موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25586
ڈاؤنلوڈ: 2654

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25586 / ڈاؤنلوڈ: 2654
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب سوئم

مہدویت کے دعویدارجھوٹے مدعیان مہدویت

( ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبااوکذب بایٰاته ) “ ۔(سورئہ انعام آیت۱۲)

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مہدویت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور بڑی واضح ہے یہ مسئلہ مہدویت بھی مسئلہ توحید و نبوت کی طرح ثابت اور روشن ہے اسی وجہ سے جس طرح دنیا میں کئی جابروں نے خدائی دعویٰ کیا مثلاًفرعون وغیرہ اسی طرح کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہے مثلاً مسیلمہ کذاب تو بالکل اسی طرح مہدویت بارے بھی کئی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طور پر متعارف کرایا طول تاریخ میں تقریباً کم وبیش ۰۵ افراد نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جن میں سے ۹ افراد نے کافی شہرت پائی ان کا تذکرہ ہم اس باب میں کریں گے۔(مرحوم عماد زادہ نے کتاب ولی عصر میں ۳۵ نام لکھے ہیں اور آقای محمد بہشتی نے اپنی کتاب ادیان ومہدویت میں ۶۴افراد کے نام لکھے ہیں )

چونکہ پیامبراکرم کےزمان علیہ السلامہ ہی سے امام مہدی علیہ السلام بارے روایات و انکشافات ہوتے رہے ہیں اس لیے کچھ ایسے دعویٰ کرنے والے بھی ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے ہی دعویٰ مہدویت کیا اور کچھ نےزمان علیہ السلامہ غیبت صغریٰ میں دعویٰ کیا اور کچھ نے غیبت کبریٰ کےزمان علیہ السلامہ میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔

دعویٰ مہدویت قبل از ولادت امام مہدی علیہ السلام

۱۔ مختار بن ابوعبیدہ ثقفی

جوکہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے والوں میں شامل ہے اس نے ۴۶ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا مختار پہلے پہل جناب محمد حنفیہ کو امام مانتا تھا اور پھر اس نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور آخر میں حقیقی شیعہ آل محمد کے طورپر سامنے آیا۔ امکان یہ ہے کہ اس نے کچھ مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے بظاہر جناب محمد حنفیہ کی امامت کا سہارا لیاہے جب کہ محمد بن حنفیہ نے دعویٰ امامت کیا ہی نہیں تھا مختار کا مقصد حکومت وقت سے بظاہر بچنا تھا یازیادہ قریب از حقیقت یہی رائے ہے کہ مختار ثقفی جو کہ خون حسین علیہ السلام کا منتقم تھا، نے کچھ مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے جناب محمد حنفیہ کو امام ظاہر کیا اور پھر خون حسین علیہ السلام کا انتقام لیا جب کہ مختار ثقفیؒ مذہب اہل بیت علیہ السلام کے نزدیک ایک محترم و قابل تحسین شخصیت شمار ہوتی ہے۔

(عرض مترجم:حضرت مختار ثقفیؒ کے بارے یہ کہنا کہ انہوں نے امام مہدی علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا ہمارے نزدیک ثابت نہ ہے۔ مندرجہ بالا تحریر مصنف کتاب کی ذاتی تحقیق ہے جس کا من و عن ترجمہ تحریر کر دیا گیاہے۔)

۲۔ محمد بن عبداللہ مخص

یہ نفس ذکیہ کے نام سے معروف ہوئے اس نے بھی قبل از ولادت حضرت صاحب الامر علیہ السلام دعویٰ مہدویت کیا اس کے پیروکاروں نے ایک حدیث گھڑی کہ جس کی بنیاد پر انہوں نے اسے مہدی موعود کہنا شروع کیا، پیامبر اکرم کا فرمان ہے کہ مہدی علیہ السلام کا نام میرا نام ہوگایعنی محمد اس کے باپ کا نام بھی میرے باپ کے نام پر ہوگا یعنی عبداللہ ہوگا جو کہ نفس ذکیہ کانام ہے محمد اور اس کے والد کانام عبداللہ تھا اسی بنا پر حدیث گھڑ کر اسے مہدی موعود بنادیاگیا۔نفس ذکیہ کے قیام اور قتل ہونے بارے ذکر منتہی الآمال میں درج ہے یہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پوتے تھے اور ان کازمان علیہ السلامہ امام جعفر صادق علیہ السلام کازمان علیہ السلامہ تھا، احتمال قوی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے محمدبن عبداللہ نفس ذکیہ کو مہدی متعارف کرایا جب کہ نفس ذکیہ قطعاً اس پر راضی نہ تھے۔(میں جناب مختار اور جناب محمد بن عبداللہ محترم سمجھتا ہوں ”والله العالم “ لیکن مہدویت کے جھوٹے دعویداروں میں ان کے نام کتابوں میں درج ہیں تو اس لئے میں نے بھی لکھ دیئے ہیں مصنف)۔

مدعیان مہدویت بعد از ولادت حضرت امام مہدی (علیہ السلام)

کچھ لوگوں نے حضرت صاحب الامر علیہ السلام کی ولادت کے بعد سرکار کی غیبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دعویٰ مہدویت کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں ہم کچھ کا ذکر کریں گے۔

۱۔ ابومحمد عبداللہ مہدی

یہ آغاز میں انتہائی متقی و پارسا تھا مکتفیٰ عباسی کےزمان علیہ السلامہ میں زندگی کی ، اس نے افریقہ میں یہودکے ساتھ سازش کی اور کئی جنگیں لڑیں اس نے ۰۷۲ ھ میں اپنے مبلغ کو مغربی ممالک کی طرف بھیجا اور اس نے یمن میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اس نے اپنا لقب القائم رکھا اور اپنے سکّہ پر حجة اللہ کندہ کروایا اپنے آپ کو مہدی موعود اور امیرالمومنین کہلوایا اس نے افریقہ میں اپنے بہت سے پیروکار پیدا کرلیے اور ۴۴۳ ہجر میں وفات پائی۔

۲۔ محمد بن تومرت (ابا عبداللہ مغربی)

اس کی پیدائش ۵۸۴ھ میں ہوئی اور اس نے ۲۲۵ھ کو دعویٰ مہدویت کیا اس نے کئی اہم جنگیں لڑیں اور ۴۲۵ھ میں وفات پائی اس کی وفات کے بعد عبدالمومن اس کا جانشین بنا ۔ وہ بھی ۲۵۵ھ کو دنیا سے چلا گیا عبدالمومن کے بعد اس کا جانشین یوسف بناجس نے یورپ کے ساتھ جنگ کی اور فتح حاصل کی ۰۸۵ھ کو دنیا سے رخصت ہوا (ادیان مہدویت از ابن خلکان وابن اثیر)

۳۔ مہدی (یامہتدی)سوڈانی

یہ ۷۴۸۱ءمیں پیدا ہوا یہ ۱۸۸۱میں صوفیوں کے ساتھ مربوط ہوا اسی سال اس نے قیام کیا سخت جنگ کے بعد اس نے دعویٰ مہدویت کیا اس نے سوڈان پر حملہ کر کے سب سے پہلے خرطوم (دارالحکومت) کو اپنے قبضہ میں لیا پھر آہستہ آہستہ پورے سوڈان پر اپنی گرفت مضبوط کی اس نے اپنے چار جانشین مقرر کیے جوکہ ایک کے بعد ایک اس کا جانشین تھا۔

۴۔ غلام احمد قادیانی

اس نے ماضی قریب میں خروج کیا اور دعویٰ مہدویت کیا اس نے تمام اقوام عالم میں اعلان کیا کہ میں وہی ہوں جس کا تم سب کو انتظار ہے اس نے عیسائیوں کو کہا کہ میں مسیح عیسیٰ ہوں یہودیوں کو کہا کہ میں آخری نبی ہوں، اس کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں ۔

۵۔ مرزا طاہر حکاک اصفہانی

یہ سید کاظم رشتی کے شاگردوں سے ہے یہ اصفہان سے تہران اور پھر وہاں سے اسلامبول چلا گیا اسلامبول کی مسجد ریا صوفیہ کے ساتھ تحریروحکایت میں مشغول ہوگیا اور اپنے آپ کو ناصح العالم کے لقب سے ملقب کرنے لگ گیا اس نے ایک خط ناصرالدین شاہ کو لکھا جسکی عبارت نورچشم عزیزم ناصرالدین مرزا تھی اور ایک خط اس نے سلطان عبدالمجید ثانی کو ترکی زبان میں تحریر کیا جس میں اسے بھی عزیز اور برخوردار لکھا کہ میں تمام انبیاء علیہ السلام کی طرف سے منتخب کیا گیاہوں کہ بشر کو وعظ و نصیحت کروں اس نے دعویٰ مہدویت کے بعد بہت زیادہ پیروکار پیدا کر لیے اور وہ ۰۵۳۱ھ میں قتل ہوگیا۔

۶۔ سید محمد مشہدی

یہ اصل مشہد سے تھا اس نے ہندوستان میں سلطان ہند فرخ کےزمان علیہ السلامہ میں دعویٰ مہدویت کیا سلطان ہندفرخ سیر نے اس کی بیعت کرلی اور ایک نیا مذہب خفشانی کے نام سے ایجاد کیا اس نے دعویٰ نبوت اور وحی بھی کیا اس نے دعویٰ کیا کہ میں سیدہ زہراء علیہ السلام کا سقط شدہ محسن ہوں اس نے ایک نماز ایجاد کی جو چھ اطراف منہ کر کے پڑھی جاتی تھی اوپر، نیچے، شمال ، جنوب، مشرق، مغرب اوراپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ تمام جہات کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اس کی ایک کتاب بھی بنام مہمل بافی مثل مہمل بافی مرزا محمد علی باب کے ہے۔ اس کے پیروکاران کی مختلف عیدیں ہیں ان کی اہم ترین عید ۷۱ ذی الحجہ بنام عیدالجشن ہے اس کی مشہور ترین کتاب (قوزہ مقدس) ہے۔

۷۔ سیدعلی محمد باب

یہ یکم محرم ۵۳۲۱ھ کو شیراز میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ کا نام سید محمدرضا اور اس کی والدہ کا نام فاطمہ بیگم تھا بچپن میں اس کا والد فوت ہو گیا یہ اپنے ماموں کی زیر کفالت پلتا رہا جب سید علی ۸سال کا ہوا تو شیخ عابد کے پاس تحصیل علم کے لیے چلا گیا ۷۱ سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ساتھ تجارت کی غرض سے بوشہر چلا آیا اور وہاں ۵سال مقیم رہا ان پانچ سالوں میں اس نے کوئی خاص تجارت نہیں کی بلکہ مکان کی چھت پر ذکر و دعا میں مصروف رہتا اسی وجہ سے اسے سید ذکر بھی کہا جاتا تھا ۲۲ سال کی عمر میں بوشہر سے شیراز واپس آگیا اس کے بعد وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوگیا وہ دوسال کربلا معلےٰ میں سید کاظم رشتی کے درس میں شریک رہا۔

سید علی محمد کی دعوت آغاز میں اور آخر میں

(اس بحث کو کتاب جمال ابہی اور تاریخ جامعہ بہائیت سے لیاگیاہے)

۹۵۲۱ھ میں سید کاظم رشتی جو کہ شیخ احمداحسائی بانی فرقہ شیخیہ کا شاگرد تھا فوت ہوگیا اس نے اپنے کسی جانشین کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی مقرر کیا بلکہ اپنے پیروکاروں پر چھوڑگیا کہ اس کے بعد کچھ پیروکارحاج عبداللہ محمد کریم خانی کرمانی کے پاس جمع ہوگئے جوکہ کاظم رشتی کا شاگرد تھا اور اسے بطور رکن رابع چن لیا۰۶۲۱ھ میں سید علی محمد نے ملاحسن بشرویہ کی مدد سے خود کو رکن رابع اور سید کاظم رشتی کا جانشین متعارف کرایاآخرکار وہ باب امام غائب کہلانا شروع ہوگیا اور سید کاظم رشتی کے شاگردان وپیروکار سید علی محمد باب سے منسلک ہوگئے۔یہ بات درست معلوم نہیں کہ سید علی محمد باب اپنی دعوت کے آغاز سے ہی دعویٰ مہدویت کی خواہش اور ادعیٰ رسالت کی آرزو رکھتا تھا بلکہ بعد میں اسے یہ خیال آیا آخر کار اس نے خود کو قائم مہدی اور آخر کاررب اور خدا کہلوایا ۔

جس وقت سید علی محمد نے شیراز میں دعویٰ نیابت خاصہ کیا تو فرقہ شخیہ کے ۸۱ افراد کے ایک گروہ نے اسکی دعوت قبول کی اور اٹھارہ افراد کو اسی نے حروف حی کا نام دیا سید علی محمد اور اسکے پیروکاروں سے اہل شیراز نفرت کرنے لگے جسکی بنا پر اس نے فیصلہ کیا کہ انہیں شیراز سے باہر چلے جانا چاہیے ۰۶۲۱ھ میں اپنے ماموں کےساتھ عازم حجاز ہوا اس نے ملا حسن بشرویہ ای کونامہ بھیجااور کہا کہ تم سیاہ پرچموں کے ساتھ مشہد سے نجف آجانا اور وہ خود مکہ سے خروج کر کے نجف آجائے گا اس کام سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ ان روایات کو اپنے اوپر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ جب امام مہدی علیہ السلام مکہ میں ظاہر ہوں گے تو خراسان سے سیاہ پرچموں کے ساتھ گروہ خروج کرے گا۔

سید علی محمد مکہ میں لوگوں کی کثرت سے خوف زدہ ہوگیا اور اس نے نجف جانے کا ارادہ بدل دیا اور ایران کی طرف چل پڑا اور دریائی راستہ سے داخل بوشہر ہوا اور پھروہاں سے شیراز چلاآیا حاکم شیراز نے اسے گرفتار کر لیا اور زندان میں بند کردیا حاکم شیراز نے علماءکی ایک محفل کا اہتمام کیا جنہوں نے علی محمد سے سوال وجواب کیے سید علی محمد اس علماءکی محفل میں رسوا ہوا طے پایا کہ اسے تنبیہہ کی جائے اس نے مسجد وکیل شیراز میں منبر پر اپنے الفاظ واپس لینے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا لیکن علی محمد نے جب شیراز کے حالات نامساعد دیکھے تو معتمد الدولہ جو والی اصفہان تھا جس سے اس کی خفیہ دوستی اور روابط تھے اور وہ بیمار بھی تھا علی محمد نے شیراز سے اصفہان کی طرف فرار کیا ۔

اصفہان کے قریب جا کر اس نے ایک خط والی اصفہان کو اپنی آمد بارے لکھا معتمداصفہانی نے اس کے استقبال کے لیے کچھ لوگ اصفہان سے باہر بھیجے اسے امام جمعہ کی رہائش گاہ پر ٹھہرایا گیا اور ۰۴ روز تک اسے وہاں مہمان رکھا گیا اور اس کی خاطر مدارت کی گئی۔

والی اصفہان نے اس کی عزت وتکریم کے لیے علماءاصفہان کا اجلاس طلب کیا اور علماءاصفہان سے درخواست کی کہ اجلاس میں شرکت کریں مگر صرف چار علماءنے اس اجلاس میں شرکت کی ان چار علماءمیں سے ایک نے سید علی محمد باب سے پوچھا کہ تو مقلد ہے یا مجتہد تو علی محمد نے سخت لہجے میں جواب دیامیں باب ہوں نائب خاص اما م مہدی ہوں ، پیغمبرہوں اور مقام ربوبیت پر فائز ہوں یہ تم مجھ سے کیسی باتیں پوچھ رہے ہو۔اور بھی علماءنے کچھ سوال کیے جب بھی علماءنے اس سے کوئی دلیل چاہی تو جواب میں اس نے مہمل جملے بولنے شروع کردیے کہ جن کا کوئی مفہوم نہیں تھا۔ مثلاً ”هواللّٰه من له لبهی والبیهوت یامن الجل والجیلوت یامن له اللکمل الکلموت یامن العظم و فالعظموت “وغیرہ۔ (تاریخ جامع بہائیت باب کے محاکمہ کو۱۱ محرم ۲۶۲۱ھ لکھاہے)۔

سید علی محمد باب کو والی اصفہان کی مکمل سرپرستی وحمایت حاصل رہی چھ ماہ بعد والی اصفہان فوت ہوگیا علماءاصفہان نے بعد والے والی سے علی محمد کی شکایت کی والی نے تمام معاملہ تہران لکھ کر بھیج دیا تہران سے جواب آیا کہ اسے تہران بھیج دو اسطرح علی محمد عازم تہران ہوا اور تہران میں کلین کے مقام پر ۰۴ روز قید رہا جو کہ تہران کے نزدیک ہے وہاں سے اسے ماکو کے قلعہ میں بھیج دیا گیا وہاں کم وبیش ایک سال قید رہا اس کے بعد اسے قلعہ چہریق میں تین ماہ قید رکھا گیا وہاں سے تبریرلے جایاگیا۔(تاریخ جامع بہائیت میں ہے باب شعیان ۳۶۲۱ سے ج۱۔۴۶۲۱تک ماکو میں تھے)

محمد شاہ اور اس کے وزیر آقاسی کو علی محمد کی تبریر موجودگی سے احساس خطر ہوا محمد شاہ نے ولی عہد ناصرالدین کوحکم دیا کہ وہ علماءکو جمع کرے تاکہ سید علی محمد کا معاملہ ان کے سامنے رکھا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے علی محمد کو چہریق کے قیدخانہ سے باہر لایا گیا اور مجلس علماءمیں حاضر کیا گیا۔ ملامحمدمامقانی اور نظام العلماءاور دیگر کچھ علماءوہاں موجود تھے انہوں نے سید علی محمد سے کئی سوال کیے جن میں سے اہم سوالات اور ان کے جوابات کا ہم تذکر کریں گے۔(میرے خیال میں شاہ اور آقاسی سے اشتباہ ہو اگر وہ باپ کو لوگوں میں آزاد چھوڑتے اور لوگ اس کی یادہ گوئیاں اور بے ہودہباتوں کو سن لیتے تو اس سے خود ہی نفرت کرتے۔ مصنف)

سوال نظام العلمائ: باب کا کیا معنی ہے؟

جواب سید علی محمد: کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد”انا مدینة العلم وعلی بابها “۔

نظام العلمائ: کیا توباب مدینة العلم ہے؟

سید علی محمد: ہاں میں باب مدینة العلم اور علی ہوں۔

نظام العلمائ: پیغمبرحکیم کا قول ہے کہ علم کی دواقسام ہیں علم ادیان علم ابدان اور پھر طب سے سوال کیا؟۔

علی محمد: میں نے علم طب نہیں پڑھا۔

اس پر ولی عہد ناصرالدین نے کہا کہ اس طرح کا جواب تیرے دعویٰ کے منافی ہے۔

نظام العلماءنے علم اصول سے سوال کیا تو سید علی محمد نے جو جواب دیا اس کی رو سے خدا کا مرکب ہونا اور تعددخدا لازم آتا تھا۔ مجبوراً اسے کہنا پڑا کہ میں نے حکمت نہیں پڑھی۔نظام العلماءنے اس سے علم صرف سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں صرف بھول چکا ہوں ،نظام العلماءنے نحو سے سوال پوچھا تو سید محمد علی نے جواباً کہا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔نظام العلماءنے سوال کیا کہ اگر کسی کو دوران نماز دوسری اور تیسری رکعت بارے شک ہوجائے تو کیا کرے۔

سید علی محمدنے جواب دیا کہ اسے دوسری رکعت سمجھے۔

نظام العلماءنے سخت لہجے میں کہا کہ اے بے دین توں تو شکیات نماز بھی نہیں جانتا اور دعویٰ ربوبیت کرتا ہے تو فوراً کہنے لگا تیسری رکعت سمجھے ۔

پھر نظام العلماءنے کہا محمد شاہ جوڑوں کا مریض ہے اپنی کرامت دکھا کہ اسے شفامل جائے اس پر ولی عہدناصرالدین نے باب سے کہا کہ اگر تم اپنی کرامت کے ذریعہ نظام العلماءکو پھر سے جوان کردو تو میں اپنی ولی عہدی تمہیں دے دوں گا تو علی محمد باب نے کہا کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ آخر میں علی محمد باب نے کہا کہ میں وہ ہوں کہ جسکی تم لوگوں نے ہزار سال انتظار کی ہے۔

نظام العلماءنے کہا کہ ہم تو اس کے منتظر ہیں کہ جس کے والد کانام حسن علیہ السلام اور والدہ نرجس علیہ السلام خاتون اور اس کی جائے پیدائش سامرہ ہومحفل علماءبرخاست ہوئی اور ناصرالدین نے اسے درے مارنے کا حکم صادر کیا اور ایک پرہجوم محفل میں اسے درے مارے گئے، درے کھانے کے بعد اس نے توبہ کی تو علماءنے کہا کہ تو، توبہ نامہ لکھ کردے جس پر اس نے توبہ نامہ لکھ کر دیا جس کی تصویر ایڈورڈ براون میں چھپی ہوئی ہے اور وہ توبہ نامہ مخزن کتابخانہ مجلس میں موجود ہے۔ (تاریخ جامع بہائیت ص۰۷۱ ، یہ توبہ نامہ سال ۵۱۳۱ھ مجلس ملی کی عمارت میں آویزاں رہی ہے بعد میں یہ توبہ نامہ غائب کردیاگیا)۔آخر کار محمد شاہ کی موت کے بعد ناصرالدین جانشین بنا تو صدر اعظم امیرکبیر نے ہرروز کسی نہ کسی جگہ علی محمد باب کے خلاف احتجاج اور شورشرابہ کی وجہ سے علی محمد باب کے قتل کا حکم صادر کیا اس وقت جب کہ وہ ۱۳ سال کا تھا تبریز کے قید خانہ سے باہر لایا گیا اور تختہ دار پر لٹا کر تیراندازی کر کے قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ ۸۲ شعبان ۶۶۲۱ھ میں پیش آیا۔

۸۔ مرزا حسین علی بہا

باب اور بہا کانام بہت زیادہ ملتاجلتا ہے اور ان دونوں کے پیروکار بابیان اور بھائیان کے احکام اور ان کادستوروآئین اس حد تک ملتاجلتا ہے کہ اس کی علیحدہ علیحدہ شناخت بہت مشکل ہے اور باب کے ذکر کے ساتھے ہی مناسب ہے کہ بھا کا ذکر بھی کردیاجائے حسین علی بہاءنے دعویٰ مہدویت نہیں کیا بلکہ اس نے اس سے بھی بڑا دعویٰ کیا مرزا حسین علی بہا ۳۳۲۱ھ یعنی مرزا علی محمد باب کی پیدائش سے دوسال پہلے تہران میں پیدا ہوا اس نے ادبیات اور مقدمات کی تعلیم تہران میں حاصل کی اور دو سال تک کردستان کے شہر سلیمانیہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔کواکب الدریّہ میں تحریر ہے کہ حسین علی بہا ۸۲ سال کی عمر میں باب پر ایمان لایا بابیوں نے ۱۶۲۱ تا۷۶۲۱ بہت زیادہ فتنے بپا کیے( مثلاً فتنہ قلعہ طبرسی کہ ملاحسین بشرویہ وہاں اس میں ۰۷ افراد سمیت دوران محاصرہ قتل ہوا زنجان میں بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ قتل ہوئے اسی طرح رنجان کا فتنہ بھی ہے)۔پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ۰۶۲۱ ھ میں علی محمد باب کوپھانسی دی گئی ۷۶۲۱ھ میں باب کے پیروکاروں نے ناصرالدین شاہ پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں ناصرالدین شاہ بال بال بچ نکلنے میں کامیاب ہوا جس کے بعد ناصرالدین شاہ کے حکم پر بابیوں کے ۰۴ افراد کو گرفتار کرایا گیا اس واقعہ میں حسین علی بہا نے روس کے سفارت خانہ میں پناہ لے لی آخر کار ایک عدالتی فیصلہ کی رو سے روس کی حمایت کی وجہ سے ایران بدر کردیاگیا حسین علی بہا ۱۱ سال تک عراق میں گھومتا رہا خطرات کی صورت میں چھپ جایا کرتا تھا کبھی کسی موقعہ پر اپنے آپکو ”من یظهراللّٰه “ کہتا اور علی محمد باب کے بارے کہتا کہ وہ میری خوشخبری دینے والا تھا اس نے ۱۱سال تک ہمیشہ اپنے آپکو مروج تعلیمات باب قرار دیا اس بنیاد پر اس نے ایک کتاب لکھی بنام القان جو کہ بابیت کے آئین وطرفداری پر مبنی ہے ۔۰۷۲۱ھ میں بہا، نے اپنے پیروکاروں سمیت بغداد سے حرکت کی اور ۲۱ دن باغ حبیسبیہ کے باہر قیام کیا بہا،نے باقاعدہ اپنی دعوت کا یہاں سے آغاز کیا اس سے پہلے وہ اعلانیہ دعوت نہیں دیتا تھا اس لیے بہائیوں نے ان ۲۱ دنوں کو ایام رضوان قرار دیا۔ سلطنت عثمانی اور حکومت ایران کے باہمی فیصلہ کی رو سے بہا ءکو عراق سے جلا وطن کر کے اسلامبول بھیج دیا گیا جہاں اس نے ۶ماہ قیام کیا اور پھر وہاں سے ادرن منتقل ہوگیا ادرن میں ہی بہانے اپنے باخبرپیغمبرہونے کا اعلان کیا اور اپنے قلمی نسخہ ”جمال ابہی“ میں لکھا کہ عیسیٰ آسمان سے آگیا ہے اور کہا کہ میں وہی ہوں جس کی باب نے خوشخبری دی تھی بہاءکی بہت بڑی خواہش تھی کہ اپنے آپ کو ”من یظہرہ اللّٰہ“ کے طور پر متعارف کرائے لیکن چونکہ باب نے اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا تھا کہ ”من یظہرہ اللہ“ سے پہلے ”المستغاث“ آئے گا(یہ لفظ حروف ابجد کے اعتبار سے۲۴۶۱بنتے ہیں ) اور وہ ابھی اصلاب اور ارحام میں ہوگا جس کی وجہ سے اس نے مادہ منویہ کو پاک قرار دیا دوسری طرف اس دعویٰ کی راہ میں خود بہاءکا بھائی مرزا یحییٰ صبح ازل مانع تھا بہا حیران تھا کہ کیا کرے آخر کار اس نے اعلان ”من یظهره اللّٰه “ کردیا اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر بے سروپاءباتیں کیں اور مرزا یحیٰ کی وصیتوں کو جعلی قرار دیا جس کی بنا پر ان دونوں بھائیوں کے پیروکاروں میں سخت جھگڑا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے حکومت عثمانی نے ۵۷۲۱ھ میں حسین علی بہا کو ۳۷۱ افراد کے ہمراہ عکاءاور میرزا ٰیحیٰ کو ۰۳ افراد کے ہمراہ نکال دیا گیا اور قبرص بھیج دیا اس جلا وطنی سے لے کر ۹۰۳۱ ھ تک ۴۳ سال اس نے عکائ(یہ اسرائیل کا ایک شہرہے) میں الوہیت کا دعویٰ کیے رکھا،تمام انبیاءاور رسولوں نے شرک کے خلاف جنگ لڑی اولوالعزم پیغمبروں نے بتوں کوتوڑنے کا اقدام کیا اور بت پرستی کا مقابلہ کیا ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے خلاف موسی علیہ السلامٰ نے فرعون کے خلاف، جو کہ ہردو ربوبیت کے دعویدار تھے یہ جنگ لڑی حیرانگی اس امر پہ ہے کہ باب اور بہاد نے پہلے نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیاپھر ربوبیت کا اور آخر میں الہ بن بیٹھا۔ (مصنف) آہستہ آہستہ وہ کئی باغات اور محلات کا مالک بن گیا، وہ کچھ لوگوں کے نزدیک معلم اخلاق اور کچھ کے ہاں نماز جمعہ پڑھنے والا اور کچھ لوگوں کے عقیدہ کے مطابق رجعت حسینی قرار پایا اور کچھ مریدوں کے عقیدہ مطابق عیسیٰ آسمان سے آگیا ہے قرار دیا گیا اور کچھ خاص معتقد مریدوں نے اسے خداوند قہار قرار دیا آخر کار ۹۰۳۱ ھ کو ۶۷ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔

شام یلدای ما

خدا! ای خداوند اعلای ما!

نگہدار دلہای شیدای ما

بہ عشق تو گر سو ختیم از ازل

بجز تو نباشد تمنّای ما

بسوزان دل ما از این بیشتر

از آن آتشین جام صھبای ما

بہ دریای توحید خود غرق کن

ہمہ روح و جسم و سراپای ما

در این آب و آتش در این نور وناز

کسی نشنود جز تو آوای ما

خدایا! بہ موسای صحرای عشق

بہ آن ساقی بادہ پیمای ما

الٰہی! بہ آن یوسف گمشدہ

کہ بردہ است باخویش دلہای ما

بہ چشمان جادو، بہ خال رخش

بہ لعلِ لبِ آن مسیحای ما

بدہ مہدی ما بہ ما ای خدا!

بہ پایان رسان شام یلدای ما

(دیوان”انوار ولایت“)

خدایا! صبر تاکی؟! انتظار آسمان تاکی؟!

خداوندا! دعا تا کی؟! تو بردار این معمارا !

( فَلاَ اقسِمُ بِاَلخُنَّسِ اَلجَوَارِ اَلکُنَّسِ وَاَللَّیلِ اِذَا عَسعَسَ وَاَلصُّبحِ اِذَاتَنَفَّسَ ) “۔

”مجھے ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ہٹ جاتے اور غائب ہوجاتے ہیں ۔ اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے اور صبح کی قسم جب روشن ہوجائے “۔(تکویر:۵۱۔۸۱)

فصل سوئم

غیبت

غیبت صغریٰ نوّاب اربعہ

غیبت کبریٰ نیابت عامہ

طول عمر

باب اول

غیبت صغریٰ

امام زمان علیہ السلام کی غیبت

امام زمان علیہ السلام کی غیبت دوزمانوں پر مشتمل ہے۔

۱۔غیبت صغریٰ

۲۔غیبت کبریٰ

ہم یہاں غیبت صغریٰ بارے گفتگوکریں گے۔