دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43874
ڈاؤنلوڈ: 2609


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43874 / ڈاؤنلوڈ: 2609
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

٢١ ۔دعا کے بعد ہاتهوں کو چہرے اور سرپر پهيرنا

امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :ماابرزعبد یده الی الله العزیزالجبارالااستحياالله عزّوجلّ ان یردّها صفراً،حتیٰ یجعل فيهامن فضل رحمته مایشاء،فاذا دعا احدکم فلایردّ یده حتّیٰ یمسح علیٰ وجهه وراسه ( ١)

“کو ئی بندہ اپنے ہاته خدائے عزیز و جبار کے سامنے نہيں پهيلا تا مگر یہ کہ خداوند عالم اس کو خالی ہاته واپس کرنے پر حيا محسوس کرتا ہے اور اپنے فضل و رحمت سے جو کچه چاہتا ہے اس کے ہاته پر رکه دیتا ہے لہٰذا تم ميں سے کو ئی دعا کرے اور اپنے ہاته ہڻائے تو وہ اپنے ہاتهوں کو چہرے پر مل لے ”

____________________

١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٣۴٢ ؛من لا یحضر ہ الفقيہ جلد ١ صفحہ ١٠٧ ؛بحارالانوار جلد ) ٩٣ صفحہ ٣٠٧ ۔

۱۴۱

موانع اوررکا وڻيں

کو نسی چيزیں دعا کے الله تک پہنچنے ميں مانع ہوتی ہيں ؟ اس بحث ميں ہم اس سوال کا جواب پيش کریں گے انشاءَ الله ۔

بيشک دعا کے بارے ميں جيسا کہ کہا گياہے کہ دعا وہ قرآن صاعد ہے جو الله کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے بالمقابل ہے ۔نازل ہونے والے قرآن ميں عبودیت ،بندہ کوصرف خود کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنے اور صرف اسی سے لولگا نے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن صاعد ميں اس دعوت پر لبيک کہی گئی ہے۔

ليکن یہاں پر کچه ایسے موانع ہيں جو دعاؤں کو الله کی بارگاہ ميں پہنچنے سے روک دیتے ہيں اور الله کی بارگاہ ميں ان دعاؤں کے پہنچنے سے روکنے والے اہم موانع گنا ہ اور معصيتں ہيں دعا ء کميل ميں واردہوا ہے :اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْیَ الذُّنُوبَْ الَّتِی تَحبِْسُ الدُّعَاءَ

“خدا یا ميرے ان تمام گنا ہوں کو بخش دے جو دعا ؤں کو قبول ہو نے سے روک دیتے ہيں ”

اور اسی دعا ء کميل ميں آیاہے :فَاسالُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَا یَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائِی سُوءُْ عَمَلِی “ميں تجه سے سوال کرتا ہوں تيری عزت کے واسطے سے کہ ميری بد عملی ميری دعا کو پہنچنے سے نہ روکے ”

ہم عنقریب ان موانع (رکاوڻوں )کی تحليل کریںگے انشاء الله :

۱۴۲

گناہ بارگاہ خدا کی راہ ميں ایک رکاوٹ

حيات انسان ميں گناہوں کے دواثر ہوتے ہيں :

١۔گناہ انسان اور خداوند عالم کے درميان حائل ہوجاتے ہيں ،انسان خدا سے منقطع ہوجاتا ہے اس کےلئے اپنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنے اور اس سے لولگا نے کا امکان ہی نہيں رہتا ،اور نہ ہی اس کےلئے دعا کرنا ممکن ہوتا ہے بيشک دعاکا مطلب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ ميں پيش کرنا ہے ۔ جب گناہ ،گناہ کرنے والے کو خدا تک پہنچا نے ميں مانع ہوجاتے ہيں تو اس کی دعا ميں بهی مانع ہوجاتے ہيں ۔

٢۔گناہ دعا کو الله تک پہنچنے سے روک دیتے ہيں ،چونکہ جب دعا الله تک پہنچتی ہے تو خدا اس کو مستجاب کرتا ہے ،یہ خدا کے شایان شان نہيں کہ جب کسی بند ے کی دعا اس تک پہنچے تو وہ عاجز ہو جائے یا بخل سے کام لے ،بيشک دعا کی عاجز ی یہ ہے کہ وہ خدا تک نہيں پہنچتی ہے :کبهی کبهی گنا ہ انسان کو دعا کرنے سے مقيد کردیتے ہيں اور کبهی کبهی دعا کو الله تک پہنچنے ميں مقيد کردیتے ہيں ۔

ہم ذیل ميں اس مطلب کی وضاحت کررہے ہيں :

اخذ اور عطا ميں دل کادوہرا کردار

بيشک قلب ایک طرف تو خدا وند عالم سے رابطہ کےلئے ضروری چيزیں اخذ کرتا ہے اور اس سے ملاقات کرتا ہے ،اور دوسری طرف ان چيزوں کو عطا کرتا ہے جيسے حملہ آور قلب جو خون کو پهينکنے واپس لا نے اور لوگوں کے درميان سے اکڻها کرنے کا کام دیتا ہے۔

جب دل ميں انسان کو ملا نے اور خدا وند عالم سے مر بوط کرنے کی صلا حيت ختم ہو جا ئے تو گویا اس نے اپنی ساری اہميت کهو دی اور اس کو کو ئی فائدہ نہيں ہوا جيسے وہ دل جو پوری طرح حملہ آور ہے۔

۱۴۳

دل اس لينے دینے ميں ایک طرف توخداوند عالم کی جانب سے ہدایت ،نو رانيت اور آگا ہی حاصل کرتاہے اور دو سری طرف انسان کو اس کی حرکات و گفتار اور مو قف عمل ميں یہ ہدایت اور نو رانيت عطا کرتے ہيں پہلی شق (الله سے ملاقات اور اخذ کرنا )کے سلسلہ ميں خداوندعالم فرماتاہے :

( وَقَالَ الَّذِینَْ کَفَرُواْلَولَْانُزِّلَ عَلَيهِْ القُْرآْنُ جُملَْةًوَاحِدَةً کَ لٰ ذِکَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُوادَکَ ( وَرَتَّلنَْاهُ تَرتِْيلْاً ) (١ “اور کافر یہ بهی کہتے ہيں کہ آخر اِن پر یہ قرآن ایک دفعہ کل کا کل کيوں نہيں نازل ہوگيا۔ہم اسی طرح تدریجا نازل کرتے ہيں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکيں اور ہم نے اسے ڻهہر ڻهہر کر نازل کيا ہے ” تو قرآن رسول کے قلب مبارک پرایک دم اور آہستہ آہستہ نا زل ہو تا تها اور دلوں کو تقویت بخشتا تها نيزیہ دل اس سے نو رانيت اور ہدایت حا صل کرتے تهے ۔ خداوندعالم کا ارشاد ہے :

( اَلله نَزَّلَ اَحسَْنَ الحَْدِیثِْ کِتَاباًمُتَشَابِهاً مَثَانِیَ تَقشَْعِرُّ مِنهُْ جُلُودُْ الَّذِینْ یَخشَْونَْ ( رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِ لٰی ذِکْرِاللهِّٰ ) ( ٢)

“الله نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل ميں نازل کيا ہے جس کی آیتيں آپس ميں ملتی

____________________

١)سورئہ فرقان آیت ٣٢ ۔ )

٢)سورئہ زمر آیت ٢٣ ۔ )

۱۴۴

جلتی ہيں اور بار بار دُہرائی گئی ہيں کہ ان سے خوف خدا رکهنے والوں کے رونگڻے کهڑے ہو جاتے ہيں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کےلئے نرم ہو جاتے ہيں”

قلوب، قرآن سے خشوع وخضوع اخذ کرتے ہيں ،نرم ہو جاتے ہيں خدا کی ہدایت اور اس نور کے ساته رابطہ پيدا کرتے ہيں جس کو خداوند عالم نے بندوں کی طرف بهيجا ہے کيونکہ قرآن خداوند عالم کی طرف سے ہدایت اور ایسا نور ہے جس کو خداوند عالم نے بندوں کی جانب بهيجا ہے نيز یہ قرآن خداوند عالم کا برہان اور مخلوق پر حجت ہے ۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے : (( یَاایُّهَاالنَّاسُ قَدجَْآءَ کُم بُرهَْانٌ مِن رَبِّکُم وَاَنزَْلنَْااِلَيکُْم نُورْاً مُبِينْاً ) ( ١)

“اے انسانو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور بهی نازل کردیا ہے ”

یہ نور اور ہدایت مو منين اور متقين لوگوں کے دلو ں سے مخصوص ہے وہ اس نور کو اخذ کرتے ہيں اور اس سے متاثر ہوتے ہيں :

(( هَذَابَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدیً وَمَوعِْظَةًلِلمُْتَّقِينَْ ) ( ٢)

“یہ عام انسانوں کےلئے ایک بيان حقائق ہے اور صاحبان تقویٰ کےلئے ہدایت اور نصيحت ہے’

(( هٰذَابَصَائِرُمِن رَبِّکُم وَهُدیً وَرَحمَْةٌلِقَومٍْ یُومِْنُونَْ ) ( ٣)

“یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل ہدایت اور صاحبان ایمان کےلئے رحمت کی حيثيت رکهتاہے ”

____________________

(١) نساء آیت/ ١٧۴ )

٢)سورئہ آ ل عمران آیت/ ١٣٨ ۔ )

٣)سورئہ اعراف آیت/ ٢٠٣ ۔ )

۱۴۵

دل کےلئے یہ پہلا دور ہے جو الله سے ہدایت ،نور ،بصيرت اور بر ہان حاصل کرتے ہيں اور جو کچه الله نے اپنے بندوں کےلئے نور اور ہدایت نازل کيا ہے ان سے مخصوص ہوتا ہے ۔

دلوں کےلئے دوسرامرحلہ تو سعہ اور عطا

اس مرحلہ ميں قلوب ایسے نور اور ہدایت کو پهيلاتے ہيں جو ان کو خداوند عالم کی جا نب سے ملا ہوتا ہے اوریہ قلوب انسان کی حر کت ،گفتار ،مو قف ،روابط اور اقدامات کو نور عطا کرتے ہيں اس وقت انسان نو رالٰہی اور ہدایت الٰہی کے ذریعہ آگے بڑهتا ہے نور خدا اور ہدایت خدا سے تکلم کرتا ہے نور خدا اور ہدایت کے ذریعہ اپنامو قف معين کرکے لوگوں کے درميان چلتا ہے ۔

(( اَوَمَن کَانَ مَيتْاً فَاحيَْينَْاهُ وَجَعَلنَْا لَهُ نُورْاً یَمشِْی بِهِ فِی النَّاسِ ) ( ١)

“کيا جو شخص مُردہ تها پهر ہم نے اسے زندہ کيااور اس کےلئے ایک نور قرار دیاجس کے سہارے وہ لوگوں کے درميان چلتا ہے ”

( یَااَیُّهَاالَّذِ ینَْ آمَنُوااتَّقُوااللهَ وَآمِنُواْبِرَسُولِْهِ یُوتِْکُم کِفلَْينِْ مِن رَحمَْتِهِ وَیَجعَْل لَکُم ( نُورْاً تَمشُْونَْ بِهِ وَیَغفِْرلَْکُم وَاللهُ غَفُورٌْرَّحِيمٌْ ) ( ٢)

“ایمان والو الله سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمهيں اپنی رحمت کے دہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی ميں چل سکو اور تمهيں بخش دے اور الله بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ”

یہ نور جس کے ذریعہ مومنين کا ایک دوسرے سے رابط برقرار رہتا ہے ،اس کے ذریعہ سے وہ لوگوں کی صفوں ميں گهوما کرتے ہيں ،ان کی سياست ،یاتجارت یاحيات انسانی کے دوسرے تمام

____________________

١)سورئہ انعام آیت/ ١٢٢ ۔ )

٢)سورئہ حدیدآیت/ ٢٨ ۔ )

۱۴۶

کا موں ميں لگے رہتے ہيں یہ خداوندعالم کا وہ نور ہے جس کو الله نے اپنے بندوں کےلئے بهيجا ہے :

(( وَمَن لم یَجعَْلِ اللهُ لَهُ نُورْاً فَمَالَهُ مِن نُورٍْ ) (١ “اور جس کےلئے خدا نور قرار نہ دے اس کے لئے کو ئی نور نہيں ہے ” یہ وہ نور ہے جو الله کی طرف سے قلب ميں ودیعت کيا جاتا ہے پهر اس کے ذریعہ دل، انسان کی بينائی ،سماعت اور اس کے اعضا وجوارح کی طرف متوجہ ہو تا ہے ۔

اس اخذ اور عطا ميں دل کا کردار درميانی ہوتاہے نور الله کی طرف سے آتا ہے اور اس کے ذریعہ انسان اپنا راستہ ،اپنی تحریک ،کلام اور موقف اختيار کرتا ہے ۔ یہ دل کے صحيح و سالم ہو نے کی علا مت ہے اور وہ قرآن کو صحيح طریقہ سے اخذ کرتا ہے ،اور اسکو عطا کرتا ہے جس طرح سرسبز زمين نور ،ہوا اور پانی کو اخذ کر تی ہے اور طيب و طا ہر پهل دیتی ہے۔

حضرت امرالمومنين عليہ السلام قرآن کی صفت کے سلسلہ ميں فرماتے ہيں:( کتاب الله تبصرون به وتنطقون به وتسمعون به )

“یہ الله کی کتاب ہے جس کے ذریعہ تمهيں سجها ئی دیتا ہے اور تمہاری زبان ميں گو یا ئی آتی ہے اور (حق کی آواز )سنتے ہو ” جب دل صحيح وسالم نہ ہو تو اس ميں الله سے لولگانے کی خاصيت مفقود ہو جاتی ہے اور وہ الله کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کا استقبال کرنے پر متمکن نہيں ہو تا۔

جب دل ميں الله کی طرف سے نازل ہو نے والے قرآن کا استقبال کر نے کی قدرت نہ ہو گی تو وہ نماز اور دعا کے ذریعہ قرآن صاعد کو الله تک پہنچا نے پر قادر نہيں ہو سکے گا ۔

____________________

١)سورئہ نورآیت/ ۴٠ ۔ )

۱۴۷

اس حالت کو انغلاق قلب(دل کا بند ہوجانا) کہا جاتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے: (( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُوْنَ ) ( ١)

“یہ سب بہرے ،گونگے ،اور اندهے ہو گئے ہيں اور اب پلٹ کر آنے والے نہيں ہيں ”

بہرااور اندها نور کا استقبال کرنے کی استطاعت نہيں رکهتا ہے اسی طرح جو بولنے کی طاقت نہ رکهتا ہو اس کو فطری طور پر گو نگا کہاجاتا ہے ۔

پروردگار عالم بنی اسرائيل سے فرماتا ہے :

(( ثُمَّ قَسَت قُلُو بُکُم مِن بَعدِْ لٰذِکَ فَهِیَ کَالحِْجَارَةِاَواَْشَدُّ قَسوَْةً ) (٢ “پهر تمہارے دل سخت ہو گئے جيسے پتهر یا اس سے بهی کچه زیادہ سخت ”

بيشک پتهر، نور ،ہو ااور پانی کا استقبال کرنے پر متمکن نہيں ہوتا ہے اور نور ،ہو ااور پانی ميں سے جو کچه بهی اس پر گرتا ہے اس کو واپس کردیتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ وہ ثمر دینے کی استطاعت نہيں رکهتا ہے ،بلکہ ثمر تو وہ زمين دیتی ہے جس ميں نور ،ہوا اور پانی جذب کرنے کی صلاحيت ہوتی ہے اسی طرح جب دل صحيح وسالم نہيں ہوتا تو وہ نور کا استقبال نہيں کرتا اور نہ ہی نور سے استفادہ کرپاتا ہے اسی کومکمل انغلاق کی حالت کہاجاتا ہے اور وہ حالت (دل کا مرجانا )جس ميں دل ہر طرح کی حياتی چيز سے بے بہر ہ ہوجاتا ہے یعنی زندہ دل کی طرح اس ميں کسی چيز کو لينے یادینے کی طاقت باقی نہيں رہ جاتی اور جس دل ميں یہ خاصيت نہ پائی جاتی ہو وہ زندگی کا ہی خاتمہ کردیتا ہے۔ خداوندعالم دل کے مردہ ہو جانے کے متعلق فرماتا ہے :

____________________

١)سورئہ بقرہ ١٨ ۔ )

٢)سورئہ بقرہ ٧۴ ۔ )

۱۴۸

(( اِنَّ اللهَ یُسمِْعُ مَن یَّشَاءُ وَمَااَنتَْ بِمُسمِْعٍ مَن فِی القُبُورْ ) (١ “الله جس کو چا ہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انهيں نہيںسنا سکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہيں ”

(اور یہ فرمان خدا :( اِنَّکَ لاَتُسمِْعُ المَْو تْٰ ی وَلاتُسمِْعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ ) (٢ “آپ مُردوں کواور بہروں کو اپنی آواز نہيں سنا سکتے ہيں اگر وہ منه پهير کر بهاگ کهڑے ہوں ”

خدا وند عالم یہ فر ما تا ہے : (( وَسَوَائٌعَلَيهِْم انذَْرتَْهُم اَم لَم تُنذِْرهُْم لاَیُومِْنُونَْ ) (٣ “اور ان کےلئے سب برابر ہے آپ انهيں ڈرائيں یا نہ ڈرائيں یہ ایمان لانے والے نہيں ہيں ”

آوازاور انداز ميں کوئی عجزو کمی نہيں ہے بلکہ یہ ميت کی کمی اور عاجزی ہے کہ وہ کسی چيز کو سننے کی قابليت نہيں رکهتی ہے ۔ دل کی اسی حالت کواس (دل) کا مرجانا ،بند ہو جانا اور الله سے منقطع ہو جا نا کہا جاتا ہے ۔

اس قطع تعلق اوردل کے بند ہوجانے کی کيا وجہ ہے ؟

دلوں کے منجمد ہونے کے اسباب

اسلامی روایات ميں دلو ں کے منغلق ہو نے اور ان کے الله سے منقطع ہو جانے کے دواہم اسباب پر زور دیا گيا ہے :

____________________

١)سورئہ فاطرآیت/ ٢٢ ۔ )

٢)سورئہ نمل آیت / ٨٠ ۔ )

٣)سورئہ یس آیت/ ١٠ ۔ )

۱۴۹

١۔الله کی آیات سے اعراض روگردانی اور ان کی تکذیب ۔

٢۔گناہوں اور معصتيوں کا ارتکاب۔

خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے :

(( وَالَّذِینَْ کَذَّبُواْبِآیَاتِنَاصُمٌّ وَبُکمٌْ فِی الظُّلُ مٰاتِ ) ( ١)

“اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ بہرے گونگے تاریکيوں ميں پڑے ہوئے ہيں ”

اس آیہ کریمہ ميں الله کی آیات کی تکذیب، لوگوں کی زند گی ميں تاریکيو ںکے بس جانے اور ان کے گونگے ہوجانے کا سبب ہے ۔ خدا وند عالم فرماتا ہے:

(( وَاِذَاتُت لْٰی عَلَيهِْ آیَاتُنَا وَلیّٰ مُستَْکبِْراً کَان لَّم یَسمَْعهَْاکَانَّ فِی اُذُنَيهِْ وَقرْاً ) ( ٢)

“اور جب اس کے سامنے آیاتِ الٰہيہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو اکڑکر منه پهير ليتا ہے جيسے اس نے کچه سنا ہی نہيں ہے اور جيسے اس کے کان ميں بہرا پن ہے ”

ہم اس آیہ کریمہ ميں الله کی آیات سے رو گردانی ان سے استکبار کے درميان ایک متبادل تعلق کامشاہدہ کرتے ہيں۔

اسی پہلے سبب کو اعراض و روگردانی کہا جاتا ہے ۔

اور دوسرے سبب(گناہ )کے سلسلہ ميں خداوند عالم فرماتا ہے :

____________________

١)سورئہ انعام آیت / ٣٩ ۔ )

٢)سورئہ لقمان آیت / ٧۔ )

۱۵۰

(( کَلاَّبَل رَانَ عَ لٰی قُلُوبِْهِم مَّاکَانُواْیَکسِْبُونَْ ) ( ١)

“نہيں نہيں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گيا ہے” آیہ کریمہ ميں صاف طور پر یہ واضح کردیا گيا ہے کہ جن گناہوں کو انسان کسب کرتا ہے وہ دل کو زنگ آلود کردیتے ہيں جن کی وجہ سے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور وہ الله سے منقطع ہو جاتا ہے۔

گناہوں سے دلوں کااُلٹ جانا

انسان جب بار بار گناہ کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل خدا سے منقطع ہو جاتا ہے اور جب دل خدا سے منقطع ہو جاتا ہے تو وہ برعکس (پلٹ جانا )ہوجاتا ہے گو یا او پر کا حصہ نيچے اور نيچے کا حصہ اوپر ہوجاتا ہے اور اس کے تمام خصو صيات ختم ہو جاتے ہيں ۔

امام جعفرصادق عليہ السلام سے مرو ی ہے :

کان ابي یقول:مامن شيٴ افسد للقلب من خطيئته،انّ القلب ليواقع الخطيئة،فلاتزال به حتّیٰ تغلب عليه،فيصيراعلاه اسفله ( ٢)

“ميرے والد بزرگوار کا فرمایا کرتے تهے : انسان کی خطا و غلطی کے علاوہ کوئی چيز انسان کے دل کو خراب نہيں کرسکتی ،بيشک اگر دل خطا کر جائے تو وہ اس پر ہميشہ کےلئے غالب آجاتی ہے یہاں تک کہ دل کا او پر والا حصہ نيچے اور نيچے کا حصہ او پر آجاتا ہے ”

اور یہ بهی امام جعفرصادق عليہ السلام کا فرمان ہے :

اذااذنب الرجل خرج في قلبه نکتة سوداء،فان تاب انمحت،وان زاد زادت ،حتّیٰ تغلب علیٰ قلبه،فلایفلح بعدهاابداً (٣)

____________________

١)سورئہ مطففين آیت/ ١۴ ۔ )

٢)بحا ر الانوار جلد ٧٣ صفحہ/ ۴١٢ ۔ )

٣)بحار الا نوارجلد ٧٣ صفحہ ٣٢٧ ۔ )

۱۵۱

“ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل ميں ایک سياہ نقطہ پيدا ہو جاتا ہے اگروہ تو بہ کرليتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے ، اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بهی بڑ هتا جاتا ہے یہاں تک کہ پور ے دل پر غالب آجاتا ہے اور پهر کبهی وہ اس (دل )پر کا ميابی نہيں پا سکتا ہے ”

۱۵۲

گناہوں کے ذریعہ انسان کے دل سے حلاوت ذکر کا خاتمہ

الله کے ذکر کےلئے مومنوں کے دلوں ميں حلاوت پانی جاتی ہے ، اس حلاوت و شيرینی سے بلند تر کو ئی حلاوت نہيں ہے ، ليکن جب انسان خداوند عالم سے روگردانی کر ليتا ہے تو وہ حلاوت بهی ختم ہو جاتی ہے اور اس کا حلاوت ذکر کا ذائقہ چکهنے والوں ميں شمار نہيں کيا جاتا ہے جيسے بيمار انسان جو اپنی تند رستی کهو بيڻهتا ہے تو اس کی قوت ذائقہ بهی مفقود ہوجاتی ہے نہ یہ کہ کها نے والی چيزوں کا ذائقہ ختم ہوجاتا ہے ، بلکہ مریض کی قوت ذائقہ مفقود ہو جاتی ہے اسی طرح جب دل خدا سے پهر جاتے ہيں تو ان سے الله کے ذکر کی حلاوت ختم ہو جاتی ہے اور ان کی نظر ميں الله کے ذکر کی کوئی حلاوت وجاذبيت نہيں رہ جاتی ہے جيسے وہ بيمار جو اپنی سلا متی و صحت و تندرستی سے محروم ہو جاتا ہے جس کے نتيجہ ميںوہ لذیذ چيزوں کی لذت کهو بيڻهتا ہے اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ لذیذ چيزوں ميں لذت نہيں رہی ہے بلکہ انسان کو ان کی اشتہا و خواہش نہيں رہی ہے اسی طرح جب قلوب اپنا اعتدال کهو بيڻهتے ہيں تو ان کے درميان سے خداوند عالم کی یاد کی شيرینی کا ذائقہ ختم ہو جاتا ہے اور خداوند عالم کی یاد اور تذکرہ کےلئے ان ميں کو ئی حلاوت وجذابيت باقی نہيں رہ جا تی ہے ۔

حدیث ميں آیا ہے :

اِنَّ اللهَّٰ اَوحْ یٰ اِل یٰ دَاود اَن اَدن یٰ مَاانَا صَانعٌ بِعبدٍ غَيرَْعَامِلٍ بِعِلمِْهِ مِن سَبعِْينَْ عَقُوبَْة بَاطِنِيَّةٍ ان اَنزْع مِن قَلبِْهِ حَلَاوَةَ ذِکرِْي (١)

____________________

١)دار السلام مو لف شيخ نوری جلد ٣ صفحہ ٢٠٠ ۔ )

۱۵۳

“خداوند عالم نے جناب داؤد کو وحی کی کہ اپنے علم پر عمل نہ کرنے والے بندہ کو ستر باطنی سزاؤں ميں سے سب سے کم سزا یہ دیتاہوںکہ ميں اس کے دل سے اپنے ذکر کی حلاوت ختم کردیتاہوں ”

ایک شخص نے حضرت امير المو منين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کيا :

یااميرالمومنين،إني قدحرمت الصلاة بالليل فقال عليه السلام :انت رجل قد قيدتک ذنوبک ( ١)

“اے امير المو منين ایسا لگتا ہے کہ جيسے نماز شب مجه پر حرام ہو گئی ہے ”

آپ نے فرمایا :تو ایسا شخص ہے کہ تيرے گناہوں نے تجه کو اپنی گرفت ميں لے ليا ہے ”

حضر ت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ الرجل یذنب الذنب،فيحرم صلاة الليل،وانّ العمل السيّیٴ اسرع في صاحبه من السکين في اللحم ( ٢)

“جب انسان گناہو ں پر گناہ کئے چلاجاتا ہے تو اس پر نماز شب حرام ہوجاتی ہے اور براعمل انسان کے اندر گوشت ميں چهری سے کہيں زیادہ تيز اثر کرتا ہے ”

دعاؤں کو روک دینے والے گناہ

براہ راست گناہوں کے انجام دینے سے انسان کا دل الله سے منقطع ہوجاتاہے اور جب انسان کا دل الله سے منقطع ہو جاتاہے تو نہ اس ميں کسی چيز کو اخذ کرنے کی صلاحيت باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس کو کوئی چيز عطا کی جاتی ہے

____________________

١)علل اشر ائع جلد ٢ صفحہ / ۵١ ۔ )

٢)اصول کا فی ٢صفحہ / ٢٧٢ ۔ )

۱۵۴

جب انسان الله کی طرف سے نازل ہو نے والے قرآن کا استقبال کرتاہے تو (دعا) انسان کو الله تک پہنچاتی ہے ،اور جب انسان الله کے نازل کئے جانے والے قرآن سے منقطع ہو جاتا ہے تو وہ ضروری طور پر قرآن صاعد سے بهی منقطع ہوجاتاہے ۔اس کی دعا محبوس (قيد )ہوجاتی ہے اور وہ اس پر کامياب نہيں ہوپاتایہاں تک کہ اگر وہ خدا کی بارگاہ ميں بہت زیادہ گڑگڑائے یاپافشاری کرے ،اصرارکرے تب بهی خدا اس کی دعا کو اوپر پہنچنے سے روک دیتا ہے اور اس کی دعا مستجاب نہيں ہوتی ہے ۔

حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :المعصية تمنع الاجابة

“گناہ دعا کے مستجاب ہونے ميں مانع ہوتے ہيں” ایک شخص نے حضرت علی عليہ السلام سے خداوندعالم کے اس قولادعونی استجب لکم کے سلسلہ ميں سوال کيا :

مالنا ندعو فلایُستجاب لنا؟قال:فاي دعاء یُستجاب لکم،وقد سددتم ابوابه وطرقه،فاتقوااللّٰه واصلحوااعمالکم،واخلصوا سرائرکم ،وامروا بالمعروف،وانهواعن المنکر،فيستجيب اللّٰه معکم ( ١)

“ کيا وجہ ہے کہ ہم خداوندعالم سے دعا کرتے ہيں ليکن ہماری دعا مستجاب نہيں ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہار ی دعا کيسے مستجاب ہو جب تم نے اس کے دروازوں اور راستوں کو بند کردیا ہے پس تم الله کا تقویٰ اختيار کرو ،نيک اعمال انجام دو ،اپنے اسرار کو پاکيز ہ کرو ،امربا لمعروف کرو ،نہی عن النکر انجام دو تو خدا تمہاری دعا قبول کرے گا ”

____________________

١)بحارالانور جلد ٩٣ /صفحہ ٣٧۶ ۔ )

۱۵۵

حضرت علی بن الحسين زین العابدین عليہ السلام سے مروی ہے : (والذنوب التی تردّ الدعاء،وتُظلم الهواء عقوق الوالدین ( ١)

“جوگناہ دعاؤں کو رد کر دیتے ہيں اور فضا کو تاریک کر دیتے ہيں ان سے مراد والدین سے سر کشی کرنا ہے ”

دوسری روایت ميں آیاہے :

والذنوب التی تردّالدعاء:سوء النية وخبث السریرة،والنفاق، وترک التصدیق بالاجابة،وتاخيرالصلوات المفروضات حتّیٰ تذهب اوقاتها،وترک التقرب الیٰ اللّه عزّ وجلّ بالبرّ والصدقة،واستعمال البذاء والفحش فی القول (٢ “دعاؤں کو مستجاب ہونے سے روک دینے والے گناہ یہ ہيں :بُری نيت ،خُبث باطنی، نفاق واجب صدقہ نہ دینا،واجب نمازوں کے اداکرنے ميں اتنی تاخير کرنا کہ نماز کا وقت ہی ختم ہوجائے، نيکی اور صدقہ دینے کے ذریعہ الله سے قربت حاصل کرنے کو چهوڑدینا اور گفتگوميں گاليا ں دینا ”

حضرت مام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ العبد یسا ل اللّٰه الحاجة،فيکون من شانه قضاوها الیٰ اجل قریب،في ذنب العبد ذنباً،فيقول اللّٰه تبارک وتعالیٰ للملک:لاتقض حاجته،واحرمه ایاها،فإنهّ تعرض لسخطي واستوجب الحرمان مني ( ٣)

“جب بندہ خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کر تاہے تو خدا کی شان دعا کو پورا کر دینا ہے مگر بندہ گناہ کرليتا ہے جسکی وجہ سے دعاقبول نہيں ہوتی، خداوندعالم فرشتہ سے کہتا ہے :اس کی حاجت روانہ کرنا ،اس کو اس کی حاجت سے محروم رکهنا ،وہ مجهکو نا خشنود کرتا ہے جسکی وجہ سے وہ مجه سے محروم ہوا ہے ”

____________________

۔ ١)معانی الاخبار صفحہ / ٢٧٠ ۔ )

٢)معانی الاخبار صفحہ / ٢٧١ ۔ )

٣)اصول کا فی جلد ٣صفحہ ٣٧٣ ۔ )

۱۵۶

قبوليت اعمال کے موانع

اسلامی روایات ميں (اعمال کے بلند ہو نے ميں رکاوٹ ڈالنے والے موانع )اور (الله کی بارگاہ ميں اعمال پہنچا نے کے اسباب )کاتذکرہ موجود ہے :

ان دونوں چيزوں کا انسان کے عمل سے براہ رست تعلق ہے مگر یہ کہ (موانع) اعمال کے الله کی بارگاہ تک پہنچنے ميں رکاوٹ ڈالتے ہيں ،اور (اسباب ) اعمال کو الله کی بارگاہ ميں پہنچنے ميں مددگار ہوتے ہيں :

ہم ذیل ميں (موانع )کے متعلق اسلامی روایات ميں وارد ہو نے والے ایک نمونہ کا تذکرہ کریں گے اور اسباب کے سلسلہ ميں بهی ایک ہی نمونہ کا تذکرہ کریں گے اور اس مسئلہ کی اسلامی ثقافت وتربيت ميں زیادہ اہميت ہونے کی غرض سے اسکی تفصيل وتشریح ایک مناسب موقع کےلئے چهوڑدیتے ہيں ۔

صعود اعمال کے موانع (اسباب)

شيخ ابو جعفر محمد بن احمد بن علی قمی ساکن ری نے اپنی کتاب “المنبیُ عن زهد النبی” عبدالواحد سے اور انهوں نے معاذ بن جبل سے نقل کيا ہے :ان کا کہنا ہے کہ ميں نے عرض کيا: ميرے لئے ایک ایسی حدیث بيان فر ما دیجئے جس کو آپ نے رسول اکر م (ص) سے سنا ہو اور حفظ کيا ہو انهوں نے کہا ڻهيک ہے پهر معاذ نے گریہ کرتے ہو ئے فر مایا :ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوںتو اس وقت مجه سے یہ حدیث نقل فر ما ئی جب ميں ان کے پاس کهڑا ہوا تها:

“بينا نسيراذ رفع بصره الی السماء فقال:الحمدلله الذي یقضي في خلقه مااحبّ،ثم قال:یامعاذ،قلت:لبيک یارسول اللّٰه وسيد المومينن قال: یا معاذ،قلت، لبيک یارسول الله امام الخيرونبي الرحمة فقال:احدثک شيئاًماحدّث به نبي امته ان حفظته نفعک عيشک،وان سمعته ولم تحفظه انقطعت حجتک عند اللّٰه،ثم قال:انّ اللّٰه خلق سبع املاک قبل ان یخلق السماوات فجعل فی کل سماء ملکاًقدجللها بعظمته،وجعل علیٰ کل باب من ابواب السماوات ملکاًبواباً،فتکتب الحفظة عمل العبد من حين یصبح الیٰ حين یمسي،ثم ترتفع الحفظة بعمله وله نورکنور الشمس حتّی اذابلغ سماء الدنيا فتزکيه وتکثره فيقول الملک:قفوا واضربوابهذاالعمل وجه صاحبه،اناملک الغيبة،فمن اغتاب لاادع عمله یجاوزني الیٰ غيري،امرني بذالک ربي

۱۵۷

قال :ثم تجیٴ الحفظة من الغد ومعهم عمل صالح،فتمّر به فتزکيه و تکثره حتّی تبلغ السماء الثانية،فيقول الملک الذي فيالسماء الثانية:قفوا واضربواهذ االعمل وجه صاحبه انّما اراد بهذاعرض الدنيا،اناصاحب الدنيا، لاادع عمله یتجاوزني الیٰ غيري قال:ثم تصعد الحفظة بعمل العبدمبتهجابصدقة وصلاة فتعجب به الحفظة،وتجاوز به الیٰ السماء الثالثة،فيقول الملک:قفوا واضربوا هذاالعمل وجه صاحبه وظهره،اناملک صاحب الکبر،فيقول:انه عمل وتکبرّعلی الناس في مجالسهم؛امرني ربي ان لاادع عمله یتجاوزني الیٰ غيري

قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد یزهرکالکوکب الدري في السماء،له دوي بالتسبيح والصوم والحج ،فتمّر به الی السماء الرابعة فيقول له الملک:قفوا واضربوا بهذا العمل وجه صاحبه وبطنه،اناملک العُجب،انه کان یعجب بنفسه انه عمل وادخل نفسه العُجب،امرني ربّي ان لاادع عمله یتجاوز ني الی غيري

قال وتصعد الحفظة بعمل العبدکالعروس المزفوفة الی اهلها،فتمرّ به الی ملک السماء الخامسة بالجهاد والصلاة والصدقة )مابين الصلاتين،ولذلک العمل رنين کرنين الابل وعليه ضوء کضوء الشمس،فيقول الملک:قفوا انا ملک الحسد،واضربوابهذ االعمل وجه صاحبه،واحملوه علیٰ عاتقه،انه کان یحسد مَنْ یتعلم اویعمل لله بطاعته،واذا رایٰ لاحد فضلافي العمل والعبادة حسده ووقع فيه،فيحمله علیٰ عاتقه ویلعنه عمله قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد من صلاة وزکاة وحج وعمرة، فيتجاوزون به الی السماء السادسة،فيقول الملک:قفوا اناصاحب الرحمة واضربوابهذاالعمل وجه صاحبه،واطمسواعينيه لانّ صاحبه لم یرحم شيئاًاذا اصاب عبداًمن عبادالله ذنب للاخرة اوضرّ في الدنياشمت به،امرني به ربي ان لاادع عمله یجاوزني

قال وتصعد الحفظةبعمل العبد بفقه واجتهاد وورع وله صوت کالرعد، وضوء کضوء البرق،ومعه ثلاثة آلاف ملک،فتمرّبه الی ملک السماء السابعة، فيقول الملک:قفوا واضربوا بهذاالعمل وجه صاحبه اناملک الحجاب احجب کل عمل ليس لله،انّّه ارادرفعة عندالقُوّاد،وذکراً في المجالس وصيتاًفي المدائن، امرني ربي ان لاادع عمله یتجاوزني الی غيري مالم یکن الله خالصاً

۱۵۸

قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد مبتهجاً به من صلاة وزکاة وصيام وحج وعُمرة وحسن الخلق وصمت وذکرکثير ،تشيعه ملائکة السماوات والملائکة السبعة بجماعتهم،فيطئاُون الحجب کلّها حتیٰ یقوموابين یدیه سبحانه،فيشهدوا له بعمل ودعاء فيقول:انتم حفظة عمل عبدي،وانا رقيب علیٰ مافي نفسه انه لم یردنی بهذا العملوعليه لعنتي فيقول الملائکة:عليه لعنتک ولعنتنا قال :ثم بکیٰٰ معاذقال:قلت:یارسول الله،ماا عمل واخلص فيه ؟قال:اقتد بنبيک یامعاذفي اليقين قال:قلت انت رسول الله وانامعاذ قال:وان کان فی عملک تقصير یامعاذ فاقطع لسانک عن اخوانک وعن حملة القرآن،ولتکن ذنوبک عليک لا تحملهاعلیٰ اخوانک،ولاتزک نفسک بتذ ميم اخوانک،ولاترفع نفسک بوضع اخوانک،ولاتراء بعملک،ولاتدخل من الدنيافي الآخرة،ولا تفحش في مجلسک لکي یحذروک لسوء خلقک ولاتناج مع رجل وانت مع آخر،ولا تعظم علی الناس فتنقطع عنک خيرات الدنيا،ولاتمزق الناس فتمزقک کلاب اهل النار،قال الله تعالیٰ: وَالنا شِّٰ طٰاتِ نَشطْْاًً(١) افتدری ماالناشطات ؟انها کلاب اهل النار تنشط اللحم واعظم قلت:ومن یطيق هذه الخصال ؟قال:یامعاذ، انه یسير علیٰ من یسّره الله تعالیٰ عليه قال:ومارایت معاذاً یکثرتلاوة القرآن کما یکثر تلاوة (هذاالحدیث( ٢)

“انهوں نے فرمایا :ہم راستہ چلے جا رہے تهے تو انهوں نے اپنی آنکه آسمان کی طرف اڻها تے ہو ئے فر مایا :تمام تعریفيں اس خدائے وحدہ لا شریک کےلئے ہيں وہ اپنی مخلوق ميں جو چا ہتا ہے وہ فيصلہ کرتا ہے۔پهر انهوں نے کہا :اے معاذ ۔

____________________

١)سورئہ نازعات آیت/ ٢۔ )

٢)ہم نے یہ طویل حدیث کتاب عدة الداعی کے صفحہ ٢٢٨ ۔ ٢٣٠ سے نقل کی ہے ،اور اس ) کتاب ميں اس حدیث کے حاشيہ ميں تحریر ہے کہ :سليمان بن خالد سے مروی ہے کہ ميں نے ابا عبد الله عليہ السلام سے خداوند عالم کے اس قول : وَقَدِمنَْااِل یٰ مَاعَمِلُواْمِن عَمَلٍ فَجَعَلنَْاہُ هَبَاءً مَنثُْوراً سورئہ فرقا ن آیت / ٢٣ “پهر ہم انکے اعمال کی طرف توجہ کریں گے اور سب کو اڑتے ہوئے خاک کے ذروں کے مانند بنا دیں گے ”کے سلسلہ ميں سوال کيا تو آپ نے فرمایا : خداکی قسم اگر انکے اعمال قباطی سے بهی زیادہ سفيد(بہت زیادہ نورانی )رہے ہوں گے ليکن جب ان کے سامنے کسی حرام چيز کو پيش کيا جاتاتها تو اسکو ترک نہيں کرتے تهے ”مرآة العقول ميں آیا ہے :مذکورہ مطلب ميں اس بات کی دلالت ہے کہ کهلم کهلا گناہ کر نے سے نيکياں ختم ہو جاتی ہيں اور احباط کا مطلب یہ ہے کہ اچها ئيوں پر ثواب نہ ملنا اسکے بالمقابل تکفير ہے یعنی کسی برائی پر عذاب نہ ملنا ۔

۱۵۹

ميں نے کہا :لبيک یارسول الله (ص)اور مو منين کے سردار ۔فرمایا : اے معاذ ميں نے عرض کيا :لبيک یا رسول الله خير کے امام اور نبی رحمت ،انهوں نے کہا ميں تم سے ایک حدیث نقل کر رہا ہوں جيسی کسی نبی نے اپنی امت سے نقل نے کی ہو اگر تم اس کو حفظ کروگے تو زندگی ميں مستفيد ہو گے اگر سن کر حفظ نہيں کروگے تو تم پرخداوند عالم کی حجت تمام ہو جا ئے گی ۔پهر انهوں نے کہا کہ خداوند عالم نے آسمانوں کی خلقت سے پہلے سات فر شتے خلق کئے تو ہر اس آسمان ميں ایک فرشتہ معين کيا جس کو اپنی عظمت کے ذریعہ مکرم فر مایاآسمانوں کے ہر در وازے پر ایک نگہبان فر شتہ معين فر مایا تووہ انسان کے اعمال نا مہ ميں اس بندہ کا صبح سے شام تک کا عمل لکهتے ہيں پهر یہ لکهنے والے فرشتے اس کے اعمال نا مہ کو ليکر اوپر جا تے ہيں اس کی روشنی دهوپ کے مانند ہو تی ہے یہاں تک کہ جب وہ آسمان دنيا پر پہنچتا ہے تو فرشتے اس کے عمل کو پاک و صاف و شفاف اور زیادہ کر دیتے ہيں تو فرشتہ کہتا ہے :ڻهہرو اور اس عمل کو صاحب عمل کے منه پر ما ردو ميں غيبت کا فرشتہ ہوں جو غيبت کرتا ہے ميں اس کے عمل کو اپنے علاوہ کسی دو سرے تک نہيں پہنچنے دوںگا ميرے پرور دگار نے مجهے یہ حکم دیا ہے۔ رسول اکر م (ص) نے فرمایا : اگلے دن یہ نا مہ اعمال ،عمل صالح کے ساته تزکيہ اور زیادہ ہو نے کی صورت ميں دو سرے آسمان تک پہنچتا ہے ،تو دو سرے آسمان والا نگہبان فرشتہ کہتا ہے :ڻهہرو

اور اس عمل کو صاحب عمل کے منه پر ماردو چونکہ اس نے اس عمل کے ذریعہ اپنے کو دنيا کے سامنے پيش کر نے کی کو شش کی ہے اور ميں صاحب دنيا ہوں لہٰذا ميں اس عمل کو اپنے علاوہ کسی دو سرے تک نہيں جا نے دو نگا ۔ فرمایا :پهر وہ لکهنے والے اس نامہ اعمال کو صدقہ اور نماز سے پُر،خو شی خو شی اوپر ليجا تے ہيں اور وہ تيسرے آسمان سے عبور کر جاتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے :ڻهہرو اور اس عمل کو صا حب عمل کے منه اور پيڻه پر مار دوميں صاحب کبر کا فر شتہ ہوں وہ کہے گا :اس نے اس عمل کے ذریعہ لوگوں کی مجلسوںميں بيڻه کر تکبر کيا ميرے پروردگار نے مجهے یہ حکم دیا ہے کہ ميں اس عمل کو اپنے علاوہ کسی دوسرے تک نہ پہنچنے دوں ۔

۱۶۰