مہدویت نامہ

مہدویت نامہ0%

مہدویت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدویت نامہ

مؤلف: مصنفین کی جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 18684
ڈاؤنلوڈ: 2151

تبصرے:

مہدویت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18684 / ڈاؤنلوڈ: 2151
سائز سائز سائز
مہدویت نامہ

مہدویت نامہ

مؤلف:
اردو

چودہواں درس

رجعت

مقاصد:

( ۱) شیعہ عقیدہ میں رجعت کے مقام کا تجزیہ وتحلیل۔

( ۲) رجعت کرنے والوں سے آگاہی

فوائد:

( ۱) حقیقت رجعت سے آگاہی

( ۲) رجعت کے فلسفہ اور دلائل سے آگاہی

( ۳) زمانہ رجعت اور رجعت کرنے والوں سے آگاہی

تعلیمی مطالب:

( ۱) رجعت کا معنی اور تاریخچہ

( ۲) رجعت کو ثابت کرنے کے دلائل(عقلی،قرآنی اور حدیثی دلائل)

( ۳) فلسفہ رجعت

( ۴) رجعت کے واقع ہونے کا زمانہ

( ۵) رجعت کرنے والے

رجعت

زمانہ ظہور کا ایک اہم ترین مرحلہ”رجعت کا واقعہ“یعنی صالح اور برے لوگوں کا دنیا کی طرف پلٹنا ہے، عقیدہ رجعت شیعہ مسلم عقائد میں سے ہے اور اسلامی آثار میں ماضی سے حال تک اس موضوع پر بہت سی بحثیں ہوئیں، یہاں ہم اختصار سے اس موضوع پر گفتگو کریں گے البتہ اس موضوع پر تفصیلی بحث اسی عنوان کے تحت تحریر کی جانے والی دیگر کتب موجودہے۔

رجعت کا مفہوم

لغت میں رجعت کا معنی لوٹناہے، دینی اصطلاح میں اس سے مراد الٰہی حجج، آئمہ معصومین علیہ السلام ، خالص مومنین کا ایک گروہ اور کفار و منافقین کا علم دنیا کی طرف لوٹنا ہے یعنی یہ لوگ حکم خدا کی بنا پر زندہ ہوں گے اور دنیا کی طرف پلٹائے جائیں گے یعنی یہ قیامت سے پہلے معاد کی اجمالی سی تصویر ہے کہ جو اسی جہان میں واقع ہوگا۔

رجعت کا فلسفہ

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام رجعت کے بارے میں ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں:

”مومنین پلٹ جائیں گے تاکہ عزت پائیں، ان کی آنکھیں روشن ہوں گی اور ظالم لوگ بھی پلٹیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل کرے“۔(بحارالانوار ج ۵۳ ص ۴۶)

یہ بات درست ہے کہ انسانوں کی جزا و سزا کی اصلی جگہ عالم آخرت ہے لیکن پروردگار عالم نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ ان کی کچھ جزا اور سزا اسی دنیا میں ان کو دی جائے، رجعت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ مومنین حضرت ولی العصر (عج) کی نصرت کی سعادت حاصل کریں یہ نکتہ دعاوں اور بعض علماءکے بیانات میں بیان ہوا ہے۔

مرحوم سید مرتضیٰ(متوفی ۶۳۴ قمری) فرماتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے وقتشیعوں کے ایک گروہ کو کہ جو آپ علیہ السلام کی آمد سے قبل دنیا سے جا چکے ہوں گے، دوبارہ پلٹائے گا تاکہ وہ حضرت کی نصرت کا ثواب حاصل کرسکیں“(رسائل ج ۱ ،ص ۵۲۱)

سرداب مقدس میں حضرت امام عصر علیہ السلام کی زیارت میں آیا ہے”مولای فان ادرکنی الموت قبل ظهورک فانی اتوسل بک وبابائک الطاهرین الی الله تعالیٰ واسئله ان یصلی علی محمد وآل محمد وان یجعل لی کرة فی ظهورک و رجعتة فی ایامک لابلغ من طاعتک مرادی واشفی من اعدائک فوادی “۔(مفاتیح الجنان، آداب سرداب مقدس، زیارت دوم صاحب الامرعلیہ السلام)

اے میرے مولا و آقا اگر اپ کے ظہور سے پہلے مرجاوں تو آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے پاکیزہ آباءو اجداد کے وسیلہ سے پروردگار کی بارگاہ میں توسل کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے یہ التجاءکرتا ہوں کہ محمد وآل محمد پر رحمتیں نازل فرما اور آپ علیہ السلام کے زمانہ ظہورمیں مجھے پلٹا دے آپ علیہ السلام کے زمانہ حکومت میں رجعت کروں آپ کی اطاعت میں اپنے مقصد کو حاصل کروں اور اپنے سینہ کو آپ کے دشمنوں کی ذلت سے ٹھنڈا کروں۔

دین اسلام میں رجعت کی اہمیت

رجعت شیعہ مسلم عقائد میں سے ہے کہ جس کی تائید قرآن مجید کی دسیوں آیات اور پیغمبراکرم سے سینکڑوں روایات کرتی ہیں۔ عظیم محدث شیخ حرعاملی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب”ایقاظ“ میں رجعت کے بارے ۰۲۵ ، احادیث نقل کیں اور مرحوم علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

”اگررجعت کی احادیث متواتر نہ ہوں(متواتر ایسی روایات کو کہتے ہیں کہ جن کے راویوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کا جھوٹ پر اکھٹا ہونا ناممکن ہو)تو کسی اور مورد میں ہم تواتر کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔(خادمی شیرازی، رجعت ص ۰۴۱)

آیات و روایات سے قطع نظر تمام علماءشیعہ اس حقیقت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں جیسا کہ مرحوم شیخ حر عاملی اس مطلب کی تصریح کرتے ہیں بلکہ رجعت کو مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے سمجھتے ہیں۔(خادمی شیرازی، رجعت ص ۵۴۱)

قرآن و روایات میں رجعت

قرآن مجید کی بہت سی آیات میں واضح طور پر وفات پا چکے بعض افراد کے دنیا میں پلٹے کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اور اہل بیت علیہ السلام کی بہت سی روایات ان آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں رجعت اور دنیا میں پلٹنے کی سب سے زیادہ روشن مثال عزیرکا واقعہ ہے وہ سوسال تک وفات پا چکنے کے بعد الٰہی ارادہ سے زندہ ہوئے اور دنیا کی طرف پلٹے اور بہت سا عرصہ زندہ رہے۔

( ثم بعثنا کم من بعدموتکم لعلکم تشکرون ) (بقرہ آتی ۹۵۲)

”پھر میں نے تمہیں مرنے کے بعد اٹھایا تاکہ تم شکرگزار بنو“

یہ آیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ان سترمنتخب افراد کے بارے میں ہے کہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ کوہ طور پر گئے تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے الواح لینے کا مشاہدہ کریں جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو کو دیکھا تو کہا اے موسیٰعلیہ السلام ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کو واضح طور پر دیکھیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس فضول اور غیرممکن درخواست سے روکا لیکن انہوں نے اصرار کیا بالآخر الٰہی صاعقہ میں گرفتار ہوئے اور سب مر گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس واقعے سے ناراحت ہوئے اور بنی اسرائیل میں اس واقعہ کے نتائج سے پریشان تھے لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ انہیں زندگی کی طرف لوٹا دیں ان کی درخواست مورد قبول واقع ہوئی اور اس مندرجہ بالاآیت کے مطابق انہیں زندگی کی طرف لوٹا دیا گیا۔

حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت کے مطابق(ایسی دیگرآیات مثلابقرہ کی آیت ۹۵۲،۳۷ اور ۳۴۲ وغیرہ زندہ ہونے اور دنیا کی طرف پلٹنے کو بیان کرتی ہیں)یہ گروہ اپنے گھروں کو لوٹ گیااور ایک مدت تک زندہ رہے، صاحب اولاد ہوئے اور جب ان کا وقت اجل آ پہنچا تو دنیا سے الوداع ہوئے“۔(بحارالانوارج ۳۵ ،ص ۳۷،۹۲۱)

اسی طرح موضوع رجعت پر قرآن مجید کی دیگر چند درج ذیل آیات واضح دلالت کرتی ہیں:

سورہ نمل کی آیت ۳۸ میں پروردگار فرماتاہے:

( ویوم نحشر من کل امة فوجا ممن یکذب بایاتنا فهم یوزعون )

وہ دن جب ہر امت میں سے ایک گروہ محشور کریں گے(یہ لوگ)ان میں سے(ہوں گے) کہ جو ہماری آیت کو جھٹلاتے تھے پس وہ الگ الگ کر دیئے جائیں گے۔

اس آیت میں اس دن کی بات ہو رہی ہے کہ جس دن لوگوں میں سے ایک گروہ کو اٹھایا جائے گا لہٰذا یہ قیامت سے ہٹ کر کسی اور دن کی طرف اشارہ ہے کیونکہ قیامت کے روز اولین و آخرین سے تمام انسانوں کو محشور کیا جائے گا مرحوم طبرسی تفسیرمجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول بہت سی روایات کے مطابق یہ آیت حضرت امام عصرعلیہ السلام کے شیعوں کے ایک گروہ اور ان کے دشمنوں کے ایک گروہ کے بارے میں ہے کہ جو ان کے زمانہ ظہور میں دنیا کی طرف پلٹیں گے۔(مجمع البیان سورہ نمل آیت ۳۸ کے ذیل میں)

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟راوی نے کہا وہ کہتے ہیں یہ آیت قیامت کے بارے میں ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

آیا اللہ تعالیٰ روز قیامت ایک گروہ کو محشور کرے گا اور دوسرے گروہ کو چھوڑ دے گا؟ (ایسا نہیں ہے)یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے جب کہ قیامت کے بارے میں یہ آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے”( وحشرناهم فلم نفادرمنهم احد ) “یعنی ہم انہیں محشورکریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے“۔(بحارالانوار ج ۳۵ ،ص ۱۵)

سورہ انبیاءکی آیت ۵۹ میں ہے:

( وحرام علی قریة اهلکناها انهم لایرجعون )

ممنوع ہے(دوبارہ دنیا میں آنا)اس شہر کے لوگوں کا کہ جنہیں ہم نے ہلاک کیا کہ وہ نہیں پلٹیں گے۔

یہ آیت بھی رجعت کی اہم ترین دلیلوں میں سے ہے کیونکہ روز قیامت تک سب لوگ اور سب قومیں کہ جو ہلاک ہو چکی ہیں اور عذاب الٰہی کی طرف پلٹیں گی یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے۔

حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:

یہ وہ قریہ ہے کہ جس کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے عذاب سے ہلاک کیا ہے وہ رجعت میں نہیں پلٹیں گے یہ آیت رجعت کی بڑی دلیلوں میں سے ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان اس بات کا منکر نہیں ہے کہ سب لوگ روزقیامت لوٹیں گے خواہ وہ جو ہلاک ہوئے ہوں یا ہلاک نہ ہوئے ہوں پس اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ لایرجعون رجعت کے متعلق ہے جب کہ روز قیامت الٰہی عذاب سے ہلاک ہونے والے بھی لوٹیں گے تاکہ آگ میں داخل ہو۔(بحارالانوارج ۳۵ ،ص ۲۵ ،ح ۹۲)

ادعیہ اور زیارات میں رجعت

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہونے والی دعاوں اور زیارات میں بھی رجعت کا موضوع ذکر ہوا ہے مثلاً حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے نقل ہونے والی زیارت جامع کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”معترف بکم مومن بایاتکم مصدق برجعتکم منتظر لامرکم “(مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیرہ)

(اے ائمہ اے الٰہی حجج) میں آپ(کی امامت)کا اعتراف کرتا ہوں آپ کی نشانیوں پر ایمان لاتا ہوں اور آپ کی(اس دنیا میں)رجعت کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کے امر کا منتظر ہوں۔

حضرت امام مہدی(عج) کی بعض مخصوص زیارات مثلاً زیارت آل یٰسین میں بھی یہ موضوع نہایت ہی صراحت سے بیان ہواہے۔

رجعت کی خصوصیات

رجعت کے متعلق بہت سی روایات میں رجعت کے بارے میں مندرجہ ذیل مطالب بیان ہوئے ہیں:

۱: رجعت کائنات کے عظیمج اور اہم دنوں میں سے ہے کہ اسے قرآن مجید میں ایام اللہ(اللہ کے دنوں)کے عنوان سے یاد کیا گیاہے۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”ایام اللہ“تین دن ہیں قائم علیہ السلام کے قیام کا دن رجعت کا دن اور قیامت کا دن(بحارالانوار،ج ۳۵ ،ص ۳۴ ،حدیث ۳۵)

۲: رجعت پر عقیدہ اہل بیت علیہ السلام کے شیعوں کی نشانیوں میںسے ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ہم میں سے نہیں وہ جو رجعت پر ایمان نہ رکھتاہو“۔(بحارالانوار،ج ۳۵ ،ص ۲۹ ،حدیث ۱۰۱)

۳: رجعت سب لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خالص مومنین اور خالص کفار و منافقین کے لئے ہے۔(بحارالانوار ج ۳۵ ،ص ۹۳ ،حدیث ۱)

۴: رجعت کرنے والوں میں سے انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام بھی ہیں اور سب سے پہلے امام کہ جو زمانہ رجعت میں اور امم مہدی علیہ السلام کے بعد عالمی عدل کی حکومت کو سنبھالیں گے امام حسین علیہ السلام ہیں کہ بہت سے سال حکومت کریں گے“(بحارالانوار ج ۳۵ ،ص ۶۴ ،حدیث ۹۱)

۵: سب مومنین اور امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے حقیقی منتظرین کہ جو ان کے ظہور سے قبل دنیا سے جا چکے ہیں اور ان کے لئے دنیا میں رجعت اور اس عظیم امام کی نصرت کا امکان موجود ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہوئی ہے کہ جو بھی چالیس صبح تک دعائے عہد پڑھے وہ حضرت امام قائم علیہ السلام کے انصار میں سے ہوگا اور اگر ان کے ظہور سے پہلے مرجائے اللہ تعالیٰ اسے اس کی قبر سے نکالے گا(اور وہ قائم علیہ السلام کی نصرت کرے گا)(مفاتیح الجنان، دعائے عہد)

۶: کفار اور منافقین کبھی بھی اپنی رغبت اور اشتیاق کے ساتھ دنیا کی طرف نہیں پلتیں گے بلکہ جبراً رجعت کریں گے لیکن مومنین کی رجعت اختیاری ہو گی حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب حضرت امام عصر علیہ السلام قیام کریں گے الٰہی نمائندے قبر میں مومنین لوگوں سے رابطہ کریں گے اور انہیں کہیں گے کہ اے بندہ خدا تمہارے مولی نے ظہور کیا ہے اگر چاہتے ہو کہ ان کے ساتھ مل جاو تو تم آزاد ہو اگر چاہتے ہو کہ برزخ کی الٰہی نعمات میں لطف اٹھاو تو بھی آزادہو۔(بحارالانوارج ۳۵ ،ص ۵۹)

رجعت کرنے والے

روایات کی رو سے حضرات انبیاءعلیہم السلام کا ایک گروہ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور خالص مومنین اور اسی طرح خالص کفار یہ وہ لوگ ہیں کہ جو زمانہ رجعت میں اس دنیا کی طرف لوٹ جائیں گے۔

( ۱) انبیاءعلیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی رجعت:

انبیاءعلیہم السلام کے متعلق روایات:

الف: ایسی روایات کہ جو عمومی طور پر انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام کے لوٹنے کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں مثلاً آیت ”( انا لننصررسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا ویوم یقوم الاشهاد ) “ کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں خدا کی قسم یہ آیت رجعت کے زمانہ میں تحقق کرے گی آیا تم نہیں جانتے کہ انبیاءعلیہم السلام کی دنیا میں نصرت نہیں ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور اسی طرح ائمہ علیہم السلام بھی قتل ہوئے لیکن یہ نصرت اور کامیابی رجعت کے زمانہ میں تحقق کرے گی“۔(معجم الاحادیث الامام المہدی علیہ السلام ج ۵ ،ص ۴۸۳)

ب: ایسی روایات کہ جو اعداد کے ساتھ انبیاءعلیہ السلام کی رجعت کا ذکر کرتی ہیں، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛ جب حضرت امام حسین علیہ اسللام اپنے شہید اصحاب کے ساتھ رجعت کریں گے تو سترانبیاءعلیہ السلام بھی ان کے ساتھ رجعت کریں گے جیسا کہ موسیٰعلیہ السلام بن عمران علیہ السلام کے ہمراہ ستر انبیاءعلیہ السلام تھے“۔(معجم الاحادیث الامام المہدی علیہ السلام ج ۳۵ ،ص ۲۶)

ج: وہ روایات جو بطور خاص بعض انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے نام کے تذکرہ کے ساتھ ان کی رجعت کو بیان کرتی ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : بلاشبہ حضرت دانیال اور یونس علیہ السلام دونوں امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ رجعت میں دنیا کی طرف پلٹیں گے اور پیغمبراکرم کی رسالت کا اقرار کریں گے اور ان کے ساتھ ستر افراد بھی اٹھائے جائیں گے۔(بحارالانوارج ۳۵ ،ص ۲۶)

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:”یرجع الیکم بینکم وامیرالمومنین والائمة “(معجم الاحادیث الامام المہدی ج ۵ ص ۷۲۳)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام تمہاری طرف دوبارہ لوٹ جائیں گے۔

یہ کہ سب سے پہلے رجعت کرنے والا فرد کون ہے؟

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں”اول من یرجع الی الدنیا الحسین بن علی “(بحارالانوار ج ۵ ،ص ۰۹)

سب سے پہلے فرد کہ جو دنیا کی طرف پلٹیں گے حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام ہیں۔

د: ایسی روایات کہ جو گذشتہ امتوں اور امت اسلام کے صالح افراد کی رجعت کو بیان کرتی ہیں ان روایات کی رو سے گذشتہ امتوں میں سے اصحاب کہف اور مومن آل عمران کی رجعت کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی طرح پیغمبراکرم اور ئمہ معصومین علیہم السلام کے اصحاب میں سے سلمان فارسی، مقداد، مالک اشتر،ابودجانہ انصاری، مفضل بن عمر،عبداللہ بن شریک عامری، اسماعیل بن جعفر علیہ السلام، حارث، عقیل،جبیر وغیرہ کا نام لیا گیاہے۔(شیعہ والرجعة ج ۱ ،ص ۸۵۱ ،چشم اندازی بہ حکومت حضرت مہدی علیہ السلام ص ۵۹)

خلاصہ درس:

٭رجعت کا معنی لوٹنا ہے، دینی اصطلاح میں اس سے مراد اولیاءالٰہی ، حجج اور خالص مومنین اور خالص کفار کا دنیا کی طرف لوٹنا ہے۔

٭روایات میں رجعت کا فلسفہ مومنین کی عزت وشوکت اور ظالموں اور کفار کی ذلت خواری کو دیکھنا بیان ہواہے۔

٭قرآنی اور روائی دلائل کی رو سے رجعت کا عقیدہ،مذہب شیعہ کے مسلم عقائدمیں سے ہے۔

٭روایات میں رجعت کو ایام اللہ کے عنوان سے یاد کای گیا ہے اور اس پر عقیدہ کو اہل بیت علیہ السلام کے شیعوں کی نشانی شمار کی گئی ہے۔

٭روایات کے مطابق آئمہ معصومین علیہم السلام میں سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام رجعت کریں گے اور آپ کئی سالوں تک حکومت کریں گے۔

درس کے سوالات:

۱ ۔رجعت کے معنی کی تشریح کریں؟

۲ ۔روایات کی رو سے فلسفہ رجعت کو بیان کریں؟

۳ ۔آیا عقیدہ رجعت صرف شیعہ مذہب کے ساتھ خاص ہے یا سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے؟

۴ ۔رجعت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دوآیات بیان کریں؟

۵ ۔روایات کی رو سے ذکر کی گئی رجعت کی خصوصیات میں سے پانچ خصوصیات کی تشریح کریں؟