگوں کی خواہشات کی پیروی مت کرو

ابن العربی نے اپنی کتاب احکام میں ”تنزل الملائکة“ کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ مفسرین کہتے ہیں کہ موت کے وقت فرشتے اترتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہر روز فرشتے اترتے ہیں۔(تفسیر العالی ج ۵ ص ۶۳۱)

علامہ الطباطبائی نے اس آیت بارے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان مومنین سے خاص ہے جو دوسروں سے ایمان کے درجات میں ممتاز ہیں اور جوصفات انہیں عام مومنوں سے الگ کرتی ہیں۔(تفسیر المیزان ج ۰۱ ص ۳۹)

القرطبی نے کہا ہے کہ ولی کی شرائط سے ہے کہ اس میں خوف کا عنصرباقی رہ کہ اس پر فرشتے اتریں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا”تنزل علیہم الملائکة“ان پر فرشتے اترتے ہیں۔( تفسیر القرطبی ج ۱۱ ص ۹۲ ، موسسة التاریخ العربی )

انہوں نے فرمایا کہ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ شیاطین کے نزول بارے آیات میں آیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”( هَل اُنَبِّکُم عَلیٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ ) “ (سورة الشعراءآیہ ۱۲۲) کیا میں تمہیں بیان کر دوں کہ شیاطین کن پر اترتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ شیاطین حق کی تصویر بنا کر باطل کے اظہار کے لئے اترتے ہیں اور برائی کو خوبصورت شکل میں بنا کراترتے ہیں یہ شیاطین کی حالت ہے جیسا کہ علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے۔

الشوکاتی نے بیان کیا ہے کہ ظاہر امر یہ ہے کہ فرشتوں کا اترنا اولیاءپر کسی معین وقت میں نہیں ہے بلکہ عام ہے۔(فتح القدیر ج ۴ ص ۵۱۵)

پس شیاطین کے مقابلہ میں فرشتے بھی اترتے ہیں اور وہ ان پراترتے ہیں جو ایمان لائے ہیں تاکہ حق کو ظاہر کریں قبیح اور برائی کو دور کر دیں ان سے جنہوں نے استقامت دکھائی ہے اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے جسے تفسیر القمی میں بیان کیا گیاہے۔”( نَحنُ اَولِیٰٓو کُم فِی الحَیٰوةِ الدُّنیَا ) “(سورہ حٰم السجدہ آیہ ۱۳) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بیان کیا کہ ”کنانجرهم من الشیاطین

المجمع میں ہے یعنینحرسکم فی الدنیا (تفسیرالمیزان ج ۷۱ ص ۴۹۳)

پس فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اولیاءہوتے ہیں گذشتہ آیت میں آیا ہے کہ اولیاءوہ ہیں جنہوں نے استقامت کی۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: نہج البلاغہ ج ۱ ص ۸۴۴ اللہ تعالیٰ کے کلام ”رجال لاتلهیم “ کے ذیل میں ارشاد فرمایا ہے۔

مشہور حدیث قدس ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”میرا بندہ مجھ سے نوافل (عبادات) کے ذریعہ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے،اس کی مسلسل عبادات کے نتیجہ میں، میں(اللہ) اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے، میں اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پاوں ہوتا ہوں جن سے وہ چلتاہے۔(غوالی اللئالی ج ۴ ص ۳۰۱ حدیث ۲۵۱ ۔ الغدیر ج ۱ ص ۸۰۳ ، کنزالعمال ج ۱ ص ۹۲۲ حدیث ۵۵۱۱)

دعا میںآیا ہے”اے میرے سردار!اگر توں نہ ہوتو حیرت میں پڑنے والے گمراہ ہو جائے اگر تیری جناب سے درستگی نہ ہوتی تو مستقرین نجات نہ پاتے۔ تونے ان کے لئے راستوں کو آسان کردیا یہاں تک کہ وہ وصل ہو گئے تو تقویٰ کے وسیلہ سے ان کی تائید فرما دی تو انہوں نے عمل کیا تیری جناب سے ان پر قیمت بڑھتی رہی اور ان کے لئے تیری نعمت پہنچتی رہی۔(بحارالانوار ج ۱۹ ص ۰۷۱)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی حمایت اور تائید خاص اس لئے موجود ہوتی ہے جس وقت قاضی فیصلہ دے رہا ہوتا ہے اورمال تقسیم کرنے والا جب بیت المال سے مال تقسیم کر رہا ہوتا ہے تو بھی اللہ کا ہاتھ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

(المجازات النبویہ ص ۲۹۳ حدیث ۹۰۳)

جب اللہ تعالیٰ کی تائید قاضی کےلئے، حاکم کے لئے، مال تقسیم کرنے والے کے لئے ہے یہ تو ان کے لئے ہے اور جو ان سے بڑے مرتبہ پر ہیں تو ان کے فیصلوں کو اللہ تعالیٰ کی تائید یقینی حاصل ہو گی اور خطاءو غلطی نہ ہوگی۔تیسری بات یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فیصلہ جات درست ہیںکیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی صحیح اور درست ہونے کا انتظام موجود ہے تائید الٰہی ان کے لئے حاصل ہے فیصلہ سے پہلے ان کے لئے واقعہ کی صحیح صورتحال معلوم ہوجاتی تھی اور آپ اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے اور یہ بات امیرالمومنین علیہ السلام کے فیصلہ جات مشہور و معروف ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ گواہوں کے بیانات میں اوران کی گواہی دینے میں تو خطا اور غلطی کا امکان موجود ہے لیکن فیصلہ صادر کرنے میں یہ امکان موجود نہیں ہے لیکن اس قسم کا فرضی احتمال امام مہدی علیہ السلام کے فیصلہ جات میں بالکل نہیں ہوگا کیونکہ آپ علیہ السلام اصل اور واقعہ کے مطابق فیصلہ دیں گے ظاہر کے مطابق فیصلہ نہیں دیں گے۔

کیاحقیقت امر اور اصل کے مطابق فیصلہ دینا ممکن ہے ؟!

یہ بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے ممکن ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے پاس حقائق کا علم ہوگا تمام حالات سے آگاہ ہونے کی آپ کے پاس قدرت ہوگی جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا جو ہستی ہر قسمی حادثات و واقعات و حالات کو ان کی جزئیات سمیت ان کے ظاہری اور باطنی کیفیات و کمالات سے آگاہ ہواور پھر اس کے پاس ہر حکم اور فیصلہ پر عملدرآمد کی قدرت اور اختیار بھی موجود ہو اگرچہ ایسا فیصلہ تمام حکومتوں پر ہی لاگو کیوں نہ کرناپڑے، جب اس کے پاس یہ اختیارموجود ہوگااس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ فیصلے اصل کے مطابق کریں، واقعیت اور حقیقت پر مبنی فیصلہ جات صادر کریں یہ بات بڑی واضح اور روشن ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے البتہ ہمارے معاشرہ کے لحاظ سے اور جو اس میں زندگی گزار رہا ہے تو اس امر کو قبول کر لینا آسان نہیں ہے یا تو اس لئے کہ ہم اس قسم کے فیصلوں کے عادی نہیں ہیں بلکہ بعض تو ایسے ہیں کہ غیبت کے زمانہ میں ظاہری حالات کے مطابق بھی فیصلہ جات سننے سے عاری رہے اور ترستے رہے کہ ظاہری حالات کے مطابق ہی عدالتی فیصلے ہوں چہ جائیکہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی فیصلہ جات ہوں۔

بہرحال واقعی احکام کا نفاذ اور حقائق کے مطابق فیصلہ جات کو قبول کرنے کے لئے آگہی اور بیداری کی ضرورت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کیایہ فیصلہ جات ماضی کے واقعات اور حالات پر بھی لاگوہوں گے اور ان فیصلہ جات کے ماضی پر اثرات مرتب ہوںگے جس کی طرف پہلے اشارہ کیاجا چکاہے جیسے شوہر اور بیوی میںجدائی، اموال کا ضبط کر لینا وغیرہ تو اسے بھی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ لوگوںکا اس قسم کے فیصلہ جات سے نامانوس ہونا ہے اور امامعلیہ السلام فقط اسی بات ہی کو تبدیل نہ کریں گے بلکہ آپ کی آمدسے معاشرہ کے اندر پوری تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

غیبت نعمانی میں ہے کہ:

ابوحمزہ ثمالی: میں نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

امام محمد باقر علیہ السلام: وہ تو نیا امر لائیں گے نئی سنت اپنائیں گے نئے فیصلے سنائیں گے ان کے فیصلے عربوں پر سخت ہوں گے، ان کا کام قتل کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ کسی سے توبہ نہیں لیں گے اور خدا کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کریں گے۔

(غیبة نعمانی ص ۴۳۲ حدیث ۲۲ باب ۳۱)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام:جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو وہ لوگوں کو نئے امر کی دعوت دیں گے جس طرح حضرت رسول خدا نے دعوت دی تھی اسلام کا آغازغربت کے عالم میں ہوا وہ تنہا تھا اکیلا تھا، ایک دفعہ پھر اسلام غریب ہوگا، تنہا ہوگا، اکیلا ہوگا جس طرح اسلام آغاز میں غرباءکے لئے ہی خوش خبری ہے ۔(اسی طرح آخر زمانہ میں غرباءکے لئے خوشخبری ہوگی)

ابوسعید: اللہ آپ کے سارے امور درست کر دے آپ ذرا اس کی تفصیل سمجھا دیں۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: پھر سے ایک دعوت دینے والا ہوگا جو نئے سرے سے اسلام کی دعوت دے گا جس طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تھی۔(سابقہ حوالہ ص ۳۷۱ الاسلام بدا غربائ)

نتیجہ: احکام جو امام علیہ السلام لائیں گے وہ نئے معلوم ہوں گے۔اسلام پر لوگ عمل چھوڑ چکے ہوں گے، اسلامی احکام کو بھلا دیا گیا ہوگا لہٰذا اسلام کے حوالے سے ہر بات اور ہر حکم نیا معلوم ہوگا، یہ حالت اسلام کی غربت تنہائی اور بے چارگی پر دلالت کرے گی۔

اس میں کوئی مانع موجود نہیں ہے انسان کو اس قسم کی حالت کی توقع رکھنی چاہیئے اوراپنے آپ کو اس کے لئے تیار رکھے۔

اصل بات یہ ہے کہ لوگ اسلام کی حقیقت سے دور جا چکے ہوں گے اسلام کا نام ہوگا اسلام کے احکام سے ناواقف ہوں گے ان حالات میں جب امام مہدی علیہ السلام احکامِ اسلام بیان کریں گے اور اسلام کا نفاذ کریں گے توہر بات نئی لگے گی گویا نئے سرے سے امام علیہ السلام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیںگے۔

اسلام کےنفاذ کامسئلہ

یہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے جس کے لئے ایک مدت درکار ہو گی جس میںلوگ عادلانہ حکومت کے نتائج کو تسلیم کرلیں اور اس حکومت کے قیام کے لوازمات جو ہیں انہیں مان لیں کہ واقعاتی احکام کا دورآ گیا ہے یا نئے احکام اور نئے قوانین کے نفاذ کا زمانہ آگیاہے۔یہ بات ثقافتی بنیادوں سے مربوط ہے جو کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے انجام پانے ہیں اور دین کی نشرواشاعت جو امام علیہ السلام نے کرنی ہے اس سے بھی اس کا تعلق ہے ۔

سوال:کیا امام علیہ السلام عوام کی ہدایت کے لئے نبی اکرم والا اسلوب اور طریقہ کار اپنائیں گے جو آئمہ معصومین علیہم السلام کی عملی سیرت رہی ۔بیداری دینے میں، علم پھیلانے میں، مشکلات پر صبر کرنے میں،اسی روش کو آپ اختیار کریں گے؟ یا ایسا ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے بعد توبہ نہ ہو گی، امام علیہ السلام کے زمانہ میں ہدایت ایک آرڈننس کے ذریعہ نافذ ہو گی اس کی خلاف ورزی نہ ہو گی آرڈر ہوگا قوانین کا اعلان ہوگا اور اس کی پابندی کی بات ہوگی اوران کانفاذ ہوگا خلاف ورزی ناقابل قبول ہوگی، خلاف ورزی پر سخت سزا ہوگی معافی نہ ہوگی، اس میں نہ کوئی اعتراض کا حق ہوگا اور نہ ہی خلاف ورزی اور نافرمانی قبول ہوگی ؟اس بارے دومختلف حالتیں ہیں اور دو احتمال ہیں اس جگہ اس بارے کچھ نہیں کہا سکتا کہ کون سا امر اور احتمال زیادہ صحیح ہے اس کو اگلی فصل کے سپرد کرتے ہیںجس میںتوبہ کی بحث آئے گی تو اس میں اس بات کا ذکر بھی کیا جائے گا۔

امام علیہ السلام واقعیات کے مطابق فیصلہ جات کی روشنی میں حقوق واپس دلائیں گے؟

حقوق واپس لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افعال اور اعمال جو ظہور سے پہلے لوگوں سے صادر ہوئے اور وہ اعمال اسلام کے مخالف تھے تو کیا امام علیہ السلام آ کر ان کاموں کی درستگی کریں گے اور انہیں ان کی اصل شکل میں واپس لے آئیں گے یا ایسا نہیں کریں گے؟

اس مقام پر تفصیل ہے:

۱ ۔ وہ اعمال جن میں اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی ہو اور اس میں لوگوں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، جیسے نماز نہ پڑھنا، روزہ ترک کرنا، حج ادا نہ کرنا اسی قسم کے دوسرے عبادتی مسائل اس قسم کے اعمال جو ہیں ان کے بارے توبہ کر لینے کے بعد اس شخص پر کچھ نہ ہو گا البتہ اگر یہ توبہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے بعد ہو تو پھر اس بارے پانچویں فصل ہم بیان کریں گے کہ اس کی کیا صورت ہو گی۔

۲ ۔ ایسے اعمال جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے بارے ہوں جیسے چوری کرنا، دوسروں کے اموال کو غصب کرنا، دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا، ان میں سے فقراءکے حقوق کاغصب کرنا،جیسے وہ شخص جس نے اپنے اموال سے خمس نہیں دیا، زکوٰة اس پر واجب ہوئی اسے ادا نہ کیا تو اس قسم کے حقوق بارے کوئی شک نہیں کہ امام علیہ السلام لوگوں سے غصب شدہ حقوق انہیںواپس دلائیں گے۔یہ کام امام علیہ السلام کی حکومت کے اہداف میں شامل ہے۔

۳ ۔ ایسے اعمال یا معصیتیں کہ جن کے ذریعہ کسی ایسے حرام کا ارتکاب کرلیا ہے کہ اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا جیسے وہ شخص جس نے اپنی رضاعی بہن سے شادی کر رکھی ہو یا جس نے کسی ایسی طلاق شدہ عورت سے شادی کی تھی لیکن پتہ چلا کہ وہ ابھی تک سابقہ شوہر کے حق میں ہے اور اس کی طلاق واقع ہی نہ ہوئی یا ایسی عورت سے شادی کر لی تھی جس کا شوہر غائب ہو گیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس کا شوہر تو زندہ ہے اسی قسم کے اور امور جو شادی سے متعلق ہیں تو اس میں شریعت کا حکم ہے کہ دونوں کے درمیان حقیقت معلوم ہونے کے بعد فوری جدائی ڈال دی جائے ۔

امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد امام علیہ السام کی امضاءاور تائید کے بغیر ان کا تسلسل ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رہے گا تو یہ ایسے اعمال ہیں جن کی امام علیہ السلام آ کر درستگی کریں گے اور اس کے اثرات کی پابندی واجب ہے جب امامعلیہ السلام ان امور کے بارے اصل حقائق سے پردہ اٹھا دیں گے اور حقیقت کا علم ہو جائے گاآپ اپنے اس علم کے ذریعہ جو امام علیہ السلام کو عطا کیا گیا ہے یا خود افراد اس بات کا اعتراف کرلیںگے تو اس کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا، بلکہ غیبت کے زمانہ میں بھی اس حالت پر باقی رہناجائز نہیں ہے۔جس وقت کسی ایسی صورتحال کے بارے علم ہوجائے۔

وہ شخص جسے یہ علم ہو جائے کہ اس نے کچھ حقوق دوسروں کے غصب کر رکھے ہیں یا اس پر کچھ مالی حقوق فقراءکے حوالے سے واجب الادا ہیں یا بعض اعمال میں اسے شبہ لاحق ہو جائے۔اس کے حلال و حرام کی تمیز نہ ہو رہی ہو، شادی کے بارے ایسے شبہ ہو کہ جس سے اس نے شادی کی ہے وہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ہے تو اس کی درستگی امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کرنا بھی اس پرواجب اور لازم ہے اور امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد خود امام علیہ السلام کی جانب سے اس شخص کو آگہی دے دینے کے بعد اس کی روشنی میں عمل کرنا ضروری ہوگا۔

اصلی اورواقعی احکام کے مطابق فیصلے دینے سے کیا مقصودہے؟

یہ بات کہی جاتی ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت ظاہری جس پر قائم تھی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ اصلی اور واقعی احکام کے مطابق فیصلے دینے میں کچھ مسائل درپیش ہوں گے توحضرت امام مہدی علیہ السلام ایسا کس لئے کریں گے؟

اس بارے میںوضاحت پیش ہے۔

۱ ۔ آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت ایسی نہیں تھی جس کا اوپر خیال ظاہر کیا گیا ہے یا جو عام طور پر تصور کیا جا تا ہے بیان ہو چکا کہ ظاہری احکام کی روشنی میں فیصلہ دیتے وقت وہ اس فیصلہ کو اصل اور حقیقت کے مطابق دینے میں موفق ہوتے تھے اور وہ فیصلہ خلاف حقیقت نہیں ہوتا تھا تاکہ یہ بات کہی جا سکے کہ باقی آئمہ علیہ السلام تو ظاہری احکام کے مطابق فیصلے دے دیتے تھے اگرچہ اصلیت اور واقعیت اس بارے کچھ اور ہی ہوتی، یعنی خلاف حقیقت فیصلہ دیتے تھے(ایساہرگزنہیں)

۲ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اہداف میں اہم ہدف اور مقصد یہ ہے کہ آپ ظلم اور جور جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کا خاتمہ کریں عدل اور حق کو لاگو کریں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ وہ احکام اور قوانین جو پوری انسانیت کی فلاح اور بہتری کے لئے وضع کیے گئے ہیںیقینی امر ہے کہ ان کے وضع کرنے میں حتمی مصلحت کارفرما ہے جس کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور وہ مصلحت اس واقعہ کے حوالے سے اس کی اصلیت اور حقیقت پر مبنی ہے نہ کہ اس کی ظاہری صورتحال پریعنی کسی بھی حکم کے بارے مصلحت اس واقعہ کی اصلیت اور حقیقت کے حوالے سے ہوتی ہے۔ امامعلیہ السلام اس اصلیت اور واقعیت کو سامنے رکھ کرفیصلہ دیں گے ، اسی طرح وہ مصلحت جو اس قانون بنانے میںطے شدہ تھی اسے امام علیہ السلام تحقق بخشیں گے جو امام علیہ السلام کے ظہور تک پوری نہ ہو سکے گی اگرقوانین اور احکام کی واقعی اور اصلی صورتحال کو سامنے رکھ کر فیصلے نہ دیئے جائیں تووہ فیصلے اللہ تعالیٰ کی اس مصلحت کے منافی ہوں گے جو اس خاص قانون یا حکم کے وضع کرنے میں ملحوظ تھی۔

نتیجہ

واقعیت کی روشنی میں فیصلہ صادر کرنا درحقیقت الٰہی مصلحت کو پورا کرنا ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلامی احکام و قوانین وضع ہوئے ہیں اور اسی روشنی میں پورا عدل نافذہوگااور پورا حق ملے گا ظلم و جور اور زیادتی کی ساری شکلیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے مٹ جائیں گے ان کا نشان تک نہ رہے گا۔یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ظاہری احکام کے مطابق فیصلے دینے سے بھی مصلحت الٰہی پوری ہوتی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مصلحت الٰہی حاصل نہیں ہوتی فقط اتنی بات ہے کہ ظاہری احکام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ ہمیں واقعیت اور اصلیت بارے علم نہیں مثال کے طور پرجب ایک واقعہ یا حالت کا جو اصلی حکم اور قانون اللہ تعالیٰ نے وضع فرمایا ہے اس کے بارے ہمیں علم نہیں ہے ہمیں جومعلوم ہے وہ ظاہری حکم ہے جو ہم نے قرآن وحدیث سے خودسمجھاہے تو ہمیں الٰہی حکم ہے کہ جو تم ظاہر میں سمجھ لو اس پر عمل کرو لیکن جب امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے گا اور اس وقت ایسے احکام جو ظاہری تھے اور ان پر عمل ہو رہا تھاجب ان کے بارے معلوم ہوگا کہ اصل میں حکم اور قانون اس طرح نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ الٰہی مصلحت کو پورا کیا جائے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ واقعی اور اصلی احکام وہی ہیں اور جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ ظاہری احکام پر جب عمل ہو رہا تھا وہ واقعی اور اصلی احکام کے خلاف ہیں تو پھر ان پر عمل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا، کیونکہ ظاہری احکام کو جو حیثیت ملی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ اصلی احکام کا پتہ نہ تھا، جب پتہ چل گیا تو پھر ظاہری احکام بے حقیقت ہو گئے۔

حکم ظاہری اور حکم واقعی کی مثال

شوہر اور بیوی کا رشتہ ظاہر میں قائم تھا دونوں کو علم نہ تھا کہ وہ اصل میں رضاعی بہن بھائی ہیں اور ان کا نکاح جائز نہیں ہے جب اصلیت کا علم ہو جائے تو پھر ان دونوں کاایک لمحہ کے لئے اکٹھارہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا جب امام علیہ السلام اپنے علم کی وجہ سے فیصلہ صادر کردیں گے کہ یہ دونوںآپس میں بہن بھائی ہیں تو پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیںگے تو اسی صورت میں امام علیہ السلام کا فیصلہ ظاہری حکم نہیں ہے بلکہ واقعی اور حقیقی حکم ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

دوسرا ہدف:۔ دنیاکی سب سے بڑی الٰہی حکومت کا قیام

ہمارے امام مہدی علیہ السلام کے اسٹرٹیجک اہداف میں سے اہم ہدف وسیع ترین اور عظیم ترین(سپرپاورز)حکومت تشکیل دینا ہے جو ساتوں براعظموں کو شامل ہو گی اور واحد حکومت ہو گی جو پوری روئے زمین پر ہوگی، پورے جہان پر ایک آرڈر ہوگا اورایک نظام ہوگا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا امتیاز

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک ایسی الٰہی یا اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی نہ امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں اور نہ ہی غیبت کے زمانہ میں قائم ہونے والی اسلامی حکومتوں میں اس کی مثال ہو گی تمام حکومتیں محدود وقت کے لئے قائم ہوئیں اور جغرافیائی اعتبار سے محدود جگہوں کے لئے رہیں عالمی حیثیت کسی ایک کو حاصل نہیں ہے

نبی سلیمان علیہ السلام کی حکومت اپنی تمام تر وسعت اور طاقت کے باوجود بلاد و شام اور جزیرة العرب اور جو علاقہ ان کے ساتھ متصل تھااس پر قائم تھی(مثلاً یمن میں ان کی حکومت نہ تھی وہاں پر بلقیس نامی ایک عورت حکومت کر رہی تھی جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہواہے)

نبی یوسف علیہ السلام(اگر یہ کہاجائے کہ انہوں نے ایک حکومت قائم کی)حکومت بھی مصر اور اس کے اطراف پر قائم تھی۔

نبی اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عظمت اور وسعت کے باوجودآپکی حکومت ایک براعظم سے زیادہ پر قائم نہ تھی اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اپنی حدود سے آگے نہ بڑھ سکی بلکہ کچھ علاقے معاویہ کے زیرتسلط تھے۔

جی ہاں!ذوالقرنین مشرق و مغرب کا مالک بنااس نے مشرق اور مغرب میں عدل کا نفاذ اور ان کی حکومت بارے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس وقت انسانوںکی آبادی بہت کم تھی اورآبادی والے علاقے بہت تھوڑے تھے اورانسانی زندگی کے ابتدائی ایام تھے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تحریک گزشتہ تمام انبیاءنے جوپروگرام شروع کیا اسے پورا کرنے والی ہو گی جو انہوں نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ہو گی اس عنوان سے دعائے ندبہ میں آیا ہے۔

انبیاءعلیہ السلام اوراولیاءعلیہ السلام کے خون ناحق کا بدلہ لینے والا کہاں ہیں؟ اور کربلا کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے والے کہاں ہیں؟

حکومت بنانے اور عدل قائم کرنے میں فرق

ہمارے امام علیہ السلام۔ ان پر ہماری جانیں قربان جائیں۔

زمین کے تمام حصوں پر آپ کی حکومت قائم ہوگی اورآپ کا حکومت بناناآپ کی پہلی ترجیح ہوگی جو عدالت کے عملی نفاذ سے پہلے ہوگا۔جیسا کہ تیسرے ہدف میں بیان ہوگاحکومت کا قیام اور عدل کا نفاذ ان دونوںمیں فرق ہے ۔عدل سے مراد عدل مطلق ہے ہر قسم کے ظلم و جور اور زیادتی کی نفی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی حکومت موجود تھی لیکن اس میں عدل مطلق نہ تھا۔ کیونکہ اس کے لئے ابھی ماحول آمادہ نہ ہوا تھا اگرچہ جن جن علاقوں میں آپ کی حکمرانی ہوتی گئی عدالت کا نفاذ ہوتا گیا لیکن ایسا عدل جو ہر سطح پر ہو ہر صنف اور ہر جنس ونوع کے لئے ہو، آپ کے زمانہ میں مثال کے طور پر بھیڑ کا بچہ بھیڑ یے کے پہلو میں نہ سوتا تھا اسی طرح ہر قسم کا ظلم و جور ختم نہ ہوا تھا ہم کس طرح کہہ سکتے ہیںجبکہ خود ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم اور زیادتی کی گئی اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا معاملہ ہے آپ کا عدالت کے نفاذ میں سخت ہونا آپ کی شہادت کا سبب بنا بلکہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں تویہ بات اور زیادہ واضح ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں عدلیہ کا سربراہ قاضی شریح جیسا شخص تھا جس کی حالت معلوم ہے اوراس کے غیر اسلامی اور غیرمنصفانہ فیصلہ جات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ عدل کا قیام حکومت کا محتاج ہے حکومت کے ذریعہ عدل نافذ کیا جائے لیکن ایسابھی ہوسکتاہے کہ اسلامی حکومت قائم ہولیکن اس میں عدل مطلق نہ ہو لیکن ایسا کسی معصوم علیہ السلام کی کوتاہی سے نہیں بلکہ حالات اور ماحول کا مناسب نہ ہونااور حالات کا ساتھ نہ دینا۔

لیکن حضرت امام مہدی علیہ السام کا زمانہ کہ جنہیں مطلق عدل کے قیام کے لئے جنا گیا ہے تو ان کا معاملہ پچھلے تمام ادوار سے مختلف ہوگا۔

جی ہاں! آپ علیہ السلامحکومت پہلے بنائیں گے اورعدل بعد میں نافذکریں گے اس لئے ہم نے دوسرے ہدف کو تیسرے ہدف سے الگ کر کے بیان کیا ہے۔

عدل کے بعدمیںنافذہونے اورہر قسمی ظلم کا خاتمہ جس کے معنی بعدمیں بیان ہوں گے کہ قوانین کے لحاظ سے اسلام کے عادلانہ قانون کوفقط رائج کرنا نہیں بلکہ شوہر اور بیوی کے درمیان جلوت اور خلوت میںبیٹے اورباپ کے درمیان، جلوت اور خلوت میں ہمسایہ اور ہمسایہ کے درمیان بھیڑیے اور بھیڑ کے درمیان، جیسا کہ روایات میں ہے عدل قائم کرناہے یہ ایک ایسا امر ہے جس کی کیفیت سے ہم ناواقف ہیں ان کے عملی ہونے کے لئے امام علیہ السلام کی خصوصی عنایت کی ضرورت ہو گی اس کے لئے تمہید ہو گی بیداری دی جائے گی آگہی کا مرحلہ ہوگا تعلیم دی جائے گی عالمی قوانین کے نفاذ سے مختلف رویہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں قانون کا اعلان ہوتا ہے اور پھر اس پر پابندی کرنے کااعلان کر دیا جاتا ہے کسی کو قانون سمجھ آئے یا نہ آئے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ایسا نہیں ہوگا سب کو پہلے آگہی دی جائے گی پھراس کا نفاذہوگا۔

جی ہاں! دولت عظمیٰ کا قیام کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے پلاننگ ہوگی، تیاری ہوگی، جنگیں ہوں گی ، قربانیاں دی جائیں گی، اس راستہ میں شہداءہوںگے۔

نتیجہ

یہ اتنی بڑی عالمی حکومت آپ کے ظہور کے اعلان کے ساتھ ہی قائم نہیں ہو جائے گی اس حکومت کے قیام میں وقت لگے گا۔البتہ اس عالمی بڑی حکومت کے قیام کی کیفیت کیا ہو گی تو اس کا تعلق امام علیہ السلام کی تحریک اور اسلوب اور رویہ سے ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس بارے تفصیلی گفتگو پانچویں فصل میں ہوگی، کیونکہ اس بارے بہت سارے احتمالات موجودہیں، موعظہ ہوگا، کلام طیب ہو گی، علمی مذاکرے ہوں گے، جدیدترین ہتھیاروں سے جنگ ہوگی،غیبی معجزات ہوں گے یہ سارے امور ہوں گے وعظ و نصیحت بھی ہوگا، علمی انداز بھی اپنایا جائے گا، مخالفین کے ساتھ جنگ بھی ہوگی، اخلاق حسنہ بھی ہوگا، ہمدردی اور محبت کا اسلوب بھی ہوگا، رغبت کے ساتھ ساتھ دھمکی اور ڈرانے کا عمل بھی ہوگا، بہرحال اس بارے بہت سارے احتمالات ہی دیئے جا سکتے ہیں۔

امام علیہ السلام کی حکومت کے اراکین اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے وسائل

حضرت امام ابوجعفر باقر علیہ السام : ہماری حکومت تمام حکومتوں میں آخری حکومت ہو گی کوئی بھی گھرانہ ایسا نہ رہے گا مگر یہ کہ وہ ہماری حکومت سے پہلے اپنی اپنی حکومت بنا چکے ہوں گے تاکہ وہ ہماری سیرت کو دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ اگر ہمیں حکومت بنانے کاموقع ملتا تو ہم بھی ایسا ہی کرتے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

”وَال عَاقِبَةُ لِل مُتَّقِی نَ“(سورہ الاعراف آیت ۸۲۱ ۔ القصص آیت ۳۸)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بھی باقی حکومتوں کی طرح مختلف ادارہ جات ہوں گے، عدلیہ،مقنہہ، انتظامیہ، محکمہ تعلیم، محکمہ بلدیات، محکمہ پولیس،مختلف کاموں کے وزارت خانے موجود ہوں گے ایک حکومت کے لئے جتنے ادارہ جات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب موجود ہوں گے۔

اس پر ہماری دلیل وہ مشہور حدیث ہے کہ آپ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی“۔(بحارالانوارج ۲۵ ص ۲۳۳)

زمین میں عدل قائم کرنے سے مراد یہ زمین نہیں جس میں پتھر،ریت،مٹی،درخت، گھاس، پہاڑ، دریا بلکہ اس سے مراد زمین پر بسنے والے افراد ہیں تنہا زمین سے مراد کرہ ارض نہیں بلکہ اس کے رہائشی مراد ہیں پھر جب عدالت کے قیام، ظلم و جور کے خاتمہ کی بات ہے تو اس سے مراد فقط افراد نہیں بلکہ ادارے،تنظیمیں،دفاتر، حکومتیں ہر سطح پر ظلم کا خاتمہ ہوگا اور عدل کا نفاذ ہوگاظلم کے خاتمہ کے بعد عدل کا قانون اس کی جگہ لاگوکریں گے، حق، خیر، امن اور سکون ہوگا تمام طبقات میں ، تمام گروپوں میں، تمام اقوام میں، تمام قبائل میں، تمام ادارہ جات میں، سیاسی،عسکری، انتظامی، عدلیہ، ہر جگہ عدل قائم ہوگا ہر جگہ سے ظلم وجورکا خاتمہ ہوگا، ورزش کے میدانوںمیںانفرادی طور پر، اجتماعی طورپر،چھوٹے سے، بڑے سے، گھر میں، گھر سے باہر، ادارہ کے اندرونی نظام میں اداروں سے باہر ہر جگہ امن قائم ہوگا، ظلم ختم ہوگا۔

حدیث نبوی میں عدل کے نفاذ کا خاص دائرہ بیان نہیں کیا اور نہ ہی ظلم کے خاتمہ کے حوالے سے کسی خاص عنوان کو بیان کیا ہے بلکہ ہر جگہ سے ہر قسم کے ظلم کے خاتمہ کی بات ہے اور اس کے مقابلے میں عدل کانفاذ ہے جہاں بھی ظلم ہوگا، اس کا خاتمہ ہوگا اور اس جگہ عدل ہوگا، جیسے جوا کھیلنا، سٹے بازی، اسراف، فضول خرچی ،نجی زندگی میںہو، اداروں کی سطح پرہو،حکومتی معاملات میں ہو۔اس کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ عدل کا نفاذ ہوگا جس جگہ ظلم ہو گا اس میں اس کی جگہ عدل نہیں آجائے گا بلکہ ظلم کو مٹا دیا جائے گا ظلم کے آثار اور نشانات کوختم کر دیئے جائیں گے اس کی جگہ عدل آجائے گاجیسے جوا ،کھیلانا ظلم ہے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا نہ یہ کہ اس میں عدل نافذ ہوگا۔

امام علیہ السلام اپنی حکومت میں قانون ساز اسمبلی کا خاتمہ کر دیں گے کیونکہ قانون سازی کا اختیارآپ کے اپنے پاس ہوگا آپ کا ہر بیان قانون کا درجہ رکھے گا کسی اور کو کسی بھی حوالے سے نہ قانون بنانے کا حق ہوگااور نہ ہی قانون کی تشتریح کا حق ہوگا یہ سب کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام خود بیان کریں گے یہ اتھارٹی ان کے اپنے پاس ہوگی۔

جی ہاں!بعض عناوین بدل جائیں گے وزیراعظم کا عنوان، صدرکاعنوان، کمانڈر انچیف کا عنوان، بادشاہ کا عنوان، امیر کاعنوان، گورنر کا عنوان، ان کی جگہ نئے عناوین متعارف ہوں گے جیسے وکیل، نمائندہ، نائب وغیرہ۔

جغرافیائی حدود آپ کی حکومت میں ختم ہو جائیں گی کیونکہ آپ علیہ السلام کے زمانہ میں جغرافیائی حدود کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی اسی طرح اسلام کی پارٹی کے مقابل میںجو بھی سیاسی پارٹی ہو گی اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا جیل خانوں پر تالے ڈال دیئے جائیں گے

اس مفروضے پر کہ تمام آبادیاں عصمت کے درجہ پر پہنچ جائیں گی اور کوئی ایک بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والا نہ رہے گا تو اس صورت میں جیل خانے ختم ہو جائیں گے ہم اس بارے آٹھویں فصل میں بات کریں گے۔

نتیجہ

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بھی اسی طرح اعمال اور سرگرمیاں ہوں گے جیساکسی اور حکومت میںہوتا ہے مگر وہ امور جن کی آپ کے زمانہ ضرورت نہ رہے گی جیسے قانون ساز اسمبلی، آپ کی حکومت نے ہر قسم کے ظلم وجورکا خاتمہ کرنا ہے اور اس کی جگہ عدل و انصاف کا نفاذ کرناہے۔

اسی بنیاد پر اس حکومت کی تیاری کے مختلف امور بیان کیے گئے ہیں اس بحث کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حکومت کی وسعت کا اندازہ ہو سکے اور پھر اس حوالے سے تیاری کی جائے اور اس بارے خصوصی اہتمام کیا جائے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی وسعت اور دائرہ کار

دعائے عہد میں ہے کہ”اے اللہ!اپنے شہروں کو ان کے وسیلہ سے آباد کر دے اور ان کے ذریعہ سے اپنے بندگان کو حیات تازہ عطاءکر دے“۔

کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی اسناد سے جابر بن عبداللہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ سے یہ بات خود سنی کہ آپ نے فرمایا:رسول اللہ:ذوالقرنین عبدصالح(نیک بندہ)تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندگان پر حجت(اپنا نمائندہ)قرار دیا تھا اس نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی اور انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس کے قرن کو( )کاٹ ڈالا وہ اپنی قوم سے ایک عرصہ کے لئے غائب ہوگیا یہاں تک باتیں ہوئیں کہ یا تو وہ مر گیا ہے یا کسی وادی میں بھٹک کر ہلاک ہوگیاہے؟پھر وہ اپنی قوم میں واپس آیا، تو انہوں نے اسے دوسرے قرن( )کوبھی تلوار سے کاٹ ڈالا اور تمہارے میں ایساموجودہے جو اس کے طریقہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو زمین پرقدرت دے دی اور اس کے لئے ہرچیز سے ایک وسیلہ دے دیا وہ اس طرح مشرق سے مغرب تک پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ اسی روش کو میری اولاد سے قائم علیہ السلام کے لئے جاری فرمائے گا تو وہ بھی زمین کے مشرق اور مغرب تک پہنچے گا یہاں تک کہ زمین کی کوئی گھاٹی، کوئی وادی، کوئی چھوٹی بڑی آبادی، کوئی پہاڑ، ریگستان، زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہ بچے گا کہ جس پر ذی القرنین نے قدم رکھا تھا وہاں پر میرا بیٹا قائم علیہ السلام پہنچے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے زمین کے پوشیدہ خزانے ظاہر کر دے گا زمین کی ساری معدنیات ظاہر ہوجائیں گی اللہ تعالیٰ رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد فرمائے گا اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ زمین کوعدل اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم اور جور سے بھرچکی ہوگی۔(کمال الدین ج ۲ ص ۴۹۳ باب ۸۳ ذیل ۴)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:مہدی علیہ السلام زمین کو عدل اور انصاف سے بھردیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھرچکی ہوگی۔ قسم اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اگر دنیاکے خاتمہ سے کچھ بھی نہ بچا مگر ایک دن تواللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ اس دن میں میرا بیٹا مہدی علیہ السلام خروج کرے گا اور روح اللہ عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ان کی سلطنت اوران کا اقتدار مشرق سے مغرب تک ہوگا۔(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۲۱۳ ، ۲۶۵)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: میری اولاد سے مہدی علیہ السلام چالیس سالہ فرزند، ان کا چہرہ ایسے کہ کوکب دری(چمکتادمکتاروشن ستارہ)ان کے دائیں رخسار پر سیاہ خال ہوگا اور ان کے اوپر روئی کی بنی ہوئی دو عبائیں ہوں گی ایسا لگے گاکہ بنی اسرائیل کے مردوں سے ہے خزانوں کو زمین کے اندر سے نکالے گا اور شرک سے آلودہ شہروںکوفتح کرے گا۔(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۴۹۳ ، ۵۶۵)

ان روایات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت زمین کی وسعت کے برابرہوگی پوری زمین پر آپ اپنی حکومت بنائیں گے زمین کا کوئی بھی حصہ آپ کے اقتدار سے باہر نہ ہوگا۔

عادلانہ حکومت کی منصوبہ بندی

یہ بات واضح ہے کہ امام قائم علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جس وقت ظہور فرمائیںگے توایسا نہیں کہ آپ کچھ وقت انتظار کریں کہ الٰہی حکومت کے لئے پلاننگ کریں اور اس کے اراکین اور اعضاءکے بارے منصوبہ بندی کریں، جائزہ لیں، بلکہ آپ ایسی حالت میں خروج کریں گے کہ آپ کے پاس اپنی حکومت کا مکمل نقشہ ہوگا اور اس کے سارے خدوخال معلوم ہوں گے اور آپ کو اپنی حکومت کے بنیادی ارکان اور اعضاءکا بھی علم ہو گا آپ کامل نمونہ ایک عادلانہ حکومت کے لئے دیں گے جوزمین کے ہر حصہ کواپنے زیراثر لے لے گی۔

ہمارے پاس دلیل میں اس بارے حسب ذیل روایات ہیں:

۱ ۔ روایت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں ذمہ داری لیں گے کمال الدین میں امام ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے۔

ابوجعفر علیہ السلام: اس امر کا جو صاحب ہے، جس نے حکومت بنانا ہے، ان کی مثال یوسف علیہ السلام جیسی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حکومت کے معاملات کو ایک رات میں ٹھیک کر دے گا۔(کمال الدین ج ۱ ص ۹۲۳ باب ۲۳ ذیل ۲۱)

النبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مہدی علیہ السلام ہم اہل بیت علیہ السلام سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حکومت کے معاملہ کو ایک رات میں درست کر دے گا۔

۲ ۔ آپ کے پاس کام کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ موجود ہوگا جو آپ نے لمبے عرصہ میں تجربہ حاصل کیا ہوگا اور مختلف حکومتوں کو قریب سے دیکھا ہوگا ان کی خامیاں کمزوریاں خوبیاں ان کے سامنے ہوں گی یہ غیبت کبریٰ میں آپ کے لئے ایسا تجربہ حاصل رہا جس کی روشنی میں آپ نے اپنی حکومت کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی۔

۳ ۔ آپ کے پاس جو علم کثیر ہے اور عصمت جو آپ کو عطا شدہ ہے۔

۴ ۔ ملائکہ اور فرشتوں کا تعاون آپ کے لئے حاصل ہوگا۔

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ان میں سے نویں جو وہ قائم اہل بیت علیہ السلام ہیں(امام حسین علیہ السلام کے بعد نویں فرزند) میری امت کے مہدی علیہ السلام مجھ سے اپنے شمائل، اقوال اور سیرت و کردار اور اعمال میں سارے لوگوں سے زیادہ شباہت رکھتے ہیں آپ لمبی غیبت کے بعد ظاہر ہوں گے گمراہ کر دینے والی حیرت اور پریشانی کے بعد آئیں گے اللہ کے حکم کا اعلان کریں گے، اللہ کے دین کو غلبہ دین گے، اللہ کی نصرت اور مدد سے ان کی تائید ہوگی، اللہ کے فرشتوں کی مدد اور تعاون انہیں حاصل ہوگا توآپ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔

(النجم الثاقب ج ۱ ص ۵۰۵،۶۰۵)

مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں: اے میرے سردار! کیا فرشتے اور جنات انسانوں کے سامنے ظاہری شکل میں آتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جی ہاں! خدا کی قسم! نجف اور کوفہ کے درمیان ہجرت کی سرزمین پر ضرور بالضرور اتریں گے اور ان کے اصحاب کی تعدادچھالیس ہزار فرشتوںسے اور چھ ہزار جنات سے ہو گی اورایک روایت میں ہے کہ جنات کی تعداد بھی چھیالیس ہزار ہوگی ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں فتح ہوگی۔

۵ ۔ رعب کے وسیلہ سے مدد ہوگی۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ:

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اللہ تعالیٰ ان کے لئے زمین کے خزانوں کو ظاہر کر دے گا زمین کی معدنیات کو ان کے لئے کھول دے گا اور رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد کرے گا ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے زمین ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔(کمال الدین ج ۲ ص ۴۹۳،۸۳ ذیل ۴)

حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام آپ کے پرچم بارے فرماتے ہیں:آپ کے پرچم کے آگے آگے ایک ماہ کے فاصلہ پر رعب چلے گا(یعنی آپ علیہ السلامنے جہاں ایک ماہ بعد پہنچنا ہو گا وہاں پر پہلے سے ہی آپ علیہ السلام کے رعب و دبدبہ کی دھاک بیٹھ چکی ہوگی)آپ کے دائیں، آپ کے بائیں رعب ایک ماہ کے فاصلہ پر آگے آگے جا رہا ہوگا۔

(بحارالانوارج ۲۵ ص ۰۶۳ ،باب ۷۲ حدیث ۹۲۱)

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: آپ علیہ السلام کے اصحاب کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”گویا ان کے دل فولاد کے ٹکڑوں کی مانندمضبوط ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات بارے وہ کسی قسم کاشک نہ کریں گے، پتھر سے زیادہ ٹھوس عقیدہ رکھتے ہوں گے، اگر وہ پہاڑوں پر چڑھائی کریں گے تو انہیں اپنی جگہ سے ہٹا دیںگے وہ اپنے پرچموں کے ساتھ کسی بھی شہر میں وارد نہ ہوں گے مگریہ کہ اسے ویران کر دیں گے گویا ان کے گھوڑوں کے اوپر عقبان( ) بیٹھاہوا ہے وہ امام علیہ السلام کی سواری سے اپنے آپ کو مسح کریں گے ”یتمسحون بسرج الامام“ اس وسیلہ سے وہ برکت حاصل کریں گے وہ اپنے امام علیہ السلام کو گھیرے میں لئے رکھیں گے جنگوں میں اپنے وجود سے ان کی حفاظت کریں گے جو ان کے امام علیہ السلامچاہیں گے وہ اسے پورا کردیں گے، ان میں ایسے مرد موجود ہوں گے جو رات کو نہیں سوئیں گے، ان کی نمازوں میں ایسی صدا ہو گی جس طرح شہد کی مکھیوں کے چھتہ میں مکھیوں کی بنبناہٹ ہوتی ہے، رات کو اپنے قدموں پر کھڑے عبادت کریں گے، جب کہ صبح اپنے گھوڑوں پر کریں گے رات کے رہبان(عبادت گزار)ہوں گے دن کے شیر ہوں گے، وہ اپنے مولا علیہ السلام کی اطاعت میںایک کنیز جس طرح اپنے مولا کی اطاعت میں ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں گے وہ مصابیح(روشن چراغ)کی مانند ہوں گی ان کے دلوںکی مثال قنادیل(قندیلیں،روشن دیے) جیسی ہو گی، وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے کانپتے ہوں گے، شہادت کی دعا کرتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کی تمنا کرتے ہوں گے، ان کا نعرہ ہوگا ”یاثارات الحسین علیہ السلام“ جب وہ چلیں گے تو رعب ان کے آگے ایک ماہ کے فاصلہ پر چلے گا وہ اپنے مولا کی جانب دوڑ کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ امام الحق کی نصرت فرمائے گا۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۸۰۳ ص ۲۸)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے باقی حکومتوں سے امتیازات

جی ہاں! امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے دوسری حکومتوں سے حسب ذیل امتیازات ہیں۔

۱ ۔آپ علیہ السلام کی حکومت میں عدل ہوگااوریہی بات آپ کی حکومت کی اساس و بنیادہے۔

۲ ۔آپ واقعیات، حقائق اور ہر واقعہ کی اصل کے مطابق فیصلہ وحکم کریں گے آپ کی حکومت میںاصلی اور واقعی قوانین کا نفاذہوگا۔

۳ ۔آپ کے تمام ادارہ جات میں ظلم وجوروزیادتی نہ ہوگی، ہر جگہ اور ہر وقت عدل کا راج ہوگا، ظلم کسی بھی مرحلہ پر نہ ہوگا۔

۴ ۔خالص الٰہی قوانین نافذہوں گے، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نہ ہوں گے۔

۵ ۔واسطوں کی ضرورت نہ رہے گی جیسا کہ بیان ہوچکا۔

۶ ۔امام علیہ السلام تک جانے کے لئے اس حکومت کی وسعت اور پھیلاو کے باوجود اس میں کوئی فقیر اور محتاج نہ ہوگا۔

۷ ۔ہر عہدہ اور ذمہ داری کے لئے ماہر، آگاہ عالم، لائق ترین اور مناسب ترین فردکا انتخاب رہے گا۔

۸ ۔سائنسی اور علمی ترقی کی آخری حدوں کو انسان پہنچ جائے گا جس کی وضاحت علم امام علیہ السلام کے باب میں کریں گے۔

۹ ۔آپ کی حکومت کاپورے عالم کے اطراف پر مکمل نفوذ اور تسلط ہوگا۔

۰۱ ۔تکوینی قدرت کا مظاہرہ بھی ہوگا جیسا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت وطاقت کے بیان میں آئے گا۔

۱۱ ۔آپ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوقات کو ایک دین اور ایک مذہب پر اکٹھا کردیں گے۔

۲۱ ۔پورے عالم کے سارے اطراف و اکتاف میں اجتماعی معاشرتی اور حیات انسانی سے مربوط سارے قوانین کویکجا کر دیں گے۔

۳۱ ۔آپ کا حکم اور اقتدار آسمانوں میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں سب پر جاری ہوگا جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا۔

۴۱ ۔آپ کی حکومت میں اللہ تعالیٰ سارے دلوں کو جوڑ دے گا جیسا کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت ہے کہ پیار اور محبت پر مبنی معاشرہ قائم ہوگا۔(الکافی ج ۲ ص ۶۶۴ حدیث ۱)

۵۱ ۔پورے عالم کے سارے اطراف میں وحدت کلمہ ہوگا، سب کی بات ایک ہوگی اختلاف نہ ہوگا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت میں ہے”سلام ہو مہدی علیہ السلام پر کہ جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کو دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے سارے کلمات کو، تمام بیانات کو، ساری آراءکو، ایک کر دے گا اورمعاشرہ سے ہر قسمی اختلافات و افتراق کو اٹھالے گا۔(کمال الدین وتمام النعمة ص ۷۴۶)

یہ وہ امور تھے جو میرے ناقص خیال میں آئے ہیںیہ اس الٰہی حکومت کی خصوصیات ہیں جیسے حضرت امام مہدی علیہ السلام قیام کریں گے اور دوسری حکومتوںکے مقابل میں یہ اس الٰہی حکومت کے امتیازات ہیں ان میں بعض خصوصیات بارے مزید غوروفکر کی ضرورت موجود ہے اور بعض عناوین جو ہیں انہیں بعض دوسرے عناوین کے ضمن میں بھی لایا جا سکتا ہے اور بعض جو ہیں انہیں بنیادی اہداف میں شامل کر سکتے ہیں جو ان اہداف کے علاوہ ہیں جو ہم نے پہلے بیان کئے ہیں۔

تیسرا ہدف:۔ عدل کا نفاذ اور ظلم کا خاتمہ

یہ ہدف فقط انسانوں میں لاگو نہ ہوگا بلکہ اس میں حیوانات بھی شامل ہوں گے۔

حیوانات میں عدالت کے قیام بارے روایات

و البحار میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے جس میں قائم علیہ السلام کے اوصاف کو بیان کیاگیا ہے آپ نے فرمایا:آسمان اپنے قطرات باراںکو برسا دے گا اور درخت اپنے پھل دے دیں گے زمین اپنی نباتات کو اگل دے گی اور زمین اپنے باسیوں کے لئے آراستہ ہوجائے گی ، وحشی جانور بھی امن سے رہیں گے کسی پر زیادتی نہ کریں گے وہ بھی زمین کے اطراف میں اسی طرح گھاس چریں گے جس طرح باقی جانور گھاس چرتے ہیں۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۵۸)

و البحار میں ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے اس قول( لِیُظهِرَهُ عَلَی الدِّین کُلِّه وَلَو کَرِهَ المُشرِکُو نَ ) (سورة التوبہ آیہ ۳۳) کے ضمن میں روایت بیان کی ہے۔

ابن عباس: ایسا نہیں ہوگا مگریہ اس وقت ہوگا جس وقت کوئی یہودی، نصرانی اس دنیا میںباقی نہ رہے گاکسی ملت اور دین کا پیروکار نہ بچے گامگر یہ کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گایہاں تک کہ بھیڑیا اور بکری ، گائے اور شیر ، انسان اورسانپ سب اکٹھے مل کر رہیں گے اور کسی کوکوئی نقصان نہ دیں گے یہاں تک کہ چوہاجراب تک کو نہ کاٹے گا، یہ سب کچھ امام قائم علیہ السلام کے قیام میں ہوگا۔

(بحارالانوارج ۱۵ ص ۱۶ ۔باب آیات الموملہ زیل ۹۵)

امیرالمومنین علیہ السلام: آپ کے ملک میں وحشی جانوروں کی اصلاح ہو جائے گی اور زمین اپنی نباتات کو باہر نکالے گی اور آسمان اپنی برکات کو اتار دے گا۔(بحارالانوارج ۲۵ ص ۰۸۲)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مہدی علیہ السلام، میری اولاد سے ایک مرد ہیں، ان کا رنگ عربی ہے، ان کا بدن اسرائیلی ہے، ان کے دائیں رخسار پر خال ہے، کوکب دری کی مانندہے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی آپ علیہ السلام کی خلافت میں زمین والے، آسمان والے، فضاءکے پرندگان سب راضی ہوں گے۔(بحارالانوار ج ۱۵ حدیث ۰۸ باب ۱ ذیل ۹)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: بھیڑیا اور بکری ایک جگہ پر گھاس چریں گے بچے، سانپ اور بچھو اکٹھے کھیلیں گے کوئی کسی کونقصان نہ دے گا شر جاتا رہے گا اور خیر ہی خیر رہ جائے گی۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۱۰۳)

امیرالمومنین علیہ السلام: اس زمانہ میں زمین پر امان کوانڈیل دیا جائے گا کوئی چیز بھی کسی کو نقصان نہ دے گی اور نہ ہی کوئی چیز کسی سے ڈرے گی حیوانات، حشرات الارض، درندگان،وحوش سب انسانوں کے درمیان ہوں گے تو کوئی بھی ایک دوسرے کو اذیت نہ دے گا حشرات الارض سے ہر ایک سے اس کا زہرلے لیا جائے گااس میں وہ زہر ہی نہ رہے گاکہ جس سے وہ ڈستے تھے۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۱۰۳)

وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ ان روایات کو ذکر کرنا ذاتاًمقصود نہیں ہے اور نہ ہی حیوانات کے عالم سے اور ان میں ظلم و جور کی کیفیت اور عدل کے نفاذ کی بات کرنا مقصود ہے، یہ ہم نے نمونہ کے طور پر اس لئے ذکر کی ہیں تاکہ ہم ان سے اپنے مقصد کے لئے استفادہ کریںان روایات سے ایک بات بڑی عیاں ہے کہ ہر سطح پر،ہر صنف و قبیلہ میں اور ہر نوع اور جنس میں ہر طرح کا عدل ہوگا امن ہوگا، سکون ہوگا۔

عدل سے مراد

جس عدل کی ہم بحث کر رہے ہیں جو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف سے ہے اس عدل سے فقط احکام اور فیصلہ جات میں عدل کا نفاذ نہیں ہے بلکہ یہ عدل ہر قسم کے ظلم و زیادتی کے خاتمہ کے لئے ہے اس طرح کہ اس عدل میں حیوانات بھی شامل ہوں گے جن کی طینت میں ہے کہ طاقتور کمزور کو کھا جائے گا اور جنگل کے جانوروں کے درمیان رائج قانون یہی ہے کہ طاقتوربادشاہ ہے اور اس نے کمزور کو اپنا لقمہ بنانا ہے اللہ تعالیٰ اس عدل کی حقیقت سے آگاہ ہے اور اس کی وسعت کو بھی وہی ذات بہتر جانتی ہے یہ اس کا اپنا لطف ہے کہ کس طرح وہ بھیڑیے ،شیر،سنسار، چیتے، باز کو راضی رکھے گا اور وہ اپنی طبیعت کو بدل لیں گے۔ یہ عدل ہونا ہے کہ بچھو انسان کو اذیت نہ دے گا حیوان کو بھی بچھو نہیں ڈسے گا۔

میں یہ کہتا ہوں کہ ظاہر امر یہ ہے جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا کہ امام علیہ السلام کا عدل طاقت کے زور پر لاگو نہیں ہوگا بلکہ ایک بہت ہی لطیف طریقہ پر اس کا نفاذ ہوگاجسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے اُد عُ اِلیٰ سَبِی لِ رَبِّکَ بِال حِک مَةِ وَال مَو عِظَةِ ال حَسَنَةِ(سورة النحل ۵۲۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام عدل قرآن ہیں، قرآن کے ساتھ ہیں، قرآن آپ کے ساتھ ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ کے نظام کو لاگو کرنے کے لئے جو طریقہ بیان کیا گیا ہے آپ اس الٰہی نہج کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کی تفصیل ہم پانچویں فصل میں بیان کریں گے۔

مہدوی عدالت کا جوہر اور حقیقت

عدل عام کرنے سے مراد یہ ہے کہ عالمی سطح پر انسانوں کے لئے جو سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ماحولیاتی، اخلاقی بحران موجود ہیں ان سب کو حل کر دیا جائے، ہر انسان کو سکون اورامن کا ماحول فراہم کر دیا جائے اور ہر انسان کی ضروریات زندگی کو پورا کیاجائے پوری روئے زمین پر بسنے والوں کوعادلانہ مواقع خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کر دیئے جائیں اور کوئی بھی کسی دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔

عدل کا نہ ہونا سب سے بڑا انسانی مسئلہ ہے اس کے بہت زیادہ منفی اثرات ہیں۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: امام عادل کی ایک گھڑی ستر سال کی عبادت سے افضل ہے زمین پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک حد(جرم کی سزا)کا قائم کرنا بارش برسنے سے افضل ہے۔(الوسائل ج ۸۱ ص ۸۰۳ ،باب ۱ حدیث ۴)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اللہ کا وعدہ ہے ان کے لئے جو تم سے ایمان لے آئے ہیں اور اچھے اعمال انجام دیئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین کا اقتدار دے دے جیسا کہ اس نے ان سے پہلے والوں کو بھی زمین پر اقتدار دیا اور یہ وعدہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جس دین (نظام) کو پسند فرمایا ہے اسے ان کے واسطے قدرت مندبنا دے اور یہ وعدہ ہے کہ جو خوف و ہراس ان پر طاری ہے اسے بدل کررکھ دے اور ان میں امن و سکون کی فضاءقائم ہو اور امن سے وہ سب میری عبادت کریں اور میرا کسی ایک کو وہ شریک نہ بنائیں اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے گا تو وہی لوگ فاسقین سے ہیں۔

یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ مکمل عدل ابھی تک قائم نہیں ہوا اس نے بعد میں قائم ہونا ہے اور اسی عدل کے نفاذ اور قیام کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو پوری زمین کا اقتدار دے گا اور یہ آخری زمانہ میں ہوگا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے( سورہ التوبہ آیت ۲۳،۳۳ ۔ سورہ الصف آیت ۹ ۔سورہ الفتح آیت ۸۲)

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس دین (نظام حیات) کوسارے ادیان پر غلبہ دے دے اگر مشرکین اس عمل کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔

ابھی تک دین اسلام سارے ادیان پر غالب نہیں آیا اور مشرکین کا خاتمہ نہیں ہوا جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت سے بھی واضح ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا یقینی ہونا ہے اور یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور پر ہی ہوگا۔

(کمال الدین ج ۷۶ حدیث ۶۱ ۔ تفسیر نور الثقلین ج ۲ ص ۱۱۲ حدیث ۲۲۱)

عدل کے بارے روایات

ابوسعید الخدری۔ رسول اللہ نے فرمایا:

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : میں تمہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے بشارت دیتا ہوں وہ میری امت میں مبعوث ہوں گے جب کہ لوگوں میں اختلافات ہوں گے،زمین میں زلزلے ہوں گے، تو وہ آئیں گے اور زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھر چکی ہو گی، اس سے آسمان میں رہنے والے اور زمین پر بسنے والے سب راضی ہوں گے، وہ مال کو صحیح طریقہ پر تقسیم کریں گے۔ایک شخص کا سوال:مال کو ”صحاحاً“صحیح طریقہ پر تقسیم کریں گے اس صحاح سے کیا مرادہے؟

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لوگوں کے درمیان مال کوصحیح معیارکی بنیاد پر تقسیم کریں گے۔(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۰۱۳ حدیث ۱۶۵)

حسین بن خالد:حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا: یا بن رسول اللہ!آپ علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام کا قائم علیہ السلام کون ہے؟

حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا المرتضیٰ علیہ السلام: میری اولاد سے چوتھے جو کنیزوں کی سردار بی بی علیہ السلام کا بیٹاہے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کر دے گا اسے مقدس بنا دے گا وہ ایسے ہیں کہ لوگ ان کی ولادت بارے شک کریں گے ان کے لئے ایک غیبت ہے آپ کے خروج سے پہلے جب وہ خروج کریں گے تو ان کے نور سے زمین چمک اٹھے گی اور آپ لوگوں کے درمیان عدل کا میزان لگا دیں گے کوئی ایک بھی کسی پرظلم نہ کرے گا وہ ایسے ہیں کہ ان کے لئے زمین کو لپیٹ دیا جائے گا۔اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہوگا وہ ایسے ہیںکہ جن کے لئے آسمان سے منادی نداءدے گاجس کوسارے زمین والے سنیں گے اس نداءمیں لوگوں کو ان کی طرف بلایا جائے گا اس میں کہا جائے گا”الا ان حجة اللّٰہ قد ظہر عندبیت اللہ فاتبعوہ فان الحق فیہ ومعہ“ آگاہ ہوجاو، خواتین و حضرات، حجت خدا کا ظہور بیت اللہ میں ہوچکا ہے پس تم سب اس کی پیروی کرو اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہے ”( اِن نَّشَا نُنَزِّل عَلَیهِم مِّنَ السَّمَآئِ اَیَةً اَعنَاقُهُم لَهَا خَاضِعِینَ )

(سورہ شعراءآیت ۴ ۔ فرائدالسمطین ج ۲ ص ۷۳۳ حدیث ۹۵ ۔ کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۴ ۔ باب ۵۳ ذیل ۵)

ابوسعید الخدری سے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نبی اکرم: حضرت امام مہدی علیہ السلام میری امت میں خروج کرے گااللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے لئے فریاد رس بنا کر بھیجے گا، امت کے لئے نعمات کی فراوانی ہو جائے گی حیوانات پر سکون زندگی گزاریں گے زمین اپنی نباتات کو باہر نکال دے گی اور مال کی تقسیم برابر طور پر کی جائے گی۔(کشف الغمہ ج ۳ ص ۰۷۲)

البحار، غیبت النعمانی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث بیان ہوئی ہے: خدا کی قسم! آگاہ رہو کہ ان کے زمانہ میں، انکا عدل لوگوںکے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جس طرح گرمی اور سردی گھروں میں آتی ہے(بحار ج ۲۵ ص ۲۶۳ حدیث ۱۳۱)

کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی اسناد سے امام ابوجعفر باقر علیہ السلامسے روایت نقل کی ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ضمن میں”( اِعلَمُوا اَنَّ اللّٰهَ یُحيِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا ) “ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دے گا(سورہ الحدید آیت ۷۱)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: اللہ تعالیٰ زمین قائم علیہ السلام کے وسیلہ سے زندہ کردے گا جب کہ وہ آپ علیہ السلام کی آمد سے پہلے مردہ ہو چکی ہو گی۔

زمین کی موت کا معنی ہے کہ زمین پر کفر کے رواج سے زمین مردہ ہو جائے گی کفر کی موت امام مہدی علیہ السلام کی آمد سے ہوگی۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج ۲ ص ۸۶۶ باب ۸۵ ۔ ذیل ۳۱)

ابن عباس سے کتاب الحجة میں ہے: کہ اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ قائم آل محمد کے وسیلہ سے زمین کی اصلاح فرمائے گا جب کہ آپ علیہ السلام سے پہلے زمین مردہ ہو چکی ہو گی یعنی زمین پر بسنے والوں میں ظلم و جور کی حکمرانی سے زمین مردہ ہو چکی ہوگی ”قَد بَیَنَّالَکُم ال اٰیَاتِ“اور ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کر دیاہے۔

تو اس سے مراد بھی یہ ہے کہ ہم قائم آل محمدعلیہم السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ذریعہ اپنی نشانیوں کو واضح کیا ہے ”لَعَلَّکُم تَع قِلُو نَ“یہ سب کچھ اس لئے ہو گا کہ تم سمجھ جاو، اس کا ادراک کر لو(سورہ الحدید آیت ۷۱ ۔ المحجة ۲۵۷)

ابوابراہیم علیہ السلام سے اس قول کے بارے آیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ زمین کو بارش برسا کر آباد نہیں کرے گا زندہ کرنے سے مراد زمین کو آباد کرنا نہیں ہے اور نہ ہی زمین کے مردہ ہونے سے زمین کا غیرآباد ہونا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ آدمیوں کو بھیجے گا جو عدل کا قانون جاری کر کے زمین کو زندگی دیں گے یعنی زمین پر بسنے والوں کو زندگی دیں گے اور زمین کے اوپرایک(جرم کی سزا)قائم کرنا، زمین پر چالیس دن تک بارش برسنے سے زیادہ فضیلت رکھتاہے۔(الکافی ج ۷ ص ۴۷۱ حدیث ۱)

الجواہر میں ہے۔

حضرت امام ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام کافرمان ہے کہ حد(جرم کی سزا)جو زمین پرقائم کی جائے تو یہ زیادہ مفید ہے کہ چالیس دن رات زمین پر بارش برستی رہے۔

(المحجہ ۳۵۷)

المحجہ ص ۳۵۷ میںالحلبی سے ہے کہ ابوعبداللہ سے میں نے اس آیت ”وَاع لَمُو اَنَّ اللّٰہَ یُح ی ال اَر ضَ بَع دَ مَو تِھَا“ (سورة الحدید آیہ ۷۱) کے بارے سوال کیا:

امام ابوعبداللہ علیہ السلام : کے بعد عدل کا نفاذ مراد ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بارزترین اور روشن ترین صفات میں صفت عدل ہے، آپ علیہ السلام کا لقب ہی عدل ہے۔ماہ رمضان کی راتوں کے لئے مروی صلوات میں ہے”اللھم وصل علی ولی امرک القائم المو مل والعدل المنتظر“اے اللہ! اپنے امر کے ولی القائم المومل پر صلوات بھیج اور عدل منتظر پر صلوات بھیج اس میں امام مہدی علیہ السلام کو عدل کے لقب سے یاد کیا گیا ہے یعنی اس عدل(مہدی)پر صلوات بھیج جنکی انتظار کی جا رہی ہے۔(تہذیب الاحکام ج ۳ ص ۱۱۱)

کمال الدین میں مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم نے مہدی علیہ السلام کے وصف میں بیان کیا ”اولہ العدل واخرہ العدل“ ان کا آغاز بھی عدل ہے اور ان کا اختتام بھی عدل پر ہے۔(مکیال المکارم ج ۱ ص ۸۰۱)

اس سے مراد یہ ہے کہ آپ علیہ السلام عدل کے کمال پر ہوں گے۔

کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ہے کہ جو امام مہدی علیہ السلام کے وصف میں ہو اور اس میں آپ علیہ السلام کی صفت عدل کو بیان نہ کیا گیا ہو۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کےلئے فرمایا:اے حسین علیہ السلام ! تمہاری اولاد سے نویں قائم علیہ السلام بالحق ہوں گے جو دین کو ظاہر اور غالب کرنے والے ہوں گے، عدل کو پھیلانے والے ہوں گے۔(کمال الدین ج ۱ ص ۴۰۳ باب ۶۲ ،حدیث ۶۱)

البحار میں حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔

ابوعبداللہ علیہ السلام: عدل سے پہلی بات جس کا اظہار قائم علیہ السلام کریں گے و عمار الساباطی: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں پھر تو ہمیں اصحاب قائم علیہ السلام سے ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ وہ حق کا اظہار فرمائیں گے حق کو ظاہر کریں گے، غلبہ لیں گے، جب کہ آج ہم آپ کی امامت میںہیں آپ کی اطاعت میں ہے تو دولت حق اور دولت عدل میں رہنے والوں سے ہم افضل ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: سبحان اللہ! کیا تم اس بات کوپسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ حق اور عدل کو سارے شہروں میں ظاہر کرے اورسب کا کلمہ ایک کر دے، سب کی بات ایک ہو جائے اور اللہ تعالیٰ مختلف دلوں کو آپس میں جوڑ دے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود (خداکی جرائم پر طے شدہ سزائیں)کانفاذ ہو، اللہ تعالیٰ حق کو اہل حق کی طرف پلٹا دے پس اس طرح حق ظاہر ہو جائے اور غالب آجائے کہ کسی ایک کے ڈر سے حق سے کوئی چیزمخفی نہ رہے آگاہ رہواے عمار! خدا کی قسم! تم میں جو بھی اس حالت میں مرے گاجس پر اس وقت تم ہوتووہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بدر اور اُحد کے بہت سارے شہداءسے افضل ہے پس تمہارے لئے یہ بشارت ہو۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۴۷۳ باب ۷۲ حدیث ۹۶۱)

و اس کا عدل ، میری جان اس پر قربان! انجیل میں موجود ہے....بلکہ وہ مساکین اور بیچاروں کے لئے عدل کا نفاذ کرے گا زمین کے بدبختوں کے لئے انصاف کو لائے گا اپنے منہ کی چھڑی سے مخالف کومارے گا اپنے ہونٹوں کی ایک پھنکار سے منافق کو مارے گا پس بھیڑیا میڈھے کے ساتھ رہے گا اور چیتا بچھڑے کے ساتھ رہے گا....ہر ایک پہاڑ میں قدسی( )موجود ہے کیونکہ زمین رب کی معرفت سے بھری پڑی ہے۔(اشعیاءج ۱۱ ص ۴۰۸)

یہ ایسی روایات ہیں جن میں تامل اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

۱ ۔ آسمانوں میں رہنے والے اور زمین پر آباد سب اس سے راضی ہوں گے۔

۲ ۔ زمین کو جور سے طاہر کر دے گا اور ہر ظلم سے پاک کر دے گا۔

۳ ۔ لوگوں کے گھروں میں عدل کو داخل کر دے گا جس طرح گرمی اورسردی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتی ہے۔

۴ ۔ کوئی بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے گا۔

۵ ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کو ایک کردے گا۔ توحید کلمہ ہوگا مختلف دلوں کو جوڑ دے گا اللہ کی زمین میں نافرمانی نہ ہو گی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کر دیا جائے گا۔

آسمانوں میں رہنے والوں اور زمین کے ساکنین کاحضرت امام مہدی علیہ السلام سے راضی ہونا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا لطف و کرم

امام علیہ السلام نے جو بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی ہے کہ آسمانوں اور زمین والے سب حضرت امام مہدی علیہ السلام پر خوش ہوں گے، زمین میں بسنے والوں کا راضی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ جب عدل مطلق کا تقاضا ہوگا تو ولی امر(حاکم وقت) سے زمین میں بسنے والے راضی ہوں گے، عورت ،مرد، چھوٹے، بڑے، امیر، غریب،بیمار، صحت مند،انسان،حیوان سب راضی ہوں گے ۔

کیونکہ حدیث میں ہے زمین میں بسنے والوں کے بارے میں ہے کہ جو حیوان اور انسان دونوں کو شامل ہے ۔

حیوانات میں عدالت کے بارے روایات بیان ہو چکی ہیں۔اس کی تفاصیل اور جزئیات اس کتاب کے دائرہ سے باہر ہیں۔

جی ہاں! عوام کی رضایت کے عنوان سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ان عمومی مہربانیوں اور وسیع پیمانے پر عادلانہ اقدامات کا نتیجہ ہوگا جو حضرت امام زمانہ(عج) کی طرف سے انجام پائیں گے کیونکہ عوام کو راضی کر لینا اور ہر انسان کا خوش ہو جانا یہ ایک ایساہدف ہے جس کا حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے بس وہ کون سا اسلوب اور طریقہ ہوگاعدل کے نفاذ میں جس کی وجہ سے جب امام علیہ السلام ایک سوکن کے حق میں اور دوسری کے خلاف فیصلہ دیں تو بھی دونوں اس فیصلہ کی وجہ سے امام سے راضی ہوں گی۔

البتہ آسمان والوں کا راضی ہونا تو یہ امر واضح نہیں ہے کہ ان ساکنین سے مراد فرشتے ہیں کہ فرشتے آپ پر راضی اور خوش ہوں گے آپ کے عدل کو لوگوں پر نافذ ہوتا دیکھ کر اور فرشتے لوگوں کی معصیات اور گناہوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں پہنچائیں گے یہ ان کے لئے ایک طرح کی رضایت اور خوشی کی بات ہے یا اس سے مراد جنات ہیں اور آسمان سے مراد فضا کی ہے کہ امام علیہ السلام ان کے درمیان عدل کا قانون نافذ کریں گے جس طرح زمین میں بسنے والے انسانوں اور حیوانات پرعدل کا قانون جاری کریں گے اس اقدام سے جنات آپ سے راضی ہوں گے ۔

جی ہاں! اس میں تو شک نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کا عدل عالم جنات کو بھی شامل ہوگا یا تو اس لحاظ سے کہ یہ مخلوق زمین میں بسنے والوں سے ہے اور یا آسمان میں رہتی ہے۔

یا آسمان میں رہنے والوں سے مراد زمین کے علاوہ دوسرے کرات میں رہنے والی مخلوقات ہے چاہے وہ انسان ہوں یا کوئی اور مخلوق ہم ان کے بارے نہیں جانتے وہ فضا میں رہنے والے ہیں یا دوسرے کرات میں رہنے والے ہیں، حضرت امام مہدی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو اس حقیقت کو اپنے علم، اپنی قدرت سے ان سب کی حقیقت سے پردہ اٹھائیں گے۔

یا اس سے مراد سارے معانی مراد ہیں فرشتے، جنات اور ہر دوسری مخلوق جو آسمانوں میں (چاہے فضاءمراد لیں یا دوسرے کرات مراد لئے جائیں)رہنے والے ہیں وہ امام علیہ السلام کے فیصلوں پر آپ علیہ السلام کے عدل کے نفاذ پر راضی ہوں گے۔

اس حوالے سے مختلف وجوہات اور احتمالات ہیں یہ سارے درست ہیں یا کچھ ان میں درست ہیں، باقی خیال ہے تو اس بارے میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ کتاب اس حوالے سے تحریربھی نہیں کی گئی کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے جتنے بھی سوالات سامنے آئیں ان کا جواب دے دیا جائے بلکہ ان مسائل میں بہت تھوڑے مسائل کا جواب بھی اس کتاب کے دائرہ میں نہیں آتا کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی دقت طلب ہے اور اللہ تعالیٰ ہی حقیقت حال سے واقف ہے۔

زمین کی تطہیر اور تقدیس کا مسئلہ

امام علیہ السلام:” اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین کو ہر جور سے طاہر کر دے گا اور ہر ظلم سے پاک و مقدس بنا دے گا“۔

اس حدیث میں زمین کی تطہیر کی بات کی گئی ہے۔ جب جور زمین سے اٹھ جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں سے، ادارہ جات سے، دفاتر سے ظالموں کاکردار ختم ہو جائے گا۔ تطہیر کی تعبیر سے اس کی نوعیت یا کیفیت کو بیان کیا جاتا ہے کہ جور کو زائل کر کے اس کی جگہ حق اور عدل کو رکھ دیا جائے گا تو یہ طاہر نقی ہوگا جس طرح کوئی شخص جب کسی کپڑے کو طاہر کرتا ہے تو نجاست کو ذائل کرتا ہے اور اس جگہ پر ایک دفعہ پانی بہا دیتا ہے، اس طرح وہ پاک ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات نجاست کا اثر یا اس کا رنگ باقی رہ جاتا ہے لیکن اگر اس جگہ پر ایک دفعہ اور پانی بہا دیا جائے تو صفائی یا طہارت کی شکل میں اضافہ ہو جائے گا یہ درست ہے کہ نجاست کے زائل کر دینے کے بعد ایک پانی ڈالنے سے پاکیزگی اور طہارت حاصل ہو گئی لیکن ایک دفعہ سے زیادہ پانی ڈالنے سے اس کی طہارت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے یہاں بھی اسی طرح ہے۔

قرآن مجید میں آیا ہے”حیض کی حالت میں عورت سے مقاربت مت کرو یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے “۔

پھر آگے فرمایا”اگر وہ طاہر ہوجائیں یعنی غسل کر لیں اور غسل کرلینے کے بعد ان کے ساتھ مقاربت کرو جیسا کہ اللہ کا حکم ہے” تمہارے لئے“اللہ تعالیٰ تو،توبہ کرنے والوں اور طہارت کے ساتھ ہوجانے والوں سے محبت کرتا ہے“۔(سورہ البقرہ آیت ۲۲۲)

غسل کرلینا، طہارت اورپاکیزگی میں اضافہ پر دلالت کرتا ہے یہ صحیح ہے کہ حیض کے خاتمہ کے بعد جماع کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ غسل کے بعد جماع کیا جائے۔

ہمارے اس مورد اور جگہ پر صحیح ہے کہ جور کا زائل کر دینا کافی ہے،لیکن جَور کے آثار اور نشانات کو مٹادینا اور جَور کی پلیدگی سے پوری زمین کو پاک کر دینا تو یہ چیز ہمارے مولا مہدی منتظرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نورانی شعاوں سے حاصل ہوگی۔

یہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ”زمین کو ہر جَورسے“تو اس بارے ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ کا عدل تمام ادارہ جات، سارے شعبہ ہائے حیات اور اس کے تمام ٹکڑوں کو شامل ہوگا، اس کی مزید تفصیل بعد میں آئے گی۔

امام علیہ السلام کا یہ فرمان کہ ”ویقد سبھا من ظالم“کہ ہر الم کے خاتمہ کے ذریعہ زمین کو مقدس بنا دیں گے یہ بھی ظالم کے ازالہ کے بعد مزیدعنایت اور مہربانی ہے، ظالم کے ہٹادینے اور اس کے ظلم کے خاتمہ سے ایک مرحلہ پوراہوگا۔

لیکن اس جگہ کو مقدس بنا دینا ، اس عہدہ کا تقدس، اس ادارہ کا تقدس ، اس شعبہ کا تقدس، زمین کے اس ٹکڑے اور حصہ کا تقدس،جسے ظلم اور ظالم سے پاک کیا گیا ہے تو یہ بات زمین پر حجة اللہ کے انوار سے ہوگا اور یہ آپ کی خصوصی عنایات اور مہربانیوں سے ہوگا

عدل اور قسط میں فرق

کمال الدین میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بتحقیق میرے خلفائ، میرے اوصیاءاور مخلوق پر حجج اللہ میرے بعد بارہ ہیں، ان میں پہلے میرے بھائی اور آخری میرے بیٹے ہیں۔

سوال: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے بھائی کون ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

سوال: آپ کے بیٹے کون ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:مہدی علیہ السلام ہیں جو زمین کو قسط اور عدل سے بھر دیں گے جس طرح جوراور ظلم سے بھر چکی ہوگی۔(کمال الدین ج ۱ ص ۰۸۲ باب ۴۲ ذیل ۸۲)

روایات میں لفظ قسط اورلفظ عدل دونوں کا اکٹھا استعمال ہوا ہے سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان کیا فرق ہے ۔

جواب دیا گیا ہے کہ استعمال کے اعتبار سے عدل کا دائرہ قسط سے زیادہ وسیع ہے قسط استعمال ہوتا ہے دوسرے کے حق کو پورا دے دینا جیسے گواہی دینے کے موقع پر، فیصلہ دیتے وقت وزن اور پیمائش کے وقت، عدل اس صورت میں استعمال ہوتا ہے کہ دوسرے کے حق کو پورا پورا دے دینا اور اس کے علاوہ بھی استعمال ہوتاہے۔

عدل حق کے موافق ہے مطلقاًجب کہ قسط حق کے موافق ہے مخلوقات کے حوالے سے، اس کی تصدیق کے لئے عدل اور قسط کے حوالے سے جو آیات ہیں ان کا مطالعہ کریں جَور، قسط کی ضد ہے، جب کہ ظلم، عدل کی ضد ہے،؟ظلم مطلقاً حق سے تجاوز کرنا ہے، جب کہ جَور دوسرے کے حق کو دبانا ہے یعنی جس کا تعلق دوسرے سے ہے اس دوسرے کے حق کو دبالیناجَورکہلاتاہے۔

اس ضمن میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ آخری زمانے کے افتراق،حکمران،قضاوت اپنی حکومت میں لوگوں کے درمیان جَور کو رواج دیں گے یعنی لوگوں کے جو حقوق بنتے ہیں وہ انہیں نہیں ملیں گے۔

اسی طرح وہ ظالم بھی ہوں گے یعنی اپنے اوپر بھی ظلم کریں گے اور دوسروں پر بھی ظلم کریں گے جب حضرت قائم علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو آپ لوگوں کے درمیان سے جَور کا خاتمہ کر دیں گے اور جَور کی جگہ عدل کی حکمرانی قائم کر دیں گے۔

ظالموں کی بنیاد بھی اکھیڑ دیں گے اور ظالموں کے اثرات کا بھی خاتمہ کر دیں گے اس طرح کہ آپ کا عدل پورے عالم پر پھیل جائے گا کوئی بھی کسی دوسرے پر جَور نہیں کرے گا اسی طرح کوئی بھی ظلم نہ کرے گا نہ اپنے ساتھ زیادتی اور ظلم کا رویہ اپنائے گا اور نہ ہی دوسروں پر ظلم و زیادتی کرے گا، ہر ایک کو اس کا حق ملے گا اور اپنے حقوق بھی اس کے محفوظ ہوں گے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: آگاہ رہو خدا کی قسم!حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عدل ضروربالضرور ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جس طرح گرمی اور سردی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتی ہے(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۲۶۳ حدیث ۱۳۸ غیبت نعمانی)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عدل کی وسعت

امام علیہ السلام کا فرمان:”لیدخلف علیہم عدلہ جوف بیوتہم کما یدخل الحروالقر“

حضرت امام مہدی علیہ السلام ان پر ان کے گھروں کے اندر عدل کو ضروربالضرور داخل کر دیں گے، جس طرح گھروںمیں سردی اور گرمی داخل ہوتی ہے۔

الحر:۔وہ حرارت اور تپش ہے جو گھروں کے اندر داخل ہوتی ہے جس کے لئے دروازہ یا کھڑکی یاسوراخ کی ضرورت ہوتی ہے۔

القر:۔حرارت اور گرمی کے مقابل میں ہے اس سے مار ڈالنے والی سخت سردی ہے اور یہ بھی گھروں میں گرمی کی طرح داخل ہوتی ہے۔

یہ روایت بہت ہی عمدہ ہے یہ ہمارے لئے امام مہدی علیہ السلام کے عدل کی حدود اور دائرہ کو بیان کر رہی ہے امام علیہ السلام نے اس حدیث میں امام علیہ السلام کے عدل کی شدت اور اس کی وسعت کو بیان کیا ہے یہ عدل گھروں کے اندر پہنچ جائے گابغیر اس کے کہ کوئی اسے گھروں میں داخل کرنے والا ہو، حدیث میں لفظ ”جوف البیوت “ گھروں کے اندر، اس سے اشارہ ہے کہ جہاں انتہائی خفیہ اور رازداری کا سسٹم موجود ہوگا جو خود اس گھرانے کے اندر قائم ہوگاوہاں بھی آپ کا عدل موجود ہوگا۔

یہ ہمارے لئے ایک بڑے قانون کو کھول رہا ہے جو عدل سے مربوط ہے اور اس قانون نے گھرانوں کے اندر موجود ہونا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کا قانون ایساہوگا شوہر اور بیوی کے ذاتی معاملات کوبھی شامل ہوگا نہ شوہر اپنی بیوی پر ظلم کرے گا اور نہ ہی بیوی اپنے شوہر سے زیادتی کرے گی بیوی اپنے شوہر کو ناراض نہیں کرے گی، اسے تنگ نہیں کرے گی اسے خوش رکھے گی اسی طرح شوہر اپنی بیوی کوخوش رکھے گا اس کی جائز ضروریات کو پورا کرے گا بیوی شوہرسے خوش ہوگی،ناراض نہ ہو گی کوئی زبردستی نہیں کرے گاوہ دونوں خودبخود عدل کے قانون پر عمل کریں گے جس طرح گرمی اور سردی کے گھروں کے اندر آنے میں کسی قسم کے اضافی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا ہے:”کمایدخل الحر والقز“جس طرح گرمی اور سردی داخل ہو جاتی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی سے اجازت لئے بغیر عدل ہر گھر میں پہنچ جائے گا اور یہ احتمال بھی ہے کہ گھروالے نہ بھی چاہیں گے تو قانونِ عدل ان کے پاس پہنچ جائے گا اگر اسے ٹھکرانا چاہیں گے تب بھی عدل ان کے پاس ہوگا، اس سے وہ فرار نہیں کر سکتے جس طرح سردی اور گرمی کی گھروں میں آمد سے فرار نہیں کیاجا سکتا ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ گھر میں عدل داخل ہوگا جس کا علم گھر والوں کو ہوگا لیکن وہ اس عدل کی آمد کو روک نہ سکیں گے جس طرح سردی اور گرمی کو کوئی روک نہیں سکتے جب موسم سرما میں سردی اور موسم گرما میں گرمی آتی ہے تو اس کا ہمیں علم ہوتا ہے ہم اسے روک نہیں سکتے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ عدل گھروں میں پہنچے گا، گھر والے پورے شوق اور محبت سے اسے لے لیں گے جس طرح موسم گرما میں سردی کو شوق سے لیا جاتا ہے اور موسم سرما میں گرمی کو شوق سے حاصل کیا جاتاہے۔

تینوں معانی میں فرق موجود ہے پہلے اور دوسرے معنی میں سختی کا عنوان موجود ہے لیکن تیسری صورت میں عدل خودپہنچ جائے گا اس کا گھر والوں کوعلم بھی ہوگا اور اس سے واقفیت بھی موجود ہوگی اور علم کا تقاضا بیداری اور آگہی ہے تاکہ گھروں میں اس کی روشنی میں عدل وارد ہو۔

جب کہ چوتھے احتمال میں عدل داخل ہوگا، اس کی انہیں چاہت ہوگی، اس کے لئے علم کی ضرورت ہے اور علم کے ساتھ رضایت اور پسندیدگی کی بھی ضرورت ہے ۔

امام علیہ السلام کا قول:”لایظلم احد احداً “کوئی ایک کسی ایک پر ظلم نہ کرے گا۔

اس سے محسوس ہوتا ہے کہ قاضیوں اور ججوں کی ضرورت نہ رہے گی اور نہ ہی عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہو گی اور عدالتوں کے قیام کے سارے لوازمات کی ضرورت نہ رہے گی یہ بات قابل غور، قابل دقت ہے۔

دعائے ندبہ میں ہے ”این المنتظر لاقامة الدمت والعوج ....“کہاں ہیں وہ جن کی انتظار ہو رہی ہے کہ ہر ٹیڑھے پن اور انحراف کو صحیح کر دے۔این حاصد فروع الغی الشقاق ....کہاں ہے وہ جو زیادتی وافتراق کو آ کر جڑ سے اکھیڑ دے گا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ٹیڑھا پن، انحراف بالکل نہیں ہوگا بلکہ سب لوگ صراط مستقیم پر ہوں گے۔

امام علیہ السلام کا فرمان:” یجمع الله الکلمة ویولف بین قلوب مختلفة ولایعصی الله فی ارضه وتمام حدود فی صفقه “ کلمہ میں توحید سے مراد یہ ہے پورا عالم متحد ہوگا ایک بات پر اور وہ کلمہ یہ ہوگا ”اشهدان لا اله الا الله واشهدان محمد ارسول الله “جس کے لئے انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ اطہار علیہم السلام نے مسلسل جدوجہد کی اور علماءنے توحید کلمہ کے لئے کوششیں کیںہر ایک حکومت اپنے اپنے زمانہ میں ایسا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے یا ایک بستی میں ایسا ہو یا ایک خاندان میں کسی جھگڑے کے بغیرایسا ہوجائے،لیکن کوئی ایسا نہیں کر سکا یہ ہمارے امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات سے ہے دعائے ندبہ میں ہے:

این جامع الکلم “کلمہ کو ایک کر دینے والے کہاں ہیں؟

آپ علیہ السلام کی زیارت میں آیا ہے ”السلام علیک یا جامع کلمہ علی التقویٰ“اے کلمہ کو تقویٰ سب پر اکٹھا کر دینے والے کہاں ہیں؟ آپ تقویٰ کی بنیاد پر کلمہ ایک کر دیں گے۔

مختلف دلوں کو ایک کر دیں گے سب دلوں میں محبت ہو گی ، مختلف دل جن میں محبت تھی، بغض تھا، ایک دوسرے سے نفرتیں تھیں، پیار و محبتوں میں مختلف تھے، رائے میں مختلف تھے چاہتیں مختلف تھیں یہ سب ایک ہوجائیں گے۔

نور امام مہدی علیہ السلام ان کے درمیان اتحاد کوپکا کر دیں گے ان میں تالیف ہو جائے گی پیار، محبت، انس، مہربانی،شفقت میں سب ایک ہو جائیں گے پیارہی پیار ہوگاوحدت افکار ہوگی۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: اگر ہمارے قائم علیہ السلام نے قیام کیا تو آسمان اپنے قطرات برسا دے گا اور زمین اپنی نباتات کو نکال دے گی اور بندگان کے دلوں سے نفرت جاتی رہے گی۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۰۰۳)

آپ کا یہ بیان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مناسبت رکھتا ہے”( وَ نَزَعنَا مَافِی صُدُورِهِم مِن غِلٍّ اِخوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِینَ ) “(حجر آیت ۷۴)

اور ہم نے ان کے دلوں سے نفرت اور گرہیں کھینچ ڈالیں وہ آمنے سامنے پلنگوں پر بھائی بھائی بن بیٹھے۔

لو لف کا معنی ہے کہ ان کے دلوں میں محبت ڈال دیں گے اور ان کے دلوں سے نفرت ختم کر دیں گے۔ دوریاں ختم وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں گے یہ عدل کا اعلیٰ درجہ ہے عدل کی شدت اور سب تک عدل کا پہنچنا اس بات کا سبب ہو گا کہ تمام نفرتیں ختم ہو جائیں بغض اور کینہ کی زنجیریں ٹوٹ جائیں۔

دعائے ندبہ میں ہے ”این حاصد فروع الغی والشقاق، این طامس اثار الزیغ والاھوائ“ ہمارے امام مہدی علیہ السلام کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں جوشقاق و افتراق اور نفرت کی شاخوں کو کاٹ کر رکھ دیں گے اور تمام خواہشات اور انحرافات کے آثار کو مٹا دیںگے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام تمام اخلاقی رذائل اور دلوں کے کینوں کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکےں گے۔

امام علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی اور اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کیا جائے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام میں سارے لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اللہ تعالیٰ کی معصیت نہ کریں گے، عدل ہوگا جور نہ ہو گا کسی دوسرے کے حق کو نہ مارا جائے گا،ہر ایک اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی کرے گا۔اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرے گا تاکہ دولت حق میں عدل مطلق نافذ ہو جائے۔

لوگ اس حد تک پہنچ جائیںگے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریںگے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے بارے بہت زیادہ سوالات ہیں بلکہ اس بات کا تو تصور ہی بہت سخت لگتاہے کہ سب کچھ یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ جمعہ کی ظہر میں سارے لوگ نمازظہر میں ہوں گے وہ بھی امام زمان علیہ السلام کی امامت میں معلوم ہے کہ ایسی نمازکا کتنا زیادہ ثواب ہوگا؟

اس زمانہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ امام زمانہ(عج)کی امامت میں نماز ادا کر رہا ہوگا کیونکہ عصرِظہور میں نمازجمعہ واجب عینی ہو گی اس کا وقت بھی محدود ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوگی خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو اس زمانہ کو پائیں گے اس سے انسان ان روایات کے معنی کو سمجھ سکتا ہے جن میں ہے کہ زمین اپنی تمام برکات اور خیرات کوباہر نکال دے گی اور آسمان اپنی ساری برکات اتار دے گا ایسا کیوں نہ ہوگا؟اس زمانہ میں ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہوگا اور ان سب کے دل ایک ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ان نعمات سے بہرہ ورہونے کی توفیق دے اورہم بھی اس مبارک زمانہ میں موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ صاحب الزمان علیہ السلام کے زمانہ کو جلد لائے۔

عدل کو کیسے پھیلایا جائے گا

امام علیہ السلام کے عدل کے بارے جو روایات اور بحثیں گزر چکی ہیں چاہے وہ بات کہ جو عدل آپ کی مبارک حکومت اور مملکت میں رائج ہوگا اور اس کے تمام سیاسی، اقتصادی، عسکری شعبہ جات میںجاری ہوگا یا گھروں کے اندر تک عدل پہنچ جائے گا، خاندانوںکے روابط اور تعلقات میں عدل موجود ہوگا دلوں سے نفرتوں کاخاتمہ ہو جائے گابغض اور کینے ختم ہو جائیں گے یہ سب کچھ یقینی ہوگا تو اس جگہ ایک سوال پیش ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اس عدلِ مطلق کو کیسے محقق کریں گے اورآپ کون سا طریقہ اپنائیں گے؟جس کی وجہ سے یہ سب کچھ موجود ہوپائے گا۔

اس امر کے بارے میں بیان جو ہے اس کا پانچویں فصل کے ساتھ ربط اور تعلق ہے جس میں امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے طریقہ کار کو بیان کیا جائے گا۔

البتہ عدل کی اقسام جو اوپر بیان ہوئی ہیں اور ان کے حوالے سے آپ کی دعوت کے طریقہ کے نتیجہ میںجو اثرات سامنے آئیں گے ان کے درمیان فرق کوپیش کیا جا سکتا ہے ۔جو عدل حکومتی اداروں سے مربوط ہے تو اس کے لئے ایک قانون عام وضع کیا جائے گا جو ایک سلطنت عظمیٰ کے لئے ہو گا یا اسلامی شہروں میں جو قضاة اور ججز تعین کیے جائیں گے ان کے بارے ایک قانون اور ضابطہ ہوگا جس کی وہ پیروی کریں گے اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے وہ وہی قانون ہوگاجو خداوند نے اتارا ہے۔

یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم یہ کہیں کہ جھگڑوںاور اختلافات کو حل کرنے کے لئے عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہو گی کیونکہ روایات تو اس بات کی طرف بھی اشارے دے رہی ہیں کہ آپ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی کوئی ایک بھی کسی دوسرے پر ظلم نہ کرے گا اس لحاظ سے عدالت گاہیں قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو گی اور نہ ہی قضاةکی ضرورت رہے گی لیکن جس عدل نے لوگوںکے گھروں میں پہنچنا ہے، اورخاندانوں کے اندرپہنچنا ہے، جس طرح گرمی اور سردی پہنچتی ہے تو اس کے لئے ہم نے احتمالات پہلے بیان کر دیئے ہیں۔البتہ وہ عدل جس کی وجہ سے نفرتیں ختم ہوں گی سب لوگ ایک جان ہو جائیں گے سب کے دلوں سے کینے ختم ہوجائیںگے، سب متحد اور ایک سوچ والے ہوں گے یہ خودامامعلیہ السلام کی ذات کی برکات سے ہوگا جوبندگان خدا پروارد ہوںگی ان میں سے ایک برکت اس صورت میں ظاہر ہو گی۔ جب عدل مطلق محقق ہو گاظلم ختم ہو گا تو اس کے لئے کسی معین اسلوب اور طریقہ کی ضرورت نہےں بلکہ یہ خبر تو ہمارے مولا صاحب الزمان علیہ السلام کی رحمات واسعہ سے ایک چھوٹی سی رحیمانہ جھلک سے ہوگا اور آپ کی رحمت کا اس طرح اظہار ہوگا کہ خود آپ کی ذات اللہ تعالیٰ کی رحمت مطلقہ کا مظہرہے یہ سارے اشارے اسی رحمت کے حوالے سے ہیں۔

کیا لوگ حضرت امام مہدی علیہ السلامکے زمانہ میں عصمت کے مقام کو پالیں گے

روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں امت کے لئے ایک بہت ہی عظیم ایمانی حالت پیدا ہو جائے گی اس طرح کہ اس حکومت کے زیرسایہ کوئی ایک بھی اللہ کی نافرمانی نہ کرے گا صحیفہ ادریس علیہ السلام کے حوالے سے حدیث قدسی میں آیاہے....میں ان کے درمیان مہربانی، الفت اور شفقت و پیار کو ڈال دوں گا پس وہ ایک دوسرے سے ہمدردی کریں گے آپس میں برابر مال تقسیم کریں گے فقیر مستغنی ہو جائے گا بعض دوسرے بعض پر فوقیت نہ جتائیں گے اور کوئی کسی پر بڑا نہ ہوگا بزرگ چھوٹے سے پیار کرے گا اور چھوٹا بڑے کی توقیر و عزت کرے گا حق پر عمل کریں گے حق کی بنیاد پر عدل کریں گے ، فیصلے دیں گے، یہی تو میرے اولیاءہیں میں نے ان کے لئے نبی مصطفی کا انتخاب کیا ہے اور میں نے مرتضیٰ کو چنا ہے میں نے ان کی ہدایت کے لئے انبیاءعلیہ السلام اور رُسل کو متعین کیا ہے ان کے لئے میں نے اولیاءاورانصار قرار دیئے ہیں یہ وہ امت ہے جسے میں نے نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اور اپنے امین مرتضیٰ کے لئے اختیار کیا ہے اس کے وقت جو میں نے اپنے علم غیب میں محجوب رکھا ہے اور ایسا ضرور ہونا ہے(اے ابلیس تو مردود ہے، جب وہ وقت آئے گاتو) میں تجھے اس دن تباہ کر دوں گا، ہلاک کر دوں گا، تیرے سواروں کو تیرے پیادوں کو اور تیری ساری افواج کواور تیرے سارے کارندوںکو ختم کردوں گا، پس تم جاو وقت معلوم تک تیرے لئے مہلت ہے تم اس دن کی انتظار کرو۔

علامہ المجلسی نے فرمایا ہے: اس حدیث قدسی بارے میرا بیان یہ ہے کہ یہ آثار جن کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے اور یہ کہ شیطان کااور اس کے لشکریوں کا خاتمہ ہو گا تو یہ سب کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی کے ایام میںتو حاصل نہیں ہوااور نہ ہی آپ کی امت میں ابھی تک ایسا ہوا ہے جب کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد یہ سب کچھ بعض ایام میں ہوگا اور وہ ایام نہیں ہیں مگر حضرت قائم علیہ السلام کے زمانہ کے ایام ہیں جیسا کہ روایات میں آچکا ہے اور مزید بھی آئے گا(البحار ج ۲۵ ص ۴۷۳،۵۸۳)

آئمہ معصومین علیہم السلام سے روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کا نفاذ ہوگا۔(یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کا آخری نمائندہ ظہور فرمائے گا)

دعائے ندبہ میں یہ جملے موجودہیں:این حاصدفروع الغ ¸ والشقاق، این طامس آثارالزیغ والاهواءاین مبیداهل النفاق والعصیان والطیان، این قاطع حبائل الکذب والافتراء، این مستاصبل اهل العناد والتضلیل والالحاد، این جامع الکلمة علی التقویٰ

ان روایات اور اسی قسم کے دوسرے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام معاصی اور گناہوں کے تمام اسباب کو کائنات میں سے جڑ سے اکھیڑ دیں گے آپ کے دور میںنہ ملاوٹ ہو گی نہ افتراق ہوگا، نہ بغض ہوگا نہ کینہ ہوگا، نہ حسد ہوگا، نہ بخل ہوگا، نہ نفسانی خواہشات کی پیروی ہو گی اور نہ ہی ایسی خواہشات ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مخالف ہوں، نہ فسق رہے گا نہ فسادنہ سرکشی ہو گی نہ زیادتی ہوگی نہ جور ہوگا نہ ظلم نہ گمراہ کرنے والے اسباب ہوں گے نہ ہی دشمنیاں نہ جھوٹ ہو گا نہ افتراءکوئی کسی پر ظلم نہ کرے گا اور نہ ہی کوئی کسی کوگناہ پر آمادہ کرے گا اور نہ ہی کوئی کسی کو گمراہ کرے گا، بلکہ یہ تقویٰ ہوگا، خدا ترسی ہو گی، نیکی ہوگی، عدل ہوگا، سچ ہوگا، محبت ہو گی، ایمان ہوگاہر سطح پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گی،اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی کوئی کسی پر ظلم نہ کرے گا سب ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور کوئی کسی کا حق نہ مارے گا سب بھائی بھائی ہوں گے تواس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا عصمت اس کے علاوہ کسی اورحالت کا نام ہے؟ یہ عصمت غیرذاتی ہے، اس حکومت میں گناہ کے اسباب ہی نہ رہیں گے تو کوئی کس طرح گناہ کرے گا؟ اپنے امام علیہ السلام کے نور کی برکت سے سارے انسان اپنی اصلی فطرت کی طرف پلٹ آئیں گے،ظلم کی ضرورت ہی نہ رہے گی عدل ہر ایک گھر میں اور ہر خاندان کے درمیان پہنچ جائے گا، حکمرانوں کے ضمیروں میں عدل بسا ہوا ہوگا، چوری نہیں ہوگی کیونکہ فقر ہی موجود نہ ہوگا، سب خوشحال ہوںگے، عدل کی سلطنت ہوگی، پاکیزہ حکومت ہو گی، زنا نہیں ہوگا،فسق و فجور نہ ہوگا کیونکہ جس کے لئے ازواج اور شادی کی حاجت ہو گی تو امام علیہ السلام اس کے لئے شادی کے اسباب مہیا فرما دیں گے۔کوئی ایسا نہ رہے گا کہ اس کے لئے شادی کی خواہش ہو اور وہ مالی مجبوریوں یا مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے شادی نہ کر سکے، بلکہ ہر ایک کے لئے اپنی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے واسطے اسباب مہیا کر دیئے جائیںگے۔

بغض، کینہ،حسد،نفرت کچھ بھی نہ ہوگا،امام زمان(عج)کے نور سے اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں کو طاہر کر دے گا اور وہ سب امام زمان(عج)کے نور کی برکت سے اس فطرت پر واپس آجائیں گے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق فرمایا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو توحید اور اپنی معرفت کی فطرت پر خلق فرمایا ہے، یہ فطرت اپنی پوری آب تاب سے امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت میں سب انسانوں پر حکمران ہوگی۔

ابلیس کا قتل

اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ امام علیہ السلام، ابلیس ملعون کو قتل کریں گے۔

اسحق بن عمار سے روایت ہے:

اسحق: میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا ابلیس کو جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور وقت معلوم تک مہلت کا کہا گیا ہے تو اس سے کیا مرادہے؟(سورة الحجر ۸۳)

امام علیہ السلام: وقت معلوم قائم علیہ السلام کے قیام کا وقت ہے جب اللہ تعالیٰ انہیں مبعوث فرمائیں گے تو آپ علیہ السلام مسجد کوفہ میں موجود ہوں گے وہاں پر ابلیس آئے گا اور اپنے زانو کے بل جھک کر آپ علیہ السلام کے سامنے بیٹھ جائے گا اور وہ کہے گا کہ ہائے افسوس!اس دن پر جو آ گیا ہے پس امام علیہ السلام اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑیں گے اور اس کو قتل کر دیں گے پس وہ دن یوم معلوم ہے ابلیس کی مدت عمر کے خاتمہ کا دن ہے۔اس بارے فرق نہیں ہے کہ ابلیس کو آپ علیہ السلام حقیقی طور پر پکڑ کر قتل کردیں گے یا نفوس کے اندر میں موجود شیطان کو قتل کر دیں گے ہرانسان کے اندر کا شیطان ماردیں گے دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔

ایک سوال اور اس کا جواب

جی ہاں! اس بنا پر کہ آپ نفوس سے شیطان کو ماردیں گے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض روایات میں جویہ قول موجود ہے کہ شیطان زندہ رہے گااور وہ انسانوں میں شیطانی وسوسہ ڈالے گا اوروہی شیطان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قتل کا سبب بنے گا اور اس کے بعد امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگااوراللہ تعالیٰ کا غضب مخلوق پر نازل ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کی روایات صحیح نہیں ہیں اور اس کی تردید ان روایات سے ہوجاتی ہے جن میں آیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں گناہوں اور جرائم کے اسباب ہی باقی نہ رہیں گے سب نیک ہوں گے۔ لیکن اس بحث کی جگہ یہ کتاب نہیں ہے اس کی جگہ اورہے۔جی ہاں! یہ بات کہ امت عصمت کے درجہ پر پہنچ جائے گی تو یہ فوری طورپر نہیں ہوگا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے مکمل ہو جانے کے بعد ہو گا ظہور کے ابتدائی دور میں ایسا نہ ہوگا کیونکہ وہ زمانہ توجنگوں کا اور دعوت دینے کا، ظلم سے منع کرنے کازمانہ ہوگا۔

ان روایات کا مضمون ہماری اس بات کی تائید کرتا ہے کہ امت عصمت مطلقہ کو پہنچ جائے گی خاص کر جب ان روایات کو ساتھ ملا دیں کہ امام علیہ السلام کا عدل وسیع ہو گا آپ علیہ السلام کی سلطنت عام ہو گی توحید الکلمة اور کلمة التوحید حاکم ہوگا خیالات، عقلیں سب ایک ہو جائیں گے، دلوں سے ہرقسم کی گرہیں کھول دی جائیں گی جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے ان روایات کو دوبارہ ذکر کرنے میں تکرارہوگا۔

اسی طرح ابلیس کو قتل کرنے کی جو روایت ہے وہ بھی اس کی تائید میں ہے کیونکہ ابلیس ہر قسم کے شر اور گناہ کی بنیاد ہے اسی لئے بعض روایات میںیہ بیان گذر چکا ہے کہ شر اور گناہ کے اسباب کا قلع قمع کر دیا جائے گا اس کی جگہ خیر اور بھلائی کو رکھ دیا جائے گا۔اجمالی طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں امت کے عصمت کے درجہ کو پہنچنا ثابت ہے اور ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے ان کی تاویل اس طرح کی جا سکتی ہے کہ لوگوں میں نیکی کے اسباب زیادہ ہوں گے خیر عام ہو گی گناہ کے ارتکاب کا کوئی سبب موجود نہیںرہے گاتوپھرانسان عصمت کے درجہ پرکیوںنہ پہنچ جائے اور وہ جن کے لئے اختیارہے، اختیاری حالت میں گناہ نہ کریں گے کیونکہ گناہ کی ضرورت ہی نہ ہو گی گناہ کے اسباب ہی نہ ہوںگے تویہ بات محال نہیں ہے ایسا ممکن ہے توپھر ان بہت ساری روایات کے مضمون کی تاویل اور توجیہ کیوں کی جائے۔

عصمت کا معنی

عصمت سے مرادفرائض اور واجبات ادا کرنے کی پابندی اورحرام کو چھوڑناہے ،عصمت ذاتی جو آئمہ اہل البیت علیہم السلام کے لئے ہے وہ اس جگہ مراد نہیں ہے۔

عمار الساباطی:میں نے حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں، تب تو ہم یہ رائے رکھیں کہ ہم قائم علیہ السلام کے اصحاب سے ہوں اور ان کا ظہور جلدہو جائے کیونکہ ہم آج آپ کی امامت میں ہیں آپ کی اطاعت میں ہیں اور اعمال کے اعتبار سے یہ افضل ہے دولت حق اور دولت عدل میں موجود ہونے سے۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام: سبحان اللہ!کیوں تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ممالک میں عدل اور حق کا اظہار کرے اور اللہ تعالیٰ اپنے کلمہ کو اکٹھا کرے اور مختلف دلوں میں اللہ تعالیٰ تالیف و محبت پیداکر دے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ حق کو اہل حق کی طرف واپس پلٹا دے اور حق ظاہر ہو جائے اور حق سے کچھ بھی مخفی نہ رہے، مخلوق میں کسی ایک کے ڈر کی وجہ سے حق ظاہر ہونے سے مخفی نہ رہے پورے کا پورا حق ظاہرہوجائے۔حضور پاک نے حضرت عمارعلیہ السلام سے فرمایا: کہ تم جس حال میں ہو اسی پر قائم رہو گے اور جب تمہارے ساتھیوں کو موت آئے گی تو تمہارا انعام اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدر اور احد کے بہت سارے شہداءسے افضل ہوگا پس تمہارے لئے یہ بشارت ہو۔(الکافی ج ۱ ص ۴۳۳ باب تا در فی حال الغیبة ص ۲)

اس جگہ کوئی اعتراض کر سکتا ہے اور اس کا اعتراض برجا بھی ہے کہ اس بات کو کہنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخری زمانہ کے لوگوں کی سیرت میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی بہت ساری اخلاقی قدریں، سیاسی، اجتماعی قوانین بدل جائیں گے بلکہ بہت سارے توابین کو ملنی منسوخ ہو جائیں گے چہ جائیکہ عدالتی احکام اور اس کے لوازمات جیسے فوجی عدالتیں، سول عدالتیں، جیل خانے بلکہ پولیس، فوج اور اسی طرح کے دیگر امور کی ضرورت نہ رہے گی تو یہ سب کیسے ہوگا؟

یہ سوال اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن اگر ہم یہ جواب دیں کہ اس کے لئے وقت درکار ہوگا یہ یکدم اور فوری تو نہ ہوگا جب ماحول اور حالات ایسے ہو جائیں گے کہ کوئی بھی کسی پر ظلم نہ کرے گا گناہ اور جرائم کے اسباب کا خاتمہ کر دیا جائے گا تو پھر ان تبدیلیوں کے آجانے میں کیا حرج ہے؟جیسا کہ رسول پاک کا فرمان ہے:”علق السوط حیث یراہ اھلک“(تفسیر السمعانی ج ۵ ص ۵۷۴)

ترجمہ:۔اپنے کوڑے کو ایک طرف رکھ دو جس وقت تم اس طرح کے افرادکو پالو۔

لیکن اس میں ایک بات ہے کہ جب برائی جڑ سے اکھیڑ دی جائے گی عدل مطلق نافذ ہوگا، حق عام ہوگا ہر گھر میں عدل ہوگا، جور نہ ہوگا، ظلم نہ ہوگا، رذائل اور خیانت کے اسباب ہی نہ رہیں گے، دلوں میں قربت ہو گی، محبت ہی محبت ہو گی تقویٰ پر سب اکٹھے ہوں گے تو پھر ان سب کی ضرورت نہ رہے گی جو اوپر سوال اٹھایا گیا ہے۔ پھرڈنڈے اور کوڑے کی ضرورت نہ ہو گی، تہدید ووعید کی ضرورت نہ ہو گی، لیکن اس جگہ پھر یہ سوال ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوجائے گا؟

خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب روایات ہیںیہ ان کے مضامین ہیں، یہ وہ کچھ ہے جو ہم نے سمجھا ہے، سوالات موجود ہیں اشکالات موجود ہیں، بحث دقیق ہے۔اس پرکوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔خدا ہی ہماری درستگی فرمائے اوریقینی امر ہے کہ جب ظہور ہوگا تو پھر یہ سب کچھ سمجھ بھی آجائے گااللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا کرے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ ،ترقی اور خیر مطلق، خوشحالی کا دور ہے

رہبر عظیم الشان آقای السید علی خامنہ ای کا ایک مقالہ میرے سامنے ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی برکات اور خیرات کو بیان کیا ہے آپ نے بیان کیا:

صاحب الامر علیہ السلام”ارواحنا فداہ“ کا زمانہ جو کہ آنے والا ہے یہ زمانہ انسانی زندگی کا نقطہ آغاز ہو گا یہ دور انسانی زندگی کی فناءاور خاتمہ نہیں اسی زمانہ میں اور اسی حکومت میں انسان کی حقیقی زندگی شروع ہو گی اور انسان کی حقیقی سعادت اسے حاصل ہو گی اس بڑی انسانی کائنات کے لئے آپ کی حکومت میں واقعی سعادت اور خوش حالی ہو گی انسان کے لئے خیرات اور برکات سے استفادہ کے مواقع ہوں گے وہ حکومت جو اس پوری زمین کو شامل ہو گی، زمین میں جتنی برکات ہیں اور جتنی پوشیدہ خیرات ہیں سب سے فائدہ حاصل کرنا اور انہیں بغیر کسی نقصان اور ضرر کے اپنے فائدہ کے لئے استعمال میں لانا انسان کے لئے ممکن ہوگا۔

یہ بات درست ہے کہ اس وقت انسان کائنات کی کچھ برکات اور خیرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن ان فوائد کے بدلے میں انہیں کافی سارے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں انہوں نے ایٹمی طاقت کو ایجاد کر لیا ہے لیکن ان لوگوں نے اس ایجاد کو انسان کے قتل کے لئے استعمال کیا ہے۔ زمین کی گہرائیوں سے خام تیل کو حاصل کیا ہے لیکن اس کے ذریعہ ماحول اور فضاءکو آلودہ کیا جاتا ہے جو انسان کی زندگی کے لئے نقصان کا سبب ہے یہ گزشتہ صدی میں حاصل ہوا ہے انسان کے محرکہ وسائل اور پوشیدہ طاقتوں کو ایجاد کر لیا ہے جیسے تجارات کی طاقت اور اسی طرح کی دوسری اشیاءکی طاقتیں، لیکن اس کے مدمقابل انسان کو بہت سارے بدنی اور جسمانی نقصانات پہنچائے ہیں، انسان کے لئے مادی زندگی بہت ساری مشکلات اور مصائب کو لے کر آئی ہے،موجودہ مادی ترقی انسان کےلئے زندگی کی آسائشیں اورسہولیات کولے آئی ہے لیکن اس ترقی نے انسانی زندگی سے بہت کچھ چھین لیا ہے دوسری جانب معنوی لحاظ سے ہمعصر انسان اخلاقی اقدار کی بربادی سے دوچار ہے لیکن اس کے برعکس جس وقت حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کا ظہور ہوگا تو بالکل مختلف حالات ہوں گے انسان کائنات کی تمام خیرات اور برکات سے فوائد حاصل کرے گاعالم طبیعت میں جو طاقتیں(انرجی)خیرات موجود ہیں سب انسان کے لئے ہوں گی بغیر اس کے کہ انسانی زندگی کو کسی قسم کا نقصان کا سامناکرنا پڑے اسے جسمانی نقصان بھی نہیں ہوگا مالی نقصان بھی نہ ہوگا اخلاقی اور معنوی نقصانات بھی نہ ہوں گے ایسی حالت ہو گی جو انسان کو ترقی اور کمال کی منزل پر پہنچا دے گی۔

انبیاءآئے ہیں انہوں نے ایسے اسٹیشن اور مرکز کی خبر دی ہے اور اس کی خصوصیات بیان کی ہیں کہ جس سے انسانی زندگی نئے طریقے سے اپنا آغاز کرے گی پس اگر خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہدف انسانیت کو اس مرکز تک پہنچانا نہیں تھا جو کہ آخری دین کا تقاضا ہے تو پھر آپ نے کیا کام کیاہے؟

ضروری ہے کہ تربیت کا وہ سلسلہ جاری رہے جسے انسان کے لئے آپ نے مہیا فرمایا ہے نسل در نسل ایک کے بعد دوسرے طبقہ میں تربیت کایہ عمل جاری رہے آپ نے اس دنیا کوچھوڑ جانا تھا”اِنَّکَ مَیِّت وَّاِنَّہُم مَیِّتُو نَ“(سورہ الزمرآیت ۰۳)

”اے پیغمبر! تو نے یقینامرنا ہے اور ان سب نے بھی مرنا ہے“۔

حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کا تقرر

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ اپنا قائمقام ایسے کو بنا جائیں جوپوری دقت اور امانت سے آپ کے قدم بقدم چلے اور جس راستہ کی تعمیر آپ نے شروع کی اسے آگے بڑھائے اور آپ کے طریقہ پر عمل کرے اورو ہ ہستی حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السلام ہیں جنہیں یوم الغدیر( ۸۱ ذوالحجہ ۰۱ ہجری) خلیفہ کے منصب پرمقررفرمایا۔ہماری مراد یہ ہے کہ اگر امت نے اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی تنصیب کے اقدام کی حقیقت اور اصلیت کا ادراک کر لیا ہوتا اور اس کے حقیقی مفہوم کو جان لیا ہوتا اور اسے اچھی طرح لے لیا ہوتا اورساری امت نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نشانات پر چلنا شروع کر دیا ہوتا اورنبوی تربیت پر خود کو باقی رکھا ہوتا اورحضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد میں آنے والی انسانی نسلوں کو الٰہی تربیت کے سائے تلے ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہو کر چلنے میں امت نے ان کا ساتھ دیا ہوتا تو انسان نے اپنی اس سطح کو پا لیا ہوتا جس تک پہنچنے میں اب تک یہ انسان ناکام رہا ہے اس منزل کو انسان نے بڑی تیزی سے حاصل کر لیا ہوتا انسانی علوم میں ترقی، انسان کی تمام روحانی منازل میںترقی اورلوگوں کے درمیان وحدت معاشرہ میںسلامتی اور امن، ظلم اور جور کا خاتمہ، طبقاتی تفاوت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا اورمحبت و ولایت کی فضا سے بہرہ ور ہوتاتوموجودہ بدحالی اور بدامنی سے دوچار نہ ہوتا، اخلاقی بدحالی کایہ انسان شکار نہ ہوتا، مادی نقصانات سے دوچار نہ ہوتاانسانی معاشروں میں ظلم و جَور کے مظاہر موجود نہ ہوتے۔

حضرت علی علیہ السلام کی قیادت بارے جناب سیدہ زہراءسلام اللہ علیہا کافرمانا

جیسا کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا جو اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور ان کے مقام سے آگاہ تھیں فرمایاکہ: اگر لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کی ہوتی تو وہ انہیں اس راستہ پر(ترقی اور کمال کے راستہ پر) لے کر چلتے اور انہیں اس کے انجام تک پہنچادیتے۔

آپ نے فرمایا : ان پر وائے ہو، پھٹکار ہو کہ انہوں نے رسالت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا نبوت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا یعنی کس طرح اہل البیت علیہم السلام سے خود کو الگ کر کے نبوت اور رسالت کے مضبوط ستونوں کو کمزور کر دیا۔حضرت علی علیہ السلام جو دنیا اور دین کے معاملات سے بہترآگاہ تھے ان سے خود کو الگ کر لیا، آگاہ ہوجاو کہ یہی تو کھلا اور واضح نقصان ہے ابوالحسن علیہ السلام کو انہوں نے ناپسند کیا خدا کی قسم!ان میں کچھ بھی ایسا نہ تھا جو ناپسندیدگی کا سبب ہو یہ فقط ان کی تلوارکی کاٹ سے نفرت کا اظہار تھا، ان کی شدت سے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جو ان کا غضب تھااس کے وہ مخالف تھے۔

کتنا ہی اچھاہوتااگر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوامانتیں اور ذمہ داریاں سونپیں تھیں وہ لوگ اسے لے لیتے اوراس پر پردہ نہ ڈالتے توحضرت علی علیہ السلام انہیں بڑے آرام سے منزل کی طرف امت کو لے کر چلتے اور امت کوکسی انحراف میں نہ پڑنے دیتے انہیںکوئی تکلیف نہ ہوتی انہیں خوشگوار گھاٹی پر پہنچا دیتے جہاں سے وہ سیراب ہو کر نکلتے،کوئی بھی بھوکا نہ رہتا، وہ سب اس طرح سیراب ہوتے جیسا کہ ہونا چاہئے ، انہیں کہیں بھی پریشانی نہ ہوتی، اپنے واضح اورروشن عمل کے ذریعہ بھوکے کی بھوک مٹا دیتے آسمان سے ان کے لئے برکات اترتیں اللہ تعالیٰ انہیںان کی اس غفلت اور کوتاہی پر اور اپنے مولا کی نافرمانی پر عنقریب گرفت میں لے گا بوجہ اس کے جووہ کر رہے ہیں۔یعنی وہ اپنے کئے کا نتیجہ بھگتیں گے۔

(بلاغات النساءص ۶۲،۷۴ ۔ کلام فاطمہ علیہ السلام، البحار ج ۳۴۸۵۱ ۔ ۹۵۱ ۔ ۱۶۱)

لیکن انسان بہت زیادہ غلطیوں میں جا پڑتا ہے کتنی بڑی غلطیاں اس انسان نے کی ہیں جس کا تاریخ نے مشاہدہ کیا ہے انسانیت کو بڑے بڑے مصائب جھیلنے پڑے ہیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمیں انسان الٰہی سفر، حادثات، سانحات اوراہم واقعات سے بھرا پڑا ہے اس کا یہ سفر انتہائی گہرے فلسفے پر مشتمل ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فلسفہ کا مزید گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اسے اچھی طرح پرکھا جائے، اس کی جانچ پڑتال کی جائے، ہمعصر انسانیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی تحریک کو جاری رکھے اسی راستہ پر چلے انسانی تنظیمات اور معاشرے جس قدر عدالت اور معنویات سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے اور انسان سب اخلاقی رذائل،انانیت، خودپسندی،بری عادات اور شہوانی احساسات سے پاک ہو گاتو پھر انسانیت کا کاروان روشن مستقبل کے قریب تر ہو جائے گااس وقت انسانیت انحرافات کی قربانی بنی ہوئی ہے اس لمبی تاریخ میں ایسے راستہ پر چلی ہے جس نے اس انسانیت کو طے شدہ ہدف اورمقصد سے اسے دور کر دیا ہے۔(خطاب ۸۱ ذوالحجہ ۱۲۴۱ ھ ق)

اوّل زمان اور آخر زمان کی دعوت

سورة الانبیاءآیت ۵۰۱ تا ۷۰۱ میں ہے ”ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ بات درج کر دی ہے کہ بتحقیق زمین کے وارث میرے صالح بندگان ہوں گے یہ عبادت گزار قوم کے لئے خیر ہے جو اس کی طرف بھیجا جا رہا ہے اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔

یہاں ایک قدر مشترک ہے کہ حضرت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جنہیں عالمین کے لئے اول زمان میں رسول بنا کر بھیجا گیا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کہ جن کے بارے ہمیں آخری زمانہ کے لئے وعدہ دیاگیاہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:ہم سب ایک ہیں اور ایک نور سے ہیں اور ہماری روح اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے ، ہمارا پہلا محمد ہے ،ہمارا درمیانی محمد اور ہمارا آخری بھی محمد ہے“۔(بحارالانوار ج ۶۲ ص ۶۱ ۔الزام الناصب ج ۱ ص ۴۴)

پس پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو کہ نبی اعظم ہیں اور آخری محمد وہ مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں۔اس آیت کے بہت سارے معانی ہیں ”اَنَّ ال اَر ضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُو نَ“ (سورة الانبیاءآیہ ۵۰۱) یہ آیت آخری زمانہ کی جانب اشارہ ہے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی تک ساری زمین کے صالحین وارث نہیں بنے اور اب تک بھی ایسا نہیں ہواکہ صالحین ساری زمین کے وارث ہوں، حضرت قائم علیہ السلام کے زمانہ میں ایسا ہوگاجیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اللہ کا وعدہ ہے ان کے لئے جو تم سے ایمان لے آئے ہیں اورنیک اعمال بجالائے کہ انہیں زمین کی خلافت اور اقتدار ضرور دیا جائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو اقتدار دیا گیا اور ان کے لئے اس دین کو ضرور قدرت مند بنا دیا جائے گا جس دین کو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایاہے“(سورہ النورآیات ۵۵)

پہلی آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے کہ ”وَمَا اَر سَل نَاکَ اِلَّا رَح مَةً لِّل عَالَمِی نَ“ کہ آپ عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں(سورة الانبیاءآیہ ۷۰۱)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سارے انسانوں کے لئے رحمت ہے ، اسلام رحمت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ایک نظری اور فکری دین ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ نظام عمل ہے اور اسے نافذ کیا جا سکتا ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے سارے احکام کا اس طرح نفاذ ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ساری زمین پر ہوگا تو اس وقت یہ دین، یہ نظام پورے عالمین کے واسطے رحمت ہوگا۔

سورہ الانفال آیت ۴۲ میں ہے ”اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی بات پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسے امر کی دعوت دیں جو تمہیں زندہ کرتا ہے اور یہ بات تم سب جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ کہ اس انسان کو اللہ کے پاس ہی محشورہوناہے“۔جس وقت اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کر لیا جائے گا اور ان پر عمل کیا جائے گا تو ان کا اثر رحمت کی شکل میں ہوگا،فرد اوراجتماع کی حیات کی صورت میں حاصل ہوگااس تناظر میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام تشریعاتی ہیں تکلیفی نہیں ہیں کیونکہ تکلیف میں ایک طرف کی مشقت ہوتی ہے جب تشریف میں ایک قسم کی رحمت پوشیدہ ہے اللہ تعالیٰ کے احکام رحمت ہیں، امت اورفرد کی زندگی میں دنیاوی اور اخروی فائدہ ہے۔(سورہ ص ۸۸)

یہ بات معلوم ہے کہ ابھی تک سارے احکام کو نافذ نہیں کیا جا سکااور وہ بھی پوری زمین پرتونفاذ بالکل نہیں ہوسکتا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نے ابھی تک عالمین کے لئے رحمت کا عنوان پوری طرح حاصل نہیں کیا۔

جی ہاں! مہدی منتظر علیہ السلام کے زمانہ میں اور حکومت عدل کے قیام کے بعد ایسا ہوگا کہ جس حکومت میں ظلم نہ ہوگا کوئی کسی کا حق نہ مارے گا اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہوگی، امن ہوگا، محبت کاراج ہوگا، پھر رحمت ہی رحمت ہوگی، سکون ہی سکون ہوگا، خوشحالی کا دور ہوگا، اس وقت حضور پاک کی رسالت عالمین کے لئے رحمت بن کر چمکے گی جیسا کہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔

اس لحاظ سے آیت کے شروع اور آیت کے آخرمیں بہت ہی مضبوط ربط اور تعلق ہے اور یہ اول زمان اورآخر زمان کا رابطہ ہے۔

دوسرا بیان پہلے اور آخری زمانہ کے درمیان ربط و تعلق

اگر اس سے آپ قانع نہیں تو مزید سنیں۔

سورة الفرقان آیت ۱ میں ہے”اللہ کی ذات بابرکت ہے جس نے فرقان اپنے عبدپر نازل فرما دیا ہے تاکہ آپ عالمین کے لئے نذیریعنی ڈرانے والے ہوں“۔

سورہ سباءآیت ۸۲،۰۳ میں ہے کہ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر، لیکن انسانوں کی اکثریت نہیں جانتی کہ وہ ان سب کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیںوہ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو یہ وعدہ کب پوراہوگا؟اگر تم سچ کہتے ہو کہ وہ سب کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں پس تم اے رسول! ان سے کہہ دو کہ: تمہارے لئے ایک دن کا وعدہ ہے کہ اس دن سے ایک گھڑی بھی آگے پیچھے نہیں ہوگی“۔

یعنی جب وعدہ والا دن آ گیا تو پھر یہ سب کچھ ہو جائے گا اس دن سے آگے پیچھے نہ ہوگا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی کو نوحعلیہ السلام کے سارے شرائع(تمام قوانین) عطا کئے، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ جن شرائع کو بھیجا گیا وہ سب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کی گئیں اللہ تعالیٰ نے انہیں سب کے لئے مبعوث کیا، سفید کےلئے،کالے کےلئے، جنات کے لئے سارے انسانوں کے لئے۔(المحاسن ج ۱ ص ۸۴۴)

اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ذکر ”للعالمین“کا عنوان دیا ہے تو اس سے مراد یا تو قرآن ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ہے جو کہ اسلام کی شکل میں سامنے آئی یا دونوں مراد ہیں اگر ایسا ہے تو وہ سارے عوالم کیا ہیں جو قرآن کو اپنے لئے ذکر شمار کرتے ہیں۔اول زمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اس زمانے تک جس میں اس وقت ہم موجود ہیں ایسے لوگ موجود ہیں اور پہلے بھی اس زمین میں موجود رہے ہیں جنہوں نے نہ قرآن سنا نہ اسلام کانام سنا اور نہ ہی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے سناتو پھر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح ان سب کے نذیر(ڈرانے والے)ہوں گے اور کس طرح ان سب کے لئے بشیر(بشارت دینے والے)ٹھہرے، اسی طرح یہ آیت ہے کہ ”( وَمَا اَرسَلنَاکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیراً وَّنَذِیرا ) “کب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے انسانوں کو خدا کی اطاعت کرنے کے نتیجے میںبشارت دی ہے اور کب آپ کی دعوت سارے عالم میں پہنچی ہے بہت ہی تھوڑے تھے جنہیں آپ نے ڈرایا اور بہت ہی تھوڑے تھے جنہوں نے آپ کی اورقرآن اور اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔

اس بیان سے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اگر آپ کی دعوت سارے انسانوں تک نہیں پہنچی یا عالمین کے لئے آپ کی دعوت نہیں گئی تو پھرکیا یہ آیات بے معنی نہ ہوں گی؟!

نہیں ایسا نہیں ہے! آیات کے ذیل میں اس بات کا جواب دے دیا گیاہے۔

( ولتعلمن نباه بعدحین ) “اور یقینی طور پر تم اس خبر کو کچھ وقت گزرنے کے بعد ضروربالضرورجان لوگے“۔

( وَیَقُولُونَ مَتٰی هَذَالوَعدُ اِن کُنتُم صَادِقِینَ ) (سورہ یونس آیت ۸۴)( قُل لَّکُم مِیعَادُ یَومٍ لَّا تَستَاخِرُونَ عَنهُ سَاعَةً وَّلَا تَستَقدِمُونَ ) (سورہ سبا آیہ ۰۳) اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو، تو ان سے کہہ دو کہ: وعدہ کادن مقرر ہے جب اس کا وقت آن پہنچے گا تو پھر نہ تم اس سے آگے بڑھ سکو گے اور نہ ہی اس سے پیچھے رہ سکو گے۔

وعدہ پورا ہونے والا ہے،وعدہ سچا ہے، اس نے ضرور پورا ہونا ہے، اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور وہ دن جو آنے والا ہے اس وقت ہوگاجب اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو خروج کا اذن عطاءکرے گا اور وہ آ کر سارے انسانوں کو ڈرائیں گے اور انہوں نے ہی سارے انسانوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپیغام دیناہے، دعوت کو پہنچانا ہے، بشارت دینی ہے، وہ دن آنے والا ہے ،وعدہ سچ ہونے والاہے۔

( هُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَو کَرِه المُشرِکُو نَ ) “(التوبہ ۲۳،۳۳ ۔ الفتح ۸۲ الصٰف ۹)

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور حق کے ساتھ بھیج دیاہے دین حق دے کر تاکہ وہ اس دین کو ظاہرکریں اور غلبہ دیں اگرچہ مشرکین اس کو ناپسند کریں، باقی سارے نظاموں پر اس دین کو غلبہ دینا ہے دیں کے غلبہ کے حوالے سے چند روایات ملاحظہ ہوں کہ ان سے قاری کو مزید اطمینان حاصل ہوگا۔

۱ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی سیرت کیا ہوگی؟

جواب دیا گیا کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا جو کچھ آپ سے پہلے موجود ہوگا اسے ختم کر دیں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا کہ کہ آپ نے جاہلیت کے دور کی ہرچیزکومنہدم کر کے نئی تعمیر کی اسی طرح حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد سے اسلام نئے سرے سے شروع ہوگا(غیبة النعمانی ص ۱۲۱ سیرة القائم)

۲ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام :جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو سارے انسانوں کو نئے امر کی دعوت دیں گے جس طرح حضرت رسول اکرم نے سارے لوگوں کو دعوت دی تھی ،اسلام شروع ہوا یعنی جس وقت اسلام کی دعوت دی گئی تو لوگ اسلام کو بھول گئے تھے حضرت رسول اللہ نے اس عالم میں اسلام کی طرف لوگوں کو بلایا، ایک دفعہ پھر اسلام غریب ہو جائے گا جس طرح اس کاآغاز ہوا تھا تو حضرت امام مہدی علیہ السلام پھر سے اس کی طرف دعوت دیں گے پس خوشخبری غربا کے لئے ہے۔(غیبة نعمانی ص ۳۷۱ ،الاسلام بداءغریبا)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:امام زمانہ(عج) کے متعلق حدیث ہے کہ آپ اپنے خطاب میں فرمائیں گے....جو شخص بھی نبیوں کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو میں سب نبیوں کے زیادہ قریب ہوں اور جو شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو میں ان کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان اپنی محکم کتاب میں اس طرح موجود نہیں ہے”( اِنَّ اللّٰهَ اصطَفیٰ آدَمَ وَنُو حاً وَ آلَاِبرَاهِیمَ وَ آلَ عِمرَانَ عَلَی العَالَمِینَ ذُرِّیَّةً بَعضُهَا مِن بَعضٍ وَاللّٰهُ سَمِیع عَلِیم ) “۔(آل عمران ۳۳،۴۳)

”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام، نوحعلیہ السلام، آل ابراہیم علیہ السلام اور آل عمران کو عالمین پر چن لیا ہے بعض جو ہیں وہ بعض کی ذریت سے ہیں اللہ سمیع ہے اور علیم ہے“۔

میں حضرت آدم علیہ السلام کا بقیہ ہوں، میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذخیرہ ہوں، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتخاب ہوں، میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چنا ہوا ہوں، سب پر سلام و صلوات ہو، آگاہ رہو، متوجہ ہوجاو، جو شخص کتاب خدا کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو سارے لوگوں سے کتاب خدا سے میرا زیادہ تعلق ہے اور جو شخص سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درمیان لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو سارے لوگوں سے زیادہ سنت رسول سے میرا تعلق ہے“۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۹۳۲)

یہ ہے وہ رابطہ اور تعلق جو اول زمان اور آخر زمان کے درمیان موجود ہے پس جس کام کا آغاز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی کی تکمیل حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے،اسے پورا آپ علیہ السلامآکرپورا کریں گے، کام وہی ہے لیکن اسے آخر تک حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پہنچانا ہے۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خاتم، خاتم الخلفاءکے بارے خود ہی فرمایا”وہ میرے نشان پر چلے گا اور وہ غلطی نہیں کرے گا اور اس سے چوک نہ ہو گی“۔(الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۱۷،۱۸ ، باب ۶۶۳)

سوال:” وَمَا اَر سَل نَاکَ اِلَّا رَح مَةً لِّل عٰلَمِی نَ“میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قرار دی جائے اور اس رحمت سے مراد آپ کی رسالت کو نہ لیا جائے تو پھر اوپر اٹھائے سوال کا جواب کیاہے؟

جواب: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کو دوسری آیات نے بھی بیان کیا ہے۔”اللہ کی جانب سے رحمت کی وجہ سے ہی تم ان کے لئے نرم ہوئے اگر تم سخت مزاج ہوتے ،تندخُو ہوتے تو وہ سب تیرے گردا گرد سے دور ہو جاتے تیرے پاس نہ آتے پس تم انہیں معاف کر دو ان کے لئے استغفار کرو اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو اور جب تم فیصلہ کر لو تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کام کو کر گزرو کیونکہ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو دوست رکھتاہے“۔(سورہ آل عمران آیت ۹۵۱)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے پاس آیا ہے جو خود تمہارے میں سے ہے جس تکلیف میں تم ہوتے ہو تو وہ اس کے لئے گراں گزرتی ہے وہ تمہارے اوپر حریص ہے کہ تم مومنین ہو، انہیں مومنین کا بہت خیال رہتا ہے وہ روف ہے رحیم ہے ،مہربان ہے“۔(سورہ التوبہ آیت ۸۲۱)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے نبی! تم کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ان کا انجام بُرا ہے“۔(سورہ التحریم آیت ۹)

پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحیم ہیں ان مومنوں کے واسطے جو آپ کے گرد موجود ہیں لیکن آپ کافروں کے لئے سخت ہیں، شدت اور غلبہ جو لفظ استعمال ہوئے ہیں ان سے مراد انتقام نہیں ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ انہیں ظلم اور سرکشی کرنے سے روکو انہیں دین کی طرف واپس لے آو اور اسلام کی رحمت میں انہیں داخل کرو پس حضرت نبی اکرم کی سختی اور درشتی رحمت ہے دشمنوں کے حق میں، اگرچہ اس باب سے ہی ہو کہ سونا عبادت ہے یا ظالم کو قتل کرنا عبادت ہے، کیونکہ جب انسان سو جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچ جاتا ہے یا اس سے کم کر لو کہ اس کا ظلم کرنا کم ہوجاتا ہے اوراس طرح اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے اور مظلوم پر اس کی زیادتی کم ہو جاتی ہے۔پس دشمنوں کو جب ظلم سے روکا جائے گا اور اس سے سختی کی جائے گی تو گویا انہیں ہلاکت سے بچایا جا رہا ہوگا تو یہ بات ان دشمنوں کے لئے رحمت ہو گی۔ سورہ فتح کی آیت ۸۲،۹۲ کا ترجمہ ملاحظہ ہو، یہ آیات اس مطلب کو بڑا ہی واضح بیان کر رہی ہیں جسے ہم بیان کرنے میں مصروف ہیں۔

مہدوی رحمت کے نظارے

جب ہماری گفتگو رحمت پر آٹھہری ہے تو مہدوی رحمت کے چند نظارے ملاحظہ ہوں۔

روایات گذر چکی ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی رحمت پر دلیل ہیں، جیسے آپ رحمت عام کریں گے، زمین کی ساری برکات باہر آجائیں گی، اگر ہم میں سے کوئی ایک زمین پر موجود نہ رہے تو زمین برباد ہو جائے۔(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ص ۳۷)

رحمت کے چند نمونے:

۱ ۔ عدالت عام ہونا ظلم ختم ہونا رحمت ہے۔

۲ ۔ فقر کا خاتمہ گداگری کا خاتمہ رحمت ہے۔

۳ ۔ غیر خدا کی غلامی کا خاتمہ رحمت ہے۔

۴ ۔ اجتماعی اور انسانی ارتقاءاور تکامل حاصل ہونا رحمت ہے۔

۵ ۔ معنوی اور مادی محرومیوں کا خاتمہ رحمت ہے۔

۶ ۔ پوری امت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا دینا، احکام اسلام کی پابندی اورنافرمانی خدا کا خاتمہ، رحمت ہے۔

۷ ۔ کمزور کی مدد کرنا اور اس کا حق اسے دلانا رحمت ہے۔

۸ ۔ بھیڑ اور بھیڑیے کا ایک گھاٹ پر پانی پینا، شیر اوربکری کا ایک ریوڑ میں چرنا، بلی اور چوہے کا اکٹھا رہنا ، رحمت ہے۔

اس کتاب میں جو کچھ بیان ہو رہا ہے وہ اس اجمال کی تفصیل ہے۔

ابن عربی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی نو خصوصیات کو ذکر کیا ہے، ان خصوصیات میں ایک رحمت ہے، یہ مہدی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے غضبناک ہوں گے اور غضب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی معین کردہ سزاوں سے تجاوز نہ فرمائیں گے اس کے بعد اس نے لمبی کلام کی ہے جو اس کے مذہب کے حوالے سے بہت ہی لطیف اور عمدہ ہے۔(فتوحات المکیہ ج ۶ ص ۴۷ باب ۶۶۳)

حدیث النبوی ہے:”یقضواثری ولایخطی “(الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۱۷ ص ۱۸ باب ۶۶۳)

اس حدیث سے واضح ہو رہا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام رحمت ہیں آپ علیہ السلام کی رحمت نبی اکرم کی رحمت جیسی ہے۔

”(تو اے رسول یہ بھی)خدا کی ایک مہربانی ہے کہ تم(سا) نرم دل (سردار) ان کو ملا اور تم اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے) تمہارے گرد سے تتر بتر ہو گئے ہوتے پس (اب بھی) تم ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو اور(سابق دستورظاہراً)ان سے کام کاج میں مستورہ کر لیا کرو(مگر) اس پر بھی جب کسی کام کو ٹھان لو تو خدا ہی پر بھروسا رکھو(کیونکہ)جو لوگ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں خدا ان کو ضرور دوست رکھتاہے“۔(سورہ آل عمران آیت ۹۵۱ ، پارہ ۳)

”اور ہم نے تو نصیحت(توریت)کے بعد یقینا زبُور میں لکھ ہی دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں شک نہیں کہ اس میں عبادت کرنے والوں کے لئے (احکام خداکی)تبلیغ ہے اور(اے رسول)ہم نے تو تم کو سارے جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپارحمت بنا کر بھیجا“(سورہ الانبیاءآیت ۵۰۱ تا ۷۰۱ ، پارہ ۷۱)

(جو کچھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہی کچھ آپ کے آخری خلیفہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہے کیونکہ حضورپاک نے فرمایا: کہ وہ میرے نشان پر چلے گا اس سے ذرا چُوک نہ ہو گی، غلطی نہ ہو گی، وہی رحمت جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے آپ بھی ہیں جس طرح آپ رحمت تھے اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام رحمت ہیں جو احکام حضورپاک کے لئے ہیں وہی امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہیں، امام مہدی علیہ السلام صاحب شریعت نہیں بلکہ شریعت محمدیہ اور اسلام کا احیاءکرنے والے ہیں، آپ اپنے جد امجد کی قائمقامی میں ان کے کام کو پورا کرنے والے ہیں اور آپ کی رسالت کی آفاقیت کو عملی شکل آپ نے دینا ہے اور جس نظام کو سب دوسرے نظاموں پر غلبہ ملنا ہے وہ نظام اسلام ہے، دینِ غالب اسلام ہے، اس کی عملی شکل حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ہونا ہے، جب حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے جیسا کہ روایات میں ہے امام مہدی علیہ السلام کی آمد سے پہلے اسلام کا نام توہوگا اسلام کا عنوان بھی موجودہوگا لیکن اسلام کی حقیقت مٹ چکی ہو گی آپ علیہ السلام اسے دوبارہ بحال کریں گے لوگ سمجھیں گے کہ کوئی نئی شریعت لائے ہیں لیکن آپ علیہ السلام واضح کر دیں گے کہ یہ وہی اسلام ہے جسے میرے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہنچایا ہے اب میں اسے اس کی اصلی شکل میں بیان کررہا ہوں اور دنیا کے کونے کونے تک اس پیغام کو پہنچا کر رسول پاک کی رسالت کے عالمی اور آفاقی ہونے کو بھی ثابت کر دیں گے ]خداوند وہ ایام جلد لائے اور ہمیں ان ایام کو قریب تر کرنے والوں سے شمار کرے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ایام لانے میں کام کرنے والے بنیں اور تمہیدی عمل جو آپ کی سلطنت کے قیام کے لئے ضروری ہے اس میں ہمارا بھی کردار ہو

۔آمین(مترجم)