موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25617
ڈاؤنلوڈ: 2678

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25617 / ڈاؤنلوڈ: 2678
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

غیبت صغریٰ

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت معتمدعباسی کی زہر کے ذریعے ہوئی تو خلافت حجت خدا تمام انبیاء علیہ السلام واوصیاء علیہ السلام کی امیدوں کے مرکز سرکار قائم آل محمد حضرت امام مہدی علیہ السلام کا آغاز ہوا آپ کی امامت کا آغاز ہی انتہائی سخت سیاسی فضاءمیں ہوا اور عباسی حکومت کی پیدا کردہ بہت زیادہ مشکلات سے آپ روبرو رہے سب سے اہم ترین مشکل آپ کی والدہ ماجدہ کو حکومت کی نگرانی میں رہنا تھا۔ جسزمان علیہ السلامہ میں جناب نرجس علیہ السلام خاتون حکومت کی نگرانی میں تھیں پانچ اہم ترین واقعات رونما ہوئے کہ جن کی وجہ سے آخر نرجس علیہ السلام خاتون کو رہائی ملی ۔ہم ان پانچ واقعات کا ذکر کریں گے۔

واقعہ نمبر۱

یعقوب لیث(صفار کا قیام، یعقوب کا ارادہ تھا کہ وہ فتح فارس کے بعد سامرہ پر حملہ کرے گا مگر موت نے اسے مہلت نہ دی۔)

واقعہ نمبر۲

عبداللہ بن خاقان جو کہ معتمد کا بااعتماد وزیر تھا گھوڑے سے گر کر مرگیا۔

واقعہ نمبر۳

معتمد کی حکومت کا دارلخلافہ سامرہ سے بغداد منتقل ہوگیا۔

واقعہ نمبر۴

صاحب زنج نے بصرہ میں بغاوت کردی ۔

واقعہ نمبر۵

ابن شوراب جوکہ قاضی القضاة تھا اور جس کے گھر پر نرجس علیہ السلام خاتون کو نظر بند رکھاگیا تھا فوت ہوگیا۔

ان پانچ اہم ترین واقعات کے بعد نرجس خاتون کو۲سال نظر بند رکھنے کے بعدرہا کردیاگیا اگرچہ امام مہدی علیہ السلام کے خلاف حکومتی اقدامات ۰۲سال جاری رہے اس طرح ان حالات میں امام مہدی علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا اور اس دوران میں حضرت کے وکلاءبالترتیب مقرر ہوتے رہے۔

نوّاب اربعہ

اس بحث کو ”سفیران امام زمان علیہ السلام علیہ السلام“سے لیاگیاہے۔

نواب اربعہ کہ جنہوں نے ۰۷ سال تک امام مہدی علیہ السلام کی سفارت کاری کی اور بطور وکیل ماموریت انجام دہے رہے تھے وہ بہت بڑی عظمت وجلالت کے مالک تھے اور صاحب کرامات فراوان تھے اور اب بھی امام کی بارگاہ میں لوگوں کی سفارش اور شفاعت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ عریضہ جات ارسال کرنے میں بھی ذکر ہے کہ چاروں نائیبین میں سے کسی ایک نائب کا ذکر ضرورکریں۔

سورئہ سباءکی آیت نمبر۸۱ میں ذکر ہے کہ ہم نے (آئمہ علیہ السلام) کے درمیان اور شیعوں کے درمیان نواب ونمائندگان مقرر کر دیے ہیں ان نمائندوں کے ذریعہ ہم نے قرار دیا ہے کہ وہ راہ چلیں دن رات انتہائی اطمینان کے ساتھ” حضرت امام سجاد علیہ السلام کی تفسیر کے مطابق یہ آیت مبارکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اور ان کے نواب پر صادق آتی ہے“۔کتاب سفیران امام زمان علیہ السلام میں آیا ہے آئمہ طاہرین علیہ السلام کے اصحاب میں سے سرکار امام زمان علیہ السلام کے نواب اربعہ جتنی جلالت و فضیلت کسی کو حاصل نہ ہے ۔

قوی احتمال یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے بعض خاص اصحاب نوّاب اربعہ سے بلند تر مقام رکھتے تھے مصنف) (بحارالانوارج۱۴ص۵۹۳)

نوّاب اربعہ کی ذمہ داریاں

نواب اربعہ کے اہم ترین ذمہ داریوں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

۱۔ امام زمان علیہ السلام کا نام اور جگہ ومقام کو مخفی رکھنا

۲۔ لوگوں سے وجوہات شرعیہ، واجبات وصول کر کے حقیقی مستحق لوگوں تک پہنچایا۔

۳۔ لوگوں کے شبہات کو دور کرنے کے لیے ان کے سوالوں کے جواب دینا،جوابات کے سلسلہ میں انہیں مکمل امام زمان علیہ السلام کی رہنمائی حاصل ہوتی تھی۔

نائب اول عثمان بن سعید

امام زمان علیہ السلام کی غیبت صغریٰ میں سب سے پہلے نائب خاص جناب عثمان بن سعید عمروی تھے یہ بزرگوار امام زمان علیہ السلام کےساتھ ساتھ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے مورداعتماد تھے اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عثمان بن سعید تین اماموں کے وکیل تھے عثمان بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس ہم چالیس آدمی موجود تھے کہ امام نے سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے فرمایا کہ یہ مہدی علیہ السلام تمہارا امام ہے اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے اور تم پر میرے بعد حجت ہے۔ اسکی اطاعت کرو اور میرے بعد اپنے دین سے منحرف نہ ہونا کہ تم ہلاک ہوجاو گے اور آگاہ رہو کہ آج کے بعد تم اس کو دیکھ نہیں سکو گے عثمان بن سعید فرماتے ہیں کہ ہم امام کے گھر سے باہر آگئے اور ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا اس دنیا سے انتقال ہوگیا(کمال الدین ج۲ص۵۳۴)

نائب دوئم محمد بن عثمان

یہ سرکار امام زمان علیہ السلام کے دوسرے نائب ہیں انکے والد گرامی عثمان بن سعید اور محمدبن عثمان دونوں باپ بیٹے نے سرکار امام زمان علیہ السلام کی ۸۴ سال نمائندگی کی روایات میں ہے کہ محمدبن عثمان نے اپنی قبر بناکر رکھی تھی اور ہر رات اپنی قبر پر ایک جُزقرآن تلاوت کرتے تھے اس دوران ایک شخص محمد بن عثمان کے پاس آیا اس نے دیکھا کہ محمد بن عثمان کے پاس ایک تختی ہے جس پر آیات قرآن درج ہیں اور اسکے حاشیہ پر اسماءمبارکہ آئمہ معصومین علیہ السلام نظر آتے ہیں محمد بن عثمان نے اس کو تنہا قبر دکھائی اور فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ تختی اپنی قبر میں دفن کروں، محمد بن عثمان سے سوال کیاگیا کہ آئمہ علیہ السلام پیدا کرنے والے ہیں یا روزی دینے والے تو اس سوال کا جواب سرکار امام زمان علیہ السلام کی طرف سے کچھ اس طرح آیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خداوندمتعال وہ ہے کہ جس نے افراد کے اجسام کو پیدا کیا ہے وہ خالق ہے وہ روزی دیتاہے یعنی رازق ہے۔ اس کا کوئی جسم نہیں اور نہ ہی وہ کسی کے جسم میں حلول کرتا ہے کوئی چیز اس کی طرح اور مثل نہیں ہے وہ سننے والا حکیم ودانا ہے لیکن آئمہ علیہ السلام جو خدا سے چاہتے ہیں وہ خدا پیدا کرتا ہے وہ جس کےلئے روزی چاہتے ہیں خدا اس کےلئے روزی دیتاہے۔ خدا یہ سب کچھ آئمہ علیہ السلام کی تعظیم میں اور ان کے حق کی وجہ سے کرتا ہے۔(تحفہ قدسی ۳۳۲،بحارالانوارج۱۵۳)

نائب سوئم حسین بن روح

تیسرے نائب خاص امام زمان علیہ السلام سرکار حسین بن روح ہیں جو کہ ۵۰۳ ھ تا۶۲۳ھ امام زمان علیہ السلام کے وکیل رہے ہیں ان کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ تقیہ کرنا تھا دشمن اہل بیت سے اپنے لیے اور اپنے شیعوں کے لیے۔روایت ہے کہ دس افراد اہل سنت حسین بن روح کے پاس آئے ان دس میں سے ۹ افراد حسین بن روح کو گالیاں دیتے رہے اور ایک متردد تھا لیکن حسین بن روح انکے ساتھ ایسی جالب گفتگو کی کہ جب وہ باہر نکلے تو حسین بن روح کی تعریف کررہے تھے۔(حسین بن روح کے بارے میں ہے کہ تمام مذاہب کے آئمہ کے پیروکار آپ کا احترام کرتے تھے اور ہر مذہب والا آپ کو اپنے سے سمجھتا تھا آپ بہت ہی جلیل القدر اور راز داری کے معاملہ میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے)۔

نائب چہارم علی بن محمد سمری

امام علیہ السلام کے چوتھے نائب جناب علی بن محمد سمری تھے انہوں نے سرکار امام زمان علیہ السلام کی تین سال تک نیابت انجام دی غیبت صغریٰ تقریباً۰۷سال تک طول پکڑ گئی اور علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا۔

غیبت کبریٰ میں توقیعات

غیبت میں دو توقیعات شیخ مفیدؒ کے لئے جاری ہوئی ہیں ایک تحریر تو خود امام زمان علیہ السلام ہی کی تھی اور دوسری تحریر آپ علیہ السلام کے کاتب کی تھی لیکن یہ دوتوقیعات شیخ مفیدؒ کے پاس کیسے پہنچیں تو اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام پر اعمال کاپیش ہونا

روایات میں ہے کہ سوموار اور جمعرات کی عصر کے وقت لوگوں کے اعمال حضرت امام مہدی علیہ السلام پر پیش ہوتے ہیں اسکے بعد باقی آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں اور آخر میں رسول اللہ کی جناب میں وہ اعمال پہنچتے ہیں ، (سورئہ توبہ آیت ۵۰۱) اس پر دلیل ہے ”اے پیغمبر ان سے کہہ دو تم جو اعمال چاہتے ہو کرو خدا ، پیغمبر اور مومنین (آئمہ اہل بیت علیہ السلام) تمہارے اعمال کودیکھتے ہیں اور پھر سال میں ایک مرتبہ شب قدر میں دوبارہ سارے اعمال امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں ۔(سورئہ قدر آیت۴)

شب قدر

شب قدر میں دو طرح کی تقدیر ومقدر ہوتاہے۔ ۱۔حتمی تقدیر، آخری فیصلہ جو کہ لوح محفوظ میں ہے۔ ۲۔غیرحتمی اور مشروط تقدیر وفیصلہ یہ دونوں تقدیریں اور فیصلے اس رات حضرت امام مہدی علیہ السلامکے حضور پیش ہوتے ہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام بعض تر حتمی اور اور مشروط فیصلوں کے بارے شفاعت اور سفارش کرتے ہیں اور ان میں تبدیلی کردی جاتی ہے ۔ اس لئے دعا میں ہے (”این السبب المتصل بین الارض والسماء “)کہاں ہیں ؟ وہ جوزمین اور آسمان کے درمیان رابطہ اور وسیلہ ہیں (از مصنف)

سرکار امام زمان علیہ السلام کے یہ چار نائب خاص تھے اور دیگر شہروں میں حضرت کے ۸ وکلاءتھے جو لوگوں سے وجوہات شرعیہ اوراموال وغیرہ لےکر ان نائیبین خاص کو دیتے تھے ان آٹھ افراد سے ایک احمد ابن اسحاق تھے جو کہ قم میں تھے۔اس طرح جھوٹے نائیبین کی تعداد بھی آٹھ تھی جس میں سے ایک نمیری حلاج کہ جسے منصور حلاج کہا جاتا ہے اور دوسرا شلمغانی کانام معروف ہے۔(شلمغانی ہر امام زمان علیہ السلام نے اپنی توقیع میں لعنت بھیجی ہے )

باب دوئم

غیبت کبریٰ

نیابت عامہ

جناب علی محمد بن سمری نائب خاص چہارم کی وفات کے ساتھ ہی غیبت صغریٰ کا دور ختم ہوگیا اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل جو بارگاہ سرکار امام زمان علیہ السلام سے موصول ہوا کچھ اس طرح تھا۔

واما الحوادث الواقعه فارجعوافیهاالی رواة احادیثافانهم حجتی علیکم واناحجة علیهم “۔(روز گار رہائی ج۱ص۳۰۳)

حوادثاتزمان علیہ السلامہ میں جوواقعات پیش آئیں ان میں تم ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرنا وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں ان پرحجت ہوں۔

مرحوم شیخ صدوقؒ نے اپنے استاد حمدبن ولید اورانہوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دو اصحاب سے نقل کیا ہے اور انہوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے جس میں خاص طور پر فقہا کے لئے شرائط بیان کی گئی ہیں ۔

وامامن کان من الفقهاءصاءناً لنفسه، حافظاً لدینه، مخالفا لهواه، مطیعاً لامر مولاه،فللعوام ان یقلدوهُ “۔ (تفسیر منسوب حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام)

”فقہاءمیں سے ایسے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول رکھتے ہوں، اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہوں، اپنے خواہشات نفس کے مخالف ہوں، اپنے مولاکے حکم کے فرماں بردار ہوں تو عوام کو چاہیے کہ ایسے فقہاءکی تقلید کریں“۔ غیبت کبریٰ کےزمان علیہ السلامہ میں نیابت خاصہ نہیں ہے بلکہ نیابت عامہ ہے مذکورہ بالاشرائط کے حامل علماءکرام امام زمان علیہ السلام کے نمائندگان ہیں ۔

پہلے اور دوسرے فقیہ

سب سے پہلے واجدالشرائط فقیہ حسن ابن علی بن ابی عقیل تھے اور دوسرے فقیہہ شیخ مفیدؒ یہ دونوں بزرگوار بغداد میں رہے۔اس غیبت کبریٰ کے طولانیزمان علیہ السلامہ میں کچھ لوگ سرکار امام زمان علیہ السلام سے گاہے بگاہے ملتے اور مشرف بزیارت ہوتے رہتے ہیں ۔ تاکہ حضرت کے وجود مقدس بارے شک وشبہ کا شکار نہ ہوں اور یہ نہ کہیں کہ امام زمان علیہ السلام بارے کوئی خبر نہیں اس لیے امام زمان علیہ السلام مخصوص صالح افراد کو وقتاً فوقتاً اپنی زیارت کا شرف بخشتے رہے ہیں ۔

غیبت کی زندگی

غیبت ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس سے پہلے والی امتوں کو بھی واسطہ پڑا ہے قرآن اس بارے فرماتا ہے”اور جب تم تلاوت قرآن کریم کرتے ہوتو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں “ یعنی کبھی تو کفار و مشرکین حضور کوتلاوت کرتا ہوا دیکھتے تھے اور کبھی صرف آواز سنتے تھے خود حضور ان کی نظروں سے پوشیدہ رہتے تھے۔

(سورہ اسراءآیت۵۴)

سرکار امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا ہم یہاں تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں ۔

۱۔ امام زمان علیہ السلام کی غیبت کیسی ہے؟ ۲۔ غیبت کی کیا وجوہات ہیں ؟

۳۔ غیبت کا فائدہ کیاہے؟ ۴۔ غیبت میںآپ کی زندگی کیسی ہے؟

مذکورہ سوالات میں سے آخری سوال کا جواب دینے میں ہم تین طرح کی صورتحال سامنے رکھیں گے

الف) امام زمان علیہ السلام ہمارے دائرہ حیات سے دور ہیں اور ہماری ان تک رسائی ممکن نہیں ہے، مثلاً حضرت قائم علیہ السلام جزیرہ خضرا میں ہیں اور ہمیں ان کی رہائش کا کوئی پتہ ونشان نہیں ہے۔

ب) ہم اپنے امام زمان علیہ السلام کو دیکھتے ہیں لیکن پہچان نہیں سکتے جیسے برادران یوسف علیہ السلام ،یوسف علیہ السلام کے سامنے ہوتے ہوئے اسے نہ پہچان سکے۔

ج) سرکار امام زمان علیہ السلام ہمارے درمیان ہیں مگر ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے یعنی ہمارے اور سرکار کے درمیان خدا نے پردے حائل کر رکھے ہیں جیسا کہ کبھی کبھی رسول اکرم باوجود پاس ہونے کے کفار و مشرکین کو نظرنہ آتے تھے صرف حضرت کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی تھی۔ مگر حضور ان کودیکھ رہے ہوتے تھے اس طرح سرکار امام زمان علیہ السلام ہمیں دیکھ رہے ہیں مگر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔

سوال نمبر۲: کے جواب میں یعنی غیبت کی وجوہات کیاہیں ؟ اس بارے میں ہم تین طرح کے جوابات دے سکتے ہیں ۔

۱۔تقیہ۲۔ظالموں اور جابروں کی بیعت کانہ کرنا۔ ۳۔لوگوں کا غیبت امام زمان علیہ السلام کے ذریعہ امتحان،

بعض اقوال میں ہے کہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے اصلی اسرار و رموز سے آگاہی خود حضرت امام زمان علیہ السلام بوقت ظہور دیں گے اور ممکن ہے غیبت کی بیان کردہ تینوں وجوہات علل غیبت نہ ہوں۔

سوال نمبر۳: کہ غیبت کا فائدہ کیا ہے؟ تو اس کے جواب دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ :

۱۔ لازمی نہیں ہے کہ ہرموجود اور ہر امر ہمارے لیے سود مند ہو یایہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے سود مند ہو مگر ضروری نہیں کہ ہم اسے سمجھ سکیں۔

ثانیاً امام زمان علیہ السلام کے مقدس وجود کےزمان علیہ السلامہ غیبت میں چار اہم ترین فائدے ہیں ۔

۱۔ وجود امام زمان علیہ السلام کائنات میں نہ ہو تو زمین اپنے اوپر بسنے والوں کو ڈبودے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ”لولا الحجة لساخت الارض باهلها “ اگر حجت خدا نہ ہو تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو ڈبو دے تمام تر نعمات اور برکتوں کی موجودگی صرف وجود مقدس امام زمان علیہ السلام کی وجہ سے اور برکت سے ہے امام زمان علیہ السلام اس کائنات کی روح اور عالم امکان کادل ہیں ۔

(الکافی ج۱ ص۸۷۱)

۲۔ امام زمان علیہ السلام اسلام اور مسلمانوں کے نگہبان ہیں ان کے مقدس وجود کی بدولت اسلام ومسلمان بربادی سے محفوظ ہیں ۔

۳۔ امام زمان علیہ السلام انسانوں کو مشکلات سے نجات دیتے ہیں لوگوں کے توسل اور حوائج کو پورا فرماتے ہیں اور کئی مواقع پرجب انسان ان کی طرف متوجہ یامتوسل نہیں ہوتا ازخود مصیبتوں اور بلاوں کو حضرت دور کردیتے ہیں ۔ کبھی کبھی سرکار امام زمان علیہ السلام انسانوں کو اپنی زیارت سے شرفیاب کرتے ہیں اور معنویات اور مادیات سے مالا مال فرماتے ہیں ۔

۴۔ سرکار امام زمان علیہ السلام باطنی ومخفی رہبر ہیں اور کسب فیض کےلئے خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ورابطہ ہیں اور انہی کی بدولت اعمال میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور دراصل یہی معنی امامت ہے ۔

سوال نمبر۴:کہزمان علیہ السلامہ غیبت میں حضرت کی زندگی کیسی ہے؟ کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی زندگیزمان علیہ السلامہ غیبت میں طبعی ہے اور اسی کرہ زمین پر ہے کیونکہ آپ کی غیبت فرشتوں اور جنوں کی غیبت کی طرح نہیں ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ آپ عالم ہورقلیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں یہ نادرست بات ہے(ھور قلیا کا عنوان سوائے افسانہ کے کچھ نہ ہے) بلکہ دعاوں اور زیارات میں آئے جملوں سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت امام زمان علیہ السلام نے تشکیل خانوادہ کی ہے اور مکمل خانوادہ رکھتے ہیں آپکی اولاد بھی ہے جسکے بارے ہم اقامت گاہ حضرت مہدی علیہ السلام کی بحث میں بات کریں گے اور اسکے مفصل دلائل دیں گے۔

طول عمراور اس کے متعلق امور

وہ چیز جس کے بارے میں امام زمان علیہ السلام کے حوالہ سے گفتگو ضروری ہے وہ ہے جناب کی طول عمر اور اس کا راز ہے قرآن انسانوں کی زندگی کے بارے فرماتا ہے ”اللہ نے ہرایک کے لیے ایک مدت مقرر کی ہے اور اجل اس کے نزدیک معین ہے“۔(سورئہ انعام ۲)

کچھ لوگ عمر کے بارے تین طرحوں کے قائل ہیں ۔طول عمر،عرض عمر، عمق عمر۔

(الف) لمبی عمر کا ہونا یعنی لمبی عمر حاصل کرنا۔

(ب) اس سے مراد تکامل اور خدمت خلق ہے یعنی اپنی عمر خدمت خلق میں صرف کرنا۔

(ج) زندگی کی لذات سے بہرہ مند ہونا اور اچھی اور خوشحال زندگی گزارنا ۔

عمر کے بارے قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے کہ”من عمل صالحا من ذکرٍاوانثیٰ وھو مو من فلنحیسیّنہ حیاة طیبہ“ (سورءنمل ۷۹)”جس نے نیک عمل کیا خواہ مرد ہویا عورت اور صاحب ایمان ہوتو ہم اسے زندگی دیتے ہیں ایک پاک زندگی“۔

شیطان بھی طول عمر رکھتا ہے لیکن اسے عرض عمر اور عمق عمر حاصل نہیں ہے طول عمر کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہےں۔

۱۔ موروثی طول عمر کچھ خاندان وراثتی طورپر لمبی عمر رکھتے ہیں ۔

۲۔ اپنی صحت کی حفاظت اور مناسب خوراک کی فراہمی اور افراط وتفریط نہ ہونے کی وجہ سے لمبی عمر حاصل ہوسکتی ہے۔

۳۔ غم ورنج اور روحی ہیجانات سے دور رہنا بھی باعث طول عمر ہوسکتا ہے۔

۴۔ خداوندکریم پرایمان کامل رکھنے سے طول عمر حاصل ہوسکتی ہے ”الابذکرالله تمطمئن القلوب “۔(سورہ رعد آیت ۸۲)

۵۔ نیک اخلاق ، عمل صالح، خدمت خلق، صلہ رحمی، مساکین کی مدد بھی طول عمر میں معاون ہوسکتے ہیں کیونکہ قرآن فرماتا ہے ”( اما ماینفع الناس فیمکث فی الارض ) “(سورئہ رعد ۸۲)

۶۔ ماں باپ اور غرباءومساکین اور رنجیدہ دل لوگوں کی دعائیں بھی باعث طول عمر ہیں ۔

۷۔ معصومین علیہ السلام کی دعائیں یادعائے مولاابوالفضل العباس علیہ السلام علمدار بھی باعث طول عمر ہے۔

۸۔ معجزہ بھی طول عمر کا باعث ہوتا ہے مثلاً انبیاء علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام ، حضرت عیسی علیہ السلامٰ کو طول عمر معجزہ سے حاصل ہے اور اسی طرح امام زمان علیہ السلام کو بھی معجزہ سے طول عمر حاصل ہے۔

مہدی بیا!

ای روح من، ریحان من! ای جان من، جانان من!

ای مایہ ایمان من! ای معنی قرآن من!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای شاہ من! ای ماہ من! ای مشعل خرگاہ من!

ای والہ اللّٰہ من! ای مہدی جمجاہ من!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای بلبل گلزار من! ای دلبر دلدار من!

ای مطلع انوار من! ای ہادی افکار من!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

مینوی من! مینای من! پیدای ناپیدای من!

ای دین من! دنیای من! ای جنّة الما وای من!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

من از ہمہ بیگانہ ام، در کوی تو پروانہ ام

و زعشق تو دیوانہ ام، لبریز شد پیمانہ ام

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای ساقی صھبای ما! شمع شب یلدای ما!

یغماگر دلہای ما! ای مہدی زیبای ما!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای مقصد اعلای ما! یکتای بی ہمتای ما!

ای فارس ہیجای ما! بشنو کنون آوای ما!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای اشرف غایات ما! ای اعظم آیات ما!

ای ناشر رایات ما! ای قبلہ حاجات ما!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای رہبر عقل بشر! مفتاح ابواب ظفر!

روشنگر شمس و قمر، وزہرچہ گویم خوبتر!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای پیشوای بی نظیر! ای برہمہ عالم امیر!

ای شوکت و شا نت خطیر! یادت ہمیشہ در ضمیر

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

ای راحتی بخش ملل! شمع شبستان ازل!

تسخیر کن سھل و جبل! رایت بکش بر این زحل!

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

مرز (حقیقت) کوی تو، روح شریعت خوی تو

نور طریقت روی تو، رمز فضیلت بوی تو

ای منجی گیتی بیا! مہدی بیا! مہدی بیا!

(دیوان ”انوار ولات“ )

اگر باید بسوزم، زودتر خاکسترم سازید

نہیدم بر رہ بادی کہ پوید خاک خضرا را

( یَا بَنِىَّ اُذ هَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن یُوسُفَ وَاخِیهِ وَلاَ تَیا سُوا مِن رَّوحِ اللّٰهِ اِنَّهُ لاَ یَیا سُ مِن رَوحِ اللّٰهِ اِلاَّ القَومُ الکَافِرُونَ ) “۔(سورہ یوسف آیت ۷۸)

”میرے پیارے بچو! تم جاو اور یوسف علیہ السلامکی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقینا رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں “۔

فصل چہارم

جزیرة الخضراء(سرسبز جزیرہ)

مقدس سرزمین

اقامت گاہ

سبز رنگ

وادی امن کا سفر

باب اول

مقدس سرزمین

اقامت گاہ حضرت اما م مہدی (علیہ السلام)

سب سے اہم ترین مسئلہ سرکار امام زمان علیہ السلام کے حوالہ سے دوران غیبت اقامت گاہ رہائش گاہ سرکار امام زمان علیہ السلام ہے دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں ۔

لیت شعری این استقرت بک النوی، ا برضوی اوغیرهاام ذی الطویٰ “۔

”اے کاش! مجھے پتہ ہوتا کہ آپ علیہ السلام کی اقامت گاہ کہاں ہے؟ آیا آپ کوہ رضوی میں ہیں یا کسی اور جگہ یا ذی طویٰ میں ہیں “۔

روایات اس کی شاہد ہیں کہ امام زمان علیہ السلام ایک مکمل دنیاوی زندگی رکھتے ہیں آپ کے بیوی بچے بھی ہیں اور ان کے ہمراہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ہم ان شواہد اور روایات پر مکمل اور جامع بحث کریں گے اور آپ کی اولاد و فرزندان کے حوالہ سے بھی گفتگو کریں گے۔

۳۔ صلوات جو کہ امام زمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ”اللهم اعطه فی نفسه وذریته، وشیعته “ نیز یہ الفاظ بھی ہیں ”وصل علی ولیک وولاة عهدک والاءمة من ولده “۔(مصباح المتہجد شیخ طوسی ۵۶۳)

اے اللہ! درود بھیج اپنے ولی امر پر اور اس کے ولی عہدوں پر اور اس کی اولاد میں سے رہنماوں پر اسی طرح زیارت ناحیہ میں ہے کہ ”فداک بروحه جسده وماله وولده “ (بحارالانوار ج۱۰۱ ص۰۲۳)کہ اگر میں تیرے ساتھ ہوتا اے مولا حسین علیہ السلام تو میں قربان کرتا اپنے روح کو،اپنے جسد کو، اپنے مال اور اولاد کو آپ پر ، یہ امام زمان علیہ السلام کا خطاب ہے امام حسین علیہ السلام کے لیے ۔

۲۔ زیارت وداع(مقدس تہہ خانہ میں) ہے کہصل علی ولیک وولاة عهدک والاءمه علیه السلام من ولده “۔اے اللہ! درود بھیج اپنے ولی اور اپنے ولی عہدوں پر اور اسکی اولاد میں سے پیشواوں پر۔ (مفاتیح الجنان )

۳۔ دعائے ندبہ میں ہے ”اللهم صل علی محمد وآل محمد وصل علی محمدجده ورسولک السیدالاکبر “۔

”اے اللہ! درود بھیج محمد وآل علیہ السلاممحمد (یعنی مہدی علیہ السلام اور اولاد مہدی علیہ السلام پر درود بھیج امام مہدی علیہ السلام کے جد بزرگوار محمد پر جو تیرا رسول ہے اور سید اکبر ہے)

یہاں محمد وآل علیہ السلام محمد سے مراد امام مہدی علیہ السلام اور اولاد سرکار امام زمان علیہ السلام ہے اور”صل علی جده محمد “سے مراد سرور کائنات ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار امام زمان علیہ السلام کی اولاد کثیر ہے جن پر درود بھیجا گیا ہے۔شادی یعنی ازدواج نبی اکرم کی اہم ترین سنت ہے اور کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار کی یہ اہم سنت ترک کی ہوئی ہو بلکہ آپ تو اپنے جدبزرگوار کی سنتوں کے زندہ کرنے والے ہیں ۔ جو خبر تحقیق وجستجو کے بعد سامنے آتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار امام زمان علیہ السلام او ائل غیبت میں ذی طویٰ جو کہ مدینہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پراور مسجدتنیعم کے قریب واقع ہے،اس میں ساکن رہے اسکے بعد آپ سرزمین رضوی کی طرف نقل مکانی کرگئے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے البتہ مرکزی شاہراہ سے کئی کلومیٹر دور ہے اس کے بعد آپ لمبی مدت تک طائف کے پہاڑوں میں مقیم رہے علی بن مہزیار نے آپ کی زیارت اسی جگہ سلسلہ کوہ ہائے طائف میں کی تھی اور آخری اور اصل رہائش آپ کی جزیرہ خضرا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی منازل ہیں جہاں آپ جاتے اور ٹھہرتے ہیں ۔

سبز رنگ کی خوبصورتی

جزیرة خضرا یعنی سبز جزیرہ اصلی رنگوں کی تعداد سات ہے لیکن ضمنی رنگ اور فروعی رنگ بہت زیادہ ہیں لیکن سبز رنگ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ رنگ تمام رنگوں میں سے خوبصورت ترین اور دلکش رنگ ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ رنگ آرام بخش رنگ ہے اسلام میں بھی اس رنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

ثلاثه، یذهبن عن قلب الحزن

الماءوالخضراءوالوجه الحسن

تین چیزیں ایسی ہیں کہ جو دل سے غم دور کرتی ہیں ،پانی، سبزہ اور خوبصورت چہرہ اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے درختوں کو سبز رنگ دیا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا اور زمین سرسبز ہوگی جی ہاں! اللہ ہی لطیف اور آگاہ ہے۔(سورئہ حج ۳۴)

سبز درخت اور آگ

( الذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارًا ) “ ۔ اللہ ہی ہے کہ جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی ہے “۔ (سورئہ یٰسین آیت ۰۸)

جنت میں سبز لباس

( عَالِیَهُم ثیاب سندسٍ خضرواستبرق ) “۔ ”جنتی ریشمی اور بھاری سبز لباس پہنیں گے“۔(سورئہ انسان آیت ۱۲)

جنت کے سبز تکیے و بستر

( متکین علی رفرفٍ خضرٍوعبقریٍ حسان ) “۔(سورہ رحمن آیت۶۷)

جنتی لوگ سبز رنگ کے بستروں پرتکیہ کیسے ہوئے ہونگے اور نیکی کے فرش سے استفادہ کریں گے۔

( مدهامتان ) (سورئہ رحمن آیت۴۶)

جنت میں دو بہت زیادہ سبز باغ ہیں کہ بہت زیادہ سبزہ کی وجہ سے سیاہ رنگ کے لگتے ہیں روایات میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ظاہر ہونے والی آگ سبز رنگ کے درختوں سے نکلی تھی اور مشہور ہے کہ اس آگ کا رنگ بھی سبز تھا۔بعض روایات میں ہے کہ بہشت کے آسمانوں کا رنگ بھی سبز ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ خضر نبی ایسی جگہ بیٹھے تھے کہ جہاں سبزہ وغیرہ نہ تھا آپ کے بیٹھنے کی وجہ سے وہ جگہ سرسبزوشاداب ہوگئی اورسبزہ اگ آیا جس کی وجہ سے آپ کا نام خضر مشہور ہوگیا۔

جزیرہ خضرا ئ

یہ جزیرہ دنیا کا خوبصورت ترین جزیرہ ہے کہ جس کی آب و ہوا اور سبزہ دنیا کے تمام نقاط سے زیادہ اعلیٰ وخوبصورت ہے البتہ آخری تحقیقات کی رو سے کچھ محققین نے جزیرہ خضراءکو برمودا سے تعبیر کیا ہے اور خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہی جزیرہ خضرا ہے اس بنیاد پر ہم اس علاقہ کی جغرافیائی حیثیت کے حوالہ سے گفتگو کریں گے۔

جزیرہ خضرا کہاں ہے ؟

مثلث برمودا بحراوقیانوس اطلس میں ہے اورفلوریدا سے مشرق اور جزائر آنٹیل کے شمال اور جزائربرمودا کے جنوب میں واقع ہے یعنی جزیرہ خضراءکے مغرب میں بحراوقیانوس مشرق میں فلوریڈا شمال میں جزائر آنٹیل اور جنوب میں جزائر برمودا واقع ہیں ۔ تین اطراف سے میامی اور سرخوان واقع ہیں اور اس مثلث کا مرکز اور ہیڈکوارٹرز برمودا ہے جو کہ مشہور ہے برمودا مثلث تقریباً ۰۶۳ چھوٹے چھوٹے جزائر پرمشتمل ہے جوکہ تمام جزائر برمودا کے نام سے معروف ہیں ان جزائر کے مرکز اور دارالحکومت کا نام ھاملٹن( Hameltean ) ہے۔یہ جزائر بحراوقیانوس کی جنت کے نام سے مشہور ہیں کیونکہ اس کے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر ہیں اور فرحت بخش ہیں ان جزائر میں سے ۰۶ جزیرے آباد ہیں جہاں انسان بستے ہیں اور وہاں کی آبادی تقریباً۰۶ ہزار لوگوں پرمشتمل ہے جب نیویارک میں سخت برفباری ہورہی ہوتی ہے اس وقت برمودا کی تمام زمین کو پھولوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا ہے برمودا سے سردیوں میں بہت زیادہ سبزیاں اور پھول ایالات متحدہ امریکا بھیجے جاتے ہیں جزیرہ خضرا کے حوالہ سے دوواقعات ہم یہاں نقل کریں گے اور معتبر کتب سے جزیرہ خضرا کے بارے گفتگو کریں گے۔(برمودا، جغرافیا جہان ص۵۷۱)