دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)20%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53100 / ڈاؤنلوڈ: 4488
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

دعا عند اهل بيت

(جلد اول)

محمد مهدی آصفی

مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی

۳

دعا کی تعریف

دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حا جتيں طلب کرنا ۔ دعا کی اس تعریف کی اگر تحليل کی جا ئے تو اس کے مندرجہ ذیل چار رکن ہيں :

١۔مدعو:خدا وند تبارک و تعالیٰ۔

٢۔داعی :بندہ۔

٣۔دعا :بندے کا خدا سے ما نگنا۔

۴ ۔مدعو لہ:وہ حا جت اور ضرورت جو بندہ خدا وند قدوس سے طلب کر تا ہے ۔

ہم ذیل ميں ان چاروں ارکان کی وضاحت کر رہے ہيں :

۴

١۔مدعو :

یعنی دعا ميں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خدا وند قدوس کی ذات ہے :

١۔خداوند قدوس غنی مطلق ہے جو آسمان اورزمين کا مالک ہے جيسا کہ ارشاد ہو تا ہے :

( الَم تَعلَْم اَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلکُْ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرضِْ ) (۱)

“کيا تم نہيں جا نتے کہ آسمان و زمين کی حکو مت صرف الله کےلئے ہے ”( وَ لِلَّهِ مُلکُْ السَّمَاواتِ وَالاَْرضِْ وَمَابينَْهُمَایَخلُْقُ مَایَشَا ءُ ) (۲)

“اور الله ہی کےلئے زمين و آسمان اور ان کے درميان کی کل حکو مت ہے ” ٢۔خداوند عالم کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہيں ہو تا :( اِنَّ هذََٰالرزقْنَامَالَهُ مِن نِفَاد ) (۳)

“یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہو نے والا نہيں ہے ”سورئہ ص آیت / ۵۴ ۔( کُلّاًنُمِدُّ هٰولَاءِ وَ هٰولَاءِ مِن عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحظُْوراً ) (۴)

“ہم آپ کے پر ور دگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن سب کی مدد کر تے ہيں اور آپ کے پر ور دگار کی عطا کسی پر بند نہيں ہے ” اور دعا ئے افتتاح ميں وارد ہو ا ہے :“لَاتَزِیدُْهُ کَثرَْة العَطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماً ” “اور عطا کی کثرت سوائے جود و کرم کے اور کچه زیا دہ نہيں کر تی ”

____________________

۱ سورئہ بقرہ آیت/ ١٠٧ ۔

۲ سورئہ ما ئدہ آیت/ ١٧ ۔

۳ سورئہ ص آیت ۵۴ ۔

۴ سورئہ اسرا ء آیت ٢٠ ۔

۵

٣۔وہ اپنی ساحت و کبریا ئی ميں کو ئی بخل نہيں کر تا ،کسی چيز کے عطا کر نے سے اس کی ملکيت کا دائرہ تنگ نہيں ہو تا ،وہ اپنے بندو ں پر اپنی مر ضی سے جو جو د و کرم کرے اس سے اس کی ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آتی اور وہ بندوں کی حا جتوں کو قبول کر نے ميں کوئی دریغ نہيں کرتا ۔

اگر کو ئی بندہ اس کو پکا رے تو وہ دعا کو مستجاب کر نے ميں کسی چهوڻے بڑے کا لحاظ نہيں کرتاہے چونکہ خود اسی کا فر مان ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا”مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجا ب کرانے کی صلا حيت نہ رکهتا ہو ۔چو نکہ بندہ اس با ت سے آگاہ نہيں ہو تا کہ کو نسی دعا قبول ہو نی چا ہئے اور کو نسی دعا قبول نہيں ہو نی چا ہئے فقط خدا وند عالم اس چيز سے واقف ہے کہ بندے کےلئے کونسی دعاقبوليت کی صلاحيت رکهتی ہے اور کو نسی قبوليت کی صلا حيت نہيں رکهتی جيساکہ دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے :

وَلَعَلَّ الَّذِی اَبطَْاعَنّی هُوَخَيرٌْلِی لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَةِ الاُْمُورِْ،فَلَم اَرَمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرعَْلَ یٰ عَبدٍْلَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ

“حالانکہ توجانتا ہے کہ ميرے لئے خير اس تاخير ميں ہے اس لئے کہ تو امور کے انجا م سے باخبرہے ميں نے تيرے جيساکریم مولا نہيں دیکها ہے جو مجه جيسے ذليل بندے کوبرداشت کرسکے ”

۶

٢۔داعی :(دعا کر نے والا )

بندہ ہر چيز کا محتاج ہے یہا ں تک کہ اپنی حفا ظت کر نے ميں بهی وہ الله کا محتا ج ہے ارشاد ہو تا ہے :

( یَٰایُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۱)

“انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ”( وَاللَّهُ الغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ) (۲)

“خدا سب سے بے نياز ہے اور تم سب اس کے فقير اور محتاج ہو ” انسان کے پاس اپنے فقر سے بہتر اور کو ئی چيز نہيں ہے جو اس کی بار گاہ ميں پيش کر سکے۔ اور الله کی بارگاہ ميں اپنے کو فقير بنا کر پيش کر نے سے اس کی رحمتوں کا نزول ہو تا ہے۔

اور جتنا بهی انسان الله کی بارگاہ کا فقير رہے گا اتنا ہی الله کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر وہ تکبر کر ے گا اور اپنی حا جت و ضرورت کو اس کے سا منے یش نہيں کر ے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے دور ہو تا جا ئے گا ۔

٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا)

انسان جتنا بهی گڑ گڑا کر دعا ما نگے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے قریب ہو تا جا ئے گا ۔انسا ن کے مضطر ہو نے کی سب سے ادنیٰ منزل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اختيارات کا مالک خدا کو سمجهے یعنی خدا کے علا وہ کو ئی اس کی دعا قبول نہيں کر سکتا ہے اور مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دو سرا کو ئی اختيار نہ رہے یعنی اگر کو ئی اختيار ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا اختيار ہے اور اس کے علا وہ کو ئی اختيار نہيں ہے جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے کو الله کی بارگاہ ميں نہایت مضطر محسوس کرے گا ۔۔۔اور اسی وقت انسان الله کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہو گا:

۶( ا مّنَّ یُّجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ ) (۳)

“بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کوآوازدیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ”

____________________

۱ سورئہ فاطر آیت/ ١۵

۲ سورئہ محمد آیت ٣٨ ۔

۳ سورئہ النمل آیت ۶٢ ۔

۷

مضطر کی دعا اور الله کی طرف سے اس کی قبوليت کے درميان کو ئی فاصلہ نہيں ہے اور دعا ميں اس اضطرار اورچاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنيا اور ما فيہا سے قطع تعلق کر لينا اور صرف اور صرف اسی سے لو لگاناہے اس کے علا وہ غيرخدا سے طلب ا ور دعا نہيںہو سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دعا انسان کو کو شش اور عمل کر نے سے بے نياز کر دیتی ہے ،جس طرح کوشش اور عمل، دعا کر نے والے کو الله سے دعا کرنے سے بے نياز نہيں کر تے ہيں۔

۴ ۔مد عوّلہ (جس کے لئے یاجو طلب کيا جا ئے )

انسا ن کو خدا وند قدوس سے اپنی چهو ڻی سے چهو ڻی اور بڑی سے بڑی تمام جا جتيں طلب کر نا چاہئيں خدا اس کی حا جتوں کو پورا کر نے سے عا جز نہيں ہو تا اور نہ اس کے ملک و سلطنت ميں کو ئی کمی آتی ہے ،اور نہ ہی بخل اس کی ساحتِ کبریا ئی سے ساز گار ہے ۔

انسا ن کےلئے خدا وند عالم سے اپنی چهو ڻی سے چهوڻی حاجت طلب کر نے ميں بهی کو ئی حرج نہيں ہے (یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتی ،جانوروں کےلئے چارا اور اپنے آڻے کےلئے نمک بهی ما نگ سکتا ہے ) جيسا کہ روایت ميں وارد ہوا ہے کہ خدا وند عالم چهوڻی بڑی حا جتوں کو پورا کر کے اپنے بندے کو ہميشہ اپنے سے لو لگانے کو دوست رکهتا ہے ۔نہ چهوڻی دعا ئيں، اور نہ ہی بڑی حاجتيں ہو نے کی وجہ سے خداوند عالم اپنے اور بندوں کے درميان پردہ ڈالتا ہے ۔خدا وند عالم تو ہميشہ اپنے بندوں کی چهو ڻی اور بڑی تمام حاجتوں کو پورا کر تا ہے اور اپنے بندے کے دل کو ہر حال ميں اپنی طرف متوجہ کرنا چا ہتا ہے ۔

انسان اور خدا کے درميان دعا اور حاجت کے مثل کوئی چيز واسطہ نہيں بن سکتی ہے ۔دعا کے یہی چار ارکان ہيں ۔

۸

دعاکی قدر و قيمت

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی اَستَْجِب لَکُم اِ نَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ (۱)

“اور تمہا رے پر ور دگار کا ارشاد ہے مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”

دعا یعنی بندے کا اپنے کو الله کے سامنے پيش کرنا اور یہی پيش کرنا ہی روح عبادت ہے اور عبادت انسان کی غرض خلقت ہے۔ یہی تينوں باتيں ہما ری دعاوں کی قدر وقيمت کو مجسم کر تی ہيں ،دعا کی حقيقت کو واضح کر ہيں ،ہم اپنی بحث کا آغاز تيسری بات سے کر تے ہيں اس کے بعد دوسرے مطلب کو بيان کر نے کے بعد پهر پہلی بات بيان کریں گے ۔

قرآن کریم نے صاف طور پر یہ بيان کيا ہے کہ انسان کی پيدائش کا مقصد عبادت ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( وَمَاخَلَقتُْ الجِْنَّ وَالاِْنسَْ اِلَّالِيَعبُْدُونِْ ) (۲)

“اور ميں نے جن و انس کو نہيں پيدا کيا مگراپنی عبادت کے لئے ” اسی آخری نقطہ کی دین اسلام ميں بڑی اہميت ہے ۔ اور عبادت کی قدروقيمت یہ ہے کہ یہ انسان کو اسکے رب سے مربوط کر دیتی ہے ۔

عبادت ميں الله سے قصد قربت اس کے محقق ہو نے کےلئے اصلی اور جوہری امر ہے اور بغير جو ہر کے عبا دت ،عبادت نہيں ہے ،عبادت اصل ميں الله کی طرف حرکت ہے،اپنے کو الله کی بارگاہ ميں پيش کر نا ہے۔ اور یہ دوسری حقيقت پہلی حقيقت کی وضا حت کر تی ہے ۔

اور پہلی حقيقت انسان کا الله کی طرف متوجہ ہونا الله سے براہ راست مستحکم رابطہ ہے ۔۔اور عبادات ميں دعا کے علاوہ کو ئی عبادت ایسی نہيں ہے جو اس سے زیادہ انسان کو الله سے قریب کرسکتی ہو سيف تمار سے مر وی ہے :ميں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کو یہ فر ما تے سنا ہے:

____________________

۱ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔

۲ سورئہ ذاریات آیت ۵۶ ۔

۹

عليکم بالدعاء فانکم لاتتقربون بمثله (۱)

“تم دعا کيا کرو خدا سے قریب کر نے ميں اس سے بہتر کو ئی چيز نہيں ہے” جب بهی انسان کی حا جت الله کی طرف عظيم ہوگی اور وہ الله کا زیادہ محتاج ہوگا اور اس کی طرف وہ زیادہ مضطرہوگاتووہ اتناہی دعاکے ذریعہ الله کی طرف زیادہ متوجہ ہوگا۔انسان کے اندر الله کی نسبت زیادہ محتاجی کا احساس اور اس کی طرف زیادہ مضطر ہو نے اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ ميں ہو نے کے درميان رابطہ طبيعی ہے ۔بيشک ضرورت اور اضطرار کے وقت انسان الله کی پناہ ما نگتا ہے جتنی زیادہ ضرورت ہو گی اتنا ہی انسان الله کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے بر عکس بهی ایسا ہی ہے یعنی جتنا انسان اپنے کو بے نياز محسوس کرے گا خدا سے دور ہو تا جا ئيگا۔الله تعالیٰ فر ماتا ہے :

( کَلَّااِنَّ الِانسَْانَ لَيَطغْیٰ اَنْ رَّ اٰهُ اسْتَغْنیٰ ) (۲)

“بيشک انسان سر کشی کرتا ہے جب وہ اپنے کو بے نياز خيال کرتا ہے ” بيشک انسان جتنا اپنے کو غنی سمجهتا ہے اتنا ہی وہ الله سے روگردانی کرتا ہے اور سرکشی کرتا ہے اور جتنا اپنے کو فقير محسوس کرتا ہے اتنا ہی الله سے لو لگاتا ہے ۔قرآن کی تعبير بہت دقيق ہے :ان رَأىهٰاُ استَْغنْیٰ انسان الله سے بے نياز نہيں ہو سکتا بلکہ انسان الله کا محتاج ہے :

( یَااَیُّهاالنَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۳)

“انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ”ليکن انسان اپنے کو مستغنی سمجهتا ہے ،انسان کا غرور صرف خيالی ہے ۔جب انسان اپنے کو الله سے بے نياز دیکهتا ہے تو اس سے روگردانی کر تا ہے اور سرکش ہوجاتا ہے ۔جب اس کو نقصان پہنچتا ہے اور الله کی طرف اپنے مضطر ہو نے کا احساس کر تا ہے تو پلٹ جاتا ہے اور خدا کے سا منے سر جهکا دیتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ الله کے سامنے سر جهکا دینے کا نام حقيقت دعا ہے ۔جو الله سے دعا کر تا ہے اور اس کے سا منے گڑگڑاتا ہے تو الله بهی اس کی دعا قبول کر تا ہے ۔الله کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے لو لگانا ہی دعا کی حقيقت، اسکا جوہر اور اس کی قيمت ہے۔قرآن کریم ميں خدا کی بارگاہ ميں حاضری کے چار مرحلے خدا وند عالم نے اپنی بارگاہ ميں حاضری کےلئے اپنے بندوں کے سامنے چار راستے رکهے ہيں جن ميں دعا سب سے اہم راستہ ہے ان چاروں راستوں کا قر آن و سنت ميں تذکرہ ہے ۔

____________________

۱ بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ۔

۲ سورئہ علق آیت ۶۔ ٧۔

۳ سورئہ فاطر آیت ١۵ ۔

۱۰

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انسان کے لئے چار چيزیں انجام دینا اس کے حق ميں مفيد ہے اور اس ميں اس کا کو ئی نقصان نہيں ہے :ایک ایمان اور دوسرے شکر ،خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :( مَایَفعَْلٌ اللهُ بِعَذَابِکُم اِن شَکَرتُْم وَآمَنتُْم ) (۱) “خدا تم پر عذاب کر کے کيا کرے گا اگر تم اس کے شکر گزار اور صاحب ایمان بن جا و”تيسرے استغفار خداوند عالم ارشاد فر ماتا ہے( وَمَاکَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُم وَاَنتَْ فِيهِْم وَمَاکَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم یَستَْغفِْرُونَْ (۲)

“حا لانکہ الله ان پر اس وقت تک عذاب نہيں کرے گا جب تک “پيغمبر ”آپ ان کے درميان ہيں اور خدا ان پر عذاب کر نے والا نہيں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کر نے والے ہو جا ئيں ”چوتهے دعا، خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّی لَولَْادُعَاوکُم ) (۳)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بهی نہ کرتا ”معاویہ بن وہب نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایاہے:“یامعاویة !من اُعطیَ ثلاثة لم یُحرم ثلاثة:من اُعطی الدعاء اُعطی الاجابة،ومن اُعطی الشکراُعطی الزیادة،ومن اُعطی التوکل اُعطی الکفایة :فانّ اللّٰه تعالیٰ یقول فی کتابه:وَمَن یَّتَوَکَّل عَلی اللهِ فَهُوَحَسبُْه (۴)

ویقول :( لَئِن شَکَرتُْم لَازِیدَْ نَّکُم ) ۵ویقول :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (۶)

“اے معا ویہ !جس کو تين چيزیں عطا کی گئيں وہ تين چيزوں سے محروم نہيں ہوگا :جس کو دعا عطا کی گئی وہ قبول بهی کی جا ئيگی ،جس کو شکر عطا کيا گيا اس کے رزق ميں برکت بهی ہو گی اور جس کو توکل عطا کيا گيا وہ اس کے لئے کا فی ہو گا اس لئے کہ خدا وند عالم قر آن کریم ميں ارشاد فر ماتا ہے :( وَمَن یَّتَوَکَّل عَلی اللهِ فَهُوَحَسبُْه ) “اور جو خدا پر بهروسہ کر ے گا خدا اس کے لئے کا فی ہے ”( لَئِن شَکَرتُْم لَاَزِیدَْ نَّکُم ) “اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ کر دیں گے”( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے مجه سے دعا کرو ميں قبول کروں گا ” عبد الله بن وليد وصافی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ کا فرمان ہے :“ثلاث لایضرمعهن شیٴ:الدعاء عند الکربات،والاستغفارعندالذنب،و ” الشکرعندالنعمة (۷)

“تين چيزوں کے ساته کوئی چيزضرر نہيں پہنچا سکتی ہے :بے چينی ميں دعا کرنا ،گناہ کے وقت استغفار کرنا اور نعمت کے وقت خدا کا شکر ادا کرنا ”

____________________

۱ سورئہ نساء آیت ١۴٧ ۔۲ سورئہ انفال آیت ٣٣ ۔۳ سورئہ فرقان آیت ٧٧ ،بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩١ ۔۴ سورئہ طلاق آیت/ ٣۔۵ سورئہ ابراہيم آیت/ ٧۔

۶ سورئہ غافر آیت/ ۶٠ ،خصال صدوق جلد ١ صفحہ ۵٠ ،المحاسن للبرقی صفحہ ٣،الکافی جلد ٢ صفحہ ۶۵ ۔۷ امالی شيخ طوسی صفحہ ١٢٧ ۔

۱۱

الله سے لو لگانے کے یہی ذرائع ہيں اور الله سے لو لگانے کے بہت زیادہ ذرائع ہيں جيسے توبہ، خوف و خشيت ،الله سے محبت اور شوق ،اميد ،شکر اور استغفار وغيرہ۔

انسان پر الله سے لو لگانے کے لئے اس طرح کے مختلف راستوں کااختيار کرنا ضروری ہے اور اسلام خدا سے رابطہ رکهنے کے لئے صرف ایک راستہ ہی کو کافی نہيں جانتاہے ۔

خدا سے رابطہ کرنے اور اس کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کر نے کا سب سے اہم وسيلہ دعا ہے

کيونکہ فقر اور نياز مندوں سے زیادہ اور کو ئی چيز انسان کو خدا کی طرف نہيں پہونچا سکتی ہے

پس دعا خدا وند عالم سے رابطے اور لو لگا نے کا سب سے وسيع باب ہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :

الحمدللهالذی اُنادیه کلماشئت لحاجتي واخلوبه حيث شئت لسّري بغيرشفيع فيقضي لي حاجتي

“تمام تعریفيں اس خدا کےلئے ہيں جس کو ميں آواز دیتا ہوں جب اپنی حا جتيں چا ہتا ہوں اور جس کے ساته خلوت کرتا ہوں جب جب اپنے لئے کو ئی رازدار چا ہتا ہوں یعنی سفارش کرنے والے کی حاجت کو پوری کرتا ہے ”

۱۲

دعا ،روح عبادت ہے

دعا عبادت کی روح ہے ؛انسان کی خلقت کی غرض عبادت ہے ؛اور عبادت کر نے کی غرض ۔خدا وند عالم سے شدید رابطہ کرنا ہے ؛اوریہ رابطہ دعا کے ذریعہ ہی محقق ہوتا ہے اور اس کے وسائل وسيع اور قوی ہوتے ہيں : حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں :الدعاء مخ العبادة ؛ولایهلک مع الدعاء احد (۱)

دعا عبادت کی روح ہے اور دعا کر نے سے کو ئی بهی ہلاک نہيں ہوتا ہے ” اور یہ بهی رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم ہی کا فر مان ہے :افزعواالی اللّٰه فی حوائجکم،والجاوااليه فی ملمّاتکم،وتضرّعوا اليه،وادعوه؛فإنّ الدعاء مخ العبادة ومامن مومن یدعوااللّٰه الّااستجاب،فإمّاان یُعجّله له فی الدنيااویُوجّل له فی الآخرة ،واِمّاان یُکفّرعنه من ذنوبه بقدرمادعا؛ما لم یدع بماثم (۲)

تم خدا کی بارگاہ ميں اپنی حا جتوں کو نالہ و فریاد کے ذریعہ پيش کرو، مشکلوں ميں اسی کی پناہ مانگو،اس کے سامنے گڑگڑاو،اسی سے دعا کرو، بيشک دعا عبادت کی روح ہے اور کسی مومن نے دعا نہيں کی مگر یہ کہ اس کی دعا ضرور قبول ہو ئی ،یا تو اسکی دنيا ہی ميں جلدی دعا قبول کر ليتا ہے یا اس کو آخرت ميں قبول کرے گا،یا بندہ جتنی دعاکرتاہے اتنی مقدارميںہی اسکے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔

گویا روایت ہم کو خدا وند عالم سے دعا کرنے اور ہم کو اس کی بارگاہ ميں پيش ہو نے کا طریقہ سکهاتی ہيں ۔

ان فقرات :( افزعواالی الله فی حوائجکم ) “اپنی حا جتيں خدا کی بارگاہ ميں پيش کرو ”( والجاوااليه فی ملمّاتکم ) “مشکلوں ميں اسی کی پناہ مانگو”( وتضرّعوااليه ) “اسی کی بارگاہ ميں گڑگڑاو”کے سلسلہ ميں غور وفکر کریں ۔ اور دوسری روایت ميں حضرت رسول خدا فر ماتے ہيں :الدعاء سلاح المومن وعمادالدین (۳)

“دعا مو من کا ہتهيار اور دین کا ستون ہے ”

بيشک دعا دین کا ستون ہے اور اس کا مطلب الله کی طرف حرکت کرنا ہے اور الله کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کرنے کا نام دعا ہے ۔

____________________

۱ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔

۲ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٢ ۔

۳ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٨٨ ۔

۱۳

اور جب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ ميں پيش کر نے کا نام دعا ہے تو دعا خدا وندعالم کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے اکرم چيز ہے ۔حضرت رسول خدا (ص) فرما تے ہيں :مامن شی ء اکرم علیٰ اللّٰه تعالیٰ من الدعاء (۱)

“خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اکرم چيز دعا ہے ” حنان بن سدیر اپنے پدر بزرگوار سے نقل کرتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام محمد باقر کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :“ای العبادةافضل؟فقال:“مامن شیٴ احبّ الیٰ اللّٰه من ان یُسال ویُطلب ” مماعنده،ومااحدابغض الیٰ اللّٰه عزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادته ولایسال مما عنده (۲)

“کونسی عبادت سب سے افضل ہے ؟تو آپ (امام )نے فرمایا: خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اہم چيز یہ ہے کہ اس سے سوال کيا جائے اور خدا وند عالم کے نزدیک سب سے مبغوض شخص وہ ہے جو عبادت کرنے پر غرور کرتا ہے اور خداوند عالم سے کچه طلب نہيں کرتا ”بده کے دن پڑهی جانے والی دعا ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فر ما تے ہيں :

الحمدللهالذی مرضاته فی الطلب اليه،والتماس مالدیه وسخطه فی ترک الالحاح فی المسالة عليه (۳)

دعا ء کميل ميں فر ما تے ہيں :

فَاِنَّکَ قَضَيتَْ عَ لٰی عِبَادِکَ بِعِبَادَتِکَ وَاَمَرتَْهُم بِدُعَائِکَ وَضَمِنتَْ لَهُمُ الِاجَابَة،فَاِلَيکَْ یَارَبِّ نَصَبتُْ وَجهِْی وَاِلَيکَْ یَارَبِّ مَدَدتُْ یَدِی ۔ْ۔۔”

“اس لئے کہ تو نے اپنے بندوں کے با رے ميں طے کيا ہے کہ وہ تيری عبادت کریں اور تو نے اپنے سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور تو اس کے قبول کرنے کا ضامن ہے پس اے خدا !ميں نے تيری ہی طرف لو لگا ئی ہے اور اے پروردگار تيری ہی جانب اپنے ہاته پهيلائے ہيں ”

دعا سے رو گردانی ، خدا وندعالم سے روگردانی ہے خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی استَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ )

۴

“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جو ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”اس آیہ کریمہ ميں عبادت سے استکبار کرنا دعا سے روگردانی کرنا ہے ،پس سياق آیت کر نے کی دعوت دے رہا ہے ۔خداوند عالم فر ماتا ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا” اور اس کے بعد فوراً فرماتا ہے :( اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) (۵)

“اور یقيناجو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”۔

____________________

۱ مکارم الاخلاق صفحہ / ٣١١ ۔۲ مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١ ۔اور محاسن بر قی صفحہ ٢٩٢ ۔۳ دعا یوم الاربعاء۔۴ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔۵ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔

۱۴

اس آیہ کریمہ ميں دعا سے اعراض کرنا عبادت نہ کرنے کے مترادف ہے اس لئے کہ یہ الله سے روگردانی کرنا ہے ۔اور اس آیت کی تفسير ميں یہی معنی حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کئے گئے ہيں : هی والله العبادة،هی والله العبادة “خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ،خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ”۔ حماد بن عيسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :( انّ الدعاء هوالعبادة؛انّ اللّٰه عزّوجلّ یقول: اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) (۱)بيشک دعا سے مراد عبادت ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جولوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”اور الله کے نزدیک دعا اور دعا کی مقدار کے علاوہ انسان کی کو ئی قيمت و ارزش نہيں ہے اور خدا وند عالم اپنے بندے کی اتنی ہی پروا ہ کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے :( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّی لَولَْادُعَاوکُم ) (۲)پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پر وا بهی نہ کرتا ”بيشک دعا خداوند عالم کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کر نے کے مساوی ہے جيسا کہ دعا سے اعراض(منه موڑنا) کرنا الله سے اعراض کرنا ہے ۔ اور جو الله سے منه مو ڑتا ہے تو خدا وند عالم بهی اس کی پرواہ نہيں کرتا ،اور نہ ہی الله کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قيمت ہے ۔حضرت امام باقر عليہ السلام ایک حدیث ميں فرماتے ہيں :ومااحد ابغض الی اللهعزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادته،ولایسال ما عنده ۳حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :لتسالنَّ الله اوليغضبنّ عليکم،انّللهعبادایعملون فيعطيهم ،وآخرین یسالُونه صادقين فيعطيهم ثم یجمعهُم فی الجنة،فيقول الذین عملوا:ربناعملنا فاعطيتنا،فبمااعطيت هولاء؟فيقول:هولاء عبادي اعطيتکم اجورکم ولم التکم من اعمالکم شيئا،وسالني هولاء فاعطيتهم واغنيتهم،وهوفضلي اوتيه مَنْ اشاء (۴) بيشک الله اپنے بندے کی دعا کا مشتاق ہے جب بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں دعا کےلئے حاضرہوتا ہے تو الله اس سے محبت کرتا ہے ۔اور جب بندہ الله سے روگردانی کرتا ہے تو خدا بهی اسے پسندنہيں کرتا ہے ۔کبهی کبهی خدا وند عالم اپنے مومن بندے کی دعا مستجاب کرنے ميں اس لئے دیر لگا دیتا ہے تاکہ وہ دیر تک اس کی بارگاہ ميں کهڑا رہے اوراس سے دعا کرکے گڑگڑاتا رہے۔کيونکہ اسے اپنے بندے کا گڑگڑانابهی پسند ہے اسی لئے وہ دعا اور مناجات کا مشتاق رہتا ہے ۔عالم آل محمد یعنی امام رضا عليہ السلام سے مروی ہے :انّ اللّٰه عزّوجلّ ليوخّراجابة المومن شوقاًالیٰ دعائه ویقول:صوتاً احبّ ان اسمعه ویعجّل إجابة دعاء المنافق،ویقول:صوتاً اکره سماعه (۵)

____________________

۱ وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨٣ ۔۲ سورئہ فرقان آیت/ ۶٠۳ وسائل الشيعہ جلد ۴ :صفحہ ١٠٨۴ ،حدیث ٨۶٠۴ ۔۴ وسا ئل الشيعہ جلد ۴ :صفحہ ١٠٨۴ حدیث ٨۶٠٩ ۔۵ بحارالانوار جلد ٩٧ صفحہ ٢٩۶ ۔

۱۵

“خداوند عالم مومن کی دعا کے شوق ميں اس کی دعاکودیر سے مستجاب کرتاہے اور کہتا ہے : مجهے یہ آواز پسندہے اورمنافق کی دعاجلدقبول کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجهے اس کی آواز پسند نہيں ” حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :اکثروا من ان تدعوااللّٰه،فإنّ اللّٰه یحبّ من عباده المومنين ان یدعوه، وقد وعد عباده المومنين الاستجابة (۱) “تم خدا وند عالم سے بہت زیادہ دعائيں کرو بيشک الله کویہ پسند ہے کہ اس کے مومن بندے اس سے دعائيں کریں اور اس نے اپنے مومن بندوں کی دعا قبول کر نے کا وعدہ کيا ہے”حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے :احبّ الاعمال إلیٰ اللّٰه عزّوجلّ فی الارض:الدعاء (۲) “زمين پر الله کا سب سے پسندیدہ عمل:دعا ہے ” حضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے :إنّ المومن یسال اللّٰه عزّوجلّ حاجة فيوخرعنه تعجيل اجابته حّباً لصوته واستماع نحيبه (۳) “بيشک جب کوئی مو من الله عز و جل سے کو ئی سوال کرتا ہے تو خدا وندعالم اس مومن کی دعا کی قبوليت ميں اس کی آوازکو دوست رکهنے اور سننے کی خاطرتاخير کرتا ہے ”حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انّ العبد ليد عوفيقول الله عزّوجلّ للملکين:قداستجبت له،ولکن احبسوه بحاجته،فانّی اُحبّ ان اسمع صوته،وانّ العبدليدعوفيقول الله تبارک وتعالیٰ:عجلوا له حاجته فانی ابغض صوته (۴) “جب ایک بندہ خدا وند عز وجل سے دعا مانگتا ہے تو خداوند عالم دو فرشتوں سے کہتا ہے: ميں نے اس کی دعا قبول کر لی ہے ليکن تم اس کواس کی حاجت کے ساته قيد کرلو ،چونکہ مجهے اس کی آواز پسند ہے ،اور جب ایک بندہ دعا کرتا ہے تو خداوندعالم کہتا ہے :اس کی حاجت روا ئی ميں جلدی کرو چونکہ مجهے اس کی آواز پسندنہيں ہے ”حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انّ العبد الولی لله ليدعوالله عزّوجلّ فی الامرینوبه،فيُقال للملک الموکل به:اقض لعبدي حاجته،ولاتُعجّلهافانّي اشتهی ان اسمع صوته ونداء ه وانّ العبدالعدولله عزّوجلّ یدعوالله عزّوجلّ فی الامرینوبه،فيُقال للملک الموکل به:اقض حاجته، و عجّلها فانّي اکره ان اسمع صوته وندائه (۵) “الله کو دوست رکهنے والا بندہ دعا کرتے وقت الله کو اپنے امر ميں اپنا نائب بنا دیتا ہے تو خدا وندعالم اس بندے پر موکل فرشتو ں سے کہتا ہے :ميرے اس بندے کی حاجت قبول کرلو مگر اسے پوری کرنے ميں ابهی جلدی نہ کرنا چونکہ ميں اس کی آواز سننے کو دوست رکهتا ہوں اورجب الله کا دشمن بندہ الله سے دعا کرتے وقت اس کو اپنے کسی کام ميں اپنا نائب بنانا چاہتا ہے تو خدا وند عالم اس بندے پر مو کل فرشتوں سے کہتا ہے اس کی حاجت کو پورا کرنے ميں جلدی کرو اس لئے کہ ميں اس کی آواز سننا پسندنہيں کرتا ہوں ”خداوند عالم کو ہر گز یہ پسند نہيں ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے سے سوال کریں بلکہ اگروہ اپنی عزت نفس کا خيال رکهتے ہوئے دوسروں کے سامنے ہاته نہ پهيلائيں تواس کو یہی پسند ہے ليکن الله تبارک و تعالیٰ اپنی بارگاہ ميں مومنين

____________________

۱ وسائل الشيعہ جلد ۴:صفحہ ١٠٨۶ ،حدیث ٨۶١۶ ۔۲ وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٨٩ ،حدیث ٨۶٣٩ ۔۳ قرب الاسناد صفحہ ١٧١ ،اصول کافی صفحہ ۵٢۶ ۔۴ وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١١٢ ،حدیث ٨٧٣١ ،اصول کافی جلد ٢،صفحہ ۵٢۶ ۔۵ اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢٧ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١١٢ ،حدیث ٨٧٣٢ ۔

۱۶

کے سوال کوپسندکرتا ہے اور اپنے سامنے ان کے گریہ و زاری اور دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ۔

حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں :انّ الله احبّ شيئاًلنفسه وابغضه لخلقه،ابغض لخلقه المسالة،واحبّ لنفسه ان یُسال،وليس شیء احبّ الیٰ الله عزّوجلّ من ان یُسال،فلایستحي احدکم من ان یسال الله من فضله،ولوشسع نعل (۱)

“خدا وند عالم ایک چيز اپنے لئے پسندکرتا ہے ليکن اس کو مخلوق کےلئے پسند نہيں کرتا ،وہ اپنے لئے اس بات کو دوست رکهتا ہے کہ اس سے سوال کيا جائے اور الله کے نزدیک اس سے سوال کر نے کے علا وہ کوئی چيز محبوب نہيں ہے پس تم ميں سے کو ئی الله سے اس کے فضل کاسوال کرنے ميں شرم نہ کرے اگر چہ وہ جو تے کے تسمے کے بارے ميں ہی کيوں نہ ہو ” حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ اللّٰه یحبّ العبد ان یطلب اليه في الجرم العظيم،ویبغض العبد ان یستخفّ بالجرم اليسير (١ “الله بندے کی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ وہ اس کو بڑے جرم ميں پکارے اور اس بات سے ناراض ہو تا ہے کہ وہ اس کو چهوڻے جرم ميں نہ پکارے”

محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ :اصابتني فاقة شدیدة واضاقة،ولاصدیق لمضيق ولزمني دینٌ ثقيل وعظيم ،یلحّ في المطالبة،فتوجّهت نحودارالحسن بن زیدوهویومئذاميرالمدینةلمعرفة کانت بينی وبينه،وشعربذلک من حالي محمد بن عبد اللّٰه بن علي بن الحسين عليه السلام،وکان بينی وبينه قدیم معرفة،فلقينی فی الطریق فاخذ بيدي وقال:قد بلغني ماانت بسبيله،فمن تومّل لکشف مانزل بک؟ قلت:الحسن بن زیدفقال اذن لایقضي حاجتک،ولاتسعف بطلبتک، فعليک بمن یقدرعلی ذلک،وهواجودالاجودین،فالتمس ماتومّله من قبله،فإنّي سمعت ابن عمي جعفربن محمد یُحدّث عن ابيه،عن جده،عن ابيه الحسين بن

____________________

١)المحا سن للبرقی صفحہ ٢٩٣ ،بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٢ ۔ )

۱۷

علي،عن ابيه علي بن ابيطالب عليه السلام عن النبي ص)قال:اوحیٰ اللّٰه الیٰ بعض انبيائه فی بعض وحيه:وعزّتي وجلالي لاقطعن امل کل آمل امّل غيري بالإیاس،ولاکسونّه ثوب المذلّة فی الناس،ولابعدنّه من فَرَجِي وفضلی،ایامل عبدي فی الشدائدغيري والشدائدبيدي؟ویرجو سواي واناالغني الجواد؟بيدي مفاتيح الابواب وهی مغلقة،وبابي مفتوح لمن دعاني الم تعلمواانّ من دهاه نائبة لم یملک کشفهاعنه غيری،فمالی اراه یامله معرضا عني وقد اعطيته بجودي وکرمي مالم یسالني؟ فاعْرَضَ عني،ولم یسالني،وسال فی نائبته غيري،وانااللّٰه ابتدیٴ بالعطية قبل المسالة

افاُسال فلا اجُوَد؟کلّااليس الجود والکرم لي ؟اليس الدنياوالآخرة بيدي؟فلوانّ اهل سبع سماوات وارضين سالوني جميعاواعطيت کل واحد منهم مسالته مانقص ذلک من ملکي مثل جناح البعوضة،وکيف ینقص مُلْک اناقيّمه فيابوسا لمن عصاني،ولم یراقبني فقلت له:یابن رسول اللّٰه،اعدعليّهذاالحدیث،فاعاده ثلاثاً،فقلت:لا واللّٰه ماسالت احدا بعدهاحاجة فمالبث ان جاءَ ني اللّٰه برزق من عنده(۱)

ميں شدید فقر و فاقه کی زندگی گزار رها تها، ميری تنگدستی کو دور کرنے والا بهی کو ئی ميرا ساتهی نهيں تها اور مجه پر دین کی اطاعت بڑی مشکل هو گئی تهی اور ميں اپنی ضروریات زندگی کےلئے چيخ اور چلارها

____________________

١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٠٣ ۔ ٣٠۴ ۔ ) ۱ فرو ع الکافی جلد ١ صفحہ ١٩۶ ،من لا یحضر ہ الفقيہ جلد ١ صفحہ ٢٣ ۔

۱۸

تهاتو ميں نے اس وقت اپنا وظيفہ معلوم کر نے کے لئے حسن بن زید (جو اس وقت مدینہ کے امير وحاکم تهے) کے گهر کا رخ کيا اور ان تک ميرے حالات کی خبر ميرے قدیمی ہمنشين محمد بن عبد الله بن علی بن الحسين عليہ السلام نے پہنچا ئی ،ميری ان سے راستہ ميں ملاقات ہوئی تو انهوں نے ميرا ہاته پکڑکر کہا :مجه کو تمہا رے حالات کے بارے ميں خبر ملی ہے ميں تمہا رے بارے ميں نا زل ہو نے والی مشکلات کے بارے ميں سوچ رہا ہوں ؟

ميں نے کہا :حسن بن زید ،اس نے کہا تمہاری حاجت پوری نہيں ہوگی اور تم اپنے مقصد تک نہيں پہنچ سکتے تم ایسے شخص کے پاس جا ؤ جو تمہاری حاجت روائی کی قدرت رکهتا ہے اور تمام سخا وت کرنے والوں سے زیادہ سخی ہے اپنی مشکلات کےلئے ان کے پاس جاؤ اس لئے کہ ميں نے سنا ہے کہ ميرے چچازاد بها ئی جعفر بن محمد عليہما السلام نے اپنے والد کے ذریعہ اپنے جد سے پهر ان کے والد سے حسين بن علی عليہما السلام سے انهوں نے اپنے والد علی بن ابی طالب عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے :خداوند عالم نے اپنے بعض انبياء عليہم السلام کی طرف وحی نا زل کی کہ مجهے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے ميں ہر اس شخص کی اميد ما یو سی ميں بدل دو نگا جو ميرے علا وہ کسی اور سے اميد لگا ئے گا ،اسے ذلت کا لباس پہنا ؤں گا اور اسے اپنے فضل و کرم سے دور کر دونگا ۔کيا ميرا بندہ مشکلات ميںميرے علاوہ کسی اور سے اميد کرتا ہے حالانکہ ميں غنی جواد ہوں؟ تمام ابواب کی کنجی ميرے ہاته ميں ہے حالانکہ تمام دروازے بند ہيں اور مجه سے دعا کرنے والے کےلئے ميرا دروازہ کهلا ہوا ہے ۔

کيا تم نہيں جانتے کہ جس کو کو ئی مشکل پيش آئے اس کی مشکل کو ميرے علا وہ کو ئی اور دور نہيں کر سکتاتو ميں اس کو غير سے اميد رکهتے ہوئے اور خود سے رو گردانی کرتے ہو ئے دیکهتا ہوں جبکہ ميں نے اپنی سخا وت اور کرم کے ذریعہ وہ چيزیں عطا کی ہيں جن کا اس نے مجه سے مطالبہ نہيں کيا ہے ؟ ليکن اس نے مجه سے رو گردانی کی اور طلب نہيں کيا بلکہ اپنی مشکل ميں دو سروں سے ما نگا جبکہ ميں ایسا خدا ہوں جو ما نگنے سے پہلے ہی دیدیتا ہوں۔

۱۹

توکياایسا ہو سکتا ہے کہ مجه سے سوال کيا جائے اور ميں جود و کرم نہ کروں ؟ایساہر گز نہيں ہو سکتا۔کيا جود و کرم ميرے نہيں ہيں ؟کيا دنيا اور آخرت ميرے ہاته ميں نہيں ہيں ؟اگرسات زمين اور آسمان کے لوگ سب مل کر مجه سے سوال کریں اور ميں ہر ایک کی ضرورت کے مطابق اس کو عطا کردوں تو بهی ميری ملکيت ميں ایک مچهرکے پَر کے برابر بهی کمی نہيں آئيگی اور کيسے کمی آبهی سکتی ہے جس کا ذمہ دار ميں ہوں ،لہٰذا ميری مخالفت کرنے والے اور مجه سے نہ ڈرنے والے پر افسوس ہے ۔

را وی کہتا ہے کہ ميں نے امام عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا : اے فرزند رسول اس حدیث کی ميرے لئے تکرارفر ما دیجئے تو آپ نے اس حدیث کی تين مرتبہ تکرار فر ما ئی ۔

ميں نے عرض کيا :خدا کی قسم آج کے بعد کسی سے کو ئی سوال نہيں کروں گا تو کچه ہی دیر گذری تهی کہ خدا وند عالم نے مجه کو اپنی جا نب سے رزق عطا فر مایا ”

استجابت دعا

دعا توفيق اور استجا بت کے حصار ميں دعا دو طرف سے الله کی رحمت سے گهری ہوئی ہو تی ہے :الله کی طرف سے توفيق اور دعا کی قبوليت ۔بندے کی دعا الله کی دی ہو ئی توفيق کے علا وہ قبول نہيں ہو تی ہے الله اپنے بندہ کو دعا کر نے کی تو فيق کارزق عطاکرتاہے چونکہ بندہ اس توفيق کے بغير الله کی بارگاہ ميں دعاپيش کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکتا لہٰذادعا سے پہلے اس توفيق کا ہو نا ضروری ہے اور جب بندہ خدا سے دعا کر تا ہے تو الله اس کی دعا قبول کرتا ہے :

( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )

“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا ”

تو پہلے الله سے دعا کرنے کی توفيق لازم ہوتی ہے اورپهر دعا بارگاہ معبودميں قبول ہو تی ہے۔یہ دونوں چيزیں دعاکا احا طہ کئے ہو ئے ہيں ،یہ دونوں الله کی رحمت کے دروازے ہيں جو بندے کےلئے اس کے دعا کرنے سے پہلے اور دعا کرنے کے بعد کهلے رہتے ہيں ۔حضرت رسول خدا سے مروی ہے :

____________________

١)سورئہ مو من آیت/ ۶٠ ۔ )

۲۰

(مَنْ فُتح له منکم باب الدعاء فتحت له ابواب الرحمة (۱) “تم ميں سے جس شخص کےلئے دعا کا دروازہ کهل جا ئے اس کےلئے ابواب رحمت کهل جا تے ہيں ”

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے مروی ہے : فذکروک بمنّک وشکروک

جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے تو یہ الله کی عصمت اور اس کے فضل کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے وہ (خدا )بندہ کے شکر کا مستحق ہے اور امام زین العا بدین عليہ السلام ہی منا جات خمس عشرہ ميں فر ما تے ہيں :

فَاِنَّابِکَ وَلَکَ وَلَاوَسِيلَْةَ لَنَااِلَيکَْ اِلَّااَنتَْ

“ہم تيری وجہ سے ہيں اور تيرے لئے ہيں اور ہما رے پاس تيرے علاوہ تيرے پاس آنے کا کو ئی ذریعہ نہيں ہے ”

بندہ اپنے پروردگار کو اس کے احسان و فضل کی بناپر ہی یاد کرتا ہے (پہلے خدا وند عالم کا فضل و کرم ہو تا ہے پهر بندہ خدا کو یا د کرتا ہے)،بندے کےلئے الله تک پہنچنے کےلئے اس کے فضل اور رحمت کا ہی وسيلہ ہے ،جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کر تا ہے تو اس کے فضل سے ہی یاد کرتا ہے ،جب دعا کرتا ہے تو یہ اس کی دی ہو ئی توفيق ہی سے دعا کرتا ہے اور جب اس کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اسی کی دی ہو ئی رحمت کی وجہ سے ہی اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔حضرت امام حسين عليہ السلام دعا ئے عر فہ ميں فر ما تے ہيں:

لَم یَمنَْعُکَ جَهلِْي وَجُراتِي عَلَيکَْ اَن دَلَلتَْنِي اِل یٰ مَایُقَرِّبُنِي اِلَيکَْ وَوَفَّقتَْنِي لِمَایُزلِْفُنِي لَدَیکَْ

“تو ميری جہا لت اور ميری جرات نے تجه کو ميری رہنما ئی کرنے سے نہيں روکا ،اس چيز کی

____________________

١)در منثور کے نقل کے مطابق الميزان جلد ٢ صفحہ / ۴٢ ۔ )

۲۱

طرف جو مجه کو تجه سے قریب کر دے اور تو نے مجه کو تو فيق دی اس امر کی جا نب کہ جو مجه کو تجه سے قرب عطا کرے ” دعا کےلئے سب سے نازک چيز دعا کی توفيق ہو نا ہے ،بندہ کو خدا وند عالم سے یہ دعا کرنا چا ہئے کہ خداوند عالم اس کو دعا کرنے کی توفيق عطا کرے ۔صحيفہ سجا دیہ کی دعا و ں ميں حضرت امام زین العابدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :

وَاْعمُْرلَْيلِْي بِاَیقَْاضِي فِيهِْ لِعِبَادَتِکَ ،وَاِنزَْالِ حَوَائِجِي بِکَ (١) “اورمير ی راتوں کو عبا دت کےلئے شب بيداری اور تنہا ئی ميں تہجد اور سب سے الگ ہو کر تجه سے لو لگا نے اور اپنی حا جتوں کو تيرے سا منے پيش کر نے کےلئے آباد رکهنا ” حضرت امام جعفر صا دق ، الله سے دعا کی توفيق طلب کرتے ہوئے عرض کر تے ہيں :

فَاعِنِّي عَل یٰ طَاعَتِکَ وَوَفَقّنِْي لِمَااَوجَْبتَْ عَلَيَّ مِن کُلِّ مَایُرضِْيکَْ فَاِنِّي لَم اَرَاَحَداًبَلَغَ شَيئْاًمِن طَا عَتِکَ اِلَّابِنِعمَْتِکَ عَلَيهِْ قَبلَْ طَاعَتِهِ،فَاَنعَْم عَلَيَّ بِنِعمَْةٍاَنَالَ بِهَارِضوَْانُکَ ( ٢)

“پس اپنی اطاعت پر ميری مدد کر اور مجهے اپنی ادائيگی کی توفيق دے اس طرح کہ تو مجه سے راضی ہوجائے ميں نے کسی کو نہيں دیکها جو تيری اطاعت تک پہونچاہو مگر اطاعت سے پہلے تيری ہی نعمت توفيق کے ذریعہ لہٰذا مجه پر نعمت نازل کرجن کے ذریعہ ميں تيری خو شنودی حاصل کرسکوں” حضرت امام علی بن الحسين عليہ السلام فر ما تے ہيں :

اَللَّهُمّ اجعَْلنِْي اَصُولَْ بِکَ عِندَْالض وَاَسالُکَ عِندَْ الحَْاجَةِ وَاَتَضَرَّعُ اِلَيکَْ عِندَْ المَْسکَْنَةِ وَلَاتَفتِْنِّي بِالاِْستِْعَانَةِ بِغَيرِْکَ اِذَااضطُْرِرتُْ (٣)

____________________

١)صحيفہ سجا دیہ دعا / ۴٧ ۔

(٢) بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٠ ۔ )

٣)صحيفہ سجادیہ دعا / ٢٠ ۔ )

۲۲

“پروردگار !مجهے ایسا بنا دے کہ ضرورت کے وقت تيرے ذریعہ حملہ کروں اور حا جتکے مو قع پر تجه سے سوال کروں ،مسکينی ميں تيری بارگاہ ميں گڑگڑاؤں اور مجهے ایسی آزما ئش ميں نہ ڈال دینا کہ مجبوری ميں تيرے غير سے مدد ما نگنے لگوں ”

قبوليت دعاکی دو جزائيں

بندہ کی دعا قبول ہونے کی اہميت خداوند عالم کے یہاں دو جہتوںسے ہے ایک جہت سے نہيں ہے اوران ميں سے ایک جہت دوسری جہت سےزیادہ عظيم ہے کم اہميت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سوال کے ذریعہ اس مطلب کا اظہار کرے جس کے ذریعہ انسان الله سے صرف دنيا یاصرف آخرت یاان دونوں کو ایک ساته طلب کرتا ہے۔بيش قيمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم بنفس نفيس بندہ کی دعا کا جواب دے تو اس کا مطلب خدا وند عالم کا اپنے بندہ کی دعا قبول کرنا ہی ہے کيونکہ جتنی مرتبہ بهی خداوند عالم قبول کرے گا اتنی ہی مرتبہ گویا بندہ کی طرف توجہ کرے گا ۔

دنيا کی ہر چيزکی قيمت اور حد ہوتی ہے ليکن خداوند قدوس کا اپنے بندہ کی طرف متوجہ ہونے کے لئے نہ کوئی حساب ہے اور نہ کو ئی حدہے۔ ليکن جب بندہ پر خدا کی خاص عنایت ہوتی ہے تو اس وقت بندہ کی سعادت کی کوئی حد نہيں ہوتی اور اس سعادت سے بلندکوئی اور سعادت نہيں ہوتی جس کو الله اپنے بندوں ميں سے بعض بندوں سے مخصوص کردیتاہے اور اسکی دعا قبول کرکے یہ نشاندہی کراتا ہے کہ جس چيز کا بندہ نے خدا سے سوال کيا ہے وہ کتنی قيمتی اور اہم ہے۔حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے

۲۳

:“لقد دعوت اللّٰه مرة فاستجاب،ونسيت الحاجة،لانّ استجابته بإقباله علیٰ عبده عند دعوته اعظم واجل مما یرید منه العبد،ولوکانت الجنة ونعيمهاالابد ولکن لایعقل ذلک الّاالعالمون،المحبون،العابدون،العارفون، صفوة اللّٰه وخاصته(١) “ميں نے ایک مرتبہ خدا وند عالم سے دعا کی اور اس نے قبول کرلی تو ميں اپنی حا جت ہی کو بهول گيا اس لئے کہ اس کا دعا کی قبوليت کے ذریعہ بندہ کی طرف توجہ کرنا بندہ کی حاجت کے مقابلہ ميں بہت عظيم ہے چا ہے وہ صاحب حا جت اور اس کی ابدی نعمتوں سے متعلق ہی کيو ں نہ ہو ليکن اس بات کو صرف خداوند عالم کے علماء ،محبين ،عابدین ،عرفاء اور اس کے مخصوص بندے ہی سمجه سکتے ہيں ”پس دعا اور استجابت دونوں الله اور بندہ کے مابين ایک تعلق ولگاؤ ہے یعنی سب سے افضل و اشرف تعلق ہے۔ الله اور اسکے بندوں کے درميان اس سے افضل کونسا تعلق ولگاؤ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کے حضور ميں اپنی حاجت پيش کرے اللهاس کو قبول کرے اور اس سے مخصوص قراردے۔ اس تعلق کی لذت اور نشوونما اور بندہ پر خداوند عالم کی توفيق وعنایات ميں اسی وقت مزہ ہے جب انسان اپنی مناجات،ذکر اور دعاکو خداسے مخصوص کردےہم(مولف)کہتے ہيں الله سے اس تعلق ولگاؤ کی لذت یہ بندہ پر الله کی عنایت ہے کہ بندہ اس طرح خداوند عالم کی یاد ميںغرق ہوجاتاہے کہ انسان خداکی بارگاہ ميں اپنی حا جتيں پيش کرنے ميں مشغول ہوجاتا ہے ۔ اور کون لذت اس لذت کے مقابل ہوسکتی ہے ؟اور کونسی دولت خداوند عالم کے حضور ميں پيش ہونے،اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکا تذکرہ کرنے اور اسکے جلال وجمال ميں منہمک ہونے کے مانند ہوسکتی ہے اور دعاکرنے کےلئے الله کے سامنے کهڑے ہونا یہ خدا کے سامنے حاضر

____________________

١)مصباح الشریعة صفحہ / ١۴ ۔ ١۵ ؛بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٢٣ ۔ )

۲۴

ہونے اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

ایک عارف کا کہناہے:الله کے حضور ميں الله کے علاوہ کسی اورسے کوئی سوال کرناالله کے نزد یک بہت برا ہے اور خدا کے علاوہ اس کے جلال اور جمال ميں منہمک ہوجاناہے۔

رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ حدیث قدسی ميں آیاہے:

(“من شغله ذکري عن مسالتي اعطيته افضل مااعطی السائلين( ۱) جو شخص مجه سے کوئی سوال کرے گاتوميں اس کوسوال سے زیادہ عطاکرونگا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:

وانّ العبد لتکون له الحاجة الی اللّٰه فيبدابالثناء علی اللّٰه والصلاة علی محمد وآله حتّی ینسیٰ حاجته فيقضيهامن غيران یساله ایاها( ٢) “اگر بندہ ،خداسے کوئی حاجت رکهتا ہواور وہ خداوند عالم سے اپنی حاجت کی ابتداء اس کی حمدوثنا اور محمد وآل محمد پر صلوات بهيج کر کرے اور اسی دوران وہ اپنی حاجت بهول جائے تو اس سے پہلے کہ وہ خداوند عالم سے حاجت کا سوال کرے وہ اس کی حاجت پوری کردے گا ”

مناجات محبين ميں حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے مروی ہے : ۔۔۔اِجعَْلنَْامِمَّن هَيَّمتَْ قَلبَْهُ لِاِرَادَتِکَ وَاجتَْبَيتَْهُ لِمُشَاهَدَتِکَ ،وَاَخلَْيتَْ وَجهَْهُ لَکَ وَفَرَّغتَْ فُوادَهُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبتَْهُ فِيمَْاعِندَْکَ وَقَطَعتَْ عَنهُْ کُلَّ شَيءٍْ یَقطَْعُهُ عَنکَْ (٣ ) “ہم کو ان ميں سے قر ار دے کہ جن کے دلوں کو اپنی چاہت کے لئے گرویدہ کرليا ہے اور

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٣ ۔ )

٢)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣١٢ ۔ )

٣)مناجات محبين۔ )

۲۵

اپنے مشاہدے کےلئے انهيںچن ليا ہے اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عنایت کی ہے اور اپنی محبت کے لئے ان کے دلوںکو خا لی کر ليا ہے اور اپنے ثواب کے لئے راغب بنا یا ہے ۔۔۔اور ہر اس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندہ کو تجه سے الگ کرسکے ”

دعا اور استجابت دعا کا رابطہ

خداوند عالم ارشاد فرماتاہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی اَستَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ( ١)

“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”

دعا قبول ہونے کے درميان کيا رابطہ ہے؟

استجابت کيسے تمام ہوتی ہے؟

ہم اس فصل ميں ان ہی دو سوالات سے متعلق بحث کریں گے۔

بيشک خداوند عالم کی طرف سے دعا استجابت کے الٰہی سنتوں اور قوانين کے ذریعہ انجام پاتی ہے جيسا کہ تمام افعال ميں خدا کا یہی طریقہ رائج ہے۔ منفعل ہونا خداکی ذات ميں نہيں ہے جيسا کہ ہم انسانوں کی فطرت ہے کہ کبهی ہم غصہ ہوتے ہيں ،کبهی خوشحال ہوتے ہيں،کبهی غصہ ہو تے ہيں ،کبهی خوش ہو تے ہيں ،کبهی چُست رہتے ہيں اور کبهی ملول و رنجيدہ رہتے ہيں ۔ اور خداوند عالم کے افعال ایک طرح کے قانون ا ور سنت ہيں ان ميں خوشی یا غصہ کاکوئی دخل

____________________

١)سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔ )

۲۶

نہيں ہوتا تمام سنتيں اور قوانين الٰہيہ اپنی جگہ پر ثابت ہيں ۔ایسا نہيں ہے کہ خداوند عالم خوش ہوگا تو دعا قبول کرے گا اور ناراض ہوگاتو دعاقبول نہيں کرے گا ۔ یہ تمام الٰہی سنتيں افق غيب(مڻافيزیکی )ميں اس طرح جاری ہوتی ہيں جس طرح فيزیکس، کيميا،اور ميکانيک ميں بغير کسی فرق کے جاری ہوتی ہيں۔( لَن تَجِدَلِسُنَّةِاللهِتَبدِْیلْاً ) ( ١)

“تم خدا کی سنت ميں ہر گز تبدیلی نہيں پا و گے ”( لَن تَجِدَلِسُنَّةِ اللهِ تَحوِْیلْاً ) ( ٢)

“ہر گز خدا کے طریقہ کار ميں کو ئی تغير نہيں ہو سکتا ہے ”

دعاقبول ہونے ميں الله کی سنت کيا ہے؟

دعا ،رحمت کی کنجی ہے

دعا اور استجابت کے درميان رابطہ کے سلسلہ ميں نصوص اسلاميہ ميں دعا اجابت کی کليد کے عنوان سے تعبير کی گئی ہے اور یہی کلمہ دعااور استجابت کے درميان رابطہ کی نوعيت کو معين ومشخص کرتاہے۔

حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :

(الدعاء مفتاح الرحمة (٣ ) “دعاکليد رحمت ہے”

____________________

(١)سورئہ احزاب(۶٢ )

٢)سورئہ فاطرآیت/ ۴٣ ۔ )

(٣)بحار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ )

۲۷

اور امام امير المومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن عليہ السلام کو وصيت فرمائی:

ثم جعل فی یدک مفاتيح خزائنه بمااذن فيه من مسالته فمتٰی شئت (استفتحت بالدعاء ابواب خزائنه ( ١)

“تمہارے ہاتهوں ميں اپنے خزانوں کی کليد قرار دی پس جب تم چاہو تو اس دعاکے ذریعہ خزانوں کے دروازے کهول سکتے ہو”

دعا اور استجابت کے درميان رابطہ کی واضح و روشن تعبير “فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ”ہے۔

پس معلوم ہواکہ جس کليد سے ہم الله کی رحمت کے خزانوں کو کهول سکتے ہيں وہ دعا ہے۔

اور ا لله کی رحمت کے خزانے کبهی ختم نہيں ہوتے ليکن ایسا بهی نہيں ہے کہ تمام لوگ الله کی رحمت کے خزانوں کے مالک بن جائيں اور ایسا بهی نہيں ہے کہ تمام لوگ آسانی سے الله کی رحمت کے خزانوں کو حاصل کرسکيں۔

امام جعفر صادق عليہ السلام سے خداوند عالم کے قول:

( مَایَفتَْحِ اللهُ لِلنَّا سِ مِن رَحمَْةٍ فَلَامُمسِْکَ لَهَا ) ( ٢)

“الله انسا نوں کےلئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے اس کا کو ئی روکنے والا (نہيں ہے ”کے بارے ميںروایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ دعاہے۔(٣ بيشک دعا وہ کليد ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم لوگو ں کےلئے اپنی رحمت کے دروازوں کو کهول

____________________

١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٩ )

٢)سورئہ فا طر آیت / ١۔ )

٣)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٩ ۔ )

۲۸

دیتا ہے اور اس کليد کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ہاتهوں ميں قرار دیا ہے۔ رسول الله (ص)سے مروی ہے کہ:“من فتح له من الدعاء منکم فتحت له ابواب الاجابة( ١)

“تم ميں سے جس شخص کےلئے باب دعا کهل جائے تو اس کے لئے اجابت کے دروازے کهل جاتے ہيں ”

اللهتبارک وتعالیٰ جو دعا کے ذریعہ بندے کے لئے دروازے کهول دیتا ہے وہ اس کے لئے ابواب اجابت بهی کهول دیتاہے۔

حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے:

من قرع باب اللّٰه سبحانه فتح له( ٢) “جو الله کے دروازے کو کهڻکهڻاتاہے تو الله اس کےلئے دروازہ کهول دیتا ہے” اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:

اکثرمن الدعاء،فانه مفتاح کل رحمة،ونجاح کل حاجة،ولاینال ماعند اللّٰه الابالدعاء،وليس باب یکثرقرعه الایوشک انْ یُفتح لصاحبه(٣ ) “زیادہ دعا کرو اس لئے کہ دعا ہر رحمت کی کنجی ہے۔ہر حاجت کی کاميابی ہے اور الله کے پاس جو کچه ہے اس کو دعا کے علاوہ کسی اور چيز سے حاصل نہيں کيا جاسکتا اور ایسا کوئی دروازہ نہيں جس کو بہت زیادہ کهڻکهڻایا جائے اور وہ کهڻکهڻانے والے کے لئے نہ کهلے”

____________________

١)کنزالعمال حدیث نمبر/ ٣١۵۶ ۔ )

٢)غررالحکم حدیث / ٨٢٩٢ ۔ )

٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٨۶ حدیث/ ٨۶١۶ ۔ )

۲۹

اور حضرت اميرالمومنين عليہ السلام سے مروی ہے:

الدعاء مفاتيح النجاح،ومقاليدالفلاح،وخيرالدعاء ماصدرعن صدر نقي وقلب تقي( ١)

“دعا کاميابی کی کليد اوررستگاری کے ہار ہيں اور سب سے اچهی دعاوہ ہوتی ہے جو پاک وصاف اورپرہيزگار دل سے کی جاتی ہے”

ر سو ل ١للهصلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مر و ی ہے کہ : “الاادلّکم علی سلاح ینجيکم من اعدائکم،ویدرّارزاقکم ؟ قالوا:بلیٰ، قال:تدعون ربّکم بالليل والنهار،فانّ سلاح المومن الدعاء( ٢)

“آگاہ ہو جاوکيا ميں تمہاری اس اسلحہ کی طرف را ہنمائی کروں جو تم کو تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکهے اور تمہارا رزق چلتا رہے ؟توانهو ں نے کہا : ہا ں آپ نے فر ما یا :خدا وند عا لم کو رات دن پکارو اس لئے کہ دعا مو من کا اسلحہ ہے”

عمل اور دعا الله کی رحمت کی دو کنجيا ں

الله نے ہما رے ہا تهو ںميں کنجيا ں قرار د ی ہيں جن کے ذر یعہ ہم الله کی رحمت کے خز انو ںکے دروازے کهول سکتے ہيں اور ان کے ذر یعہ ہم الله کا رزق اور اس کا فضل طلب کر سکتے ہيں اور وہ دو نو ں کنجيا ں عمل اور دعا ہيں اور ان ميں سے ایک دو سر ے سے بے نيا زنہيں ہو سکتی ۔ عمل، دعا سے بے نيا زنہيںہے یعنی انسان کےلئے عمل کے بغير دعا پر اکتفا کر لينا کافی نہيں ہے

رسول الله (ص) نے جناب ابوذر سے وصيت کرتے ہو ئے فرمایا :

____________________

١)وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٩۴ حدیث ٨۶۵٧ ،اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵١٧ ۔ )

٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٩۵ ،حدیث ٨۶۵٨ ۔ )

۳۰

یااباذرمَثَلُ الذي یدعوبغيرعمل کمثل الذي یرمي بغيروتر(١) “اے ابوذر بغير عمل کے دعا کرنے والا اسی طرح ہے جس طرح ایک انسان بغير کمان کے تير پهينکے ”

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : “ثلاثة ترود عليهم دعوتهم:رجل جلس فی بيته وقال:یاربِّ ارزقني، فيُقال له:الم اجعل لک السبيل الیٰ طلب الرزق ؟” ( ٢)

“تين آدميوں کی دعائيں واپس پلڻادی جاتی ہيں : ان ميں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے گهر ميںبيڻها رہے اور یہ کہے : اے پرور دگارمجهے رزق عطا کر تو اس کو جواب دیا جاتاہے : کيا ميں نے تمہارے لئے طلب رزق کا را ستہ مقررنہيں کيا ؟۔۔۔” اور انسان کےلئے دعا کے بغير عمل پر اکتفا کر لينا بهی صحيح نہيں ہے ۔ رسول اللهصلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :

إنّ للهعباداًیعملون فيعطيهم،وآخرین یسالونه صادقين فيعطيهم،ثم یجمعهم فی الجنةفيقول الذین عملوا:ربّنا،عملنافاعطيتنا،فبمااعطيت هولاء؟ فيقول:هولاء عبادي،اعطيتکم اجورکم ولم التکم من اعمالکم شيئاً،وسالني هولاء فاعطيتهم واغنيتهم،وهوفضلي اُوتيه مَنْ اشاء( ٣)

“بيشک الله کے کچه ایسے بندے ہ یں جو عمل کرتے ہيں اور خدا انکو عطا کرتا ہے اوردوسرے

____________________

١) وسا ئل شيعہ ابواب دعا باب ٣٢ حدیث ٣ ۔ )

٢)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ۵٠ ح ٣ ۔ )

٣) وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨۴ حدیث / ٨۶٠٩ ۔ )

۳۱

بندے ہيں جو صدق دل سے سوال کر تے ہيں اور خدا وند عالم ان کو بهی عطا کر تاہے پهرجب ان کوجنت ميں جمع کيا جا ئيگا تو عمل کرنے والے بندے کہيں گے : اے ہمارے پالنے والے ہم نے عمل کيا تو تو نے ہم کو عطا کيا ليکن ان کو کيوں عطا کيا گيا جواب ملے گا یہ ميرے بندے ہيں ميں نے تم کو تمہارا اجر دیا ہے اور تمہارے اعمال ميں سے کچه کم نہيں کيا ہے اور ان لوگوں نے مجه سے سوال کيا ميں نے ان کو دیا اور ان کو بے نياز کردیا اور یہ ميرا فضل ہے ميں جس کو چا ہتا ہوں عطا کرتا ہوں ”

اگر انسان عمل کرنے سے عاجز ہو تو الله نے اس کی تلافی کےلئے دعا قرار دی تا کہ انسان اپنے نفس پر اعتماد کرے ،جو کچه حول و قوہ الٰہی کے ذریعہ عطا کيا گيا ہے اورجو کچه اس نے عمل کے ذریعہ قائم کيا ہے اس کے فریب ميں نہ آئے ۔ معلو م ہو ا کہ عمل اور دعا دو نوں سب سے عظيم دو کنجياں ہيں جن دو نوں کے ذریعہ انسان پر الله کی رحمت کے دروازے کهلتے ہيں ۔

ا ب ہم عمل اور اس کے رحمت سے رابطہ کے مابين اور اس کے با لمقا بل دعا اور ا لله کی رحمت کے خزا نوں کے ما بين رابطہ اور عمل سے دعا کے رابطہ کے بارے ميں بحث کریں گے چونکہ یہ روابط ہی اسلام کے ابتدائی اور اصلی مسائل ہيں۔

الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کو “عمل اور دعا”دونوں چيزیں ایک ساته عطا کی ہيں۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اللهتعالیٰ نے اپنے بندوں کو وہی سب کچه عطا کيا“جو ان کے پاس ہے”۔“وہ سب کچه نہيں جو ان کے پاس نہيںہے”اور ان کے پاس ان کی کوششيں اور ان کے اعمال ہيں۔وہ اپنی کوشش سے جو کچه الله کے سامنے پيش کرتے ہيں اور اپنے نفوس اور اموال سے خرچ کرتے ہيں وہ عمل ہے ،اور جو کچه ان کے پاس نہيں ہے وہ ان کا فقر،اور الله کا محتاج ہونا ہے اور الله کے سامنے اپنے فقير اور محتاج ہونے کا اقرار کرنا ہے۔

انسانی حيات ميں یہ دونوں الله کی رحمت کو نازل کرنے کی کنجياں ہيں،جسے وہ اپنی کوشش عمل،نفس اور مال کے ذریعہ الله سے حاصل کرتا ہے اور الله کے حضور ميں اپنی حاجت ،فقر اور مجبور ی کو دکهلاتاہے۔

۳۲

دعااور عمل کے درميان رابطہ

ہمارا دعا کو الله کی سنتوں سے جدا سمجهنا صحيح نہيں ہے بيشک اللهنے کائنات ميں اپنے بندوں کے لئے ان کی حاجتوں کی خاطرسنتوں کو قرار دیا ہے۔اور لوگوں کا اپنی تمام حاجتوں اور متعلقات ميں ان سنتوں کو مہمل شمار کرناحرمت نہيں ہے۔

دعا ان سنتوںکا بدل قرار نہيں دی جاسکتی یہ الٰہی سنتيں انسان کو دعاسے بے نياز نہيں کرتی ہيں(یعنی ان سنتوں کو دعاؤں کا بدل قرار نہيں دیا جاسکتاہے۔)

یہ نکتہ اسلامی ربانی ثقافت ميں ایک بہت لطيف نکتہ ہے،لہٰذا فلّاح(کا شتکار ) کےلئے زمين کهودنااس ميںپانی دینا،زمين کی فصل ميں رکاوٹ بننے والی اضافی چيزوں کو دور کرنا، زراعت کی حفاظت کرنا اور مزرعہ سے نقصان دہ چيزوں کو دور کرنے کےلئے دعا کردینا ہی کا فی نہيں ہے ۔بيشک ایسی دعا قبول نہيں ہو تی ہے اور ایسی دعائيں امام جعفر صادق عليہ السلام کے اس قول کا مصداق ہيں :الداعي بلاعمل کالرامي بلاوتر “ عمل کے بغير دعا کرنے والابغير کمان کے تير پهينکنے والے کے ما نند ہے ۔ جس طرح بيمار اگر حکيم اور دوا کو بيکار سمجهنے لگے تو اس کی دعا قبول نہيں ہو تی ہے اور یہ دعا قبول ہی کيسے ہو جس ميں انسان الله کی سنتوں سے منه مو ڑلے ۔لہٰذا الٰہی سنتوں کے بغير دعا قبول نہيں ہو سکتی ہے ۔بيشک اپنے بندوں کی دعاوں کو قبول کرنے والا فطری طور پر ان سنتوں کا خالق ہے وہ وہی خدا ہے جس نے اپنے بندوں کو ان سنتوں کو جا ری کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ تم اپنا رزق اور اپنی حا جتيں ان سنتوں کے ذریعہ حاصل کرو اور خدا وند عالم فر ماتا ہے :

۳۳

(( هُوَالَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَْرضَْ ذَلُولْاًفَامشُْواْفِی مَنَاکِبِهَا وَکُلُواْمِن رِزقِْهِ ) ۔۔۔( ١)

“اسی نے تمہا رے لئے زمين کو نرم بنا دیا ہے کہ اس کے اطراف ميں چلو اور رزق خدا تلاش کرو ۔۔۔”

اور خدا وند عالم کا یہ فرمان ہے :

(( فَانتَْشِرُواْفِی الاَْرضِْ وَابتَْغُواْمِن فَضلِْ اللهِ ) ( ٢)

“پس زمين ميں منتشر ہو جا ؤ اور فضل خدا کو تلاش کرو ”

جس طرح دعا عمل کا قائم مقام نہيں ہو سکتی اسی طرح عمل دعا کا قائم مقام نہيں ہو سکتا بيشک اس کا ئنات کی کنجی الله کے پاس ہے ،دعا کے ذریعہ الله اپنے بندوں کووہ رزق عطا کرتا ہے جس کو وہ عمل کے ذریعہ حا صل نہيں کر سکتے اور دعا کے ذریعہ فطری اسباب سے اپنے بندوں کووہ کا ميابی عطا کرتا ہے جس پر وہ عمل کے ذریعہ قادر نہيں ہو سکتے ہيں ۔

انسان کےلئے رزق کی خاطر فطری اسباب کے مہيا کرنے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ انسان فطری اسباب کے ذریعہ الله سے دعا ،سوال اور ما نگنے سے بے نياز ہو جا ئے ۔

بيشک الله تبارک و تعالیٰ باسط ،قابض،معطی ،نافع ،ضار،محيی و مہلک،معزّ و مذل،رافع اور واضع(یعنی بلندی اور پستی عطا کرنے والا )ہے ،دنيائے ہستی کی کنجياں اسی کے ہاته ميں ہيں کو ئی چيزاس کے امر ميں مانع نہيں ہو سکتی ،اس دنيا کی کو ئی بهی چيز اس کے امر و سلطنت سے با ہر نہيں ہو سکتی اس دنيائے ہستی کی ہر طاقت و قوت ،سلطنت ،نفع پہنچانے والی اورنقصان دہ چيز اس کے امر،

____________________

١)سورئہ ملک آیت/ ۵ا۔ )٢)سورئہ جمعہ آیت/ ٩۔ )

۳۴

حکم اور سلطنت کے تابع ہے اور خدا کی سلطنت و ارادہ کے علا وہ اس دنيا ميں کسی چيز کا وجود مستقل نہيں ہے یہا ں تک کہ انسان بهی الله سے دعا ،طلب اور

سوال کے ذریعہ معا ملہ کر نے سے بے نياز نہيں ہے

ہم الله کی تسبيح کرتے ہيں اور یہودیوں کے اس قول :

(( ید الله مغلولة ) ( ١)

“خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں ”سے اس کو منزہ قرار دیتے ہيں اور وہ کہتے ہيں جو قرآن کہتا ہے :

(( بَل یَدَاهُ مَبسُْوطَْتَانِ ) ( ٢)

“بلکہ اس کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”

ہم اپنے تمام معا ملات خدا سے وابستہ قراردیتے ہيں ہم خدا کے ساته معاملہ کر نے اور جن سنتوں کو اللهنے بندوں کے لئے رزق کا وسيلہ قرار دیا ہے ان کے مابين جدائی کے قائل نہيں ہيں اور ہمارا یہ بهی عقيدہ ہے کہ یہ تمام طاقتيں اور روشيں خداوند عالم کے ارادہ مشيت اور سلطنت کے طول ميں ہم کو فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہيںيہ خداوند عالم کے ارادہ اور سلطان کے عرض ميں نہيں ہيں اور نہ ارادہ و سلطان سے جدا ہيں ۔

ہم اپنے چهوڻے بڑے تمام امور ميں الله کی رحمت،فضل اور حکمت سے یہی لولگاتے ہيں اور ہم اپنی زندگی ميں الله کے ارادے اسکی توفيق اوراسکے فضل سے ہی لولگاتے ہيں ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ ميں الله کے محتاج ہيں اور پوری زندگی ميں اسکے فضل و رحمت ،حمایت،توفيق اور ہدایت کے محتاج ہيں اور ہم دعاکرتے ہيں کہ وہ ہمارے امور کااستحکام ان کی ،تائيد،ہدایت،توفيق کا سرپرست

____________________

١)سورئہ ما ئدہ آیت / ۶۴ ۔ )

٢)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶٣ ۔ )

۳۵

ہے۔ہم خدا وند عالم کی ذات کریمہ سے اس بات کی پناہ چا ہتے ہيں کہ وہ ایک لمحہ کيلئے بهی ہم کو ہمارے حال پر چهوڑدے خداسے ہم یہ چاہتے ہيں کہ وہ خود ہی ہماری حاجتيں پوری کرے اور ہم کو کسی غير کا محتاج نہ بنائے ۔

اس دعا کا یہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنی حاجتوں کو لوگوں سے مخفی رکهے جبکہ اس کا ئنات ميں فطری اسباب مو جود ہيں بشرطيکہ انسان خداوند عالم سے دعا کرے بلکہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم سے یہ دعا کرے کہ خداوند عالم غير سے اس کی حاجت کو، اپنی حاجت کے طول ميں قرار دے ۔غير پر اس کے اعتماد کو اپنے اعتماد کے طول ميں قرار دے غير سے معاملہ کرنے کو خود سے معاملہ کرنے کے طول ميں قرار نہ دے اور نہ جدا قرار دے چنا نچہ یہ کائنات تمام کی تمام ایسے اسباب پر مشتمل ہے جو خداوند عالم کے تابع ہيں اور خداوند عالم نے ان کو مخلوق کا تابع قرار دیا ہے ۔

ان اسباب کے ساته معاملہ کرنا ان کو اخذ کرنا ،ان پر اعتماد کرنا خداوند عالم کے ساته معاملہ کرنے ،خدا سے اخذ کرنے ،خدا پر اعتماد کرنے کے طول ميں ہے نيز اس توحيد کا جزء ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے وہ نہ خدا کے ساته ہے اور نہ خدا وند عالم سے جدا ہے ۔

اس روش کی بنا ء پر ہم کہتے ہيں کہ انسان کا فریضہ ہے کہ ہر چيز ميں خداوند عالم کو پکارے ،ہر چيز کو خدا وند عالم سے طلب کرے چاہے چهوڻی ہو یا بڑی ،روڻی(کهانا) ،آڻے کے نمک اور جانوروں کی گهاس سے ليکر جنگ کے ميدانوں ميں دشمنوں پر کا ميابی تک ہر چيز خداوند عالم سے مانگے۔اپنی حاجتوں اور دعاؤں ميں سے کسی چيز ميں غير خدا کا سہارا نہ لے اور اس بات سے خدا وند عالم کی پناہ مانگے کہ وہ اس کو کسی چهوڻی یا بڑی چيز ميں اس کے حال پر چهوڑدے ۔

۳۶

فعلی طور پر ہمارا یہ عقيدہ ہے کہ ہم اس عام فضاء ميں ہر چيز کے سلسلہ ميں الله سے لولگائيں، ہر چيز الله سے طلب کریں ۔۔۔ یہ بات اس چيز سے کوئی منافات نہيں رکهتی کہ انسان جس کو اللهنے پيدا کيا اور اس دنياميں کچه چيزیں اسکے لئے مسخر کردی ہيں اور وہ اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ مریض ہونے کی حالت ميں الله سے شفامانگتا ہے پهر ان اسباب شفاء اور علاج کوعلم طب اور دوا ميں ڈهونڈهتا جواس نے اِن ميں قرار دئے ہيں۔

بلکہ ہم تو یہ عقيدہ رکهتے ہيں کہ اگر انسان تمام چيزوں کو چهوڑکر اور اس دنيا ميں الله کی سنتوں کو بروئے کار نہ لاکر الله سے دعا کرتا ہے تو اسکی دعا قبول نہيںہوتی اور وہ اس تير چلانے والے کے مانند ہے جو بغير کمان کے تير پهينکتاہے۔ یہ دقيق ، پاک و صاف اسلامی ثقافت ہم کو الله سے رابطہ رکهنے اور اس کا ئنات ميں الله کی سنتوں کے ساته ہما ہنگی رکهنے کی دعوت دیتی ہے ۔

ہم اس بات سے یہ نتيجہ اخذ کرتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعائيں الله سے طلب کرنے کا ذخيرہ ہيں اور بندہ خدا کے علاوہ کسی اور سے کوئی حاجت نہ رکهے،اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے،اپنی رسی کوالله کی ریسمان سے ملا دے اور ہر اس چيز سے منقطع ہو جا ئے جو اس کو خداسے منقطع کردیتی ہے۔

امام زین العا بدین عليہ السلام دعاميں فر ما تے ہيں:وَ لَاتَکِلنِْی اِل یٰ خَلقِْکَ بَل تَفَرَّد بِحَاجَتِي،ْوَتَوَلَّ کِفَایَتِي،ْوَانظُْر اِلّيَّ، وَانظُْر لِي فِی جَمِيعِْ اُمُورِْي (١) “اور مجهے اپنی مخلوقات کے حوالہ نہ کر دینا تو تن تنہا ميری حاجت روا کرنا ،اور ميرے لئے کا فی ہو جانا ،اور ميری طرف نگاہ رکهنا ،اور ميرے تمام امور پر اپنی نظریں رکهنا ”

حضرت ا مام حسين عليہ السلام دعا ئے عر فہ ميں فرماتے ہيں:

____________________

١)صحيفہ کاملہ سجا دیہ دعا نمبر ٢٢ ۔ )

۳۷

اللَّهُمَّ مَااَخَافَ فَاکفِْنِي وَمَااَحذَْرَفَقِنِي،ْوَفِی نَفسِْي وَدِینِْي فَاحرِْسنِْي،ْوَفِی سَفَرِي فَاحفَْظنِْي،ْوَفِی اَهلِْي وَمَالِي فَاخلُْفنِْي،ْوَفِيمَْارَزَقتَْنِی فَبَارِکَ لِي وَفِی نَفسِْي فَذَلِّلنِْي،ْوَفِي اَعيُْنِ النَّاسِ فَعَظِّمنِْي وَمِن شَرِّالجِْنِّ وَالاِْنسِْ فَسَلِّمنِْي،ْوَبِذَنُوبِْي فَلَاتَفضَْحنِْي،ْوَبِسَرِیرَْتِي فَلَا تُخزِْنِي،ْوَبِعَمَلِي فَلَاتَبتِْلنِْي،ْوَنِعَمِکَ فَلَاتَسلُْبنِْي وَاِل یٰ غَيرِْکَ فَلَا تَکِلنِْي ( ١)

“ خدایاجس چيزکامجهے خوف ہے اس کےلئے کفایت فرما اور جس چيز سے پرہيزکرتا ہوں اس سے بچا لے اور ميرے نفس اور ميرے دین ميںميری حراست فرما اور ميرے سفر ميں ميری حفاظت فرما اور ميرے اہل اور مال کی کمی پوری فرما اور جو رزق مجه کو دیا ہے اس ميں برکت عطافرما مجهے خود ميرے نزدیک ذليل بنادے اور مجه کو لوگوں کی نگاہ ميں صاحب عزت قرار دے اور جن وانس کے شر سے محفوظ رکهنا اورگنا ہوں کی وجہ سے مجهے رسوا نہ کرنا ميرے اسرارکوبے نقاب نہ فرمانااور ميرے اعمال ميںمجهے مبتلا نہ کرنا اور جونعمتيں دیدی ہيں انهيںواپس نہ لينااور مجه کو اپنے علاوہ کسی اور کے حوالہ نہ کرنا” اب ہم دعا اور دعا قبول ہو نے کے درميان رابطہ کو بيان کر تے ہيں ۔

دعا اوراستجا بت دعاکے درميان را بطہ

حاجت اور فقر کی طرف متوجہ ہونا ایک رازہے جسکے ذریعہ ہم دعا اور استجابت دعا کے درميان رابطہ کو کشف کر تے ہيں ،اور یہ سمجهتے ہيں کہ دعا رحمت کی کنجی کيسے ہے اور دعا سے الله کی رحمت کيسے نا زل ہو تی ہے ۔ بيشک ہر دعا فقرکی طرف متوجہ ہو نے کے درجہ کومجسم کر دیتی ہے اورالله کی طرف حاجت کے مرتبہ کومعين ومشخص کرتی ہے۔ انسان جتنا زیادہ الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرے گا اتنی ہی اس کی دعا قبوليت سے زیادہ قریب ہوگی اور الله کی رحمت انسان سے بہت زیادہ

____________________

١)دعا عرفہ امام حسين عليہ السلام ۔ )

۳۸

قریب ہو جائيگی ۔ الله اپنی رحمت کے نازل کرنے ميں کو ئی بخل نہيں کرتا بلکہ الله کی رحمت بندوں کی سرشت و طينت کے اعتبار سے مختلف طریقوں سے نازل ہو تی ہے ۔

یہ تعجب خيز بات ہے کہ حاجت اور فقر ،اور حاجت اور فقر کی طرف متو جہ ہو نا یہ انسان کا ظرف ہے جسکے ذریعہ وہ الله کی رحمت کو حاصل کرتا ہے ۔ اور جتنا زیادہ انسان اپنے فقر کی طرف متو جہ اور الله کی با رگاہ ميں دادو فریاد کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کا ظرف الله کی رحمت حاصل کر نے کےلئے وسيع ہو جا ئيگا ۔

الله تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت کے مطا بق عطا کر تا ہے اور ہر انسان اپنے ظرف کے مطابق ہی الله کی رحمت کو پاتا ہے اور جس کا ظرف زیادہ وسيع ہو گا الله کی رحمت کا حصہ بهی اس کے لئے اتنا ہی زیادہ ہو گا اب ہم دعا کو مختصر تين کلموں ميں بيان کر تے ہيں :

١۔فقر کی ضرورت ۔

٢۔فقر سے آگاہی ۔

٣۔حا جت طلب کرنا ،اس کو وسيع کر نا اور الله کے حضور ميں پيش کرنا ۔ تيسرا کلمہ دوسر ے کلمہ سے جدا ہے اور دوسرا کلمہ پہلے کلمہ سے جدا بيشک ضرور ت اور ہے اور ضرورت سے با خبر ہو نا اورہے ۔ کبهی انسان ہر چيز کا الله سے اظہار نہيں کرتا۔

اور کبهی انسان ضرور ت سے متعلق الله کا محتاج ہو تا ہے ليکن وہ اپنی ضرور ت کو الله کی بار گا ہ ميں پيش کرنا اچها نہيں سمجهتا اور الله سے ما نگنے ، سوال کر نے اور دعا کر نے کو اچها نہيں سمجهتا ہے ۔

۳۹

ليکن جب تک یہ تينوں کلمے ایک سا ته جمع نہيں ہو ں گے اس وقت تک دعا متحقق نہيں ہو سکتی ۔ یہاں پر ضرور ت، فلسفی اعتبار سے ہے صرف حادث ہو نے کے اعتبار سے ضرور ت نہيں ہے جيسے ایک عما رت کی تعمير کے لئے انجينئر اور معما روں کی ضرور ت ہو تی ہے عمارت حادث اور باقی رہنے کی محتاج ہے جس طرح جب تک بجلی کا سوئچ آن رہيگااس وقت تک بلب روشن رہے گا اور جيسے ہی سوئچ آف ہو گا ویسے ہی بلب کی روشنی بهی ختم ہو جائيگی ۔

حدوث اور بقاء کے اعتبار سے انسان بهی اسی طرح الله کا محتاج ہے،انسان کا وجود ،اسکا چلنا پهرنا اور اسکی زندگی سب الله سے مربوط ہيں ہر صورت ميں ہر حال ميں وہ الله کا محتاج ہے ۔

خداوند عالم فرماتاہے:

( یاایُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلیٰ اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِيُّ الْحَمید ) “(١ انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ہے ”

ضرورت اور فقر دونوں ہی سے انسان پر اسکے ظرف کے اعتبار سے رحمت نازل ہوتی ہے۔ خواہ انسان ان دونوں کو الله کے حضور ميں پيش کرے یا پيش نہ کرے ليکن ضرورت و فقر کا الله کی بارگاہ ميں پيش کرنا اور اس سے کهل کر مانگنا الله کی رحمت کو جذب کرنے کےلئے زیادہ قوی ہے۔

اب ہم فقر اور فقر کے الله کی رحمت سے رابطہ، فقر سے آگاہی اور اسکو الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے سے پہلے اور اس سے آگاہی اور الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے کے بعد کے متعلق گفتگو کرتے ہيں:

حاجت سے باخبر ہونے سے پہلے اور الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے سے پہلے حاجت :

الله کی بارگاہ ميں حاجت پيش کرنا حاجت کی ضرورت کے مطابق رحمت نازل کرتا ہے یہاں تک کہ اگرچہ حاجت سے باخبر ہونے اور الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے سے پہلے ہی کيوں نہ ہو

____________________

١)سورئہ فاطر آیت/ ۵ا۔ )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192