مہدویت نامہ

مہدویت نامہ0%

مہدویت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدویت نامہ

مؤلف: مصنفین کی جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 18674
ڈاؤنلوڈ: 2147

تبصرے:

مہدویت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18674 / ڈاؤنلوڈ: 2147
سائز سائز سائز
مہدویت نامہ

مہدویت نامہ

مؤلف:
اردو

تیرھواں درس

حکومت کے نتائج اور ثمرات

مقاصد:

۱ ۔ حضرت کی حکومت کی وسعت اور اس کے ثمرات سے آگاہی۔

۲ ۔ حضرت کے دورانیہ حکومت بارے آگاہی۔

۳ ۔ حضرت کی شخصی اور حکومتی سیرت سے آشنائی۔

فوائد:

۱ ۔ عصر ظہور کے درخشاں دور سے آگاہی

۲ ۔ زمانہ ظہور کے پروگرامز کی جذابیت کو درک کرنا

۳ ۔ زمانہ ظہور کے آپہنچنے کے حوالے سے عشق و اشتیاق

تعلیمی مطالب:

۱ ۔ حضرت کی وسیع عدالت کے نتائج

۲ ۔ حضرت کے اخلاقی اور تربیتی پہلووں کے نتائج

۳ ۔ معاشرتی اور دینی امور میں حضرت کے اقدامات

۴ ۔ حضرت کے علمی اور اقتصادی اقدامات

۵ ۔ حضرت کی حکومت کی حدود اور مدت

حکومت کے نتائج اور ثمرات

آپ حضرات نے بھی دیکھا ہو گا کہ جو لوگ حکومتی دائرہ میں جانا چاہتے ہیں یا قدرت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے سے ہی اپنی حکومت کے لئے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان مقاصد تک پہنچنے کے لئے اپنے منصوبوں کو بھی بیان کر دیتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ حکومت اور قدرت تک پہنچتے ہیں تو پھر کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنے مقاصد میں ناکام رہ جاتے ہیں یا بعض اوقات اپنی کی ہوئی باتوں سے پلٹ جاتے ہیں، یا اپنے بیان کردہ اہداف اور مقاصد کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں!!

لیکن پہلے سے معین ان اہداف و مقاصد تک نہ پہنچنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ”اہداف“ واقعی اور اصولی نہیں ہوتے یا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان اہداف تک پہنچنے کے لئے حکومت کے پاس جامع اور صحیح منصوبہ بندی نہیں ہوتی، اور بہت سے مقامات پر اس ناکامی کا سبب قوانین جاری کرنے والوں کی نااہلی ہوتی ہے۔پھر ان کی خیانت ہوتی ہے۔

امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت کے اغراض و مقاصد واقعی اور اصولی ہیں جن کی جڑیں انسان کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں موجود ہیں، جن تک پہنچنے کی سب آرزو رکھتے ہیں اور وہ پروگرام بھی قرآن کریم اور سنت اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی بنیاد پر ہوں گے اور ہر شعبہ میں اس کے نفاذ کی ضمانت موجود ہو گی۔

لہٰذا اس عظیم الشان انقلاب کے نتائج اور ثمرات بہت ہی زیادہ ہوں گے جس کو ایک جملہ میں خلاصہ کیا جاتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کی تمام مادی اور معنوی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی جن کو خداوند عالم نے انسان کے لئے کائنات میں امانت رکھا ہے۔ ہم یہاں پر روایات کی روشنی میں بعض نتائج اور ثمرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ زندگی کے ہر موڑ پر عدالت کا وجود

بہت سی روایات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انقلاب کے نتائج اور ثمرات میں سب سے اہم چیز دُنیا میں عدل و انصاف کا عام ہونا بیان ہوا ہے جس کے بارے میں ”آپ علیہ السلام کی حکومت کے اہداف“ کے تحت گفتگو ہو چکی ہے۔ لیکن اس حصہ میں مذکورہ مطالب کے علاوہ اس مطلب کا اضافہ کرتے ہیں کہ قائم آل محمد (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی حکومت میں معاشرہ کے ہر سطح میں عدالت عام ہو جائے گی اور عدالت معاشرہ کی شہ رگوں میں رچ بس جائے گی اور کوئی بھی ایسا چھوٹا بڑا گروہ نہیں ہو گا جس میں عدالت قائم نہ ہو، نیز آپس میں انسانوں کا رابطہ اسی عدالت کی بنیاد پر ہو گا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا:

”خدا کی قسم! لوگوں کے گھروں میں عدالت کو اس طرح پہنچا دیا جائے گا جیسے گھروں میں سردی اور گرمی پہنچتی ہے“۔(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۲۶۳)

جب معاشرہ کا سب سے چھوٹا شعبہ یعنی انسان کا گھر عدالت کا مرکز بن جائے گا اور گھر کے افراد ایک دوسرے سے عادلانہ سلوک کریں گے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی عالمی اور عدل و انصاف کی حکومت نہ تو طاقت اور قانون کے بل بوتے پر ہو گی بلکہ قرآنی تربیت کی بنیاد پر ہو گی کہ جو عدالت اور احسان کا حکم دیتی ہے۔ (قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ان اللہ یا مر بالعدل والاحسان یعنی بے شک خداوند عالم نیکی اور عدالت کا حکم دیتا ہے۔ (سورہ نحل آیت ۰۹) لوگوں کی تربیت کرے گی اور ایسے (بہترین) ماحول میں یقیناً سب لوگ اپنے انسانی اور الٰہی فریضہ پر عمل کریں گے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں گے (اگرچہ کسی عہدہ اور مقام پر بھی فائز نہ ہوں)۔ انتظار کرنے والے مہدوی معاشرہ میں قرآنی اور حکومتی پشت پناہی کے ذریعہ ” عدالت“ ایک اصلی ثقافتی انقلاب ہو گا جس سے ان انگشت شمار لوگوں کے علاوہ کوئی سرپیچی نہیں کرے گا جو خود غرض اور مفاد پرست ہوں گے اور قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے دُور ہوں گے، جن کے ساتھ حکومت عدل سخت کارروائی کرے گی اور اُن کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، خصوصاً حکومتی شعبوں میں شامل ہونے سے روک تھام کی جائے گی۔

جی ہاں! ایسی وسیع اور عام عدالت میں حضرت امام منتظر علیہ السلام کی حکومت کا ثمرہ ہو گا اور اس طرح امام مہدی علیہ السلام کے انقلاب کا بلند ترین مقصد پورا ہو جائے گا کہ دُنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی اور ظلم و ستم اور حقوق کی پامالی نہیں ہو گی یہاں تک کہ گھریلو زندگی میں بھی ایک دوسرے سے تعلقات میں بھی کوئی ظلم و ستم نہیں ہو گا۔

۲ ۔ ایمانی، اخلاقی اور فکری رشد

قارئین کرام! ہم نے گزشتہ صفحات میں یہ عرض کیا ہے کہ معاشرہ میں عدل و انصاف کے عام ہونے سے معاشرہ میں رہنے والوں کی صحیح تربیت اور قرآن و عترت کی ثقافت رائج ہو جائے گی، جیسا کہ آئمہ علیہم السلام سے منقول روایات میں امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت کے زمانہ میں ایمانی، اخلاقی اور فکری رشد و نمو کی وضاحت کی گئی ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”جب ہمارے قائم (آل محمد) ظہور کریں گے تو وہ اپنا دست کرم خدا کے بندوں کے سروں پر رکھیں گے جس کی برکت سے ان کی عقل و خرد اپنے کمال پر پہنچ جائے گی“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ح ۱۷ ، ص ۶۳۳)

اور جب انسان کی عقل کمال پر پہنچ جاتی ہے تو تمام خوبیاں اور نیکیاں خود بخود اس میں پیدا ہونے لگتی ہیں کیونکہ عقل انسان کے لئے باطنی پیغمبر ہے کہ اگر جسم و روح کے ملک پر اس کی حکومت ہو جائے تو پھر انسان کی فکر اور عمل راہ خیر و اصلاح پر چل پڑتے ہیں اور خدا کی بندگی اور سعادت کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ عقل کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: عقل وہ (حقیقت) ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت کی جائے اور اس کی (رہنمائی کی) وجہ سے جنت حاصل کی جائے“۔ (اصول کافی، ج ۱ ، ح ۳ ، ص ۸۵)

جی ہاں! آج کے معاشرہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام اور ان کی حکومت کے بغیر عقل پر شہوات اور خواہشات کا غلبہ ہے اور گروہوں اور پارٹیوں پر سرکش نفس حکومت کئے جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں دوسروں کے حقوق پامال اور الٰہی اقدار کو بھلایا جا رہا ہے لیکن ظہور کے زمانہ میں اور حجت خدا (جو عقل کامل ہیں) کی حکومت کے زیر سایہ عقل حکم کرنے والی ہو گی اور جب انسان کی عقل کمال کی منزل پر پہنچ جائے گی تو پھر نیکیوں اور خوبیوں کے علاوہ کوئی حکم نہیں کرے گی۔

۳ ۔ اتحاد اور محبت

متعدد روایات کے پیش نظر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں زندگی بسر کرنے والے افراد آپس میں متحد اور محبوب ہوں گے اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے مومنین کے دلوں میں کینہ اور دشمنی کے لئے کوئی جگہ نہ ہو گی۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: وَلَو قَد قَامَ قَائِم نَا.... لَذَہَبَتِ الشَّح نَائُ مِن قُلُوبِ ال عِبَاد....

”جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو بندگان خدا کے دلوں میں کینہ (اور دشمنی) نہیں رہے گی“۔

اس زمانہ میں کینہ اور دشمنی کے لئے کوئی بہانہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ وہ زمانہ عدل و انصاف کا ہو گا جس میں کسی کا کوئی حق پامال نہیں ہو گا، اور وہ زمانہ خردمندی اور غور و فکر کا ہو گا نہ کہ مخالفت عقل اور شہوت پرستی کا۔ ( اس سے پہلے دو حصوں میں امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں عدالت اور عقلی کمال کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے)

لہٰذا بغض و حسد اور دشمنی کے لئے کوئی بہانہ نہیں رہ جائے گا، اور اس طرح لوگوں کے دلوں میں انس اور اُلفت پیدا ہو جائے گی جیسا کہ اس سے پہلے اختلاف اور انتشار پایا جائے گا اور سب قرآنی اخوت اور برادری کی طرف پلٹ جائیں گے۔ (سورہ حجرات کی آیت نمبر ۰۱ کی طرف اشارہ ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے انما المومنون اخوة مومنین آپس میںبھائی ہیں) اور آپس میں دو بھائیوں کی طرح ہمدل اور مہربان ہوں گے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کے سنہرے زمانہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”(اس زمانہ میں) خداوند عالم، پریشان اور منتشر لوگوں میں وحدت اور اُلفت ایجاد کر دے گا“۔ (کمال دین، ج ۲ ، باب ۵۵ ، ح ۷ ، ص ۸۴۵)

اور اگر خدا کی مدد اس وقت رہے گی تو پھر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس مادّی کشمکش کے بحران میں اس ہمدلی، اُلفت اور دلی محبت کا اندزہ لگانا مشکل ہو۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو واقعی دوستی اور حقیقی ہمدلی (اس حد تک) ہو گی کہ ضرورت مند اپنے برادر ایمانی کی جیب سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ نکال لے گا اور اس کا (دینی) بھائی اسے نہیں روکے گا“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ح ۴۶۱ ، ص ۲۷۳)

۴ ۔ جسمانی اور نفسیاتی سلامتی

آج کل انسان کی ایک بڑی مشکل ”لاعلاج اور خطرناک بیماریاں“ ہیں جو مختلف چیزوں کی بنا پر پیدا ہو رہی ہیں جیسے ہمارے رہنے کی فضا آلودہ ہونا اور کیمائی اور ایٹمی اسلحوں کا استعمال، اسی طرح انسانوں کے درمیان آپس میں ناجائز رابطہ، نیز درختوں کا کاٹ ڈالنا اور دریاوں کا پانی نابود کرنا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں مختلف خطرناک بیماریوں کی وجوہات ہیں جیسے جذام، طاعون، فلج، سکتہ اور دیگر بہت سی بیماریاں جن کا آج کے زمانہ میں کوئی علاج نہیں ہے اور جسمانی بیماریوں کے علاوہ رُوحی اور نفسیاتی بیماریاں بھی جس کی وجہ سے دُنیا بھر میں انسان کی زندگی بدمزہ اور ناقابل برداشت ہو گئی ہے البتہ یہ سب دُنیا اور انسان پر غلط چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں کہ جو عدل و انصاف اور نیکیوں کا زمانہ ہو گا اور تعلقات برادری اور برابری کی بنیاد پر ہوں گے، انسان کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور انسان کی بدنی اور روحانی طاقت تعجب آور شکل میں بڑھ جائے گی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”جب حضرت قائم امام مہدی علیہ السلام قائم کریں گے تو خداوند عالم مومنین سے بیماریوں کو دُور فرما دے گا اور صحت و تندرستی عنایت کرے گا“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ح ۸۳۱ ، ص ۴۶۳)

آپ کی حکومت میں جب علم و دانش کی بہت زیادہ ترقی ہو گی تو کوئی لاعلاج بیماری باقی نہیں رہے گی، علم طب اور ڈاکٹری میں بہت زیادہ ترقی ہو گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی برکت سے بہت سے بیماروں کو شفا مل جائے گی۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”جو شخص ہم اہل بیت کے قائم کا زمانہ دیکھے گااگر اس کو کوئی بیماری ہو جائے گی تواسے شفا مل جائے گی اور اگر کمزوری کا شکار ہو جائے گا تو صحت مند اور طاقتور ہو جائے گا“۔

(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ح ۸۶ ، ص ۵۳۳)

۵ ۔ بہت زیادہ خیر و برکت

قائم آل محمد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا ایک عظیم ثمرہ یہ ہو گا کہ اس زمانہ میں خیر و برکت اس قدر ہو گی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ آپ کی حکومت کی بہار میں ہر جگہ سبز و شاداب اور حیات بخش ماحول ہو گا، آسمان سے بارشین ہوں گی اور زمین میں اچھی فصلیں ہوں گی اور ہر طرف خدا کی برکت دکھائی دیتی ہوئی نظر آئے گی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”........ خداوند عالم ان (امام مہدی علیہ السلام) کی وجہ سے زمین و آسمان سے برکتوں کی بارش کرے گا (اور ان کے زمانہ میں) آسمان سے بارشیں ہوں گی اور زمین میں اچھی فصلیں ہوں گی“۔ (غیبت طوسی، ح ۹۴۱ ، ص ۸۸۱)

امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں کوئی زمین بنجر نہیں ملے گی اور ہر جگہ ہریالی اور شادابی ہو گی۔ یہ عظیم الشان اور بے نظیر تبدیلی اس وجہ سے پیدا ہو گی کہ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں تقویٰ اور پاکیزگی اور ایمان کے پھول کھلنے لگیں گے، معاشرہ کے تمام لوگ الٰہی تربیت کے تحت اپنے تعلقات کو اسلامی اور الٰہی اقدار کے سانچے میں ڈھال لیں گے اور جیسا کہ خداوند عال نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایسے پاک و پاکیزہ ماحول کوخیر و برکات سے سیراب کر دُوں گا۔

قرآن مجید نے اس سلسلہ میں فرمایا:

( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ .) .. (سورہ اعراف، آیت ۹۶ )

”اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔

۶ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دور میںفقر و ناداری کی نابودی

جس وقت امام مہدی علیہ السلام کے لئے زمین کے تمام خزانے ظاہر ہو جائیں گے اور زمین و آسمان سے مسلسل برکتیں ظاہر ہوں گی اور مسلمانوں کا بیت المال عدالت کی بنیاد پر تقسیم ہو گا تو پھر فقر اور تنگدستی کا کوئی وجود نہیں رہے گا، اور آپ علیہ السلام کی حکومت میں ہر انسان فقر و ناداری کے دلدل سے آزاد ہو جائے گا۔ (منتخب الاثر، فصل ۷ ، باب ۴ ، ۳ ، ص ۹۸۵ تا ۳۹۵)

آپ علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں اقتصادی اور کاروباری مسائل، برادری اور برابری کی بنیاد پر ہوں گے اور خود غرضی اور ذاتی مفاد کی جگہ اپنے دینی بھائیوں سے دلسوزی، ہمدردی اور غمخواری کا احساس پیدا ہو گا، اس موقع پر سب آپس میں ایک دوسرے کو گھر کے ایک ممبرکے عنوان سے دیکھیں گے اور سب کو اپنا تصور کریں گے اور محبت و ہمدردی کی خوشبو ہر جگہ پھیلی ہو گی۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ”........ (امام مہدی علیہ السلام) سال میں دو بار لوگوں کو بخشش وعطیہ دیا کریں گے، اور مہینہ میں دو دفعہ کی روزی (اور معاش زندگی) عطا فرمایا کریں گے، (اور اس کام میں) لوگوں کے درمیان مساوات قائم کریں گے، یہاں تک کہ (لوگ ایسے بے نیاز ہو جائیں گے کہ) زکوٰة لینے والا کوئی نیازمند نہیں مل پائے گا........“۔(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ح ۲۱۲ ، ص ۰۹۳)

مختلف روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے درمیان غربت کے احساس کے نہ ہونے کی وجہ یہ ہو گی کہ ان کے یہاں روحانی طور پر بے نیازی اور قناعت کا احساس پایا جاتا ہو گا، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ قبل اس کے کہ کوئی ان کو مال و دولت عطا کرے خود ان کے باطن میں بے نیازی کا احساس پیدا ہو جائے گا اور جو کچھ خداوند عالم نے اپنے فضل و کرم سے عنایت کیا ہو گا اس پر وہ راضی اور خشنود رہیں گے لہٰذا دوسروں کے مال کی طرف آنکھ بھی نہیں اُٹھائیں گے۔ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: ”........ خداوند عالم بے نیازی (کا احساس) اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کر دے گا“۔ (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۲۹)

جبکہ ظہور سے پہلے انسان میں خودغرضی اور مال و دولت جمع کرنے اور غریبوں پر خرچ نہ کرنے کی عادت ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت میں انسان اندرونی اور بیرونی لحاظ سے بے نیاز ہو جائے گا، اس کے علاوہ ایک طرف بہت سی دولت عادلانہ طور پر تقسیم ہو گی اور دوسری طرف انسانوں کے درمیان قناعت پیدا ہو جائے گی۔ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے مومنین پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بخشش کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے اضافہ فرمایا: ”اور خداوند عالم میری اُمت کو بے نیاز کر دے گا اور عدالت مہدوی سب پر اس طرح نافذ ہو گی کہ (حضرت امام مہدی علیہ السلام) حکم فرمائیں گے کہ منادی یہ اعلان کر دے: کون ہے جس کو مال کی ضرورت ہے؟ لیکن اس اعلان کو سُن کر کوئی قدم نہیں بڑھائے گا سوائے ایک شخص کے! اس موقع پر امام علیہ السلام (اس سے) فرمائیں گے: خزانہ دار کے پاس جاو اور اس سے کہنا کہ امام مہدی علیہ السلام کی طرف سے تمہارے لئے حکم یہ ہے کہ مجھے مال و دولت دے دو۔ یہ سُن کر خزانہ دار کہے گا کہ اپنی چادر پھیلاو اور اس کی چادر کو بھر دیا جائے گا اور جب وہ کمر پر لاد کر چلے گا تو پشیمان ہو جائے گا اور کہے گا: اُمت محمدی (ص) میں صرف تو ہی اتنا لالچی ہے........ جس کے بعد وہ مال واپس کرنے کے لئے جائے گا لیکن اس سے قبول نہیں کیا جائے اور اس سے کہا جائے گا: ہم جو کچھ عطا کر دیتے ہیں وہ واپس نہیں لیتے“۔

(سورہ توبہ، آیت ۳۳ ، سورہ فتح، آیت ۸۲ ، سورہ صف، آیت ۹)

۷ ۔ اسلام کی حکومت اور کفر کی نابودی

قرآن کریم نے تین مقامات پر وعدہ دیا ہے کہ خداوند عالم دین مقدس اسلام کو پوری دُنیا پر غالب کرے گا:

( هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) (سورہ توبہ، آیت ۳۳ ، سورہ فتح آیت ۸۲ ، سورہ صف آیت ۹)

”وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو“۔

جبکہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوند عالم کا وعدہ پورا ہونے والا ہے وہ کبھی بھی خلاف وعدہ عمل نہیں کرتا جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے:( اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخلِفُ المِیعَادِ ) (سورہ آل عمران، آیت ۹)

”........ بے شک اﷲ خلاف وعدہ عمل نہیں کرتا“۔ لیکن یہ بات روشن ہے کہ مسلسل سعی و کوشش کے باوجود بھی پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) اور اولیائے خدا علیہم السلام اب تک ایسی مبارک تاریخ نہیں دیکھ پائے ہیں۔ (یہ گفتگو صرف دعویٰ کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور شیعہ و سنی مفسرین نے اس سلسلہ میں گفتگو کی ہے جیسے فخر رازی نے تفسیر کبیر ج ۶۱ ، ص ۰۴ اور قرطبی نے تفسیر قرطبی ج ۸ ، ص ۱۲۱ میں اور علامہ طبرسی نے مجمع البیان ج ۵ ، ص ۵۳ میں)

اور تمام مسلمان ایسے دن کا انتظار کر رہے ہیں، البتہ یہ ایک ایسی حقیقی آرزو ہے جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے کلام میں موجود ہے، لہٰذا اس ولی پروردگار کی حکومت کے زیر سایہ ”اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ“ کا نعرہ بلند ہو گا جو توحید کا پرچم ہے اور ”اشہد ان محمد رسول اللّٰہ“ کی آواز جو اسلام کا علم ہے ہر جگہ لہراتا ہوا نظر آئے گا اور کسی بھی جگہ کفر و شرک کا وجود باقی نہ بچے گا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے درج ذیل آیت کی وضاحت میں فرمایا:( وَ قَاتِلُوهُم حَتّٰی لَا تَکُونَ فِتنَةَ وَیَکُونَ الدِّین کُلَُّهُ لِلّٰهِ ) . (سورہ انفال، آیت ۹۳)

”اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے“۔

”اس آیت کی تاویل ابھی تک نہیں ہوئی ہے اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور جو شخص آپ کے زمانہ کو درک کرے گا وہی اس کی تاویل کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا، بے شک (اس زمانہ میں) دین محمدی (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) جہاں تک رات کا اندھیرا پہنچتا ہے پہنچ جائے گا اور پوری دُنیا میں پھیل جائے گا اور اس طرح سے زمین سے شرک کا نام و نشان مٹ جائے گا ، جیسا کہ خداوند عالم نے وعدہ فرمایا“! (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۵۵)

البتہ پوری دُنیا میں اسلام کا پھیل جانا ”اسلام“ کی حقانیت اور واقعیت کی وجہ سے ہو گا کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کی حقانیت واضح ہو جائے گی اور سب کو اپنی طرف راغب کرلے گا صرف وہی لوگ باقی بچیں گے جو بغض و عناد واور سرکشی کے شکار ہوںگے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شمشیر عدالیت ان کے سامنے آئے گی اور یہی خداوند عالم کا انتقام ہو گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میںاعتقادی وحدت

اس سلسلہ کا آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ اعتقادی وحدت (یعنی سب کا اسلام کے دائرہ میں آجانا) حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں پیش آئے گی اور یہ موقع عالمی معاشرہ کی تشکیل کے لئے بہت مناسب ہو گا جبکہ پوری دُنیا اسی اتحاد و ہمدلی اور توحیدی نظام اور قانون کو قبول کرے گی اور اس کے زیرِ سایہ اپنے انفرادی اور اجتماعی تعلقات اسی ایک عقیدہ سے حاصل شدہ معیار کی بنا پر مرتب کریں گے اور اس بیان کے مطابق وحدت عقیدتی اور دین واحد کے پرچم کے نیچے جمع ہونا ایک حقیقی ضرورت ہو گی جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں حاصل ہو گی۔

۸ ۔ عمومی امن و آسائش

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں کہ جب زندگی کے ہر پہلو میں خوبیاں اور نیکیاں عام ہو جائیں گی تو امنیت حاصل ہو جائے کہ جو الٰہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے اور انسان کی سب سے بڑی تمنا ہے۔

جس وقت انسان ایک عقیدہ اور اسلامی کی پیروی کریں گے اور معاشرہ کے درمیان بلند اخلاقی اصول نافذ ہوں اور عدالت ہر انسان پر حاکم ہو تو پھر زندگی کے کسی بھی حصہ میں بدامنی اور خوف و وحشت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ جس معاشرہ میں ہر شخص کو اس کا حق مل رہا ہو گا تو پھر وہ کسی دوسرے پر ظلم و ستم اور انسانی و الٰہی حقوق پامال نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے ساتھ سخت کارروائی کی جائے گی لہٰذا ایسے موقع پر ہر طرف امن و اماں اور چین و سکون سے رہے گا۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:”ہمارے ذریعہ ایک سخت زمانہ گزار ہے.... اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور دلوں سے دشمنی اور کینہ نکل جائے گا، حیوانوں میں بھی آپس میں اتفاق ہو گا، (اس کے زمانہ میں ایسا امن و امان قائم ہو گا کہ) عورتیں اپنے زیورات پہن کر عراق سے شام تک کا سفر کریں گی........ لیکن ان کے دل میں کسی طرح کا خوف نہیں ہوگا“۔ (خصال شیخ صدوق، ج ۲ ، ص ۸۱۴)

قارئین کرام! ہم چونکہ بے عدالتی، لالچ اور بغض و کینہ کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا ہمارے لئے اس سبز و شاداب دُنیا کا تصور بہت مشکل ہے لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا اگر ہم اپنی برائیوں اور گناہوں کے اسباب کے بارے میں غور و فکر کریں اور یہ تصور کریں کہ یہ تمام برائیاں امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ختم ہو جائیں گی تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ معاشرہ میں امن و امان قائم ہونے کا الٰہی وعدہ یقینی ہے۔

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ) ۔۔(سورہ نور، آیت ۵۵)

”اﷲ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین پراسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا........“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ آیہ شریفہ (امام) قائم علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے“۔

( غیبت نعمانی، ح ۵۳ ، ص ۰۴۲)

۹ ۔ علم کی ترقی

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں اسلامی اور انسانی علوم کے بہت سے اسرار واضح ہو جائیں گے اور انسان کا علم ناقابل تصور طریقہ سے ترقی کرے گا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”علم و دانش ۷۲ حروف ہیں، اور جو کچھ بھی تمام انبیاءعلیہم السلام لے کر آئے ہیں وہ صرف ۲ حرف ہیں جبکہ عوام الناس صرف دو حرفوں کو بھی نہیں جانتے، جس وقت ہمارے قائم کا ظہور ہو گا تو ان ۵۲ حروف کے علم کو بھی لوگوں کو تعلیم دیں گے اور ان دو حرفوں کو بھی ان میں اکٹھا کر دیں گے جس کے بعد تمام ۷۲ حروف کا علم نشر فرمائیں گے“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۶۳۳)

ظاہر سی بات ہے کہ انسان علم کے ہر پہلو میں ترقی کرےگا، متعدد روایات میں ہونے والے اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں صنعتی علم آج کے زمانہ سے کہیں زیادہ ہو گا“۔ ( البتہ ممکن ہے کہ مذکورہ روایات میں معجزہ کی طرف اشارہ ہو؟)

جیسا کہ اس وقت کی صنعت صدیوں پہلی صنعت سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ قارئین کرام! ہم یہاں پر اس سلسلہ میں بیان ہونے والی چند روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت میں رابطہ کی کیفیت کے بارے میں فرمایا: ”قائم آل محمد (ص) کی حکومت کے زمانہ میں مشرق میں رہنے والا مومن اپنے مغرب میں رہنے والے بھائی کو دیکھتا ہو گا........“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۱۹۳)

اسی طرح امام علیہ السلام نے فرمایا: ”جس وقت ہم اہل بیت (علیہم السلام) کا قائم ظہور کرے گا تو خداوند عالم ہمارے شیعوں کی آنکھوں اور کانوں کی طاقت میں اضافہ فرمائے گا اس طرح سے امام مہدی علیہ السلام چار فرسخ کے فاصلہ سے اپنے شیعوں سے گفتگو کریں گے اور وہ آپ کی باتوں کو سنیں گے ، نیز وہ آپ کو دیکھتے ہوں گے حالانکہ اپنے مقام پر کھڑے ہوں گے“۔(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۶۳۳) حضرت امام مہدی علیہ السلام کا حکومت کے رئیس اور حکم صادر کرنے والے کے عنوان سے لوگوں کے حالات سے باخبر ہونے کے بارے میں روایت کہتی ہے: ”اگر کوئی شخص اپنے گھر میں گفتگو کرے گا تو اسے اس چیز کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کے گھر کی دیواریں اس کو باتوں کو (امام علیہ السلام تک) نہ پہنچا دیں“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۰۹۳)

آج کل کے مواصلاتی نظام کی ترقی مدنظر ان روایات کو سمجھنا آسان ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا یہی وسائل مزید ترقی کے ساتھ استعمال کئے جائیں گے یا کوئی اس سے زیادہ پیچیدہ دوسرا نظام استعمال کیا جائے گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کیحکومت کے امتیازات

اس سے قبل صفحات میں امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت کے اہداف، پروگرام اور نتائج کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے، اس آخری حصہ میں آپ کی حکومت کے امتیازات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں مثلاً حکومت کی حدود اور اس کا مرکز حکومت کی مدت اور کارکنوں کاطریقہ کار کی پہچان اور حکومت کے عظیم الشان رہبر (امام مہدی علیہ السلام) کی سیرت۔

آپ کیحکومت کی حدود اور اس کا مرکز

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت ایک عالمی حکومت ہو گی، کیونکہ آپ عالم بشریت کے موعود اور ہر انسان کی آرزووں کو پورا کرنے والے ہیں، لہٰذا آپ کی حکومت کے زیر سایہ معاشرہ میں جس قدر خوبیاں اور نیکیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ پوری دُنیا میں پھیل جائیں گی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں متعدد روایات گواہ ہیں جن میں سے چند روایات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

الف: وہ متعدد روایات جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام ”ارض“ (زمین) کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم و جور سے بھری ہو گی (کمال الدین، باب ۵۲ ، ح ۴ ، باب ۴۲ ، ح ۱،۷)

اور ”زمین“ تمام کرہ خاکی کو شامل ہے لہٰذا اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ”ارض“ کے معنی کو زمین کے کسی ایک حصہ سے محدود کیا جائے۔

ب: وہ روایات جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مختلف علاقوں پر تسلط کی خبر دی گئی ہے ان علاقوں کی وسعت اور اہمیت کے پیش نظر اس بات کی حکایت ہوتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام پوری دُنیا پر مسلط ہو جائیں گے لہٰذا بعض شہروں اور ملکوں کا نام مثال اور نمونہ کے طور پر لیا گیا ہے اور ان روایات کو سمجھنے والوں کے ادراک کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

مختلف روایات میں روم، چین، دیلم یا دیلم کے پہاڑ، ترکی، سندھ، ہند، قسطنطنیہ، کابل شاہ اور خزر کا نام آیا ہے کہ جن پر امام مہدی علیہ السلام کا قبضہ ہو گا اور امام علیہ السلام ان تمام مذکورہ مقامات کو فتح کریں گے۔ (غیبت نعمانی اور احتجاج طبرسی)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ علاقے ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں آج کل کے علاقوں سے کہیں زیادہ وسیع تھے، مثال کے طور پر ”روم“ یورپ اور امریکہ کو شامل ہوتا تھا اور چین سے مشرقی ایشیاءمراد ہوتا تھا جن میں جاپان بھی شامل تھا جیسا کہ اُس وقت ”ہندوستان“ پاکستان کو بھی شامل تھا۔

شہر قسطنطنیہ وہی استنبول ہے جس کو اس زمانہ میں طاقتور شہر کے عنوان سے یاد کیا جاتاتھا کہ اگر اس شہر کو فتح کر لیا جاتا تھا تو ایک بہت بڑی کامیابی شمار کیا جاتا تھا کیونکہ یورپ میں جانے والے راستوں میں سے ایک یہی راستہ تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا دُنیا کے اہم اور حساس علاقوں پر مسلط ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی حکومت پوری دُنیا پر ہو گی۔

ج: پہلے اور دوسرے حصہ کی گزشتہ روایات کے علاوہ بہت سی ایسی روایات موجود ہیں جن میں پوری دُنیا پر حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کی وضاحت کی گئی ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ہے کہ خداوند عالم نے فرمایا: ”میں اپنے دین کو ان (بارہ آئمہ) کے ذریعہ تمام ادیان پر غالب کر دُوں گا اور انہیں کے ذریعہ اپنے حکم کو (سب پر) نافذ کروں گا، اور ان میں سے آخری (امام مہدی علیہ السلام) کے (قیام کے) ذریعہ پوری دُنیا کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اور اس کو مشرق و مغرب پر حاکم قرار دُوں گا“۔(کمال الدین، ج ۱ ، باب ۳۲ ، ح ۴ ، ص ۷۷۴)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:اَلقَائِم مِنَّا یَبلُغُ سُلطَانَهُ المشرِق وَالمَغرِبَ وَیَظهَر اللّٰهُ عَزَّوَجَل بِهِ دِینهُ عَلَی الدِّینِ کله وَ لو کرهَ المشرِکُون ۔ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۲۲ ، ح ۶۱ ، ص ۳۰۶)

”قائم آل محمد (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) (وہ ہیں جو دُنیا کے) مشرق و مغرب پر حکومت کریں گے اور خداوند عام اپنے دین کو ان کے ذریعہ دنیا کے تمام ادیان پر مغلوب کرے گا، اگرچہ مشرکین کو یہ بات ناگوار لگے“۔

اور امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کا مرکز تاریخی شہر ”کوفہ“ رہے گا جو اس زمانہ میں بہت وسیع ہو جائے گا، جس میں نجف اشرف بھی شامل ہو گا کہ جو چند کلوم میٹر کے فاصلہ پر ہو گا، اسی وجہ سے بعض روایات میں کوفہ اور بعض روایات میں نجف اشرف کو امام مہدی علیہ السلام کا مرکز حکومت قرار دیا گیا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک طولانی روایت کے ضمن میں فرمایا:

”(مہدی علیہ السلام) کی حکومت کا مرکز شہر کوفہ ہو گا اور مسند قضاوت کوفہ کی (عظیم الشان) مسجد میں ہو گی“۔ (بحارالانوار، ج ۳۵ ، ص ۱۱)

قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانہ سے شہر کوفہ پر اہل بیت علیہم السلام کی توجہ رہی ہے اور یہی شہر اور حضرت علی علیہ السلام کا مرکز حکومت رہا ہے اور شہر کوفہ کی مسجد عالم اسلام کی مشہور و معروف مسجدوں میں سے ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام نے نماز پڑھی ہے اور خطبے ارشاد فرمائے ہیں، نیز اسی مسجد میں مسند قضاوت پر بیٹھ کر لوگوں کے فیصلے کئے ہیں اور آخر میں اسی مسجد کی محراب میں شہید ہوئے ہیں۔

حکومت کی مدت

جب عالم بشریت ایک طولانی زمانہ تک ظلم و ستم کی حکومت کو برداشت کرلے گا تو خداوند عالم کی آخری حجت کے ظہور سے پوری دُنیا نیکیوں (اور عدل و انصاف) کی حکومت کے استقبال کے لئے آگے بڑھے گی اور حکومت نیک اور صالح افراد کے ہاتھوں میںہو گی، اور یہ خدا کا یقینی وعدہ ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کی حاکمیت کے تحت نیک اور اور صالح افراد کی اس حکومت کی شروعات ہوں گی اور دُنیا کے خاتمہ تک یہ حکومت باقی رہے گی اور پھر ظلم اور ظالموں کا زمانہ نہیں آئے گا۔

پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول مذکورہ روایت میں نقل ہوا ہے کہ خداوند عالم نے اس آخری معصوم کی حکومت کی بشارت ا پنے رسول کو دی ہے جس کے آخر میں ارشاد فرمایا:

”جب امام مہدی علیہ السلام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے تو ان کی حکومت کا سلسلہ جاری رہے گا اور قیامت کے لئے زمین کی حکومت کو اپنے اولیاءاور محبوں کے ہاتھوں میں دیتا رہوں گا“۔ (کمال الدین، ج ۱ ،باب ۳۲ ،ح ۴ ،ص ۷۷۴)

اس بنا پر حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ذریعہ قائم کردہ عادلانہ نظام کے بعد کوئی دوسرا حکومت نہیںکر سکے گا، درحقیقت حیات انسانی کے لئے ایک نئی تاریخ شروع ہو گی جو تمام تر حکومت الٰہی کے زیر سایہ ہو گی۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”ہماری حکومت آخری حکومت ہو گی اور کوئی بھی صاحب حکومت یاخاندان ایسا باقی نہیں بچے گا جو ہماری حکومت سے پہلے حکومت نہ کر لے تاکہ جب ہماری حکومت قائم ہو اور اسکے نظام اور طور و طریقہ کو دیکھ کر یہ نہ کہے کہ اگر ہم بھی حکومت کرتے تو اسی طرح عمل کرتے“۔

(غیبت طوسی، فصل ۸ ، ح ۳۹۴ ، ص ۲۷۴)

لہٰذا ظہور کے بعد الٰہی حکومت کی مدت حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت سے الگ ہے کہ روایات کے مطابق آپ اپنی باقی عمر میں حاکم رہیں گے اور آخرکار اس دُنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ اتنا ہو گا کہ جس میں اتنا عظیم عالمی انقلاب اور دنیا کے ہر گوشہ میں عدالت قائم ہونے کا امکان پایا جاتا ہو لیکن یہ کہنا کہ یہ مقصد چند سال میں پورا ہو سکتا ہے تو ایسا صرف گمان اور اندازہ کی بنا پر ہے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں (بھی) آئمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی طرف رجوع کیا جائے البتہ اس الٰہی رہبر کی لیاقت اور آپ اور آپ کے اصحاب کے لئے غیبی امداد اور ظہور کے زمانہ میں عالمی پیمانہ پر دینی اقدار اور نیکیوں کو قبول کرنے کی تیاری کے پیش نظر ممکن ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی یہ ذمہ داری نسبتاً کم مدت میں پوری ہو جائے اور جس انقلاب کو برپا کرنے کے لئے تاریخ بشریت صدیوں سے عاجز ہو وہ ۰۱ سال سے کم میں ہی تشکیل پا جائے۔

جن روایات میں امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ کو بیان کیا گیا ہے وہ باہم اختلاف رکھتی ہیں۔ ان میں سے بعض روایات میں امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی مدت ۵ سال ہے اور بعض میں ۷ سال اور بعض میں ۸ سال اور بعض میں ۰۱ سال بیان ہوئی ہے۔ چند روایتوں میں اس حکومت کی مدت ۹۱ سال اور چند مہینے اور کچھ روایات میں ۰۴۱ اور ۹۰۳ سال بھی بیان کئے گئے ہیں۔ (روایات سے مزید آگاہی کے لئے کتاب چشم اندازی بہ حکومت مہدی علیہ السلام تالیف نجم الدین طبسی، ص ۳۷۱ تا ۵۷۱ کی طرف رجوع فرمائیں)

روایات میں اس اختلاف کی علت معلوم نہ ہونے کے علاوہ ان روایات کے درمیان سے آپ کی حکومت کی حقیقی مدت کا پتہ لگانا ایک مشکل کام ہے لیکن بعض شیعہ علماءنے بعض روایات کی شہرت اور کثرت کی بنا پر ۷ سال والے نظریہ کو منتخب کیا ہے( المہدی، سید صدر الدین صدر، ص ۹۳۲ ، تاریخ ما بعد الظہور سید محمد صدر) جبکہ بعض افراد نے یہ بھی کہا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت ۷ سال ہو گی لیکن اس کا ایک سال ہمارے دس سال کے برابر ہو گا جیسا کہ بعض روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے:

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روای نے امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی مدت کے سلسلہ میں سوال کیا تو فرمایا: ”(حضرت امام مہدی علیہ السلام) سات سال حکومت کریں گے جو تمہارے ۰۷ سال کے برابر ہوں گے“۔ ( غیبت طوسی، فصل ۸ ، ح ۷۹۴ ، ص ۴۷۴)

مرحوم مجلسیؒ فرماتے ہیں:حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بارے میں بیان ہونے والی روایات میں چند درج ذیل احتمالات دینا چاہیے، بعض روایات میں حکومت کی پوری مدت کی طرف اشارہ ہوا ہے جبکہ بعض دوسری روایات میں حکومت کے استحکام اور ثبات کی طرف اشارہ ہوا ہے بعض روایات میں ہمارے زمانہ کے سال اور دنوں کے مطابق ہے اور بعض امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ کی گفتگو ہوئی ہے جبکہ خداوند عالم حقیقت سے زیادہ آگاہ ہے“۔ (بحارالانوار، ج ۳۵ ، ص ۰۸۲)

رہبر اسلام آقای سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی نے اس بارے فرمایا ہے کہ جس عادلانہ حکومت کے قیام واسطے ہزاروں سال انسانوں نے انتظار کیا وہ خراسان میں ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ آپ کی آمد سے انسان کے لئے انسانیت کی شب براہ اعظم کا افتتاح ہوگا اور اس کا اختتام قیامت ہے جیسا کہ بعض روایات سے بھی یہ بات ثابت ہے۔

امام علیہ السلام کی نجی زندگی

ہر حاکم اپنی حکومت اور اس کے مختلف شعبوں میں ایک مخصوص طریقہ کار اپناتا ہے جو اس کی حکومت کا امتیاز ہوتا ہے۔ امام منتظر امام مہدی علیہ السلام بھی جب پوری دُنیا کی حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے تو اس عالمی نظام کی تدبیر ایک خاص روش کے تحت ہو گی لیکن موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مناسب ہے کہ آپ کی کارکردگی کے طریقہ کی طرف اشارہ کیا جائے اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے طور و طریقہ کے بارے میں پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے منقول احادیث کو پیش کیا جائے۔

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے روایات میں امام مہدی علیہ السلام کی حکومتی سیرت کے سلسلہ میں ایک کلی تصویر پیش کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا طریقہ کار وہی پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا طریقہ کار ہوگا اور جس طرح پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں تمام پہلووں کے اعتبار سے جاہلیت کا مقابلہ کیا اور اس ماحول میں اسلام حقیقی کو نافذ کیا کہ جو انسان کی دنیاوی اور اُخروی سعادت کا ضامن ہے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے موقع پر بھی اس زمانہ کی نئی جاہلیت سے مقابلہ کیا جائے گاجبکہ اس زمانہ کی جاہلیت آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ کی جاہلیت سے کہیں زیادہ دردناک ہو گی اور ماڈرن جاہلیت کے ویرانوں پر اسلامی و الٰہی اقدار کی عمارت تعمیر ہو گی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ امام مہدی علیہ السلام کا حکومتی انداز کیا ہو گا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یَص نَع کَمَا صَنَعَ رَسُو ل اللّٰہِ (ص) یَھ دِم مَا کانَ قَب لَہُ کَمَا ہَدَمَ رَسُو لُ اللّٰہِ (ص) امرَ ال جَاہِلِیَةِ وَ یَس تِانِف الااِس لاٰمَ جَدِی داً (غیبت نعمانی، باب ۳۱ ، ح ۳۱ ، ص ۶۳۲)

”(امام مہدی علیہ السلام) پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی طرح عمل کریں گے، (اور) جس طرح آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے (لوگوں کے درمیان رائج) جاہلیت کی رسومات کو ختم کیا اسی طرح آپ علیہ السلام بھی اپنے ظہور سے پہلے موجود جاہلیت کی رسومات کو نابود کردیں گے اور اسلام کی نئے طریقہ سے بنیاد رکھیں گے“۔

امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت کے زمانہ میں ایک عام سیاست رہے گی، اگرچہ مختلف حالات کے پیش نظر حکومتی انداز میں تبدیلی کرنا پڑے گی جیسا کہ روایات میں بھی بیان ہوا ہے اور ہم اس سلسلہ میں بعد میں بحث کریں گے۔

جہاد اورمخالفین سے مقابلہ میں آپ کارویہ

حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے عالمی انقلاب کے ذریعہ زمین سے کفر و شرک کا خاتمہ کر دیں گے اور سب کو مقدس دین اسلام کی دعوت کریں گے۔

اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے:

”(امام مہدی علیہ السلام) کا طریقہ میرا طریقہ ہو گا اور لوگوں کو میری شریعت اور میرے اسلام کی طرف لے آئیں گے“۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۹۳ ، ح ۶ ، ص ۲۲۱) البتہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے موقع پر حق واضح ہو جائے گا اور ہر لحاظ سے دُنیا والوں پر حجت تمام ہو جائے گی۔ اس موقع پر بعض روایات کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام حقیقی اور تحریف سے محفوظ توریت و انجیل کو ”غارانطاکیہ“ سے باہر نکالیں گے اور انہیں کے ذریعہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے دلائل پیش کریں گے کہ ایک کثیر تعداد مسلمان ہو جائے گی (الفتن، ص ۹۴۲ ، تا ۱۵۲) اور جو چیز اس موقع پر مختلف قوم و ملت کے لوگ اسلام کی طرف مزید مائل ہونےکی باعث ہو گی وہ انبیاءعلیہم السلام کی نشانیاں جیسے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا، جناب سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا پرچم، ان کی تلوار اور زرہ آپ علیہ السلام کے پاس ہو گی۔ ( اثبات الھداة، ج ۳ ، ص ۹۳۴ تا ۴۹۴)

اور انبیاءعلیہم السلام کے مقاصد کو پورا کرنے اور عالمی عدالت کو برقرار کرنے کے لئے آپ قیام کریں گے۔ روشن ہے کہ ایسے موقع پر کہ جب حق و حقیقت واضح ہو جائے گی صرف ایسے ہی لوگ باطل کے مورچہ پر باقی رہیں گے جو اپنے انسانی اور الٰہی اقدار کو بالکل بھلا بیٹھے ہوں گے اور یہ ایسے لوگ ہوں گے جن کا کام صرف فساد و تباہی اور ظلم و ستم ہو گا۔ چنانچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا ایسے لوگوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے ہی موقع پر عدالت مہدوی کی چمکدار تلوار نیام سے باہر نکلے گی اور اپنی پوری طاقت سے ہٹ دھرم ستمگروں پر گرے گی جس سے کوئی نہ بچ سکے گا اور یہی طور و طریقہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) اور امیر المومنین علیہ السلام کا بھی تھا۔

( اثباة الھداة، ج ۳ ، ص ۰۵۴)

امام علیہ السلام کے فیصلے

چونکہ مہدی منتظر پوری دُنیا میں عدل و انصاف برقرار کرنے کےلئے پردہ غیب میں ہیں اور اپنی ذمہ ادری کو پورا کرنے کے لئے ان کو ایک مستحکم عدلیہ محکمہ کی ضرورت ہے لہٰذا امام مہدی علیہ السلام اس سلسلہ میں اپنے جد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے طریقہ پر عمل کریں گے اور اپنی پوری طاقت سے لوگوں کے پامال شدہ حقوق کو حاصل کرکے صاحبان حق کو واپس کر دیں گے۔ اور عدل و انصاف کا ایسا مظاہرہ کریں گے کہ زندہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ اے کاش مردہ لوگ بھی زندہ ہو جاتے اور امام علیہ السلام کے عدل و انصاف سے بہرہ مند ہوتے۔ (الفتن، ص ۹۹)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض روایات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام مقام قضاوت میں حضرت سلیمان علیہ السلام اورحضرت داود علیہ السلام کی طرح عمل کریں گے اور انہیں کی طرح علم الٰہی کے ذریعہ فیصلہ کریں گے نہ کہ دلیل اور گواہوں کی گواہی کی بنا پر۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو وہ جناب داود اور سلیمان کی طرح فیصلے کریں گے، (یعنی) شاہد اور گواہ طلب نہیں کریں گے۔ ( اثبات الھداة، ج ۳ ، ص ۷۴۴) اور شاید اس طرح کے فیصلوں کا راز یہ ہو کہ علم الٰہی پر اعتماد کرتے ہوئے حقیقی عدالت قائم ہو گی جبکہ اگر گواہوں کی باتوں پر بھروسہ کیا جائے تو ظاہری عدالت قائم ہوتی ہے کیونکہ بہرحال انسان گواہ ہوں تو ان میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے۔

البتہ امام مہدی علیہ السلام کا مذکورہ طریقہ سے فیصلے کرنے کی کیفیت کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے لیکن اتنا تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہ طریقہ کار اس زمانہ کے لے مناسب ہوگا۔

امام علیہ السلام کا حکومتی انداز

حکومتی عہدہ دار حکومت کے اہم رکن ہوتے ہیں جب کسی حکومت میں قابل اور شائستہ لوگ عہدہ دار ہوں تو پھر حکومت اور قوم کا نظام صحیح ہو جاتا ہے اور حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام عالمی حکومت کے سربراہ کے عنوان سے دنیا کے مختلف مقامات کے لئے عہدہ داروں کو اپنے بہترین ناصروں میں سے انتخاب فرمائیں گے جن کے اندر اسلامی حاکم کے تمام اوصاف پائے جاتے ہوں جیسے حکومتی اصول و قوانین میں مہارت، عہد و پیمان میں ثبات قدم، نیت و عمل میں پاکیزگی، ارادوں میں استحکام اور شجاعت۔ ان حالات میں حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) بزرگ حاکم اور دنیا کے مرکزی منتظم کے عنوان سے اپنے ماتحت عہدہ دارون پر نظر رکھیں گے اور چشم پوشی کے بغیر پوری سختی اور وقت کے ساتھ ان کا حساب و کتاب کریں گے جبکہ حاکم کی کئی ایک خصوصیات حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت سے پہلے بھلا دی گئی ہیں جس کو روایات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

عَلَامَة المَهدِی اَن یَکُونَ شَدِیداً عَلَی العمَّالِ جَوَاداً بِالمَالِ رَحِیماً بِالمَسَاکِینِ ۔ (معجم الاحادیث الامام المہدی علیہ السلام، ج ۱ ، ح ۲۵۱ ، ص ۶۴۲)

”(امام) مہدی علیہ السلام کی نشانی یہ ہے کہ اپنے عہدہ داروں کے ساتھ سخت ہوں گے اور مسکینوں (اور غریبوں) کے ساتھ بہت زیادہ بخشش و کرم سے پیش آئیں گے“۔

امام علیہ السلام کی حکومت میںاقتصادی نظام

حکومت کے مالی مسائل میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا طریقہ کار مساوات اور برابری اور عدالت پر مبنی قانون ہو گا اور یہ وہی طریقہ کار ہو گا جو خود پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں تھا لیکن آپ کے بعد یہ طریقہ کار بدل گیا اور جھوٹے معیار اس کی جگہ لائے گئے جن کی وجہ سے بعض لوگوں کو بے حساب مال و دولت دی گئی۔ اسی وجہ سے اسلامی معاشرہ طبقاتی ہو گیا۔ اگرچہ حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام اپنی خلافت کے زمانہ یں بیت المال کو برابر تقسیم کرنے پر پابند رہے لیکن ان حضرات سے پہلے بنی اُمیہ نے مسلمانوں کے بیت المال کو اپنی ذاتی مال کی طرح اپنی مرضی سے رشتہ داروں اور دوستوں میں بانٹا، اور اپنی غیر شرعی حکومت کو استحکام بخشا، اُنہوں نے کاشتکاری کے لئے زمینی یا دوسرے وسائل دولت اور بیت المال کو اپنے رشتہ داروں کو بخش دی اور یہ کام بنی اُمیہ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے ایسے انداز سے کیا کہ مالی انحر ۵ افات اسلامی معاشرہ میں عام ہو گئے اور بے عدالتی کی بنیاد رکھ دی گئی جس کے اثراب آج تک اسلامی دنیا میں موجود ہیں۔حضرت امام مہدی علیہ السلام جو عدل و انصاف کا مظہر ہیں آپ علیہ السلام مسلمانوں کے بیت المال میں سب کو شریک قرار دیں گے، جس میں کسی کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا اور مال و دولت اور زمین کی ناجائز بخشش بالکل بند کر دی جائے گی۔

پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

اِذَا قَامَ قَائِمُنَا اضمَحَلَّت القَظائِع فَلِا قَطائِعَ (یعنی وہ زمینیں جو ظالم حکام دوسروں کی زمینوں پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر دوسروں کو بخش دیتے ہیں)

”جس وقت ہمارا قائم قیام کرے گا، قطائع ( ۳) کا سلسلہ نہیں ہو گا،یعنی زمینوں کی بندرباٹ کاطریقہ ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ بالکل بند ہو جائے گا“۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مالی طریقہ کار یہ ہوگا کہ آپ علیہ السلام تمام لوگوں کی ضرورتوں کے لحاظ سے ان کی آسائش کے لئے مال و دولت بخشا کریں گے اور آپ علیہ السلام کی حکومت میں جو ضرورتمند شخص آپ علیہ السلام سے کچھ طلب کرے گا اس کو بہت زیادہ عطا کیا کریں گے۔

پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

فَهُوَ یَحشُوا المَالَ حَشواً (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۹۰۳)

”وہ (امام مہدی علیہ السلام) بہت زیادہ مال بخشا کریں گے“۔

اور یہ طریقہ کار انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ہو گا جو آئمہ معصومین کا عظیم ہدف ہے، حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا لوگوں کو مادی لحاظ سے بے نیاز کرنے کا مقصد یہ ہو گا کہ ان کے لئے خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت کا راستہ ہموار ہو جائے جس کو ”حکومت کے اغراض و مقاصد“ کی بحث میں تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔

امام علیہ السلام کااندازِحکومت

امام مہدی علیہ السلام کی ذاتی رفتار میں آپ علیہ السلام کی سیرت اور لوگوں سے آپ علیہ السلام کا رابطہ، اسلامی حکام کے لئے نمونہ ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت لوگوں کی خدمت اور انسانیت کو کمال کی بلندیوں پر پہنچانے کا ذریعہ ہے، نہ کہ مال و دولت جمع کرنے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے اور خدا کے بندوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا وسیلہ!!

واقعاً وہ صالحین کا امام جب مسند حکومت پر ہو گا تو پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) اور امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کی یاد تازہ ہو جائے گی، حالانکہ آپ کے پاس بہت سا مال و دولت ہو گا لیکن ان کی اپنی ذاتی زندگی معمولی ہو گی اور کم ہی چیزوں پر قناعت کریں گے۔

امام علی علیہ السلام آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں:

”امام (مہدی علیہ السلام) یہ عہد و پیمان کریں گے کہ (اگرچہ پورے انسانی معاشرہ کے رہبر اور حاکم ہوں گے لیکن) اپنی رعایا کی طرح راستہ چلیں اور ان کی طرح لباس پہنیں اوران کی سواری کی طرح سواری کریں.... اور کم پر ہی قناعت کریں“۔(معجم الاحادیث، الامام المہدی علیہ السلام، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ، ح ۳۴۱)

حضرت علی علیہ السلام خود بھی اسی طرح تھے، ان کی زندگی، خوراک اور لباس میں انبیاءکی طرح زہد تھا اور حضررت امام مہدی علیہ السلام اس سلسلہ میں (بھی) آپ علیہ السلام کی اقتدا کریں گے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:اِنَّ قَائِمَنَا اِذَا قَامَ لَبِسَ لِبَاسَ عَلِیّ وَ سَارَ بِسِیرَتِهِ ۔ (منتخب الاثر، فصل ۶ ، باب ۱۱ ، ح ۴ ، ص ۱۸۵)

”جب ہمارے قائم ظہور کریں گے تو حضرت علی علیہ السلام کی طرح لباس پہنیں گے اور آپ ہی کے طریقہ کار کو اپنائیں گے“۔

وہ خود اپنے بارے میں سخت رویہ کا انتخاب کریئن گے، لیکن اُمت کے ساتھ ایک مہربان باپ کی طرح پیش آئیں گے اور ان کے سکون اور آرام کے بارے میں سوچیں گے یہاں تک کہ حضرت امام رضا علیہ السلام آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں:

اَلاِمَامُ الاَنِیس الرَّفِیقِ وَالوَالِدُ الشَفِیق وَالاخ الشَقِیق وَالام البِرَّةِ بِالوَلَدِ الصَّغِیر مَفزِغُ العِبَادِ فِی الدَّاهِیةِ النَّادِ ( وسائل الشیعہ، ج ۳ ، ص ۸۴۳)

”وہ امام مونس و ہمدم، دوست، مہربان باپ اور حقیقی بھائی کی طرح ہوں گے نیز اس ماں کی طرح جو اپنے چھوٹے بچے پر مہربان ہوتی ہے اور خطرناک واقعات میں بندوں کے لئے پناہ گاہ ہوں گے“۔

جی ہاں! وہ (اپنے نانا کی) اُمت کے ساتھ اس قدر قریب اور مخلص ہوں گے کہ سب آپ علیہ السلام کو اپنی پناہ گاہ مانتے ہوں گے۔ پیغمبراکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ”اُمت ان کی پناہ حاصل کرے گی جس طرح شہد کی مکھی اپنی ملکہ کی پناہ حاصل کرتی ہیں“۔ (اصول کافی، ج ۱ ، ح ۱ ، ص ۵۲۲)

وہ رہبری کا مکمل مصداق ہوں گے جن کو لوگوں کے درمیان سے منتخب کیا گیا ہے اور ان کے درمیان انہیں کی طرح زندگی کریں گے اسی وجہ سے ان کی مشکلات کو اچھی طرح جانتے ہوں گے اور ان کی پریشانیوں کے علاج کو بھی جانتے ہوں گے اور ان کی فلاح و بہبودی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس سلسلہ میں صرف رضائے الٰہی کو مدنظر رکھیں گے تو پھر امت کے افراد بھی ان کے نزدیک کیوں نہ آرام اور امنیت میں ہوں گے اور کس وجہ سے کسی غیر سے وابستہ ہوں گے؟!

عام مقبولیت

حکومت کے لئے ایک پریشانی عام لوگوں کی ناراضگی ہے لیکن مختلف اداروں میں چونکہ بہت کمزوریاں پائی جاتی ہیں جس کی بنا پر عوام ناراضی رہتی ہے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ ہر شخص اور ہر معاشرہ آپ علیہ السلام کی حکومت کو قبول کرے گا اور راضی رہے گا اور نہ صرف اہل زمین بلکہ اہل آسمان بھی اس الٰہی حکومت کی نسبت اور اس کے عادل اور منصف حاکم سے مکمل طور پر راضی ہوں گے۔

پیغمبر اکرم ( صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

”میں تم کو مہدی (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہوں اہل زمین اور اہل آسمان ان (کی حکومت) سے راضی رہیں گے، یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی امام مہدی علیہ السلام کی حاکمیت سے ناراضی ہو حالانکہ پوری دُنیا والوں پر یہ روشن ہو جائے گا کہ امام مہدی کی الٰہی حکومت کے زیر سایہ انسانی امور کی اصلاح اور تمام مادی اور معنوی پہلووں میں سعادت حاصل ہو گی“۔(منتخب الاثر، فصل ۷ ، باب ۷ ، ح ۲ ، ص ۸۹۵)

مناسب ہے کہ اس حصہ کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے جاویدانہ کلام کو حُسن ختام کے طور پر بیان کیا جائے:

”خداوند عالم ان (امام مہدی علیہ السلام) کی تائید اپنے فرشتوں کے ذریعہ فرمائیں گے اور ان کے ناصروں کی حفاظت کرے گا اور اپنی نشانیوں کے ذریعہ مدد کرے گا اور ان کو تمام اہل زمین پر غالب کر دے گا، اس طرح کہ (تمام لوگ) اپنی مرضی اور رغبت سے یا مجبوراً آپ علیہ السلام کے پاس جمع ہو جائیں گے، وہ زمین کو عدل و انصاف اور دلائل کے نور سے بھر دیں گے، شہروں (کے لوگ) ان پر ایمان لائیں گے یہاں تک کہ کوئی کافر باقی نہیں بچے گا، مگریہ کہ ایمان لائے اور برے کام انجام نہ دے اور صرف نیک کام کرے اور ان کی حکومت میں درندوں میں صلح ہو گی (یعنی وہ آپس میں محبت کے ساتھ رہیں گے) اور زمین اپنی برکتوں کو نکالے گی، آسمان اپنے خیر کو نازل کرے گا اور آپ کےلئے زمین میں چھپے ہوئے خزانے ظاہر ہو جائیں گے........پس خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس زمانہ کو درک کرے اور ان کی اطاعت کرے“۔ (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۱۸)

درس کا خلاصہ

امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے ثمرات ان کے حقیقی مقاصد اور انسان کی واقعی و فطری ضرورتوں کے مطابق ہوں گے۔

حضرت کی حکومت کے اہم ترین ثمرات یہ ہیں: وسیع سطح پرعدالت، اخلاقیات اور ایمانیات کا غلبہ، اتحاد ویکجہتی، معاشرہ کی جسمانی و روحانی سلامتی، برکات کا عام ہونا، غربت و فقر کا دور ہونا، عمومی سطح پر امن و آسائش، علم کی ترقی، کفر کی تباہی اور اسلام کی عالمی حاکمیت، امام زمانہ کی حکومت مملکت کی حدود کے اعتبار سے ایک عالمی حکومت ہو گی۔

امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کا مرکز کوفہ شہر ہو گا کہ جو امیر المومنین علیہ السلام کی خلافت کا دارالحکومت تھا۔

روایات میں امام کی حکومت کی مدت مختلف نقل ہوئی ہے لیکن وہ جو مسلم سی بات ہے وہ یہ ہے کہ حضرت کی حکومت اس قدر طولانی ہو گی کہ پوری دُنیا پر عالمی عادلانہ حکومت کا غلبہ ہو جائے گا اور دنیا عدالت سے پر ہو جائے گی۔

حضرت کی حکومتی سیرت، انتظامی و اقتصادی جہات اور دین و عدالت کے اجراءاور انسانیت کے پھلنے پھولنے کے حوالے سے قابل توجہ ہے۔

درس کے سوالات:

۱ ۔ انسان کے اپنے حقیقی مقصد کو پانے اور اپنی آرزووں تک پہنچنے میں ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟

۲ ۔ زمانہ ظہور میں اتحاد و وحدت سے مراد آیا عالی طور پر جغرافیائی سرحدوں کا ختم ہونا ہے؟

۳ ۔ احادیث و روایات کی رو سے امام مہدی علیہ السلام عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طرف سے لوگوں میں ماہانہ اور سالانہ عطایت کتنی دفعہ ملیں گے؟

۴ ۔ روایات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت کتنے سالوں پر محیط ہے؟

۵ ۔ انتظامی اور قضاوت کے امور میں امام زمانہ کی حکومتی سیرت کو وضاحت سے بیان کریں؟