دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68456 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

“ اور الله جس کو چاہتا ہے صراط مستقيم کی ہدایت دے دیتا ہے ” اور آیت:وَیَهدِْیهِْم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ ( ١)

“اور انهيں صراط مستقيم کی ہدایت کرتا ہے ” اور آیت:

وَاجتَْبَينَْاهُم وَهَدَینَْاهُم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ (٢) “انهيں بهی منتخب کيا اور سب کو سيدهے راستے کی ہدایت کردی” ليکن “سبيل ”جمع کے صيغہ کے ساته قرآن کریم ميں حق اور باطل کے سلسلہ ميں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :( یَهدِْی بِهِ الله مَنِ اتَّبَعَ رِضوَْانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ( ٣)

“جس کے ذریعہ خدا اپنی خشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے ”

آیت:( لَاتَتَّبِعُواْالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِيلِْهِ ) ( ۴)

“اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جا ؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جا ؤ گے ” آیت:( وَمَالَنَااَلَّانَتَوَکَّلَ عل یٰ الله وَقَدهَْدَانَاسُبُلَنَا ) ( ۵)

“اور ہم کيوں نہ الله پر بهروسہ کریں جب کہ اسی نے ہميں ہمارے راستوں کی ہدایت دی ہے ”

____________________

١)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

٢)سورئہ انعام آیت/ ٨٧ ۔ )

٣)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

۴)سورئہ انعام آیت/ ۵٣ ا۔ )

۵)سورئہ ابرا ہيم آیت/ ٢ا۔ )

۱۲۱

آیت:( وَالَّذِینَْ جَاهِدُواْفِينَْالَنَهدِْیَنَّهُم سُبُلَنَاوَاِنَّ الله لَمََعَ المُْحسِْنِينَْ ) ( ١)

“اور جن لوگوں نے ہمارے حق ميں جہاد کيا ہے ہم انہيں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقينا الله حسن عمل والوں کے ساته ہے ” الله نے انسانوں کے چلنے کےلئے متعدد را ستے بنا ئے ہيں جن پر وہ الله تک رسائی کےلئے گا مزن ہو تے ہيں اور علما ء کے درميان یہ مشہور ہے :

اِنَّ الطّرق الیٰ الله بعددانفاس الخلا ئق

“خدا وند عالم کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی ہيں جتنی مخلوقات کے سانس کی تعداد ہے ”

یہ تمام راستے الله تک پہنچنے والے صراط مستقيم کے ما تحت جا ری ہو تے ہيں ليکن خداوند عالم نے ہر انسان کےلئے ایک طریقہ قرار دیا ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے رب کی معرفت حا صل کرتا ہے اور خدا تک پہنچنے کےلئے اس پر گا مزن ہو تا ہے ۔

کچه لوگ علم اور عقل کے راستہ کے ذریعہ خدا تک رسا ئی حا صل کر تے ہيں ،کچه لوگ اور دل کے ذریعہ خدا تک پہنچتے ہيں اور کچه لوگ الله کے ساته معاملات اور تجا رت کے ذریعہ اس کی معرفت حا صل کر سکتے ہيں اور سب سے افضل و بہتر طریقہ یہی ہے کہ انسان براہ راست خدا وند عالم سے معا ملہ کرے اور اس کی عطا و بخشش اخذ کرے ۔اس سلسلہ ميں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( یَاَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْهَل اَدُلُّکُم عَل یٰ تِجَارَةٍ تُنجِْيکُْم مِن عَذَابٍ اَلِيمٍْ ) ( ٢)

“ایمان والو کيا تمهيں ایسی تجارت کی طرف رہنما ئی کروں جو تمهيں درد ناک عذاب سے بچا لے ”

____________________

١)سورئہ عنکبوت آیت/ ۶٩ ۔ )

٢)سورئہ صف آیت/ ٠ا۔ )

۱۲۲

اور خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :( وَمِن النَّاسِ مَن یَّشرِْی نَفسَْهُ ابتِْغَاءَ مَرضَْاتِ الله وَالله رَوفٌ بِالعِْبَادِ ) ( ٢)

“اور لوگوں ميں وہ بهی ہيں جو اپنے نفس کو مر ضی پروردگار کےلئے بيچ ڈالتے ہيں اور الله اپنے بندوں پر بڑا مہر بان ہے ”

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا وند عالم سے اس تک پہنچنے کے متعدد راستے طلب کر تے ہيں ۔جب انسان خدا وند عالم تک رسا ئی کی خا طر متعددراستے طے کرے گا تو اس کا خدا کے قرب و جوار تک پہنچنا زیادہ قوی و بليغ ہو گا ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام پروردگار عالم سے اُس کے اُن صالحين بندوں سے ملحق ہو نے کی خو ا ہش کرتے ہيں جو الله سے لو لگا نے ميں دو سروں سے سبقت کرتے ہيں اور رات دن الله کی عبادت اور اطاعت ميں مشغول رہتے ہيں ۔

الله تک رسا ئی کا راستہ بہت دشوار ہے اس طریقہ کی قرآن کریم نے “ذات الشو کة ”کے نام سے تعبير کی ہے ۔بہت سے لوگ ہيں جو اس طریقہ کی بڑے عزم و صدق و صفا سے سير کا آغاز کرتے ہيں ليکن وہ آدها راستہ طے کرنے کے بعد ڈنوا ڈول (بہک )ہو جا تے ہيں ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا سے یوں سوال کرتے ہيں کہ اے خدا مجه کو اپنی قربت عطا کر ، اس مشکل سفر ميں ميرے راستہ کو آسان کر ،مجھے گذشتہ صا لحين سے ملحق فر ما چونکہ اولياء اورخار دار راستہ کو طے کرنے کےلئے صالحين کی معيت اور مصاحبت سب کے دلوں کو محکم کر دیتی ہے اور راستہ تک پہچانے کےلئے ان کے عزم و ارادہ ميں اضافہ کر تی ہے ۔ بيشک الله تک رسا ئی بہت مشکل ہے جب کچه صالحين بندے اس راستہ کو طے کرتے ہيں تو

____________________

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٢٠٧ ۔ )

۱۲۳

وہ ایک دو سرے سے تمسک اختيار کرتے ہيں ،حق اور صبر کی وصيت کرتے ہيں ۔اسی طرح ان کے لئے “ذات الشوکہ ”راستہ طے کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام اس مشکل اور طویل راستہ کو طے کر نے اور صالحين کے تقرب اور ان سے ملحق ہو نے کےلئے فر ما تے ہيں :

وَسَيَّرنَْافِی اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوَْفُودِْعَلَيکَْ قَرِّب عَلَينَْاالبَْعِيدْوَسَهِّل عَلَينَْا العَْسِيرْالشَّدِیدْ،وَاَلحَْقنَْابِعِبَادِکَ الَّذِینَْ هُم بِالبَْدَارِاِلَيکَْ یُسَارِعُونَْ وَبَابُکَ عل یٰ الدَّوَامِ یَطرُقُونَْ وَاِیَّاکَ بِاللَّيلِْ وَالنَّهَارِیَعبُْدُونَْ

“خدا یا ہميں اپنی بارگاہ ميں حاضری کے قریب ترین راستہ پر چلادے ،ہر دور کو قریب ، ہرسخت اور مشکل کو آسان بنا دے اور ہميں ان بندوں سے ملا دے جو تيزی کے ساته تيری طرف بڑهنے والے ہيں اورہميشہ تيرے درکرم کو کهڻکهڻانے والے ہيں اور دن رات تيری ہی عبادت کر تے ہيں ”

۱۲۴

دلوں ميں پيدا ہونے والے شکوک

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام صالحين کی صفات بيان فر ما تے ہيں جن سے آپ ملحق ہو نے کےلئے الله سے سوال کرتے ہيں اور ان کو ایسی عظيم صفت سے متصف کرتے ہيں جس کے بارے ميں بہت زیادہ تفکر اور غور و فکر کی ضرورت ہے :

صَفَّيتَْ لَهُمُْ المَْشَارِبَ وَبَلَّغتَْهُمُ الرَّغَائِبَ وَمَلَات لَهُم ضَمَائِرَهُم مِن حُبِّکَ وَرَوَّیتَْهُم مِن صَافِی شِربِْک

“جن کے لئے تو نے چشمے صاف کردئے ہيں اور ان کو اميدوں تک پہنچا دیاہے۔۔۔ اپنی محبت سے ان کے دلوں کو بهر دیاہے اور اپنے صاف چشمہ سے انهيں سيراب کردیاہے ”

یہ کونسی صاف ،شفاف ا ورپاکيزہ شراب ہے جس سے ان کا پروردگار انهيں دنيا ميں سيراب کریگا ؟اور وہ کونساظرف ہے جن کو الله نے اپنی محبت سے پُر کردیا ہے ؟

بيشک وہ پاک وپاکيزہ اور صاف وشفّاف شراب ،محبت ،یقين ،اخلاص اور معرفت ہے اور ظرف دل ہے ۔

خداوندعالم نے انسان کو معرفت ،یقين اور محبت کےلئے بہت سے ظروف کا رزق عطا کيا ہے ليکن ۔قلب ۔دل ۔ان سب ميں اعظم ہے ۔

جب خداوندعالم کسی بندہ کو منتخب کر ليتا ہے تو اس کے دل کو پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف شراب سے سيراب کردیتاہے تو اس کا عمل رفتار وگفتار اور اس کی عطا وبخشش بهی اس شراب کے مثل پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف ہوگی ۔ بيشک دل کی واردات اور صادرات ميں مشا بہت اور سخنيت پائی جاتی ہے جب دل کی واردات پاک صاف خالص اور گوارا ہيں تو دل کی صادرات بهی اسی کے مشابہ ہونگی تو پھر بندہ کا فعل گفتار ،نظریات اخلاق موقف اور اس کی عطا وبخشش صاف اور گوارا ہوگی جب دل کی واردا ت گندی یا کثافت سے مخلوط ہوگی جن کو شياطين اپنے دوستوں کو بتایا کر تے ہيں تو لامحالہ دل کی صادرات کذب ونفاق ،خبث نفس اور اللهورسول سے روگردانی کے مشابہ ہو گی ۔ رسول اسلام (ص) سے مروی ہے کہ :

انّ في القلب لمّتين :لمّة من الملک،وایعادبالخيروتصدیق بالحق،ولمّة من العدو:ایعادبالشرّوتکذیب للحق فمن وجد ذالک فليعلم انه من اللّٰه،ومن وجد الآخرفليتعوّذ باللّٰه من الشيطان ثمَّ قرا اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً (١)

____________________

١) سورئہ بقرہ آیت/ ٢۶٨ )

۱۲۵

اور حق کی تصدیق کے لئے ہو تی ہے جبکہ دو سری حالت دشمن کی جانب سے ہو تی ہے جو برا ئی کے وعدے اور حق کی تکذیب کی شکل ميں ظاہر ہو تی ہے جس کو پہلی حالت مل جائے اس کو معلوم ہو نا چا ہئے کہ یہ خداوند عالم کی جانب سے ہے اور جس کو دوسری حالت ملے اس کو شيطان سے الله کی پناہ مانگنا چاہئے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً ) (١) “شيطان تم سے فقيری کا وعدہ کرتا ہے اور تمهيں برائيوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کر تا ہے”

فرشتہ والی حالت یہ دل کی طرف ربّانی واردات ہے اور شيطان کی حالت یہ دل کی طرف شيطانی واردات ہے۔

کيا تم نے شہدکی مکهی کا مشاہدہ نہيں کيا جو پهولوں سے رس چُوستی ہے لوگوں کےلئے ميڻها شہد مہيا کرتی ہے اس ميں لوگوں کےلئے شفاء ہے لہٰذاجب وہ کثيف جگہوں سے اپنی غذا مہيا کرے گی تواس کا بهی ویسا ہی اثر ہوگا ۔

خداوندعالم اپنے خليل ابراہيم اسحاق اور یعقوب عليم السلام سے فرما تا ہے:

( وَاذکُرعِْبَادَنَااِبرَْاهِيمَْ وَاِسحَْاقَ وَیَعقُْوبَْ اُولِی الاَیدِْی وَ ا لاَْبصَْارِ اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِوَاِنَّهُم عِندَْنَالِمِنَ المُْصطَْفَينَْ الاَْخيَْارِ ) (٢ ) “اوراے پيغمبر ہمارے بندے ابراہيم اسحاق اور یعقوب کا ذکر کيجئے جو صاحبان قوت اور

____________________

١)تفسير الميزان جلد ٢صفحہ ۴٠۴ ۔ )

٢)سورئہ ص آیت ۴۵ ۔ ۴٧ ۔ )

۱۲۶

صاحبان بصيرت تھے ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا اور وہ ہما رے نزدیک منتخب اور نيک بندوں ميں سے تھے ” یہ عظيم صفت جو الله نے ان جليل القدر انبياء عليہم السلام کو عطا کی ہے وہ قوت اور بصيرت ہے ایدی اور ابصار یہ اس خالص شراب کا نتيجہ ہے جو الله نے ان کو عطا کی ہے :

( اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِ ) ( ١)

“ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا ” اگر خداوندعالم نے ان کو اس خالص ذکری الدار سے مزیّن نہ فرمایا ہوتا تو وہ (ان کےلئے نہ قوت ہوتی اور نہ بصيرت ۔( ٢)

اگر انسان پاک و صاف اور اچهے اعمال انجام دیتا ہے تو اس کےلئے پاک و شفاف غذا نوش کرنا ضروری ہے اور انسان کا دل وہی واپس کرتا ہے جو کچه وہ اخذ کرتا ہے ۔

اصل اختيار

ہم قلب و دل کی واردات اور صادرات اور ان کے ما بين مشا بہت اور سنخيت کو بيان کرنے کے بعد یہ بتا دینا ضروری سمجهتے ہيں :یہ گفتار اصل اختيار سے کو ئی منا فات نہيں رکهتی ہے جو متعدد قرآنی

____________________

١)سورئہ ص آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)اس مقام پر قلب کی واردات اور صادرات کے ما بين جدلی تعلق ہے اگر دل ) کی واردات اچهی ہو ں گی اس کے بر عکس بهی صحيح ہے یعنی جب انسان نيک اعمال انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس کو منتخب کر ليتا ہے اور جب انسان برے کام انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس سے پاک و صاف خالص شراب سے پردہ کر ليتا ہے اور اس کو خود اسی کے حال پر چهوڑ دیتا ہے اور وہ اسی طرح کهاتاپيتا ہے جس طرح شيطان اور خو اہشات نفسانی اس کی رہنما ئی کرتے ہيں اور لوگ شيطان اور خو اہشات نفسانی کے دسترخوان سے غذا نوش کرتے ہيں ۔

۱۲۷

مفا ہيم اور افکار کی بنياد ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دل ایک خا لی ظرف ہے جو کچه خير وشر اس ميں ڈالا جاتا ہے اسی کو واپس کرتاہے بلکہ دل ایسا ظرف ہے جو کچه اس ميں ڈالا جاتا ہے اس کو اخذ کرليتا ہے اور حق کو باطل اور خير کو شر سے جدا کرتا ہے ۔

افکار اسلامی اصولوں ميں سے یہ ایک اصل ہے اس اصل کی بنياد “وعا القلب ” ہے اور اسی “اختيار ” پر اسلام کے متعدد مسا ئل ،اصول اور قضایا مو قوف ہيں ۔

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے کہ انسانی حيات ميں دل کے کردار کی بہت زیادہ تا کيد کی گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جدا کرنے پر قادر ہے۔ روایت ميں آیا ہے کہ حضرت دا و د نے اپنے پروردگار سے یوں منا جات کی ہے :

الٰهي لکل ملک خزانة،فاین خزائنک؟فقال جلّ جلاله:لی خزانة اعظم من العرش،واوسع من الکرسي،واطيب مِن الجنّة،وازین من الملکوت، ارضهاالمعرفة،وسماء وهاالایمان،وشمسهاالشوق،وقمرهاالمحية ،و نجومها الخواطر، و سحابها العقل،ومطرهاالرحمة،وشجرهاالطاعة،وثمرها الحکمة،ولهااربعة ارکان: التوکّل والتفکير،والاُنسُ والذکرولهااربعة ابواب: العلم والحکمة والصبروالرضا الاوهي القلب (١)

“اے ميرے پروردگار ہر ملک کا خزانہ ہو تا ہے تو تيرا خزانہ کہا ں ہے ؟پروردگار عالم نے فرمایا : ميرا خزانہ عرش اعظم ہے ،کر سی سے وسيع ہے ،جنت سے زیادہ پاکيزہ ہے ،ملکوت سے زیادہ مزین ہے زمين اس کی معرفت ہے ،آسمان اس کا ایمان ہے ،سورج اس کا شوق ہے، قمر اس کی محبت

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۸

ہے، ستا رے اس کے خيالات ہيں ،عقل اس کے بادل ہيں با رش اس کی رحمت ہے ،طاقت اس کا درخت ہے ،حکمت اس کا پهل ہے ،اسکے چار رکن ہيں :توکل، تفکر ،انس اور ذکر ۔اس کے چار دروازے ہيں :علم ، حکمت ،صبر اور رضا ۔۔۔آگاہ ہو جاؤ وہی دل ہے ”

روایت (جيسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے )سوال اور جواب کی صورت ميں رمزی طور پر گفتگو کرتی ہے اور اسلامی روایات ميں یہ مشہور و معروف لغت ہے

۔روایت ميں ہے کہ خدانے حضرت مو سیٰ سے فر مایا : “یاموسیٰ جرّد قلبک لحبّي،فاني جعلت قلبک ميدان حبي،وبسطت في قلبک ارضاً من معرفتي،وبنيت في قلبک شمساًمن شوقي،وامضيت في قلبک قمراًمن محبتي،وجعلت في قلبک عيناًمن التفکّروادرت في قلبک ریحاًمن توفيقي، وامطرت في قلبک مطراًمن تفضّلي،وزرعت في قلبک زرعاًمن صدقي،وانبت في قلبک اشجاراًمن طاعتي،ووضعت في قلبک جبالاًمن یقيني ( ١)

“اے مو سیٰ اپنے دل کو ميری محبت کے لئے خالی کر دو ،کيونکہ ميں نے تمہارے دل کو اپنی محبت کا ميدان قرار دیا ہے، اور تمہارے دل ميں اپنی معرفت کی کچه زمين ایجاد کی ہے ،اور تمہارے دل ميں اپنے شوق کاسورج تعمير کيا ہے تمہارے دل ميں اپنی محبت کا چاند بنایا ہے ،تمہارے دل ميں فکر کی آنکه بنا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنی تو فيق کی ہوا چلا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنے فضل کی بارش کی ہے تمہارے دل ميں اپنی سچا ئی کی کهيتی کی ہے تمہارے دل ميں اپنی اطاعت کے درخت اُگا ئے ہيں تمہارے دل ميں اپنے یقين کے پہاڑ رکهے ہيں ”

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۹

اس روایت ميں بهی راز دارانہ گفتگو کی گئی ہے اور دونوں روایات دل کےلئے حق کو باطل اور ہدایت کو ضلالت و گمرا ہی سے جدا کرنے کےلئے واعی کی شرح کر رہی ہيں ۔

ہم پھر مناجات کا رخ کرتے ہيں اس کے بعد امام عليہ السلام خدا وند عالم کو اس لطيف و رقيق انداز ميں پکا رتے ہيں :

فَيَامَن هُوَعَل یٰ المُْقبِْلِينَْ عَلَيهِْ مُقبِْلٌ،وَ بِالعَْطفِْ عَلَيهِْم عَائِدٌ مُفضِْلٌ،وَبِا الغَْافِلِينَْ عَن ذِکرِْهِ رَحِيمٌْ رَءُ وفٌ،وَبِجَذبِْهِم اِل یٰ بَابِهِ وَدُودٌْعَطُوفٌْ

“ اے وہ خدا جو اپنی طرف آنے والوں کااستقبال کرتا ہے اور ان پرمسلسل مہر بانی کرتاہے اپنی یاد سے غافل رہنے والوں پربهی مہربان رہتا ہے اور انهيں محبت کے ساته اپنے در وازے کی طرف کهينچ ليتا ہے ”

اس مناجات ميں دو باتيں شامل ہيں :

بيشک پروردگار عالم اس بندے کا استقبال کرتا ہے جو اس کی خدا ئی کا اقرار کرتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے ۔

خدا وند عالم اپنے سے غفلت کرنے والے بندوں پرمہربانی و عطوفت کرتا ہے اور ربانی جذبات کے ذریعہ ان سے غفلت دور کردیتا ہے ۔

اس کے بعد امام عليہ السلام الله سے اس طرح منا جات کرتے ہيں :اَسئَْلُکَ اَن تَجعَْلَني مِن اَوفَْرِهِم مِنکَْ حَظّاًوَاَعلَْاهُم عِندَْکَ مَنزِْلاً وَاَجزَْلِهِم مِن وُدِّکَ قِسمْاًوَاَفضَْلِهِم فِي مَعرَْفَتِکَ نَصِيبْاً “ خدایا ميرا سوال یہ ہے کہ ميرے لئے اپنی بہترین نعمت کاسب سے زیادہ حصہ قرار دے اور بہترین منزل کا مالک بنا دے اور اپنی محبت کاعظيم ترین حصہ عطا فرمادے اور اپنی معرفت کا بلند ترین مرتبہ دیدے ”

۱۳۰

دعا کے اس فقرہ سے ذہن ميں یہ سوال پيدا ہو تا ہے :اس جملہ سے پہلے توامام عليہ السلام خدا وند عالم سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ مجه کو ان سے ملحق کردے اور اب یہ تمنا و آرزو کر رہے ہيں کہ اپنے پاس سے ميرے زیادہ فضل اور بلند ترین مقام و منزلت قرار دے ،اب اس سوال کو پہلے سوال سے کيسے ملایا جا سکتا ہے ؟

دعا ميں اور دعا کرتے وقت امام عليہ السلام کے نفس ميں کو نسی چيز مو جزن ہو رہی تهی کہ امام عليہ السلام نے صالحين سے ملحق ہو نے کی دعا کرنے سے پہلے ان پر اپنی سبقت اور امامت کی دعا فر ما ئی ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس سوال کی تشریح ضروری ہے اور یہ دعا کے اسرار ميں سے ایک راز ہے ۔خداوند عالم نے ہم کو یہ تعليم دی ہے کہ ہم اس سے دعا کرنے سے فرار اختيار نہ کریں ،دعا کرنے ميں بخل سے کام نہ ليں ،جب ہمار ا مو لا کریم ہے ،جب مسئول (جس سے سوال کيا جا رہا ہے )کریم ہے تو اس سے سوال کرنے ميں بخل سے کام لينا بہت بری بات ہے ،جس کی رحمت کے خزانوں کی کو ئی انتہا نہيں ہے ،جو ختم ہو نے والے نہيں ہيں اور اس کی کثرت عطا سے صرف اس کا جود و کرم ہی زیادہ ہو تا ہے ۔(ا)

خدا وند عالم نے ہم کو “عباد الر حمن ”کے آداب و اخلاق ميں یہ تعليم دی ہے کہ ہم خدا وند عالم

____________________

١)دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے : )

۱۳۱

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الفَْا شِی فِی الخَْلقِْ اَمرُْهُ وَحَمدُْ هُ الظَّاهِرِ بِالکَْرَمِ مَجدُْهُ البَْاسِطِ بِالجُْودِْ یَدَهُ اَلَّذِی لَاتَنقُْصُ خَزَائِنُهُ وَلَاتَزِیدُْهُ کَثرَْةُ العَْطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماًاِنَّهُ هُوَالعَْزِیزُْالوَْهَّابُ “ساری حمد اس خدا کےلئے ہے جس کا امر اوراس کی حمد مخلوقات ميں نمایاں ہے اور جس کی بزرگی اس کے کرم کے ذریعہ نمایاں ہے،اور اس کے دونوں ہاته بخشش کےلئے کهلے ہوئے ہيں ،اس کے خزانوں ميں کمی نہيں ہے ،اور کثرت عطا اس کے یہاں سوائے جود و کرم کے کسی بات کااضافہ نہيں ہو تا ہے”

سے یہ سوال کریں کہ وہ ہم کو متقين کا امام قرار دے:وَاجعَْلنَْالِلمُْتَّقِينَْ اِمَاماً ( ١)

“اور ہم کو متقين کا امام قرار دے ” ہم معصوم عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ؤں ميں یہ او لو االعزمی والا جملہ بہت زیادہ پڑها کر تے ہيں : آثَرنِی وَلَاتُوثِّرعَْلَیَّ اَحَداً “مجه کو ترجيح دے اور مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”

دعائے قاع اور قمہ

دعاؤں کی دو قسميں ہيں ایک ميں بندہ کے مقام اور ان برا ئيوں اور گناہوں کو مجسم کياجا تا ہے جن سے انسان مرکب ہے جس کو عربی ميں قاع کے نام سے یاد کيا گياہے دوسری قسم ميںخداوند عالم کے سلسلہ ميں انسان کے شوق اور رجحان کو مجسم کياجاتاہے اور خدا وند عالم کے جود و کرم وسخاوت اور اس کی رحمت کے خزا نوں کی کو ئی حدنہيں ہے اس کوعربی ميں قمہ کہا جاتاہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام دعائے اسحا ر ميں دونوںکے ما بين اسی نفسی فا صلہ کو بيان فر ما تے ہيں :

اِذَارَایتُْ مَولَْي ذُنُوبْي فَزَعتُْ،وَاِذَارَایتَْ کَرَمَکَ طَمَعتُْ

“جب ميں اپنے گنا ہوں کو دیکهتا ہوں تو ڈرجاتا ہوں اور جب ميں تيرے کرم کو دیکهتا ہوں تو پُراميدہوجاتا ہوں ”

اور اسی دعا ميں آپ فر ما تے ہيں :عَظُمَ یَاسَيَّدِي اَمَلِي وَسَاءَ عَمَلِي فَاَعطِْنِي مِن عَفوِْکَ بِمِقدَْارِعَمَلِي وَلَاتُواخِذنِْي بِاسوَْءِ عَمَلي

____________________

١)سورئہ فر قان آیت/ ٧۴ )

۱۳۲

“اے ميرے مالک ميری اميدیں عظيم ہيں اور ميرے اعمال بدترین ہيں مجھے اپنے عفوکرم سے بقدراميد دیدے اور ميرے بد ترین اعمال کا محاسبہ نہ فرما ” حضرت امير المو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام نے جو دعا کميل بن زیاد نخعی کو تعليم فر ما ئی تهی اس ميں آپ نے قاع سے ہی آغاز فر ما یا ہے :

اللهم اغفِْر لِيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَهتَْکُ العِْصَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ النِّقَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُغَيِّرُالنِّعَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَحبِْسُ الدُّعَاءَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ البَْلَاءَ اللهم اغفِْرلِْي کُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْهُ وَکُلَّ خَطِيئَْةٍ اَخطَْاتُهَااللهم اِنِّي اَتَقَرَّبُ اِلَيکَْ بِذکرِْکَ وَاَستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَاَسئَْلُکَ بِجُودِْکَ اَن تُدنِْيَنِي مِن قُربِْکَ وَاَن تُوزِْعَني شُکرَْکَ وَاَن تُلهِْمَنِي ذِکرَْکَ اللهم اِنِّي اسئَْلُکَ سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَ لِّلٍ خَا شِعٍ اَن تُسَامِحَنِي وَتَرحَْمَنِي وَتَجعَْلَنِي بِقِسمِْکَ رَاضِياًقَانِعاًوَفِی جَمِيعِْ الاَْحوَْالِ مُتَوَاضِعاًاللهم وَاَسئَْلکَ سُئَوالَ مَنِ اشتَْدَّت فَاَقَتُهُ وَاَنزَْلَ بِکَ عِندَْ الشَّدَائِدِحَاجَتَهُ وَعَظُمَ فِيمَْاعِندَْکَ رَغبَْتُهُ اللهم عَظُمَ سُلطَْانُکَ وَعَلَامَکَانُکَ وَخَفِیَ مَکرُْکَ وَظَهَرَاَمرُْکَ وَغَلَبَ قَهرُْکَ وَجَرَت قُدرَْتُکَ وَلَایُمکِْنُ الفِْرَارُمِن حُکُومَْتِکَ اللهم لَا اَجِدُلِذُنُوبِْي غَافِراًوَلَالِقَبَائِحِي سَاتِراًوَلَالِشيءٍ مِن عَمَلِي القَْبِيحِْ بِالحَْسَنِ مُبَدِّلاً غَيرَْکَ لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ وَبِحَمدِْکَ ظَلَمتُْ نَفسِْي وَتَجَرّاتُْ بِجَهلِْي وَسَکَنتُْ اِ لٰ ی قَدِیمِْ ذِکرِْکَ لِي وَمَنِّکَ عَلَیَّ اللهم مَولَْايَ کَم مِن قَبِيحٍْ سَتَرتَْهوَکَم مِن فَادِحٍ مِنَ البَْلَاءِ اَقَلتَْهُ وَکَم مِن عِثَارِوَقَيتَْهُ وَکَم مِن مَکرُْوهٍْ دَفَعتَْه وَکَم مِن ثَنَاءٍ جَمِيلٍْ لَستُْ اَهلْاً لَهُ نّشَرتَْهُ اللهم عَظُمَ بَلَائِي وَاَفرَْطَ بِي سُوءُْ حَالِي وَقَصُرَت بِي اَعمَْالِي وَقَعَدَت بِي اَغلَْالِي وَحَبَسَنِي عَن نَفعِْي بُعدُْ اَمَلِي وَخَدَعَتنِْي الدُّنيَْابِغُرُورِْهَاوَنَفسِْي بِجِنَایَتِهَاوَمِطَالِي یَاسَيِّدِي فَاسئَْلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَایَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائِي سُوءُْ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلَاتَفضَْحَني بِخَفِيِّ مَااطَّلَعتَْ عَلَيهِْ مِن سِرِّي

۱۳۳

“خدایا ميرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بڻہ لگادیتے ہيں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہيں،ا ن گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغير کر دیا کرتے ہيں ،ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوں کو تيری بارگاہ تک پہنچنے سے روک دیتے ہيں،خدایا ميرے ان گناہوں کو بخش دے جن سے بلا ئيں نازل ہوتی ہيںخدایا ميرے تمام گناہوں اور ميری تمام خطاؤں کو بخش دے خدایا ميں تيری یاد کے ذریعہ تجه سے قریب ہو رہا ہوں اور تيری ذات کو تيری بارگاہ ميں شفيع بنا رہا ہوںتيرے کرم کے سہارے ميرا یہ سوال ہے کہ مجھے اپنے سے قریب بنا لے اور اپنے شکر کی توفيق عطا فرمااور اپنے ذکر کا الہام کرا مت فر ما خدایا! ميں نہایت درجہ خشوع خضوع اور ذلت کے ساته یہ سوال کر رہا ہوں کہ ميرے ساته مہربانی فرما مجه پر رحم کر اور جو کچه مقدر ميں ہے مجھے اسی پر قانع بنا دے ، مجھے ہر حال ميں تواضع اور فروتنی کی توفيق عطا فرما،خدایا ! ميرا سوال اس بے نوا جيسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حا جتيں تيرے سا منے رکه دی ہوں اور جس کی رغبت تيری بارگاہ ميں عظيم ہو ،خدایا! تيری سلطنت عظيم،تيری منزلت بلند،تيری تدبير مخفی،تيرا امی ظاہر،تيرا قہر غالب ، اور تيری قدرت نافذ ہے اور تيری حکومت سے فرار نا ممکن ہے ۔۔۔خدایا ميرے گناہوں کے لئے بخشنے والا۔ميرے عيوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا ، ميرے قبيح اعمال کو نيکيوں ميں تبدیل کرنے والا تيرے علاوہ کوئی نہيں ہے۔۔خدایا ميں نے اپنے نفس پر ظلم کيا ہے،اپنی جہالت سے جسارت کی ہے اور اس بات پر مطمئن بيڻها ہوں کہ تونے مجھے ہميشہ یا د رکها ہے

اور ہميشہ احسان فرمایا ہے ۔۔۔خدایا ميری مصيبت عظيم ہے ۔ميری بدحالی حد سے آگے بڑهی ہوئی ہے ۔ميرے اعمال ميں کوتاہی ہے ۔ مجھے کمزوریوں کی زنجيروں نے جکڑکر بڻها دیا ہے اور مجھے دور دراز اميدوں نے فوائد سے روک دیا ہے، دنيا نے دهوکہ ميں مبتلا رکها ہے اور نفس نے خيانت اور ڻال مڻول ميں مبتلا رکها ہے ۔۔۔ميرے آقا و مولا!تجهے تيری عزت کا واسطہ ۔ميری دعاوں کو ميری بد اعمالياں روکنے نہ پائيں اور ميں اپنے مخفی عيوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں ” یہ قاع عبودیت اور اس پر محيط برائيوں کا مخزن ہے۔ پھر دعا کے آخر ميں ہم محبت کی اس بلندی تک پہونچتے ہيں جو بندہ کی آرزو اور الله کی وسيع رحمت کے

سایہ ميں اس کی عظيم آرزو کومجسم کرتی ہے :

۱۳۴

وَهَب لِیَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِی الاِتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ حَتّ یٰ اَسرَْحَ اِلَيکَْ فِی مَيَادِینِْ السَّابِقِينَْ وَاُسرِْعَ اِلَيکَْ فِی البَْارِزِینَْ واشتَْاقَ اِل یٰ قُربِْکَ فِی المُْشتَْاقِينَْ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُوَّالمُْخلِْصِينَْ وَاَخَافَکَ مَخَافَةَ المُْوقِْنِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ اللهم وَمَن اَرَادَنِی بِسُوءٍ فَاَرِدهُْ وَمَن کَادَنِی فَکِدهُْ وَاجعَْلنِْی مِن اَحسَْنِ عَبِيدِْکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ وَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ فَاِنَّهُ لَایُنَالُ ذَلِکَ اِلَّابِفَظلِْکَ ( ١)

“اپنا خوف پيدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تيری طرف سابقين کے ساته آگے بڑهوں اور تيز رفتار افراد کے ساته قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقين کے درميان تيرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصين کی طرح تيری قربت اختيار کروں ۔۔۔خدایا جو بهی کوئی ميرے لئے برائی چاہے یا ميرے ساته کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا اور مجھے بہترین

____________________

١)دعا ئے کميل )

۱۳۵

حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکهنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تيرے جود وکرم کے بغير نہيں ہو سکتا ” ہم ابو حمزہ ثما لی سے حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے مروی ماہ رمضان المبارک کی دعائے اسحار ميں “قاع ”اور “قمّہ ”کے مابين بہت زیادہ فا صلہ کا مشا ہدہ کرتے ہيں اس دعا ميں امام عليہ السلام “قاع ” سے شروع فر ماتے ہيں :

وَمَااَنَایَارَبِّ وَمَاخَطَرِی هَبنِْی بِفَضلِْکَ وَتَصَدَّقَ عَلَیَّ بِعَفوِْکَ اَی رَبِّ جَلِّلنِْی بِسِترِْکَ وَاعفُْ عَن تَوبِْيخِْی بِکَرَمِ وَجهِْکَ

“اے ميرے خدا ميں کيا اور ميری اوقات کيا ؟ تومجه کو اپنے فضل وکرم و مغفرت سے بخش دے اے ميرے خدا اپنی پردہ پوشی سے مجھے عزت دے اوراپنے کرم سے ميری تنبيہ کونظرانداز گنا ہ فرمادے ”

فَلَاتُحرِْقنِْي بِالنَّارِوَاَنتَْ مَوضِْعُ اَمَلِي وَلَاتُسکِْنِّي الهَْاوِیَةَ فَاِنَّکَ قُرَّةُ عَينِي ْ اِرحَْم فِي هٰذِهِ الدُّنيَْاغُربَْتِي وَعِندَْ المَْوتَْ کُربَْتِي وَفِي القَْبرِْوَحدَْتِي وَفِي اللَّحدِْوَحشَْتِي وَاِذَانُشِرَت فِي الحِْسَابِ بَينَْ یَدَیکَْ ذُلَّ مَوقِْفِي وَاغفِْرلِْي مَاخَفِيَ عَل یٰ الاْ دَٰٴمِيِّينَْ مِن عَمَلِي وَاَدِم لِی مَابِهِ سَتَرتَْنِي وَارحَْمنْي صَرِیعْاًعَل یٰ الفِْرَاشِ تُقَلِّبُنِي اَیدِْي اَحِبَّتِي وَتُفَضَّل عَلَيَّ مَمدُْودْاًعَل یٰ المُْغتَْسَلِ یُقَلِّبُنِي صَالِحُ جِيرَْتِي وَتَحَنَّن عَلَیَّ مَحمُْولْاًقَد تَنَاوُلَ الاَْقرِْبَاءُ اَطرَْا فَ جَنَازَتِي وَجُد عَلَيَّ مَنقُْولْاًقَدنَْزَلتُْ بِکَ وَحِيدْاً فِی حُفرَْتِي

“تو مجه کو ایسے حالات ميں جہنم ميں جلانہ د ینا اورقعر جہنم ميںڈال نہ دینا کيونکہ تو ہماری آنکهوں کی ڻھنڈک ہے۔۔۔ اس دنيا ميں ميری غربت اور موت کے وقت ميرے کرب ،قبرميں ميری تنہائی اور لحد ميں ميری وحشت اور وقت حساب ميری ذلت پر رحم کرنا ،اور ميرے تمام گناہوں کو معاف کر دےنا جن کی لوگوں کواطلاع بهی نہيں ہے اور اس پردہ داری کو برقراررکهنا۔ پروردگار!اس وقت ميرے حال پر رحم کرنا جب ميںبستر مرگ پر ہوں اور احباب کروڻيںبدلوارہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب ميں تختہ غسل پرہوں اور ہمسایہ کے نيک افراد مجه کو غسل دے رہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب تابوت ميں اقرباء کے کاندهوںپرسوار ہوں اس وقت مہربانی کرنا جب ميں تنہا قبر ميں وارد ہوں ”

۱۳۶

اس کے بعد امام عليہ السلام مر حلہ او لواالعزمی اور قمہ دعا کے سلسلہ ميں فر ما تے ہيں :

اللهم اِنِّي اَسالُکَ مِن خَيرِْمَاسَالَکَ مِنهُْ عِبَادُکَ الصَّالِحُونَْ یَاخَيرَْمَن سُئِلَ وَاَجوَْدَمَن اَعطْ یٰ اَعطِْنِي سُولِْي فِي نَفسِْي وَاَهلِْي وَوَلَدِي،ْوَارغَْدعَْيشِْي،ْ وَاَظهِْرمُْرُوَّتِي،ْوَاَصلِْح جَمِيعَْ اَحوَْالِي،ْوَاجعَْلنِْي اَطَلتَْ عُمرُْهُ وَحَسَّنتَْ عَمَلَهُ وَاَتمَْمتَْ عَلَيهِْ نِعمَْتَکَ وَرَضِيتَْ عَنهُْ وَاَحيَْيتَْهُ حَ وٰيةً طَيِّبَةً اللهم خَصَّنِي بِخَاصَّةِ ذِکرِْکَ وَاجعَْلنِْي مِن اَوفَْرِعِبَادَکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ فِي کُلِّ خَيرٍْاَنزَْلتَْهُ وَتُنزِْلُهُ

“اے خدا ميں تجه سے وہ سب کچه مانگ رہا ہوں جو بندگان صالحين نے مانگا ہے کہ تو بہترین مسئول اور سخی ترین عطا کرنے والا ہے ميری د عا کو ميرے نفس، ميرے اہل و عيال ،ميرے والدین ،ميری اولاد،متعلقين اور برا دران سب کے با رے ميں قبول فرما، ميری زندگی کو خو شگوار بنا مروت کو واضح فرماکر ميرے تمام حالات کی اصلاح فرما مجھے طولا نی عمر،نيک عمل،کامل نعمت اور پسندیدہ بندوں کی مصاحبت عطا فرما ۔۔۔خدا یا! مجھے اپنے ذکر خاص سے مخصوص کردے ۔۔اور ميرے لئے اپنے بندوں ميں ہر نيکی ميں جس کو تو نے نا زل کيا ہے اور جس کو تو نا زل کرتا ہے سب سے زیادہ حصہ قرار دے ’

اس “قاع ”سے “قمہ ”تک کے سفر کو انسان کے الله تک سفر کی تعبير سے یاد کيا گيا ہے یہ سواری آرزو ، اميد اور اولواالعزمی ہے جب انسان کی آرزو ،رجاء (اميد)اور او لواالعزمی الله سے ہو تو اس سفر کی کو ئی حد نہيں ہے ۔

۱۳۷

تين وسيلے

حضرت علی بن الحسين زین العابدین عليہ السلام تين چيزوں کوخداوند عالم تک پہنچنے کا وسيلہ قرار دیتے ہيں اور الله نے ہم کو اس تک پہنچنے کےلئے وسيلے تلاش کرنے کا حکم دیاہے ارشادخداوندعالم ہے :( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْالله وَابتَْغُواْاِلَيهِْ الوَْسِيلَْة ) ( ١)

“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ”( اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِ لٰ ی رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ ) ( ٢)

“یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ تلاش کر رہے ہيں ”

جن وسائل سے امام عليہ السلام اس سفر ميں متوسل ہوئے ہيں وہ حاجت سوال اور محبت ہيں امام عليہ السلام کا کيا کہنا آپ دعا کی کتنی بہترین تعليم دینے والے ہيں ۔ وہ یہ جانتے ہيں کہ اُنهيں الله سے کياطلب کرنا چاہئے ،اور کيسے طلب کرنا چاہئے اور الله کی رحمت کے مواقع کہاں ہيں :

پہلا وسيلہ :حاجت

حاجت بذات خودالله کی رحمت کی ایک منزل ہے بيشک خداوندعالم کریم ہے وہ اپنی مخلوق یہاں تک کہ حيوان اور نباتات پر ان کی ضرورت کے مطابق بغير کسی سوال کے اپنی رحمت نازل کر تا ہے اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ خداسے طلب اور سوال نہيں کرنا چاہئے اس لئے کہ حاجت کے پہلوميں سوال اور طلب الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دوسرا دروازہ ہے ۔جب لوگ پياس کا احساس کر تے ہيں تو خداوندعالم ان کو سيراب کرتا ہے جب ان کو بهوک لگتی ہے تو خداوندعالم

____________________

١)سورئہ مائدہ آیت / ٣۵ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت ۵٧ ۔ )

۱۳۸

انکو کها نا دیتا ہے اور جب وہ برہنہ ہو تے ہيں تو خداوندعالم ان کو کپڑا عطا کر تا ہے :( وَاِذَامَرِضتُْ فَهُوَیَشفِْينِْ ) ( ١)

“اور جب بيمار ہو جاتا ہوں تو وہی شفا بهی دیتا ہے ” یہاں تک کہ اگر ان کو خداکی معرفت نہ ہو وہ یہ بهی نہ جانتے ہوں کہ کيسے الله سے دعا کرنا چاہئے اور اس سے کيا طلب کرنا چاہئے :یامَن یُعطي من سئاله یامن یعطي من لم یساله ومَن لم یعرفه تحنُّنامنه ورحمة ( ٢)

“اے وہ خدا جو اپنے تمام سائلوںکودیتا ہے اے وہ خدا جو اسے بهی دیتا ہے جو سوال نہيں کرتاہے بلکہ اسے پہچا نتابهی نہيں ہے ” ہم حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کی مناجات ميں الله کی رحمت نازل کرنے کے لئے اس عمدہ اور رباّنی نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہيں :

مولايَ یامولاي انت المولیٰ واناالعبد،وهل یرحم العبدالاالمولیٰ مولايَ یامولاي انت المالک واناالمملوک،وهل یرحم المملوک الاالمالک مولایَ یامولایَ انت العزیزواناالذليل وهل یرحم الذليل الاالعزیزمولايَ یامولاي انت الخالق واناالمخلوق،وهل یرحم المخلوق الاالخالق مولايَ یامولايَ انت العظيم واناالحقير،وهل یرحم الحقيرالاالعظيم،مولايَ یامولايَ انت القوي واناالضعيف،وهل یرحم الضعيف الاالقوی مولايَ یامولايَ انت الغنيّ واناالفقير،وهل یرحم الفقيرالاالغنيّ مولايَ یامولايانت المعطي واناالسائل،

____________________

١)شعراء آیت / ٨٠ ۔ )

٢)رجب کے مہينہ کی دعائيں ۔ )

۱۳۹

وهل یرحم السائل الاالمعطي،مولايَ یامولاي انت الحي واناالميت،وهل یرحم الميت الاالحي مولايَ یامولايَ انت الباقي واناالفاني،وهل یرحم الفاني الاالباقي مولايَ یامولايَ انت الدائم واناالزائل،وهل یرحم الزائل الاالدائم مولايَ یامولاي انت الرازق واناالمرزوق،وهل یرحم المرزوق الاالرازق مولايَ یامولايَ انت الجوادواناالبخيل وهل یرحم البخيل الاالجواد مولايَ یامولاي انت المعافي واناالمتلیٰ،وهل یرحم المبتلیٰ الاالمعافي مولايَ یامولايَ انت الکبير واناالصغير،وهل یرحم الصغيرالّاالکبير مولايَ یامولايانت الهادی وانا الضال،وهل یرحم الضال الاالهادی مولايَ یامولايَ انت الغفوروانا المذنب،وهل یرحم المذنب الاالغفور مولايَ یامولايَ انت الغالب واناالمغلوب، وهل یرحم المغلوب الاالغالب مولايَ یامولايَ انت الرب واناالمربوب،وهل یرحم المربوب الاالرب مولايَ یامولايَ انت المتکبرواناالخاشع،وهل یرحم الخاشع الاالمتکبر مولايَ یامولاي ارحمنی برحمتک،وارض عنی بجودک و کرمک وفضلک یاذاالجودوالاحسان، والطول والامتنان (ا)

“اے ميرے مو لا تو مو لا ہے اور ميںتيرا بندہ۔ اب بندہ پر مو لا کے علا وہ کون رحم کرے گا۔ اے ميرے مو لا اے ميرے مالک تومالک ہے اور ميں مملوک اور مملوک پرمالک کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مولا توعزیزہے ا ور ميں ذليل ہوں اور ذليل پر عزیز کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لاتوخالق ہے اور ميں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توعظيم ہے اور ميں حقير ہوں اور حقير پر عظيم کے علاوہ

____________________

١)مفاتح الجنان اعمال مسجد کوفہ مناجت اميرالمو منين عليہ السلام ۔ )

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248