موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25594
ڈاؤنلوڈ: 2657

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25594 / ڈاؤنلوڈ: 2657
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کانام: موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مصنف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی

مترجم: غلام قنبر عمرانی

نظرثانی: علامہ سید افتخار حسین النقوی النجفی

زیراہتمام: امام خمینی ٹرسٹ ماڑی انڈس میانوالی پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب

اللہ کی بلند ترین علامت، کلمہ علیائ، وارث علوم انبیائ،تمام اوصیاءکی صفات کے حامل، اولیاءکی آنکھوں کا سکون، حجت معبود، مہدی موعود، روحی وارواح العالمین لہ الفداءکی خدمت اقدس میں۔

اظہاریہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حدیث نبوی ہے جو شخص چاہتا ہے کہ وہ اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے کہ اس کا ایمان کامل ہو، اس کا اسلام خوب صورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ حضرت حجت صاحب الزمان علیہ السلام المنتظر سے ولایت رکھے۔ (بحوالہ الاربعین لابی الفوراس لحافظ اہل السنة حدیث نمبر۶سے مکیال المکارم ج۱ص۴۲)

رسول اسلام حضرت محمد مصطفی کے بارہویں جانشین اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کی آخری حجت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا موضوع ان دنوں پورے عالم میں زیر بحث ہے اس عنوان پر گذشتہ سالوں میں بہت کچھ مختلف زاویوں سے لکھا گیا ہے اور مسلسل اس موضوع پر لکھا جا رہا ہے ۔

زیر نظر کتاب ”موعود امم“شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی کی تالیف ہے۔ انہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے بڑے آسان انداز میں عوامی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے مطالب کو بیان کیا ہے، مطالب آسان بھی ہیں عام فہم بھی، پیچیدہ علمی اور تحقیقی بحثوں سے گریز کیا ہے، جو بات کہی ہے باحوالہ کہی ہے ۔انہوں نے امام زمان علیہ السلام سے اپنے عشق اور ولاءکا اظہار ہر بحث کے اختتام پر فارسی کے اشعار سے کیا ہے، ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب اردو زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوجائے اور اسے ذاکرین، واعظین، دینی مدارس کے طلباءاور دانشوروں تک ہدیةً پہنچائی جائے۔

اس سال ماہ ربیع الاول میں بیرون ملک کے دورہ سے واپسی پر قم المقدسہ میں میری ان سے ملاقات حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی دام ظلہ العالی کے گھر پر ہوئی جو کہ بہت ہی معلومات افزا تھی، میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے ان سے آشنائی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ بھی میرے لیے ہدیہ کیا۔ بندہ نے ان سے وعدہ کر لیا کہ انشاءاللہ پاکستان واپس جا کر ”موعود امم“ کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے شائع کیا جائے گا ۔

چنانچہ سفر سے واپسی پر اس کتاب کے ترجمہ کی بھاری ذمہ داری نوجوان عالم دین جناب غلام قنبرعمرانی کو دی، انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے اس کا اردو ترجمہ مکمل کیا اور میں نے بھی اول سے آخر تک اس ترجمہ کو پڑھا جو اصل کتاب کے مطابق پایا اب کتاب اشاعت کے لئے آمادہ و تیار ہے۔

خداوند سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے مصنف اس کے مترجم اور اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھانے والوں کو اجر عظیم دے اور ہم سب کو حضرت بقیة اللہ الاعظم، نور آل محمد، خاتم الاوصیاء علیہ السلام، ولی عصر علیہ السلام، صاحب الزمان علیہ السلام،امام مہدی علیہ السلام کے ناصران اور معاونین سے قرار دے اور ان کی دعائیں ہمارے نصیب ہوں اور اس کتاب کے مندرجات کو مومنین کے لئے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام سے ولایت رکھنے اور عشق و محبت کے اظہار کا ذریعہ بنائے۔

محب منتظران امام زمان علیہ السلامہ (عج)

سید افتخار حسین النقوی النجفی

(۲۲۔۱۱۔۵۰۰۲ھ)

پیش لفظ ازمصنف

ہر کس بہ زبانی صفت وحمد تو گوید

بلبل بہ غزل خوانی وقمری بہ ترانہ

(کشکول شیخ بھائی)

.... شیعہ ایک عالمی مصلح اور انسانیت کے لئے امن کے داعی مجسمہ عدالت، ایک آئیڈئیل انسانی معاشرہ قائم کرنے والی ہستی کے وجود کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر پہچانتے اور عقیدہ رکھتے ہیں ۔

لیکن یہ عقیدہ تنہا شیعہ سے مخصوص نہیں بلکہ عالمی مصلح کا عقیدہ شیعوں کے علاوہ دیگر مذاہب وملل و فرقوں میں بھی موجود ہے جسے

٭ اہل سنت کے تمام فرقے (البتہ ابن خلدون جیسے منکر وجود مہدی علیہ السلامہزاروں میں چند ہیں جن کا کوئی مقام نہیں ) یا تو آپ کے وجود ذی جود کے عقیدت مند ہیں یا انہیں وہ غیبت میں جانتے ہیں یا یہ کہ مہدی متولد ہوں گے اور پھر ظہور فرمائیں گے۔

٭ سابقہ ادیان، یہودی، عیسائی باقی آسمانی کتابوں کے پیروکار یہاں تک کہ زرتشنی مذہب (مجوسی) بھی قائل ہیں اور ان کی کتابوں میں حضرت کانام ان کے اوصاف کے ساتھ ہے

٭ قدیم مذاہب کے پیروکار جیسے ہندو، بدھ مت ، برہمن اور سکھ وغیرہ کہ انہوں نے یہ عقیدہ اپنی کتابوں سے لیاہے۔

٭ مادہ پرست، سوشلسٹ، کمیونسٹ(ایسے مکاتب جو خدا کے وجود کے منکر ہیں )وہ بھی اس بات کی انتظار میں ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ پورا انسانی معاشرہ امن کی مثال بن جائے گا زمین پر خوشحالی و ہریالی ہوگی، محرومیت کا خاتمہ ہوگا،ہر ایک کو اس کا حق ملے گا، انہوں نے اپنی علمی تحقیقات میں ایک آئیڈیل معاشرہ کے قیام کی خبر دی ہے۔اس مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لئے انہوں نے کتابیں تحریر کی ہیں اور اپنی تحقیقی کتابوں میں انہوں نے ایک حصہ منجی بشریت کے عنوان پر مخصوص کیا ہے اور ایسے مصلح عالم کی خصوصیات کو درج کیاہے۔ اس تناظر میں موعود عالم کے بارے مختلف پہلووں میں ایک وسیع وعریض بحث کی ضرورت ہے۔

اس بات کو اذہان میں بٹھانے کے واسطے ذیل میں ایک مثال پیش کرتاہوں۔

فرض کریں ایک گھر کامالک یا ایک دفتر کاایڈمنسٹریٹر اس جگہ سے غائب ہے جس وجہ سے اس مقام پر کم وبیش بدنظمی اور بدانتظامی نظر آتی ہے۔

(الف) کچھ لوگ اس صورتحال کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا عقل یہ کہتا ہے کہ اگر اس گھر کا مالک موجود ہوتا اوراس دفتر کا منتظم غائب نہ ہوتا تو یہ بدانتظامی اور بدنظمی موجود نہ ہوتی ، اس لحاظ سے وہ ایک لائق مدیر اور منتظم کے منتظر ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فلسفی مکاتب سے وابستہ ہیں (اور دنیا میں بدامنی، بدانتظامی، بے عدالتی کاخاتمہ ایک منتظم کی آمد میں دیکھتے ہیں )

(ب) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم اور مالک کے اوصاف کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں کے قائل ہیں ۔

(ج) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم کا نام جانتے ہیں اور ان کی کچھ خصوصیات سے بھی آگاہ ہیں جیسے اہل سنت۔

(د) کچھ وہ ہیں جو ان کانام، ان کے القاب، ان کی خصوصیات سے واقف ہیں اور ایسے منتظم کی ولادت کے بارے بھی معلومات رکھتے ہیں اور اس کے پروگرام سے مکمل آگاہ ہیں ، یہ حضرات اس کی آمد کے صحیح وقت سے واقف نہیں ۔ جیسے شیعہ حضرات۔

اسی قسم کے مہدی امم کے بارے نظریات و خیالات اور اعتقادات نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں آپکی ہستی کے ایسے گوشوں کے بارے قلم اٹھاوں جو ابھی تک تشنہ ہیں اور اس طرح میں نے موعود امم کی ذات سے متعلق کتاب تحریرکی، جس کی دس فصلیں ہیں اور پچیس ابواب ہیں اس کتاب کانام موعود امم رکھا ہے تاکہ یہ کتاب سب کے لئے مفید اور موثر ہومجھے امید ہے کہ میری یہ کوشش و کاوش درگاہ احدیت میں قبول ہوگی اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کی بارگاہ میں شرفیابی کا ذریعہ بنے گی۔

٭٭٭٭٭

چو در آیینہ رخسار ماہ او تَجَلَّی اللّٰہ

بر این روی در خشان، آفرینش گفت: صَلَّی اللّٰہ

( قُل فَانتَظِرُوا اِنَّی مَعَکُم مِنَ اَلمُنتَظِرِینَ ) “۔(سورہ یونس آیت ۲۰۱)

”تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ یقینا انتظار کرتا ہوں“۔

فصل اول

نجات دہندہ بشریت

سایہ خدا

مہدی علیہ السلام ودیگر اقوام

مہدی علیہ السلام اور نہج البلاغہ خلیفة اللہ

حجت خدا

ارادہ خداوندی

باب اول

سایہ خدا

چار اعلیٰ والا امیدیں

اِن ذکرالخیر کنتم اوله واصله و فرعه ومعدنه وماواه ومنتهاه “ (مفاتیح الجنان زیارت جامعہ کبیرہ)

وہ چیز جو انسان کو زندہ دلی اور تلاش وجستجو کی طرف مائل رکھتی ہے وہ امید ہے اور یہ امید وہ واحداور اہم ترین چیز ہے جس سے ہرانسان کا واسطہ و تعلق ہے۔ اگرچہ اکثر و بیشتر امیدیں بے حیثیت و بے فائدہ ہوتی ہیں بلکہ بعض تو بہت زیادہ نقصان دہ اور گمراہ کرنے والی ہوتی ہیں ، قرآن کریم میں جن دو اسلامی اصل پر بہت تکیہ اور بھروسہ کیا گیا ہے وہ ہیں رجاءاور خوف ۔

۱۔ دیدار و زیارت حضرت قائم آل محمد

۲۔ حضرت سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت حقہ کا دیدار

۳۔ انسانی کمالات حاصل کرنے کی آرزو

۴۔ ہمیشہ کی خوش بختی کا حصول یعنی ملاقات پروردگار اور اس کی نہ ختم ہونے والی نعماتِ جنت تک رسائی۔

۱۔ دیدار حضرت امام مہدی ”علیہ السلام“

اس اعلیٰ وارفع امیدبارے مذہب اہل بیت علیہ السلام کے منابع میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں اور وہ دعائیں جو کہ آئمہ علیہ السلام سے سرکار امام زمان علیہ السلام کے منتظرین و عاشقان تک پہنچی ہیں کو اس امر یعنی دیدار سرکار حجت علیہ السلام کی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔

دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں :

بنفسی انت امنیة شاءق یتمنیٰ من مومن ومومنةٍ ذَکرا فحَنا “۔

ترجمہ:۔”میری جان آپ علیہ السلام پر قربان جائے اے دیدار کی تمنا کرنے والوں کا مقصود و نصب العین مقصود کی تمنا کہ جب مومن اسے یاد کرے تو نالہ و بکاکرے“۔

جی ہاں دیدار حضرت امام زمان علیہ السلام سرکار اہل ایمان کا مقصود ہے ۔ نصب العین ہے۔

۲۔ حضرت امام زمان علیہ السلام کی حکومت حق کے دیدار کی تمنا

ہر آزاد باایمان اس شکوہ تک رسائی چاہتا ہے جو کہ سرکار امام زمان علیہ السلام کے طاقت اور فتح مند ہاتھ سے وجود میں آئے گی۔ ہر مومن کی خواہش ہے کہ وہ اس باوقار وپُرشکوہ حکومت سرکار امام زمان علیہ السلام بارے غوروفکر کرے اس لیے سرکار قائم آل محمد کے ظہور پرنور کے منتظرین دعائے ندبہ میں یوں فریاد کرتے ہیں :”متی ترانا ونراک “۔

ترجمہ:۔ ”یہ کب ہوگا کہ جب ہم اپنے آپ کو آپ کی بارگاہ میں دیکھیں گے اور آپ کے کامیاب و کامران پرچم کو پوری آب و تاب سے لہراتا دیکھیں گے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو آپ کے اردگرد دیکھیں اور آپ کی زیارت اس حالت میں کریں کہ ہم سب کی رہبری آپ علیہ السلام نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے ہم دیکھیں کہ آپ نے زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیا ہو اور اپنے دشمنوں کو آپ نے خاک ذلت و رسوائی پر بٹھا رکھا ہو منکروں اور گردن کشوں کو آپ نے نابود کردیا ہو، ستمگروں کی بنیادوں کو آپ نے جڑوں سے اکھاڑ دیا ہو ہم یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی سے کہیں ”الحمدللہ رب العالمین“ جی ہاں آرزوئے دیدار حکومت حق (سرکار امام زمان علیہ السلام علیہ السلام) یعنی دنیا کو عدل و انصاف اور ایمان و انسانیت کے گلشن کے میں دیکھنا نصیب ہو۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے :”( وعدالله الذین ) .... الخ

ترجمہ:۔ ”خداوند کریم نے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ حتماً ان کو اس سرزمین پر پر ان کا جانشین قرار دے دے گا، جیسا کہ پہلے والوں کواس نے اپنا جانشین قرار دیا۔(سورئہ نور آیت نمبر۵۵)

اگرسوال کیا جائے کہ اس آیت مبارکہ میں فرمایا کہ وہ خداوندکی بدون شرک خفی و جلی پرستش کرتے ہیں اسکے بعد یہ کس لیے آیا ہے کہ ”( ومن کفر بعدذلک فاولیک هم الفاسقون ) “ کہ جس نے اسکے بعد یعنی ترک شرک کے بعد کفر کیا وہ فاسق ہے، ترک شرک کے بعد کفرکا کیا مطلب؟

اس کے جواب کچھ یوں دیا جائے گاکہ اس آیت میں کفر سے مراد کفران نعمت ہے شکر کے مقابل ممکن ہے یہ کفران نعمت زبانی ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے ”( لان شکرتم لازیدنکم لئن کفر تم ان عذابی لشدید ) “۔

ترجمہ:۔”اگر میرا شکر ادا کرو گے تو میں نعمات زیادہ کردوں گا اور اگر میری نعمات کا کفر و انکار کرو گے تومیرا عذاب شدید تر ہے“۔ (سورئہ ابراہیم علیہ السلام آیت نمبر۷)

ممکن ہے یہ کفران نعمت قلبی ہو، یعنی نعمت کو خدا وند کی طرف سے نہ جانے یاعمل کے ذریعہ کفران کرنا، اس عملی کفران نعمت کی صورت میں انسان اس حد تک بندگی سے خارج ہوجاتا ہے کہ ”( اولئِکَ هم الفاسقون ) “ کا مصداق بن جاتا ہے یعنی بندگی کی سرحد سے باہر چلا جاتا ہے اور فاسق ہو جاتا ہے بنابریں اس آیت مبارکہ میں کفر و فسق کا جوتذکرہ آیا ہے وہ کفروفسق معروف نہیں ہے۔ بلکہ کفر سے مراد کفران نعمت اور فسق سے مراد حدودبندگی سے تجاوز کرنا ہے عیاش نے امام زین العابدین علیہ السلام سے اس آیت میں ”( وعدالله الذین الخ ) “ بارے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا وہ لوگ جن سے اس کا وعدہ ہے وہ ہمارے شیعہ ہیں خداوند یہ کام ان کے لیے ایسے فرد کے ذریعہ کرے گا جو مہدی علیہ السلام امت ہوگا“۔

۳۔ آرزوئے حصول کمالات انسانی

کمالات انسانی جو کہ درحقیقت تزکیہ نفس ہے جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ”( قد افلح من زکٰها ) “ ۔”فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا“۔(سورئہ شمس آیت۹)

تزکیہ یعنی صفات رذیلہ سے پاک ہونا اور خصائل انسانی سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا کیونکہ تذکیہ شدہ افراد ہی گروہ صالحین ہیں جو کہ وارث زمین ہیں ”( ان الارض یرثها عبادی الصالحون ) “ یہ صالحون درحقیقت وہی اصحاب امام زمان علیہ السلام علیہ السلامہیں “۔ (سورئہ انبیاءآیت ۵۰۱)

۴۔ ابدی سعادت کی آرزو

چوتھا نصب العین و مقصود دیدار ذات مقدسہ الٰہی اور بہشت کی ہمیشہ رہنے والی نعمات تک رسائی ہے کہ خداوند کریم قرآن میں فرماتا ہے۔ ”یاایتهاالنفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیه مرضیه فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی “۔ (سورئہ فجر آیت۷۲ سے آخرتک)

”اے نفس مطمئنہ!راضی و خوشی خدا تم سے راضی اور تم خدا سے راضی ہو کر اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آو میرے بندوں میں داخل ہو جاو اور میری بہشت میں داخل ہو جاو اس آیت شریفہ میں تین عظیم نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے“۔

۱۔ اللہ کی طرف رجوع (مرنے کے بعد) یعنی دیدار خداوند

۲۔ ایسے بندگان خدا میں داخل ہو جانا جن سے مراد پیغمبران اور آئمہ اہل بیت علیہ السلام ہیں جو دوسرے جہاں ابدی کی طرف سفر کرچکے ہیں ۔

۳۔ جنت میں داخل ہوجانا، خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو یہ چار امیدیں رکھتا ہے ان چاروں مرحلوں میں اہل بیت علیہ السلام سے رابطہ استوار رکھتا ہے۔

حضرت مہدی علیہ السلام و دیگراقوام و ادیان

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ نجات دہندہ بشریت بارے دیگر اقوام و ادیان کی کتب میں بہت زیادہ تذکرہ موجود ہے ہم کچھ موارد کایہاں تذکرہ و اشارہ کریں گے۔

شاکمونی

جس کو ہندو مذہب میں صاحب کتاب پیامبر کا درجہ دیا جاتا ہے اس کی کتاب میں درج ہے کہ دنیا کی حکومت اور بادشاہی سیدالکونین سرکار دو جہاں کشن (کشن ہندی زبان میں پیامبر گرامی کا نام ہے انہوں نے اس بشارت میں اپنے اس لائق فرزند کانام ”ایستادہ“ اور ”خداشناس“ بیان کیا ہے جیسا کہ شیعہ اسے قائم کہتے ہیں ) کے فرزند پر تمام ہوگی وہ فرزند رسول جس کا حکم مشرق ومغرب کے پہاڑوں پر چلے گا وہ شرق و غرب میں اپنا حکم چلائے گا، بادلوں پر سواری کرے گا، فرشتے اس کے دائیں بائیں بطور کارکنان موجود رہیں گے، انس و جن اس کی خدمت میں ہوں گے، وہ خط استواءکے نیچے سے لے کر سرزمین تسعین تک جو کہ قطلب شمالی کے نیچے ہے اور ماوارے سمندر اس کی حکومت ہوگی سب کچھ اس کا ہوگا اس کی حکومت میں دین خدا صرف ایک دین ہو جائے گا اور زندہ ہو جائے گا اس فرزند رسول کا نام قائم اور خداشناس ہوگا۔

باسک

جو کہ ہندو مذہب کی آسمانی کتاب شمار ہوتی ہے،اس میں ذکر ہے کہ دنیا ایک ایسے عادل بادشاہ آخرالزمان پر اختتام پذیر ہوگی جو کہ ملائکہ پریوں اور انسانوں کا پیشوا ہوگا حق اورسچائی اس کے ساتھ ہوگی جو کچھ دریاوں، زمینوں اورپہاڑوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس کے ہاتھ پہنچ جائے گا وہ آسمانوں اور زمینوں کی خبریں دے گا اس سے بڑھ کر کوئی بزرگ دنیا میں نہیں ہوگا۔

پاٹیکل Patecul

ہندو مذہب کے بڑے رہنماوں سے ہے اور ہندووں کے عقیدہ کے مطابق صاحب کتاب آسمانی ہے اپنی کتاب میں حکومت و سعادت سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے یوں بیان کرتا ہے:

”جب دنیا کی مدت ختم ہوجائے گی تو یہ پرانی اور فرسودہ دنیا دوبارہ نئی ہو جائے گی اور زندہ ہوگی اور اس دنیا کا نیا بادشاہ آجائے گا جو کہ دو عظیم پیشواوں کا بیٹا ہوگا۔ اول نامور آخر الزمان یعنی رسول اکرم، اور صدیق اکبروصی رسول خدا پشن ہے (حضرت علی علیہ السلام کا ہندی نام پشن ہے) اس کا نام راہنما ہو گا وہ حق کا حکمران ہو گا اور (رام) خداکا خلیفہ برحق ہوگا۔

اس کے لاتعداد معجزات ہوں گے جو شخص اس حکمران برحق کی پناہ میں جا کر اس کے آباءو اجداد کا دین قبول کرے گا وہ رام (خدا) کے ہاں سرخرو ہوگا۔اس کی حکومت بہت وسیع ہوگی اس کی عمر باقی اولاد پیغمبر سے زیادہ ہوگی۔

جاماسب

اپنی کتاب جو کہ جاماسب نامہ کے نام سے مشہور ہے میں زرتشت کے اقوال کے حوالہ سے پیامبر گرامی اور حکومت حضرت مہدی علیہ السلام اور وفات پاجانے والے کچھ افراد کی رجعت کے حوالہ سے لکھتا ہے۔ پیغمبرعرب آخری پیغمبر ہوگا جو کہ مکہ کے پہاڑوں کے درمیان پیدا ہوگا وہ اونٹ کا سوار ہوگا اور اس کی قوم بھی شتر سوار ہوگی وہ اپنے غلاموں کے ساتھ کھائے پیے گا اور ان کے ہمراہ بیٹھے گا اس کا سایہ نہیں ہوگا وہ پشت پیچھے بھی ویسے ہی دیکھ سکے گا، جیسے سامنے دیکھے گا، اس کا دین تمام ادیان سے زیادہ باشرف ہوگا،اس کی کتاب تمام کتابوں کو منسوخ کردے گی، اس کی حکومت عجم کو برباد کر دے گی، دین محبوس اور پہلوی کو برطرف کردے گا اس کے آنے سے نارسدیر اور آتشکدہ بجھ جائے گا، کنانیوں اور اشکانیوں کازمان علیہ السلامہ ختم ہوجائے گا۔

اس پیغمبر آخر الزمان کی بیٹی جو کہ سیدة نساءالعالمین علیہ السلام ہوگی کی اولاد میں ایک فرزند دنیا پر حکمرانی کرے گا حکم پروردگار سے جو کہ پیغمبرآخرالزمان کا جانشین ہوگا وہ وسط دنیا میں ہوگا یعنی مکہ میں اس کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی۔

عہد عتیق کا حوالہ

عہد عتیق تورات طبع لندن، سفرپیدائش ص۶۲، باب نمبر۷۱ جملہ نمبر۰۲۱۲ میں درج ہے:

”خصوصاً ائے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہم نے تمہاری دعا قبول کی ہم نے اسے برکت دی اسے بار آور بنایا اور اسے بہت زیادہ اولاد دی کثرت دی ۲۱رئیس (سردار)ہم نے اس سے پیدا کئے اور اس سے ہم نے ایک بہت بڑی امت پیدا کی “۔

(چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جدعرب ہیں اور بنوہاشم انہیں سے ہیں اور یہاں بارہ سرداروں سے مرادآئمہ معصومین علیہ السلامہیں (مترجم)

حضرت داود علیہ السلام کا بیان

حضرت داود علیہ السلام نے ہر فصل میں حضرت امام زمان علیہ السلام کے ظہور پرنور بارے تذکرہ کیا ہے ”اور بہت کثرت سے ذکر کیا ہے مثلاً آسمانوں کی خوشی، خاکیوں کی شادمانی، دریاوں کی طغیانی، صحراوں کا وجد، درختوں اور جنگلوں کا ترنم جو کہ سرکار حجت کے ظہور کے وقت ہوگاانہوں نے اس کا کثیر تذکرہ کیا ہے حضرت داود علیہ السلام نے جہاں کی آبادی انسانوں کی آسائش و خوشبختی کو سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت کریمانہ کےساتھ مشروط کیا ہے اور سرکار کے انتظار کا فرمان دیا ہے اسی طرح مزمور نمبر۷۳ زبورداود میں آیا ہے کہ دنیا کے اشرار ختم ہونگے اور اللہ تعالیٰ مومنوں اور صالحین ومتوکلین کو زمین کا وارث بنائے گا، اشرار نیست و نابود ہوجائیں گے لوگ جتنی بھی کوشش کرینگے اشرار نہیں ملیں گے متواضع و مخلص لوگ زمین کے وارث بن جائیںگے اور سلامتی کی کثرت کیوجہ سے لذت حاصل کرینگے۔

اشعیاءعلیہ السلام نبی کا بیان

اشعیاءنبی کی کتاب میں ہے کہ بھیڑیا اور بکری باہم سکونت کریں گے شیر اور مینڈھا اور بچھڑے ایک ساتھ باہم سوئیں گے اورپھریں گے، چھوٹا سا بچہ ان کا مشترکہ چرواہا ہوگا۔

(یہ وہیزمان علیہ السلامہ ہوگا جب سرکار حجت کی عدل و انصاف سے لبریز حکومت قائم ہوگی(مترجم)

جناب حیقوق علیہ السلام نبی کا بیان

جناب حیقوق علیہ السلام نبی نے خوش خبری دی ہے سرکار کے ظہور کی اور سرکار کی غیبت کےزمان علیہ السلامہ کے طولانی ہونے بارے تذکرہ فرمایا ہے اور اپنی امت سے مخاطب ہو کر فرمایا: کہ اگر اس کے ظہور میں تاخیر ہو تو اس کا انتظار کرو کیونکہ وہ ضرور آئے گا۔

انجیل میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ

جب فرزند انسان ملائکہ مقدسہ کے ہمراہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ آئے گا اور اپنی جلال کی مسند پررونق افروز ہوگا۔

انجیل مقدسہ متی کے باب نمبر۴۲ میں بیان کیا گیا ہے ہے کہ جب فرزند انسان کے ظہور کی علامت آسمان پر ظاہر ہوگی تو اس وقت زمین کے تمام گروہ سینہ زنی کریں گے اور وہ فرزند انسان اپنی قوت وجلال عظیم کے ساتھ آسمانی بادلوں کے تخت پر نمودار ہوگا۔

مگر ظہور فرزند انسان بھیزمان علیہ السلامہ نوح کیطرح ہوگا جیسے طوفان نوح سے پہلے لوگ کھاتے پیتے رہے نکاح وشادی کرتے رہے یہاں تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوگئے اور ان کی قوم پھر بھی نہ سمجھی یہاں تک کہ طوفان آگیا اور سب کو لے گیا اسی طرح فرزند انسان کا ظہور ہوگا اگرچہ جو لوگ ابھی متوجہ نہیں ہیں پس بیدار رہو، کیونکہ تمہیں نہیں پتہ کہ کب اور کس ساعت تمہارا خداوند آجائے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کم و بیش۰۵ جگہ پر ظہور سرکار امام زمان علیہ السلام کے اچانک ہونے بارے خبر دی ہے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلامٰ فرماتے ہیں کہ:” اپنی کمر باندھ کے رکھو اپنے چراغ جلا کے رکھو خوش قسمت ہیں وہ غلام کہ جن کا آقا آئے تو غلام بیدار ہوں اور اس کی خدمت کے لیے آمادہ اور حاضر ہوں“۔

(عیون اخبارالرضا علیہ السلامج۱ص۷۴)

یوحنا نبی کے مکاشفہ

”عظیم علامت آسمان خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ایک با عظمت اور طاقتور خاتون ہے ایسی باعزت ایک خاتون کہ سورج جس کے سامنے ہوگا اور چاند جس کے پاوں کے نیچے اور اس کے سرپر بارہ ستاروں والا تاج ہوگا“۔

حضورنبی کریم نے شب معراج انوارطیبہ حضرت علی علیہ السلام و سیدہ زہراءعلیہ السلام و آئمہ اطہار علیہ السلام کو مشاہدہ کیا اور نور مقدس حضرت بقیة اللہ کو دیکھا جو کہ ان انوار کے درمیان مثل روشن ستارہ کے چمک رہا تھا تو خداوند کریم سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ آواز قدرت آئی یہ انوار آئمہ علیہ السلام ہیں اور یہ زیادہ روشن نور اسی قائم کا ہے کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام بنائے گا(کیونکہ ظہور قائم علیہ السلام سے پہلے کئی حلال کو لوگوں نے حرام اور کئی حرام کو لوگوں نے حلال بنالیا ہوگاسرکار آکر اصل کی طرف لوٹائیں گے”مترجم“)خدا وند عالم نے فرمایا کہ میں اسی قائم کے ذریعے اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا یہی قائم میرے دوستوں کے لیے باعث آرام و سکون ہوگا، یہ قائم تیرے شیعوں کے دلوں کو ستمگروں کافروں اور منکروں کے مظالم سے سکون بخشے گا، یہی قائم لات وعزیٰ کو دوبارہ خاک سے باہر نکالے گا اور انہیں آتش کا ایندھن بنائے گا۔

یہاں تک کہ رسول کریم نے ایک طولانی حدیث بیان فرمائی اور کہا کہ: ”طوبیٰ لمن لقیه وطوبیٰ لمن احبّه وطوبیٰ لمن قال به “۔(کمال الدین وتمام النعمہ ج۱ص۸۶۲)

ترجمہ:۔ ”خوش قسمت ہیں وہ جو اس (قائم علیہ السلام) کی ملاقات کریں گے، خوش قسمت ہیں وہ جو اس قائم علیہ السلام سے محبت کریں گے اور خوش قسمت ہیں وہ جو قائم علیہ السلام پر اعتقاد رکھتے ہیں “۔

یہاں تک فرمایا( فقل انما الغیب للّٰه فانتظرواانی معکم من المنتظرین ) (سورئہ یونس آیت ۰۲)

ترجمہ:۔”پس کہہ دو کہ وہ غیب اللہ کے پاس ہے، پس تم اس کا انتظار کرو کہ میں بھی تمہارے ساتھ اسی کا منتظر ہوں“۔

یہاں غیب سے مراد ظہور مہدی علیہ السلام ہے اورمنظور از جملہ” انی معکم من المنتظرین“ یعنی رسول خدا بھی سرکار حجت علیہ السلام کے ظہور کے منتظرین میں سے ہیں ۔

مہدی (عج) نہج البلاغہ میں

کتاب مہدی علیہ السلام منتظر درنہج البلاغہ کے مصنف محقق محترم حجة الاسلام والمسلمین فقیہہ ایمانی نے اپنی کتاب میں ۲۱ حوالہ جات از اہل سنت نقل کیے ہیں کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ مہدی علیہ السلام پیدا ہو چکے ہیں اور باامر خدا پردہ غیبت میں ہیں ۔ انہوں نے گیارہ مقامات پر امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام نہج البلاغہ سے نقل کیے ہیں ۔ جن میں مولیٰ امیر علیہ السلام نے حضرت مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے ہم سات مقامات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔

۱۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ نمبر۹۹ میں تحریرہے کہ:

حتی یطلِعَ اللّٰه لکم من یجمعکم ویضم نشرکم “۔

ترجمہ:۔ ”یہاں تک کہ خدا ایک ایسی شخصیت کو طلوع کرے جو تمہیں جمع کرے (تمہارے اختلافات کو ختم کرے) تمہاری بے سروسامانی کو سامان دے پس تم طمع نہ کرو اس کا جو تمہاری طرف نہیں آتااور تمہیں نہیں ملا اور جس نے تم سے روگردانی کی اس سے مایوس نہ ہو، اس میں صریحاًاشارہ ہے غیبت سرکار امام زمان علیہ السلام کی طرف“۔

۲۔ خطبہ نمبر ۸۳۱ نہج البلاغہ فیض الاسلام میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے ارشاد ہے اور ان کے بارے میں گفتگو ہوئی کہ:

یعطف الهویٰ علی الهدیٰ واذاعطفوا الهدی علی الهویٰ.... الخ “۔

ترجمہ:۔ ”وہ مہدی علیہ السلام خواہشات نفسانی کو ہدایت و راہنمائی الٰہی کی طرف لوٹائے گا جب کہ لوگ ہدایت الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی طرف پھیر چکے ہوں گے اس وقت جب کہ لوگ قرآن کی تفسیر پر لڑائی کریں گے ۔ اپنی آراءکو قرآن پر فوقیت دیں گے، حوادثات و واقعات اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ جنگ ہر ایک کو لپیٹ میں لے لے گی، مثل اس حیوان درندہ کے جو حملہ کے موقع پر اپنا پورامنہ شکار کو چیرے پھاڑنے کے لئے آخری حد تک کھولتا ہے،جنگ تمین ڈنگ مارے گی جنگ کے پستان دودھ سے پرہوجا ئینگے، یعنی مہمات جنگی فراوان ہوں گے اس جنگ کا دودھ ابتداءمیں شیرین ہے اور آخر میں مثل زہر کے ہوجاتا ہے“۔

اس لیے کتاب مہدی علیہ السلام منتظر در نہج البلاغلہ کے مصنف لکھتے ہیں :”جنگ کی ابتداءمیں کچھ کامیابیاں اور غنیمت جنگ کرنے والے کو ہاتھ آتی ہیں اور زیادہ غنیمت حاصل کرنے اور مکمل کامیابی حاصل کرنے کی امید کی وجہ سے ذائقہ جنگ آغاز میں شیریں معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی فریق دوسرے فریق کی جنگ بندی کی اپیل قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا لیکن جنگ کا اختتام قتل و کشار ، بربادی، ڈھیروں زخمی ، جسمانی و روحانی بیماریاں، مال و اسباب کی غارتگری، ناموس و عزت کی پائمالی پر ہوتاہے اور کئی قسم کی بدبختیاں جنگ زدہ قوموں اور جنگ کرنے والوں کو دے جاتاہے۔ ہوشیار رہو آنے والے کل سے ، ایسا کل کہ جو کچھ اس کل میں ہے تم اس سے ناآگاہ ہو والی علیہ السلام کے ذریعہ، حکومتی اہل کاروں اور عمال حکومت جو کہ خیانت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ان کا محاکمہ ہوگااور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ زمین اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے لیے نکال کر پیش کرے گی عاجزی اور فروتنی کرتے ہوئے زمین اپنی چابیاں اس کی طرف ڈال دے گی، جس کے بعد وہ نگران آئین پیغمبر اکرم کے اجراءکا عملی مظاہرہ کرے گا کتاب خدا کے آثار اور سنت کے فراموش شدہ آثار و قوانین کو دوبارہ زندہ کرکے اس کے عمل کو دوبارہ رائج کرے گا۔ابن ابی الحدید نے یہاں ”والی“ سے مراد امام لیا ہے، جس کو خداوند آخر الزمان میں پیدا کرے گا۔

۳۔ نہج البلاغہ (۰۵۱) میں بھی ایسی اعلیٰ شخصیت کی غیبت کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جتنی بھی کوشش کی جائے اس کا کوئی پتہ اور نشان قدم کبھی نہیں ملتا۔

۴۔ اسی طرح نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۹۲۲ میں اصحاب وانصاران حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ :”اَلاَبابی وامی هم من عدة اسماو هم فی السماءمعروفةً وفی الارضِ مجهولة “۔ترجمہ:۔ ”میرے ماں باپ ان پر فدا ہوں وہ ایسا گروہ ہیں کہ جن کے اسماءگرامی آسمانوں میں بہت مشہور اور معروف ہیں مگر زمین وہ گم نام ہیں “۔

یہاں تک کہ حضرت فرماتے ہیں کہ:”مومن کے لیے تلوار مارنا نسبت ایک حلال درہم پیدا کرنے کے آسان ہے اور اس صورت میں اجر لینے والا دینے والے سے زیادہ ہے یہ وہ ہیزمان علیہ السلامہ ہو گا کہ لوگ سست ہوں گے بغیر شراب کے نعمتوں کی وجہ سے مستی میںہوگی، وہ قسم کھائیں گے بغیر کسی وجہ و مجبوری کے جھوٹ بولیں گے بغیر کسی جبروکراہ کے“۔

۵۔ اسی نہج البلاغہ کی نصیحت نمبر۹۳۱ میں تحریر ہے کہ:

اللهم بلیٰ لاتخلوالارض من قاءم للّٰه بحُجةٍ....الخ “۔

ترجمہ :۔ ”اے خداوند! تیرے لطف و کرم سے تیری زمین کبھی بھی تیری حجت اور امر حق کے قیام (قائم) سے خالی نہیں رہے گی خواہ وہ حجت قائم ، ظاہرو آشکار ہو یا مخفی وپنہاں یہاں تک کہ اس کی دلائل الٰہیہ اور مشیت خدائی تمام نہ ہو جائے “۔

۶۔ انہیں انصاران مہدی علیہ السلام بارے نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:”ان پر (اصحاب مہدی علیہ السلام) علم و دانش اصلی حقیقت سے ظاہر ہوگا وہ روح یقیں کو پاک اور آمادہ محسوس کریں گے ہر وہ چیزجو دنیا پرستوں اور ہوس کے بندوں کے لیے مشکل اور دشوار و ناہموارہو گی ان اصحاب مہدی کے لیے آسان اور پسندیدہ ہوگی، ہر وہ چیز جو احمقوں کے لیے خوف و حراس کا باعث ہوگی یہ (اصحاب مہدی علیہ السلام) اس سے محبت کریں گے ان کے بدن و جسم تو دنیا کے ساتھ ہوں گے مگر ان کی روح جہاںبالا سے مربوط ہوگی یہ زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں دین خدا کی دعوت دینے والے ہیں ۔ آہ، آہ (ہائے ،ہائے) میں ان کی زیارت کا مشتاق اور دیدار کا آرزومند ہوں اے کمیل ! اب اگر چاہتا ہے تو واپس لوٹ جا“۔

۷۔ نہج البلاغہ کی نصیحت نمبر۰۰۲ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :

لتعطِفنّ الدنیا علینا بعدشماسها “۔

ترجمہ:۔ ”دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی بعد اس کے کہ پہلے وہ تم سے روگردانی کرچکی تھی اس کے بعد حضرت نے یہ آیہ مبارکہ ”( نریدان نمن علی الذین ) “ کی تلاوت فرمائی“۔

(سورئہ قصص آیت۵)