دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68432 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

“ اور الله جس کو چاہتا ہے صراط مستقيم کی ہدایت دے دیتا ہے ” اور آیت:وَیَهدِْیهِْم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ ( ١)

“اور انهيں صراط مستقيم کی ہدایت کرتا ہے ” اور آیت:

وَاجتَْبَينَْاهُم وَهَدَینَْاهُم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ (٢) “انهيں بهی منتخب کيا اور سب کو سيدهے راستے کی ہدایت کردی” ليکن “سبيل ”جمع کے صيغہ کے ساته قرآن کریم ميں حق اور باطل کے سلسلہ ميں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :( یَهدِْی بِهِ الله مَنِ اتَّبَعَ رِضوَْانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ( ٣)

“جس کے ذریعہ خدا اپنی خشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے ”

آیت:( لَاتَتَّبِعُواْالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِيلِْهِ ) ( ۴)

“اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جا ؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جا ؤ گے ” آیت:( وَمَالَنَااَلَّانَتَوَکَّلَ عل یٰ الله وَقَدهَْدَانَاسُبُلَنَا ) ( ۵)

“اور ہم کيوں نہ الله پر بهروسہ کریں جب کہ اسی نے ہميں ہمارے راستوں کی ہدایت دی ہے ”

____________________

١)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

٢)سورئہ انعام آیت/ ٨٧ ۔ )

٣)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

۴)سورئہ انعام آیت/ ۵٣ ا۔ )

۵)سورئہ ابرا ہيم آیت/ ٢ا۔ )

۱۲۱

آیت:( وَالَّذِینَْ جَاهِدُواْفِينَْالَنَهدِْیَنَّهُم سُبُلَنَاوَاِنَّ الله لَمََعَ المُْحسِْنِينَْ ) ( ١)

“اور جن لوگوں نے ہمارے حق ميں جہاد کيا ہے ہم انہيں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقينا الله حسن عمل والوں کے ساته ہے ” الله نے انسانوں کے چلنے کےلئے متعدد را ستے بنا ئے ہيں جن پر وہ الله تک رسائی کےلئے گا مزن ہو تے ہيں اور علما ء کے درميان یہ مشہور ہے :

اِنَّ الطّرق الیٰ الله بعددانفاس الخلا ئق

“خدا وند عالم کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی ہيں جتنی مخلوقات کے سانس کی تعداد ہے ”

یہ تمام راستے الله تک پہنچنے والے صراط مستقيم کے ما تحت جا ری ہو تے ہيں ليکن خداوند عالم نے ہر انسان کےلئے ایک طریقہ قرار دیا ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے رب کی معرفت حا صل کرتا ہے اور خدا تک پہنچنے کےلئے اس پر گا مزن ہو تا ہے ۔

کچه لوگ علم اور عقل کے راستہ کے ذریعہ خدا تک رسا ئی حا صل کر تے ہيں ،کچه لوگ اور دل کے ذریعہ خدا تک پہنچتے ہيں اور کچه لوگ الله کے ساته معاملات اور تجا رت کے ذریعہ اس کی معرفت حا صل کر سکتے ہيں اور سب سے افضل و بہتر طریقہ یہی ہے کہ انسان براہ راست خدا وند عالم سے معا ملہ کرے اور اس کی عطا و بخشش اخذ کرے ۔اس سلسلہ ميں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( یَاَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْهَل اَدُلُّکُم عَل یٰ تِجَارَةٍ تُنجِْيکُْم مِن عَذَابٍ اَلِيمٍْ ) ( ٢)

“ایمان والو کيا تمهيں ایسی تجارت کی طرف رہنما ئی کروں جو تمهيں درد ناک عذاب سے بچا لے ”

____________________

١)سورئہ عنکبوت آیت/ ۶٩ ۔ )

٢)سورئہ صف آیت/ ٠ا۔ )

۱۲۲

اور خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :( وَمِن النَّاسِ مَن یَّشرِْی نَفسَْهُ ابتِْغَاءَ مَرضَْاتِ الله وَالله رَوفٌ بِالعِْبَادِ ) ( ٢)

“اور لوگوں ميں وہ بهی ہيں جو اپنے نفس کو مر ضی پروردگار کےلئے بيچ ڈالتے ہيں اور الله اپنے بندوں پر بڑا مہر بان ہے ”

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا وند عالم سے اس تک پہنچنے کے متعدد راستے طلب کر تے ہيں ۔جب انسان خدا وند عالم تک رسا ئی کی خا طر متعددراستے طے کرے گا تو اس کا خدا کے قرب و جوار تک پہنچنا زیادہ قوی و بليغ ہو گا ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام پروردگار عالم سے اُس کے اُن صالحين بندوں سے ملحق ہو نے کی خو ا ہش کرتے ہيں جو الله سے لو لگا نے ميں دو سروں سے سبقت کرتے ہيں اور رات دن الله کی عبادت اور اطاعت ميں مشغول رہتے ہيں ۔

الله تک رسا ئی کا راستہ بہت دشوار ہے اس طریقہ کی قرآن کریم نے “ذات الشو کة ”کے نام سے تعبير کی ہے ۔بہت سے لوگ ہيں جو اس طریقہ کی بڑے عزم و صدق و صفا سے سير کا آغاز کرتے ہيں ليکن وہ آدها راستہ طے کرنے کے بعد ڈنوا ڈول (بہک )ہو جا تے ہيں ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا سے یوں سوال کرتے ہيں کہ اے خدا مجه کو اپنی قربت عطا کر ، اس مشکل سفر ميں ميرے راستہ کو آسان کر ،مجھے گذشتہ صا لحين سے ملحق فر ما چونکہ اولياء اورخار دار راستہ کو طے کرنے کےلئے صالحين کی معيت اور مصاحبت سب کے دلوں کو محکم کر دیتی ہے اور راستہ تک پہچانے کےلئے ان کے عزم و ارادہ ميں اضافہ کر تی ہے ۔ بيشک الله تک رسا ئی بہت مشکل ہے جب کچه صالحين بندے اس راستہ کو طے کرتے ہيں تو

____________________

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٢٠٧ ۔ )

۱۲۳

وہ ایک دو سرے سے تمسک اختيار کرتے ہيں ،حق اور صبر کی وصيت کرتے ہيں ۔اسی طرح ان کے لئے “ذات الشوکہ ”راستہ طے کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام اس مشکل اور طویل راستہ کو طے کر نے اور صالحين کے تقرب اور ان سے ملحق ہو نے کےلئے فر ما تے ہيں :

وَسَيَّرنَْافِی اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوَْفُودِْعَلَيکَْ قَرِّب عَلَينَْاالبَْعِيدْوَسَهِّل عَلَينَْا العَْسِيرْالشَّدِیدْ،وَاَلحَْقنَْابِعِبَادِکَ الَّذِینَْ هُم بِالبَْدَارِاِلَيکَْ یُسَارِعُونَْ وَبَابُکَ عل یٰ الدَّوَامِ یَطرُقُونَْ وَاِیَّاکَ بِاللَّيلِْ وَالنَّهَارِیَعبُْدُونَْ

“خدا یا ہميں اپنی بارگاہ ميں حاضری کے قریب ترین راستہ پر چلادے ،ہر دور کو قریب ، ہرسخت اور مشکل کو آسان بنا دے اور ہميں ان بندوں سے ملا دے جو تيزی کے ساته تيری طرف بڑهنے والے ہيں اورہميشہ تيرے درکرم کو کهڻکهڻانے والے ہيں اور دن رات تيری ہی عبادت کر تے ہيں ”

۱۲۴

دلوں ميں پيدا ہونے والے شکوک

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام صالحين کی صفات بيان فر ما تے ہيں جن سے آپ ملحق ہو نے کےلئے الله سے سوال کرتے ہيں اور ان کو ایسی عظيم صفت سے متصف کرتے ہيں جس کے بارے ميں بہت زیادہ تفکر اور غور و فکر کی ضرورت ہے :

صَفَّيتَْ لَهُمُْ المَْشَارِبَ وَبَلَّغتَْهُمُ الرَّغَائِبَ وَمَلَات لَهُم ضَمَائِرَهُم مِن حُبِّکَ وَرَوَّیتَْهُم مِن صَافِی شِربِْک

“جن کے لئے تو نے چشمے صاف کردئے ہيں اور ان کو اميدوں تک پہنچا دیاہے۔۔۔ اپنی محبت سے ان کے دلوں کو بهر دیاہے اور اپنے صاف چشمہ سے انهيں سيراب کردیاہے ”

یہ کونسی صاف ،شفاف ا ورپاکيزہ شراب ہے جس سے ان کا پروردگار انهيں دنيا ميں سيراب کریگا ؟اور وہ کونساظرف ہے جن کو الله نے اپنی محبت سے پُر کردیا ہے ؟

بيشک وہ پاک وپاکيزہ اور صاف وشفّاف شراب ،محبت ،یقين ،اخلاص اور معرفت ہے اور ظرف دل ہے ۔

خداوندعالم نے انسان کو معرفت ،یقين اور محبت کےلئے بہت سے ظروف کا رزق عطا کيا ہے ليکن ۔قلب ۔دل ۔ان سب ميں اعظم ہے ۔

جب خداوندعالم کسی بندہ کو منتخب کر ليتا ہے تو اس کے دل کو پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف شراب سے سيراب کردیتاہے تو اس کا عمل رفتار وگفتار اور اس کی عطا وبخشش بهی اس شراب کے مثل پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف ہوگی ۔ بيشک دل کی واردات اور صادرات ميں مشا بہت اور سخنيت پائی جاتی ہے جب دل کی واردات پاک صاف خالص اور گوارا ہيں تو دل کی صادرات بهی اسی کے مشابہ ہونگی تو پھر بندہ کا فعل گفتار ،نظریات اخلاق موقف اور اس کی عطا وبخشش صاف اور گوارا ہوگی جب دل کی واردا ت گندی یا کثافت سے مخلوط ہوگی جن کو شياطين اپنے دوستوں کو بتایا کر تے ہيں تو لامحالہ دل کی صادرات کذب ونفاق ،خبث نفس اور اللهورسول سے روگردانی کے مشابہ ہو گی ۔ رسول اسلام (ص) سے مروی ہے کہ :

انّ في القلب لمّتين :لمّة من الملک،وایعادبالخيروتصدیق بالحق،ولمّة من العدو:ایعادبالشرّوتکذیب للحق فمن وجد ذالک فليعلم انه من اللّٰه،ومن وجد الآخرفليتعوّذ باللّٰه من الشيطان ثمَّ قرا اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً (١)

____________________

١) سورئہ بقرہ آیت/ ٢۶٨ )

۱۲۵

اور حق کی تصدیق کے لئے ہو تی ہے جبکہ دو سری حالت دشمن کی جانب سے ہو تی ہے جو برا ئی کے وعدے اور حق کی تکذیب کی شکل ميں ظاہر ہو تی ہے جس کو پہلی حالت مل جائے اس کو معلوم ہو نا چا ہئے کہ یہ خداوند عالم کی جانب سے ہے اور جس کو دوسری حالت ملے اس کو شيطان سے الله کی پناہ مانگنا چاہئے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً ) (١) “شيطان تم سے فقيری کا وعدہ کرتا ہے اور تمهيں برائيوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کر تا ہے”

فرشتہ والی حالت یہ دل کی طرف ربّانی واردات ہے اور شيطان کی حالت یہ دل کی طرف شيطانی واردات ہے۔

کيا تم نے شہدکی مکهی کا مشاہدہ نہيں کيا جو پهولوں سے رس چُوستی ہے لوگوں کےلئے ميڻها شہد مہيا کرتی ہے اس ميں لوگوں کےلئے شفاء ہے لہٰذاجب وہ کثيف جگہوں سے اپنی غذا مہيا کرے گی تواس کا بهی ویسا ہی اثر ہوگا ۔

خداوندعالم اپنے خليل ابراہيم اسحاق اور یعقوب عليم السلام سے فرما تا ہے:

( وَاذکُرعِْبَادَنَااِبرَْاهِيمَْ وَاِسحَْاقَ وَیَعقُْوبَْ اُولِی الاَیدِْی وَ ا لاَْبصَْارِ اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِوَاِنَّهُم عِندَْنَالِمِنَ المُْصطَْفَينَْ الاَْخيَْارِ ) (٢ ) “اوراے پيغمبر ہمارے بندے ابراہيم اسحاق اور یعقوب کا ذکر کيجئے جو صاحبان قوت اور

____________________

١)تفسير الميزان جلد ٢صفحہ ۴٠۴ ۔ )

٢)سورئہ ص آیت ۴۵ ۔ ۴٧ ۔ )

۱۲۶

صاحبان بصيرت تھے ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا اور وہ ہما رے نزدیک منتخب اور نيک بندوں ميں سے تھے ” یہ عظيم صفت جو الله نے ان جليل القدر انبياء عليہم السلام کو عطا کی ہے وہ قوت اور بصيرت ہے ایدی اور ابصار یہ اس خالص شراب کا نتيجہ ہے جو الله نے ان کو عطا کی ہے :

( اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِ ) ( ١)

“ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا ” اگر خداوندعالم نے ان کو اس خالص ذکری الدار سے مزیّن نہ فرمایا ہوتا تو وہ (ان کےلئے نہ قوت ہوتی اور نہ بصيرت ۔( ٢)

اگر انسان پاک و صاف اور اچهے اعمال انجام دیتا ہے تو اس کےلئے پاک و شفاف غذا نوش کرنا ضروری ہے اور انسان کا دل وہی واپس کرتا ہے جو کچه وہ اخذ کرتا ہے ۔

اصل اختيار

ہم قلب و دل کی واردات اور صادرات اور ان کے ما بين مشا بہت اور سنخيت کو بيان کرنے کے بعد یہ بتا دینا ضروری سمجهتے ہيں :یہ گفتار اصل اختيار سے کو ئی منا فات نہيں رکهتی ہے جو متعدد قرآنی

____________________

١)سورئہ ص آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)اس مقام پر قلب کی واردات اور صادرات کے ما بين جدلی تعلق ہے اگر دل ) کی واردات اچهی ہو ں گی اس کے بر عکس بهی صحيح ہے یعنی جب انسان نيک اعمال انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس کو منتخب کر ليتا ہے اور جب انسان برے کام انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس سے پاک و صاف خالص شراب سے پردہ کر ليتا ہے اور اس کو خود اسی کے حال پر چهوڑ دیتا ہے اور وہ اسی طرح کهاتاپيتا ہے جس طرح شيطان اور خو اہشات نفسانی اس کی رہنما ئی کرتے ہيں اور لوگ شيطان اور خو اہشات نفسانی کے دسترخوان سے غذا نوش کرتے ہيں ۔

۱۲۷

مفا ہيم اور افکار کی بنياد ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دل ایک خا لی ظرف ہے جو کچه خير وشر اس ميں ڈالا جاتا ہے اسی کو واپس کرتاہے بلکہ دل ایسا ظرف ہے جو کچه اس ميں ڈالا جاتا ہے اس کو اخذ کرليتا ہے اور حق کو باطل اور خير کو شر سے جدا کرتا ہے ۔

افکار اسلامی اصولوں ميں سے یہ ایک اصل ہے اس اصل کی بنياد “وعا القلب ” ہے اور اسی “اختيار ” پر اسلام کے متعدد مسا ئل ،اصول اور قضایا مو قوف ہيں ۔

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے کہ انسانی حيات ميں دل کے کردار کی بہت زیادہ تا کيد کی گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جدا کرنے پر قادر ہے۔ روایت ميں آیا ہے کہ حضرت دا و د نے اپنے پروردگار سے یوں منا جات کی ہے :

الٰهي لکل ملک خزانة،فاین خزائنک؟فقال جلّ جلاله:لی خزانة اعظم من العرش،واوسع من الکرسي،واطيب مِن الجنّة،وازین من الملکوت، ارضهاالمعرفة،وسماء وهاالایمان،وشمسهاالشوق،وقمرهاالمحية ،و نجومها الخواطر، و سحابها العقل،ومطرهاالرحمة،وشجرهاالطاعة،وثمرها الحکمة،ولهااربعة ارکان: التوکّل والتفکير،والاُنسُ والذکرولهااربعة ابواب: العلم والحکمة والصبروالرضا الاوهي القلب (١)

“اے ميرے پروردگار ہر ملک کا خزانہ ہو تا ہے تو تيرا خزانہ کہا ں ہے ؟پروردگار عالم نے فرمایا : ميرا خزانہ عرش اعظم ہے ،کر سی سے وسيع ہے ،جنت سے زیادہ پاکيزہ ہے ،ملکوت سے زیادہ مزین ہے زمين اس کی معرفت ہے ،آسمان اس کا ایمان ہے ،سورج اس کا شوق ہے، قمر اس کی محبت

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۸

ہے، ستا رے اس کے خيالات ہيں ،عقل اس کے بادل ہيں با رش اس کی رحمت ہے ،طاقت اس کا درخت ہے ،حکمت اس کا پهل ہے ،اسکے چار رکن ہيں :توکل، تفکر ،انس اور ذکر ۔اس کے چار دروازے ہيں :علم ، حکمت ،صبر اور رضا ۔۔۔آگاہ ہو جاؤ وہی دل ہے ”

روایت (جيسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے )سوال اور جواب کی صورت ميں رمزی طور پر گفتگو کرتی ہے اور اسلامی روایات ميں یہ مشہور و معروف لغت ہے

۔روایت ميں ہے کہ خدانے حضرت مو سیٰ سے فر مایا : “یاموسیٰ جرّد قلبک لحبّي،فاني جعلت قلبک ميدان حبي،وبسطت في قلبک ارضاً من معرفتي،وبنيت في قلبک شمساًمن شوقي،وامضيت في قلبک قمراًمن محبتي،وجعلت في قلبک عيناًمن التفکّروادرت في قلبک ریحاًمن توفيقي، وامطرت في قلبک مطراًمن تفضّلي،وزرعت في قلبک زرعاًمن صدقي،وانبت في قلبک اشجاراًمن طاعتي،ووضعت في قلبک جبالاًمن یقيني ( ١)

“اے مو سیٰ اپنے دل کو ميری محبت کے لئے خالی کر دو ،کيونکہ ميں نے تمہارے دل کو اپنی محبت کا ميدان قرار دیا ہے، اور تمہارے دل ميں اپنی معرفت کی کچه زمين ایجاد کی ہے ،اور تمہارے دل ميں اپنے شوق کاسورج تعمير کيا ہے تمہارے دل ميں اپنی محبت کا چاند بنایا ہے ،تمہارے دل ميں فکر کی آنکه بنا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنی تو فيق کی ہوا چلا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنے فضل کی بارش کی ہے تمہارے دل ميں اپنی سچا ئی کی کهيتی کی ہے تمہارے دل ميں اپنی اطاعت کے درخت اُگا ئے ہيں تمہارے دل ميں اپنے یقين کے پہاڑ رکهے ہيں ”

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۹

اس روایت ميں بهی راز دارانہ گفتگو کی گئی ہے اور دونوں روایات دل کےلئے حق کو باطل اور ہدایت کو ضلالت و گمرا ہی سے جدا کرنے کےلئے واعی کی شرح کر رہی ہيں ۔

ہم پھر مناجات کا رخ کرتے ہيں اس کے بعد امام عليہ السلام خدا وند عالم کو اس لطيف و رقيق انداز ميں پکا رتے ہيں :

فَيَامَن هُوَعَل یٰ المُْقبِْلِينَْ عَلَيهِْ مُقبِْلٌ،وَ بِالعَْطفِْ عَلَيهِْم عَائِدٌ مُفضِْلٌ،وَبِا الغَْافِلِينَْ عَن ذِکرِْهِ رَحِيمٌْ رَءُ وفٌ،وَبِجَذبِْهِم اِل یٰ بَابِهِ وَدُودٌْعَطُوفٌْ

“ اے وہ خدا جو اپنی طرف آنے والوں کااستقبال کرتا ہے اور ان پرمسلسل مہر بانی کرتاہے اپنی یاد سے غافل رہنے والوں پربهی مہربان رہتا ہے اور انهيں محبت کے ساته اپنے در وازے کی طرف کهينچ ليتا ہے ”

اس مناجات ميں دو باتيں شامل ہيں :

بيشک پروردگار عالم اس بندے کا استقبال کرتا ہے جو اس کی خدا ئی کا اقرار کرتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے ۔

خدا وند عالم اپنے سے غفلت کرنے والے بندوں پرمہربانی و عطوفت کرتا ہے اور ربانی جذبات کے ذریعہ ان سے غفلت دور کردیتا ہے ۔

اس کے بعد امام عليہ السلام الله سے اس طرح منا جات کرتے ہيں :اَسئَْلُکَ اَن تَجعَْلَني مِن اَوفَْرِهِم مِنکَْ حَظّاًوَاَعلَْاهُم عِندَْکَ مَنزِْلاً وَاَجزَْلِهِم مِن وُدِّکَ قِسمْاًوَاَفضَْلِهِم فِي مَعرَْفَتِکَ نَصِيبْاً “ خدایا ميرا سوال یہ ہے کہ ميرے لئے اپنی بہترین نعمت کاسب سے زیادہ حصہ قرار دے اور بہترین منزل کا مالک بنا دے اور اپنی محبت کاعظيم ترین حصہ عطا فرمادے اور اپنی معرفت کا بلند ترین مرتبہ دیدے ”

۱۳۰

دعا کے اس فقرہ سے ذہن ميں یہ سوال پيدا ہو تا ہے :اس جملہ سے پہلے توامام عليہ السلام خدا وند عالم سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ مجه کو ان سے ملحق کردے اور اب یہ تمنا و آرزو کر رہے ہيں کہ اپنے پاس سے ميرے زیادہ فضل اور بلند ترین مقام و منزلت قرار دے ،اب اس سوال کو پہلے سوال سے کيسے ملایا جا سکتا ہے ؟

دعا ميں اور دعا کرتے وقت امام عليہ السلام کے نفس ميں کو نسی چيز مو جزن ہو رہی تهی کہ امام عليہ السلام نے صالحين سے ملحق ہو نے کی دعا کرنے سے پہلے ان پر اپنی سبقت اور امامت کی دعا فر ما ئی ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس سوال کی تشریح ضروری ہے اور یہ دعا کے اسرار ميں سے ایک راز ہے ۔خداوند عالم نے ہم کو یہ تعليم دی ہے کہ ہم اس سے دعا کرنے سے فرار اختيار نہ کریں ،دعا کرنے ميں بخل سے کام نہ ليں ،جب ہمار ا مو لا کریم ہے ،جب مسئول (جس سے سوال کيا جا رہا ہے )کریم ہے تو اس سے سوال کرنے ميں بخل سے کام لينا بہت بری بات ہے ،جس کی رحمت کے خزانوں کی کو ئی انتہا نہيں ہے ،جو ختم ہو نے والے نہيں ہيں اور اس کی کثرت عطا سے صرف اس کا جود و کرم ہی زیادہ ہو تا ہے ۔(ا)

خدا وند عالم نے ہم کو “عباد الر حمن ”کے آداب و اخلاق ميں یہ تعليم دی ہے کہ ہم خدا وند عالم

____________________

١)دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے : )

۱۳۱

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الفَْا شِی فِی الخَْلقِْ اَمرُْهُ وَحَمدُْ هُ الظَّاهِرِ بِالکَْرَمِ مَجدُْهُ البَْاسِطِ بِالجُْودِْ یَدَهُ اَلَّذِی لَاتَنقُْصُ خَزَائِنُهُ وَلَاتَزِیدُْهُ کَثرَْةُ العَْطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماًاِنَّهُ هُوَالعَْزِیزُْالوَْهَّابُ “ساری حمد اس خدا کےلئے ہے جس کا امر اوراس کی حمد مخلوقات ميں نمایاں ہے اور جس کی بزرگی اس کے کرم کے ذریعہ نمایاں ہے،اور اس کے دونوں ہاته بخشش کےلئے کهلے ہوئے ہيں ،اس کے خزانوں ميں کمی نہيں ہے ،اور کثرت عطا اس کے یہاں سوائے جود و کرم کے کسی بات کااضافہ نہيں ہو تا ہے”

سے یہ سوال کریں کہ وہ ہم کو متقين کا امام قرار دے:وَاجعَْلنَْالِلمُْتَّقِينَْ اِمَاماً ( ١)

“اور ہم کو متقين کا امام قرار دے ” ہم معصوم عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ؤں ميں یہ او لو االعزمی والا جملہ بہت زیادہ پڑها کر تے ہيں : آثَرنِی وَلَاتُوثِّرعَْلَیَّ اَحَداً “مجه کو ترجيح دے اور مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”

دعائے قاع اور قمہ

دعاؤں کی دو قسميں ہيں ایک ميں بندہ کے مقام اور ان برا ئيوں اور گناہوں کو مجسم کياجا تا ہے جن سے انسان مرکب ہے جس کو عربی ميں قاع کے نام سے یاد کيا گياہے دوسری قسم ميںخداوند عالم کے سلسلہ ميں انسان کے شوق اور رجحان کو مجسم کياجاتاہے اور خدا وند عالم کے جود و کرم وسخاوت اور اس کی رحمت کے خزا نوں کی کو ئی حدنہيں ہے اس کوعربی ميں قمہ کہا جاتاہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام دعائے اسحا ر ميں دونوںکے ما بين اسی نفسی فا صلہ کو بيان فر ما تے ہيں :

اِذَارَایتُْ مَولَْي ذُنُوبْي فَزَعتُْ،وَاِذَارَایتَْ کَرَمَکَ طَمَعتُْ

“جب ميں اپنے گنا ہوں کو دیکهتا ہوں تو ڈرجاتا ہوں اور جب ميں تيرے کرم کو دیکهتا ہوں تو پُراميدہوجاتا ہوں ”

اور اسی دعا ميں آپ فر ما تے ہيں :عَظُمَ یَاسَيَّدِي اَمَلِي وَسَاءَ عَمَلِي فَاَعطِْنِي مِن عَفوِْکَ بِمِقدَْارِعَمَلِي وَلَاتُواخِذنِْي بِاسوَْءِ عَمَلي

____________________

١)سورئہ فر قان آیت/ ٧۴ )

۱۳۲

“اے ميرے مالک ميری اميدیں عظيم ہيں اور ميرے اعمال بدترین ہيں مجھے اپنے عفوکرم سے بقدراميد دیدے اور ميرے بد ترین اعمال کا محاسبہ نہ فرما ” حضرت امير المو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام نے جو دعا کميل بن زیاد نخعی کو تعليم فر ما ئی تهی اس ميں آپ نے قاع سے ہی آغاز فر ما یا ہے :

اللهم اغفِْر لِيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَهتَْکُ العِْصَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ النِّقَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُغَيِّرُالنِّعَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَحبِْسُ الدُّعَاءَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ البَْلَاءَ اللهم اغفِْرلِْي کُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْهُ وَکُلَّ خَطِيئَْةٍ اَخطَْاتُهَااللهم اِنِّي اَتَقَرَّبُ اِلَيکَْ بِذکرِْکَ وَاَستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَاَسئَْلُکَ بِجُودِْکَ اَن تُدنِْيَنِي مِن قُربِْکَ وَاَن تُوزِْعَني شُکرَْکَ وَاَن تُلهِْمَنِي ذِکرَْکَ اللهم اِنِّي اسئَْلُکَ سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَ لِّلٍ خَا شِعٍ اَن تُسَامِحَنِي وَتَرحَْمَنِي وَتَجعَْلَنِي بِقِسمِْکَ رَاضِياًقَانِعاًوَفِی جَمِيعِْ الاَْحوَْالِ مُتَوَاضِعاًاللهم وَاَسئَْلکَ سُئَوالَ مَنِ اشتَْدَّت فَاَقَتُهُ وَاَنزَْلَ بِکَ عِندَْ الشَّدَائِدِحَاجَتَهُ وَعَظُمَ فِيمَْاعِندَْکَ رَغبَْتُهُ اللهم عَظُمَ سُلطَْانُکَ وَعَلَامَکَانُکَ وَخَفِیَ مَکرُْکَ وَظَهَرَاَمرُْکَ وَغَلَبَ قَهرُْکَ وَجَرَت قُدرَْتُکَ وَلَایُمکِْنُ الفِْرَارُمِن حُکُومَْتِکَ اللهم لَا اَجِدُلِذُنُوبِْي غَافِراًوَلَالِقَبَائِحِي سَاتِراًوَلَالِشيءٍ مِن عَمَلِي القَْبِيحِْ بِالحَْسَنِ مُبَدِّلاً غَيرَْکَ لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ وَبِحَمدِْکَ ظَلَمتُْ نَفسِْي وَتَجَرّاتُْ بِجَهلِْي وَسَکَنتُْ اِ لٰ ی قَدِیمِْ ذِکرِْکَ لِي وَمَنِّکَ عَلَیَّ اللهم مَولَْايَ کَم مِن قَبِيحٍْ سَتَرتَْهوَکَم مِن فَادِحٍ مِنَ البَْلَاءِ اَقَلتَْهُ وَکَم مِن عِثَارِوَقَيتَْهُ وَکَم مِن مَکرُْوهٍْ دَفَعتَْه وَکَم مِن ثَنَاءٍ جَمِيلٍْ لَستُْ اَهلْاً لَهُ نّشَرتَْهُ اللهم عَظُمَ بَلَائِي وَاَفرَْطَ بِي سُوءُْ حَالِي وَقَصُرَت بِي اَعمَْالِي وَقَعَدَت بِي اَغلَْالِي وَحَبَسَنِي عَن نَفعِْي بُعدُْ اَمَلِي وَخَدَعَتنِْي الدُّنيَْابِغُرُورِْهَاوَنَفسِْي بِجِنَایَتِهَاوَمِطَالِي یَاسَيِّدِي فَاسئَْلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَایَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائِي سُوءُْ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلَاتَفضَْحَني بِخَفِيِّ مَااطَّلَعتَْ عَلَيهِْ مِن سِرِّي

۱۳۳

“خدایا ميرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بڻہ لگادیتے ہيں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہيں،ا ن گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغير کر دیا کرتے ہيں ،ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوں کو تيری بارگاہ تک پہنچنے سے روک دیتے ہيں،خدایا ميرے ان گناہوں کو بخش دے جن سے بلا ئيں نازل ہوتی ہيںخدایا ميرے تمام گناہوں اور ميری تمام خطاؤں کو بخش دے خدایا ميں تيری یاد کے ذریعہ تجه سے قریب ہو رہا ہوں اور تيری ذات کو تيری بارگاہ ميں شفيع بنا رہا ہوںتيرے کرم کے سہارے ميرا یہ سوال ہے کہ مجھے اپنے سے قریب بنا لے اور اپنے شکر کی توفيق عطا فرمااور اپنے ذکر کا الہام کرا مت فر ما خدایا! ميں نہایت درجہ خشوع خضوع اور ذلت کے ساته یہ سوال کر رہا ہوں کہ ميرے ساته مہربانی فرما مجه پر رحم کر اور جو کچه مقدر ميں ہے مجھے اسی پر قانع بنا دے ، مجھے ہر حال ميں تواضع اور فروتنی کی توفيق عطا فرما،خدایا ! ميرا سوال اس بے نوا جيسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حا جتيں تيرے سا منے رکه دی ہوں اور جس کی رغبت تيری بارگاہ ميں عظيم ہو ،خدایا! تيری سلطنت عظيم،تيری منزلت بلند،تيری تدبير مخفی،تيرا امی ظاہر،تيرا قہر غالب ، اور تيری قدرت نافذ ہے اور تيری حکومت سے فرار نا ممکن ہے ۔۔۔خدایا ميرے گناہوں کے لئے بخشنے والا۔ميرے عيوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا ، ميرے قبيح اعمال کو نيکيوں ميں تبدیل کرنے والا تيرے علاوہ کوئی نہيں ہے۔۔خدایا ميں نے اپنے نفس پر ظلم کيا ہے،اپنی جہالت سے جسارت کی ہے اور اس بات پر مطمئن بيڻها ہوں کہ تونے مجھے ہميشہ یا د رکها ہے

اور ہميشہ احسان فرمایا ہے ۔۔۔خدایا ميری مصيبت عظيم ہے ۔ميری بدحالی حد سے آگے بڑهی ہوئی ہے ۔ميرے اعمال ميں کوتاہی ہے ۔ مجھے کمزوریوں کی زنجيروں نے جکڑکر بڻها دیا ہے اور مجھے دور دراز اميدوں نے فوائد سے روک دیا ہے، دنيا نے دهوکہ ميں مبتلا رکها ہے اور نفس نے خيانت اور ڻال مڻول ميں مبتلا رکها ہے ۔۔۔ميرے آقا و مولا!تجهے تيری عزت کا واسطہ ۔ميری دعاوں کو ميری بد اعمالياں روکنے نہ پائيں اور ميں اپنے مخفی عيوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں ” یہ قاع عبودیت اور اس پر محيط برائيوں کا مخزن ہے۔ پھر دعا کے آخر ميں ہم محبت کی اس بلندی تک پہونچتے ہيں جو بندہ کی آرزو اور الله کی وسيع رحمت کے

سایہ ميں اس کی عظيم آرزو کومجسم کرتی ہے :

۱۳۴

وَهَب لِیَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِی الاِتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ حَتّ یٰ اَسرَْحَ اِلَيکَْ فِی مَيَادِینِْ السَّابِقِينَْ وَاُسرِْعَ اِلَيکَْ فِی البَْارِزِینَْ واشتَْاقَ اِل یٰ قُربِْکَ فِی المُْشتَْاقِينَْ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُوَّالمُْخلِْصِينَْ وَاَخَافَکَ مَخَافَةَ المُْوقِْنِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ اللهم وَمَن اَرَادَنِی بِسُوءٍ فَاَرِدهُْ وَمَن کَادَنِی فَکِدهُْ وَاجعَْلنِْی مِن اَحسَْنِ عَبِيدِْکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ وَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ فَاِنَّهُ لَایُنَالُ ذَلِکَ اِلَّابِفَظلِْکَ ( ١)

“اپنا خوف پيدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تيری طرف سابقين کے ساته آگے بڑهوں اور تيز رفتار افراد کے ساته قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقين کے درميان تيرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصين کی طرح تيری قربت اختيار کروں ۔۔۔خدایا جو بهی کوئی ميرے لئے برائی چاہے یا ميرے ساته کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا اور مجھے بہترین

____________________

١)دعا ئے کميل )

۱۳۵

حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکهنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تيرے جود وکرم کے بغير نہيں ہو سکتا ” ہم ابو حمزہ ثما لی سے حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے مروی ماہ رمضان المبارک کی دعائے اسحار ميں “قاع ”اور “قمّہ ”کے مابين بہت زیادہ فا صلہ کا مشا ہدہ کرتے ہيں اس دعا ميں امام عليہ السلام “قاع ” سے شروع فر ماتے ہيں :

وَمَااَنَایَارَبِّ وَمَاخَطَرِی هَبنِْی بِفَضلِْکَ وَتَصَدَّقَ عَلَیَّ بِعَفوِْکَ اَی رَبِّ جَلِّلنِْی بِسِترِْکَ وَاعفُْ عَن تَوبِْيخِْی بِکَرَمِ وَجهِْکَ

“اے ميرے خدا ميں کيا اور ميری اوقات کيا ؟ تومجه کو اپنے فضل وکرم و مغفرت سے بخش دے اے ميرے خدا اپنی پردہ پوشی سے مجھے عزت دے اوراپنے کرم سے ميری تنبيہ کونظرانداز گنا ہ فرمادے ”

فَلَاتُحرِْقنِْي بِالنَّارِوَاَنتَْ مَوضِْعُ اَمَلِي وَلَاتُسکِْنِّي الهَْاوِیَةَ فَاِنَّکَ قُرَّةُ عَينِي ْ اِرحَْم فِي هٰذِهِ الدُّنيَْاغُربَْتِي وَعِندَْ المَْوتَْ کُربَْتِي وَفِي القَْبرِْوَحدَْتِي وَفِي اللَّحدِْوَحشَْتِي وَاِذَانُشِرَت فِي الحِْسَابِ بَينَْ یَدَیکَْ ذُلَّ مَوقِْفِي وَاغفِْرلِْي مَاخَفِيَ عَل یٰ الاْ دَٰٴمِيِّينَْ مِن عَمَلِي وَاَدِم لِی مَابِهِ سَتَرتَْنِي وَارحَْمنْي صَرِیعْاًعَل یٰ الفِْرَاشِ تُقَلِّبُنِي اَیدِْي اَحِبَّتِي وَتُفَضَّل عَلَيَّ مَمدُْودْاًعَل یٰ المُْغتَْسَلِ یُقَلِّبُنِي صَالِحُ جِيرَْتِي وَتَحَنَّن عَلَیَّ مَحمُْولْاًقَد تَنَاوُلَ الاَْقرِْبَاءُ اَطرَْا فَ جَنَازَتِي وَجُد عَلَيَّ مَنقُْولْاًقَدنَْزَلتُْ بِکَ وَحِيدْاً فِی حُفرَْتِي

“تو مجه کو ایسے حالات ميں جہنم ميں جلانہ د ینا اورقعر جہنم ميںڈال نہ دینا کيونکہ تو ہماری آنکهوں کی ڻھنڈک ہے۔۔۔ اس دنيا ميں ميری غربت اور موت کے وقت ميرے کرب ،قبرميں ميری تنہائی اور لحد ميں ميری وحشت اور وقت حساب ميری ذلت پر رحم کرنا ،اور ميرے تمام گناہوں کو معاف کر دےنا جن کی لوگوں کواطلاع بهی نہيں ہے اور اس پردہ داری کو برقراررکهنا۔ پروردگار!اس وقت ميرے حال پر رحم کرنا جب ميںبستر مرگ پر ہوں اور احباب کروڻيںبدلوارہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب ميں تختہ غسل پرہوں اور ہمسایہ کے نيک افراد مجه کو غسل دے رہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب تابوت ميں اقرباء کے کاندهوںپرسوار ہوں اس وقت مہربانی کرنا جب ميں تنہا قبر ميں وارد ہوں ”

۱۳۶

اس کے بعد امام عليہ السلام مر حلہ او لواالعزمی اور قمہ دعا کے سلسلہ ميں فر ما تے ہيں :

اللهم اِنِّي اَسالُکَ مِن خَيرِْمَاسَالَکَ مِنهُْ عِبَادُکَ الصَّالِحُونَْ یَاخَيرَْمَن سُئِلَ وَاَجوَْدَمَن اَعطْ یٰ اَعطِْنِي سُولِْي فِي نَفسِْي وَاَهلِْي وَوَلَدِي،ْوَارغَْدعَْيشِْي،ْ وَاَظهِْرمُْرُوَّتِي،ْوَاَصلِْح جَمِيعَْ اَحوَْالِي،ْوَاجعَْلنِْي اَطَلتَْ عُمرُْهُ وَحَسَّنتَْ عَمَلَهُ وَاَتمَْمتَْ عَلَيهِْ نِعمَْتَکَ وَرَضِيتَْ عَنهُْ وَاَحيَْيتَْهُ حَ وٰيةً طَيِّبَةً اللهم خَصَّنِي بِخَاصَّةِ ذِکرِْکَ وَاجعَْلنِْي مِن اَوفَْرِعِبَادَکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ فِي کُلِّ خَيرٍْاَنزَْلتَْهُ وَتُنزِْلُهُ

“اے خدا ميں تجه سے وہ سب کچه مانگ رہا ہوں جو بندگان صالحين نے مانگا ہے کہ تو بہترین مسئول اور سخی ترین عطا کرنے والا ہے ميری د عا کو ميرے نفس، ميرے اہل و عيال ،ميرے والدین ،ميری اولاد،متعلقين اور برا دران سب کے با رے ميں قبول فرما، ميری زندگی کو خو شگوار بنا مروت کو واضح فرماکر ميرے تمام حالات کی اصلاح فرما مجھے طولا نی عمر،نيک عمل،کامل نعمت اور پسندیدہ بندوں کی مصاحبت عطا فرما ۔۔۔خدا یا! مجھے اپنے ذکر خاص سے مخصوص کردے ۔۔اور ميرے لئے اپنے بندوں ميں ہر نيکی ميں جس کو تو نے نا زل کيا ہے اور جس کو تو نا زل کرتا ہے سب سے زیادہ حصہ قرار دے ’

اس “قاع ”سے “قمہ ”تک کے سفر کو انسان کے الله تک سفر کی تعبير سے یاد کيا گيا ہے یہ سواری آرزو ، اميد اور اولواالعزمی ہے جب انسان کی آرزو ،رجاء (اميد)اور او لواالعزمی الله سے ہو تو اس سفر کی کو ئی حد نہيں ہے ۔

۱۳۷

تين وسيلے

حضرت علی بن الحسين زین العابدین عليہ السلام تين چيزوں کوخداوند عالم تک پہنچنے کا وسيلہ قرار دیتے ہيں اور الله نے ہم کو اس تک پہنچنے کےلئے وسيلے تلاش کرنے کا حکم دیاہے ارشادخداوندعالم ہے :( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْالله وَابتَْغُواْاِلَيهِْ الوَْسِيلَْة ) ( ١)

“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ”( اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِ لٰ ی رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ ) ( ٢)

“یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ تلاش کر رہے ہيں ”

جن وسائل سے امام عليہ السلام اس سفر ميں متوسل ہوئے ہيں وہ حاجت سوال اور محبت ہيں امام عليہ السلام کا کيا کہنا آپ دعا کی کتنی بہترین تعليم دینے والے ہيں ۔ وہ یہ جانتے ہيں کہ اُنهيں الله سے کياطلب کرنا چاہئے ،اور کيسے طلب کرنا چاہئے اور الله کی رحمت کے مواقع کہاں ہيں :

پہلا وسيلہ :حاجت

حاجت بذات خودالله کی رحمت کی ایک منزل ہے بيشک خداوندعالم کریم ہے وہ اپنی مخلوق یہاں تک کہ حيوان اور نباتات پر ان کی ضرورت کے مطابق بغير کسی سوال کے اپنی رحمت نازل کر تا ہے اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ خداسے طلب اور سوال نہيں کرنا چاہئے اس لئے کہ حاجت کے پہلوميں سوال اور طلب الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دوسرا دروازہ ہے ۔جب لوگ پياس کا احساس کر تے ہيں تو خداوندعالم ان کو سيراب کرتا ہے جب ان کو بهوک لگتی ہے تو خداوندعالم

____________________

١)سورئہ مائدہ آیت / ٣۵ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت ۵٧ ۔ )

۱۳۸

انکو کها نا دیتا ہے اور جب وہ برہنہ ہو تے ہيں تو خداوندعالم ان کو کپڑا عطا کر تا ہے :( وَاِذَامَرِضتُْ فَهُوَیَشفِْينِْ ) ( ١)

“اور جب بيمار ہو جاتا ہوں تو وہی شفا بهی دیتا ہے ” یہاں تک کہ اگر ان کو خداکی معرفت نہ ہو وہ یہ بهی نہ جانتے ہوں کہ کيسے الله سے دعا کرنا چاہئے اور اس سے کيا طلب کرنا چاہئے :یامَن یُعطي من سئاله یامن یعطي من لم یساله ومَن لم یعرفه تحنُّنامنه ورحمة ( ٢)

“اے وہ خدا جو اپنے تمام سائلوںکودیتا ہے اے وہ خدا جو اسے بهی دیتا ہے جو سوال نہيں کرتاہے بلکہ اسے پہچا نتابهی نہيں ہے ” ہم حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کی مناجات ميں الله کی رحمت نازل کرنے کے لئے اس عمدہ اور رباّنی نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہيں :

مولايَ یامولاي انت المولیٰ واناالعبد،وهل یرحم العبدالاالمولیٰ مولايَ یامولاي انت المالک واناالمملوک،وهل یرحم المملوک الاالمالک مولایَ یامولایَ انت العزیزواناالذليل وهل یرحم الذليل الاالعزیزمولايَ یامولاي انت الخالق واناالمخلوق،وهل یرحم المخلوق الاالخالق مولايَ یامولايَ انت العظيم واناالحقير،وهل یرحم الحقيرالاالعظيم،مولايَ یامولايَ انت القوي واناالضعيف،وهل یرحم الضعيف الاالقوی مولايَ یامولايَ انت الغنيّ واناالفقير،وهل یرحم الفقيرالاالغنيّ مولايَ یامولايانت المعطي واناالسائل،

____________________

١)شعراء آیت / ٨٠ ۔ )

٢)رجب کے مہينہ کی دعائيں ۔ )

۱۳۹

وهل یرحم السائل الاالمعطي،مولايَ یامولاي انت الحي واناالميت،وهل یرحم الميت الاالحي مولايَ یامولايَ انت الباقي واناالفاني،وهل یرحم الفاني الاالباقي مولايَ یامولايَ انت الدائم واناالزائل،وهل یرحم الزائل الاالدائم مولايَ یامولاي انت الرازق واناالمرزوق،وهل یرحم المرزوق الاالرازق مولايَ یامولايَ انت الجوادواناالبخيل وهل یرحم البخيل الاالجواد مولايَ یامولاي انت المعافي واناالمتلیٰ،وهل یرحم المبتلیٰ الاالمعافي مولايَ یامولايَ انت الکبير واناالصغير،وهل یرحم الصغيرالّاالکبير مولايَ یامولايانت الهادی وانا الضال،وهل یرحم الضال الاالهادی مولايَ یامولايَ انت الغفوروانا المذنب،وهل یرحم المذنب الاالغفور مولايَ یامولايَ انت الغالب واناالمغلوب، وهل یرحم المغلوب الاالغالب مولايَ یامولايَ انت الرب واناالمربوب،وهل یرحم المربوب الاالرب مولايَ یامولايَ انت المتکبرواناالخاشع،وهل یرحم الخاشع الاالمتکبر مولايَ یامولاي ارحمنی برحمتک،وارض عنی بجودک و کرمک وفضلک یاذاالجودوالاحسان، والطول والامتنان (ا)

“اے ميرے مو لا تو مو لا ہے اور ميںتيرا بندہ۔ اب بندہ پر مو لا کے علا وہ کون رحم کرے گا۔ اے ميرے مو لا اے ميرے مالک تومالک ہے اور ميں مملوک اور مملوک پرمالک کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مولا توعزیزہے ا ور ميں ذليل ہوں اور ذليل پر عزیز کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لاتوخالق ہے اور ميں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توعظيم ہے اور ميں حقير ہوں اور حقير پر عظيم کے علاوہ

____________________

١)مفاتح الجنان اعمال مسجد کوفہ مناجت اميرالمو منين عليہ السلام ۔ )

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248