امت کی رہبری

امت کی رہبری11%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21225 / ڈاؤنلوڈ: 4674
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

اکیسویں فصل

دو سوالوں کے جواب

دو سوال

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں۔

۱۔ جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ہوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟

۲۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟

پھلے سوال کا جواب :

اگرچہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ہوئے غدیر کے الٰہی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بہت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے -- جن کی مثالیں ہر معاشرہ میں بہت زیادہ نظر آتی ہیں-- --- --ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اہم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رہے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ہوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ہوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدہ اسلمی ، ابوہثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ہی بہت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر المومنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ہے۔

تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رہے ۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔(۱۵۶)

افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ہی نہیں ہے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواہی کے مطابق خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔

دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت کے حکم کو اپنے باطنی خواہشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نہیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواہشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر اپنی بات پر جمے رہتے تو آنحضرت کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔

ذیل میں ہم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ہیں:

۱۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ہو۔لیکن وہاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ہے لھٰذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!

ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ہوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ہوئی جب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ہو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاہتے تھے نہ کر سکے۔(۱۵۷)

۲۔ مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ"رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ہوگئے

اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ہاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگہاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ہوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ"جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ہوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باہر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نہیں ۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ہوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ہوجاو۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ہی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ہوچکے ہیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔

۳۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یہی دو مذکورہ نمونے نہیں ہیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ" پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رہے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ہے۔کیونکہ ان ہی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی

کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاہئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔

ان میں سے ہر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات ۲۱۸۔۲۸۲تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ہوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ہے۔

اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ہے:

( فلیحذر الذین یخالفون عن امره ان تصیبهم فتنة او یصیبهم عذاب الیم ) (۱۵۸)

یعنی جو لوگ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کہیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔

اور فرماتاہے :

( یا ایها الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله و رسوله واتقوا اللّٰه ان الله سمیع علیم ) (۱۵۹)

اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔

جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ہے:

( واعلموا ان فیکم رسول الله لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم ) (۱۶۰)

اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ہے۔اگر بہت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوگے۔

یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ہےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاہئے اطاعت نہیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰہی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نہیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔

افسوس رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یہی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰہی کو اپنی باطنی خواہشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔

دوسرے سوال کاجواب:

جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ہے ،یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ہے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔

نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور اسلام کی بہت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور.... نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاہے۔

حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ہے اور ہر زمانہ وہر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاہے۔ھم یہاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔سب جانتے ہیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نہیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔

بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاہوں جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا یہاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ہو ”من کنت مولاه فهذا علیّ مولاه، اللّٰهم وال من والاه وانصر من نصره لیبلغ الشاهد الغائب “ یعنی میں جس جس کا مولاہوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ہیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ہر بات غائب لوگوں تک پہنچائیں۔

اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ہوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔(۱۶۱)

امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نہیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ہے۔

۲۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ہے وہ کھڑے ہو کر گواہی دے۔لیکن صرف وہی لوگ کھڑے ہوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ہے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواہی دی۔

یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب یہ بات ہوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ہوئے پچیس سال ہوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بہت سے اصحاب کوفہ میں نہیں تھے،یا اس سے پہلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواہی دینے سے کوتاہی کی تھی۔

”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بہت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ہیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔(۱۶۲)

۳۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ہوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یہاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ہر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رہا اور لوگ باتیں کرتے رہے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رہے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ہوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یہاں تک کہ فرمایا:

کیا تم لوگوں کو یاد ہے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ہی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاہے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں اس الٰہی پیغام کو پہنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اے لوگو! تم جانتے ہو کہ خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ہوں؟سب نے کھا ہاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ہوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)مولا ہیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔

اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ہیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ہوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ہیں۔(۱۶۳)

۴۔ صرف حضرت علی ںنے ہی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نہیں کیا ہے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ جگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رہی تھیں، تو

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :

من کنت مولاه فهٰذ ا علی مولاه " جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں.

۵۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:

”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ہمیں منتخب کیا اور ہر طرح کی رجس و کثافت کو ہم سے دور رکھا یہاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسی (ع) سے تھی“

تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ہاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:

من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه "(۱۶۴)

۶۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس

میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ---خطبہ دیتے ہوئے

فرمایا:

”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پہنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ہم گواہی دیتے ہیں ۔

۷۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ہے ۔(۱۶۵)

____________________

۱۵۶۔ سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعه فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رہے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/۱۷۷تاص۱۹۲ میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ہے ۔

اس کتاب کے مولف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ" کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ہے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماخذ کے ساتھ بیان کئے ہیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ہوگی۔

۱۵۷۔صحیح بخاری ج/۱،ص/۲۲(کتاب علم)

۱۵۸۔نور /۶۳

۱۵۹۔حجرات /۱

۱۶۰۔الحجرات/۷

۱۶۱۔مناقب خوارزمی ،ص/۲۱۷

۱۶۲۔الغدیر، ج/۱،ص/۱۵۳۔۱۷۱

۱۶۳۔فرائد المسطین،باب۵۸۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ہے۔

۱۶۴۔ ینابیع المودة ص/۴۸۲

۱۶۵۔ مزید آگاہی کے لئے ”الغدیر “ ج/۱ص/۱۴۶تا ص/۱۹۵ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ہیں۔

گیارہویں فصل

سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان

پیغمبرکی تشویش کہیں امت جاہلیت کی طرف پلٹ نہ جائے !

قرآن مجید کی آیات اور تاریخی قرائن اس امر کے شاہد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند تھے ۔ اور ( غیبی الھامات سے قطع نظر ) بعض سلسلہ وار ناگوار حوادث کو دیکھتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ احتمال تقویت پارہا تھا کہ ممکن ہے ایک گروہ یا بہت سے لوگ آپ(ع)کی رحلت کے بعد جاہلیت کے زمانے کی طرف پلٹ جائیں اور سنن الھی کو پس پشت ڈال دیں اس احتمال اور خدشہ نے اس وقت آپ(ع)کے ذہن میں اور زیادہ قوت پائی جب آپ(ع)نے جنگ اُحد میں ( جب دشمن کی طرف سے پیغمبر اسلام کے قتل ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی ) اس بات کا عینی مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھاگ کر پھاڑوں اور دور دراز علاقوں میں پناہ لے لی۔ اور بعض لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ منافقوں کے سردار ” عبدالله ابن ابی “ کے ذریعہ ابو سفیان سے امان حاصل کریں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کا مذہبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ہوا تھا کہ وہ خدا کے بار ے میں بد گمان ہو کر جاہلانہ افکار کے مرتکب ہوگئے تھے ۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ہے :

( وَ طاَئِفةٌ قَدْاهَمَّتْهُمْ انْفُسُهُمْ یِظُنُّونَ بَاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَّنٰا مِن َ الامْرِ شَیْءٌ ) (۴۳)

( اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ کو ) اپنی جان کی اس قدر فکر تھی کہ وہ خداکے بارے میں دور ان جاہلیت کے جیسے باطل خیالات کے مرتکب ہوگئے تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آیا (مسلمین پر حاکمیت ) جیسی کوئی چیز ہم پر ہے ؟

قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ وَ مَنْ یَنقَلِبْ عَلَٰی عَقِبَیْه فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شیْئاً وَ سَیَجْزِی اللهُ الشَّٰکِرِینَ ) (۴۴)

” اور محمد تو صرف خدا کی جانب سے ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیر پلٹ جاؤ گے ؟ تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا “۔

یہ آیہ شریفہ اصحاب رسول خدا کو دو حصوں یعنی عصر جاہلیت کی طرف لوٹ جانے والے اور ” ثابت قدم و شکر گزار “ گروہ میں تقسیم کرکے اشارتاً یہ بیان کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمان افتراق و اختلاف کے شکار ہو کر دو گروہ میں بٹ جائیں گے ایک گروہ عصر جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گااور دوسرا گروہ ثابت قدم و شکر گذار رہے گا ۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ پیغمبر اسلام ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چارہو ، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کےلئے ایک امام و پیشوا اور حاکم و فرمان روا مقرر نہ فرمائیں؟

پیغمبر کےلئے یاقومی اتحاد کے قائل افراد کےلئے بھی یہ ہر گز جائز نہیں کہ ایک ایسے لوگون کی اجتماعی و سیاسی زندگی کی باگ ڈورخود ان کے ہاتہ میں دیدیں ، بلکہ حالات پر قابو رکھنے کےلئے لازم بن جاتا ہے کہ ایک لائق اور قابل شخص کو امت کے امام و پیشوا کی حیثیت سے مقرر کیا جائے تا کہ حتی الامکان اختلاف و افتراق اور ناامنی سے معاشرے کو بچایا جاسکے ۔

پیغمبر اسلام جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ہے اور یہ امت بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جائے گی ، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشینگوئی کے ذریعہ فرمایا ہے :

ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة ، فرقة ناجیة و الباقون فی النار

عنقریب میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ اہل نجات ہوگا اور باقی فرقے جھنمی ہوں گے“(۴۵)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع و آگاہی رکھنے کے باوجود کہ امت کی رہبری کا انتخاب بہت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ہے کس طرح اس اہم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا ، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ہوگیا ؟!

اسلامی سماج ، ان دنوں مختلف گروہوں میں بٹ گیا تھا اور ہر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا: انصار دو معروف گروہوں یعنی ” اوس“ و ” خزرج“ پر مشتمل تھے ، اور مھاجر ، بنی ہاشم اور بنی امیہ کے علاوہ قبائل ” تیم “ اور ” عدی “ پر مشتمل تھے ۔ ہر گروہ چاہتا تھا معاشرے کی قیادت اس کے ہاتہ میں آجائے اور ان کے قبیلہ کا سردار اس عھدہ کا مالک بنے ۔

کیا ان متضاد گروہوں کے ہوتے ہوئے امت میں اتحاد و یکجھتی اور دین کے سلسلے میں مسلمانوں کے استحکام و پائیداری کی امید کی جاسکتی ہے یا سب سے پہلے اختلاف و افتراق کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے تب ایسی امید رکھنی چاہئے ؟

پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جوسب سے بڑی دراڑ پیدا ہوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجھتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا ۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ہوتے تو بہت سے اختلافات قیادت کے مسئلہ میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ہوجاتے ۔ لیکن اسی اہم اور بنیادی امر پر اختلاف ہی بعد والے اختلافات ، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا نتیجہ کے طور پر امت مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے ۔

اہل سقیفہ کی منطق

قرآن مجید یاران پیغمبر کو تنبیہ کرتا ہے کہ مبادا آپ کی رحلت کے بعد وہ زمانہ جاہلیت کے افکار کی طرف پلٹ جائیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اورمطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹہ گئے اور اصحاب رسول کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبیلہ ای تعصبات اور جاہلیت کے افکار رونما ہوئے اور واضح ہوگیا کہ اسلامی تربیت نے ابھی بہت سے اصحاب رسول کے دلوں کی گھرائیوں تک رسوخ نہیں کیا تھا اور اسلام ، جاہلیت کے منحوس چھرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا،جھگڑالوں تقریروں ،ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہر شخص خلافت کا لباس شائستہ ترین شخص کو پھنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا ، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کےلئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا ، جو عقلمندانہ تدبیر ، وسیع علم ، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا ۔

حادثہ سقیفہ کے مطالعہ و تجزیہ سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کے ہدایت کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں رکھتے تھے اور ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔

تاریخی المیہ !

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا جسداطھر ابھی زمین پر تھا ، بنی ہاشم اور آنحضرت کے بعض سچے اصحاب ، پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ” سقیفہ بنی ساعدہ'' نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ہوا تا کہ پیغمبر اکرم کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین و تدفین سے انتھائی فوری اوراہم مسئلہ تھا !۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور مھاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ گھر کے اندر اور اس کے باہر پیغمبر اسلام کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے ، اچانک حضرت عمر نے جو گھرکے باہر تھے ، انصار کے سقیفہ میں جمع ہونے کی خبر سنی ۔ کسی کے ذریعہ فوراً حضرت ابو بکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے باہر آئے ۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر کے بلاوے کے سبب سے آگاہ نہ تھے اس لئے عذر خواہی کے ساتھ جواب دیا کہ : ” میں یہاں پر کام میں مصروف ہوں لیکن آخر کار حضرت عمر کے اصرار پر مجبور ہوکر گھر اور پیغمبر کے جسد اطہر کو چھوڑ کر باہر آئے ۔ جب وہ بھی حضرت عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ہوئے توانھوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ کی راہ لی ۔دونوں سقیفہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے ۔اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرہ اور استدلال کو سنیے کہ یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کےلئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔

اس جلسہ میں انصار کے ترجمان سعد بن عبادہ اور حباب بن منذر تھے اور مھاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رہے تھے ، آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکانے کےلئے تقریریں کی ۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ہو :

سعد ( انصار سے مخاطب ہوکر ) : تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ہو کہ دوسرے اس سے محروم ہیں ، پیغمبر گرامی نے سالھا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی ، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ کا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار ! آنحضرت پر ایمان لائے آنحضرت اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ۔ آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ کا دین قبول کیا ۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے ۔ جب پیغمبر اسلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پر امید تھے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بہتر ہو ۔(۴۶)

سعد کی منطق یہ تھی ، چونکہ ہم نے پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو پناہ دی ہے ، آپ اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ہے اور آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی ہے اس لئے ہم قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے میں دوسروں سے سزاوار اور لائق ہیں ۔

اب دیکھئے کہ اس کے مقابلے میں مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

حضرت ابو بکر :مھاجرین اولین گروہ ہیں جو دین پیغمبر پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر افتخار کرتے ہیں ۔ انھوںنے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے ، افراد کی کمی پر نہیں ڈرے ہیں ، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ہے اور آنحضرت پر ایمان اور آپ کے دین سے منہ نہیں موڑا۔ ہم ، آپ ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ہر گز انکار نہیں کرتے اور بے شک مھاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ہیں ۔ اس لئے قیادت و رہبری کی باگ ڈور مھاجرین کے ہاتہ اور وزارت آپ لوگوں کے ہاتہ میں ہوگی اور ہم حاکم ہوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نہیں پائے گا(۴۷)

مھاجرین کی برتری کا استدلال یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں اور آپ کے دین کو قبول کیا ہے ۔

حباب بن منذر : اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتہ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمھاری ہی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور کوئی تمھارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا تم لوگ صاحب قدرت ہو اور تعداد میں بھی زیادہ ہو۔اپنی صفوں میں ہر گز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ہونے دو، اختلاف کی صورت میں تباہی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ اگر مھاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ہم مسئلہ کو ” دو امیر“ کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ہم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ہوگا(۴۸)

اس مناظرہ میں انصار کی منطق افراد کی کثرت اور ان کے دھڑے کی طاقت پر منحصر ہے ۔ وہ کہتے ہیں چونکہ ہم طاقتور ہیں اس لئے حاکم ہم میں سے ہونا چاہئے ۔

حضرت عمر: ایک غلاف میں ہرگز دو تلواریں نہیں سما سکتی ہیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرمانروائی کے سامنے ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر آپ لوگوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر کے کسی رشتہ دار کے ہاتہ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ کس کی جرات ہے کہ اس حکومت کے بارے میں ہمارا مقابلہ کرے اور ہم سے لڑے جس کی داغ بیل حضرت محمد نے ڈالی ہے ، جب کہ ہم آپ کے رشتہ دار ہیں ۔

اس گفتگو میں حضرت عمر نے زمام حکومت کو ہاتہ میں لینے کا معیار پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مھاجر اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کےلئے شائستہ و حقدار جتلایا ہے(۴۹)

” حباب بن منذر“ نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سھارا لیتے ہوئے کھا:

اے انصار کی جماعت ! عمر اور اس کے ہم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرمان روائی چھیننا چاہتے ہیں ۔ اگر انھوں نے ہماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باہر کرو تم لوگ اس کام (فرمانروائی) کےلئے دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ہو ۔ تم ہی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ہے ۔

عمر : خدا تجھے موت دے

حباب : خدا تجھے موت دے۔

ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ہوئے مھاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی :

اے انصار کی جماعت ! تم لوگ وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام کی حمایت اور مدد کی اب یہ ہر گز سزاوار نہیں ہے کہ تم ہی لوگ سب سے پہلے پیغمبر کی سنت کو بھی بدل دو۔

یہاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کےلئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا )کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد ، اٹہ کھڑا ہوا ، امیدتھی وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برخلاف ، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے حضرت عمر کے استدالال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑکر کھا:

محمد قریش میں سے ہیں اور آپ کے رشتہ دار خلافت کےلئے دوسروں سے اولیٰ اور شائستہ ہیں ، میں یہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں طرفین نے اپنی اپنی بات سنادی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو حضرت ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تا کہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں ، خاص کر انھوں نے مشاہدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نہیں ہے اور بشیر بن سعد ، سعد بن عبادہ ( قبیلہ خزرج کے سردار ) کا مخالف ہے ۔

اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ہوئے بولے:

” میری درخواست ہے کہ مھربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرہیز کیجئے میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ہوں ، بہتر ہے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیجئے“

عمرو ابوعبیدہ دونوں نے کھا:

ہمارے لئے ہرگز یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسی شخصیت کے ہوئے ہوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ہم اپنے ہاتہ میں لے لیں ۔ مھاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نہیں ہے ۔ آپ غار ثور میں پیغمبر کے ہمنشین تھے ،آپ نے پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائی ہے اور آپ کی مالی حالت بھی بہتر ہے ، اپنے ہاتہ کو آگے بڑھائے تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔

یہاں پر حضرت ابو بکر نے بلاکسی تکلف کے بغیر کچھ کھے اپنا ہاتہ پھیلادیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھادیا ، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

لیکن اس سے پہلے کہ عمر ، ابو بکر کے ہاتہ پر بیعت کرے ، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور حضرت ابو بکر کے ہاتہ پر دوسروں سے پہلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے حضرت ابو بکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گھری دراڑ پڑگئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ہوچکا تھا ۔ اس طرح انصار کی ناکامی قطعی ہوگئی۔

حباب بن منذر ، بشیر کی بیعت ( جو خود انصار میں سے تھا ) پر آگ بگولا ہوگیا اور فریاد بلند کرتے ہوئے بولا: بشیر ! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بھائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نہیں دیا۔

بشیر نے کھا:

ھر گز ایسا نہیں ہے بلکہ میں یہ نہیں چاہتا تھاکہ خدا نے جو حق گروہ مھاجر کےلئے مخصوص کیا تھا ، اس پر جھگڑا برپا کروں۔

” اسید بن حضیر“ قبیلہ اوس کا سردار__جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا__ اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ہوکر بولا :

اٹھوا اور ابو بکر کی بیعت کرو ، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتہ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ہم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔

اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نہیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کی بیعت کےلئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔

ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ہوئے کھا:

خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا ! اس کا خیال کرو!

لیکن حضرت عمر اس بے احترامی سے خوش ہوئے اور کھا :

خدا اسے موت دے ، کیونکہ ہمارے لئے ابو بکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے !

خود حضرت عمر جب بعد میں سقیفہ کا ماجرا بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے :

اگر ہم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک دیتے تو ممکن تھا ہمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے ۔

بالآخر سقیفہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کے انتخاب کے اوپر ختم ہوا اور حضرت ابو بکر مسجد رسول کی طرف بڑھے جبکہ حضرت عمر ، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انھیں اپنے درمیان میں لئے ہوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا(۵۰)

____________________

۴۳۔آل عمران /۱۵۴۔

۴۴۔آل عمران : ۱۴۴

۴۵۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔

۴۶۔الامامة و السیاسة ج ۱، ص ۵

۴۷۔ الامامة و السیاسة ج ۱ ، ص ۵۔

۴۸۔انصار نے دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوہن ، یہ تجویز ہماری کمزوری کی نشانی ہے

۴۹۔ آیندہ بحث میں اس سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ہوگی۔

۵۰۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج۳،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج۱، اور شرح ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۲ ۔۶۰ سے نقل کیا گیا ہے ۔


7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18