دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد ۱

دعا عند اهل بيت( جلد اول)0%

دعا عند اهل بيت( جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 192

دعا عند اهل بيت( جلد اول)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 192
مشاہدے: 43163
ڈاؤنلوڈ: 2525


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 192 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43163 / ڈاؤنلوڈ: 2525
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد اول)

دعا عند اهل بيت( جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

( اِنّ الصَّفَاوَالمَْروَْةَ مِن شَعَائِرَاللهِ فَمَن حَجَّ البَْيتَْ اوِاعتَْمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَيهِْ اَن یَطَّوَّفَ بِهِمَاوَمَن تَطَوَّعَ خَيرْاً فَاِنَّ اللهَ شَاکِرٌ عَلِيمٌْ ) ( ١)

“بيشک صفا و مروہ دو نوں پہا ڑیاں الله کی نشانيوں ميں ہيں لہٰذا جو شخص بهی حج یا عمرہ کرے اس کےلئے کو ئی حرج نہيں ہے کہ ان دونوں پہا ڑیوں کا چکر لگا ئے اور جو مزید خير کرے گا خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس سے خوب واقف ہے ”

اے مادر گرامی! الله نے اپنی یا د ميں اس وقت آپ کے انہماک کو دامن تاریخ ميں ثبت کر دیا پانی کی تلاش ميں آپ کی سعی اور آپ کے بچہ اسما عيل کی چيخ وپکار کے تذکر ہ کو تاریخ ميں لکه دیا تا کہ آپ کے بعد آنے والی نسلو ں کو یہ معلو م ہو جائے کہ الله کی رحمت کيسے نازل ہو تی ہے اور الله کی رحمت کےلئے کيسے خشوع وخضو ع کياجاتا ہے ؟

الله کی رحمت وسيع ہے اس ميں نہ کسی طرح کا بخل ہے نہ نقص اور نہ ہی وہ عا جز ہے ليکن لوگ اس کی رحمت کے نازل ہو نے کے مقامات کو نہيں جا نتے نہ ہی اس سے اچهی طرح پيش آتے ہيں اور نہ ہی اس سے استفا دہ کرتے ہيں ۔

آپ نے ہم کو یہ تعليم دی کہ الله کی رحمت کو کيسے نازل کرائيں اور الله کی رحمت کے ساته کيسے پيش آئيں اور اے بی بی ہم نے آپ سے رحمت کی کنجياں حاصل کی ہيں ۔

اگر ہم نے آپ کی ان کنجيوں کی حفاظت نہ کی جن کو آپ نے اپنے فرزندارجمند جناب اسمٰعيل کے سپرد کيا ،اسمٰعيل کے بعد یہ کنجيا ں اسمٰعيل کی اولاد کو وراثت ميں مليں اور ہم کو آپ کے بيڻے حضرت محمد مصطفے صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ميراث ميںمليں تو ہم آپ سے معذرت خواہ ہيں کہ ہم نے انبيا ء عليہم السلام کی ميراث اور ان کی وراثت کو ضا ئع وبرباد کردیاہے ۔ ہم نے اپنے جد ابراہيم سے الله کی وحدانيت کا اقرار کر نے کی تعليم حاصل کی اور ہم نے

۸۱

اپنی ماں جناب ہاجرہ سے الله سے سوال کرنے کا طریقہ سيکهاہے ۔ اگر ہم خواہشات نفسانی اور طاغوت وسر کشی ميں پهنس گئے تو ہم نے اِس کو بهی ضا ئع کيا اور اُس کو بهی ضائع وبربادکردیاہے۔ اے الله ہم نے اپنے جد ابراہيم اور اپنی جدہ جناب ہاجرہ کی جس ميراث کو ضائع وبرباد کر دیا اس پر تجه سے مدد چا ہتے ہيں ۔ہم کو ان کے خا ندان ميں قراردے لہٰذااے پروردگار اس ميراث کی بازیابی کے سلسلہ ميں ہماری مدد فر ما ،جو ہم نے ضا ئع کردی ہے اور ہم کو ان کے پيرووںميں قرار دے اور پروردگارا ہم کو اس گهر سے اولاد ابراہيم اور اولاد عمران سے مت نکالنا ۔

( اِنَّ اللهَ اصطَْ فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْاهِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَلَی العَْالَمِينَْ ذُرِّیَةً بَعضُْهَامِن ( بَعضٍْ وَاللهُ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ ) (١ “الله نے آدم نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے ”

( رَبَّنَاوَاجعَْلنَْامُسلِْمَينِْ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَااُمَّةً مُسلِْمَةً وَاَرِنَامَنَاسَکِنَاوَتُب عَلَينَْااِنَّکَ اَنتَْ ( التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ) ( ٢)

“پرور دگار ہم دونوںکو اپنا مسلمان اور فر ماں بر دار قرار دیدے اور ہما ری اولا د ميں بهی ایک فر مانبر دار پيدا کر ۔ہميں ہما رے منا سک دکهلا دے اور ہما ری تو بہ قبول فر ما کہ تو بہترین تو بہ قبول کرنے والا مہربان ہے ” جناب اسما عيل کی مادر گرامی نے اس دن اور اس وادی ميں تمام اسباب خيراخذ کئے

____________________

١۔سورئہ آل عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔

٢۔سورئہ بقر ہ آیت ١٢٨ ۔

۸۲

جن کو سعی ،دعا اور حاجت کہاجاتاہے ۔

بيشک ہماری اس مادر گرامی نے پانی کی تلاش ميں سعی کی کبهی آپ صفا پہا ڑی پر پانی کی تلاش ميں جاتيں اور مروہ پہاڑی پرپانی کی تلاش ميں جا تيںخداوند عالم اپنے بندوںکی سعی اور عمل کو دوست رکهتا ہے اور اس نے انهيں رزق کی اہم شرطيں قراردیا ہے۔

ليکن شرط یہ ہے کہ اس طرح سعی کرے کہ خدا کی یاد ميں منہک ہو جائے اور اسی حالت ميں خدا سے لولگائے ،دعا کر ے ، تاریخ انسانيت ميں ایسی مثاليں بہت ہی کم نظرآتی ہيں ۔

سعی و کو شش خدا وند عالم کی راہ ميں رکا وٹ نہيں بنتی اور انسان کو اس سے الگ نہيں کر دیتی اور صرف خداوند عالم سے وابستگی بهی انسان کی سعی و کو شش کی راہ ميں حا ئل نہيں ہو تی جناب ہاجرہ کی پانی کےلئے کو شش ایک عورت کی قوت امکان کی آخری منزل تهی ۔

آج یہ ہمارے حج کے مناسک ميں سے ہے اور ہم ان دو نوںپہا ڑوں کے در ميان بغير کسی زحمت ،تکليف غم اور رنج کے سات چکر لگا تے ہيں سعی کر تے ہيں جس کی بنا پر ہم تهک جا تے ہيں مشقت ميں مبتلا ہو جا تے ہيں ۔

اس بزرگ بی بی نے اس سعی کی اس بے آب و گياہ وا دی ميںبنياد رکهی جب بچہ کی پيا س پور ے عروج پر تهی اور پياساشير خواراپنی آخری سا نسيں لے رہا تها ليکن اس کے با وجود پانی کی تلاش ميں اس سعی کو بڑی ہمت اور عزم وا ردہ کے ساته قائم کيا ۔

اس کے با وجوداس سعی کے دوران ایک منٹ بهی آپ خدا کی یا دسے غافل نہ ہو ئيں یہ پوری سعی یاد الٰہی کے ساته تهی نہ یہ یاد خدا ميں رکا وٹ تهی اور نہ سعی و کو شش ميں مانع! گو یا کوشش صرف خدا وند عالم سے وابستہ تهی اور خداوند عالم سے وابستگی سعی و کو شش کے ساته تهی ہم ميں سے اس پر کون قدرت رکه سکتا ہے ؟

۸۳

ملا ئکہ اس روز اس منظر کو دیکهتے رہے اور تعجب کر تے ر ہے کہ آ پ نے الله سے کيسے لو لگائی؟ اور آپ نے پانی کی تلاش ميں اس طرح کيسے سعی کی ہے؟ اور آپ نے سعی اور الله سے اس طرح لو لگانے کو ایک ساته کيسے جمع کردیا ؟الله کی بار گاہ ميں کيسے تضرع کيا کہ وہ آپ کی دعا اور سعی مستجاب کر ے اور آپ کی سعی اور دعا سے الله رحمت نازل کرے اورالله کی رحمت اتنی قریب ہو جائے کہ آسمان کے طبق زمين پر اتر جائيں ۔

اس دن دعا اور عمل صالح زمين سے آسمان پر پہونچے اور رحمت کے ستون آسمان سے زمين پر نازل ہوئے اور ملا ئکہ نے اس بے مثال واحد منظر کا نظار ہ کياتو الله کی بار گاہ ميں تضرع کرنے لگے اور وہ چيز رونما ہوئی جو ان کے دل ودماغ ميںبهی نہيں آئی تهی کہ شير خوار بچہ کے قدموں کے نيچے سے صا ف وشفاف اورگوارا پانی کا چشمہ ابل پڑا۔

پا ک وپاکيزہ ہے خداوند عالم اور تمام تعریفيں اسی کے لئے ہيں اس نے ہاجرہ کی سعی اور دعا کو قبول فر مایا ليکن سعی کی بنا پر نہيں بلکہ اس شير خوار بچہ کے قدموں تلے جو اپنے ہاته پيروں کو اس دن کی پياس کی بنا پر پڻخ ر ہا تها تا کہ خداوند عالم ہاجرہ کو بتا سکے کہ خدا ہی نے ان کو یہ ڻهنڈا اور گوارا پانی اس تپتی دهوپ ميں عنایت فر مایا ہے خود ہاجرہ نے اپنی سعی کے ذریعہ اس کو پيدا نہيں کيا ہے اگر چہ ہا جرہ کےلئے سعی و کو شش کرنا ضروری تها تا کہ خداوند عالم ان کو زمزم عطا فر ما تا۔

الله نے (زمرم )کو شير خوار بچہ کے قدموں کے نيچے جاری کيا ۔اپنے بيت حرام کو اسی وادی ميں قائم کيا ،زمزم ميں برکت عطا کی اور ہميشہ آنے والی نسلوں کے تمام حاجيوں کےلئے اسے سيرابی کاذریعہ قراردیا ۔اس دعا اور سعی کا تاریخ ميں تذکرہ ثبت کردیا اس کو مناسک حج کی ایک نشانی قراردیا جس کو حجاج ہرسال انجام دیا کرتے ہيں جس کو مدت سے ان کی والد ہ محترم جناب ہاجرہ اور ان (انسانوں )کے پدر بزرگوار ابراہيم وا سما عيل نے ان کے لئے مہيا کيا ۔ اس وادی ميں اس دن الله کی رحمت نازل ہو نے کے تين اسباب ،حاجت ،سعی اور دعا جمع ہو ئے ۔حاجت یعنی ضعف اور فاقہ کا انتہا ئی درجہ ،سعی اپنے آخری و حوصلہ کے مطابق اور دعا انقطاع اوراضطرار کے اعتبار سے ہے ۔

ہم ہر سال حج ميں اس منظر کی یاد کو تاز ہ و زندہ کر تے ہيں جس کی حضرت اسما عيل کی والدہ نے ہم کو تعليم دی ہے کہ ہم الله کی رحمت کيسے طلب کر یں ،کيسے اس کے فضل ورحمت کو نازل کرائيں اور ہم اس کی معرفت کيسے حاصل کریں اور اس کی بارگاہ ميں کيسے پيش آئیں ۔

۸۴

دعا کے آداب اور اس کی شرطيں

ہمارے بعض علماء نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ:راوی کہتاہے کہ ميں نے آپ کی خدمت ميں عرض کيا ؟الله کی کتاب ميں دوایسی آیات ہيں جن کی ميں تاویل نہيں جا نتا ؟ آپ نے فرما یا وہ کو نسی دو آیات ہيں ؟ ميں نے عرض کيا :

( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (١) “مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا ” ميں دعا کرتا ہوں ليکن مستجاب نہيں ہوتی ۔آپ نے مجه سے فرمایا :تم نے الله پربہتان باندها ،کيا الله نے جو وعد ہ کيا ہے وہ اس کی مخالفت کرے گا ؟ ميں نے عرض کيا :نہيں

آپ نے فرما یا: پهر کيا مطلب ہے؟ ميں نے عرض کيا :ميں نہيں جانتاہوں۔

آپ نے فرمایادوسری آیت کو نسی ہے؟

(ميں نے عرض کياالله کایہ قول :( وَمَااَنفَْقتُْم مِن شَیءٍ فَهُوَیُخلِْفُهُ ) (٢)

____________________

١۔سورئہ مو من آیت ۶٠ ۔

٢۔سورئہ سبا آیت/ ٣٩ ۔

۸۵

“ميں انفاق کر تا ہوں ليکن اس کا کوئی نتيجہ نہيں دیکهتا ہوں ” آپ نے فرمایا :کيا ہونا چاہئے ؟

ميں نے عرض کيا :ميں نہيں جانتا ۔

آپ نے فرمایا :ليکن ميں تم کو باخبر کرونگا انشاء الله، آگاہ ہو جاؤجو کچه خداوند عالم نے تم کو حکم دیا ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے اور اس کے بعد اس سے دعا کروگے تو وہ تمہاری دعا مستجاب کر ے گا ليکن اگر تم اس کے حکم کی مخالفت کروگے اور اس کی معصيت (نافرمانی )کر وگے تو وہ تمہارا کوئی جواب نہيں دے گا ۔

ليکن رہی تمہاری یہ بات کہ تم انفاق کر تے ہو اور اس کا کو ئی نتيجہ تمہارے سامنے نہيں آتا توآگاہ ہو جاؤ کہ اگر تم نے مال اس کے حلال طریقہ سے کسب کيا پهر اس کو اسی کے حق ميں خرچ کردیا ہے تو کسی بند ے نے کوئی درہم خرچ نہيں کيا مگر یہ کہ الله نے اس کو اس کابدلہ عطا کيا اگر تم اس کو دعا کے ذریعہ پکارو گے تو وہ تمہاری دعا ضرور مستجاب کر ےگا اگر چہ تم نے گناہ ہی کيوں نہ کيا ہو ۔

ميں نے عرض کيا :جہت دعا سے کيا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا :جب تم نے فریضہ اداکيا تو تم نے الله کی تمجيد وتعریف وتعظيم کی اور جتنی تم ميں قدرت تهی تم نے اس کی مدح کی اور جتنا ممکن ہو نبی پر زیادہ صلوات بهيجتے رہو،ان کی تبليغ رسالت کی گواہی دو ،اپنے اوپر نا زل ہو نے والی مصيبتوں اور ملنے والی نعمتوں کی بنا پرنبی پر درود بهيجو ،اپنے پاس اس کی نعمتوں کا تذکرہ کيا ،اور جتنا تم سے ہو سکا تم نے اس پر الله کی حمد وثنا کی اور اس کا شکر ادا کيا ،پهر ایک ایک کر کے اپنے تمام گنا ہوں کا اعترف واقرار کيا ، یا ان ميں سے جو گناہ تمہار ے یا د آگئے اس کا اقرار کيا ،اور جو مخفی رہ گئے ان کا مجمل طور پر اقرار کيا ،پس تم نے تمام گناہوں کی الله سے توبہ کی اور یہ نيت کی کہ اسکے بعد پهر گناہ نہيں کرونگا ،اور ميں الله سے ندامت ،صدق نيت اور خوف ورجا ء سے استغفار کرتا ہوں ،اور اس طرح کہو :

۸۶

اللّهمّ انّي اعتذراليک مِن ذنوبي واستغفرک واتوب اليک فاعني علیٰ طاعتک ووفقنی لمااوجبت عليَّ من کلّ مایُرضيک،فاني لم اراحداًبلغ شيئاًمِن طاعتک الابنعمتک عليه قبل طاعتک،فانعم عليّ بنعمة انال بها رضوانک والجنّة ( ١)

“پروردگا ر ميں اپنے گناہوں کی تجه سے معذرت چاہتاہوں ،تجه سے استغفار کرتاہوں اور توبہ کرتاہوں ،اپنی طاعت پر ميری مدد کر ،جن چيزوں سے تو راضی ہوتا ہے اور وہ تونے مجه پر واجب کی ہيں مجهے ان کے ادا کرنے کی توفيق عطا کر ،ميں نے کسی شخص کو نہيں دیکها کہ اس کے اطاعت کر نے سے پہلے تيری نعمتيں اس کو عطا ہو گئيں پس مجه پر وہ نعمتيں نازل کر جن کے ذریعہ ميں تيری رضا اور جنت تک پہنچ جاؤں ،،

اس کے بعد سوال کروہم اميد کرتے ہيں تم نا مراد نہيں رہو گے انشاء الله ۔ آداب دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:

احفظ آداب الدعاء،وانظرمَن تدعو،وکيف تدعو،ولماذا تدعو،وحقق عظمةالله وکبریائه،وعاین فی قلبک علمه بمافي ضميرک واطّلاعه علیٰ سرّک،ومایکن فيه من الحق والباطل،واعرف طرق نجاتک وهلاکک کی لاتدعواللهبشي ء فيه هلاکک وانت تظن فيه نجاتک قال الله عزوجل: وَیَدعُْ الِان سْٰانُ بِالشَّرِّدُ عٰاء هُ بِالخَْيرِْ وَ اٰ کنَ الِان سْٰانُ عَجُولاً (٢)

وتفکّرماذاتسال،ولماذاتسال

والدعاء استجابةالکل منک للحق،وتذویب المهجةفي مشاهدةالربّ،وترک الاختيارجميعاً،وتسليم الامورکلهاظاهراًوباطناًالی الله

____________________

١۔بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣١٩ ،فلاح السائل صفحہ ٣٨ ۔ ٣٩ ،عدة الداعی صفحہ ١۶ ۔

٢۔سورئہ اسراء آیت ١١ ۔

۸۷

فان لم تات بشروط الدعاء فلاتنتظرالاجابة،فانّه یعلم السرّ واخفیٰ،فلعلک تدعوبشي ء قد علم من سرّک خلاف ذلک ( ١)

آداب دعا کی حفاظت کرو ،یہ دیکهو کہ کس سے مانگ رہے ہو ،کس طرح مانگ رہے ہو اور کيوں مانگ رہے ہو ، خداوند عالم کی عظمت و بزر گی پر نظر رکهوجو کچه تمہار ے دلوں ميں علم ہے اور جن رازوں سے تم واقف ہو اسکے ذریعہ اپنے دل کا معائنہ کر و اور یہ دیکهو کہ کس ميں ہلا کت ہے اور کس ميں نجات ہے تا کہ ہلاکت کا مطالبہ نہ کر بيڻهو ، اپنی نجات اور ہلاکت کے راستوںکو پہچانو کہ کہيں تم ایسی دعا نہ کر بيڻهو جس ميں تمہاری ہلاکت ہورہی ہو اور تم اس سے اپنی نجات کا گمان کر رہے ہو ۔

اورخداوند عالم فرماتا ہے :

( وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْ وَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً ) ( “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برا ئی کی دعا ما نگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہو ا ہے ” جو کچه مانگ رہے ہو اس کے متعلق اور کيوں مانگ رہے ہو اس کے سلسلہ ميں فکر کرو ۔

دعا یعنی تمہارا حق کو مکمل طور پر قبول کرنا، تمہارا اپنے پروردگار کے دیدار ميں اپنے کوپگهلا دینااپنے تمام اختيارات خداوند عالم کے حوالے کردینا اور اپنے تمام ظاہری اور باطنی امور اسی کے حوالے کردینا۔

اگر تم دعا کو اس کی تمام شرطوں کے ساته انجام نہيں دو گے تو اس کے مستجاب ہو نے کا بهی انتظار نہ کرنا بيشک خداوند عالم تمام رازوں اور پوشيدہ چيزوں سے آگا ہ ہے ،شاید تم ایسی چيز کے بارے ميں دعا کر بيڻهو جسکو وہ تمہار ی بهلائی کے خلاف جانتا ہو ”

____________________

١)بحار الا نوا ر جلد : ٩٠ صفحہ ٣٢٢ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت/ ١١ ۔ )

۸۸

یہ روایت دعا کے مستجاب ہو نے اور دعا کے آداب کی شرطوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ہم اس فصل ميںسب سے پہلے دعا کے مستجا ب ہو نے کی شرطوں کو بيان کریں گے اس کے بعد اگر شروط و آداب کی تقسيم ميں بعض مشکلات سامنے نہ آئيں تو آداب دعا کے متعلق بحث کر یں گے۔ ہم اس فصل ميں سب سے پہلے دعا قبول ہونے کی شرطوں کے سلسلہ ميں بحث کرنا چا ہتے ہيں پهر آداب دعا کے سلسلہ ميں گفتگو کریں گے اگرچہ شرطوں کو آداب دعا سے جدا کرناہمارے لئے مشکل ہے لہٰذاہم نے شرائط و آداب کو ایک ساته بيان کرنا بہتر سمجها ہے ۔

ہم ذیل ميں سرسر ی طور پر شریعت اسلاميہ کی روشنی ميں دعا کے آداب اور اس کی شرطوں کو بيان کر رہے ہيں ۔

١۔الله کی معرفت

دعا مستجاب ہو نے کی شرطوں ميں سے سب سے اہم شرط الله کی معرفت ہے اور اس کی مطلق قدرت وسلطنت پر ایمان رکهنا کہ اس کا بندہ جو کچه اس سے چاہتا ہے وہ ضرور حاصل ہو گا ۔

در منثور ميں معا ذ بن جبل نے رسول الله (ص) سے یہ راویت نقل کی ہے : (لوعرفتم الله حق معرفته،لزالت لدعائکم الجبا ل (١ “اگر تم الله کی معرفت ا س کے حق کے ساته حاصل کرو تو تمہار ی دعا ئيں پہاڑوں کو بهی ان کی جگہ سے ہڻادےںگی ”

تفسير عياشی ميں خداوند عالم کے اس فرمان:( فليستجيبوالی وليومنوا ( بي ) ( ٢)

“لہٰذا مجه سے طلب قبوليت کریں اور مجه ہی پر اعتماد رکهيں ”کے متعلق امام جعفر صادق سے

____________________

١)الميزان جلد ٢ صفحہ ۴٣ ۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ١٨۶ ۔ )

۸۹

روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(یعلمون انی اقدران اعطيهم مایسالونی ( ١)

“وہ (بند ے )جانتے ہيں کہ جو کچه وہ مجه سے سوال کریں گے ميں ان کووہ عطا کر دونگا”

طبر سی نے مجمع البيان ميں مندرجہ بالا آیت کی تفسير ميں امام جعفر (صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ : وليومنوابی( ٢)

“ اور مجه ہی پر اعتماد رکهيں ”

یعنی یہ بات با لکل متحقق ہے کہ جو کچه وہ سوال کریں گے ميں وہ ان کو عطا کر نے پر قادر ہوں:

(( لَعَلَّهُم یُرشِْدُونَْ ) ( ٣)

“شاید اس طرح راہ راست پر آجا ئيں ” امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فر ما ئی:

(( اَمَّن یُجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاهُ ) (۴)

“بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے ”فسئل مالناندعو،ولایستجاب لنا؟فقال لانّکم تدعون مالاتعرفون و تسالون مالاتفهمون (۵)

____________________

١)الميزان جلد ٢صفحہ ۴٣ ۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ١٨۶ ۔ )

٣)سورئہ بقرہ آیت ١٨۶ ۔ )

۴) سورہ نمل آیت/ ۶٢ ۔ )

۵)الصافی صفحہ ۵٧ (طبع حجریہ ۔ایران )سورئہ بقرہ آیت نمبر ٨۶ کی تفسير ميں ہے۔ )

۹۰

آپ سے سوال کيا گيا :ہم دعا کرتے ہيںليکن ہماری دعا مستجاب نہيں ہو تی ،آپ نے فرما یا : تم ان چيزوں کی دعا کرتے ہو جن کی تمهيں معرفت نہيں ہے اور وہ سوالات کرتے ہو جن کو تمسمجهتے نہيں ہو ۔

اس حدیث ميں دعا مستجاب ہو نے کے باب ميں اس بات پر زور دیا گيا ہے کہ سائل کواپنے سوال اور جس سے سوال کر رہا ہے ان سے با خبر ہو نا چاہئے ۔

امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :جس نے مجه سے سوال کيا اور وہ یہ جانتا ہے کہ نفع و نقصان ميری طرف سے ہے توميں اس کی دعا قبول کرونگا

امام علی بن الحسين زین ا لعابدین عليہ ا لسلام کی مناجات ميں آیا ہے :

تمدّحت بالغناء عن خلقک وانت اهل الغنیٰ عنهم،ونسبتهم الی الفقروهم اهل الفقراليک،فمن حاول سدّ خلّته من عندک،ورام صرف الفقر عن نفسه بک،فقدطلب حاجته فی مظانهاواتٰی طلبته من وجهها (١)

“تو نے اپنی تعریف یہ کی ہے کہ تو مخلوقات سے بے نياز ہے اور اس بے نيازی کا اہل ہے اور تو نے مخلوقات کو فقر کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ واقعا تيرے محتاج ہيں لہٰذا جو شخص بهی اپنی حا جت کو تيری بارگاہ سے پورا کرانا چا ہتا ہے اور اپنے نفس سے فقر کو تيرے ذریعہ دور کرنا چا ہتا ہے اُس نے حاجت کو اس کی منزل سے طلب کيا ہے اور مقصد تک صحيح رخ سے آیا ہے ” حضرت اميرالمو منين عليہ السلام منا جات ميں ارشاد فرما تے ہيں :سبحان الذی یتوکّل کلّ مومن عليه ویضطرکلّ جاحداليه،ولایستغني احدٌ الابفضل مالدیه (٢)

____________________

١)صحيفہ کاملہ سجادیہ دعا : ١٣ ۔ )

٢)بلد امين صفحہ ٩۶ ۔ )

۹۱

“پاک و پاکيزہ ہے وہ ذات جس پر ہر مو من توکل کر تا ہے اور جس کے سامنے ہر انکار کر نے والا اپنے کو مضطر محسوس کر تا ہے اور کو ئی بهی اس کے فضل کے بغير بے نياز نہيں ہو سکتا ہے ”

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام صحيفہ کا ملہ سجادیہ کی دعا نمبر ٧ميں فرما تے ہيں :

اَصبَْحنَْافِی قَبضَْتِکَ یَحوِْینَْامُلکُْکَ وَسُلطَْانُکَ وَتَضُمُّنَامَشِيَّتُکَ وَنَتَصَرَّفُ عَن اَمرِْکَ وَنَتَقَلَّبُ فِی تَدبِْيرِْکَ لَيسَْ لَنَامِنَ الاَْمرِْاِلَّامَاقَضَيتَْ وَمِنَ الخَْيرِْاِلَّامَااَعطَْيتَْ

“اور ہم بهی تيرے ہی قبضہ ميں ہيں تيرا اقتدار تيری سا ری سلطنت ہما رے سارے وجود پر حا وی ہے اور تيری مشيت ہميں اپنے دا من ميں لئے ہو ئے ہے ۔ہم تيرے ہی حکم سے تصرف کرتے ہيں اورتيری ہی تدبير سے کر وڻيں بدلتے ہيں ہمار ا حصہ معا ملا ت ميں اتنا ہی ہے جس کا تو نے فيصلہ کر دیا ہے اور خير بهی وہی ہے جو تو نے عطا کردیا ہے ”

اور صحيفہ علویہ ميں ہے:“مَن ذالذی یضارک ویغالبک اویمتنع منک او ینجومِن قدرکَ ”“کون تم کو نقصان پہنچاتا ہے اور کون تمہار امقابلہ کرتا ہے یا وہ تم سے اجتناب کرتا ہے یا تيری قدر و قضا سے فرار کر تا ہے ” یہ معرفت ہی تو ہے کہ دعا کرنے والایہ جا نتا ہے کہ الله اس سے قریب ہے ا ور ہر شئے اس سے بہت قریب ہے ،وہ اس(بندے)کے نفس ميں ہو نے والے وسواس سے بهی با خبر ہے وہ اس کے نفس سے اس کی شہ رگ حيات سے بهی زیا دہ قریب ہے وہ اس کے اور اس کے نفس کے در ميان حائل ہے خدا وند عالم کا ار (شادہے :( وَاِذَاسَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْ ) ( ١)

“اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو ميں ان سے قریب ہوں ”

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت/ ٨۶ ا۔ )

۹۲

(( وَنَحنُْ اَقرَْبُ مِن حَبلِْ الوَْرِیدِْ ) ( ١)

“اور ہم تواس کی شہرگ سے بهی زیادہ قریب ہيں ”

(( اِنَّ اللهَّٰ یَحُولُْ بَينَْ المَْرءِْ وَقَلبِْهِ ) ( ٢)

“بيشک خدا انسان اور اس کے دل کے درميان حا ئل ہو جاتا ہے ” حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ميں ار شاد فرما تے ہيں :اتقرب اليک بسعة رحمتک التي وسعت کلّ شی ء وقد تریٰ یاربّ مکاني و تطلع علیٰ ضميري وتعلم سري ولایخفیٰ عليک امري وانت اقرب اليَّ من حبل الورید ( ٣)

“ميں تيری اس وسيع رحمت سے قریب ہو نا چا ہتا ہو ں جوہر چيز کا احا طہ کئے ہو ئے ہے ،تو ميرے مکان سے بخوبی آگاہ ہے ،ميرے ضميرسے با خبر ہے ،ميرے رازوں کو جانتا ہے ،ميرا کوئی امر تجه سے پو شيدہ نہيں اور تو مير ی شہ رگ حيات سے زیا دہ مجه سے قریب ہے ”

جمعہ کے دن کی دعا ميں آپ ارشاد فرماتے ہيں :

لااله الاالله المجيب لمن ناداه باخفض صوته،السميع لمن ناجاه لاغمض سرّه،الرووف بمن رجاه لتفریج همّه القریب ممّن دعاه لتنفيس کربه وغمّه ( ۴ “ کو ئی خدا نہيں ہے سوائے الله کے جو اپنے بندے کی ہلکی سی آواز کا بهی جواب دیتا ہے وہ

____________________

١)سورئہ ق آیت/ ۶ا۔ )

٢)سورئہ انفال آیت/ ٢۴ ۔ )

٣)البلد الامين صفحہ ٩۶ ۔ )

۴)البلد الامين صفحہ ٩٣ ۔ )

۹۳

اس کی آواز کو بهی سنتا ہے جو اس کو اپنے راز کو پوشيدہ رکه کر اسے پکا رتا ہے اس شخص پر مہر بان ہے جواپنی مشکل دور کرنے ميں خداوند عالم سے لو لگاتا ہے اس شخص سے قریب ہے جو اپنے غم کے دورہونے کے سلسلہ ميں اس سے دعا کرتا ہے ”

امام عليہ السلام ایک خطبہ ميں ارشاد فرماتے ہيں :سبق في العلوّفلاشي ءٍ اعلامنه،وقرب فی الدنوفلا شئی اقرب منه،فلا استعلا وه باعده عن شي ءٍ من خلقه ولاقربه ساواهم فی المکان به ( ١)

“وہ اتنا بلند و بر تر ہے کہ کو ئی چيز اس سے بلند نہيں ہو سکتی اور اتنا قریب سے قریب تر ہے کہ کو ئی شے اس سے قریب نہيں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے اور نہ اس کے قرب نے اُسے دو سروں کی سطح پر لا کر اُن کے برابر کر دیا ہے ”

٢۔الله سے حسن ظن

الله سے حسن ظن رکهنا الله کی معرفت کے پہلوؤں ميں سے ایک پہلوہے ، الله اپنےبندو ںکو اتنا ہی عطا کر تاہے جتنا وہ الله سے حسن ظن رکهتے ہيں اور اس کی رحمت اور کرم کی وسعت کا یقين رکهتے ہيں ۔

حدیث قدسی ميں آیا ہے :

(اناعند ظن عبدي بيّ ،فلایظُنُّ بِيّ الا خيراً ( ٢)

“ميں اپنے سلسلہ ميں اپنے بندے کے ظن و گمان کے مطابق اس کی حا جت پوری کرتا ہوں اس سے قریب ہوں لہٰذا وہ ميرے بارے ميں خير کے علا وہ کو ئی ظن و گمان نہ رکهے ”

____________________

١)نہج البلا غہ خطبہ ۴٩ )

٢)الميزان جلد ٢صفحہ ٣٧ ۔ )

۹۴

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :ادعواالله وانتم موقنون بالاجابة

“الله سے دعا مستجاب ہو نے کے یقين کے ساته دعا کرو ” الله تبارک وتعالیٰ نے جناب مو سیٰ کو وحی کی : (مادعوتني ورجو تني فاني سامع لک ( ١)

“اے موسیٰ جو کچه مجه سے دعا کرتے ہو اور مجه سے اميد رکهتے ہو ميں اس کو تمہار ی خاطر سنتا ہوں ”

امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

(اذا دعوت فاقبل بقلبک وظنّ حاجتک بالباب (٢ “جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اپنی حا جت کو قبوليت کے دروازے پر سمجهو ”

اور یہ بهی آپ ہی کا فرمان ہے : (فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم اسْتَيْقِن الاجابة ( ٣)

“جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اجابت کا یقين رکهو ”

اس کے با لمقابل الله کی رحمت اور دعا کے مستجاب ہو نے سے ما یوس ہو جانا ہے یہ الله کی رحمت سے دور ہو جانے کاایک سبب ہے کبهی کبهی انسان الله سے دعا کر تا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا مستجاب کر نے ميں تا خير کرتا ہے اور اس وقت تک تا خير کرتا ہے جب تک وہ اس کی مصلحت کے مطابق

____________________

١)وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠۵ ،،حدیث ٨٧٠٣ ۔ )

٢)اصول کا فی صفحہ ۵١٩ ،اور وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠۵ حدیث ۔ ٨٧٠٠ )

٣)اصول کا فی باب الا قبال علی الد عا ۔ )

۹۵

نہ ہو جائے ليکن انسان اس کی معرفت نہيں رکهتا اور الله اس کو جانتا ہے لہٰذا انسان الله سے سوء ظن کر بيڻهتا ہے اور الله کی رحمت سے نا اميد ہو جاتا ہے یہی نا اميد ی الله کی رحمت ميں مانع ہو تی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلا م سے مروی ہے :

لایزال العبد بخير و رجاء ورحمة من اللّٰه عزّوجلّ،مالم یستعجل، فيقنط،ویترک الدعاء،وقيل له:کيف یستعجل ؟قال:یقول:قد دعوت منذکذا وکذاومااریٰ الاجابة( ١)

“انسان اس وقت تک نيکی کی اميد اور رحمت الٰہی ميں رہتا ہے جب تک وہ جلدی بازی نہ کرے اوربندہ جلدبازی کر نے کے نتيجہ ميں مایوس ہو جاتا ہے اور دعا کرناچهو ڑدیتا ہے ۔امام سے سوال کيا گيا بند ہ کی جلد بازی کرنے کا کيا مطلب ہے ؟ فرمایا وہ کہتا ہے :ميں یہ دعا مانگ رہا ہوں ليکن قبول نہيں ہو رہی ہے” احمد بن محمد بن ابی نصر سے مروی ہے کہ ميں نے ابو الحسن کی خدمت اقدس ميں عرض کيا:

جُعلت فداک إني قد سالت اللّٰه الحاجة منذ کذا وکذا سنة،وقددخل قلبي من ابطائهاشيٴٌ،فقال:یااحمد،ایاک والشيطان ان یکون له عليک سبيل حتّیٰ یقنطکاخبرني عنک لوانّي قلت لک قولاکنت تثق به منيفقلت له :جعلت فداک،اذالم اثق بقولک فبمن اثق،وانت حجة اللّٰه علیٰ خلقه؟قال فکن باللّٰه اوثق،فإنّک علیٰ موعد من اللّٰه عزّوجلّاليس اللّٰه یقولوَاِذَاسَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (٢) وقال:لَاتَقنَْطُواْ مِنْ

____________________

١)اصول کا فی صفحہ ۵٢٧ )اور وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠٧ حدیث ٨٧١١ ۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٨۶ ا۔ )

۹۶

رَّحمَْةِاللهِ (١) وقال:وَاللهُ یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً (٢) فکن باللّٰه اوثق منک بغيره ولاتجعلوافی انفسکم الاخيراًفانه لغفور لکم( ٣)

“ميری جان آپ پر فدا ہو ميں پرور دگار سے ایک سال تک اپنی فلاں فلاں حاجتيں مانگتا رہا اب مير ے دل ميں ان کے قبول نہ ہو نے کے سلسلہ ميں خدشہ آگيا ہے :آپ نے فرمایا :اے احمد شيطان سے بچو! اس لئے کہ وہ تمہيں مایوسی کے راستہ پر لگادے گا :مجهے ثبوت دو کہ اگر ميں تمہيں کچه بتاؤ ں تو تم اس پر اعتماد کروگے :ميں نے عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو اگر ميں آپ کے فرمان پر اعتماد نہيں کرونگا تو پهر کس کے فرمان پر اعتماد پر کرونگا اور آپ تو مخلوق پر الله کی حجت ہيں ؟آپ نے فرمایا :الله پر سب سے زیادہ اعتماد رکهو چونکہ خداوند عالم نے تم سے وعدہ کيا ہے ”کيا پر ورد گار عالم نے نہيں فرمایا :

( وَاِذَاسَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ )

“اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو ميں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بهی پکارتا ہے ” اور یہ فرمان :( لَاتَقنَْطُواْمِن رَّحمَْةِ اللهِ ) “رحمت خدا سے ما یوس نہ ہو نا ” اور یہ فرمان :( وَاللهُ یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً )

“اور خدا مغفرت اورفضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے ” لہٰذا تم سب سے زیادہ الله پر اعتماد کرو اور اپنے نفس ميں خير کے علاوہ اور کچه نہ قرار دو بيشک الله تمہار ے لئے غفور ہے ۔

____________________

١)سورئہ زمر آیت/ ۵٣ ۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٢۶٨ ۔ )

٣)قرب الا سنا د صفحہ/ ١٧١ ۔ )

۹۷

امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :انّ العبد اذا عجل فقام لحاجته یعني انصرف عن الدعاء ولم یطل في الدعاء،والوقوف بين یدي اللّٰه طالباًللحاجة)یقول اللهٰ عزّوجلّ:امایعلم عبديانّي انااللّٰه الّذي اقضي الحوائج ( ١)

“بندہ جب جلد بازی کرتا ہے تو وہ اپنی حاجت کےلئے قيام (یعنی دعا کر نے سے منصرف ہو جاتا ہے زیادہ دیر تک دعا نہيں مانگتا اور الله کی بارگاہ ميںحاجت روائی کےلئے کهڑا ہو جاتا ہے ) کر ليتا ہے ۔ پرور دگار فرماتا ہے :کيا ميرا بندہ نہيں جانتا بيشک ميں خداہوں جو حاجتوں کو پورا کرنے والا ہوں ؟” ہشام بن سالم نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایا :

(کان بين قول اللّٰه عزّوجلّ : قَداُْجِيبَْت دَعوَْتُکُمَا (٢ خداوند عالم کے قول :قَداُْجِيبَْت دَعوَْتُکُمَا اور فرعون کی تنبيہ کے درميان (چاليس سال کا فاصلہ ہے”( ٣)

اسحاق بن عمار سے مروی ہے :قلت لابي عبداللّٰه عليه السلام:یستجاب للرجل الدعاء ثم یوخّر ؟ قال:نعم،عشرین سنة ( ۴)

“ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت اقدس ميں عرض کيا : ميری جان آپ پر فدا ہوکيا بند ے کی دعا مستجاب ہو نے ميں تا خير ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا :ہاں بيس سال تاخير ہو سکتی ہے ”

____________________

١)وسائل اشيعہ صفحہ / ١١٠۶ حدیث ٨٧٠٩ ۔ )

٢)سورئہ یونس آیت / ٨٨ ۔ )

٣)اصول کافی جلد ٢صفحہ/ ۵۶٢ ۔ )

۴)اصول کافی جلد ٢صفحہ/ ۵۶٢ ۔ )

۹۸

٣۔ الله کی بار گاہ ميں اضطرار

دعا ميں انسان کےلئے الله کی پناہ مانگنا ضروری ہے چونکہ مضطر خداوند عالم کے علاوہ کسی کو اس لا ئق نہيں پاتا جس سے اميد لگا ئے اور اپنی حا جتوں کےلئے اس پر بهروسہ رکهے ۔

جب انسان الله اور الله کے علاوہ اس کے بندوں ميں سے کسی سے اپنی اميد لگا ئے رہتا ہے تو اس کو خدا وندعالم سے جس طرح لو لگا نی چاہئے تهی اس نے اس کا حق ادا نہيں کيا اور اپنے نفس ميں الله سے مضطر ہو نے کی حالت نہيں پيداکی حالانکہ دعا کے مستجاب ہو نے کی بنياد ی شرط وہی ہے ۔ حضرت امير المو منين عليہ السلام نے محمد بن حنفيہ کو وصيت کرتے وقت (فر مایا :وبالإخلاص یکون الخلاص فاذااشتدَالفزع فالی الله المفزع ( ١)

“انسان اخلاص کے ذریعہ ہی چهڻکارا حاصل کرتا ہے جب زیادہ شدت و اضطراب و گهبراہٹ ہو گی تو انسان الله سے خو ف کهائے گا ” مجبوری کی حالت ميں انسان کی تمام اميد یں ہر ایک سے منقطع ہو جاتی ہيں اور صرف الله کی بارگاہ ميں گڑگڑاتا ہے اور خدا کے علاوہ وہ کسی اور سے اميد نہيں رکهتا

روایت کی گئی ہے کہ الله نے حضرت عيسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل کی :ادعني دعاء الحزین الغریق ليس له مغيث،یاعيسیٰ!سلنی ولا تسال (غيري،فيحسن منک الدعاء،ومنيّ الاجابة ( ٢)

“اے عيسیٰ جس کا کو ئی فریاد رس نہ ہو اس کی طرح گڑگڑاکر محزون ور نجيدہ ہو کر مجه سے دعا

____________________

١)وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ/ ١١٢١ حدیث ٨٧۶۴ ۔ )

٢)وسائل اشيعہ جلد ۴ :صفحہ نمبر ١١٧۴ حدیث ٨٩۵٨ ۔ )

۹۹

مانگو،ميرے علاوہ کسی اور سے دعا نہ ما نگو جومجه سے اچهی دعا مانگے گا تو ميں ضرور مستجاب کرونگا”

اميرالمو منين حضرت علی عليہ السلام الله سے مناجات کر تے ہو ئے فرما تے ہيں :الٰهي ليس تشبه مسالتي مسالة السائلين لاَنّ السائل اذا مُنع امتنع عن السوال،وانالاغناء بي عمّاسالتک علیٰ کل حال،الٰهي اِرضَ عني،فان لم ترضِ فاعف عني،فقدیعفوالسيدعن عبده وهوعنه غيرراضٍ الٰهي کيف ادعوک وانا انا؟وکيف ایْاس منک وانت انت ؟ ) ۱)

“پرور دگار ميرا مسئلہ سا ئلوں کے سوالوں جيسا کب ہو سکتا ہے چو نکہ سا ئل کو جب منع کر دیا جاتا ہے تو وہ سوال کر نے سے رک جاتا ہے اور ميں تجه سے بے نياز نہيں ہوں مجهے تو ہر حال ميں تجه سے سوال کرنا ہی ہے ،خدا یا مجه سے را ضی ہو جا ،اگر تو مجه سے راضی نہيں ہوتا تو مجه کو معاف فر ما دے، کيونکہ آقا اپنے غلام کو راضی نہ ہو نے کی صورت ميں بهی معاف کر دیتا ہے ،پرور دگار ميں تجه سے کيسے دعا کروں حا لانکہ ميں ميں ہوں ؟اور تجه سے کيسے ما یوس ہوں حا لانکہ تو تو ہے ؟”

اسی کو حالت اضطرار کہا جاتا ہے جس ميں بندہ الله کے علاوہ کسی اور کوپناہ گاہ نہيں سمجهتا اور اپنی حاجتوں کو الله کی بارگاہ ميں پيش کر تا ہے ۔ جيسا کہ ہم یہ بيان کر چکے ہيں کہ حالت اضطرار الله کی یاد ميں غرق ہو جانا ہے جب بندہ اس بات سے با خبر ہوتا ہے کہ وہ الله کی بار گاہ ميں اپنی حاجت پيش کر نے پر مضطر ہے اور الله کے علاوہ اس کا کو ئی اور نہيں ہے جس کی بارگاہ ميں وہ اپنی حاجت پيش کر سکے تو وہ اسی کی یاد ميں غرق ہو جاتا ہے اور الله کے علاوہ کسی اور سے لو نہيں لگا تا وہ الله کی ہی یاد ميں منہمک رہتا ہے اور اس کے علاوہ کسی کی یادميں منہمک نہيں ہو تا ہے ۔

____________________

١)البلد الامين صفحہ ٣١۶ ۔ )

۱۰۰