دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43869
ڈاؤنلوڈ: 2609


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43869 / ڈاؤنلوڈ: 2609
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

سفارش کے لئے لا ؤ تب ہی کام لو اور تم نے گناہ کئے ہوں ،اس نے تمہارے لئے تو بہ کی گنجا ئش ختم نہيں کی ہے ،نہ سزا دینے ميں جلدی کی ہے اور نہ تو بہ و انابت کے بعد وہ کبهی طعنہ دیتا ہے (کہ تم نے پہلے یہ کيا تها ،وہ کيا تها )نہ اس نے تمهيں ایسے مو قعوں پر رسوا کيا جہاں تمهيں رسوا ہی ہو نا چا ہئے تها اور نہ ہی اس نے تو بہ قبول کرنے ميں (سخت شرطيں لگا کر )تمہارے ساته سخت گيری کی ہے نہ ہی گناہ کے بارے ميں تم سے سختی کے ساته جرح کرتا ہے اور نہ اپنی رحمت سے مایوس کرتا ہے بلکہ اس نے گناہ سے کنا رہ کشی کو بهی ایک نيکی قرار دیا ہے اور برا ئی ایک ہو تو اسے ایک (برائی ) اور نيکی ایک ہو تو اسے دس نيکيوں کے برابر قرار دیا ہے اس نے تو بہ کے دروازہ کهول رکها ہے ۔

جب بهی تم اس کو پکارتے ہو وہ تمہاری سنتا ہے اور جب بهی راز و نياز کرتے ہو ئے اس سے کچه کہو تو وہ جان ليتا ہے ،تم اسی سے مرا دیں مانگتے ہو ،اور اسی کے سامنے دل کے راز و بهيد کهو لتے ہو، اسی سے اپنے دکه درد کا رونا رو تے ہو اور مصيبتوں سے نکا لنے کی التجا کرتے ہو اور اپنے کا موں ميں مدد کے خو استگار ہو اور اس کی رحمت کے خزا نوں سے وہ چيزیں طلب کرتے ہو جن کے دینے پر اور کو ئی قدرت نہيں رکهتا جيسے عمروں ميں درازی ،جسمانی صحت و توانائی اور رزق ميں وسعت ۔

اور اس نے تمہارے ہاته ميں اپنے خزانوںکو کهو لنے والی کنجياں دیدی ہيں اس طرح کے تمهيں اپنی بارگاہ ميں سوال کرنے کا طریقہ بتایا اس طرح جب تم چا ہو اس کی رحمت کے دروازوں کو کهلوالو،اس کی رحمت کے جها لوں کو بر سالو،ہاں بعض اوقات اگر دعا قبول ہو نے ميں دیر ہو جا ئے تو اس سے نا اميد نہ ہو جا واس لئے کہ عطيہ نيت کے مطابق ہو تا ہے ”

۶۱

اور حدیث قدسی ميں آیا ہے :

یاعبادي کلکم ضال الّامَن هدیته،فاسالوني الهدی اهدکم وکلکم فقيرالامَن اغنيته ،فاسالوني الغنیٰ ارزقکم وکلکم مُذْنِب اِلَّا مَنْ عَافَيْتَهُ،فَاسْالُوْنِيْ الْمَغْفِرَة اغفرلکمولوانّ اولکم وآخرکم وحيّکم وميتکم اجتمعوافيتمنیّٰ کل واحد مابلغت امنيته، فاعطيته لم یتبين ذلک فی ملکي فاذااردت شيئافانّما اقول له کن فيکون ( ١)

“بندو تم سب بهڻکے ہو ئے ہو مگر جس کو ميں را ستہ دکها دوں لہٰذا مجه سے ہدایت طلب کرو تا کہ ميں تمہاری ہدایت کردوں اور تم سب فقير ہو مگر جس کو ميں بے نياز کردوں لہٰذا مجه سے بے نيازی طلب کرو تا کہ ميں تم کو رو زی عطا کروں تم سب گنا ہگار ہو مگر جس کو ميں عا فيت عطا کروں لہٰذا مجه سے بخشش طلب کرو تا کہ ميں تمهيں بخش دوں اگر تمہارا پہلا ،آخری ،زندہ، مردہ سب اکڻهے ہو کر مجه سے اپنی مرادیں ما نگيں اور ميں ان کی مرا دیں پوری کر دوں تو اس سے ميری حکو مت کو کو ئی ضرر نہ پہنچے گا اس لئے کہ جب ميں کسی چيز کا ارادہ کرتا ہوں تو ميں اس سے کہتا ہوں ہو جا، تو وہ ہو جا تی ہے ”

موانع (رکا و ڻوں)کی دوسری قسم

دعا قبول ہو نے ميں رکا وٹ ڈالنے والے دوسری قسم کے موانع بہت زیادہ ہيں ۔

کبهی کبهی دعا کاقبول ہو ناسائل کے لئے مضر ہو تا ہے ليکن سائل کو اس کا علم نہيں ہو تا ہے اورالله اس کے حق ميں اس دعا کے مفيد یا مضر ہو نے سے واقف ہے ۔

کبهی کبهی دعا کا جلدی قبول ہو نا بهی مضرہو تاہے اور خدا وند عالم جا نتا ہے کہ بندہ کےلئے اس دعا کو قبول کر نے ميں تا خير کر نا اس کے حق ميںبہتر اور بہت زیادہ فائدہ مند ہے ۔لہٰذا خدا وند عالم اس کی دعا کو قبول کر نے ميں تا خير کر تا ہے ۔

جيساکہ ہم دعا افتتاح ميں پڑهتے ہيں :

فَصِرتُْ اَدعُْوکَْ مٰاِناًوَاَسالُکَ مُستَْانِساًلاَخَائِفاًوَلَاوَجِلاً مُدِلّاً عَلَيکَْ فِيمَْاقَصَدتُْ فِيهِْ اِلَيکَْ فَاِ ن اَبطَْاَعَنِّي عَتَبتُْ بِجَهلِْي عَلَيکَْ وَلَعَلَّ الَّذِی اَبطَْاعَنِّي هُوَخَيرٌْلِي لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَةِ الاُْمُورِْ

____________________

١) تفسير امام ١٩ ۔ ٢٠ ،بحار الا نوار جلد ٩٢ صفحہ ٢٩٣ ۔ )

۶۲

“تو ميں مطمئن ہو کر تجه کو پکارنے لگااور انس و رغبت کے ساته بلا خوف و خطر اور ہيبت کے تجه سے سوال کرتا ہوں جس کا بهی ميں نے تيری جا نب ارادہ کيا ہے اگر تو نے ميری حا جت کے پورا کرنے ميں دیر کی تو ميں نے جہا لت سے عتاب کيا اور شاید کہ جس کی تا خير کی ہے وہ ميرے لئے بہتر ہو کيونکہ تو امور کے انجام کا جا ننے والا ہے ”

کبهی خدا وند عالم بند ے کی دعا قبول کر نے ميں اس لئے تا خير کر تا ہے تا کہ وہ مسلسل الله کے سامنے گر یہ و زاری کر تا رہے کيونکہ خدا وند عالم اپنے سا منے بندے کے گر یہ و زاری کر نے کو پسندکرتا ہے ، حدیث قدسی ميں آیا ہے :یاموسیٰ اني لست بغافل عن خلقي ولکن احّ ان تسمع ملا ئکتي ضجيج الدعاء من عبادي ( ١)

“اے مو سیٰ ميں اپنی مخلوق سے غا فل نہيں ہوں ليکن ميں یہ دو ست رکهتا ہوں کہ ميرے ملا ئکہ ميرے بندوں کی گڑگڑاکر دعا کر نے کی آواز کو سنتے رہيں ”

امام جعفر صاق عليہ السلام سے مر وی ہے :ان العبد ليدعوفيقول الله عزّوجل للملکين قداستجبت له،ولکن احسبوه بجاجته فاني احبّ ان اسمع صوته وانّ العبد ليدعوفيقول الله تبارک و تعالیٰ:عجّلواله حاجته فاني ابغض صوته ( ٢)

“انسان دعا کرتا ہے تو خدا دو فرشتوں سے کہتا ہے کہ ميں نے اس کی دعا قبول کرلی ليکن ابهی اس کی حاجت پوری مت کرو کيونکہ ميں اس کی آواز سنناہوں تووہ مجهے اچهی لگتی ہے اور کبهی کو ئی

____________________

۔ ١)عد ة الداعی )

٢)وسائل الشيعہ کتاب الصلو ة ابواب الدعا باب ٢١ حدیث ٣۔ )

۶۳

انسان دعا کرتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ اس کی مراد جلدی پو ری کرو کيونکہ مجهے اس کی آواز اچهی نہيں لگتی ہے ”

اگردعاکی قبوليت بندے کے حق ميں مضرہوتی ہے تو خداوندعالم مطلق طور پر اس کی دعا کو لغو نہيں قر ار دیتا بلکہ اس کو بند ے کے گنا ہوں کے کفا ر ہ ميں بدل دیتا ہے ،اس کی بخشش کر تا ہے یا کچه وقفہ کے بعد اس کو دنيا ميں جلد ہی رزق عطا کر تا رہتا ہے یا جنت ميں اس کے در جا ت بلند کر دیتا ہے۔

اورہم مذکورہ دو نو ں حا لتو ں،تبدیل اور تا خير کے متعلق رسو ل خدا (ص)اور امير الو منين عليہ السلام سے مروی تين حد یثيںذیل ميں نقل کر رہے ہيں ۔

دعا کی قبو ليت ميں تاخير یا تبد یلی

رسو ل الله (ص)سے مروی ہے :

مامِن مسلم دعااللّٰه سبحانه دعوة ليس فيهاقطيعة رحم ولااثم ،الّااعطاه اللّٰه احد یٰ خصال ثلا ثة:امّاان یُعجّل دعوته،واماان یوخّرله،وامّاان یدفع عنه من السوء مثلها قالوا:یارسول اللّٰه ،اذن نُکثِرقال:“اکثروا ”۔( ١)

“جو مسلمان بهی خداوندعالم سے ایسی دعا ما نگتا ہے جس ميں رشتہ داروں سے رابطہ ختم کرنے یا کسی گناہ کا مطالبہ نہيں ہوتا توخداوند عالم اس کو تين صفات ميں سے کو ئی ایک صفت عطا کر دیتا ہے یا اس کی دعا جلد قبول کرليتا ہے یاتا خير سے قبول کرتا ہے یا اس سے کو ئی بلا دور کردیتا ہے لوگوں نے عرض کی یا رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم پهر تو ہم بہت زیادہ دعا کریں گے ۔

آپ نے فرمایا :ہاں بہت زیادہ دعاکياکرو۔

رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :

____________________

۔ ١)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨۶ حدیث ٨۶١٧ ۔ )

۶۴

الدعاء مخ العبادة،ومامِن مومن یدعواللّٰه الّااستجاب له،اِمّاان یعجّل له فی الدنيا،اویوجّل له فی الآخرة،واماان یُکفّرمن ذنوبه بقدرمادعا مالم یدع بماثم (١)

“دعا عبادت کی روح و جان ہے اور کو ئی ایسا مومن نہيں ہے جسکی دعا اللهقبول نہ کرتا ہو یاتو اس دعا کو دنيا ميں جلدی قبول کر ليتا ہے یا اس کے مستجاب ہو نے ميں آخرت تک تا خير کر دیتا ہے یاجتنی وہ دعا کرتا ہے خدا اس کو اس بندے کے گنا ہو ں کا کفارہ قرار دیتا ہے ”

حضرت امير المو منين عليہ السلام نے اپنے فر زند امام حسن کو وصيت کر تے ہو ئے فرمایا :

فَلاَیُقَنِّطَنَّکَ اِبطَْاءُ اِجَابَتِهِ فَاِنَّ العَْطِيَّةَ عَل یٰ قَدرِْالنِّيَّةِ وَرُبَمَااُخِّرَت عَنکَْ الِاجَابَةُ لِيَکُونَْ لٰذِکَ اَعظَْمَ لِاَجرِْالسَّائِلِ وَاجزَْلَ لِعَطَاءِ الآمِلَ وَرُبَمَاسَالتَْ الشَّيءَ فَلَاتُوتَاهُ وَاُوتِْيَتَ خَيرْاً مِنهُْ عَاجِلاً اَوآْجلاً اوصُْرِفَ عَنکَْ لِمَاهُوَخَيرٌْلَکَ فَلِرُبَّ اَمرٍْقَد طَلَبتَْهُ فِيهِْ هَلَاکُ دِینِْکَ لَواُْوتِْيتَْهُ فَلتَْکُن مَسالتُکَ فِيمَْایَبقْ یٰ لَکَ جَمَالُهُ وَیَنفْ یٰ عَنکَْ وَبَالُهُ وَالمَْالُ لَایَبقْ یٰ لَکَ وَلَاتَبقْ یٰ لَهُ ( ٢)

“ہاں بعض اوقات قبو ليت ميں دیر ہو تو،اس سے نا اميد نہ ہو اس لئے کہ عطيہ نيت کے مطابق ہو تا ہے اور اکثر قبو ليت ميں اس لئے دیر کی جا تی ہے کہ سا ئل کے اجر ميں اور اضافہ ہو اور اميدوار کو عطيے اور زیادہ مليں اور کبهی یہ بهی ہو تا ہے کہ تم ایک چيز ما نگتے ہو اور وہ حا صل نہيں ہو تی مگر دنيا یا آخرت ميں اس سے بہتر چيز تمهيں مل جا تی ہے یا تمہا رے کسی مفاد کے پيش نظر تمهيں اس سے محروم کردیا جاتا ہے اس لئے کہ تم کبهی ایسی چيزیں بهی طلب کر ليتے ہو کہ اگر تمهيں دیدی جا ئيں ،تو تمہارا دین تباہ ہو جا ئے لہٰذا تمهيں بس وہ چيزیں طلب کرنا چا ہئے جس کا جمال پا ئيدار

____________________

١)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ،ابواب الدعا باب ١۵ ۔جلد ۴ صفحہ ١٠٨۶ حدیث ٨۶١٨ ۔ )

٢)نہج البلاغہ قسم الر سائل و الکتب ، الکتاب /ا ٣۔ )

۶۵

ہو اور جسکا وبال تمہارے سر نہ پڑنے والا ہو رہا دنيا کا مال ،تو یہ نہ تمہارے لئے رہے گا اور نہ تم اس کےلئے رہو گے ”

ہم ان تينوں روایات کو جمع کر نے کے بعد دعا مستجاب ہو نے کی پانچ حالتوں کا مشاہدہ کرتے ہيں :

١۔(عجلت)خدا وند عالم کی بارگاہ ميں بندے کی دعا کا جلدی مستجا ب ہو نا ٢۔(مدت ) جس حا جت کےلئے بندے نے الله سے دعا کی ہے اس کو مستجاب کر نے ميں وقت لگا نا ۔

٣۔(عوض)(تبدیلی)دعا کو تبدیل کر کے مستجاب کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والے سے اس دعا کے بدلہ برا ئيوں کو دور کر تاہے جس کے قبو ل ہو نے ميںفی الحال کو ئی مصلحت نہيں ہوتی ہے ۔

۴ ۔جس دعا کو قبول کر نے ميں کو ئی مصلحت نہ ہو الله اس کے بدلے دعا کر نے وا لے کو آخرت ميں بلند در جا ت عطا کر تا ہے ۔

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

(والله مصيّردعاء المومنين یوم القيامةلهم عملایزیدهم فی الجنة (١)

“خداوند عالم بروز قيامت مو منين کی دعا کو ان کے حق ميں ایسے عمل ميں بدل دیگا جس سے جنت ميں ان کا مرتبہ بلند ہو تا رہے گا ” دوسری حدیث ميں امام محمد باقر عليہ السلام فر ما تے ہيں :واللّٰه مااخّراللّٰه عزّوجلّ عن المومنين مایطلبون من هٰذه الدنياخيرلهم عمَّاعجّل لهم منها (٢)

____________________

٠٨۶ ا،حدیث/ ۵ا ٨۶ ۔ / ١)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ )

٢)قرب الاسناد صفحہ ١٧١ ۔اصول کا فی صفحہ ۵٢۶ ۔ )

۶۶

“خدا کی قسم مو منين جو کچه اس دنيا ميں خدا سے طلب کر تے ہيں اُس ميں اِس دنيا ميں عطا کر دینے سے ان کےلئے تا خير کر نا بہتر ہے” ۵ ۔(تبدیل)جب دعا کو قبول کرنا بندے کی مصلحت کے خلاف ہو تا ہے تو خدا وند عالم اس کی دعا مستجاب کر تے وقت اس کی دعا کو اس کے گنا ہوں اور برا (ئيوں کا کفارہ قرار دیتا ہے۔( ١)

اور کبهی کبهی ان کو تبد یل نہ کر نا اور مدّت معين کر نا دو حا لتو ںميں دعا مستجاب ہو نے ميں وقت در کار ہو نا اور اس کو معين قر ار دینے کے وقت دعا کر نے والے کی مصلحت کےلئے ہو تا ہے ۔کبهی کبهی یہ نظا م کی مصلحت کےلئے ہو تا ہے جو سا ئل اوردو سر ے افر اد کو بهی شا مل ہو تا ہے دعا مستجا ب ہو نے یاجلدی دعا مستجا ب ہو جا نے سے نظا م ميں خلل واقع ہو تا ہے جس کو اللهنے خا ص انسا ن یا عام دنيا کےلئے معين فرمایا ہے ۔

جبدعا عمل ميں تبد یل ہو جاتی ہے

دعا اور عمل دونو ں الگ الگ مقولہ ہيں اور ان ميں سے ہر ایک رحمت کے نا زل ہو نے کا سبب ہے بيشک عمل سے الله کی رحمت اسی طرح نا زل ہو تی ہے جس طرح دعا سے الله کی رحمت نازل ہو تی ہے خد اوند عا لم فر ما تا ہے : (( وَقُل اعمَْلُواْ فَسَيَریَ اللهُ عَمَلَکُم وَرَسُولُْهُ ) ( ٢)

“اور پيغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو الله ، رسول اور صاحبان ایمان دیکه رہے ہيں”

____________________

١)ان پانچوں باتوں ميں سے آخری تين با تيں صرف بندے کی دعا کو ملغیٰ قرار دینے سے ) مخصوص ہيں خدا وند عالم اپنے بندے کی دعا قبو ل کر نے کے ساته ساته اس کی دعا کو اس کے گنا ہوںکا کفا رہ قرار دتيا ہے اس سے برائيا ں دور کر دتيا ہے اور آخرت ميں بلند درجات عطا کر تا ہے ۔

٢)۔سور ئہ تو بہ آیت ١٠۵ ۔ )

۶۷

(( فَمَن یَّعمَْل مِثقَْالَ ذَرَّةٍ خَيرْاً یَرَهُ ) ( ١)

“پهر جس شخص نے ذرہ برابر نيکی کی ہے وہ اسے دیکهے گا ” (اسی طر ح دعا رحمت کی کنجی ہے: اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ( ٢)

ليکن ایسا نہيں ہے کہ انسان جوکچه سوال کرے وہ اِس دنياکے عام نظام ميں ممکن بهی ہو،بلکہ کبهی کبهی انسان الله سے ایسی دعاکرتاہے جواس دنياکے عام نظام (قضا و قدر )ميں ممکن نہيں ہوتی لہٰذا اس کی دعا مستجاب نہيں ہو تی۔

کبهی کبهی دعا کے مستجاب ہو نے یا دعا کے جلدی مستجاب ہو نے ميں صاحب دعا کےلئے کو ئی مصلحت نہيں ہو تی ، تو انسان دعاميں اتنی جد وجہدو کو شش کيوںکر تا ہے ؟

جواب : بيشک دعا بذات خو دعمل اور عبا دت ميں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے الله کی رحمت نا زل ہو تی ہے ۔

لہٰذا (قضا و قدر )مصلحت دعا کے موانع ميں سے نہيں ہيں ۔ بيشک الله تبارک و تعالیٰ اگرچہ اپنے بندے کی دعا قبول نہيں کر تا ہے بلکہ بندے کی دعا تو خود اسی کے عمل اور عبادت پر مو قوف ہے اور اسی کے مطابق اس کو دنيا اور آخرت ميں جزایا سزا دی جا ئيگی ۔

اسلامی رو ایات ميں اس دقيق معنی کی طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ دعا عمل ميں تبدیل ہو جاتی ہے۔

حما د بن عيسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : (سمعته یقول:ادع،ولاتقل قدفرغ من الامر٣)فان الدعاء هوالعبادة (۴)

____________________

١)سور ئہ الزلزلہ آیت/ ٧۔

(٢) سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔ )

٣)یعنی یہ امر خداوند عالم کے قضاء وقدر ميں ہے جس سے تجا وز کرنا ممکن نہيں ہے اور ) دعا کے ذریعہ اس کو تبدیل نہيں کيا جا سکتاہے ”

(۴) وسائل الشيعہ صفحہ ٩٢ ۔حدیث ٨۶۴٣ ، اصول کافی صفحہ ۵١۶ )

۶۸

ميں نے آپ کو یہ فرما تے سنا ہے : دعا کرو اور یہ نہ کہو کہ خدا کا حکم تمام ہو گيا ہے بيشک دعا عبادت ہے

“یعنی یہ امر الله کے قضا و قدر ميں ہے اور دعا کے ذر یعہ اسکو آگے پيچهے کردینا ممکن نہيں ہے ۔

اور دو سری حدیث ميں امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے : “ادعه،ولاتقل قدفرغ من الامر،فانّ الدعاء هوالعبادة انّ اللّٰه عزّوجلّ یقول: اِنَّ ٢) الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینْ ( ١)

“خدا کو پکار و یہ نہ کہو کہ خدا کا امر(حکم ) تمام ہو گيا ہے بيشک دعا عبادت ہے خداوند عالم فرماتا ہے :

( اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) “اور یقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”

دعا کی قبو ليت اور دعا کے در ميان رابطہ

ہم یہ بيان کر چکے ہيں کہ مطلق طورپرپہلی قسم کے موا نع خدا وندعالم کی کبر یائی کے شایان شان نہيںہيںليکن دوسری قسم کے موانع حقيقی ہيں اوربندوںکی زندگی اوردعاوں ميں پائے جاتے ہيں اسی لئے کبهی کبهی خداوندعالم دعا مستجاب کرنے ميںمدت معين کردیتا ہے اور کبهی مستجاب کر کے اس کو دوسر ی چيز سے بد ل دیتا ہے ۔

اور ان دو نو ں حالتو ں (حالت تاخير اور حالت تبدیل)کے علا وہ دعا کا مستجاب ہونا ضروری ہے اس کا منبع قطعی فطری حکم ہے اور یہ اس وقت ہو تا ہے جب سا ئل ،مسئول (جس سے

____________________

٢)سورئہ مو من آیت/ ۶٠ ۔ ) ١٠٩٢ حدیث ٨۶۴٠ ، اصول کا فی : فرو ع کا فی جلد ١سطر ٩۴ ۔ : ٣)وسائل الشيعہ ۴ )

۶۹

سو ال کيا جا رہاہے )کا محتاج ہوتاہے اور مسئول سائل کی حا جت قبول کرنے پرقادر (ہوتا ہے اور اپنی مخلوق کے ساته بخل سے کام نہيں ليتاہے۔( ١)

(١۔( اَمَّن یُجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ وَیَکشِْفُ السُّوءْ ) ( ٢)

“بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ”

لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور اپنی بلا دور ہونے کے سلسلہ ميں دعا کے قبول ہونے کاشدید محتاج ہو اس کو فقط دعا کرنے کی ضرورت ہو تی ہے جب وہ خداوند عالم کو پکارتا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا قبول کر کے اس سے بلا کو دور فر ما دیتا ہے ۔

جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا مستجاب کر تا ہے اور اس کے لئے برائيوں کو واضح کردیتا ہے ۔

٢( : وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْي اَستَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی ( سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) ( ٣)

“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا اور یقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”

____________________

١)اس رابطہ کے ضروری ہونے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ اللهپر یہ امر واجب ہو گيا ہے بلکہ خود ) قرآن کریم اس یقينی اور ضروری رابطہ پر اس طر ح زور دیتا ہے : اس نے اپنے او پر رحمت لکه لی ہے :

(فَقُل سَلَامٌ عَلَيکُْم کَتَبَ رَبّکُم عَ لٰی نَفسِْهِ الرَّحمَْة (سور ہ انعام آیت/ ۵۴ “پس ان سے سلام عليکم کہئے تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی ہے ”

٢)سورہ نمل آیت ۶٢ ۔ )

٣)سورئہ مو من آیت ۶٠ ۔ )

۷۰

یہ آیت کریمہ دعا اور استجابتِ دعا کے درميان رابطہ کو صاف طور پر واضح کر رہی ہے:

( ا دْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ ) (١) “مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا ” (( وَاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ ) ( ٢)

“پکار نے والے کی آواز سنتا ہوں جب بهی پکارتا ہے ” ان آیات ميں دعا اور اس کے مستجاب ہو نے کا رابطہ صاف اور واضح ہے ، اور اس ميں کو ئی شک و شبہہ ہی نہيں ہے کہ خدا وند عالم ہر دعا کو قبول کر تا ہے ليکن اگر دعا قبول کر نا بندہ کے حق ميں مضر ہو یا اس عام نظام کے خلا ف ہو جس کا بند ہ خود جز ء شمار ہو تا ہے ،اور ان آیات ميں دعا کے مستجاب ہو نے کی کو ئی شرط نہيں ہے اور نہ ہی کسی چيز پر معلّق ہے ۔

جن شرطوں کو ہم عنقریب بيان کر ےں گے وہ حقيقت ميں دعا کے محقق ہو نے کےلئے ضروری ہو تی ہيں یا بذات خو د دعا کر نے وا لے کی مصلحت کےلئے ہو تے ہيں اور اگر یہ دو نوں نہ ہوں تو پهر یا تو دعا کا اثر کم ہو جا تا ہے یا ختم ہو جا تا ہے ۔

معلوم ہو ا کہ دعا اور استجا بت کے در ميان ایسا رابطہ ہے جس کے بدلنے کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے اور ایسا مطلق تعلق ہے جو کسی سے متعلق نہيں ہو تا مگر کو ئی ایسی شرط ہو جس کی تا کيد کی گئی ہو یا وہ دعا کی حالت کا اثبات (کر تی ہو جيسے خداوند عالم فرماتاہے:( اِذَادَعَاهُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ ) ( ٣)

“جب وہ اس کوآوازدیتا ہے تووہ اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ” شر یعت اسلا ميہ ميں احا دیث نبی اور احا دیث اہل بيت عليہم السلام ميں دعا اور دعا کے مستجا ب ہو نے کے در ميان اس رابطہ پر زور دیا گيا ہے ۔ حدیث قد سی ميں آیا ہے:

____________________

١)سورئہ مو من آیت / ۶٠ ۔ )

٢)سورہ بقرہ آیت ١٨۶ ۔ )

٣)سورئہ نمل آیت ۶٢ ۔ )

۷۱

(یاعيسیٰ إني اسمع السامعين استجيب للداعين اذادعونی (١ “اے عيسیٰ ميں اسمع السامعين (سننے والوں ميں سب سے زیادہ سننے والا) ہوں دعا کر نے والے جب دعا کرتے ہيں تو ميں ان کی دعا مستجاب کرتا ہوں ” رسو ل الله (ص) سے مروی ہے :

مامن عبدیسلک وادیافيبسط کفّيه فيذکرالله ویدعوالَّاملاالله ذلک الوادي (حسنات فليعظم ذلک الوادي اوليصغر ( ٢)

“جو بندہ بهی کسی وادی کو طے کرتا ہے اور دونوں ہاتهوں کو پهيلا کر خداوند عالم کو یاد کرتا ہے اور دعا کرتا ہے تو خداوند عالم اس وادی کو نيکيوں سے بهر دیتا ہے چاہے وہ وادی بڑی ہو یا چهوڻی ”

اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : (لوا نَّ عبداًسدَّ فَاهُ،لم یسال لم یعط شيئاًفسل تعط ( ٣)

“اگر بند ہ اپنا منه بند رکهے اور وہ خدا سے سوال نہ کر ے تو اس کو کچه عطا نہيں کيا جا ئيگا ، لہٰذا سوال کرو خدا عطا کر ے گا” “ميسر بن عبدالعزیز نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : (“یاميسرإنّه ليس من باب یُقْرع إلّایُوشک انْ یُفتح لصاحبه ( ۴ “ اے ميسر! اگر کسی در وا زے کو کهڻکهڻا یا جا ئے تو وہ عنقریب کهڻکهڻانے والے کےلئے کهل جا تا ہے ۔

____________________

١) اصو ل کا فی ۔ )

٢)ثواب الا عمال صفحہ ١٣٧ ۔ )

٣)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨۴ ، حدیث ٨۶٠۶ ۔ )

۴)وسا ئل الشيعہ ۴ : صفحہ ١٠٨۵ ح ٨۶١١ ۔ )

۷۲

حضرت امير المو منين عليہ السلام کا فر مان ہے : (متیٰ تُکثرقرع البابُ یفتح لک ( ١)

“جب دروازہ پہ زیادہ دستک دی جا ئيگی تو کهل جائيگا ” حضرت رسول الله (ص)نے حضرت علی عليہ السلام سے فرمایا: (یاعلياوصيک بالدعاء فانّ معه الاجابة ( ٢)

“اے علی ميںتم کو دعا کر نے کی سفارش کرتاہوں بيشک اگر دعا کی جائے تو ضرور مستجاب ہوگی”

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

(اذااُلهم احدکم الدعاء عند البلاء فاعلمواانّ البلاء قصير (٣ “جب تم ميںسے کسی کومصيبت کے وقت دعا کرنے کا الہام ہوجا ئے تو جان لو کہ مصيبت چهوڻی ہے ”

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے: (لاواللّٰه لایلحّ عبدٌعلیٰ اللّٰه عزّوجلّ الّااستجاب اللّٰه له ( ۴)

“خداکی قسم بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں نہيں گڑگڑاتا مگر یہ کہ خدا اسکی دعا مستجاب کرتا ہے”

اسلامی روایات ميں دعا اور دعاکی مقبوليت کے درميان رابطہ کے یقينی اور مطلق ہونے پر

____________________

١)وسا ئل الشيعہ ۴ : صفحہ ١٠٨۵ ح ٨۶١٣ ۔ )

٢) وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢ حدیث ١٨ ۔ )

٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ص ١٠٨٧ حدیث ٨۶٢۴ ۔ )

۴)اصول کافی کتاب الدعا باب الالحاح فی الدعاء حدیث ۵۔ )

۷۳

زور دیا گيا ہے اور یہ واضح ہے کہ جب بندہ خداوند عالم سے دعاکرتا ہے تو خداکو اسکی دعا رد کرنے سے حيا آتی ہے۔

حدیث قدسی ميں آیا ہے:

ماانصفنی عبدي،یدعوني فاستحيي انْ اردّه،ویعصيني ولایستحيي مني (١)

“ميرے بندے نے ميرے ساته انصاف نہيں کيا چونکہ جب وہ مجه سے دعا کرتا ہے تو مجهے اسکی دعا رد کرنے ميں حيا آتی ہے ليکن جب وہ ميری معصيت کرتا ہے تومجه سے کوئی حيا نہيں کرتا ”

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:

(ماابرزعبد یده الی اللّٰه العزیزالجبارالّااستحييٰ اللّٰه عزّوجلّ انْ یردّها ( ٢)

“بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں ہاتهوں کو بلند کرتا ہے توخداکوا سکی دعا رد کرنے سے حيا آتی ہے’

حدیث قدسی ميں آیا ہے:من احدث وَتوضاوصلیّٰ ودعاني فلم اُجبه فيما یسال عن امردینه ودنياه فقدجفوته ولست بربٍّ جافٍ ( ٣)

“جس شخص سے حدث صادر ہو اور وہ وضو کرکے نماز پڑهے پهر مجه سے دعا مانگے ليکن ميں اس کی دینی اور دنيا وی حاجت پوری نہ کروں تو ميں نے اس پر جفا کی جبکہ ميں جفا کرنے والا پرور دگار نہيں ہوں ”

____________________

١)ارشاد القلوب للدیملی۔ )

٢)عدةالدامی وسائل الشيعہ کتاب الصلاةابواب الدعا باب ۴حدیث ١۔ )

٣)ارشاد القلوب للدیلمی۔ )

۷۴

امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے: (ماکان اللّٰه ليفتح باب الدعاء،ویغلق عليه باب الاجابة ( ١)

“ایسا نہيں ہے کہ خدا وند عالم بندہ پر باب دعا تو کهول دے اوراس پر باب اجا بت کو بند رکهے ”

اور امير المومنين عليہ السلام سے ہی مروی ہے : (من اُعطي الدعاء لم یُحرم الاجابة ( ٢)

“جس کو دعا عطا کی گئی اسکو دعا کے مستجاب ہونے سے محروم نہيں کيا گيا”

آخر ی دو روایتوں ميں اہم اور بلند درجہ کی طرف متوجہ کيا گيا ہے بيشک اللهتعالیٰ کریم اور وفیّ ہے جب اس نے دعا کا دروازہ کهول دیا تو یہ ممکن ہی نہيں کہ وہ دعا مستجاب ہو نے کے دروازہ کوبند کردے ۔ جب خداوندعالم نے بندہ کو دعا کر نے کی توفيق عطا کردی تو یہ ممکن ہی نہيں کہ وہ اس کی دعامستجاب نہ کرے۔

رسول الله (ص)سے مروی ہے :

مافُتح لاحد باب دعاء الّافتح اللّٰه له فيه باب اجابة،فاذافُتح لاحدکم باب دعاء فليجهد فانّ اللّٰه لایمل ( ٣)

“خداوند عالم نے کسی کےلئے دعا کا دروازہ نہيںکهولا ہے مگر یہ کہ اسکے لئے اسکی دعا کے قبول ہونے کا دروازہ بهی کهول دیا ہے ۔جب تم ميں سے کسی ایک کےلئے باب اجابت کهل جائے تو اسکو کوشش کرنا چاہئے بيشک خدا کسی کو ملول نہيں کرتا”

____________________

١٠٨٧ ۔حدیث ٨۶٢۴ ۔ : ١)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢حدیث ١٢ اور ۴ )

٢)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢اور ۴ صفحہ ١٠٨۶ ۔حدیث ٨۶٢٢ ۔ )

١٠٨٧ حدیث/ ٨۶٢۴ ۔ / ٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۷۵

یہ الله کی رحمت نازل ہونے کی تيسری منزل ہے۔اللهم سمعناوشهدناوآمنّا

“خدایا ہم نے سنا اور گواہی دی اور ایمان لائے ” رحمت نازل ہو نے کی تين منزليں

جناب ہاجرہ اور اسمعيل عليہما السلام اور ابو الانبياء حضرت ابراہيم عليہ السلام کے قصہ ميں ہم تينوں منزلوں کایکجا طور پر مشاہدہ کرسکتے ہيں: ١۔فقر وحاجت

٢۔دعا اور سوال

٣۔سعی اور کوشش

جب ابو الانبياء حضرت ابراہيم عليہ السلام کو خداوند عالم نے ان کی زوجہ جناب ہاجرہ کے ساته بے آب و گياہ وادی(چڻيل ميدان )ميں بهيجا اور انهوں نے وہاں ہاجرہ کے ساته ان کے فرزند شير خوار جناب اسمعيل کو چهوڑاتویہ دعا کی:

( رَبَّنَااِنِّی اَسکَْنتُْ مِن ذُرِّیَّتِی بِوَادٍغَيرِْذِی زَرعٍْ عِندَْ بَيتِْکَ المُْحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُْواالصَّلاَ ( ةَ فَاجعَْل اَفئِْدَةً مِنَ النَّاسِ تَهوِْی اِلَيهِْم وَارزُْقهُْم مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُم یَشکُْرُونَْ ) (١ “پروردگار ميں نے اپنی ذریت ميں سے بعض کو تيرے محترم مکان کے قریب بے آب و گياہ وادی ميں چهوڑ دیا ہے تا کہ نما زیں قا ئم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مو ڑ دے اور انهيں پهلوں کا رزق عطا فر ما تا کہ وہ تيرے شکر گزار بندے بن جا ئيں ”

____________________

١۔سورئہ ابراہيم آیت/ ٣٧ ۔

۷۶

اس کے بعد حضرت ابراہيم عليہ السلام خداوند قدوس کے حکم کی تعميل کےلئے گئے ۔جناب ہاجر ہ اور طفل شير خوار کو اس بے آب و گياہ وادی ميں چهوڑدیااور ان کے پاس پانی کاذخيرہ ختم ہوگيا، بچہ پرپياس کا غلبہ ہوا ،جناب ہاجرہ نے چاروں طرف پانی ڈهونڈها ليکن پانی کا کوئی نام ونشان نہ ملا،بچہ چيخنے،چلانے اورہاته پير مارنے لگا۔آپ کی والدہ ادهر ادهر دوڑلگانے لگيں،کبهی صفا پہاڑی پر جا تيں اور دور دراز تک پانی دیکهتيں اسکے بعد نيچے اتر آتيں اوردوڑتی ہوئيںمروہ پہاڑی پر پانی کی تلاش ميں جاتيں،اور خداوند عالم سے اپنے اور بچہ کےلئے اس بے آب و گياہ وادی ميں پانی کا سوال کر تيں اور بچہ بيت حرام کے نزدیک چيختا چلاتا اور ہاته پير ماررہاتها۔

الله نے بچہ کے قدموں کے نيچے پانی کا چشمہ جاری کيا، ماں پانی کی طرف دو ڑی تا کہ اپنے شير خوار بچہ کو سيراب کر سکے اور پانی کو ضائع ہو نے سے بچا سکے لہٰذا انهوں نے پا نی سے کہا زم زم یعنی ڻهہر ڻهہرکہ وہ اس کےلئے ایک حوض بنارہی تهيں ۔

یہ عجيب وغریب منظر رحمت کے نازل ہونے کا سبب بنا، خداوند عالم نے بے آب وگياہ وادی ميں چشمہ زم زم جاری کيا اور اسکو اس مبارک زمين پر متعدد برکتوں کا مصدر قرار دیا ۔

خداوند عالم نے اس عمل کو اعمال حج کا جزء قرار دیا اور اسکو سب سے اشرف فرائض ميں قرار دیا۔

اس منظر کا کيا راز ہے؟اور اسکو اصل دین ميں داخل کرنے اور حج کے احکام ميں ثبت کرنے کا اتنا اہتمام کيوں کيا گيا؟ وہ موثر اور طاقت ورسبب کيا ہے جسکی وجہ سے خداوند عالم نے اس منظر کی قوت سے رحمت نازل کی اور تاریخ ميں آنے والے تمام موحدوں کےلئے بہت زیادہ برکتوں کا مبدا قرار دیا ؟

پس اس منظر ميں ایک خاص راز ہے جس کےلئے اس بے آب و گياہ وادی ميں الله کی رحمت نازل ہو نے کی استدعا کی گئی ہے ، اس رحمت کے ہميشہ باقی رہنے کی استدعا کی گئی ہے ، اس کو متعدد برکتوں کےلئے مصدر اور مبدا قرار دیا گيا ہے اور یہ استد عا کی گئی ہے کہ خدا وند عالم اس کو اپنے بيت حرام کے نزدیک موحدین کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح قائم و دائم رکهے ۔

ہمارا(مولف)عقيدہ ہے کہ(خداوند عالم اس منظر کے تمام اسرار کو جانتا ہے)ایسے منظر شاذونادر ہی ہوتے ہيں جن ميں الله کی رحمت نازل ہونے کے تينوں پہلو جمع ہوجاتے ہيں اور ہر ایک سے رحمت نازل ہوتی ہے۔

۷۷

پہلی منزل :حاجت وضرورت ہے جویہاںپر پياس ہے جو شير خوار بچہ کےلئے نقصان دہ تهی اور حاجت و ضرورت کا الله کی بارگاہ ميں پيش کرنا الله کی رحمت نازل ہونے کا ایک پہلو ہے۔

جب ضرورت صاحب ضرورت کےلئے زیادہ نقصان دہ ہوگی تووہ الله کی رحمت سے زیادہ قریب ہوگا۔اسی لئے ہم یہ مشاہدہ کرتے ہيں کہ جب شيرخوار بچوں کےلئے دکه درد ،یا بهوک یاپياس یا سردی یا گرمی بہت زیادہ مضر ہوجاتی ہے جسکو وہ برداشت نہيں کرسکتے تو وہ ان بزرگوںکے ذریعہ جو ان تمام چيزوں کو برداشت کرسکتے ہيں الله کی رحمت سے قریب ہوجاتے ہيں۔چونکہ دوسروں کے مقابلہ ميں ان کےلئے اس حاجت کا نقصان زیادہ ہے ۔

معلوم ہواکہ حاجت ان کے غيروں کے علاوہ خود ان کےلئے بہت زیادہ مضر ہے۔

دعا ميں وارد ہوا ہے :“اَللَّهُمَّ اَعطِْنِي لِفَقرِْي ”ْ صرف الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کر نے سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے اور جب بهی الله کی بارگاہ ميں پيش ہونے والی حاجت جتنی عظيم ہوگی اتنا ہی وہ الله کی رحمت کے نزول کا باعث ہوگی۔

بيشک الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا انسان کو الله کی رحمت سے قریب کردیتا ہے چاہے انسان الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت سے باخبر ہوکر پيش کر ے یا نہ کرے اگر انسان اپنی حاجتوں سے باخبر ہوکران کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے تو الله کی رحمت نازل کرانے ميں اسکی قدروقيمت بڑه جاتی ہے۔جس کو ہم بيان کرچکے ہيں۔

ليکن اس ميں یہ شرط پائی جاتی ہے کہ انسان اپنی حاجت ميں تحریف نہ کرے یعنی انسان یہ تصور کرے کہ اسکو مال کی ضرورت ہے یا حطام دنيا(دنيوی چيزیں) کی ضرورت ہے لہٰذابندگان خدا کی طرف حاجت پيش نہ کرے ۔

نيز یہ شرط بهی ہے کہ انسان اپنی ضرورت کو اس کی جگہ سے نہ ہڻائے اور یہ تصور نہ کرنے لگے کہ یہ دو لت یا سر مایہ دنيا کی ضرورت خداوند عالم کے کچه بندوں کی ضرورت کی بنا پر ہے اس کے بجا ئے کہ وہ فقر کو خداوند عالم کی طرف نياز مندی پر حمل کرے ۔

۷۸

اِس حاجت اور اُس حاجت ميں فرق ہے۔جس حاجت سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ الله کی بارگاہ ميں حاجت پيش کرنا ہے اور جب انسان اس ضرورت کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے کے بجائے الله کے بندوں کی خدمت ميں پيش کرتا ہے تو اسکے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہونے کی قدروقيمت ختم ہوجاتی ہے اور لوگوں کی اکثر حاجتيں اسی قسم کی ہيں۔

اس منظر ميں بچہ کاپياس کی شدت سے چيخناچلانا گر یہ وزاری کرنا الله کی رحمت نازل کرنے ميں بڑا موثر ہے ۔

خداوند عالم کی طرف نياز مندی کے منا ظر ميں خداوند عالم کی رحمت کا سبب بننے والا اثر اور رقت آور منظر اس بچہ کے منظر سے زیادہ نہيں جو پياس سے جهلس رہا ہو اور اس کی ماں کو اس کيلئے پا نی نہ مل رہاہو۔ الله کی رحمت کا اس منظر ميں دوسرا پہلوسعی ہے ،یہ رزق کےلئے شرط ہے،بغير سعی و کوشش کے رزق نہيں ہے اور اللهتعالی نے سعی اور حرکت کو انسان کی زندگی ميں رزق کی کنجی قرار دیا ہے۔

جب فقرکا سبب انسان سے عزم ،قوت،ارادہ،حرکت اور نشاط چاہتا ہے اور جتنی انسان ميں حرکت و سعی اور عزم ہوگا اتنا ہی اللهاس کو اپنی رحمت سے رزق عطا کریگا۔

جب جناب ہاجرہ کے پاس پانی ختم ہوگيااورحضرت اسماعيل پر پياس کا غلبہ ہوا تو جناب ہاجرہ نے پانی تلاش کيا اور اسی پانی کی تلاش ميں آپ کبهی صفاپہاڑی پرجاتيں اور دور تک نظر دوڑاتيں اور پهر صفا سے اترکر مروہ پہاڑی پر جاتيں اور دور تک نظر دوڑاتيں اسی طرح آپ جب صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوںپر گئيں توآپ کو کہيں پانی کا نام ونشان نہيں دکهائی دیا توآپ مایوس نہيں ہوئيں اور اس عمل کی تکرار کرتی رہيں اور صفاومروہ کے درميان دوڑلگا تی رہيںيہا ں تک کہ آپ نے ان کے در ميان سات چکر لگا ئے ۔

اگر یہ آرزو اور اميد نہ ہو تی تو ان کی سعی پہلے ہی چکر ميں ختم ہو جا تی ليکن پانی کی اميد نے ان دونوں کے دلوں کو زندہ رکها اور اسی شوق ميں وہ سعی کی تکرار کرتی رہيں یہاں تک کہ الله نے ان کے اس امر کو آسان کيا اور جناب اسماعيل کے قدموں کے نيچے چشمہ جا ری فرمادیا ليکن اس مقام پر آرزو اور اميد الله کی ذات سے ہے ان کی سعی ميں نہيں ہے اگر آرزو واميد ان کی سعی ميں ہو تی تو ان کی یہ آرزوو اميد پہلے یا دو سر ے چکر ميں ہی ختم ہو جا تی ۔

۷۹

الله تبا رک وتعا لیٰ نے اس سعی اور اس حر کت کو رزق کے لئے شر ط قراردیا، انسان پر اپنی رحمت کا نز ول قراردیااور الله اپنے بند وں کو رزق دیتا ہے اور ان پر اپنی رحمت نازل کر تا ہے ليکن خد ا و ند عا لم نے انسان کی سعی اور حر کت کواپنے رزق اور رحمت کی کنجی قراردیاہے ۔

الله کی رحمت کےلئے اس منظر ميں تيسر اپہلو جناب اسمعيل کی والد ہ کی دعا ہے ان کا الله سے لو لگانا اوراس بے آب و گياہ وادی ميں پانی کی تلاش ميں الله سے گڑگڑاکردعاکرناہے۔

جتنا انسان الله سے دعا کرتے وقت اپنے کو اس کی یاد ميں غرق کردیگا اتنا ہی وہ الله کی رحمت سے قریب ہو گا ۔

ہميں نہيں معلو م کہ اس نيک وصا لح خا تو ن نے اس وقت اور اس واد ی ميں الله کی یاد ميں منہمک ہو نے والی کس حا لت کا انتخاب کيا جبکہ ان کے پاس نہ کو ئی انسان تها اور نہ حيوان ،صرف ایک پيا سا شير خوار اپنی پياس سے تڑپ رہا تها گو یا وہ اپنی آخر ی سانسيں لے رہا تها۔

اس وقت اس خاتون نے خداوند عالم سے اس طرح دعا کی کہ ملا ئکہ نے ان کےلئے گڑگڑ ا کر دعا کرنا شروع کردی اور اپنی آوازوں کو ان کی آواز، اور اپنی دعا وں کو ان کی دعا وں سے ملا دیا ۔

اگر تمام انسان الله کی یاد ميں اسی طرح منہمک ہو جا ئيں اور خدا کے علاوہ سب سے ہٹ کر صرف اس کی بارگاہ سے لو لگا ئيں تو اُن پرزمين و آسمان سے رزق کی بارش ہو گی ۔

(( لَاَکَلُواْمِن فَوقِْهِم وَمِن تَحتْ اَرجُْلِهِم ) (١ “تو وہ ہر طرح سے الله کی رحمت سے مالا مال ہو ں گے ” اگر تمام لوگ خداوند عالم کی طرف اس طرح متوجہ ہو جا تے تو وہ آسمان و زمين کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اور رحمت الٰہی ان کے شامل حال ہو تی ۔ اے مادر گرامی آپ پر الله کا سلام !اے اسماعيل کی مادر گرامی آپ پر اسماعيل کی اولاد کا سلام جس کو الله نے نور ،ہدایت ،ایمان، نبوت عطا کی ہے اور ان کی ہدایت اور نور سے ہدایت پانے والے ہيں ۔اگر آپ اس حجاز کی سخت گرمی ميں اس بے آب و گياہ وادی ميں تنہا نہ ہوتيں،اور صفا و مروہ کی پہاڑیوںکے درميان اس مشکل مو قع پر آپ خداوند قدوس سے اس طرح لو نہ لگاتيں اور آپ دونوں پر خداوند عالم کی رحمت نازل نہ ہو تی اور اگر وہ رحمت نہ ہو تی تو آپ الله سے اس طرح لو نہ لگاتيں تو آپ کی صفا و مروہ کے درميان سعی حج ميں شعائر الله ميں قرار نہ دی جا تی۔

____________________

١۔سورئہ مائدہ آیت/ ۶۶ ۔

۸۰