امت کی رہبری

امت کی رہبری11%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21025 / ڈاؤنلوڈ: 4584
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

امت کی رہبری

تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی

عرض ناشر

عالم اسلام کی موجودہ صورت حال ، مسلمان حکومتوں اور ملکوں کا باہم متحد نہ ہونا اسلامی اخوت و مساوات کا فقدان، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بجائے غیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان اور الٰہی طاقت و قوت پر اعتماد کے بجائے ان کا غیر الٰہی اور کھوکھلی طاقتوں پر ایمان۔ نتیجہ میں استعماری طاقتوں اور عالمی صھیونزم کا ان پر تسلط مسلمانوں کا بے مھابا قتل عام اور ان کے طبیعی و زمینی ذخائر کی اندھا دہند لوٹ کھسوٹ اور ساتھ ہی کلمہ لا الہ الا الله پڑھنے والوں کی بے بسی و بیکسی ایک صائب اور صحیح فکر رکھنے والے مسلمان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ھم چودہ سو سال سے آج تک متفرق کیوں ہیں ۔ مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے اس فرقہ واریت کے اسباب کیا ہیں ، مسلمانون میں کلام الٰہی کی یہ عملی تصویر کیوں نظر نہیں آتی جس میں وہ ارشاد فرماتا ہے( اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمته اخواناً ) بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں کیا ہم عملاً کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات عالم انساںیت کی فلاح کےلئے بھترین تعلیمات ہیں ۔قرآن کے آئیڈیل مسلمان جو( اشداء علی الکفار رحماء بینهم ) کی عملی تصویر ہیں پوری اسلامی تاریخ میں انگلیوں پر گننے کے قابل کیوں ہیں۔

اس کا صاف جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس آنحضرت کی رحلت کے بعد سے کوئی عملی قرآنی لیڈر شب نہیں رہی مسلمانوں نے ابتدا ہی سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد نہ قرآنی تعلیمات پر سنجیدگی سے عمل کیا اور نہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارشادات پر کان دھرے اور خدا پسند مسلمان بننے کے بجائے خود پسند مسلمان بنے۔ قرآن کریم کے معلم اول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد قرآن کے جن معلموں کو ” حدیث ثقلین“ کی روشنی میں ہمارے درمیان چھوڑ گئے تھے مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے اور کسی باہوش مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

لھذا ان حالات کی روشنی میں آج بھی یہ بحث تازہ اور گرما گرم ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو خدا کی جانب سے بھیجے گئے تھے اور الٰہی تعلیمات اور قرآنی دستور العمل ہماری حیات کےلئے لئے آئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد کیا مسلمان تمام الٰہی تعلیمات اور قرآنی دستور حیات سے اتنے آگاہ ہوچکے تھے کہ انھیں پھر کسی الٰہی معلم قرآن کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور وہ اپنی مرضی سے الٰہی نظام حیات کو چلا سکتے تھے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ خدا سے زیادہ اپنے حالات و معاملات سے آگاہ ہوگئے تھے؟

یا ” عدول“ کا لقب پانے والے آنحضرت کے اصحاب نے خدا ، قرآن اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستورات کے خلاف خدا و رسول کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کو عملی جامہ پھنایا اور ” امت کی رہبری“ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ انجام کار سامنے ہے کہ مسلمان آج چودہ سو برسوں سے ترقی کے بجائے زوال کی طرف مائل ہیں اور خدا کی جانب سے ” مغضوب“ اور ” ضالین“ شمار کی جانے والی قومیں ان پر غالب ہیں ۔

یہ کتاب ” امت کی رہبری“ جو آپ کے ہاتھوں میں ہیں اسی موضوع پر آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی مد ظلہ کی ایک بھترین کاوش ہے جسے موجودہ افکار و خیالات کی روشنی میں نئے رخ سے پیش کیا گیا ہے امید ہے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ حق کے جویا افراد کی ہدایت فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

ناشر

******

مقدمہ

اس کتاب کی تحریر کامقصد

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امت کی قیادت ورہبری کامسئلہ اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ہے جس کی تحقیق ہر طرح کے تعصب وغرض و مرض سے دور پر سکون ماحول میں کی جانی چاہئے۔

سب سے پہلا مسئلہ جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد زبانوںپر آیا اور بحث کا موضوع بنا اور آج بھی اس پر بحث وتحقیق جاری ہے وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قیادت ورہبری کا مسئلہ تھا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ھر جھت سے مسلمانوں کے س رپرست ورہبر تھے ۔ قرآن کی متعدد آیتیں آنحضرت کی وسیع قیادت ورہبری کی گواہی دیتی ہیں جن میں سے بعض آیتیں ہم یہاں ذکر کرتے ہیں :

۱۔( اطیعواالله واطیعواالرسول واولی الامر منکم ) (۱)

اللہ ،رسول اور اپنے حاکموںکی اطاعت کرو

۲۔( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۲)

پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ہے۔

اس وسیع وعریض قیادت ورہبری کاایک پہلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باہر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بے چون وچرا تسلیم کریں:

( فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لایجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما ) (۳)

تمھارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ہرگز مومن واقعی شمار نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمھیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ہوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ہوں

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی سماجی رہبری کاایک پہلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کاادارہ کرناہے کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموںکوانجام دیتے تھے۔قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاہے:

( خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزکیهم بها ) ( ۴)

ان کے اموال میں سے زکوات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔

دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔

ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاہے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ہے وہ انجام دیتے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ یہ سرپرستی اور حکومت لطف الٰہی کی شکل میں خدا کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس منصب کے لئے منتخب نہیں کیاتھا۔نقطہ حساس یہ ہے کہ ہم یہ جانیںکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت کی باگڈور اور سرپرستی کس کے ذمہ ہے اور اسلامی سماج کی اجتماعی وسیاسی قیادت کس کے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو سماج کو ہرج ومرج ،فساد اور پسماندگی سے محفوظ رکھے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام جیسے عالمی وجاودانی دستور میں اس امر کو فراموش نہیں کیاگیا ہے اور اس کے لئے ایک بنیادی منصوبہ پیش کیاہے اور وہ ہے ”اولی الامر“کی پیروی واطاعت جو ہم پر واجب کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے۔پس یہاں جو نکتھ قابل بحث ہے یہ ہے کہ جن حکام کی اطاعت واجب کی گئی ہے مسلمان ان کی شخصیت کو پہچانیں تاکہ خوب اطاعت کریں۔

مسلمانوںکا ایک گروہ یہ کھتاہے کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سے اسلامی سماج کے سیاسی واجتماعی امور کو ادارہ کرنے کے لئے اپنے بعد حاکم ےا حکام معین کئے ہیں ۔اس گروہ کے مقابل ایک دوسرا گروہ ہے جو یہ کھتا ہے کہ خداوند عالم نے لوگوں کو یہ اختیار دیاہے کہ

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعداپنے لئے حکام کاانتخاب کریں۔شیعہ پہلے نظریہ کے اوراہل سنت دوسرے نظریہ کے طرفدار ہیں۔

اگر مسلمانوں کی امامت وپیشوائی کامسئلہ اسی حد میں ہو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم(کی رحلت کے بعد اسلام کے اس سیاسی واجتماعی منصب پر کون فائز ہوا،اس شخص کی تعیین کس شکل میں ہوئی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس منصب پر کسی کو معین کیا یاکوئی شخص عوام کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ہوا ،تو یہ بحث صرف ایک تاریخی پہلو کی حامل ہوگی اور چودہ صدیوں کے بعد آج کی نسل کے لئے کوئی خاص سازگار اور مفید نہیں ہوگی۔(اگر چہ ان افراد کی شناخت بھی اس عھد کے لوگوں کے لئے ضروری اور اہم شمار ہوتی تھی)لیکن اگر بحث کی شکل تبدیل ہو اور یہ کھا جائے کہ بحث کا موضوع پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی صرف سیاسی و اجتماعی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس منصب کے علاوہ ”دین کے اصول و فروع میں بھی مرجعیت ورہبری کا منصب رکھتے تھے ۔تو اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس پہلو کی قیادت کس کے ذمہ ہے؟ اور کیسے اشخاص کو حلال و حرام اور امر و نھی کا منصب دار ہونا چاہئے تا کہ اسلامی حقائق کے سلسلہ میں ان کے اقوال اور نظریات صبح قیامت تک انسانوں کے لئے حجت ہوں؟اس صورت میں امام کی شناخت اور دینی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں بحث ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ قرار پاتی ہے اور کوئی شخص بھی اس معرفت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔اب اس مطلب کی و ضاحت پر توجہ دیں:

اسلامی معارف و احکام میں قیادت و مرجعیت:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی قیادت و رہبری صرف سیاسی و سماجی امور میں نہیں تھی بلکہ آپ قرآنی آیات کے مطابق اس الٰہی کتاب کے معلم ۱ ، قرآن کے مشکل مطالب کی تبیین و وضاحت کرنے والے ۲ ،اور الٰہی احکام و سنن کو بیان کرنے والے تھے ۳ ۔اس اعتبار

۱۔( یعلمهم الکتاب والحکمة ) (۵)

۲۔( و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما انزل الیهم ) (۶)

۳۔( وما آتاکم الرسول فخذوه و مانهاکم عنه فانتهوا ) (حشر/۷)(۷)

سے پورے اسلامی معاشرہ کا اس پر اتفاق ہے اور قرآنی نصوص بھی گواہی دیتی ہیں کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور بندوں کے فرائض میں آنحضرت کا قول و عمل لوگوں کے لئے سند اور حجت ہے۔

اس کتاب کے چوتھے حصہ میںواضح طور سے بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری نہیں ہوئی تھی اور ابھی اسلام کی علمی و عملی تحریک اپنے کمال کو نہیں پھنچی تھی کہ پھر سماج کو معصوم رہبروں کی ضرورت نہ رہے۔لھٰذا ضروری ہے کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد کوئی شخص یا جماعت اسلام کے احکام اور اس کے علمی ،فکری وتربیتی اصول کی رہبری و مرجعیت کا عھدہ اس روز تک سنبھالے جب تک اسلام کا یہ انقلاب پوری طرح سے بارور ہوجائے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصب و مقام کے لئے کون سے افراد شائستہ ہیں تا کہ اسلامی معاشرہ ہر عھد اور ہر زمانہ میں ان کے افکار و کردار و گفتار سے فائدہ اٹھائے۔اور ان کی ہدایات و رہنمائی میں حلال خدا کو حرام سے اور واجبات کو محرمات سے تشخیص دے سکے ۔نتیجہ میں اپنے دینی فرائض پر عمل کرسکے ۔اس گروہ کی شناخت اور ان کی تعلیمات و ہدایات سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔ اس کتاب میں اسی بات کی کوشش کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم کے شائستہ اور سچے جانشینوں کا تعارف کرایا جاسکے۔

ظاہر ہے کہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد امت کی رہبری )کی بحث کو پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ موجودہ حساس حالات میں مذہبی اختلافات کو بھڑ کایا جائے یا تعصب آمیز اور بے ثمر و غیر مفید بحث کو جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ان حساس اور نازک حالات میں نہ صرف حالات کو پھیلنے سے روکا جانا ضروری ہے بلکہ انھیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور در حقیقت انسان کی عمر اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ تعصب آمیز بحث چھیڑی جائے اور اپنی اور دوسروں کی عمر تباہ کی جائے۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر طرح کے تعصب و کینہ سے دور رہ کر ایک اہم اور اساسی مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حقائق کی بنیاد پر اس کی محققانہ اور منطقی تحقیق کی جائے۔تا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان مزید قربت اور تفاہم پیدا ہو اور وہ زھر افشانیاں ختم ہوجائیں جو ہمارے دانا دشمن اور نادان دوست اس سلسلہ میں کیا کرتے ہیں۔امت کی رہبری سے مربوط بحثوں میں دو بنیادی اصل ہمارے پیش نظر ہیں :

۱۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی جیسے اہم مسئلہ میں حقائق و واقعیات کو پہچانا جائے۔

۲۔مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور قربت پیدا کرنے میں مدد کی جائے اور ان عوامل و اسباب کو بر طرف کیا جائے جو سوء ظن کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے دشمن فائدہ اٹھا کر ہم میں اختلاف پیدا کرتا ہے۔

اس کتاب کے مطالب چند برس پہلے تھران میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے (حسینیہ بنی فاطمہ(ۡع)) میں درس کے طور پر بیان کے گئے تھے جو کافی حد تک لوگوں کو مکتب اہل بیت(ۡع)سے آشنا کرنے اور آنحضرت کے شائستہ جانشینوں کی معرفت کا باعث ہوئے تھے۔جنھیں شائقین کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا جارہاہے یہ کتاب اس بحث کا پہلا حصہ ہے جو ۲۴چوبیس فصلوں پر مشتمل ہے ۔انشاءاللہ دوسرا حصہ بھی جلد شائع ہوگا۔

وماتوفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب

جعفر سبحانی

حوزہ علمیہ قم المقدسہ

اسلامی جمھوریہ ایران

پہلی فصل

امام کی شناخت کا فلسفہ

مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ہے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نہیں ہے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ہیں وہ مختلف فرقوں ،گروہوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نہیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ہیں اور ہر روز آگے بڑھتی نظر آتی ہیں ایسے میں ہر عاقل و ہوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ہے۔

کون غیرت مند مسلمان ہوگا جو فلسطین،بوسنیہ ،کشمیر ،چچنیہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی ناقابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟!/ span >

مسلمان ، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ہیں۔اورانسانی طاقت ،زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ہیں ۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ باوزن ہوسکتے ہیں اور دنیا کی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں اور استعمار نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ہوئی بہت سی جغرافیائی حدوں کو نادیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باہمی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بہتر بنا سکتے ہیں ۔اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اتحاد کی اس اہمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی شناخت و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کا نٹا نہیں سمجھنا چاہئے اور اسے اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہئے ،جس کی ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ہیں ۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو حضرت عثمان کا کرتہ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ابوبکر و علی(ع) کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ہے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ہے۔اس لئے کہ زمانہ کا پہیا اب پیچھے نہیں گھومے گا اور ہم پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کو زندہ نہیں کر پائیں گے کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں پس بہتر ہے کہ یہ فائل ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کے بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!

اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشان نتائج سے غافل ہیں لھٰذا انھوں نے اسے غیر اہم ،بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ہے ، لیکن ہمارے خیال سے یہ فکر امام شناسی کے فلسفہ سے غفلت اور لا علمی کے علاوہ اور کچہ نہیں ہے کیوں کہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حقیقی جانشین کا پہچاننا ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کہیں اور افراطیوں کی طرح جو ہر طرح کی علمی ومنطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ہیں ہم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں ۔اس لئے کہ اب کیا فائدہ ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو ناحق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نہیں ہے۔

لیکن یہ اعتراض اس وقت بیجا ہے جب ہم علمائے اہل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنا،دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دنیا، حدود الٰہی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ہو ،کیونکہ اس صورت میں اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ہو گی کہ ہم بیٹہ کر یہ بحث کریں کہ پندرہویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا لوئی پنجم کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!

لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اورنبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ہیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ہے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ہی خلاصہ نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام ،حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد احکام الٰہی کو بیان کرنے والا،قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ہے ۔اس صور ت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰہی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کو ن ہے تا کہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ہونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔(۱)

اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں کہ جن کی تعداد محدود بھی نہیں ہے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟(۲)

یہی وہ منزل ہے جہاں ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور یہاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام ،الٰہی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رہنما ہوتا ہے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پہچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچاجاسکتا ۔

اگر مسلمان تمام اصو ل و فروع میں اتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدرضروری نہ ہوتی ،لیکن افسوس کہ ان کے یہاں کم ہی مسائل میں اتحاد پایاجاتا ہے ۔اب ہم جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ہیں،ہمارا وظیفہ کیا ہے ؟آیا اس زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل ، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ (ابوحنیفہ یا شافعی) کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی ں اوران کی گرانقدراولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی فضیلت ،عصمت،طہارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں؟

اس سوال کا جواب اسی ”امام شناسی“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق ،انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے دیگی۔حتی اگر ہم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میںایک معصوم کا حصہ ہے، سے چشم پوشی کرلیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راہنما کون ہے،بھت سی جھات سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور مسلمانوںکی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو باتیں ہم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے یہاں بہت اختصار کے ساتھ ذکر کردیں:

اگر ہم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کردیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجاہے اور وہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت علیھم السلام ہیں،کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیاہے :

یا ایها الناس انی یوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی و ان اللطیف اخبرنی انهما لن یفترقا

”اے لوگو!میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ہوں۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جارہاہوں ۔ ایک اللہ کی کتا ب اور دوسری میری عترت ہے ۔اللہ کی کتاب وحی الٰہی اور ریسمان نجات ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت اور اہل بیت(ۡع)۔ خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوںگے “

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوںحجتوں کی باہم ملاذمت کو دینے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ہوئے جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ہے کہ:

هذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان(۳)

یہ علی(ۡع)ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ۡع) کے ہمراہ ہے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نہیں ہیں جن کو یہاں ذکر کردیا جائے ۔اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ہندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارہویں جلد میں بیان کئے ہیں اور یہ کتا ب ہندوستان میں چھپ چکی ہے اور چند سال پہلے چہ جلدوں میں اصفھان میں بھی دوبارہ چھپی ہے،اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ہے جس کی بنیاد پر جامعہ الازھر کے سر براہ شیخ شلتوت نے چار مذاہب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ہے۔شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشھور مذاہب (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذہب ان میں سے نہیں ہیں،کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں اور اثنا عشری مذہب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب میں کھا:

۱۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نہیں کیا ہے کہ (فرعی احکام میں) کسی معین مذہب کی پیروی کرے۔ھم کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق ہے کہ ہر اس مذہب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ہم تک نقل ہواہے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیاہے ۔اسی طرح جن لوگوں نے کسی ایک مذہب کی پیروی کی ہے --- چاہے وہ جوبھی مذہب ہو --- وہ دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔جعفری مذہب ،مشھور اثنا عشری امامیہ مذہب ہے اور ان مذہبوں میں سے ہے کہ اہل سنت کے تمام مذہبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جاسکتی ہے ۔

لھذا بہتر ہے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہوں اور کسی خاص مذہب سے تعصب کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذہب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذہب میں منحصر نہیں ہے۔(اسلامی مذاہب کے پیشوا) سب مجتھدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ہیں اور جو لوگ اہل نظر اور صاحب اجتھادنھیں ہیں ان کے لئے جائز ہے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچہ انھوں نے فقہ میں مقرر کیا ہے اس پر عمل کریں۔اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے ۔(۴)

____________________

۱و۲۔ان مطالب کی تفصیل دوسرے حصہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

(۳)۔الصواعق المحرقھ،ابن حجر ،فصل دوم ۔باب نھم ،حدیث ۴۱ص/۵۷

(۴)۔رسالة الاسلام،طبع مصر ،شمارہ سوم،گیارہواںسال

دوسری فصل

امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے

خلافت ،علمائے اہل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ہے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے۔جب کہ شیعی نقطہ نظر سے امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ہے اور وہ بہت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ہے۔

لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یہاں دو نظر یئے پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اہل سنت کے علماء کا ہے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ہے :

الف۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ -:

علمائے اہل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ہے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفھ“ وہ شخص ہے جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ہر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ہے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں :

الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی ( ص )(۵)

اہل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ہے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ہوئی ہے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ہوا ہے ۔ خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ہے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی : اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ہاتھوں حل ہوتے ہیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے جس کا عھدہ دار امام کو ہونا چاہئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی : امام و خلیفہ کو چاہئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ہے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نہیں ہے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ہونے کی ضرورت ہے)

دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ہو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نہیں ہوتی اور کہیں نہ کہیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ہیں جو جوا وشراب کی طرف ہاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ہیں اور ان پر قابض ہو جاتے ہیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رہتے ہیں۔

اس لئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ہے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰہی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ہیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ہیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ہے۔

مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ہیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ہیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ہے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ہر طرح کے باہری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ہو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔

اب یہاں آپ یہ کہیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اہل سنت کہیں گے کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ہیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ہیں ۔

اگر امام کی ذمہ داری ان ہی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ہو ،جنھیں ہم نے اہل سنت کی زبانی نقل کیاہے ، تو ظاہر ہے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نہیں ہے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اہل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاہے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رہبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ہے !وہ کھتا ہے :

لا یخلع الامام بفسقه و ظلمه بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود “ ( ۶)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰہی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت پر ہے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ہدایت کریں!

اور ہمیں مزید تعجب نہ ہوگا اگر ہم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ہوئے دیکھیں،وہ لکھتے ہیں:

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو۔ امام کی نافرمانی اور الٰہی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتی(۷)

خلیفہ اسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ہے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ہو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ہونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ہواہے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ :

مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ہے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ہیں ۔یہ نظریہ کھتاہے کہ :امامت ایک طرح کی الٰہی ولایت ہے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ہے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ہوتا ہے ۔

اس بنیاد پر امام رسالت ہی کا سلسلہ ہے فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاہے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ہے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ہے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ہیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ہونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ہیں۔

یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ہیں کھ: صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

صحیح ہے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ہوئی ہے اور یہ احکام وحی الٰہی کے ذریعہ انھیں بتائے گئے ہیں۔لیکن مساعدحالات نہ ہونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ہے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے۔ ( ۸)

لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ہے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ہیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پہلو رکھتی ہے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاہئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پہچاننے والا نہ ہوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ہے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ہمہ جھت عصمت کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔

یہ دو نظریے ہیں جو ان دونوں گروہوں کے علماء کے ذریعہ بیان ہوئے ہیں۔اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ہے ۔

____________________

(۵) شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/۴۷۲۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اہل سنت نے بیان کی ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان سے گریز کرتے ہیں۔

(۶)التمھید ص/۱۸۶

(۷)شرح مقاصد ،ج/۲،ص/۲۷۱

(۸)چونکہ شیعہ علماء اہل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰہی سرپرستی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ہے۔

تیسری فصل

شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

عقلی اور نقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے اور جو شرائط پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی شریعت ہونے کے علاوہ ) معتبر ہیں وہ امام میں ہونے چاہئے۔

اب ہم دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

پیش آنے والے نئے مسائل :

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ہیں؟یہ طے شدہ بات ہے کہ کافی نہیں ہیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوں کی ضرورت ہے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میںبسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ الٰہی شریعت کے احکام بیان کرتے ہیں کامیاب نہ ہوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا ذہن ہموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰہی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نھیںتھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رہی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اہل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ہوا۔

یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

اگر قرآن یہ فرماتا ہے کہ( الیوم اکملت لکم دینکم ) (۹) تو اس سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ہوئے آیت کے نزول یعنی دس ہجری کے وقت مراد یہ ہے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہاتھوں تکمیل ہوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نہیں رہا اور یہی کلیات صبح قیامت تک امت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بہت ہی دشوار اور پیچیدہ کام ہے جو عام افراد کے بس کا نہیں ہے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نہیں ہے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نہیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ہے جو اپنے الٰہی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰہی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ہو۔

ساتھ ہی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا لھٰذا وہی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

یہاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ہے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررہی ہے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی ہے ۔اب رہی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باہر کی چیز ہے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کھا جانا چاہئے کہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نہیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا کے تمام ہونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ہمارے پاس کافی نہیں ہیں بلکہ بہت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ہی نہیں کئے گئے ہیں۔

ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کھنے پر مجبور ہیں کہ تمام الٰہی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بہت ہی مختصر تھی،ساتھ ہی ہر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰہی اور جو کچہ بھی آپ نے وحی کے ذریعہ الٰہی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ہو اور ہر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ہو صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نہیں پہچان سکتی۔

یہ بھی عرض کردوں کہ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نہیں ہے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بہت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ہی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انھیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہ گئی ۔

آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ہوئے جن سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نہیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں بتائی تھی۔

قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بہت ہی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ہے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وہبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت نے اس کے حوالے کیا ہے۔

اہل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ہی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاہتے ہیں لیکن جونکہ بہت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ہیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نہیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نہیں ہے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نہیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ہو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موثر ثابت ہوگی ۔

پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ہو تو ایسی صورت میں ہم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی اساس و بنیاد ہی ناہموار اور پھس پھسی ہے کیا ایسی صورت میں ہم یہ توقع رکہ سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بہت سے واقعات اپنے دامن میںلئے ہوئے ہے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ہے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ہو اور مستقل الٰہی تعلیمات کولوگوں تک پہنچاتارہے۔ھم یہاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میںایک شوہر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ہوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راہنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ہے تو وہ قصور وار ہے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی اس کے رحم میں ہے؟

۲۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوہرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رہتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ہو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاہے ،سنگسار نہیں ہے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

۳۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواہی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ہر ایک کی سزا جدا جدا ہے۔ایک کافر ذمی ہے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نہیں کیاہے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ہے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ہے اور غیر شادی شدہ ہے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ہے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ہے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

۴۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رہا ہے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ہے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رہے آخرکار مجبور ہوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراواگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کہہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ہے تو اس پر حجت تمام ہے اور اس پر حد جاری ہوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

۵۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ہو۔عورت کو دوبارہ عدالت میںپیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوہر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ہوا میں نے وہاں موجود شخص سے بہت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ہر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ہوجاوتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ہوس کے آگے تسلیم ہوگئی۔

اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہ اکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔اس طرح کے حوادث

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیںآئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰہی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ہونا چاہئے ۔کیا یہ کھنا درست ہوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ہے ۔چاہے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکام لے لیں۔(۱۰)

____________________

(۹)مائدہ /۳ ۔ یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا

(۱۰)اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے۔علامہ امینی نے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18