امت کی رہبری

امت کی رہبری22%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21215 / ڈاؤنلوڈ: 4668
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

نویں فصل

اسلام میں مشورہ

اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں کہ مشورہ کے ذریعہ بہت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ہوتی ہیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ہوجاتی ہے۔

مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اہم ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاہے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاہے:

( وشاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله ان الله يحب المتوکلین ) (۳۰)

یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاہے:

( والذین استجابوالربهم واقامواالصلوٰةوامرهم شوریٰ بینهم ومما رزقناهم ینفقون ) (۳۱)

یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیںاورنمازقائم کرتے ہیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ہے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔

لھٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور کیا اچھا ہو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاہے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نہیں ہواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ہم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یہی ں سے واپس ہوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اہم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔(۳۲)

اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ہی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باہر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔(۳۳) جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔(۳۴)

طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔(۳۵)

لیکن اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہ خیالات ہی مشکلات کاحل ہے یا یہ کہ پہلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ہو۔

معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ہیں اور ہرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ہوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ہے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ہے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔

اتفاق سے وہ پہلی ہی آیت جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ہے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ہے :”فاذا عزمت فتوکل علی الله “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رہی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ہے لھٰذا پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

جمعیت کا پیشوا و رہبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ہے ممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بہتر ہو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پہلووں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نہیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔

اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ہے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا اجرا کرنے والا ہے - میںزمین آسمان کا فرق ہے۔یہاں حکومت کارئیس وحاکم جوخود پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاہے وہ اہل مجلس کی رائے کے ،موافق ہو یا مخالف ،خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ہے۔اور یہ پہلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاہے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔

دوسری آیت کا مطلب بھی یہی ہے۔دوسری آیت تبادلہ خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ہے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ہرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نہیں تھا اور عقل یہ کھتی ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نہیں رہنا چاہئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررہی ہے جنھوں نے حاکم ورہبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ہے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔

اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض علمائے اہل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے ۔کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ہےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پہلے سے حل ہوچکی ہے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ہیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ خیال کریں ، خاص طور سے پہلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رہبر ہیں۔خطاب کرتی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ہے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ہو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ خیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ہیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ہے اس میں مشورہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاخر عن حصنھم“(۳۶) یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰہی حکم ہے تو ہم تسلیم ہیں اور اگر ایسی بات ہے کہ ہم اس میں اپنی رائے دے سکتے ہیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ہی بھلائی ہے۔

حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ہے جسے بہت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بہت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاہے۔پھر اب مشورہ کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ہے کیا معنی رکھتا ہے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نہیں ہے؟

قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے : جب پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بہت بری لگی کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔

مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ہمارے نظریات کے پیرو ہوں گے اور ہمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاہلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے حکم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ہے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ہو ۔قرآن فرماتا ہے :

( وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالا مبینا ) (۳۷)

”یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں ہے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ہوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے“

____________________

(۳۰) آل عمران /۱۵۹

(۳۱) شوریٰ /۳۸

(۳۲) سیرہ ابن ہشام ، ج/۱ص/۶۱۵ ،مغازی واقدی ص/۴۸

(۳۳) سیرہ ابن ہشام ، ج/۲،ص/۶۳ ،مغازی واقدی،ج / ،۱ ص/۲۰۹

(۳۴) تاریخ کامل ،ج/۲ص/۱۲۲

(۳۵) مغازی واقدی ،ج/۳ص/۹۲۵

(۳۶)مغازی ،واخدی،ج/۳ ص/۹۲۵

(۳۷) احزاب /۳۶

دسویں فصل

یکطرفہ فیصلہ نہ کریں

اسلام میں وہ تنھا خلیفہ، جو مھاجر و انصار کی قریب با اتفاق اکثریت سے منتخب ہوا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام تھے ۔ اسلامی خلافت کی تاریخ میں یہ امر بالکل بے نظیر تھا اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی ۔

اس دوران جب معاویہ ( جس نے مدتوں پہلے شام میں اپنی بادشاہت اور مطلق العنانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور خاندان رسالت کے ساتھ دیرینہ اور عمیق بغض و عداوت رکھتا تھا ) اس امر سے آگاہ ہوا کہ مھاجرین و انصار نے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا ہے ،تو سخت برہم ہوا اور امام(ع)سے بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ہوا ۔ اس نے نہ صرف امام(ع)کی بیعت کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت(ع)پر حضرت عثمان کے قتل اور اس کے قاتلوں کی حمایت کی تھمت بھی لگادی!

امام (ع)، معاویہ کو خاموش کرنے اور اس کےلئے ہر قسم کے عذر کے راستوں کو مسدود کرنے کےلئے اپنے ایک خط میں اسے تحریر فرماتے ہیں کہ :

”وہی لوگ جنھوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، میری بھی بیعت کرچکے ہیں، اگر ان کی خلافت کو اس لحاظ سے قابل احترام سمجھتے ہو کہ مھاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی تو یہ شرط میری خلافت میں بھی موجود ہے“۔

امام(ع) کے خط کا متن :

”انه بایعنی القوم الّذین بایعوا ابابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوهم علیه فلم یکن للشاهد ان یختار و لا للغائب ان یرد و إنّما الشوریٰ للمهاجرین و الانصار اجتمعوا علی رجل و سموه إماماً کان ذلک ( لله ) رضا“ (نھج البلاغہ ، خط نمبر/۶)

” جن افراد نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ، وہ میرے ساتھ بھی بیعت کرچکے ہیں اس صورت میں مدینہ میں حاضر شخص کو کسی اور کو امام منتخب کرنے اور مرکزِ شوریٰ سے دور کسی فرد کو ان کا نظریہ مسترد کرنے کا حق نہیں ہے ۔ شوریٰ کی رکنیت صرف مھاجر و انصار کا حق ہے۔ اگر انھوں نے کسی شخص کی قیادت و امامت پر اتفاق نظر کیا اور اسے امام کھا ، تو یہ کام خدا کی رضا مندی کا باعث ہوگا۔

امام علیہ السلام کے اس خط کا مقصد ، معاویہ کو خاموش کرنے ، اس کی ہر قسم کی بھانہ تراشی اور خود غرضی کا راستہ بند کرنے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں”مجادلہ احسن“ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ معاویہ شام میں حضرت عمر اور اس کے بعد حضرت عثمان کی طرف سے مدتوں گورنر رہ چکا تھا اور انھیں خلیفہ رسول اور اپنے آپ کو ان کا نمائندہ جانتا تھا ۔ ان حضرات کی خلافت کا احترام اسی جھت سے تھا کہ وہ مھاجر و انصار کی طرف سے منتخب ہوئے تھے ، اور بالکل یہی انتخاب واضح اور مکمل صورت میں امام علیہ السلام کے حق میں بھی انجام پایا تھا س لئے کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کیا جائے۔

امام علیہ السلام نے قرآن مجید میں حکم شدہ مجادلہ کے ذریعہ(۳۸) اپنی خلافت کے بارے میں معاویہ کی مخالفت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :

”جنھوں نے ابو بکر اور عمرو عثمان کی بیعت کی تھی ، وہی میری بیعت بھی کرچکے ہیں، لھذا اب تم میری خلافت کو جائز کیوں نہیں سمجھتے ہو؟“

مجادلہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ جس چیز کو مخالف مقدس اور محترم جانتا ہو اسے استدلال کی بنیاد قرار دیکر مخالف کو اسی کے اعتقاد کے ذریعہ شکست دی جائے۔ اس لحاظ سے ، یہ خط ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام علیہ السلام مھاجرین و انصار کی شوریٰ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو سو فیصد صحیح جانتے تھے اور امام(ع)کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ خلیفہ کا انتخاب مھاجرین و انصار کی مشورت کے ذریعہ ہی انجام پانا چاہئے اور مسئلہ امامت ہرگز ایک انتصابیمسئلہ نہیں بلکہ انتخابی مسئلہ ہے۔

اگر امام علیہ السلام کا مقصد یہی ہوتا ، تو انھیں اپنے خط کو گذشتہ تین خلفاء کی بیعت کی گفتگو سے شروع نہیں کرنا چاہئے تھا ، بلکہ انھیں ان خلفاء کی خلافت کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی بات کویوں شروع کرنا چاہئے تھا :

”مھاجرین و انصار نے میری بیعت کی ہے اور جس شخص کی وہ بیعت کرلیں وہ لوگوں کا امام و پیشوا ہوگا “

یہ جو امام بعد والے جملوں میں فرماتے ہیں :”فان اجتمعوا علی رجل و سموه اماماً، کان ذلک ( لله ) رضا “ تو یہ احتجاج بھی مخالف کے عقیدہ کی روشنی میں ہے اور کلمہ ”الله“ نھج البلاغہ کے صحیح نسخوں میں موجود نہیں ہے بلکہ مصر میں چھپے نسخوں میں بریکٹ کے اندر پایا جاتا ہے (اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام(ع)کے خط میں اس کلمہ (الله) کے ہونے میں شک پا یا جاتا ہے ) حقیقت میں امام(ع)فرماتے ہیں کہ : اگر مسلمان اپنے پیشوا کے انتخاب میں ایک فرد پر اتفاق کریں ، تو ایسا کا م پسندیدہ ہے ، یعنی تم لوگوں کے عقیدہ کے مطابق یہ کام پسندیدہ اور رضا مندی کا باعث ہے اور یہی کام تو میرے بارے میں انجام پایا ہے ، اب کیوں میری بیعت کرنے میں مخالفت کرتے ہو؟

سب سے پہلا شخص ، جس نے اس خطبہ سے اہل سنت کے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں استدلال کیا ہے ، شارح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ہے ۔ اس نے اس خط میں اور نھج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں موجود قرائن کے سلسلہ میں غفلت کے سبب اس سے اہل سنت کے نظریہ کی حقانیت پر استدلال کیا ہے اور امام(ع)کے فرمائشات کو ایک سنجیدہ امر سمجھتے ہوئے اسے آپ(ع)کا عقیدہ تصور کیا ہے(۳۹) ۔ شیعہ علما ء جب بھی اس خطبہ کی شرح پر پھنچتے ہیں تو انھوں نے وہی مطلب بیان کیا ہے جس کا ہم اوپر اشار کرچکے ۔

تعجب ہے کہ احمد کسروی نے اپنی بعض تحریروں میں اس خطبہ کو بنیاد بنا کر اسے شیعوں کے عقیدہ کے بے بنیاد ہونے کی دلیل قرار دیا ہے اور اس سے بڑہ کر تعجب ان لوگوں پر ہے جو ان دو افراد کی باتوں کو نیا روپ دیگر اسے دھوکہ کھانے والوں کے بازار میں ایک نئی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ہر زمانے میں مذہب تشیع کے ایسے محافظ موجود ہوتے ہیں جو خودغرضوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیتے ہیں ۔

یک طرفہ فیصلہ نہ کریں !

کسی فیصلہ کےلئے خود سری سے کام نہیں لینا چاہئے اور ” نھج البلاغہ “ میں موجود امام (ع)کے دوسرے ارشادات سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ امام علیہ السلام کے تمام بیانات سے استفادہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرناچاہئے ۔

یہی امام جو اس خط میں لکھتے ہیں :

” جن لوگوں نے گذشتہ تین خلفا کی بیعت کی تھی ، انھوں نے میری بھی بیعت کی ہے اور جب کبھی مھاجر و انصار کسی کی امامت کے بارے میں اتفاق رائے کا اظھار کریں ، تو وہ لوگوں کا پیشوا ہوگا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے“۔

خلافت خلفاء کے بارے میں خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں :

” خدا کی قسم ! فرزند ابو قحافہ نے پیراہن خلافت کو کھینچ تان کر پھن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا خلافت کی چکی میرے وجود کے گرد گردش کرتی ہے اور میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے ۔ میں وہ (کوہ بلند ) ہوں جس سے علوم و معارف کا سیلاب نیچے کی طرف جاری ہے اور کسی کے وہم و خیال کا پرندہ بھی مجھ تک نھیںپھنچ سکتا ۔ لیکن میں نے جامہ خلافت کو چھوڑ دیا اور اس سے پہلو تھی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں (کسی ناصر و مددگار کے بغیر ) سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں ، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مؤمن اس میں رنجیدہ ہو تا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے پروردگارکے پاس پھنچ جاتا ہے مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا۔ لھذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں میں ( غم و اندوہ کے تنکے کی) خلش تھی اور حلق میں ( غم و رنج کی ) ھڈی پھنسی ہوئی تھی ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکہ رہا تھا ، یہاں تک کہ پہلے ( ابو بکر ) نے اپنی راہ لی اور وہ اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔ تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کےلئے استوار کرتا گیا۔ ان دونوں نے خلافت کو دو پستانوں کے مانند آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت جگہ قرار دے دیا ۔

آپ نے مزید فرمایا : ” یہاں تک کہ دوسرا (عمر ) بھی اپنی راہ لگا ، اور اس نے خلافت کا معاملہ ایک جماعت کے حوالے کردیا ۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد قرار دیا ۔ اے الله ! میں تجہ سے اس شوریٰ کی تشکیل اور اس کے مشورہ سے پناہ مانگتا ہوں جبکہ انھوںنے مجھے بھی اس کا ہم ردیف قرار دے دیا ۔ ۔(۴۰)

امام علیہ السلام اپنے ایک خط میں اپنی مظلومیت اور آپ(ع)سے بیعت لینے کے طریقے پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں__جس میں اس نے حضرت(ع)کو لکھا تھا کہ انھیں اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچنے کی صورت میں ابو بکر کی بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لے گئے تھے__لکھتے ہیں :

” تم نے لکھا تھا کہ : مجھے اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالکر کھینچنے کی صورت میں بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لئے گئے تا کہ میں بیعت کروں ۔ خدا کی قسم تم نے چاہا کہ میری ملامت کرو لیکن اس کے بجائے تم میری ستائش کر گئے ہو اور مجھے رسوا کرنا چاہتے تھے لیکن خود رسوا ہوگئے ہو ( کیونکہ تم میر ی مظلومیت کا واضح طور پر اعتراف کرگئے ہو ) کیونکہ مسلمان کےلئے__ جب تک اس کے دین میں شک اور یقین میں خلل نہ ہو __مظلومیت اور ظلم و ستم سھنے میں کوئی عار نہیں ہے “(۴۱)

کیا امام(ع)کی اپنی مظلومیت کے بارے میں اس صراحت کے باوجود کہ آپ(ع)سے زورز بردستی اور جبراً بیعت لی گئی ہے ، یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ(ع) نے خلفاء کی خلافت کی تائید کی ہوگی اور ان کو امت کے امام و پیشوا کے طور پر تسلیم کیا ہوگا ؟ ہر گز نہیں ، لھذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زیرِ بحث خط میں آپ(ع)کا مقصد مجادلہ اور طرف کو لاجواب کرنا تھا ۔ امام علیہ السلام اپنے ایک اور خط میں __جسے آپ(ع)نے اپنے گورنر مالک کے ہاتہ مصر بھیجا تھا __لکھتے ہیں : ” خدا کی قسم ! میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عرب پیغمبر کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان سے نکال کر کسی دوسرے کو سونپ دیں گے اور ہمیں اس سے محروم کردیں گے ۔ ابو بکر کی بیعت کےلئے لوگوں کی پیشقدمی نے ہمیں رنج و مصیبت میں ڈالدیا “(۴۲)

____________________

۳۸۔(وجادلهم بالتی هی احسن )(نحل/ ۱۲۵)

۳۹۔۱۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴، ص ۳۶

۴۰شرح نھج البلاغہ ، ج۱ ، خطبہ شقشقیہ ۔

۴۱و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اردت ان تذم فمدحت ، و ان تفضح فافتضحت و علی المسلم من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینه و لا مرتاباً بیقینه “ ( نھج البلاغہ ، خط ۲۸)

۴۲۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج هذا الامر من بعده صلی اللّٰه علیه وآله وسلم عن اهل بیته ولا انّهم منحوه عنی من بعده فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونه. .“ (نھج البلاغہ ، خط ۶۲ )

دوسرا باب

خدا کی پہچان

خدا کے بارے میں

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے اور بے مثل ہے، وہ ہمیشہ تھا اور اب بھی ہے، وہ اول و آخر ہے یعنی کائنات سے پہلے بھی تھا اور کائنات کے خاتمے کے بعد بھی رہے گا۔ وہ زندہ ، عقلمند، طاقتور بے نیاز، سننے والا، دیکھنے والا، جاننے والا اور انصاف کرنے والا ہے، لوگ جن الفاظ سے مخلوقات کی تعریف کرتے ہی اس کی توصیف نہیں کرسکتے، وہ جسم نہیں ہے جو جگہ گھیرے ، نہ اس کی کوئی شکل و صورت ہے، وہ نہ جو ہر ہے (جوہر سے مراد وہ شے ہے جس می اَبعادِ اربعہ یعی لمبائی، چوڑائی، گہراءی اور وقت پائے جائیں مثلاً پتھر ، لکڑی اور گائے وغیرہ)نہ عرض ، (عرض سے مراد ہے کسی شے پر طاری ہونے والی طرح طرح کی کیفیات مثلاً رنگت، نرمی اور سختی وغیرہ)یعنی اس کے متعلق حرکت سکو ن بھاری پن ، ہلکے پن، چال، ٹھیراؤ، جگہ اور وقت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے وہ اپنا مثل ، مقابل ، مانند ، بیٹا، ساتھی اور ساجھی نہیں رکھتا۔ کو ۴ ی اس جیسا نہیں ہے ، آنکھی اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے ۔

جو کوئی خلقت میں خدا کا شریک مانے یا اس کے لیے شکل ہاتھ اور آنکھ کا تصور کرے یا یہ مانے کی خدا دنیا کے آسمان پر اترتا ہے بہشت والوں کے سامنے چاند کی طرح ظاہر ہوتا ہے، وہ شخص ایسے انسان کی طرح ہے ، جس نے کفر کیا اور خدا کو۔۔۔۔ کو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے ۔۔۔۔ نہیں پہچانا۔(اسی طرح جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا قیامت کے دن اپنے آپ کو اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گا اور اس کے بندے اسے دیکھیں گے انہوں نے کفر کیا، چاہے وہ زبان سے یہ کہتے رہیں کہ خدا جسم نہیں رکھتا، انسانوں کا یہ گروہ قرآن یا حدیث کے بعض لفظوں کے ظاہر پر رک گیا ہے یا اکتفا کر بیٹھا ہے اور ان لوگوں نے قرآنی آیات سمجھنے می سوچ بچار کی قوت سے بالکل کام نہیں لیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ غلط سوچ اس بات کا سبب بن گئی کہ اب یہ قرآنی آیات کے ظاہر میں اتنا سا تصرف کرنے (یعنی حقیقی اور مجازی معنوں می تمیز) کی بھی قوت نہیں رکھتے کہ انہیں خیال ، دلیل اور قواعد کے مطابق ""استعارہ"" اور ""مجاز"" کہہ سکیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سوچنے کے اس انداز ، جمود، کی بنا پر قرآ مجید کے حقیقی معنیٰ نہیں سمجھ سکتے)

ہم چاہے کسی چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس پر خوب غور بھی کریں لیکن ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ ہماری ہی طرح کی مخلوق ہوتی ہے اور اس کی ہستی ہماری ہی ہستی کی طرح ہوتی ہے ۔ امام باقر ؑ نے اس بات کو اس طرح سمجھایا ہے۔

اس بات کی کتی فلسفیانہ ، علمی ، نازک اور جچی تلی تشریح ہوئی ہے؟

تَوحِید

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر طرح سے یقیناً ایک ہے۔ جس طرح وہ اپنی ذات کے لحاظ سے ایک ہے، اسی طرح ""واجب الوجود"" ہونے کے اعتبار سے بھی ایک ہے کیونکہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ہوتی ہیں (جیسا کہ ہم اس بات کا مطلب سمجھائیں گے) وہ اپنی ذاتی صفات میں اپنا مثل اور مانند نہیں رکھتا یعنی علم اور قدرت میں لاثانی ہے اور خالق اور رازق ہونے کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ تمام خوبیو میں بے مثل ہے۔

اسی طرح خدا کی ذاتی اور صفائی توحید پر ایمان رکھنے کے بعد ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا کی عبادت میں بھی توحید ہے ، اس لیے خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ہم کسی کو خدا کے ساتھ اس کی عبادت میں (عبادت کی کوئی سی قسم ہو) اس کا شریک بنائیں ، چاہے واجب عبادت ہو چاہے غیر واجب، نماز میں یا نماز کے علاوہ دوسری عبادتوں میں

(جو شخص اپنی عبادت میں خدا کے ساتھ غیر خدا کو بھی شریک کرے گا وہ مشرک ہوگا، اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی عبادت میں فریب دیتا ہے اور غیر خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ، ایسا آدمی شرع مقدس اسلام کی رو سے بت پرست کی طرح ہے اور ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (ناشر)

اس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لینا چاہیے کہ قبروں کی زیارت اور غم منانے کی مجلس قائم کرنا ایک بات ہے اور عبادت میں غیر خدا سے نزدیکی چاہنا دوسری بات اس لیے کہ اعمال کی یہ قسم خدا کے لیے ایسے تقرب کی قسموں می سے ہے جو اچھے اعمال کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے جیسے بیمار کی خیرت پوچھنا، جنازے کے ساتھ ساتھ چلنا، ہم مذہبوں سے ملاقات کرنا اور حاجت مندوں کی مدد کرنا۔

مثال کے طور پر بیمار کی مزاج پرسی ایک نیک کام ہے جس کے وسیلے سے خدا کا نیک بندہ خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مریض کی عیادت خودع اس سے نزدیکی کے لیے ہو اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ عبادت غیر خدا کی ہو یا ہم خدا کو غیر خدا کے ساتھ عبادت میں شریک کرلیں اسی طرح قبروں کی زیارت، عزاداری کی مجلسیں برپا کرنا ، جنازے کے ساتھ چلنا اور ہم مذہب بھائیوں کی ملاقات وغیرہ کو بھی دوسرے اچھے اعمال کی طرح سمجھنا چاہیے۔ (ہم نے جو یہ کہا ہے کہ قبروں کی زیارت اور سوگ کی مجالس قائم کرنا شریعت کے اعمال ہیں تو یہ امر علم فقہ میں ثابت ہوچکا ہے ۔ چنانچہ یہاں ان پر بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں ہے۔ اس جگہ ہمارا مقصد صرف یہ سمجھا دینا ہے کہ یہ اعمال ہرگز ہر گز خدا کی عبادت میں شرک کے مثل نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں) (ناشر)

جن سے خدا کا تقریب مقصود ہوتا ہے نہ کہ غیر خدا (مریض ، میت اور سوگوار) کا تقریب۔

اماموں کی قبروں کی زیارت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے نام اور طریقے کو زندہ کیا جائے، ان کی یاد تازہ کی جائے اور خدا کے شعائر کا احترام کیا جائے جیسے وہ قرآن مجید میں فرماتا ہے

( وَمَن یُّعَطِّم شَعَآئِرَاللهِ فَاِنَّهَا مِن تَقوَی القُلُوبِ ) ۔

جو شخص اللہ تعالی کے شعائر اور نشانیوں کو بزرگ سمجھتا ہے اور ان کا احترام کرتا ہے تو ایسا کام دلوں کی پاکیزگی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ (سورہ حج ۔ آیت ۳۲)

شریعت کی رو سے اس قسم کے تمام کاموں کی نیکی اور شائستگی ثابت ہے، جب انسان یہ اعمال خدا کے تقرب کے خیال سے بجالاتا ہے اور ان کے وسیلے سے خدا کی خوشنودی چاہتا ہے تو اسے اس کا انعام بھی ضرور ملے گا۔

خدا کی صفات

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کی حقیقی ثبوتی صفات جنہیں ، کمال اور جمال کی صفات کہا جاتا ہے مثلاً علم ، قدرت، بے نیازی، ارادہ اور حیات خدا کی عی ذات ہیں، اس کی ذات سے الگ اور اضافہ نہیں ہیں، ان کا وجود خدا کی ذات کا ہی وجود ہے۔ اس لحاظ سے خدا کی قدرت ۔۔۔۔ اس کی ہستی کے نقطہ نظر سے ۔۔۔۔۔ وہی خدا کی حیات ہے اور خدا کی حیات وہی اس کی قدرت ہے۔ بلکہ خدا قادر ہے کیونکہ زندہ ہے اور زندہ ہے کیونکہ قادر ہے۔ خدا کی صفات میں دوئی نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کی تمام کمال اسی طرح ہیں۔

البتہ معنیٰ ومطلب کے لحاظ سے ان صفات میں باہمی اختلاف ہے (مثلاً خدا کا علم اس کی قدرت سے الگ ہے) لیکن یہ صفات وجود کی نظر سے ایک ہیں کیونکہ اگر وہ صفات یا ہستی کے لحاظ سے الگ الگ ہوں اور یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا کی صفات اس کی ذات کی طرح قدیم اور واجب ہیں (یادر رہے کہ علم کلام کی اصطلاح میں : جن چیزوں کی ہستی ناممکن ہو انہیں ممتنعُ الوجود کہتے ہیں، اور جو موجودات پہلے نہ ہوں اور بعد میں وجود میں آئیں انہیں ممکن والوجود کہتے ہیں اور وہ وجود جو قدیم و ازلی ہو اور ہر نقص و عیب سے پاک ہو اس کو واجب الوجود کہتے ہیں) (ناشر) تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ واجب الوجود بھی بہت سے ہوں اور پھر خدا کی ذات کی حقیقی وحدت ختم ہوجاتی ہے اور یہ بات خدا کی وحدانیت کے عقیدے کے خلاف جاتی ہے۔

خدا کی بعض صفات جو ثبوتی، اضافی اور نسبی ہیں مثلاً خدا کی خالقیت (پیدا کرنا) رازقیت (رزق دینا) تقدیم (قدیم ہونا) اور علیت (خدا کا تمام مخلوقات کی علت ہونا) یہ دراصل صرف ایک حقیقی صٖت میں جمع ہوجاتی ہیں جس کا مطلب تمام موجودات کے لیے خدا کا ""قَیِّم"" (اللہ تبارک و تعالی قیوم ہے یعنی تمام موجودات کا تکیہ اور بھر و ساہر وقت خدا پر ہے اور ہر وقت اس کی ہستی کے سہارے پر اپنی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں) ہونا ہے اور یہ قیومت ایک ایسی اکہری صفت ہے جس سے بہت سی صفات (مثلاً خالقیت اور رازقیت وغیرہ) منتزع ہوتی ہیں اور یہ انتزاع آثار اور تناسب کے لحاظ سے ہے۔

خدا کی تمام سلبی صفات کو جلالی صفات بھی کہتے ہیں یہ تمام صفات خدا کے ممکن الوجود ہونے کی نفی کرتی ہیں یعنی خداوند عالم ممکن الوجود کی صفات مثلاً جسم ، کیفیت ، حرکت، سکون، بھاری پن، ہلکاپن وغیرہ نہیں رکھتا بلکہ ہر نقص سے پاک ہے۔ خدا کا ممکن الوجود نہ ہونا دراصل اس کا واجب الوجود ہونا ہے اور خدا کا واجب الوجود ہونا بھی صفات ثبوتی میں سے ہے ۔ اس طرح صفات سلبی صفات ثبوتی کی طرف پلٹ آتی ہیں (صفات ثبوتی بن جاتی ہیں)۔ خدا ہر اعتبار سے ایک ہے ۔ اس کی پاک ذات میں کسی قسم کی کثرت نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ حقیقت میں خدائے واحد مرکب نہیں ہے۔

بعض لوگوں کی یہ بات نہایت حیرت انگیز ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کی صفات ثبوتیہ اس کی صفات سلبیہ کی طرف پلٹ آتی ہیں، یعنی صفات سلبیہ بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بات کے کہنے والے اس جملے کے معنی کہ ""خدا کی صفات اس کی عین ذات ہیں"" نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ تمام صفات ثبوتیہ کے معنیٰ سلب و نفی کی صورت سے نکالے جائیں تاکہ خدا کی ذات کی اکائی اور اس کی کثرت کا نہ ہونا ثابت ہوجائے لیکن انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ اس بات سے مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اس صورت میں ہم خدا کی پاک ذات کو جو عین وجود اور صرف وجود ہے۔ اور ہر قسم کے نقص اور امکان سے پاک ہے عین عدم اور نفی محض ٹھرا دیں گے ۔ خدا ہمیں خیالوں اور قلموں کی نعزشوں سے بچائے رکھے۔

اسی طرح ان لوگوں کا عقیدہ بھی حیرت ناک ہے جو کہتے ہیں کہ ""خدا کی صفات اس کی ذات پر اضافہ ہیں"" ۔ اس کے نتیجے میں لوگ وجود قدیم (بے اول) کی کثرت کے قائل ہوگئے ہیں یعنی ان ہی ذات و صفات کو ملا کر ان کے کتنے وجودوں کو قدیم ماننا پڑا ہے اور انہوں نے واجب الوجود خدا کے متعدد شریک ٹھرائے ہیں یا یہ لوگ خدا کے مرکب ہونے کے قائل ہوگئے ہیں۔

خدا کو ایک ماننے والوں کے سردار امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں:

وَکَمَالُ الاِخلاَصِ لَهُ نَفیُ الصِّفَاتِ عَنهُ

خدا کے متلعق اخلاص کامل یعنی توحید تنزیہی یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے کسی صفت (یعنی ذات پر اضافے) کے قائل نہ ہوں (نہج البلاغہ ۔ پہلا خطبہ)

کیونکہ ہر صفت (جیسے انسان کے لیے علم )یہ گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنے موصوف سے الگ ہے اور ہر موصوف یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت سے جدا ہے، جو شخص خدا کے لیے صفت (یعنی ذات پر اضافے) کا قائل ہوجاتا ہے وہ خدا کو ان صفات کے قریب اور ساتھ کر دیتا ہے اور جو خدا کو کسی شے کے قریب کر دیتا ہے اور وہ اسے ایک سے زیادہ فرض کر لیتا ہے اور جو اسے متعدد فرض کرلیتا ہے وہ اس کا تجزیہ کر دیتا ہے اور جو خدا کی پاک ذات کا تجزیہ کرتا ہے اس نے خدا کو نہیں پہچانا ہے۔

عدل الہٰی

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ثبوتی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ""عادل"" ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا، اپنی حکومت اور دادگستری میں کسی قسم کا ستم برداشت نہیں کرتا، اپنے احکام کی اطاعت کرنے والوں کو انعام دیتا ہے اور انصاف کرتا ہے ۔ وہ حق رکھتا ہے کہ گنہگاروں کو سزا دے۔ اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف (اطاعت کا حکم) نہیں دیتا اور ان کی سزاواری سے زیادہ انہیں سزا نہیں دیتا۔

ہمارااعتقاد ہے کہ خدائے بزرگ اچھا اور پسندیدہ کام اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ اس سے زیادہ پنسدیدہ کام اسے اس کی انجام دہی سے روک نہ دے اور خدا برا کام بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ نیک کام کرنے اور برا کام چھوڑ دینے پر اختیار رکھتا ہے اور اچھے کام کی اچھائی اور برے کام کی برائی سے واقف ہے۔ اسے کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ نیک کام نہ کرے اور برا کام کر ڈالے اور نیک کام سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا جس سے وہ اسے چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائے اور نہ اسے برے کام کی حاجت ہے کہ اسے انجام دے۔ اس لحاظ سے خدا دانا و حکیم ہے اس لیے یقیناً اس کے تمام کام دانائی اور قدرت کے نہایت کامل نظام کے تحت انجام پاتے ہیں۔

اگر خدا ظلم یا برے کام کرے (اور وہ باتوں سے بری ہے)تو ا چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے باہر نہیں ہے :۔

۱ ۔ خدا برے کام کی برائی سے واقف نہیں ہے

۲ ۔ برے کام کی برائی سے تو واقف ہے لیکن اسے کرنے پر مجبور ہے اور اسے چھوڑ دینے سے عاجز ہے۔

۳ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے اور اسے کرنے پر مجبور نہیں ہے لیکن اس کی انجام دہی کا محتاج ہے۔

۴ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے ، مجبور بھی نہیں ہے اور نہ اس کی انجام دہی کا محتاج ہے لیک خدا اس (طلم یا برے کام ) کو اپنے شوق، حماقت، شغل یا کھیل کے طور پر انجام دیتا ہے۔

خدا کے متعلق یہ تمام صورتیں ناممکن ہیں، کیونکہ یہ تمام کام خدا میں نقص کا سبب بنتے ہیں ، جب کہ خدا کی پاک ذات صرف کمال ہے نتیجہ یہ ہے کہ خدا ہر قسم کے ظلم اور برے کام سے بری ہے ۔

(اس حقیقت کے برعکس، مسلمانوں کے بعض فرقے خدا کے لیے برے کام انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے کہا بھی ہے کہ یہ بالکل جائز ہے کہ خدا اپنی اطاعت کرنے والوں کو سزا دے اور گنہگاروں بلکہ کافروں کو بہشت میں بھیج دے اور یہ بھی جائز ہے کہ خدا اپنے بندوں کی برداشت سے زیادہ فرض ان پر عائد کردے اور اس کے ساتھ ساتھ اس فرض کو ترک کرنے پر انہیں عذاب میں مبتلا کر دے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خداظلم و ستم ڈھائے ، جھوٹ بولے، فریب دے اور دانائی ، مقصد ، بھلائی اور کسی فائدے کے بغیر کام کرے، اس کی دلیل یہ ہے کہ خدا قرآ میں فرماتا ہے۔

لاَ یُسئَلُ عَمَّا یَفعَلُ وَهُم یُسئَلُونَ

خدا سے اس کے کاموں کی باز پرس نہیں ہوسکتی البتہ بندوں سے جواب طلبی ہوسکتی ہے (سورہ انبیاء : آیت ۲۳) ا(سے غلط عقیدے اور بے بنیاد خیالات رکھنے والے گروہ کے نزدیک خدا سے مراد ہے ظالم ، احمق ، بازی گر، جھوٹا، دھوکے باز، برا کام کرنے والا اور اچھا کام چھوڑ دینے والا لیکن خدا کی پاک ذات اس قسم کے نامناسب اتہاموں سے بری ہے۔ خدا پر یہ اتہامات خالص کفر بلکہ کفر کی بھی بدتری قسم ہیں)

خدا قرآن مجید کی واضح آیات میں فرماتا ہے

وَمَا اللهُ یُرِیدُ ظُماً لِّلعِبَادِ خدا اپنے بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔(سورہ مومن ۔ آیت ۳۱)

وَاللهُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۔ خدا فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۲۰۵)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقنَا السَّمَآءَ وَالاَرضَ وَمَا بَینَهُمَا لٰعِبِینَ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے تفریحاً پیدا نہیں کیا ہے۔ (سورہ ابنیاء ۔ آیت ۱۶)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقتُ الجِنّ َوَالاِنسَ اِلاَّلِیَعبُدُونِ ۔ہم نے انسانوں اور جنوں کو عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے ۔ (سورہ ذاریات ۔ آیت ۵۶)

(اور دوسری آیات ) اے خدائے بزرگ تو ہر نقص اور عیب سے پاک ہے اور تو نے اس پر اسرار کائنات کو بیکار ، فضول اور کسی مقصد کے بغیر پید انہیں کیا ہے۔

انسان اور فرائض

ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدائے بزرگ اپنے بندوں کو دلیلوں کے ذریعے سے اور سبب بتا کر مذہبی فرائض سے آگاہ کرتا ہے اور ان پر کوئی ایسا فرض بھی عائد نہی کرتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہو کیونکہ کسی پر ایسا فرض عائد کرنا کہ وہ کسی عذر کے بغیر اس سے مطلع نہ ہوسکے، یا جس کے انجام دینے سے عاجز ہو قطعاً ظلم ہے، البتہ وہ شخص کو دینی فرائض اور احکام سیکھنے اور یاد کرنے میں کوتاہی کرتا ہے خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اس سے باز پرس ہوگی اور اس کوتاہی پر سزا ملے گی ، کیونکہ ہر انسان پر واجب ہے کہ اپنی ضرورت بھر کے دینی احکام سیکھ لے۔

ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ دین کے احکام اور قوانی اور وہ باتیں جن میں بندوں کی بھلائی اور خوش بختی ہے بندوں تک پہنچاتا ہے اور ان فرائض کی تکمیل واجب کرتا ہے ، تاکہ اس ذریعے سے نیکی ، بھلائی اور اقبال مندی کے راستوں کی طرف ان لوگوں کی رہنمائی ہو اور فساد، تباہ کاری اور نقصان سے اور اس سے جو عاقبت کی خرابی کا سبب ہوسکتا ہے خبردار کرتا ہے ، اگرچہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ اطاعت نہیں کریں گے۔

وجہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے یہ رہنمائیاں بندوں پر اس کا لطف اور رحمت ہیں۔ بندے بھی اپنی دنیا و آخرت کی خوش بختی کے بیشتر طریقوں اور بھلائیوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے بہت سے معاملات سے جو ان کے نقصان اور گھاٹے کا سبب ہیں بے خبر ہوتے ہیں لیکن خداوندعالم بخشنے والا مہربان ہے،یہ مہربانی اور شفقت اس کا مطلق کمال اور اس کی عین ذات ہے۔ اس صفت کا اس سے الگ ہونا ناممکن ہے اور خدا کا یہ لطف اور رحمت مسلسل اور جاودانی ہے جو کسی وقت ختم نہیں ہوتا اگرچہ اس کے بندے (جہالت ، عناد اور خواہشات کی بنا پر) اس کی اطاعت سے منہ موڑ لیں اور اس کے حکم سے سرتابی کریں (اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی سعادت اور خوش بختی کی راہ مسدود کردیں)

قَضَا و قَدر

جو لوگ عقیدہ جبر کے قائل ہی وہ کہتے ہیں کہ خدا، انسان (اور باقی موجودات) کے کام خود کر دیتا ہے ۔ خدا ہی انسانوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو گناہ کرنے پر سزا بھی دیتا ہے! خدا انسان کا اطاعت کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کو اطاعت کرنے کا انعام بھی عطا کرتا ہے۔ دراصل مُجَبِّرہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کے کام تو خدا کرتا ہے۔ بس کاموں کی انجام دہی۔۔۔۔ مجاز کے طور پر ۔۔۔۔انسان سے منسوب کر دی جاتی ہے کیونکہ انسان کام کی انجام دہی کا ایک ذریعہ اور ایک سبب ہوتا ہے!

اس عقیدے کا نتیجہ موجودات میں علت اور معلول کے فطری تعلق سے انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا ہے کہ سبب کا اصلی اور حقیقی پیدا کرنے والا خدا ہے۔ باقی دوسرے کسی سبب یا علت کا کوئی وجود نہیں ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں نے اس وجہ سے موجودات میں فطری سبب کے رشتے سے انکار کر دیا ہے کہ ان کے گمان میں خالق (پیدا کرنے والے) اور بے شریک (تنہا) خدا پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہی ہے لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو وہ خدا کو ظالم قرار دیتا ہے جب کہ خدا ظلم سے بری ہے۔

کچھ دوسرے لوگ جنہیں ""مفوضہ"" کا نام دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے تمام اعمال انسان کو سونپ دیے ہیں اور ان اعمال سے اپنا اختیار اور ارادہ اٹھالیا ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں کی دلیل یہ ہے کہ انسان کے اعمال کو خدا سے منسوب کرنا گویا نقص اور عیب کو خدا سے منسوب کرنا ہے جبکہ اعمال کا اصلی سبب موجودات اور انسان ہیں حالانکہ تمام اسباب پہلے سبب (مسبب الاسباب) کی طرف پلٹتے ہیں جو خدا ہے۔

ہمارے عقیدے کی رو سے جو شخص ایسا سوچتا ہے وہ خدا کو اس کی خود مختار سلطنت سے بے دخل کر دیتا ہے اور موجودات کے پیدا کرنے میں اس کے غیر کو اس کا شریک بنا دیتا ہے۔

البتہ شیعوں کا نظریہ ائمّہ اطہار ؑ کی پیروی میں یہ ہے کہ نہ پہلا راستا (جبر) صحیح ہے نہ دوسرا (تقویض) بلکہ مقصود ان دونوں راستوں کے بیچ میں ہے اور وہ ان دونوں نظریات کے بیچ میں ایک درمیانی راستا ہے اور اس قدر نازک اور باریک ہے کہ مجبرہ ، مفوضہ اور متکلمی میں سے مناظر کرنے والے بھی اس کو سمجھنے سے عاجز ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ افراط کے راستے کی طرف نکل گئے اور کچھ دوسرے تفریط کی راہ پر چل پڑے، علم اور فلسفے نے صدیاں بیت جانے کے بعد اس باریک بات (امر بین الامرین) پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے،

اَمربَینَ الاَمرَین

واقعی مندرجہ بالاجملہ کس قدر بلند ہے اور کتنے باریک اور گہرے معنی رکھتا ہے اس کے معنی کا خلاصہ اس طرح پر ہے: ""ہمارے اعمال ایک طرح سے حقیقت میں خود ہمارے ہی اعمال ہیں۔ ہم ان کے وجود کا طبیعی سبب ہیں اور وہ ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں لیکن دوسری طرح سے یہی اعمال خدا کی قدرت اور حکومت کے سائے میں انجام پاتے ہیں کیونکہ اسے وجود میں لانے والا اور عطا کرنے والا وہی ہے""

نتیجہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ہمارے کاموں کے لیے مجبور نہیں کیا ہے جو ہم کہہ سکیں کہ وہ ہمارے کیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے ہمیں سزا دے کر ظلم کرتا ہے اس لیے کہ ہم اپنے اعمال پر اختیار رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف اس نے اعمال کی انجام دہی پورے طور پر ہم پر بھی نہیں چھوڑی ہےکہ ہم ان اعمال کو اس کی حکومت اور قبضے سے باہر لے جاسکیں بلکہ خلقت اور حکومت اسی خدا کی ہے اور وہی تمام موجودات پر قبضہ و اختیار رکھتا ہے اور تمام بندوں کے کاموں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔

بہر حال ہمارے عقیدے کی رو سے قَضَا اور قَدر خُا کے بھیدوں میں سے ایک بھیدے ہے۔ جو کوئی ان کو اچھی طرح اور ان کے صحیح صحیح معنوں میں گھٹائے بڑھائے بغیر انہیں سمجھے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ تو حقیقت تک پہنچ جائے گا اور جو ایسا نہیں کرسکتا اس کے لیے ضروری بھی نہیں ہے کہ وہ اس کے سوچنے، سمجھنے کی تکلیف کرے۔ کہیں ایسا نہ ہوکر سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث وہ غلطی اور گمراہی میں جاپڑے اور اپنا عقیدہ بھی خراب کر بیٹھے کیونکہ یہ حقیقت (امر بین الامرین ) بہت باریک اور گہری ہے بلکہ فلسفلے کے سب سے زیادہ باریک اور نازک مباحث میں سے ہے جسے صرف مخصوص اور چوٹی کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں علم کلام کے بہت سے دانشمندوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں چنانچہ عام لوگوں کو اس حقیقت (امر بین الامرین) کا پابند یا ذمے دار بنانا ان کی سمجھ سے زیادہ انہیں تکلیف دینا ہے۔ جو صحیح نہی ہے۔

اس لیے یہی کافی ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر شخص ائمہ اطہار ؑ کی پیروی میں مختصر طور پر اعتقاد رکھے کہ : "" کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقیت ان دونوں کے درمیان ہے""۔

یہ مسئلہ اصول دین میں داخل نہیں ہے جس کا تمام شرائط کے ساتھ تفصیل سے گہرائی میں سمجھنا واجب ہو۔

(نوٹ:۔ تمام اشیاء اور ساری کائنات اپنے وجود اور بقا کے لیے ہر لمحہ خالق کی مدد کی محتاج ہیں اور اس کی رحمت سے ہر وقت ان کا تعلق قائم و دائم ہے اس بنا پر بندہ اپنے افعال میں نہ مجبور ہے نہ اسے کلی اختیار حاصل ہے۔ اختیار حاصل ہے۔ اختیار اور جبر دونوں سے اسے حصہ ملا ہے بندہ جب کسی کام کو کرنے یا نہ کرتے میں اپنی طاقت استعمال کرتا ہے گو وہ اپنے اختیار سے ایسا کرتا ہے لیکن یہ طاقت بھی اللہ ہی کی دی ہوئی ہے اور وہی اس کام کے لیے ضروری شرائط اور مناسب ماحول فراہم کرتا ہے اس لیے اس کام کو ایک لحاظ سے بندی کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور دوسرے لحاظ سے اللہ کی طرف ، قرآنی آیات میں اس نکتہ کا لحاظ رکھا گیا ہے اپنے افعال میں بندہ کے بااختیار ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا اختیار غیر موثر ہوگئے۔

فرض کیجیےکہ کسی شخص کا ہاتھ مفلوج ہے وہ خود اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ڈاکٹر بجلی کی مدد سے اس میں وقتی طور پر حرکت ارادی پیدا کرسکتا ہے جب بجلی کاتار اس کے ہاتھ سے جوڑ دیا جاتا ہے وہ اسے حرکت دینے پر قادر ہوجاتا ہے اور جب تار ہٹا دیا جاتا ہے تو وہ بالکل ہاتھ ہیں ہلاسکتا۔ اب اگر تجرباتی طور پر ڈاکٹر نے اس بیمار ہاتھ سے بجلی کا تار جوڑ دیا اور وہ شخص اس بجلی کی طاقت کی مدد سے جو اسے برابر پہنچ رہی ہے اپنے ہاتھ کو حرکت دینے اور اس سے کام لینے لگا تو اس صورت میں نہ تو ہاتھ کی حرکت کو پورے طور پر اس شخص سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حرکت بجلی کی طاقت پر موقف ہے جسے ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ڈاکٹر ہاتھ تک پہنچا رہا ہے اور نہ ہی اس حرکت کو کلی طور پر ڈاکٹر سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ مریض اپنے ارادے سے اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے اور وہ اس حرکت پر مجبور نہیں ہے لیکن اسے کلی اختیار بھی نہیں ہے کیونکہ اسے باہر سے مدد مل رہی ہے تو یہ صورت ہوئی جبر اور اختیار کے بین بین۔ وہ سب افعال جو انسانوں سے بحیثیت فاعل مختار سر زد ہوتے ہیں ان کی یہی نوعیت ہے فعل سرزد ہوتا ہے بندہ کی مشیت سے ، مگر بندہ کی مشیت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کی مشیت نہ ہو۔ سب قرآنی آیات میں اسی صورت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت اللہ خوءی کی کتاب البیان سے ماخوذ۔ ناشر)

حقیقت بَدَاء :۔

(نوٹ ):۔فاضل مصنف نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے بداء کی تشریح نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ اس امر پر اعتقاد رکھنے کے سبب انسان کے مقدر پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے صرف لفظ بداء کے معنیٰ بتاکر شبہ کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کبھی عالم احکام (قرآن و حدیث ) میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اسے نسخ کہا جاتا ہے اور جب کبھی عالم تکوین (کائنات) میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اسے بداء کہا جاتا ہے ۔

درحقیقت لوح کی دو قسمیں ہیں :۔ ایک لوح محفوظ (یعنی ام الکتاب) ہے جس میں تمام باتوں کا تذکرہ ہے اور جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور سوائے خدا کے کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ دوسری لوح محو و ثبت ہے جس میں ان باتوں کا تذکرہ ہے جو تمام کی تمام مشروط ہیں اور جن میں مصلحتوں کی بنا پر تبدیلی ہوتی رہیتی ہے ۔ اس کا کچھ علم خاصان خدا کو بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کے شرائط و موانع سے آگاہ نہیں ہوتے مثلاً حضرت عیسیٰ ؑ یہ تو جانتے تھے کہ دلہن شب زفاف میں مرجائے گی مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے لیے صدقہ نہ دینا شرط ہے چنانچہ اتفاقاً دلہن کی ماں نے خیرات دے دی اور وہ بچ گئی اور یہی بداء ہے۔

بداء کافائدہ یہ ہے کہ ایک تو انسانوں کی آزمائش ہوجاتی ہے اور دوسرے ان کی خوئے تسلیم پروان چڑھتی رہتی ہے حضرت ابراہیم ؑ کے امتحانات اس کی واضح دلیل ہیں۔ اگر بداء نہ تو دعا و تصدق ، شفاعت و توسل اور انبیاء و اولیاء کی گریہ و زاری کیے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ان بزرگوں کے لرزاں و ترساں ہونے کا سبب وہ علم مکنون ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں اور یہی بداء کا سرچشمہ ہے۔ (ناشر)

جب لفظ بداء انسان کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی چیز کے متعلق ایک ایسی رائے پیدا کرے جس کا اظہار اس نے اس سے پہلے ہیں کیا تھا (یعنی جس کام کو کرنے کا اس نے ارادہ کیا تھا اسے اپنے دوسرے ارادے سے بدل دیا)

ارادے کی اس تبدیلی کی وجہ کچھ ایسے عوامل کا وجود میں آنا ہے جو اس کے خیالات اور نظریات کی تبدیلی کا باعث بنے۔ چنانچہ ایسے شخص کے لیے کہاں جاتا ہے کہ اسے بداء حاصل ہوگیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرنے کے بعد اسے ترک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے خیالات و نظریات کی یہ تبدیلی مصلحتوں اور رازوں سے انسان کی بے خبری اور گزشتہ اعمال پر پچھتاوے کا باعث ہوتی ہے ۔ اس معنی میں بداء خدائے پاک کے لیے محال ہے کیونکہ وہ پاک ذات جہل اور نقص سے بری ہے اور شیعہ اثنا عشری اس معنی کو خدا سے نسب نہیں دیتے۔

امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے : جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا نے کسی چیز کے بارے میں پچھتا کر اپنا نظریہ بدل لیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے ۔

امام ؑ نے مزید فرمایا:۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو یہ گمان کرے کہ خدا پہلے کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور اب چونکہ جان گیا ہے لہذا اس نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے (اعتقادات، صدوقؒ )

اس بارے میں ائمّہ طاہرین ؑ سے جو چند روایات مروی ہیں اور مخالفین نے جن کی غلط تعبیر کرکے بداء کے وہ معنی جو انسان کی نسبت میں استعمال ہوتے ہیں وہ خدا سے منسوب کرکے انہیں مشتبہ بنا دیا ۔ ان میں سے امام جعفر صادق ؑ کا ایک قول بطور مثال درج کیا جاتا ہے جس کی مخالفین نے غلط تعبیر کی ہے:

آپ نے فرمایا :مَا بَدَا اللهُ فِی شَیءٍ کَمَا بَدَاَلَهُ فِی اِسمَاعِیلَ ابنِی یعنی اللہ نے جیسی وضاحت میرے بیٹے اسمعیل کے (امام نہ ہونے کے ) متعلق فرمائی ہے ایسی وضاحت اور کہیں نہیں فرمائی۔

(بعض مخالفین نے امام ؑ کے اس قول کے معنی یوں بیان کیے کہ کسی چیز کے بارے میں اللہ کے نظریے می ایسی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی جیسی میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ظاہر ہوئی۔

اس غلط معنی سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم امام جعفر صادق ؑ کے بعد ان کے فرزند اسماعیل کو امام بنانا چاہتا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا سابقہ ارادہ بدل دیا (معاذ اللہ)

بعض مصنفین نے امام ؑ کے اسی قول سے غلط معنی اخذ کرکے اسی کی آڑ میں شیعوں کو گمراہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی ۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ امام ؑ کے اس فرمان گرامی کے صحیح معنیٰ وہی ہیں جس کا ذکر سورہ رعد کی ۳۹ ویں آیت میں کیا گیا ہے:

( یَمحُواللهُ مَایَشَآءُ وَیُثبِتُ ، وَعِندَهُ اُمُّ الکِتَابِ ) :۔ خدا جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔

اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خداوند عالم کسی بات کو اس مصلحت کی خاطر جو اس کے ظاہر کرنے میں ہوتی ہے، اپنے پیغمبر اور ولی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے ظاہر کردیتا ہے لیکن بعد میں اس کو مٹا دیتا ہے یا اس کی کاٹ کر دیتا ہے حالانکہ وہ اس بات کے تمام پہلوؤں اور مرحلوں کا کما حصہ علم رکھتا ہے اور واضح لفظوں میں کہنا چاہیے کہ اس کے حکم کے ظاہر کرنے کی مصلحت ایک خاص وقت تک رہتی ہے لیکن مقصد کی تبدیلی لاعلمی کی وجہ سے نہیں ہوتی)

اس کی بالکل صحیح مثال حضرت اسماعیل ؑ اور ان کے والد بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ ہے ۔ ایک وقت حضرت اسماعیلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ (خدا کے حکم کے مطابق) ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ ان کو قربان کرنا چاہتے ہیں لیکن عمل کے وقت حضرت ابراہیم ؑ سے یہ فرض اٹھالیا گیا۔ اس کی بنیاد پر امام جعفر صادق ؑ کے ارشاد کے معنی یہ ہیں:

خدا نے (حضرت امام جعفر صادق ؑ کے بیٹے )اسمٰعیل کے معاملے سے زیادہ اور کوئی معاملہ واضح نہیں کیا کیونکہ ظاہراً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسمعیل اپنے والد امام جعفر صادق ؑ کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کی حیثیت سے والد بزرگوار کے بعد امام ہوں گے لیکن خدا نے ان کی موت بھیج دی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ امام جعفر صادق ؑ کے بعد امام نہیں ہیں""۔

دین اسلام کے مقابلے میں پچھلے ادیان کے احکام اور پیغمیبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں خود اسلام کے بعض احکام منسوخ ہونے کا مسئلہ انھی صحیح معنیوں کے قریب ہے جو ہم نے بداء کے متعلق یپش کیے ہیں۔

دین کے قوانین :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے واجب اور حرام وغیرہ کے تمام دینی احکام اور قوانین بندوں کے لیے ان بھلائیوں کے مطابق جو ان اعمال کے اندر ہیں ، مقرر کردیئے ہیں جس عمل میں پوری بھلائی ہے خدا نے اسے واجب کردیا ہے اور جس عمل میں خرابی زیادہ ہے اس سے منع کر دیا ہے اور اس عمل کو جس میں پوری اور لازمی بھلائی نہیں ہے اسے مستحب قرار دیا ہے اور اسی طرح باقی احکام ہیں۔

یہ بات خدا کے عدل اور بندوں پر اس کے لطف کا نتیجہ ہے خدا ہر واقعے اور حادثے میں حکم جاری کرنے والا ہے ۔ اگرچہ بعض معاملات میں ہمیں خدائی احکام کی اطلاع نہیں ہو پاتی لیکن کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو حکم خدا سے خالی ہو۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ خدا ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس میں خرابی مضمر ہو اور نہ ایسی بات سے منع کرتا ہے جس کے انجام دینے میں بھلائی ہو۔ لیکن مسلمانوں کے بعض فرقے کہتے ہیں کہ برا کام وہ ہے جس سے خدا منع کرے اور نیک کام وہ ہے جس کا خدا حکم دے لیکن خود اعمال میں ذاتی بھلائی، برائی یا خوبی خرابی نہیں ہوتی۔

یہ عقیدہ یقیناً عقل اور سوچ کے فیصلے کے خلاف ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس غلط عقیدے والے اس بات کو روا سمجھتے ہیں کہ خدا براکام انجام دے یا جس کام میں فساد اور تباہی ہو اس کا حکم دے اور اس کاموں سے جن میں بھلائی ہو منع کرے۔ اس سے پہلے یہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ بات بالکل لچر ہے، اس لیے کہ یہ قول اس خدا کی مجبوری اور ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے جو دراصل ہر نقص سے بری ہے ۔

غرض صحیح عقیدہ یہ ہے کہ خدا اگر ہمیں واجبات کا حکم دیتا ہے اور حرام باتوں سے منع کرتا ہے تو اس میں خود اس کا نفع نقصان نہیں ہوتا بلکہ تمام دینی قوانین میں نفع نقصان انسان کا ہوتا ہے چونکہ تمام اعمال بھلائی یا برائی والے ہوتے ہیں اس لیے خدا نے بھلائی کی خاطر ان کی انجام دہی کا حکم دیا ہے اور خرابیوں کے باعث ان سے منع فرمایا ہے کیونکہ خدا نہ بے فائدہ حکم دیتا ہے اور نہ بے وجہ منع کرتا ہے ۔ اپنے بندوں سے اس کی کوئی ضرورت یا غرض اٹکی ہوئی نہیں ہے۔

دوسرا باب

خدا کی پہچان

خدا کے بارے میں

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے اور بے مثل ہے، وہ ہمیشہ تھا اور اب بھی ہے، وہ اول و آخر ہے یعنی کائنات سے پہلے بھی تھا اور کائنات کے خاتمے کے بعد بھی رہے گا۔ وہ زندہ ، عقلمند، طاقتور بے نیاز، سننے والا، دیکھنے والا، جاننے والا اور انصاف کرنے والا ہے، لوگ جن الفاظ سے مخلوقات کی تعریف کرتے ہی اس کی توصیف نہیں کرسکتے، وہ جسم نہیں ہے جو جگہ گھیرے ، نہ اس کی کوئی شکل و صورت ہے، وہ نہ جو ہر ہے (جوہر سے مراد وہ شے ہے جس می اَبعادِ اربعہ یعی لمبائی، چوڑائی، گہراءی اور وقت پائے جائیں مثلاً پتھر ، لکڑی اور گائے وغیرہ)نہ عرض ، (عرض سے مراد ہے کسی شے پر طاری ہونے والی طرح طرح کی کیفیات مثلاً رنگت، نرمی اور سختی وغیرہ)یعنی اس کے متعلق حرکت سکو ن بھاری پن ، ہلکے پن، چال، ٹھیراؤ، جگہ اور وقت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے وہ اپنا مثل ، مقابل ، مانند ، بیٹا، ساتھی اور ساجھی نہیں رکھتا۔ کو ۴ ی اس جیسا نہیں ہے ، آنکھی اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے ۔

جو کوئی خلقت میں خدا کا شریک مانے یا اس کے لیے شکل ہاتھ اور آنکھ کا تصور کرے یا یہ مانے کی خدا دنیا کے آسمان پر اترتا ہے بہشت والوں کے سامنے چاند کی طرح ظاہر ہوتا ہے، وہ شخص ایسے انسان کی طرح ہے ، جس نے کفر کیا اور خدا کو۔۔۔۔ کو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے ۔۔۔۔ نہیں پہچانا۔(اسی طرح جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا قیامت کے دن اپنے آپ کو اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گا اور اس کے بندے اسے دیکھیں گے انہوں نے کفر کیا، چاہے وہ زبان سے یہ کہتے رہیں کہ خدا جسم نہیں رکھتا، انسانوں کا یہ گروہ قرآن یا حدیث کے بعض لفظوں کے ظاہر پر رک گیا ہے یا اکتفا کر بیٹھا ہے اور ان لوگوں نے قرآنی آیات سمجھنے می سوچ بچار کی قوت سے بالکل کام نہیں لیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ غلط سوچ اس بات کا سبب بن گئی کہ اب یہ قرآنی آیات کے ظاہر میں اتنا سا تصرف کرنے (یعنی حقیقی اور مجازی معنوں می تمیز) کی بھی قوت نہیں رکھتے کہ انہیں خیال ، دلیل اور قواعد کے مطابق ""استعارہ"" اور ""مجاز"" کہہ سکیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سوچنے کے اس انداز ، جمود، کی بنا پر قرآ مجید کے حقیقی معنیٰ نہیں سمجھ سکتے)

ہم چاہے کسی چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس پر خوب غور بھی کریں لیکن ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ ہماری ہی طرح کی مخلوق ہوتی ہے اور اس کی ہستی ہماری ہی ہستی کی طرح ہوتی ہے ۔ امام باقر ؑ نے اس بات کو اس طرح سمجھایا ہے۔

اس بات کی کتی فلسفیانہ ، علمی ، نازک اور جچی تلی تشریح ہوئی ہے؟

تَوحِید

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر طرح سے یقیناً ایک ہے۔ جس طرح وہ اپنی ذات کے لحاظ سے ایک ہے، اسی طرح ""واجب الوجود"" ہونے کے اعتبار سے بھی ایک ہے کیونکہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ہوتی ہیں (جیسا کہ ہم اس بات کا مطلب سمجھائیں گے) وہ اپنی ذاتی صفات میں اپنا مثل اور مانند نہیں رکھتا یعنی علم اور قدرت میں لاثانی ہے اور خالق اور رازق ہونے کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ تمام خوبیو میں بے مثل ہے۔

اسی طرح خدا کی ذاتی اور صفائی توحید پر ایمان رکھنے کے بعد ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا کی عبادت میں بھی توحید ہے ، اس لیے خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ہم کسی کو خدا کے ساتھ اس کی عبادت میں (عبادت کی کوئی سی قسم ہو) اس کا شریک بنائیں ، چاہے واجب عبادت ہو چاہے غیر واجب، نماز میں یا نماز کے علاوہ دوسری عبادتوں میں

(جو شخص اپنی عبادت میں خدا کے ساتھ غیر خدا کو بھی شریک کرے گا وہ مشرک ہوگا، اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی عبادت میں فریب دیتا ہے اور غیر خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ، ایسا آدمی شرع مقدس اسلام کی رو سے بت پرست کی طرح ہے اور ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (ناشر)

اس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لینا چاہیے کہ قبروں کی زیارت اور غم منانے کی مجلس قائم کرنا ایک بات ہے اور عبادت میں غیر خدا سے نزدیکی چاہنا دوسری بات اس لیے کہ اعمال کی یہ قسم خدا کے لیے ایسے تقرب کی قسموں می سے ہے جو اچھے اعمال کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے جیسے بیمار کی خیرت پوچھنا، جنازے کے ساتھ ساتھ چلنا، ہم مذہبوں سے ملاقات کرنا اور حاجت مندوں کی مدد کرنا۔

مثال کے طور پر بیمار کی مزاج پرسی ایک نیک کام ہے جس کے وسیلے سے خدا کا نیک بندہ خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مریض کی عیادت خودع اس سے نزدیکی کے لیے ہو اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ عبادت غیر خدا کی ہو یا ہم خدا کو غیر خدا کے ساتھ عبادت میں شریک کرلیں اسی طرح قبروں کی زیارت، عزاداری کی مجلسیں برپا کرنا ، جنازے کے ساتھ چلنا اور ہم مذہب بھائیوں کی ملاقات وغیرہ کو بھی دوسرے اچھے اعمال کی طرح سمجھنا چاہیے۔ (ہم نے جو یہ کہا ہے کہ قبروں کی زیارت اور سوگ کی مجالس قائم کرنا شریعت کے اعمال ہیں تو یہ امر علم فقہ میں ثابت ہوچکا ہے ۔ چنانچہ یہاں ان پر بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں ہے۔ اس جگہ ہمارا مقصد صرف یہ سمجھا دینا ہے کہ یہ اعمال ہرگز ہر گز خدا کی عبادت میں شرک کے مثل نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں) (ناشر)

جن سے خدا کا تقریب مقصود ہوتا ہے نہ کہ غیر خدا (مریض ، میت اور سوگوار) کا تقریب۔

اماموں کی قبروں کی زیارت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے نام اور طریقے کو زندہ کیا جائے، ان کی یاد تازہ کی جائے اور خدا کے شعائر کا احترام کیا جائے جیسے وہ قرآن مجید میں فرماتا ہے

( وَمَن یُّعَطِّم شَعَآئِرَاللهِ فَاِنَّهَا مِن تَقوَی القُلُوبِ ) ۔

جو شخص اللہ تعالی کے شعائر اور نشانیوں کو بزرگ سمجھتا ہے اور ان کا احترام کرتا ہے تو ایسا کام دلوں کی پاکیزگی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ (سورہ حج ۔ آیت ۳۲)

شریعت کی رو سے اس قسم کے تمام کاموں کی نیکی اور شائستگی ثابت ہے، جب انسان یہ اعمال خدا کے تقرب کے خیال سے بجالاتا ہے اور ان کے وسیلے سے خدا کی خوشنودی چاہتا ہے تو اسے اس کا انعام بھی ضرور ملے گا۔

خدا کی صفات

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کی حقیقی ثبوتی صفات جنہیں ، کمال اور جمال کی صفات کہا جاتا ہے مثلاً علم ، قدرت، بے نیازی، ارادہ اور حیات خدا کی عی ذات ہیں، اس کی ذات سے الگ اور اضافہ نہیں ہیں، ان کا وجود خدا کی ذات کا ہی وجود ہے۔ اس لحاظ سے خدا کی قدرت ۔۔۔۔ اس کی ہستی کے نقطہ نظر سے ۔۔۔۔۔ وہی خدا کی حیات ہے اور خدا کی حیات وہی اس کی قدرت ہے۔ بلکہ خدا قادر ہے کیونکہ زندہ ہے اور زندہ ہے کیونکہ قادر ہے۔ خدا کی صفات میں دوئی نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کی تمام کمال اسی طرح ہیں۔

البتہ معنیٰ ومطلب کے لحاظ سے ان صفات میں باہمی اختلاف ہے (مثلاً خدا کا علم اس کی قدرت سے الگ ہے) لیکن یہ صفات وجود کی نظر سے ایک ہیں کیونکہ اگر وہ صفات یا ہستی کے لحاظ سے الگ الگ ہوں اور یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا کی صفات اس کی ذات کی طرح قدیم اور واجب ہیں (یادر رہے کہ علم کلام کی اصطلاح میں : جن چیزوں کی ہستی ناممکن ہو انہیں ممتنعُ الوجود کہتے ہیں، اور جو موجودات پہلے نہ ہوں اور بعد میں وجود میں آئیں انہیں ممکن والوجود کہتے ہیں اور وہ وجود جو قدیم و ازلی ہو اور ہر نقص و عیب سے پاک ہو اس کو واجب الوجود کہتے ہیں) (ناشر) تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ واجب الوجود بھی بہت سے ہوں اور پھر خدا کی ذات کی حقیقی وحدت ختم ہوجاتی ہے اور یہ بات خدا کی وحدانیت کے عقیدے کے خلاف جاتی ہے۔

خدا کی بعض صفات جو ثبوتی، اضافی اور نسبی ہیں مثلاً خدا کی خالقیت (پیدا کرنا) رازقیت (رزق دینا) تقدیم (قدیم ہونا) اور علیت (خدا کا تمام مخلوقات کی علت ہونا) یہ دراصل صرف ایک حقیقی صٖت میں جمع ہوجاتی ہیں جس کا مطلب تمام موجودات کے لیے خدا کا ""قَیِّم"" (اللہ تبارک و تعالی قیوم ہے یعنی تمام موجودات کا تکیہ اور بھر و ساہر وقت خدا پر ہے اور ہر وقت اس کی ہستی کے سہارے پر اپنی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں) ہونا ہے اور یہ قیومت ایک ایسی اکہری صفت ہے جس سے بہت سی صفات (مثلاً خالقیت اور رازقیت وغیرہ) منتزع ہوتی ہیں اور یہ انتزاع آثار اور تناسب کے لحاظ سے ہے۔

خدا کی تمام سلبی صفات کو جلالی صفات بھی کہتے ہیں یہ تمام صفات خدا کے ممکن الوجود ہونے کی نفی کرتی ہیں یعنی خداوند عالم ممکن الوجود کی صفات مثلاً جسم ، کیفیت ، حرکت، سکون، بھاری پن، ہلکاپن وغیرہ نہیں رکھتا بلکہ ہر نقص سے پاک ہے۔ خدا کا ممکن الوجود نہ ہونا دراصل اس کا واجب الوجود ہونا ہے اور خدا کا واجب الوجود ہونا بھی صفات ثبوتی میں سے ہے ۔ اس طرح صفات سلبی صفات ثبوتی کی طرف پلٹ آتی ہیں (صفات ثبوتی بن جاتی ہیں)۔ خدا ہر اعتبار سے ایک ہے ۔ اس کی پاک ذات میں کسی قسم کی کثرت نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ حقیقت میں خدائے واحد مرکب نہیں ہے۔

بعض لوگوں کی یہ بات نہایت حیرت انگیز ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کی صفات ثبوتیہ اس کی صفات سلبیہ کی طرف پلٹ آتی ہیں، یعنی صفات سلبیہ بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بات کے کہنے والے اس جملے کے معنی کہ ""خدا کی صفات اس کی عین ذات ہیں"" نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ تمام صفات ثبوتیہ کے معنیٰ سلب و نفی کی صورت سے نکالے جائیں تاکہ خدا کی ذات کی اکائی اور اس کی کثرت کا نہ ہونا ثابت ہوجائے لیکن انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ اس بات سے مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اس صورت میں ہم خدا کی پاک ذات کو جو عین وجود اور صرف وجود ہے۔ اور ہر قسم کے نقص اور امکان سے پاک ہے عین عدم اور نفی محض ٹھرا دیں گے ۔ خدا ہمیں خیالوں اور قلموں کی نعزشوں سے بچائے رکھے۔

اسی طرح ان لوگوں کا عقیدہ بھی حیرت ناک ہے جو کہتے ہیں کہ ""خدا کی صفات اس کی ذات پر اضافہ ہیں"" ۔ اس کے نتیجے میں لوگ وجود قدیم (بے اول) کی کثرت کے قائل ہوگئے ہیں یعنی ان ہی ذات و صفات کو ملا کر ان کے کتنے وجودوں کو قدیم ماننا پڑا ہے اور انہوں نے واجب الوجود خدا کے متعدد شریک ٹھرائے ہیں یا یہ لوگ خدا کے مرکب ہونے کے قائل ہوگئے ہیں۔

خدا کو ایک ماننے والوں کے سردار امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں:

وَکَمَالُ الاِخلاَصِ لَهُ نَفیُ الصِّفَاتِ عَنهُ

خدا کے متلعق اخلاص کامل یعنی توحید تنزیہی یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے کسی صفت (یعنی ذات پر اضافے) کے قائل نہ ہوں (نہج البلاغہ ۔ پہلا خطبہ)

کیونکہ ہر صفت (جیسے انسان کے لیے علم )یہ گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنے موصوف سے الگ ہے اور ہر موصوف یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت سے جدا ہے، جو شخص خدا کے لیے صفت (یعنی ذات پر اضافے) کا قائل ہوجاتا ہے وہ خدا کو ان صفات کے قریب اور ساتھ کر دیتا ہے اور جو خدا کو کسی شے کے قریب کر دیتا ہے اور وہ اسے ایک سے زیادہ فرض کر لیتا ہے اور جو اسے متعدد فرض کرلیتا ہے وہ اس کا تجزیہ کر دیتا ہے اور جو خدا کی پاک ذات کا تجزیہ کرتا ہے اس نے خدا کو نہیں پہچانا ہے۔

عدل الہٰی

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ثبوتی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ""عادل"" ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا، اپنی حکومت اور دادگستری میں کسی قسم کا ستم برداشت نہیں کرتا، اپنے احکام کی اطاعت کرنے والوں کو انعام دیتا ہے اور انصاف کرتا ہے ۔ وہ حق رکھتا ہے کہ گنہگاروں کو سزا دے۔ اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف (اطاعت کا حکم) نہیں دیتا اور ان کی سزاواری سے زیادہ انہیں سزا نہیں دیتا۔

ہمارااعتقاد ہے کہ خدائے بزرگ اچھا اور پسندیدہ کام اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ اس سے زیادہ پنسدیدہ کام اسے اس کی انجام دہی سے روک نہ دے اور خدا برا کام بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ نیک کام کرنے اور برا کام چھوڑ دینے پر اختیار رکھتا ہے اور اچھے کام کی اچھائی اور برے کام کی برائی سے واقف ہے۔ اسے کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ نیک کام نہ کرے اور برا کام کر ڈالے اور نیک کام سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا جس سے وہ اسے چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائے اور نہ اسے برے کام کی حاجت ہے کہ اسے انجام دے۔ اس لحاظ سے خدا دانا و حکیم ہے اس لیے یقیناً اس کے تمام کام دانائی اور قدرت کے نہایت کامل نظام کے تحت انجام پاتے ہیں۔

اگر خدا ظلم یا برے کام کرے (اور وہ باتوں سے بری ہے)تو ا چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے باہر نہیں ہے :۔

۱ ۔ خدا برے کام کی برائی سے واقف نہیں ہے

۲ ۔ برے کام کی برائی سے تو واقف ہے لیکن اسے کرنے پر مجبور ہے اور اسے چھوڑ دینے سے عاجز ہے۔

۳ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے اور اسے کرنے پر مجبور نہیں ہے لیکن اس کی انجام دہی کا محتاج ہے۔

۴ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے ، مجبور بھی نہیں ہے اور نہ اس کی انجام دہی کا محتاج ہے لیک خدا اس (طلم یا برے کام ) کو اپنے شوق، حماقت، شغل یا کھیل کے طور پر انجام دیتا ہے۔

خدا کے متعلق یہ تمام صورتیں ناممکن ہیں، کیونکہ یہ تمام کام خدا میں نقص کا سبب بنتے ہیں ، جب کہ خدا کی پاک ذات صرف کمال ہے نتیجہ یہ ہے کہ خدا ہر قسم کے ظلم اور برے کام سے بری ہے ۔

(اس حقیقت کے برعکس، مسلمانوں کے بعض فرقے خدا کے لیے برے کام انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے کہا بھی ہے کہ یہ بالکل جائز ہے کہ خدا اپنی اطاعت کرنے والوں کو سزا دے اور گنہگاروں بلکہ کافروں کو بہشت میں بھیج دے اور یہ بھی جائز ہے کہ خدا اپنے بندوں کی برداشت سے زیادہ فرض ان پر عائد کردے اور اس کے ساتھ ساتھ اس فرض کو ترک کرنے پر انہیں عذاب میں مبتلا کر دے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خداظلم و ستم ڈھائے ، جھوٹ بولے، فریب دے اور دانائی ، مقصد ، بھلائی اور کسی فائدے کے بغیر کام کرے، اس کی دلیل یہ ہے کہ خدا قرآ میں فرماتا ہے۔

لاَ یُسئَلُ عَمَّا یَفعَلُ وَهُم یُسئَلُونَ

خدا سے اس کے کاموں کی باز پرس نہیں ہوسکتی البتہ بندوں سے جواب طلبی ہوسکتی ہے (سورہ انبیاء : آیت ۲۳) ا(سے غلط عقیدے اور بے بنیاد خیالات رکھنے والے گروہ کے نزدیک خدا سے مراد ہے ظالم ، احمق ، بازی گر، جھوٹا، دھوکے باز، برا کام کرنے والا اور اچھا کام چھوڑ دینے والا لیکن خدا کی پاک ذات اس قسم کے نامناسب اتہاموں سے بری ہے۔ خدا پر یہ اتہامات خالص کفر بلکہ کفر کی بھی بدتری قسم ہیں)

خدا قرآن مجید کی واضح آیات میں فرماتا ہے

وَمَا اللهُ یُرِیدُ ظُماً لِّلعِبَادِ خدا اپنے بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔(سورہ مومن ۔ آیت ۳۱)

وَاللهُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۔ خدا فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۲۰۵)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقنَا السَّمَآءَ وَالاَرضَ وَمَا بَینَهُمَا لٰعِبِینَ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے تفریحاً پیدا نہیں کیا ہے۔ (سورہ ابنیاء ۔ آیت ۱۶)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقتُ الجِنّ َوَالاِنسَ اِلاَّلِیَعبُدُونِ ۔ہم نے انسانوں اور جنوں کو عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے ۔ (سورہ ذاریات ۔ آیت ۵۶)

(اور دوسری آیات ) اے خدائے بزرگ تو ہر نقص اور عیب سے پاک ہے اور تو نے اس پر اسرار کائنات کو بیکار ، فضول اور کسی مقصد کے بغیر پید انہیں کیا ہے۔

انسان اور فرائض

ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدائے بزرگ اپنے بندوں کو دلیلوں کے ذریعے سے اور سبب بتا کر مذہبی فرائض سے آگاہ کرتا ہے اور ان پر کوئی ایسا فرض بھی عائد نہی کرتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہو کیونکہ کسی پر ایسا فرض عائد کرنا کہ وہ کسی عذر کے بغیر اس سے مطلع نہ ہوسکے، یا جس کے انجام دینے سے عاجز ہو قطعاً ظلم ہے، البتہ وہ شخص کو دینی فرائض اور احکام سیکھنے اور یاد کرنے میں کوتاہی کرتا ہے خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اس سے باز پرس ہوگی اور اس کوتاہی پر سزا ملے گی ، کیونکہ ہر انسان پر واجب ہے کہ اپنی ضرورت بھر کے دینی احکام سیکھ لے۔

ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ دین کے احکام اور قوانی اور وہ باتیں جن میں بندوں کی بھلائی اور خوش بختی ہے بندوں تک پہنچاتا ہے اور ان فرائض کی تکمیل واجب کرتا ہے ، تاکہ اس ذریعے سے نیکی ، بھلائی اور اقبال مندی کے راستوں کی طرف ان لوگوں کی رہنمائی ہو اور فساد، تباہ کاری اور نقصان سے اور اس سے جو عاقبت کی خرابی کا سبب ہوسکتا ہے خبردار کرتا ہے ، اگرچہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ اطاعت نہیں کریں گے۔

وجہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے یہ رہنمائیاں بندوں پر اس کا لطف اور رحمت ہیں۔ بندے بھی اپنی دنیا و آخرت کی خوش بختی کے بیشتر طریقوں اور بھلائیوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے بہت سے معاملات سے جو ان کے نقصان اور گھاٹے کا سبب ہیں بے خبر ہوتے ہیں لیکن خداوندعالم بخشنے والا مہربان ہے،یہ مہربانی اور شفقت اس کا مطلق کمال اور اس کی عین ذات ہے۔ اس صفت کا اس سے الگ ہونا ناممکن ہے اور خدا کا یہ لطف اور رحمت مسلسل اور جاودانی ہے جو کسی وقت ختم نہیں ہوتا اگرچہ اس کے بندے (جہالت ، عناد اور خواہشات کی بنا پر) اس کی اطاعت سے منہ موڑ لیں اور اس کے حکم سے سرتابی کریں (اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی سعادت اور خوش بختی کی راہ مسدود کردیں)

قَضَا و قَدر

جو لوگ عقیدہ جبر کے قائل ہی وہ کہتے ہیں کہ خدا، انسان (اور باقی موجودات) کے کام خود کر دیتا ہے ۔ خدا ہی انسانوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو گناہ کرنے پر سزا بھی دیتا ہے! خدا انسان کا اطاعت کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کو اطاعت کرنے کا انعام بھی عطا کرتا ہے۔ دراصل مُجَبِّرہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کے کام تو خدا کرتا ہے۔ بس کاموں کی انجام دہی۔۔۔۔ مجاز کے طور پر ۔۔۔۔انسان سے منسوب کر دی جاتی ہے کیونکہ انسان کام کی انجام دہی کا ایک ذریعہ اور ایک سبب ہوتا ہے!

اس عقیدے کا نتیجہ موجودات میں علت اور معلول کے فطری تعلق سے انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا ہے کہ سبب کا اصلی اور حقیقی پیدا کرنے والا خدا ہے۔ باقی دوسرے کسی سبب یا علت کا کوئی وجود نہیں ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں نے اس وجہ سے موجودات میں فطری سبب کے رشتے سے انکار کر دیا ہے کہ ان کے گمان میں خالق (پیدا کرنے والے) اور بے شریک (تنہا) خدا پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہی ہے لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو وہ خدا کو ظالم قرار دیتا ہے جب کہ خدا ظلم سے بری ہے۔

کچھ دوسرے لوگ جنہیں ""مفوضہ"" کا نام دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے تمام اعمال انسان کو سونپ دیے ہیں اور ان اعمال سے اپنا اختیار اور ارادہ اٹھالیا ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں کی دلیل یہ ہے کہ انسان کے اعمال کو خدا سے منسوب کرنا گویا نقص اور عیب کو خدا سے منسوب کرنا ہے جبکہ اعمال کا اصلی سبب موجودات اور انسان ہیں حالانکہ تمام اسباب پہلے سبب (مسبب الاسباب) کی طرف پلٹتے ہیں جو خدا ہے۔

ہمارے عقیدے کی رو سے جو شخص ایسا سوچتا ہے وہ خدا کو اس کی خود مختار سلطنت سے بے دخل کر دیتا ہے اور موجودات کے پیدا کرنے میں اس کے غیر کو اس کا شریک بنا دیتا ہے۔

البتہ شیعوں کا نظریہ ائمّہ اطہار ؑ کی پیروی میں یہ ہے کہ نہ پہلا راستا (جبر) صحیح ہے نہ دوسرا (تقویض) بلکہ مقصود ان دونوں راستوں کے بیچ میں ہے اور وہ ان دونوں نظریات کے بیچ میں ایک درمیانی راستا ہے اور اس قدر نازک اور باریک ہے کہ مجبرہ ، مفوضہ اور متکلمی میں سے مناظر کرنے والے بھی اس کو سمجھنے سے عاجز ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ افراط کے راستے کی طرف نکل گئے اور کچھ دوسرے تفریط کی راہ پر چل پڑے، علم اور فلسفے نے صدیاں بیت جانے کے بعد اس باریک بات (امر بین الامرین) پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے،

اَمربَینَ الاَمرَین

واقعی مندرجہ بالاجملہ کس قدر بلند ہے اور کتنے باریک اور گہرے معنی رکھتا ہے اس کے معنی کا خلاصہ اس طرح پر ہے: ""ہمارے اعمال ایک طرح سے حقیقت میں خود ہمارے ہی اعمال ہیں۔ ہم ان کے وجود کا طبیعی سبب ہیں اور وہ ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں لیکن دوسری طرح سے یہی اعمال خدا کی قدرت اور حکومت کے سائے میں انجام پاتے ہیں کیونکہ اسے وجود میں لانے والا اور عطا کرنے والا وہی ہے""

نتیجہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ہمارے کاموں کے لیے مجبور نہیں کیا ہے جو ہم کہہ سکیں کہ وہ ہمارے کیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے ہمیں سزا دے کر ظلم کرتا ہے اس لیے کہ ہم اپنے اعمال پر اختیار رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف اس نے اعمال کی انجام دہی پورے طور پر ہم پر بھی نہیں چھوڑی ہےکہ ہم ان اعمال کو اس کی حکومت اور قبضے سے باہر لے جاسکیں بلکہ خلقت اور حکومت اسی خدا کی ہے اور وہی تمام موجودات پر قبضہ و اختیار رکھتا ہے اور تمام بندوں کے کاموں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔

بہر حال ہمارے عقیدے کی رو سے قَضَا اور قَدر خُا کے بھیدوں میں سے ایک بھیدے ہے۔ جو کوئی ان کو اچھی طرح اور ان کے صحیح صحیح معنوں میں گھٹائے بڑھائے بغیر انہیں سمجھے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ تو حقیقت تک پہنچ جائے گا اور جو ایسا نہیں کرسکتا اس کے لیے ضروری بھی نہیں ہے کہ وہ اس کے سوچنے، سمجھنے کی تکلیف کرے۔ کہیں ایسا نہ ہوکر سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث وہ غلطی اور گمراہی میں جاپڑے اور اپنا عقیدہ بھی خراب کر بیٹھے کیونکہ یہ حقیقت (امر بین الامرین ) بہت باریک اور گہری ہے بلکہ فلسفلے کے سب سے زیادہ باریک اور نازک مباحث میں سے ہے جسے صرف مخصوص اور چوٹی کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں علم کلام کے بہت سے دانشمندوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں چنانچہ عام لوگوں کو اس حقیقت (امر بین الامرین) کا پابند یا ذمے دار بنانا ان کی سمجھ سے زیادہ انہیں تکلیف دینا ہے۔ جو صحیح نہی ہے۔

اس لیے یہی کافی ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر شخص ائمہ اطہار ؑ کی پیروی میں مختصر طور پر اعتقاد رکھے کہ : "" کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقیت ان دونوں کے درمیان ہے""۔

یہ مسئلہ اصول دین میں داخل نہیں ہے جس کا تمام شرائط کے ساتھ تفصیل سے گہرائی میں سمجھنا واجب ہو۔

(نوٹ:۔ تمام اشیاء اور ساری کائنات اپنے وجود اور بقا کے لیے ہر لمحہ خالق کی مدد کی محتاج ہیں اور اس کی رحمت سے ہر وقت ان کا تعلق قائم و دائم ہے اس بنا پر بندہ اپنے افعال میں نہ مجبور ہے نہ اسے کلی اختیار حاصل ہے۔ اختیار حاصل ہے۔ اختیار اور جبر دونوں سے اسے حصہ ملا ہے بندہ جب کسی کام کو کرنے یا نہ کرتے میں اپنی طاقت استعمال کرتا ہے گو وہ اپنے اختیار سے ایسا کرتا ہے لیکن یہ طاقت بھی اللہ ہی کی دی ہوئی ہے اور وہی اس کام کے لیے ضروری شرائط اور مناسب ماحول فراہم کرتا ہے اس لیے اس کام کو ایک لحاظ سے بندی کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور دوسرے لحاظ سے اللہ کی طرف ، قرآنی آیات میں اس نکتہ کا لحاظ رکھا گیا ہے اپنے افعال میں بندہ کے بااختیار ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا اختیار غیر موثر ہوگئے۔

فرض کیجیےکہ کسی شخص کا ہاتھ مفلوج ہے وہ خود اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ڈاکٹر بجلی کی مدد سے اس میں وقتی طور پر حرکت ارادی پیدا کرسکتا ہے جب بجلی کاتار اس کے ہاتھ سے جوڑ دیا جاتا ہے وہ اسے حرکت دینے پر قادر ہوجاتا ہے اور جب تار ہٹا دیا جاتا ہے تو وہ بالکل ہاتھ ہیں ہلاسکتا۔ اب اگر تجرباتی طور پر ڈاکٹر نے اس بیمار ہاتھ سے بجلی کا تار جوڑ دیا اور وہ شخص اس بجلی کی طاقت کی مدد سے جو اسے برابر پہنچ رہی ہے اپنے ہاتھ کو حرکت دینے اور اس سے کام لینے لگا تو اس صورت میں نہ تو ہاتھ کی حرکت کو پورے طور پر اس شخص سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حرکت بجلی کی طاقت پر موقف ہے جسے ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ڈاکٹر ہاتھ تک پہنچا رہا ہے اور نہ ہی اس حرکت کو کلی طور پر ڈاکٹر سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ مریض اپنے ارادے سے اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے اور وہ اس حرکت پر مجبور نہیں ہے لیکن اسے کلی اختیار بھی نہیں ہے کیونکہ اسے باہر سے مدد مل رہی ہے تو یہ صورت ہوئی جبر اور اختیار کے بین بین۔ وہ سب افعال جو انسانوں سے بحیثیت فاعل مختار سر زد ہوتے ہیں ان کی یہی نوعیت ہے فعل سرزد ہوتا ہے بندہ کی مشیت سے ، مگر بندہ کی مشیت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کی مشیت نہ ہو۔ سب قرآنی آیات میں اسی صورت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت اللہ خوءی کی کتاب البیان سے ماخوذ۔ ناشر)

حقیقت بَدَاء :۔

(نوٹ ):۔فاضل مصنف نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے بداء کی تشریح نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ اس امر پر اعتقاد رکھنے کے سبب انسان کے مقدر پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے صرف لفظ بداء کے معنیٰ بتاکر شبہ کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کبھی عالم احکام (قرآن و حدیث ) میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اسے نسخ کہا جاتا ہے اور جب کبھی عالم تکوین (کائنات) میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اسے بداء کہا جاتا ہے ۔

درحقیقت لوح کی دو قسمیں ہیں :۔ ایک لوح محفوظ (یعنی ام الکتاب) ہے جس میں تمام باتوں کا تذکرہ ہے اور جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور سوائے خدا کے کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ دوسری لوح محو و ثبت ہے جس میں ان باتوں کا تذکرہ ہے جو تمام کی تمام مشروط ہیں اور جن میں مصلحتوں کی بنا پر تبدیلی ہوتی رہیتی ہے ۔ اس کا کچھ علم خاصان خدا کو بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کے شرائط و موانع سے آگاہ نہیں ہوتے مثلاً حضرت عیسیٰ ؑ یہ تو جانتے تھے کہ دلہن شب زفاف میں مرجائے گی مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے لیے صدقہ نہ دینا شرط ہے چنانچہ اتفاقاً دلہن کی ماں نے خیرات دے دی اور وہ بچ گئی اور یہی بداء ہے۔

بداء کافائدہ یہ ہے کہ ایک تو انسانوں کی آزمائش ہوجاتی ہے اور دوسرے ان کی خوئے تسلیم پروان چڑھتی رہتی ہے حضرت ابراہیم ؑ کے امتحانات اس کی واضح دلیل ہیں۔ اگر بداء نہ تو دعا و تصدق ، شفاعت و توسل اور انبیاء و اولیاء کی گریہ و زاری کیے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ان بزرگوں کے لرزاں و ترساں ہونے کا سبب وہ علم مکنون ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں اور یہی بداء کا سرچشمہ ہے۔ (ناشر)

جب لفظ بداء انسان کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی چیز کے متعلق ایک ایسی رائے پیدا کرے جس کا اظہار اس نے اس سے پہلے ہیں کیا تھا (یعنی جس کام کو کرنے کا اس نے ارادہ کیا تھا اسے اپنے دوسرے ارادے سے بدل دیا)

ارادے کی اس تبدیلی کی وجہ کچھ ایسے عوامل کا وجود میں آنا ہے جو اس کے خیالات اور نظریات کی تبدیلی کا باعث بنے۔ چنانچہ ایسے شخص کے لیے کہاں جاتا ہے کہ اسے بداء حاصل ہوگیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرنے کے بعد اسے ترک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے خیالات و نظریات کی یہ تبدیلی مصلحتوں اور رازوں سے انسان کی بے خبری اور گزشتہ اعمال پر پچھتاوے کا باعث ہوتی ہے ۔ اس معنی میں بداء خدائے پاک کے لیے محال ہے کیونکہ وہ پاک ذات جہل اور نقص سے بری ہے اور شیعہ اثنا عشری اس معنی کو خدا سے نسب نہیں دیتے۔

امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے : جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا نے کسی چیز کے بارے میں پچھتا کر اپنا نظریہ بدل لیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے ۔

امام ؑ نے مزید فرمایا:۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو یہ گمان کرے کہ خدا پہلے کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور اب چونکہ جان گیا ہے لہذا اس نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے (اعتقادات، صدوقؒ )

اس بارے میں ائمّہ طاہرین ؑ سے جو چند روایات مروی ہیں اور مخالفین نے جن کی غلط تعبیر کرکے بداء کے وہ معنی جو انسان کی نسبت میں استعمال ہوتے ہیں وہ خدا سے منسوب کرکے انہیں مشتبہ بنا دیا ۔ ان میں سے امام جعفر صادق ؑ کا ایک قول بطور مثال درج کیا جاتا ہے جس کی مخالفین نے غلط تعبیر کی ہے:

آپ نے فرمایا :مَا بَدَا اللهُ فِی شَیءٍ کَمَا بَدَاَلَهُ فِی اِسمَاعِیلَ ابنِی یعنی اللہ نے جیسی وضاحت میرے بیٹے اسمعیل کے (امام نہ ہونے کے ) متعلق فرمائی ہے ایسی وضاحت اور کہیں نہیں فرمائی۔

(بعض مخالفین نے امام ؑ کے اس قول کے معنی یوں بیان کیے کہ کسی چیز کے بارے میں اللہ کے نظریے می ایسی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی جیسی میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ظاہر ہوئی۔

اس غلط معنی سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم امام جعفر صادق ؑ کے بعد ان کے فرزند اسماعیل کو امام بنانا چاہتا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا سابقہ ارادہ بدل دیا (معاذ اللہ)

بعض مصنفین نے امام ؑ کے اسی قول سے غلط معنی اخذ کرکے اسی کی آڑ میں شیعوں کو گمراہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی ۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ امام ؑ کے اس فرمان گرامی کے صحیح معنیٰ وہی ہیں جس کا ذکر سورہ رعد کی ۳۹ ویں آیت میں کیا گیا ہے:

( یَمحُواللهُ مَایَشَآءُ وَیُثبِتُ ، وَعِندَهُ اُمُّ الکِتَابِ ) :۔ خدا جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔

اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خداوند عالم کسی بات کو اس مصلحت کی خاطر جو اس کے ظاہر کرنے میں ہوتی ہے، اپنے پیغمبر اور ولی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے ظاہر کردیتا ہے لیکن بعد میں اس کو مٹا دیتا ہے یا اس کی کاٹ کر دیتا ہے حالانکہ وہ اس بات کے تمام پہلوؤں اور مرحلوں کا کما حصہ علم رکھتا ہے اور واضح لفظوں میں کہنا چاہیے کہ اس کے حکم کے ظاہر کرنے کی مصلحت ایک خاص وقت تک رہتی ہے لیکن مقصد کی تبدیلی لاعلمی کی وجہ سے نہیں ہوتی)

اس کی بالکل صحیح مثال حضرت اسماعیل ؑ اور ان کے والد بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ ہے ۔ ایک وقت حضرت اسماعیلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ (خدا کے حکم کے مطابق) ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ ان کو قربان کرنا چاہتے ہیں لیکن عمل کے وقت حضرت ابراہیم ؑ سے یہ فرض اٹھالیا گیا۔ اس کی بنیاد پر امام جعفر صادق ؑ کے ارشاد کے معنی یہ ہیں:

خدا نے (حضرت امام جعفر صادق ؑ کے بیٹے )اسمٰعیل کے معاملے سے زیادہ اور کوئی معاملہ واضح نہیں کیا کیونکہ ظاہراً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسمعیل اپنے والد امام جعفر صادق ؑ کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کی حیثیت سے والد بزرگوار کے بعد امام ہوں گے لیکن خدا نے ان کی موت بھیج دی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ امام جعفر صادق ؑ کے بعد امام نہیں ہیں""۔

دین اسلام کے مقابلے میں پچھلے ادیان کے احکام اور پیغمیبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں خود اسلام کے بعض احکام منسوخ ہونے کا مسئلہ انھی صحیح معنیوں کے قریب ہے جو ہم نے بداء کے متعلق یپش کیے ہیں۔

دین کے قوانین :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے واجب اور حرام وغیرہ کے تمام دینی احکام اور قوانین بندوں کے لیے ان بھلائیوں کے مطابق جو ان اعمال کے اندر ہیں ، مقرر کردیئے ہیں جس عمل میں پوری بھلائی ہے خدا نے اسے واجب کردیا ہے اور جس عمل میں خرابی زیادہ ہے اس سے منع کر دیا ہے اور اس عمل کو جس میں پوری اور لازمی بھلائی نہیں ہے اسے مستحب قرار دیا ہے اور اسی طرح باقی احکام ہیں۔

یہ بات خدا کے عدل اور بندوں پر اس کے لطف کا نتیجہ ہے خدا ہر واقعے اور حادثے میں حکم جاری کرنے والا ہے ۔ اگرچہ بعض معاملات میں ہمیں خدائی احکام کی اطلاع نہیں ہو پاتی لیکن کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو حکم خدا سے خالی ہو۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ خدا ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس میں خرابی مضمر ہو اور نہ ایسی بات سے منع کرتا ہے جس کے انجام دینے میں بھلائی ہو۔ لیکن مسلمانوں کے بعض فرقے کہتے ہیں کہ برا کام وہ ہے جس سے خدا منع کرے اور نیک کام وہ ہے جس کا خدا حکم دے لیکن خود اعمال میں ذاتی بھلائی، برائی یا خوبی خرابی نہیں ہوتی۔

یہ عقیدہ یقیناً عقل اور سوچ کے فیصلے کے خلاف ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس غلط عقیدے والے اس بات کو روا سمجھتے ہیں کہ خدا براکام انجام دے یا جس کام میں فساد اور تباہی ہو اس کا حکم دے اور اس کاموں سے جن میں بھلائی ہو منع کرے۔ اس سے پہلے یہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ بات بالکل لچر ہے، اس لیے کہ یہ قول اس خدا کی مجبوری اور ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے جو دراصل ہر نقص سے بری ہے ۔

غرض صحیح عقیدہ یہ ہے کہ خدا اگر ہمیں واجبات کا حکم دیتا ہے اور حرام باتوں سے منع کرتا ہے تو اس میں خود اس کا نفع نقصان نہیں ہوتا بلکہ تمام دینی قوانین میں نفع نقصان انسان کا ہوتا ہے چونکہ تمام اعمال بھلائی یا برائی والے ہوتے ہیں اس لیے خدا نے بھلائی کی خاطر ان کی انجام دہی کا حکم دیا ہے اور خرابیوں کے باعث ان سے منع فرمایا ہے کیونکہ خدا نہ بے فائدہ حکم دیتا ہے اور نہ بے وجہ منع کرتا ہے ۔ اپنے بندوں سے اس کی کوئی ضرورت یا غرض اٹکی ہوئی نہیں ہے۔

دوسرا باب

خدا کی پہچان

خدا کے بارے میں

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے اور بے مثل ہے، وہ ہمیشہ تھا اور اب بھی ہے، وہ اول و آخر ہے یعنی کائنات سے پہلے بھی تھا اور کائنات کے خاتمے کے بعد بھی رہے گا۔ وہ زندہ ، عقلمند، طاقتور بے نیاز، سننے والا، دیکھنے والا، جاننے والا اور انصاف کرنے والا ہے، لوگ جن الفاظ سے مخلوقات کی تعریف کرتے ہی اس کی توصیف نہیں کرسکتے، وہ جسم نہیں ہے جو جگہ گھیرے ، نہ اس کی کوئی شکل و صورت ہے، وہ نہ جو ہر ہے (جوہر سے مراد وہ شے ہے جس می اَبعادِ اربعہ یعی لمبائی، چوڑائی، گہراءی اور وقت پائے جائیں مثلاً پتھر ، لکڑی اور گائے وغیرہ)نہ عرض ، (عرض سے مراد ہے کسی شے پر طاری ہونے والی طرح طرح کی کیفیات مثلاً رنگت، نرمی اور سختی وغیرہ)یعنی اس کے متعلق حرکت سکو ن بھاری پن ، ہلکے پن، چال، ٹھیراؤ، جگہ اور وقت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے وہ اپنا مثل ، مقابل ، مانند ، بیٹا، ساتھی اور ساجھی نہیں رکھتا۔ کو ۴ ی اس جیسا نہیں ہے ، آنکھی اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے ۔

جو کوئی خلقت میں خدا کا شریک مانے یا اس کے لیے شکل ہاتھ اور آنکھ کا تصور کرے یا یہ مانے کی خدا دنیا کے آسمان پر اترتا ہے بہشت والوں کے سامنے چاند کی طرح ظاہر ہوتا ہے، وہ شخص ایسے انسان کی طرح ہے ، جس نے کفر کیا اور خدا کو۔۔۔۔ کو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے ۔۔۔۔ نہیں پہچانا۔(اسی طرح جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا قیامت کے دن اپنے آپ کو اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گا اور اس کے بندے اسے دیکھیں گے انہوں نے کفر کیا، چاہے وہ زبان سے یہ کہتے رہیں کہ خدا جسم نہیں رکھتا، انسانوں کا یہ گروہ قرآن یا حدیث کے بعض لفظوں کے ظاہر پر رک گیا ہے یا اکتفا کر بیٹھا ہے اور ان لوگوں نے قرآنی آیات سمجھنے می سوچ بچار کی قوت سے بالکل کام نہیں لیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ غلط سوچ اس بات کا سبب بن گئی کہ اب یہ قرآنی آیات کے ظاہر میں اتنا سا تصرف کرنے (یعنی حقیقی اور مجازی معنوں می تمیز) کی بھی قوت نہیں رکھتے کہ انہیں خیال ، دلیل اور قواعد کے مطابق ""استعارہ"" اور ""مجاز"" کہہ سکیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سوچنے کے اس انداز ، جمود، کی بنا پر قرآ مجید کے حقیقی معنیٰ نہیں سمجھ سکتے)

ہم چاہے کسی چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس پر خوب غور بھی کریں لیکن ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ ہماری ہی طرح کی مخلوق ہوتی ہے اور اس کی ہستی ہماری ہی ہستی کی طرح ہوتی ہے ۔ امام باقر ؑ نے اس بات کو اس طرح سمجھایا ہے۔

اس بات کی کتی فلسفیانہ ، علمی ، نازک اور جچی تلی تشریح ہوئی ہے؟

تَوحِید

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر طرح سے یقیناً ایک ہے۔ جس طرح وہ اپنی ذات کے لحاظ سے ایک ہے، اسی طرح ""واجب الوجود"" ہونے کے اعتبار سے بھی ایک ہے کیونکہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ہوتی ہیں (جیسا کہ ہم اس بات کا مطلب سمجھائیں گے) وہ اپنی ذاتی صفات میں اپنا مثل اور مانند نہیں رکھتا یعنی علم اور قدرت میں لاثانی ہے اور خالق اور رازق ہونے کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ تمام خوبیو میں بے مثل ہے۔

اسی طرح خدا کی ذاتی اور صفائی توحید پر ایمان رکھنے کے بعد ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا کی عبادت میں بھی توحید ہے ، اس لیے خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ہم کسی کو خدا کے ساتھ اس کی عبادت میں (عبادت کی کوئی سی قسم ہو) اس کا شریک بنائیں ، چاہے واجب عبادت ہو چاہے غیر واجب، نماز میں یا نماز کے علاوہ دوسری عبادتوں میں

(جو شخص اپنی عبادت میں خدا کے ساتھ غیر خدا کو بھی شریک کرے گا وہ مشرک ہوگا، اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی عبادت میں فریب دیتا ہے اور غیر خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ، ایسا آدمی شرع مقدس اسلام کی رو سے بت پرست کی طرح ہے اور ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (ناشر)

اس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لینا چاہیے کہ قبروں کی زیارت اور غم منانے کی مجلس قائم کرنا ایک بات ہے اور عبادت میں غیر خدا سے نزدیکی چاہنا دوسری بات اس لیے کہ اعمال کی یہ قسم خدا کے لیے ایسے تقرب کی قسموں می سے ہے جو اچھے اعمال کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے جیسے بیمار کی خیرت پوچھنا، جنازے کے ساتھ ساتھ چلنا، ہم مذہبوں سے ملاقات کرنا اور حاجت مندوں کی مدد کرنا۔

مثال کے طور پر بیمار کی مزاج پرسی ایک نیک کام ہے جس کے وسیلے سے خدا کا نیک بندہ خدا کی نزدیکی چاہتا ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مریض کی عیادت خودع اس سے نزدیکی کے لیے ہو اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ عبادت غیر خدا کی ہو یا ہم خدا کو غیر خدا کے ساتھ عبادت میں شریک کرلیں اسی طرح قبروں کی زیارت، عزاداری کی مجلسیں برپا کرنا ، جنازے کے ساتھ چلنا اور ہم مذہب بھائیوں کی ملاقات وغیرہ کو بھی دوسرے اچھے اعمال کی طرح سمجھنا چاہیے۔ (ہم نے جو یہ کہا ہے کہ قبروں کی زیارت اور سوگ کی مجالس قائم کرنا شریعت کے اعمال ہیں تو یہ امر علم فقہ میں ثابت ہوچکا ہے ۔ چنانچہ یہاں ان پر بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں ہے۔ اس جگہ ہمارا مقصد صرف یہ سمجھا دینا ہے کہ یہ اعمال ہرگز ہر گز خدا کی عبادت میں شرک کے مثل نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں) (ناشر)

جن سے خدا کا تقریب مقصود ہوتا ہے نہ کہ غیر خدا (مریض ، میت اور سوگوار) کا تقریب۔

اماموں کی قبروں کی زیارت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے نام اور طریقے کو زندہ کیا جائے، ان کی یاد تازہ کی جائے اور خدا کے شعائر کا احترام کیا جائے جیسے وہ قرآن مجید میں فرماتا ہے

( وَمَن یُّعَطِّم شَعَآئِرَاللهِ فَاِنَّهَا مِن تَقوَی القُلُوبِ ) ۔

جو شخص اللہ تعالی کے شعائر اور نشانیوں کو بزرگ سمجھتا ہے اور ان کا احترام کرتا ہے تو ایسا کام دلوں کی پاکیزگی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ (سورہ حج ۔ آیت ۳۲)

شریعت کی رو سے اس قسم کے تمام کاموں کی نیکی اور شائستگی ثابت ہے، جب انسان یہ اعمال خدا کے تقرب کے خیال سے بجالاتا ہے اور ان کے وسیلے سے خدا کی خوشنودی چاہتا ہے تو اسے اس کا انعام بھی ضرور ملے گا۔

خدا کی صفات

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کی حقیقی ثبوتی صفات جنہیں ، کمال اور جمال کی صفات کہا جاتا ہے مثلاً علم ، قدرت، بے نیازی، ارادہ اور حیات خدا کی عی ذات ہیں، اس کی ذات سے الگ اور اضافہ نہیں ہیں، ان کا وجود خدا کی ذات کا ہی وجود ہے۔ اس لحاظ سے خدا کی قدرت ۔۔۔۔ اس کی ہستی کے نقطہ نظر سے ۔۔۔۔۔ وہی خدا کی حیات ہے اور خدا کی حیات وہی اس کی قدرت ہے۔ بلکہ خدا قادر ہے کیونکہ زندہ ہے اور زندہ ہے کیونکہ قادر ہے۔ خدا کی صفات میں دوئی نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کی تمام کمال اسی طرح ہیں۔

البتہ معنیٰ ومطلب کے لحاظ سے ان صفات میں باہمی اختلاف ہے (مثلاً خدا کا علم اس کی قدرت سے الگ ہے) لیکن یہ صفات وجود کی نظر سے ایک ہیں کیونکہ اگر وہ صفات یا ہستی کے لحاظ سے الگ الگ ہوں اور یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا کی صفات اس کی ذات کی طرح قدیم اور واجب ہیں (یادر رہے کہ علم کلام کی اصطلاح میں : جن چیزوں کی ہستی ناممکن ہو انہیں ممتنعُ الوجود کہتے ہیں، اور جو موجودات پہلے نہ ہوں اور بعد میں وجود میں آئیں انہیں ممکن والوجود کہتے ہیں اور وہ وجود جو قدیم و ازلی ہو اور ہر نقص و عیب سے پاک ہو اس کو واجب الوجود کہتے ہیں) (ناشر) تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ واجب الوجود بھی بہت سے ہوں اور پھر خدا کی ذات کی حقیقی وحدت ختم ہوجاتی ہے اور یہ بات خدا کی وحدانیت کے عقیدے کے خلاف جاتی ہے۔

خدا کی بعض صفات جو ثبوتی، اضافی اور نسبی ہیں مثلاً خدا کی خالقیت (پیدا کرنا) رازقیت (رزق دینا) تقدیم (قدیم ہونا) اور علیت (خدا کا تمام مخلوقات کی علت ہونا) یہ دراصل صرف ایک حقیقی صٖت میں جمع ہوجاتی ہیں جس کا مطلب تمام موجودات کے لیے خدا کا ""قَیِّم"" (اللہ تبارک و تعالی قیوم ہے یعنی تمام موجودات کا تکیہ اور بھر و ساہر وقت خدا پر ہے اور ہر وقت اس کی ہستی کے سہارے پر اپنی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں) ہونا ہے اور یہ قیومت ایک ایسی اکہری صفت ہے جس سے بہت سی صفات (مثلاً خالقیت اور رازقیت وغیرہ) منتزع ہوتی ہیں اور یہ انتزاع آثار اور تناسب کے لحاظ سے ہے۔

خدا کی تمام سلبی صفات کو جلالی صفات بھی کہتے ہیں یہ تمام صفات خدا کے ممکن الوجود ہونے کی نفی کرتی ہیں یعنی خداوند عالم ممکن الوجود کی صفات مثلاً جسم ، کیفیت ، حرکت، سکون، بھاری پن، ہلکاپن وغیرہ نہیں رکھتا بلکہ ہر نقص سے پاک ہے۔ خدا کا ممکن الوجود نہ ہونا دراصل اس کا واجب الوجود ہونا ہے اور خدا کا واجب الوجود ہونا بھی صفات ثبوتی میں سے ہے ۔ اس طرح صفات سلبی صفات ثبوتی کی طرف پلٹ آتی ہیں (صفات ثبوتی بن جاتی ہیں)۔ خدا ہر اعتبار سے ایک ہے ۔ اس کی پاک ذات میں کسی قسم کی کثرت نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ حقیقت میں خدائے واحد مرکب نہیں ہے۔

بعض لوگوں کی یہ بات نہایت حیرت انگیز ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کی صفات ثبوتیہ اس کی صفات سلبیہ کی طرف پلٹ آتی ہیں، یعنی صفات سلبیہ بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بات کے کہنے والے اس جملے کے معنی کہ ""خدا کی صفات اس کی عین ذات ہیں"" نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ تمام صفات ثبوتیہ کے معنیٰ سلب و نفی کی صورت سے نکالے جائیں تاکہ خدا کی ذات کی اکائی اور اس کی کثرت کا نہ ہونا ثابت ہوجائے لیکن انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ اس بات سے مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اس صورت میں ہم خدا کی پاک ذات کو جو عین وجود اور صرف وجود ہے۔ اور ہر قسم کے نقص اور امکان سے پاک ہے عین عدم اور نفی محض ٹھرا دیں گے ۔ خدا ہمیں خیالوں اور قلموں کی نعزشوں سے بچائے رکھے۔

اسی طرح ان لوگوں کا عقیدہ بھی حیرت ناک ہے جو کہتے ہیں کہ ""خدا کی صفات اس کی ذات پر اضافہ ہیں"" ۔ اس کے نتیجے میں لوگ وجود قدیم (بے اول) کی کثرت کے قائل ہوگئے ہیں یعنی ان ہی ذات و صفات کو ملا کر ان کے کتنے وجودوں کو قدیم ماننا پڑا ہے اور انہوں نے واجب الوجود خدا کے متعدد شریک ٹھرائے ہیں یا یہ لوگ خدا کے مرکب ہونے کے قائل ہوگئے ہیں۔

خدا کو ایک ماننے والوں کے سردار امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں:

وَکَمَالُ الاِخلاَصِ لَهُ نَفیُ الصِّفَاتِ عَنهُ

خدا کے متلعق اخلاص کامل یعنی توحید تنزیہی یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے کسی صفت (یعنی ذات پر اضافے) کے قائل نہ ہوں (نہج البلاغہ ۔ پہلا خطبہ)

کیونکہ ہر صفت (جیسے انسان کے لیے علم )یہ گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنے موصوف سے الگ ہے اور ہر موصوف یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت سے جدا ہے، جو شخص خدا کے لیے صفت (یعنی ذات پر اضافے) کا قائل ہوجاتا ہے وہ خدا کو ان صفات کے قریب اور ساتھ کر دیتا ہے اور جو خدا کو کسی شے کے قریب کر دیتا ہے اور وہ اسے ایک سے زیادہ فرض کر لیتا ہے اور جو اسے متعدد فرض کرلیتا ہے وہ اس کا تجزیہ کر دیتا ہے اور جو خدا کی پاک ذات کا تجزیہ کرتا ہے اس نے خدا کو نہیں پہچانا ہے۔

عدل الہٰی

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ثبوتی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ""عادل"" ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا، اپنی حکومت اور دادگستری میں کسی قسم کا ستم برداشت نہیں کرتا، اپنے احکام کی اطاعت کرنے والوں کو انعام دیتا ہے اور انصاف کرتا ہے ۔ وہ حق رکھتا ہے کہ گنہگاروں کو سزا دے۔ اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف (اطاعت کا حکم) نہیں دیتا اور ان کی سزاواری سے زیادہ انہیں سزا نہیں دیتا۔

ہمارااعتقاد ہے کہ خدائے بزرگ اچھا اور پسندیدہ کام اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ اس سے زیادہ پنسدیدہ کام اسے اس کی انجام دہی سے روک نہ دے اور خدا برا کام بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ نیک کام کرنے اور برا کام چھوڑ دینے پر اختیار رکھتا ہے اور اچھے کام کی اچھائی اور برے کام کی برائی سے واقف ہے۔ اسے کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ نیک کام نہ کرے اور برا کام کر ڈالے اور نیک کام سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا جس سے وہ اسے چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائے اور نہ اسے برے کام کی حاجت ہے کہ اسے انجام دے۔ اس لحاظ سے خدا دانا و حکیم ہے اس لیے یقیناً اس کے تمام کام دانائی اور قدرت کے نہایت کامل نظام کے تحت انجام پاتے ہیں۔

اگر خدا ظلم یا برے کام کرے (اور وہ باتوں سے بری ہے)تو ا چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے باہر نہیں ہے :۔

۱ ۔ خدا برے کام کی برائی سے واقف نہیں ہے

۲ ۔ برے کام کی برائی سے تو واقف ہے لیکن اسے کرنے پر مجبور ہے اور اسے چھوڑ دینے سے عاجز ہے۔

۳ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے اور اسے کرنے پر مجبور نہیں ہے لیکن اس کی انجام دہی کا محتاج ہے۔

۴ ۔ برے کام کی برائی جانتا ہے ، مجبور بھی نہیں ہے اور نہ اس کی انجام دہی کا محتاج ہے لیک خدا اس (طلم یا برے کام ) کو اپنے شوق، حماقت، شغل یا کھیل کے طور پر انجام دیتا ہے۔

خدا کے متعلق یہ تمام صورتیں ناممکن ہیں، کیونکہ یہ تمام کام خدا میں نقص کا سبب بنتے ہیں ، جب کہ خدا کی پاک ذات صرف کمال ہے نتیجہ یہ ہے کہ خدا ہر قسم کے ظلم اور برے کام سے بری ہے ۔

(اس حقیقت کے برعکس، مسلمانوں کے بعض فرقے خدا کے لیے برے کام انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے کہا بھی ہے کہ یہ بالکل جائز ہے کہ خدا اپنی اطاعت کرنے والوں کو سزا دے اور گنہگاروں بلکہ کافروں کو بہشت میں بھیج دے اور یہ بھی جائز ہے کہ خدا اپنے بندوں کی برداشت سے زیادہ فرض ان پر عائد کردے اور اس کے ساتھ ساتھ اس فرض کو ترک کرنے پر انہیں عذاب میں مبتلا کر دے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خداظلم و ستم ڈھائے ، جھوٹ بولے، فریب دے اور دانائی ، مقصد ، بھلائی اور کسی فائدے کے بغیر کام کرے، اس کی دلیل یہ ہے کہ خدا قرآ میں فرماتا ہے۔

لاَ یُسئَلُ عَمَّا یَفعَلُ وَهُم یُسئَلُونَ

خدا سے اس کے کاموں کی باز پرس نہیں ہوسکتی البتہ بندوں سے جواب طلبی ہوسکتی ہے (سورہ انبیاء : آیت ۲۳) ا(سے غلط عقیدے اور بے بنیاد خیالات رکھنے والے گروہ کے نزدیک خدا سے مراد ہے ظالم ، احمق ، بازی گر، جھوٹا، دھوکے باز، برا کام کرنے والا اور اچھا کام چھوڑ دینے والا لیکن خدا کی پاک ذات اس قسم کے نامناسب اتہاموں سے بری ہے۔ خدا پر یہ اتہامات خالص کفر بلکہ کفر کی بھی بدتری قسم ہیں)

خدا قرآن مجید کی واضح آیات میں فرماتا ہے

وَمَا اللهُ یُرِیدُ ظُماً لِّلعِبَادِ خدا اپنے بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔(سورہ مومن ۔ آیت ۳۱)

وَاللهُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۔ خدا فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۲۰۵)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقنَا السَّمَآءَ وَالاَرضَ وَمَا بَینَهُمَا لٰعِبِینَ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے تفریحاً پیدا نہیں کیا ہے۔ (سورہ ابنیاء ۔ آیت ۱۶)

اور فرماتا ہے :وَمَا خَلَقتُ الجِنّ َوَالاِنسَ اِلاَّلِیَعبُدُونِ ۔ہم نے انسانوں اور جنوں کو عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے ۔ (سورہ ذاریات ۔ آیت ۵۶)

(اور دوسری آیات ) اے خدائے بزرگ تو ہر نقص اور عیب سے پاک ہے اور تو نے اس پر اسرار کائنات کو بیکار ، فضول اور کسی مقصد کے بغیر پید انہیں کیا ہے۔

انسان اور فرائض

ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدائے بزرگ اپنے بندوں کو دلیلوں کے ذریعے سے اور سبب بتا کر مذہبی فرائض سے آگاہ کرتا ہے اور ان پر کوئی ایسا فرض بھی عائد نہی کرتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہو کیونکہ کسی پر ایسا فرض عائد کرنا کہ وہ کسی عذر کے بغیر اس سے مطلع نہ ہوسکے، یا جس کے انجام دینے سے عاجز ہو قطعاً ظلم ہے، البتہ وہ شخص کو دینی فرائض اور احکام سیکھنے اور یاد کرنے میں کوتاہی کرتا ہے خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اس سے باز پرس ہوگی اور اس کوتاہی پر سزا ملے گی ، کیونکہ ہر انسان پر واجب ہے کہ اپنی ضرورت بھر کے دینی احکام سیکھ لے۔

ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ دین کے احکام اور قوانی اور وہ باتیں جن میں بندوں کی بھلائی اور خوش بختی ہے بندوں تک پہنچاتا ہے اور ان فرائض کی تکمیل واجب کرتا ہے ، تاکہ اس ذریعے سے نیکی ، بھلائی اور اقبال مندی کے راستوں کی طرف ان لوگوں کی رہنمائی ہو اور فساد، تباہ کاری اور نقصان سے اور اس سے جو عاقبت کی خرابی کا سبب ہوسکتا ہے خبردار کرتا ہے ، اگرچہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ اطاعت نہیں کریں گے۔

وجہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے یہ رہنمائیاں بندوں پر اس کا لطف اور رحمت ہیں۔ بندے بھی اپنی دنیا و آخرت کی خوش بختی کے بیشتر طریقوں اور بھلائیوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے بہت سے معاملات سے جو ان کے نقصان اور گھاٹے کا سبب ہیں بے خبر ہوتے ہیں لیکن خداوندعالم بخشنے والا مہربان ہے،یہ مہربانی اور شفقت اس کا مطلق کمال اور اس کی عین ذات ہے۔ اس صفت کا اس سے الگ ہونا ناممکن ہے اور خدا کا یہ لطف اور رحمت مسلسل اور جاودانی ہے جو کسی وقت ختم نہیں ہوتا اگرچہ اس کے بندے (جہالت ، عناد اور خواہشات کی بنا پر) اس کی اطاعت سے منہ موڑ لیں اور اس کے حکم سے سرتابی کریں (اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی سعادت اور خوش بختی کی راہ مسدود کردیں)

قَضَا و قَدر

جو لوگ عقیدہ جبر کے قائل ہی وہ کہتے ہیں کہ خدا، انسان (اور باقی موجودات) کے کام خود کر دیتا ہے ۔ خدا ہی انسانوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو گناہ کرنے پر سزا بھی دیتا ہے! خدا انسان کا اطاعت کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کو اطاعت کرنے کا انعام بھی عطا کرتا ہے۔ دراصل مُجَبِّرہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کے کام تو خدا کرتا ہے۔ بس کاموں کی انجام دہی۔۔۔۔ مجاز کے طور پر ۔۔۔۔انسان سے منسوب کر دی جاتی ہے کیونکہ انسان کام کی انجام دہی کا ایک ذریعہ اور ایک سبب ہوتا ہے!

اس عقیدے کا نتیجہ موجودات میں علت اور معلول کے فطری تعلق سے انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا ہے کہ سبب کا اصلی اور حقیقی پیدا کرنے والا خدا ہے۔ باقی دوسرے کسی سبب یا علت کا کوئی وجود نہیں ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں نے اس وجہ سے موجودات میں فطری سبب کے رشتے سے انکار کر دیا ہے کہ ان کے گمان میں خالق (پیدا کرنے والے) اور بے شریک (تنہا) خدا پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہی ہے لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو وہ خدا کو ظالم قرار دیتا ہے جب کہ خدا ظلم سے بری ہے۔

کچھ دوسرے لوگ جنہیں ""مفوضہ"" کا نام دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے تمام اعمال انسان کو سونپ دیے ہیں اور ان اعمال سے اپنا اختیار اور ارادہ اٹھالیا ہے۔

اس عقیدے کے پیروکاروں کی دلیل یہ ہے کہ انسان کے اعمال کو خدا سے منسوب کرنا گویا نقص اور عیب کو خدا سے منسوب کرنا ہے جبکہ اعمال کا اصلی سبب موجودات اور انسان ہیں حالانکہ تمام اسباب پہلے سبب (مسبب الاسباب) کی طرف پلٹتے ہیں جو خدا ہے۔

ہمارے عقیدے کی رو سے جو شخص ایسا سوچتا ہے وہ خدا کو اس کی خود مختار سلطنت سے بے دخل کر دیتا ہے اور موجودات کے پیدا کرنے میں اس کے غیر کو اس کا شریک بنا دیتا ہے۔

البتہ شیعوں کا نظریہ ائمّہ اطہار ؑ کی پیروی میں یہ ہے کہ نہ پہلا راستا (جبر) صحیح ہے نہ دوسرا (تقویض) بلکہ مقصود ان دونوں راستوں کے بیچ میں ہے اور وہ ان دونوں نظریات کے بیچ میں ایک درمیانی راستا ہے اور اس قدر نازک اور باریک ہے کہ مجبرہ ، مفوضہ اور متکلمی میں سے مناظر کرنے والے بھی اس کو سمجھنے سے عاجز ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ افراط کے راستے کی طرف نکل گئے اور کچھ دوسرے تفریط کی راہ پر چل پڑے، علم اور فلسفے نے صدیاں بیت جانے کے بعد اس باریک بات (امر بین الامرین) پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہےہمیں ان لوگوں پر کوئی حٰرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ قول ""بین الامرین"" پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کا کھوج لگایا ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جو ائمّہ اہلبیت ؑ کی رمزیہ اور عاقلانہ باتوں سے بے خبر ہیں اور نہ ان کے اس گمان پر حیرت ہوتی ہے جو سمجھتے ہی کہ قول ""بین الامرین"" مغرب کے پچھلی صدی کے فلسفیوں کی دریافت ہے اور اسے ان ہی کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ آج سے دس صدی پہلے یہ بات ہمارے اماموں نے کہی تھی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اس درمیانی راہ کی تشریح کرتے ہوءے اپنا یہ مشہور جملہ فرمایا تھا:

لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے،

اَمربَینَ الاَمرَین

واقعی مندرجہ بالاجملہ کس قدر بلند ہے اور کتنے باریک اور گہرے معنی رکھتا ہے اس کے معنی کا خلاصہ اس طرح پر ہے: ""ہمارے اعمال ایک طرح سے حقیقت میں خود ہمارے ہی اعمال ہیں۔ ہم ان کے وجود کا طبیعی سبب ہیں اور وہ ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں لیکن دوسری طرح سے یہی اعمال خدا کی قدرت اور حکومت کے سائے میں انجام پاتے ہیں کیونکہ اسے وجود میں لانے والا اور عطا کرنے والا وہی ہے""

نتیجہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ہمارے کاموں کے لیے مجبور نہیں کیا ہے جو ہم کہہ سکیں کہ وہ ہمارے کیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے ہمیں سزا دے کر ظلم کرتا ہے اس لیے کہ ہم اپنے اعمال پر اختیار رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف اس نے اعمال کی انجام دہی پورے طور پر ہم پر بھی نہیں چھوڑی ہےکہ ہم ان اعمال کو اس کی حکومت اور قبضے سے باہر لے جاسکیں بلکہ خلقت اور حکومت اسی خدا کی ہے اور وہی تمام موجودات پر قبضہ و اختیار رکھتا ہے اور تمام بندوں کے کاموں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔

بہر حال ہمارے عقیدے کی رو سے قَضَا اور قَدر خُا کے بھیدوں میں سے ایک بھیدے ہے۔ جو کوئی ان کو اچھی طرح اور ان کے صحیح صحیح معنوں میں گھٹائے بڑھائے بغیر انہیں سمجھے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ تو حقیقت تک پہنچ جائے گا اور جو ایسا نہیں کرسکتا اس کے لیے ضروری بھی نہیں ہے کہ وہ اس کے سوچنے، سمجھنے کی تکلیف کرے۔ کہیں ایسا نہ ہوکر سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث وہ غلطی اور گمراہی میں جاپڑے اور اپنا عقیدہ بھی خراب کر بیٹھے کیونکہ یہ حقیقت (امر بین الامرین ) بہت باریک اور گہری ہے بلکہ فلسفلے کے سب سے زیادہ باریک اور نازک مباحث میں سے ہے جسے صرف مخصوص اور چوٹی کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں علم کلام کے بہت سے دانشمندوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں چنانچہ عام لوگوں کو اس حقیقت (امر بین الامرین) کا پابند یا ذمے دار بنانا ان کی سمجھ سے زیادہ انہیں تکلیف دینا ہے۔ جو صحیح نہی ہے۔

اس لیے یہی کافی ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر شخص ائمہ اطہار ؑ کی پیروی میں مختصر طور پر اعتقاد رکھے کہ : "" کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقیت ان دونوں کے درمیان ہے""۔

یہ مسئلہ اصول دین میں داخل نہیں ہے جس کا تمام شرائط کے ساتھ تفصیل سے گہرائی میں سمجھنا واجب ہو۔

(نوٹ:۔ تمام اشیاء اور ساری کائنات اپنے وجود اور بقا کے لیے ہر لمحہ خالق کی مدد کی محتاج ہیں اور اس کی رحمت سے ہر وقت ان کا تعلق قائم و دائم ہے اس بنا پر بندہ اپنے افعال میں نہ مجبور ہے نہ اسے کلی اختیار حاصل ہے۔ اختیار حاصل ہے۔ اختیار اور جبر دونوں سے اسے حصہ ملا ہے بندہ جب کسی کام کو کرنے یا نہ کرتے میں اپنی طاقت استعمال کرتا ہے گو وہ اپنے اختیار سے ایسا کرتا ہے لیکن یہ طاقت بھی اللہ ہی کی دی ہوئی ہے اور وہی اس کام کے لیے ضروری شرائط اور مناسب ماحول فراہم کرتا ہے اس لیے اس کام کو ایک لحاظ سے بندی کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور دوسرے لحاظ سے اللہ کی طرف ، قرآنی آیات میں اس نکتہ کا لحاظ رکھا گیا ہے اپنے افعال میں بندہ کے بااختیار ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا اختیار غیر موثر ہوگئے۔

فرض کیجیےکہ کسی شخص کا ہاتھ مفلوج ہے وہ خود اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ڈاکٹر بجلی کی مدد سے اس میں وقتی طور پر حرکت ارادی پیدا کرسکتا ہے جب بجلی کاتار اس کے ہاتھ سے جوڑ دیا جاتا ہے وہ اسے حرکت دینے پر قادر ہوجاتا ہے اور جب تار ہٹا دیا جاتا ہے تو وہ بالکل ہاتھ ہیں ہلاسکتا۔ اب اگر تجرباتی طور پر ڈاکٹر نے اس بیمار ہاتھ سے بجلی کا تار جوڑ دیا اور وہ شخص اس بجلی کی طاقت کی مدد سے جو اسے برابر پہنچ رہی ہے اپنے ہاتھ کو حرکت دینے اور اس سے کام لینے لگا تو اس صورت میں نہ تو ہاتھ کی حرکت کو پورے طور پر اس شخص سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حرکت بجلی کی طاقت پر موقف ہے جسے ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ڈاکٹر ہاتھ تک پہنچا رہا ہے اور نہ ہی اس حرکت کو کلی طور پر ڈاکٹر سے منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ مریض اپنے ارادے سے اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے اور وہ اس حرکت پر مجبور نہیں ہے لیکن اسے کلی اختیار بھی نہیں ہے کیونکہ اسے باہر سے مدد مل رہی ہے تو یہ صورت ہوئی جبر اور اختیار کے بین بین۔ وہ سب افعال جو انسانوں سے بحیثیت فاعل مختار سر زد ہوتے ہیں ان کی یہی نوعیت ہے فعل سرزد ہوتا ہے بندہ کی مشیت سے ، مگر بندہ کی مشیت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کی مشیت نہ ہو۔ سب قرآنی آیات میں اسی صورت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت اللہ خوءی کی کتاب البیان سے ماخوذ۔ ناشر)

حقیقت بَدَاء :۔

(نوٹ ):۔فاضل مصنف نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے بداء کی تشریح نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ اس امر پر اعتقاد رکھنے کے سبب انسان کے مقدر پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے صرف لفظ بداء کے معنیٰ بتاکر شبہ کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کبھی عالم احکام (قرآن و حدیث ) میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اسے نسخ کہا جاتا ہے اور جب کبھی عالم تکوین (کائنات) میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اسے بداء کہا جاتا ہے ۔

درحقیقت لوح کی دو قسمیں ہیں :۔ ایک لوح محفوظ (یعنی ام الکتاب) ہے جس میں تمام باتوں کا تذکرہ ہے اور جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور سوائے خدا کے کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ دوسری لوح محو و ثبت ہے جس میں ان باتوں کا تذکرہ ہے جو تمام کی تمام مشروط ہیں اور جن میں مصلحتوں کی بنا پر تبدیلی ہوتی رہیتی ہے ۔ اس کا کچھ علم خاصان خدا کو بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کے شرائط و موانع سے آگاہ نہیں ہوتے مثلاً حضرت عیسیٰ ؑ یہ تو جانتے تھے کہ دلہن شب زفاف میں مرجائے گی مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے لیے صدقہ نہ دینا شرط ہے چنانچہ اتفاقاً دلہن کی ماں نے خیرات دے دی اور وہ بچ گئی اور یہی بداء ہے۔

بداء کافائدہ یہ ہے کہ ایک تو انسانوں کی آزمائش ہوجاتی ہے اور دوسرے ان کی خوئے تسلیم پروان چڑھتی رہتی ہے حضرت ابراہیم ؑ کے امتحانات اس کی واضح دلیل ہیں۔ اگر بداء نہ تو دعا و تصدق ، شفاعت و توسل اور انبیاء و اولیاء کی گریہ و زاری کیے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ان بزرگوں کے لرزاں و ترساں ہونے کا سبب وہ علم مکنون ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں اور یہی بداء کا سرچشمہ ہے۔ (ناشر)

جب لفظ بداء انسان کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی چیز کے متعلق ایک ایسی رائے پیدا کرے جس کا اظہار اس نے اس سے پہلے ہیں کیا تھا (یعنی جس کام کو کرنے کا اس نے ارادہ کیا تھا اسے اپنے دوسرے ارادے سے بدل دیا)

ارادے کی اس تبدیلی کی وجہ کچھ ایسے عوامل کا وجود میں آنا ہے جو اس کے خیالات اور نظریات کی تبدیلی کا باعث بنے۔ چنانچہ ایسے شخص کے لیے کہاں جاتا ہے کہ اسے بداء حاصل ہوگیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرنے کے بعد اسے ترک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے خیالات و نظریات کی یہ تبدیلی مصلحتوں اور رازوں سے انسان کی بے خبری اور گزشتہ اعمال پر پچھتاوے کا باعث ہوتی ہے ۔ اس معنی میں بداء خدائے پاک کے لیے محال ہے کیونکہ وہ پاک ذات جہل اور نقص سے بری ہے اور شیعہ اثنا عشری اس معنی کو خدا سے نسب نہیں دیتے۔

امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے : جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا نے کسی چیز کے بارے میں پچھتا کر اپنا نظریہ بدل لیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے ۔

امام ؑ نے مزید فرمایا:۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو یہ گمان کرے کہ خدا پہلے کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور اب چونکہ جان گیا ہے لہذا اس نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے (اعتقادات، صدوقؒ )

اس بارے میں ائمّہ طاہرین ؑ سے جو چند روایات مروی ہیں اور مخالفین نے جن کی غلط تعبیر کرکے بداء کے وہ معنی جو انسان کی نسبت میں استعمال ہوتے ہیں وہ خدا سے منسوب کرکے انہیں مشتبہ بنا دیا ۔ ان میں سے امام جعفر صادق ؑ کا ایک قول بطور مثال درج کیا جاتا ہے جس کی مخالفین نے غلط تعبیر کی ہے:

آپ نے فرمایا :مَا بَدَا اللهُ فِی شَیءٍ کَمَا بَدَاَلَهُ فِی اِسمَاعِیلَ ابنِی یعنی اللہ نے جیسی وضاحت میرے بیٹے اسمعیل کے (امام نہ ہونے کے ) متعلق فرمائی ہے ایسی وضاحت اور کہیں نہیں فرمائی۔

(بعض مخالفین نے امام ؑ کے اس قول کے معنی یوں بیان کیے کہ کسی چیز کے بارے میں اللہ کے نظریے می ایسی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی جیسی میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ظاہر ہوئی۔

اس غلط معنی سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم امام جعفر صادق ؑ کے بعد ان کے فرزند اسماعیل کو امام بنانا چاہتا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا سابقہ ارادہ بدل دیا (معاذ اللہ)

بعض مصنفین نے امام ؑ کے اسی قول سے غلط معنی اخذ کرکے اسی کی آڑ میں شیعوں کو گمراہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی ۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ امام ؑ کے اس فرمان گرامی کے صحیح معنیٰ وہی ہیں جس کا ذکر سورہ رعد کی ۳۹ ویں آیت میں کیا گیا ہے:

( یَمحُواللهُ مَایَشَآءُ وَیُثبِتُ ، وَعِندَهُ اُمُّ الکِتَابِ ) :۔ خدا جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔

اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خداوند عالم کسی بات کو اس مصلحت کی خاطر جو اس کے ظاہر کرنے میں ہوتی ہے، اپنے پیغمبر اور ولی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے ظاہر کردیتا ہے لیکن بعد میں اس کو مٹا دیتا ہے یا اس کی کاٹ کر دیتا ہے حالانکہ وہ اس بات کے تمام پہلوؤں اور مرحلوں کا کما حصہ علم رکھتا ہے اور واضح لفظوں میں کہنا چاہیے کہ اس کے حکم کے ظاہر کرنے کی مصلحت ایک خاص وقت تک رہتی ہے لیکن مقصد کی تبدیلی لاعلمی کی وجہ سے نہیں ہوتی)

اس کی بالکل صحیح مثال حضرت اسماعیل ؑ اور ان کے والد بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ ہے ۔ ایک وقت حضرت اسماعیلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ (خدا کے حکم کے مطابق) ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ ان کو قربان کرنا چاہتے ہیں لیکن عمل کے وقت حضرت ابراہیم ؑ سے یہ فرض اٹھالیا گیا۔ اس کی بنیاد پر امام جعفر صادق ؑ کے ارشاد کے معنی یہ ہیں:

خدا نے (حضرت امام جعفر صادق ؑ کے بیٹے )اسمٰعیل کے معاملے سے زیادہ اور کوئی معاملہ واضح نہیں کیا کیونکہ ظاہراً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسمعیل اپنے والد امام جعفر صادق ؑ کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کی حیثیت سے والد بزرگوار کے بعد امام ہوں گے لیکن خدا نے ان کی موت بھیج دی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ امام جعفر صادق ؑ کے بعد امام نہیں ہیں""۔

دین اسلام کے مقابلے میں پچھلے ادیان کے احکام اور پیغمیبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں خود اسلام کے بعض احکام منسوخ ہونے کا مسئلہ انھی صحیح معنیوں کے قریب ہے جو ہم نے بداء کے متعلق یپش کیے ہیں۔

دین کے قوانین :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے واجب اور حرام وغیرہ کے تمام دینی احکام اور قوانین بندوں کے لیے ان بھلائیوں کے مطابق جو ان اعمال کے اندر ہیں ، مقرر کردیئے ہیں جس عمل میں پوری بھلائی ہے خدا نے اسے واجب کردیا ہے اور جس عمل میں خرابی زیادہ ہے اس سے منع کر دیا ہے اور اس عمل کو جس میں پوری اور لازمی بھلائی نہیں ہے اسے مستحب قرار دیا ہے اور اسی طرح باقی احکام ہیں۔

یہ بات خدا کے عدل اور بندوں پر اس کے لطف کا نتیجہ ہے خدا ہر واقعے اور حادثے میں حکم جاری کرنے والا ہے ۔ اگرچہ بعض معاملات میں ہمیں خدائی احکام کی اطلاع نہیں ہو پاتی لیکن کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو حکم خدا سے خالی ہو۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ خدا ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس میں خرابی مضمر ہو اور نہ ایسی بات سے منع کرتا ہے جس کے انجام دینے میں بھلائی ہو۔ لیکن مسلمانوں کے بعض فرقے کہتے ہیں کہ برا کام وہ ہے جس سے خدا منع کرے اور نیک کام وہ ہے جس کا خدا حکم دے لیکن خود اعمال میں ذاتی بھلائی، برائی یا خوبی خرابی نہیں ہوتی۔

یہ عقیدہ یقیناً عقل اور سوچ کے فیصلے کے خلاف ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس غلط عقیدے والے اس بات کو روا سمجھتے ہیں کہ خدا براکام انجام دے یا جس کام میں فساد اور تباہی ہو اس کا حکم دے اور اس کاموں سے جن میں بھلائی ہو منع کرے۔ اس سے پہلے یہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ بات بالکل لچر ہے، اس لیے کہ یہ قول اس خدا کی مجبوری اور ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے جو دراصل ہر نقص سے بری ہے ۔

غرض صحیح عقیدہ یہ ہے کہ خدا اگر ہمیں واجبات کا حکم دیتا ہے اور حرام باتوں سے منع کرتا ہے تو اس میں خود اس کا نفع نقصان نہیں ہوتا بلکہ تمام دینی قوانین میں نفع نقصان انسان کا ہوتا ہے چونکہ تمام اعمال بھلائی یا برائی والے ہوتے ہیں اس لیے خدا نے بھلائی کی خاطر ان کی انجام دہی کا حکم دیا ہے اور خرابیوں کے باعث ان سے منع فرمایا ہے کیونکہ خدا نہ بے فائدہ حکم دیتا ہے اور نہ بے وجہ منع کرتا ہے ۔ اپنے بندوں سے اس کی کوئی ضرورت یا غرض اٹکی ہوئی نہیں ہے۔


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18