دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43157
ڈاؤنلوڈ: 2524


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43157 / ڈاؤنلوڈ: 2524
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

دوسرا وسيلہ

ہماری خدا سے محبت ، اس کی ہمارے لئے کا مياب محبت کا وسيلہ ہے ۔امام عليہ السلام نے پہلے وسيلہ ميں خدا کی محبت کا ذکر کيا ہے اور اس کے بعد خداوند عالم سے اپنی محبت کو وسيلہ قرار دیا ہے ۔

اس وسيلہ کے سياق ميں ہمارا خدا کی وحدانيت کا اقرار ، اس کی بارگاہ ميں خضوع و خشوع، ہماری نمازیں سجدے ، ذکر ، شهادت (گواہی )، اس کی ربوبيت کا اقرار نيز اس کی عبودیت کا اقرار کرنایہ تمام چيزیں آتی ہيں ۔ ان تمام چيزوں کا مرجع دو ہی چيزیں ہيں :ہمارا اس سے محبت کرنا اور اس کی توحيد کا اقرار کرنا ہے ۔بيشک (حب)اور (توحيد )دونوں ایسے سرمایہ ہيں جن کو الله ردنہيں کرتا ہے اور ہم کو بهی دو نوں چيزوں ميں ایک لحظہ کيلئے بهی کو ئی شک نہيں کرنا چاہئے ۔

امام عليہ السلام اس وسيلہ سے متوسل ہونے کےلئے فرماتے ہيں :اَتُرَاکَ مُعَذِّبِي بِنَارِکَ بَعدَْ تَوحِْيدِْکَ وَبَعدَْ مَاانطَْو یٰ عَلَيهِْ قَلبِْي مِن مَعرَْفَتِکَ وَلَهِجَ بِهِ لِسَانِيمِن ذِکرِْکَ وَاعتَْقَدَهُ ضَمِيرِْي مِن حُبِّکَ وَبَعدَْصِدقِْ اعتِْرَافِيوَدُعَائِي خَاضِعاً لِّرُبُوبِْيِّتِکَ

“کيا یہ ممکن ہے کہ ميرے عقيدہ توحيد کے بعد بهی تو مجه پر عذاب نازل کرے، یا ميرے دل ميں اپنی معرفت کے باوجود مجهے مورد عذاب قرار دے کہ ميری زبان پر مسلسل تيرا ذکر اور ميرے دل ميں برابر تيری محبت جاگزیں رہی ہے۔ميں صدق دل سے تيری ربوبيت کے سامنے خاضع ہوں ’

۱۸۱

یہاں پرہم دعا کے اس فقرہ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہيں ۔ کہا جاتا ہے :جب خدا وند عالم نے حضرت یوسف عليہ السلام کو مصر کی حکو مت وسلطنت عطا کی توآپ ایک دن اپنے گهر کے سامنے تخت پر ایک ایسے نيک وصالح بندے کے ساته تشریف فرماتهے جس کو الله نے علم اور نور عطا کياتها ، اسی وقت اس تخت کے پاس سے ایک نوجوان کا گذر ہواتو اس صالح بندے نے حضرت یوسف عليہ السلام سے عرض کيا کہ کياآپ اس جوان کو پہچانتے ہيں؟ آپ نے فرمایا :نہيں تو اس بندے نے عرض کيا :یہ وہی بچہ ہے جس نے آپ کے بری وپاک ہونے کی اس وقت گواہی دی تهی جب عزیز مصر کی زوجہ نے آپ پر الزام لگایا تها ۔

وَشَهِدَشَاهِدٌ مِن اَهلِْهَااِن کَانَ قَمِيصُْهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَمِنَ الکَْاذِبِينَْ وَاِن کَانَ قَمِيصُْهُ قُدَّمِن دُبُرٍفَکَذَبَت وَهُوَمِنَ الصَّادِقِينَْ ( ١)

“اور اس پر اس کے گهر والوں ميں سے ایک گواہ نے گو اہی بهی دیدی کہ اگر ان کا دامن سا منے سے پهڻا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جهوڻوں ميں سے ہيں اور اگر ان کا کر تا پيچهے سے پهڻا ہے تو وہ جهو ڻی ہے اور یہ سچو ں ميں سے ہيں ”

یہ وہی شير خوا ربچہ ہے جس نے گہوار ے ميں آپ کی گواہی دی تهی اور یہ اب جوان ہوگيا ہے حضرت یوسف عليہ السلام نے اس کو بلا یا ،اپنے پہلو ميں بيڻهایا اور اس کا بہت زیادہ احترام کيا اور وہ عبد صالح حضرت یو سف عليہ السلام کے پاس متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے حضرت یوسف کے اس برتاؤکا مشاہد ہ کرتارہا۔ حضرت یوسف عليہ السلام نے اس نيک بندے سے فرمایا۔کيا تم کو ميرے اس جوان کے عزت وکرام کر نے پر تعجب ہو رہاہے ؟ تو اس نے کہا :نہيں ليکن اس جوان کی آپ کے بری الذمہ ہو نے کی گواہی کے علاوہ اور کوئی حيثيت نہيں ہے ،خدا نے اس کو قوت گویائی عطا کی جبکہ اس کی خود اس

____________________

١)سورئہ یو سف آیت/ ٢۶ ۔ ٢٧ ۔ )

۱۸۲

ميں کوئی فضيلت نہيں ہے ،اس کے باوجود آپ نے اس کا اتنا زیادہ اکرام کيا اس کو اتنی عزت دی ہے ۔

تو یہ کيسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ الله کے سامنے اتنے طولانی سجد ے کرے اور وہ اس کو جہنم کی آگ ميں جلادے ،یا اس بندے کے اس دل کو جلادے جو اس کی محبت سے لبریزہے ،یا اس کی اس زبان کو جلادے جس سے اس نے خدا کو بہت زیادہ یاد کيایا اسکی وحدانيت کی گواہی دی اور اس کی وجہ سے شرک کا انکار کيا ہے ؟

حضرت امام علی عليہ السلام اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں :

وَلَيتَْ شِعرِْي یَاسَيَّدِي وَاِ هٰلِي وَمَولَْائِي اتُسَلِّطُ النَّارَعَل یٰ وُجُوهٍْ خَرَّت لِعَظمَْتِکَ سَاجِدَةً وَعَ لٰی اَلسُْنٍ نَطَقَت بِتَوحِْيدِْکَ صَادِقَةً وَبِشُکرِْکَ مَادِحَةً وَعَل یٰ قُلُوبِْ اعتَْرَفَت بِاِ هٰلِيَّتِکَ مُحَقِّقَةً وَعَ لٰی ضَمَائِرَحَوَت مِنَ العِْلمِْ بِکَ حَتّ یٰ صَارَت خَاشِعَةً وَعَل یٰ جَوَارِحَ سَعَت اِ لٰ ی اَوطَْانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً،وَاَشَارَت بِاِ ستِْغفَْارِکَ مُذعِْنَةً مَا هٰکَذَاا لظَّنُّ بِکَ وَلَااُخبِْرنَْابِفَضلِْکَ عَنکَْ یَاکَرِیمُْ

“ميرے سردار ۔ميرے خداميرے مولا ! کاش ميں یہ سوچ بهی سکتا کہ جو چہرے تيرے سامنے سجدہ ریز رہے ہيں ان پر بهی توآگ کو مسلط کردے گااور جو زبانيں صداقت کے ساته حرف توحيد کو جاری کرتی رہی ہيں اور تيری حمد وثنا کرتی رہی ہيں یا جن دلوں کو تحقيق کے ساته تيری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمير تيرے علم سے اس طرح معمور ہيں کہ تيرے سامنے خاضع وخاشع ہيں یا جو اعضاء و جوارح تيرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہيں اور تيرے استغفا ر کو یقين کے ساته اختيار کرنے والے ہيں ؛ان پر بهی تو عذاب کرے گا۔ہر گز تيرے بارے ميں ایسا خيال بهی نہيں ہے اور نہ تيرے فضل وکرم کے بارے ميں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے ”

تيسرا وسيلہ

عذاب برداشت کرنے کے مقابلہ ميں ہمارا کمزور ہو نا ، ہماری کهال کا باریک ہونا ،ہماری ہڈیوں کا کمزور ہونا ،ہم ميں صبر اور قوت برداشت کے مادہ کاکم ہونا ،کمزوری، قوی متين تک پہنچنے ميں ایک کا مياب وسيلہ ہے ،ہر کمزورقوی کو جذب کرنے اور اس کی عطوفت ومحبت کو اخذ کر نے کی خواہش کرتا ہے ۔

بيشک کمزور ميں ایک راز ہے جس کی بنا پراسے ہميشہ قوی کی طلب ہو تی ہے اسی طرح قوی (طاقتور )کو ہميشہ کمزور کی تلاش رہتی ہے یعنی دونوں ميں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی تلاش رہتی ہے ۔

۱۸۳

بيشک شيرخوار اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی ماں کی محبت چاہتا ہے جس طرح مادر مہربان کو بچہ کی کمزوری اوراس کی رقت کی چاہت ہو تی ہے ۔ کمزور کا اسلحہ اور وسيلہ بکا اور اميد ہے اميرالمو منين علی عليہ لاسلام اس دعا ء کميل ميں فرماتے ہيں :

یَامَنِ اسمُْهُ دَوَاءٌ،وَذِکرُْهُ شِفَاءٌ وَطَاعَتُهُ غِنیً اِرحَْم مَن رَّاسُ مَالَهُ الرَّجَاءُ وَسِلاَحَهُ البُْکَاءُ

“اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا۔۔۔ اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط اميداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے”

بيشک فقير کا اصل سرما یہ غنی (مالدار )سے اميد رکهناہے ،کمزور کا اسلحہ، قوی کے نزدیک گریہ وزاری کر ناہے ،اوردنيا ميں جو کمزور کے ،قوی وطاقتور سے اور طاقتور کے کمزور سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں الله کی سنتوں کو نہيں سمجه پا ئے گا وہ اس دعا ء کميل ميں حضرت علی عليہ السلام کے ان موثر فقروں کو نہيں سمجه پائيگا ۔

حضرت امام علی بن ابی طالب عليہ السلام دوسری مناجات ميں فرماتے ہيں :

انت القوي واناالضعيف وهل یرحم الضعيف الاالقوي

“تو قوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کيا طاقتور کے علاوہ کو ئی کمزور پر رحم کر سکتا ہے ”

امام عليہ السلام اس دعا کميل ميں بندے کی کمزور ی ،اس کی تدبير کی کمی اسکے صبر وتحمل کے جلد ی ختم ہوجانے ،کهال کے رقيق ہو نے اور اسکی ہڈیوںکے رقيق ہونے سے متوسل بہ بارگا ہ خد ا و ند قدوس ہوتے ہيں ۔ امام عليہ السلام فرماتے ہيں :

یَارَبِّ ارحَْم ضَعفَْ بَدَنِي وَرِقَّةَجِلدِْي وَدِقَّةَ عَظمْي “پروردگار ميرے بدن کی کمزوری، ميری جلد کی نرمی اور ميرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما ’

ہم کو دنيا ميں کا نڻا چبهتا ہے ،انگارے سے ہمارا ہاته جل جاتا ہے اور جب ہم کودنيا ميں ہلکی سی بيماری لا حق ہو جاتی ہے تو ہماری نيند اڑجاتی ہے اور ہم بے چين ہو جاتے ہيں ،جبکہ اس تهوڑی سی دیر کی بيماری کو خداوندعالم نے امتحان کے لئے قرار دیا ہے تو ہم اس وقت کيا کریں گے جب ہم درد ناک عذاب کی طرف لے جائے جا ئيںگے اورعذاب کے فرشتوں سے کہا جائيگا :

( خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ ثُمَّ الْجَحِيْمُ صَلُّوْهُ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍذَرْعُهَاسَبْعُوْنَ ذِرَاعاً ( فَاسْلُکُوْهُ ) ( ١)

“اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو ،پهر اسے جہنم ميں جهونک دو ،پهر ستر گز کی ایک رسی ميں اسے جکڑلو ”

امام عليہ السلام فرما تے ہيں :

وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفِْيعَن قَلِيلٍْ مِن بَلاَءِ الدُّنيَْاوَعُقوْبَْاتِهَاوَمایَجرِْی فِيهَْا مِن المَْکَارِهِ عَل یٰ اَهلِْهَاعَل یٰ اَنَّ لٰذِکَ بَلاَ ءٌ وَمَکرُْوهٌْ قَلِيلٌْ مَکثُْهُ یَسِيرٌْبَقَائُهُ قَصِيرٌْمُدَّتُهُ

____________________

١)سورئہ الحاقة آیت/ ٣٠،٣١،٣٢ ۔ )

۱۸۴

فَکَيفَْ اِحتِْمَالِی لِبَلاَءِ الآخِرَةِ وَجَلِيلِْ وَقُوعِْ المَْکَارِهِ فِيهَْاوَهُوَ بَلَاءٌ تَطُولُْ مُدَّتُهُ وَیَدُومُْ مُقَامُهُ وَلَایُخَفِّفُ عَن اَهلِْهِ لِاَنَّهُ لَایَکُونُْ إِلَّاعَن غَضَبِکَ وَانتِْقَامِکَ وَسَخَطِکَ وَ هٰذَا مَالَاتَقُومُْ لَهُ السَّ مٰواتِ وَالاَْرضَْ یَاسَيِّدِي فَکَيفَْ لِي وَاَنَاعَبدُْکَ الضَّعِيفُْ الذَّلِيلُْ الحَْقِيرُْالمِْسکِْينُْ المُْستَْکِينُْ یَااِ هٰلِي وَرَبِّي وَسَيِّدِی وَمَولْاي

“پروردگار اتو جانتا ہے کہ ميں دنيا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہيں کر سکتا اور ميرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہيں جب کہ یہ بلائيں قليل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو ميں ان آخرت کی بلاوں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختياں عظيم،جن کی مدت طویل اور جن کا قيام دائمی ہے۔جن ميں تخفيف کا بهی کوئی امکان نہيں ہے اس لئے کہ یہ بلائيں تيرے غضب اور انتقام کا نتيجہ ہيں اور ان کی تاب زمين وآسمان نہيں لاسکتے ،تو ميں ایک بندہ ضعيف و ذليل و حقير ومسکين وبے چارہ کيا حيثيت رکهتا ہوںخدایا، پروردگارا، ميرے سردار،ميرے مولا”

چو تها وسيلہ

امام عليہ السلام اس دعا ميں بندہ کے الله سے مضطر ہو نے کو بيان فر ماتے ہيں اورانسان کےلئے اضطرار ایک کا مياب وسيلہ ہے اور اس کی حا جتيں الله کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ پوری نہيںہو سکتی ہيں ۔

ہماری اضطرار سے مراد یہ ہے کہ انسان کی حا جتيں الله کے علاوہ کو ئی اورپورا نہيں کر سکتا ہے اور اس کی پنا ہگاہ کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہيں ہے ،انسان الله کے علاوہ کسی اور جگہ بهاگ کر جاہی نہيں سکتا الله کے علاوہ اس کو کوئی اور پناہگاہ نہيں مل سکتی ہے ۔

چهو ڻابچہ بچپن ميں اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اورکو ایسا نہيں پاتا جو اس کے کام آئے اس کا دفاع کر ے اس کی حاجتيں پوری کرے اس کی ہر خواہش وچاہت پر لبيک کہے اس پر عطوفت کرے لہٰذا وہ اپنے والدین سے مانوس ہوتا ہے وہ اپنے ابهرتے بچپن ميں ان دونوں سے اپنے ہر مطالبہ اور ہر ضرورت کوان کی رحمت رافت شفقت سے پاتا ہے جب بچہ کو کوئی تکليف ہوتی ہے تو ان کو تکليف ہو تی ہے جب اس کو کسی چيز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی پناہ ميں آجاتا ہے اور ان کے پاس اس کو امن وچين ،رحمت اور شفقت ملتی ہے اس کی ضرورتيں پوری ہو تی ہيں اور جس چيز سے اس کو خوف ہو تا ہے ان سے امان ملتی ہے ۔

۱۸۵

جب وہ کبهی ایسا کام انجام دیتا ہے جس ميں وہ ان دونوں کے عقاب کا مستحق ہو تا ہے اور اس کو اپنی جان کا خوف ہو تا ہے تو وہ اپنے دائيں بائيں نظریں ڈالتا ہے تو اس کو کوئی پناہگا ہ نظر نہيں آتی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے فرار کر سکتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی امن کی جگہ اس کو نظر نہيں آتی تو انهيں کی پنا ہگا ہ ميں چلا جاتا ہے اور اپنے نفسں کو ان کا مطيع وفرمانبردار کہہ کران سے فریاد کرتا ہے حالا نکہ وہ دونوں اس کو مار نے اور مواخذ ہ کرنے کا اراد ہ کرتے ہيں ۔ والدین کو بهی اس طرح کے اکثر مناظردیکهنے کو ملتے ہيں اور بچہ ان کی محبت اور عطو فت کوحاصل کرليتا ہے ۔

امام عليہ السلام اس دعا ئے شریفہ ميں اسی معنی کی طرف اشارہ فر ماتے ہيں کہ آپ ہر مسئلہ ميں الله سے پناہ مانگتے تهے جب آپ پر کو ئی سخت وقت آتاتها،کو ئی مصيبت پڑتی تهی یا کسی مصيبت کا سامنا کرنا پڑتا تها تو آپ الله کی بارگاہ ميں فریاد کرتے تهے اور اسی سے لو لگاتے تهے ليکن پهر بهی آ پ کو اپنی مصيبت کے سلسلہ ميں الله کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہيں ملتی تهی امام عليہ السلام انسان کا اسی حالت ميںمشاہدہ کرتے ہيں وہ خداوند عالم کے اسی غضب کے سا منے ہے جس کی رحمت کی اسے اميد ہے اور اس خداوند قدوس کی عقوبت کے سامنے ہے جس کے غضب سے وہ سلا متی چاہتا ہے ۔ بندے کی (جب وہ اپنے کو الله کے عذاب کا مستحق دیکهتا ہے )الله کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہيںہے الله کے علاوہ وہ کہيںفرارا ختيار نہيں کرسکتا نہ اس کو خدا کے علا وہ کسی کی حمایت حا صل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کے علا وہ کسی اور سے سوال کرسکتا ہے ۔

جب عذاب کے فرشتے اس کو جہنم کی طرف لے جاتے ہيں تو وہ خدا کی بارگاہ ميں گڑگڑا تا ہے اس سے امن وچين طلب کر تا ہے اس سے فریاد کر تا ہے ،اپنے نفس کےلئے اس سے رحمت طلب کرتا ہے جيسے وہ بچہ کہ جب اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہيں تو اس کے پاس ان دونو ں کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار کر نے کی کوئی جگہ باقی نہيں رہ جاتی ہے اوروہ ان کے علاوہ وہ کسی کو اپنا مونس ومدد گار نہيں پاتا ہے ۔

۱۸۶

ہم امام عليہ السلام سے ان کلمات ميں دقيق ورقيق و شفاف مطالب کو سنتے ہيں جن کو توحيد اور دعا کی روح وجان کہا جاتا ہے :ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدِي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْصرِْخِينَْ وَلَابکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْومِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْستَْغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ هٰلَ العَْا لَمِينَْ

“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس،صادقين کے دلوں کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے” قضيہ کی یہ پہلی وجہ ہے اور دوسری وجہ بهی پہلی وجہ کی طرح واضح و روشن ہے یعنی خداوند عالم کا اپنے بندہ سے رابطہ ۔

پہلی وجہ کا خلا صہ یہ ہے کہ بندہ جب مضطر ہو تا ہے تو خدا سے ہی لو لگاتا ہے اس کی رحمت اور اس کی امن کی تلاش ميں رہتا ہے ۔

بندہ سے خداوند عالم کے محبت کرنے کا دو سرا رخ اس وقت نظر آتا ہے جب وہ تيز بخار ميں مبتلا ہوتا ہے اور اُس (خدا ) کی رحمت کا طلبگار ہو تا ہے خدا وند عالم سے خود اسی خدا کی طرف فرار کرتا ہے خداوند عالم کی رحمت اور فضل کو اس حال ميں طلب کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی عقوبت اور انتقام کے سامنے ہوتا ہے ۔

کيا یہ ممکن ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ارحم الراحمين ہو نے کے باوجود بندہ کی فریاد سنتا ہو اور اس(بندہ )کو اس کی عقل کی کمی اور جہالت کی وجہ سے اس کا ڻهکانا جہنم بنا دے جبکہ وہ اس سے فریا د کرتا ہے ،اس کا نام ليکر چيختا ہے ،اپنی زبان سے اس کی توحيد کا اقرار کرتا ہے ،اس سے جہنم سے نجات کا سوال کرتا ہے ،اور اسی کی بارگاہ ميں گڑگڑاتا ہے ۔۔۔اور وہ اس کو جہنم کے عذاب ميں ڈال دے اور اس کے شعلے اس کو جلا دیں ،اس کو جہنم کی آواز پریشان کرے ،اس کے طبقوں ميں لوڻتارہے، اس کے شعلے اس کو پریشان کریں جبکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ یہ بندہ اس سے محبت کرتا ہے یہ سچ بول رہاہے اس کی توحيد کا اقرار کر رہا ہے اس سے پناہ مانگ رہا ہے اور اسی کا مضطر ہے ۔

۱۸۷

پس تم غور سے سنو :

اَفَتُرَاکَ سُبحَْانَکَ یَااِ هلِٰي وَبِحَمدِْکَ تَسمَْعُ فِيهَْاصَوتَْ عَبدٍْمُسلِْمٍ سُجِنَ فِيهَْابِمُخَالَفَتِهِ وَذَاقَ طَعمَْ عَذَاِبهاَبِمَعصِْيَتِهِ وَحُبِسَ بَينَْ اَطبَْاقِهَابِجُرمِْهِ وَجَرِیرَْتِهِ وَهُوَیَضِجُّ یدِکَ وَیَتَوَسَّلُ اِلَيکَْ کَ بِلِ سٰانِ اهلِْ تَوحْ اِلَيکَْ ضجٍيجَ مُُومِّلٍ لرَحمَْتِکَ وَی اْٰندی بِرُبُوبِيَّتِکَ یٰ امَو اْٰلیَ فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَیَرجْوُ اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُولِمُهُ یبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْه وَتَر یٰ مَ اٰ کنَهُ اَم الناٰرُّ وَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُهُ لَه یرُ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْهُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيهِْ زَف ی عِتقِْهِ یکَ ی رَٰابَّهُ اَم کَيفَْ یَرجُْو فَضلَْکَ ف صِدقَْهُ اَم کَيفَْ تَزجُْرُهُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰند ی هٰاهَي هْٰاتَ اٰ م اٰ ذلِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالمَْعرْوُفُ مِن فَضلِْکَ وَ اٰلمُشبِْهٌ مِن هْٰافَتَترُْکُهُ ف ینَ مِن بِرِّکَ وَاِح سْٰانِکَ لِ مٰا عٰامَلتَْ بِهِ المُْوَحِّد

“اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم ميں گرفتار اور معصيت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکهنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروڻيں بدلنے والا بنادے اور پهر یہ دیکهے کہ وہ اميد وار رحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحيد کی طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسيلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہيں سنتا ہے۔

خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا،جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا،وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ،جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس طرح چهوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے ،تونے جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک برتاو کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے”

۱۸۸

فہرست

دعا کی تعریف ۴

١۔مدعو : ۵

٢۔داعی :(دعا کر نے والا ) ۷

٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا) ۷

۴ ۔مد عوّلہ (جس کے لئے یاجو طلب کيا جا ئے ) ۸

دعاکی قدر و قيمت ۹

دعا ،روح عبادت ہے ۱۳

استجابت دعا ۲۰

قبوليت دعاکی دو جزائيں ۲۳

دعا اور استجابت دعا کا رابطہ ۲۶

دعا قبول ہونے کے درميان کيا رابطہ ہے؟ ۲۶

استجابت کيسے تمام ہوتی ہے؟ ۲۶

دعاقبول ہونے ميں الله کی سنت کيا ہے؟ ۲۷

دعا ،رحمت کی کنجی ہے ۲۷

عمل اور دعا الله کی رحمت کی دو کنجيا ں ۳۰

دعااور عمل کے درميان رابطہ ۳۳

دعا اوراستجا بت دعاکے درميان را بطہ ۳۸

حاجت اور فقر کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ۴۵

ضرورت سے پہلے دعا کرنا ۴۶

۱۸۹

بارگاہ خداميں احساس نيازمندی کی علامتيں ۵۰

پہلی قسم کے موانع دعا ۵۶

موانع (رکا و ڻوں)کی دوسری قسم ۶۲

دعا کی قبو ليت ميں تاخير یا تبد یلی ۶۴

دعا کی قبو ليت اور دعا کے در ميان رابطہ ۶۹

دعا کے آداب اور اس کی شرطيں ۸۵

١۔الله کی معرفت ۸۹

٢۔الله سے حسن ظن ۹۴

٣۔ الله کی بار گاہ ميں اضطرار ۹۹

۴ ۔انهيں راستوں سے جاناجو خدا نے بتائے ہيں ۱۰۲

۵ ۔خداوند عالم کی طرف پوری قلبی توجہ ۱۰۳

۶ ۔دل پر خضوع اور رقت طاری کرنا ۱۰۶

٧۔مشکلات اور راحت و آرام ميں ہميشہ دعا کرنا ۱۱۱

٨۔ عہد خداکووفاکرے ۱۱۵

٩۔ دعا اورعمل کا ساته ۱۱۶

١٠ ۔ سنت الٰہی ميں کوئی تبدیلی نہيں ہو تی ۱۲۰

١١ ۔ گنا ہوں سے اجتناب ۱۲۱

١٢ ۔ اجتماعی طور پر دعا کرنا اور مومنين کا آمين کہنا ۱۲۲

١٣ ۔آزادانہ طورپر ،کسی تکلف کے بغير د عا ۱۲۳

١ ۴ ۔نفس کو دعا، حمد وثنا ئے الٰہی،استغفار اور صلوات پڑهنے کےلئے آمادہ کرنا ۱۲۴

۱۹۰

١ ۵ ۔خداسے اس کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنا ۱۲۶

١ ۶ ۔اپنی حاجتيں الله کے سامنے پيش کرو ۱۲۸

١٧ ۔دعاميں اصرار ۱۲۹

١٨ ۔ایک دو سرے کے لئے دعا کرنا ۱۳۲

١٩ ۔رحمت الٰہی نازل ہوتے وقت دعا ۱۳۴

٢٠ ۔آدهی رات کے وقت دعا ۱۳۶

٢١ ۔دعا کے بعد ہاتهوں کو چہرے اور سرپر پهيرنا ۱۴۱

موانع اوررکا وڻيں ۱۴۲

گناہ بارگاہ خدا کی راہ ميں ایک رکاوٹ ۱۴۳

اخذ اور عطا ميں دل کادوہرا کردار ۱۴۳

دلوں کےلئے دوسرامرحلہ تو سعہ اور عطا ۱۴۶

اس قطع تعلق اوردل کے بند ہوجانے کی کيا وجہ ہے ؟ ۱۴۹

دلوں کے منجمد ہونے کے اسباب ۱۴۹

گناہوں سے دلوں کااُلٹ جانا ۱۵۱

گناہوں کے ذریعہ انسان کے دل سے حلاوت ذکر کا خاتمہ ۱۵۳

دعاؤں کو روک دینے والے گناہ ۱۵۴

قبوليت اعمال کے موانع ۱۵۷

صعود اعمال کے موانع (اسباب) ۱۵۷

اعمال کو الله تک پہنچا نے والے اسباب ۱۶۳

جن چيزوں کوالله سے دعا کرتے وقت انجام دینا چاہئے ۱۶۶

۱۹۱

رسول خدا (ص) اور اہل بيت عليم السلام سے تو سل کرنا ۱۶۸

دعا ئے کميل کے ذریعہ الله تک رسائی کے وسائل ۱۶۹

دعا کميل کی عام تقسيم ۱۷۰

تصميم دعا کی فکر ۱۷۱

دعا ء کميل کے چار و سيلے ۱۷۹

پہلا وسيلہ ۱۸۰

دوسرا وسيلہ ۱۸۱

تيسرا وسيلہ ۱۸۳

چو تها وسيلہ ۱۸۵

پس تم غور سے سنو : ۱۸۸

۱۹۲