دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)30%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68424 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الَّذِی لَایُهتَْکُ حِجَابُهُ وَلَایُغلَْقُ بَابُهُ (١) “ساری حمداس خدا کے لئے جس کا حجاب نور اڻهایا نہيں جاسکتا ہے اور اس کا دروازہ کرم بند نہيں ہوسکتا ہے ”

حجاب کی بهی دو قسميں ہيں :حجاب ظلمت اور حجاب نور ۔کبهی انسان گهپ اندهيرے کی وجہ سے کچه دیکه نہيں پاتا یعنی گهڻا ڻوپ اندهيرا اس کے دیکهنے ميں مانع ہو تا ہے اس کو حجاب ظلمت اور تاریکی کہا جاتا ہے ۔ کبهی انسان انتہا ئی رو شنی اور نورکی وجہ سے کچه دیکه نہيں پاتا ہے جس طرح انسان وسط ميںکسی رکا وٹ و حائل ہو نے والی چيز کے بغير سورج کی طرف نہيں دیکه سکتا ہے یہ سورج کی انتہا ئی روشنی کی وجہ سے ہے اسی کو حجاب نور کہا جا تا ہے ۔

“دنيا سے محبت ”،برائيوں کی مقار نت اور “مَا یُرین القلب ”انسان کے الله سے لو لگا نے ميں حجاب ظلمت شمار ہو تے ہيں ۔

انسان کے الله سے لو لگا نے کےلئے حجاب نور دو سری چيز ہے، حجاب نور وہ حجاب ہے جو کبهی نہيں چهڻتا ہے ۔جيسا کہ حضرت مہدی عجل الله تعا لیٰ فر جہ الشریف نے اس دعا ميں فر مایا ہے ۔

یہ وہ حجاب ہے جو بندوں کے دلوں ميں شوق و اشتياق زیادہ کرتا ہے حضرت امام زین العا بدین اپنی منا جات ميں الله سے لو لگا نے کے شوق و اشتياق کو یوں بيان فر ما تے ہيں :

وَغُلَّتِي لَایُبَرِّدُهَااِلَّاوَصلُْکَ وَلَوعَْتي لَایُطفِْيهَْا اِلَّالِقَاوکَ وَشَوقِْي اِلَيکَْ لَایَبُلُّهُ اِلَّاالنَّظَرُ اِل یٰ وَجهِْکَ وَقَرَارِي لَایُقِرُّدُونَْ دُنُوِّي مِنکَْ وَلَهفَْتِي لَایَرُدُّهَا اِلَّارَوحُْکَ وَسُقمِْي لَایَشفِْيهِْ اِلَّاطِبُّکَ وَغَمِّي لَایُزِیلُْهُ اِلَّاقُربُْکَ وَجُرحِي

____________________

١)مفا تيح الجنان دعا ئے افتتاح ۔ )

۱۰۱

لَایُبرِْئُهُ اِلَّاصَفحُْکَ وَرینَْ قَلبِْی لَایَجلُْوهُْ اِلَّاعَفوُْکَ فَيَامُنتَْه یٰ اَمَلِ الآمِلِينَْ، وَیَاغَایَةَ سُولِْ السَّائِلِينَْ وَیَااَقصْ یٰ طَلَبَةِ الطَّالِبِينَْ وَیَااَعلْ یٰ رَغبَْة الرَّاغِبِينَْ وَیَاوَلِیَّ الصَّالِحِينَْ وَیَااَمَانَ الخَْائِفِينَْ،وَیَامُجِيبَْ دَعوَْةِ المُْضطَْرِّینَْ وَیَاذُخرَْالمُْعدِْمِينَْ وَیَاکَنزَْالبَْائِسِينَْ ( ١)

“اور ميرے اشتياق کی حرارت کو تيرے وصال کے علا وہ کو ئی اورچيزڻھنڈا نہيں کر سکتی اور ميرے شعلہ شوق کو تيری ملاقات کے علاوہ کو ئی چيز بجها نہيں سکتی اور ميرے شوق کو تر نہيں کرسکتا ہے مگر تيری طرف نظر کر نا ميرا دل تيرے قرب کے علا وہ قرار نہيں پاتا ہے اور ميری حسرت کو تيری رحمت کے سوا کو ئی زائل نہيں کر تا اور ميرے درد کو تيرے علا ج کے سوا کو ئی شفا نہيں دیتا ہے اور ميرے غم کو تيرے قرب کے سوا کو ئی زا ئل نہيں کرتا اور ميرے زخم کو تيری چشم پو شی کے علا وہ کو ئی ڻهيک نہيں کرتا اور ميرے دل کے زنگ کو تيری معا فی کی علا وہ کو ئی جِلا نہيں دیتا ۔۔۔اے اميد واروں کی اميد کی انتہا اے سوال کرنے والوں کے منتہاء مقصود ،اے طلب کرنے والوں کے بلند ترین مطلوب اے رغبت رکهنے والوں کی بلند ترین آرزو ،اے نيکوں کے ولی اے خوف رکهنے والوں کے امان دینے والے اور اے مضطر کی دعا قبول کرنے والے اور اے بينواوں کے ہمنوا اور اے بيچا روں کے لئے اميدکا خزانہ ”

اس تجلی کے با لمقابل تجلی کا ایک اور طریقہ ہے اور وہ اپنے اور بندوں کے درميان دروازہ بند کئے ہو ئے بغير تجلی کرنا ہے وہ ان کی مناجات کو سنتا ہے ،وہ ان کی شہ رگ گردن سے بهی زیادہ ان سے قریب ہے ، یحول بين المرء و قلبہ ، اس سے بندوں کے دلوں ميں آنے والی کو ئی بهی چيز مخفی نہيں ہے ،بندہ خود کو اپنے آقا کی بارگاہ ميں حاضر پاتا ہے وہ اپنے آقا کی کو ئی بهی مخالفت اور معصيت کرنے سے ڈر تا ہے ،اس کے ذکر و یاد سے مانوس ہو تا ہے ،اپنی مناجات اور دعا ميں ثابت

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ۵٠ ا۔ )

۱۰۲

قدم رہتا ہے ،منا جات کوطول دیتا ہے ،خدا کا ذکر اور اس کو یاد کرتا ہے اور اس کے سامنے ڻهہر تا ہے ۔

حدیث قد سی ميں آیا ہے کہ پر ور دگار عالم رات کی تاریکی ميں اپنی بارگاہ ميں اپنے بعض انبيا ء کور کو ع وسجو د سے متصف کرتا ہے جبکہ لوگ گہری نيند ميں سوئے ہو ئے ہوتے ہيں :

ولوتراهم وهم یقيمون لي في الدجیٰ ،وقد مثلت نفسی بين اعنيهم یخاطبوني،وقد جللت عن المشاهدة ویکلّموني وقد عززت عن الحضور (١) “اگرتم ان کو رات کی تاریکی ميں دیکهو گے تو وہ حالت قيام ميں ہونگے وہ ميرے وجود کا مشاہدہ کرتے ہيں اور مجه سے مخاطب ہوتے ہيں اور گفتگو کر تے ہيں درحاليکہ ميں ان سے غائب ہوں’ ’

بندہ خدا کی بارگاہ ميں حاضر ہو نے سے نہيں اکتا تا اور نہ ہی وقت گذرنے کا احساس کرتا ہے ۔کياآپ نے یہ مشاہدہ نہيں کيا کہ جب انسان اپنے کسی ایسے دوست کے پاس جاتا ہے جس سے اس کو بہت زیادہ محبت ہو تی ہے تو وہ نہ اس کے پاس جانے سے اکتاتا ہے اور نہ ہی اس کو اپنے وقت گذرنے کا احساس ہوتا ہے ؟

تو پھر انسان، الله کی بارگاہ ميں حاضر ہو نے سے کيسے اکتا ئے گا ؟ جبکہ پر وردگار عالم اس کی بات سنتا ہے ،اس کو دیکهتا ہے اس کے خطاب اور کلام کو سنتا ہے اور وہ اس کے ساته ہے۔

وَهُوَمَعَکُم اَینَْ مَاکُنتُْم (٢) “تم جہاں کہيں ہو وہ تمہارے ساته ہے ”

الله کے ذکر سے اس کو اطمينان وسکون حاصل ہو تا ہے :( الابذکرالله تطمئنُّ القلوبُ ) (٣)

____________________

١) لقا ء الله صفحہ / ١٠١ ۔ )

٢)سورئہ حدید آیت/ ۴۔ )

٣)سورہ رعدآیت/ ٢٨ ۔ )

۱۰۳

“اور آگاہ ہو جا ؤ کہ اطمينان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے ” امام مہدی عجل الله تعا لیٰ فر جہ الشریف مشہو رو معروف دعا ئے افتتاح ميں فر ما تے ہيں :

فصرت ادعوک آمناواسالک مستانساً،لاخائفاًولاوجلا،مدّلاعليک فيماقصدت فيه اليک ( ١)

“تو اب ميں بڑے اطمينان کے ساته تجهے پکاررہاہوں اوربڑے انس کے ساته تجه سے سوال کررہا ہوںنہ خوفزدہ ہوں نہ لرزاں ہوں اپنے ارادوں ميںتجه سے اصرارکررہاہوں ”

بيشک یہ حالت الله سے اُنس اور اس سے اطمينان کی وجہ سے پيداہوتی ہے، الله سے مدد اور امن کا احساس ایسی کيفيت ہے جو الله کی بارگاہ ميں حاضری ،اس کی قُربت اور معيت سے وجودميں آتی ہے اوریہ بندہ کی الله سے لولگا نے کی سب سے افضل حالت ہے ليکن ہر چيز کی الله سے لولگا نے کی مثال نہيں دی جاسکتی ہے بلکہ اس سے حالت شوق کا ملاہوا ہونا ضرور ی ہے یہاں تک کہ اس حالت کوکامل متوازن اور منظم ہونا چاہئے ۔

اولياء الله اور اس کے نيک بندوں کی عبادت اور ان کے الله سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں یہ دو اہم حالتيں ہيں کبهی ان کی عبادت اور الله سے لو لگا نے ميں شوق اور ہم و غم غالب رہتا ہے اور کبهی ان کی عبادت اور الله سے لولگا نے ميں اُنس ،سکون واطمينان غالب رہتا ہے کبهی ایسا ہوتا ہے اور کبهی ویسا ہوتا ہے یہی سب سے افضل حالتيں ہيں اور الله سے لولگا نے ميں نظم وانس کی حالت سے بہت قریب ہيں ۔

حما دبن حبيب عطار کوفی سے مروی ہے :ہم حا جيوں کا قافلہ اپنا رخت سفر بانده کر نکلا تو ہم رات کے وقت “زبالہ ”(عراق سے حا جيوں کے راستہ ميں آنے والا مقام)نامی جگہ پر پہنچے تو کا لی

____________________

١)مفا تيح الجنان دعاء افتتاح ۔ )

۱۰۴

آندهی آئی اور ميں قافلہ سے بچهڑگيا اور بقيہ رات اسی جنگل و بيابان ميں گذری جب ميں ایک چڻيل ميدان پر پہنچا جب رات آئی تو ميں نے ایک درخت کے نيچے قيام کيا اور جب گهپ اندهيرا چها گيا تو ميرے پاس ایک نوجوان آیا جو سفيد لباس پہنے ہوئے تھا ، اس کے منه سے مسک کی خو شبو آرہی تهی ميں نے سوچا:یہ کو ئی الله کا ولی ہے ۔

ميںکچه ڈرا کہ یہ شخص کيا چا ہتا ہے ،وہ ایک جگہ پر پہنچا اور نماز کےلئے تياری کرنے لگا ،پهر جب وہ نماز کےلئے کهڑا ہو نے لگا تو اس کی زبان پر یہ کلمات جا ری تھے :

یامَن احازکل شيءٍ ملکوتاوقهرکل شيءٍ جبروتا،اولِج قلبي فرح الاقبال عليک والحقني بميدان المطيعين لک

“اے وہ کہ جو ہر چيز پر محيط ہے اور غالب ہے ميرے دل ميں ہر مناجات کی خوشی ڈالدے اور اپنے اطاعت گذار بندوں ميں شمار فرما ” اس کے بعد وہ نماز ميں مشغول ہوگيا ۔۔۔

جب اندهيرا چهٹ گيا تو اس کی زبان پر یہ کلمات جا ری تھے :

یامَن قصد ه الطالبون فاصابوه مرشدا،وامّه الخائفون فوجوده متفضّلا و لجااليه العابدون فوجدوه نوالا متیٰ وجد راحة مَن نصب لغيرک بدنه ومتیٰ فرح مَن قصد سواک بنيته الهي قد تقشع الظلام ولم اقض من خد متک وطراً، ولامن حاضّ مناجاتک مدراً،صلِّ الله علیٰ محمّد وآله،وافعل بي اولی الامرین بک یاارحم الراحمين

“اے وہ ذات جس کا حقيقت کے طالبوں نے قصد کيا تو اس کو رہنما پایا اور خائفين نے اس کو اپنا پيشوا قرار دیا تو اس کو سخی پایا ،عابدین نے اس کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا تو اس کو آسان پناہ گاہ پایا وہ شخص کيسے آرام پاسکتا ہے جو تيرے علاوہ کسی اور کےلئے خود کو خستہ کرے اوروہ کب خوش ہو سکتا ہے جو اپنے باطن ميں تيرے علا وہ کسی اور کا قصد کرے۔ خدایا! تا ریکياں چهٹ گئيں ليکن ميں تيری ذرہ برابر خدمت نہ کر سکا اور نہ ذرہ برابر تجه سے مناجات کرسکا ،محمد وآل محمد پر درور بهيج اور دو سروں کے ساته وہ سلوک کر جو تيرے لئے زیادہ سزاوار ہے اے ارحم الراحمين ”

۱۰۵

ميں نے خيال کيا کہ کہيں یہ شخص دنيا سے نہ گذر جا ئے اور اس کا اثر مجه تک پہنچے تو ميں نے اس سے کہا :آپ سے رنج و تعب کيسے دور ہوا اور آپ کو ایسا شوق شدید اور لذت و رغبت کس نے عطا کی ہے ۔۔۔آپ کون ہيں ؟تو انهوں نے مجه سے فرمایا :ميں علی بن الحسين بن علی بن ابو طالب ہوں ۔(ا) اصمعی سے مروی ہے :ميں رات ميں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا تو ميں نے دیکها ایک خوبصورت جوان کعبہ کے پر دے کو ہا تهوں ميں تھا مے ہوئے کہہ رہا ہے :

نامت العيون وعلت النجوم وانت الملک الحي القيوم،غلّقت الملوک ابوابها،واقامت عليهاحرّاسها،وبابک مفتوح للسائلين ،جئتک لتنظر اليَّ برحمتک یاارحم الراحمينَ

“آنکهيں محو خواب ہيں ستارے نکل آئے ہيں اور تو حی و قيوم بادشاہ ہے ،بادشاہوں کے دروازے بند ہيں اور ان پر پہرے دار کهڑے ہيں جبکہ حاجتمندوں کےلئے تيرا دروازہ کهلا ہوا ہے ميں تيرے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تو مجه پر اپنی نظر رحمت ڈال دے ”

پهر اس کے بعد زبان پر یہ اشعارجاری کئے :یامَن یُجيب دعاالمضطرّفي الظلم یاکاشف الضرّوالبلویٰ مع السقم

____________________

١)بحار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ٧٧ ۔ ٧٨ ۔ )

۱۰۶

“اے وہ ہستی جو تاریکيوں ميں مجبور شخص کی دعا قبول کرتی ہے اے وہ ہستی جو ہماری پریشانی اور بلا کو دور کرنے والی ہے ”

قد نام وفدک حول البيت قاطبة وانت وحد ک یاقيوم لم تنم “خا نہ کعبہ کے ارد گرد تيری تمام مخلوق سو گئی جبکہ اے قيوم !تو نہيں سویا”

ادعوک ربّ دعاءً قد امرت بها فارحم بکائي بحقِّ البيت والحرم “پرور دگارا !تيرے حکم کے مطابق ميں تجهے پکاررہا ہوں لہٰذا خا نہ کعبہ اور حرم کے واسطے ميرے گریہ پر لطف نازل فرما ”

ان کان عفوک لایرجوه ذوسرف فمن یجودعلی العاصين بالنعم “اگر چہ زیادہ روی کرنے والا تيری معافی کا اميدوار نہ ہو تو گنا ہگاروں پر نعمتوں کی بارش کون کرے گا ”

جب ميں نے تحقيقات کی تو، معلوم ہوا کہ آپ امام زین العا بدین عليہ السلام ہيں ۔( ١)

طاؤو س فقيہ سے مروی ہے :

رایته یطوف من العشاء الیٰ السحرویتعبّدفلمالم یراحداًرمق السماء بطرفه وقال:الهي غارت نجوم سماواتک ،وهجعت عيون انامک،وابوابک مفتحات للسائلين،جئتک لتغفرلي وترحمني وتریني وجه جدی محمّد (ص)فی عرصات القيامة”

“ميں نے آپ کو عشاء کے وقت سے ليکر سحر تک خانہ کعبہ کا طواف اور عبادت کر تے دیکها

____________________

١)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ٨٠ ۔ ٨١ ۔ )

۱۰۷

جب وهاں پر کوئی دکها ئی نه دیا تو آپ نے آسمان کی طرف دیکه کر فرمایا : ثم بکیٰ وقالوعزّتک وجلالک مااردت بمعصيتي مخالفتک، وما عصيتک اذ عصيتک وانا بک شاک ولابنکالک جاهل،ولالعقوبتک متعرض،ولکن سوّلت لي نفسي واعانني علیٰ ذالک سترک المرخیٰ به علیَّ،فالآن من عذابک من یستنقذني ؟وبحبل من اعتصم ان قطعت حبلک عني؟فواسواتاه غداًمن الوقوف بين یدیک ،اذاقيل للمخفّيْنَ جُوزوا،وللمثقلين حطّوا،امع المخفين،اجوز ؟ام مع المثقلين احط؟ویلي کلما طال عمري کثرت خطایاي ولم اتب،اماآن لی ان استحيي من ربّي”؟

ثم بکیٰ وانشایقول:

اتحرقني بالناریاغایة المنیٰ فاین رجا ئي ثم این محبّتي اتيت باعمال قباح رزیّة ومافي الوریٰ خلق جنیٰ کجنایتي ثم بکیٰ وقال:

سبحانک تُعصي کانّک لاتریٰ،وتحلم کانّک لم تُعصَ تتودّدالیٰ خلقک بحسن الصنيع کانّ بک الحاجة اليهم،وانت یاسيدي الغنی عنهم

ثمَّ خرَّالی الارض ساجداً قال:فدنوت منه وشِلت براسه ووضعته علیٰ رکبتي وبکيت حتّیٰ جرت دموعي علیٰ خدِّه،فاستویٰ جالساًوقال:من الّذي اشغلني عن ذکرربّی؟فقلت:اناطاووس یابن رسول الله ماهذاالجزع والفزع؟ونحن یلزمناان نفعل مثل هذاونحن عاصون جانون ابوک الحسين بن عليّ وامّک فاطمةالزهراء،وجدُّک رسول الله (ص) قال:فالتقت اليَّ و قال:هيهات هيهات یاطاووس دع عنّی حدیث ابي واُمّي وجدِّي خلق الله الجنّة لمن اطاعه واحسن،ولوکان عبداًحبشيّاً،وخلق النارلمن عصاه ولوکان ولداً قرشيّاً اماسمعت قوله تعالیٰ:

۱۰۸

( فّاِ اٰ ذنُفِخَ فِی الصُّورِفّ اٰ لان سْٰابَ بَينَْهُم یَومَْئِذٍوَ لاٰ ( یَتَ سٰاءَ لُونَ ) (١) والله لاینفعک غداًالّاتَقْدِمَةٌتقدِّمهامن عمل صالح( ٢)

“معبود تيرے آسمان کے ستارے غروب کرچکے ہيں تيری مخلوق کی آنکهيں بند ہيں جبکہ حا جتمندوں کےلئے تيرے دروازے کهلے ہيں ميں تجه سے رحمت اور مغفرت کا خواہاں اور عر صہ قيامت ميں اپنے جد محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو ليکر آیا ہوں ”

پهر آپ نے گریہ کرتے ہوئے فر مایا :

“تجه کو اپنی عزت و جلال کی قسم، ميں نے گناہ کے ذریعہ تيری مخالفت کا ارادہ نہيں کيا اور ميں نے جو تيری مخالفت کی ہے وہ اس حالت ميں مخالفت نہيں کی ہے کہ مجه کو تيری ذات ميں شک رہا ہو اور ميں تيرے عذاب سے نا واقف رہا ہوں نيز تيری سزا کی طرف بڑهنے والا ہوں بلکہ ميرے نفس نے ميرے لئے امور کو مزین کردیا اور سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ تو نے ميری پردہ پوشی کی تو اب مجه کو تيرے عذاب سے کون بچا ئے گا ؟نيز اگر تو مجه سے اپنی ریسمان کو تو ڑلے تو ميں کس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑوں ؟کل تيرے سامنے کهڑاہونا ميرے لئے کتنا رسوا ئی کا سبب ہوگا جب ہلکے بوجه والوں سے آگے بڑه جا نے کيلئے کہا جائيگا اور زیادہ بوجه والوں سے کہا جائيگا کہ اتر جا ؤ ؟کيا ميں ہلکے بوجه والوں کے ساته گذر جا ؤنگا یا زیادہ بوجه والوں کے ساته گر جا ؤنگا ؟کتنا افسوس ہے کہ جتنی ميری عمر بڑه رہی ہے مجه سے غلطياں زیادہ سرزدہو رہی ہيںجبکہ ميں نے ابهی تو بہ بهی نہيں کی ہے ؟کيا ابهی تک وہ وقت نہيں آیا کہ ميں اپنے پروردگار سے تو بہ کروں؟

پهر آپ نے روکر اس مفہوم کے یہ اشعار کہنا شروع کئے :

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت / ١٩٠ ۔ )

٢)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ا ٨ ۔ ٨٢ ۔ )

۱۰۹

اتحرقنی بالناریاغایة المنیٰ فاین رجا ئی ثم این محبتی “اے آرزؤوں کی انتہا کيا تو مجه کو آگ ميں جلا ئيگا توميری اميد اور محبت کہاں گئی ؟

اتيت باعمال قباح رزیّة ومافی الوریٰ خلق جنیٰ کجنایتی “ميں برے کام کرکے آیا ہوں اور ميری طرح کسی نے جرم نہيں کيا ہے ” پھر آپ نے روکر فرمایا :

تو پاک و منزہ ہے تيری نا فرمانی کی جا تی ہے گویا تو نہيں دیکهتا اور تو برداشت کرتا ہے گو یا تيری نا فرما نی نہيں کی گئی ہے ،تو اپنی مخلوقات سے اچهے کام کے ذریعہ محبت کرتا ہے گویا تجه کو ان کی ضرورت ہے جبکہ اے ميرے آقا تو اس سے بے نياز ہے ۔

پهر آپ سجدے ميں گر پڑے ۔طاؤس فقيہ کا کہنا ہے کہ ميں ان کے نزدیک گيا اور ان کا سر اڻها کر اپنے زانوپر رکها اور اتنا رویا کہ ميرے آنسو ان کے رخسار پر بہنے لگے ۔امام عليہ السلام اڻه کر بيڻه گئے اور فرمایا :کس نے مجه کو ميرے رب کی یاد سے روک دیا ؟ميں نے عرض کيا اے فرزند رسول (ص) ميں طاؤس ہوں یہ بيتابی کس لئے ہے ؟ایسا تو ہميں کر نا چا ہئے درانحاليکہ ہم گنا ہگار اور مجرم ہيں۔آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام حسين عليہ السلام ہيں ،مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا ہيں جد بزرگوار پيغمبر خدا (ص) ہيں ۔طاؤس کہتے ہيں کہ پھر ميری طرف متوجہ ہوتے ہو ئے فرمایا: اے طاؤس ہر گز ہر گز مجه سے ميرے والدین اور جد بزرگوار کی گفتگو مت کرو خدا وند عالم نے بہشت اطاعت گذار اور نيک افراد کےلئے خلق کی ہے چا ہے وہ حبشی غلام ہی کيوں نہ ہو ،اور دوزخ گناہگار کيلئے خلق کی ہے چا ہے وہ قریشی ہی کيوں نہ ہو ؟کيا تم نے خداوند عالم کا یہ فرمان نہيں سنا ہے :( فَاِذَانُفِخَ فِی الصُّورِْفَلَااَنسَْابَ بَينَْهُم یَومَْئِذٍوَلَایَتَسَاءَ لُونَْ ) (١)

____________________

١)سورئہ مومنون آیت/ ١٠١ ۔ )

۱۱۰

“پهر جب صور پهونکا جائيگا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس ميں کو ئی ایک دو سرے کے حالات پو چهے گا ”

خدا کی قسم کل تمهيں وہی نيک عمل فا ئدہ پہنچا ئے گاجس کو تم پہلے سے بجالا چکے ہوگے ”

حبہّ عرنی سے مروی ہے :

“بينااناو“نوف”نائمين فی رحبةالقصر،اذنحن بامرالمومنين فی بقيةمن الليل،واضعاًیده علیٰ الحائط شبه الواله،وهویقول: اِنَّ فی خَلقِْ السَّ مٰا اٰوتِ وَ الْارضِ ثم جعل یقراهذه الآیات،ویمرشبه الطائرعقله فقال:اراقد یاحبةام رامق؟ قلت:رامق،هذاانت تعمل هذاالعمل فکيف نحن؟!

فارخیٰ عينه فبکی،ثم قال لي:یاحبةانّ للهموقفاًولنابين یدیه موقف،فلا یخفیٰ عليه شیء من اعمالنا،یاحبةانّ الله اقرب اليک واليَّ من حبل الورید،یاحبة انّه لن یحجبني ولاایاک عن الله شیء ثم قال:اراقدانت یانوف؟ قال:لایااميرالمومنين ماانابراقد،ولقداطلت بکائی هذه الليلة ثم وعظهماوذکرهما،وقال في اواخره:فکونوامن الله علیٰ حذرفقدانذرتکماثم جعل یمرّوهویقول:

ليت شعري في غفلاتی امعرض انت عني ام ناظراليَّ وليت شعری فی طول منامي وقلةشکري في نعمک عليّ ماحالي؟

قال:فوالله مازال فی هذه الحالةحتّیٰ طلع الفجر”(ا)

____________________

١)فلاح السائل لابن طاؤس صفحہ ٢۶۶ ۔ )

۱۱۱

ميں اور نوف قصر کی کشادہ زمين پر سورہے تھے کہ اتنے ميں مو لا ئے کا ئنات رات کے آخری حصہ ميں حيران شخص کی طرح دیوار پر ہاته رکه کر کہہ رہے تھے :

( اِ نَّ فِی خَلقِْ السَّ مٰا اٰوتِ وَالاَْرضِْ ) “بيشک زمين و آسمان کی خلقت ۔۔۔”اور ایک حيران و پریشان پرندہ کی طرح چلے جارہے تھے ؟پهر آپ نے فرمایا :اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو ؟ ميں نے عرض کيا :جاگ رہا ہوں ۔جب آپ ایسا کہہ رہے ہيں تو ہمارا کيا حال ہو گا ؟!

پهر آپ نے آنکهيں نيچی کرکے گریہ فرمایا اس کے بعد مجه سے فرمایا :بيشک خدا کاایک مو قف ہے اور ہمارا ایک مو قف ہے لہٰذا ہمارا اس پر کو ئی عمل مخفی نہيں رہتا ۔اے حبہ! خداوند عالم ہم سے اور تم سے شہ رگ گردن سے بهی زیادہ قریب ہے ۔اے حبہ مجه کواور تم کو خداوند عالم سے کو ئی چيز نہيں رو ک سکتی ہے ۔پهر آپ نے فرمایا :اے نوف سو رہے ہو ؟ ميں نے عرض کيا :نہيں امير المو منين ميں بيدار ہوں ،کيونکہ اس شب ميں آپ نے بہت زیادہ گریہ فر مایا ۔پهر آپ نے نوف اور حبہ کو نصيحت فر مائی اور یاد دہانی کرائی ،اور آخر ميں فرمایا :خدا سے ڈرتے رہو ميں نے تم کو ڈرادیا ۔پهر آپ یہ کہہ کر گذرنے لگے :

“کاش مجه کو اپنی غفلتوں کی حالتوں ميں معلوم ہوتا کہ اے خدا تو مجه سے بے تو جہی کر رہا ہے یا ميری طرف نظر کرم کئے ہوئے ہے ،کاش مجه کو اپنی طولا نی نيند کی حالت ميں نيز نعمتوں کے سلسلہ ميں کم شکری کے وقت معلوم ہوتا کہ ميری کيا حالت ہے ۔

خدا کی قسم آپ طلوع فجر تک اسی حالت ميں رہے ”

اہل بيت عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ئيں اور مناجات ميں خاص طور سے وہ پندرہ مناجات جن کو علامہ مجلسی نے بحارالا نوار ميں حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے نقل فرمایا ہے اُنس اور شوق کی حامل ہيں ۔ ہمارے لئے اہل بيت عليہم السلام کی ميراث (دعاؤں )ميں ان صورتوں اور معانی کا لازوال خزانہ موجود ہے جبکہ اہل بيت عليہم السلام کے علاوہ کسی اور کے پاس اس طرح کا ذخيرہ بہت کم پایا جاتا ہے ہم اس محبت کو ختم کرنے سے پہلے بعض صورتوں کو ذیل ميں بيان کر رہے ہيں :

الٰهي من ذاالذي ذاق حلاوة محبتک فرام منک بدلاومن ذالذي انس بقربک فا بتغیٰ عنک حولا ؟

الهي فاجعلناممن اصطفيته لقربک وولایتک واخلصته لودک و محبّتک،وشوقته الیٰ لقائک،ورضّيته بقضائک،ومنحته النظرالیٰ وجهک،و حبوته برضاک،واعذ ته من حُجرک وقلا ک،وبوّاته مقعد الصدق في جوارک،وخصصته بمعرفتک،واهّلته لعبادتک،وهيّمت قلبه لارادتک واجتبيته لمشاهدتک،واخليت وجهه لک،وفرّغت فئواده لحبک،ورغّبته فيما عندک،والهمته ذکرک،واوزعته شکرک،وشغلته بطاعتک،وصيّرته من صالحی بریتک،واخترته لمناجاتک،وقطعت عنه کل شئی یقطعه عنک

۱۱۲

اللهم اجعلناممّن دابهم الارتياح اليک والحنين ودهرهم الزفرة والانين،جباههم ساجدة لعظمتک،وعيونهم ساهرة لخدمتک،ودموعهم سائلة من خشيتک وقلوبهم متعلقة بمحبتک،وافئدتهم منخلعة من مهابتک یامن انوارقد سه لابصارمحبيه رائقة وسبحات وجهه لقلوب عارفيه شائقة،ویامنیٰ قلوب المشتاقين،ویاغایة آمال المحبّين اسالک حبّک وحبّ من یحبّک،وحبّ کلّ عمل یوصلني الی قربک،وان تجعلک احبّ الیَّّّ مماسواک وان تجعل حبی ایاّک قائداًالی رضوانک وشوقي اليک ذائداًعن عصيانک،وامنن بالنظراليک عليّ وانظربعين الودوالعطف اليََّ،ولاتصرف عني وجهک (ا)

“خدایا! وہ کون ہے جس کو تيری محبت کا مزہ مل گياہے ہو اوراس کے بعدبهی تيرا بدل تلاش کر رہا ہے اور وہ کون ہے جو تيرے انس سے مانوس ہوگيا اور اس کے بعد تجه سے ہڻناچاہتاہے ؟

خدایا !ہميں ان لوگوں ميں قراردے جن کو قرب اوراپنی محبت کےلئے منتخب کيا ہے اور دوستی کےلئے خالص قراردیا ہے اپنی ملاقات کا مشتاق بنایا ہے اپنے فيصلہ سے راضی کيا ہے اور اپنی طرف نظرکرنے کی توفيق عنایت کی ہے اپنی رضاکاتحفہ دیا ہے اپنے فراق اور ناراضگی سے بچایاہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اپنی معرفت سے مخصوص کيا ہے اور اپنی عبادت کا اہل بنایا ہے اپنی چاہت کے لئے ان کے دلوں کو گرویدہ کر لياہے اور اپنے مشاہدہ کےلئے انهيںچُن ليا ہے اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عنایت کی ہے اور اپنی محبت کےلئے ان کے دلوںکو خالی کر ليا ہے اپنے ثواب کے لئے راغب بنایا ہے اور اپنے ذکر کا الہام کيا ہے اپنے شکر کی توفيق دی ہے اور اپنی اطاعت کے لئے مشغول کيا ہے اپنے نيک بندوں ميں قرار دیا ہے اور اپنی منا جات کےلئے چُن ليا ہے اور ہراس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندے کو تجه سے الگ کرسکے۔ خدا یا !مجھے ان لوگوں ميں قرار دے جن کا طریقہ تيری طرف توجہ اور اشتياق ہے اور ان کی زندگی عاشقانہ نا لہ وآہ سے پُر ہيں اور پيشانياں تيرے سجدہ ميںجهکی ہوئی ہيں اور آنکهيں تيری خدمت ميں بيدار ہيں ان کے آنسو تيرے خوف سے رواں ہيں اوران کے دل تيری محبت سے وابستہ ہيں۔ ان کے قلوب تيرے خوف سے دنيا سے الگ ہوگئے ہيں اے وہ کہ جس کے انوار قدسيہ چاہنے والوں کی نگاہوں کےلئے روشن ہيں اور اس کی ذات کی تجلّياں عارفين کے دلوں کےلئے نمایاں ہيں اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو اوراے چاہنے والوں کی آرزو کی انتہا ميں تجه سے تيری اورتيرے چاہنے

____________________

١)بحارالانوار جلد ۶۴ صفحہ/ ۴٨ ا ۔ )

۱۱۳

والوںکی،اور ہر نيک عمل کی محبت چاہتا ہوں جو مجه کو تيرے قرب تک پہونچادے اور تجهے ساری کائنات سے محبوب بنادے اور اس کے بعد تواسی رضا کو اپنی رضا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور اسی شوق کو اپنی معصيت سے بچنے کاوسيلہ بنا دینا، مجه پریہ احسان کر کہ ميری نگاہ تيری طرف رہے اور توخودمجھے عطوفت کی نگاہ سے دیکهتارہے اور اپنے منه کو مجه سے موڑنہ لينا”

دعا ء کے یہ فقرے محبت ، شوق اور اُنس کا بيکراں خزانہ ہيں ہم دعاکے ان فقروں پر کو ئی حاشيہ نہيں لگانا چا ہتے اور ہر گز ہمارے اندر اتنی استطاعت بهی نہيں ہے جوان دعاؤں کے فقروں کو اور خوبصورت بناکر بيان کریں اور ہم اتنی صلاحيت واستعداد کے مالک بهی نہيں ہيں کہ الله سے دعا محبت اور ادب پر کو ئی حاشيہ لگا سکيں ۔

سب سے پہلے ہماری نظر دعا کے ان فقروں پر مرکوز ہو جاتی ہے جن کے ذریعہ امام نے اپنے رب کو پکارا ہے :

یامنیٰ قلوب المشتاقين ویاغایة آمال المحبّين ۔یامن انوارقدسه لابصارمحبيه رائقة وسبحات وجهه لقلوب عارفيه شائقة “ اے وہ کہ جس کے انوار قدسيہ چاہنے والوں کی نگاہوں کےلئے روشن ہيں اور اس کی ذات کی تجلّياں عارفين کے دلوں کےلئے نمایاں ہيں اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو ” اس دعا ميں امام عليہ السلام نے تين باتيں بيان فرمائی ہيں اور بندہ اپنے پروردگار سے ان ہی تين عظيم چيزوں کو طلب کرتا ہے ۔

ا۔آپ نے سب سے پہلے الله سے دعا فرمائی کہ وہ ان نفس کا انتخاب فرمائے اُن کے نفس (قلب )کو اپنی محبت کےلئے خالص کردے ،جن چيزوں کا وہ مالک ہے ان کی طرف رغبت دلائے ،ان کے دل کو اپنی محبت ميں مشغول کردے ،جو چيزیں اس نے خود سے منقطع کی ہيں اُن سے بهی منقطع کردے اور جو چيزیں خود سے دور کی ہيں ان سے بهی دورفرما دے ۔

امام عليہ السلام نے خداوندعالم سے جو کچه طلب فرمایاہے اس پر گا مزن ہو نے کيلئے سب سے پہلے اس چيز کا ہونا ضروری ہے اور اس کے آغاز وابتداء کے بغير انسان الله سے ملاقات کر نے کےلئے اس مشکل راستہ پر گامزن نہيں ہوسکتا اور وجہ الله کاہر بنی اور صدیق بآسانی مشاہدہ کر سکتا ہے ۔

اگر چہ وجہ الله پر نظر کر نا رزق ہے اور اللهاپنے بندوں ميں سے جس کو چاہتا ہے یہ رزق عطا کرنے کےلئے منتخب کر ليتا ہے لہٰذا بندے کےلئے الله کے رزق کو حاصل کر کے اس کی کنجياں حاصل کرنا ضروری ہے جب خداوندعالم اپنے بندہ کو رزق عطا کر تا ہے تو اس کو اس رزق کے درواز ے اور کنجياں بهی عطاکر دیتا ہے اور اس کے اسباب مہيا کر دیتا ہے ۔

۱۱۴

کچه لوگ اللهتعالیٰ سے بغير درواز ے اور کنجيوں کے رزق طلب کرتے ہيں وہ الله کواس کی ان سنتوں اور قوانين کے خلاف پکارتے ہيں جن کو اس نے اپنے بندوں کو عطا کيا ہے۔

انسان کو جن دروازوں سے خداوندعالم سے ملاقات اور وجہہ کریم کا مشاہدہ کرنے کےلئے اقدام کرنا چاہئے وہ مندرجہ ذیل ہيں: ا۔دل کو ہر طرح کے گناہ رنج وغم اور دنيا سے لولگا نے سے پرہيز کرنا چاہئے جس کو علما ء تخليہ کہتے ہيں (یعنی دل کو ہر طرح کے رنج وغم اور الله کے علاوہ کسی اور سے لولگا نے سے خالی ہونا چاہئے )

امام عليہ السلام فرما تے ہيں :

واجعلناممن اخلصته لودّک ومحبّتک،واخليت وجهه لک، وفرّغت فواده لحبّک،وقطعت عنه کل شي ءٍ یقطعه عنک

“خدایا! ہم کوان لوگوں ميں سے قرار دے جن کو اپنی محبت اور مودت کےلئے خالص کيا ہے اور اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عطاکی ہے اور اپنی محبت کےلئے ان کے دلوںکوخالی کر ليا ہے اور ہر اس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندہ کو تجه سے الگ کرسکے ”

منفی پہلو کے اعتبار سے ابتداء ميںيہ پہلا مرحلہ ہے۔ علماء کے قول کے مطابق ابتداء ميں دوسرا مرحلہالتحليه التخليه کے بالمقا بل ہے یہ وہ ایجابی مطلب ہے جس کو امام عليہ السلام نے مندرجہ ذیل فقروں ميں خداوندعالم سے طلب فرمایا ہے :

رضّيته بقضائک،وحبوته برضاک وخصصته بمعرفتک،واهّلته لعبادتک،ورغّبته فيما عندک ،والهمته ذکرک،واوزعته شکرک،وشغلته بطاعتک،وصيّرته من صالحي بریتک،واخترته لمناجاتک

واجعلناجباههم ساجدة لعظمتک،وعيونهم ساهرة فی خدمتک،و دموعهم سائلة من خشيتک،وافئدتهم منخلعة من رهبتک “

اپنے فيصلہ سے راضی کيا ہے اور اپنی طرف نظرکرنے کی توفيق عنایت کی ہے اپنی رضاکاتحفہ دیا ہے اپنے فراق اور ناراضگی سے بچایاہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اپنی معرفت سے مخصوص کيا ہے اور اپنی عبادت کا اہل بنایا ہے اپنی چاہت کے لئے ان کے دلوں کو گرویدہ کر لياہے اور اپنے مشاہدہ کےلئے انهيں چُن ليا ہے”

“اور پيشانياں تيرے سجدہ ميںجهکی ہوئی ہيں اور آنکهيں تيری خدمت ميں بيدار ہيں ان کے آنسو تيرے خوف سے رواں ہيں اوران کے دل تيری محبت سے وابستہ ہيں”

۱۱۵

ان دونوں باتوں سے گفتگو کا آغاز الله سے لو لگا نے کی کنجی ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر انسان کے گا مزن رہنے کی غرض الله سے ملاقات ،اس کے وجہہ کریم اور جمال و جلال کا مشا ہدہ کرنا ہے ۔ ٢۔دوسرا مرحلہ بهی پہلے مرحلہ پر مترتب ہے اور یہ الله سے ملاقات کر نے کا درميانی راستہ ہے ۔اور اسکے بغير انسان الله تک نہيں پہنچ سکتا اور اسکے قرب و جوار تک نہيں پہونچ سکتا ہے۔

( فِی مَقعَْدِ صِدقٍْ عِندَْمَلِيکٍْ مُقتَْدِرِ ) (۱) “اس پاکيزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ ميں ہے ” انسان کو اس مقصد تک پہنچا نے والی سواری جس کی ہر نبی ،ولی ،صدیق اور شہيد نے تمنّا کی ہے وہ محبت الله سے انس اور الله سے شوق ملاقات ہے محبت شوق اور انس کے بغير انسان الله کے بتا ئے ہوئے اس بلندمرتبہ تک ترقی کرنا ممکن نہيں ہے ۔

محبت شوق اور اُنس، الله کے رزق ہيں بيشک الله اپنا رزق بندوں ميں سے جس بندہ کا چاہے انتخاب کرکے عطاکر سکتاہے ليکن جن مقدمات کو امام نے ذکر کيا ہے ہم ان مقدمات کو اس مناجات کے فقروں ميں الگ الگ مشاہدہ کر تے ہيں ۔ امام عليہ السلام بڑے ہی اصرار کے ساته ان چيزوں کو خدا سے طلب کرتے ہيں اور مختلف وسيلوں اور تعبيروں سے خداسے متوسّل ہوتے ہيں آپ عمدہ جملوں سے خداوند عالم کو پکا رتے ہيں : یا منیٰ قلوب المشتا قين ویاغایة آمال المحبين

“ اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو اوراے چاہنے والوں کی آرزو کی انتہا ” پھر آپ الله کی محبت ،خدا جس کو دوست رکهتا ہے اس کی محبت اور ہر اس عمل کی محبت مانگتے ہيں جو بندہ کو الله کے قرب و جوار تک پہنچا تا ہے ۔ ہم براہ راست امام عليہ السلام کے کلمات ميں غور و فکر کرتے ہيں اس لئے کہ حاشيہ پردازی ہما رے براہ راست آفاق ميں محبت کے سلسلہ ميں غور و فکر کرنے کے لمحات واوقات کو تباہ و برباد کردے گی جس محبت کو امام عليہ السلام نے ہما رے لئے اس دعا ميں پيش کيا ہے :

____________________

١)سورئہ قمر آیت ۵۵ )

۱۱۶

اسْا لُکَ حبّکَ وَحبَ مَن یحبّکَ،وحبّ کل عمل یوصلني الیٰ قربک،وان تجعلک احبّ اليَّ مماسواک،وان تجعل حبي ایاک قائِداً الیٰ رضوانکَ،وشوقي اليک ذائدا عن عصيانک وامنن بالنظراليک عليَّ وانظر بعين الود والعطف اليولا تصرف عنِّي وجهک

اور آپ نے فرمایا :واجعلناممن شوّقته الیٰ لقائک ،واعذته من هجرک وقلاک وهيمت قلبه لارادتک

اس کے بعد آپ نے فرمایا :

اللهم اجعلناممّن دابهم الارتياج اليک والحنين ،ودهرههم الزفرة والانين قلوبهم متعلقة بمحبّتک،و افئد تهم منخلعة من مهابتکَ

ان جملوں کو مندرجہ ذیل چار چيزوں ميں اختصار کے ساته بيان کيا جاتا ہے :

ا۔ہم اس کے ہجر و فراق سے پناہ چاہتے ہيں ۔

٢۔ہم کو اپنی محبت اور مودّت کا رزق عطا کر۔

٣۔ہم کو اپنے سے مانوس ہو نے کا رزق عطا کر۔

۴ ۔ہم کو اپنی ملا قات کا شوق عطا کر۔

امام عليہ السلام نے “ا نس اور شوق ”کو اس مختصر سے جملہ ميں سمو دیا ہے :

واجعلنا ممن دابهم الارتياح اليک والحنين

الله سے خوش ہو نا اس کی طرف راغب ہو نے کے علا وہ ہے اور ان دو نوں چيزوں کو امام عليہ السلام نے الله سے طلب کيا ہے ۔ارتياح (خو ش ہو نا )وہ انسيت ہے جو ملا قات سے پيدا ہو تی ہے اور رغبت وہ شوق ہے جو انسان کو الله سے ملاقات کر نے کےلئے اُکساتا ہے ۔

٣۔اس عظيم و بزرگ دعا ميں الله سے لو لگانے کے لئے سواری، سب سے عظيم آخری مقصد جس کو انبياء عليہم السلام اور صدیقين نے بهی طلب فرمایا ہے وہ خدا وند عالم کے وجہ کا دیدار کرنا ہے ،اس مقصد تک وہی افراد پہنچ سکتے ہيں جن کو خدا وندذ عالم نے اپنے قرب و جوا ر کےلئے منتخب فرمایا ہے ۔ امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :

۱۱۷

وَاجعَْلنَْامِمَّن مَنحَْتَهُ النَّظَرَاِل یٰ وَجهِْکَ وَبَوَّاتَهُ مَقعَْدَالصِّدقَْ فِي جَوَا رِکَ وَاجتَْبَيتَْهُ لِمُشَاهَدَتِکَ وَامنُْن بِالنَّظَرِ اِلَيکَْ عَليَّ

“اور ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کواپنی طرف نظر کرنے کی توفيق عنایت کی ہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اور اپنے مشاہدہ کے لئے انهيں چُن لياہے ۔۔۔اور مجه پر یہ احسان کرکہ ميری نگاہ تيری طرف رہے ” انسان اپنے پروردگار کے وجہ کا دیدار اور اس کے جلا ل و جمال کا قریب سے مشا ہدہ کرنے کی آرزو رکهتا ہے ،اس کے قرب و جوار ميں بيڻھنے کی خو اہش و تمنا رکهتا ہے اور اپنے پروردگار سے شراباً طہورا سے سيراب ہو نا چا ہتا ہے ۔

دوسری صورت

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام کی دعا ؤ ں ميں شوق اور انس و محبت کی دوسری صورت پریوں روشنی ڈالی گئی ہے :

اِ هٰلی فَاسلُْک بِنَاسُبُلُ الوَْصُولِْ اِلَيکَْ وَسَيِّرنَْافِی اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوَْفُودْ عَلَيکَْ قَرِّب عَلَينَْا البَْعِيدَْ وَسَهِّل عَلَينَْاالعَْسِيرَْالشَّدِیدَْ وَاَلحِْقنَْابِعِبَادِکَ الَّذِینَْ هُم بِا لبِْدَارِاِلَيکَْ یُسَارِعُونَْ وَبَابَکَ علَی الدَّوَامِ یَطرُْقُونَْ وَ اِیَّاکَ فِی اللَّيلِْ وَالنَّهَارِیَعبُْدُونَْ وَهُم مِن هَيبَْتِکَ مُشفِْقُونَْ

الَّذِینَْ صَفَّيتَْ لَهُمُْ المَْشَارِبَ وَبَلَّغتَْهُمُ الرَّغَائِبَ وَاَنجَْحتَْ لَهُمُ المَْطَالِبَ وَقَضَيتَْ لَهُم مِن فَضلِْکَ المَْآرِبَ وَمَلَات لَهُم ضَمَائِرَهُم مِن حُبِّکَ وَرَوَّیتَْهُم مِن صَافِي شِربِْکَ فَبِکَ اِل یٰ لَذِیذِْ مُنَاجَاتِکَ وَصَلُواْوَمِنکَْ اَقصْ یٰ مَقَاصِدِهِم حَصَّلُواْفَيَامَن هُوَعَل یٰ المُْقبِْلِينَْ عَلَيهِْ مُقبِْلٌ

وَبِالعَْطفِْ عَلَيهِْم عَائِدٌ مُفضِْلٌ وَبِالغَْا فِلِينَْ عَن ذِکرِْهِ رَحِيمٌْ رَوفٌ وَبِجَذبِْهِم ال یٰ بَابِهِ وَدُودٌْعَطُوفٌْ اَسئَْلُکَ اَن تَجعَْلَنِي مِن اَوفَْرِهِم مِنکَْ حَظّاًوَ اَعلَْاهُم عِندَْکَ مَنزِْلاً وَاَجزَْلِهِم مِن وُدِّکَ قِسمْاًوَاَفضَْلِهِم فِی مَعرَْفَتِکَ نَصِيبْاً فَقَد اِنقَْطَعَت اِلَيکَْ هِمَّتِي وَانصَْرَفَت نَحوَْکَ رَغبَْتِي فَاَنتَْ لَاغَيرُْکَ مُرَادِي وَلَکَ لَاسِوَاکَ سَهرِْي وَ سُهَادِي وَلِقَاوکَ قُرَّةَ عَينِْي وَوَصلُْکَ مُن یٰ نَفسْي وَاِلَيکَْ شَوقِْي وَفِي مَحَبَّتِکَ وَلَهِي وَاِل یٰ هَوَاکَ صَبَابَتي وَرِضَاکَ بُغيَْتِي ورُئيَْتُکَ حَاجَتِي وَجَوَارُکَ طَلَبِي وَ قُربُْکَ غَایَةُ سُولِْي وَفِي مُنَاجَاتِکَ رَوحِْيوَرَاحَتي وَعِندَْکَ دَوَاءُ عِلَّتِي وَشِفَاءُ غُلَّتِي وَبَردُْلَوعَْتي وَکَشفُْ کُربَْتِي فَکُن اَنِيسِْي فِی وَحشَْتي وَمُقِيلَْ عَثرَْتِي وَغَافِر زَلَّتِي وَقَابِلَ تَوبَْتِيوَمُجِيبَْ دَعوَْتِي وَوَلِّيَ عِصمَْتي وَمُغنِْيَ

۱۱۸

فَاقَتِي وَلَاتَقطَْعنِْي عَنکَْ وَلَاتُبعِْد نِي مِنکَْ یَانَعِيمِْي وَجَنَّتِي وَیَا دُنيَْايَ وَآخِرَتِي ( ١)

“خدا یا!ہم کو اپنی طرف پہنچنے کے راستوں کی ہدایت فرما دے اور ہميں اپنی بارگاہ ميں حاضری کے قریب ترین راستہ پر چلادے ،ہر دور کو قریب ، ہرسخت اور مشکل کو آسان بنا دے اور ہميں ان بندوں سے ملا دے جو تيزی کے ساته تيری طرف بڑهنے والے ہيں اورہميشہ تيرے درکرم کو کهڻکهڻانے والے ہيں اور دن رات تيری ہی عبادت کر تے ہيں اور تيری ہی ہيبت سے خوفزدہ رہتے ہيںجن کے لئے تو نے چشمے صاف کردئے ہيں اور ان کو اميدوں تک پہنچا دیاہے اور ان کے مطالب کو پورا کردیاہے اور اپنے فضل سے ان کی حا جتوں کو مکمل کردیاہے اپنی محبت سے ان کے دلوں کو بهر دیاہے اور اپنے صاف چشمہ سے انهيں سيراب کردیاہے وہ تيرے ہی ذریعہ تيری لذیذ مناجات تک پہنچے ہيں اور تيرے ہی ذریعہ انهوں نے اپنے بلندترین مقاصد کو حا صل کيا ہے اے وہ خدا جو اپنی طرف آنے والوں کااستقبال کرتا ہے اور ان پرمسلسل مہر بانی کرتاہے اپنی یاد سے غافل رہنے والوں پربهی مہربان رہتا ہے اور انهيں محبت کے ساته اپنے در وازے کی طرف کهينچ ليتا ہے خدایا ميرا سوال یہ ہے کہ ميرے اپنی بہترین نعمت کاسب سے زیادہ حصہ قرار دے اور بہترین منزل کا مالک بنا دے اور اپنی محبت کاعظيم ترین حصہ عطا فرمادے اور اپنی معرفت کا بلند ترین مرتبہ دیدے چونکہ ميری ہمت تيری ہی طرف ہے فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتاہوں کسی اور کےلئے نہيں تيری ملاقات ميری آنکهوںکی ڻھنڈک ہے اور تيرا وصال ميرے نفس کی اميد ہے اور تيری جانب ميرا شوق ہے اور تيری ہی محبت ميں ميری بے قراری ہے تيری ہی خواہش کی طرف ميری توجہ ہے اور تيری ہی رضا ميری آرزوہے تيری ہی ملاقات ميری حا جت ہے اور تيرا ہی ہمسایہ ميرا مطلوب ہے تيرا قرب ميرے سوالات کی انتہا ہے اور تيری منا جات ميں ميری راحت ا ور سکون ہے تيرے پاس ميرے مرض کی دواہے اورميری تشنگی کا علاج ہے

،غم کی بيقراری کی ڻھنڈک، رنج و غم کی دوری تيرے ہی ذمہ ہے ، تو ميری وحشت ميں ميرا انيس لغزشوں ميں کا سنبهالنے والا اور خطاؤں کومعاف کرنے والا اور ميری تو بہ کو قبول کرنے والا اورميری دعاکا قبول کرنے والا ،ميری حفاظت کا ذمہ دار فاقہ ميں غنی بنانے والاہے مجھے اپنے سے الگ نہ کرنا اپنی بارگاہ سے دور نہ کرنا اے ميری نعمت، اے ميری جنت اے ميری دنيا و آخرت ” یہ منا جات کا نہا یت ہی بزرگ ڻکڑا ہے اور دعا کے آداب ميں سے بہت ہی عمدہ طریقہ ہے ، اہل بيت عليہم السلام کے عمدہ و بہترین کلمات ميں سے ایک بہترین کلمہ ہے :دعا ،تضرع اور محبت کے سلسلہ ميں ،اور یہ بہت زیادہ غور و فکر کا مستحق ہے۔

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ۴٨ ا۔ )

۱۱۹

ہم اس مناجات ميں بيان کی گئی حب الٰہی کی بعض صورتوں اور افکار پر صرصری نظر ڈالتے ہيں :

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام مناجات کے آغاز ميں پروردگار عالم سے سہارے کی تمنا کرتے ہيں کہ اے خدا ہم کو اپنی طرف پہنچنے والے راستوں پر چلا دے ۔اس پوری دعا کا خلاصہ یہی جملے ہيں اور دعا کے سب سے اہم مطالب ہيں اس دعا ميں حضرت امام زین العابدین خدا سے دنيا اور آخرت کی دعا نہيں ما نگتے ہيں بلکہ آپ خدا سے اپنے سے شر عی محبت کا مطالبہ فر ما تے ہيں ، اس کا قرب ،اس تک رسائی اور اس کا جوار طلب کرتے ہيں اور اپنا ڻهکانا انبياء عليہم السلام ،شہدا ء اور صدیقين کے ساته طلب کرتے ہيں ۔

امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :اِ هٰلی فَاسلُْک بِنَاسُبُلُ الوَْصُولِْ اِلَيکَْ ،آپ نے واحد صيغہ“سبيل الْوَصُوْل الَيْکَ ”نہيں فر ما یاہے بلکہ آپ نے “سُبُلُ الْوَصُوْل”جمع کا صيغہ استعمال فر ما یا ہے چو نکہ خدا وند عالم تک رسائی کا راستہ ایک ہی ہے متعدد راستے نہيں ہيں اور قرآن کریم نے بهی واحد “صراط ”راستہ کا تذکرہ کيا ہے :( اِهدِْنَاالصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَْ صِرَاطَ الَّذِینَْ اَنعَْمتَْ عَلَيهِْم غَيرِْالمَْغضُْوبِْ عَلَيهِْم وَلَاالضَّالِينَْ ) (١) “ہميں سيدهے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر عضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں ”

آیت:( وَالله یَهدِْی مَن یَّشَاءُ اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ ) (٢)

____________________

١)سورئہ فا تحہ آیت/ ۶۔ ٧۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٣ا ٢۔ )

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248