امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 18689
ڈاؤنلوڈ: 3187

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18689 / ڈاؤنلوڈ: 3187
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

بائیسویں فصل

حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ"قرآن و عترت کا باہم اٹوٹ رشتہ

حدیث ثقلین(۱۶۶) اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ہے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ہے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ہیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نہیں کر سکتا ۔

علمائے اہل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کی گواہی یہاں نقل کرتے ہیں:

”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس(۱۲۰) سے زیادہ صحابیوں نے

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ہے ۔(۱۶۷)

ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس(۲۰) سے زیادہ طریقوں سے نقل ہوئی ہے(۱۶۸)

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال ۱۳۰۶ء ہ میں ہوا ہے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اہل سنت کی ۵۰۲ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ہو چکی ہے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔

اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ہے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نہیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ہے

انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ماان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض

”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع) ہیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ،یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“

البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ہوئی ہے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ہے کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:

هٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان(۱۶۹)

”یعنی یہ علی ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ہمراہ ہے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے“

مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے اور اس کی صحت پر گواہی دی ہے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اہل بیت(ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ہے ۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم(۱۷۰) میں۔منبرپر(۱۷۱) ، اور بستر بیماری پر(۱۷۲) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ہے

اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ہے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔

حدیث ثقلین کا مفاد

حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ہیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ہے وہ قرآن کی ہی طرح ( جسے خدا وند عالم نے ہر طرح کی

تحریف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔

دوسرے لفظوں میںیہ جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ دونوں الٰہی حجتیں اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ،ہمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ہر طرح کی کجی و انحراف سے دور ہیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناہگار انسان کی اطاعت ہم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنھا وہی گروہ ہو سکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ،امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رہنا ہے ۔آگے بھی ہم عقل کی روشنی میں الٰہی پیشواؤںاور رہبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراہم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اہل بیت (ع)قرآن کی طرح ہر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ہیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ہے لھٰذا انھیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ہونا چاہئے۔

امیر المومنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج “ کے مولف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ہیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ہیں)نقل کرتے ہیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ہو اجس میں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رہا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ہوئے سب کی باتیں سن رہے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

یا ایها الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی فتمسکوا بهما لاتضلوا

” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رہا ہوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہر گز گمراہ نہ ہوگے ۔(۱۷۳)

مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہیں ہیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ہے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں اگر ہم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اہل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نہیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہو سکتے ہیں جو ہر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہیں اور امت کے درمیان طہارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ہیں اور لوگ انھیں نام و نشان کے ساتھ پہچانتے ہیں۔

ایک نکتہ کی یاد دھانی

اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ہو چکا اور ہم نے دیکھا کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہر جگہ" کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ہے اور ان دو الٰہی حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ہے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کہیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ہو اہے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ہوا ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ہے اور اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ہے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ہے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ہے ۔

ہمیں اس وقت اس سے سرو کار نہیں کہ یہ توجیہ درست ہے یا نہیں ۔جو بات اہم ہے یہ ہے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے وہ وہی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ہوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہیں ہوئی ہے ۔اور جو شھرت و تواتر پہلی بایوں کھا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے۔

عترت پیغمبر سفینہ نوح کے مانند

اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اہل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاہے۔

سلیم ابن قیس نے لکھا ہے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میںموجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز میں کہہ رہے ہیں:

اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتاہے اور جو نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ"

”ان مثل اہل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“

میرے اہل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ہے کہ جو شخص اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ہوگیا.(۱۷۴)

حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ہے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ہے

کتاب عبقات الانوار(۱۷۵) کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اہل سنت کے نوے /۹۰ مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ہے.(۱۷۶)

حدیث سفینہ کا مفاد

حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ہے ۔

اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاہیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ہدایت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ہے ؟

جولوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت (ع)پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ہیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نھیںکرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔

لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ہونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی

قیادت و سرپرستی کے لئے اہل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اہل بیت (ع)کی عصمت و طہارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کی بھترین گواہ ہے،کیونکہ ایک گناہگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراہوں کی ہدایت کرسکتا ہے ؟!

حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رہبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کہیں زیادہ ہیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نہیں جاسکتے لھٰذا ہم اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ہیں جو الٰہی رہبروں کے لئے بنیادی شرط ہے ۔

____________________

۱۶۶۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ہیں کوئی بہت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.

۱۶۷۔فیض القدیر ،ج/۳ص/۱۴

۱۶۸۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث ۱۳۵

۱۶۹۔ ینابیع المودة ص/۳۲وص/۴۰

۱۷۰۔ مستدرک ،حاکم ،ج/۳ص/۱۰۹ وغیرہ

۱۷۱۔ بحار الانوار ج/۲۲ص/۷۶نقل از مجالس مفید

۱۷۲۔ الصواعق المحرقہ ،ص/۷۵

۱۷۳۔احتجاج ج/۱،ص/۲۱۰

۱۷۴۔احتجاج طبرسی،ص/۲۲۸

۱۷۵۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/۹۱۴کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۶۔ مستدرک حاکم ،ج/۳،ص/۳۴۳۔کنز العمال ،ج/۱،ص/۲۵۰۔صواعق،ص/۷۵۔ فیض القدیر،ج/۴،ص/۳۵۶۔

تیئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ہونا کیسے ممکن ہے

کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رہبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ہے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پہلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ہے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پہلوؤں میں !! جو صرف الٰہی رہبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ہے؟

سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ہیں یا اقتصادی مسائل کے ماہرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ہاتہ میں رکھتے ہیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر -----جو انھیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ہیں -----ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ہی نہیں کر سکتے ۔

اگر ایسا ہی ہے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاہئے کہ انبیائے الٰہی اور ان کے حقیقی جانشینوں ----- جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رہبر ہیں -----میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ہونے چاہئےںجو ان کی رہبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ہی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ہے۔

آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ہیں:

۱)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رہنا۔

۲)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رہنا ۔ اس سے پہلے کہ الٰہی رہبروں کے لئے عصمت کے لازم ہونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ہے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رہتا ہے۔

عصمت کیا ہے؟

عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ہے جو اپنے حامل کو گناہ ہی سے نہیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ہے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص تمام گناہوں سے محفوظ رہے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ہر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ہے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ہو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ہوتے ہوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ہو جائے گا ۔ ذہن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

ھم میں سے ہر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ہماری جان جانے کا خطرہ ہوتاہے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ہیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ہے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ہمیں حاصل ہے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور ہر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ہوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررہے ہیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ہے۔

زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ہے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ہوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ہوئی غذا کے مقابل-- جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ہوئی ہو-- جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاہے۔یعنی وہ ہرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نہیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ہونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رہنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ہونا ہے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ہوجاتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذہن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نہیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

ھم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نہیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرہیز کرتا ہے ۔پھلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کھا جاتاہے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرہیز کرتاہے؟

اس کاسبب یہ ہے کہ پہلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نہیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ہے جب بھی تیزی سے تمام ہوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ہےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاہوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ہے کہ مال یتیم کا ہر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ہوتا ہے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نہیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ہے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاہے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رہتاہے۔

اگر پہلے شخص کو بھی ایسا ہی علم اور ایسی ہی آگاہی حاصل ہوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ہیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نہیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ہے :یہی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پہلووں اور پشت کو داغا جائے گا۔(۱۷۷)

اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ہوا،اس کے بعد انھیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کروگے تو تمھارا بھی یہی انجام ہوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ہوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰہی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ہیں جو دیکھی ہوئی چیز پر ایمان سے کم نہیں ہوتا ۔یہاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاہوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رہتا ہے ،یعنی ہر گز سونا چاندی اکٹھا نہیں کرتا ۔

اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاہی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناہوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ہی حالت رکھتا ہو اور گناہوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ہو کہ مادی حجاب نگاہوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نہیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناہوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ہے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نہیں ہوتے بلکہ انھیں گناہ کا خیال بھی نہیں آتا۔

لھٰذا یہ کھنا چاہئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ہوتی ہے ْاور ہر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ہے مگر انبیائے الٰہی اعمال کے انجام سے مکمل آگاہی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناہوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ہیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب، خواہشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نہیں کرتے ۔

آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ہے کہ یہ صحیح ہے کہ انبیائے کرام گناہ اور ہر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ہیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ہیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ہیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انھیں قدرت حاصل ہے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے -- جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انھیں حاصل ہوئی ہیں -- اعمال کے نتائج و انجام کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور ان نتائج سے جنھیں شریعت کی زبان میں عذاب کھا جاتا ہے ،واقف و آگاہ رہتے ہیں، لھٰذا ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا وند عالم ہر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ہے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نہیں ہوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ہو اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ہر شئے پر قادر ہے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یہی کیفیت رکھتے ہیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نہیں جاتے۔

____________________

۱۷۷۔ ”یوم یحمیٰ علیها فی نار جهنم فتکویٰ بها جباههم و ظهورهم هذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون “ سورہ توبہ /۳۵