دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43140
ڈاؤنلوڈ: 2519


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43140 / ڈاؤنلوڈ: 2519
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

فرمایا :یہ نا مہ اعمال بندہ کے اس عمل کی وجہ سے جس ميں تسبيح ،روزہ اور حج ہو گا ان کے ذریعہ آسمان ميں کوکب دری کی طرح روشن ہو کر چوتهے آسمان سے گذر جا ئيگا تو فرشتہ ا س سے کہے گا : اس عمل کو صاحب عمل کے منه اور پيٹ پر ماردو ،ميں عُجب کا فرشتہ ہوں وہ اپنے نفس ميں اس عمل کے ذریعہ عجب کرتا تها اور اس کے نفس ميں عُجب داخل ہو گيا ہے ؛ميرے پرور دگارنے مجهے یہ حکم دیا ہے کہ یہ عمل ميرے علاوہ کسی اور تک نہ پہنچنے پائے ۔ فرمایا :یہ نا مہ اعمال بندہ کے عمل کے ذریعہ اپنے شوہر کے گهر کی طرف جانے والی دُلہن کے مانند جہاد ،نماز اوردونمازوں کے درميان دئے جا نے والے صدقہ سے پانچویں آسمان سے گذر جائيگا یہ اونٹ کی طرح آواز بلند کررہا ہوگا اور آفتاب کی طرح روشن ہوگا ،پس فرشتہ کہے گا: ڻهہرو ميں حسد کا فرشتہ ہوں اور اس عمل کو صاحب عمل کے منه پر مار دو اور اس کے کاندهوں پر رکه دو ؛یہ طالب علم اور الله کی اطاعت کرنے والے سے حسد کرتا تها اور جب بهی یہ عمل اور عبادت ميں کسی اور کو اپنے سے برتر دیکهتا تها تو اس سے حسد کرتا تها لہٰذا اس عمل کو اسی کے کاندهوں پر رکه دو اور اس کا عمل اس پر لعنت کریگا ۔

فرمایا :وہ نا مہ اعمال نماز ،زکات ،حج اور عمرہ کے ذریعہ چهڻے آسمان سے گذر جا ئيگا تو فرشتہ کہے گا :ڻهہرو ميں صاحب رحمت ہوں اس عمل کو صاحب عمل کے منه پر ماردو اور اس کی آنکهوں کو بے نور کردو چونکہ اس شخص نے ذرہ برابر رحم نہيں کياجب الله کا کو ئی بندہ اُخروی گناہ یا دنيوی مصيبت ميں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی شماتت کی جا تی ہے ۔

فرمایا :یہ نا مہ اعمال بندہ کے فقہ ،اجتہاد اور ورع و پرہيزگاری کے ذریعہ جو بجلی کی طرح کڑک رہا ہوگا ،برق کی طرح اس کی روشنی ہو گی اور اس کے تين ہزار فرشتے ہوں گے یہ ساتویں آسمان سے گذر جائيگا تو فرشتہ کہے گا :ڻهہرو اس عمل کو صاحب عمل کے منه پر ماردو ميں حجاب کا فرشتہ ہوں اس نے جو عمل الله کيلئے نہيں تها اس کو چهپایا؛اس نے رہنماؤں کی نظر ميں بلندمرتبہ ،نشستوں ميں اپنے تذکرہ اور شہروں ميں اپنی شہرت کی تمنّا کی تهی ،ميرے پروردگار نے مجه کو حکم دیا ہے کہ جو عمل خالص الله کے لئے نہ ہو اس کو ميں اپنے علاوہ کسی دوسرے تک نہ جانے دوں ۔

۱۶۱

فرمایا :یہ نا مہ اعمال بندہ کے عمل کے ذریعہ خو شی خوشی جس ميں نماز ،زکات ،روزے ،حج، عمرہ ،حُسن خلق ،صمت و وقاراور ذکر کثير ہوگا آگے بڑهے گا جس کے ساته آسمان و زمين کے ملا ئکہ ہو ں گے جوتمام پردوں کو رونده دیتے ہيںيہاں تک کہ پروردگار عالم کے سامنے جا کهڑے ہوں گے اور وہ سب اس بندہ کے اس عمل اور دعا کی گو اہی دیں گے پس پروردگار آواز دے گا :تم نے ميرے بندہ کا یہ نا مہ اعمال لکها ہے اور ميں بذات خود اس کا دیکهنے والا ہوں ۔اس عمل کو ميرے پاس نہ لاؤ اس پر ميری لعنت ہے ۔تو ملا ئکہ کہيںگے :اس پر تيری اور ہم سب کی لعنت ہے ۔

فرما یا :پهر معاذ گریہ کرنے لگے ۔

معاذ نے کہا ميں نے رسول الله (ص) کی خدمت ميں عرض کيا :ميں کيسے خالص عمل انجام دوں ؟

فرمایا : اے معاذ تم یقين ميں اپنے نبی اکرم (ص) کی اقتدا کرو ۔ معاذ نے عرض کيا :یا رسول الله (ص) آپ رسول خدا ہيں اور ميں معاذ ہوں ۔ فرمایا :اگر تمہارے عمل ميں کو ئی کو تا ہی ہے تو تم اپنے برادران کی غيبت کرنے سے پرہيز کرو قرآن کے حاملين کے سلسلہ ميں اپنی زبان بند رکهو تمہارے گناہوں کا بوجه تمہارے بها ئيوں پر نہيں پڑنا چا ہئے ،اپنے بها ئيوں کی برائی کرکے خود کو بہتر مت سمجهو ،اپنے بهائيوں کی تو ہين کرکے خود کو بلند مرتبہ مت سمجهو، ریاکاری نہ کرو،دنياکے ذریعہ آخرت ميں داخل نہ ہواگر تم کسی سے سرگو شی کر رہے ہو تو دوسرے شخص کے ساته اسی حال ميں سر گوشی مت کرو ،لوگوں پر بوجه مت بنو کہ تم سے دنيا کی بهلا ئياں رو گردانی کر جا ئيں ،لوگوں ميں تفرقہ نہ پيدا کرو ورنہ جہنم کے کتّے تم کو پاش پاش کرڈاليں گے خداوند عالم کا فرمان ہے : وَالنّاشِطَاتِ نَشطْاً “اور آسانی سے کهول دینے والے ہيں” کيا تم جانتے ہو کہ ناشطات کيا ہے ؟یہ جہنم کے کتّے ہيں جو گوشت اور ہڈیوں کو کها جاتے ہيں ۔

معاذ نے عرض کيا :ان خصلتوں کی کس ميں طاقت ہے ؟

فرمایا :اے معاذیہ اس شخص کيلئے بہت آسان ہيں جن کيلئے خداوند عالم ان کو آسان کردیاہے

فرمایا :ميں نے معاذ کو اتنی زیادہ قرآن کی تلا وت کرتے نہيں دیکها جتنی وہ اس حدیث کی تلاوت کرتے تهے ”

۱۶۲

اعمال کو الله تک پہنچا نے والے اسباب

موانع کے بالمقابل کچه ایسے اسباب ہيں کہ جب اعمال الله کی بارگاہ تک پہنچنے سے عاجز ہو جاتے ہيں تووہ اسباب جو انسان کے اعمال کو الله کی بارگاہ تک پہنچا تے ہيں اور یہ اسباب ،موانع کے بالمقابل ہيں :ان اسباب کا روایت نبوی ميں تذکرہ مو جود ہے جن کو ہم علامہ مجلسی کی نقل روایت کے مطابق جس کو انهوں نے امالی شيخ صدوق سے بحارالانوار ميں نقل کيا ہے بيان کرتے ہيں : شيخ صدوق نے (امالی )ميں سعيد بن مسيب سے انهوں نے عبد الر حمن بن سمرہ سے نقل کيا ہے :(ہم ایک دن رسول الله (ص)کی خدمت بابر کت ميں حاضر تهے کہ آپ نے فرمایا :

فقال:اني رایت البارحة عجائب ،قال:فقلنا:یارسول الله، ومار ایت ؟ حدَّثنا به فداک انفسناواهلوناواولادنا ؟فقال:رایت رجلاً من اُمتي وقد اتاه ملک الموت ليقبض روحه،فجاء ه برّه بوالدیه فمنعه منه

ورایت رجلاًمن اُمتي قد بسط عليه عذاب القبر،فجاءَ ه وضو وه فمنعه منه ورایت رجلاًمن اُمتي قداحتوشته الشياطين،فجاءَ ه ذکرُاللهعزّوجلّ فنجّاه من بينهم

ورا یت رجلاًمن اُمتي والنبيّون حلقاًکلمااتیٰ حلقة طردوه،فجاءَ ه اغتساله من الجنابة فاخذبيده فاجلسه الی جنبهم

ورا یت رجلاً من اُمتي بين یدیه ظلمة ومن خلفه ظلمة وعن یمينه ظلمة وعن شماله ظلمة ومن تحته ظلمة مستنقعاًفي الظلمة،فجاءَ ه حجه وعمرته فاخرجاه من الظلمة وادخلاه النور

ورا یت رجلاً من اُمتي یُکلّم المُومنين فلایُکلمونه،فجاءَ ه صلته للرحم فقال:یامعشرالمومنين،کلّموه فانّه کان واصلاً لرحمه،فکلمه المومنون وصافحوه وکان معهم

ورا یت رجلاً من اُمتي تقی وجهه النيران و شررها بيده ووجهه،فجاء ته صدقته فکانت ظلّاً علیٰ راسه وستراً علیٰ وجهه

ورا یت رجلاً من اُمتي قد اخذ ته الزبانية من کل مکان فجاء ه امره بالمعروف ونهيه عن المنکر فخلّصَاه من بينهم وجعلاه مع ملائکة الرحمة

۱۶۳

ورا یت رجلاً من اُمتي جاثياًعلیٰ رکبتيه بينه و بين رحمة اللّٰه حجاب فجاء ه حسن خلقه فاخذ بيده فادخله فی رحمة اللّٰه

ورا یت رجلاً من اُمتی قد هوت صحيفته قبل شماله فجاءَ ه خوفه من اللّٰه عزّ وجلّ فاخذ صحيفته فجعلها فی یمينه

ورا یت رجلاً من اُمتي قد خفت مو ازینه،فجاءَ ه افراطه فثقلوا مو ازینه ورا یت رجلاً من اُمتي قائماً علیٰ شفيرجهنم،فجاءَ ه رجاءَ ه فی اللّٰه عزّو جلّ فاستنقذه بذالک

ورا یت رجلاً من اُمتي قد هویٰ في النارفجاءَ تْه دموعه التي بکیٰ من خشية اللّٰه فاستخرجته من ذلک

ورا یت رجلاً من اُمتي علیٰ الصراط یرتعدکما ترتعدالسعفة فی یوم ریح عاصف فجاءَ ه حسن ظنه باللّٰه فسکن رعدته ومضیٰ علی الصراط ورایت رجلاً من اُمتي علیٰ الصراط یزحف احياناًویحبواحياناًویتعلق احياناًفجاءَ تْه صلاته عليه فاقامته علیٰ قدميه ومضیٰ علیٰ الصراط

ورا یت رجلاً من اُمتي انتهیٰ الیٰ ابواب الجنة کلماانتهیٰ الیٰ باب اُغلق دونه،فجاء ته شهادة ان لا الٰه الّا اللّٰه صادقاًبها،ففتحت له الابواب و دخل الجنة”١ “

ميں نے متعدد عجائبات کا مشاہد ہ کيا ہے ميں نے عرض کيا: یا رسول الله آپ نے کن کن عجائبات کا مشاہدہ فرمایا؟ ميری جان آپ پر فدا ہو ذراان عجائبات کی ہمارے اور ہماری اولاد کےلئے تفسير تو فرما دیجيے؟ آپ نے فرمایا :ميں نے اپنی امت ميں سے ایک شخص کو دیکها کہ ملک الموت اس کی روح قبض کر نے کےلئے آیا ہے تو وہ فرشتہ اس (شخص )کی اپنے والدین کے ساته نيکيوں کی وجہ سے اس کی روح قبض نہ کر سکا ۔

ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کو شيا طين نے ڈرا رکها تها تو الله عزوجل کے تذکرہ نے اس کو ان شياطين سے نجات دلائی ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے پياسے شخص کو دیکها کہ جب بهی وہ پانی کے حوض پر پانی پينے کی غرض سے پہنچتا تها تو اس کو پانی پينے نہيں دیاجاتا تها تو ماہ رمضان کے روزوں نے آکر اس کو سيراب کيا گيا ۔

____________________

١)بحار الا نوار جلد ٧ صفحہ/ ٢٩٠ ۔ ٢٩١ ۔ )

۱۶۴

ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها کہ انبياء عليہم السلام حلقہ ، حلقہ بنائے ہوئے بيڻهے ہيں تو جب بهی یہ شخص حلقہ کے پاس پہنچتا تها تو اس کو نزدیک آنے سے منع کردیا جاتا تها ،ليکن جب وہ غسل جنابت کرکے آیا تو انهوں نے اس کا ہاته پکڑ کراپنے پہلو ميں بيڻهایا ۔

ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جسکے آگے پيچهے ،دائيں، بائيں اور اس کے نيچے کی طرف تاریکی ہی تاریکی تهی اور وہ اس تاریکی کے سبب جانکنی کے عالم ميں تها تو اس کے انجام دئے ہوئے حج وعمر ہ نے آکر اس کی جان بچائی اور تاریکی سے نکال کر روشنی ميں داخل کيا ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها کہ مومنين سے کلام کر تا ہے ليکن مو منين اس سے بات نہيں کر تے ہيں ۔تو اس شخص کے صلہ رحم نے کہا اے مومنواس سے کلام کرو کيو نکہ اس نے صلہ رحم انجام دیاہے تو مومنوں نے اس سے کلام کيا ،مصافحہ کيا گو یا کہ وہ ان کے ساته تها ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کے ہاته اور چہرہ آگ کی سوزش سے جل رہے تهے تو اس کے دئے ہو ئے صدقہ نے اس کے سر پر آکر سایہ کيا اور اس کے چہرے کو چهپاليا۔

ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کی ہر جگہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تهے تو اس کے کئے ہوئے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر نے اس کو ان شعلوں سے نجات دلائی اور اس کے لئے رحمت کے فرشتہ مقررفرمائے ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جو گهڻنيوں کے بهل چل رہا تها اور اس کے اور الله کی رحمت کے درميان پر دے حائل ہو گئے تهے تو اس کے حسن خلق نے اس کا ہاته پکڑ کر الله کی رحمت ميں داخل کيا ۔

ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس کا نامہ اعمال اس کے بائيں ہاته ميں تها تو الله کے خوف نے اس کا وہ نا مہ اعمال اس کے بائيں ہاته سے ليکر اس کے دائيں ہاته ميں دیدیا ۔

ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس کے اعمال کا پلڑ ا بہت ہلکا تها تو اس کے دوسروں کو سيراب کرنے نے اس کو وزنی بنایا ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کے پاس کهڑے دیکها تو الله تعالیٰ سے اميد نے اس کو جہنم سے نجات دلائی ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کی آگ ميں جلتے دیکها تو اس کے وہ آنسو جو الله کے خوف کی وجہ سے اس کی آنکهوں سے جاری ہوئے تهے انهوں نے اس کو جہنم کی آگ سے نکالا ۔

۱۶۵

ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو صراط پر دیکها جو سخت آندهيوں ميں خرمہ کے درخت کی شاخ کی طرح ہل رہا تها تو اس کے الله سے حسن ظن نے اس کو ہلنے سے روکا اور وہ صراط سے گذر گيا ۔

ميں نے اپنی امت ميں سے پل صراط پر ایک ایسے شخص کو دیکها جو آگے بڑهنے کےلئے اپنے چاروں ہاته پير مار رہا تها اور کبهی اپنے کو کهينچے جارہاتها اور کبهی اس پر لڻک رہا تها تو اس کی نماز نے آکر اس کے قدموں پر کهڑ اکيا اور پل صراط سے گذارا ۔

ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس پر جنت کے تمام دروازے بند ہو گئے تهے تو اس کی اشهدا ن لا الٰہ الاالله کی گواہی نے اس کی تصدیق کی تو اس کےلئے جنت کے دروازے کهل گئے اور وہ جنت ميں چلا گيا ۔

جن چيزوں کوالله سے دعا کرتے وقت انجام دینا چاہئے

اب ہم ان (وسائل )اسباب کے سلسلہ ميں گفتگو کرتے ہيں جن کو دعا کرتے وقت انجام دنيا چاہئے ۔

پروردگار عالم کافرمان ہے کہ ہم اس سے وسيلہ کے ذریعہ دعا کریں : ارشاد خدا وند عالم ہے :

(( اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِل یٰ رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ ) ( ١)

“ یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ تلاش (کر رہے ہيں ”( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْاللهَ وَابتَْغُواْاِلَيهِْ الوَْسِيلَْةَ ) ( ٢)

“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ” خداوندعالم نے یہ وسائل ان بندوں کےلئے قرار دئے ہيں جن کے اعمال اور دعا ئيں الله کی رحمت تک پہنچنے سے عاجز ہيں اور وہ (خدا )ارحم الراحمين ہے ۔

خداوندعالم فرماتا ہے :

____________________

١)سورئہ اسرا آیت/ ۵٧ ۔ )

٢)سورئہ مائدہ آیت/ ٣۵ ۔ )

۱۶۶

(( اِلَيهِْ یَصعَْدُ الکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعُهُ ) ( ١)

“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”

بيشک انسانی حيات ميں کلمہ طيب اور عمل صالح ہے ۔ کل( م الطيّب ) سے مراد انسان کا الله پر ایمان رکهنا ،اخلاص ، اُس (خدا ) پر اعتماد رکهنا ، اس سے اميد رکهنا ، اس سے دعا کر نا اور اس کی با رگاہ ميں گڑ گڑا نا اور گر یہ و زاری کر نا ہے ۔

عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی انسا نيت قا ئم ہو تی ہے اور وہ ایمان ، اخلاص ، اعتماد اور اميد ہے ۔

اور( کلم الطيب ) “خوشگوار گفتگو ”قرآن کی تصریح کی رو سے خدا وند عالم کی جا نب چلی جا تی ہے ليکن قرآن ہی کی صراحت کی بنا پر اس خو شگوار گفتگو کو خداوند عالم کی جا نب نيک عمل ہی لے جاتا ہے ۔

اگر عمل صالح نہ ہو تو( کلم الطيب ) الله تک نہيں پہنچ سکتا ، کبهی کبهی ایسا ہو تا ہے کہ (عمل صالح ) عا جز اور کمز ور ہو تا ہے اور اس ميں( کلم الطيب ) کو الله تک پہنچا نے کی طا قت و قدر ت نہيں ہو تی لہٰذا ایسی صورت ميں نہ تو انسان کی دعا الله تک پہنچتی ہے اور نہ ہی اس کی دعا مستجاب ہو تی ہے ۔ الله نے انسان کی زندگی ميں اس کے ہاتهوں ميں کچه ایسے وسائل دید ئے ہيں جن کے ذریعہ وہ خدا وند عالم تک پہنچ سکتا ہے اگر یہ وسائل واسباب نہ ہوں تو انسان کےلئے اس کی دعا اور فریادکے الله تک پہنچنے کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے۔ یہی وہ وسائل واسباب ہيں جن کی طرف قرآن کریم نے بهی اشارہ فرمایا ہے۔ ان ہی وسائل ميں سے رسول الله کا اپنی امت کے لئے دعا اور استغفار کرناہے ۔ خداوندعالم کا ارشاد ہے :

۱۶۷

( وَلَواَْنَّهُم اِذظَْلَمُواْاَنفُْسَهُم جَاءُ وکَْ فَاستَْغفِْرُواْاللهَ وَاستَْغفَْرَلَهُمُ الرَّسُولُْ ( لَوَجَدُواْاللهَّٰ تَوَّابًا رَحِيمْاً ) ( ١)

“اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تها تو آپ کے پاس آتے اور خود بهی اپنے گنا ہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بهی ان کے حق ميں استغفار کرتے تو خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ” قرآن کریم کی یہ آیت صاف طورپر یہ بيان کرتی ہے کہ رسول الله (ص)کا مومنين کے لئے استغفار کرنا ان وسائل ميں سے ہے جن ميں پروردگار عالم اپنے بندوں کو اس چيز کی رغبت دلاتا ہے جو دعا اور استغفار ميں ان کےلئے وسيلہ قرار پائے ۔

جو کچه رسول اسلام (ص)کےلئے ان کی حيات طيبہ ميں کہا جاتا ہے کہ انهوں نے مومنين کےلئے خدا سے استغفار کياہے وہ وفات کے بعد استغفار نہيں کرسکتے نہيں ایسا کچه نہيں ہے بلکہ رسول الله (ص)تو وفات کے بعد بهی زندہ ہيں اور اپنے پروردگا ر کی طرف سے رزق پاتے ہيں ۔

رسول خدا (ص) اور اہل بيت عليم السلام سے تو سل کرنا

اسلامی روایات ميں رسول خدا (ص)اور اہل بيت عليہم السلام سے تو سل کےلئے بہت زیادہ زور دیا گيا ہے ۔

داؤ وبرقی سے مروی ہے :“إِنِّي کنت اسمع اباعبد اللّٰه عليه السلام اکثرمایلحّ في الدعاء علی اللّٰه بحقّ الخمسة،یعني رسول اللّٰه،و اميرالمومنين، و فاطمة ، والحسن ، والحسين(٢)

____________________

١)سورئہ نساء آیت/ ۶۴ ۔ )

١١٣٩ ،حدیث / ٨٨۴۴ ۔ / ١)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۶۸

“ ميں نے ابو عبد الله عليہ السلام کو دعا ميں اکثر پنجتن پاک کے وسيلہ سے دعا کرتے دیکها ہے یعنی رسول الله، امير المو منين ، فاطمہ ،حسن اور حسين عليہم السلام ”

سما عہ سے مرو ی ہے :مجه سے ابو الحسن عليہ السلام نے فرمایا :اے سماعہ جب تمهيں خداوند عالم سے کو ئی سوال درپيش ہو تو اس طرح کہو :اللهم انّي اسالک بحقّ محمّد وعلی فانّ لهماعندک شاناًمن الشان وقدراًمن القدر،وبحقّ ذلک القدران تُصلّيَ علیٰ محمّد وآل محمّد وان تفعل بي کذا وکذ ا (١)

“پروردگارا ميں تجه کو محمد اور علی کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں جن کا تيرے نزدیک بلند و بالا مقام ہے اور اسی عظمت کے پيش نظر تو محمد وآل محمد پر درود بهيج اور ميرے لئے ایسا ایسا انجام دے ”

دعا ئے کميل کے ذریعہ الله تک رسائی کے وسائل

ہم دعا ء کميل ميں ان وسائل کا مشاہد ہ کر تے ہيں جن کے ذریعہ سے امير المو منين دعا ميں خداوندعالم سے متوسل ہو ئے ہيں ۔

یہ وسائل دعا کے دوسر ے حصہ ميں بيان ہوئے ہيں جن کو امير المو منين عليہ السلام نے خداوند عالم سے دعا اور حاجتوں کو پيش کر نے سے پہلے مد نظر رکها ہے۔ اس دعا ئے شریف ميں بيان فرمایا ہے ان کو بيان کرنے سے پہلے ہم اس دعا ء کميل کا مختصرسا خا کہ بيان کر تے ہيں ،اور جن بلند افکارپر یہ دعا مشتمل ہے ان کو بيان کریں گے نيز اس کی بهی وضاحت کریںگے کہ آپ نے اس دعا ميں ان بلند افکار کے مابين کن طریقوں سے استفادہ فر مایا ہے ۔

کيونکہ ائمہ سے منقول مشہور ادعيہ کی ہر عبارت کے معين افکاراورمنظم اسلوب نيزدعا کے آغاز اوراختتام کی مخصوص روش ہے ۔

____________________

١)عدةالدا عی صفحہ / ٣٨ ۔ )

۱۶۹

معروف ادعيہ ميں سے ہر دعا کی ایک مخصوص شکل ہے ان کيفيات کے مطالعہ سے ہميں یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دعا کی روش نيز خداوند عالم سے منا جات کر نے کا طریقہ کيا ہے ۔

ہر دعا کےلئے بلند وبا لا اور بنيادی فکر ہے ،افکار کا مجمو عہ اسی فکر سے پرورش پاتا ہے ،یہ بنيادی مطلب ہے اور دو سرے مطالب کا مجموعہ اسی اساسی مطلب سے پرورش پاتا ہے ،سوال کر نے کا طریقہ اور سوال کرنے اور ختم کرنے کے اسلوب و طریقوں کو بتا تا ہے ۔

اگر علما نے اس مسئلہ کو بطور کا فی و وافی بيان کيا ہو تا تو اس سے مفيد نتا ئج کا اخراج کرتے ۔

اب ہم دعا ئے کميل کے سلسلہ ميں اس کے بنيادی افکار اور کيفيت کے متعلق بيان کرتے ہيں:

دعا کميل کی عام تقسيم

دعا ء کميل مومنين کے درميان بڑی مشہور ومعروف ہے جس کو مومنين ہر شب جمعہ کو پڑها کر تے ہيں ،اور اس کو کبهی تنہااورکبهی ایک ساته مل کر بهی پڑها کر تے ہيں ۔

یہ دعا حضرت امير المو منين عليہ السلام سے منسوب ہے جو آپ نے کميل بن زیاد نخعی کو تعليم فرما ئی تهی اسی طرح یہ دعا ایک نسل کے بعد دوسری نسل ميں مومنين تک پہنچتی رہی ہے ۔

یہ دعا عبودیت ، فروتنی و انکساری کے مفا ہيم کے لحاظ سے بيش بہا خزانہ نيز زندہ اشکال ميں تضرع ،فریاد خوا ہی نيز توبہ اورانابہ کا مو جيں مارتا سمندر ہے ۔ ہم اس دعا ء ميں بيان شدہ تمام مطالب ومفاہيم کی تشریح کرنا نہيں چاہتے چونکہ یہ طولا نی بحثيں ہيں انشاء الله اگر موقع ملا ،قسمت نے ساته دیا اور اسباب بهی پيد ا ہو گئے تو ضرور ان مطالب کی تشر یح کریں گے۔

ليکن اب ہم صرف اس دعا کی کيفيت کی وضاحت کرتے ہيں یہ دعا تين مخصوص مرحلوں پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ آنے والے مرحلہ ميں شمار ہوتا ہے ان تمام باتوں کی اساس وبنياد دعا کی کيفيت سے درک ہو تی ہے یہ ہمارے دعا پڑهنے ،اس ميں بيان ہو نے والے مفا ہيم و افکار کے سلسلہ ميں غور و فکر کرنے اور ان سے متاثر ہو نے ميں ہماری بہت زیادہ مدد کرتے ہيں۔ شاید پرورد گار عالم اس جہدو کو شش کو ان مومنين کےلئے نفع بخش اور مفيد قراردے جنهوں نے اس دعا کو پڑهنے کی اپنی عادت بنا لی ہے ۔

۱۷۰

تصميم دعا کی فکر

جيسا کہ ہم بيان کر چکے ہيں کہ یہ دعا تين مرحلوں پر مشتمل ہے: پہلا مرحلہ :جو دعا کے شروع کرنے کے حکم ميںہے جس ميں دعا کرنے والا الله کی بارگاہ ميں کهڑاہوکر دعا کرتا ہے ۔گڑاگڑا تا ہے اور خدا سے مانگتا ہے ،چونکہ گناہ انسان اور الله کے درميان حائل ہوکر دعا کو مقيد کر دیتے ہيں اور اگر بندہ خدا کے سامنے کهڑے ہوکر دعا کرنے کا موقف اپنا تا ہے تو اس کےلئے اس پہلے مرحلہ کی رعایت کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔

اس مرحلہ (ابتدائے دعا)ميں الله سے مانگنے، طلب کرنے کے طریقہ کی ابتداء بيان کرتے ہيں ان ميں سے ایک الله سے مغفرت طلب کرنا ہے:اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَهتِْکُ العِْصَمَ اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ النِّقَمَ ۔۔۔

“خدایا ميرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بڻہ لگادیتے ہيں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہيں ” یہ جملے مغفرت سے متعلق ہيں ۔

اوردوسرے مرحلہ ميں خدا کی یاد ،شکر اور اسکاتقرب طلب کيا گيا ہے:واَسالُکَ بِجُودِْکَ اَن تُدنِْيَنِي مِن قُربِْکَ وَاَن تُوزِْعَنِي شُکرَْکَ وَاَن تُلهِْمَنِي ذِکرَْکَ “تيرے کرم کے سہارے ميرا سوال ہے کہ مجهے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفيق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الہام کرامت فرما” پہلے تو انسان کے لئے خداوند عالم کی بار گاہ ميں دعا کرنے کےلئے کهڑاہونا ضروری ہے۔

جس کے نتيجہ ميں خداوند عالم اسکے گناہوں کو معاف کریگا،اسکے دل سے پردے ہڻا دیگا۔

دوسرے خداوند عالم کا بندے کو اپنے سے قریب ہونے اسکا شکر کرنے اوراس کے دل ميں تذکرہ کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔

۱۷۱

یہ دعا ميں وارد ہونے کے ابتدائی فقرے ہيں۔

اسکا دوسرا فقرہ الله کی بارگاہ ميں اپنی ضرورتوں کو پيش کرنا اوراسکی طرف راغب ہوناہے :

اَللَّهُمَّ وَاَسالُکَ سُوالَ مَن اشتَْدَّت فَاَقَتُهُ وَاَنزَْلَ بِکَ عِندَْ الشَّدَائِدِحَاجَتَهُ وَعَظُمَ فِيمَْا عِندَْک رَغبَْتُهُ

“مجهے ہر حال ميں تواضع اور فروتنی کی توفيق عطا فرماخدایا ميرا سوال اس بے نوا جيسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حاجتيں تيرے سامنے رکه دی ہوں اور جس کی رغبت تيری بارگاہ ميں عظيم ہو ” الله سے کوئی فرار نہيں کرسکتا اور نہ ہی خدا کے علاوہ بندے کی کوئی اور پناہگاہ ہے۔

یہ دو حقيقتيں ہيں:

الف۔الله سے کوئی مفر نہيں ہے

اَللَّهُمَّ عَظُمَ سُلطَْانُکَ وَعَلَا مَکَانُکَ وَخَفِيَ مَکرُْکَ وَظَهَرَاَمرُْکَ وَ غَلَبَ قَهرُْکَ وَجَرَت قُدرَْتُکَ وَلَایُْمکِْنُ الفِْرَارُ مِن حُکُومَْتِکَ

“خدایا تيری سلطنت عظيم ،تيری منزلت بلند،تيری تدبير مخفی ،تيرا امر ظاہر،تيرا قہر غالب اور تيری قدرت نافذ ہے اور تيری حکومت سے فرار ناممکن ہے ”

ب:الله کے علاوہ کو ئی اور پناہ گاہ نہيں ہے

اَللَّهُمَّ لاَاَجِدُلِذُنُوبِْي غَافِراًوَلَالَِقبَائِحِيسَْاتِراً،وَلَالِشَي ءٍ مِن عَمَلِيَ القَْبِيحِْ بِالحَْسَنِ مُبَدِّلاًغَيرَْکَ لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ

“خدایا ميرے گناہوں کے بخشنے والے،ميرے عيوب کی پردہ پوشی کرنے والے، ميرے قبيح اعمال کو نيکيوں ميں تبدیل کرنے والے تيرے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے ”

۱۷۲

یہ اس ابتدائی مرحلہ کا دوسرا فقرہ ہے اور اس مرحلہ کے تيسرے فقرے ميں حضرت علی انسان کی مایوسی اور اس کی طویل شقاوت کے بارے ميں فرماتے ہيں :

اَللَّهُمَّ عَظُمَ بَلَائِي وَ اَفرَْطَ بِي سُوءُ حَالِي،ْوَقَصُرَت بِي اَعمَْالِي،ْوَقَعَدَت بِي اَغلَْالِي،ْوَحَبَسَنِي عَن نَفعِْي بُعدُْاَمَلِي وَخَدَعَتنِْي الدُّنيَْابِغُرُورِْهَا،وَنَفسِْي بِجِنَایَتِهَاوَمِطَالي یَاسَيِّدي

“خدایا ميری مصيبت عظيم ہے ،ميری بدحالی حد سے آگے بڑهی ہوئی ہے ،ميرے اعمال ميں کوتاہی ہے،مجهے کمزوریوں کی زنجيروں نے جکڑکر بڻها دیا ہے اور مجهے دور درازکی اميدوں نے فوائد سے روک دیا ہے،دنيا نے دهوکہ ميں مبتلا رکها ہے اور نفس نے خيانت اور ڻال مڻول ميں مبتلا رکها ہے اے ميرے سردار” اس بے بسی ،رنج وغم اور شقا وت کے اسباب انسان کا عمل اور اس کی کوششيں ہيںلہٰذا وہ خداوند عالم سے دعا کرے کہ اس کے گنا ہوں کو معاف کردے اور ان گنا ہوں کو اپنے اور دعا کے درميان حا ئل نہ ہونے دے۔

فَاسئَْلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَایَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائي سُوءُْ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلَا تَفضَْحنِْي بِخَفِي مَااطَّلَعتَْ عَلَيهِْ مِن سِرِّي وَلَاتُعَاجِلنِْي بِالعُْقُوبَْةِ عَل یٰ مَاعَمِلتُْهُ فِی خَلَوَاتِي مِن سُوءِْ فِعلِْي وَ اِسَائَتِي وَدَوَامِ تَفرِْیطِْي وَجَهَا لَتِي وَکَثرَْةِ شَهوَْاتِي وَغَفلَْتي

“تجهے تيری عزت کا واسطہ ۔ميری دعاوں کو ميری بد اعمالياں روکنے نہ

پائيں اور ميں اپنے مخفی عيوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں۔ميں نے تنہا ئيوں ميں جو غلطياں کی ہيں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاہے وہ غلطياں بد عملی کی شکل ميں ہو ں یا بے ادبی کی شکل ميں۔مسلسل کوتاہی ہو یا جہالت یا کثرت خواہشات و غفلت ”

اس مرحلہ کے چو تهے فقرے ميں ایک بہت بڑے مطلب کی طرف اشار ہ کيا گيا ہے کہ بندہ کااپنے نقصان اور مایوسی کے وقت خدا کے علاوہ اس کا کو ئی ملجاو ماویٰ نہيں ہے :

اِ هٰلِی مَن لِي غَيرُْکَ اَسالَهُ کَشفَْ ضُرِّي وَالنَّظَرَ فِي اَمرِْي

“خدایا۔پروردگار۔ميرے پاس تيرے علاوہ کون ہے جو ميرے نقصانات کو دور کر سکے اور ميرے معاملات پر توجہ فرماسکے”

اس مرحلہ کے پانچویں فقرے ميں دوباتوں کا اعتراف کيا گيا ہے :

۱۷۳

١۔گناہوں کا اعتراف ۔

٢۔اس چيز کا اعتراف کہ بندہ جب الله کے حدودو احکام کی مخالفت کرتاہے اور اپنی خواہشات نفسانی ميں غرق ہوجاتا ہے تو وہ خدا کے سامنے کوئی حجت پيش نہيں کرسکتا ہے۔

اس مرحلہ کے آخری اور چهڻے حصہ ميں بندہ کا اپنے گناہوں ،معصيت ،نا اميدی شقاوت کا اعتراف کرناہے اوریہ اعلان کہ خدا سے کوئی فرار اختيار نہيں کرسکتا اور اسکے علاوہ بندہ کی کوئی پناہگاہ نہيں ہے،اور ا لله سے یہ درخواست کرناکہ وہ بندے سے اس کے برے افعال ،جرم وجرائم کا مواخذہ نہ کرے،الله کے سامنے گریہ و زاری اور اپنے مسکين ہونے کا اعتراف کرنے کے بعد بندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے مولا کی بارگاہ ميں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے،اس سے نادم ہے ، انکساری کرتا ہے چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار نہيں کيا جاسکتا ہے اور وہ اپنے نقصان اور رنج و غم کے وقت الله کے علاوہ کسی اور کے سامنے گڑگڑا نہيں سکتا ہے :

وَقَداَْتَيتُْکَ یَااِ هٰلِي بَعدَْتَقصِْيرْي وَاِسرَْافِي عَ لٰی نَفسِْي مُعتَْذِراًنَادِماً مُنکَْسِراًمُستَْقِيلْاًمُنِيبْاًمُقِرّاًمُذعِْناًمُعتَْرِفاً لَا اجِدُمَفَرّاًمِمَّاکَانَ مِنِّي وَلاَمَفزَْعاًاَتَوَجَّهُ اِلَيهِْ فِی اَمرِْيغَيرَْقَبُولِْکَ عُذرْي وَاِدخَْالِکَ اِیَّايَ فِي سَعَةِ رَحمَْتِکَ

“اب ميں ان تمام کوتاہيوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتيوں کے بعد تيری بارگاہ ميں ندامت انکساری، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساته حاضرہو رہاہوں کہ ميرے پاس ان گناہوں سے بهاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نہيں ہے اور تيری قبوليت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہيں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ ميں داخل کر لے”

۱۷۴

اس مقام پر یہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اور اس جملہ وقد اتيتکَ کے ذریعہ انسان خداوندعالم کی بارگا ہ ميں دعا اور تضرع کرنے کااعلان کرتا ہے۔

یہاں سے دعا کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلہ ميں امام عليہ السلام ان وسائل کا تذکر ہ فرماتے ہيں جن کے ذریعہ الله سے متوسل ہوا جاتا ہے اور ہمارے(مولف) نظر یہ کے مطابق وہ چار وسائل ہيں : پہلا وسيلہ: خداوندعالم کا اپنے بندوں پر فضل وکرم ورحمت اور ان سے محبت کرنا ہے :

یَامَن بَدَءَ خَلقِْي وَذِکرِْي وَتَربِْيَتِي وَهَبنِْي لِاِبتِْدَاءِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِي “اے ميرے پيداکرنے والے ۔اے ميرے تربيت دینے والے۔اے نيکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجهے معاف فرمادے ” دوسرا وسيلہ: ہمارا خداوندعالم سے محبت (لو لگا نا )کرنا اور اس کی وحدانيت کا اقرار کرنا ہے:

اَتُرَاکَ مُعَذِّبِي بِنَارِکَ بَعدَْ تَوحِْيدِْ کَ وَبَعدَْ مَاانطَْو یٰ عَلَيہِْ قَلبِْي مِن مَعرَْفَتِکَ وَلَهِجَ بِہِ لِسَانِي مِن ذِکرِْکَ وَاعتَْقَدَہُ ضَمِيرِْي مِن حُبِّکَ وَبَعدَْصِدقِْ اعتِْرَافِي وَدُعَائِي خَاضِعاًلِرَبُوبِْيَّتِکَ “پروردگار!کيا یہ ممکن ہے کہ ميرے عقيدہ توحيد کے بعد بهی تو مجه پر عذاب نازل کرے، یا ميرے دل ميں اپنے معرفت کے باوجود مجهے مورد عذاب قرار دے کہ ميری زبان پر مسلسل تيرا ذکر اور ميرے دل ميں برابر تيری محبت جاگزیں رہی ہے۔ ميں صدق دل سے تيری ربوبيت کے سامنے خاضع ہوں ” تيسرا وسيلہ: ہمارا عذاب کے تحمل کر نے ميں کمزوری کا اعتراف ہے اپنی کهال کی کمزوری اور ہڈیو ں کے ناتواںہونے کا اقرار کرناہے :وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفِْيعَن قَلِيلٍْ مِن بَلاَءِ الدُّنيَْاوَعُقوْبَْاتِهَاوَمایَجرِْي فِيهَْامِن المَْکَارِهِ عَل یٰ اَهلِْهَاعَل یٰ اَنَّ لٰذِکَ بَلاَ ءٌ وَمَکرُْوهٌْ قَلِيلٌْ مَکثُْهُ یَسِيرٌْبَقَائُهُ قَصِيرٌْمُدَّتُهُ فَکَيفَْ اِحتِْمَالِي لِبَلاَءِ الآخِرَةِ وَجَلِيلِْ وَقُوعِْ المَْکَارِهِ فِيهَْا اِ هٰلِي وَرَبِّي وَسَيِّدِي لِاَيّ الاُمُورِْاِلَيکَْ اَشکُْووَْلِمَامِنهَْااَضِجُّ وَاَبکِْي لِاَلِيمِْ العَْذَابِ وَشِدَّتِهِ اَم لِطُولِْ البَْلاَءِ وَمُدَّتِهِ

۱۷۵

“پروردگار تو جانتا ہے کہ ميں دنيا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہيں کر سکتا اور ميرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہيں جب کہ یہ بلائيں قليل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو ميں ان آخرت کی بلاوں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختياں عظيم ہيں۔۔۔خدایا۔ پروردگارا۔ ميرے سردار۔ميرے مولا! ميں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قيامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصيبت اور دراز مدت کے لئے”

چو تها وسيلہ : امام عليہ السلام نے اس دعا ميں بيان فرمایا ہے وہ اس بهاگے ہو ئے غلام کی طرح ہے جس نے اپنے آقا کی نافرمانی کی ہو اور وہ پهر اپنے آقا کی پناہ اور اس کی مدد چاہتا ہو جب اسکے تمام راستہ بند ہو گئے ہوں اور اس کی اپنے مولا کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہ ہو۔

اس وسيلہ کی امام عليہ السلام ان کلمات ميں عکاسی فرماتے ہيں :ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاًلاضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدِي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْسرِْخِينَْ وَلَابکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْومِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْستَْغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ هٰلَ العَْالَمِينَْ

“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقين کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے” یہاں پراس دعا ئے شریفہ کے چار وں وسيلے پيش کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے جن کے ذریعہ بندہ الله سے دعا اور سوال کرنے کےلئے لو لگاتا ہے ۔

۱۷۶

اب ہم اس دعا ئے شریفہ کے تيسر ے مرحلہ کو پيش کر تے ہيں ۔(امام عليہ السلام ان چاروں وسيلوں سے الله سے متوسل ہو نے کے بعد )جس ميں امام عليہ السلام اپنی حاجات ومطالب کو یکے بعد دیگر ے خدا کی بارگاہ ميں پيش کرتے ہيں یہ تمام حاجتيں ایک پست نقطہ یعنی بندہ کی حيثيت اور اس کے عمل سے شروع ہوتی ہيں اور بلندترین نقطہ قمہ یعنی انسان کا اپنے آقا کی رحمت کے سلسلہ ميں وسيع شوق پر ختم ہو تی ہيں ۔

ہم پستی کے مقام پر اس طرح پڑهتے ہيں :

ان تَهَبَ لِيفِي هٰذِه اللَّيلَْةِ وَفِي هٰذِهِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرمٍْ اَجرَْمتُْهُ وَکُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْهُ وَکُلَّ قَبِيحٍْ اَسرَْرتُْهُ

“ مجهے اِسی رات ميں اور اِسی وقت معاف کردے ۔ميرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائياں۔۔۔ ” اور بلند نظری کے سلسلہ ميں ہم اس طرح پڑهتے ہيں :وَاجعَْلنِْي مِن اَحسَْنِ عَبِيدِْکَ نَصِيبْاً عِندَْکَ وَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَّدَیکَْ

“ اور مجهے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکهنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا ”

اور جن حاجتوں کو امام عليہ السلام نے ان فقروں ميں بيان فرمایا ہے ان کے چار گروہ ہيں ۔

١۔پہلا گروہ :خداوندعالم ہم کو بخش دے اور ہم سے ہمار ے گناہوں کا مواخذ ہ نہ کرے ہماری برایئو ں سے در گذرفرما ہمار ے جرم اور جن برائيوں کا ہم نے ارتکاب کيا ان کو معاف فرما:

ان تَهَبَ لِي فِی هٰذِه اللَّيلَْةِ وَفِي هٰذِهِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرمٍْ اَجرَْمتُْهُ وَکُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْهُ وَکُلَّ قَبِيحٍْ اَسرَْرتُْهُ وَکُلَّ جَهلٍْ عَمِلتُْهُ کَتَمتُْهُ اَواَْعلَْنتُْهُ،اَخفَْيتُْهُ اَو اَظهَْرتُْهُ،وَکُلَّ سَيِّئَةٍ اَمَرتَْ بِاِثبَْاتِهاَالکِْرَامَ الکَْاتِبِينَْ الَّذَینَْ وَکَّلتَْهُم بِحِفظِْ مَایَکُونُْ مِنِّي وَجَعَلتَْهُم شَهُودْاًعَلَیَّ مَعَ جَوَارِحي

“ مجهے اِسی رات ميں اور اِسی وقت معاف کردے ۔ميرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائياں اور ساری جہالتيں جن کو ميں نے خفيہ طریقہ سے یا علی الاعلان چهپاکر یا ظاہر کر کے عمل کيا ہے اور ميری تمام خرابياں جنهيں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبين کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معين کيا ہے اور ميرے اعضاء و جوارح کے ساته ان کو ميرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے ”

۱۷۷

دوسرے گروہ ميں امام علی عليہ السلام الله سے رحمت نازل کرنے کےلئے عرض کرتے ہيں اور خدا سے عرض کرتے ہيں اے پروردگار وہ ہر شان ،ہر رزق اور خير جو تو نازل کرتاہے اس ميں ميرا حصہ قرار دے ۔

وَاَن تُوَفِّرَحَظِّي مِن کُلِّ خَيرٍْاَنزَْلتَْهُ اَوبِْرٍّ نَشَرتَْهُ اَو رِزقٍْ بَسَطَّتَهُ

“ميرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خير و احسان اور نشر ہونے والی ہرنيکی ،ہر وسيع رزق،ہر بخشے ہوئے گناہ،عيوب کی ہر پردہ پوشی ميں سے ميرا وافر حصہ قرار دے ”

یہ وسيع دعا ان تمام چيزوں کو شامل ہے جو الله کی رحمتوں سے خارج نہيں ہو سکتی ہيں ۔

اس دعاکے تيسرے گروہ ميں طولا نی فقرے ہيں اور اس مطلب کی عکاسی کرتے ہيں کہ امام علی عليہ السلام نے الله سے لو لگانے کا بڑا اہتمام فرمایا ہے ۔ مولائے کائنات خداوند عالم کی بارگاہ ميں عرض کرتے ہيں کہ ميرے اوقات کو اپنے ذکر سے پر کردے اپنی خدمت ميں لگے رہنے کی دهن لگادے ، اپنے (خدا ) سے ڈرتے رہنے کی تو فيق عطا کر ، اپنے سے قریب کر اور اپنے جو ارميں جگہ عطا فرما :

اَسالُکَ اَن تَجعَْلَ اَوقَْاتِي مِنَ اللَّيلِْ وَالنَّهَارِ بِذِکرِْکَ مَعمُْورَْةً وَبِخِدمَْتِکَ مَوصُْولَْةً قَوِّعَل یٰ خِدمَْتِکَ جَوَارِحِي،ْ وَاشدُْدعَْلَی العَْزِیمَْةِ جَوَانِحِي وَهَب لِیَ الجِْدَّفي خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامِ فِي الاِْتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ حَتّ یٰ اَسرَْحَ اِلَيکَْ فِي مَيَادِینِْ السَّابِقِينَْ،وَاشتَْاقَ اِ لٰ ی قُربِْکَ فِي المُْشتَْاقِينَْ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُوَّالمُْخلِْصِينَْ،وَاَخَافَکَ مَخَافَةَالمُْوقِنِينَْ،وَاجتَْمِعَ فِي جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ

“ميں تجه سے سوال کرتاہوںکہ دن اوررات ميں جملہ اوقات اپنی یادسے معمور کرد ے ۔ اپنی خدمت کی مسلسل توفيق عطا فرما۔۔۔اپنی خدمت کے لئے ميرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے ميرے ارادہ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پيدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تيری طرف سابقين کے ساته آگے بڑهوں اور تيز رفتار افراد کے ساته قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقين کے درميان تيرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصين کی طرح تيری قربت اختيار کروں۔

۱۷۸

صاحبان یقين کی طرح تيرا خوف پيدا کروں اور مومنين کے ساته تيرے جوار ميں حاضری دوں” ہمارے لئے یہ بتا نا ضروری ہے کہ پہلے اور تيسرے گروہ کے دعا کے تمام فقرے بندے کے الله سے لولگانے کےلئے مخصوص ہيں ليکن پہلے گروہ (قسم) ميں سلبی پہلو اختيار کيا گيا ہے اس ميں انسان الله سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے ان سے در گذر چاہتا ہے ؛اور تيسرے گروہ (قسم)ميں ایجابی (مثبت)پہلو کو مدنظر رکها گيا ہے اس ميں خدا سے اخلاص ، خوف ، خشيت ،حب اور شوق کی بنياد پر الله سے لولگانے کو کہا گيا ہے ۔

چوتهے گروہ (قسم ) ميں ان مطالب کو مد نظر رکها گيا ہے جن ميں امام نے خداوند عالم سے ظالموں کے مکراوران کے شر سے بچنے کی در خواست کی ہے اور ان کے شر کو خود ان ہی کی طرف پلڻنا نے کو کہا ہے اور ظالموں کے ظلم اور ان کی اذیتوں سے محفوظ رہنے کی در خواست کی ہے :

اَللَّهُمَّ وَمَن اَرَادَنِي بِسُوءٍْ فَاَرِدهُْ،وَمَن کَادَنِي فَکِدهُْ “خدایا !جو بهی کوئی ميرے لئے برائی چاہے یا ميرے ساته کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا ”

وَاکفِْنِي شَرَّالجِْنِّ وَالاِْنسِْ مِن اَعدَْائِي

“اورمجهے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا ” یہ اس دعا شریف کا بہت ہی مختصر اور مفيد خلاصہ ہے ۔ لہٰذا اس اجمال کی تشریح کرنا ضروری ہے ۔

دعا ء کميل کے چار و سيلے

اب ہم دعاء کميل کے چارو سيلوں کے سلسلہ ميں بحث کرتے ہيں اور یہ اس دعا شریف کی دوسری فصل ہے ۔

۱۷۹

پہلا وسيلہ

خدا وند عالم نے اپنے بندے پر پہلے ہی اپنا فضل و کرم فرمادیا ہے ۔جب بندہ اپنے عمل و کو شش ميں عاجزہو جاتا ہے اور اس کے اور الله کے درميان پر دے حائل ہوجاتے ہيں تو خدا کا بندے پر فضل اور اس کی رحمت خدا تک پہنچنے کے لئے بندہ کی شافع ہوتی ہے ۔

خدا کا بندے پر سابق فضل اور رحمت نازل کرنا الله کا بندے سے محبت کرنے کی علامت ہے ۔

اور اسی (حب الٰہی)کے ذریعہ بندہ خدا وند عالم کے سامنے اپنی حاجتيں پيش کرتا ہے جب بندہ خدا کی رحمت کا مستحق نہيں ہوتا تو الله کی محبت اس کو اپنی رحمت اور فضل کا اہل بنا دیتی ہے اور اس کو مقام اجابت تک پہنچاتی ہے امام عليہ السلام اس وسيلہ کے بارے ميں فرماتے ہيں :

یَامَن بَدَ ءَ خَلقِْي وَذِکرِْي وَتَربِْيَتِي وَبِرِّي،ْهَبنِْيِلاِبتِْدَاءِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِي

“اے ميرے پيداکرنے والے ،اے ميرے تربيت دینے والے،اے نيکی کرنے والے!

اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجهے معاف فرمادے ” ہماری پيدائش بهی الله سے سوال کرنے سے پہلے نيکی کاذکر، خلق اور تربيت کے ذریعہ ہو ئی جبکہ ہم اس کے مستحق نہيں تهے ۔

جب ہما رے گناہ اور ہماری برائياں الله کی نيکی اور اس کی رحمت کے درميان حا ئل ہو جا تے ہيں تو الله کی محبت ہماری شفاعت کرتی ہے اور ہم کو الله کے روبر واور اسکی رحمت کے مقام پر لاکر کهڑاکردیتی ہے ۔

۱۸۰