موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25668
ڈاؤنلوڈ: 2685

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25668 / ڈاؤنلوڈ: 2685
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب اول

خاتم الاوصیاء

مقدمہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا اگرچہ تمام انسان اصل میں توحید کی فطرت رکھتے ہیں لیکن استعداد و صلاحیت کی بنا پر فرق رکھتے ہیں ۔

عظمت ولی العصر علیہ السلام

ایسے اعلیٰ ووالا انسان جو کہ اللہ کی مخلوق پر حجت ہیں ایک خاص فضیلت رکھتے ہیں ان با فضیلت شخصیات میں سے ایک سرکار امام زمان علیہ السلام ہیں جو کہ انسان کامل واکمل ہیں اور لامحدود عظمت کے مالک ہیں جوزمان علیہ السلامہ کی عزت وآبرو ہیں جن کی وجہ سے زمین کو امان ہے ہم اس باب میں سرکار کی شخصیت اور کمالات بارے اپنی قدرت مطابق گفتگو کریں گے۔

۱۔ کمالات ذاتی

امام زمان علیہ السلام سرکار علیہ السلام اللہ کے آخری نور روح عظیم کے مالک اور عالم علم لدنی ہیں پنج تن پاک علیہ السلام کے بعد ان کی شان سب سے اعلیٰ وبالا ہے روایت میں ہے کہ سرکار امام زمان علیہ السلام خلقت آدم وعالم سے پہلے ملائکہ کے استاد تھے اور انہیں اللہ کی تسبیح کی تعلیم دیتے تھے۔ سرکار امام زمان علیہ السلام نے بطن مادر میں اپنی پھوپھی کو سورئہ قدر پڑھ کر سنائی اور بعداز تلاوت اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہاتھ پر قرآن کریم کی یہ آیت ”( ونریدا ن نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلهم اءمةً ونجلعهم الوارثین ) “(قصص آیت ۵) پڑھ کر سنائی۔

۲۔ کمالات اکتسابی

سرکار امام زمان علیہ السلام کے کمالات اکتسابی کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

۱۔کمالات اکتسابی براہ راست

سرکار امام زمان علیہ السلام نے تمام اوصیاء علیہ السلام کے برابر عبادت اور راہ خدا میں خرچ کیا ہے اور آپ نے مخلوق کی مشکلات میں مدد کی ہے امام زمان علیہ السلام سرکار نے تقریباً ۱۱۵۰حج ادا کئے ہیں اور آپ علیہ السلام نے تقریباً ۷۰۰۰۰(سترہزار)بار زیارت امام حسین علیہ السلام اور ہر شب جمعہ اور روزہائے عید دیگر آئمہ علیہ السلام کے مزارات پر زیارات کے لئے گئے۔

۲۔ کمالات اکتسابی غیر مستقیم

وہ عبادات و درود فی سبیل اللہ خرچ نمازیں زیارات حج عمرے و دیگر کارہائے خیر جو مولا امام زمان علیہ السلام کے ماننے والے ان کی طرف سے انجام دیتے ہیں یہ مولا علیہ السلام کے لئے کمالات غیر مستقیم ہیں اور آنحضرت علیہ السلام کے کمالات میں ایک اور اضافہ ہیں ۔

۳۔ کمالات حاصل از صالحات باقیات

مولا امام زمان علیہ السلام نے چونکہ پوری دنیا پر حکومت عدل انصاف قائم کرنی ہے اور پوری دنیا سے شرانس و جن وشر شیاطین کونابود کرنا ہے اور دنیا کو قیامت تک راہ مستقیم پر گامزن کرنا ہے بنا برایں سرکار پوری دنیا کی نیکیوں کی جزا میں شریک ہیں جس کی وجہ سے آپ کے درجات اور زیادہ بلند ہوجاتے ہیں اسی بنا پر ہم ایک داستان جس سے عظمت سرکار امام زمان علیہ السلام واضح ہوتی ہے بیان کرتے ہیں ۔

محورکائنات

مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ آقائے شیخ وحید خراسانی مدظلہ نے حاجی شیخ محمد جو کہ مرحوم اخوند ملا کاظم خراسانی کے بیٹے تھے سے یہ واقعہ بذات خود سنا اور پھر انہوں نے میرے لیے نقل فرمایا۔ حاجی شیخ محمد فرماتے ہیں کہ میری اور سید احمد کی والدہ بیمار ہوگئیں ہم نے اپنے شہر نجف کے تمام ڈاکٹروں اور اطباءکو دکھایا ہر جگہ لے گئے لیکن بیماری سے افاقہ نہ ہوا اور انہوں نے لاعلاج قرار دے دیا ہمیں کسی نے بتایا کہ ایک عامل روحانی سید ہے جو کہ کبھی کبھی ضریح مقدس امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ دیکھاجاتا ہے اگر تمہیں نظر آئے تو اسے ملنا امید ہے وہ تمہاری مشکل حل کر دے گا ایک دن میں اور میرا بھائی زیارت کے لئے حرم گئے تو وہ سید ہمیں قبر امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ نظر آیا ہم اس کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم حاجت مند ہیں اس نے اشارہ سے کہا کہ حاجت بتانے کی ضرورت نہیں ہے اپنی حاجت دل میں رکھو میرے بھائی نے حاجت دل میں رکھی اس نے تسبیح کے سرے کو پکڑا اور کہا کہ بیماری ہے اور تمہارا مریض ایسا ہے کہ جس کا دنیا میں علاج نہیں ہے اور وہ مریض تین دن بعد فوت ہوجائے گا۔بس ہماری والدہ تین دن بعد فوت ہوگئی ہم سید کے اس جواب سے بہت حیران ہوئے تھے دوبارہ ہم نے ایک سوال دل میں رکھا وہ یہ تھا کہ ہمارے امام زمان علیہ السلام اس وقت کہاں ہیں ہم نے سید سے اپنی نیت بارے پوچھا کہ ہمارے سوال کا جواب کیا ہے جو سوال دل میں ہے اس نے حسب سابق تسبیح کے سرے کو پکڑا اور کہا کہ اب وہ مکہ میں ہیں پھر تھوڑی دیر بعد مدینہ میں اور پھر فوراً دمشق میں ہےں اور پھرانہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا کہ وہ ہے کہ سورج جس کے گرد چکر لگاتا ہے پھر کہا کہ پوری کائنات کا وہ محور ہے وہ محورعالم امکان ہے میں نے کہا کہ ہاں آپ نے ٹھیک فرمایا میری مراد نیت سرکار امام زمان علیہ السلام تھے جو کہ واقعاً محورعالم امکان ہیں ۔

حضرت امام مہدی (علیہ السلام) عدل قرآن ہیں

خداوند متعال کا قرآن میں ارشاد ہے کہ ”( لوانما فی الارض من شجرةٍ اقلام والبحرنمده من بعده سبعة ابحرٍا مانفدت کلمات اللّٰه ان اللّٰه عزیز حکیم ) “۔

(سورہ لقمان آیت ۷۲)

”جتنے زمین میں درخت ہیں قلم بن جایں دریااور سات اور دریا مل جائیں توبھی تمام کلمات خدا کا احاطہ نہیں ہوگا بے شک اللہ عزت والا اور حکیم ہے“۔

یحییٰ بن اکثم نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا کہ مراد ”کلمات اللہ“ کیا ہے تو مولا امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ ”نحن کلمات الله التی تدرک فضاءلنا ولا تستعصیٰ “ ہم ہی وہ کلمات خدا ہیں کہ ہمارے فضائل نہ ہی پورے کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتے ہیں “۔(بحارالانوار ج۱۱، ص۶۰۱)

ہم زیارت امام زمان علیہ السلام میں پڑھتے ہیں ۔ ”السلام علیک یا شریک القرآن“۔

چونکہ قرآن اور حضرت امام زمان علیہ السلام کے درمیان جو ہم آہنگی اور مشترکات ہیں ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ کریں گے ۔

۱۔ حدیث ثقلین میں پیامبر گرامی نے فرمایا کہ ”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی ما ان تمسکتم بھمالن تضلوا ابدا“۔”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میری اہل بیت علیہ السلام تاوقتیکہ کہ نے تم ان دونوں سے تمسک رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے“۔ قرآن اور اہلبیت علیہ السلام سے تمسک (یعنی ہرزمان علیہ السلامہ کے معصوم علیہ السلام کے ساتھ) گمراہی سے بچاتا ہے کیونکہ تمام آئمہ معصومین علیہ السلام قرآن ناطق ہیں ۔

۲۔ ”( مایعلم تاویله، الا اللّٰه والراسخون فی العلم ) “۔ (آل عمران آیت ۷)

”تاویل قرآن کو اللہ کے بعد اور ان کے جو علم میں راسخ اور ثابت قدم ہیں اور کوئی نہیں جانتا“۔

۳۔ زیارت جامعہ کبیر میں ہے کہ تراجمةً لوحیہ اہل بیت علیہ السلام اطہار قرآن کا ترجمہ ہیں ۔

۴۔ قرآن اندھیروں سے روشنی کی طرف نکلنے کا وسیلہ ہے اس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی وسیلہ نور ہیں قرآن میں ہے ”( یهدی اللّٰه لنوره من یشاء ) “۔ ( سورئہ نور ۵۳)

”خداوند اپنے نور کے وسیلہ سے جسے چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے“۔ اس آیہ مبارکہ میں نور سے مراد حضرت امام زمان علیہ السلام ہیں ۔مفاتیح الجنان میں امام زمان علیہ السلام بارے آیا ہے۔ ”وعَلَم النورِ فی طغیاءالدیجور “ سیاہ رات میں آپ پرچم نور ہیں ۔ اسی طرح آیا ہے کہ ”یانور اللّٰه الذی لایطفیٰ “ اے وہ نور خدا جو کہ کبھی نہیں بجھتا“۔ (مفاتیح الجنان زیارت صاحب الزمان)

۵۔ قرآن مجید میں ہر چیز کا بیان ہے ”( تبیاناً لکل شی ) “(سورہ نحل آیت۹۸) اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی ہر چیز کے عالم ہیں ۔

۶۔ جس طرح قرآن مومن کے جسم وجان کے لئے شفاءہے اسی طرح حضرت امام زمان علیہ السلام بھی مومن کے لئے شفاءہیں ۔

۷۔ قرآن کریم کے مطالب سے سوائے معصومین علیہ السلام کے کوئی کامل آگاہی حاصل نہیں کرسکتا اسی طرح سوائے معصومین علیہ السلام کے معرفت امام زمان علیہ السلام کوبھی کوئی مکمل نہیں حاصل کرسکتا۔مطہرین ہی اس کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ (سورہ واقعہ آیت ۹۷)

۸۔ قرآن اللہ کا زندہ جاوید معجز ہ ہے اور امام زمان علیہ السلام اللہ کی زندہ وباقی حجت ہیں ۔

۹۔ خداوند کریم قرآن کا محافظ ہے ”( انا نحن نزلنا الذکرواناله لحافظون ) “(سورہ حجرآیت۹) اسی طرح امام زمان علیہ السلام بھی محافظت خدا میں ہیں ۔ جیسا کہ ہم دعائے امام زمان علیہ السلام میں پڑھتے ہیں ”اللھم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیہ السلام.... ولیاً وحافظاً....الخ۔

حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی انبیاء علیہ السلام سے مشابہت

حضرت امام زمان علیہ السلام سرکار انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں ہم اختصار کے ساتھ ان انبیاء علیہ السلام سے ان کی شباہت کا ذکر کریں گے۔

الف) مشابہت باحضرت نوح (علیہ السلام)

حضرت نوح (علیہ السلام) شیخ الانبیاء علیہ السلام ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام شیخ الاوصیاء علیہ السلام ہیں بحارالانوار میں حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ۲۵۰۰سال لکھی گئی ہے جب کہ امام زمان علیہ السلام اب تک ایک ہزار سال سے زیادہ عمر گذار چکے ہیں طول عمر میں مشابہ نوح( علیہ السلام) ہیں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا ”( رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً ) “۔(سورئہ نوح علیہ السلام ۶۲)

”خدایا زمین پر کسی ایک کافر کو بھی باقی نہ رکھ“۔امام زمان علیہ السلام بھی زمین پر کسی ایک کافر کو باقی نہیں چھوڑیں گے حضرت نوح (علیہ السلام)نے ۹۵۰سال لوگوں کی طرف سے ملنے والی تکالیف وآزار برداشت کیئے امام زمان علیہ السلام بھی ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے دنیا پر ظلم وجور اور بے انصافیاں دیکھ رہے ہیں ”وہ جس نے کشتی حضرت نوح علیہ السلامکوچھوڑا ہلاک ہوا امام زمان علیہ السلام بھی کشتی نجات امت ہیں زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں ”من اتیٰکم نجیٰ ومن لم یاتکم هلک “(مفاتیح الجنان زیارت جامعہ) ہر وہ جو آپ کی طرف آگیا نجات پاگیا اور جو نہ آیا وہ ہلاک ہوگیا۔

ب) مشابہت باحضرت موسیٰ (علیہ السلام)

۱۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت مخفی تھی اسی طرح حضرت امام زمان علیہ السلام کی ولادت بھی عام لوگوں سے مخفی تھی۔

۲۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دوبار غیب ہوئے ایک بار مصر سے مدائن ہجرت کی جو۷۲ سال مہاجر رہے دوسری بار۰۴ رات کے لئے کوہ طور پر گئے ”( فتم میقات ربه اربعین لیلةً ) “ (سورئہ اعراف ۲۴۱)اسی طرح امام زمان علیہ السلام کی غیبت بھی دوبار ہے ۔غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ۔

۳۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ رب العزت نے کلام کیا اسی طرح حضرت امام زمان علیہ السلام سے بھی کلام کیا امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مہدی امت عطا فرمایا تو دوفرشتے بھیجے جوکہ مہدی علیہ السلام کو پردہ عرش پر لے جائیں وہ لے گئے اور اللہ نے میرے فرزند مہدی (علیہ السلام) سے خطاب کیا کہ خوش آمدید اے میرے برگزیدہ بندے میں نے تجھے اپنے دین کی نصرت کے لئے پیدا کیا ہے اپنی شریعت کے اظہار کے لئے پیدا کیا تومیرا ہدایت یافتہ بندہ ہے مجھے اپنی ذات کی قسم جو تیری اطاعت کرے گا اسے ثواب دوں گا اور جوتیری نافرمانی کرے گا اسے عذاب وعتاب دوں گا۔تیری شفاعت اور ہدایت کی وجہ سے میں اپنے بندوں کو بخش دوں گا تیری مخالفت کی وجہ سے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کروں گا۔

موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس یدبیضا تھا اسی طرح حضرت امام زمان علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا نور لوگوں کو سورج کی روشنی سے بے نیاز کردے گا۔

ج) مشابہت باعیسیٰ (علیہ السلام)

۱۔ عیسیٰ (علیہ السلام)مریم علیہ السلام کا بیٹا ہے جو کہ اپنےزمان علیہ السلامہ کی عورتوں کی سردار تھی حضرت امام زمان علیہ السلام فرزند زہراء علیہ السلام جو کہ سیدة نساءالعالمین علیہ السلام ہیں ۔

۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بوقت ولادت بات کی حضرت مہدی علیہ السلام نے شکم مادر میں سورئہ قدر کی تلاوت کی بوقت ولادت سجدہ کیا اور انگلی کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا ”( اشهد ان لااله الاالله وحدهُ لاشریک الله وان جدی رسول الله ان ابی امیرالمومنین وصی رسول الله ) “ اس کے بعد ایک ایک امام علیہ السلام کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ اپنے نام گرامی (مہدی علیہ السلام) تک پہنچے۔ (بحارالانور ج۱۵ صفحہ ۷۲)

د) مشابہت با محمد خاتم الانبیاء

۱۔ دونوں کا نام اور کنیت ایک ہے دونوں کے نام محمد ہیں اور کنیت ابوالقاسم ہے جناب رسالتماب نے فرمایا کہ میرا فرزند مہدی علیہ السلام”اشبه الناس بی خلقاً وخُلقاً “ (بحارالانوار ج۱۵، ص۲۷)

تمام لوگوں میں خُلق اور شکل وشباہت میں میرے مشاہبہ ہے۔

۲۔ جناب رسالتماب خاتم الانبیاء علیہ السلام ہیں اور سرکار امام زمان علیہ السلام خاتم الاوصیاء علیہ السلام ہیں ۔

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) وارث انبیاء علیہ السلام

میراث انبیاء علیہ السلام سے مراد ان کا چھوڑا ہوا مال وترکہ نہیں بلکہ وہ روحانی ترکہ ہے جو انبیاء علیہ السلام سے اوصیاء علیہ السلامکو ملتا ہے تمام انبیاء علیہ السلام کا روحانی ترکہ سرکار امام زمان علیہ السلام کو منتقل ہوا ہم اس بارے کچھ وضاحت کریں گے

۱۔ قمیض یوسف (علیہ السلام)

دو قمیضیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے وہ قمیض حضرت یوسف علیہ السلام کو دے دی جس کی طرف قرآن میں اشارہ ہے۔ ”( اذهبوا بقمیصی هٰذا فالقَوهُ علی وجه ابی یات بصیرا ) “۔ (سورئہ یوسف علیہ السلام۳۹)حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا بھائیوں سے کہ یہ میری قمیض لے جاو اور اسے میرے باپ کے چہرے پر لگاو اس کی بصارت لوٹ آئے گی۔

۲۔ عصائے موسیٰ (علیہ السلام)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا جو کہ آس کی لکڑی سے بنا ہوا تھا اور جبرائیل علیہ السلام اسے خاص طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کے لئے لائے تھے وہ حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دیا وہ ہمیشہ تازہ رہا اور رہے گا وہ امام زمان علیہ السلام کے پاس ہے۔

۳۔ سنگ موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پتھر

قرآن مجید میں اس پتھر کا ذکر ہے کہ ۲۱ پانی کے چشمے اس سے ابل پڑے تھے۔

۴۔ حضرت سلیمان(علیہ السلام) بن داود(علیہ السلام) کی انگوٹھی

۵۔ پرچم

وہ پرچم جو جبرئیل علیہ السلام جنگ بدر میں جناب رسالتماب کےلئے لائے تھے یہ پرچم جہاں بھی کھلتا وہاں فتح ہوتی جناب رسول اکرم نے جنگ بدر میں اس پرچم کو کھولا تو مسلمانوں کو فتح ونصرت نصیب ہوئی یہ پرچم جنگ جمل میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس تھا اور امیرنے کھولا اور پھر فرمایا کہ یہ پرچم اب دوبارہ کبھی نہیں کھلے گا صرف حضرت امام زمان علیہ السلام اسے کھولیں گے اور تمام کفار اور ظالموں پر فتح پائیں گے۔

۶۔ قمیض جناب رسالتماب

ایک قول کی بنا پر پیغمبراکرم کی ایک قمیض تھی جو حضورنے جنگ احد میں زیب تن کر رکھی تھی جب حضور جنگ احد میں زخمی ہوئے تو آپ کے دندان مبارک سے بہنے والا خون اس قمیض پر گرا ایک روایت میں ہے کہ جناب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے وہ قمیں اپنے ایک صحابی کو دکھائی تھی جو ان کے پاس بطور تبرک تھی جو سلسلہ وار سرکار امام زمان علیہ السلام تک پہنچی۔

۷۔ عمامہ جناب رسول اکرم( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم)

جناب رسول خدا کا عمامہ سفید رنگ کا تھا اور اس عمامہ کا نام سحاب تھا ۔

۸۔ جفر احمد ۹۔ جفر ابیض ۰۱۔جامعہ

یہ آخری تین حضور پاک سے میراث میں ملی ہیں ان کے علاوہ اور چیزیں بھی میراث میں آپ کے پاس ہیں جیسے مصحف فاطمہ علیہ السلامذوالفقار علی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی قمیض یہ سب تبرکات بطور میراث امام زمان علیہ السلام تک پہنچے ۔

حضرت امام زمان علیہ السلام (علیہ السلام) اور معجزات انبیاء علیہ السلام

محقق اردبیلی حدیقہ الشیعہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں مولا جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سات آدمی میرے فرزند مہدی علیہ السلام سے معجزہ طلب کریں گے۔

۱۔ ایک آدمی حضرت امام زمان علیہ السلام سے حضرت الیاس علیہ السلام نبی کا معجزہ طلب کرے گا، حضرت اس کے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائیں گے ”( ومن یتوکل علی اللّٰه فهوحسبه ) “(سورہ طلاق آیت۳) اس کے بعد آپ دریائے دجلہ کے پانی پر چلتے ہوئے دوسرے کنارے چلے جائیں گے تو وہ شخص کہے گا کہ یہ جادوگری ہے حضرت دریا کے پانی کو حکم دیں گے کہ اس شخص کو گرفتار کرے پانی اس شخص کو دبوچ لے گا وہ سات دن تک دریا میں زندہ جکڑا رہے گا اور کہتا رہے گا کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو امام زمان علیہ السلام کا انکار کرے۔

۲۔ ایک اصفہان کا رہنے والا حضرت سے معجزہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست کرے گا حضرت حکم دیں گے کہ بہت بڑی آگ جلائی جائے اور حضرت یہ آیت قرآن تلاوت فرمائیں گے”( فسبحان الذی بیده ملکوت کل شی والیه ترجعون ) “(سورہ یٰسین آیت ۳۸) اس کے بعد آگ میں داخل ہوجائیں گے آگ ان کے لئے ٹھنڈی ہوجائے گی جب کہ اس کے شعلے نکل رہے ہوں گے حضرت کو نہیں جلائے گی وہ شخص اس معجزہ کے بعد بھی منکر امامت رہے گا حضرت آگ کو حکم دیں گے کہ اسے جلادے آگ اسے جلادے گی۔

۳۔ فارس کا ایک شخص جب حضرت امام زمان علیہ السلام کے ہاتھ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا دیکھے گا تو آپ سے معجزہ کا تقاضا کرے گا تو حضرت یہ آیہ مبارکہ تلاوت فرمائیں گے ”فالقی عصا فاذا ہی ثعبان مبین “ (اعراف ۷۰۱)توعصا اژدھا بن جائے لیکن وہ شخص کہے گا کہ یہ جادو ہے امام زمان علیہ السلام کے حکم سے وہ اژدہا اس شخص کو نگل جائے گا اسطرح کہ اس شخص کا سر گردن اژدھا کے منہ سے باہر ہونگے ۔

۴۔ آذربائیجان کا ایک باشندہ ایک انسان کی ہڈی لے کر آئے گا اور امام زمان علیہ السلام سے کہے گا کہ اگر آپ امام علیہ السلام ہیں تو اس ہڈی سے بات کریں یہ ہڈی آپ سے بات کرے تو وہ ہڈی امام سے بات کرے گی کہ اے معصوم امام میں ایک ہزار سال سے عذاب میں مبتلا ہوں آپ علیہ السلام دعا فرمائیں کہ اللہ میرا یہ عذاب ختم کردے مگر پھر بھی وہ دشمن امام زمان علیہ السلام ایمان نہیں لائے گا تو آپ علیہ السلام حکم دیں گے کہ اس شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیاجائے تو وہ شخص ایک ہفتہ تک تختہ دار پر لٹکا رہے گا اور کہتا رہے گا کہ یہ منکر معجزہ کی سزا ہے۔

۵۔ عمان کا ایک باشندہ امام زمان علیہ السلام سے حضرت داود علیہ السلام کے معجزہ کی درخواست کرے گا آپ علیہ السلام لوہے کو ہاتھ میں لیں گے اور وہ نرم ہوجائے گا مگر پھر بھی وہ منکر امامت رہے گا تو حضرت اسی نرم لوہے کومنکر کی گردن میں لپیٹ دیں گے وہ شخص لوگوں میں دوڑتا پھرے گا اور کہے گا کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو منکر امام علیہ السلام ہو۔

۶۔ اھواز کا ایک شخص امام زمان علیہ السلام کے ہاتھ میں چھری دے گا اور کہے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس چھری سے اپنے بیٹے کو ذبح کرو تو حضرت اس چھری کو ستر بار اپنے بیٹے کی گردن پر چلائیں گے مگر وہ چھری کام نہیں کرے گی۔ پھر بھی وہ منکر معجزہ امام علیہ السلام رہے گا حضرت علیہ السلام اس چھری کو زمین میں ماریں گے تووہ چھری اس منکر کی گردن پر چل جائے گی وہ ذبح ہو کر روانہ جہنم ہوجائے گا

۷۔ ایک عربی امام زمان علیہ السلام سے رسول اکرم کا معجزہ طلب کرے گا سرکار امام زمان علیہ السلام شیر کو بلائیں گے شیر حضرت کے پاس آجائے گا اوراپنا سر،زمین پر رکھ دے گا اور امام کی حقانیت کی گواہی دے گا لیکن اس کے باوجود وہ شخص سرکار امام زمان علیہ السلام کی امامت کا منکر رہے گا شیر اس پر حملہ کر دے گا وہ عرب بھاگنے کی کوشش کرے گا لیکن شیر اسے ہلاک کردے گا۔