موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25607
ڈاؤنلوڈ: 2675

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25607 / ڈاؤنلوڈ: 2675
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب دوئم

وادی امن کی طرف سفر

جزیرہ کی طرف جانے کی کئی محققین نے کوشش کی ہے اور ناکام ہوئے ہیں البتہ کچھ لوگوں کو جزیرہ خضرا کا سفر نصیب ہوا ہے ہم دو اہم ترین شخصیات کا ذکر کریں گے جن کو جزیرہ خضرا جانا نصیب ہوا کہ جس کے ذریعہ وہاں کے کچھ حالات کی وضاحت ملی۔

۱۔ علی بن فاضل کا جزیرہ خضراءکا سفر

زین الدین علی بن فاضل مارندرانی ۰۹۶ ہجری میں ایک کشتی میں تبلیغاتی سلسلہ کے لیے عازم سفر ہوا، اس نے سرزمین بربر سے ۳دن بحراوقیانوس کے مرکز میں کشتی رانی کی اور سفر جاری رکھااور کچھ شیعہ نشین جزائر میں وارد ہوااسے اس جزیرہ میں پتہ چلا کہ ایک جزیرہ جوکہ بحراوقیانوس میں بنام جزیرہ خضرا واقع ہے اور وہاں امام زمان علیہ السلام کی اولاد سکونت پذیر ہے علی بن فاضل تبلیغاتی سلسلہ میں چالیس روز ان شیعہ نشین جزائر میں رہے اس دوران سات کشتیاں جو کہ غذائی اجناس اور دیگر ضروریات سے لدی ہوئی تھیں جزیرہ خضراءسے ان شیعہ جزائر میں آئیں اور کشتی کے تمام ناخداوں نے علی بن فاضل کے نام کے حوالہ سے جزائر شیعہ نشین میں آکر دیں ایک کشتی ران نے علی بن فاضل کانام مع ولدیت بیان کیا اور کہا کہ مجھے حکم ہے کہ تجھے اپنے ساتھ جزیرہ خضرا میں لے جاوں علی بن فاضل فرماتے ہیں کہ ہم ۶۱ دن مسلسل کشتی پر سفر کرتے رہے اور آخر کار ہم سفید پانی تک پہنچ گئے مجھے کشتی کے ناخدا نے کہا کہ اس جزیرہ کا احاطہ اس سفید پانی نے کیا ہوا ہے کسی مخالف یا دشمن کی کشتی اس پانی داخل نہیں ہوسکتی اور حکم خدا سے غرق ہوجاتی ہے۔علی بن فاضل فرماتے ہیں کہ میں نے جزیرہ خضرا میں بہت آباد اور خوبصورت سرسبزوشاداب شہردیکھا کہ جس میں انواع واقسام کے باغات اور بڑی عظیم عمارتیں تھیں میں نے وہاں ایک سید بزرگوار کو دیکھا کہ جن کا نام سید شمس الدین ہے اور وہ امام زمان علیہ السلام کے پانچویں پوتے ہیں اور وہاں کے تعلیم وتدریس کے ادارہ کے مسول وانچارج ہیں ۔میں نے اٹھارہ دن وہاں قیام کیا اور سید شمس الدین کے حضور کسب فیض کرتا رہا۸۱ دن کے بعد سید شمس الدین کو حکم ملا کہ وہ مجھے واپس بھیج دیں علی بن فاضل نے اپنی کتاب فوائد الشمسہ میں اس واقعہ کو جو ان کے ساتھ پیش آیا انتہائی تفصیل کے ساتھ لکھاہے جو کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر ہے اور خزانہ کتب امیرالمومنین میںموجود ہے۔اس واقعہ کو علامہ مجلسی ؒ نے بحارالانوار میں اور مقدس اردبیلی نے حدیقة الشیعہ میں شیخ حرعاملی نے اثبات الہدیٰ میں اور بحرالعلوم نے اپنی کتاب رجال میں ذکر فرمایا ہے۔قابل توجہ نقطہ یہ ہے کہ اب بھی اس جزیرہ کوسفید پانی نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور کوئی کشتی اور ہوائی جہاز اس کی دریائی یا فضائی حدود میں داخل نہیں ہوسکا بلکہ داخل ہوتے ہی کشتی غرق ہوجاتی ہے اور ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوجاتا ہے سینکڑوں کشتیاں اور جہاز اس علاقہ میں داخلہ کی وجہ سے غرق اور گم ہوچکے ہیں لیکن یہ تباہی اور غرق ہونا صرف انہی کےلئے ہے جو مخالفت اور جستجو میں ہوتے ہیں مندرجہ بالا واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی کوخود بلایا جائے تو وہ مستثنیٰ شمار ہوں گے۔غرق شدہ کشتیوں اور جہازوں میں اہم ترین کشتی جوکہ جنگی کشتی تھی بنام (اٹلانٹا) کہ ۰۹۲ سواروں سمیت غرق ہوگئی اور ۵۴۹۱ میں ۵ ہوائی جہاز اس خطہ میں گم ہوگئے”مثلث برمودا“ جزیرہ خضرا کے ساتھ اور جزائر جن کے مقدس نام ہیں مثلاً جزیرہ زہراء علیہ السلام، جزیرہ صافیہ، جزیرہ ظلوم وعناطیس وغیرہ واقع ہیں کہ وہاں کے سکونتی تمام کے تمام شیعہ ہیں اور سرکار امام زمان علیہ السلام کی اولاد میں سے ۵ افراد یہاں سکونت پذیر ہیں یعنی ہر جزیر میں ایک فرزند امام سکونت پذیر ہیں اور حکومت چلا رہے ہیں ۔(حدیقہ الشیعہ النجم الثاقب)

آیت اللہ شفتی کا جزیرہ خضراءکا سفر

نقل از العبقری الحسان ج۱،۷۲۱ علامہ نہاوندی نے ایک دوست جن کا نام سید احمد ہے سے نقل کیا حجة الاسلام شفتی نے کتاب تحفہ الابرار کی جلد کی اندرونی پشت پر یہ واقع تحریر فرمایا ہے ، جس کا ہم یہاں خلاصہ لکھیں گے علامہ شفتی کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ امام زمان علیہ السلام سے یہ دعا اور درخواست کی کہ مجھے وہ سفیدسمندر اور جزیرہ خضراءجس میں انکی اولاد ہے دکھائیں اور اس کےلئے میںنے خداوند کریم کو امام زمان علیہ السلام کا واسطہ اور قسم دی کہ اگر یہ سارا سلسلہ اور جزیرہ خضراءکا قصہ سچ ہے تو مجھ پر ظاہر فرمائے یہاں تک کہ عید غدیر کی رات جو کہ اتفاقاً شب جمعہ تھی اور رات کی دوتہائی گزر چکی تھی اور میں اپنے گھر کے باغیچہ کے کنارے جوبیدآباد اصفہان میں واقعہ ہے چہل قدمی کررہا تھا کہ میں نے ایک بزرگوار سید کو دیکھا جو کہ علماءکے لباس میں تھا اس نے وہ تمام باتیں جو میرے ذہن میں تھیں مجھ سے بیان کردیں اور کہا کہ جو کچھ تم نے جزیرہ خضرا کے بارے سنا ہے وہ صحیح ہے اور پھر مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جزیرہ خضرا دیکھنا چاہتے ہو تاکہ تمہارے اور دیگر لوگوں کے لیے عبرت ہو میں نے عرض کی جی ہاں تو اس سید نے فرمایا کہ اپنی آنکھیں بند کرو اور سات بار محمد وآل محمد پر درود پڑھو میں نے وہی کیا جو انہوں نے کہا پھر کہا کہ آنکھیں کھولو میں نے آنکھیں کھولیں تو میں نے ایسا شہر دیکھا کہ جسکے گھروں کا ایک دوسرے سے فاصلہ تھا یعنی متصل نہ تھے اس شہر کے دائیں اور بائیں انتہائی خوبصورت درخت اور پھول تھے اس سید نے کہا کہ ان درختوں کے اختتام پر جاو وہاں ایک مسجد ہے اور اس میں ایک امام جماعت ہے اور وہ امام جماعت سرکار امام زمان علیہ السلام کا ساتواں بیٹا ہے اور اس کانام عبدالرحمن ہے سے ملو میں مسجد کی طرف گیا ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میں نہیں چل رہا بلکہ زمین چل رہی ہے میں نے امام مسجد کو دیکھا جو کہ محراب مسجد میں تشریف فرما تھے انکی شکل مثل چاند کے تھی ان کا چہرہ چمک رہا تھا اس کی پیشانی سے نور نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا۔انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا”مرحبالک“ خوش آمدید ،خداوند کریم نے تیرے اوپر احسان کیا ہے میں نے تمام مشکلات اور اپنے مسائل ان سے بیان کیے انہوں نے نہایت فراوانی سے ان کے جواب دیے، وہ نہایت مہربان تھے اور میرے ذہن کی خبریں دیتے تھے ایک دفعہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ مجھے اس وقت بیدآباد اصفہان کی مسجد میں جاکر جمع شدہ لوگوں کو صبح کی جماعت کرانا ہے لوگ میرے منتظرہوں گے میرے ذہن کی کفیت کو وہ امام جماعت جان گئے اور مجھے فرمایا کہ پریشان مت ہو ہم تمہیں ابھی وہاں پہنچا دیتے ہیں تم ان کے ساتھ نماز پڑھو گے۔اس وقت وہی سید جو مجھے لائے تھے ظاہرہوئے میرے قریب آگئے اور فرمایا امام زمان علیہ السلام کی برکت سے چلیں؟ میں نے کہاہاں تو کیا دیکھتا ہوں کہ بیدآباد اصفہان کی مسجد میں کھڑا ہوں چونکہ نماز کا وقت تھا لوگ جمع تھے میں نے جماعت کرائی میں نے مڑ کر دیکھا تو اس سید کو وہاں موجود نہ پایا۔

(عرض مترجم:جزیرہ خضراءبارے محترم مصنف کتاب نے جو دلائل اور واقعات تحریر فرمائے ہیں ہم نے ان کا ترجمہ من وعن تحریر کردیا ہے البتہ یہ موضوع علماءو محققین کے درمیان متنازع رہا ہے اور جزیرہ خضراءشدید محل اختلاف ہے کہ آیا جزیرہ خضراءکا وجود ہے یا نہیں اور اس کے بارے لکھے گئے واقعات و داستانیں کہاں تک مبنی برصداقت ہیں اس بارے محققین میں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ قارئین کرام اس بارے مزید تفصیلات جاننے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی دیگر کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔”واللّه عالم بالصواب “۔)

ای یوسف گم گشتہ

ای یوسف گم گشتہ محبوب کیجایی؟

ای نور خدائی!

این است گمانم کہ تو رنجیدہ زمایی؟

گفتی کہ نیایی

ہستیم مقرّ ہمہ تفصیر و خطایی

کانون عطایی

بردار نقاب از رخ وکن صلح وصفایی

بی چون و چرایی!

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

آفاق جہان یکسرہ تاریک چو شب شد

گیتی بہ تعب شد

دلھا ہمہ بر ضدّ ھم امواج غضب شد

شیطان بہ طرب شد

یک عدّہ در این معرکہ حمّال حطب شد

ہر ظلم سبب شد

ہر دیو در این بادیہ اصلاح طلب شد

ای وای عجب شد!

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

نیکان ہمہ نو مید بہ یک گوشہ خزیدند

اندوہ خریدند

اشرار فرومایہ زبیغولہ دویدند

اَبَر طعمہ پریدند

بیچارہ ضعیفان زتعب جامہ دریدند

فریاد کشیدند

ہر جا کہ دویدند جوابی نشنیدند

جز مکر ندیدند

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

ای شاہ! بیا قافلہ گم کردہ رہ خویش

نِی راہ پس وپیش

در بحر ضلالت ہمہ افتادہ بہ تشویش

از مالک و درویش

آدم ہمہ یک آدم و راہش نہ زیک بیش

از تفرقہ دلریش

یا را ی تو اصلاح شود مغز کژ اندیش

دنیاہمہ یک کیش

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

ای مہر جہانتاب! تو دریاب امم را!

بردار ظُلَم را!

بشکن بہ دو بازوی قوی جملہ صنم را!

دینار و درم را

بالا ببرای نابغہ افکار و ہم را!

تقوا و کرم را

کن رہبری اقوام عرب تابہ عجم را!

این کشور جم را

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

بالای سرت پرچم( البیعة للّٰہ)

نام تو در افواہ

آن ھالہ احباب تو، یاران دل آگاہ

بر گرد تو ای ماہ!

کن دست ہمہ اہل ستم یکسرہ کوتاہ!

و آن دشمن بدخواہ

از خاور و از باختر این ملّت گمراہ

آور ہمہ در راہ!

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

آیا کہ شود چہرہ زیبای تو بینم؟

سیمای توبینم؟

در ظلمت کفر آن ید بیضای تو بینم؟

ہیجای توبینم؟

باشد کہ نمیرم و تجلاّی توبینم؟

اعطای تو بینم؟

باعین (حقیقت) سر سودای تو بینم؟

کالای تو بینم؟

ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت

(دیوان گنجینہ گوھر)

شکر ایزد کہ دل منوّر شد

در بساط شہود دلبر شد

( یَا ایُّهَاَاَلَّذِینَ آمَنُوا اَصبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاَتَّقُوا اَللّٰهَ لَعَلَّکُم تَفلِحُونَ ) “۔

”اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو“۔(آل عمران ۰۰۲)

فصل پنجم

میل جول اور ملاقاتیںرابطے اور شرف

رابطے توسل

دعائے ندبہ کی حقیقت

انفرادی ملاقاتیں

اجتماعی شرف زیارت

باب اول

رابطے

امام زمان علیہ السلام(علیہ السلام) کے ساتھ روابط لازم ہیں

ربط کا لغوی معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنا ہے لیکن یہاں ارتباط امام زمان علیہ السلام سے مراد مثل ایسے ربط کے ہے جو بدنی خلیوں کا دل سے دل اپنے عمل کے ذریعہ یعنی گردش خون سے خلیوں کو زندگی بخشتا ہے خلیوں کی زندگی دل کی حرکت پر منحصر ہے۔جب دل اپنا کام بندکر دے تو خلیے مر جاتے ہیں اور انسانی موت واقع ہوجاتی ہے ”( یاایهاالذین آمنوا صبروا وصابرو رابطوا واتقواللّٰه لعلکم تفلحون ) “۔ (آل عمران ۰۸۲)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ مصائب ومشکلات جو تمہیں ہماری راہ میں اٹھانی پڑیں اس پر صبرکرو تحمل کرو سائل نے عرض کی مولا ”صابروا“ سے کیا مراد ہے۔

تو امام نے فرمایا کہ جب تم اپنے اماموں کی دشمنی دیکھو تو بردبار رہو یعنی تقیہ کرو۔

سائل نے پوچھامولا! ”ورابطوا“ سے کیا مراد ہے؟فرمایا! اپنے امام علیہ السلام کے ساتھ ربط میں رہو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاجاو۔ سائل نے پوچھا مولا کیا یہ آیت اسی مطلب کے لیے نازل ہوئی ہے فرمایا ہاں ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ”اس آیت میں رابطہ سے مراداپنےزمان علیہ السلامہ کے امام کے ساتھ رابطہ میں رہو مراد ہے اور رابطوا کے باطن میں ممکن ہے اور کئی معانی مخفی ہوں اور وہ امام زمان علیہ السلام کی ذات کی طرف اشارہ ہو تاکہ ہم ایک دوسرے کو دوست رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مال اور دیگر روابط برقراررکھیں۔ تاکہ ان مقدمات اورتہذیب نفس کی بجاآوری اور مقام ولایت ومحبت کی وجہ ارتباط قلبی باامام زمان علیہ السلام حاصل ہونے کے بعد مقام اوتاد وابدال حاصل ہو کہ اس نوعیت کی محبت وارتباط باامام زمان علیہ السلام پر صرف اوتادوابدال اور اولیاءہی فائز ہیں ۔

امام زمان علیہ السلام سے ارتباط کے راستے

ارتباط با امام زمان علیہ السلام کے بیان کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام زمان علیہ السلام کے رابطہ سے کیسے مشرف ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرخدا چاہے اور مقدر یاوری کرے تو متعدد ذرائع سے سرکار امام زمان علیہ السلام سے روابط استوار کیے جاسکتے ہیں ۔

۱۔ اضطرار

وہ لوگ جنہوں نے حالت اضطرار اور مشکلات میں سرکار امام زمان علیہ السلام سے توسل کیا تو انہوں نے سرکار کی زیارت بھی کی ملا شیخ اسماعیل نمازی اور اس کے قافلہ نے حضرت کا دیدار کیا کہ جس کا ہم آگے ذکر کریں گے۔

۲۔ ختم وتوسل

مخصوص مقامات اور مخصوص ایام میں حضرت سے متوسل ہونا مثلاً

۱۔چالیس شب جمعہ حضرت امام حسین علیہ السلامکے حرم میں۔ ۲۔چالیس راتیں ہر بدھ کی رات مسجدسہلہ(کوفہ) میں ۔۳۔ہربدھ کی رات متواتر چالیس راتیں مسجد جمکران جانا۔

مسجد جمکران

یہ بات مسجد جمکران بارے مشہور ہے اس کا انہوں نے نتیجہ بھی لیا ہے لیکن جمکران میں بدھ رات خصوصیت کے ساتھ جانا، تو اس بارے کوئی خاص روایت نہیں دیکھی، جب کہ گذشتہزمان علیہ السلاموں میں بہت سارے علماءاور آیات عظام شب جمعہ جمکران مسجد میں مشرف ہوتے رہے ہیں ، جن میں مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی، آیت اللہ شیخ محمد تقی بافقی، آیت سید محمد تقی خوانساری، مرحوم محمد شاقمی، شامل ہیں ۔ (مصنف)

۴۔ تہذیب اور پاکیزگی نفس کے ذریعہ ایک پارسا اور پاکیزہ نفس آدمی دعائے ندبہ پڑھتے ہوئے جب اس جملہ پر پہنچا ”ہل الیک یابن احمد سبیل فتلقیٰ“ کہ اے فرزند احمد کیا کوئی ایسا راستہ ہے کہ جس سے تیری زیارت نصیب ہوجائے توعالم مکاشفہ میں اسے سرکار امام زمان علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں راستہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس ۔

۵۔ وہ لوگ جنہوں نے سرکار امام زمان علیہ السلام کی محبت میں دل کو دنیا سے اٹھالیا اور خاص کر وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی ہر چیز کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنا دل سرکار امام زمان علیہ السلام کے سپرد کر دیا ان میں سے کچھ جزیرہ خضرا میں پہنچ گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے اور کبھی کبھی انہیں سرکار امام زمان علیہ السلام کی طرف سے کوئی ذمہ داری بھی سونپ دی جاتی ہے۔

حضرت امام زمان علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کی انواع واقسام ہیں اور کہاجاسکتا ہے کہ کچھ روابط کی اقسام کو مقدمہ اور کمزور روابط کا زینہ قرار دیا جائے اور کچھ روابط محکم ومستقیم اور کامل ہیں ۔

وہ امور جو کہ رابطہ کے مقدمات ہیں ان کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

۱۔ سرکار امام زمان علیہ السلام سے شدیدمحبت اور ہمیشہ ان کی یاد میں مگن رہنا۔

۲۔ دینی خدمات اور لوگوں کو امام زمان علیہ السلام سے متعارف کرانا اور سرکار امام زمان علیہ السلام کی تعریف وثناءخوانی کرنا بھی ارتباطات کا پیش خیمہ ہیں ۔

۳۔ سرکار امام زمان علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقات دینا سرکار کے حوالہ سے منت و نذر ماننا اور اعمال صالح بجالانا کہ اس کا صلہ سرکار کے لیے ہو۔

۴۔ مختلف دعاوں اور زیارات کا پڑھنا جو کہ سرکار امام زمان علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہیں اور خصوصاً دعائے ندبہ پڑھنا بھی ارتباط کا پیش خیمہ ہے۔

سرکار امام زمان علیہ السلام کے ساتھ ارتباطات کے ذرائع میں اہم ترین ذریعہ ایسی دعاوں اور زیارتوں کا پڑھنا ہے کہ جو امام زمان علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہیں کتاب مکیال المکارم میں تقریباً ایک سو کے قریب دعاوں کا ذکر ہے جو کہ امام زمان علیہ السلام کے ساتھ رابطہ خاص کاذریعہ ہیں ہم یہاں صرف چند خصوصی دعاوں کا تذکرہ کریں گے جو کہ مفاتیح الجنان میں تفصیلاً دیکھی جا سکتی ہیں ۔

۱۔ دعائے فرج”یامن تحل به عقدالمکاره “جوکہ بہت زیادہ خوبصورت دعاہے

۲۔ دعائے فَرَج ”یاعماد من لاعمادله ....“

۳۔ دعائے فَرَج ”الٰهی عظم البلاء ....“

۴۔ دعا جو کہ غیبت امام زمان علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ سے مخصوص ہے ”اللهم عرفنی نفسک “۔

۵۔ دعا برائے سلامتی امام زمان علیہ السلام علیہ السلام”اللهم ادفع عن ولیک وخلیفک وحجتک علی خلقک “ جو کہ مفصل دعا اور بہت عالی شان مضمون کی حامل ہے۔

۶۔ دعا برائے امام زمان علیہ السلام جو کہ صلوات ضراب اصفہانی کے نام سے مشہور ہے ”اللهم صل علی محمد سید المرسلین وخاتم النببین وحجة رب العالمین المنتجب فی المیثاق المصطفیٰ فی الظلال. ...“۔

۷۔ دعائے عہد ”اللهم بلغ مولای صاحب الزمان علیه السلام ....“۔

۸۔ دعانماز استغاثہ۔ ”سلام الله الکامل التام “۔

۹۔ زیارت حضرت حجت جو کہ جمعہ کے دن کے لیے ہے ”السلام علیک یاحجة الله فی ارضه “۔

۰۱۔ زیارت آل یٰسین “۔

۱۱۔ دو مشہور و مفصل زیارات جو کہ سامرہ کے مقدس تہہ خانہ میں پڑھی جاتی ہیں

۲۱۔ زیارت صلوات بر حجج طاہرہ ۔

۳۱۔دعائے ندبہ جو کہ بہت عالی شان دعا ہے ہم اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے۔

(یہ سب دعائیں مفاتیح الجنان میں موجود ہیں )

دعائے ندبہ

سب سے پہلا فرد جس نے دعائے مبارکہ ندبہ کو اپنے مکتوب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے وہ ابوجعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری ہے جو کہ مورد اعتماد وموثق ہے یہ ابوجعفر نبرو فری شیخ مفید کے اساتذہ سے ہےں دعائے ندبہ کئی عالی شان مضامین کی حامل ہے۔

صاحب کتاب (بادعائی ندبہ درس بگاہ جمعہ) حجة الاسلام علی اکبرمہدی پور اپنی کتاب میں دعائے ندبہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس دعا کے ۴۲۱ جملے روایات کے ساتھ منطبق ہیں ہم اس دعا کے اہم ترین حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

دعائے ندبہ کے پہلے ۶حصے

۱۔ پہلا حصہ جو کہ جملہ ”الحمدللّٰه رب العالمین “ سے شروع ہوتا ہے یہ حمد و ستائش پروردگار کے لیے مخصوص ہے اس کی نعمتوں کے عوض اور خصوصاً بزرگ ترین نعمت یعنی انبیاء علیہ السلام ورسل اور کتب کے بھیجنے پر حمدوشکر ہے۔

۲۔ دوسرا حصہ جس میں یہ جملہ ہے کہ ”الی ان انتهیت بالامرالی حبیبک “ اس میں نعمت خاصہ یعنی بعثت رسول اکرم اور ان کے فضائل ومناقب کا بیان ہے۔

۳۔ تیسرا حصہ جس کی عبارت کچھ یوں ہے ”فلما انقفت ایامه اقام ولیه علی بن ابی طالب “اس کا شروع امامت کے بارے ہے اور تاریخی واقعہ غدیر خم کی طرف اور مناقب امیرالمومنین علیہ السلام مولائے متقیان کی طرف اشارہ ہے۔

۴۔ چوتھا حصہ اس کی ابتداءاس جملہ سے شروع ہوتی ہے ”ولما قضیٰ نحبه “ جس میں مصائب آل محمد کا ذکر ہے جو عترت طاہرہ پروارد ہوئے اور آئمہ علیہ السلام کی محرومی کا تذکرہ کرتے ہوئے اشک ہائے حسرت بہانے کا تذکرہ ہے۔

۵۔ پانچواں حصہ جس کی عبارت کچھ یوں ہے کہ ”این بقیة الله التی لاتخلومن العترة الهادیه “ اس میں سرکار امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہونے پر اظہار تاسف ہے اور درد ہجر ہے اور اظہار شوق دیدار کیا گیاہے۔

۶۔ چھٹا حصہ ”انت کشاف الکرب والبلوی “ اس میں دعا دیگر حصوں سے ممتاز ہو جاتی ہے اور بارگاہ خداوندی میں دعا کا اختتام ہوتاہے۔

دعائے ندبہ پراعتراضات اور جوابات

دعائے مبارکہ ندبہ کے خوبصورت متن سے اس دعا کی اہمیت مسلم اور واضح ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی کچھ کو تاہ فکر لوگوں نے اس دعا کو اعتراضات کا نشانہ بنایا ہے ہم ان اعتراضات کو بیان کرتے ہیں تاکہ ان کے جوابات دیے جاسکیں ۔

اعتراض اول: حضرت امام زمان علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کیسے ان کے لیے دعائے ندبہ آگئی ہے؟ جب کہ دعائے ندبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔

جواب: حضرت امام زمان علیہ السلام کوئی معمولی فرد اور انسان نہیں ہیں بلکہ اتنی عظمت وفضیلت کے مالک ہیں کہ جس کا تذکرہ انبیاء علیہ السلام ماسلف اور اوصیاء علیہ السلام کرتے رہے ہیں اور بعض انبیاء علیہ السلام واوصیاء علیہ السلام ان کے فراق میں گریہ کرتے رہے ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حالت گریہ میں آنسو بہاتے ہوئے سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے فرماتے ہیں ۔ ”سیدی غیبتک نفت رقادی وضیقت عَلَیّ مهادی وابتزت منی راحة فوادی “۔(کتاب الغیبة ص۷۶شیخ طوسی)

اے میرے سردار وسرور تیری غیبت نے میری آنکھوں سے نیند چھین لی ہے اورعرصہ حیات مجھ پرتنگ کردیا ہے اور تیری غیبت نے میرے دل کا آرام وسکون اڑا دیا ہے۔

اعتراض نمبر۲: دعائے ندبہ فرضی اور من گھڑت ہے۔

جواب: دعائے ندبہ جو کہ تمام دعاوں میں اثر انگیز دعا ہے اور اس میں جنگ بدر، جنگ حنین،جنگ خیبر، جنگ صفین اور جنگ نہرواں کا تذکرہ بھی ہے اس دعا میں ۸۳ مقامات پر کلمہ ”این“ تحریر ہے جس کا معنی ہے (کہاں ہے؟)یہ کلمہ جبرواستبداد ظالموں اور متکبروں اور مفسدین کی تباہی و بربادی کے لیے آیا ہے جوکوئی بھی دعائے ندبہ پڑھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ انتظار کرے اور وہ منتظر رہے اور اپنے آپ کو سربازی اور قربانی کے لیے آمادہ رکھے اور وہ خود سازی کرے اور منتظر وہ ہے کہ جو اپنی پوری طاقت وقدرت کے ساتھ ظلم وفساد کے ساتھ مبارزہ کرے تو بنابرایں یہ دعا جو کہ انسان کو ہمیشہ حالت انتظار میں رکھتی ہے بھلا کیسے من گھڑت ہوسکتی ہے۔

اعتراض نمبر۳۔ دعائے ندبہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان صدق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے یہ کیسے قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟۔

جواب: دعائے ندبہ میں یہ جملہ آیا ہے کہ”وسئلک لسان صدقٍ فی الآخرین فاجبتہ وجعلت ذلک عَلِیّاً“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوندکریم سے درخواست کی کہ آنے والےزمان علیہ السلامہ میں مجھے سچی زبان عطا فرما۔ خداوند کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور سچی زبان یعنی (زبان توحید)علی علیہ السلام کو قرار دے کر دعا قبول فرمائی”( واجعل لی لسان صدق فی الآخرین ) “(سورئہ شعراء۴۸)میرے لیے آنے والےزمان علیہ السلامہ میں سچی زبان (لسان صدق ) دے

سورئہ مبارکہ مریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے دو انبیاء علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے فرمایا کہ ”ہم نے اپنی رحمت کے ساتھ ان کو بہرہ مند کیا اور ان کے لیے (حضرت علی علیہ السلام) کو لسان صدق قرار دیا“۔ (سورئہ مریم ۰۵)دعائے ندبہ میں بھی اسی طرح اور اسی انداز سے آیا ہے اور جس طرح قرآن میں لسان صدق کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ”علیا“ فرمایا گیا ہے اسی طرح دعائے ندبہ میں بھی علی علیہ السلام کو ہی لسان صدق سے تعبیر کیاگیاہے۔شیخ صدوقؒ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے اور یہ حدیث کمال الدین وتمام النعمة ۹۳۱سے نقل ہے۔

اسی طرح علی بن ابراہیم نے اپنے باپ اور اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں لفظ ”علیاً“ سے مراد علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ (تفسیر قمی ج۲ص۱۵)

اور بھی روایات ہیں جن میں ذکر ہے کہ اس آیت مبارکہ میں کلمہ ”علیاً“ سے مراد حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں تو پس دعائے ندبہ میں لسان صدق کے طورپر امیرالمومنین علیہ السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے (تفسیر برہان ص۵۲۱ج۵ )یہ بالکل روایات کے مطابق ہے اور خلاف واقعات نہیں ہے۔

اعتراض نمبر۴: دعائے ندبہ میں ایک جملہ ذکر ہے کہ ”عرجت بروحه الی سماءک “ کہ تو نے اس کے روح کو آسمان کی طرف عروج دیا جب کہ پیغمبر گرامی کو معراج جسمانی ہوا ہے یہ جملہ معراج جسمانی کا مخالف ہے؟

جواب: سب سے قدیمی کتاب جس میں دعائے ندبہ کا متن لکھا ہے وہ کتاب المزار الکبیر مولف محدث عالی قدر شیخ ابوعبداللہ محمد بن جعفر مشہدی ہے اس میں یہ جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ”عرجت به الی سماءک “ کہ تو نے اسے آسمان کی طرف عروج دیا اس کتاب کا قلمی نسخہ جوگیارہویں صدی کے لکھاریوں کا لکھا ہے حضرت آیت اللہ مرعشی کے کتاب خانہ قم میں موجود ہے تو پس اصل متن دعائے ندبہ میں معراج جسمانی کی مخالفت نہ ہے بلکہ معراج جسمانی ثابت ہے دوسری طرف یہ واقعہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔مرحوم آیت اللہ حاج میرزا مہدی شیرازی فرماتے ہیں کہ ایک رات میںامام زمان علیہ السلام کے تہہ خانہ میں گیا میں نے دروازہ اندر سے مکمل طورپربند کردیا اور دعا میں مشغول ہوگیا دعائے ندبہ پڑھتے ہوئے جب اس جملہ پر پہنچا ”عرجت بروجه الی سماءک “ تو اچانک دیکھا کہ ایک شخص میرے پہلو میں بیٹھاہے جب کہ میں نے تہہ خانہ کے دروازہ کومکمل طورپر بندکردیا تھا جب کہ میرے پہلو نشستہ شخص کی وجہ سے پورا تہہ خانہ منور ہوگیا تھا اور روز روشن کی طرح روشنی تھی۔انہوں نے فرمایا کہ یہ جملہ ”عرجت بروحه الی سماءک “ ہماری طرف سے نہیں ہے بلکہ” عرجت بہ“صحیح ہے اور پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر ”بروحہ“ یعنی اگر معراج روحانی تھا تو پھر براق کی کیا ضرورت تھی کیونکہ روح کو تو سواری کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ براق پرسوار ہو کر آسمان کی طرف جائے اس کے بعد میں متوجہ ہوا کہ میرے پاس کلام کرنے والے سرکار امام زمان علیہ السلام تھے۔

اور ساتھ ہی دعائے ندبہ کا یہ جملہ کہ ”واوطاته، مشارقک ومغاربک “ کہ تو نے اس کے قدم مشارق اور مغارب میں ٹھہرائے یہ جملہ بذات خود معراج جسمانی کی طرف واضح اشارہ ہے۔

اعتراض نمبر۵: مشارق اور مغارب کیاہے؟

جواب: مشارق اور مغارب سے مراد عوالم بالاہیں کہ شب معراج نبی اکرم ان کرہ ہائے آسمانی میں گئے بلکہ آپ نے کئی جہانوں کا سفر کیا اور مشارق اور مغارب کی ابتداءکی سیر کی۔

اعتراض نمبر۶: دعائے ندبہ کا جملہ ”واودعته، علم ماکان ومایکون الی انقضاءخلقک “ کہ ہم نے تمام ”ماکان ومایکون “ہرشی کا علم اسے دے دیا ”تاانقصاءمدت“ جب کہ ہر چیز کا علم اللہ کے لیے خاص ہے اور علم غیب مخصوص باخدا ہے؟

جواب: قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ”خدا تمہیں علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا مگر یہ ہے جن انبیاء علیہ السلام ورسل کو چاہتا ہے علم غیب عطا کردیتاہے “۔(آل عمران ۹۷۱)

اعتراض نمبر۷: دعائے ندبہ میں ”المودة فی القربیٰ‘ ‘ کی تفسیر آل محمد بشمول امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کی گئی ہے جبکہ آیت مبارکہ مودة ”( قل لااسئلکم علیه اجرًاالاالمودة فی القربیٰ ) “۔

سورئہ شوریٰ میں ہے اور سورہ شوریٰ مکی ہے اور اس وقت امام حسن علیہ السلام وامام حسین علیہ السلام نہیں تھے پس کیسے دعائے ندبہ میں ذی القربیٰ سے مراد آل محمدبشمول امام حسن علیہ السلام وامام حسین علیہ السلام لیا گیاہے؟

جواب: تمام مورخین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ سورئہ شوریٰ مکی ہے مگر اس کی آیت نمبر۳۲ تا۷۲ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔

اعتراض نمبر۸: دعائے ندبہ میں تحریر ہے کہ ”ابرضوی اوغیرہا ام ذی طویٰ “ جب کہ رضوی جو کہ مضافات میں ہے یہ جگہ فرقہ کیسانیہ کے لیے مخصوص ہے اور ان کے بقول محمد حنفیہ اس جگہ پڑہیے۔

جواب: محمد حنفیہ کوصرف چند دن عبداللہ بن زہیر کے حکم پر ناحیہ رضوی میں جلا وطن کر کے رکھا گیا تھا اورکوہ رضوی طویٰ فرقہ کیسانیہ کے ساتھ مربوط نہیں ہیں ۔بلکہ کوہ رضوی ایک جگہ (ینبوع) ایک بہت بڑی آبادی ہے کہ مدینہ سے سات مقامات کے فاصلہ پر ہے یہاں بہت بڑاکھجوروں کا باغ ہے بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام نے ایک مدت تک کوہ رضوی میں زندگی گزاری علی بن عیسیٰ جوہری جسے سرکار امام زمان علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی تھی نے منزل ذی طویٰ میں ایک بہت بڑے مکان میں زیارت کی ہے اور دستر امام علیہ السلام پر دو متضاد غذائیں دودھ اور مچھلی باہم دیکھی اور ان دونوں کے باہم کھانے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ کھاو یہ بہشت کی خوراک ہے۔وادی ذی طویٰ حجون کی بالائی طرف ہے قبرستان ابی طالب سے پہلے کہ جوبالائی سمت ہے اور تنعیم سے کچھ پہلے ہے اور اب شہر مکہ میں واقع ہے جوکوئی چاہے کہ مکہ کی نچلی طرف سے داخل مکہ ہو تو اس کے لیے مستحب ہے کہ ذی طویٰ میں غسل کرے اور پھر وارد شہر مکہ ہو۔(النہایة فی غریب الحدیث والاثرج۳ص۷۴۱)

اعتراض نمبر۹: دعائے ندبہ کو چار مخصوص ایام عید فطر، عید قربان، عید غدیر وجمعہ کوکیوں پڑھنا چاہیے؟۔

جواب: ہم چونکہ ان عیدوں کے موقع پر اپنے آقا ومولیٰ امام زمان علیہ السلام کی جگہ اور کرسی خالی دیکھتے ہیں جب کہ دنیا ظلم وجور سے پرہے تو ہم پکارتے اور کہتے ہیں کہ کاش ہمارے مولا و آقا کی حکومت ہوتی اور ہم ان عید کے دنوں میں اپنے آقا کی زیارت سے مشرف ہوتے اور آپ کو عید مبارک کہتے تو اسی بنا پر ہمیں چاہیے کہ فراق و جدائی اہلبیت علیہ السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام میں پکار و فریاد کریں اور اللہ رب العزت سے ان کی تعجیل ظہور کی دعا کریں ۔