دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43141
ڈاؤنلوڈ: 2519


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43141 / ڈاؤنلوڈ: 2519
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

اورمالایکون جو چيز نہ ہو نے والی ہو یعنی معا شرے، تاریخ یا فطرت ،کا ئنات ميں سنت الہٰی ميں تغير وتبد ل کی دعاکرنا ۔

اورمالایحل حلال نہ ہوں ،یعنی انسانی حيات ميں الله کے نظام شریعت کی مخالفت کرنا ۔اس سلسلہ ميں خدا وند عالم فرماتا ہے :

(اِن تَستَْغفِْرلَْهُم سَبعِْينَْ مَرَّةً فَلَن یَّغفِْرَاللهُ لَهُم (١ “اگر ستر مر تبہ بهی استغفار کریں گے تو خدا انهيں بخشنے والا نہيں ہے ”

١١ ۔ گنا ہوں سے اجتناب

دعا مستجاب ہو نے کی ایک شرط گنا ہوں سے اجتناب اور ان کی طرف توجہ کرنا ہے ،بيشک دعاکا جو ہر اپنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنا ہے ،کيسے انسان الله کی معصيت کرنے کی تمرین کرتا ہے اس کے امر اور حکم سے رو گردانی کرتا ہے ،الله کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتا اور اپنے کو الله کی بارگاہ ميں کيسے پيش کرے ؟

محمد بن مسلم امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل کر تے ہيں :انّ العبد یسال اللّٰه تعالیٰ الحاجة ،فيکون من شانه قضاوهاالیٰ اجلٍ قریب،اوالیٰ وقت بطي ءٍ،فيذنب العبد ذنباً،فيقول اللّٰه تعالیٰ للملک :لاتقض حاجته،واحرمه ایّاها،فانّه تعرّض لسخطي واستوجب الحرمان منّي ( ٢)

“جب بند ہ الله سے اپنی حاجت طلب کرتا ہے توپر وردگار عالم کی شان یہ ہے کہ اس کی حاجت کو کچه مدت کے بعد پورا کر ے یا کچه تا خير سے پورا کرے تو بندہ گناہ کر نے لگتا ہے پروردگار عالم فرشتہ سے کہتا ہے :اس کی حاجت پوری نہ کرنا، اس کو محروم اور دور رکهنا وہ مجه سے سختی کے ساته پيش

____________________

١)سورئہ توبہ آیت/ ٨ ٠ ۔ )

٢)اصول کا فی جلد ٢صفحہ/ ۴۴٠ ۔ )

۱۲۱

آیالہٰذا وہ مجه سے محروم ہو نے کا سبب بنا” حضرت رسول خدا (ص) سے مروی ہے :مرّموسیٰ برجل وهوساجد،فانصرف من حاجته وهوساجد،فقال عليه السلام :لوکانت حاجتک بيدي لقضيتها لک،فاوحیٰ اللّٰه اليه،یاموسیٰ لوسجد حتی ینقطع عنقه ماقبلته مااستجبت له)حتیٰ یتحوّل عمّا اکره الیٰ مااحبّ ( ١)

“ایک مرتبہ مو سیٰ عليہ السلام ایک سجدہ کر نے والے کے پاس سے گزر ے ،وہ جب سجدہ ميں اپنی حاجت طلب کر کے اڻها تو جناب مو سیٰ نے فرمایا :تم اپنی حاجت مجه سے بيان کرو ميں پورا کرونگا ،الله نے وحی نازل کی اے مو سیٰ یہ بندہ اگر اتنے سجدے کرے کہ اسکی گردن بهی سجدہ کی حالت ميں کٹ جائے تو بهی اس کی دعا مستجاب نہيں ہو گی جب تک وہ اس ناپسند گناہ کو ترک نہ کرے”

١٢ ۔ اجتماعی طور پر دعا کرنا اور مومنين کا آمين کہنا

اسلامی روایات ميں مومنين کے ایک ساته جمع ہو کر دعا کرنے پر بہت زور دیا گيا ہے :

مومنين کے الله کی بار گاہ ميں ایک ساته جمع ہو نے پر الله نے ہميشہ ان پر رحمت نازل کی ہے۔ مو منين نے اجتماع نہيں کيا اور الله ان کے اس اجتماع سے را ضی نہيں ہوا مگر یہ کہ ان کا اجتماع الله کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہے اور ان پر الله کی رحمت اور فضل کی منا زل ميں سے ہے ۔

ابن خالد سے مروی ہے کہ امام جعفرصادق عليہ السلام نے فرما یا :مامِنْ رهط اربعين رجلاً اجتمعوا ودعوااللّٰه عزّوجلّ فی امرالّا استجاب لهم،فان لم یکونوااربعين فاربعة یدعون اللّٰه عزّوجلّ عشرمرّات الّااستجاب اللّٰه لهم فانّ لم یکونوااربعة فواحد یدعوااللّٰه اربعين مرّة،فيستجيب اللّٰه العزیزالجبّار لهم (١)

____________________

١)عد ةالداعی صفحہ / ١٢۵ ۔ )

۱۲۲

“ کوئی ایسا گروہ نہيں ہے کہ اگرچاليس آدمی جمع ہو کر الله سے دعا کریں تو خدا ان کی دعا قبول کرے گا اگر چاليس آدمی جمع نہ ہو سکيں تو چار آدمی جمع ہو کر دس مر تبہ دعا کریں تو خدا ان کی دعا مستجاب کرے گا ،اور اگر چارآدمی جمع نہ ہو سکيں تو ایک آدمی چاليس مرتبہ دعا کرے تو خداوند عزیز و جباراس کی دعا قبول کرے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مر وی ہے : (کان ابي اذا حزنه امر دعاالنساء والصبيان ثمّ دعا وامّنوا ( ٢)

“ميرے پدر بزرگوار جب محزون ہو تے تو مجهے اور عورتوں کو جمع کرتے پهر دعا کرتے اور ان سے آمين کہلواتے ”

١٣ ۔آزادانہ طورپر ،کسی تکلف کے بغير د عا

انسان کےلئے خدا وند عالم سے آزادانہ اور کسی تکلف کے بغير دعا کرناسب سے بہترین چيز ہے بيشک دعا کی حقيقت بهی یہی ہے کہ وہ الله سے سوال کرتے وقت گریہ و زاری کرے گڑگڑاکر دعا ما نگے کسی طرح کاکوئی تکلف نہ کرے روایات ميں وارد ہو نے والی دعا ئيں پڑهے اور دعا کرنے والا کسی طرح بهی دعا کر تے وقت اس حالت کو نہ چهو ڑے اس لئے کہ انسان الله سے گڑاگڑا گر دعا کر تے وقت اپنے نفس ميں اس چيز کا احساس کرتا ہے جس کا وہ روایات ميں وارد ہو نے والی دعا ؤں کو پڑهتے وقت احساس نہيں کر تے ہيں۔

اس لئے دعا کر تے وقت انسان کو اپنے نفس ميں اس حالت کا خيال رکهنا چاہئے کہ الله سے گڑاگڑا کر اور گریہ وزار ی کر کے دعا مانگنے ميں کسی تکلف سے کام نہ لے ۔کبهی کبهی ائمہ معصو مين

____________________

١)اصول کافی جلد ٢صفحہ / ۵٢۵ ۔ )

٢)اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴:١١۴۴ حدیث/ ٨٨۶٣ ۔ )

۱۲۳

دعا کرنے والے کوبے تکلف ہو کر دعا کرنے کی تلقين فرماتے تهے روایات ميں وارد ہو نے والی دعاؤں کے ذریعہ نہيں، اسلئے کہ کہيں ماثور ہ دعاؤں کے ذریعہ دل کی یہ بے تکلفی ختم نہ ہو جائے ۔

زرارہ سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا :

(علّمنی دعاءً فقال :انّ افضل الدعاء ماجریٰ علیٰ لسانک (١ “مجه کو دعا کی تعليم دیجئے۔

آپ نے فرمایا :سب سے افضل وہ دعا ہے جو تمہار ی زبان پرجاری ہو تی ہے”

١ ۴ ۔نفس کو دعا، حمد وثنا ئے الٰہی،استغفار اور صلوات پڑهنے کےلئے آمادہ کرنا

دعا یعنی خودکو الله کی بار گاہ ميں پيش کر نا اور خود کو اس کی بارگاہ ميں پيش کر نے کےلئے حضور نفس کا ہو نا ضروری ہے ۔حضور نفس کی ابتد ا ء حمد وثنا ئے الٰہی سے کرے ،اس کی نعمتوں اور فضل وکرم کا شکرادا کرے ،الله کے حضور ميں اپنے گناہوں سے استغفار کر ے ،رسول اور اہل بيت رسول پر صلوات بهيجے دعا کےلئے حضور نفس کے یہی طریقے ہيں اور انسان اپنے خدا کی بارگاہ ميں حاضر کر نے اور اس سے سوال کرنے کيلئے اپنے نفس کو آمادہ کرے ،اکثر دعاؤں کے مقدمہ ميں حمدوثنا ئے الٰہی ،شکر، استغفار اور محمد وآل محمد پر صلوات بهيجنا وارد ہو ا ہے ۔

عيص بن قاسم سے مرو ی ہے کہ ابو عبد الله عليہ السلام نے فرمایا : جب بهی تم ميں سے کوئی ایک خدا سے حا جت طلب کرنا چاہے تو اس کو سب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد وثنا کرنا چاہئے جب تم اپنی حاجتيں خدا سے طلب کرو تو الله کی تعریف و تمجيد کرو،اور اس کی حمد و ثنا کرتے ہو ئے اس طرح کہو : یااجود مَنْ اعطیٰ،ویاخيرمن سُئل ویاارحم مَنْ استُرحم،یااحد،

____________________

١)الامان من الاخطار لابن طاؤ س صفحہ ٣۔ )

۱۲۴

یاصمد،یامن لم یلدولم یولد،ولم یکن له کفوااحد،یامن لم یتخذصاحبةولاولداً یامن یفعل مایشاء،ویُحکم مایریدُویقضي مااُحب،یامن یحول بين المرء وقلبه،یامن هوبالمنظرالاعلیٰ،یامن ليس کمثله شيء یاسميع یابصير

اور الله عزوجل کے اسماء کی زیا دہ تکرار کرو چونکہ خدا کے اسماء بہت ہيں اور محمد آل محمد پر صلوات بهيجو اور کہواللَّهم اوسع عليّ من رزقک الحلا ل ما اکفّ به وجهي،واودي به عنيعن )امانتي،واصل به رحمي،ویکون عونا لي في الحج والعمرة اور یہ بهی نقل کيا ہے کہ :

انّ رجلاً دخل المسجد فصلّی رکعتين ثم سال اللّٰه عزّوجلّ وصلّی علی النبی ص)فقال رسول اللّٰه عجّل العبد ربه ،وجاء آخر فصلّیٰ رکعتين،ثم اثنیٰ علی اللّٰه عزّوجل،ّوصلّیٰ علیٰ النبي ص)،فقال رسول اللّٰه ص) سل تعط ( ١)

“ایک شخص مسجد ميں آیا اور اس نے دورکعت نماز پڑهنے کے بعد خدا سے اپنی حاجت طلب کی ،تو رسول الله (ص)نے فرمایا :اس نے اپنے رب کی عباد ت کرنے ميں جلد ی کی ہے :اور دوسرا شخص مسجد ميں آیا اس نے دورکعت نماز پڑهنے کے بعد خدا کی حمد وثنا کی ،نبی (ص)پر صلوات بهيجی تو رسول الله (ص) نے فرمایا :سوال کرو تا کہ تم کو عطا کيا جا ئے”

ابو کہمس نے حضرت امام جعفرصاد ق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :دخل رجل المسجد فابتدا قبل الثناء علی اللّٰه والصّلاة علی النبي فقال النبيعجّل العبد ربّه ثمّ دخل آخر فصلّیٰ،واثنیٰ علی اللّٰه عزّوجل،ّ

____________________

١)اصول کا فی جلد ٢صفحہ ۵٢۴ ۔وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١٢۶ حدیث/ ٨٧٨۶ ۔ )

۱۲۵

(فصلّیٰ علیٰ رسول اللّٰه ص)،فقال رسول اللّٰه سل تعطه ( ١)

“ایک شخص مسجد ميں داخل ہو ا تو اس نے الله کی حمد وثنا اور نبی پر صلوات بهيجنے سے پہلے نماز پڑهنا شروع کی تو رسول الله (ص) نے فرمایا: اس بند ے نے اپنے رب کی عبادت کرنے ميں جلد بازی سے کام ليا ہے ،پهر دوسرا شخص مسجد ميں داخل ہو ا اس نے نماز پڑهی اور خدا کی حمد وثنا کی اور رسول (ص)پر صلوات بهيجی تو رسول الله (ص) نے فرمایا :سوال کر تا کہ تجهکو عطا کيا جائے ”

صفوان جمال نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایا:

کلّ دعاء یُدعیٰ اللّٰه عزّوجلّ به محجوب عن السماء حتّی یصلیٰ علی محمّد وآل محمّد ( ٢)

“الله سے کی جانے والی دعا اس وقت تک آسمان کے پردوں سے اوپر نہيں جاتی جب تک محمد وآل محمد پر صلوات نہ بهيجی جائے ’ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

(لایزال الدعاء محجوباًعن السماء حتّی یصلیٰ علی محمّد وآل محمّد (٣ “جب تک محمد وآل محمد پر صلوات نہ بهيجی جائے دعاآسمان کے پردوںسے اوپر نہيں جاسکتی ہے”

١ ۵ ۔خداسے اس کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنا

بيشک الله تبارک و تعالی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ اس کے بند ے اس کو اس کے اسما ئے حسنیٰ کے ذریعہ پکاریں:

____________________

١)وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١٢٧ حدیث / ٨٧٨٨ ۔اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢۵ ۔ )

٢)اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢٨ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١٣۵ حدیث ٨٨٢۶ ۔ ) ١١٣٧ حدیث ٨٨ ٣٧ ۔ : ٣)مجالس مفيدصفحہ ۶ ٠ ، وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۲۶

(قُلِ ادْعُوْااللهَ اَوِادْعُوْاالرَّحْمٰنَ اَیَّامَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الاسْمَاءُ الْحُسْنٰی ( ١)

“آپ کہہ دیجئے کہ الله کہہ کر پکا رو یا رحمن کہہ کر پکا رو جس طرح بهی پکارو گے اس کے تمام نام بہترین ہيں ”

الله کے اسما ئے حسنیٰ ميں سے ہر ایک اسم اسکی رحمت اور فضل کے ابواب ميں سے ایک باب کی کنجی ہے ۔

شریعت اسلاميہ کی متعدد روایات ميں پرور دگار عالم کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنے پربہت زیادہ زوردیا گيا ہے ،اور متعدد روایات ميں وارد ہوا ہے جب مومن الله کو اس کے اسمائے حسنٰی کے ذریعہ دس مرتبہ پکار تا ہے تو الله اس کی آواز پر لبيک کہتا ہے ۔ امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : (من قال یااللّٰه عشرمرّات قيل له:لبيک ماحاجتک ( ٢)

“جس نے دس مرتبہ یا الله کہا تو اس کو ندا دی جا تی ہے بولو تمہار ی کيا حاجت ہے ؟”

ابو بصير نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : (من قال یااللّٰه عشرمرّات قيل له:لبيک ماحاجتک؟ ( ٣)

“جب بندہ سجد ے کی حالت ميں دس مرتبہ یاالله ،یارباہُ،یاسيد اہ ،کہتا ہے تو پر ورد گار اس کی دعا کو قبول کرتے ہوئے کہتا ہے : لبيک اے ميرے بندے بتا تير ی کيا حاجت ہے ؟”

عبد الله بن جعفر نے قرب الا سناد ميں مسعد ہ بن صدقہ سے نقل کيا ہے :

____________________

١)سورئہ اسرا ء آیت ١١٠ ۔ )

١١٣٠ ،حدیث/ ٨٧٩٨ ۔ / ٢)اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵۴١ ۔وسائل الشيعہ جلد ۴ )

٣)وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١٣١ ۔حدیث/ ٨٨٠٢ ۔ )

۱۲۷

قل عشرمرّات یااللّٰه یااللّٰه فانّه لم یقله احدٌ مِنْ المومنين قط الّاقال له الربّ تبارک وتعالیٰ:لبيک یاعبدي سل حاجتک ( ١)

“دس مرتبہ یاالله یا الله کہو ،جب بهی کو ئی مو من الله کو دس مرتبہ پکار تا ہے تو خداوند عالم اس سے کہتا ہے :لبيک مير ے بند ے بتا تير ی کيا حاجت ہے ؟” حضرت علی بن الحسين عليہ السلام سے مروی ہے : رسول خدا (ص)نے ایک شخص کو یاارحم الراحمين کہتے سناتوآپ نے اس شخص کا شانہ پکڑکر فرمایا:هٰذا ارحم الراحمين قد استقبلک بوجهه سل حاجتک ”یہ ارحم الراحمين ہے (جس نے مکمل طور پر تمہاری طرف توجہ کی ہے ”(٢

١ ۶ ۔اپنی حاجتيں الله کے سامنے پيش کرو

پروردگار عالم جانتا ہے کہ ہم کيا چاہتے ہيں اور ہمارا کيا ارادہ ہے، وہ ہمارے سوال سے بے نياز ہے ليکن خداوند عالم اپنی بارگاہ ميں ہماری حاجتيں پيش کرنے کوپسندکرتا ہے۔

کبهی کبهی کوئی بندہ ایسا ہوتا ہے جو اپنے کو خدا سے بے نياز سمجهتا ہے یہاں تک کہ نہ اس سے سوال کرتا ہے اور نہ ہی اس کی بارگاہ ميں ہاته بلند کرتا ہے۔

بيشک جب انسان خدا کے سامنے اپنی حاجتيں پيش کرتا ہے تو وہ بندہ اس سے قریب ہوتا ہے، اس سے لو لگاتا ہے،اس سے مانوس ہوتا ہے،وہ اپنے کو خدا کا محتاج ہو نے کا احساس کرتا ہے اور خداوند عالم ان تمام چيزوں کو دوست رکهتا ہے۔ جب ہم اپنے تمام امور ميں الله سے دعا کر تے ہيں تو خداوند عالم کو یہ اچها لگتا ہے کہ ہم اس

____________________

١)قرب الا سناد جلد ٢،وسائل الشيعہ جلد ۴:١١٣٢ ،حدیث/ ٨٨٠٩ ۔ )

١١٣٢ ،حدیث / ٨٨١۵ ۔ / ٢)محا سبة النفس : ١۴٨ ،وسا ئل الشيعہ جلد ۴ )

۱۲۸

سے تفصيل کے ساته دعا کریں اختصار کے ساته دعا نہ کریں ۔ حضرت امام جعفر صادق عليہ االسلام سے مروی ہے:

انّ اللّٰه تعالیٰ یعلم مایرید العبد اذا دعاه،ولکن یُحبّ ان یبث اليه الحوائج،فاذادعوت فسمّ حاجاتک ( ١)

“بيشک جب بندہ خداوند عالم سے دعا کرتا ہے تو خدا جانتا ہے کہ بندہ کيا چاہتا ہے ليکن وہ یہ چاہتا ہے کہ بند ہ اس کے سامنے نام بنام اپنی حاجتيں بيان کرے پس جب تم اس سے دعا کرو تو نام بنام اپنی حاجتيں بيان کرو”

١٧ ۔دعاميں اصرار

دعا ميں بہت زیادہ اصرار کرنے سے بندے کے خدا پر گہرے اعتماد اور خدا سے اپنی اميدیں رکهنے اور گہرے تعلقات کا پتہ چلتا ہے، انسان کا جتنازیادہ اللهپر اعتماد ہوگا اتنا ہی وہ دعا ميں اصرار کرے گا،اسکے برعکس جب انسان کا اللهپر کم اعتماد ہوتا ہے تو جب اسکی دعا قبول نہيں ہوتی تو وہ دعا کرنا چهوڑدیتا ہے اور مایوس ہوجاتا ہے۔

جس طرح دعا ميں اصرار کرنے سے اللهپر اعتماد اور اس سے گہرے تعلقات کا پتہ چلتا ہے اسی طرح دعا ميں اصرار کرنے سے اللهپر زیادہ اعتماد اور اس سے گہرا لگاؤ پيدا ہوجاتا ہے۔

جتنا انسان کا اللهپر اعتماد اور اس سے لگاؤ ہوگا اتنا ہی وہ الله سے قریب ہوگا۔ اسلامی روایات ميں متعدد مرتبہ دعا ميں اصرار کرنے اور کسی بهی حال ميں دعا کے مستجاب نہ ہونے سے مایوس نہ ہونے پر زور دیا گيا ہے۔ رسول الله (ص)سے مروی ہے :

____________________

١)اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢٠ ،وسائل الشيعہ جلد ۴،ص ١٠٩١ حدیث ٨۶۴٢ ۔ )

۱۲۹

(انّ اللّٰه یُحبّ الملحّينَ في الدعاء ( ١)

“خداوندعالم دعاميں بہت زیادہ اصرار کرنے والوں کو دوست رکهتا ہے” یہ بهی آپ ہی کا فرمان ہے کہ:

(انّ اللّٰه یُحبّ السائل اللحوح (٢ “خداوندعالم زیادہ اصرارکرنے والے سائل کودوست رکهتاہے ” امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے:

(الدعاء ترس المومن ومتیٰ تکثر قرع الباب یُفتح لک (٣ “دعا مومن کی سپر ہے اور جب بهی وہ بہت زیادہ دروازہ کهڻکهڻائے گا تو وہ کهل جائےگا”

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:الدعاء یردّ القضاء بعد مااُبرم ابراماً فاکثرمن الدعاء فانّه مفتاح کلّ رحمة ونجاح کلّ حاجة ولاینال ماعند الله عزّوجل ا لاّبالدعاء وانّه ليس باب یُکثرقرعه ا لا اوشک انْ یفتح لصاحبه ( ۴)

“محکم و مضبوط دعا سے قضا ڻل جا تی ہے، دعائےںبہت زیادہ کرو یہ ہر رحمت کی کنجی ہے۔ہر حاجت و ضرورت کی کاميابی کا سرچشمہ ہيں اور الله کے پاس جو کچه ہے وہ دعا کے علاوہ کسی اور چيز سے حاصل نہيں کيا جاسکتا ہے،اور جب بهی کسی دروازے کو زیادہ کهڻکهڻایا جاتا ہے تو وہ کهڻکهڻانے والے کےلئے کهل جاتا ہے”

____________________

١)بحار الانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔ )

٢)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٧۴ ۔ )

۴حدیث/ ٨۶١٢ ۔ / ٣)وسائل الشيعہ جلد ١٠٨۵ )

۴حدیث/ ٨۶١۶ ۔ / ۴)وسائل الشيعہ جلد ١٠٨۶ )

۱۳۰

حضرت امام محمد باقرعليہ السلام سے مروی ہے:انّ الله کره الحاح الناس بعضهم علیٰ بعض فی المسالة واحبَّ ذلک لنفسه (١)

“خداوندعالم بعض بندوںکوبعض دوسرے بندوں کے سامنے گڑگڑانے اور خوشامد کرنے کو ناپسند کرتا ہے اور اپنی بارگاہ ميں اصرار کرنے کو دوست رکهتا ہے”

حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے: (فالحح عليه في المسالة یفتح لک ابواب الرحمة (٢ “تم کسی مسئلہ ميں اس(الله)سے اصرار کرو تو وہ تمہارے لئے رحمت کے دروازے کهول دیگا”

وليد بن عقبہ ہجری سے مروی ہے ميں نے امام محمد باقر عليہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے:

(واللّٰه لایلحّ عبد مومن علیٰ اللّٰه فی حاجته الّاقضاها له (٣ “خدا کی قسم کوئی بندہ اپنی دعا ميں خدا سے خوشامدنہيں کرتا مگر یہ کہ خدا اسکی دعا مستجاب کرتا ہے”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل فرماتے ہيں:

رحم الله عبداً طلب من الله عزّ وجلّ حاجة فالحّ في الدعاء استجيب له او لم یستجب ثم تلا هذه الآ یة وَادعُْواْ رَبِّی عَس یٰ اَن لَااَکُونَْ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِيّاً “خداوند عالم رحم کرے اس بندے پر جو اپنی دعا ميں اصرار اور خوشامدکرتا ہے،اسکی دعا مستجاب کرے یا مستجاب نہ کرے پهر اس آیت کی تلاوت فرمائی :

____________________

١)بحارالانوارجلد ٩۴ ص ٣٧۴ ۔ )

٢)بحار الانوارجلد ٧٧ صفحہ/ ٢٠۵ ۔ )

٣)اصول کافی صفحہ/ ۵٢٠ ۔ )

۱۳۱

(وَادعُْواْرَبِّی عَس یٰ اَن لَااَکُونَْ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِيّاً ۔( ١)

“اور اپنے رب کو آواز دو نگا کہ اس طرح ميں اپنے پرور دگار کی عبادت سے محروم نہيں رہو نگا ”

حضرت امام باقر عليہ السلام سے مروی ہے:سل حاجتک والح في الطلب فانّ الله یحبّ إلحاح الملحّين من عباده المومنين ( ٢)

حضرت امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے کہ :سل حاجتک والحّ فی الطلب فإنّ الله یُحبّ إلحاح الملحّين من عباده المومنين ( ٣)

“خدا کی قسم کسی بندے نے الله سے دعا کرنے ميںخوشامدنہيں کی مگر یہ کہ خدا نے اسکی دعا مستجاب فرمائی”

١٨ ۔ایک دو سرے کے لئے دعا کرنا

اس سلسلہ ميں عنقریب اس کتاب کی آئندہ آنے والی بحث“ دعا کے سلسلہ ميں کو نسی چيزیں سزا وار ہيں اور کو نسی چيزیں سزا وار نہيں ہيں ”بيان کریں گے ،اب ہم یہاں پر صرف اتنی ہی بحث کریں گے جو دعا کے آداب اور اس کی شرطوں سے متعلق ہے ۔پس جب انسان الله سے دو سروں کےلئے دعا ما نگتا ہے اور اپنے اور اس دوست کے درميان سے کينہ و نفرت دور کر دیتا ہے تو خدا وند عالم اس کےلئے دروازہ کهول دیتا ہے ۔بيشک مو منين کا ایک دو سرے سے محبت ،عطوفت اور مہر بانی کرنا دعا کرنے

____________________

١)سورئہ مریم آیت/ ۴٨ ۔ )

٢)اصول کافی جلد ٢ص ۵٢٠ ۔ )

٣)قرب الاسنادص ۵٢٠ ۔ )

۱۳۲

والے اور جس کےلئے دعا کی جا رہی ہے اس کےلئے الله کی رحمت کی کنجيوں ميں سے ہے ۔

دعا کرنے والے کے سلسلہ ميں معا ویہ بن عمار نے اامام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

الدعاء لاخيک بظهرالغيب یسوق الی الد اعي الرزق ویصرف عنه البلاء ویقول الملک ولک مثل ذلک ( ١)

“تمہا ری نظروں سے پو شيدہ بهائی کےلئے تمہارے دعا کرنے سے تمہارے رزق ميں برکت ہو تی ہے ،دعا کرنے والے سے بلائيں دور ہو تی ہيں اور فرشتہ کہتا ہے : تمہا رے لئے بهی ایسا ہی ہے جو تم نے دو سروں کےلئے دعا کی ہے (یعنی خدا وند عالم تمہارے رزق ميں بهی برکت کر دے گا ” رسول الله (ص) سے مروی ہے :

(مَنْ دعا لمومن بظهرالغيب قال الملک فلک مثل ذلک (٢ “جو نظروں سے پو شيدہ مو من کےلئے دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے :تمہا رے لئے بهی ایسا ہی ہے ا س لئے کہ تم نے دو سرے کےلئے دعا کی ہے” امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

(دعاء المرء لاخيه بظهرالغيب یدرّ الرزق وید فع المکروه (٣ “انسان کا اپنے غائب مومن بها ئی کےلئے دعا کرنے سے اس کے رزق ميں برکت ہوتی ہے اور اس سے بلائيں دور ہو تی ہيں ” ابن خا لد قمّاط سے مروی ہے کہ حضرت امام باقر عليہ السلام نے فرمایا ہے :

اسرع الدعاء نجحاً للإجابة دعاء الاخ لاخيه بظهرالغيب یبدا بالدعاء

____________________

١)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ ٢٩٠ ،بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧ ۔ )

٢)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ ٢٩٠ ،بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۴ ۔ )

٣)اصول کا فی جلد ٢صفحہ ۴٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴:١١۴۵ ،حدیث ٨٨۶٧ ۔ )

۱۳۳

(لاخيه فيقول له ملک موکّل به آمين ولک مثلا ه ( ١)

“سب سے جلدی وہ دعا مستجاب ہو تی ہے جو کسی بها ئی کےلئے اس کی غير مو جود گی ميں کی جا تی ہے دعا کی ابتدا ميں پہلے دو سرے کےلئے دعا کرنا شروع کرو تو اس کا موکل فرشتہ آمين کہتا ہے اور تمہا رے لئے بهی ایسا ہی ہے ”

اور جس کےلئے دعا کی جا رہی ہے اس کے سلسلہ ميں روایت نقل کی گئی ہے کہ:

ادعني علیٰ لسان لم تعصني به قال:یارب،انّیٰ لی بذلک ؟قال:اُدعني علیٰ لسان غيرک ( ٢)

الله تعالیٰ نے مو سیٰ بن عمران سے کہا :مجهے اس زبان سے پکار وجس زبان سے تم نے گناہ نہ کئے ہوں ۔

موسیٰ بن عمران نے عرض کيا : پالنے والے کيا ميں ایسا کرسکتا ہوں؟ پروردگار نے فرمایا :مجه سے کسی دوسرے کےلئے دعا کرو”

١٩ ۔رحمت الٰہی نازل ہوتے وقت دعا

انسان پردعا کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوتی ہے : دعا کے سب سے بہترین اوقات وہ اوقات ہيں جن ميں رحمت نازل ہوتی ہے ،انسان الله کی رحمت سے قریب ہو جاتا ہے ۔

رحمت نازل ہو نے کے بہت زیادہ اوقات ہيں : قرآن کی تلاوت کرتے وقت ، اذان کے وقت ،بارش کے وقت ، جنگ کے دوران شہيد ہوتے وقت ۔

یہ آخری وقت سب سے افضل وقت ہے چونکہ اس ميں زمين والوں کےلئے الله کی رحمت کے

____________________

١)اصول کا فی صفحہ ۴٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴:١١۴۵ ،حدیث ٨٨۶٧ ۔ )

٢)بجارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣۴٢ ،عدةالداعی صفحہ/ ١٢٨ ۔ ) دروازے کهل جاتے ہيں ۔

۱۳۴

سکونی نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ حضرت اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمایا:

اغتنمواالدعاء عند اربع :عند قراء ة القرآن،وعندالاذان،وعند نزول الغيث،وعند التقاء الصفين للشهادة ( ١)

“ چار موقعوں پر دعا کر نا غنيمت شمار کرو :قرآن کی تلاوت کرتے وقت ،اذان کے وقت بارش ہو تے وقت اور جنگ کے دوران شہيد ہوتے وقت ” حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے :

اغتنمواالدعاء عند خمسة مواطن:عند قراء ة القرآن،وعند الاذان، وعند نزول الغيث،وعند التقاء الصفين للشهادة ،وعند دعوة المظلوم ،فإنّهاليس لهاحجاب دون العرش ( ٢)

“پانچ مقا مات پر دعا کرنا غنميت سمجهو : تلاوت قرآن کے وقت ،بار ش ہوتے وقت ، جنگ ميں شہادت کےلئے لڑتے وقت اور مظلوم کےلئے دعا کرتے وقت ان پانچو ں وقتوں ميں دعا کرنے ميں عرش الٰہی کے علاوہ کو ئی حجاب نہيں ہے ” حضرت امير المو منين عليہ السلام کا ہی فرمان ہے :

مَنْ قرا مائة آیة من القرآن،من ايّ القرآن شاء ثم قال:یاالله سبع مرات فلودعا علی الصخرة لقلعهاإنْ شاء الله ( ٣)

“اگر کوئی شخص کسی جگہ سے بهی قرآن کی سو آیات کی تلاوت کرنے کے بعد سو مرتبہ یا الله

____________________

١صول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢١ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١١۴ ،حدیث / ٨٧٣٩ ۔ (١ )

١١١۵ ،حدیث/ ٨٧۴٢ ۔ : ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

٣)ثواب الاعمال الصدوق صفحہ ۵٨ ۔ )

۱۳۵

کہے اور وہ پہاڑکےلئے دعا کرے تو پہاڑ بهی اپنی جگہ سے ہٹ جا ئے انشا ء الله ” امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

کان ا بی اذاطلب الحاجة طلبهاعند زوال الشمس،فاذا اراد ذلک قدّم شيئاًفتصدق به وشم شيئاًمن طيب،وراح الی المسجدودعا في حاجته بما شاء الله ( ١)

“ ميرے والد بزر گوار زوال کے وقت اپنی حاجت طلب کرتے تهے ،جب آپ حاجت طلب کرنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے صدقہ دیتے خوشبو لگاتے مسجد جاتے اور الله سے اپنی حاجتيں طلب فرماتے ”

٢٠ ۔آدهی رات کے وقت دعا

رات ميں تنہا ئی ميں اپنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنے کا عظيم اثر ہے ، الله کی رحمت انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہے ،انسان رات کے آخر ی حصہ ميں اپنے نفس کو خدا کی طرف متوجہ ہونے کے علاوہ اور کچه نہيں پاتا ، رات کے آخری حصہ ميں انسان خدا کی رحمت کا استقبال کرنے کےلئے آمادہ ہوجاتا ہے اور خدا وند عالم نے رات کے آخری حصہ ميں وہ رحمتيں اور بر کتيں قرار دی ہيں جو دن اور رات کے دوسرے حصوں ميں نہيں قرار دی ہيں ۔

اور اسلامی روایات ميں غور و فکر کرنے والے کےلئے اس ميں کو ئی شک کی گنجائش ہی نہيں ہے کہ تمام وقت برابر نہيں ہيں ۔اس کے علاوہ بهی بہت زیادہ اوقات ہيں جن ميں انسان پر الله کی رحمت کے دروازے کهلتے ہيں ، بہت سے اوقات ہيں جن ميں انسان پر الله کی رحمت نازل ہوتی ہے البتہ یہ اوقات بہت ہی افضل ہيں اور رات کے آخری حصہ ميں الله کی رحمت زیادہ نازل ہوتی ہے ۔

۱۳۶

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

یَااَیُّهَاالمُْزِّ مِّل قُمِ اللَّيلَْ اِلَّاقَلِيلْاً نِصفَْهُ اَوِنقُْص مِنهُْ قَلِيلْاً اَوزِْدعَْلَيهْ وَرَتِّلِ القُْرآْنَ تَرتِْيلْاًاِنَّاسَنُلقِْی عَلَيکَْ قَولْاًثَقِيلْاً اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيلِْ هِیَ اَشَدُّ وَطاًْوَّاَقوَْمُ قِيلْاً ( ١)

“اے ميرے چادر لپيڻنے والے رات کو اڻهو مگر ذرا کم آدهی رات یا اس سے بهی کچه کم کردو یا کچه زیادہ کرو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر با قا عدہ پڑهو ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگين حکم نا زل کرنے والے ہيں بيشک رات کا اڻهنا نفس کی پامالی کےلئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے ”

مفضل بن عمر ونے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “کان فيماناجیٰ الله به موسیٰ بن عمران انْ قال له:یابن عمران،کذّب مَنْ زعم انّه یحبني،فاذاجنّة الليل نام عنّي،اليس کل محبّ یحبّ خلوةحبيبه ؟هاانا یابن عمران مطّلع علیٰ احبائي،اذاجنّهم الليل حوّلت ابصارهم فی قلوبهم ومثلت عقوبتي بين اعينهم ،یخاطبوني عن المشاهدة،ویکلموني عن الحضور یابن عمران،هبّ لي من قلبک الخشوع،ومن بدنک الخضوع،ومن عينيک الدموع،وادعني فی الظلمات فانّک تجدني قریباًمجيباً( ٢)

“جب موسیٰ بن عمران نے الله سے منا جات کی تو الله نے فرمایا :اے موسیٰ جو شخص یہ گمان کرے کہ وہ مجه سے محبت کرتا ہے تو تم اس کی تکذیب کرو ، جب رات کی تاریکی چها جاتی ہے تو وہ سو جاتا ہے کيا ہر محبوب اپنے حبيب سے تنہائی ميں ملنا نہيں چاہتا ؟ آگاہ ہو جاو اے ابن عمران ميں اپنے دوستوں کو بخوبی جانتا ہوں جب رات کی تا ریکی چها جا تی ہے توميں ان کی آنکهوںکوان کے دلوں کی طرف پهير دیتا ہوں اپنی عقوبت کو ان کی نظروں ميں مجسم کر دیتا ہوںوہ دیکهنے کے بجا ئے مجه سے خطاب کر تے ہيں اور حاضر ہو نے کے بجا ئے مجه سے ڈرتے ہيں۔

اے ابن عمران تم اپنے دل سے خشوع ، اپنے بدن سے خضوع اور اپنی آنکهوں کے

____________________

١)سورئہ مزمل آیت / ١۔ ۶۔ )

١١۴٢۵ حدیث ٨٧٨١ ۔ : ٢)مجالس المفيد صفحہ ٢١۴ ، وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۳۷

آنسوؤں کو ميرے لئے ہبہ کردو اور تاریکيوں ميں مجهے پکارو پس تم مجهے اپنے سے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے ”

اس روایت ميں کئی باتيں غور طلب ہيں ليکن ہم بحث کے طولانی ہو جانے کی وجہ سے ان سے قطع نظر کرتے ہيں ۔شب اوليائے الٰہی کےلئے آتی ہے اور ان کو زند گا نی اور اس کی مصروفيات سے رو ک دیتی ہے گو یا شب انسان کو ان مصروفيات دنيا کے درميان سے جدا کر دیتی ہے جو اس کو خداوند عالم کی طرف متوجہ ہو نے سے روک دیتے ہيں اور یہ رات کی تنہا ئی کی فرصت ہو تی ہے جس ميں انسان کے سامنے ذات الٰہی کسی رکا وٹ کے بغير سا منے ہو تی ہے اور وہ اس خلوت ميں خدا وند عالم سے لو لگاتا ہے ۔

جو یہ گمان کر تاہے کہ وہ الله کو دوست رکهتا ہے ليکن جب رات چها جا تی ہو تو انسان جس کو دو ست رکهتا ہے اس کے حضور ميں مناجات اور تضرع کرنے کے بجا ئے سوجا ئے تو وہ شخص جهوڻا ہے کيا ہر حبيب اپنے محبوب کی خلوت کو پسند نہيں کرتا ؟

جب تا ریکی شب چها جا تی ہے اور ہم زندگی کے مشکلات سے فارغ ہو جا تے ہيں تو ہماری دن ميںپراکندہ ہو جانے والی قوت بصارت اور سما عت یکجا ہو جا تی ہے اور باہر سے اندر کی طرف چلی جا تی ہے دل ميں زند گی کی زحمت سے اس دل کے اندر چلی جا تی ہے جو انسانی زند گی ميں بصيرت و نور کا سرچشمہ ہے اس وقت ہما ری بکهری ہو ئی بصيرت اکڻهی ہو جا تی ہے اور باہر سے اندر کی طرف چلی جا تی ہے اور خداوند عالم اس وقت قلب انسا نی کےلئے بصيرت و نور کے دروازے کهول دیتا ہے اس جملہ “اذاجنّهم الليل حوَّلت ابصارهم فی قلوبهم ”کا یہی مطلب ہے اس وقت انسان خود کو خداوند عالم کی بارگاہ ميں حا ضر پاتا ہے اور غضب و رحمت الٰہی کو اپنے سا منے مجسم دیکهتا ہے تو جب وہ خداوند عالم سے مخا طب ہوتا ہے تو مشاہدہ اور حا ضری کی بنا پر مخا طب ہوتا ہے دور ی اور غير حا ضری کی بنا پر نہيں اور اس فقرہ “یخاطبوني عن المشا ہدة ”کا یہی مطلب ہے اور جب وہ خداوند عالم سے بات کرتا ہے تو خداوند عالم کو حا ضر سمجه کر بات کرتا ہے غائب سمجه کر بات نہيں کرتا ہے اور اس فقرہ “یکلمونی عن الحضور”کا یہی مطلب ہے ۔ اس کی نظروں ميں عقوبت اور عذاب الٰہی مجسم ہو جاتا ہے اور اس فقرہ “مثّلت عقوبتي بين اعينهم”کا یہی مطلب ہے حبيب کی مو جود گی کی انسيت نيز ان کی نظروں ميں مجسم عقوبت کا خوف نيند کا سکون چهين ليتا ہے اور بهلا وہ کيسے سو سکتا ہے جو خود کو رات کی خلوت ميں اپنے حبيب کے سامنے پا ئے ؟اور اس کوکيسے اونگه آ سکتی ہے جبکہ وہ اپنی نظروں ميں عذاب الٰہی کو مجسم دیکه رہا ہو؟

۱۳۸

یہ حالت یعنی قوت بصارت کے خارج سے اندرکی جا نب چلے جا نااور دن ميں پرا گندہ ہو نے کے بعد رات ميں اکڻها ہو جا نے کا فطری نتيجہ ہے ۔

حضرت اميرالمومنين عليہ السلام اپنے معروف خطبہ متقين ميں فرماتے ہيں :اَمَّااللَّيلُْ فَصَافُّونَْ اَقدَْامَهُم ،تَالِينَْ لِاَجزَْاءِ القُْرآْنِ یُرَتِّلُونَْهُا تَرتِْيلْاً، یُحَزِّنُونَْ بِهِ اَنفُْسَهُم وَیَستَْثِيرُْونَْ بِهِ دَوَاءَ دَائِهِمْفَاِذَا مَرُّواْبِ یَٰاةٍ فِيهَْا تَشوِْیقٌْ رَکَنُواْ اِلَيهَْاطَمَعاًوَتَطَلَّعَت نُفُوسُْهُم اِلَيهَْا شَوقْاً،وَظَنُّوا اَنَّهَا نُصُبُ اَعيُْنِهِمْوَاِذَامَرُّواْبِ یَٰاةٍ فِيهَْا تَخوِْیفٌْ اَصغَْواْاِلَيهَْامَسَامِعَ قُلُوبِْهِم وَظَنُّواْاَنَّ زَفِيرْجَهَنَّمَ وَشَهِيقَْهَافِی اُصُولِْ ذَٰاانِهِم، فَهُم حَانُونَْ عَل یٰ اَوسَْاطِهِم مُفتَْرِشُونَْ لِجِبَاهِهِم وَاَکُفِّهِم وَرُکَبِهِم وَاَطرَْافِ اَقدَْامِهِم یَطَلِّبُونَْ اِلیَ اللهِّٰ تَعَال یٰ فِی فَکَاکِ رِقَابِهِم وَاَمَّاالنَّهَارُفَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ اَبرَْارٌاَتقِْيَاء ( ١)

“رات ہو تی ہے تو اپنے پيروں پر کهڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ڻهہر ڻهہرکر تلا وت کرتے ہيں جس سے اپنے دلوں ميں غم و اندوہ تا زہ کرتے ہيں اور اپنے مرض کا چارہ ڈهونڈهتے ہيں جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس ميں جنت کی ترغيب دلا ئی گئی ہو ،تو اس کی طمع ميں اس طرف جهک پڑتے ہيں اور اس کے اشتياق ميں ان کے دل بے تا بانہ کهنچتے ہيں اور یہ خيال کرتے ہيں کہ وہ (پر کيف )منظر ان کی نظروں کے سا منے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی

نظر پڑتی ہے کہ جس ميں (جہنم )سے ڈرایا گيا ہو تو اس کی جا نب دل کے کانوں کو جهکا دیتے ہيں اور یہ گمان کرتے ہيں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چيخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وُہ (رکوع ) ميں اپنی کمریں جهکا ئے اور (سجدہ ميں اپنی پيشانياں ہتهيلياں گهڻنے اور پيروں کے کنا رے (انگوڻهے) زمين پر بچها ئے ہو ئے ہيں اور الله سے گلوئے خلا صی کے لئے التجا ئيں کرتے ہيں ۔دن ہو تا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نيکو کار اور پرہيز کار نظر آتے ہيں ”

۱۳۹

نہج البلاغہ ميں ہی حضرت امير المو منين عليہ السلام نوف بکا لی سے رات کی تعریف یوں بيان فر ما تے ہيں :یَانُوفْ اِنَّ دَاودع)قَامَ فِی مِثلِْ هٰذِالسَّاعَةِ مِنَ اللَّيلْ،فَقَالَ:اِنَّهَا سَاعَةٌ لَایَدعُْو فِيهَْا عَبدٌْ اِلَّااستُْجِيبَْ لَهُ ( ١)

“اے نوف بيشک داود عليہ السلام رات کے اس حصہ ميں عبادت کے لئے کهڑے ہو تے تهے ،پهر فرمایا :یہ وہ وقت ہے کہ جس ميں دعا کرنے والے کی دعا ضرور مستجاب ہو تی ہے ”

حضرت رسول الله (ص) سے مروی ہےاذاکان آخرالليل یقول الله عزّوجلّ:هل من داع فاُجيبه ؟وهل من سائل فاُعطيه سوله ؟وهل من مستغفرفاغفرله ؟ هل من تائب فاتوب عليه

“جب رات کا آخری حصہ آتا ہے تو الله عزوجل کہتا ہے: ہے کوئی دعا کر نے والا جس کی دعا قبول کی جا ئے ؟ہے کوئی سوال کرنے والا جس کواس کے سوال کا جواب دیا جائے ؟ہے کو ئی استغفار کرنے والا کہ اس کی بخشش کرو ں ؟ ہے کوئی تو بہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کرو ں ؟ ۔

____________________

١)نہج البلاغہ دو سری قسم صفحہ ١۶۵ ۔ )

۱۴۰