موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن11%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28008 / ڈاؤنلوڈ: 4279
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کانام: موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مصنف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی

مترجم: غلام قنبر عمرانی

نظرثانی: علامہ سید افتخار حسین النقوی النجفی

زیراہتمام: امام خمینی ٹرسٹ ماڑی انڈس میانوالی پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب

اللہ کی بلند ترین علامت، کلمہ علیائ، وارث علوم انبیائ،تمام اوصیاءکی صفات کے حامل، اولیاءکی آنکھوں کا سکون، حجت معبود، مہدی موعود، روحی وارواح العالمین لہ الفداءکی خدمت اقدس میں۔

اظہاریہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حدیث نبوی ہے جو شخص چاہتا ہے کہ وہ اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے کہ اس کا ایمان کامل ہو، اس کا اسلام خوب صورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ حضرت حجت صاحب الزمان علیہ السلام المنتظر سے ولایت رکھے۔ (بحوالہ الاربعین لابی الفوراس لحافظ اہل السنة حدیث نمبر۶سے مکیال المکارم ج۱ص۴۲)

رسول اسلام حضرت محمد مصطفی کے بارہویں جانشین اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کی آخری حجت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا موضوع ان دنوں پورے عالم میں زیر بحث ہے اس عنوان پر گذشتہ سالوں میں بہت کچھ مختلف زاویوں سے لکھا گیا ہے اور مسلسل اس موضوع پر لکھا جا رہا ہے ۔

زیر نظر کتاب ”موعود امم“شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی کی تالیف ہے۔ انہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے بڑے آسان انداز میں عوامی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے مطالب کو بیان کیا ہے، مطالب آسان بھی ہیں عام فہم بھی، پیچیدہ علمی اور تحقیقی بحثوں سے گریز کیا ہے، جو بات کہی ہے باحوالہ کہی ہے ۔انہوں نے امام زمان علیہ السلام سے اپنے عشق اور ولاءکا اظہار ہر بحث کے اختتام پر فارسی کے اشعار سے کیا ہے، ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب اردو زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوجائے اور اسے ذاکرین، واعظین، دینی مدارس کے طلباءاور دانشوروں تک ہدیةً پہنچائی جائے۔

اس سال ماہ ربیع الاول میں بیرون ملک کے دورہ سے واپسی پر قم المقدسہ میں میری ان سے ملاقات حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی دام ظلہ العالی کے گھر پر ہوئی جو کہ بہت ہی معلومات افزا تھی، میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے ان سے آشنائی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ بھی میرے لیے ہدیہ کیا۔ بندہ نے ان سے وعدہ کر لیا کہ انشاءاللہ پاکستان واپس جا کر ”موعود امم“ کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے شائع کیا جائے گا ۔

چنانچہ سفر سے واپسی پر اس کتاب کے ترجمہ کی بھاری ذمہ داری نوجوان عالم دین جناب غلام قنبرعمرانی کو دی، انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے اس کا اردو ترجمہ مکمل کیا اور میں نے بھی اول سے آخر تک اس ترجمہ کو پڑھا جو اصل کتاب کے مطابق پایا اب کتاب اشاعت کے لئے آمادہ و تیار ہے۔

خداوند سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے مصنف اس کے مترجم اور اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھانے والوں کو اجر عظیم دے اور ہم سب کو حضرت بقیة اللہ الاعظم، نور آل محمد، خاتم الاوصیاء علیہ السلام، ولی عصر علیہ السلام، صاحب الزمان علیہ السلام،امام مہدی علیہ السلام کے ناصران اور معاونین سے قرار دے اور ان کی دعائیں ہمارے نصیب ہوں اور اس کتاب کے مندرجات کو مومنین کے لئے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام سے ولایت رکھنے اور عشق و محبت کے اظہار کا ذریعہ بنائے۔

محب منتظران امام زمان علیہ السلامہ (عج)

سید افتخار حسین النقوی النجفی

(۲۲۔۱۱۔۵۰۰۲ھ)

پیش لفظ ازمصنف

ہر کس بہ زبانی صفت وحمد تو گوید

بلبل بہ غزل خوانی وقمری بہ ترانہ

(کشکول شیخ بھائی)

.... شیعہ ایک عالمی مصلح اور انسانیت کے لئے امن کے داعی مجسمہ عدالت، ایک آئیڈئیل انسانی معاشرہ قائم کرنے والی ہستی کے وجود کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر پہچانتے اور عقیدہ رکھتے ہیں ۔

لیکن یہ عقیدہ تنہا شیعہ سے مخصوص نہیں بلکہ عالمی مصلح کا عقیدہ شیعوں کے علاوہ دیگر مذاہب وملل و فرقوں میں بھی موجود ہے جسے

٭ اہل سنت کے تمام فرقے (البتہ ابن خلدون جیسے منکر وجود مہدی علیہ السلامہزاروں میں چند ہیں جن کا کوئی مقام نہیں ) یا تو آپ کے وجود ذی جود کے عقیدت مند ہیں یا انہیں وہ غیبت میں جانتے ہیں یا یہ کہ مہدی متولد ہوں گے اور پھر ظہور فرمائیں گے۔

٭ سابقہ ادیان، یہودی، عیسائی باقی آسمانی کتابوں کے پیروکار یہاں تک کہ زرتشنی مذہب (مجوسی) بھی قائل ہیں اور ان کی کتابوں میں حضرت کانام ان کے اوصاف کے ساتھ ہے

٭ قدیم مذاہب کے پیروکار جیسے ہندو، بدھ مت ، برہمن اور سکھ وغیرہ کہ انہوں نے یہ عقیدہ اپنی کتابوں سے لیاہے۔

٭ مادہ پرست، سوشلسٹ، کمیونسٹ(ایسے مکاتب جو خدا کے وجود کے منکر ہیں )وہ بھی اس بات کی انتظار میں ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ پورا انسانی معاشرہ امن کی مثال بن جائے گا زمین پر خوشحالی و ہریالی ہوگی، محرومیت کا خاتمہ ہوگا،ہر ایک کو اس کا حق ملے گا، انہوں نے اپنی علمی تحقیقات میں ایک آئیڈیل معاشرہ کے قیام کی خبر دی ہے۔اس مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لئے انہوں نے کتابیں تحریر کی ہیں اور اپنی تحقیقی کتابوں میں انہوں نے ایک حصہ منجی بشریت کے عنوان پر مخصوص کیا ہے اور ایسے مصلح عالم کی خصوصیات کو درج کیاہے۔ اس تناظر میں موعود عالم کے بارے مختلف پہلووں میں ایک وسیع وعریض بحث کی ضرورت ہے۔

اس بات کو اذہان میں بٹھانے کے واسطے ذیل میں ایک مثال پیش کرتاہوں۔

فرض کریں ایک گھر کامالک یا ایک دفتر کاایڈمنسٹریٹر اس جگہ سے غائب ہے جس وجہ سے اس مقام پر کم وبیش بدنظمی اور بدانتظامی نظر آتی ہے۔

(الف) کچھ لوگ اس صورتحال کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا عقل یہ کہتا ہے کہ اگر اس گھر کا مالک موجود ہوتا اوراس دفتر کا منتظم غائب نہ ہوتا تو یہ بدانتظامی اور بدنظمی موجود نہ ہوتی ، اس لحاظ سے وہ ایک لائق مدیر اور منتظم کے منتظر ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فلسفی مکاتب سے وابستہ ہیں (اور دنیا میں بدامنی، بدانتظامی، بے عدالتی کاخاتمہ ایک منتظم کی آمد میں دیکھتے ہیں )

(ب) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم اور مالک کے اوصاف کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں کے قائل ہیں ۔

(ج) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم کا نام جانتے ہیں اور ان کی کچھ خصوصیات سے بھی آگاہ ہیں جیسے اہل سنت۔

(د) کچھ وہ ہیں جو ان کانام، ان کے القاب، ان کی خصوصیات سے واقف ہیں اور ایسے منتظم کی ولادت کے بارے بھی معلومات رکھتے ہیں اور اس کے پروگرام سے مکمل آگاہ ہیں ، یہ حضرات اس کی آمد کے صحیح وقت سے واقف نہیں ۔ جیسے شیعہ حضرات۔

اسی قسم کے مہدی امم کے بارے نظریات و خیالات اور اعتقادات نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں آپکی ہستی کے ایسے گوشوں کے بارے قلم اٹھاوں جو ابھی تک تشنہ ہیں اور اس طرح میں نے موعود امم کی ذات سے متعلق کتاب تحریرکی، جس کی دس فصلیں ہیں اور پچیس ابواب ہیں اس کتاب کانام موعود امم رکھا ہے تاکہ یہ کتاب سب کے لئے مفید اور موثر ہومجھے امید ہے کہ میری یہ کوشش و کاوش درگاہ احدیت میں قبول ہوگی اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کی بارگاہ میں شرفیابی کا ذریعہ بنے گی۔

٭٭٭٭٭

چو در آیینہ رخسار ماہ او تَجَلَّی اللّٰہ

بر این روی در خشان، آفرینش گفت: صَلَّی اللّٰہ

( قُل فَانتَظِرُوا اِنَّی مَعَکُم مِنَ اَلمُنتَظِرِینَ ) “۔(سورہ یونس آیت ۲۰۱)

”تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ یقینا انتظار کرتا ہوں“۔

فصل اول

نجات دہندہ بشریت

سایہ خدا

مہدی علیہ السلام ودیگر اقوام

مہدی علیہ السلام اور نہج البلاغہ خلیفة اللہ

حجت خدا

ارادہ خداوندی

باب اول

سایہ خدا

چار اعلیٰ والا امیدیں

اِن ذکرالخیر کنتم اوله واصله و فرعه ومعدنه وماواه ومنتهاه “ (مفاتیح الجنان زیارت جامعہ کبیرہ)

وہ چیز جو انسان کو زندہ دلی اور تلاش وجستجو کی طرف مائل رکھتی ہے وہ امید ہے اور یہ امید وہ واحداور اہم ترین چیز ہے جس سے ہرانسان کا واسطہ و تعلق ہے۔ اگرچہ اکثر و بیشتر امیدیں بے حیثیت و بے فائدہ ہوتی ہیں بلکہ بعض تو بہت زیادہ نقصان دہ اور گمراہ کرنے والی ہوتی ہیں ، قرآن کریم میں جن دو اسلامی اصل پر بہت تکیہ اور بھروسہ کیا گیا ہے وہ ہیں رجاءاور خوف ۔

۱۔ دیدار و زیارت حضرت قائم آل محمد

۲۔ حضرت سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت حقہ کا دیدار

۳۔ انسانی کمالات حاصل کرنے کی آرزو

۴۔ ہمیشہ کی خوش بختی کا حصول یعنی ملاقات پروردگار اور اس کی نہ ختم ہونے والی نعماتِ جنت تک رسائی۔

۱۔ دیدار حضرت امام مہدی ”علیہ السلام“

اس اعلیٰ وارفع امیدبارے مذہب اہل بیت علیہ السلام کے منابع میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں اور وہ دعائیں جو کہ آئمہ علیہ السلام سے سرکار امام زمان علیہ السلام کے منتظرین و عاشقان تک پہنچی ہیں کو اس امر یعنی دیدار سرکار حجت علیہ السلام کی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔

دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں :

بنفسی انت امنیة شاءق یتمنیٰ من مومن ومومنةٍ ذَکرا فحَنا “۔

ترجمہ:۔”میری جان آپ علیہ السلام پر قربان جائے اے دیدار کی تمنا کرنے والوں کا مقصود و نصب العین مقصود کی تمنا کہ جب مومن اسے یاد کرے تو نالہ و بکاکرے“۔

جی ہاں دیدار حضرت امام زمان علیہ السلام سرکار اہل ایمان کا مقصود ہے ۔ نصب العین ہے۔

۲۔ حضرت امام زمان علیہ السلام کی حکومت حق کے دیدار کی تمنا

ہر آزاد باایمان اس شکوہ تک رسائی چاہتا ہے جو کہ سرکار امام زمان علیہ السلام کے طاقت اور فتح مند ہاتھ سے وجود میں آئے گی۔ ہر مومن کی خواہش ہے کہ وہ اس باوقار وپُرشکوہ حکومت سرکار امام زمان علیہ السلام بارے غوروفکر کرے اس لیے سرکار قائم آل محمد کے ظہور پرنور کے منتظرین دعائے ندبہ میں یوں فریاد کرتے ہیں :”متی ترانا ونراک “۔

ترجمہ:۔ ”یہ کب ہوگا کہ جب ہم اپنے آپ کو آپ کی بارگاہ میں دیکھیں گے اور آپ کے کامیاب و کامران پرچم کو پوری آب و تاب سے لہراتا دیکھیں گے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو آپ کے اردگرد دیکھیں اور آپ کی زیارت اس حالت میں کریں کہ ہم سب کی رہبری آپ علیہ السلام نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے ہم دیکھیں کہ آپ نے زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیا ہو اور اپنے دشمنوں کو آپ نے خاک ذلت و رسوائی پر بٹھا رکھا ہو منکروں اور گردن کشوں کو آپ نے نابود کردیا ہو، ستمگروں کی بنیادوں کو آپ نے جڑوں سے اکھاڑ دیا ہو ہم یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی سے کہیں ”الحمدللہ رب العالمین“ جی ہاں آرزوئے دیدار حکومت حق (سرکار امام زمان علیہ السلام علیہ السلام) یعنی دنیا کو عدل و انصاف اور ایمان و انسانیت کے گلشن کے میں دیکھنا نصیب ہو۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے :”( وعدالله الذین ) .... الخ

ترجمہ:۔ ”خداوند کریم نے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ حتماً ان کو اس سرزمین پر پر ان کا جانشین قرار دے دے گا، جیسا کہ پہلے والوں کواس نے اپنا جانشین قرار دیا۔(سورئہ نور آیت نمبر۵۵)

اگرسوال کیا جائے کہ اس آیت مبارکہ میں فرمایا کہ وہ خداوندکی بدون شرک خفی و جلی پرستش کرتے ہیں اسکے بعد یہ کس لیے آیا ہے کہ ”( ومن کفر بعدذلک فاولیک هم الفاسقون ) “ کہ جس نے اسکے بعد یعنی ترک شرک کے بعد کفر کیا وہ فاسق ہے، ترک شرک کے بعد کفرکا کیا مطلب؟

اس کے جواب کچھ یوں دیا جائے گاکہ اس آیت میں کفر سے مراد کفران نعمت ہے شکر کے مقابل ممکن ہے یہ کفران نعمت زبانی ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے ”( لان شکرتم لازیدنکم لئن کفر تم ان عذابی لشدید ) “۔

ترجمہ:۔”اگر میرا شکر ادا کرو گے تو میں نعمات زیادہ کردوں گا اور اگر میری نعمات کا کفر و انکار کرو گے تومیرا عذاب شدید تر ہے“۔ (سورئہ ابراہیم علیہ السلام آیت نمبر۷)

ممکن ہے یہ کفران نعمت قلبی ہو، یعنی نعمت کو خدا وند کی طرف سے نہ جانے یاعمل کے ذریعہ کفران کرنا، اس عملی کفران نعمت کی صورت میں انسان اس حد تک بندگی سے خارج ہوجاتا ہے کہ ”( اولئِکَ هم الفاسقون ) “ کا مصداق بن جاتا ہے یعنی بندگی کی سرحد سے باہر چلا جاتا ہے اور فاسق ہو جاتا ہے بنابریں اس آیت مبارکہ میں کفر و فسق کا جوتذکرہ آیا ہے وہ کفروفسق معروف نہیں ہے۔ بلکہ کفر سے مراد کفران نعمت اور فسق سے مراد حدودبندگی سے تجاوز کرنا ہے عیاش نے امام زین العابدین علیہ السلام سے اس آیت میں ”( وعدالله الذین الخ ) “ بارے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا وہ لوگ جن سے اس کا وعدہ ہے وہ ہمارے شیعہ ہیں خداوند یہ کام ان کے لیے ایسے فرد کے ذریعہ کرے گا جو مہدی علیہ السلام امت ہوگا“۔

۳۔ آرزوئے حصول کمالات انسانی

کمالات انسانی جو کہ درحقیقت تزکیہ نفس ہے جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ”( قد افلح من زکٰها ) “ ۔”فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا“۔(سورئہ شمس آیت۹)

تزکیہ یعنی صفات رذیلہ سے پاک ہونا اور خصائل انسانی سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا کیونکہ تذکیہ شدہ افراد ہی گروہ صالحین ہیں جو کہ وارث زمین ہیں ”( ان الارض یرثها عبادی الصالحون ) “ یہ صالحون درحقیقت وہی اصحاب امام زمان علیہ السلام علیہ السلامہیں “۔ (سورئہ انبیاءآیت ۵۰۱)

۴۔ ابدی سعادت کی آرزو

چوتھا نصب العین و مقصود دیدار ذات مقدسہ الٰہی اور بہشت کی ہمیشہ رہنے والی نعمات تک رسائی ہے کہ خداوند کریم قرآن میں فرماتا ہے۔ ”یاایتهاالنفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیه مرضیه فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی “۔ (سورئہ فجر آیت۷۲ سے آخرتک)

”اے نفس مطمئنہ!راضی و خوشی خدا تم سے راضی اور تم خدا سے راضی ہو کر اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آو میرے بندوں میں داخل ہو جاو اور میری بہشت میں داخل ہو جاو اس آیت شریفہ میں تین عظیم نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے“۔

۱۔ اللہ کی طرف رجوع (مرنے کے بعد) یعنی دیدار خداوند

۲۔ ایسے بندگان خدا میں داخل ہو جانا جن سے مراد پیغمبران اور آئمہ اہل بیت علیہ السلام ہیں جو دوسرے جہاں ابدی کی طرف سفر کرچکے ہیں ۔

۳۔ جنت میں داخل ہوجانا، خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو یہ چار امیدیں رکھتا ہے ان چاروں مرحلوں میں اہل بیت علیہ السلام سے رابطہ استوار رکھتا ہے۔

حضرت مہدی علیہ السلام و دیگراقوام و ادیان

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ نجات دہندہ بشریت بارے دیگر اقوام و ادیان کی کتب میں بہت زیادہ تذکرہ موجود ہے ہم کچھ موارد کایہاں تذکرہ و اشارہ کریں گے۔

شاکمونی

جس کو ہندو مذہب میں صاحب کتاب پیامبر کا درجہ دیا جاتا ہے اس کی کتاب میں درج ہے کہ دنیا کی حکومت اور بادشاہی سیدالکونین سرکار دو جہاں کشن (کشن ہندی زبان میں پیامبر گرامی کا نام ہے انہوں نے اس بشارت میں اپنے اس لائق فرزند کانام ”ایستادہ“ اور ”خداشناس“ بیان کیا ہے جیسا کہ شیعہ اسے قائم کہتے ہیں ) کے فرزند پر تمام ہوگی وہ فرزند رسول جس کا حکم مشرق ومغرب کے پہاڑوں پر چلے گا وہ شرق و غرب میں اپنا حکم چلائے گا، بادلوں پر سواری کرے گا، فرشتے اس کے دائیں بائیں بطور کارکنان موجود رہیں گے، انس و جن اس کی خدمت میں ہوں گے، وہ خط استواءکے نیچے سے لے کر سرزمین تسعین تک جو کہ قطلب شمالی کے نیچے ہے اور ماوارے سمندر اس کی حکومت ہوگی سب کچھ اس کا ہوگا اس کی حکومت میں دین خدا صرف ایک دین ہو جائے گا اور زندہ ہو جائے گا اس فرزند رسول کا نام قائم اور خداشناس ہوگا۔

باسک

جو کہ ہندو مذہب کی آسمانی کتاب شمار ہوتی ہے،اس میں ذکر ہے کہ دنیا ایک ایسے عادل بادشاہ آخرالزمان پر اختتام پذیر ہوگی جو کہ ملائکہ پریوں اور انسانوں کا پیشوا ہوگا حق اورسچائی اس کے ساتھ ہوگی جو کچھ دریاوں، زمینوں اورپہاڑوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس کے ہاتھ پہنچ جائے گا وہ آسمانوں اور زمینوں کی خبریں دے گا اس سے بڑھ کر کوئی بزرگ دنیا میں نہیں ہوگا۔

پاٹیکل Patecul

ہندو مذہب کے بڑے رہنماوں سے ہے اور ہندووں کے عقیدہ کے مطابق صاحب کتاب آسمانی ہے اپنی کتاب میں حکومت و سعادت سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے یوں بیان کرتا ہے:

”جب دنیا کی مدت ختم ہوجائے گی تو یہ پرانی اور فرسودہ دنیا دوبارہ نئی ہو جائے گی اور زندہ ہوگی اور اس دنیا کا نیا بادشاہ آجائے گا جو کہ دو عظیم پیشواوں کا بیٹا ہوگا۔ اول نامور آخر الزمان یعنی رسول اکرم، اور صدیق اکبروصی رسول خدا پشن ہے (حضرت علی علیہ السلام کا ہندی نام پشن ہے) اس کا نام راہنما ہو گا وہ حق کا حکمران ہو گا اور (رام) خداکا خلیفہ برحق ہوگا۔

اس کے لاتعداد معجزات ہوں گے جو شخص اس حکمران برحق کی پناہ میں جا کر اس کے آباءو اجداد کا دین قبول کرے گا وہ رام (خدا) کے ہاں سرخرو ہوگا۔اس کی حکومت بہت وسیع ہوگی اس کی عمر باقی اولاد پیغمبر سے زیادہ ہوگی۔

جاماسب

اپنی کتاب جو کہ جاماسب نامہ کے نام سے مشہور ہے میں زرتشت کے اقوال کے حوالہ سے پیامبر گرامی اور حکومت حضرت مہدی علیہ السلام اور وفات پاجانے والے کچھ افراد کی رجعت کے حوالہ سے لکھتا ہے۔ پیغمبرعرب آخری پیغمبر ہوگا جو کہ مکہ کے پہاڑوں کے درمیان پیدا ہوگا وہ اونٹ کا سوار ہوگا اور اس کی قوم بھی شتر سوار ہوگی وہ اپنے غلاموں کے ساتھ کھائے پیے گا اور ان کے ہمراہ بیٹھے گا اس کا سایہ نہیں ہوگا وہ پشت پیچھے بھی ویسے ہی دیکھ سکے گا، جیسے سامنے دیکھے گا، اس کا دین تمام ادیان سے زیادہ باشرف ہوگا،اس کی کتاب تمام کتابوں کو منسوخ کردے گی، اس کی حکومت عجم کو برباد کر دے گی، دین محبوس اور پہلوی کو برطرف کردے گا اس کے آنے سے نارسدیر اور آتشکدہ بجھ جائے گا، کنانیوں اور اشکانیوں کازمان علیہ السلامہ ختم ہوجائے گا۔

اس پیغمبر آخر الزمان کی بیٹی جو کہ سیدة نساءالعالمین علیہ السلام ہوگی کی اولاد میں ایک فرزند دنیا پر حکمرانی کرے گا حکم پروردگار سے جو کہ پیغمبرآخرالزمان کا جانشین ہوگا وہ وسط دنیا میں ہوگا یعنی مکہ میں اس کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی۔

عہد عتیق کا حوالہ

عہد عتیق تورات طبع لندن، سفرپیدائش ص۶۲، باب نمبر۷۱ جملہ نمبر۰۲۱۲ میں درج ہے:

”خصوصاً ائے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہم نے تمہاری دعا قبول کی ہم نے اسے برکت دی اسے بار آور بنایا اور اسے بہت زیادہ اولاد دی کثرت دی ۲۱رئیس (سردار)ہم نے اس سے پیدا کئے اور اس سے ہم نے ایک بہت بڑی امت پیدا کی “۔

(چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جدعرب ہیں اور بنوہاشم انہیں سے ہیں اور یہاں بارہ سرداروں سے مرادآئمہ معصومین علیہ السلامہیں (مترجم)

حضرت داود علیہ السلام کا بیان

حضرت داود علیہ السلام نے ہر فصل میں حضرت امام زمان علیہ السلام کے ظہور پرنور بارے تذکرہ کیا ہے ”اور بہت کثرت سے ذکر کیا ہے مثلاً آسمانوں کی خوشی، خاکیوں کی شادمانی، دریاوں کی طغیانی، صحراوں کا وجد، درختوں اور جنگلوں کا ترنم جو کہ سرکار حجت کے ظہور کے وقت ہوگاانہوں نے اس کا کثیر تذکرہ کیا ہے حضرت داود علیہ السلام نے جہاں کی آبادی انسانوں کی آسائش و خوشبختی کو سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت کریمانہ کےساتھ مشروط کیا ہے اور سرکار کے انتظار کا فرمان دیا ہے اسی طرح مزمور نمبر۷۳ زبورداود میں آیا ہے کہ دنیا کے اشرار ختم ہونگے اور اللہ تعالیٰ مومنوں اور صالحین ومتوکلین کو زمین کا وارث بنائے گا، اشرار نیست و نابود ہوجائیں گے لوگ جتنی بھی کوشش کرینگے اشرار نہیں ملیں گے متواضع و مخلص لوگ زمین کے وارث بن جائیںگے اور سلامتی کی کثرت کیوجہ سے لذت حاصل کرینگے۔

اشعیاءعلیہ السلام نبی کا بیان

اشعیاءنبی کی کتاب میں ہے کہ بھیڑیا اور بکری باہم سکونت کریں گے شیر اور مینڈھا اور بچھڑے ایک ساتھ باہم سوئیں گے اورپھریں گے، چھوٹا سا بچہ ان کا مشترکہ چرواہا ہوگا۔

(یہ وہیزمان علیہ السلامہ ہوگا جب سرکار حجت کی عدل و انصاف سے لبریز حکومت قائم ہوگی(مترجم)

جناب حیقوق علیہ السلام نبی کا بیان

جناب حیقوق علیہ السلام نبی نے خوش خبری دی ہے سرکار کے ظہور کی اور سرکار کی غیبت کےزمان علیہ السلامہ کے طولانی ہونے بارے تذکرہ فرمایا ہے اور اپنی امت سے مخاطب ہو کر فرمایا: کہ اگر اس کے ظہور میں تاخیر ہو تو اس کا انتظار کرو کیونکہ وہ ضرور آئے گا۔

انجیل میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ

جب فرزند انسان ملائکہ مقدسہ کے ہمراہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ آئے گا اور اپنی جلال کی مسند پررونق افروز ہوگا۔

انجیل مقدسہ متی کے باب نمبر۴۲ میں بیان کیا گیا ہے ہے کہ جب فرزند انسان کے ظہور کی علامت آسمان پر ظاہر ہوگی تو اس وقت زمین کے تمام گروہ سینہ زنی کریں گے اور وہ فرزند انسان اپنی قوت وجلال عظیم کے ساتھ آسمانی بادلوں کے تخت پر نمودار ہوگا۔

مگر ظہور فرزند انسان بھیزمان علیہ السلامہ نوح کیطرح ہوگا جیسے طوفان نوح سے پہلے لوگ کھاتے پیتے رہے نکاح وشادی کرتے رہے یہاں تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوگئے اور ان کی قوم پھر بھی نہ سمجھی یہاں تک کہ طوفان آگیا اور سب کو لے گیا اسی طرح فرزند انسان کا ظہور ہوگا اگرچہ جو لوگ ابھی متوجہ نہیں ہیں پس بیدار رہو، کیونکہ تمہیں نہیں پتہ کہ کب اور کس ساعت تمہارا خداوند آجائے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کم و بیش۰۵ جگہ پر ظہور سرکار امام زمان علیہ السلام کے اچانک ہونے بارے خبر دی ہے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلامٰ فرماتے ہیں کہ:” اپنی کمر باندھ کے رکھو اپنے چراغ جلا کے رکھو خوش قسمت ہیں وہ غلام کہ جن کا آقا آئے تو غلام بیدار ہوں اور اس کی خدمت کے لیے آمادہ اور حاضر ہوں“۔

(عیون اخبارالرضا علیہ السلامج۱ص۷۴)

یوحنا نبی کے مکاشفہ

”عظیم علامت آسمان خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ایک با عظمت اور طاقتور خاتون ہے ایسی باعزت ایک خاتون کہ سورج جس کے سامنے ہوگا اور چاند جس کے پاوں کے نیچے اور اس کے سرپر بارہ ستاروں والا تاج ہوگا“۔

حضورنبی کریم نے شب معراج انوارطیبہ حضرت علی علیہ السلام و سیدہ زہراءعلیہ السلام و آئمہ اطہار علیہ السلام کو مشاہدہ کیا اور نور مقدس حضرت بقیة اللہ کو دیکھا جو کہ ان انوار کے درمیان مثل روشن ستارہ کے چمک رہا تھا تو خداوند کریم سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ آواز قدرت آئی یہ انوار آئمہ علیہ السلام ہیں اور یہ زیادہ روشن نور اسی قائم کا ہے کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام بنائے گا(کیونکہ ظہور قائم علیہ السلام سے پہلے کئی حلال کو لوگوں نے حرام اور کئی حرام کو لوگوں نے حلال بنالیا ہوگاسرکار آکر اصل کی طرف لوٹائیں گے”مترجم“)خدا وند عالم نے فرمایا کہ میں اسی قائم کے ذریعے اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا یہی قائم میرے دوستوں کے لیے باعث آرام و سکون ہوگا، یہ قائم تیرے شیعوں کے دلوں کو ستمگروں کافروں اور منکروں کے مظالم سے سکون بخشے گا، یہی قائم لات وعزیٰ کو دوبارہ خاک سے باہر نکالے گا اور انہیں آتش کا ایندھن بنائے گا۔

یہاں تک کہ رسول کریم نے ایک طولانی حدیث بیان فرمائی اور کہا کہ: ”طوبیٰ لمن لقیه وطوبیٰ لمن احبّه وطوبیٰ لمن قال به “۔(کمال الدین وتمام النعمہ ج۱ص۸۶۲)

ترجمہ:۔ ”خوش قسمت ہیں وہ جو اس (قائم علیہ السلام) کی ملاقات کریں گے، خوش قسمت ہیں وہ جو اس قائم علیہ السلام سے محبت کریں گے اور خوش قسمت ہیں وہ جو قائم علیہ السلام پر اعتقاد رکھتے ہیں “۔

یہاں تک فرمایا( فقل انما الغیب للّٰه فانتظرواانی معکم من المنتظرین ) (سورئہ یونس آیت ۰۲)

ترجمہ:۔”پس کہہ دو کہ وہ غیب اللہ کے پاس ہے، پس تم اس کا انتظار کرو کہ میں بھی تمہارے ساتھ اسی کا منتظر ہوں“۔

یہاں غیب سے مراد ظہور مہدی علیہ السلام ہے اورمنظور از جملہ” انی معکم من المنتظرین“ یعنی رسول خدا بھی سرکار حجت علیہ السلام کے ظہور کے منتظرین میں سے ہیں ۔

مہدی (عج) نہج البلاغہ میں

کتاب مہدی علیہ السلام منتظر درنہج البلاغہ کے مصنف محقق محترم حجة الاسلام والمسلمین فقیہہ ایمانی نے اپنی کتاب میں ۲۱ حوالہ جات از اہل سنت نقل کیے ہیں کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ مہدی علیہ السلام پیدا ہو چکے ہیں اور باامر خدا پردہ غیبت میں ہیں ۔ انہوں نے گیارہ مقامات پر امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام نہج البلاغہ سے نقل کیے ہیں ۔ جن میں مولیٰ امیر علیہ السلام نے حضرت مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے ہم سات مقامات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔

۱۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ نمبر۹۹ میں تحریرہے کہ:

حتی یطلِعَ اللّٰه لکم من یجمعکم ویضم نشرکم “۔

ترجمہ:۔ ”یہاں تک کہ خدا ایک ایسی شخصیت کو طلوع کرے جو تمہیں جمع کرے (تمہارے اختلافات کو ختم کرے) تمہاری بے سروسامانی کو سامان دے پس تم طمع نہ کرو اس کا جو تمہاری طرف نہیں آتااور تمہیں نہیں ملا اور جس نے تم سے روگردانی کی اس سے مایوس نہ ہو، اس میں صریحاًاشارہ ہے غیبت سرکار امام زمان علیہ السلام کی طرف“۔

۲۔ خطبہ نمبر ۸۳۱ نہج البلاغہ فیض الاسلام میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے ارشاد ہے اور ان کے بارے میں گفتگو ہوئی کہ:

یعطف الهویٰ علی الهدیٰ واذاعطفوا الهدی علی الهویٰ.... الخ “۔

ترجمہ:۔ ”وہ مہدی علیہ السلام خواہشات نفسانی کو ہدایت و راہنمائی الٰہی کی طرف لوٹائے گا جب کہ لوگ ہدایت الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی طرف پھیر چکے ہوں گے اس وقت جب کہ لوگ قرآن کی تفسیر پر لڑائی کریں گے ۔ اپنی آراءکو قرآن پر فوقیت دیں گے، حوادثات و واقعات اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ جنگ ہر ایک کو لپیٹ میں لے لے گی، مثل اس حیوان درندہ کے جو حملہ کے موقع پر اپنا پورامنہ شکار کو چیرے پھاڑنے کے لئے آخری حد تک کھولتا ہے،جنگ تمین ڈنگ مارے گی جنگ کے پستان دودھ سے پرہوجا ئینگے، یعنی مہمات جنگی فراوان ہوں گے اس جنگ کا دودھ ابتداءمیں شیرین ہے اور آخر میں مثل زہر کے ہوجاتا ہے“۔

اس لیے کتاب مہدی علیہ السلام منتظر در نہج البلاغلہ کے مصنف لکھتے ہیں :”جنگ کی ابتداءمیں کچھ کامیابیاں اور غنیمت جنگ کرنے والے کو ہاتھ آتی ہیں اور زیادہ غنیمت حاصل کرنے اور مکمل کامیابی حاصل کرنے کی امید کی وجہ سے ذائقہ جنگ آغاز میں شیریں معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی فریق دوسرے فریق کی جنگ بندی کی اپیل قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا لیکن جنگ کا اختتام قتل و کشار ، بربادی، ڈھیروں زخمی ، جسمانی و روحانی بیماریاں، مال و اسباب کی غارتگری، ناموس و عزت کی پائمالی پر ہوتاہے اور کئی قسم کی بدبختیاں جنگ زدہ قوموں اور جنگ کرنے والوں کو دے جاتاہے۔ ہوشیار رہو آنے والے کل سے ، ایسا کل کہ جو کچھ اس کل میں ہے تم اس سے ناآگاہ ہو والی علیہ السلام کے ذریعہ، حکومتی اہل کاروں اور عمال حکومت جو کہ خیانت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ان کا محاکمہ ہوگااور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ زمین اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے لیے نکال کر پیش کرے گی عاجزی اور فروتنی کرتے ہوئے زمین اپنی چابیاں اس کی طرف ڈال دے گی، جس کے بعد وہ نگران آئین پیغمبر اکرم کے اجراءکا عملی مظاہرہ کرے گا کتاب خدا کے آثار اور سنت کے فراموش شدہ آثار و قوانین کو دوبارہ زندہ کرکے اس کے عمل کو دوبارہ رائج کرے گا۔ابن ابی الحدید نے یہاں ”والی“ سے مراد امام لیا ہے، جس کو خداوند آخر الزمان میں پیدا کرے گا۔

۳۔ نہج البلاغہ (۰۵۱) میں بھی ایسی اعلیٰ شخصیت کی غیبت کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جتنی بھی کوشش کی جائے اس کا کوئی پتہ اور نشان قدم کبھی نہیں ملتا۔

۴۔ اسی طرح نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۹۲۲ میں اصحاب وانصاران حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ :”اَلاَبابی وامی هم من عدة اسماو هم فی السماءمعروفةً وفی الارضِ مجهولة “۔ترجمہ:۔ ”میرے ماں باپ ان پر فدا ہوں وہ ایسا گروہ ہیں کہ جن کے اسماءگرامی آسمانوں میں بہت مشہور اور معروف ہیں مگر زمین وہ گم نام ہیں “۔

یہاں تک کہ حضرت فرماتے ہیں کہ:”مومن کے لیے تلوار مارنا نسبت ایک حلال درہم پیدا کرنے کے آسان ہے اور اس صورت میں اجر لینے والا دینے والے سے زیادہ ہے یہ وہ ہیزمان علیہ السلامہ ہو گا کہ لوگ سست ہوں گے بغیر شراب کے نعمتوں کی وجہ سے مستی میںہوگی، وہ قسم کھائیں گے بغیر کسی وجہ و مجبوری کے جھوٹ بولیں گے بغیر کسی جبروکراہ کے“۔

۵۔ اسی نہج البلاغہ کی نصیحت نمبر۹۳۱ میں تحریر ہے کہ:

اللهم بلیٰ لاتخلوالارض من قاءم للّٰه بحُجةٍ....الخ “۔

ترجمہ :۔ ”اے خداوند! تیرے لطف و کرم سے تیری زمین کبھی بھی تیری حجت اور امر حق کے قیام (قائم) سے خالی نہیں رہے گی خواہ وہ حجت قائم ، ظاہرو آشکار ہو یا مخفی وپنہاں یہاں تک کہ اس کی دلائل الٰہیہ اور مشیت خدائی تمام نہ ہو جائے “۔

۶۔ انہیں انصاران مہدی علیہ السلام بارے نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:”ان پر (اصحاب مہدی علیہ السلام) علم و دانش اصلی حقیقت سے ظاہر ہوگا وہ روح یقیں کو پاک اور آمادہ محسوس کریں گے ہر وہ چیزجو دنیا پرستوں اور ہوس کے بندوں کے لیے مشکل اور دشوار و ناہموارہو گی ان اصحاب مہدی کے لیے آسان اور پسندیدہ ہوگی، ہر وہ چیز جو احمقوں کے لیے خوف و حراس کا باعث ہوگی یہ (اصحاب مہدی علیہ السلام) اس سے محبت کریں گے ان کے بدن و جسم تو دنیا کے ساتھ ہوں گے مگر ان کی روح جہاںبالا سے مربوط ہوگی یہ زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں دین خدا کی دعوت دینے والے ہیں ۔ آہ، آہ (ہائے ،ہائے) میں ان کی زیارت کا مشتاق اور دیدار کا آرزومند ہوں اے کمیل ! اب اگر چاہتا ہے تو واپس لوٹ جا“۔

۷۔ نہج البلاغہ کی نصیحت نمبر۰۰۲ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :

لتعطِفنّ الدنیا علینا بعدشماسها “۔

ترجمہ:۔ ”دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی بعد اس کے کہ پہلے وہ تم سے روگردانی کرچکی تھی اس کے بعد حضرت نے یہ آیہ مبارکہ ”( نریدان نمن علی الذین ) “ کی تلاوت فرمائی“۔

(سورئہ قصص آیت۵)

باب دوئم

خلیفة اللہ

زمین کا حجت خدا سے خالی نہ ہونا

اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین ہرگز حجت خدا سے اور خلیفہ الٰہی سے خالی نہ رہی ہے اور نہ رہے گی اس ضمن میں قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات وارد ہوئی ہیں کہ کچھ کا تذکرہ اور یاد آوری کرتے ہیں :

۱۔ ”( واذ قال ربک للملاءکة انی جاعل فی الارض خلیفه ) “۔(سورئہ بقرہ آیت نمبر۰۳)

ترجمہ:۔ ”جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بناوں گا“۔

یہ خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام نہیں تھے بلکہ جب تک انسانیت باقی ہے خلیفہ خدا ان کے درمیان موجود رہے گا زمین پر خلیفہ کی موجودگی لازم و ضروری ہے۔

۲۔ ”( فکیف اذاجئنامن کل امة بشهیدوجئنابک علی هو لاءشهیدا ) “۔

(سورئہ نساءآیت نمبر۱۴)

ترجمہ:۔ ”پس کیسا ہوگا ان کے لیے جب ہم گواہ قرار دیں ہر امت سے ان کے واسطے اور ان سب گواہوں پر گواہ قرار دیں یعنی انسان کی اولین پیدائش سے لے کرتاوقتیکہ انسان زمین پر سکونت پذیر ہے ہر امت پر ایک ایسا گواہ مووجود ہے جو اس امت کے اعمال کا شاہد ہے اور اے محمد آپ ان گواہان پر شاہد و ناظر دیکھنے اور نظر رکھنے والے ہیں “۔

۳۔ ”( اعلمو انما غنمتم من شی فان للّٰه خمسه، وللرسول ولذی القریٰ، والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل ) “۔(سورئہ انفال آیت نمبر۱۴)

ترجمہ:۔ ”جان لو کہ ہرقسمی منافع جو تمہیں حاصل ہو اس پر پانچواں(خمس) حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور رسول کے قرابت داروں میں سے ایک قریبی کے لیے، اور یتیموں اور مساکین ومسافروں کے لیے ہے“۔

وضاحت: اس آیت میں لفظ ”ذی القربیٰ“ آیا ہے جو کہ مفرد ہے اور یہاں ”ذی القربیٰ“ کا مقصد امام معصوم علیہ السلام ہے جو کہزمان علیہ السلامہ میں موجود ہے اور اس کا حصہ سہم امام علیہ السلام کے نام سے معروف ہے اور باقی جو سہم سادات کے نام سے موسوم ہے وہ اسی اولاد رسول سے یتامیٰ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہے۔

۴۔ ”( انما انت منذرولکل قوم هاد ) “ ۔(سورئہ رعد آیت نمبر۷)

ترجمہ:۔ ”اے میرے پیامبر! تو خبردار کرنےوالا ہے ،ہرقوم کےلئے ہادی اور امام و رہبرموجود ہے ‘ ‘۔

اس آیت مبارکہ میں بھی مسلمہ حقیقت کا تذکرہ کیا گیا یعنی امامت ہر قوم و گروہ کو ہرزمانہ میں کمال انسانی تک رسائی حاصل کرنے کےلئے ایک ہادی جو اللہ کی طرف سے ہوکی ہمہ وقت ضرورت ہے۔

۵۔ ”( یوم ندعوا کل اناس بامامهم فمن اوتیٰ کتابه، بیمینه فاول ک یقرو ن کتابهم ولا یُظلمون فتیلا ) “۔(سورئہ اسراءآیت ۱۷)

ترجمہ:۔ ”اور اس دن جب ہم ہر گروہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ پکاریں گے اور ہر وہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہوگا“۔ اس آیت مبارکہ سے صراحتاً پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ پیشوا اور امام انسان کے ساتھ ہے کہ قیامت کے روز انسان اسی امام کے کیساتھ محشور ہوگا۔

۶۔ ”( واذ قال ابراهیم لابیه وقومه اننی براء مماتعبدون الاالذی فطرنی فانه سیهدین جعلها کلمة باقیة فی عقبه لعلهم یرجعون ) “ (سورئہ زخرف آیت نمبر۶۲،۸۲)

ترجمہ:۔ ”جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا! اپنے چچا سے (جسکو باپ کہا جاتا تھا) اورقوم سے میں بیزار ہوں اس سے جسکی تم پوجا کرتے ہو مگر جس نے مجھے پیدا کیا اور میری راہنمابھی وہی کرے گا(میں تو آپ کی عبادت کروں گا) “ ۔

اکثر مفسرین نے کلمہ ”باقیه فی عقبه “ کو ایک ہدایت کرنے والا انسان ذکر کیا ہے جو کہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان موجود ہے اورتوحید کی منادی دے رہا ہے وہ نسل ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور وہ دنیا کے اختتام تک باقی رہے گا۔

۷۔ ”( تنزل الملاءکة والروح فیهاباذن ربهم من کل امرسلام هی حتی مطلع الفجر ) “۔(سورئہ قدر آیت ۴۔۵)

ترجمہ:۔”رب العزت کے حکم سے اس رات فرشتے اور روح ہر امر کے لیے نازل ہوتے ہیں تا طلوع صبح سلام ہے“۔ فرشتے اور روح کس پر نازل ہوتے ہیں ؟اور کس امر کےلئے نازل ہوتے ہیں ؟ سلام کس پر ہے؟ اور صاحب شب قدر کون ہے؟۔(لفظ ”الفجر“ کے عدد بحساب ابجد ۴۱۳ بنتے ہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپکے ۳۱۳ ناصران مل کر ۴۱۳ بنتے ہیں اس طرح روح ایک ایسا موجود ہے جو سب فرشتوں سے بلند ہے اسے روح اعظم بھی کہاجاتا ہے اور یہ جبرئیل علیہ السلام جن کا لقب روح الامین ہے اسکے علاوہ ہے) اس طرح سورئہ دخان میں ہے کہ ”( فیها یفرق کل امرٍ حکیم ) “ (سورئہ دخان آیت۴)” ہر امر محکم اس رات مشخص ومعین ہوجاتاہے ، یعنی غیر واضح اور مجمل امور اس رات (لیلة القدر) میںکھل جاتے ہیں “مثلاًمجمل ہے کہ آئندہ سال ایک ہزار نفر اس شہر میں وفات پائیں گے اس رات (لیلة القدر) میں یہ طے ہوجاتا ہے کہ وہ ایک ہزار نفر کون ہیں اور انکے کیا نام ہیں تفسیر نور الثقلین میں ۳۱ روایات نقل کی گئی ہیں کہ صاحب لیلة القدر یعنی شب قدر کے مالک سرکار امام زمان علیہ السلام ہیں کہ فرشتے آپ پر نازل ہوتے ہیں اور طلوع فجر تک مسلسل آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔(نورالثقلین ج۴ص۲۱۶،۳۴۶)

حضرت امام زمان علیہ السلام کی معرفت بارے مشہور حدیث

من مات ولم یعرف امام زمان علیه السلامه مات میتة الجاهلیة “۔ (بحارالانوار ج۸ص۸۶۳)

جواپنےزمان علیہ السلامہ کے امام معصوم علیہ السلام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرگیا گویا وہ جاہلیت کی موت مرگیا، ایک اور حدیث صحیح میں آیاہے ، حارث بن عفیرہ سے مروی ہے کہ میں نے اباعبداللہ سے پوچھاکہ کیا پیغمبر نے فرمایا ہے کہ جو معرفت امام زمان علیہ السلام کے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں، میں نے پوچھا کہ جاہلیت سے مراد مطلق نادانی و جہالت ہے یا وہ جاہلیت جو امام علیہ السلام کی عدم شناخت کا سبب ہو تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: جاہلیت سے مراد جاہلیت نفاق اور گمراہی ہے۔

(مکیال المکارم ج۱ص۴۱)

عبداللہ بن عمر کا حجاج کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہونا

ایک اور مقام پر نقل ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کوتختہ دار پر لٹکادیا تو عبداللہ بن عمر ایک رات تاریکی میں حجاج بن یوسف کے پاس آیا اور کہا کہ اپنا ہاتھ آگے کرو میں عبدالملک کی بیعت تمہارے ہاتھ پر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ رسول اکرم نے فرمایا: کہ جس نے معرفت امام زمان علیہ السلام حاصل نہ کی اور مرگیا تو گویا جاہلیت کی موت مرا، حجاج نے اپنے ہاتھے کی بجائے اپنا پاوں آگے کردیااور کہا کہ بیعت کرو، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میرے ساتھ مذاق کرتے ہو، حجاج نے کہا کہ اے بنی عدی کے احمق! کیا علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام تیرے وقت کا امام نہ تھا تو نے اس کی بیعت کیوں نہ کی، آج میرے پاس حدیث لے کر آگئے ہو اورسنا رہے ہو خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تُو حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ عبداللہ بن زبیر کا انجام دیکھ کر میرے پاس آیا ہے کہ تم اسے دار پر لٹکا دیکھ کر آئے ہو۔(الکنی والالقاب ج۱ص۳۶۳)

حدیث معرفت امام زمان علیہ السلام سے مراد

یہ حدیث جو کہ شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اس کے دو پہلو بنتے ہیں اور یہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے ۔

۱۔ اس میں امام سے مراد حکام وخلفاءحکمران ہیں مثلاً عبدالملک، منصور، ہارون مامون و متوکل وغیرہ مراد ہیں ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حکمران ظالم اور ستمگر تھے اور خداوند عالم رتبہ امامت بارے فرماتا ہے:”( لاینال عهدی الظالمین ) “ ۔ (سورئہ بقرہ آیت ۴۲۱)

ترجمہ:۔ ”یہ عہدہ امامت کسی ظالم کو نہیں دوں گا “ پس کس طرح انہیں امام قرار دیا جاسکتا ہے ۔

۲۔ امام سے مراد آئمہ معصومین علیہ السلام جو امیرالمومنین علیہ السلامسے حضرت امام مہدی علیہ السلام تک ہیں اور اس دور میں جس امام علیہ السلام کی معرفت ضروری ہے، وہ سرکار امام مہدی علیہ السلام کی ذات اقدس ہے اور یہی دوسری مراد ہی آیات و روایات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

حضرت اما م مہدی علیہ السلام اور اہل بیت علیہ السلام اطہار آیات وروایات کی روشنی میں

قرآن مجید میں بہت زیادہ آیات ایسی ہیں جو جملہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی امامت اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام مہدی علیہ السلام کے بارے بیان کی گئی ہیں جن میں سے کچھ آیات کی طرف اشارہ کریں گے۔

۱۔ ”( فلا اقسم بالخنس الجوارالکُنس ) “۔(سورئہ تکویر ۵۱۔۶۱)

ترجمہ: ”قسم ہے ستاروں کی جو حرکت کرتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں “حضرت امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں ”ایک امام جو کہ ۰۶۲ ہجر ی میں پردہ غیبت میں چلا جائے گا اور پھر ایسے ستارہ کی مانند جو تاریک رات میں روشن ہوجائے ظاہر ہوگا، حضرت راوی کوحدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب تم اس کےزمان علیہ السلامہ کو پاو گے تو تمہارے آنکھیں روشن ہوں گی“۔(تفسیر برہان ج۲،ص۴۲۲)

۲۔ ”( والسماءذات البروج ) “۔(سورئہ بروج آیت ۱)

ترجمہ:۔” آسمان کی قسم کہ جو باعظمت اور بلند و بالا برجوں کا حامل ہے“ رسول اکرم فرماتے ہیں کہ ذکر خدا افضل ترین عبادت ہے اسی طرح میرا ذکر عبادت ہے اور میرے بھائی علی علیہ السلام کا ذکر بھی عبادت ہے اور اسکے آئمہ معصومین علیہ السلام بیٹوں کی یاد عبادت ہے، ان آئمہ علیہ السلام برحق کی تعداد بھی سال کے مہینوں جتنی ہے یعنی بارہ ہیں ، وہ تعداد میں موسیٰ علیہ السلام کے نقیبوں کے برابر ہیں یعنی بارہ ہیں اسکے بعد حضرت نے مندرجہ بالاآیت تلاوت کی پھر فرمایا :آسمان سے مراد میں ہوں اور برجوں سے مراد میرے بعد آئمہ علیہ السلام برحق ہیں جن میں سے پہلے علی علیہ السلام اور آخری مہدی علیہ السلام ہیں “۔(تفسیر البرہان ج۱ص۰۵۲)

۳۔ ”( الفجر o ولیال عشرٍ o والشّفع والوتر o واالیل اذایسر o ) “۔ (فجر ۱تا۶)

ترجمہ:۔ ”صبح روشنی بخشیدہ کی قسم،دس راتوں کی قسم، جفت و طاق کی قسم اور اس رات کی قسم جو صبح روشن میں بدل جائے گی“۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :”الفجر“ سے مراد فجر قائم علیہ السلام ہے اور” لیال عشر“ سے مراد حضرت امام حسن”علیہ السلام“ سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک ۰۱ آئمہ طاہرین علیہ السلام ہیں ”والشفع“(جفت) سے مرادمولیٰ امیرالمومنین اور جناب سیدہ فاطمة الزہراء علیہ السلام ہیں ”والوتر“ سے مراد خداوند واحد واحد ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ”واللیل اذیسر“ وہ رات ہے جو ختم ہونے والی ہے یہاں حکومت جبر (آخری غاصب خلافت اہل بیت علیہ السلام ) کی ہے جو سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت الٰہیہ کے قیام تک ہوگی۔(تفسیر برہان ج۱ص۶۷۲)

۴۔”( والشمس وضحاهاوالقمراذاتلاهٰاوالنهاراذاجلاها، والیل اذا یغشاهٰا ) “( شمس ۱ تا۴)

ترجمہ:۔ ”سورج کی قسم اور اس کی درخشندگی کی قسم، چاند کی قسم جب وہ چمک رہا ہو، دن کی قسم کہ جو تاریکی کو ختم کردیتا ہے اور دنیا کوروشن کردیتا ہے اور رات کی قسم کہ جب وہ دنیا کو پردہ تاریکی میں ڈھال دیتی ہے“۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:”یہاں سورج سے مراد رسول خدا ہیں اور چاند سے مراد حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ، دن کی قسم سے یہاں آخر الزمان علیہ السلامجو کہ ذریت سیدہ زہراء علیہ السلام سے ہے کہ ظلم وجور کی تاریکی کو ختم کردے گا اورجہاں کو روشن کرے گااور رات سے مراد یہاں آئمہ ظلم وجور(یعنی جھوٹے امام مراد ) ہیں ۔(تفسیر برہان ج۱ص۷۹۲)

شیعہ اور سنی کتب میں آئمہ علیہ السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام کی امامت حقہ بارے کچھ روایات نقل ہیں اور خصوصاً امام مہدی علیہ السلام بارے شیعہ وسنی تقریباً ۶ہزار حدیثیں موجود ہیں جن میں سے ۴سو احادیث سنی کتب میں درج ہیں اور ان چار سو احادیث میں سے ۰۷۲ احادیث اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں درج ہیں مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، سنن ابن داود، سنن ابن ماجہ وغیرہ مسندحنبل ومستدرک میں احادیث وارد ہیں مزید تشریح کے لیے آیت اللہ صافی کی کتاب منتخب الاکثر کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔آیت اللہ ناصری مجلہ موعود(نشریہ نمبر۶۳سال۶) میں تحریر فرماتے ہیں کہ اہل سنت کی طرف سے امام مہدی علیہ السلام کے حوالہ سے ۲۰۲ کتب اب تک ضبط تحریر میں آ چکی ہیں اور مکتب تشیع کی طرف سے (۰۰۰۲) دو ہزار کتب سرکار امام زمان علیہ السلام پر تحریر کی جاچکی ہیں جس میں سرکارامام زمان علیہ السلام کا مکمل تعارف نامہ ،پتہ، ماں باپ و دیگر حوالہ جات کی معرفی کی گئی ہے ۷۰۲ قرآنی آیات اور ۷۰۲۶ روایات و احادیث سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے وارد ہوئی ہیں ۔

باب سوئم

اللہ کا اٹل ارادہ

اٹل وعدہ

خداوند مہربان نے ابتداءتخلیق دنیا وجہان سے جب سے اس نے انسان کو زمین پر پیدا کیا ساتھ ہی اپنے پیامبروں کا سلسلہ جاری کردیا تاکہ وہ انسانوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہیں اور اسے ستمگروں اور ظالموں کے درندہ نماپنجوں سے آزادی دلائیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:”( یریدون لیطفو ا نورااللّٰه بافواههم واللّٰه متم نوره ولوکره الکافرون ) “۔(سورئہ صف آیت ۸)

ترجمہ:۔ ”(دشمنان خدا) چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونک سے بجھا دیں، لیکن خداوند اپنے نور کو تمام و مکمل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو یہ بات ناگوارہے ارادہ خدا ہر صورت پورا ہونا ہے اگرچہ دشمن خدا اس کے لیے جتنا جلتے رہیں نور خدا کو ظاہر ہوناہے“۔

ہم اس باب میں ظہور مصلحان بزرگ کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیل ظہور پرنور سرکار امام زمان علیہ السلام کا جائزہ لےں گے۔

ظہور حضرت ابراہیم (علیہ السلام)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے نمرود نے خواب دیکھا جو کہ نجومیوں کی پیشین گوئیوں سے مطابقت رکھتا تھا اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا ہے جس نے اس کے خدائی تخت و تاج کو متزلزل کردیا ہے اس بنا پر اس نے فیصلہ کیا کہ مردوں کو عورتوں سے علیحدہ کردیاجائے تاکہ ایسا بچہ پیدا ہی نہ ہوسکے لیکن نمرود کی حکومت میں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک غار میں پیدا ہوئے اور مقام پیغمبری پر فائز ہوئے اور لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دی مشرکوں کے بتوں کو توڑا جس کی پاداش میں انہیں آگ میں پھینکا گیا لیکن آگ حکم خدا سے ان کے لیے گلزار ہوگئی۔

ظہور حضرت موسیٰ(علیہ السلام)

فرعون کو نجومیوں نے خبردی کہ بنی اسرائیل سے ایک شخص تیری حکومت و اقتدار کو برباد کر دے گا جس کی بنا پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہر فرزند کو جو لڑکا ہو پیدائش کے بعد فوراً قتل کردیا جائے اسی بارے قرآن کہتاہے: ”( یذبح ابناءهم ویستحى نساءهم ) “۔(قصص ۴)

ترجمہ:۔ ”فرعون ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور ان کی آبروریزی کرتا“۔ لیکن ارادہ خداوند یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دنیا میں آنا ہے موسیٰ(علیہ السلام) دنیا میں آئے عجب شرائط کے تحت آئے اور ان کی ماں نے انہیں پانی میں پھینک دیا فرعون نے انہیں پانی سے پکڑ لیا اور اپنے محل میں پرورش دی اور خود مادر موسیٰ کو اجرت دی اوراسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے پر مامور کیا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) مقام نبوت پر فائز ہوئے، بنی اسرائیل کو مظالم فرعون سے نجات دی اور فرعون اور فرعونیوں کو دریائے نیل میں غرق کیا فرعون کے ناچاہتے ہوئے بھی نور خدا یعنی ظہور موسیٰ(علیہ السلام) ہوا اور ارادہ خدا ظاہر ہوا۔

ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے بھی ماہرین ستارگان نے خبر دے دی تھی تاریخ میں ہے کہ کئی بچوں کو صرف اس لیے کہ نقشہ الٰہی اور ارادہ خدا کو ناکام کیا جائے قتل کردیا گیا۔ لیکن خداوند متعال نے اپنی حکمت کے ساتھ اپنے اس عظیم پیغمبرکو بغیر باپ کے پیدا کیا اور جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو خداوند عالم نے دشمنان خدا کے ارادوں کو ناکام کرتے ہوئے عیسیٰ(علیہ السلام) کو آسمان چہارم پر اٹھا لیا جو سرکار امام زمان علیہ السلام کو ظہور کے وقت آپ کے ہمراہ اور ساتھ ساتھ ہوں گے اور انصار میں ملیں گے۔

ظہور حضرت محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضور نبی اکرم جو کہ سید الانبیاء اور مصلح اعظم ہیں ان کے بارے تورات و انجیل میں ان کے ظہور سے پہلے آگاہ کردیاگیا تھا روایات کے مطابق ایران کے حکمران شاہ پور جو کہ” شاہ پور ذوالاکتاف“ کے نام سے معروف تھا کو جب حضور کے بارے آگاہی دی گئی کہ ایک عرب پیغمبر دنیا میں آئے گا جو کیانیوں (ایرانیوں) کے تخت و تاج کو برباد کردے گاشاہ پور ”ذوالاکتاف“نے فیصلہ کیا کہ عربوں کی نسل کو بڑھنے نہ دے گا لیکن ارادہ خداوندپورا ہوا اور ظہورسید الانبیاء علیہ السلام ہوکررہا۔ ”( واللّٰه غالب علی امره ) “۔ اور اللہ اپنے امروفیصلہ پر غالب ہے۔ (سورئہ یوسف آیت ۱۲)

ظہور حضرت امام مہدی (علیہ السلام)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ تمام ادیان عالم نے اپنے اپنے انداز میں ظہور امام مہدی علیہ السلام بارے ذکر کیا ہے اسی طرح رسول اکرم اور آئمہ علیہ السلام نے ظہور سرکار امام مہدی علیہ السلام بارے بہت زیادہ تذکرہ فرمایا وہ مہدی علیہ السلام جو کہ ظلم و طاغوت کے نابود کرنے والے ہیں ، اسی بنا پر بنی عباس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے خاندان کو مسلسل اپنی نظروں میں رکھا تا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہاں بیٹا پیدا ہوتے ہی اسے قتل کر دیا جائے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت مکمل طور پر مخفی رہی یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک کے پانچ سال گزر گئے اور آپ حکومتی اہکاروں سے مخفی رہے یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی حضرت امام مہدی علیہ السلام پانچ سال کی عمر میں ظاہر ہوئے اور اپنے پدربزرگوار کا جنازہ پڑھااور سب کو حیرت میں ڈال دیا، حکومتی ادارے آپ کے قتل کے درپے ہوگئے لیکن آپ پھر غائب ہوگئے جی ہاں! کسی میں جرات نہیں کہ وہ احکام الٰہی اور اہداف خداوندی کے اجراءمیں رکاوٹ بنے جب دنیا ظلم و جور سے پرہو جائے گی تو حضرت قائم علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے۔

حبیبم

حبیبم فریبا وزیباستی

گرفتار اوپیرو برناستی

چو گیسوی خود برفشاند فلک

ندا می دھد شام یلداستی

چو بیرون شود روی او از حجاب

سراسر جہان غرق غوغاستی

بہ پیشانی اوست بخت بلند

بلند است کز چرخ اعلاستی

بہ ابروی خود صید دلھا کند

کہ بر گردن او چہ خونہاستی

مگو چشم، سرچشمئہ لطف و مہر

بگو فتنہ اہل دنیاستی

از آن نقطئہ خال رویش خیال

گرفتار صد گونہ رو یاستی

کہ لعل لبش کانِ شہد و شکر

کلامش چہ شیرین و شیواستی

از آن خندہ و برق دندان او

چہ دلہا کہ دائم بہ یغماستی

مگو سینہ ، مرآت ایزدنما

زنورش جہان طور سیناستی

عطا و نوازش اگر خواستی

روان از دو دستش دو دریاستی

بہ ہر سو کہ آن قامت افتد بہ راہ

قیامت در آن نقطہ برپاستی

چہ گویم از آن یوسف گمشدہ

کہ گیتی زہجرش پر آواستی؟!

زہر کوی وبرزن کہ خواہی بپرس

اگر نام محبوب من خواستی

بہ ہر ملّتی نام او ہر چہ ہست

تو دانی کہ او مہدی ماستی

(دیوان گنجینئہ گوھر)

من از ہمہ بیگانہ ام ، در کوی تو پروانہ ام

وز عشق تو دیوانہ ام، لبریز شد پیمانہ ام

( یُرِیدُونَ لِیُطفِئُوا نُورَاَللّٰهِ بِافوَاهِهِم وَاَللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَو کَرِهَ اَلکَافِرُونَ ) “۔

”یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مار کر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کفار برا ہی (کیوں نہ) مانیں“۔ (سورہ صف۸)

فصل دوئم

مہدی علیہ السلام اور مہدویت کے دعویدار

جلوے

ولادت مہدی علیہ السلام

القاب مہدی علیہ السلام

جھوٹے دعویدار


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17