حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں0%

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 25930
ڈاؤنلوڈ: 4250

تبصرے:

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25930 / ڈاؤنلوڈ: 4250
سائز سائز سائز
حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

چھٹی فصل

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا علم اورآپ کا علمی غلبہ

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا علم

ہم نے اپنی کتاب آل محمد بین قوسی النزول والصعود“ میں ”باب علم“ میں اہل بیت علیہ السلام کے علوم کی ماہیت ان کے علوم کی وسعت اور ان کے منبع کے بارے تفصیل سے بیان کیا ہے اس جگہ پر ہم اس بحث سے مختصر ایک بیان نقل کرتے ہیں۔گفتگو ایک دفعہ امام کے علم بارے ہوئی ہے پھر اس علم کی وسعت اور اس کے دائرہ کار کے بارے ہوئی ہے پھر اس علم کے بیرونی اور خارجی اثرات کے متعلق بات ہوئی ہے اور یہ کہ ان کی تکوینی قدرت اور طاقت کتنی ہے یہاں سے ہم اس بحث تک پہنچتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کی قدرت اور طاقت کی بحث کی جاتی ہے اوریہ سب کچھ علم الٰہی کا نتیجہ ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت

البحار میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:علم ستائیس حروف ہے جو کچھ تمام مرسلین لے کر آئے وہ دو حرف برابر علم تھا تمام لوگوں نے آج تک جو کچھ علم سے حاصل کیا ہے وہ ان دو حرفوں والے علم سے لیا ہے جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو آپ علیہ السلام علم کے باقی پچیس حروف کو بھی نہان خانوں سے باہرنکالیں گے اور اس سارے علم کو لوگوں میں پھیلائیں گے اور ان پچیس حروف کے ساتھ پہلے والے دو حروف کا علم بھی ملادیں گے اس طرح پورے ستائیس حروف کا علم لوگوں میں عام ہو جائے گا(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۶۳۳ باب ۷۲ ج ۳۷)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”( عَالِمُ ال غَی بِ فَلَا یُظ هِرُ عَلیٰ غَی بِه اَحَدًا اِلَّا مَنِ ار تَضٰ مِن رَّسُو لٍ ) “اللہ ہی عالم غیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر اس کے لئے جسے اپنے نمائندوں سے پسند فرمالیتاہے“(سورہ الجن آیت ۶۲ ۔ ۷۲)

آئمہ اطہارعلیہ السلام سے علم غیب کی نفی پرحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا رد عمل

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے عمرو بن ھذاب کے لئے بیان کیا کہ جس وقت اس نے آئمہ اطہار علیہم السلام سے علم غیب کی نفی کی تو آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اس آیت سے استدلال فرمایا جو اوپر ذکر ہوئی ہے کہ رسول اللہ مرتضیٰ ہیں اور ہم اسی رسول کے وارثان ہیں جس رسول کو اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب پر مطلع کیا ہے پس ہم نے ماکان کو بھی جان لیا اور قیامت تک جو ہوگا”مایکون“اسے بھی جان لیا۔

(بحارالانوارج ۲۱ ص ۲۲ ج ۵۱ ص ۴۷)

حضرت ابوجعفر باقرعلیہ السلام نے فرمایا:”( الا من ارتضیٰ من رسول ) “ خداکی قسم!محمد ان سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے آپ اللہ کے مرتضیٰ نمائندے ہیں“۔(الارشاد الی ولایة الفقیہ ص ۷۵۶ ، الخرائج والجرائح ص ۶۰۳)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”( وَرَح مَتِی وَسِعَت کُلَّ شَیً ) ‘ اور میری رحمت ہرچیز کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے۔(سورة الاعراف آیہ ۶۵۱)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے اس کی تفسیر میں آپ نے بیان فرمایا: رحمت سے مراد، امام کا علم ہے، اس کا معنی ہے، اللہ کا علم وسیع ہے اور اس نے ہر شئی کو اپنے گھیرے اور دائرے میں لے رکھا ہے کہ اللہ کے علم سے ہی ہر شئی کا وجود ہے۔(نورالثقلین ج ۲ ص ۸۷ حدیث ۸۸۲ الکافی سے)

امام علیہ السلام سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہوتی(الخرائج والجرائح ص ۹۷۲)

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے:اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندہ (حجت) کو ہرچیز کی معرفت عطاءفرمائی ہے۔(اعلام الوریٰ ص ۷۵۳)

حضرت امام ابوالحسن علیہ السلام نے فرمایا: امام علیہ السلام کی زمین پر ایسی حیثیت ہے جو آسمان پر چاند کی حیثیت ہے اور وہ اپنی جگہ پر ساری اشیاءکے بارے مطلع و آگاہ ہوتا ہے۔(بصائرالدرجات ص ۱۴۴ ،حدیث ۸ باب ذکرعامودالنار)

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا:بتحقیق انہیں(آئمہ علیہ السلام کو)ہر اس بارے علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے ، تیار کیا ہے، بنایا ہے۔(بحارالانوار ج ۶۲ ص ۶۱۱ حدیث ۲۲)

حضرت امام ابوجعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث بیان کی جس میں آپ نے اس بات کا حوالہ دیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام وقت الوداع اپنی بیٹی فاطمہ علیہ السلامکوایک کتاب حوالے کی کہ اس کتاب کو آپ نے حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام کے حوالے کیا۔

راوی: میں نے عرض کیا کہ اس کتاب میں کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام پر رحمت فرمائے۔

امام علیہ السلام: اولاد آدم علیہ السلام کو دنیا کی خلقت کے دن سے لے کر اس کی فناءکے دن تک جس کی ضرورت ہے اس سب کا علم اس کتاب میں موجودتھا۔

(البحار ج ۶۲ ص ۴۵ حدیث ۹۰۱ باب جہات علومہم)

حضرت امام ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت ہے:خدا کی قسم! ہمیں اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیاہے۔

علم غیب کے بارے ایک شخص کا سوال اور امام علیہ السلام کا جواب

میں آپ پر قربان جاوں کیا آپ کے پاس علم غیب ہے؟

امام علیہ السلام: تم پر وائے ہو، بتحقیق بلاشک و شبہ میں یہ جانتا ہوں کہ مردوں کی صلبوں میں کیا ہے اور عورتوں کے ارحام میں کیاہے؟ تم سب پر پھٹکار ہو، اس بات کو سمجھو، اس کا ادراک کرو اپنے دل و دماغ کو کھولو، اپنے سینوں کو کشادہ کرو، تمہاری آنکھیں کھلی رہنی چاہیں اور تمہارے دلوں کو بیدار ہونا چاہیئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے نمائندے ہیں اور اس بات کوبرداشت نہیں کر سکتا مگر ہر مومن کا سینہ کہ اس میں ایسی طاقت موجود ہے جوتھامہ پہاڑ سے بھی زیادہ طاقتور ہے مگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہے اللہ کی قسم! اگر میں چاہوں تو تھامہ پہاڑ پر موجود ہر کنکری کے بارے تمہیں آگاہ کردوں اوراس کی کیفیت سے آگاہ کردوں۔

(بحارالانوار ج ۲۶ ص ۸۲ حدیث ۸۲ ۔ باب جہات علومہم ، مناقب آل ابی طالب ج ۳ ص ۴۷۳)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے مفضل! ہمارا جو عالم ہوتا ہے وہ ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے پروں کی حرکات و سکنات اور ان کے پروں کی کیفیت کو بھی جانتا ہے اور جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے عرش عظمت پر موجود ہونے کا انکار کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیاءکے لئے اس نے جہالت کا عنوان لگا دیاہے۔(مشارق الانوار الیقین ص ۵۳۱)

علم غیب بارےحضرت ابوجعفر صادق علیہ السلام سے سوال

بتحقیق آپ علیہ السلام کے بارے آپ کے شیعوں کاخیال یہ ہے کہ آپ دجلہ میں جو پانی ہے اس کے وزن، پیمائش اور مقدار سے آگاہ ہیں(اس وقت آپ اور وہ سوال کرنے والا دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے)

حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام:کیا اللہ عزوجل کی قدرت میں یہ موجود ہے کہ وہ اس کا علم اپنی مخلوق سے مچھر کو بھی دے دے؟

ہمراہی:۔ جی ہاں!

حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام: میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق مچھر سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ کرامت اورشان رکھتا ہوں(میری حیثیت ایک مچھر سے کہیں زیادہ ہے جس کا تم تصور ہی نہیں کرسکتے)امام علیہ السلام نے یہ فرمایا اورپھر وہاں سے چل دیئے۔

(اثبات الوصیة ص ۱۹۱ ، ۲۹۱)

علم غیب بارےحضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے خطاب میں فرماتے ہیں

امام سچائی اور عدالت کا عنوان ہے،وہ غیب پر مطلع ہوتا ہے اور علی الاطلاق(ہرحوالے سے اور ہر جہت سے) وہ کائناتی تصرف کا مالک ہوتاہے۔(مشارق الارض ص ۵۱۱)

حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا:اے مفضل ! آل محمد علیہم السلام سے جو امام ہوتا ہے اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس کے پاس کسی بھی شی کا علم موجود نہیں یا اس سے کچھ چوک ہو جاتی ہے اوروہ حتمی بات سے آگاہ نہیں توایساشخص اس کاکافر ہوا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتارا ہے بلاشک وتردید(راوی سے مخاطب ہوئے) ہم آپ لوگوںکے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ہم پر تمہارے امور سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہتا اور یہ کہ تمہارے اعمال کو ہمارے اوپر پیش کیا جاتا ہے، ہمارے پاس تمہارے اعمال کو معائنہ کے لئے لایا جاتا ہے اور جب روح بچ جائے اور جان سکڑ جائے گا یعنی بدن سے روح پرواز کرجائے گی اوربدن کی قید سے روح آزاد ہوجائے گی اورروح کے انوار چمکیں گے، اس کے اسرار ظاہر ہوں گے اور وہ عالم غیب کا ادراک کرے گا۔(مشارق انوار الیقین ص ۸۳۱)

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے جو ابن ھذاب سے گفتگو فرمائی ہے اس کے مطالعہ سے اس بابت سارا شک دور ہو جاتا ہے ۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام ابن ھذاب سے: اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ان ایام میں اپنے قریبی عزیز کے حوالے سے کچھ مشکل میں مبتلاءہو تو تم میری تصدیق کرو گے؟

ابن ھذاب : نہیں! کیونکہ غیب سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی نہیں جانتا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام: کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا ”وہ عالم الغیب ہے کسی ایک کو اپنے غیب کو ظاہر نہیں فرماتا مگر اپنے نمائندہ(رسول) میں جو اللہ کا مرتضیٰ (چناہوا) ہو، اس پر اپنے غیب کو ظاہر فرما دیتا ہے۔(القرآن)

پس رسول اللہ !اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتضیٰ ہیں اور ہم اسی رسول کے وارث ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب سے جتنا چاہا ہے مطلع فرما دیا ہے پس قیامت تک جو ”ماکان“ ہے اور ”مایکون“ ہے اس کا علم ہم نے حاصل کیا ہے اور اے ابن ھذاب! جو میں نے تمہیں بیان کیا ہے یہ پانچ دن میں ہوگا جو میں نے کہا ہے اگر ان ایام میں ایسا نہ ہوا تو میں جھوٹا افتراءپرداز ہوں گا اور اگر صحیح ہوا تو پھر تو ایسا ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی بات کو رد کرنے والاہے۔

تیرے لئے اس بابت ایک اور ثبوت بھی میرے دعویٰ کا موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ تم نابینا ہو جاو گے اور تم نہ میدان دیکھ سکو گے نہ پہاڑ اور یہ چند دنوں بعد ہونے والا ہے۔

میرے پاس ایک اور ثبوت بھی موجود ہے کہ تم ایک جھوٹی قسم اٹھاو گے جس کے نتیجہ میں تمہیں برص کی بیماری لگ جائے گی۔(عیون اخبارالرضا)

حضرت ابوجعفر امام جواد علیہ السلام نے جب ام الفضل بنت مامون کو اس بارے خبر دی جو کچھ ایام عادت میں عورتوں کو لاحق ہوتا ہے۔

ام الفضل: غیب کی خبر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔

امام علیہ السلام: میں اللہ تعالیٰ کے علم سے اس بات کو جانتاہوں(الارشاد الی ولایة الفقیہ ص ۴۵۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا تعارف بزبان امیرالمومنین علیہ السلام

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف منسوب کلام میں ہے جس میں آپ نے امام مہدی علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:”امام مہدی علیہ السلام فضاءپر سوار ہوں گے یہ سفر نہ جادو سے ہوگا اور نہ ہی آنکھ کا دھوکا ہوگا بلکہ اس علم کے وسیلہ سے ہوگا کہ جس علم کو ان سے جو سابقین تھے وہ بھی آگاہ تھے پس آپ علیہ السلام اس علم کو استعمال میں لائیں گے اور پہاڑوں جیسے بیڑے بنائیں گے جو آسمان کے سمندر میں تیریں گے آسمانوں اور زمین کے تمام راستوں پر پہنچ جائیں گے۔

وہ اپنے ایام میں اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ معرفت لے لیں گے کہ سارے اہل زمین سے کسی ایک کو بھی اس کا علم نہ ہوگا ایام اللہ ”زمانہ کے دن“نہیں گذریں گے مگر یہ کہ پوری زمین کو اوپر نیچے سے ہر ہر بالشت تک اور ہر ہر حصہ کو، اس کے ہرہر ٹکڑا تک کو طے کریں گے(المفاجاة لمحمدعیسی بن ص ۱۷۴)

حضرت امام علی علیہ السلام کی طرف یہ بیان بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام بارے منسوب ہے۔اللہ تعالیٰ اہل اسلام کے دلوں کو شفاءبخش دے گا(ان کی ساری کمزوریاں دور ہو جائیں گی)وہ قرآنی اسرار کو سیکھ لیں گے اور حروف کے انوار کی تعلیم لے لیں گے، تمام حروف کا علم ان کے پاس آجائے گا۔

جس کے ذریعہ علوم کے ایسے شہر بنائے جائیں گے کہ تم نے ان میں سے کسی شہر کو اس سے پہلے اس حالت میںنہ دیکھا ہوگا ”اورب“(اس لفظ سے مراد یورپ ہے)والے یہ سب کچھ دیکھ کر پشیمان ہوں گے کہ ان سے یہ سب کچھ چُوک گیا پس وہ توبہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ ریز ہو جائیں گے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کر رہے ہوں گے اور اپنی اولاد کو انہوں نے جو اس فیض سے محروم رکھا اس سب پر وہ شرمندہ ہوں گے اور اپنی اولاد کو ایک عرصہ تک نور حق کی معرفت سے محروم رکھا، حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے نمائندوں(امیروں، گورنروں)کو سارے شہروں میں قرآن اور اولاد آدم علیہ السلام کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق اور عدالت کا نظام دیکھ کر بھیجیں گے جو شخص ان پرایمان لاچکا ہوگا تو وہ بھی بہرہ ور ہوگا اور جو کفر کرے گا تو وہ بھی اس کو جان لے گا کہ سب پرعدالت نافذ ہوگی۔ بھیڑیا اور بکری ایک گھاٹ پر چریں گے۔

سانپ اور بچھو

رب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم! اس زمانہ میں چھوٹا بچہ سانپ اور بچھو سے کھیلے گا لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے ، شَر ختم ہو جائے گا اور خیر باقی رہ جائے گی، انسان ایک مدگندم بوئے گا اور سات گنا اٹھائے گا سات سودانے اگیں گے ”اللہ اکبر“ خیر بہت زیادہ ہو گی اگر تم چاہو تو پھر اس آیت کو پڑھ لو ایک دانہ کی مثال ہے کہ اس سے سات خوشے نکلے ہیں اور ہر خوشہ میں ایک سودانہ ہے اور اللہ تواس سے چندبرابر کر دیتا ہے جس کے لئے وہ چاہتا ہے ۔(المفاجاة لمحمد عیسی بن داود ص ۹۲۶،۰۳۶)

میں اس جگہ یہ بتاتا چلوں کہ اس مقام پر ابن عربی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم غیب جاننے کے متعلق بہت ہی لطیف اور عمدہ کلام تحریر کی ہے جو تفصیل معلوم کرنا چاہے تووہ کتاب میں دیکھ لے۔(الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۰۸ باب ۶۶۳)

علم کا نتیجہ قدرت و طاقت کی صورت میں

یہ بات معلوم رہے کہ ان حضرات علیہم السلام کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے پس ان کا علم درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا علم ہے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی مشیت اور ارادہ سے عبارت ہے، پس جس ہستی کے پاس اللہ کا علم ہے تو اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ بھی ہے یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن کا ارادہ نہیں ہوتا مگر وہ جو اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے ۔

الحکیم سبزواری نے بیان کیا ہے: اور ارادہ اس کے نافذ اور راسخ ہونے والے ارادہ میں اور اپنی قوت اور قدرت میںٰ یہ ہے کہ روح قدسی اس طرح سے ہو کہ جس کا تصور اس کا متعلق ہو تو اس کے تصور ہی سے اس کا وجود ہے کائنات کا میٹر(مادہ)اس کی اطاعت و پیروی میں رہتا ہے تو وہ اس میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح وہ اس کے بدن میں تصرف کرتاہے۔(شرح دعاءالصباح ص ۷۹،۸۹ ، کماقال السبزواری)

علم کا نتیجہ قدرت ہے

...ہماری دلیل ان آیات سے ثابت ہے کہ قدرت علم کا نتیجہ ہے۔

۱ ۔ سورہ رعد آیت ۱۳: اور اگر اس قرآن کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جائے یا زمین کے راستوں کو طے کیا جائے یا اس کے وسیلہ سے مردوں سے گفتگو کی جائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔

۲ ۔ سورہ الحشر آیت ۱۲ ۔ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر اتار دیتے تو آپ اس پہاڑ کو اللہ کے خوف سے پھٹتا ہوا ، چھینکتا ہوا دیکھتے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:ہم قرآن کے وارث ہیں کہ جس قرآن میں ایسی چیز موجود ہے جس کے وسیلہ سے پہاڑوں کو چلایا جا سکتا ہے اور شہروں کے فاصلے طے کیے جائیں اور مردوں کو زندہ کیا جا سکتاہے۔

(الزام الناصب ج ۲ ص ۱۳۳ ، الکافی سے نقل کیاہے)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان کیا کہ ان کا علم قرآن سے ہے ہمارے پاس وہ چیزیں موجود ہیں جن کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جاسکتا ہے زمین کے راستوں کو طے کیا جاتا ہے اور مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن اور ارادہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔(بصائر الدرجات ج ۵۱ حدیث ۳ باب العلم ورثواعلم آدم)

تخت بلقیس کا واقعہ

۳ ۔ سورہ النمل آیت ۸۳،۱۴ میں اللہ عزوجل نے فرمایا:سلمان نے اپنے اجتماع سے یہ بات کہی (جو خواص سے تھے)کہ تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے تخت کو ان کے تسلیم ہونے سے پہلے میرے پاس لے آئے تو جنات میں سے عفریت نے یہ کہا کہ میں اسے لے آتا ہوں آپ کے یہاں سے اٹھنے سے پہلے اور میں اس پر قدرت رکھتا ہوں اور صحیح و سالم لاوں گا اور وہاں پر وہ شخص جس کے پاس کتاب کا تھوڑاسا علم تھا تو اس نے کہا کہ میں تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے اس کے تخت کو تیرے پاس لے آتا ہوں (پس عالم کتاب کو کہا گیا کہ وہ لے آئے)پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو وہ تخت اس کے سامنے موجود تھا پھر سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ میرے رب کا انعام ہے تاکہ وہ میری آزمائش کرے کہ میں شکر بجا لاتا ہوں، یاکفران کرتا ہوں کیونکہ شکر بجا لایا جانا تو یہ عمل اپنی ذات کے لئے ہی تو ہے اور جو کفران کرتا ہے تو میرا رب غنی ہے ، کریم ہے، سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ ذرا اس کے تخت کو الٹاو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (بلقیس)ہدایت پر آجاتی ہے یا ان میں سے ہے جو ہدایت نہیں لیتے۔ الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کی سدیرکے ساتھ علم غیب بارے گفتگو ہے جس میں آپ نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟

سدیر: کیوں نہیں!ہم قرآن پڑھتے ہیں۔

امام علیہ السلام :کیا تم نے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ بیان پڑھا ہے کہ جس کے پاس کتاب سے تھوڑاسا علم تھا اس نے کہا کہ آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے میں اس کے(بلقیس کے) تخت کوتیرے پاس لاکھڑا کروں گا۔(سورہ النمل آیت ۰۴)

سدیر: میں آپ پر قربان ! میں نے یہ پڑھا ہے۔

امام علیہ السلام: تو آپ اس آدمی سے آگاہ ہیں جس نے یہ عویٰ کیا تھا اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ اس کے پاس علم کتاب سے کیا موجود تھا؟

سدیر: آپ اس بارے مجھے بتائیں۔

امام علیہ السلام: سبز سمندر میںجو پانی موجود ہے اس میں سے ایک قطرہ برابر تو آپ خود سوچیں کہ علم کتاب میں اس علم کی کیا حیثیت ہے؟!

سدیر:کس قدر کم مقدار ہے اس علم کی۔

امام علیہ السلام: اے سدیر! کیا تم نے قرآن سے جو پڑھا ہے اس میں یہ بھی پڑھا ہے:اے رسول! ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہ جس کے پاس علم کتاب ہے وہ بطور گواہ کافی ہے۔(سورہ رعدآیت ۳۴)

سدیر: میں نے اس آیت کو پڑھاہے۔

امام علیہ السلام: تو کیا جس کے پاس علم کتاب ہے تو ساری کتاب کا علم اس سے سمجھا جاتا ہے یا کتاب کے کچھ حصہ کا علم اس سے سمجھا جاتا ہے۔

سدیر: نہیں! اس سے تو پوری کتاب کا علم سمجھا جاتاہے۔

سدیر: امام علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : خدا کی قسم!علم الکتاب سارا ہمارے پاس ہے ۔ خدا کی قسم!سارے کا سارا علم کتاب ہمارے پاس ہے۔(اصول الکافی ج ۱ ص ۷۵۲ باب نادر ذکر الغیب حدیث ۳ ، بصائرالدرجات ص ۳۱۲ ۔ باب ان عندھم علم الکتاب حدیث ۳)

میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس باب میں روایات بہت زیادہ ہیں اور ان روایات کی اکثریت صحیح السند ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم کتاب اہل البیت علیہ السلام آئمہ اطہار علیہ السلام کے پاس ہے ان میں سے چند روایات پر ہم نے اکتفاءکیا ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھیں اصول الکافی ج ۱ ص ۹۲۲ ، بصائرالدرجات ۳۲ تا ۶۳۳ حدیث ۲۱ تا ۵۱ ص ۲۱۲ تاص ۶۱۲ حدیث ۱ تا ۱۲ باب ماعندھم من الاسم الاعظم وعلم الکتاب الوسائل ج ۸۱ ص ۴۳۱ حدیث ۳۲۵۳۳ مابعدہ)

یہ بات معلوم ہے کہ کتاب سے جو تھوڑی مقدار میں اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو علم دیا تھا وہ آصف بن برخیعلیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی تھے جو بلقیس کے تخت کو (جو ایک بہت بڑا پلیٹ فارم تھا جس پر اس کا دربار لگتا تھا)ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں یمن سے بیت المقدس صحیح و سالم، اصلی حالت میں اپنی تمام خصوصیات سمیت لے آئے۔

بڑی طاقت، قدرت اور غیر معمولی اقدامات اور طبیعی قوانین کا توڑ سب علم کا نتیجہ ہے

حضرت ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: امیرالمومنین علیہ السلام یہ بات بہت زیادہ کرتے تھے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جہنم اور جنت کو تقسیم کرنے والا ہوں، میں فاروق اکبر ہوں، میں صاحب عصا ہوں، میں نشان لگانے والاہوں، میرا اقرار سب فرشتوں نے، سب رسولوں نے، روح نے کیا جس طرح انہوں نے یہ اقرار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیاتھا۔

مجھے ایسی صفات اور خصلتیں دی گئی ہیں کہ جن تک مجھ سے پہلے کوئی ایک بھی نہ پہنچ سکا میرے پاس علم منایا، علم بلایا، علم انساب اور علم فصل الخطاب ہے جو مجھ سے پہلے ہو چکا وہ مجھ سے چُوکا نہیں اور جو ابھی پیش آنا وہ مجھ سے غائب نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے میں نشر کروں گا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے میں سب کچھ انجام دوں گا یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس کا فضل اور کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ مجھے اپنے علم کے وسیلہ سے قدرت دی ہے۔(بصائرالدرجات ص ۱۰۲ ۔ باب انھم جہری لھم ماجری للرسول حدیث ۳،۴)

یمن کا علم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

ابان: میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس موجود تھا ان کے پاس یمن کا رہنے والا ایک شخص موجودتھا۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: اے یمانی کیا تمہارے درمیان علماءموجود ہیں

یمانی: جی ہاں!

امام علیہ السلام:تمہارے عالم کا علم کس حدتک پہنچاہواہے۔

یمانی: وہ ایک رات میں دو مہینوں کا سفر طے کر لیتاہے۔

امام علیہ السلام: مدینہ منورہ کا عالم تمہارے عالم سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔

یمانی: مدینہ میں رہنے والے عالم کا علم کس حد تک پہنچا ہوا ہے۔

امام علیہ السلام: وہ تو ایک صبح میں اتنا فاصلہ طے کر لیتا ہے جتنا فاصلہ سورج ایک سال میں طے کرتا ہے بہرحال ایک دن کی جو بات ہے تو جوتوں پسند کرے اور جیسا توں کہے تو مدینہ کا عالم ایک دن میں بارہ مغرب اور بارہ مشرق طے کر ڈالے گا۔

(بصائرالدرجات ص ۱۰۲ ، باب انھم جری لھم ماجری للرسول حدیث ۳،۴)

آئمہ علیہم السلام کا علم اور آپ کے اختیارات

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایک طولانی حدیث میں یہ بیان آیا ہے میں اپنے رب کے اذن سے زندہ کرتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں....اور میری اولاد سے جو آئمہ ہیں وہ بھی اسی طرح کرتے ہیں....اور ہمارے رب اللہ نے جو کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے وہ اس سے اجل و اعظم، اعلی و اکبر ہے....ہمارے رب عزوجل نے ہم کواسم اعظم کا علم عطاءفرمایا ہے کہ اگر چاہیں تو اس کے ذریعہ آسمانوں ، زمین، جنت اور جہنم کو عبور کر جائیں اس کے ذریعہ بلندیوں پر پہنچ جائیں اور اس کے ذریعہ زمین پر اتریں، اس کے مشرق و مغرب کو عبور کر جائیں اور ہم اس کے ذریعہ عرش تک جاپہنچیں اور عرش پر اللہ عزوجل کے سامنے جابیٹھیں اور ہر چیز ہماری اطاعت کرے تمام آسمان، زمین، سورج، چاند،ستارے،سیارے، پہاڑ،درخت، حیوانات، پرند، چرند، درندے، سمندر، جنت،جہنم سب ہماری اطاعت کرتے ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ کے بندگان ہیں

ہم کو اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اسم اعظم کے ذریعہ عطا فرمادیا ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کا علم دیا اور اسے ہمارے لئے مخصوص کر دیاہے اس سب کے ہوتے ہوئے ہم غذا کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، گلی کوچوں میں، راہ چلتے ہیں یہ سب کچھ ہم کرتے ہیں اپنے رب کے امر سے، ہم اللہ تعالیٰ کے مکرم و محترم بندگان ہیں ایسے بندگان جو گفتگو کرنے میں اس پر سبقت نہیں لیتے اور وہ سب اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں معصوم بنایا ہے پاک اور طاہر قرار دیا ہے اور اپنے بہت سارے مومنین، بندگان پر ہمیں فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے۔

(بحارالانوار ج ۶۲ ص ۶،۷ ۔ باب نادر فی معرفتھم بالنورانیہ حدیث ۱)

ابن عباس: امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: بتحقیق قاف کے پیچھے ایک عالم (دنیا) ہے میرے سوا اس جگہ کوئی ایک بھی نہیں پہنچے گا اس کے پیچھے والے عالم پر میرا احاطہ ہے اس کے بارے میرا علم اسی طرح ہے جس طرح تمہاری اس دنیا بارے میرا علم ہے میں اس کا محافظ ہوں میں اس پر گواہ ہوں اور اگر میں چاہوں تو ساری دنیا پر گھوم جاوں، ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں سے گذر جاوں اور یہ سب کچھ پلک جھپکنے سے کمتر وقت میں کیونکہ میرے پاس اسم اعظم ہے۔

(مشارق الانوار الیقین ص ۳۴ ، بحارالانوار ج ۷۵ ص ۶۳۳ حدیث ۰۲)

حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے بتحقیق اللہ کا اسم اعظم ۳۷ حروف پر مشتمل ہے آصف بن برخیا کے پاس ان میں سے ایک حرف تھا اس نے اس حرف کو بولااورزمین سکڑ گئی اور اس نے بلقیس کے تخت کو اٹھا لیا پھر زمین اپنی پہلی حالت میں واپس ہو گئی پلک جھپکنے سے کمتر وقت میں اور ہمارے پاس اسم اعظم کے ۲۷ حروف ہیں ایک حرف اللہ کے پاس ہے اللہ تعالیٰ علم الغیب میں اسی اسم کو اپنے پاس رکھتاہے(اور وہ ہی اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ”مستاثر“ ہے)”لاحول ولاقوة الا بالله العلی العظیم

(اصول الکافی ج ۱ ص ۰۳۲ ، باب مااعطوا من الاسم العظم حدیث ۱ ، دلائل الامامة ص ۹۱۲ ، معاجزالہادی)

علم کا نتیجہ احاطہ اور مشاہدہ کی وسعت ہے

روح القدس سے متعلق روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: روح القدس کے وسیلہ سے انہوں نے عرش کے نیچے سے لے کر تحت ثریٰ تک کا علم حاصل کر لیا روح القدس ثابت اور موجود ہے وہ دیکھتا ہے جو کچھ مشرق اور مغرب، خشکی اور تری میں موجود ہے۔

راوی: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں!امام علیہ السلام اپنے ہاتھ سے اس چیز کو اٹھا سکتا ہے جو بغداد میں ہے۔

امام علیہ السلام: جی ہاں! جو کچھ عرش کے نیچے ہے اور جو کچھ بھی اس کائنات میںہے سب کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔(بصائرالدرجات ص ۴۵۴ حدیث ۳۱ ، ان روح القدس یتلفاھم)

روح القدس سے مراد

روح القدس ایسا موجود ہے جو انہیں (آئمہ اطہار علیہم السلام) علم دیتا ہے یا ایسا موجود ہے جس کے وسیلہ سے وہ علم وصول کرتے ہیں اور اسی سے انہیںمشرق و مغرب سے عرش تک ہر چیز پر قدرت حاصل ہے(اور وہ ہر قسمی تصرت کر سکتے ہیں)

ذوالقرنین کے متعلق حضرت امام حسن علیہ السلام سے سوال کیا گیا اللہ تعالیٰ کے اس قول بارے کہ ”اور ہم نے اسے ہر چیز کا سبب عطا کر دیا، انہیں علم دیا کہ وہ منزلوں کے اسباب کو حاصل کرلیں“۔(تاریخ دمشق ج ۷۱ ص ۹۳۳ ، ترجمہ ذی القرنین قم ۶۰۱۲)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حق میں فرمایا:ان کے پاس وہ کچھ ہے جو ذو القرنین کے پاس تھا اور ان سے چندبرابر آگے بڑھ گئے ہیں جس سے انہوں نے ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کا مشاہدہ کیا ہے یعنی جو علم ان کے پاس ہے اس کے وسیلہ سے انہوں نے پوری بشریت اور انسانیت کا مشاہدہ کیاہے۔(الہدایة الکبریٰ ص ۰۷۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت اور طاقت

حذیفہ اور کعب الاحبار دونوں سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے یہ روایت موجود ہے ”پس مہدی علیہ السلام سات تکبیریں بلند کریں گے پس آپ علیہ السلام کے واسطے ہر رکاوٹ اور دھار ٹوٹ جائے گا اور ان میں قسطنطنیہ کا سقوط بھی شامل ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے ارشاد فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لکڑی کو زمین میں گاڑ دیں گے تو وہ فوراًسرسبز ہو جائے گی اورپتے نکالے گی(عقدالدرر ص ۰۸۱،۱۸۱)

امیرالمومنین علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے فرماتے ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام پرندے کو اشارہ کریں گے اور وہ آپ علیہ السلام کے ہاتھوں پر آ گرے گا۔

(عقدالدرر فی اخبار المنتظر ص ۸۳۱ باب ۶ ۔ الہدایة الکبریٰ ص ۴۰۴ ۔الانوار النعمانیہ ج ۲ ص ۸۸)

حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائمعلیہ السلام قیام فرمائیں گے تو آپ علیہ السلام سارے بندگان کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے ان کی عقلیں اور فکریں کامل ہو جائیں گی(عقدالدرر فی اخبار المنتظر ص ۸۳۱ ۔باب السادس ، الانسان الکامل ص ۵۲۱ ،باب ۴)

امیرالمومنین علیہ السلام کے الفاظ میں امام مہدی علیہ السلام کا علم اور قدرت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا خطاب ہے جس میں آپ امام مہدی علیہ السلام کے اوصاف کو بیان فرماتے ہیں اس میں ہے آپ ہیبت رعب و دبدبہ کا لباس پہنے ہوں گے علم الضمیر(اندر کا علم)آپ کے پاس ہوگا غیب کی آپ کو اطلاع ہو گی علی الاطلاق(ہرحوالے سے)آپ کوحق تصرف حاصل ہوگا۔(مشارق انوار الیقین ص ۵۱۱)

قائم منتظر کے لئے ہوا مسخر ہوگی۔ (الانوار النعمانیہ ج ۲ ص ۳۹)

آپ کے پاس پانی زمین سے نکالنے کی طاقت ہوگی۔(مجموعة ورام ص ۳۲۶)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی طاقت اور آپ علیہ السلام کا اسلحہ

حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: یا رب میرے اوصیاءعلیہ السلام کون ہیں؟تو آواز آئی کہ تیرے اوصیاءعلیہ السلام کے نام عرش کے پائے پر درج ہیں تو میں نے ان اسماءپر نگاہ ڈالی جب کہ میں اپنے رب کے سامنے موجود تھا عرش کے ستون تک میری رسائی تھی تو میں نے ۲۱ ، انوار کامشاہدہ کیا ہر نور میں ایک سبز سطر تھی جس پر میرے اوصیاءعلیہ السلام سے ہر وصی کا نام درج تھا ان کا پہلا علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے آخری میری امت کے مہدی علیہ السلام ہیں۔

رسول اللہ: میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی ،کیا یہی میرے اوصیاءعلیہ السلام ہیں جومیرے بعد ہوں گے؟

نداءالٰہی: اے محمد! یہی میرے اولیاءعلیہ السلام ہیں ،میرے احباءہیں، میرے اصفیاءہیں، میرے دلائل اور حجج ہیں، تیرے بعد میری مخلوق پرحاکم ہیں اور وہ سب تیرے اوصیاءاور تیرے خلفاءہیں اور تیرے بعد میری مخلوق سے بہترین ہیں، مجھے میری عزت اور جلالت کی قسم ہے میں ان کے وسیلہ سے اپنے دین(نظام)کوضرورغلبہ دوںگا اوران کے ذریعہ میں اپنے کلمہ اور اپنی بات کو ضرور بالضرور سب پر حاوی کروں گا اور ان اوصیاءسے جو آخری ہو گا اس کے ذریعے میں زمین کو اپنے دشمنوں کے وجود سے ضروربالضرور پاک کردوں گا اور میں اسے زمین کے مشارق و مغارب کا مالک بنا دوںگااورمیں اس کے لئے ہواوں کو مسخر کر دوںگااورسخت وسرکش گردنوںکوان کے لئے جھکادوںگااورمیں اسے سارے اسباب اوروسائل پر ترقی دوں گا اور میں اس کی اپنے فرشتوںکے توسط سے ضروربالضرور مدد کروں گا تاکہ وہ میری دعوت کا اعلان کرے گا اور پوری مخلوق کو میری توحید پراکٹھا کر دے گاپھر میں اس کی سلطنت اور ملک کو دوام دوں گا اور پھر قیامت کے دن تک ان ایام کو اپنے اولیاءکے درمیان بھیجتا رہوں گا۔(کمال الدین ص ۵۵۲ یا ۳۲ حدیث ۴)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ فرمان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے کہ میں زمین کے مشارق و مغارب کا ضروربالضرور مالک بناوں گا، کیونکہ اللہ عزوجل حضرت ولی عصرعلیہ السلام کو جب مشرق اور مغرب کا مالک بنا دے گا بادلوں کو ان کے اختیار میں دے دے گا، ہواوں کا کنٹرول ان کے پاس ہوگا۔

تویہ سب بیانات امام مہدی علیہ السلام کی قدرت کو واضح کر رہے ہیں اور یہ کہ امام علیہ السلام کے اختیارمیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا انہیں مالک بنایا ہے اور جو علم انہیں عطاءکر دیا ہے وہ اس کے تصرف اور استعمال میں بااختیارہوںگے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:میری اولادسے چوتھے کنیزوں کی سردار کے بیٹے ہر جَور سے زمین کو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے پاک کر دے گا اور ہر ظلم سے زمین کوخالی کر دے گا ظلم کا نام و نشان نہ رہے گا اور وہ ایسا شخص ہے کہ جن کی ولادت پر سارے لوگ شک کریں گے ان کے لئے ایک غیبت ہے اور یہ غیبت ان کے خروج سے پہلے ہو گی جب وہ خروج کرےں گے تو ان کے نور کے وسیلہ سے زمین چمک اٹھے گی وہ لوگوں میں عدالت کا ترازو لگا دیں گے کوئی ایک بھی کسی پر ظلم نہ کرے گا وہ ایسے ہیں کہ جن کے لئے زمین لپیٹی جائے گی ان کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا ان کے لئے منادی آسمان سے نداءدے گا جس کو ساری زمین والے سنیں گے اس نداءمیں ان کی طرف دعوت دیں گے آواز دینے والے اس طرح پکارے گا ”الاحجة اللہ قدظہرعندبیت اللہ فاتبعوہ فان الحق فیہ ومعہ“ آگاہ ہو جاو اللہ کی حجت کا ظہور بیت اللہ کے پاس ہو چکا ہے بس تم سب اس کی پیروی کرو کیونکہ حق ان میں ہے اور حق ان کے ساتھ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا سورہ الشعراءآیت ۴ میں فرمان اسی بات کی طرف اشارہ ہے ”اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان کے لئے نشانی کو اتاردیں تو ان کی گردنیں اس نشانی کے سامنے جھک جائیں گی۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مہدی علیہ السلام میری اولاد سے ہے ان کا نام میرے والا نام ہے، ان کی کنیت میرے والی کنیت ہے وہ خلقت میں اور اخلاق میں عام لوگوں سے زیادہ میرے مشابہ ہوگا ان کے لئے ایک غیبت ہو گی اور اس میں حیرت ہو گی سرگردانی ہوگی بہت ساری اقوام اس دوران گمراہ ہو جائیں گی بھٹک جائیں گی پھر وہ شہاب ثاقب کی مانند آگے بڑھیں گے اورتیزی سے نمودار ہوں گے زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین جور اور ظلم سے بھرچکی ہو گی۔(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۵۳۳ حدیث ۶۸۵)

البحار میں بصائر اور الاختصاص سے عبدالرحیم کے واسطہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت ابوجعفر علیہ السلام نے فرمایا: بہرحال ذوالقرنین جو ہے تو ان کے لئے دو بادلوں میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے ذلول(نرم) بادل کا انتخاب کیا اور تمہارے صاحب الامر امام کے لئے صعب(سخت) بادل کو ذخیرہ کر کے رکھ دیا گیا۔

سوال:صعب بادل سے کیامراد ہے؟

امام علیہ السلام: یہ ایک ایسا بادل ہے جس میں گرج، کڑک، چمک ہے، بجلی کی مانند تیز روشنی ہے، پس تمہارے صاحب (امام)اس پر سوار ہوں گے بہرحال وہ سحاب پر سوار ہوں گے اور اسباب پر اٹھ جائیں گے سات آسمانوں اور سات زمینوں کے تمام جگہوں پر جائیں گے پانچ ان میں آباد ہیں اور دو ان میں ویران ہیں۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لئے دو بادلوں کا اختیار دیا انہوں نے ذلول بادل کا چن لیا جس میں بجلی کڑک، چمک دمک اور گرج نہ تھی اور اگر وہ صعب بادل کا انتخاب کرتے تو وہ انہیں عطا نہ ہوتا کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حضرت قائم علیہ السلام کے لئے انتخاب کر چھوڑا ہے وہ ان کے لئے مخصوص ہے۔(بصائرالدرجات ج ۸ ص ۸۷۲ ۔ ۹۷۲ باب ۵۱ ج ۱ ۔ ۳ ۔ الاختصاص ص ۴۹۱ ۔بحارالانوار ج ۲۵ ص ۱۲۳ باب ۷۲ ۔ ذیل ۷۲ ۔ ۲۱/۲۸۱ ۔ حدیث ۱۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کی قدرت اور طاقت

حدیث مفضل میں بیان ہوا ہے: حضرت امام مہدی علیہ السلام رکن اور مقام (مقام ابراہیم) کے درمیان ٹھہریں گے اور آپ وہاں پر بلند آواز میں اس طرح اپنے انصار کو بلائیں گے۔آپ کہیں گے:

اے میرے نقباءکی جماعت،اے میرے خاصان! وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے میری نصرت کے لئے میرے ظہور سے پہلے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا ہے اس زمین پر تم سب میرے پاس فوری آجاو پس یہ آواز اور گونج سب تک ان کے پاس پہنچ جائے گی جب کہ وہ اپنے محرابوں اور اپنے بستروں پر ہوں گے زمین کے مشرق اور مغرب میں ہوں گے تو وہ سب اس آواز کو اسی وقت سنیں گے وہ آواز ان کے کان میں جا پہنچے گی پس وہ سب اس آواز پر جواب دیں گے ان کے لئے وقت نہ گزرے گا ایک پلک جھپکنے کی دیر نہ لگے گی اور پھر وہ سب رکن اور مقام کے درمیان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سامنے موجود ہوں گے اور اللہ عزوجل نور کو حکم دیں گے تو وہ نور زمین سے آسمان تک ایک ستون بن جائے گا زمین پر موجود ہر مومن اس سے روشنی حاصل کرسکے گا اور اس پر نور اس کے گھر کے اندر سے داخل ہوگا مومنوں کے دل اس نور کی وجہ سے خوش ہوں گے جب کہ وہ اس وقت ہم اہل البیت علیہ السلام سے قائم علیہ السلام کے ظہور بارے آگاہ نہیں ہوں گے پھر وہ سب امام علیہ السلام کے سامنے موجود ہوں گے ان کی تعداد تین سوتیرہ مرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنگ بدر میں اصحاب کی تعدادکے برابر ہو گی(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۷ باب ۵۲)

عقلاءکے بیان سے دلیل اور حقیقی صورتحال

اس عنوان میں ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک اس وقت علمی حوالے سے مفکرین اور دانشور پہنچ چکے ہیں عسکری میدانوں میں،صحت کے میدانوں میں، اجتماعی یا اقتصادی میدانوں میںہم سب کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں۔

۱ ۔ عسکری سطح پر یہ بات ہے کہ اس زمانہ کے عقلائ، دانشور پورے عالم اور دنیا میں ایسی حکومت کو سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہیں جس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی صلاحیت ہے جب ہم اس بات بارے غور کریں گے کہ وہ بڑی ایٹمی طاقت کیسے بنی ہے تو ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس ملک نے علمی میدانوں میں ترقی کر لی ہے سائنس دانوں نے مسلسل کئی سالوں کی جدوجہد اور محنت شاقہ کے بعد اور مسلسل علمی تجربات کرنے کے بعد اس طاقت کو حاصل کیا ہے ایسی ایجاد تک پہنچنے کے لئے انہیں بہت زیادہ تجربات سے گزرنا پڑا ہے آخر کار ایسی قوت اور طاقت کو حاصل کر لیا ہے کہ جس کے ذریعہ وہ ایسی طاقت کے مالک بن بیٹھے ہیں کہ ایسی تباہی لائی جا سکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ایٹمی اسلحہ یا ایٹمی طاقت علمی اور سائنسی نظریات سے مربوط ہے، اس کے نتیجہ میں یہ طاقت حاصل ہوئی ہے۔ عقلاءیہ بات بھی کر رہے ہیں کہ جو کچھ اس وقت بڑی طاقتوں کے پاس موجود ہے اور جس حد تک وہ علمی میدانوں میں آگے جا چکے ہیں اگر کوئی اور ملک اس سے زیادہ جدید ترقی حاصل کر لے اور اس کے پاس موجود نظریات سے بڑھ کر جدید نظریات اور حاصل ہو جائیں جو ان حکومتوں کے پاس موجود نہ ہوں تو وہ بڑی ایٹمی طاقت بن جائے گی اور پھر وہی سپرپاور کہلائے گی اور وہ بڑی حکومت ہو گی اورسب سے زیادہ طاقتور ہو گی۔اسی طرح اگر کوئی حکومت ایسے مائع یا مادہ کو حاصل کر لے جو ایٹمی اثرات کو زائل کر دے تو وہی حکومت دوسری حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہو گی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ علم ساری طاقتوں کا سرچشمہ اورمنبع ہے اور علم ہی سے پورے عالم پر تسلط اور برتری حاصل کی جا سکتی ہے یہ بھی عقلاءکا فیصلہ ہے اور جس حد تک عقلاءاور سائنس دانوں کی تحقیقات اور ایجادات پہنچ چکی ہیں تو اس کا نتیجہ بھی یہی ہے۔

۲ ۔ اسی طرح جب ہم طبی حوالے سے بات کریں اور صحت عامہ بارے دیکھیں تو علم طب میں حیرت انگیزترقی ہوئی ہے اور بیماریوں کے علاجات کو ایجاد کیا گیا ہے پس ایسی دوائیںجن سے بیماریوں کا علاج ہوسکے اور ان کے منفی اثرات بھی نہ ہوں تو ایسی تحقیقات کرنے والے دوسروں پر غلبہ پالیں گے۔

تمام عقلاءاس بات پر اکٹھے ہیں کہ کسی بھی علاج کی کامیابی یا دوا کا موثر ہونا علمی نظریات کا نتیجہ ہے جس تک اس میدان میں علماء، اطباء، محققین پہنچ چکے ہیں اس کے ساتھ علمی تجربات کا لحاظ بھی رکھا جائے گا تجربات سے کسی دوا کے اثرات کا انکشاف ہوتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ طب کے میدان کی مضبوطی بارے استحکام بھی علمی نظریات کا نتیجہ ہے۔

۳ ۔ اقتصادی میدانوں میں بھی یہی صورتحال ہے، اقتصادی طاقت ایسے عوامل اور اسباب کے مجموعہ پر قائم ہوتی ہے کہ ان نظریات کو اقتصادیات کے ماہرین نے کشف کیا ہوتاہے معاشرتی اجتماعی اور ثقافتی میدانوں میںایسا ہی ہے کہ معاشرہ انحراف سے محفوظ ہو بداخلاقی کے گھڑے میں نہ جا گرے تو یہ بھی اس اجتماعی نظریہ کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔

اخلاقی پہلو کو لیں کسی معاشرہ میں فساد کا عام ہو جانا،معاشرہ کی تباہی ، اخلاقی نظریات میں انحرافات کانتیجہ ہے ۔ جب کسی معاشرہ کی اخلاقی قدریں متزلزل ہو جائیں تو وہ معاشرہ فساد زدہ ہو جاتا ہے اور جس معاشرہ کی بنیاد مضبوط اخلاقی نظریات پر ہو تو وہ معاشرہ مضبوط ہوگا اور انحراف سے دور ہو گا۔

اسی قانون کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں لاگو کریں، کھیل کے میدان میں، تہذیب کے میدان میں، نشریات کے میدان میں، ذرائع ابلاغ میں، لیکن ہم اسی مقدار پر اکتفاءکرتے ہیں ۔

جی ہاں! ان کے مراتب عہد اور حالات مختلف ہیں ان علوم کی طبیعت اور مزاج میں فرق ہے لیکن سب کا سہارا علمی نظریات ہیں۔

لیکن ان نظریات کو صحیح طریقہ پر نافذ کرنا اس قوت اور طاقت کی بنیادی شرط ہے۔

خلاصہ:۔ کائنات پر غلبہ، تسلط اور طاقت حاصل کر لینا یا کائنات کے کچھ حصہ پر غلبہ پا لینا تو اس کا سارا خلاصہ اور بازگشت سائنس، علمی نظریات ہی پرہے کہ جس کے نتائج میں ایجادات اور اختراعات حاصل ہوتی ہیں....پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کو علم دیا ہے اس کا جو اسے علم نہ تھا۔عالمی سطح پر تمام تر طاقت کا راز علم کی ترقی پر ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام پورے عالم میں تبدیلی لائیں گے

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت بارے جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس سے واضح ہو گیا کہ آپ علیہ السلام کا علم اس قدر وسیع ہوگا جس کی حد اور انتہاءکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ کس قدر اس علم کی طاقت ہو گی اور اس کے زندگی کے منابع پراس کے کیا اثرات ہوں گے یا کائنات میں طاقت کا منبع اور سرچشمہ جو ہوگاتو اس کے کائنات پر اور زمین میں بسنے والی مخلوقات اور انسان پر کیا اور کس قسم کے اثرات ہوں گے۔

لیکن یہ بات جانناہمارے لئے ممکن ہے یا اس کا تصور کر سکیں کہ عدالت کے امام ، علم و سائنس کے امام ،علمی، فنی، تکنیکی میدانوں میں ترقی کی کیا کچھ منزلیں طے کریں گے اور کیا کچھ تبدیلیاں لائیں گے؟پہلے اس سب کے امکان پر بات ہو گی اورپھر اس سب کچھ کے وقوع پذیر ہونے پر بھی بات ہو گی۔

مفکرین، دانشوروں اور نئی نئی ایجادات کرنے والوں کے لئے بشارت

اس بات کے امکان بارے تو واضح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت اور قدرت بارے جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس سے واضح ہے کہ ہر دانشور اور ہر مخترغ نے کائنات میں جو کچھ بنانے اور ایجاد کرنے کا جو خواب بھی دیکھا ہو گاوہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پورا کر دیں گے۔ زندگی کے مختلف پہلووں میں اور زندگی کے تمام علمی، فنی، تکنیکی، سائنسی، اجتماعی، معاشرتی ، سیاسی، اقتصادی میدانوں میں وہ کچھ کر دیں گے جس کا کسی دانشور یا عالم یا سائنس دان نے تصور کیا ہوگا۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ:”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی قانا بطرق السماءاعلم منی بطرق الارض “(نہج البلاغہ ج ۲ ص ۰۳۱ شمارہ ۹۸۱)

”مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ تم مجھے اپنے درمیان نہ پاو، بتحقیق میں تو آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ جانتا ہوں“۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام آئیں گے تاکہ پوری کائنات میں اپنے جد امجد کے اس فرمان کو سچ ثابت کر دکھائیں اور بتائیں گے کہ حضرت علی علیہ السلام کی مراد اس فرمان سے کیا تھی اور اس کا علمی اور مادی اثر کیا ہے جس سے کائنات ماضی کے سالوں میں محروم رہی اور علمی کارناموں کی برکات اور اس کے نتائج سے مستفید نہ ہو سکی۔

ایسی ہستی آئیں گے جو ان سرد آہوں کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیں جو حضرت علی علیہ السلام اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے بھرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس میں علم کے خزانے ہیں، کاش! اس علم کو لینے والے مجھے مل جاتے اور میں یہ علم انہیں دیتا۔(الخصال ص ۶۸۱)

یا حضرت علی علیہ السلام کا نہج البلاغہ ج ۱ ص ۱۴ خطبہ نمبر ۵ میں جو ارشاد ہے کہ ”علم پوشیدہ موجود ہے اس کو سامنے لاوں تو تم اس طرح مضطرب ہو جاو گے جس طرح صحرا میں تند ہواوں سے ذرات مضطرب ہوتے ہیں“۔

آج کے علمائ، مفکرین، دانشوروں، سائنس دانوں کے لئے یہ بشارت ہو کہ ہمارے لئے بہت جلدایک بڑی بشارت اور خوشخبری آنے والی ہے جس سے تم اپنے نظریات کے صحیح ہونے کو جان سکو گے اور ان نظریات میں ایسی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرو گے کہ جن کے تصور سے اس وقت تمہیں وحشت ہو جاتی ہے پس تمہارے لئے ایسی حکومت قائم ہونے والی ہے جو تمہاری ساری آرزووںکو پورا کر دے گی تمہارے لئے یہ سب مبارک ہو، اس حکومت میں آپ کے لئے بڑا حصہ ہوگا اور تم علماءاور مفکرین ، سائنس دان ہی اس حالت سے سب سے زیادہ خوشیاں مناو گے کیونکہ تمہیں اپنے خیالات اور تصورات کی دنیا مل جائے گی۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کا زمانہ ایسے زمانے کا آغاز ہو گا جس کی انتہا نہیں

اس جگہ میرے سامنے حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی گفتگو ہے جو بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے آپ نے فرمایا:

بعض کا تصور ہے کہ بقیة اللہ کے ظہور کا دور آخری زمانہ ہے اور اسی سے عالم کا خاتمہ ہے۔ لیکن میں یہ کہتا ہوںکہ بقیة اللہ کے ظہور کا زمانہ درحقیقت اس عالم کا آغاز ہے اور یہی صراط مستقیم ہے جس پرہر انسان کی حرکت کا پہلا قدم ہوگا،ایسا فرق نہیں کہ یہ سب کچھ بعض رکاوٹوں کے ہمراہ ہو یا اس میں رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور یہ حرکت بڑی تیزی سے ہو گی اور اس تحریک کے لئے ہر قسم کے لئے تمام لوازمات کو پورا کر دیا جائے گا۔

اگر ہم فرض کر لیں کہ الٰہی صراط مستقیم ایک بڑی شاہراہ ، موٹروے سے مشابہت رکھتی ہے جو سیدھی ہے اور تیار شدہ ہے کہ سارے انبیاءعلیہ السلام ماضی کی لمبی صدیوں میں، ہزاروں سال کی محنت شاقہ انہوں نے کی ہے تاکہ انسان انسانیت کو غیر مبہم اور ہلاکت میں جا پھینکنے والے راستوں سے بچالیں اور ایک مضبوط اور پختہ، مستحکم شاہراہ کی انہیں راہنمائی کریں جب انسان کی انسانیت اس راستہ پر پہنچے گی تو وہ اپنی پختگی کی آخری حد کو چھو رہی ہو گی اور پھر اس شاہراہ پر سب چلیں گے اور بغیر رکاوٹ کے چلیں گے سب کے لئے اس پر چلنا آسان ہوگا اس میں انہیں کسی قسم کے فسادات اور نقصانات کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔عصر ظہور اس قسم کا زمانہ ہوگا جس میں بشریت سکھ کا سانس لے گی اور الٰہی موٹروے پر چلے گی عالم طبیعات میں جتنی پوشیدہ قوتیں ہیں ان سب سے انسانیت فائدہ اٹھائے گی اور انسان کے اپنے وجود میں جوقابلیتیں اور صلاحیتیںہیں ان سب سے انسان بہرہ مندہوگا۔

اس وقت انسانی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جا رہا اس کی قابلیتیں ضائع ہوجاتی ہیں اسی طرح طبیعات میں جو پوشیدہ طاقتیں ہیں وہ بھی زیادہ تر ضائع ہو رہی ہیں اس وقت ہم جتنی خرابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ماحول میں جو آلودگی ہے اس کی وجہ انسان کا اپنی تمام صلاحیتوںاور قابلیتوں کو صحیح طریقہ اور مناسب طریقہ پر استعمال میں نہ لاسکنا ہے۔

انسانیت علم اور سائنس کے طریقہ سے غافل ہے اور سیدھا اور مستحکم راستہ جس پر چلنے کے لئے الٰہی نظام کا سایہ درکار ہے اس سے موجودہ انسانیت دور ہے۔

(خطاب ۷ رجب ۱۲۴۱ ھ ق۔مدرسہ فیضیہ قم ایران)

اس بحث سے ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انتہائی موثر کردار اور ان کے انتہائی فعال اور متحرک علمی رول کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ بات بھی امکانی حوالے سے ، تصوراتی لحاظ سے ہے البتہ یہ سب کچھ وقوع پذیربھی ہونا ہے تو اسے ہم ان روایات سے سمجھ سکتے ہیں جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علمی کارناموں کا تذکرہ ملتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ سائنسی دنیا میں کتنا بڑا علمی معجزہ تخلیق کریں گے، جس کی وجہ سے پوری علمی دنیا آپ کے آگے جھک جائے گی۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت میں علمی انقلاب

علی بن ابراہیم القمی نے اپنی تفسیر میں مفضل بن عمر کی سند سے اس بات کو نقل کیا ہے:

مفضل: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول”( وَ اَشرَقَتِ الاَرضُ بِنُورِرَبِّهَا ) “ (سورة الزمر آیہ ۹۶) کے متعلق یہ سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:رب الارض سے مراد امام الارض ہے، زمین کے امام کی آمدسے زمین چمک اٹھے گی۔

مفضل: جب آپ علیہ السلام خروج کریں گے تو اس وقت کیا ہوگا؟

امام علیہ السلام: اس وقت لوگ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے بے نیاز ہو جائیں گے وہ امام علیہ السلام کے نور سے سارے کام چلالیں گے۔

(سورہ زمر آیت ۹۶ ۔تفسیرالقمی ج ۲ ص ۱۷۵)

کتاب المحجہ میں بھی مفضل کی روایت ہے:

مفضل : میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ بات سنی ہے کہ جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو زمین اپنے رب(اپنے امام) کے نور سے چمک اٹھے گی اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے، دن اور رات ایک ہو جائیں گے آپ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرد کی عمر ایک ہزار سال ہو گی ہر سال اس کے لئے ایک لڑکاپیدا ہوگا اس کے لئے لڑکی پیدا نہ ہو گی وہ اسے ایساکپڑا پہنائے گاکہ وہ اسی ایک ہی کپڑے میں بڑا ہوتا جائے گا تو وہ کپڑا بھی اسی طرح بڑھتا جائے گا اور جس رنگ کو چاہے گا اس کا رنگ وہی ہو جائے گا۔(المحجہ ص ۴۷)

(اس قسم کی روایات ہمارے لئے عجیب لگتی ہیں اور ہمارے اذہان میں ان کے معانی نہیں سماتے اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اگر ماںکے شکم میں موجود بچے کو یہ بتایا جاتا کہ تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں پر ہزار میل لمبا پانی کا دریا ہوگا سو فٹ اونچی کھجور ہو گی اتنی اقسام کے جانور ہوں گے اسی طرح کی جھاڑیاں بھی ہوں گی اورکئی کئی منزلہ مکانات ہوں گے جب اس کے سامنے دنیا میں موجود اشیاءکی تفصیل بیان کی جائے اور وہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بھی رکھتا ہو تو وہ یہ سب کچھ سن کر تعجب کرے گا اور اسے انہونا کہے گا یہی ہمارا حال ہے کہ ہم اس وقت جن حالات میں پھنسے ہیں اس کے بعد والے حالات کا تصور ہمارے لئے مشکل ہے جس طرح سوسال پہلے کے لوگوں کے لئے ہوائی جہازوں، جیٹ طیاروں، ایٹم بم وغیرہ جیسی نئی ایجادات، ٹیلیفون کی جدیدترین سروس، کمپیوٹر جیسی صنعت کو قبول کرنا مشکل تھا اب امام زمانہ (عج) کا جو دور ہوگا ظاہر ہے اس میں علمی ترقی اس قدر ہو گی جس کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے سارا علم اول سے آخر تک دو حروف کا ہے اور جب امام زمانہ(عج) تشریف لائیں گے تو باقی پچیس حروف کا علم بھی کھل جائے گا تو پھر اس زمانہ کے حالات وواقعات اور زندگی کی سہولیات کا ادراک ہم کیسے کر سکتے ہیں؟اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ یہی حال قبر کے اندر کے حالات، میدان محشر کے حالات،جنت اور جہنم کی کیفیات بارے ہے،ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ صادق اور امین ذوات جو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے ترجمان ہیں انہوں نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے ہماری سمجھ میں اگر نہ بھی آئے تو ہم اس سب کچھ کو تسلیم اور قبول کرتے ہیں انکار نہیں کر سکتے، انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے....مترجم)

البحار میں مفضل سے روایت ہے کہ میں نے سنا ہے:

حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو زمین اپنے رب کے نور سے (اپنے امام کے نور سے)چمک اٹھے گی لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے ظلمت اور تاریکی ختم ہو جائے گی۔

(بحارالانوارج ۲۵ ص ۰۳۳ باب ۷۲ حدیث ۲۵)

وضاحت

لوگوں کا سورج کے نور سے بے نیاز ہونے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ امام علیہ السلام کا مادی نور ظاہر ہوگا یعنی اس سے مراد نور کی مادی روشنی ہی لیں یا اس سے مراد علمی انقلاب ہے روشنیاں اور انوار اس قدر عام ہوں گے کہ دن رات ایک لگیں گے جب کہ اس وقت رات کو بعض تجارتی صنعتی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں زراعت کے کام رک جاتے ہیں جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں یہ ساری رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو اس وقت دن رات کے سارے اوقات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا اس طرح دن رات ایک ہو جائیں گے اس سے مرادیہ نہیں کہ رات کا وجود ختم ہوجائے گا۔

روضة الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کے لئے ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو وسعت عطاءکر دے گا ان کے درمیان اور قائم علیہ السلام کے درمیان فاصلہ نہ رہے گا اوران کے درمیان میں واسطہ کی ضرورت نہ ہوگی جب امام علیہ السلام سے گفتگو کریں گے تو وہ سن لیں گے وہ بولیں گے تو اسے مومنین سن لیں گے اور وہ سب کچھ دیکھ سکیں گے جب کہ امام علیہ السلام اپنی جگہ پر موجود ہوں گے۔(الکافی ج ۸ ص ۰۴۲ ذیل ۹۲۳)

امام علیہ السلام سے ایک اور حدیث میں آیاہے:

آپ علیہ السلام نے فرمایا: مومن قائم علیہ السلام کے زمانہ میں اس طرح ہوگا کہ اس کا جو بھائی مشرق میں ہوگا وہ مغرب میں بیٹھ کر اسے دیکھ لے گا اسی طرح جومغرب میں ہوگا تو وہ مشرق میں بیٹھ کر دیکھ لے گا۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۱۹۳ حدیث ۳۱۲)

یہ حدیث ٹیلی ویژن کی سکرین پر نمودار ہونے والی تصاویر اور ٹیلیفون پر آنے والی تصویر موجودہ ترقی کے دور میں نشاندہی کرتی ہے لیکن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیان سے یہ لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوگا کیونکہ وہ ایسی حالت ہو گی جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کے دور میں علوم کی کثرت

بحارالانوار میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: آپ مومنوں کے اذہان میں علم کو ڈال دیں گے کوئی بھی مومن معلومات لینے کے حوالے سے کسی دوسرے مومن کا محتاج نہیں رہے گا اس دن اس آیت کی تاویل آئے گی ”( یُغنِ اللّٰهُ کُلّاً مِّن سَعَتِه ) “(سورہ نساءآیت ۰۳۱)

(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۶۸)

اصول الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام سے اپنی اسناد کے ذریعے یہ روایت نقل کی ہے:جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندگان پر اپنی قدرت کا ہاتھ رکھ دے گا اس طرح ان کے لئے ان کی عقلوںکو اکٹھا کر دے گا اور اسی طرح ان کے سارے خیالات، احلام، تصورات، افکار کامل ہو جائیں گے اور الخرائج میں ہے کہ مومنوںکے اخلاقیات کو کامل کر دے گا۔(الکافی ج ۱ ص ۵۲ باب العقل حدیث ۱۲ کمال الدین ج ۲ صفحہ ۷۶ باب ۸۵ ذیل ۰۳)

علامہ مجلسی ثانی نے مرآة العقول میں اسی ضمن میں فرمایا ہے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ ”ومسح یدہُ“یدہُ میں ”ة“ ضمیر کا اشارہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ االلہ تعالیٰ اپنا ہاتھ بندگان پر رکھے گا یا حضرت قائم علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ قائمعلیہ السلام اپنے ہاتھ کو بندگان کے سروں پر رکھیں گے دونوں صورتوں میں یہ رحمت و شفقت یا قدرت کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ اس وجہ سے انہیں پورا تسلط اور غلبہ حاصل ہوگا اور ساری معلومات ان کوحاصل ہو جائیں گی۔

اس حدیث میں جو یہ جملہ ہے کہ ”تجمع بها عقولهم “ تو اس میں دو احتمال ہیں

ایک احتمال ہے کہ ان سب کے عقول کو حق کا اقرار کرنے پر اکٹھا کر دیں گے اس طرح کہ ان میں کسی قسم کا حق بارے اختلاف نہ رہے گا سب حق کی تصدیق کریں گے ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے عقل مجتمع ہو گی تو یہ اکٹھا ہونے کا مطلب ہے کہ تمام نفسانی قوات اور صلاحیتیں عقل کے تابع ہوں گی نفسانی خواہشات کے متفرق ہونے کا اثر نہ پڑے گا سب عقل کے تابع ہوں گے ۔

پہلا احتمال زیادہ واضح ہے عبارت میں ”بہ“ میں ”ھائ“ کا اشارہ دفیع اور.... کی طرف ہے جب کہ ”بھا“میں”ھائ“کااشارہ ”ید“ہاتھ کی طرف ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام بندگان کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے سارے علوم انہیں حاصل ہو جائیں گے، عقول کی بالادستی ہو گی قدرتمند ہوں گی، سب حق کی تصدیق کریں گے، حق بارے اختلاف نہ رہے گا نہ ہی کسی کو دلائل مانگنے کی ضرورت ہو گی نفسانی خواہشات عقلوں کے تابع ہوں گی احلام، حِلم کی جمع ہے اس سے مراد بھی عقل ہے، اس جگہ علامہ مجلسی کی بات ختم ہوئی۔(مکیال المکارم ج ۱ ص ۶۷)

بعض علماءرضوان اللہ علیہم کا بیان ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ معجزاتی طور پر اپنے جسمانی ہاتھ کو تمام بندگان کے سروں پر رکھ دیں گے۔

اس بات کی دلیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے۔ الکافی میں روایت ہے اور یہ امر اس کے لئے ہوگا جس کے لئے گھٹی دی جائے گی۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس بارے اجازت ہوگی تو وہ خروج کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے یہ کہے گا یہ وہ ہے جسے ہونا ہے اللہ تعالیٰ اپنا دست قدرت اپنی رعیت کے سر پررکھ دے گا۔(بصائرالدرجات ص ۴۰۲/۹۳)

اس سب سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عقلیں قدرت مند ہو جائیں گی انکی سوچ بڑھ جائے گی انکی سوچوں میں تبدیلی آئے گی، آسمان، فضاءسمندر ماحولیات، زمین کے اندرون ہر جگہ ترقی ہو گی ایسی ترقی ہو گی جس کاکسی نے تصور تک نہ کیاہوگا۔

منتظرین کے علم کی وسعت

ابوخالد: میں نے عرض کیا یابن رسول اللہ : یہ سب کچھ ہوگا؟

حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:جی ہاں! میرے رب کی قسم! یہ سب کچھ ہمارے پاس اس صحیفہ میں درج ہے جس میں وہ تمام مصائب اور مشقتیں درج ہیں جو ہمارے اوپرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آئیں گے۔

ابوخالد:یابن رسول اس کے بعد پھر کیا ہوگا؟

حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام: حضرت رسول اللہ کے بعد جو اوصیاءاور آئمہ ہیں ان میں جو بارہویں ہیں ان کے لئے غیبت ہے۔

اے اباخالد! جو آپ کی غیبت میں موجود لوگ ہوں گے وہ آپ کی امامت کے قائل ہوں گے اور آپ کے ظہور کی انتظار کرنے والے ہوں گے وہ سارے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے عقول اور ایسی سمجھ عطاءکر دی ہوئی ہے کہ ان کے ہاں غیبت ایسے ہو گی جس طرح امام علیہ السلام ان کے درمیان موجودہوں غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ ہو گی اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے مجاہدین کا مقام دیں گے جنہوں نے تلوار لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ہمراہ جہاد کیا یہ حقیقت میں مخلصین ہوں گے اور سچے شیعہ ہوں گے اور اللہ عزوجل کے دین کی جانب ظاہر میں اور مخفیانہ انداز سے دعوت دینے والے ہوں گے۔(کمال الدین ج ۱ ص ۹۱۳ حدیث ۲ ،النجم الثاقب ج ۱ ص ۳۱۵)

صحت کے میدانوں میں حیرت انگیز ترقی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مملکت میں ایک آدمی اتنی لمبی عمر کرے گا کہ اس کے لئے ایک ہزار لڑکے پیدا ہوں گے ان میں ایک بھی لڑکی نہ ہوگی۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۱۱۳)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بیان میں اس کے علاوہ بھی ہے کہ اس دور کے لوگ ہر بدعت ، آفت اور مصیبت سے امن میں ہوں گے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت رسول پر عمل کریں گے ان سے ہر قسم کی آفات و بلیات و شبہات دور ہوجائیں گے۔

(النجم الثاقب ج ۱ ص ۱۱۳)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس نے ہم اہل بیت علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کا زمانہ پا لیا تو اس وقت جو مریض ہوگا، معذورہوگا، اپاہج ہوگا،شفاءپا جائے گا جو کمزوری میں مبتلا ہوگا وہ طاقتور ہو جائے گا۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:جس وقت حضرت قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر مومن سے بیماری دور ہو جائے گی کمزوری ختم ہو جائے گی، ان کے لئے بے انتہاءطاقت ہو جائے گی۔

یہ ساری روایات طبی میدانوں میں بے تحاشا ترقی کی نشاندہی کرتی ہیں ایسی ادویات کشف ہوں گی جو لاعلاج بیماریوں کا مداوا ہوں گی۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۱۲۳،۲۱۳)

زراعت اور ماحولیات میں تبدیلیاں

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو آسمان اپنے قطرات کو اتار دے گا اور زمین اپنی نباتات کو اگا دے گی اور بندگان کے دلوں سے بغض اور نفرت ختم ہوجائے گی درندوں اور چوپاوں میں صلح ہو جائے گی ایک عورت عراق اور شام کے درمیان کا سفر کرے گی جہاں بھی وہ قیام رکھے گی اس جگہ سبزہ ہو گا اس کے سر پر زینت چڑھی ہو گی اس کو نہ تو کوئی درندہ ڈرائے گا اور نہ ہی اسے کوئی آدمی خوف زدہ کرے گا۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۰۰۳)

ملاحظہ

عراق اور شام کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے اور زیادہ تر علاقہ صحرائی ہے اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عصر ظہور امام زمانہ علیہ السلام میں اس وقت زراعت کے میدان میں اتنی ترقی ہو گی کہ عراق اور شام کے درمیان ہزاروں مربع میل صحرائی علاقہ سرسبزوشاداب ہو جائے گااور کہیں بھی ویرانی نہ ہوگی۔

”سعدالسعود“ کتاب میں صحف ادریس علیہ السلام سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ ”اس زمانہ میں امامت کو زمین پر ڈال دیا جائے گا کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز کانقصان نہ کرے گی اور کوئی بھی کسی دوسری چیز کو خوفزدہ نہ کرے گی اور کوئی بھی کسی دوسرے سے خوف نہ کھائے گا، حشرات الارض ، حیوانات، درندے سب لوگوں کے درمیان ہوں گے وہ سب ایک دوسرے کو اذیت نہ دیں گے حشرات الارض میں سے جس جس کے لئے زہر کا کانٹا ہوگایعنی زہریلا ڈنگ اس سے نکال دیا جائے گا اور ہر ڈسنے والے سے اس کازہریلا پن ختم کر دیا جائے گا آسمان اور زمین سے برکات کو اتار دیا جائے گا زمین اپنی خوبصورت نباتات کے ذریعے چمک اٹھے گی جگمگائے گی زمین اپنے سارے ثمر کو باہر نکال دے گی اور اپنی خوشبووں کی تمام اقسام کو دے دے گی لوگوں کے درمیان رحمت، شفقت، ہمدردی انڈیل دی جائے گی سارے ماحول میں پیار اور محبت ہوگا امن اور سکون ہوگا۔(بحارلانوارج ۲۵ ص ۴۸۳ ،باب ۷۲ ۔ ذیل ۴۹۱)

البحار میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں میری امت خوشحال ہو گی وہ سب ایسی نعمت میں ہوں گے کہ اس سے قبل ایسی نعمتوں سے بہرہ ور نہ ہو سکیں گے آسمان ان پر مسلسل برکات اتار دے گا اور زمین اپنی نباتات میں سے کچھ بھی نہ چھوڑے گی مگر سب کو اگا دے گی۔(بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۸ باب ۱ حدیث ۹۲)

اسی طرح جب ہم علمی، فنی، سائنسی ترقی کی روایات کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو بات سمجھ آجاتی ہے کہ زراعت کے میدان میں حیرت انگیز ترقی ہو گی اور زراعت سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا کیونکہ زمین میں کوئی نقصان دینے والی چیز باقی نہ رہے گی۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے :”مدھا متان“ آپ نے فرمایا: مدینہ سے مکہ میں کھجوروں کے باغات ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں گے۔(البرہان ج ۴ ص ۱۷۲)

ڈیموں کی تعمیر

ایک طویل حدیث میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ان کے اقدامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: پھر آپ کسی کو آرڈر جاری کریں گے اوروہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی مشہد کے پیچھے سے نہر کھودےں گے جو غریبین تک ہو گی اور نجف کی بلندی سے نیچے گرے گی اس کے بعد اس پر پل بنائیں گے آٹا پیسنے کی فلور ملیں لگائیں گے۔ ایک بوڑھی عورت آئے گی اور بغیر اجرت کے اس کی گندم اسے پیس دی جائے گی(گویا اس ڈیم پر جس کی لمبائی کربلاءسے نجف تک ہو گی پانی سے چلنے والی آٹا پیسنے کی چکیاں ہوں گی جہاں سے بغیر اجرت کے آٹا پیس کر دیا جائے گا)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت میں پانیوں کی رونق ہو گی نہریں لمبی لمبی ہوں گی زمین خوراک دے گی اور خزانوں کو زمین اگل دے گی۔(النجم ج ۱ ص ۶۰۳)

ایک اور روایت ہے کہ ان کے لئے زمین اپنے خزانے کھول دے گی اور قائمعلیہ السلام فرمائیں گے سب کھاو پیو گزشتہ زمانوں میں جو کمی رہی ہے اس کی تلافی کرو۔

(سورہ الحاقة آیت ۴۲ ۔ بحارالانوار ج ۳۵ ص ۶۸)

سڑکوں اور شاہراہوں کی وسعت اور پھیلاو

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو وہ بڑی شاہراہ کو وسعت دیں گے اور اس سے انحرافی موڑ ختم کر دیئے جائیں گے سڑکوں پر لگے میزابوں، گٹروں کا خاتمہ کر دیں گے(سڑکوں سے پانی کے راستے ایسے بنائیں گے کہ ٹریفک کے لئے پانی کی گذرگاہیں رکاوٹ نہ بنیں)

(الانوار البھیہ ص ۳۸۳ ۔ اعلام الوریٰ ج ۲ ص ۱۹۲)

شاہراہ اعظم سے مراد ہر وہ بڑی سڑک ہے جو شہروں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے اور جس کی توسیع کی ضرورت ہو گی اسے وسعت دیں گے۔

علمی اور سائنسی ترقی پر دلیل اور گواہ

ہم نے علمی اور سائنسی انقلاب پر روایات سے جو نمونے پیش کئے ہیں یہ ایک بڑی دلیل ہیں لیکن اگر روایات میں یہ سب کچھ نہ بھی ہوتا تب بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام نے جو بڑے بڑے کام سر انجام دینے ہیں ان کا تقاضا بھی اسی قسم کی علمی ترقی پر گواہ ہے۔

بلقیس کا تخت اور سلیمان کی حکومت

اگر ہم بلقیس کے تخت کی مثال کو سامنے رکھیں کہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی یمن (صنعاءشہر)سے قدس شہر(فلسطین)میں پلک جھپکنے کی دیر میں لے آتے ہیں جب کہ ان کے پاس تھوڑا سا علم تھا اس قرآنی واقعہ سے ہم یہ بات تو سمجھ سکتے ہیں کہ علم میں یہ طاقت ہے کہ ایک چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر آن واحد میں دوسری جگہ پر پہنچا دے اگر حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے وصی سے یہ چاہتے کہ پورے یمن کو اپنی جگہ سے اٹھا کر لے آئیں اور اسے دوسری جگہ پر رکھ دیں جیسے مصر کا صحراءسینا،تو وہ یہ بھی کر دیتا پس علم ہی کے لئے معنوی اور مادی سلطنت ہے۔

جس وقت انسان کے پاس ایسے ذرائع، وسائل اور اسباب موجود ہوں کہ جن کو وہ استعمال میں لا کر اپنی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے تو وہ ایسا کیوں نہ کرے گا اللہ تعالیٰ نے بعض احادیث قدسیہ میں ان مطالب کی طرف اشارہ دیاہے۔

میرابندہ نوافل(عبادات) کے وسیلہ سے برابر، تسلسل کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کا پاوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

(غوالی اللئالی ج ۴ ص ۳۰۱ حدیث ۲۵۱ ۔ الغدیر ج ۱ ص ۸۰۴ ۔ کنزالعمال ج ۱ ص ۹۲۲ حدیث ۵۵۱۱)

اولیاءاللہ کا اختیار

الشیخ الشعرانی نے کہا ہے کہ میں نے خواص سے سوال کیا کہ کیا اولیاءمیں سے کسی ایک کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں”کُن“ کے تصرف کا اختیار دے دے گا ۔

(یعنی اللہ تعالیٰ کا ولی کسی چیز کے بارے یہ ارادہ کرے کہ وہ ہو جائے تو وہ چیز اس اللہ کے اذن سے اسی لمحہ ہو جائے گی) تو ان خواص نے جواب میں یہ کہا: جی ہاں! ایسے ہو سکتا ہے اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ نے جنگ تبوک میں اسی قسم کاتکوینی اختیار استعمال کیا کہ آپ نے ابوذرعلیہ السلام کے لئے چاہا کہ وہ آپ کے پاس موجود ہو جائیں تو وہ اسی وقت تبوک کے مقام پر موجود آہوئے(جب کہ وہ مدینہ سے آپ کے ہمراہ نہ آئے تھے)(الجواہر والدرر للسفرانی کتاب الغدیر کے حاشیہ پرص ۳۲۱)

ابن العربی نے بیان کیا ہے: اللہ تعالیٰ سے اور نہ ہی رسول اللہ سے ایسی کوئی روایت ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے کسی کو”کُن“ کا اختیار دیا ہو سوائے انسان کامل(اس سے مراد حضورپاک کی ذات ہے)کی ذات کے اور یہ بات جنگ تبوک میں حضورپاک سے ظاہر ہوا آپ نے فرمایا:

کن اباذر،فکان هواباذر

اے اباذرعلیہ السلام ہو جاو، تو اس وقت ابوذرعلیہ السلام ہو گئے۔(یعنی آپ نے یہ چاہا کہ اے ابوذرعلیہ السلام ! اسی لمحہ میرے پاس تم پہنچ جاو تو(باذن اللہ)ایسا ہی ہوا)

حضرت آیت اللہ الشیخ حسن زادہ آملی نے فرمایا:بتحقیق وہ اسم جو انسانی جوہر اور حقیقت کی بلندی اور ارتقاءکا سبب ہے وہ اسم مسلسل اس ارتقاءمیں درجہ بدرجہ آگے بڑھتا رہتا ہے پھر ایسی جگہ پر پہنچ جاتا ہے کہ یہ شخص قادر ہو جاتا ہے کہ وہ کائنات کے مادی سسٹم میں تصرف کرے ایسا درحقیقت ایک عینی اور خارجی حقیقت سے عبارت ہے کیونکہ جس وقت انسان اپنے وجود اوراپنی حقیقی، عینی اور خارجی حیثیت سے کسی بھی اسم سے متصف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے اسماءکی خصوصیات سے جو خصوصیت اس خاص اسم کے لئے ہے وہ اس کے واسطے حاصل ہو جاتی ہے اللہ کے اسماء”کُن“ کے کلمات سے ہیں کیونکہ اس اسم میںسلطنت ،برتری قدرت کاملہ کا اظہار ہے چنانچہ جس کے پاس اسم الٰہی ہوگا تو پھر اسم کے عینی اور خارجی خواص اس انسان سے ظاہر ہوں گے اس طرح خودوہ انسان اسم کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اس حالت میں وہ قادر ہو جاتا ہے کہ جو کچھ چاہے اس کو کر ڈالے جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کرتے تھے۔(الانسان الکامل ص ۲۶ ۔ الفتوحات المکیہ باب ۱۶۳ سے نقل کیا ہے)

اسی طرح کے حالات اور انبیاءعلیہ السلام سے بھی ظاہر ہوئے، حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی آصف ابن برخیا سے تخت بلقیس لانے کا مظاہرہ اسی سلسلہ سے مربوط ہے جب کہ حضورپاک تمام انبیاءکے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اسماءکا مظہرکامل ہیں اس لئے آپ میں اللہ تعالیٰ کے سارے اسماءکے اثرات موجود ہیں آپ جو ارادہ کریں تو وہ ارادہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے پھر یہی سلسلہ آپ کے معصوم جانشینوں میں نظرآتا ہے کیونکہ ہر امام معصوم آپ کا قائم مقام ہے نبوت و رسالت کے علاوہ آپ کی ہرخصوصیت اس میں موجود ہوتی ہے۔مترجم)

ہم نے اپنی کتاب ”آل محمد بین قوسی النزول والصعود“میں متواتر واسطوں سے تفصیل بیان کر دی ہے کہ اس کتاب کی پہلی فصل جس میں آل محمد علیہم السلام کی ولایت تکوینیہ کو بیان کیا ہے جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام خاتم آل محمد علیہم السلام ہیںجن کے تعارف کے لئے آپ سے پہلے تمام آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے سعی و کوشش کی آپ اس سب کو عملی شکل دیں گے جسے ان حضراتعلیہ السلام نے شروع کیا تھا آپ ہی اسے پورا کریں گے۔

عادلانہ سلطنت کے قیام میں علم سے استفادہ

حضرات آل محمد علیہم السلام کی قدرت اور علم بارے جو روایات اور دلائل بیان کیے گئے ہیں یہ سب کچھ بالذات مقصود نہیں ہے اور نہ ہی یہ کتاب اس بحث کے لئے تحریر کی گئی ہے اس سب سے جو مقصد ہے وہ یہ ہے:

۱ ۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی صفات ان کی علمی صلاحیات کے بارے میں آگہی اور یہ کہ وہ کتنی قدرت کے مالک ہوں گے یہ معرفت اپنے زمانہ کے امام بارے حاصل کرنا واجب ہے ”من لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة“ جو اس حالت میں مرجائے وہ اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو وہ جہالت کی موت مرا۔(الانسان الکامل ص ۹۹)

۲ ۔ یہ کہ عدالت عام کرنے اور پاکیزہ حکومت کے قیام اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے تاکہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکیں کہ اس معاشرہ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ ہو گی اس سب کے لئے جن علمی طریقوں کو استعمال کیا جائے گا اس سے آگہی ہوجائے۔

اسی تناظر میں جو اسالیب اور طرق بیان ہو چکے ہیں اس کے ساتھ آپ مسالمت آمیز طریقہ کو بھی بروئے کار لائیں گے نصیحت، وعظ، دلیل، اچھی گفتگو اسی سے آپ آغاز کریں گے،لوگوںکو سمجھائیں گے، اپنی حقانیت انہیںبتائیں گے، انہیںعقلی،سائنسی دلائل سے قائل کریں گے تاریخی حوالے دیں گے قرآن اور سنت سے استدلال کریں گے جولوگ آپ کی اس روش پرحق بات کو قبول کریں گے تو پھرآپ اپنے مقصد اور ہدف کے دفاع کے لئے مخالفین سے جہاد کریں گے بالآخر غیبی امداد اور الٰہی اعجاز بھی ہمراہی کرے گا اس سب کا اثر ہونا ہے اور اس سے مطلوب نتیجہ ملنا ہے، ہر عمل اور کارروائی کا آغاز باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہو گا جب کہ ظہور کے لئے اور عالمی سطح پر عادلانہ حکومت کے قیام واسطے عمومی طورپرپہلے سے آمادگی موجود ہو گی اور عادلانہ حکومت کے قیام کی تیاری کرنے والی جماعتیں افراد بھی اپنا کردار ادا کرچکے ہوں گے اور اس وسیع اور عالمی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوں گے انہیں کسی کی طرف سے مذمتی بیانات کی پرواہ نہ ہو گی وہ الٰہی رضاکار فورس ہوں گے دن میں غراتے شیروں کی مانند اور رات کی تاریکی میں مارگزیدہ کی طرح اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر عبادت کرنے والے ہوں گے سیاسی بصیرت کے مالک ہوں گے عالمی حالات پر ان کی گہری نظر ہو گی ظالم حکمرانوں کی کمزوریوں سے واقف ہوں گے ان سب کااللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہوگا کسی کا خوف ان کے دل میں نہ ہوگا اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان، اپنا مال اور ناموس تک کی قربانی پر آمادہ ہوں گے، قربانیاں پیش کرنے سے وہ تھکیں گے نہیں اور نہ ہی ہار مانیں گے فتح اور نصرت ان کے قدم چومے گی اور وہ اپنے امام کی آمد کے لئے ہر قسمی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کریں گے ان کا مقصد ایک ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ ہو اور ظلم کا خاتمہ ہو اور وہ یہ جانتے ہوں گے اور ان کا یقین کامل ہوگاکہ ان سب کے قائد،سارے انبیاءعلیہ السلام کی آرزو، محروموں کے لئے ڈھارس، خاتم الحجج،خاتم الاوصیائ، خاتم الائمہ، خاتم الخلفائ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے اور ان کی قیادت میں انہیں بڑی فتوحات نصیب ہوں گی۔

اس سب کے باوجود اتنی بڑی سلطنت کا قیام اور پوری زمین پر عدالت کا نفاذ اور سارے انسانوں اور پوری بشریت کے لئے رفاہ اور خوشحالی کا انتظام، مکمل طور پر غربت کا خاتمہ جہالت کا خاتمہ، نئی علمی دنیا کی تعمیرکوئی آسان اور سادہ سا کام نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ سب آبادیاں وسیع و عریض ہیں، انسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے سارے براعظموں تک پہنچنا اور ان سب میں اپنی بات پہنچانا کوئی آسان کام نہیں، یہ فقط زبانوں کی کثرت ماحول کے متعدد ہونے تہذیبوں کے تعدد، قومیتوں کے متفرق ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تمام ترجدید ترین روابط اور اتصالات کی سہولیات کے باوجود اگر فرض کر لیں کہ ایک چینل پر حضرت امام مہدی علیہ السلام خطاب کریں اور اپنے مقاصد کو بیان کریں تو پھر کتنے اور چینلز ہوں گے جو آپ کی بات کونشر کریں گے تین، چار،دس، بیس ،سو اس کا اثرہوگا۔

سوال: امام کا خطاب سب لوگوں تک کیسے پہنچے گا؟

فرض کریں کہ آپ کے خطاب کا ترجمہ بھی مختلف زبانوں میں کیا جا رہا ہوگا، کئی لوگ ہوں گے جو ٹیلی ویژنوں کے سامنے بیٹھ کر اس خطاب کو سن رہے ہوں گے اگر خطاب رات کو ہوا تو بہت سارے ممالک میں دن ہوگا اور دن کو لوگ کاروبار میں مصروف رہتے ہیں کم ہی ٹیلی ویژن پر بیٹھتے ہیں اور اگر دن کو ہوا تو بہت ساری جگہوں پر رات ہو گی، بعض ممالک میں راتوں کو کاروبار ہوتا ہے بعض میں دنوںکو بہت ساری اقوام اور افراد ایسے ہیں کہ جن کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ٹیلی ویژن پر آسکیں جیسے جاپان، چین، کوریا وہ لوگ تو دن رات کام کرنے میں لگے رہتے ہیں، بہت ساری اقوام ہیں جو لذات کی دنیا میں غرق رہتے ہیں انہیں کچھ سروکار نہیں کہ عالم میں کیا ہو رہا ہے کتنے افراد ہیں جو ہفتہ میں فقط ایک دن ٹیلی ویژن پر بیٹھتے ہیں بہت سارے انٹرنیٹ سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں اس کے استعمال کو نہیں جانتے ہیں۔

اس کے ساتھ بہت سارے ہیں کہ جنہوں نے اسلام کے بارے میںکچھ بھی نہیں سنا اور نہ ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے سنا ہے اور نہ ہی ان کے عمل سے آگاہ ہیں نہ ہی ان کے پروگرام سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کی عالمی اسلامی حکومت کے فوائدبارے آگاہ ہیں،نہ ہی ان کی امن کے قیام کی کوششوں سے واقف ہیں اگرچہ انسانوں کی اکثریت فطری طور پر ایک ایسے انسان کی امید لگائے ہوئے ہوگی جو پوری انسانیت کو امن دے اور انہیں خوشحال بنائے۔لیکن یہ سارے انسان اس سے آگاہ نہ ہوں گے کہ ان کا ہمدرد انسان، امام مہدی علیہ السلام ہی ہیں اور وہ تشریف لے آئے ہیں

بہرحال چھ ارب انسانوں کی آبادی والی زمین پر ایک حکومت کا قیام کہ جس میں ظلم نہ ہو، عدالت ہو،امن ہو، خوشحالی ہو، علم ہو، جہالت نہ ہو، غربت نہ ہو،سب کا ایک دین ہو،سب کے لئے ایک نظام ہو، یہ کام آسان نہیں ہے البتہ اس نے ضرور ہونا ہے اور اس کے لئے مقدمات ہیں اور پھر اس کام کے لئے مختلف ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لایا جائے گا۔