دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43138
ڈاؤنلوڈ: 2519


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43138 / ڈاؤنلوڈ: 2519
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

اسکی مثال اس سوکهی زمين کے مانند ہے جو پانی کو جذب کرليتی ہے اور چوس ليتی ہے۔

جس طرح الله سے غرور وتکبر کرنا اس سخت زمين کے مانند ہے جس پر پانی ڈالا جائے تو وہ اس کواپنے سے دور کردیتی ہے۔یعنی اپنے اندر جذب نہيں کرتی ہے۔اسی طرح الله کی عبادت اور دعا نہ کرنے والوں پر الله کی رحمت نازل نہيں ہوتی اور ان کو کچه نہيں ملتا ہے۔

بيشک فقر اور رحمت کے درميان تکوینی تعلق ہے ان دونوں ميں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے،الله سے فقر انسان کو اسکی رحمت سے قریب کرتا ہے اور الله کی رحمت ضرور ت اور فقر کے مقامات کو تلاش کرتی ہے جس طرح بچہ کی کمزوری اور اسکی ضرورت کے درميان مہربان ماں اور اسکی عطوفت کا رابطہ ہے ان ميں سے ہر ایک،ایک دوسرے کو چاہتا ہے بچہ کی کمزوری، مہربان ماں کو تلاش کرتی ہے اور مہربان ماں اور اسکی رحمت و عطوفت دونوں بچہ کی کمزوریوں کو تلاش کرتی ہيں۔

بلکہ ممکنات کے دائرہ حدود ميں ان دونوں ميں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے بچہ کی کمزوری کی رعایت کرنے ميں ماں کی ضرورت بچہ کو مہربان ماں کی ضرورت سے کم نہيں ہے۔

اسی طرح عالم تعليم دینے کی خاطر جاہل کو ڈهونڈهتا ہے جس طرح جاہل کچه سيکهنے کی خاطر عالم کی تلاش ميں رہتا ہے۔عالم کی جاہل کو تعليم دینے کی ضرورت جاہل کی عالم سے تعليم حاصل کرنے کی ضرورت سے کم نہيں ہے۔ حکيم مریضوں کا علاج کرناچاہتا ہے اور مریضوں کا علاج کرنے کی خاطر وہ اپنی ڈگری کا اعلان کرتا ہے جس طرح مریض حکيم کی تلاش ميں رہتا ہے حکيم کو مریض کی ضرورت مریض کو حکيم کی ضرورت سے کم نہيں ہے۔ طاقتور،کمزور کی مدد کر نے کی تلاش ميں رہتا ہے جس طرح کمزور اس تلاش ميں رہتا ہے کہ طاقتور ميری مدد کرے ،بيشک طاقتور کی کمزور کی مدد کر نے کی ضرورت ،کمزور کی طاقتور سے اپنی حمایت و مدد کی ضرورت سے کم نہيں ہے ۔

۴۱

بيشک تمام چيزوں ميں یہ الله کی سنت ہے۔

یہی حال الله کی رحمت اور بندوں کی ضرورت کا ہے جس طرح ضرورت و حاجت رحمت طلب کرتی ہے اسی طرح رحمت، فقر اورضرورت کی تلاش ميں رہتی ہے اور خداوند سبحان حاجت و ضرورت سے منزہ ہے اور وہ محتاج نہيں ہے ليکن الله کی رحمت حاجت وضرورت کے مقامات کی تلاش ميں رہتی ہے۔

بخل سے کام لينا الله کے شایان شان نہيں ہے اوراس کی رحمت کے مرتبوں ميں اختلاف بندے کی ضرورت وحاجت کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔

زمين سے اگنے والے دانہ کو گرمی،روشنی،پانی اور ہواکی ضرورت ہے تو اللهنے اسکے لئے حرارت ،نور،پانی اور ہوا کی مقدار معين فرمائی ليکن تکوین کی زبان ميں اس حاجت و ضرورت کو طلب اور سوال کہا جاتا ہے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

(یَسالُهُ مَن فِی السَّ مٰواتِ وَالاَرضِْ کُلَّ یَومٍْ هُوَ فِی شَان ) ( ١)

“آسمان و زمين ميں جو کچه بهی ہے سب اسی سے سوال کر تے ہيں اور وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے ”

بيشک جب شير خوار بچہ کو سخت پياس لگتی ہے اور وہ بذات خود کسی چيز کے ذریعہ اسکا اظہار کرنے کی صلاحيت نہيں رکهتا تو خداوندعالم نے اسکورونے اور چيخنے کی تعليم دی اور اسکے ماں باپ کے دل کو اس کے لئے مہربان کردیا تاکہ وہ اس کی دیکه بهال کریں اور اس کو سيراب کریں ۔

____________________

١)سورئہ رحمن آیت/ ٢٩ ۔ )

۴۲

شير خوار بچہ کی بهوک و پياس الله کی رحمت اور اسکی مہربانی کو بغير کسی طلب و دعاکے نازل کرتی ہيں۔مریض جب اپنے دردوالم کا احساس کرتا ہے تو اسکے ذریعہ بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

جب ہم الله کی معصيت و نافرمانی کرتے ہيں اور گناہوں کے مرتکب ہوتے ہيں تو ہم الله سے اپنے گناہوں اور نافرمانيوں کی بخشش و مغفرت اپنے سوال اور دعا کے ذریعہ چاہتے ہيں اور کبهی کبهی بغير سوال اور دعا کے بهی مغفرت حاصل ہو جاتی ہے،جب بندہ اپنے مو لا کی سر کشی نہ کرے ، قسی القلب نہ ہو اور رحمت خدا سے دور نہ کيا گيا ہوخداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( قُل یَاعِبَادِيَ الَّذِینَْ اسرَْفُواْعَ لٰی اَنفُْسِهِم لَاتَقنَْطُواْمِن رَّحمَْةِاللهِّٰ اِنَّ اللهَّٰ ( یَغفِْرُالذُّنُوبَْ جَمِيعْاًاِنَّهُ هُوَالغَْفُورُْالرَّحِيمُْ ) ( ١)

“پيغمبر آپ پيغام پہنچا دیجئے کہ اے ميرے بندوجنهوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے ما یو س نہ ہونا الله تمام گنا ہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقيناً بہت زیادہ بخشنے والا اور مہر بان ہے ”

کتنے ایسے بهوکے فقير ہيں جن کو خداوند عالم بغير سوال اور دعا کے رزق عطا کرتا ہے۔

کتنے ایسے مجبور و ناچار ہيں جو سمندر کی لہروں ميں آجاتے ہيں یا غرق ہونے والے ہوتے ہيں یا تلوارکی دهار کے نيچے آجاتے ہيں یا آگ کے اندر گهرجاتے ہيں اور بغير سوال ودعا کے خدا ان کوبچاليتا ہے اور ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔ کتنے ایسے پياسے ہيں جواپنی جان دینے کے قریب ہو تے ہيں ليکن الله کی رحمت بغير کسی سوال و طلب کے ان کو موت سے نجات دیتی ہے ۔

____________________

۔ ١)سورئہ زمرآیت ۵٣ )

۴۳

کتنے ایسے انسان ہيں جن کو خطروں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ خطروں سے دو کمان کے فا صلہ پر تهے جبکہ ان کو کبهی معلوم تها اور کبهی نہيں معلوم تها اس وقت خداوند عالم کی پردہ پو شی نے آکر ان کو نجات دی ۔

کتنے ایسے انسان ہيں جن پرزندگی کے راستے بند ہو جاتے ہيں ليکن خداوند عالم ان کے لئے ہزار راستے کهول دیتا ہے اور یہ سب کچه بغير کسی سوال و دعا اور طلب کے ہوتا ہے۔

کتنے ایسے شير خوار بچے ہيں جن کے شامل حال خداوند عالم کی رحمت (ہوتی ہے جبکہ وہ الله سے نہ کوئی سوال کرتے ہيں اور نہ دعا کرتے ہيں ۔(١ دعاء افتتاح ميں وارد ہواہے:

فکم یاالٰهي من کربة قدفرّجتها،وهموم قدکشفتها،وعثرة قداقلتها، ورحمةقدنشرتهاوحلقةبلاء قدفککتها

“اے ميرے خداتو نے کتنے ہی غمو ں کو دور کيا ہے کتنے ہی مصيبتوں کو ختم کيا ہے اور کتنی ہی لغزشوں کو معاف کر دیا ہے اور رحمت کو پهيلا دیا ہے اور بلاؤں کی زنجيروں کو کهول دیا ہے ” ایام رجب کی دعاوں ميں وارد ہواہے:

____________________

١)اس کا مطلب یہ نہيں کہ لوگ زلزلہ ميں عما رتوں کے نيچے نہيں مرتے یا آگ لگنے کی ) صورت ميں نہيں جلتے ، سمندروں کی گہرا ئيوں ميں نہيں مرتے ،کو ئی انسان بيما ری اور درد سے نہيں مرتا ،کو ئی شير خوار بچہ نہيں مرتا چنانچہ خدا وند عالم نے اپنی رحمت و حکمت کی وجہ سے اس کا ئنات کو بہراکر دیا ہے تو جب حکمت الٰہی انسان یاحيوان یا نباتات ميں کسی اہم چيز کے وقوع کا تقاضا کر تی ہے تو اس کا مطلب یہ نہيں ہوتا کہ ہم خداوند عالم کے فضل اور صفات حسنیٰ کے دو سرے رخ یعنی رحمت کا انکار کر دیں ۔کچه لوگ ایسے ہو تے ہيں جو بلا اور پریشانی ميں حکمت اور روش خدا کے تا بع ہو تے ہيں وہ آسانی اور مشکل نيز زند گی کے سخت لمحات ميں رحمت الٰہی کا احساس نہيں کرتے، کچه لوگ ایسے ہو تے ہيں جو اپنی زند گی کے سخت اضطراری لمحات ميں خدا وند عالم کی رحمت واسعہ سے آشنا نہيں ہو تے ہيں۔

۴۴

یامن یعطي مَن ساله،یامَن یعطي مَن لم یساله ومَن لم یعرفه تحننا منه ورحمة

“اے وہ خدا جو اسے عطا کرتا ہے جو اس سے سوال کرتا ہے اے وہ جو اسے عطا کرتا ہے جو اس سے سوال نہ کرے اور جو اس کو نہ پہچانے اپنی رحمت و لطف سے مجه کو عطا کر ”

اور مناجات رجبيہ ميں آیا ہے:

ولکن عفوک قبل عملنا

“اور ليکن تيرا عفو ہمارے عمل سے پہلے سے ہے ” بيشک الله کی بخشش کو ہمارے گناہوں کی ضرورت ہے۔

حاجت اور فقر کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

ہم اس سلسلہ ميں ایک مشہور و معروف رومی عارف کے اشعار ميں سے ایک شعر کا ترجمہ ذکر کرتے ہيں:

رومی عارف کا کہنا ہے:پانی نہ مانگو اور اتنی پياس مانگو کہ تمہارے چاروں طرف پانی کے چشمے پهوٹ جائيں۔

الله کی رحمت اور الله کے بندوں کی حاجت و ضرورت کے مابين رابطہ کی طرف حضرت علی عليہ السلام کی مناجات ميں اشارہ کيا گيا ہے:

موليی یامولاي،انت المولیٰ واناالعبد،وهل یرحم العبدَ اِلّاالْمَوْلیٰ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ المَْالِکُ وَاَنَاالمَْملُْوکُْ وَهَل یَرحَْمُ المَْملُْوکَْ اِلَّا المَْالِکُ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ العَْزِیزُْ وَاَنَا الذَّلِيلُْ وَهَل یَرحَْمُ الذَّلِيلَْ اِلَّاالعَْزِیزُْ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ الخَْالِقُ وَاَنَاالمَْخلُْوقُْ وَهَل یَرحَْمُ المَْخلُْوقُْ اِلّا الخَْالِقُ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايُ اَنتَْ القَْوِیُّ وَاَنَاالضَّعِيفُْ وَهَل یَرحَْمُ الضَّعِيفَْ اِلَّاالقَْوِيُ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ الغَْنِيُّ وَاَنَاالفَقِيرُْوَهَل یَرحَْمُ الفَْقِيرَْاِلَّاالغَْنِي ؟ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ المُْعطِْي وَاَنَاالسَّا ئِلُ وَهَل یَرحَْمُ السَّائِلَ اِلَّاالمُْعطِْي؟ْ مَولَْايَ یَامَولَْايَ اَنتَْ الحَْيُّ وَاَنَاالمَْيِّتُ وَهَل یَرحَْمُ المَْيِّتَ اِلَّاالحَْيُّ؟

۴۵

“اے ميرے مو لا اے ميرے مو لا تو مولا ہے اور ميں بندہ ہوں اور بندے پر مو لا کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟

اے ميرے مو لا اے ميرے مولا تو مالک ہے اور ميں مملوک ہوں اور مملوک پر مالک کے سوا کون رحم کرے گا ؟

مو لا اے ميرے مولا تو عزت و اقتدار والا ہے اور ميں ذلت و رسوائی والا اور ذليل پر عزت والے کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟

اے ميرے مو لا اے ميرے مو لا تو خالق ہے اور ميں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے سوا کون رحم کرے گا ؟

اے ميرے مو لا اے ميرے مو لا تو عظيم ہے اور ميں حقير ہوں اور حقير پر سوائے عظيم کے کون رحم کرے گا ؟

مو لا اے ميرے مو لا تو طاقتور ہے اور ميں کمزور ہوں اور کمزور پر طاقتور کے علا وہ اور کون رحم کرے گا ؟

مو لا اے ميرے مو لا تو مالدار ہے اور ميں محتاج ہوں اور محتاج پر ما لدار کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟

مو لا اے ميرے مو لا تو عطا کرنے والا ہے اور ميں سائل ہوں اور سائل پر سوائے عطا کرنے والے کے اور کون رحم کرے گا ؟ ميرے مو لا اے ميرے مولا تو زندہ ہے اور ميں مردہ ہوں اور مردہ پر سوائے زندہ کے اور کون رحم کرے گا ؟

ضرورت سے پہلے دعا کرنا

جس حاجت و فقر کی طرف انسان متوجہ ہو تا ہے اور اس کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے ، اس سے دعا کرتا ہے اور اس سے طلب کرتا ہے (وہ فقر کی طرف متوجہ ہو نے کے بعد دعا کرنا ہے )۔

ضرورت سے با خبرہونے اور طلب سے متصل ضرورت کے ذریعہ الله کی رحمت زیادہ نازل ہو تی ہے اس حاجت و ضرورت کی نسبت جو دعا سے متصل نہيں ہو تی ہے ۔

۴۶

دونوں کے ذریعہ الله کی رحمت نا زل ہو تی ہے ليکن حاجت جب طلب اور دعا سے متصل ہوتی ہے تو الله کی رحمت کو زیادہ جذب کرتی ہے اور الله کی رحمت غير کی نسبت اس کو زیادہ جواب دیتی ہے۔ اور اسی حاجت کی طرف سورہ نمل کی اس آیت کریمہ ميں اشارہ کيا گيا ہے :

(( امّنُ یُجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ ) (١ “بهلا وہ کون ہے جو مضطر کی آواز کو سنتا ہے جب وہ آواز دیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ”

آیہ کریمہ ميں دوباتوںپر زیادہ توجہ دی گئی ہے اضطرار اوردعا (المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ ) ( ٢)

اور ان دو نوںيعنی اضطرار اور دعاميں سے ہرایک رحمت کو جذب کرتا ہے جب اضطرار اور

____________________

١)سورئہ نمل آیت/ ۶٢ ۔ )

٢)سورئہ نمل آیت/ ۶٢ ۔ )

۴۷

دعا دو نوں جمع ہو جا ئيں تو رحمت کا نازل ہو نا ضروری ہے ۔ اسلام ميں الله تبارک و تعالیٰ سے دعا اور سوال کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گيا ہے اور ا س کی رحمت کو حاصل کر نے کےلئے اس کی بار گا ہ ميں اپنی حاجتوں کو پيش کر نے اور اس کے سا منے اپنی حاجت کی تشریح کر نے پربهی زور دیاگيا ہے ۔

اسلامی نصوص ميں حاجت برآوری کو دعا سے مربوط قراردیا گياہے: (( وَقَالَ رَبّکم اُدعُْونِْي اَستَْجِب لَکُم ) ( ١)

“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا” اور قرآن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ الله کے نزدیک اس کے بندے کی قدر و قيمت اس بندے کی دعا کے ذریعہ ہی ہے :

(( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّي لَولْادُعَاوکُم ) ( ٢)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہا ری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پروا بهی نہ کرتا ”

قرآن کریم نے تو اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر کو ئی دعا سے منحرف ہو تا ہے تو وہ الله کی عبا دت کر نے سے اکڑنے والا قرار دیاجاتا ہے :( اُدعْوني اَستَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِي سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ )

“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقينا جو لوگ ميری عبا دت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں دا خل ہو ں گے ”

____________________

١)سورئہ مومن آیت/ ۶٠ ۔ )

٢)سورئہ فرقان آیت/ ٧٧ ۔ )

٣)سورئہ مومن آیت/ ۶٠ ۔ )

۴۸

دعا اور استجابت کے درميان رابطہ کے سلسلہ ميں تين قوا نين اب ہما را سوال یہ ہے کہ جب حا جت و ضر ورت دعا کے ساته ہو تی ہے تو رحمت کے نزو ل ميںتيزی کيسے آ جا تی ہے اور دعا و ا ستجا بت کے در ميان رابطہ کی شدت اور اس پر زیادہ زور دینے کی کيا وجہ ہے ؟ در حقيقت ہم نے اس فصل کا آغاز اسی سوال کا جواب دینے اور دعا وا ستجا بت کے درميان رابطہ کی تحليل کر نے کےلئے کيا ہے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے : دعا کے ذریعہ الله کی رحمت نا زل ہو نے کے تين قوانين ہيں:

١۔الله کی رحمت اور فقر و حاجت کے درميان رابطہ ؛ ہم اس قانون کو پہلے وضاحت کے ساته بيان کرچکے ہيں لہٰذا اب اس کو دوبارہ نہيں دُہرائيں گے اور دعا کی ہر حالت، حاجت اور فقر ميں الله کی رحمت کی متضمن ہوتی ہے اور یہ الله کی رحمتوں کی منزلوں ميں سے پہلی منزل ہے ۔

٢۔فقر اور حاجت ميں الله کی رحمت سے آگاہ ہوجانے کے بعد رابطہ۔ آگاہ ہوجانے کے بعد ضرورت اور آگاہ ہو نے سے پہلے ضرورت کے مابين فرق ہے ۔

ان ميں سے ہر ایک حا جت و ضرو رت ہے اور ہر ایک سے الله کی رحمت مجذوب ہو تی ہے اور نازل ہوتی ہے ليکن ان ميں سے ایک با خبر ہو نے سے پہلے اور ایک فقر و حا جت سے با خبر ہو جا نے کے بعد ہے ۔

جس حاجت وضرورت سے انسان با خبر نہيں ہو تا اس ميں وہ الله کا محتاج ہو تا ہے اور وہ اپنی حا جتوںکو الله کی بارگاہ ميں پيش نہيں کرتا بلکہ کبهی کبهی تو وہ الله کو پہچا نتا بهی نہيں۔

ليکن فقر وضرور ت سے آگا ہ انسا ن اپنی ضرور توں اور حا جتوں کو ا لله با ر گا ہ ميں پيش کر تا ہے اور یہ با خبر ہو نا ہی اس کے الله سے محتاجی کو تا ریکی سے نکا ل کر با خبر ہو نے تک پہنچادیتا ہے حا لا نکہ حا جت و ضرورت سے ناسمجه و بے خبرانسان تا ریکی ميںگهر جا تا ہے اور وہ اس کو سمجه بهی نہيں پا تا ۔

ليکن وہ فقير و محتاج جو اپنی حاجتو ں کو الله کی بار گاہ ميں پيش کر تا ہے وہ الله کی رحمت اور اس کا فضل چا ہتا ہے حا لا نکہ اپنی ضرو رتو ں سے نا آگاہ فقير اپنی حا جتو ں کو الله کی با ر گاہ ميں پيش نہيںکر تاہے

۴۹

گو یا حا جتو ں سے با خبر انسا ن حا جت وضرور ت کی حا لت سے صحيح معنوں ميں دو چار ہو تا ہے اور ضرورت جتنی زیا دہ ہو گی اتنا ہی الله کی رحمت کو قبو ل کر نے کےلئے نفس وسيع ہو گا اور ہم پہلے یہ بيان کر چکے ہيں کہ الله کی رحمت کے خزانو ںميں نہ بخل ہے اور نہ مجبوری ۔ہا ں الله کی رحمت کو قبو ل کر نے کےلئے لو گو ں کے ظروف مختلف ہو تے ہيں ۔جس انسان کا ظرف بہت زیا دہ بڑا ہو گا الله کی رحمت ميں اس کا حصہ اتنا ہی زیا دہ ہو گا اور ظر ف سے مراد یہا ں پر ضرورت ہے یعنی جس ضرور ت کی کو ئی اہميت ہو اور انسان اپنی ضرورت کو الله کی با ر گاہ ميں پيش کر ے۔

ایک خطا کا ر مجرم کےلئے جب سو لی کا حکم صادر کيا جاتا ہے تو وہ اس سے با خبر ہو تا ہے ۔وہ عوام الناس اور حکا م کے دلو ں کواپنی طرف اس جرم سے زیا دہ معطوف کرتا ہے جو اپنے لئے سو لی کا حکم نا فذکر انا چا ہتا ہے اور اس کو یہ بهی نہيں معلو م کہ اسے کہا ں جا ناہے ۔سولی کا حکم صا در ہو نے کے متعلق دونوں برابر کا علم رکهتے ہيں۔ہاں وہ مجرم جواپنے جرم کا معتر ف اور اپنی سزاسے واقف ہے وہ دو سروں کے مقابلہ ميں لوگوں سے زیادہ رحمت کا خو استگار ہوتا ہے کيونکہ ایسا شخص جرم اور سزا کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے جبکہ دو سرے افراد جرم اور سزا کی طرف اتنا متوجہ نہيں ہو تے ۔

بارگاہ خداميں احساس نيازمندی کی علامتيں

باخبر ضرورت کو دعاؤں کے ذریعہ الله کی بارگاہ ميںپيش کرنے کی چند نشانياں اور علامتيں ہيں۔جتنا زیادہ انسان اپنی ضرورتوں کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے اتنا ہی یہ نشانياں اسکی دعاؤں ميں واضح ہوتی ہيں۔ ان نشانيوں ميں سے اہم نشانياں :دعاميں خشوع،خضوع،رونا گڑگڑانا ،الله کی بارگاہ ميں حاضر ہونا اور اپنی مجبوری کا اظہار کرنا ہيں۔

اسلامی نصوص ميں دعاؤں ميں ان تمام حالتوں اور نشانيوں پر زور دیا گيا ہے،اور دعا ء کی قبوليت ميں ان باتوں پر زور دیا گيا ہے۔

حقيقت ميں یہ علامتيں دعا ميں دوسرے اور تيسرے سبب پر توجہ دینے کو کشف کرتی ہيں۔وہ دونوں سبب ضرورتوں کی اطلاع ہونااور سوال کرنا ہے اور جتنا ہی انسان دعاميں خضوع وخشوع کرے گا اتنی ہی اسکی طلب وچاہت ميں شدّت ہوگی اور انسان اپنی حاجتوں کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرے گا۔

۵۰

ان حالتوںميں دعا قبول ہونے کے یہی دواسباب ہيں ان حالات اور ان کی طرف رغبت کو قرآن کریم ميں بيان کيا گيا ہے جن ميں سے کچه اسباب کو ہم ذیل ميں بيان کر رہے ہيں:

(خداوند عالم کا ارشاد ہے: ١:( تَدعُْونَْهُ تَضَرُّعاً وَخُفيَْةً ) ( ١)

“جسے تم گڑگڑاکر اور خفيہ طریقہ سے آواز دیتے ہو ”

(٢:( وَادعُْوهُْ خَوفْاًوَطَمَعاًاِنَّ رَحمَْةَ اللهِ قَرِیبٌْمِنَ المُْحسِْنِينَْ ) ( ٢)

“اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور اميد وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان حسن عمل سے قریب تر ہے ”

تضّر ع اورخوف یہ دو نوں حا لتيں انسان کو الله کی بار گا ہ ميں اپنی ضرور توں کو پيش کر نے کے بارے ميں زور دیتی ہيں ۔

اور طمع وہ حا لت ہے جو انسان کو اس چيز کی ر غبت دلاتی ہے کہ جو کچه الله کے پاس ہے بندہ اس کو حاصل کرے ۔

خفيہ(رازدارانہ )طور پر دعا کرنا انسان کو الله کی بارگاہ ميں حا ضری دینے پر آمادہ کرتا ہے

٣۔( وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَن لَّن نَقدِْرَعَلَيهِْ فَنَاد یٰفٰ ی الظُّلُمَاتِ اَن لاَاِ هٰلَ اِلاَّاَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِييْنَ فَاستَْجَبنَْالَهُ وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِْی المُْومِْنِينَْ ) (٣)

____________________

١)سو رہ انعام آیت ۶٣ ۔ )

٢)سورئہ اعراف آیت/ ۵۶ ۔ )

٣)سور ہ انبياء آیت ٨٧ ۔ ٨٨ ۔ )

۵۱

“اور یونس کو یاد کرو جب وہ غصہ ميں آکر چلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پهر تا ریکيوں ميں جا کر آواز دی کہ پرور دگار تيرے علا وہ کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها ۔تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور انهيں غم سے نجات دلا دی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلا تے رہتے ہيں ”

اس آیت ميں بندہ کی طرف سے خداوند عالم کی بارگاہ ميں ظلم کا اعتراف اور اقرار ہے :

(( سُبحَْانَکَ اِنِّي کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِييْنَ ) ۔( ١)

“پرور دگار تيرے علا وہ کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها”

ظلم کا اقرار کر نا ظلم سے با خبر ہو نا ہے اور اس سے گناہگارانسان اپنے نفس ميں استغفار کا بہت زیادہ احساس کر تا ہے اور جتنا ہی انسان اپنے ظلم اور گناہ سے با خبر ہو گا اتنا ہی وہ الله سے استغفار کر نے کے لئے زیادہ مضطر و بے چين ہو گا ۔

( ۴:( وَیَدعُْونَْنَارَغَباًوَرَهبْاًوَکَانُواْلَناَخَاشِعِينَْ ) ( ٢)

“اور رغبت اور خوف کے عالم ميں ہم کو پکارنے والے تهے ” رغبت ، خوف اور خشو ع وہ نفسانی حالات ہيں جو اپنی حا جتوں سے با خبر انسان کو اپنی حا جتوں کو الله کی بار گاہ ميں پيش کر نے پر زور دیتی ہيں ۔ انسان الله کے عذاب سے خوف کهاتاہے اور الله کے رزق اور ثواب سے اس کو رغبت ہو تی ہے ۔

(۵:( اَمَن یُّجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ وَ یَکشِْفُ السُّوءَْ ) (٣)

____________________

١)سورئہ انبياء آیت ٨٧ ۔ )

٢)سورہ انبياء آیت ٩٠ ۔ )

٣)سورئہ نمل آیت ۶٢ ۔ )

۵۲

اضطرار وہ نفسا نی حالت ہے جو انسان کے اپنی حا جتيں الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے پر زور دیتی ہے اور انسان کا اپنی ضرورتوں سے با خبر ہو نا الله کے علاوہ دوسرے تمام وسيلوں سے دور کرتا ہے (یعنی صرف الله ہی نجات دے سکتا ہے )۔ ( ۶ ۔:( یَدعُْونَْ رَبَّهُم خَوفْاًوَطَمَعاً ) ( ١)

“اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور طمع کی بنياد پر پکارتے رہتے ہيں ” اپنی حا جتوں سے با خبر انسان جتنا زیادہ الله کی بارگاہ ميں اپنی مجبوری و لا چا ری کا اظہار کرے گا خدا وند عالم اسی سوال اور حاجت کے مطابق اس کو عطا کر ے گا خداوند عالم کا ارشاد ہے :

(( وَادعُْوهُْ خَوفْاًوَطَمَعاًاِنّ رَحمَْة اللهّٰ قَرِیبٌْ مِنَ المُْحسِْنِينَْ ) (٢ “اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور اميد وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان حسن عمل سے قریب تر ہے ”

الله کی رحمت بندے سے اتنی ہی قریب ہو گی جتنا وہ اپنے نفس ميں الله کے عذاب سے خوف کها ئے گا اور الله کے احسان کی طمع کرے گا ۔ انسان کے نفس ميں جتنا زیادہ خوف ہو گا اتنی ہی اس کے نفس ميں تڑپ پيدا ہو گی، الله کی بار گاہ ميں اس کی دعا استجابت سے زیادہ قریب ہو گی اور الله کے رزق و ثواب کے لئے جتنی طمع انسان کے اندر ہوگی تو اتنی ہی زیادہ الله کی بارگاہ ميں اس کی دعا قبول ہو نے کے نزدیک ہو گی ۔ ٣۔دعا اور استجابت دعا کے درميان رابطہ اور یہ بالکل واضح وروشن قانون ہے جس کو انسان

____________________

١)سورئہ سجدہ آیت / ١۶ ۔ )

٢)سورئہ اعراف آیت ۵۵ ۔ )

۵۳

بذات خود فطری طورپر سمجه سکتا ہے اور آیہ کریمہ اسی چيز کو بيان کرتی ہے: (( اُدْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) ( ١)

بيشک ہر دعا قبول ہوتی ہے اور خداوند عالم اس فرمان کا یہی مطلب ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) اور یہ فطری و واضح قانون ہے جس کو انسان کی فطرت تسليم کرتی ہے اور یہ عام قانون ہے ليکن اگر کوئی دعا قبول ہونے کے درميان رکاوٹ پيدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔

دوطرح کی چيزیں دعا قبول ہونے ميں رکاوٹ ڈالتی ہيں: ١۔مسئول عنہ جس سے سوال کيا جائے اس کی طرف سے کچه رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں۔

٢۔سائل(سوال کرنے والے)کی طرف سے کچه رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں۔ مسئول (جس سے سوال کيا جائے )کی طرف سے آڑے آنے والی رکاوڻيں جيسے دعا قبول کرنے سے عاجز ہوجائے ،دعا قبول کرنے ميں بخل کرنے لگے ۔

کبهی بذات خودسائل کی طرف سے رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں جيسے دعا قبول کرنا بندہ کے مفادميں نہ ہو اور بندہ اس سے جاہل ہو اور اللهاسکو جانتا ہے۔ پہلی قسم کی رکاوڻيں الله کی سلطنت کے شایان شان نہيں ہيں چونکہ خداوند عالم بادشاہ مطلق ہے وہ کسی چيز سے عاجز نہيں ہے اور نہ ہی کوئی چيز اس سے فوت ہوتی ہے،نہ ہی کوئی چيز اسکی سلطنت و قدرت سے باہر ہوسکتی ہے،نہ ہی اسکے جودوکرم کی کوئی انتہا ہے ،نہ اسکے خزانہ ميں کوئی کمی آتی ہے اور کثرت عطا اس کے جودوکرم سے ہی ہوتی ہے۔ پس معلوم ہواکہ دعا کے قبول ہونے ميں پہلی قسم کی رکاوڻوں کے تصور کرنے کا امکان ہی نہيں ہے ۔

____________________

١)سورئہ مومن آیت / ۶٠ ۔ )

۵۴

ليکن سائل کی طرف سے دعا قبول نہ ہونے دینے والی رکاوڻوں کا امکان پایا جاتا ہے اورسب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم بہت سے بند وں کی دعا کو قبول کرنے ميں تاخير کرتا ہے ليکن وہ ایسا اپنے عاجز ہوجانے یا نجيل ہوجانے کی وجہ سے نہيں کرتا بلکہ وہ اپنے علم کی بناء پر یہ جانتا ہے کہ اس بندے کے لئے دعا کا دیر سے قبول کرنا بہتر ہے اور سب اس بات پر بهی متفق ہيں کہ اس صورت ميں دعاکا قبول ہونا بندے کےلئے مضر ہے اور خدا بندے کی دعا قبول نہيں کرتا ليکن اس دعا کے بدلہ ميں اسکو دنيا ميںبہت زیادہ خير عطا کردیتا ہے اور اسکے گناہوں کو بخش دیتاہے یا اسکے درجات بلند کردیتا ہے۔یا اسکو یہ سب چيزیںعطا کردیتا ہے۔ پہلے ہم پہلی قسم کے موانع سے متعلق بحث کریں گے،اسکے بعد

دوسری قسم کے موانع کے سلسلہ ميں بحث کریں اسکے بعد دعا اور اجابت کے درميا ن رابطہ کے سلسلہ پر روشنی ڈاليں گے۔

۵۵

پہلی قسم کے موانع دعا

پہلی قسم کے موانع (رکاوڻوں)کا کوئی وجود ہی نہيں ہے جيسا کہ ہم الله کی سلطنت کے متعلق عرض کرچکے ہيں کہ خدا کی سلطنت مطلق ہے وہ کسی چيز سے عاجز نہيں ہوتا،کوئی چيز اس سے چهوٹ نہيں سکتی،اسکی سلطنت اور قدرت کی کوئی حد نہيں ہے،کائنات ميں ہر چيز اسکی سلطنت اور قدرت کےلئے خاضع ہے اور جب وہ کہہ دیتا ہے تو کوئی چيز اسکے ارادے اور امر سے سرپيچی نہيں کرسکتی ہے:

(( وَاِذَاقَض یٰ اَمرْاً فَاِنَّمَایَقُولُْ لَهُ کُن فَيَکُونُْ ) (١ “اور جب کسی امر کا فيصلہ کر ليتا ہے تو صرف کن کہتا ہے اور وہ چيز ہو جا

تی ہے ”

(( اِنَّمَاقَولُْنَالِشَيءٍْ اِذَااَرَدنَْاهُ اَن نَقُولَْ لَهُ کُن فَيَکُونُْ ) (٢)

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت ١١٧ ۔ )

٢)سورئہ نحل آیت ۴٠ ۔ )

۵۶

“ہم جس چيز کا ارادہ کرليتے ہيں اس سے فقط اتنا کہتے ہيں کہ ہو جا اور وہ ہو جا تی ہے ”

(( اِنَّمَااَمرُْهُ اِذَااَرَادَ شَيئْاًاَن یَقُولَْ لَهُ کُن فَيَکُونُْ ) ( ١)

“اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شئی کے بارے ميں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہو جا اور وہ شئی ہو جا تی ہے ”

کائنات ميں کوئی بهی چيز اسکی سلطنت اور قدرت سے باہر نہيں ہوسکتی ہے:

(( وَالاَْرضُْ جَمِيعْاًقَبَضتُْهُ یَومَْ القِْيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطوِْیَّاتٌ بِيَمِينِْهِ ) ( ٢)

“جبکہ روز قيا مت تمام زمين اس کی مڻهی ميں ہو گی اور سارے آسمان اسی کے ہاته ميں لپڻے ہو ئے ہو ں گے ”

(( اِنَّ اللهَعَل یٰ کُلِّ شَي ءٍ قَدِیرٌْ ) (٣) “ اور یقيناً الله ہر شی پر قدرت رکهنے والا ہے ”

خداوند عالم کا امر (حکم)کسی چيز پر موقوف نہيں ہے،نہ ہی کسی چيز پر متعلق ہے۔

(( وَمَااَمرُْالسَّاعَةِ اِلَّاکَلَمحِْ البَْصَرِاَوهُْوَاَقرَْبُ اِنَّ اللهَعَل یٰ کُلِّ شَيءٍْ قَدِیرٌْ ) ( ۴)

“اور قيا مت کا حکم تو صرف ایک پلک جهپکنے کے برابر یا اس سے بهی قریب تر ہے اور یقيناً الله ہر شی پر قدرت رکهنے والا ہے ” یہ آیت خداوند عالم کی سلطنت و قدرت کے وسيع ہونے اور اسکے حکم اور امر کے نافذ ہونے کو بيان کرتی ہے۔

____________________

١)سورئہ یس آیت/ ٨٢ ۔ )

٢)سورئہ زمر آیت/ ۶٧ ۔ )

٣)سورئہ آل عمران آیت/ ١۶۵ ۔ )

۴)سورئہ نحل آیت ٧٧ ۔ )

۵۷

بخل اسکی ساحت کبریائی کے شایان شان نہيں ہے خداوند عالم ایسا جواد و سخی ہے جسکی سخاوت اور کرم کی کوئی حد نہيں ہے۔

(( رَبَّنَاوَسِعَت کُلَّ شي ءٍ رَحمَْةً وَعِلمْاً ) ( ١)

“خدا یا تيری رحمت اور تيرا علم ہر شی پر محيط ہے ”

(( فَاِن کَذَّبُوکَْ فَقُل رَّبُّکُم ذُورَْحمَْةٍوَاسِعَةٍ ) ( ٢)

“پهر اگر یہ لوگ آپ کو جهڻلا ئيں تو کہہ دیجئے کہ تمہارا پرور دگار بڑی وسيع رحمت والا ہے ”

خداوند عالم کی عطا وبخشش دائمی ہے منقطع ہونے والی نہيں ہے ۔

(( کَلاَّ نُمِدُّ هٰو لاَءِ وَ هٰولَاءِ مِن عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحظُْورْاً ) ( ٣)

“ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن کی سب کی مدد کرتے ہيں اور آپ کے پرور دگا ر کی عطا کسی پر بند نہيں ہے ”

(( وَاَمَّاالَّذِینَْ سُعِدُواْفَفِی الجَْنَّةِ عَطَاءً غَيرَْمَجذُْوذٍْ ) ( ۴)

“اور جو لوگ نيک بخت ہيں وہ جنت ميں ہو ں گے ۔۔۔یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہو نے والی نہيں ہے ”

جب خداوند عالم رحمت نازل کرنے کا ارادہ کرليتا ہے تو اس ميں کوئی رکاوٹ نہيں آسکتی ہے:

( مَایَفتَْحِ اللهُلِلنَّاسِ مِن رَّحمَْةٍ فَلَامُْمسِْکَ لَهَاوَمَایُمسِْک فَلاَمُرسِْلَ لَهُ مِن بَعدِْهِ ) (۵)

____________________

۔ ١)سورئہ غافر آیت ٧۔ )

٢)سورئہ انعام آیت ١۴٧ ۔ )

٣)سورئہ اسراء آیت ٢٠ ۔ )

۴)سورئہ ہود آیت ١٠٨ ۔ )

۵)سورئہ فاطرآیت/ ٢۔ )

۵۸

“الله انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے اس کا کو ئی روکنے والا نہيں ہے اور جس کو روک دے اس کا کو ئی بهيجنے والا نہيں ہے ” الله کی رحمت کے خزانے کبهی ختم نہيں ہوتے:

(( وَلله ِخَزَائِنُ السَّ مٰاوَاتِ وَالاَْرضِْ ) ( ١)

“حالانکہ آسمان و زمين کے تمام خزا نے الله ہی کے لئے ہيں ” (( وَاِن مِن شَی ءٍ اِلاَّعِندَْنَاخَزَائِنُهُ وَمَانُنَزِّلُهُ اِلاَّبِقَدَرٍمَعلُْومٍْ ) ( ٢)

“اور کو ئی شے ایسی نہيں ہے جس کے ہما رے پاس خزا نے نہ ہوں اور ہم ہر شے کو ایک معين مقدار ميں ميں ہی نا زل کرتے ہيں ”

خداوند عالم جو رزق اپنے بندوں کو عطا کردیتا ہے اس سے الله کی رحمت کے خزانے ختم نہيں ہوتے وہ اپنے جودوکرم سے زیاد ہ عطا نہيں کرتا۔

دعاافتتاح ميں آیا ہے:

اَلحَْمدُْللهِالفَْاشِي فِی الخَْلقِْ اَمرُْهُ وَحَمدُْهُاَلبَْاسِطِ بِالجُْودِْ یَدَهُ الَّذِي لَا تَنقُْصُ خَزَائِنُهُ وَلَاتَزِیدُْهُ کَثرَْةُالعَْطَاءِ اِلَّاجُودْاً وَکَرَماً

“حمد اس خدا کے لئے ہے جس کا امر اور حمد مخلوق ميں نا فذ ہے ۔۔۔اور جس کا ہاته بخشش کے لئے کشا دہ ہے جس کے خزا نے ميں کو ئی کمی نہيں ہو تی اور عطا کی کثرت اس ميں سوائے جود و کرم کے اور کچه زیا دہ نہيں کر تی ” علامہ شریف رضی کی روایت کے مطابق حضرت علی عليہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن سے یہ وصيت فرمائی :

____________________

١)سورئہ منافقون آیت ٧۔ )

٢)سورئہ حجر آیت ٢١ ۔ )

۵۹

إ علمْ انّ الذي بيده خزائن السماوات والارض قد اذن لک في الدعاء وتکفّل لک بالاجابة،وامرک انْ تساله ليعطيک،وتسترحمه ليرحمک،ولم یجعل بينک وبينه من یحجبک عنه،ولم یلجئک الی مَن یشفع لک اليه،ولم یمنعک ان اسات من التوبة،ولم یعاجلک بالنقمة،ولم یفضحک حيث الفضيحة،ولم یشددعليک فی قبول الانابة،ولم یناقشک بالجریمة،ولم یویسک من الرحمة،بل جعل نزوعک عن الذنب حسنة،وحسب سيئتک واحدة،وحسب حسنتک عشرا،وفتح لک باب المتاب وب الاستعتاب

فاذانادیته سمع نداء ک واذا ناجيته علم نجواک،فافضيت اليه بحاجتک،وابثثته ذات نفسک،وشکوت اليه همومک،واستکشفته کروبک، واستعنته علی امورک،وسالته من خزائن رحمته مالایقدرعلی اعطائهاغيره،من زیادة الاعماروصحة الابدان، وسعة الارزاق

ثم جعل فی یدک مفاتيح خزائنه بمااذن لک فيه من مسالته،فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب النعمة،واستمطرت شآبيب رحمته،فلا یقنطنّک ابطاء اجابته،فان (العطيه علی قدر النيه( ١)

“جا ن لو !جس کے قبضہ قدرت ميں آسمان و زمين کے خز ا نے ہيں اس نے تمهيں سوال کر نے کی اجا زت دے رکهی ہے ،اور قبول کرنے کی ذمہ دار ی لی ہے اور تم کو مانگنے کا حکم دیا ہے تا کہ وہ دے ،اس سے رحم کی درخوا ست کرو تا کہ وہ تم پر رحم کرے ،اس نے اپنے اور تمہا رے درميان دربان نہيں کهڑے کئے جو تمهيں رو کتے ہوں ،نہ تمهيں اس پر مجبور کيا ہے کہ تم کسی کو اس کے یہاں

____________________

۔ ١)نہج البلاغہ ،قسم الرسائل والکتب ،الکتاب: ٣١ ۔ )

۶۰