دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)30%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53152 / ڈاؤنلوڈ: 4523
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

دعا عند اهل بيت

(جلد اول)

محمد مهدی آصفی

مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی

۳

دعا کی تعریف

دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حا جتيں طلب کرنا ۔ دعا کی اس تعریف کی اگر تحليل کی جا ئے تو اس کے مندرجہ ذیل چار رکن ہيں :

١۔مدعو:خدا وند تبارک و تعالیٰ۔

٢۔داعی :بندہ۔

٣۔دعا :بندے کا خدا سے ما نگنا۔

۴ ۔مدعو لہ:وہ حا جت اور ضرورت جو بندہ خدا وند قدوس سے طلب کر تا ہے ۔

ہم ذیل ميں ان چاروں ارکان کی وضاحت کر رہے ہيں :

۴

١۔مدعو :

یعنی دعا ميں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خدا وند قدوس کی ذات ہے :

١۔خداوند قدوس غنی مطلق ہے جو آسمان اورزمين کا مالک ہے جيسا کہ ارشاد ہو تا ہے :

( الَم تَعلَْم اَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلکُْ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرضِْ ) (۱)

“کيا تم نہيں جا نتے کہ آسمان و زمين کی حکو مت صرف الله کےلئے ہے ”( وَ لِلَّهِ مُلکُْ السَّمَاواتِ وَالاَْرضِْ وَمَابينَْهُمَایَخلُْقُ مَایَشَا ءُ ) (۲)

“اور الله ہی کےلئے زمين و آسمان اور ان کے درميان کی کل حکو مت ہے ” ٢۔خداوند عالم کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہيں ہو تا :( اِنَّ هذََٰالرزقْنَامَالَهُ مِن نِفَاد ) (۳)

“یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہو نے والا نہيں ہے ”سورئہ ص آیت / ۵۴ ۔( کُلّاًنُمِدُّ هٰولَاءِ وَ هٰولَاءِ مِن عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحظُْوراً ) (۴)

“ہم آپ کے پر ور دگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن سب کی مدد کر تے ہيں اور آپ کے پر ور دگار کی عطا کسی پر بند نہيں ہے ” اور دعا ئے افتتاح ميں وارد ہو ا ہے :“لَاتَزِیدُْهُ کَثرَْة العَطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماً ” “اور عطا کی کثرت سوائے جود و کرم کے اور کچه زیا دہ نہيں کر تی ”

____________________

۱ سورئہ بقرہ آیت/ ١٠٧ ۔

۲ سورئہ ما ئدہ آیت/ ١٧ ۔

۳ سورئہ ص آیت ۵۴ ۔

۴ سورئہ اسرا ء آیت ٢٠ ۔

۵

٣۔وہ اپنی ساحت و کبریا ئی ميں کو ئی بخل نہيں کر تا ،کسی چيز کے عطا کر نے سے اس کی ملکيت کا دائرہ تنگ نہيں ہو تا ،وہ اپنے بندو ں پر اپنی مر ضی سے جو جو د و کرم کرے اس سے اس کی ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آتی اور وہ بندوں کی حا جتوں کو قبول کر نے ميں کوئی دریغ نہيں کرتا ۔

اگر کو ئی بندہ اس کو پکا رے تو وہ دعا کو مستجاب کر نے ميں کسی چهوڻے بڑے کا لحاظ نہيں کرتاہے چونکہ خود اسی کا فر مان ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا”مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجا ب کرانے کی صلا حيت نہ رکهتا ہو ۔چو نکہ بندہ اس با ت سے آگاہ نہيں ہو تا کہ کو نسی دعا قبول ہو نی چا ہئے اور کو نسی دعا قبول نہيں ہو نی چا ہئے فقط خدا وند عالم اس چيز سے واقف ہے کہ بندے کےلئے کونسی دعاقبوليت کی صلاحيت رکهتی ہے اور کو نسی قبوليت کی صلا حيت نہيں رکهتی جيساکہ دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے :

وَلَعَلَّ الَّذِی اَبطَْاعَنّی هُوَخَيرٌْلِی لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَةِ الاُْمُورِْ،فَلَم اَرَمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرعَْلَ یٰ عَبدٍْلَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ

“حالانکہ توجانتا ہے کہ ميرے لئے خير اس تاخير ميں ہے اس لئے کہ تو امور کے انجا م سے باخبرہے ميں نے تيرے جيساکریم مولا نہيں دیکها ہے جو مجه جيسے ذليل بندے کوبرداشت کرسکے ”

۶

٢۔داعی :(دعا کر نے والا )

بندہ ہر چيز کا محتاج ہے یہا ں تک کہ اپنی حفا ظت کر نے ميں بهی وہ الله کا محتا ج ہے ارشاد ہو تا ہے :

( یَٰایُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۱)

“انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ”( وَاللَّهُ الغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ) (۲)

“خدا سب سے بے نياز ہے اور تم سب اس کے فقير اور محتاج ہو ” انسان کے پاس اپنے فقر سے بہتر اور کو ئی چيز نہيں ہے جو اس کی بار گاہ ميں پيش کر سکے۔ اور الله کی بارگاہ ميں اپنے کو فقير بنا کر پيش کر نے سے اس کی رحمتوں کا نزول ہو تا ہے۔

اور جتنا بهی انسان الله کی بارگاہ کا فقير رہے گا اتنا ہی الله کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر وہ تکبر کر ے گا اور اپنی حا جت و ضرورت کو اس کے سا منے یش نہيں کر ے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے دور ہو تا جا ئے گا ۔

٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا)

انسان جتنا بهی گڑ گڑا کر دعا ما نگے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے قریب ہو تا جا ئے گا ۔انسا ن کے مضطر ہو نے کی سب سے ادنیٰ منزل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اختيارات کا مالک خدا کو سمجهے یعنی خدا کے علا وہ کو ئی اس کی دعا قبول نہيں کر سکتا ہے اور مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دو سرا کو ئی اختيار نہ رہے یعنی اگر کو ئی اختيار ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا اختيار ہے اور اس کے علا وہ کو ئی اختيار نہيں ہے جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے کو الله کی بارگاہ ميں نہایت مضطر محسوس کرے گا ۔۔۔اور اسی وقت انسان الله کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہو گا:

۶( ا مّنَّ یُّجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ ) (۳)

“بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کوآوازدیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ”

____________________

۱ سورئہ فاطر آیت/ ١۵

۲ سورئہ محمد آیت ٣٨ ۔

۳ سورئہ النمل آیت ۶٢ ۔

۷

مضطر کی دعا اور الله کی طرف سے اس کی قبوليت کے درميان کو ئی فاصلہ نہيں ہے اور دعا ميں اس اضطرار اورچاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنيا اور ما فيہا سے قطع تعلق کر لينا اور صرف اور صرف اسی سے لو لگاناہے اس کے علا وہ غيرخدا سے طلب ا ور دعا نہيںہو سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دعا انسان کو کو شش اور عمل کر نے سے بے نياز کر دیتی ہے ،جس طرح کوشش اور عمل، دعا کر نے والے کو الله سے دعا کرنے سے بے نياز نہيں کر تے ہيں۔

۴ ۔مد عوّلہ (جس کے لئے یاجو طلب کيا جا ئے )

انسا ن کو خدا وند قدوس سے اپنی چهو ڻی سے چهو ڻی اور بڑی سے بڑی تمام جا جتيں طلب کر نا چاہئيں خدا اس کی حا جتوں کو پورا کر نے سے عا جز نہيں ہو تا اور نہ اس کے ملک و سلطنت ميں کو ئی کمی آتی ہے ،اور نہ ہی بخل اس کی ساحتِ کبریا ئی سے ساز گار ہے ۔

انسا ن کےلئے خدا وند عالم سے اپنی چهو ڻی سے چهوڻی حاجت طلب کر نے ميں بهی کو ئی حرج نہيں ہے (یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتی ،جانوروں کےلئے چارا اور اپنے آڻے کےلئے نمک بهی ما نگ سکتا ہے ) جيسا کہ روایت ميں وارد ہوا ہے کہ خدا وند عالم چهوڻی بڑی حا جتوں کو پورا کر کے اپنے بندے کو ہميشہ اپنے سے لو لگانے کو دوست رکهتا ہے ۔نہ چهوڻی دعا ئيں، اور نہ ہی بڑی حاجتيں ہو نے کی وجہ سے خداوند عالم اپنے اور بندوں کے درميان پردہ ڈالتا ہے ۔خدا وند عالم تو ہميشہ اپنے بندوں کی چهو ڻی اور بڑی تمام حاجتوں کو پورا کر تا ہے اور اپنے بندے کے دل کو ہر حال ميں اپنی طرف متوجہ کرنا چا ہتا ہے ۔

انسان اور خدا کے درميان دعا اور حاجت کے مثل کوئی چيز واسطہ نہيں بن سکتی ہے ۔دعا کے یہی چار ارکان ہيں ۔

۸

دعاکی قدر و قيمت

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی اَستَْجِب لَکُم اِ نَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ (۱)

“اور تمہا رے پر ور دگار کا ارشاد ہے مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”

دعا یعنی بندے کا اپنے کو الله کے سامنے پيش کرنا اور یہی پيش کرنا ہی روح عبادت ہے اور عبادت انسان کی غرض خلقت ہے۔ یہی تينوں باتيں ہما ری دعاوں کی قدر وقيمت کو مجسم کر تی ہيں ،دعا کی حقيقت کو واضح کر ہيں ،ہم اپنی بحث کا آغاز تيسری بات سے کر تے ہيں اس کے بعد دوسرے مطلب کو بيان کر نے کے بعد پهر پہلی بات بيان کریں گے ۔

قرآن کریم نے صاف طور پر یہ بيان کيا ہے کہ انسان کی پيدائش کا مقصد عبادت ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( وَمَاخَلَقتُْ الجِْنَّ وَالاِْنسَْ اِلَّالِيَعبُْدُونِْ ) (۲)

“اور ميں نے جن و انس کو نہيں پيدا کيا مگراپنی عبادت کے لئے ” اسی آخری نقطہ کی دین اسلام ميں بڑی اہميت ہے ۔ اور عبادت کی قدروقيمت یہ ہے کہ یہ انسان کو اسکے رب سے مربوط کر دیتی ہے ۔

عبادت ميں الله سے قصد قربت اس کے محقق ہو نے کےلئے اصلی اور جوہری امر ہے اور بغير جو ہر کے عبا دت ،عبادت نہيں ہے ،عبادت اصل ميں الله کی طرف حرکت ہے،اپنے کو الله کی بارگاہ ميں پيش کر نا ہے۔ اور یہ دوسری حقيقت پہلی حقيقت کی وضا حت کر تی ہے ۔

اور پہلی حقيقت انسان کا الله کی طرف متوجہ ہونا الله سے براہ راست مستحکم رابطہ ہے ۔۔اور عبادات ميں دعا کے علاوہ کو ئی عبادت ایسی نہيں ہے جو اس سے زیادہ انسان کو الله سے قریب کرسکتی ہو سيف تمار سے مر وی ہے :ميں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کو یہ فر ما تے سنا ہے:

____________________

۱ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔

۲ سورئہ ذاریات آیت ۵۶ ۔

۹

عليکم بالدعاء فانکم لاتتقربون بمثله (۱)

“تم دعا کيا کرو خدا سے قریب کر نے ميں اس سے بہتر کو ئی چيز نہيں ہے” جب بهی انسان کی حا جت الله کی طرف عظيم ہوگی اور وہ الله کا زیادہ محتاج ہوگا اور اس کی طرف وہ زیادہ مضطرہوگاتووہ اتناہی دعاکے ذریعہ الله کی طرف زیادہ متوجہ ہوگا۔انسان کے اندر الله کی نسبت زیادہ محتاجی کا احساس اور اس کی طرف زیادہ مضطر ہو نے اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ ميں ہو نے کے درميان رابطہ طبيعی ہے ۔بيشک ضرورت اور اضطرار کے وقت انسان الله کی پناہ ما نگتا ہے جتنی زیادہ ضرورت ہو گی اتنا ہی انسان الله کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے بر عکس بهی ایسا ہی ہے یعنی جتنا انسان اپنے کو بے نياز محسوس کرے گا خدا سے دور ہو تا جا ئيگا۔الله تعالیٰ فر ماتا ہے :

( کَلَّااِنَّ الِانسَْانَ لَيَطغْیٰ اَنْ رَّ اٰهُ اسْتَغْنیٰ ) (۲)

“بيشک انسان سر کشی کرتا ہے جب وہ اپنے کو بے نياز خيال کرتا ہے ” بيشک انسان جتنا اپنے کو غنی سمجهتا ہے اتنا ہی وہ الله سے روگردانی کرتا ہے اور سرکشی کرتا ہے اور جتنا اپنے کو فقير محسوس کرتا ہے اتنا ہی الله سے لو لگاتا ہے ۔قرآن کی تعبير بہت دقيق ہے :ان رَأىهٰاُ استَْغنْیٰ انسان الله سے بے نياز نہيں ہو سکتا بلکہ انسان الله کا محتاج ہے :

( یَااَیُّهاالنَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۳)

“انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ”ليکن انسان اپنے کو مستغنی سمجهتا ہے ،انسان کا غرور صرف خيالی ہے ۔جب انسان اپنے کو الله سے بے نياز دیکهتا ہے تو اس سے روگردانی کر تا ہے اور سرکش ہوجاتا ہے ۔جب اس کو نقصان پہنچتا ہے اور الله کی طرف اپنے مضطر ہو نے کا احساس کر تا ہے تو پلٹ جاتا ہے اور خدا کے سا منے سر جهکا دیتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ الله کے سامنے سر جهکا دینے کا نام حقيقت دعا ہے ۔جو الله سے دعا کر تا ہے اور اس کے سا منے گڑگڑاتا ہے تو الله بهی اس کی دعا قبول کر تا ہے ۔الله کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے لو لگانا ہی دعا کی حقيقت، اسکا جوہر اور اس کی قيمت ہے۔قرآن کریم ميں خدا کی بارگاہ ميں حاضری کے چار مرحلے خدا وند عالم نے اپنی بارگاہ ميں حاضری کےلئے اپنے بندوں کے سامنے چار راستے رکهے ہيں جن ميں دعا سب سے اہم راستہ ہے ان چاروں راستوں کا قر آن و سنت ميں تذکرہ ہے ۔

____________________

۱ بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ۔

۲ سورئہ علق آیت ۶۔ ٧۔

۳ سورئہ فاطر آیت ١۵ ۔

۱۰

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انسان کے لئے چار چيزیں انجام دینا اس کے حق ميں مفيد ہے اور اس ميں اس کا کو ئی نقصان نہيں ہے :ایک ایمان اور دوسرے شکر ،خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :( مَایَفعَْلٌ اللهُ بِعَذَابِکُم اِن شَکَرتُْم وَآمَنتُْم ) (۱) “خدا تم پر عذاب کر کے کيا کرے گا اگر تم اس کے شکر گزار اور صاحب ایمان بن جا و”تيسرے استغفار خداوند عالم ارشاد فر ماتا ہے( وَمَاکَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُم وَاَنتَْ فِيهِْم وَمَاکَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم یَستَْغفِْرُونَْ (۲)

“حا لانکہ الله ان پر اس وقت تک عذاب نہيں کرے گا جب تک “پيغمبر ”آپ ان کے درميان ہيں اور خدا ان پر عذاب کر نے والا نہيں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کر نے والے ہو جا ئيں ”چوتهے دعا، خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّی لَولَْادُعَاوکُم ) (۳)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بهی نہ کرتا ”معاویہ بن وہب نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایاہے:“یامعاویة !من اُعطیَ ثلاثة لم یُحرم ثلاثة:من اُعطی الدعاء اُعطی الاجابة،ومن اُعطی الشکراُعطی الزیادة،ومن اُعطی التوکل اُعطی الکفایة :فانّ اللّٰه تعالیٰ یقول فی کتابه:وَمَن یَّتَوَکَّل عَلی اللهِ فَهُوَحَسبُْه (۴)

ویقول :( لَئِن شَکَرتُْم لَازِیدَْ نَّکُم ) ۵ویقول :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (۶)

“اے معا ویہ !جس کو تين چيزیں عطا کی گئيں وہ تين چيزوں سے محروم نہيں ہوگا :جس کو دعا عطا کی گئی وہ قبول بهی کی جا ئيگی ،جس کو شکر عطا کيا گيا اس کے رزق ميں برکت بهی ہو گی اور جس کو توکل عطا کيا گيا وہ اس کے لئے کا فی ہو گا اس لئے کہ خدا وند عالم قر آن کریم ميں ارشاد فر ماتا ہے :( وَمَن یَّتَوَکَّل عَلی اللهِ فَهُوَحَسبُْه ) “اور جو خدا پر بهروسہ کر ے گا خدا اس کے لئے کا فی ہے ”( لَئِن شَکَرتُْم لَاَزِیدَْ نَّکُم ) “اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ کر دیں گے”( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے مجه سے دعا کرو ميں قبول کروں گا ” عبد الله بن وليد وصافی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ کا فرمان ہے :“ثلاث لایضرمعهن شیٴ:الدعاء عند الکربات،والاستغفارعندالذنب،و ” الشکرعندالنعمة (۷)

“تين چيزوں کے ساته کوئی چيزضرر نہيں پہنچا سکتی ہے :بے چينی ميں دعا کرنا ،گناہ کے وقت استغفار کرنا اور نعمت کے وقت خدا کا شکر ادا کرنا ”

____________________

۱ سورئہ نساء آیت ١۴٧ ۔۲ سورئہ انفال آیت ٣٣ ۔۳ سورئہ فرقان آیت ٧٧ ،بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩١ ۔۴ سورئہ طلاق آیت/ ٣۔۵ سورئہ ابراہيم آیت/ ٧۔

۶ سورئہ غافر آیت/ ۶٠ ،خصال صدوق جلد ١ صفحہ ۵٠ ،المحاسن للبرقی صفحہ ٣،الکافی جلد ٢ صفحہ ۶۵ ۔۷ امالی شيخ طوسی صفحہ ١٢٧ ۔

۱۱

الله سے لو لگانے کے یہی ذرائع ہيں اور الله سے لو لگانے کے بہت زیادہ ذرائع ہيں جيسے توبہ، خوف و خشيت ،الله سے محبت اور شوق ،اميد ،شکر اور استغفار وغيرہ۔

انسان پر الله سے لو لگانے کے لئے اس طرح کے مختلف راستوں کااختيار کرنا ضروری ہے اور اسلام خدا سے رابطہ رکهنے کے لئے صرف ایک راستہ ہی کو کافی نہيں جانتاہے ۔

خدا سے رابطہ کرنے اور اس کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کر نے کا سب سے اہم وسيلہ دعا ہے

کيونکہ فقر اور نياز مندوں سے زیادہ اور کو ئی چيز انسان کو خدا کی طرف نہيں پہونچا سکتی ہے

پس دعا خدا وند عالم سے رابطے اور لو لگا نے کا سب سے وسيع باب ہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :

الحمدللهالذی اُنادیه کلماشئت لحاجتي واخلوبه حيث شئت لسّري بغيرشفيع فيقضي لي حاجتي

“تمام تعریفيں اس خدا کےلئے ہيں جس کو ميں آواز دیتا ہوں جب اپنی حا جتيں چا ہتا ہوں اور جس کے ساته خلوت کرتا ہوں جب جب اپنے لئے کو ئی رازدار چا ہتا ہوں یعنی سفارش کرنے والے کی حاجت کو پوری کرتا ہے ”

۱۲

دعا ،روح عبادت ہے

دعا عبادت کی روح ہے ؛انسان کی خلقت کی غرض عبادت ہے ؛اور عبادت کر نے کی غرض ۔خدا وند عالم سے شدید رابطہ کرنا ہے ؛اوریہ رابطہ دعا کے ذریعہ ہی محقق ہوتا ہے اور اس کے وسائل وسيع اور قوی ہوتے ہيں : حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں :الدعاء مخ العبادة ؛ولایهلک مع الدعاء احد (۱)

دعا عبادت کی روح ہے اور دعا کر نے سے کو ئی بهی ہلاک نہيں ہوتا ہے ” اور یہ بهی رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم ہی کا فر مان ہے :افزعواالی اللّٰه فی حوائجکم،والجاوااليه فی ملمّاتکم،وتضرّعوا اليه،وادعوه؛فإنّ الدعاء مخ العبادة ومامن مومن یدعوااللّٰه الّااستجاب،فإمّاان یُعجّله له فی الدنيااویُوجّل له فی الآخرة ،واِمّاان یُکفّرعنه من ذنوبه بقدرمادعا؛ما لم یدع بماثم (۲)

تم خدا کی بارگاہ ميں اپنی حا جتوں کو نالہ و فریاد کے ذریعہ پيش کرو، مشکلوں ميں اسی کی پناہ مانگو،اس کے سامنے گڑگڑاو،اسی سے دعا کرو، بيشک دعا عبادت کی روح ہے اور کسی مومن نے دعا نہيں کی مگر یہ کہ اس کی دعا ضرور قبول ہو ئی ،یا تو اسکی دنيا ہی ميں جلدی دعا قبول کر ليتا ہے یا اس کو آخرت ميں قبول کرے گا،یا بندہ جتنی دعاکرتاہے اتنی مقدارميںہی اسکے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔

گویا روایت ہم کو خدا وند عالم سے دعا کرنے اور ہم کو اس کی بارگاہ ميں پيش ہو نے کا طریقہ سکهاتی ہيں ۔

ان فقرات :( افزعواالی الله فی حوائجکم ) “اپنی حا جتيں خدا کی بارگاہ ميں پيش کرو ”( والجاوااليه فی ملمّاتکم ) “مشکلوں ميں اسی کی پناہ مانگو”( وتضرّعوااليه ) “اسی کی بارگاہ ميں گڑگڑاو”کے سلسلہ ميں غور وفکر کریں ۔ اور دوسری روایت ميں حضرت رسول خدا فر ماتے ہيں :الدعاء سلاح المومن وعمادالدین (۳)

“دعا مو من کا ہتهيار اور دین کا ستون ہے ”

بيشک دعا دین کا ستون ہے اور اس کا مطلب الله کی طرف حرکت کرنا ہے اور الله کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کرنے کا نام دعا ہے ۔

____________________

۱ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔

۲ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٢ ۔

۳ بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٨٨ ۔

۱۳

اور جب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ ميں پيش کر نے کا نام دعا ہے تو دعا خدا وندعالم کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے اکرم چيز ہے ۔حضرت رسول خدا (ص) فرما تے ہيں :مامن شی ء اکرم علیٰ اللّٰه تعالیٰ من الدعاء (۱)

“خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اکرم چيز دعا ہے ” حنان بن سدیر اپنے پدر بزرگوار سے نقل کرتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام محمد باقر کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :“ای العبادةافضل؟فقال:“مامن شیٴ احبّ الیٰ اللّٰه من ان یُسال ویُطلب ” مماعنده،ومااحدابغض الیٰ اللّٰه عزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادته ولایسال مما عنده (۲)

“کونسی عبادت سب سے افضل ہے ؟تو آپ (امام )نے فرمایا: خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اہم چيز یہ ہے کہ اس سے سوال کيا جائے اور خدا وند عالم کے نزدیک سب سے مبغوض شخص وہ ہے جو عبادت کرنے پر غرور کرتا ہے اور خداوند عالم سے کچه طلب نہيں کرتا ”بده کے دن پڑهی جانے والی دعا ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فر ما تے ہيں :

الحمدللهالذی مرضاته فی الطلب اليه،والتماس مالدیه وسخطه فی ترک الالحاح فی المسالة عليه (۳)

دعا ء کميل ميں فر ما تے ہيں :

فَاِنَّکَ قَضَيتَْ عَ لٰی عِبَادِکَ بِعِبَادَتِکَ وَاَمَرتَْهُم بِدُعَائِکَ وَضَمِنتَْ لَهُمُ الِاجَابَة،فَاِلَيکَْ یَارَبِّ نَصَبتُْ وَجهِْی وَاِلَيکَْ یَارَبِّ مَدَدتُْ یَدِی ۔ْ۔۔”

“اس لئے کہ تو نے اپنے بندوں کے با رے ميں طے کيا ہے کہ وہ تيری عبادت کریں اور تو نے اپنے سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور تو اس کے قبول کرنے کا ضامن ہے پس اے خدا !ميں نے تيری ہی طرف لو لگا ئی ہے اور اے پروردگار تيری ہی جانب اپنے ہاته پهيلائے ہيں ”

دعا سے رو گردانی ، خدا وندعالم سے روگردانی ہے خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی استَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ )

۴

“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جو ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”اس آیہ کریمہ ميں عبادت سے استکبار کرنا دعا سے روگردانی کرنا ہے ،پس سياق آیت کر نے کی دعوت دے رہا ہے ۔خداوند عالم فر ماتا ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) “مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا” اور اس کے بعد فوراً فرماتا ہے :( اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) (۵)

“اور یقيناجو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”۔

____________________

۱ مکارم الاخلاق صفحہ / ٣١١ ۔۲ مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١ ۔اور محاسن بر قی صفحہ ٢٩٢ ۔۳ دعا یوم الاربعاء۔۴ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔۵ سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔

۱۴

اس آیہ کریمہ ميں دعا سے اعراض کرنا عبادت نہ کرنے کے مترادف ہے اس لئے کہ یہ الله سے روگردانی کرنا ہے ۔اور اس آیت کی تفسير ميں یہی معنی حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کئے گئے ہيں : هی والله العبادة،هی والله العبادة “خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ،خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ”۔ حماد بن عيسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :( انّ الدعاء هوالعبادة؛انّ اللّٰه عزّوجلّ یقول: اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ ) (۱)بيشک دعا سے مراد عبادت ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور یقيناً جولوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے ”اور الله کے نزدیک دعا اور دعا کی مقدار کے علاوہ انسان کی کو ئی قيمت و ارزش نہيں ہے اور خدا وند عالم اپنے بندے کی اتنی ہی پروا ہ کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے :( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّی لَولَْادُعَاوکُم ) (۲)پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پر وا بهی نہ کرتا ”بيشک دعا خداوند عالم کی بارگاہ ميں اپنے کو پيش کر نے کے مساوی ہے جيسا کہ دعا سے اعراض(منه موڑنا) کرنا الله سے اعراض کرنا ہے ۔ اور جو الله سے منه مو ڑتا ہے تو خدا وند عالم بهی اس کی پرواہ نہيں کرتا ،اور نہ ہی الله کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قيمت ہے ۔حضرت امام باقر عليہ السلام ایک حدیث ميں فرماتے ہيں :ومااحد ابغض الی اللهعزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادته،ولایسال ما عنده ۳حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :لتسالنَّ الله اوليغضبنّ عليکم،انّللهعبادایعملون فيعطيهم ،وآخرین یسالُونه صادقين فيعطيهم ثم یجمعهُم فی الجنة،فيقول الذین عملوا:ربناعملنا فاعطيتنا،فبمااعطيت هولاء؟فيقول:هولاء عبادي اعطيتکم اجورکم ولم التکم من اعمالکم شيئا،وسالني هولاء فاعطيتهم واغنيتهم،وهوفضلي اوتيه مَنْ اشاء (۴) بيشک الله اپنے بندے کی دعا کا مشتاق ہے جب بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں دعا کےلئے حاضرہوتا ہے تو الله اس سے محبت کرتا ہے ۔اور جب بندہ الله سے روگردانی کرتا ہے تو خدا بهی اسے پسندنہيں کرتا ہے ۔کبهی کبهی خدا وند عالم اپنے مومن بندے کی دعا مستجاب کرنے ميں اس لئے دیر لگا دیتا ہے تاکہ وہ دیر تک اس کی بارگاہ ميں کهڑا رہے اوراس سے دعا کرکے گڑگڑاتا رہے۔کيونکہ اسے اپنے بندے کا گڑگڑانابهی پسند ہے اسی لئے وہ دعا اور مناجات کا مشتاق رہتا ہے ۔عالم آل محمد یعنی امام رضا عليہ السلام سے مروی ہے :انّ اللّٰه عزّوجلّ ليوخّراجابة المومن شوقاًالیٰ دعائه ویقول:صوتاً احبّ ان اسمعه ویعجّل إجابة دعاء المنافق،ویقول:صوتاً اکره سماعه (۵)

____________________

۱ وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨٣ ۔۲ سورئہ فرقان آیت/ ۶٠۳ وسائل الشيعہ جلد ۴ :صفحہ ١٠٨۴ ،حدیث ٨۶٠۴ ۔۴ وسا ئل الشيعہ جلد ۴ :صفحہ ١٠٨۴ حدیث ٨۶٠٩ ۔۵ بحارالانوار جلد ٩٧ صفحہ ٢٩۶ ۔

۱۵

“خداوند عالم مومن کی دعا کے شوق ميں اس کی دعاکودیر سے مستجاب کرتاہے اور کہتا ہے : مجهے یہ آواز پسندہے اورمنافق کی دعاجلدقبول کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجهے اس کی آواز پسند نہيں ” حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :اکثروا من ان تدعوااللّٰه،فإنّ اللّٰه یحبّ من عباده المومنين ان یدعوه، وقد وعد عباده المومنين الاستجابة (۱) “تم خدا وند عالم سے بہت زیادہ دعائيں کرو بيشک الله کویہ پسند ہے کہ اس کے مومن بندے اس سے دعائيں کریں اور اس نے اپنے مومن بندوں کی دعا قبول کر نے کا وعدہ کيا ہے”حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے :احبّ الاعمال إلیٰ اللّٰه عزّوجلّ فی الارض:الدعاء (۲) “زمين پر الله کا سب سے پسندیدہ عمل:دعا ہے ” حضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے :إنّ المومن یسال اللّٰه عزّوجلّ حاجة فيوخرعنه تعجيل اجابته حّباً لصوته واستماع نحيبه (۳) “بيشک جب کوئی مو من الله عز و جل سے کو ئی سوال کرتا ہے تو خدا وندعالم اس مومن کی دعا کی قبوليت ميں اس کی آوازکو دوست رکهنے اور سننے کی خاطرتاخير کرتا ہے ”حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انّ العبد ليد عوفيقول الله عزّوجلّ للملکين:قداستجبت له،ولکن احبسوه بحاجته،فانّی اُحبّ ان اسمع صوته،وانّ العبدليدعوفيقول الله تبارک وتعالیٰ:عجلوا له حاجته فانی ابغض صوته (۴) “جب ایک بندہ خدا وند عز وجل سے دعا مانگتا ہے تو خداوند عالم دو فرشتوں سے کہتا ہے: ميں نے اس کی دعا قبول کر لی ہے ليکن تم اس کواس کی حاجت کے ساته قيد کرلو ،چونکہ مجهے اس کی آواز پسند ہے ،اور جب ایک بندہ دعا کرتا ہے تو خداوندعالم کہتا ہے :اس کی حاجت روا ئی ميں جلدی کرو چونکہ مجهے اس کی آواز پسندنہيں ہے ”حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انّ العبد الولی لله ليدعوالله عزّوجلّ فی الامرینوبه،فيُقال للملک الموکل به:اقض لعبدي حاجته،ولاتُعجّلهافانّي اشتهی ان اسمع صوته ونداء ه وانّ العبدالعدولله عزّوجلّ یدعوالله عزّوجلّ فی الامرینوبه،فيُقال للملک الموکل به:اقض حاجته، و عجّلها فانّي اکره ان اسمع صوته وندائه (۵) “الله کو دوست رکهنے والا بندہ دعا کرتے وقت الله کو اپنے امر ميں اپنا نائب بنا دیتا ہے تو خدا وندعالم اس بندے پر موکل فرشتو ں سے کہتا ہے :ميرے اس بندے کی حاجت قبول کرلو مگر اسے پوری کرنے ميں ابهی جلدی نہ کرنا چونکہ ميں اس کی آواز سننے کو دوست رکهتا ہوں اورجب الله کا دشمن بندہ الله سے دعا کرتے وقت اس کو اپنے کسی کام ميں اپنا نائب بنانا چاہتا ہے تو خدا وند عالم اس بندے پر مو کل فرشتوں سے کہتا ہے اس کی حاجت کو پورا کرنے ميں جلدی کرو اس لئے کہ ميں اس کی آواز سننا پسندنہيں کرتا ہوں ”خداوند عالم کو ہر گز یہ پسند نہيں ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے سے سوال کریں بلکہ اگروہ اپنی عزت نفس کا خيال رکهتے ہوئے دوسروں کے سامنے ہاته نہ پهيلائيں تواس کو یہی پسند ہے ليکن الله تبارک و تعالیٰ اپنی بارگاہ ميں مومنين

____________________

۱ وسائل الشيعہ جلد ۴:صفحہ ١٠٨۶ ،حدیث ٨۶١۶ ۔۲ وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٨٩ ،حدیث ٨۶٣٩ ۔۳ قرب الاسناد صفحہ ١٧١ ،اصول کافی صفحہ ۵٢۶ ۔۴ وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١١٢ ،حدیث ٨٧٣١ ،اصول کافی جلد ٢،صفحہ ۵٢۶ ۔۵ اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢٧ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١١١٢ ،حدیث ٨٧٣٢ ۔

۱۶

کے سوال کوپسندکرتا ہے اور اپنے سامنے ان کے گریہ و زاری اور دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ۔

حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں :انّ الله احبّ شيئاًلنفسه وابغضه لخلقه،ابغض لخلقه المسالة،واحبّ لنفسه ان یُسال،وليس شیء احبّ الیٰ الله عزّوجلّ من ان یُسال،فلایستحي احدکم من ان یسال الله من فضله،ولوشسع نعل (۱)

“خدا وند عالم ایک چيز اپنے لئے پسندکرتا ہے ليکن اس کو مخلوق کےلئے پسند نہيں کرتا ،وہ اپنے لئے اس بات کو دوست رکهتا ہے کہ اس سے سوال کيا جائے اور الله کے نزدیک اس سے سوال کر نے کے علا وہ کوئی چيز محبوب نہيں ہے پس تم ميں سے کو ئی الله سے اس کے فضل کاسوال کرنے ميں شرم نہ کرے اگر چہ وہ جو تے کے تسمے کے بارے ميں ہی کيوں نہ ہو ” حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ اللّٰه یحبّ العبد ان یطلب اليه في الجرم العظيم،ویبغض العبد ان یستخفّ بالجرم اليسير (١ “الله بندے کی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ وہ اس کو بڑے جرم ميں پکارے اور اس بات سے ناراض ہو تا ہے کہ وہ اس کو چهوڻے جرم ميں نہ پکارے”

محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ :اصابتني فاقة شدیدة واضاقة،ولاصدیق لمضيق ولزمني دینٌ ثقيل وعظيم ،یلحّ في المطالبة،فتوجّهت نحودارالحسن بن زیدوهویومئذاميرالمدینةلمعرفة کانت بينی وبينه،وشعربذلک من حالي محمد بن عبد اللّٰه بن علي بن الحسين عليه السلام،وکان بينی وبينه قدیم معرفة،فلقينی فی الطریق فاخذ بيدي وقال:قد بلغني ماانت بسبيله،فمن تومّل لکشف مانزل بک؟ قلت:الحسن بن زیدفقال اذن لایقضي حاجتک،ولاتسعف بطلبتک، فعليک بمن یقدرعلی ذلک،وهواجودالاجودین،فالتمس ماتومّله من قبله،فإنّي سمعت ابن عمي جعفربن محمد یُحدّث عن ابيه،عن جده،عن ابيه الحسين بن

____________________

١)المحا سن للبرقی صفحہ ٢٩٣ ،بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٢ ۔ )

۱۷

علي،عن ابيه علي بن ابيطالب عليه السلام عن النبي ص)قال:اوحیٰ اللّٰه الیٰ بعض انبيائه فی بعض وحيه:وعزّتي وجلالي لاقطعن امل کل آمل امّل غيري بالإیاس،ولاکسونّه ثوب المذلّة فی الناس،ولابعدنّه من فَرَجِي وفضلی،ایامل عبدي فی الشدائدغيري والشدائدبيدي؟ویرجو سواي واناالغني الجواد؟بيدي مفاتيح الابواب وهی مغلقة،وبابي مفتوح لمن دعاني الم تعلمواانّ من دهاه نائبة لم یملک کشفهاعنه غيری،فمالی اراه یامله معرضا عني وقد اعطيته بجودي وکرمي مالم یسالني؟ فاعْرَضَ عني،ولم یسالني،وسال فی نائبته غيري،وانااللّٰه ابتدیٴ بالعطية قبل المسالة

افاُسال فلا اجُوَد؟کلّااليس الجود والکرم لي ؟اليس الدنياوالآخرة بيدي؟فلوانّ اهل سبع سماوات وارضين سالوني جميعاواعطيت کل واحد منهم مسالته مانقص ذلک من ملکي مثل جناح البعوضة،وکيف ینقص مُلْک اناقيّمه فيابوسا لمن عصاني،ولم یراقبني فقلت له:یابن رسول اللّٰه،اعدعليّهذاالحدیث،فاعاده ثلاثاً،فقلت:لا واللّٰه ماسالت احدا بعدهاحاجة فمالبث ان جاءَ ني اللّٰه برزق من عنده(۱)

ميں شدید فقر و فاقه کی زندگی گزار رها تها، ميری تنگدستی کو دور کرنے والا بهی کو ئی ميرا ساتهی نهيں تها اور مجه پر دین کی اطاعت بڑی مشکل هو گئی تهی اور ميں اپنی ضروریات زندگی کےلئے چيخ اور چلارها

____________________

١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٠٣ ۔ ٣٠۴ ۔ ) ۱ فرو ع الکافی جلد ١ صفحہ ١٩۶ ،من لا یحضر ہ الفقيہ جلد ١ صفحہ ٢٣ ۔

۱۸

تهاتو ميں نے اس وقت اپنا وظيفہ معلوم کر نے کے لئے حسن بن زید (جو اس وقت مدینہ کے امير وحاکم تهے) کے گهر کا رخ کيا اور ان تک ميرے حالات کی خبر ميرے قدیمی ہمنشين محمد بن عبد الله بن علی بن الحسين عليہ السلام نے پہنچا ئی ،ميری ان سے راستہ ميں ملاقات ہوئی تو انهوں نے ميرا ہاته پکڑکر کہا :مجه کو تمہا رے حالات کے بارے ميں خبر ملی ہے ميں تمہا رے بارے ميں نا زل ہو نے والی مشکلات کے بارے ميں سوچ رہا ہوں ؟

ميں نے کہا :حسن بن زید ،اس نے کہا تمہاری حاجت پوری نہيں ہوگی اور تم اپنے مقصد تک نہيں پہنچ سکتے تم ایسے شخص کے پاس جا ؤ جو تمہاری حاجت روائی کی قدرت رکهتا ہے اور تمام سخا وت کرنے والوں سے زیادہ سخی ہے اپنی مشکلات کےلئے ان کے پاس جاؤ اس لئے کہ ميں نے سنا ہے کہ ميرے چچازاد بها ئی جعفر بن محمد عليہما السلام نے اپنے والد کے ذریعہ اپنے جد سے پهر ان کے والد سے حسين بن علی عليہما السلام سے انهوں نے اپنے والد علی بن ابی طالب عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے :خداوند عالم نے اپنے بعض انبياء عليہم السلام کی طرف وحی نا زل کی کہ مجهے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے ميں ہر اس شخص کی اميد ما یو سی ميں بدل دو نگا جو ميرے علا وہ کسی اور سے اميد لگا ئے گا ،اسے ذلت کا لباس پہنا ؤں گا اور اسے اپنے فضل و کرم سے دور کر دونگا ۔کيا ميرا بندہ مشکلات ميںميرے علاوہ کسی اور سے اميد کرتا ہے حالانکہ ميں غنی جواد ہوں؟ تمام ابواب کی کنجی ميرے ہاته ميں ہے حالانکہ تمام دروازے بند ہيں اور مجه سے دعا کرنے والے کےلئے ميرا دروازہ کهلا ہوا ہے ۔

کيا تم نہيں جانتے کہ جس کو کو ئی مشکل پيش آئے اس کی مشکل کو ميرے علا وہ کو ئی اور دور نہيں کر سکتاتو ميں اس کو غير سے اميد رکهتے ہوئے اور خود سے رو گردانی کرتے ہو ئے دیکهتا ہوں جبکہ ميں نے اپنی سخا وت اور کرم کے ذریعہ وہ چيزیں عطا کی ہيں جن کا اس نے مجه سے مطالبہ نہيں کيا ہے ؟ ليکن اس نے مجه سے رو گردانی کی اور طلب نہيں کيا بلکہ اپنی مشکل ميں دو سروں سے ما نگا جبکہ ميں ایسا خدا ہوں جو ما نگنے سے پہلے ہی دیدیتا ہوں۔

۱۹

توکياایسا ہو سکتا ہے کہ مجه سے سوال کيا جائے اور ميں جود و کرم نہ کروں ؟ایساہر گز نہيں ہو سکتا۔کيا جود و کرم ميرے نہيں ہيں ؟کيا دنيا اور آخرت ميرے ہاته ميں نہيں ہيں ؟اگرسات زمين اور آسمان کے لوگ سب مل کر مجه سے سوال کریں اور ميں ہر ایک کی ضرورت کے مطابق اس کو عطا کردوں تو بهی ميری ملکيت ميں ایک مچهرکے پَر کے برابر بهی کمی نہيں آئيگی اور کيسے کمی آبهی سکتی ہے جس کا ذمہ دار ميں ہوں ،لہٰذا ميری مخالفت کرنے والے اور مجه سے نہ ڈرنے والے پر افسوس ہے ۔

را وی کہتا ہے کہ ميں نے امام عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا : اے فرزند رسول اس حدیث کی ميرے لئے تکرارفر ما دیجئے تو آپ نے اس حدیث کی تين مرتبہ تکرار فر ما ئی ۔

ميں نے عرض کيا :خدا کی قسم آج کے بعد کسی سے کو ئی سوال نہيں کروں گا تو کچه ہی دیر گذری تهی کہ خدا وند عالم نے مجه کو اپنی جا نب سے رزق عطا فر مایا ”

استجابت دعا

دعا توفيق اور استجا بت کے حصار ميں دعا دو طرف سے الله کی رحمت سے گهری ہوئی ہو تی ہے :الله کی طرف سے توفيق اور دعا کی قبوليت ۔بندے کی دعا الله کی دی ہو ئی توفيق کے علا وہ قبول نہيں ہو تی ہے الله اپنے بندہ کو دعا کر نے کی تو فيق کارزق عطاکرتاہے چونکہ بندہ اس توفيق کے بغير الله کی بارگاہ ميں دعاپيش کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکتا لہٰذادعا سے پہلے اس توفيق کا ہو نا ضروری ہے اور جب بندہ خدا سے دعا کر تا ہے تو الله اس کی دعا قبول کرتا ہے :

( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )

“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا ”

تو پہلے الله سے دعا کرنے کی توفيق لازم ہوتی ہے اورپهر دعا بارگاہ معبودميں قبول ہو تی ہے۔یہ دونوں چيزیں دعاکا احا طہ کئے ہو ئے ہيں ،یہ دونوں الله کی رحمت کے دروازے ہيں جو بندے کےلئے اس کے دعا کرنے سے پہلے اور دعا کرنے کے بعد کهلے رہتے ہيں ۔حضرت رسول خدا سے مروی ہے :

____________________

١)سورئہ مو من آیت/ ۶٠ ۔ )

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تھے( ۱ ) اور جب بیدار ہوتے تھے تو پہلے خدا کو سجدہ کرتے تھے( ۲ ) اور ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ خدا کی حمد کرتے اور کہتے تھے:الحمد للّٰه ربِّ العالمین کثیراً علیٰ کلّ حال ۔( ۳ ) قرآن خوانی تو آپ (ص)کا شغف اور محبوب مشغلہ تھا جب آپ(ص) نے عبادت میں بہت زیادہ جانفشانی کی تو جبریل نازل ہوئے اور آپ(ص) کی خدمت میں خدا کا پیغام پہنچایا:( طه، ما انزلنا علیک القرآن لتشقی ) ۔( ۴ )

طٰہ، ہم نے آپ(ص) پر اس لئے قرآن نازل نہیں کیا ہے کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں۔

۳۔ خدا ہی پر بھروسہ

اپنے رسول (ص) کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے :( الیس اللّٰه بکاف عبده ) ( ۵ ) کیا اپنے بندہ کے لئے اللہ کافی نہیں ہے؟!

نیز فرماتا ہے:( و توکُلّ علیٰ العزیز الرّحیم الّذی یراک حین تقوم و تقلّبک فی السّاجدین ) ( ۶ )

اور غالب و رحیم خدا پر بھروسہ کیجئے جو آپ(ص) کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ(ص) قیام کرتے ہیں اور سجدہ کرنے والوں میں آپ(ص) کی نشست و برخاست بھی دیکھتا ہے۔

یقینا رسول(ص) اعظم خدا پر ایسے ہی توکل و اعتماد کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشادگزرا ہے ۔

جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ذات الرقاع میں ہم رسول(ص) کے ہمراہ تھے ہم نے ایک سایہ دار درخت دیکھا اسے رسول(ص) کے لئے چھوڑ دیا۔ رسول(ص) نے اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی اور آرام کرنے لگے، ایک مشرک نے اس تلوار کو اٹھا لیا اور رسول(ص) سے کہنے لگا: آپ(ص) مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: نہیں اس

____________________

۱۔ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۔ ایضا ج ۱۶ ص ۲۵۳ ۔ ۳۔کافی ج۲ ص ۵۰۳۔

۴۔ طہ ۱۔۲ ۔

۵۔زمر:۳۶۔

۶۔شعرائ: ۲۱۷ تا ۲۱۹۔

۴۱

نے کہا: اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے فرمایا: اللہ بچائے گا۔ یہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر پڑی ، تلوار کو آنحضرت (ص) نے اٹھا لیا اور فرمایا: اب میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: مجھ پر احسان کیجئے، آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دوگے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا : یہ گواہی تو میں نہیں دونگا لیکن میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ (ص)سے جنگ نہیں کرونگا اور ان لوگوںکا ساتھ نہیں دونگا جو آپ(ص) سے جنگ کرتے ہیں، آپ(ص) نے اس کا راستہ چھوڑ دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں سب سے زیادہ نیک آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں۔( ۱ )

۴۔شجاعت

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( الّذین یبلّغون رسالات اللّٰه و یخشونه ولا یخشون احداً الا اللّٰه ) ۔( ۲ ) جو لوگ خدا کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے(علی ابن ابی طالب کہ جن کے سامنے عرب کے سورمائوں کازہرہ آب ہو جاتا تھا )فرماتے ہیں: جب میدان کا رزار گرم ہوتا تھا اور دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے سے گتھ جاتی تھیں تو اس وقت ہم رسول(ص) کے پاس پناہ لیتے تھے اور آپ دشمن کی فوج سے بہت زیادہ قریب ہوتے تھے۔( ۳ )

جنگ احد میں صحابہ آپ(ص) کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس وقت آپ(ص) کی ثابت قدمی کی منظر کشی مقداد نے اس طرح کی ہے : اس ذات کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) اپنی جگہ سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹے ہوںجبکہ دشمنوں کا سارا زور آپ(ص) کی طرف تھا آپ(ص) کے اصحاب میں ایک جماعت آپ(ص) کے پاس جمع ہوتی تھی تو دوسری متفرق ہو جاتی تھی میں نے بارہا دیکھا کہ آپ اپنی کمان سے تیر چلا رہے ہیں یا پتھرپھینک رہے ہیں یہاں تک کہ دونوں طرف سے پتھرائو شروع ہو گیا۔( ۴ )

____________________

۱۔ ریاض الصالحین (للنووی)ص۵ حدیث ۷۸، صحیح مسلم ج۴ ص ۴۶۵۔

۲۔احزا:ب ۳۹۔ ۳۔ فضائل الخمسہ من الصحاح الستة ج۱ ص ۱۳۸۔

۴۔ مغازی واقدی ج۱ ص ۲۳۹ و ۲۴۰۔

۴۲

۵۔ بے مثال زہد

خدا وند عالم فرماتا ہے:( ولا تمدّنّ عینیک الیٰ ما متعنا به ازواجاً منهم زهرة الحیاة الدّنیا لنفتنهم فیه و رزق ربک خیر و ابقیٰ ) ( ۱ ) اور ہم نے ان میں سے بعض لوگوںکو دنیوی زندگی کی رونق سے مالامال کر دیا آپ اپنی نگاہ کو ان کی طرف ہرگز نہ ڈالیںاس لئے کہ اس کے ذریعہ ہم انہیں آزمائیں گے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ابو امامہ نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: مجھے میرے رب کا پیغام پہنچا کہ میں بطحائے مکہ کو تمہارے لئے سونے سے بھر دوں؟ میں نے عرض کی: نہیں معبود! میں ایک دن شکم سیر اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں، جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری بارگاہ میں تضرع و زاری کروں اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔( ۲ ) رسول(ص) اپنی چٹائی پر محو خواب ہوتے تھے اس سے آپ کے پہلو میں درد ہو گیا۔لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ کے لئے فرش فراہم کر دیں فرمایا: دنیا (کی لذتوں) سے مجھے کیا واسطہ؟ میں تو دنیا میں اس سوار کی مانند ہوں کہ جس نے درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہو گیا۔( ۳ ) ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے، آپ(ص) کے اہل و عیال بھی اسی حال میں رہتے تھے وہ اکثر جو کی روٹی کھاتے تھے۔( ۴ ) عائشہ کہتی ہیں: آل محمد(ص) نے کبھی دن میں دو کھانے نہیں کھائے، مگر یہ کہ ایک کھانا خرما ہوتا تھا( ۵ ) نیز کہتی ہیں: رسول(ص) کی وفات کے وقت بھی آپ(ص) کی ایک بکری یہودی کے یہاں تیس سیر جو کے عوض گروی تھی۔( ۶ )

____________________

۱۔طٰہ: ۱۳۱۔

۲۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷ ۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷۔

۴۔ سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱حدیث ۲۳۶۰۔

۵۔ صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۷۱ حدیث ۶۰۹۰۔

۶۔صحیح بخار ج۳ ص ۱۰۶۸ ح ۲۷۵۹ ۔

۴۳

انس بن مالک سے روایت ہے کہ فاطمہ زہرا آپ(ص) کی خدمت میں روٹی کا ایک ٹکڑا لائیں تو آپ(ص) نے فرمایا: اے فاطمہ!یہ ٹکڑا کیسا ہے ؟ عرض کی: یہ روٹی کا ٹکڑا ہے، میرا دل نہ مانا لہذا میں آپ کی خدمت میں لیکر حاضر ہوئی۔ فرمایا: تین دن کے بعد آج یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے باپ کے منہ میں گیا ہے۔( ۱ )

قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم انس کے پاس تھے اور ان کے پاس ایک نانبائی تھا انہوں نے کہا: رسول(ص) نے جیتے جی نرم روٹی اور بھنی بکری نہیں کھائی۔( ۲ )

۶۔بردباری اور کرم

ابن عباس کہتے ہیں: رسول(ص) بڑے کریم و فیاّض تھے۔ ماہ رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ہر سال رمضان میںجبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے اورجب جبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے تو آپ(ص) کو نرم ہوا سے بھی زیادہ سخی پاتے تھے۔( ۳ ) جابر سے روایت ہے کہ رسول(ص) سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپ(ص) نے انکار نہیں کیا۔( ۴ )

روایت ہے کہ رسول(ص) ایک کپڑے والے کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی ۔اس کو پہن کر بر آمد ہوئے تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے قمیص پہنا دیجئے اللہ آپ کو جنت کا لباس عطا کرے گا۔ آپ(ص) نے قمیص اتاری اور اسے پہنا دی، پھر دوکاندار کے پاس آئے اور اس سے چار درہم میں دوسری قمیص خریدی آپ(ص) کے پاس دو درہم باقی بچے دیکھا کہ راستہ میں ایک کنیز رو رہی ہے ۔ آپ(ص) نے اس سے دریافت کیا: کیوں رو رہی ہو؟ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول(ص)! میرے آقا نے مجھے دو درہم دئیے تھے کہ آٹا لے آئو وہ درہم گم ہو گئے دو درہم رسول(ص) نے اسے

____________________

۱۔ الطبقات الکبریٰ ابن سعد ج۱ ص ۴۰۰۔

۲۔ مسند احمد ج۳ص ۵۸۲ حدیث ۱۱۸۸۷۔

۳۔صحیح مسلم ج۴ ص ۴۸۱ حدیث ۳۳۰۸، مسند احمد ج ۱ ص ۵۹۸ حدیث ۳۴۱۵۔

۴۔سنن دارمی ج۱ ص ۳۴۔

۴۴

دے دئے ۔ کنیز نے پھر عرض کی: میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے کہیں مجھے ماریں نہ لہذا رسول(ص) اس کے ساتھ اس کے آقا کے گھر تشریف لے گئے ، باہر ہی سے سلام کیا، ان لوگوں نے رسول(ص) کی آواز پہچان لی لیکن کوئی جواب نہ آیا آپ(ص) نے پھر سلام کیا۔ پھر کوئی جواب نہ ملا آپ(ص) نے پھر سلام کیا تو ان لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ آپ(ص) نے دریافت کیا تم نے میرا پہلا سلام نہیں سنا تھا؟ انہوںنے عرض کی: سنا تھا لیکن ہم چاہتے تھے آپ ہماری سلامتی کی زیادہ دعا کریں۔ ہمارے ماں باپ آپ(ص) پر قربان تشریف آوری کا باعث کیا ہے ؟ فرمایا: مجھے یہ خوف تھا کہ تم اس کنیز کو ماروگے۔ اس کے مالک نے کہا : آپ(ص) اس کے ساتھ تشریف لائے ہیںلہذامیں نے اسے راہ خدا میں آزاد کیا، رسول(ص) خدا نے انہیں دعائے خیردی اور انہیںجنت کی بشارت دی اور فرمایا:

لقد بارک اللّه فی العشرة کسا اللّه نبیه قمیصاً و رجلا من الانصار قمیصا و اعتق منها رقبة و احمد اللّه هو الّذی رزقنا هذا بقدرته ۔( ۱ )

یقینا خدا نے ان دس درہموں میں برکت عطا کی اس کے ذریعہ سے خدا نے اپنے نبی(ص) کو قمیص پہنائی ، اورایک آدمی کو انصار میں سے قمیص پہنائی اور اس دس درہم میں سے ایک کنیز کو آزاد کرایا میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ چیزیں عطا کیں۔

ماہ رمضان آتا تو آپ اسیروں کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا کرتے تھے۔( ۲ )

عائشہ کہتی ہیں: نبی(ص) اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام نہیں لیتے تھے ہاں حرمت ِالٰہی کی پامالی کا انتقام لیتے تھے، اپنے ہاتھ سے آپ(ص) نے کبھی کسی کو نہیں مارا، اگر مارا تو راہ خدا میں مارا، آپ(ص) نے کسی سوالی کو محروم نہیں کیا، مگر یہ کہ اس نے گناہ کا سوال کیا ہو کیونکہ آپ(ص) معصوم تھے، گناہ سے بہت دور تھے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المعجم الکبیر (طبرانی ) ج ۲ ۱ ص ۳۳۷، حدیث ۱۳۶۰۷۔

۲۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۳۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۰۶۔

۴۵

عبید بن عمر سے روایت ہے : اگر رسول(ص) کے پاس ایسے مجرم کو لایا جاتا تھاکہ جس پر حد نہیں ہوئی تھی تو آپ اسے معاف کر دیتے تھے۔( ۱ )

انس کہتے ہیں: میں نے دس سال تک رسول(ص) کی خدمت کی ہے لیکن کبھی آپ(ص) نے مجھ سے اف تک بھی نہیں کہا، اور میں جو کام بھی انجام دیتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں کیا؟ اور جو کام میں نہیں کرتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ انجام کیوں نہیں دیا؟( ۲ )

ایک اعرابی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی ردا کو اتنی شدت کے ساتھ کھینچا کہ اس کا ایک کونا آپ(ص) کی گردن پر لگا، اور کہنے لگا: اے محمد(ص)! مجھے مالِ خدا میں سے دئیے جانے کا حکم دیں، آپ(ص) نے اس کی طرف دیکھا تبسم کیااور اسے عطا کرنے کا حکم دیا۔ آپ(ص) نے زندگی بھر عفو و سخاوت سے کام لیا ہے...یہاں تک کہ اپنے چچا جناب حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا تھا...اس یہودی عورت کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے آپ(ص) کی خدمت میں بکری کا زہر آلود گوشت پیش کیا تھا، ابو سفیان کو معاف کر دیا تھا اور جو اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھااس کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اور قریش کے ان لوگوں سے در گذر کیا تھا جو اپنے رب کے حکم سے رو گرداں تھے اور اس سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹکرائے تھے...جس وقت آپ(ص) عزت و اقتدار کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے اس وقت فرمایا تھا:

'' اللهم اهد قومی فانهم لا یعلمون...اذهبوا فانتم الطلقاء'' ( ۳ )

اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ یہ لوگ کچھ نہیں جانتے...جائو تم سب آزاد ہو۔

''ولو کنت فظّا غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لهم '' ( ۴ )

اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے بھاگ جاتے لہذا انہیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو۔

____________________

۱۔ ایضا ج۳ ص ۳۰۷۔ ۲۔صحیح بخاری ج۵ ص ۲۲۶۰ حدیث ۵۷۳۸۔

۳۔محمد فی القرآن ص ۶۰ تا ۶۵ ۔ ۴۔آل عمران: ۱۵۹۔

۴۶

خدا نے آپ کی رحم دلی اور شفقت و رافت کو اس طرح بیان کیا ہے :

( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم ) ( ۱ )

یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول(ص) آیا ہے جس پر تمہاری مصیبت شاق ہوتی ہے اور تمہاری ہدایت میں رغبت رکھتا ہے اور مومنوں پر شفیق و رحیم ہے ۔

۷۔حیا و انکساری

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول(ص) کو پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا تھی آپ(ص) اگرکسی چیز سے نفرت کرتے تھے تو اس کا اندازہ آپ(ص) کے چہرہ سے ہو جاتا تھا۔( ۲ )

حضرت علی سے روایت ہے : جب رسول(ص) سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تھااور آپ اسے پورا کرنے کا ارادہ کرتے تھے تو فرماتے تھے: ہاں اور اگر اسے انجام دینے کا قصد نہیں رکھتے تھے تو خاموش رہتے تھے، لیکن آپ(ص) کسی چیز کے بارے میںنہیں! نہیں کہتے تھے۔( ۳ ) یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

''اٰکلُ کما یاکل العبد و اَجلسُ کما یجلس العبد فانما انا عبد'' ( ۴ )

میں غلام کی طرح کھاتا ہوں اور غلام کی طرح بیٹھتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک بندہ ہی ہوں۔ آپ(ص) کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ(ص) بچوں کو بھی سلام کرتے تھے۔( ۵ ) نبی (ص) ایک شخص سے ہمکلام ہوئے تووہ شخص آپ کے رعب سے تھرتھر کانپنے لگا۔ آپ(ص) نے فرمایا:

____________________

۱۔توبہ: ۱۲۸ ۔

۲۔ صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۰۶ حدیث ۳۳۶۹۔

۳۔مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۳ ۔

۴۔ الطبقات ( لابن سعد) ج۱ ص ۳۷، مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۹۔

۵۔حیات النبی و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۳، اس میں ابن سعد کے حوالے سے منقول ہے ۔

۴۷

''هوّن علیک فانی لست بملک انما انا ابن امرأة تاکل القدید'' ( ۱ )

گھبرائو نہیں! میں بادشاہ نہیںہوں میں تو اس خاتون کا بیٹا ہوںجو رو کھی سوکھی روٹی کھاتی تھی ۔

ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول(ص)عصا ٹیکتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا:

''لا تقوموا کما تقوم الاعاجم یعظم بعضهم بعضاً'' ( ۲ )

ایسے مت کھڑے ہو اکرو جیسے عجم والے ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

اپنے اصحاب سے آپ(ص) مذاق کرتے تھے لیکن حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتے تھے( ۳ ) ، مسجد بنانے( ۴ ) اور خندق کھدوانے( ۵ ) میں آپ(ص) بھی اپنے اصحاب کے ساتھ کام کرتے تھے باوجودیکہ آپ عقلمند ترین انسان تھے پھر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے۔( ۶ )

آپ فرمایا کرتے تھے:'' اللهم احیینی مسکیناً وتوفّنی مسکیناً و احشر نی فی زمرة المساکین و ان اشقیٰ الاشقیاء من اجتمع علیه فقر الدنیا و عذاب الاخرة'' ( ۷ )

اے اللہ! مجھے مسکین کی زندگی اور مسکین کی موت دینا اور مسکینوںکے ساتھ محشور کرنا اور بلا شبہ بد قسمت ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے فقر اور آخرت کے عذاب کا ایک ساتھ شکار ہو۔

یہ تھیں آپ(ص) کی شخصیت کی بعض خوبیاں اور صفتیں، آپ کے فرد ی و اجتماعی سلوک کی چند جھلکیاں، آپ(ص) کی انتظامی ، سیاسی، عسکری، اقتصادی اوراسیروں، قیدیوں سے متعلق بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جن کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں آپ(ص) کی تاسی کی جائے ،ان سے درس لیا جائے ۔ہم انہیں آنے والی فصلوں میں بیان کریں گے۔

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ج۲ ص ۱۱۰۱ حدیث ۳۳۱۲۔ ۲۔سنن ابی دائود ج۴ ص۳۵۸ حدیث ۵۲۳۰۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۳۰۴، حدیث ۱۹۹۰۔ ۴۔مسند احمد ج۳ ص ۸۰۔

۵۔طبقات ، ابن سعد ج۱ ص ۲۴۰۔ ۶۔الدر المنثور ج۲ ص ۳۵۹، مواہب اللدنیہ ج۲ ص ۳۳۱۔

۷۔سنن ترمذی ج۴ ص ۴۹۹ حدیث ۲۳۵۲۔

۴۸

دوسرا باب

پہلی فصل

ولادت و پرورش کا عہد

دوسری فصل

شباب و جوانی کا دور

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۴۹

پہلی فصل

ولادت و پرورش

۱۔ بت پرست معاشرہ کی جھلکیاں

بعثت نبوی سے قبل جزیرة العرب کے معاشرہ میں ظلم و فساد کا دور دورہ تھا۔ وہاں کے لوگوں کا کوئی متحدہ محاذ و بلاک نہیں تھا اور ان کی اجتماعی و ثقافتی خصوصیتیں، جو کہ صحرائی ماحول کی پیداوار تھیں، ان کی زوال پذیر حالت کو روکنے کے لئے کافی نہیں تھیں ، تباہی کے آثار جزیرة العرب کے معاشرہ میں نمایاں ہو چکے تھے اور ان کے درمیان جو معاہدے ہوتے تھے اس کی ایک اجتماعی خصوصیت تھی لیکن اس کے تعدد سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کے معاشرہ میں مرکزیت ختم ہو چکی تھی۔

نہ ہی اس معاشرہ میں ہمیں کوئی ایسی اصلاحی و انقلابی تحریک نظر آتی ہے جس کو تاریخ نے بیان کیا ہو جواس معاشرہ میں ابھری ہو اوراس نے انہیں بہتر و خوش حال زندگی کی طرف دعوت دی ہو ہاں پراگندہ حالت میںبعض لوگوں کی تحریک ضرور تھی جسے اجتماعی ظلم و تعدی کا رد عمل ہی کہا جا سکتا ہے اس کے بانی جزیرة العرب کے بہت کم لوگ تھے اور یہ تحریک نہ تو ایک نظر یہ کے حد تک پہنچ سکی اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی انقلاب برپاکر سکی( ۱ ) معاشرۂ قریش میں خلفشاراور اختلاف کو ہم خانۂ کعبہ کی تعمیر نو کے سلسلہ میں دیکھ چکے ہیں حالانکہ اس وقت قریش عرب کے قبائل میں سب سے زیادہ معزز اور متحد تھے۔ اس معاشرہ کی تباہی اور

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۲۲۵۔

۵۰

شکست و ریخت کو ہم جزیرہ نما ئے عرب میں مقیم یہودیوں کی دھمکیوں سے بھی ثابت کر سکتے ہیں یہاں کے

یہودجزیرہ نما عرب کے لوگوں سے کہا کرتے تھے بشریت کو نجات دلانے والا آسمانی شریعت کے ساتھ عنقریب ظہور کرے گا، نیز کہتے تھے: ایک نبی(ص) ظہور کرے گا جو تمہارے بتوں کو توڑ دے گا۔( ۱ )

۲۔رسول(ص) کے آباء واجداد کا ایمان

رسول(ص) نے ایسے موحد گھرانے میں ولادت و پرورش پائی جو کہ بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار کا حامل تھا۔ آپ(ص) کے جد عبد المطلب کے ایمان کا علم توہمیں ان کی اس دعا سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے اس وقت کی تھی جب حبشی ابرہہ نے خانۂ کعبہ مسمار کرنے کے لئے چڑھائی کی تھی۔ اس وقت کعبہ کی حفاظت کے لئے عبدالمطلب نے کسی بت سے التجا نہیں کی تھی بلکہ خدائے واحد پر توکل کیا تھا۔( ۲ )

بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ عبد المطلب پیشین گوئیوں کے ذریعہ نبی(ص) کی عظمت اور ان کے مستقبل سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے رسول(ص) کا واسطہ دے کر اس وقت بارش کی دعا کی تھی جب رسول(ص) کی عمر بہت کم تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رزق و نعمت دینے والے خدا کے نزدیک ان(محمد(ص)) کی بڑی منزلت ہے ۔( ۳ ) عبد المطلب کے مومن ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے بچپنے میں ام ایمن سے فرمایا کہ خبردار ان (محمد(ص))سے غافل نہ ہونا۔( ۴ )

یہی حال آپ کے چچا جناب ابو طالب کا ہے تبلیغ رسالت کے پیش نظر وہ بھی تا حیات، رسول(ص) کی حفاظت و پشت پناہی کرتے رہے اس سلسلہ میں انہوں نے قریش کے بائیکاٹ اورشعب ابو طالب می گھیرائو اور ان کی دوسری اذیتوں کو برداشت کیا۔ اس حقیقت کو ہم ابو طالب کے بارے میں نقل ہونے والی روایتوں میں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۱۵، ص ۲۳۱، السیرة النبویة ج۱ ص ۲۱۱، البقرة : ۸۹۔

۲۔سیرة النبویة ج۱ ص ۴۳۔۶۲، تاریخ کامل ج۱ ص ۲۶۰، بحار الانوار ج۵ ص ۱۳۰۔

۳۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲، الملل و النحل شہرستانی ج۲ ص ۲۴۸۔

۴۔سیرة زینی دحلان جو کہ سیرة حلبیہ کے حاشیہ برچھپی ہے : ج۱ ص ۶۴، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۵۱

دیکھتے ہیں کہ وہ رسول(ص) کی حفاظت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔( ۱ )

ہاں بعض (ضعیف) روایتوں میں رسول(ص) کے والدین کی طرف شرک اور بت پرستی کی نسبت دی گئی ہے ،لیکن ان کے ایمان کی دلیل رسول(ص) کا یہ قول ہے:

''لم ازل انقل من اصلاب الطاهرین الیٰ ارحام الطاهرات'' ۔

میں پاک و پاکیزہ صلبوں سے پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا۔

اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ(ص) کے آباء و اجداد اور مائیں ہر شرک و رجس سے پاک تھیں۔

۳۔ ولادتِ رسول(ص)

عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرة العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔

اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیت نبوت کے سید و سردار علی ابن ابی طالب نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبی(ص) کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

___________________

۱۔ السیرة النبویہ ج۱ ص ۹۷۹، تاریخ ابن عساکر ج۱ ص ۶۹، مجمع البیان ج۷ ص ۳۷، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۳، طبقات الکبریٰ ج۱، ص ۱۶۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص۱۸۹، اصول کافی ج۱ ص ۴۴۸، الغدیر ج۷ ص ۳۴۵۔

۵۲

ارسله علیٰ حین فترة من الرسل و طول هجعة من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفة النور، ظاهرة الغرور علیٰ حین اصفرار من و رقها و ایاس من ثمرها و اغورار من مائها، قد د رست منائر الهدیٰ و ظهرت اعلام الردیٰ فهی متجهمة لاهلها، عابسة فی وجه طالبها ثمرها الفتنة و طعامها الجیفة و شعارها الخوف و دثارها السیف ( ۱ )

اللہ نے اپنے رسول(ص) کو اس وقت بھیجا جب رسولوںکی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاںکھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔

بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز ۱ عام الفیل مطابق ۵۷۰ئکو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔

آپ کے روزِ ولادت کو اہل بیت نے بیان کیا ہے واضح ہے کہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں آنحضرت(ص) نے ۱۷ ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی، مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپ(ص) کی ولادت۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۹۔

۲۔ ملاحظہ ہو امتاع الاسماع۔

۵۳

تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں وہ عجیب و غریب حوادث بیان ہوئے ہیں جو آپ کی ولادت کے دن رونما ہوئے تھے مثلا: فارس کے آتشکدہ کی آگ بجھ گئی، شدید زلزلہ آیا کہ جس سے عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا و کلیسا منہدم ہو گئے ہر وہ چیز اپنی جگہ سے اکھڑ گئی جس کی پرستش کی جاتی تھی اور خانہ کعبہ میں نصب ہوئے بت منہ کے بل گر پڑے کا ہنوںاور ساحروں کے اعداد و شمار اور حساب و کتاب بے کار ہوگئے، کچھ ایسے ستارے طلوع ہوئے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے جب آپ(ص) پیدا ہوئے تو آپ کی زبان پر''اللّٰه اکبر، و الحمد للّٰه کثیرا، و سبحان اللّٰه بکرة و اصیلا'' تھا۔( ۱ )

نبی(ص) نے اپنے دو ناموں ، محمد(ص) واحمد، سے شہرت پائی، قرآن مجید نے دونوں کا ذکر کیا ہے مورخین نے لکھا ہے کہ آپ(ص) کے جد عبد المطلب نے آپ کا نام محمد(ص) رکھا تھا اور جب ان سے محمد کی وجہ تسمیہ معلوم کی گئی تو انہوں نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آسمان اور زمین پران کی تعریف کی جائے( ۲ ) آپ کے جد سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔

اسی نام کی بشارت حضرت عیسیٰ کی زبانی انجیل میں دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اسکو بیان کیا ہے اور علمائے اہل کتاب نے اس کی تصدیق کی ہے ، خداوند عالم نے اسے اس طرح نقل کیا ہے :

''مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمه احمد '' ۔( ۳ )

اور میں تمہیں اپنے بعد ایک رسول(ص) کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔

اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ ایک شخص دو نام، دو القاب اور دو کنیتوں سے پہچانا جائے جزیرة العرب و غیرہ میں ایسا ہوتاآیاہے ۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۹۲۔

۲۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۲۸۔

۳۔ صف: ۶، ملاحظہ ہو سیرة حلبیہ ج۱ ص ۷۹۔

۵۴

۴۔ مبارک رضاعت

حضرت محمد(ص) کی ساری ذمہ داری ان کے جد عبد المطلب کے سپرد ہو گئی تھی کہ جو عین شباب کے عالم میں اپنے چہیتے بیٹے جناب عبد اللہ سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے آپ کے جد عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری ابو لہب کی کنیز ثویبہ کے سپرد کر دی تاکہ آپ کو بنی سعد کے پاس بادیہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے صاف و شفاف ماحول میں نشو نماپائیں اور ان وبائوں سے دور رہکر-جو کہ اہل مکہ کے بچوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھیں۔ بادیہ نشین لوگوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائیں، جیسا کہ اہل مکہ کے شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچے دودھ پلانے کے لئے دودھ پلانے والیوں کو دیدیا کرتے تھے اور دودھ پلانے کے سلسلہ میں قبیلۂ بنی سعد کی عورتیں مشہور تھیں، وہ مکہ کے مضافات اور حرم کے نواح میں رہتی تھیں دودھ پینے والے بچے لینے کے لئے ان کی عورتیں سال میں ایک مرتبہ مکہ آتی تھیں جس سال نبی(ص) نے ولادت پائی تھی اس سال بہت سی عورتیں آئی تھیں کیونکہ یہ قحط کا سال تھااس لئے انہیں مکہ کے شرفاء سے مدد لینا تھی۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان دودھ پلانے والیوں میں سے کسی نے بھی محمد(ص) کو نہ لیا کیونکہ آپ(ص) یتیم تھے، قریب تھا کہ ان کاقافلہ واپس چلا جائے، حلیمہ بنت ابی ذویب سعدیہ کے علاوہ ہر عورت کو بچہ مل گیا تھا، دوسری دودھ پلانے والیوں کی مانند پہلے حلیمہ نے بھی آپ(ص) کو لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب انہیں کو ئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! میں اس یتیم کے گھر جائونگی اور اسی کو لائونگی، ان کے شوہر نے رضامندی کا اظہار کیا تو وہ عبدالمطلب کے گھر واپس آئیں اور محمد(ص) کو گود میں لیا ، گود لیتے ہی ان کا پورا وجود اس امید سے معمور ہو گیا کہ اس بچہ کے ذریعہ انہیں بہت سی خیر و برکت ملے گی۔( ۱ )

مورخین کا یہ خیال ہاشمی گھرانے کی عظمت اور رسول(ص) کے جد، کہ جو اپنے جود و کرم اور مفلس و محتاجوں کی مدد کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ۔

مزید بر آں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرت(ص) کے پدر بزرگوار کا انتقال آپ(ص) کی ولادت کے کئی مہینے

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۶۔

۵۵

کے بعد ہوا تھا( ۱ ) مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپ(ص) نے حلیمہ کے پستان کے علاوہ کسی کے پستان کو منہ نہیں لگایا تھا۔( ۲ ) حلیمہ کہتی ہیں: عبد المطلب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی عورت ہوں انہوں نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا : حلیمہ اس پر عبد المطلب مسکرائے اور فرمایا: مبارک ہو مبارک سعد وحلم ایسی دو خصلتیں ہیں کہ جن میں زمانہ کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ۔( ۳ )

عبد المطلب کے یتیم کو لینے کے سلسلہ میں حلیمہ کو جو خیر و برکت کی امید ہوئی تھی اس میں انہیں خسارہ نہیں ہوا مروی ہے کہ حلیمہ کے پستان میں دودھ نہیں تھا لیکن جب محمد(ص) نے منھ لگایا تو ان کے پستان میں دودھ بھر گیا ۔

حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اپنے مال و متاع میں اسی وقت سے خیر و برکت محسوس کی ہے جب سے رسول(ص) کو پرورش کے لئے لیا یہاں تک کہ قحط و غربت کے بعد ہم مالدار ہو گئے۔( ۴ )

عبد المطلب کا پوتا حلیمہ اور ان کے شوہر کی گود میں چلا گیا اور تقریبا ۵ سال تک وہیں رہا دو سال کے بعد حلیمہ انہیں لے کر واپس آئیں لیکن اب تو حلیمہ آپ کے وجود میں خیر و برکت محسوس کر چکی ہیں اور آپ کو دو بارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف آپ(ص) کی والدہ امراض اور وباء سے بچانے کی خاطر آپ(ص) کومکہ سے دور رکھنا چاہتی ہیں لہذا حلیمہ خوشی خوشی رسول(ص) کو اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گئیں۔

روایت ہے کہ حلیمہ دوبارہ آپ کو اس وقت مکہ واپس لائیں جب انہیں آپ(ص) کی جان خطرہ میں نظر آئی کیونکہ حلیمہ نے نصاریٰ کی اس جماعت کو دیکھا تھا جو حبشہ سے حجاز آئی تھی اس نے محمد(ص) میں نبی موعود کی علامتیں دیکھیں تو اصرار کیا کہ ہم انہیں اپنے ساتھ حبشہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرورش کا شرف حاصل کریں۔( ۵ )

____________________

۱۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم (ص) ج۱ ص ۸۱، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۸۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۲۔ ۳۔سیرة حلیبہ ج۱ ص ۱۴۷۔

۴۔بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۵، المناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۲۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۹۔

۵۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۷، بحار الانوار ج۱۵ ص ۱۰۵، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۵۵۔

۵۶

۵۔ نبی (ص) کے واسطہ سے بارش

مورخین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول(ص) کے واسطہ سے آپ کی حیات میں متعدد بار بارش ہو ئی ہے ۔آپ کی شیر خوارگی کے زمانہ میں آپ کے جد اور آپ کے چچا ابو طالب کی زندگی میں ، پہلی بار اس وقت آپ کے واسطہ سے بارش ہو ئی تھی جس وقت اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے، دو سال سے بارش نہیں ہوئی تھی، جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیا کہ ان کے پوتے حضرت محمد(ص) کو لائیں حالانکہ وہ اس وقت شیر خوار تھے چنانچہ ابوطالب انہیں لائے، اور دادا کی گود میں دیدیا، عبد المطلب انہیں لئے ہوئے خانۂ کعبہ گئے اور انہیں آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کی: بار الٰہا! اس بچہ کے حق کا واسطہ، اسی جملہ کو باربار کہتے اور دعا کرتے رہے کہ ہمیں موسلادھار بارش کے ذریعہ سیراب کر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر گھٹا چھا گئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ لوگوں کو مسجدالحرام کے منہدم ہونے کا خوف لاحق ہو گیا۔( ۱ )

دوبارہ آپ کے وسیلہ سے اس وقت بارش ہوئی جب آپ(ص) کا بچپناتھا جناب عبد المطلب آپ(ص) کو لیکر کوہ ابو قبیس پرگئے قریش کے دوسرے نمایاں افراد بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ نبی(ص) کی برکت سے دعا مستجاب ہو جائے۔ اس واقعہ کی طرف جناب ابو طالب نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

ابو نا شفیع الناس حین سقوابه

من الغیث رجاس العشیر بکور

و نحن-سنین المحل-قام شفیعنا

بمکة یدعو و المیاه تغور( ۲ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ابو طالب سے التماس کی کہ ہمارے لئے بارش کی دعا کریں تو ابو طالب ، نبی(ص) کو مسجد الحرام کے پاس لائے، اس وقت آپ کا چہرہ سورج کی طرح دمک رہا تھا، ابو طالب نے نبی(ص) کے واسطہ سے بارش کے لئے دعا کی تو آسمان پر بادل چھا گئے اورموسلا دھار بارش ہوئی اس صورت حال کودیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔ اس کرامت کا ذکر ابو طالب نے اس وقت کیا تھا جب قریش

____________________

۱۔الملل و النحل ج۲ ص ۲۴۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲ و ۱۸۳۔ ۲۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۳۳۱۔

۵۷

نے نبی(ص) اور ان کی رسالت سے دشمنی کی حد کر دی تھی، کہتے ہیں:

و ابیض یستسقیٰ الغمام بوجهه

ربیع الیتامی عصمة للارامل

تلوذ به الهلاک من آل هاشم

فهم عنده فی نعمة و فواضل( ۱ )

سفید رنگ سردار جس کے چہرہ سے بادل برسایا جاتاہے، جو یتیموں کا فریاد رس اور بیوائوں کا محافظ ہے یہ وہ ذات ہے جس کے سایہ میں آل ہاشم کے مجبور لوگ پناہ لیتے ہیں اور اس کے تصدق میں نعمت پاتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا کے دونوں کفیل خالص مومن تھے اور دونوں خدا پر ایمان رکھتے تھے ان کی عزت و افتخار ، توحید اور اللہ پر ایمان کے لئے اتنا کافی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اس گھر میں پرورش پائی تھی جوعقیدۂ توحید سے معمور تھا۔

۶۔ اپنی والدہ آمنہ کے ساتھ

آپ(ص) کے والد کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا والدہ کی محبت و شفقت سے بھی آپ(ص) تا دیربہرہ یاب نہ رہ سکے، والدہ کو یہ امید تھی کہ عبد اللہ کا یتیم ان کی حیات میں جوان ہوگا اور شوہر کی جدائی کے بعد بیٹا سہارا بنے گا۔ مگر موت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی، حلیمہ سعدیہ سے روایت ہے کہ وہ نبی(ص) کو ان کے گھر لے کر آئیں اس وقت نبی(ص) کی عمر پانچ سال ہو چکی تھی، آپ کی والدہ آمنہ یہ چاہتی تھیں کہ محمد(ص) کو ساتھ لیکر اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کو جائیں اور اس سفرمیں محمد(ص) یثرب میں بنی نجار میں سے اپنے ماموں کو بھی دیکھ لیں لیکن اس سفر میں رسول(ص) کو ایک اور غم ہوا، آپ اپنے پدر بزرگوار کی قبر کی زیارت کرکے واپس آ رہے تھے کہ مقام ''ابوائ'' میں آپ(ص) کی والدہ کا انتقال ہو گیا گویا عہد طفلی میں آنحضرت (ص) کے قلب میں دو غموں کا اجماع ہو گیا آپ کی شخصیت کی تکمیل کے لئے یہ خدائی منصوبہ تھا۔

جناب ام ایمن نے ان کے قافلہ کو مکہ پہنچایا، یہ نبی(ص) کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ آپ(ص) کو آپ(ص) کے

____________________

۱۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۹۰، البدایہ و النہایة ج۳ ص ۵۲، بحار الانوار ج۸ ص ۲۔

۵۸

جد عبد المطلب کے سپرد کیا عبد المطلب اپنے پوتے سے بہت محبت کرتے تھے۔( ۱ )

۷۔ اپنے جد عبد المطلب کے ساتھ

محمد(ص) نے عبد المطلب کے دل میں جو مقام و مرتبہ حاصل کر لیا تھا وہ ان کے بیٹوں اور پوتوں میں سے کسی کو حاصل نہیں تھا حالانکہ وہ بطحاء و مکہ کے سردار تھے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبد المطلب خانہ ٔ کعبہ کے چبوترے پر چادر بچھائے ہوئے بیٹھے تھے ،یہ چادرمخصوص آپ کے لئے بچھائی جاتی تھی اس وقت آپ کے چاروں طرف قریش کے سر بر آوردہ سردار اور ان کے بیٹے بیٹھے تھے، عبد المطلب کی نظر اپنے پوتے، محمد(ص) پر پڑی، آپ نے حکم دیا کہ محمد(ص) کے لئے راستہ چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے انہیں اس خاص چادرپر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔( ۲ ) قریش کے سردار کی یہ خاص عنایت اس لئے تھی تاکہ قریش کے دلوں میں ان کی بلندی راسخ ہو جائے اوروہ آپ کے خلق عظیم سے متاثر تھے ہی ۔

قرآن مجید نے آپ کے اس دورِ یتیمی کا ذکر کیا ہے جس سے آپ(ص) اپنے پروردگار کی نگہبانی کے ساتھ گذرے ہیں ارشاد ہے :''الم یجدک یتیماً فآویٰ '' کیاہم نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو پناہ نہیں دی، یتیمی کا دور انسان کی شخصیت اور اس کی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس سے انسان کے اندر خود اعتمادی، پختگی، مشکلات و مصائب پر صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے خدا وند عالم نے اپنے نبی (ص) کو اس طرح تیار کیا کہ آپ(ص) مستقبل میں پیش آنے والی مشکلوں کو برداشت کرنے اور اس رسالت کبریٰ کا بار اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں جس سے آپ(ص) کا کمال نکھرے گا اور آپ(ص) کی شخصیت میں پختگی آئے گی۔ اس حقیقت کی طرف رسول(ص) نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے:

''ادبنی ربی فاحسن تا دیبی'' ( ۳ )

میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایاپس میں نے بہترین تربیت پائی۔

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۰۵۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۸۔

۳۔ مجمع البیان ج۵ ص ۳۳۳ ملاحظہ ہو تفسیر سورة قلم۔

۵۹

ابھی نبی(ص) آٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ(ص) اپنے جد بزرگوار عبد المطلب، کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے عبد المطلب کی موت سے آپ کو جو صدمہ ہوا تھا وہ آپ کی مادر گرامی کی موت سے کم نہیں تھا آپ(ص) پر شدید رقت طاری تھی ، جنازہ کے پیچھے پیچھے قبر تک روتے ہوئے گئے تا حیات عبد المطلب کو یاد کرتے رہے کہ وہ آپ(ص) کے بہترین نگہبان تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ نبی ہیں روایت ہے کہ ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ عبد المطلب آپ سے نظر پھیر لیں ۔ آپ نے اس سے فرمایا: میرے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ کہو اس کے پاس تو فرشتہ آتا ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192