حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں0%

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 25928
ڈاؤنلوڈ: 4250

تبصرے:

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25928 / ڈاؤنلوڈ: 4250
سائز سائز سائز
حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

پانچویں فصل

ابتدائیہ

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ہم انبیاءکی جو جماعت ہے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق گفتگو کریں۔(المحاسن للبرقی ج ۱ ص ۵۹۱ حدیث ۷۱)

یہ تمام عقلاءکا طریقہ ہے کیونکہ وہ اپنے مخاطب، سامع، سننے والے کے لئے اتنی گفتگو کرتے ہیں جسے وہ سمجھ سکتا ہے وگرنہ ان کی گفتگو لغو اور بے فائدہ ہو گی اللہ تعالیٰ کے انبیاءعلیہ السلام مخلوق میں سردار ہیں اور ان میں سب سے زیادہ عقلمند ہیں بلکہ اس کے بغیر ہو تو پھر ہدف منتفی ہو جاتا ہے، اندازکا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، ہدف یہ ہے کہ انبیاءعلیہ السلام، آئمہ طاہرین علیہم السلام یا علماءکی طرف سے جو حکم دیا جاتا ہے اس کی پابندی کی جائے اور جو وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے اس سے اثر لیا جائے یہ اسی صورت میں ہو گا جب انسانوں کی سمجھ اور عقلی حیثیت کو سامنے رکھ کر ان سے بات کی جائے۔

انبیاءکی سیرت اور ان کے بعد آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت اسی طریقہ پر قائم رہی جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براق(وہ سواری جس پر رسول پاک بیٹھ کر آسمانوں کی سیر کے لئے لے جائے گئے مکہ سے بیت المقدس(مسجداقصیٰ) اور پھر وہاں سے مختلف کرات میں تشریف لے گئے، اس سفر میں مسجد کوفہ میں بھی اترے)اس کا منہ آدمی کے منہ جیسا ہے اس کے گھر ھیل( ) کے گھر ہیں، اس کی دم گائے جیسی ہے، گدے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا....اس کے اوپر دوپر لگے ہیں....(مستدرک سفینة البحار ج ۱ ص ۲۳۳)

جب کہ براق اس طرح نہیں تھا اور نہ ہی وہ گدھا تھا ممکن ہے اس کے لئے دو پر ہوں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ میں اسی انداز سے براق کو سمجھانے کی کوشش کی ہے مثالیں دے کر، کیونکہ اس وقت کے انسان اس سے زیادہ سمجھ نہیں سکتے تھے، ان کے پاس سواری کے جو عادی ذرائع تھے وہ گدھا اور خچر ہی تھے جب کہ رات کے وقت آپ کا سفرِ معراج مکہ سے یا مدینہ سے بیت المقدس تک اور پھر بیت المقدس سے سے آسمانوں کی بلندیوں پرجاتاہے تو اس کے لئے ہوائی سروس کی ضرورت ہے یہ تعبیر اس دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے بیان ہوئی وگر نہ آج ہمارے زمانہ میں براق(برق رفتارسواری)جدید ترین فضائی اڑان کا وسیلہ ہے جس کا انسان تصور کر سکتا ہے وہ ایسی فضائی سواری تھی جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے آپ کو لیا ہے اورآپ کو بیت المقدس پہنچایا پھروہاں سے سات آسمانوں کی طرف لے جایاگیا ایک ایک آسمان میں ٹھہرایا بھی جاتا ہے، ہر آسمان میں باجماعت نماز کا انعقاد ہوتاہے مزیدبرآں کہ جنت اور جہنم کا معاملہ اس سفر میں شامل ہے اور یہ سارا سفر چندگھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے کیونکہ رات کا ایک حصہ اس سفر میں صرف ہوتاہے۔

اصحاب حضرت امام قائم علیہ السلام کی خصوصیات

اس طرح کی بات اصحاب حضرت قائم علیہ السلام کے لئے حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے احادیث بیان ہوئی ہیں:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جب حضر ت امام قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو زمین کے مختلف خطوں میں(براعظموں)ایک آدمی کو بھیجیں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تیرے کاموں کی تفصیل تیرے ہاتھ میں ہے۔(الغیبة ۲۷۱ ، باب ماجاءعندخروج القائم علیہ السلام)

اس وقت تک اسے موبائیل ،ٹیلی فون سے تعبیر کیا جا رہا ہے دستی کمپیوٹر مراد لیا جاسکتا ہے یا پھر کوئی اور جدید ترین وسیلہ ہوگا۔

حضرات آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے حدیث بیان ہوئی ہے کہ حضرت امام قائم علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مومن جو مشرق میں ہوگا وہ اپنے بھائی کو جو مغرب میں ہو گا دیکھنے کا ارادہ کرے گا تو وہ دیکھ لے گا اسی طرح مغرب میں موجود بھائی اپنے بھائی کو مشرق میں دیکھ لے گا۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۱۹۳ حدیث ۳۱۲)

اس بات کو اس وقت ٹیلی ویژن،کمپیوٹر، الیکٹرانک میڈیا سے تعبیر کیا جارہا ہے جب کہ اس سے پہلے اس کا کوئی معین معنی نہ تھا۔

خلاصہ:۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام انسانوں کے ساتھ اس انداز میں گفتگو فرماتے تھے جس کووہ سمجھ لیں یا ایسے اوصاف بیان کرتے تھے جو ان کے زمانہ سے مناسبت رکھتے تھے یا جس جگہ اور ماحول میں آپ موجود تھے اس کو سامنے رکھ کر بات کرتے اور بعض امور کی جتنی مثالیں جو اس علاقہ سے مخصوص تھیں وہ پیش کر کے لوگوں کو بات سمجھاتے تھے۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مطالب بیان کرتے جو اسلوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھا اور جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں تھا ان دونوں میں فرق دیکھا جا سکتا ہے جس طرح زہد کا وصف بیان کرنے میں فرق پاتے ہیں جو مفہوم اور معنی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں ہے اور جو حضرت امام جعفرصاد ق علیہ السلام کے زمانہ میں ہے دونوں اسلوب میں فرق ہے، بات ایک ہے لیکن اسے نبی اکرم کے زمانہ میں اور طریقہ سے سمجھایا جا رہا ہے اورحضرت امام جعفرصادقعلیہ السلام کے زمانہ میں دوسرے طریقہ سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے دور میں زہد کو ایک انداز سے سمجھایا جا رہا ہے جبکہ حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام کے زمانہ میں دوسرے انداز سے سمجھایا جا رہاہے۔(دعائم الاسلام ج ۲ ص ۴۵۱ حدیث ۴۴۵)

بعض اوقات ایک قوم اور دوسری قوم کے لئے بھی مطلب کو بیان کرنافرق کرتا ہے جیسا کہ اس بات کو حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے۔

بتحقیق میرے مومن بندگان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی ہدایت نہیں ہو سکتی مگر مال اور دولت سے اگر مال اس سے لے کر دوسرے کو دے دوں تو وہ ہلاک ہو جائے گا اور میرے مومن بندگان سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی بہتری نہیں ہے مگر فقر اور فاقہ میں، اگر یہ ان سے لے لوں تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔(الکافی ج ۲ ص ۳۵۳ حدیث ۸)

حدیث قدسی میں آیا ہے کہ میرے کچھ بندوں کا فائدہ نہیں ہے مگر بیماری میں اگر میں انہیں صحت دے دوں تو وہ اس وجہ سے فاسد ہو جائیں اور کچھ میرے بندے ایسے ہیں جن کی اصلاح اور بہتری ان کی صحت میں ہے اگر ان سے صحت لے لوں تو یہ بات انہیں فاسدکردے گی۔(جامع احادیث الشیعہ ج ۱ ص ۰۹۳ حدیث ۳۱۸)

پس جو شخص بیماری کی حالت میں ہے تو اس کے ساتھ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جو اس کی حالت سے مناسبت رکھتا ہے اورجو فقیر اور غریب ہے اس سے ایسا انداز اپنایا جاتا ہے جو اس سے مناسبت رکھتا ہے اورجو مالدار ہے تو اس کے ساتھ ویسا انداز اپنایا جاتا ہے اور جو مریض رہتا ہے تو اس سے بیماروں سے جو بات مناسب ہوتی ہے وہ کی جاتی ہے اور صحت مند سے ایسا انداز ہوتا ہے جو اس سے مناسبت رکھتا ہے اس کے برعکس کرنے میں نقصان ہوگا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جس میں آیا ہے ”پھر امام مہدی علیہ السلام ایک گھوڑے پر سوار ہوں گے جو ابلق( ) ہوگا اس کی آنکھوں کے درمیان شمراخ( )ہوگا جس سے روشنی چھوٹے گی کوئی گھر نہ بچے گا مگر یہ کہ اس گھرمیں اس شمراخ سے نکلی ہوئی روشنی آئے گی یہ ان لوگوں کے لئے آیت اور نشانی ہو گی....

اس سے پتہ چلتا ہے کہ براق کا معنی سمجھانے کے لئے جو انداز نبی اکرم نے اختیار کیا آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے خطاب کی جگہ کو بیان کرنے کے لئے دوسرا انداز اپنایا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ اشمراخ وہی براق ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ فضائی وسیلہ ہو۔(دلائل الامامة ص ۷۵۴)

(الشمراخ: اس سے مراد گھوڑا ہے یا گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی مراد ہے یا پہاڑ کے اوپر نکلی ہوئی چوٹی مراد ہے یا بڑا پہاڑ اور مضبوط قلعہ مراد ہے جس کی پناہ لی جاتی ہو۔(کتاب العین ج ۴ ص ۵۲۳ الضحاح)

دعوت دینے کا قرآنی اسلوب

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے اسلوب کا بیان شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید کے اسلوب دعوت کو بیان کرتے ہیں۔

قرآن الکریم کا اسلوب انبیاءکا اسلوب، آئمہ طاہرین علیہم السلام کا اسلوب جو رہا ہے سب کو بیان کریں گے پہلے قرآنی اسلوب کو بیان کریں گے اور اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اسلوب کو بیان کریں گے اور دیکھیں کہ دونوں میں فرق ہے قرآنی اسلوب جاننے کے لئے ذیل میں آیات ملاحظہ ہوں۔

”اور(وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے(جو تمہارے بزرگ تھے) عہدوپیمان لیا تھا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنا اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح (نرمی) سے باتیں کرنا اور برابر نماز پڑھنا اور زکوٰة دینا پھر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا (سب کے سب)پھر گئے اور تم لوگ ہو ہی اقرار سے منہ پھیرنے والے“۔

(سورہ بقرہ پارہ، آیت ۳۸ ،پارہ ۲)

”(اے رسول)تم درگذر کرنا اختیار کرو اور اچھے کام کا حکم دو اور جاہلوں کی طرف سے منہ پھیر لو “(سورہ اعراف آیت ۹۹۱ ۔پارہ ۹)

”اور(یہ)وہ لوگ ہیں کہ جن (تعلقات)کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور (قیامت کے دن) بری طرح حساب لیے جانے سے خوف کھاتے ہیں“۔(سورہ الرعد آیت ۲۲ ۔ پارہ ۳۱)

”اے ایماندارو(دیکھو) نہ خدا کی نشانیوں کی بے توقیری کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی(جونذر خدا کے لیے نشان)دے کر منیٰ میں لے جاتے ہیں اور نہ خانہ کعبہ(کے طواف وزیارت)کا قصد کرنے والوں کی جو اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فضل(وکرم)کے جو یاں ہیں اور جب تم (حرام سے) محل ہو جاو تو شکار کر سکتے ہو اور کسی قبیلہ کی یہ عداوت کہ تمہیں ان لوگوں نے خانہ کعبہ (میں جانے) سے روکا تھا اس جرم میں نہ پھنسوا دے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور(تمہارا تو فرض یہ ہے کہ)نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو اور خدا سے ڈرتے رہو(کیونکہ)خدا تو یقینا بڑا سخت عذاب والاہے“۔( سورہ المائدہ آیت ۲ ۔پارہ ۶)

”(اے رسول) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاو اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ان کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے“۔

( سورہ النحل آیت ۵۲۱ ۔ پارہ ۴۱)

”لوگو ہم نے تو تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم ہی نے تمہارے قبیلے اور برادریان بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر لے اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت وار وُہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو، بے شک خدا بڑا واقف کار خبردار ہے“۔(سورہ الحجرات آیت ۳۱ ۔پارہ ۶۲)

پہلا موقف :۔ عوام سے خطاب اور ان کے ساتھ رویہ

قرآنی اسلوب، قول حسن ہے اچھی گفتگو، فائدہ کی بات ، خراب ماحول کو خوبصورت کلام سے بہتر بنا دینا بلکہ برائی کو اچھائی سے دور کر دینا منفی بات کو مثبت بات سے جواب دینا، منفی رویہ کو چھوڑ کر مثبت رویہ اختیارکرنا۔

یہ معنی ہے ”یدروون بالحسنة السیة“ وہ تو برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں اور برائی کو اچھائی اور نیکی کے طریقہ سے روکتے ہیں۔

اس میں برائیوں کا خاتمہ فقط ان پر اعتراض کرنے سے نہیں بلکہ ان کے برے رویوں کو بھلا کر، جس نے برا کیا اس کے ساتھ اچھی گفتگو کر کے اس کے رویہ کوبھلا کر،جس طرح کوئی آپ کو گالی دے تو آپ نہ یہ کہ اسے گالی نہ دیں بلکہ اس پر مہربانی کریں اس کو اپنے گھر پر دعوت دیں اسے مال دیں، کھانا دیں، یہ ہے برائی کا جواب نیکی سے دینا ہے یہ رویہ ان ذوات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔(العوالم ج ۴۶ ۔ الانوار البھیہ ۸۸)

حضرات اہل البیت علیہم السلام کی جانب سے اور علماءکی جانب سے یہ طریقہ آزمایا ہوا ہے مجرب ہے اوراس کا نتیجہ مفید ہے، نافع ہے، اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کا اشارہ ہے۔

”(اے رسول) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاو اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ان کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے“۔

( سورہ النحل آیت ۵۲۱ ۔ پارہ ۴۱)

قرآنی اسلوب ،دعوت

قرآنی اسلوب یہ ہے کہ ہماری دعوت کا طریقہ دانائی، حکمت پر مبنی ہو، اس میں معرفت، عرفان، علم، منطق،سمجھ، شعور ہو، عمدہ کلام ہو، لطیف جملے ہوں، گفتگو میں پیار ہو، صفاءقلب ہو، ہمدردی ہو، طمع لالچ کا عنصر نہ ہو، یہ انداز دلوں کو موہ لیتا ہے، جذب کر لیتا ہے دشمن کو دوست بنا لیتا ہے، خالی دوست نہیں بلکہ گہرا رفیق اور دوست بنا دیتا ہے اور ایسا گہرا تعلق ہوجاتا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے تک جس سے گستاخی کر رہا تھا اسے اپنا ولی اور سرپرست اور رہبر قرار دے دیتا ہے اور اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جاتاہے۔

یہ اسلوب کتنا ہی عمدہ ہے اور اس نورانی آیات کا مضمون کتنا وسیع ہے مختصر آیت نے کتنی مشکلات آسان کر دیں قتل و غارتگری کی نفی کی، جارحیت کی نفی کی، جنگوں کی نفی کی، سختی کو کچل کر رکھ دیا، نفرت کا خاتمہ کر دیا، تھوڑے سے نقصان سے، مختصر وقت میں اپنے بڑے ہدف کو پانے کا گربتا دیا، اس سے تمہارا رب تم سے راضی ، لوگوں میںتم محبوب، تم لوگوں سے محبت کرو گے، لوگ تم سے محبت کریں گے یہ اسلوب اس بات کی تفریق نہیں کرتا کہ اس طریقہ کو فقط اپنے ہم مسلک والوں میں اپنانا ہے یا دوسروں میں بھی یہ طریقہ سب کے لئے ہے جس کی رائے تمہارے مخالف ہے جو تمہارے نظریہ کے خلاف ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہے جس کا دین تمہارے دین سے مختلف ہے سب کے لئے ایک قانون ہے”ادفع بالتی ھی احسن“بھلائی سب کے لئے ،پیار سب کے لئے، اچھایاں سب کے لئے، گالی کا جواب گالی نہیں، گالی کا جواب پیار سے ہے۔

قرآنی اسلوب کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جب تبلیغ کے لئے کوئی کام کرنا چاہتاہو تو پھرمیرے خلاف ادا کیے گئے الفاظ کا جواب اچھے الفاظ سے،گستاخی کا جواب ہمدردی سے، نفرت کا جواب محبت سے ہونا چاہیے، یہ قرآنی اسلوب ہے، اسے آئمہ اہل البیت علیہم السلام نے اپنایا اور اسی انداز کے ذریعہ انسانوں کے لئے ہمدردی کا پیغام دیا،سب کے لئے محبت بانٹی اور اعلان کیا ”ان الدین الالحب“دین تو سوائے محبت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے ”لکل شی اساس واساس الاسلام حبنا اھل البیت علیہ السلام “اسلام کی بنیاد اہل البیت علیہ السلام سے محبت قرار پائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل البیت علیہ السلام نے سب انسانوں کے ساتھ محبت کی ہے۔ خود کو بھوکا رکھا دوسروں کو کھانا دیا جس نے گالی دی اس سے پیار کیا جس نے محروم کیا اس کونواز دیا، دشمنوں کی بہو وبیٹیوں کا احترام کیا، قاتلوں کودودھ پلایا، کھانادیا،یہ سب قرآنی اسلوب ہے، یہ اسلام ہے، یہ دین حق ہے۔

دوسراموقف:۔ دوسرامرحلہ

باہمی رابطہ، تعارف، شرائط اور باہمی پہچان، ایک دوسرے سے تعلقات

قرآن مجید کا دوسرا مثالی موقف اور کردار جو اختلافات کو بھلا دیتا ہے معاشرہ کی خدمت کےلئے افتراقی امور کو نظر انداز کرتا ہے، معاشرہ کی ترقی کے لئے، اس کے تکامل کے واسطے باہمی تعاون کرنا ہے نیکی اور تقویٰ کی بنیاد پر باہمی روابط کو قائم کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو، تم اللہ کے شعائر کو حلال نہ جانو، ان کی بے احترامی کو جائز مت سمجھو اور نہ ہی محترم مہینہ کو حلال جانو کہ تم اس میں جنگ شروع کردو،نہ ہی ہدی قلائد کوحلال جانو(ان سب سے مراد بے احترام ہدی اور قلائد حج میں قربانی کے جانور کے لئے ہیں کہ ان کی بے احترامی سے بھی منع کیا ہے)اور جو لوگ بیت اللہ الحرام میں امن لینے آئے ہیں انہیں بھی حلال مت جانو(یعنی ان کی بے احترامی بھی جائز نہیں ہے)جو اپنے رب کا فضل چاہتے ہیں اور اپنے رب کا رضوان چاہتے ہیں اور جب تم احرام حج کھول دو تو اس وقت تمہارے لئے ہے کہ تم شعار کر لواور کسی قوم کی بدزمانی اور ان کا غلط رویہ تمہیں اس بات پر نہ لے آئے کہ تم انہیں مسجدالحرام سے روک دو اور تم ان پر زیادتی کر بیٹھو نیکی اور تقویٰ کے امور میں ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور دشمنی کے لئے ایک دوسرے سے زیادتی کے امور پر ان سے تعاون مت کرو۔(سورہ التوبہ آیت ۲)

اس آیت میں جو حکم دیا جا رہا ہے یہ مسلمانوں کے آپس میں روابط اور تعلقات بارے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو خطاب ہے کہ وہ انسانی کمال تک پہنچنے کے لئے غیرمسلمانوں سے کیارویہ اپنائیںغیرمسلموں کے ساتھ احسان کریں، غیرمسلموں کے ساتھ اچھا برتاو کریں، انہیں نیکی کی طرف راغب کریں، ان کے ساتھ زیادتی نہ کریں کہ انہوں نے ان کے ساتھ غلط رویہ اپنایا ہوا تھا۔

اسی حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ ایسے اعمال سے بچے رہو جو گناہ کی طرف لے جائیںاور دشمنی اور زیادتی کا سبب بنیں یہ بھی غیرمسلموں کے ساتھ رویہ اور تعلقات کے لئے ایک ضابطہ دیا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو لیکن ایسا کوئی کام مت کرو جو تمہیں ان سے تعاون کرتے ہوئے گناہ میں پہنچادے۔

گویا یہ آیت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ایک معاشرہ کے اندر مختلف نظریات والے افراد موجود ہوتے ہیںمختلف قومیں رہتی ہیں، مختلف قبائل ہوتے ہیں اور اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق فرمایا ہے بلکہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ معاشرہ کے اندر جنگیں ہوتی ہیں، دشمنیاں موجود ہوتی ہیں لیکن یہ سب کچھ باہمی روابط، احسان اور نیکی کے عمل کے لئے رکاوٹ نہیں ہے، معاشرہ میں خدمت کے کاموں کے لئے رکاوٹ ہرگز نہیں ہے اس وقت جس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر حکومتیں سارے اختلافات کے باوجود بیماریوں کے علاج کے لئے ادویات ایجاد کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو وہ ادویات دیتے ہیں۔

جی ہاں!مسلمانوں کے خود اپنے اندر، ان کے مختلف طبقات میں مسالک کے اندر اس قسم کا تعاون تواوربھی ضروری ہے اوریہ رویہ سب سے زیادہ واجب ہے۔

ایک اور آیت میں ہے کہ ”( وَجَعَلنَا کُم شُعُوباً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ) “ اور ہم نے تمہیں اقوام اور قبائل میں خلق کیا ہے تاکہ ایک دوسرے سے آشنائی رکھ سکو، ایک دوسرے کی پہچان رکھ سکو ،باہمی تعارف اور میل جول کی بات کی جا رہی ہے ۔(سورہ حجرات آیت ۳۱)

تعارف کا معنی ایک دوسرے سے آگہی، ایک دوسرے سے تعاون اور ایک دوسرے کے قریب ہونا ہے اور یہ امرانسانی خلقت کا تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اختیار سے انسانوں کو اس طرح خلق فرمایا ہے اور ان سب کو ایک دین پر خلق فرمایا(ایک دین پر اور ایک نظام پر چلنے کا حکم دیا ہے لیکن اس میں جبرنہیں اختیار دیا ہے، اپنے ارادہ سے انسان ایسا کرے)

تیسرا موقف اورمرحلہ

قرآن کا تیسرا مثالی اور نمونہ کا موقف انسان کی انسانیت کا احترام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے مسئلہ پر جنگ نہیں چھیڑی اور تمہیں انہوں نے گھروں سے بھی نہیں نکالا ہے کہ تم ان سے نیکی کرو، ان پر احسان کرو، ان سے انصاف کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف اور بھلا کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے “۔(الممتحنہ آیت ۸ ۔ ۹)

اللہ تعالیٰ نے فقط ان سے تعاون کرنے سے منع کیا ہے جنہوں نے دین کے مسئلہ پر تم سے جنگ چھیڑ رکھی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے باہر نکال دیا ہے اور تمہارے نکالنے پر انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے ان کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے کہ تم ان سے دوستی مت رکھو اور جو بھی ان سے دوستی بنائے گا تو ایسا آدمی ظالموں میں سے ہوگا۔

یہ اسلوب ہمارے زمانہ میں کامیاب ترین اسلوب ہے کیونکہ یہ واقع اور حقیقی امر کی تصویر پیش کرتاہے اور موجودہ زمانہ کے لئے ہمارے لئے حل پیش کرتاہے۔

اس وقت انسانی معاشرے مختلف ادیان میں تقسیم ہیں، ایک ہی وطن میں رہتے ہیں، مذاہب مختلف ہیں، ادیان مختلف ہیں تو کیا ایک مومن ان سب سے خود کو الگ تھلگ کر لے ، ایک جانب ہو کر بیٹھ جائے یا اس معاشرہ کے اندر گھل مل جائے ان کے ساتھ روابط اور تعلقات بنا کر رکھے باہمی احترام قائم کرے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان موجود رہنے سے ہمیں منع نہیں فرمایا بلکہ ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم لوگوں سے اچھے انداز میں گفتگو کریں ، باہمی مذاکرات کریں، ایک دوسرے سے تعلقات قائم کریں اگرچہ دین اور مذہب میں ہم سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ رنگ،بو،نسل، زبان مختلف ہو۔

رویوں کا اختلاف تعلقات توڑنے کا سبب نہیں قرار دیا گیا قرآن نے ہمیں تقویٰ اور احسان کی ہدایت کی ہے سب سے تعلقات قائم کرنے کا حکم دیا ہے ان کی خدمت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ دوسرے قرآنی موقف میں بیان ہواہے۔

پھر اس جگہ قرآن ہمیں یہ اجازت دے رہا ہے کہ ہم ان پر احسان کریں اور جو ان کے حقوق ہیں وہ انہیں دیں اور ان پر ظلم نہ کریں ان کے ساتھ دھوکہ نہ کریں جب تک وہ ہمارے ساتھ حالت جنگ میں نہیں آتے جب تک وہ ہمیں دھوکہ دینے پراصرار نہیں رکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ ہم ان کے ساتھ احسان کریں، عادلانہ رویہ رکھیں، ان سے بغض نہ رکھیں ، ان کے خلاف کینہ اور نفرت نہ کریں ، ان کی اہانت نہ کریں، یہ سب اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ کیا ہوتا کہ وہ سب ایک امت ہوں جیسا کہ سورہ المائدہ آیت ۸۴ میں ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ تم سب ایک امت ہو(لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ تمہیں قبائل بنایا، اقوام بنایا، مختلف رنگوں میں بنایا، مختلف زبانوں والا بنایا) اور یہ سب اس لئے کہ وہ تمہارا امتحان لے اس بارے جو کچھ اس نے تمہیں دیاہے، اس نے تمہیں اقوام و ملل میںبنایا ہے توباہمی پہچان کے لئے، باہمی تعاون کے لئے اور پھر یہ بتا دیا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتا ہے یعنی تقویٰ پر قائم ہے۔

قرآن مجید کا یہ موقف بہت ہی عمدہ مواقف سے ہے اس موقف میں انسان کی انسانیت کا احترام کیا گیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:( لَقَد خَلَقنَا الاِنسَانَ فِی اَحسَنِ تَقوِیم ) (سورہ والتین آیت ۴)

”بتحقیق ہم نے انسان کو بہت ہی عمدہ انداز میں خلق کیا ہے“۔

یعنی اسے جس طرح جسمانی شکل بہترین دی ہے اسی طرح اسے اقوام و ملل میں بنا کر اس کی خوبصورتی کو بڑھادیا ہے انسان کی خلقت کا انداز اچھا ہی نہیں بہترین ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :”بتحقیق ہم نے بنی آدم علیہ السلام کو کرامت دی ہے اسے معزز و مکرم بنایا ہے اور ہم نے اسے خشکی اور تری میں بسایا ہے اور ہم نے انہیں عمدہ روزی عطا کی ہے بہت ہی عمدہ کھانے پینے، رہنے سہنے کی اشیاءسے نوازا ہے اور جو مخلوقات ہم نے بتائی ہیں ان میں سے بہت ساری مخلوقات پراس انسان کو فضیلت اور برتری دی ہے۔

(سورہ الاسراءآیت ۰۷)

اللہ تعالیٰ اس مقام پر انسان کی خلقت پر فخر و مباہات کر رہا ہے اس کی خلقت پر فخر کیا ہے اگرچہ وہ مسلمان نہ بھی ہو، مومنین کے لئے اختصار کے ساتھ اس امر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور یا وہ خلقت میں تمہاری مانند ہے“۔

(نہج البلاغہ ج ۳ ص ۴۸ ،عہد ۳۵)

ہر ایک کے لئے حقوق ہیں اور فرائض ہیں،فرائض کو انسان نے ادا کرنا ہے اور اپنے حقوق کو وصول کرنا ہے۔ قرآن مجید کے یہ تین مواقف ہیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کےلئے، انسان غور کرنے سے ان سے زیادہ کا بھی قرآن کی آیات سے استخراج کر سکتا ہے لیکن جس امر کو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

دعوت میں نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موقف اورطریقہ کار

حضرت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ کار اجمالی طور پر قرآنی اسلوب سے مختلف نہ تھا جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالات کی سنگینی کے باوجود ان ذرائع اور طریقوں کو دعوت کے سلسلہ میں استعمال کرنے میں کامیاب رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس عمل کی گواہی اپنی کتاب میں دی ہے ۔

سورہ قلم آیت ۴”( وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ ) “ ”بتحقیق تم تو خلق عظیم پر قائم ہو“۔

یہ اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ اپنے اخلاقی سلوک اور رویے میں کامیاب رہے ہیں آپ کا اخلاق قرآنی اخلاق کا مظہر ہے اور الٰہی تعلیمات کی عملی شکل ہے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اور طریقے بھی ہیں اگرچہ وہ ذرائع آپ نے بعض مخصوص حالات کے لئے استعمال کئے لیکن کچھ طریقے بہرحال ہیں جو آپ کی ذات سے خاص ہیں اور وہ اس طرح ہیں۔

۱ ۔ رواداری، نرم پالیسی

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام:” محبت اور پیار آدھا عقل ہے“(نہج البلاغہ حکمت ۲۴۱)

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہم السلام سے اس بات کو نقل فرمایا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن نرم ہوتا ہے ، بخشش کرنے والا ہوتاہے، نرم خو ہوتا ہے، اچھے خلق والا ہوتا ہے، کافر سخت ہوتا ہے، سنگین مزاج ہوتا ہے، برے اخلاق والا ہوتا ہے، اس میںبڑائی کا عنصرہوتاہے، سخت مزاج ہوتا ہے، تندخو ہوتا ہے(امالی الطوسی، المحلیس الثالث عشرحدیث ۸۲ ص ۶۶۳ شمارہ ۷۷۷)

حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے اپنے والد سے نقل کیا کہ حضرت نبی اکرم نے فرمایا:ایمان کا بہترین وزیرعلم ہے اور علم کا وزیربردباری اور حلم ہے حلم کا وزیررفاقت ہے اور رفاقت کا وزیر نرم خوئی ہے“۔(قرب الاسناد ص ۷۶ حدیث ۷۱۲)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباءسے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے فرمایا:”کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ کل آگ کن لوگوں پر حرام ہو گی ؟

جواب دیا گیا: جی ہاں! یارسول اللہ : تو آپ نے فرمایا: ”جو آسان منش ہو، قرب والا ہو، نرم خُو ہو، آسان ہو“۔

الهین القریب اللین السهل

(امالی الصدوق، المجلس الثانی والخمسون حدیث ۵/۷۹۳ ، شمارہ ۱۱۵)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: بغیر کمزوری اپنائے تمہیں نرم رویہ والا ہونا چاہیئے شدید لیکن اس شدت میں ( )کمزوری کا عنصرنہ ہو۔(غررالحکم ج ۰۶۱۷)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے:جس کی طبیعت میں نرمی پائی گئی تو اس سے محبت کرنا لازم ہوجاتاہے۔(غررالحکم حدیث ۲۵۱۸)

رواداری، پیار، محبت ایک ایسا اندازہے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں موجود ہے جو آپ کو زیادہ مواقع پر فائدہ دیتا تھا، اپنے اصحاب سے عطاءاور بخشش میں مداراة(رواداری غررالحکم حدیث ۲۵۱۸) فرماتے ہیں اپنی بیویوں کے ساتھ گھریلومعاملات میں یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ یا اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ دعوت کے آغاز میں یا جنگی قیدیوں کے حوالے سے آپ نے جورویہ اپنایا اس سے آپ نے اپنی دعوت میں فائدہ اٹھایا۔

۲ ۔ پاک کرنا، تزکیہ کا عمل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ”اے رسول!ان کے اموال سے صدقہ(ایک مقدار مال)وصول کر لو اس طرح تم انہیں طاہر کردو اور انہیں پاکیزہ بنا دو اور ان پر رحمت کی دعا کردو(ان پر صلوات بھیجو)کیونکہ آپ کی جانب سے ان کے لئے رحمت طلب کرنا ان کے لئے سکون اور آرام کا وسیلہ ہے ۔(سورہ التوبہ آیت ۳)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال سے یہ ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں کو رذائل، پلیدیوں،کدورتوں سے پاک کرتے اور ان کے نفوس کی صفائی کرتے تھے۔

۳ ۔ تعلیم

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں رسول کو بھیجا کہ ان پر آیات کی تلاوت کرے اور انہیں پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب(قرآن مجید) اور حکمت(دانائی)کی تعلیم دے اگرچہ وہ اس سے قبل کھلی گمراہی میں موجود تھے۔

(سورہ الجمعہ آیت ۲)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری امت کو اپنی اولاد سمجھتے تھے، بلکہ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو خطاب فرمایاکہ:”یا علی علیہ السلام! انا وانت ابواھذہ الامة“ اے علی علیہ السلام!میں خود اور تم ، ہم دونوں اس امت کے باپ ہیں“۔(الغارات للثقفی ج ۲ ص ۷۱۷)

پس آپ انہیں پڑھاتے تھے، تعلیم دیتے تھے، ان کی تربیت کرتے ، انہیں انحراف سے بچاتے، ان پر مہربانی کرتے، ان سے پیارفرماتے، ان کے نقصانات سے انہیں آگاہ کرتے، ان پر شفقت فرماتے تاکہ وہ سب کمال مطلق تک پہنچ جائیں۔

جنگ ، سخت روش، ہدف ہے یا وسیلہ

جس وقت ہم نے تیسری فصل میں عسکری حوالے سے تیاری کی بات کی ہے وہاں پر ہم نے بیان کیا ہے کہ جنگ کاہدف سختی، تندی نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے ایک ہدف کے لئے اسلام کی اس رائے کو واضح طور پر بیان کیا گیاہے ۔

سوال ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کو کیونکر اختیار کیا؟سخت رویہ کیوں اپنایا؟

سیرت نبوی کاخلاصہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی بعثت شریفہ کے حوالے سے جنگ کو اسٹریجک ہدف کے طور پر استعمال نہیں کیا، جنگی حکمت عملی بطور ہدف اختیار نہیں کی بلکہ آپ کی دعوت ایک مہربان باپ اپنی اولادسے ہمدردی رکھنے والا۔آپ انہیں دن رات سمجھاتے تھے،انہیں پیار سے بلاتے تھے، اچھی اچھی باتیں انہیں بتاتے تھے ،ان سے پیار کرتے تھے موعظہ فرماتے ، اخلاق سے اپنے پاس بلاتے، حکمت ،اعلیٰ درجہ کی دانائی سے اپنی دعوت کوان کے پاس لے جاتے تھے لوگوں کی تندی بداخلاقی پر صبر فرماتے تھے اور یہ عمل مسلسل جاری رکھتے تاکہ وہ ایمان لے آئیںانہیں بارہا دعوت دیتے کیونکہ آپ کی یہ شدید خواہش ہوتی تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں خود کو سختی میں ڈالتے اور خدا سے انہیں دور دیکھ کر سخت پریشان ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس حالت کو دیکھ کر فرمایا:

تم جن کو چاہتے ہو کہ وہ ہدایت پا جائیں تووہ اس طرح ہدایت نہیں پائیں گے اللہ تعالیٰ بے شک جنہیں چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔(سورہ القصص آیت ۶۵)

حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت کے لئے کسی بھی ذریعہ یا وسیلہ کو ترک نہ کیا مگر یہ کہ اسے استعمال کیا جنت کی رغبت دلائی ، جنت کی نعمات بیان کیں، حورالعین، غلمان، جنت میں ہر خواہش، ہرلذت کے پورے ہونے کی نوید، عزت ،کامیابی،سکون ابدی، دنیاوی فوائدسب کچھ بتایا کہ لوگ خدا کی طرف آجائیں رغبت کے ساتھ ساتھ مخالفت کرنے کے برے انجام سے ڈرایا، جہنم کی آگ کے بارے بتایا، جہنم کے اندر جوتکالیف ہونی ہیں اس کے بارے آگاہ کیا ، ہتک حرمت، دنیاوی نقصانات کی خبر دی۔

یہ اسلوب جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار کیا جن میں ایمان کے نور کو وصول کرنے کی صلاحیت موجود تھی وہ ایمان لے آئے جو نااہل تھے وہ ہدایت نہ پاسکے۔

اس ساری مدت میں آپ نے کسی ایک جگہ بھی سخت رویہ نہیں اپنایا ہر جگہ پیار ہے، محبت ہے، خوش کلامی ہے، اچھا اخلاق ہے، مہربانی ہے شفقت ہے، بلکہ آپ اس جملہ کوبار بار ارشادفرماتے تھے کہ ”لااکراہ فی الدین “(سورہ البقرہ آیت ۶۵۲)

دین کے انتخاب میں جبر نہیں ہے، زبردستی نہیں ہے، اختیار سے اللہ تعالیٰ کے نظام کو اپنانا ہے، آپ کے نرم رویہ کانتیجہ تھا کہ مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو اللہ کے حکم کی انجام دہی سے روک دیں اور آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا، آپ کومکہ چھوڑناپڑا، آپ مدینہ آ گئے، مدینہ میں بھی آپ نے اپنی دعوت کے اسلوب کی بنیاد پیار،محبت، خوش کلامی، موعظ حسنہ، ہمدردی، شفقت، انسان دوستی کو قرار دیا لیکن مشرکین مکہ نے جب آپ کی پے در پے کامیابی ملاحظہ کی اور دیکھا کہ آپ کی دعوت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اورمسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں سمیت ختم کر دیں اور اس طرح کفار مکہ نے آپ کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کی تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دفاع کے لئے جنگ میں داخل ہوتے ہیں، آپ کی دفاعی جنگ تھی، یہ آغاز کی بات ہے مکہ میں آپ نے لڑائی کی بجائے اپنے پیروکاروں کو ہجرت کا حکم دیاجب آپ کی ذات کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تو بھی آپ نے ہجرت کو اختیار کیا، مدینہ میں آپ کی موجودگی کے خاتمہ کے لئے منصوبہ بندی کر لی گئی تو پھر آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر مکہ سے آنے والے لشکر کا مقابلہ بدر کے مقام پر کیا تو اسلام کی پہلی با قاعدہ جنگ اپنے دفاع میں لڑی گئی اورآپ کامیاب بھی ہوئے۔جب اسلام کا دائرہ وسیع ہو گیا ہر طرف اسلام پھیل گیا تو اس وقت بھی آپ نے ان کے خلاف جنگیں لڑیں جنہوں نے خود کو اسلام کے مقابل لا کھڑا کیا اور اسلامی دعوت کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اپنے نظریہ اور اپنی موجودگی کے دفاع میں آپ نے ساری جنگیں لڑیں۔لیکن جس وقت اسلامی سلطنت مدینہ منورہ میں قائم ہو گئی تو حضرت نبی اکرم نے اسلام کے پیغام کو وسیع سطح تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تو آپ نے دنیا کے اطراف و اکناف میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی غرض سے اپنے سفراءاور نمائندگان کو روانہ کیا، پس آپ کا ہدف یہ تھا کہ بغیرجبر و اکراہ کے حکمت و دانائی کے ساتھ، دلیل اور منطقی بنیاد پر، موعظہ حسنہ اور خوش کلامی سے اللہ تعالیٰ کی جانب لوگوں کو دعوت دیں اور اس طرح اسلام کی نشرواشاعت کریں۔

جی ہاں! جو لوگ اسلام کے مدمقابل آتے، اسلامی تبلیغات سے روکتے تو اس وقت آپ جنگ کا راستہ اختیار کرتے اور جنگ کے ذریعہ اسلامی دعوت کے لئے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا خاتمہ کرتے، پس جنگی حکمت عملی، سخت رویہ، آپ کی دعوت میں ہدف نہ تھا ہدف تک جانے کے لئے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے وسیلہ تھا، اسلام کی دعوت ، بیداری، آگہی، رضایت اور اختیار سے انجام پائی۔ رکاوٹ دور کرنے کے بعد لوگوں کو اسلامی دعوت دی گئی زبردستی انہیں مسلمان نہیں بنایا گیا یعنی ایسا اعلان نہ ہوتاکہ یا اسلام لے آو وگرنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔ نہیں ایسا نہیں تھا بلکہ اسلام کا پیغام پہنچانے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی جاتی تھیں ان کو دور کیا جاتا تھا جو افراد اسلامی تبلیغات سے روکتے تھے انہیں راستہ سے ہٹایا جاتا اور پھر وہ پیار، محبت، شفقت، حکمت، دانائی، خوش اسلوبی، خوش کلامی، دلیل، منطق سے اسلام کی دعوت دی جاتی اور یہ اعلان کیا جاتا کہ”لااکراہ فی الدین“دین کے انتخاب میں جبر نہیں۔

واضح الفاظ میں یوں سمجھیں کہ لوگ اسلام میں آجائیں یہ بات حضرت نبی اکرم کے لئے آرزو تھی، خوشی کا سبب تھی اور آپ اسے شدت سے چاہتے تھے آپ ان لوگوں سے جنگ و جدال اور قتل وقتال کو پوشیدہ نہ کرتے تھے،لوگوں کا اسلام قبول کرنا آپ کے لئے ایک ہدف ہی نہ تھا بلکہ آپ کے لئے یہ پسندیدہ اور محبوب امربھی تھا، آپ کی یہ شدید رغبت تھی کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیںآپ نے حضرت علی علیہ السلام سے یہ جملہ ارشاد فرمایا:”اے علی علیہ السلام! اگر اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلہ سے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ آپ کے لئے اس سب کچھ سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتاہے۔(کنزالعمال ج ۰۱ ص ۶۵۱ حدیث ۲،۸۸۲ ، الکافی ج ۵ ص ۸۲ حدیث ۵)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ فتنوں اور سازشوں سے بھراپڑا ہے، جس کے بارے مشہور ہوا کہ آپ علیہ السلام کی حکومت جنگوں والی حکومت تھی، آپ علیہ السلام نے تقریباً اپنی حکومت کے کے دورانیہ میں جنگیں ہی لڑی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اسلامی نظام حکومت کو اس کی اصلی اور واقعی شکل میں واپس لانے کے لئے تھا آپ نے اس امر کی اصلاح کو انجام دیا جو بگڑ چکا تھا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر آپ کی جانب سے زمام حکومت سنبھالنے تک کا جو عرصہ گذرا اس میں بہت ساری خرابیاں رونما ہو چکی تھیں جن کا ازالہ ضروری تھا، سیاسی، عدالتی، عسکری، مالیاتی، بیت المال، معاشرتی بگاڑ آچکاتھا۔

اس وقت کی ایک بڑی اسلامی سلطنت کی جب اصلاح کرنی شروع کی تو مارقین، ناکثین اور قاسطین کے گروہ آپ کے مدمقابل آ گئے طلحہ اور زبیر آپ کے مخالف اس لئے ہوئے کہ انہیں کافی مقدار میں مال نہ دیا گیا اور جس منصب کے وہ خواہش مند تھے وہ انہیں نہ ملا۔

معاویہ کا معاملہ بھی بڑا واضح ہے وہ بادشاہت چاہتا تھا، خلافت نہیں، منافقین کا معاملہ جو ہے تو ان کی خواہشات ایک عورت کی مرضی کے گرد گھوم رہی تھیں اوروہ اپنی آرزووں اور مادی خواہشات کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ اسلام کی جنگیں بھی بے ہدف نہ تھیں بلکہ وسیلہ تھیں حضرت نبی اکرم کے دین کی اصلاح کا جو عمل آپ نے شروع کیا تھا اس کے سامنے جو رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں تو آپ اس ہدف کا دفاع کر رہے تھے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جنگ شروع کرنے سے پہلے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام مخالف فریق کے پاس نمائندگان کو بھیجتے تھے تاکہ جنگ سے بچا جا سکے مذاکرات سے معاملات کو حل کر لیا جائے ایسے افراد کو بھیجتے تھے جو ان کے ساتھ جا کر دلائل کے ساتھ گفتگو کرتے تاکہ وہ بھی باقی عوام کی طرح خلیفة المسلمین کی اطاعت میں آجائیںاور سرکشی نہ کریں۔

مزیدبرآں ہر جنگ سے پہلے آپ کے خطابات ہیں جن میں آپ جنگ سے گریز کی کوشش کرتے، مخالف فریق کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرتے، اسلام اور مسلمانوں کی وحدت کی خاطر یہ سب کچھ کرتے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح گذرچکا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ لوگ اسلام کے دائرہ میں آجائیں اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بھی شدید خواہش تھی کہ سارے لوگ صلح و صفائی کے ساتھ زندگی گزاریں امن اور آشتی سے رہیں، اسلامی قوانین کا احترام کیا جائے گفتگو اور مذاکرات سے لوگوں کو مطمئن کیا جائے اور جنگ سے بچا جائے، جنگ کو آپ علیہ السلام آخری وسیلہ کے طور پر اختیار کرتے تھے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اور سخت رویہ

حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب نے اس بات کو واضح کر دیا کہ آپ علیہ السلام کا انقلاب اصلاحی اور تصحیحی انقلاب تھا آپ بگڑے ہوئے معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے تھے جس کے بارے میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک سے زیادہ مقامات پر خود بیان فرمایا: آپ علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو جو وصیت تحریر کر دی تھی اس میں آپ علیہ السلام نے واضح بیان کیا کہ ”میں نے شر پھیلانے کے لئے ،تکبر اور بڑائی کے اظہار کی خاطر، فساد اور بداامنی پھیلانے کے لئے اور ظلم اور زیادتی کسی پر کرنے کی غرض سے خروج نہیں کیا، حاکم وقت کے خلاف میراخروج اپنے نانا کی امت کی اصلاح ہے، میں چاہتا ہوں کہ امربالمعروف کروں اور نہی عن المنکر انجام دوں(البحار ج ۴۴ ص ۹۲۳)

آپ علیہ السلام کی جنگ اصلاح کی غرض سے تھی، اسلام میں جو خرابیاںداخل ہو چکی تھیں ان کو دور کرنے اور اسلام کو اس کی اصلی شکل میں لانے کے لئے آپ علیہ السلام نے جنگ کی پھر آپ علیہ السلام نے جنگ کا آغاز نہیں کیا آخر وقت تک گفتگو کی، خطابات فرمائے، دلائل دیئے، موعظہ و نصیحت کی، جنگ سے گریز کیا اور یہ عمل بار بار دہرایالیکن جب مخالفین نے حملہ کا آغاز کیا تو پھر آپ علیہ السلام نے اپنا دفاع کیا اور تب دشمن کے خلاف جنگ لڑی اور حق و باطل کے معرکہ کی مثال بنے۔

یہ مثال کے طور پر دیا ہے، اسلام کے حقیقی نمائندگان کا عمل حضرت نبی اکرم کے عمل سے مختلف نہیں ہے اسلام میں جنگ مقصود نہیں ہے اور نہ ہی اسلام جنگ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ اپنے دفاع کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے اور اعلیٰ ہدف کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشینوں نے جنگ کا استعمال کیا۔

دنیا کے بادشاہوں کے لئے دعوت دینے کا نبوی طریقہ کار

انس سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بادشاہان قیصر، کسریٰ، حبشہ اوردوسرے جابر و ظالم حکمران کی جانب خطوط روانہ کئے ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب دعوت دی، نجاشی ایسا خوش قسمت حاکم تھا کہ جس پر حضرت نبی اکرم نے صلوات بھیجی اور اس کے لئے رحمت کی دعا فرمائی۔(صحیح مسلم ص ۴۷۷۱)

ابن عباس سے روایت ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اہل الکتاب کی جانب اس مضمون کی تحریر روانہ کی گئی ”( تَعَالَو ! اِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَینَنَا وَبَینَکُم ) “”آئیے ایک سیدھے کلمہ(بات) پر متفق ہو جائیں جوتمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ایک خدا پر اکٹھے ہو جائیں “۔

(سورہ آل عمران آیت ۴۶)( الدررالمنثورج ۲ ص ۴۳۲)

جن کی طرف آپ نے خطوط بھیجے وہ کچھ اس طرح ہیں:قیصر بادشاہ روم، کیسریٰ بن ہرمزبادشاہ فارس، ھرقل،حارث ابن ابی شمر الغسانی۔(دیکھیں الخرائج والجرائح ج ۱ ص ۱۳۱،۷۱۲ ۔ الطبقات الکبریٰ ج ۱ ص ۹۵۲ ۔ البحارج ۲ ،ص ۹۸۳،۶۸۳ ج ۸ ص ۱۸۳ ۔صحیح مسلم ۳۷۷۱)

اسکندریہ(مصر) کے بادشاہ المقوقس کو خط بھیجا جو قبطیوں کے سربراہ تھے اسے اسلام کی دعوت دی اس کے پاس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط پہنچا اس نے یہ خط پڑھ کر اچھا ردعمل ظاہر کیا اس نے خط لے کر اسے عاج(ہاتھی کے دانتوں سے بنی) کی صندوقچی میں رکھا اس پر مہرلگائی اور اپنی کنیز کے سپرد کردیا اور نبی اکرم کو اس طرح جواب لکھ بھیجا ”مجھے معلوم تھا کہ ایک نبی نے ابھی تشریف لانا ہے اور میرا خیال تھا کہ وہ شام سے خروج کرے گا میں نے آپ کے نمائندہ کا احترام کیا میں دوکنیزوں کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں قبطی قبیلہ میں ان کی بڑی شان ہے آپ کے لئے ایک لباس ہدیہ بھیجا ہے اور سواری کے لئے ایک خچر بھی روانہ کررہا ہوں، اس نے اس پر کچھ اور نہ لکھا اور اسلام کا اظہار نہ کیا۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قبول کر لیا اور اس کی دونوں کنیزوں کو بھی وصول کر لیا، جناب سیدہ ماریہ علیہ السلام جو اُم ابراہیم علیہ السلام ہوئیںاور ان کا بڑا شرف ہے کہ وہ رسول اللہ کی زوجیت میں آئیں اور صاحب اولاد بھی ہوئیں۔اور اس کی بہن ماریہ تھی اور سفید رنگ کا خچر تھا کہ عرب دنیا میں اس جیسا اور موجود نہ تھا اسی کو دُلدُل کہا جاتا تھا۔

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بدبخت نے سلطنت کالالچ کیا جب کہ اس کی سلطنت کے لئے بقاءنہیں ہے حاطب نے کہا جو مقوقس کی جانب سے رسول اللہ کے پاس آیا آپ نے بہت اچھی مہمانی دی میں آپ کے ہاں زیادہ نہ ٹھہرا فقط پانچ دن قیام کیا۔(الطبقات ج ۱ ص ۱۶۲)

لھوذہ بن علی الحنفی کو خط لکھا اور اسے اسلام کی دعوت دی اس کے پاس رسول اللہ نے نمائندہ بھیجا اس نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط وصول کیا اسے پڑھا اور نبی اکرم کی طرف جواب تحریر کیا لیکن اس نے جو جواب دیا وہ غیر مناسب تھا اس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تحریر کیا ”کیا ہی خوبصورت ترین بات ہے جس کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں یہ بہت ہی عمدہ دعوت ہے میں قومی شاعر ہوں اور اپنی قوم کا خطیب ہوں عرب میری منزلت سے خوف کھاتے ہیں میری عربوں میں ہیبت اور رعب ہے، جس بات کی طرف آپ دعوت دیتے ہو تو اس سے کچھ میرا حصہ قرار دے دو تو میں آپ کی پیروی کروں گا“۔

سبط بن عروہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے تھے اسے تحائف دیئے بہترین پوشاک اسے پہنائی جو ھَجَر علاقے کے بنے ہوئے تھے سبط یہ سب کچھ لے کر حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضڑ ہو گیا اور سارے حالات و واقعات سے آپ کو آگاہ کیا اور اس کا خط آپ کو پڑھ کر سنایا آپ نے اس کا خط سن کر فرمایا اگر وہ مجھ سے زمین کا سایہ ( )طلب کرے تو بھی میں اسے نہ دوں گا بَادَ وَ بَادَ مَا فِی یَدَی ہِ( )جس وقت حضور پاک فتح مکہ کے سال واپس ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے واپس آ کر بنایا کہ وہ مر گیا ہے۔(الطبقات الکبریٰ ج ۱ ص ۰۶۲ ۔ ۱۶۲)

بادشاہ روم کی جانب خط

اس خط میں آپ نے تحریر فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جو اللہ تعالیٰ کا عبد اور بندہ ہے اس کی جانب سے یہ خط ہے ھرقل کی طرف جو روم کا بڑا ہے اور سلامتی ہے ان کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے۔

اما بعد!میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، تم مسلمان ہو جاو تو محفوظ رہو گے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دو مرتبہ(دوبرابر)عطا کرے گااور اگر تو اس سے پھر گیا اور دعوت کو قبول نہ کیا تو پھر تیری رعیت کا گناہ تیری گردن پر ہوگا”( یَا اَهلَ الِتَابِ تَعَالَوا اِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَینَنَا وَبَینَکُم اَلَّا نَعبُد اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشرِکَ بِه شَیئاً وَلَا یَتَّخِذَ بَعضُنَا بَعضاً اَر بَاباً مِّن دُونِ اللّٰهِ فَاِن تَوَلَّوا فَقُو لُواشهَدُو ابِاَنَّا مُسلِمُو نَ ) “۔ (تفسیر ثعلبی ج ۳ ص ۶۸)

آیت کا ترجمہ: اے اہل کتاب تم سب ایک کلمہ (بات) پر آجاو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ آپس میں کسی ایک کو ایک دوسرے کا رب قرار نہ دیں اور اگر تم اس پر نہ آو تو پھر تم سب یہ بات کہہ دو کہ تم گواہی دو کہ ہم تو مسلمان ہیں“۔

خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار،محبت، منطق، دلیل سے لوگوں میں اسلام کو پھیلایا ، آپ نے خط وکتابت کے ذریعہ کوبھی اسلام کی دعوت کے لئے استعمال کیا اپنے سفراءاور نمائندوں کے ذریعہ بھی اسلام کی دعوت دی خود براہ راست بھی دوسروں کے پاس جا کر انہیں اسلام کی دعوت دی اسلام کی دعوت کو کسی ایک طبقہ یا کسی ایک علاقہ تک مخصوص نہ رکھا بلکہ ہر طبقہ کو اسلام کی طرف بلایا اور ہر علاقہ کے لوگوں کو بلایا اور آپ کے زمانہ میں جتنی بڑی بڑی حکومتیں اور سلطنتیں ہیں اور جو بڑے بڑے معروف گروہ تھے ان حکومتوں کے سربراہوں اور ان گروہوں کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دی آپ نے اپنے زمانہ میں اس دور کی معروف شخصیات تک اپنے پیغام کو پہنچایا۔

اہل البیت علیہ السلام کا اسلام کی طرف دعوت دینے کا اسلوب

اہل البیت علیہم السلام نے اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے قرآنی اسلوب سے استفادہ کیا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقوں کو اپنایا ۔

جی ہاں! آپ حضرات جن زمانوں میں تھے تبلیغ دین اور اسلام کی طرف دعوت دینے میں اپنے زمانہ کے حالات اور مسائل کا لحاظ رکھا اور اس زمانہ کی مناسبت سے جو خاص طریقہ اپنانا پڑا تو آپ نے اسے اپنایا جیسے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے دور میں جو طریقہ اپنایا البتہ آپ حضرات علیہم السلام نے جو بھی رویے اپنے اپنے زمانوں میں اپنائے ان کا مآخذ قرآن مجید اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی رہا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کامعاویہ کے ساتھ صلحنامہ یا جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط کرنا تو یہ آپ کے دور کا تقاضا تھا پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف آواز بلند کی اور اس کی بیعت سے انکار کیا اور پھر اسی انکار نے آپ کو کربلا تک پہنچا دیا اور آپ نے اسلام ہی کی دعوت کو عام کرنے اور لوگوں تک صحیح اسلام پہنچانے کے لئے شہادت کا راستہ اپنایا اور اسی طرح باقی آئمہ کا زمانہ ہے کہ ہر امام نے اسلام کے پیغام کو خودمسلمانوں کے اندر اور مسلمانوں سے باہر کے طبقات میں اسلام پہنچانے کے لئے جو طریقے اپنائے سب کے سب قرآنی اور نبوی طریقے ہیں اور یہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا اسلوب دعوت

امام علیہ السلام کے اسلوب اور طریقہ کار سے مراد ہماری یہ ہے کہ آپ یہ سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کریں گے کہ جس حکومت کی بنیاد عدالت عام کرنے اور حقیقی عدل کو رواج دینے اور اللہ کے دین کا اس طرح نفاذ کہ جس طرح مرضی خدا ہے اسے عملی صورت میں لانے کے لئے ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کی خلقت کا ہدف اپنی عبادت اور اطاعت کو قرار دیا ہے۔

(سورہ الذاریات آیت ۶۵)

سارے انسانوں کی خلقت کا ہدف اللہ واحد احد کی عبادت ہے اور ابھی تک انسان اس منزل تک نہیں پہنچا کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں یہ اس وقت ہو گا کہ جب حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے اس ہدف کے حصول کے لئے آپ اپنی آمد کے بعد کیا طریقہ کار اپنائیں گے اس جگہ کئی احتمالات دے سکتے ہیں۔

۱ ۔ پہلا اسلوب یہ اختیار کریں گے کہ اپنی دعوت کاآغازموعظہ حسنہ سے کریں گے قتل اور جنگ کا راستہ نہ اپنایا جائے، وعظ، نصیحت، دلیل، منطق، گفتگو، مذاکرہ سے اپنی بات سے دوسروں کو قائل کیا جائے گا۔

۲ ۔ دوسرا اسلوب یہ اختیار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کریں گے اور تلوار کے سایے میں حکومت قائم کریں گے۔

۳ ۔ تیسر ااسلوب اعجاز کا ہوگا مکمل معجزہ ہوگا ، تلوار کا استعمال نہ ہوگا۔

۴ ۔ چوتھا اسلوب پہلے اور دوسرے کا ملاپ ہوگا یعنی وعظ،نصیحت، مذاکرات اور گفتگو کا اندازاپنایا جائے گا اور جہاں پر یہ فائدہ نہ دے گا تو تلوار کا استعمال کیا جائے گا۔

۵ ۔ دعوت دی جائے گی اور معجزہ کا راستہ بھی اپنایا جائے گا۔

۶ ۔ جہاد ہو گا اور معجزہ بھی ساتھ ساتھ ہوگا۔

۷ ۔ تینوں طریقوں کا امتزاج ہوگا۔( ۱) وعظ و نصیحت و مذاکرات و گفتگو، دلیل، عقل منطق( ۲) جہاں پر یہ کارگر نہ ہو تو جنگ ،تلوار( ۳) جس جگہ یہ دونوں کام نہ کریں تو معجزہ کا استعمال ہوگا بلکہ ان دونوں طریقوں کے استعمال ہی میں اعجازی پہلو بھی ہوگا۔

اس بیان پر دلائل موجود ہیں جو پہلے دوسرے اور تیسرے اسلوب کو بیان کر رہے ہیں جیسا کہ بعد کے بیانات سے روشن ہو جائے گا۔

پہلا اسلوب: مسالمت آمیز طریقہ سے دعوت دینا

قرآن میں جو تبلیغ کے طریقے بیان کیے گئے اور جو حضرت نبی اکرم کی سیرت اور آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی روشوں سے ثابت ہے ان سب کو آپ علیہ السلام استعمال کریں گے ، قتل، تباہی، سختی، دھونس، ڈرانے، دھمکانے کے بغیر دعوت دیں گے اس پر دلیل حسب ذیل روایات ہیں۔

۱ ۔ روایت کی گئی ہے کہ آپ دعوت کے لئے قتل کا رویہ نہ اپنائیںگے جناب ابوہریرہ سے روایت بیان ہوئی ہے کہ مہدی علیہ السلام کی بیعت رکن(حجر اسود والاکونہ) اور مقام (مقام ابراہیمی علیہ السلام) کے درمیان (بیت اللہ میں)بیعت کی جائے گی آپ سوتے ہوئے کو جگائیں گے نہیں اور نہ ہی کسی کا خون بہائیں گے ۔(کتاب الفتن لابن حمادص ۲۱۲)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اورحدیث روایت ہوئی ہے کہ”مہدی علیہ السلام کی جانب آپ کی امت پناہ لے گی جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی سردار مکھی کے گرد جمع ہوتی ہیں اور اس کی پناہ میں آتی ہیں، زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھر چکی ہو گی اسی طرح کہ سارے لوگ اپنے پہلے امر پر ہوں گے (فطرت پر ہو جائیں گے) آپ کسی سوئے ہوئے کو جگائیں گے نہیں اور نہ خون بہائیں گے۔(الملاحم والفتن ص ۷۴۱ حدیث ۸۷۱)

۲ ۔ روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام قرآن کے لئے دعوت دیں گے اور قرآن پر عمل کا کہیں گے حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے، مہدی علیہ السلام مکہ میں عشاءکے وقت ظاہر ہوں گے آپ کے ہمراہ رسول اللہ کا پرچم اور آپ کی قمیص ہوگی....وہ اعلان کریں گے کہ اس کو تم سب زندہ کرو جسے قرآن نے زندہ کیا ہے اور تم سب اسے مار دو جسے قرآن نے ختم کیا ہے اور ہدایت کے لئے تم سب مددگار بنو اور تقویٰ کے لئے تعاون کرو، تقویٰ کی مضبوطی بنو....میں تمہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو باطل کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ رسول اللہ کی سنت کو زندہ کرو۔(الملاحم والصنن ۷۳۱ ۔ ۷۵۱)( الصراط المستقیم ج ۲ ص ۵۲۳)

۳ ۔ روایت ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کی دعوت دیں گے جیسا کہ گذشتہ روایات میں تھا۔

۴ ۔ روایت بیان ہوئی ہے کہ قوم کو وعظ کریں گے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت میں آیا ہے: قائم (علیہ السلام و عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)اپنے اصحاب سے کہیں گے کہ مکہ والے مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ان کے پاس کسی کو بھیجتا ہوں تاکہ ان پر احتجاج کیا جا سکے اور مجھ جیسی شخصیت کو جیسا کہ اقدام اٹھانا چاہیئے میں ایسا کروں اور ان پر احتجاج کروں۔(البحار ج ۳۱ ص ۰۸۱)

۵ ۔ یہ روایت بھی ہوئی ہے کہ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جائے گی اور یہ محبت تباہی ، ویرانی، قتل و غارتگری، سخت روش کے منافی ہے۔

حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے :اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کو ڈال دے گا“دو لفظ ہیں ایک میں ہے خودیلقی....دوسرے میں ہے خدا یقذف....دونوں کا معنی قریب قریب ہے اللہ محبت کو ڈال دے گا۔ یعنی بغیر کوشش کے خدا کی طرف سے عطا ہو گی کہ اپنے ولی کی محبت کو دلوںمیں جاگزیں کر دے گا(یقذف پھینک دے گا، یلقی ڈال دے گا)

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے : میں نے سوال کیا یا رسول اللہ! کیا مہدی علیہ السلام ہم آل محمد سے ہوں گے یا ہمارے غیر سے ہوں گے؟ رسول اللہ نے فرمایا:ہم سے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان پر دین کا اختتام کرے گا جس طرح آغاز ہم سے ہوا، ہمارے ذریعہ لوگوں کو فتنوں سے نجات دلائی جائے گی جس طرح ہمارے ذریعہ سے انہیں شرک سے بچایا گیا ہمارے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت اور محبت پیدا کر لے گا جب کہ اس سے قبل ان میں کینہ کی آگ نے دشمنی ڈال رکھی ہو گی جس طرح شرک کی دشمنی کے بعد ان کے دلوں کو ایمان کی برکت سے قریب کر دیا اور کل کے دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔(غیبة النعمانی ص ۰۵۱)

سوال: جب ہم دوسرا اسلوب بیان کریں گے جس میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام جہاد کریں گے ، تباہ کن جنگ ہو گی، قتل ہوگا، مار دھاڑ ہو گی تو یہ سارے بیانات اس کے ساتھ منافات رکھتے ہیں ان میں سے کون سا طریقہ درست ہے یا پھر اس کی توجیہ دینا ہو گی اسے بعد میں بیان کیا جائے گا۔

دوسرا اسلوب :جہاد

ہماری مراد اس روش سے یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ساری تحریک اور آپ کے قیام کا محور و مرکز جہاد ہو گا اس میں مسالمت آمیز رویے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی غیر معمولی اعجاز کا میدان ہے اس جہاد سے مراد جہاد اصغر ہے جس میں جنگ ہے، ماردھاڑ ہے، قتل سے سزا دیناہے۔

اس رویہ پر دلائل

۱ ۔ روایات میں واردہوا ہے کہ آپ بہت زیادہ قتل کریں گے زخمیوں کو بھی مار ڈالیں گے۔

حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ :اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ قائم علیہ السلام جب خروج فرمائیں گے تو وہ کیا کریں گے تو اکثر کی خواہش یہ ہو گی کہ وہ انہیں نہ دیکھیں بوجہ لوگوں کو کثرت سے قتل کرنے کے، یعنی لوگ آپ کے قتل و ماردھاڑ کے رویہ کو دیکھ کر یہ خواہش رکھیں گے کہ وہ انہیں نہ دیکھیں۔ایک روایت میں ہے....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت میں نرم رویہ اپنایا لوگوں میں محبت عام کرتے تھے آپس میں جوڑتے تھے جب کہ قائم علیہ السلام کی سیرت اور روش قتل کرنا ہوگا، مارنا ہوگا۔

ایک روایت میں ہے کہ قائم علیہ السلام بھاگنے والے کو ماریں گے اور زخمی کو بھی قتل کر دیں گے۔(غیبة النعمانی ص ۱۲۱)

۲ ۔ بعد میں ذکر ہوگا کہ آپ ظہور کے بعد توبہ قبول نہ کریں گے اور نہ ہی کسی سے یہ چاہیں گے کہ وہ توبہ کرے جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ جو شخص گناہ پر ہوگا آپ اسے قتل کر دیں گے چہ جائیکہ جو کافر یا مشرک ہو ان کے معصیت کار کو معاف نہیں کریں گے اور جو غیر مسلم ہوں گے تو پھر ان کے لئے معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔

سوال: یہ روش پہلی روش کے ساتھ منافات رکھتی ہے ان دونوں کو کیسے یکجا کیا جائے تو یہ بعد میں بیان ہوگا۔ علاوہ برایں اگر کوئی ہدایت پا سکتا ہو اور اس میں وعظ و نصیحت اس کے لئے موثر ہو تو پھر اسے کیوں مارا جائے گا یہ بات تو انتقام ہوگی جب کہ آپ کا مقصد مطلق عدل کا نفاذ ہے۔

تیسرا اسلوب اعجاز کا ہے

اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام مسالمت آمیز روش نہ اپنائیں گے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور قتل وتباہی اور مار کٹائی سے بھی کام نہ بنے گا کیونکہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی اور وہ طاقتور بھی ہوں گے۔ پس آپ اعجازکی روش اپنائیں گے معجزاتی طریقہ سے عدل قائم کریں گے یہی مفہوم عام افراد کے ذہن میں راسخ ہے کہ امام علیہ السلام معجزاتی طریقہ سے پورے عالم پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عام لوگ امام علیہ السلام کی تحریک، آپ کی دولت کے قیام کی کیفیت اور اس کے لئے بنیادی اور اسکے صحیح مفہوم سے ناواقف ہیں۔

اس پردلائل

روایت ہے کہ آپ کے پاس سارے انبیاءوالے معجزات ہوں گے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ: مہدی علیہ السلام میری اولاد سے ہیں ان کے لئے غیبت ہو گی حیرانگی اور سرگردانی ہو گی، اس میں ساری اقوام گمراہ ہو جائیں گی آپ انبیاءعلیہم السلام کے ذخیرہ کو لے کر آئیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۵۳۳ حدیث ۷۸۵)

محدث حرالعاملی اپنی اثبات الہداة میں فضل بن شاذان سے اپنی اسناد کے واسطہ سے عبداللہ بن ابی یعفور سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابوعبداللہ جعفر بن محمد(صلوات اللہ علیہھا وعلی آبائھا وابنائھا) نے فرمایا : انبیاء علیہ السلام اور اوصیاءکے معجزات سے کوئی معجزہ ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس جیسے معجزہ کو ہمارے قائم علیہ السلام کے ہاتھ پر جاری فرمائے گا تاکہ سارے دشمنوں پر اتمام حجت ہوجائے۔

(اثبات الہداہ ج ۷ ص ۷۵۳ حدیث ۷۳۲)

۲ ۔ جو روایات میں آیا ہے کہ آپ کی قدرت اور قوت آ پکا علم اور آگہی غیر معمولی ہو گی اور عام قوانین کے دائرہ سے ماورا ہو گی جس سے آپ پوری دنیا کو پلٹ کر رکھ دیں گے اور یہ وہ چیز ہے جس سے صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے ولایت تکوینی کا عنوان ہے۔ بعد میں اس بارے بیان ہوگا۔

۳ ۔ روایت میں آیا ہے کہ ساری زمین آپ کے لئے سمٹ آئے گی آپ بادلوں میں گھومیں گے آپ کے اصحاب پانی کی سطح پر چلیں گے فرشتوں سے آپ کی مدد ہو گی جبرئیل علیہ السلام آپ کے دائیں میکائیل علیہ السلام آپ کے بائیں ہوں گے اور جو روایات زمین زلزلوں، زمین کے پھٹنے بارے میں ہیں جیسا کہ گذر چکا ہے ۔ ان مضامین پر مشتمل روایات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی ساری تحریک معجزاتی ہو گی اس میں قتل مار دھاڑ یا مسالمت آمیز رویوںکازیادہ کردار نہ ہوگا۔

سوالات

۱ ۔ پچھلے دو اسلوب بارے جو روایات ہیں ان کا کیا بنے گا۔

۲ ۔ عسکری تیاری بارے جو روایات ہیں، فوج بنانے، اسلحہ ذخیرہ کرنے ، جنگی تربیت لینے والی روایات کا کیا بنے گا۔

۳ ۔ اس کالازمہ یہ ہے کہ آپ یہ سب کچھ طاقت رکھنے پر خاموشی میں ہے یہ سارا ظلم ہو رہا ہے اگر عدالت کے نفاذ نے اعجازی طریقہ سے ہی ہونا ہے اور یہی تنہا راستہ ہے تو پھر اتنی لمبی غیبت کیوں؟ اب تک امام علیہ السلام کا صبر کس لئے؟ آپ نے غیبت صغریٰ کے دوران قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ اس دوران ہی اپنے اس اسلوب کو استعمال کرتے اور ظلم کا خاتمہ کر دیتے۔

تو کیا امام زمانہ علیہ السلام یہ پسند کرتے ہیں کہ مومنین کی ایک کمزور جماعت ظلم برداشت کرتی رہے، قتل ہوتے رہیں، ان کے سر اڑتے رہے، ان کی عزتیں لٹتی رہیں، ان کے اموال غارت ہوتے رہیں اور امام سب کچھ دیکھتے رہیں اگر یہ مان لیںتو پھر آپ امام عدل نہیں ہیں؟ کچھ اور ہی ہیں (العیاذ باللہ)

چوتھا اسلوب پہلے اور دوسرے اسلوب کو استعمال کرنا ہے

قرآنی اور نبوی اسلوب کو استعمال میں لائیں گے، مسالمت آمیزدعوت بھی ہوگا اور جہاد بھی ہوگا، جہاں پر عدالت کے نفاذ میں رکاوٹ آئے گی تو اس رکاوٹ کو جہاد کے ذریعہ دور کریں گے سختی بھی کریں گے ضرورت پڑی تونرمی بھی کریں گے اور جزوی طور پر جہاں کہیں ویرانی کی ضرورت پڑی تو وہ بھی کریں گے۔

اس کے دلائل

اس کے دلائل وہی ہیں جو پہلے اسلوب میں ذکر ہو چکے ہیں۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں اسلوب اکٹھے طولی شکل میں استعمال میں لائے جائیں گے جب ایک سے کام نہ چلے گا تو اس کے بعد دوسرا اسلوب استعمال میں لایا جائے گا۔

اس پر اعتراض: وہی اعتراض ہے جو اعجازی طریقہ کار کے بارے بیان ہوا ہے۔

پانچواں اسلوب

اس میں پہلے اور تیسرے اسلوب کو استعمال میں لایا جائے گا مسالمت آمیز دعوت کے ساتھ ساتھ اعجازی طریقہ کار بھی ہوگا اور ضرورت پڑنے پر جہاد بھی ہوگا۔

اس کی دلیل وہی ہے جو ان اسالیب میں بیان ہو چکی ہے۔

اس پر اعتراض

دوسرے اسلوب والی روایات ہیں اس کے علاوہ مسالمت آمیزدعوت اور اعجازی طریقہ کے درمیان ظاہری طور پر منافات موجود ہے اور اعجازی طریقہ کا روز مرہ وسیع پیمانے پر قتل کاجاری رہنا بھی ہے اور زمین بوس دشمنوں کو کردینابھی ہے مگر یہ کہ اس مقام پر سائنسی اعجاز مراد لیا جائے جو مسالمت آمیز دعوت کو مکمل کرنے والا ہے یہ احتمال موجود ہے بلکہ ایسا ہونا یقینی ہے کہ روایات میں ہے کہ زمین اور آسمان اپنے خزانے کھول کر رکھ دیں گے۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۶۸)

جو روایت میں آیا ہے کہ آپ ہر قسم کی تباہی اور بربادی کا خاتمہ کر دیں گے اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں وسیع پیمانے پر ترقی ہو اور جس سے ان خطرات کا ازالہ ہو جوزمین زلزلوں، آسمانی آفات سے رونما ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا بوجہ ان اعمال کے جو کچھ ان انسانوں نے انجام دیا یہ اس لئے ہوا تاکہ وہ اپنے ان اعمال کا کچھ مزہ چکھ لیں جو انہوں نے انجام دیئے ہیں یہ بھی ان کی تنبیہ کے لئے شاید کہ وہ واپس پلٹ آئیں( اور اللہ کی اطاعت میں آجائیں)(سورہ الروم آیت ۱۴)

چھٹا اسلوب

دوسرے اور تیسرے اسلوب کو ملا کر کام کرنا ہے، جہاد ہوگا اور اعجاز ہوگا اور یہ طولی شکل میں ہوگا جہاں پر جہاد کمزور پڑرہا ہوگا وہاں معجزہ اسے مضبوط کرنے کے لئے استعمال ہوگا۔

اس کی دلیل وہی ہے جو ان دو اسلوب میں دی جا چکی ہے اس پر اعتراض وہی ہے جو ان تین اسالیب کو بیان کرتے وقت ذکر ہوچکا ہے۔

ساتواں اسلوب

تینوں اسالیب کو طولی شکل میں استعمال کیا جائے گا یعنی آغازمسالمت آمیز دعوت سے ہوگا، موعظہ حسنہ ہوگا، دلیل اور منطق سے لوگوں کو متوجہ کیا جائے گا، حق کی طرف بلایا جائے گا، پیار و محبت سے سمجھایا جائے گا جب اس انداز کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور آواز حق کو دبایا جائے گا تو پھر اس دعوت کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو توڑنے کے لئے جہادی عمل شروع کیا جائے گا اگر جہادی عمل میں مشکل سامنے آئی اور کامیابی میں رکاوٹ آنے لگی تو اس وقت اعجاز اور معجزہ درمیان میں آئے گا اور فتح یقینی ہوگی۔

عقلی اور شرعی دلیل

عقلی دلیل اپنے ہدف اور غرض کو توڑنا عقلاءکی سیرت کے خلاف ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام سیدالعقلاءہیں وہ کس طرح اپنی غرض کو توڑ سکتے ہیں کس طرح ایسا کام کریں گے جس سے انکا مقصد ہی فوت ہو جائے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے خروج اور قیام کی غرض و غایت عدالت کا نفاذ ہے ایسی عدالت جو پورے کرہ ارض کو شامل ہو تاکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی خالص عبادت کے لئے خلق فرمایا ہے وہ غرض حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں“(الذاریات آیت ۶۵)

جو چھ اسالیب پہلے بیان ہو چکے ہیں وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر تنہا اس غرض کو پورا نہیں کرتے کیونکہ اگر تنہا جہادی طریقہ ہو تو اس سے تباہی و ویرانی توڑ پھوڑ، قتل و غارتگری اورنفرتیں ہوں گی اس سے جدید ترین ، تباہ کن اسلحہ کے استعمال سے فضاءآلودہ ہو گی اور یہ اس قتل کی کثرت کی وجہ سے ہوگاجو عدالت کے منافی ہے بلکہ ظلم کے مقدمات سے ہے ۔

مثال امام علیہ السلام کسی ایک شہرمیں وارد ہوتے ہیں اور پھر وہاں جنگ کرتے اور اسی فیصد آبادی کو مار دیتے ہیں تو اس اقدام پر یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام علیہ السلام نے عدل قائم کیا اور زمین سے ظلم ختم کیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ زمین والوں کا صفایا کر دیا اور تھوڑے سے تسلیم ہو گئے یہ بات ہدف کے منافی ہے۔سومیں سے اسی افراد کو قتل کر دیا جائے اور بیس افراد کو زندہ رکھا جائے تو یہ بات بھی ہدف کے منافی ہے۔

۲ ۔ اگر مسالمت آمیز دعوت کو استعمال میں لایا جائے اور دوسرے ذرائع استعمال میں نہ لائے جائیں تو یہ بھی کافی نہیں کیونکہ غرض اس انقلاب سے یہ ہے کہ پورے عالم میں عدالت کا نفاذ ہو جب کہ مختلف تہذیبیں ہیں ایک وسیع و عریض زمین پر رہنے والے انسانوں کے مزاجوں کا اختلاف ہے ان کی زبانیں مختلف ہیں پھر یہ بھی ہے کہ اکثریت پرظلم و زیادتی کا راج ہے تباہ کن اسلحہ بھی موجود ہے اور کوئی ظالم حکمران اپنی حکومت اور تسلط کو آسانی سے نہ چھوڑے گا۔مسالمت آمیزدعوت جو متعارف ہے اسے ابتدائی سطح کے چھوٹے معاشرہ میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے تو دعوت کا یہ انداز زیادہ فائدہ نہ دے گا بلکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اس طریقہ کا استعمال کمزوری سمجھا جائے گا۔یہ اس صورت میں ہے جب ہم یہ کہیں کہ اس قسم کی دعوت امام علیہ السلام کی حکومت کے لئے اس معقول عرصہ میں ہدف کو پورا کر دے گی جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت نبی اکرم ایک اسلامی حکومت کوقائم کرتے ہیں(پوری عدالت پورے معاشرہ میں نافذ نہیں کرپاتے کیونکہ خود مدینہ میں منافقین، یہود و نصاریٰ، مشرکین تک موجود رہے اسی طرح جب مدینہ سے باہر اس کا دائرہ وسیع ہوا تب بھی کامل سطح پر اور ہر ایک کے لئے عادلانہ حکومت کا نفاذ نہ ہوا)اور وہ بھی ایک بہت سارے محدود ماحول میں دنیا کے ایک بہت ہی چھوٹے سے حصہ پر اس کے لئے بھی بیس سال لگ جاتے ہیں یہ نتیجہ ہے مسالمت آمیز دعوت کاہے، اس تناظر میں غور کریں کہ آپ کے نواسے حضرت امام مہدی علیہ السلام جو پورے عالم میں ایک عادلانہ اسلامی حکومت قائم کرنا چاہیں گے اور وہ بھی ایسے ماحول میں کہ جہاں پر تباہ کار اسلحہ کی بھی بھرمار ہو، ظالموں اور ستمگروں کا راج ہو، ان کے پاس بھی سارے زندگی کے وسائل موجودہوں تمام معاشی ذرائع پر ان کا کنٹرول ہو ، ذرائع ابلاغ بھی ان کے پاس ہوں، جدید ٹیکنالوجی بھی وہ رکھتے ہوں، اس پوری زمین پر عدالت کے نفاذ کے لئے کس قدر وقت درکار ہو گا، اتنے بڑے معاشرہ کی حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ والی سول سوسائٹی جس پر آپ نے اسلامی حکومت قائم کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے پھر ایسی عدالت کا نفاذ کہ پوری آبادی عصمت کے مقام پر پہنچ جائے کہ کوئی بھی مجرم نہ رہے سب اچھے بن جائیں، نیک ہوں، تو ایسا طریقہ ہے کہ اس ذریعہ سے تو سو سال میں بھی یہ مقصد پورا نہ ہوگا، اور یہ بھی اگر فرض کر لیں کہ آپ کی مسالمت آمیزدعوت، منطقی انداز اور تبلیغی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی آپ کو موقع دیا جائے گا کہ آ پ اپنی بات سب انسانوں سے کر سکیں تو اس طرح آپ کی طولانی غیبت کے بعد ظہور اوروہ بھی اس مقصد کے لئے تو یہ اصل ہدف کو توڑنے والی بات ہے اور غرض کے منافی ہے۔

۳ ۔ اگر اسلوب اور روش فقط اعجازی ہو، مسالمت آمیز دعوت نہ ہو تو یہ طریقہ بھی تبا ہی اور بربادی لائے گا، ویرانی ہو گی اگر امام علیہ السلام پورے عالم میں مختلف حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے زمینی زلزلے، آسمانی آفات کااستعمال کریں گے، ہر جگہ معجزہ سے ویرانی کریں گے اور بڑی مقدار میں انسانوں کو مار ڈالیں گے تو بھی غرض کے منافی ہے وہ تو انسانوں کو خوشحالی دینے آئیں گے انسانوں پر عدالت کا نفاذکرنے آئیں گے نہ کہ انسانوں کو مارنے آئیں گے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ سابقہ طریقے اور رویے جو بیان ہوئے ہیں ان کو اگر تنہا تنہااستعمال میں لایا جائے تو اس سے مقصد و غرض حاصل نہیں ہوتا لہٰذا ان تینوں طریقوں کو استعمال میں لایا جائے گا جہاں جس طریقہ کی ضرورت ہو گی وہاں پر وہی طریقہ اپنایاجائے گا، دعوت بھی ہو گی،معجزہ بھی ہوگا، جنگ بھی ہوگی ۔

امام علیہ السلام کے طریقہ اور روش بارے شرعی دلیل

۱ ۔ جوروایات گزر چکی ہیں کہ آپ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلیں گے اسی طرح آپ قرآن کی طرف دعوت دیں گے اور اسی پر عمل کرنے کا لوگوں سے کہیں گے اور قرآنی اسلوب کو اپنی عملی زندگی میں لائیں گے۔

ان روایات میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ نبی اکرم کی دعوت کے جو بھی طریقے تھے آپ ان سب کو استعمال میں لائیں گے آپ کا سارا عمل اور پروگرام اسی کا تسلسل ہے۔آپ مسالمت آمیز طریقہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لئے استعمال کریں گے موعظہ حسنہ اور حکمت ودانائی کو استعمال میں لائیں گے اس طریقہ پر لوگ سیدھے نہ ہوئے، سرکشی کی گئی اور منافقوں اور کافروں نے انکار کر دیا اور حقائق کو توڑ مروڑ دیا حق بات سننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں تو پھر جس طرح نبی اکرم نے اسلحہ کا استعمال کیا جنگیں کیں آپ بھی ایسا ہی کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ حق کی طرف آجائیں اور حق اور اسلام کے انکار سے باز آجائیں۔

پھر اگر دعوت دینے، جہاد میں کامیابی کے لئے غیبی امداد اور معجزہ کی ضرورت پیش آئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کی مدد فرشتوں کے ذریعہ کی اور دیگر معجزات بھی آپ کے وسیلہ سے وقوع پذیر ہوئے اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے بھی ہوگا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے عام اسالیب اور طریقوں کو بالترتیب تدریجی اورطولی(سیدھ میں)حساب سے استعمال کیا۔ دعوت مسالمت آمیزطریقہ سے وہی موعظہ حسنہ اور حکمت ، دلیل و منطق سے بات کی اس میں رکاوٹیں ہٹانے کے لئے جنگ و جہادبھی کیا اور ہر دو طریقوں میں کامیابی کے لئے معجزہ اور غیبی امداد کا استعمال اس بارے روایات بھی موجود ہیں اور قرآنی آیات میں بھی یہ مطلب بیان ہوا ہے۔

حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے:

”بتحقیق اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اسلام دے کر دس سال کے لئے بھیجا تو لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو جنگ کا حکم دیا پس خیر اور برکت تلوار میں اور تلوار کے سایے تلے اور بات ایسی طرف پلٹے گی جیسا اس کا آغاز تھا یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت وہی کچھ ہوگا جو آغاز اسلام میں ہوا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام قرآن پر عمل کرنے کی دعوت دیں گے جیسا کہ روایات میں ہے قرآن پہلے اسلوب کو پیش کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح قرآن دوسرے اسلوب کی بات کرتا ہے اور جہاد کا حکم دیتا ہے بہت ساری آیات میں یہ حکم موجود ہے کچھ تو نبی اکرم سے مخصوص آیات ہیں اور کچھ آیات میں حکم عمومی ہے اور ہر زمانہ کو شامل ہے۔

بہرحال تیسرا اسلوب اعجازی اور معجزہ کا طریقہ ہے چاہے ہم معجزہ کامعنی عادی اور طبیعی قوانین کو توڑنے سے کریں جیسا بلقیس کے تخت بارے آیا ہے کہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کا وصی، بلقیس کے عرش کو لے آیا یمن سے بیت المقدس تک ایک لمحہ بھی صرف نہ ہوا جیسا کہ سورہ نمل آیت ۰۴ میں ہے۔اعجاز اور معجزہ اس معنی میں قرآن میں موجود ہے یا اس کی تفسیر اس طرح کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہ السلام اور اولیاءکی مدد فرشتوں کے ذریعہ فرماتا ہے اور اس غیبی امداد سے ان کی تقویت کرتا ہے جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسا ہی ہوا جیسا کہ بہت سارے مقامات میں قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہوا ہے اس مضمون کی بہت ساری آیات ہیں۔”(اے رسول)اس وقت تم مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے آسمان سے بھیج کر تمہاری مدد کرے (ہاں ضرور کافی ہے)بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو اور (رسول کی مخالفت سے)بچو اور کفار اپنے (جوش میں) بھی تم پر چڑھ بھی آئیں توتمہاراپروردگار ایسے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو نشان جنگ لگائے ہوئے ڈٹے ہوئے ہوں گے“(سورہ آل عمران آیت ۴۲۱،۵۲۱ ۔ پارہ ۴)

اعجاز اس معنی میں قرآن کے اندر موجود ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت امام مہدی علہ السلام قرآن پر عمل کی دعوت دیں گے تو یہ دعوت قرآن میں اعجاز بارے موجود آیات پر عملی دعوت بھی ہو گی پس تینوں اسالیب قرآن میں ذکر ہوئے ہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں ان تینوں پر عمل ہوگا۔

طولی حساب سے ان تینوں کے استعمال پر عقلی دلیل موجود ہے جو پہلے بیان ہو چکی اسی طرح بعض آیات میں جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت نبی اکرم کی امداد کے لئے آسمان سے اتارا جس وقت مسلمان دشمن کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئے تھے جیسا کہ جنگ حنین میں ہوا اسی طرح روایات میں جو چھ اوپر بیان ہوئی ہیں وہ ان اسالیب کی ترتیب کو بھی بیان کرتی ہے۔

ان میں سے ایک یہ روایت ہے کہ ابوبکر کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوالحسن علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کا جو فرمان ہے کہ ”( وَلَهُ اَسلَمَ مَن فِی السَّمٰوَاتِ وَالاَر ضِ طَوعاً وَ کَرهاً ) “(سورہ آل عمران آیت ۳۸)” جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے وہ سب اس کے لئے تسلیم ہوگا اور اسلام لے آئے گا“۔

تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ آیت قائم علیہ السلام کے بارے اتری ہے جس وقت یہودی، نصرانی، عیسائی، زنادقہ اور مرتدین، مشارق و مغارب میں بسنے والے کافر ان سب پر آپ اسلام پیش کریں گے جو آرام سے اور اپنے اختیار و ارادہ سے مسلمان ہو جائے گا تو اسے نماز اور زکات کا حکم دیں گے اور اس بات کا حکم دیں گے جو ایک مسلمان کو دیا جاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر واجب کیا ہے اور جو مسلمان نہیں ہوگا تو اس کی گردن اڑا دیں گے اس طرح مشرق زمین اور مغرب زمین میں کوئی ایک بھی نہیں بچے گا مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدہ پر آجائے گا۔(البحار ج ۳۱ ص ۸۸۱)

میری جان ان پر قربان کہ آپ اسلام ان سب پر پیش کرنے کے بعد انہیں قتل کرنے کا حکم دیں گے اور یہ بات کہ انہیں نماز اور زکات کا حکم دیں گے تو یہ انہیں اسلام کی تعلیمات دینے کے بعد کریں گے اسلامی احکام کی انہیں تعلیم دے کر ان واجبات کے ادا کرنے کا انہیںحکم دیں گے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے موافق ہے۔

(سورہ الاسراءآیت ۰۵۱)

جو ہدایت پا لیتا ہے تو وہ اپنے لئے ہدایت پاتا ہے خود اسی کا فائدہ ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے بھٹک جاتا ہے تو یہ بھی اس کے اپنے نقصان میں ہے کسی ایک کا جرم دوسرے پر نہیں ڈالا جاتا ہے اور ہم تو کسی ایک کو سزا نہیں دیں گے مگر ان کے پاس اپنا پیغام دینے والا بھیجنے کے بعد جب وہ اس کا انکار کر دیں تو پھر انہیں سزا دیتے ہیں۔(قرآن)

یہ بات بنیادی مقصد کے بھی موافق ہے اوراسی سے کمال مطلق کا تحقق اور اسلامی تربیت کا حصول ہے تاکہ واحد اَحَد مالک حقیقی کی عبادت اس پوری دھرتی پر ہو، آغاز ہی میں قتل،ماردھاڑ سختی غرض کے حصول میں رکاوٹ بنے گی کیونکہ اگرروئے زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کو قتل کردینا ہے اورمعجزات کے ذریعہ بڑے بڑے شہروں کو تباہ کرنا ہے تو پھر روئے زمین پر کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا،جو کچھ روایات میں ہم پڑھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس غرض کو حاصل کرنے کی غرض سے قتل و جنگ و جدال ہوگا، قتل و تباہی، ویرانی توزمین میں زلزلے اصل ہدف نہیں بلکہ ہدف تک پہنچنے کا وسیلہ ہےں یا تویہ ایک ذریعہ ہے یا پھر آخری وسیلہ ہے، جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت میں ہے ”قیامت کی گھڑی قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس سے پہلے ان مخالفین پر میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد قیام کرے گا اور ان مخالفین کی گردنیں اڑائے گا تاکہ وہ سب حق یعنی اسلام کی طرف آجائیں“۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے”جس وقت اللہ تعالیٰ حضرت قائم علیہ السلام کو خروج کا اذن عطا فرمائیں گے تو حضرت قائم علیہ السلام لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے انہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیں گے کہ وہ آپ کی تائید کریں انہیں حق کی دعوت دیں گے اورآپ ان لوگوںمیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلیں گے اور ان میں رسول اللہ جیسا عمل کریں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجے گا حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئیں گے اور رکن حطیم پر اتریں گے پھر وہ آپ سے سوال کریں گے کہ آپ کس چیز کی دعوت دے رہے ہیں تو حضرت قائم علیہ السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپناپروگرام بتائیں گے۔

اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آگے بڑھ کر یہ کہیں گے کہ اس کے لئے تو سب سے پہلے میں آپ علیہ السلام کی بیعت کرتا ہوں وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں گے حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مَس کریں گے اس دوران تین سوسے کچھ اوپرافراد آپ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے اور وہ سب آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کریں گے آپ علیہ السلام مکہ میں قیام فرمائیں گے کہ آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد دس ہزار ہو جائے گی پھر مکہ سے مدینہ کی جانب جائیں گے۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۷۳۳ باب ۷۲ ذیل ۸۷)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے مراحل

اس میں شک نہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام منبر پر جائیں گے اور منبر پر جا کر لوگوں کو دعوت دیں گے اپنی طرف بلائیں گے انہیں اپنا پروگرام بتائیں گے وگرنہ جنگ، حرب اور قتل کر دینے کے بعد دعوت دینے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔

جناب بشیر نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے عرض کیا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ بتحقیق جس وقت حضرت امام مہدی علیہ السلام قیام کریں گے تو سارے معاملات بغیر نقصان کے درست ہو جائیں گے کوئی قطرہ خون کا نہیں گرے گا کوئی کھوپڑی نہیں اڑے گی۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:ایسا تو ہرگز نہیں ہوگا اگر کسی ایک کے لئے سارے معاملات بغیر نقصان اور تکلیف اٹھائے درست ہو جائیںتو پھر یہ سب کچھ حضرت رسول اللہ کے لئے ہو جاتااور بغیر تکلیف اٹھائے آپ کامیاب ہوجاتے جب کہ آپ کی رباعیہ ٹوٹ گئی(دانت ٹوٹ گئے)ان کا چہرہ زخمی ہو گیامجھے میری جان کی قسم ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہم ان سختیوں کی وجہ سے اپنی پیشانیوں سے خون کے چھینٹے پونچھیں گے پھر آپ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔اس حدیث سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کے لئے یہ دعوت بغیر نقصان کے پوری نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے استحکام ملے گا اور حضرت نبی اکرم کے لئے بھی ایسا نہیں ہوگا ہر قسمی اسلوب اور طریقہ اپنایا جائے گا اور ہم نے یہ جوکہا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسلوب و طریقہ اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اسلوب وطریقہ میں وحدت اور یک رنگی ہو گی اس کا معنی یہی ہے۔

۲ ۔ روایت میں لفظ (عفو)تھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت عَفَوی ہو گی، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ دعوت اچانک ہو گی اور مفت میں ہو گی اس کے لئے کسی عمل اور محنت کی ضرورت نہ ہو گی اور نہ ہی اس دعوت کے لئے منصوبہ بندی اور کسی قسم کی تیاری کی قدرت ہو گی نہ قربانی دینی پڑے گی بلکہ بڑے آرام سے سب کچھ ہو جائے گا پر سکون ماحول میں سب کچھ انجام پائے گا تو یہ بات کسی ایک کے بھی نصیب نہیں ہوئی تو یہ ان کے لئے کیسے انجام پا سکتی ہے جو رسول کریم ہیں، خاتم الانبیاءہیں،انہوں نے اپنے پروگرام کو پیش کیا اس کے لئے منصوبہ بندی کی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام خاتم الاولیائ، مہدی منتظر ہیں، آپ اپنی دعوت کے لئے منصوبہ بندی کریںگے اس راستے میں تکالیف اٹھائی ہیں، خون بھی بہایا جاتا ہے، کام آسان نہیں ہے، آخری حجت کا کام اور بھی سخت اور دشوار ہوگا۔

ظہور امام علیہ السلام کے لئے جلدی

روایت میں آیا ہے کہ تم کس لئے امام قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے جلدبازی میں پڑے ہو(یعنی یہ چاہتے ہو کہ ابھی ابھی خروج ہو جائے جب کہ تم نے کوئی تیاری بھی نہیں کی ہے اوریہ سمجھ رہے ہو کہ سب کچھ اسی طرح انجام پائے گا بڑی آسانی ہو گی)

خدا کی قسم!ان کا لباس کھردرا، موٹا ،ہوگا، ان کی غذا سخت ہو گی، لذیذ نہیں ہو گی،ان کے ساتھ تو تلوار ہو گی، جنگ ہو گی(یعنی ایسا نہیں ہے کہ ان کی آمد پرفوراً ہر طرف ہریالی ہو جائے گی، غذائی اجناس کی فراوانی ہو گی، لذیذ غذائیں ملیں گی، آرام و سکون ہوگا، بلکہ غذا تھوڑی اور وہ سخت قسم کی اور غیرمزیدار ، پھر جنگیں بھی ہوں گی۔سختیوں اورمشکلات کے بعد آرام ہوگا)(غیبت نعمانی ص ۲۵۱)

قتل و غارتگری کی یہ روایات اور اس مضمون کی اور روایات یہ بتا رہی ہیں کہ حکومت کے قیام کے لئے دوراندیشی، منصوبہ بندی، قربانی، جہاد کی ضرورت ہو گی پس جو ایمان لے آیا تو اس کے لئے وہی ہو گا جو سب مسلمانوں کے لئے ہے اور جو مسلمانوں کے لئے ضرررساں ہیں ان کے لئے بھی ہوگا یعنی وہ مسلمانوں کے نفع و نقصان میںحصہ دار ہوں گے اور جس نے انکار کر دیا تو اس کے خلاف جنگ ہو گی اتنی جنگ کہ یا تو وہ مسلمان ہو جائے یا پھر قتل کر دیا جائے یہ حضرت رسول اللہ کی سیرت ہے اور وہی ان کے پَرتَو سے اور ان کے ہمنام مہدی منتظر کی سیرت ہو گی۔

جی ہاں! اس جگہ ایک فرق ملحوظ خاطر رہے اور وہ یہ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہرپر حکم لگاتے تھے جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام واقعیت کے مطابق حکم لگائیںگے کہ اس طرح کوئی منافق نہ رہے گا،جو کہے گا میں مسلمان ہوں تو اگر اپنے بیان میں سچا ہوگا تووہ بچے گا اس کے ظاہری قول پر اسے معاف نہ کر دیا جائے گا ظاہری اقرار اگرتو باطنی اعتقاد کا مظہر ہوگا تووہ بچے گا وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا اس طرح پوری دھرتی کو کافروں، منافقوں، ملحدین، مشرکوں، یہودیوں، نصرانیوں، مرتدوں سے پاک کر دیا جائے گا البتہ اس سے پہلے دعوت دی جائے گی ان کواپنا پروگرام بتایا جائے گا، دلیل و منطق سے بات ہو گی موعظہ حسنہ اور دعوت سلیمہ ہو گی اس کے بعد مخالفین، سرکشوں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو گی راستے دو ہی ہوں گے۔

( ۱) اسلام لے آو ۔ خدا کے ہو جاو، آرام اور سکون سے رہو۔

( ۲) یا مخالفت کا اعلان کرو اورقتل ہونے کے لئے تیار ہو جاو۔

( ۳) تیسری صورت منافقانہ ہے ظاہر میں دعوت قبول کر لیں باطن سے مخالف ہوں تو ایسی حالت ہرگزقبول نہ ہوگی۔

ایک اور فرق بھی بعد میں بیان کیا جائے گا اور توبہ کے مسئلہ میں آئے گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور امرجدید

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے ، قائم امر جدید لے کر قیام کریں گے کتاب جدید ہو گی، فیصلہ جدید ہوگا، عربوں پر شدید ہوگا آپ کی روش تلوار ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے بارے کسی قسم کی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔(غیبت نعمانی ص ۲۲۱)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ جب حضرت قائمعلیہ السلام خروج کریں گے تو وہ کیا کیا اقدامات اٹھائیں گے تو یہ جان کر ان لوگوںکی خواہش یہ ہو گی کہ کہ لوگ انہیں نہ دیکھیں بوجہ اس خبر کے کہ وہ لوگوں کو قتل کریں گے ۔ آگاہ رہو کہ وہ اس کا آغاز قریش سے کریں گے ان کے ساتھ سوائے تلوار کے کوئی اور رویہ نہ اپنائیں گے، تلوار اتنی چلائیں گے کہ آپ علیہ السلام کا یہ عمل دیکھ کر بعض لوگ یہ کہیں گے کہ لگتا ایسا ہے کہ یہ تو آل محمد علیہم السلام سے نہیں ہیں کیونکہ اگر یہ آل محمد علیہم السلام سے ہوتے تو رحم کرتے۔(غیبت نعمانی ص ۲۲۱)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: میرے والدین ان پر قربان جائیںجو کنیزوں سے بہترین کا بیٹا ہے وہ انہیں زلزلے اورزمین کے دھنس جانے سے ھانکے گا اور انہیں سخت موت کے مزے چکھائے گا وہ انہیں تلوار کی نوک پر لے گا اس وقت قریش قبیلہ فاجر اور بدکردار لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ان کے دنیاوی مفادات کا تحفظ کسی طرح ہو جاتا ان کے لئے معافی نہ ہو گی اور ان سے اس وقت تک ہاتھ نہیں اٹھائیں گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے وہ لوگ یہ چاہیں گے کہ ان سے کوئی دنیاوی مال و متاع لے لیتا اور انہیں مارتا نہیں، لیکن ان کے مظالم اور خراب کاریاں اس حد تک ہوں گی کہ ان کے لئے سوائے قتل کے معافی نہ ہوگی۔(مترجم)(غیبت النعمانی ص ۰۲۱)

حضرت امام جواد علیہ السلام کی روایت میں ہے آپ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اس حد تک قتل کریں گے کہ خدا آپ پر راضی ہو جائے۔(کفایة الاثر ص ۲۸۲)

یہ چند نمونے تھے کہ آپ علیہ السلام ظہور فرمانے کے بعد تخریب کاروں کو، فاسقوںکو، فاجروں کو، مفسدوں، فتنہ بازوں کو، ظالموں جابروں کو اتنا قتل کریں گے کہ آپ کے ساتھی بھی یہ منظر دیکھ کر گھبراجائیں گے۔ آپ ان جرائم کی معافی نہ دیں گے۔

ان روایات سے ایسا لگتا ہے کہ آپ دعوت دینے سے پہلے قتل کریں گے لیکن اس بارے ذیل کا تجزیہ ملاحظہ کریں۔

حضرت قائم علیہ السلام قتل سے پہلے دعوت دیں گے

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دعوت دینے سے پہلے قتل کرنا شروع کر دیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امام مہدی علیہ السلام انہیں اسلام کی طرف دعوت نہ بھی دیں تو وہ لوگ حضرت قائم علیہ السلام کے ساتھ جنگ شروع کر دیں گے جب کہ یہ قتل و قتال اور جنگ اس لئے ہو گی کہ وہ انہیں اسلام پر لانے کے لئے دعوت دینے والے ہوں گے اور وہ دنیائے اسلام کی امامت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کی قیادت اور رہبری سنبھالنے والے ہیں۔

(آپ کا جب ظہورہوگا تو آپ کی آمد سے پہلے خود مسلمان ممالک میں ایسے گروہ موجود ہوں گے جو خود دعویدار ہوں گے کہ انہوں نے اسلام لانا ہے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنوں میں سے بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے اور ہر اس طاقت سے جنگ کریں گے جو انہیں اصلی اسلام کی طرف دعوت دیں گے جب حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا اعلان کعبة اللہ میں ہوگا تو آپ ان بکھرے ہوئے، منتشر اور حقیقی اسلام سے دور مسلمانوں کو اپنے پہلے خطاب میں دعوت دیں گے اور اپنے برحق ہونے کے دلائل بھی دیں گے انہیں قرآن اور سنت سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے تو مسلح گروہ آپ کی بات کو نہ سنیں گے اور آپ علیہ السلام پر چڑھائی کر دیں گے اور آپ علیہ السلام کے حامیوں کو مارنا شروع کر دیں گے تو اس حالت میں آپ علیہ السلام پر جنگ کو مسلط کر دیا جائے گا تو آپ علیہ السلام بھی حق کے دفاع کے لئے جنگ کریں گے۔ آپ علیہ السلام نے جنگ کا آغاز نہیں کرنا، آپ علیہ السلام کے مخالفین جنگ کا اعلان کریں گے آپ علیہ السلام ان کا مقابلہ کریں گے اور اس میں کسی پر رحم پھر نہ کریں گے۔ روایات اسی بات کو بیان کر رہی ہیں۔مترجم)

اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔

حضرت امام ابوعبداللہ صادق علیہ السلام: آپ علیہ السلام مکہ میں اتریں گے اور اپنی تلوار کو اپنے نیام سے باہر نکالیں گے زرہ کو پہن لیں گے، اپنا پرچم لہرادیں گے(رسول اللہ کا مخصوص لباس) چادر، عمامہ پہن لیں گے اپنے ہاتھ میں عصا کو پکڑ لیں گے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے ظہور کی اجازت مانگیں گے تو ان حالات میں آپ کے بعض موالی ظاہر ہوں گے پس حسنی نامی شخص حاضر ہو کر آپ کو ایک خبر دے گا اور اس وقت حسنی خروج کرنے میں جلدی دکھائے گا اس پر مکہ والے ٹوٹ پڑیں گے اور وہ اسے قتل کر دیں گے اور اس کے سر کو کاٹ کر شام روانہ کردیں گے پس ان حالات میں صاحب الامر علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اورلوگ آپ کی بیعت کریں گے اورآپ کا ساتھ دیں گے تو اس صورتحال میں شامی مدینہ کی جانب اپنی فوج بھیج دے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی فوج کو مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک کر دے گا اس دوران جو بھی مدینہ میں موجود ہوگا وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوگا مدینہ چھوڑ کر جانے والے سب حضرت علی علیہ السلام کی اولاد سے ہوں گے اور ان کا رخ مکہ ہوگا اور وہ وہاںجا کر صاحب الامر علیہ السلام کے ساتھ مل جائیں گے صاحب الامر علیہ السلام عراق کی جانب بڑھیں گے اور آپ علیہ السلام ایک لشکر کو مدینہ بھیج دیں گے جو مدینہ والوں کو امن دے گا وہ لشکر مدینہ میں امن قائم کرے گا اوراس طرح جو مدینہ سے باہر چلے گئے تھے وہ مدینہ واپس آجائیں گے۔(الکافی ج ۸ ص ۵۲۲ حدیث ۵۸۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنا نمائندہ مکہ والوں کے پاس بھیجیں گے

حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام ایک طولانی حدیث میں بیان فرماتے ہیں:حضرت قائم علیہ السلام اپنے ساتھیوں سے کہیں گے اے قوم! مکہ والے تو مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ان کی جانب اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں تاکہ ان پر احتجاج کیا جا سکے جیسا کہ میرے جیسے شخص کے لئے ضروری ہے،اپنے اصحاب میں سے ایک کو بلائیں گے اس سے فرمائیں گے کہ تم مکہ والوںکے پاس جاو اور ان سے یہ کہو اے مکہ والو!میں فلاں شخصیت (امام مہدی علیہ السلام)کی جانب سے تمہارے پاس نمائندہ بن کر آیا ہوں وہ تم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اہل بیت علیہ السلام رحمت ہیں ، ہم معدن رسالت ہیں، ہم ہی معدن و مرکز خلافت ہیں، ہم محمد کی ذریت ہیں اور انبیاءعلیہ السلام کی نسل اور اولاد سے ہیں، اس میں شک نہیں کہ ہمارے اوپر ظلم ڈھائے گئے، ہمارے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ہمیں شکست سے دوچار کیا گیا ہمارا حق ہم سے چھین لیا گیا، ہمیں اذیتیں دی گئیںیہ سارے مظالم اس دن سے جس دن ہمارے نبی کا وصال ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ہم تمہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں تم سب ہماری مدد کرو....

جب یہ جوان (امام مہدی علیہ السلام کا نمائندہ)یہ گفتگو کرے گا تومکہ والے اس کے پاس آئیں گے اور رکن اور مقام کے درمیان اسے ذبح کردیں گے اور یہی شخص نفس زکیہ ہے۔

جب امام علیہ السلام کو یہ خبر ملے گی تو آپ اپنے اصحاب سے کہیں گے کہ میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ مکہ والے ہمیں نہیںچاہتے مکہ والے انہیںدعوت نہیں دیں گے بلکہ وہ خود عقبہ طوی سے تین سو تیرہ افراد کے ساتھ اتریں گے یہ تعداد بدر کے مجاہدوں کی تعداد کے برابر ہو گی،آپ مسجدالحرام میں پہنچیں گے مقام ابراہیم کے پاس آپ چاررکعت نماز پڑھیں گے اور حجر اسود کے ساتھ اپنی پشت لگائیں گے ان کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کریں گے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کریں گے ان پر صلوات پڑھیں گے ایسی گفتگو کریں گے کہ اس سے پہلے کسی نے اس قسم کی گفتگو نہ کی ہو گی۔

ظہور امام علیہ السلام کے بعد بیعت کا عمل

اس وقت سب سے پہلے جو آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے وہ جبرئیل علیہ السلام ومیکائیل علیہ السلام ہوں گے اور ان دونوں کے ساتھ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام بھی آئیں گے اور آپ ایک جدید کتاب دیں گے جو عربوں پر بارگراں ہو گی جن پر تازہ مہر لگی ہوگی اور کہا جائے گا کہ جو اس پر تحریر ہے اس پر عمل کریں آپ کی بیعت تین سو(اورتیرہ)کریں گے ان میں مکہ کے افراد بہت تھوڑے ہوں گے۔

اسکے بعد آپ مکہ سے خروج کریں گے اس طرح کہ آپ ایک حلقہ کی مانند ہوں گے۔

راوی: حلقہ سے کیا مرادہے؟

امام علیہ السلام: آپ کے ساتھ دس ہزار مرد ہوں گے جبرائیل علیہ السلام آپ کی دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام آپ کی بائیں جانب ہوں گے پھر ”رایت ‘ اپنے خاص پرچم کو لہرائیں گے۔

حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام: تیرہ شہر اور تیرہ گروہ قائم علیہ السلام سے جنگ کریں گے اور آپ علیہ السلام ان سے جنگ کریں گے۔(غیبت نعمانی ص ۰۶۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام ظہور کے بعد

۱ ۔ روایات میں جنگوں کے متعلق جو ذکر موجود ہے یہ ضروری نہیں کہ ان جنگوں کا آغاز حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے۔ خاص کر اس روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام مخالفین سے جنگ کاآغازکریں گے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ لوگ (امام کے مخالفین) امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کریں گے اس کے بعد امام مہدی علیہ السلام بھی ان سے جنگ کریں گے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔

۲ ۔ یہ بات درست ہے کہ آپ علیہ السلام عربوں پر سخت ہوں گے آپ کے اور ان کے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی، آپ علیہ السلاماللہ تعالیٰ کے پیغام کی خاطر جو بھی کارروائی کریں گے اس میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے عربوں پر یہ بات گراں گزرے گی کہ انہیں کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے گی آپ علیہ السلامحق کے نفاذ کے لئے تلوار کا استعمال بھی کریں گے اس قدر عربوں سے جنگ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کو بلند رکھنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہو جائے۔

۳ ۔ جو بات حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث میں ذکر ہوئی ہے اس وقت قریش کے فاجر و فاسق تمنا کریں گے کہ کاش! ان کے لئے کچھ دنیاوی مفادات کو بھی مدنظررکھاہوناتاکہ مال دنیا دے کروہ اپنی جان بخشی کرا لیتے لیکن ایسا نہیں ہوگا یا جو امام جواد علیہ السلام کی روایت میںہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضایت کے حصول تک آپ علیہ السلام جنگ کو جاری رکھیں گے اور اللہ کے دشمنوں کا قتل جاری رکھیں گے یہ بات اس پر دلیل ہے کہ آپ ایسے عربوں پر سخت ہوں گے جو تاجر مزاج ہوں گے مجرم ہوں گے، کافر ہوں گے ایسے افراد ہی تو اللہ کے دشمن ہیں انسانیت کے دشمن ہیں یہ قتل کئے جانے کے حقدار ہیں لیکن ایسے عرب حکمران اور ایسی عرب اقوام جو عدالت کے نفاذ کی انتظار میں ہیں، حق کی بالادستی ان کی آرزو ہے عدالت سے انہیں پیار ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور اسی آرزو پر زندہ ہیں تو ان کے لئے آپ علیہ السلام کا ظہورسوائے رحمت، شفقت، ہمدردی و پیار کے اور کچھ نہ ہوگا، امام علیہ السلام ان پر مہربان ہوں گے ان کے لئے رحیم ہوں گے ان پر شفیق ہوں گے۔

۴ ۔ یہ بات جو امیرالمومنین علیہ السلام کے بیان میں آئی ہے آپ علیہ السلامان سے ہاتھ اس وقت تک نہیں اٹھائیںگے جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو جائے تواس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران قتل کرنا، مارنا، جنگ کرنا ایسا عمل ہو گا جس پر خدا راضی ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے بندگان کے لئے کفر، گمراہی اور اتحاد کو نہیں چاہتا مگر یہ کہ لوگ خود ایسا اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں اور حق کے داعی کی بات کو قبول نہیں کرتے امام برحق کو نہیں مانتے عدالت نافذ کرنے والے کا انکار کرتے ہیں اور اس امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت کی مخالفت کرتے ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ نے اپنی زمین پر عدالت کے نفاذ کے لئے باقی رکھا ہوا ہے۔

میں اس جگہ یہ بات کہتا ہوں اس ساری گفتگو کا خلاصہ وہی بات ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے دعائے ندبہ میںہے جس میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے جہاد اور آپ کی دعوت کی کیفیت کو بیان کیا گیاہے۔

آپ نے اپنے دشمنوں کو ذلت و رسوائی اور سزا کے مزے چکھانے ہیں حق کے منکروں اور سرکشوں کا صفایا کرنا ہے آپ منکرین اور مغرور حکمرانوں کی بنیادوںکو اکھیڑ کر رکھ دیںگے اور ظالموں کی اصل اورنسل کا خاتمہ کردیںگے۔(مکیال المکارم ج ۲ ص ۰۹)

پس ان لوگوں کے خلاف امام علیہ السلام کی جنگ اس لئے ہو گی کہ وہ حق کے مخالف ہوں گے، عدالت نہیں چاہیںگے، انسانیت کے دشمن ہوںگے، دین نہیں چاہیں گے، آپ کا خروج ہی اسی لئے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے مخالفین ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے اور ظلم و جور کے اسباب ختم کر دیئے جائیں وہ اس لئے خروج کریں گے تاکہ عدالت کا نفاذ کریں، مظلوموں کو ان کا حق دلائیں ، امن قائم کریں۔

امن کے قیام کے لئے جوسات اسلوب بیان ہوئے ہیںان میں آخری اسلوب ہی صحیح ہے جس میں تینوں اسالیب اور طریقوں کو اکٹھاکر کے بیان کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چھٹی فصل میں ایک نئی بات ہم بیان کریں گے جو ان اسالیب سے کچھ مختلف ہو گی یا یوں جانیئے کہ ان اسالیب کوایک مناسب تبدیلی سے بیان کیا جائے گاجو بات طے ہے کہ عصرالظہور سائنسی ، تکنیکی وعملی ترقی کا دور ہو گایہ اس حالت سے مناسبت رکھتاہوگاعالمی سطح پر مختلف حکومتوں میں ان کی تبدیلی کے عشاق علماءسائنس دانوں، ادارہ جات، تنظیموںکاوجود اس عمل کو آسان کر دے گا اوربڑی تیزی سے عوام میں قبولیت آئے گی کہ وہ عدل و انصاف پر مبنی حکومت کو فوری قبول کرلیں گے ایسی حکومت جو علمی اور سائنسی بنیادوں پرقائم بھی ہو گی، ترقی پذیر ہو گی، امن کی ضامن ہو گی آئندہ صفحات میں اسے پڑھیے گا۔

حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبی سپورٹ ،حمایت

چوتھی فصل میں یہ بات گذر چکی ہے کہ جب ہم نے بتایا کہ امام علیہ السلام واقعیات اور اصل حقائق کے مطابق فیصلے دیں گے اور امام علیہ السلام کے درست اور صحیح فیصلے دینے کے متعلق روایات بیان ہوئیں، اس جگہ ہم اس بات کو کہنا چاہتے ہیں جو حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ روایت موجودہے کہ آپ پر فرشتے اتریں گے جو حضرت نوح علیہ السلام کے لئے کشتی میں موجود تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ جب انہیں آگ میں پھینکا گیا جو فرشتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے جب بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور چار ہزار فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مسومین(نشان لگے) پھر ایک ہزار فرشتے۔مردفین(آگے پیچھے آنے والے)پھر تین سو تیرہ فرشتے بدریوں کی تعداد کے برابر اور چار ہزار فرشتے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد میں ان کے مخالفین سے جنگ کے لئے اترے اور انہیں جنگ کی اجازت نہ ملی اور وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر پراب بھی موجود ہیں۔ گردآلود حالت میں مسلسل رو رہے ہیں اور قیامت تک ان کی یہ حالت رہے گی ان کا سردار فرشتہ ہے جسے منصور کہا جاتا ہے کوئی بھی زائر زیارت کے لئے نہیں آتا مگر یہ کہ فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں اس کو وداع کرنے پر اکتفاءنہیں کرتے بلکہ اسکے گھر تک اسے چھوڑنے جاتے ہیں اور پھر گھر میں بھی دس دن یا تین دن تک رہتے ہیں ان میں اگر کوئی مریض ہو جائے تو اسکی عیادت کرتے ہیں ان میں سے کوئی مر جائے تو اسکے جنازہ پر نماز پڑھتے ہیں اور اسکی موت کے بعد اس کےلئے استغفار کرتے ہیں اور یہ سب زمین پر موجود ہیں جو حضرت قائمعلیہ السلام کے خروج کا انتظار کررہے ہیں۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۸۲۳ باب ۷۲ ذیل ۸۴)

جب آپ ظہور فرمائیں گے تو یہ سب آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہمراہ موجودہوں گے ۔

حق کی تائید میں قرآنی آیات

”اے ایماندارو!اگر تم خدا(کے دین)کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا“۔(سورہ محمد آیت ۷ ۔پارہ ۶۲)

”اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو خدا(قرآن کے ذریعہ سے)مزید ہدایت کرتا ہے“(سورہ محمدآیت ۷۱ ۔ پارہ ۶۲)

”اے میری قوم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں(اپنے گناہوں سے)توبہ کرو تو وہ تم پر موسلا دھار مینہ آسمان سے برسائے گا(خشک سالی نہ ہوگی)اور تمہاری قوت میں اور قوت بڑھا دے گا اور مجرم بن کر اس سے منہ نہ موڑو“

(سورہ ہود آیت ۲۵ ، پارہ ۲۱)

”جن (مسلمانوں)سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت)ستائے گئے اس وجہ سے انہیں بھی (جہاد کی)اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقینا قادر(وتوانا)ہے۔ یہ وہ(مظلوم ہیں)جو(بیچارے)صرف اتنی بات کہنے پر کہ ہمارا پروردگارخدا ہے ناحق(ناحق)اپنے اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے دور دفع نہ کرتا رہتا تو گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوس کے عبادت خانے اور مسجدیں جن میں کثرت سے خدا کا نام لیا جاتا ہے کب کے کب ڈھا دیئے گئے ہوتے اورجوشخص خدا کی مدد کرے گا خدا بھی البتہ اس کی مدد ضرور کرے گا بے شک خدا ضرور زبردست غالب ہے“۔

(سورہ حج آیت ۹۳،۰۴ ،پارہ ۷۱)

”اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے(اور)تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا اور مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا“(سورہ نوح آیت ۰۱ تا ۲۱ ،پارہ ۹۲)

ان آیات میں غیبی امداد کا تذکرہ ہے غیبی حمایت ہے، آسمانی مخلوقات کا مدد کے لئے اترنا ہے غرض حکم الٰہی کو اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے بندگان کے لئے نافذ کرنے کی خاطر پوری کائنات انتظار میں ہے اور جوبھی مخلوقات اس کائنات میں موجودہیں وہ سب اس وقت کے منتظر ہیں جب ہر طرف خوشحالی ہو ، انصاف کاراج ہوگا، عدالت ہوگی، ظلم نہ ہوگا، جہالت کا خاتمہ ہوگا، امن ہوگا تو یہ ساری مخلوقات اپنے ولی صاحب الامرعلیہ السلام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کریں گی۔

دعوت دینے میں جدید علمی اور سائنسی اسلوب

علمی اعجاز

سابقہ اسالیب میں اعجازی اسلوب کا ذکر ہو چکا ہے تو ہماری مراد اعجاز سے غیرطبعی واقعات کا رونما ہونا تھا کائناتی تغیر و تبدل جیسے زمین کا دھنس جانا، آگ کا طوفان آنا، زلزلے ہونا یا فرشتوں کا اترنا‘ موسیٰ علیہ السلام کے عصا، سلیمان علیہ السلام کی خاتم اور اسی قسم کی اور چیزوں کاآپ کے پاس موجود ہونا۔

اس اسلوب کو امام علیہ السلام جہاں ضرورت سمجھیں گے استعمال میں لے آئیں گے۔

البتہ یہاں پر ایک اور اسلوب بھی ہے جسے امام علیہ السلام استعمال کریں گے جو بظاہر اعجاز ہی ہوگا لیکن درحقیقت اسلامی دعوت دینے کے طریقوں اورذرائع سے وہ بھی ایک ذریعہ ہوگا جو اس زمانہ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہوگا جس میں امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔

یہ اسلوب، ذریعہ یا اعجاز اور اس کی جہت علمی ہوگی، البتہ اس کا اثر کائناتی ہوگا، حکومتوں، لشکروں، دانشوروں اور ان کے عقول پر اس کا اثر پڑے گا۔

حکومت اور فوج پر اس طرح کہ آپ کے پاس جو طاقت ہو گی اور جس قدرت کے آپ اس عالم میں مالک ہوں گے وہ قوت ان سب پر اپنے اثرات چھوڑے گی اور وہ اس حالت سے مرعوب ہوں گے جس کی تفصیلی بحث ہم چھٹی فصل میں کریں گے۔

مفکرین، دانشوران اور ان کے عقول پر اثرانداز ہونے والی بات تواس سے مراد وہ علوم ہیںجن کا استخراج حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے اور وہ علمی اور سیاسی ہیں جن کو آپ پوری علمی دنیا کے لئے پیش کریں گے اور ان نظریات علمی پر دلائل قائم کریں گے اور یہ سب کچھ اس علم لدنی سے ہوگا جس کے آپ مالک ہوں گے اس بات کو بھی ہم چھٹی فصل میںبیان کریں گے