امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 18685
ڈاؤنلوڈ: 3183

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18685 / ڈاؤنلوڈ: 3183
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

گیارہویں فصل

سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان

پیغمبرکی تشویش کہیں امت جاہلیت کی طرف پلٹ نہ جائے !

قرآن مجید کی آیات اور تاریخی قرائن اس امر کے شاہد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند تھے ۔ اور ( غیبی الھامات سے قطع نظر ) بعض سلسلہ وار ناگوار حوادث کو دیکھتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ احتمال تقویت پارہا تھا کہ ممکن ہے ایک گروہ یا بہت سے لوگ آپ(ع)کی رحلت کے بعد جاہلیت کے زمانے کی طرف پلٹ جائیں اور سنن الھی کو پس پشت ڈال دیں اس احتمال اور خدشہ نے اس وقت آپ(ع)کے ذہن میں اور زیادہ قوت پائی جب آپ(ع)نے جنگ اُحد میں ( جب دشمن کی طرف سے پیغمبر اسلام کے قتل ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی ) اس بات کا عینی مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھاگ کر پھاڑوں اور دور دراز علاقوں میں پناہ لے لی۔ اور بعض لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ منافقوں کے سردار ” عبدالله ابن ابی “ کے ذریعہ ابو سفیان سے امان حاصل کریں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کا مذہبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ہوا تھا کہ وہ خدا کے بار ے میں بد گمان ہو کر جاہلانہ افکار کے مرتکب ہوگئے تھے ۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ہے :

( وَ طاَئِفةٌ قَدْاهَمَّتْهُمْ انْفُسُهُمْ یِظُنُّونَ بَاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَّنٰا مِن َ الامْرِ شَیْءٌ ) (۴۳)

( اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ کو ) اپنی جان کی اس قدر فکر تھی کہ وہ خداکے بارے میں دور ان جاہلیت کے جیسے باطل خیالات کے مرتکب ہوگئے تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آیا (مسلمین پر حاکمیت ) جیسی کوئی چیز ہم پر ہے ؟

قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ وَ مَنْ یَنقَلِبْ عَلَٰی عَقِبَیْه فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شیْئاً وَ سَیَجْزِی اللهُ الشَّٰکِرِینَ ) (۴۴)

” اور محمد تو صرف خدا کی جانب سے ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیر پلٹ جاؤ گے ؟ تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا “۔

یہ آیہ شریفہ اصحاب رسول خدا کو دو حصوں یعنی عصر جاہلیت کی طرف لوٹ جانے والے اور ” ثابت قدم و شکر گزار “ گروہ میں تقسیم کرکے اشارتاً یہ بیان کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمان افتراق و اختلاف کے شکار ہو کر دو گروہ میں بٹ جائیں گے ایک گروہ عصر جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گااور دوسرا گروہ ثابت قدم و شکر گذار رہے گا ۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ پیغمبر اسلام ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چارہو ، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کےلئے ایک امام و پیشوا اور حاکم و فرمان روا مقرر نہ فرمائیں؟

پیغمبر کےلئے یاقومی اتحاد کے قائل افراد کےلئے بھی یہ ہر گز جائز نہیں کہ ایک ایسے لوگون کی اجتماعی و سیاسی زندگی کی باگ ڈورخود ان کے ہاتہ میں دیدیں ، بلکہ حالات پر قابو رکھنے کےلئے لازم بن جاتا ہے کہ ایک لائق اور قابل شخص کو امت کے امام و پیشوا کی حیثیت سے مقرر کیا جائے تا کہ حتی الامکان اختلاف و افتراق اور ناامنی سے معاشرے کو بچایا جاسکے ۔

پیغمبر اسلام جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ہے اور یہ امت بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جائے گی ، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشینگوئی کے ذریعہ فرمایا ہے :

ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة ، فرقة ناجیة و الباقون فی النار

عنقریب میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ اہل نجات ہوگا اور باقی فرقے جھنمی ہوں گے“(۴۵)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع و آگاہی رکھنے کے باوجود کہ امت کی رہبری کا انتخاب بہت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ہے کس طرح اس اہم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا ، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ہوگیا ؟!

اسلامی سماج ، ان دنوں مختلف گروہوں میں بٹ گیا تھا اور ہر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا: انصار دو معروف گروہوں یعنی ” اوس“ و ” خزرج“ پر مشتمل تھے ، اور مھاجر ، بنی ہاشم اور بنی امیہ کے علاوہ قبائل ” تیم “ اور ” عدی “ پر مشتمل تھے ۔ ہر گروہ چاہتا تھا معاشرے کی قیادت اس کے ہاتہ میں آجائے اور ان کے قبیلہ کا سردار اس عھدہ کا مالک بنے ۔

کیا ان متضاد گروہوں کے ہوتے ہوئے امت میں اتحاد و یکجھتی اور دین کے سلسلے میں مسلمانوں کے استحکام و پائیداری کی امید کی جاسکتی ہے یا سب سے پہلے اختلاف و افتراق کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے تب ایسی امید رکھنی چاہئے ؟

پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جوسب سے بڑی دراڑ پیدا ہوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجھتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا ۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ہوتے تو بہت سے اختلافات قیادت کے مسئلہ میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ہوجاتے ۔ لیکن اسی اہم اور بنیادی امر پر اختلاف ہی بعد والے اختلافات ، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا نتیجہ کے طور پر امت مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے ۔

اہل سقیفہ کی منطق

قرآن مجید یاران پیغمبر کو تنبیہ کرتا ہے کہ مبادا آپ کی رحلت کے بعد وہ زمانہ جاہلیت کے افکار کی طرف پلٹ جائیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اورمطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹہ گئے اور اصحاب رسول کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبیلہ ای تعصبات اور جاہلیت کے افکار رونما ہوئے اور واضح ہوگیا کہ اسلامی تربیت نے ابھی بہت سے اصحاب رسول کے دلوں کی گھرائیوں تک رسوخ نہیں کیا تھا اور اسلام ، جاہلیت کے منحوس چھرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا،جھگڑالوں تقریروں ،ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہر شخص خلافت کا لباس شائستہ ترین شخص کو پھنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا ، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کےلئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا ، جو عقلمندانہ تدبیر ، وسیع علم ، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا ۔

حادثہ سقیفہ کے مطالعہ و تجزیہ سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کے ہدایت کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں رکھتے تھے اور ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔

تاریخی المیہ !

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا جسداطھر ابھی زمین پر تھا ، بنی ہاشم اور آنحضرت کے بعض سچے اصحاب ، پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ” سقیفہ بنی ساعدہ'' نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ہوا تا کہ پیغمبر اکرم کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین و تدفین سے انتھائی فوری اوراہم مسئلہ تھا !۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور مھاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ گھر کے اندر اور اس کے باہر پیغمبر اسلام کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے ، اچانک حضرت عمر نے جو گھرکے باہر تھے ، انصار کے سقیفہ میں جمع ہونے کی خبر سنی ۔ کسی کے ذریعہ فوراً حضرت ابو بکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے باہر آئے ۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر کے بلاوے کے سبب سے آگاہ نہ تھے اس لئے عذر خواہی کے ساتھ جواب دیا کہ : ” میں یہاں پر کام میں مصروف ہوں لیکن آخر کار حضرت عمر کے اصرار پر مجبور ہوکر گھر اور پیغمبر کے جسد اطہر کو چھوڑ کر باہر آئے ۔ جب وہ بھی حضرت عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ہوئے توانھوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ کی راہ لی ۔دونوں سقیفہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے ۔اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرہ اور استدلال کو سنیے کہ یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کےلئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔

اس جلسہ میں انصار کے ترجمان سعد بن عبادہ اور حباب بن منذر تھے اور مھاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رہے تھے ، آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکانے کےلئے تقریریں کی ۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ہو :

سعد ( انصار سے مخاطب ہوکر ) : تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ہو کہ دوسرے اس سے محروم ہیں ، پیغمبر گرامی نے سالھا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی ، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ کا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار ! آنحضرت پر ایمان لائے آنحضرت اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ۔ آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ کا دین قبول کیا ۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے ۔ جب پیغمبر اسلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پر امید تھے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بہتر ہو ۔(۴۶)

سعد کی منطق یہ تھی ، چونکہ ہم نے پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو پناہ دی ہے ، آپ اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ہے اور آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی ہے اس لئے ہم قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے میں دوسروں سے سزاوار اور لائق ہیں ۔

اب دیکھئے کہ اس کے مقابلے میں مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

حضرت ابو بکر :مھاجرین اولین گروہ ہیں جو دین پیغمبر پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر افتخار کرتے ہیں ۔ انھوںنے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے ، افراد کی کمی پر نہیں ڈرے ہیں ، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ہے اور آنحضرت پر ایمان اور آپ کے دین سے منہ نہیں موڑا۔ ہم ، آپ ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ہر گز انکار نہیں کرتے اور بے شک مھاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ہیں ۔ اس لئے قیادت و رہبری کی باگ ڈور مھاجرین کے ہاتہ اور وزارت آپ لوگوں کے ہاتہ میں ہوگی اور ہم حاکم ہوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نہیں پائے گا(۴۷)

مھاجرین کی برتری کا استدلال یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں اور آپ کے دین کو قبول کیا ہے ۔

حباب بن منذر : اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتہ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمھاری ہی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور کوئی تمھارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا تم لوگ صاحب قدرت ہو اور تعداد میں بھی زیادہ ہو۔اپنی صفوں میں ہر گز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ہونے دو، اختلاف کی صورت میں تباہی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ اگر مھاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ہم مسئلہ کو ” دو امیر“ کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ہم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ہوگا(۴۸)

اس مناظرہ میں انصار کی منطق افراد کی کثرت اور ان کے دھڑے کی طاقت پر منحصر ہے ۔ وہ کہتے ہیں چونکہ ہم طاقتور ہیں اس لئے حاکم ہم میں سے ہونا چاہئے ۔

حضرت عمر: ایک غلاف میں ہرگز دو تلواریں نہیں سما سکتی ہیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرمانروائی کے سامنے ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر آپ لوگوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر کے کسی رشتہ دار کے ہاتہ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ کس کی جرات ہے کہ اس حکومت کے بارے میں ہمارا مقابلہ کرے اور ہم سے لڑے جس کی داغ بیل حضرت محمد نے ڈالی ہے ، جب کہ ہم آپ کے رشتہ دار ہیں ۔

اس گفتگو میں حضرت عمر نے زمام حکومت کو ہاتہ میں لینے کا معیار پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مھاجر اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کےلئے شائستہ و حقدار جتلایا ہے(۴۹)

” حباب بن منذر“ نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سھارا لیتے ہوئے کھا:

اے انصار کی جماعت ! عمر اور اس کے ہم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرمان روائی چھیننا چاہتے ہیں ۔ اگر انھوں نے ہماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باہر کرو تم لوگ اس کام (فرمانروائی) کےلئے دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ہو ۔ تم ہی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ہے ۔

عمر : خدا تجھے موت دے

حباب : خدا تجھے موت دے۔

ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ہوئے مھاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی :

اے انصار کی جماعت ! تم لوگ وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام کی حمایت اور مدد کی اب یہ ہر گز سزاوار نہیں ہے کہ تم ہی لوگ سب سے پہلے پیغمبر کی سنت کو بھی بدل دو۔

یہاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کےلئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا )کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد ، اٹہ کھڑا ہوا ، امیدتھی وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برخلاف ، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے حضرت عمر کے استدالال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑکر کھا:

محمد قریش میں سے ہیں اور آپ کے رشتہ دار خلافت کےلئے دوسروں سے اولیٰ اور شائستہ ہیں ، میں یہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں طرفین نے اپنی اپنی بات سنادی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو حضرت ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تا کہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں ، خاص کر انھوں نے مشاہدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نہیں ہے اور بشیر بن سعد ، سعد بن عبادہ ( قبیلہ خزرج کے سردار ) کا مخالف ہے ۔

اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ہوئے بولے:

” میری درخواست ہے کہ مھربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرہیز کیجئے میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ہوں ، بہتر ہے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیجئے“

عمرو ابوعبیدہ دونوں نے کھا:

ہمارے لئے ہرگز یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسی شخصیت کے ہوئے ہوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ہم اپنے ہاتہ میں لے لیں ۔ مھاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نہیں ہے ۔ آپ غار ثور میں پیغمبر کے ہمنشین تھے ،آپ نے پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائی ہے اور آپ کی مالی حالت بھی بہتر ہے ، اپنے ہاتہ کو آگے بڑھائے تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔

یہاں پر حضرت ابو بکر نے بلاکسی تکلف کے بغیر کچھ کھے اپنا ہاتہ پھیلادیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھادیا ، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

لیکن اس سے پہلے کہ عمر ، ابو بکر کے ہاتہ پر بیعت کرے ، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور حضرت ابو بکر کے ہاتہ پر دوسروں سے پہلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے حضرت ابو بکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گھری دراڑ پڑگئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ہوچکا تھا ۔ اس طرح انصار کی ناکامی قطعی ہوگئی۔

حباب بن منذر ، بشیر کی بیعت ( جو خود انصار میں سے تھا ) پر آگ بگولا ہوگیا اور فریاد بلند کرتے ہوئے بولا: بشیر ! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بھائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نہیں دیا۔

بشیر نے کھا:

ھر گز ایسا نہیں ہے بلکہ میں یہ نہیں چاہتا تھاکہ خدا نے جو حق گروہ مھاجر کےلئے مخصوص کیا تھا ، اس پر جھگڑا برپا کروں۔

” اسید بن حضیر“ قبیلہ اوس کا سردار__جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا__ اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ہوکر بولا :

اٹھوا اور ابو بکر کی بیعت کرو ، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتہ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ہم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔

اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نہیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کی بیعت کےلئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔

ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ہوئے کھا:

خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا ! اس کا خیال کرو!

لیکن حضرت عمر اس بے احترامی سے خوش ہوئے اور کھا :

خدا اسے موت دے ، کیونکہ ہمارے لئے ابو بکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے !

خود حضرت عمر جب بعد میں سقیفہ کا ماجرا بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے :

اگر ہم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک دیتے تو ممکن تھا ہمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے ۔

بالآخر سقیفہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کے انتخاب کے اوپر ختم ہوا اور حضرت ابو بکر مسجد رسول کی طرف بڑھے جبکہ حضرت عمر ، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انھیں اپنے درمیان میں لئے ہوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا(۵۰)

____________________

۴۳۔آل عمران /۱۵۴۔

۴۴۔آل عمران : ۱۴۴

۴۵۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔

۴۶۔الامامة و السیاسة ج ۱، ص ۵

۴۷۔ الامامة و السیاسة ج ۱ ، ص ۵۔

۴۸۔انصار نے دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوہن ، یہ تجویز ہماری کمزوری کی نشانی ہے

۴۹۔ آیندہ بحث میں اس سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ہوگی۔

۵۰۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج۳،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج۱، اور شرح ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۲ ۔۶۰ سے نقل کیا گیا ہے ۔