دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 56136
ڈاؤنلوڈ: 2329


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56136 / ڈاؤنلوڈ: 2329
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

“ اور الله جس کو چاہتا ہے صراط مستقيم کی ہدایت دے دیتا ہے ” اور آیت:وَیَهدِْیهِْم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ ( ١)

“اور انهيں صراط مستقيم کی ہدایت کرتا ہے ” اور آیت:

وَاجتَْبَينَْاهُم وَهَدَینَْاهُم اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ (٢) “انهيں بهی منتخب کيا اور سب کو سيدهے راستے کی ہدایت کردی” ليکن “سبيل ”جمع کے صيغہ کے ساته قرآن کریم ميں حق اور باطل کے سلسلہ ميں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :( یَهدِْی بِهِ الله مَنِ اتَّبَعَ رِضوَْانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ( ٣)

“جس کے ذریعہ خدا اپنی خشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے ”

آیت:( لَاتَتَّبِعُواْالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِيلِْهِ ) ( ۴)

“اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جا ؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جا ؤ گے ” آیت:( وَمَالَنَااَلَّانَتَوَکَّلَ عل یٰ الله وَقَدهَْدَانَاسُبُلَنَا ) ( ۵)

“اور ہم کيوں نہ الله پر بهروسہ کریں جب کہ اسی نے ہميں ہمارے راستوں کی ہدایت دی ہے ”

____________________

١)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

٢)سورئہ انعام آیت/ ٨٧ ۔ )

٣)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶ا۔ )

۴)سورئہ انعام آیت/ ۵٣ ا۔ )

۵)سورئہ ابرا ہيم آیت/ ٢ا۔ )

۱۲۱

آیت:( وَالَّذِینَْ جَاهِدُواْفِينَْالَنَهدِْیَنَّهُم سُبُلَنَاوَاِنَّ الله لَمََعَ المُْحسِْنِينَْ ) ( ١)

“اور جن لوگوں نے ہمارے حق ميں جہاد کيا ہے ہم انہيں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقينا الله حسن عمل والوں کے ساته ہے ” الله نے انسانوں کے چلنے کےلئے متعدد را ستے بنا ئے ہيں جن پر وہ الله تک رسائی کےلئے گا مزن ہو تے ہيں اور علما ء کے درميان یہ مشہور ہے :

اِنَّ الطّرق الیٰ الله بعددانفاس الخلا ئق

“خدا وند عالم کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی ہيں جتنی مخلوقات کے سانس کی تعداد ہے ”

یہ تمام راستے الله تک پہنچنے والے صراط مستقيم کے ما تحت جا ری ہو تے ہيں ليکن خداوند عالم نے ہر انسان کےلئے ایک طریقہ قرار دیا ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے رب کی معرفت حا صل کرتا ہے اور خدا تک پہنچنے کےلئے اس پر گا مزن ہو تا ہے ۔

کچه لوگ علم اور عقل کے راستہ کے ذریعہ خدا تک رسا ئی حا صل کر تے ہيں ،کچه لوگ اور دل کے ذریعہ خدا تک پہنچتے ہيں اور کچه لوگ الله کے ساته معاملات اور تجا رت کے ذریعہ اس کی معرفت حا صل کر سکتے ہيں اور سب سے افضل و بہتر طریقہ یہی ہے کہ انسان براہ راست خدا وند عالم سے معا ملہ کرے اور اس کی عطا و بخشش اخذ کرے ۔اس سلسلہ ميں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( یَاَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْهَل اَدُلُّکُم عَل یٰ تِجَارَةٍ تُنجِْيکُْم مِن عَذَابٍ اَلِيمٍْ ) ( ٢)

“ایمان والو کيا تمهيں ایسی تجارت کی طرف رہنما ئی کروں جو تمهيں درد ناک عذاب سے بچا لے ”

____________________

١)سورئہ عنکبوت آیت/ ۶٩ ۔ )

٢)سورئہ صف آیت/ ٠ا۔ )

۱۲۲

اور خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :( وَمِن النَّاسِ مَن یَّشرِْی نَفسَْهُ ابتِْغَاءَ مَرضَْاتِ الله وَالله رَوفٌ بِالعِْبَادِ ) ( ٢)

“اور لوگوں ميں وہ بهی ہيں جو اپنے نفس کو مر ضی پروردگار کےلئے بيچ ڈالتے ہيں اور الله اپنے بندوں پر بڑا مہر بان ہے ”

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا وند عالم سے اس تک پہنچنے کے متعدد راستے طلب کر تے ہيں ۔جب انسان خدا وند عالم تک رسا ئی کی خا طر متعددراستے طے کرے گا تو اس کا خدا کے قرب و جوار تک پہنچنا زیادہ قوی و بليغ ہو گا ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام پروردگار عالم سے اُس کے اُن صالحين بندوں سے ملحق ہو نے کی خو ا ہش کرتے ہيں جو الله سے لو لگا نے ميں دو سروں سے سبقت کرتے ہيں اور رات دن الله کی عبادت اور اطاعت ميں مشغول رہتے ہيں ۔

الله تک رسا ئی کا راستہ بہت دشوار ہے اس طریقہ کی قرآن کریم نے “ذات الشو کة ”کے نام سے تعبير کی ہے ۔بہت سے لوگ ہيں جو اس طریقہ کی بڑے عزم و صدق و صفا سے سير کا آغاز کرتے ہيں ليکن وہ آدها راستہ طے کرنے کے بعد ڈنوا ڈول (بہک )ہو جا تے ہيں ۔

اس کے بعد حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام خدا سے یوں سوال کرتے ہيں کہ اے خدا مجه کو اپنی قربت عطا کر ، اس مشکل سفر ميں ميرے راستہ کو آسان کر ،مجھے گذشتہ صا لحين سے ملحق فر ما چونکہ اولياء اورخار دار راستہ کو طے کرنے کےلئے صالحين کی معيت اور مصاحبت سب کے دلوں کو محکم کر دیتی ہے اور راستہ تک پہچانے کےلئے ان کے عزم و ارادہ ميں اضافہ کر تی ہے ۔ بيشک الله تک رسا ئی بہت مشکل ہے جب کچه صالحين بندے اس راستہ کو طے کرتے ہيں تو

____________________

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٢٠٧ ۔ )

۱۲۳

وہ ایک دو سرے سے تمسک اختيار کرتے ہيں ،حق اور صبر کی وصيت کرتے ہيں ۔اسی طرح ان کے لئے “ذات الشوکہ ”راستہ طے کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام اس مشکل اور طویل راستہ کو طے کر نے اور صالحين کے تقرب اور ان سے ملحق ہو نے کےلئے فر ما تے ہيں :

وَسَيَّرنَْافِی اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوَْفُودِْعَلَيکَْ قَرِّب عَلَينَْاالبَْعِيدْوَسَهِّل عَلَينَْا العَْسِيرْالشَّدِیدْ،وَاَلحَْقنَْابِعِبَادِکَ الَّذِینَْ هُم بِالبَْدَارِاِلَيکَْ یُسَارِعُونَْ وَبَابُکَ عل یٰ الدَّوَامِ یَطرُقُونَْ وَاِیَّاکَ بِاللَّيلِْ وَالنَّهَارِیَعبُْدُونَْ

“خدا یا ہميں اپنی بارگاہ ميں حاضری کے قریب ترین راستہ پر چلادے ،ہر دور کو قریب ، ہرسخت اور مشکل کو آسان بنا دے اور ہميں ان بندوں سے ملا دے جو تيزی کے ساته تيری طرف بڑهنے والے ہيں اورہميشہ تيرے درکرم کو کهڻکهڻانے والے ہيں اور دن رات تيری ہی عبادت کر تے ہيں ”

۱۲۴

دلوں ميں پيدا ہونے والے شکوک

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام صالحين کی صفات بيان فر ما تے ہيں جن سے آپ ملحق ہو نے کےلئے الله سے سوال کرتے ہيں اور ان کو ایسی عظيم صفت سے متصف کرتے ہيں جس کے بارے ميں بہت زیادہ تفکر اور غور و فکر کی ضرورت ہے :

صَفَّيتَْ لَهُمُْ المَْشَارِبَ وَبَلَّغتَْهُمُ الرَّغَائِبَ وَمَلَات لَهُم ضَمَائِرَهُم مِن حُبِّکَ وَرَوَّیتَْهُم مِن صَافِی شِربِْک

“جن کے لئے تو نے چشمے صاف کردئے ہيں اور ان کو اميدوں تک پہنچا دیاہے۔۔۔ اپنی محبت سے ان کے دلوں کو بهر دیاہے اور اپنے صاف چشمہ سے انهيں سيراب کردیاہے ”

یہ کونسی صاف ،شفاف ا ورپاکيزہ شراب ہے جس سے ان کا پروردگار انهيں دنيا ميں سيراب کریگا ؟اور وہ کونساظرف ہے جن کو الله نے اپنی محبت سے پُر کردیا ہے ؟

بيشک وہ پاک وپاکيزہ اور صاف وشفّاف شراب ،محبت ،یقين ،اخلاص اور معرفت ہے اور ظرف دل ہے ۔

خداوندعالم نے انسان کو معرفت ،یقين اور محبت کےلئے بہت سے ظروف کا رزق عطا کيا ہے ليکن ۔قلب ۔دل ۔ان سب ميں اعظم ہے ۔

جب خداوندعالم کسی بندہ کو منتخب کر ليتا ہے تو اس کے دل کو پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف شراب سے سيراب کردیتاہے تو اس کا عمل رفتار وگفتار اور اس کی عطا وبخشش بهی اس شراب کے مثل پاک وپاکيزہ اور صاف وشفاف ہوگی ۔ بيشک دل کی واردات اور صادرات ميں مشا بہت اور سخنيت پائی جاتی ہے جب دل کی واردات پاک صاف خالص اور گوارا ہيں تو دل کی صادرات بهی اسی کے مشابہ ہونگی تو پھر بندہ کا فعل گفتار ،نظریات اخلاق موقف اور اس کی عطا وبخشش صاف اور گوارا ہوگی جب دل کی واردا ت گندی یا کثافت سے مخلوط ہوگی جن کو شياطين اپنے دوستوں کو بتایا کر تے ہيں تو لامحالہ دل کی صادرات کذب ونفاق ،خبث نفس اور اللهورسول سے روگردانی کے مشابہ ہو گی ۔ رسول اسلام (ص) سے مروی ہے کہ :

انّ في القلب لمّتين :لمّة من الملک،وایعادبالخيروتصدیق بالحق،ولمّة من العدو:ایعادبالشرّوتکذیب للحق فمن وجد ذالک فليعلم انه من اللّٰه،ومن وجد الآخرفليتعوّذ باللّٰه من الشيطان ثمَّ قرا اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً (١)

____________________

١) سورئہ بقرہ آیت/ ٢۶٨ )

۱۲۵

اور حق کی تصدیق کے لئے ہو تی ہے جبکہ دو سری حالت دشمن کی جانب سے ہو تی ہے جو برا ئی کے وعدے اور حق کی تکذیب کی شکل ميں ظاہر ہو تی ہے جس کو پہلی حالت مل جائے اس کو معلوم ہو نا چا ہئے کہ یہ خداوند عالم کی جانب سے ہے اور جس کو دوسری حالت ملے اس کو شيطان سے الله کی پناہ مانگنا چاہئے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( اَلشَّيطَْانُ یَعِدُکُمُ الفَْقرَْوَیَامُرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَالله یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنهُْ وَفَضلْاً ) (١) “شيطان تم سے فقيری کا وعدہ کرتا ہے اور تمهيں برائيوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کر تا ہے”

فرشتہ والی حالت یہ دل کی طرف ربّانی واردات ہے اور شيطان کی حالت یہ دل کی طرف شيطانی واردات ہے۔

کيا تم نے شہدکی مکهی کا مشاہدہ نہيں کيا جو پهولوں سے رس چُوستی ہے لوگوں کےلئے ميڻها شہد مہيا کرتی ہے اس ميں لوگوں کےلئے شفاء ہے لہٰذاجب وہ کثيف جگہوں سے اپنی غذا مہيا کرے گی تواس کا بهی ویسا ہی اثر ہوگا ۔

خداوندعالم اپنے خليل ابراہيم اسحاق اور یعقوب عليم السلام سے فرما تا ہے:

( وَاذکُرعِْبَادَنَااِبرَْاهِيمَْ وَاِسحَْاقَ وَیَعقُْوبَْ اُولِی الاَیدِْی وَ ا لاَْبصَْارِ اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِوَاِنَّهُم عِندَْنَالِمِنَ المُْصطَْفَينَْ الاَْخيَْارِ ) (٢ ) “اوراے پيغمبر ہمارے بندے ابراہيم اسحاق اور یعقوب کا ذکر کيجئے جو صاحبان قوت اور

____________________

١)تفسير الميزان جلد ٢صفحہ ۴٠۴ ۔ )

٢)سورئہ ص آیت ۴۵ ۔ ۴٧ ۔ )

۱۲۶

صاحبان بصيرت تھے ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا اور وہ ہما رے نزدیک منتخب اور نيک بندوں ميں سے تھے ” یہ عظيم صفت جو الله نے ان جليل القدر انبياء عليہم السلام کو عطا کی ہے وہ قوت اور بصيرت ہے ایدی اور ابصار یہ اس خالص شراب کا نتيجہ ہے جو الله نے ان کو عطا کی ہے :

( اِنَّااَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِ ) ( ١)

“ہم نے ان کو آخرت کی یا د کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا ” اگر خداوندعالم نے ان کو اس خالص ذکری الدار سے مزیّن نہ فرمایا ہوتا تو وہ (ان کےلئے نہ قوت ہوتی اور نہ بصيرت ۔( ٢)

اگر انسان پاک و صاف اور اچهے اعمال انجام دیتا ہے تو اس کےلئے پاک و شفاف غذا نوش کرنا ضروری ہے اور انسان کا دل وہی واپس کرتا ہے جو کچه وہ اخذ کرتا ہے ۔

اصل اختيار

ہم قلب و دل کی واردات اور صادرات اور ان کے ما بين مشا بہت اور سنخيت کو بيان کرنے کے بعد یہ بتا دینا ضروری سمجهتے ہيں :یہ گفتار اصل اختيار سے کو ئی منا فات نہيں رکهتی ہے جو متعدد قرآنی

____________________

١)سورئہ ص آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)اس مقام پر قلب کی واردات اور صادرات کے ما بين جدلی تعلق ہے اگر دل ) کی واردات اچهی ہو ں گی اس کے بر عکس بهی صحيح ہے یعنی جب انسان نيک اعمال انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس کو منتخب کر ليتا ہے اور جب انسان برے کام انجام دیتا ہے تو خدا وند عالم اس سے پاک و صاف خالص شراب سے پردہ کر ليتا ہے اور اس کو خود اسی کے حال پر چهوڑ دیتا ہے اور وہ اسی طرح کهاتاپيتا ہے جس طرح شيطان اور خو اہشات نفسانی اس کی رہنما ئی کرتے ہيں اور لوگ شيطان اور خو اہشات نفسانی کے دسترخوان سے غذا نوش کرتے ہيں ۔

۱۲۷

مفا ہيم اور افکار کی بنياد ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دل ایک خا لی ظرف ہے جو کچه خير وشر اس ميں ڈالا جاتا ہے اسی کو واپس کرتاہے بلکہ دل ایسا ظرف ہے جو کچه اس ميں ڈالا جاتا ہے اس کو اخذ کرليتا ہے اور حق کو باطل اور خير کو شر سے جدا کرتا ہے ۔

افکار اسلامی اصولوں ميں سے یہ ایک اصل ہے اس اصل کی بنياد “وعا القلب ” ہے اور اسی “اختيار ” پر اسلام کے متعدد مسا ئل ،اصول اور قضایا مو قوف ہيں ۔

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے کہ انسانی حيات ميں دل کے کردار کی بہت زیادہ تا کيد کی گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جدا کرنے پر قادر ہے۔ روایت ميں آیا ہے کہ حضرت دا و د نے اپنے پروردگار سے یوں منا جات کی ہے :

الٰهي لکل ملک خزانة،فاین خزائنک؟فقال جلّ جلاله:لی خزانة اعظم من العرش،واوسع من الکرسي،واطيب مِن الجنّة،وازین من الملکوت، ارضهاالمعرفة،وسماء وهاالایمان،وشمسهاالشوق،وقمرهاالمحية ،و نجومها الخواطر، و سحابها العقل،ومطرهاالرحمة،وشجرهاالطاعة،وثمرها الحکمة،ولهااربعة ارکان: التوکّل والتفکير،والاُنسُ والذکرولهااربعة ابواب: العلم والحکمة والصبروالرضا الاوهي القلب (١)

“اے ميرے پروردگار ہر ملک کا خزانہ ہو تا ہے تو تيرا خزانہ کہا ں ہے ؟پروردگار عالم نے فرمایا : ميرا خزانہ عرش اعظم ہے ،کر سی سے وسيع ہے ،جنت سے زیادہ پاکيزہ ہے ،ملکوت سے زیادہ مزین ہے زمين اس کی معرفت ہے ،آسمان اس کا ایمان ہے ،سورج اس کا شوق ہے، قمر اس کی محبت

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۸

ہے، ستا رے اس کے خيالات ہيں ،عقل اس کے بادل ہيں با رش اس کی رحمت ہے ،طاقت اس کا درخت ہے ،حکمت اس کا پهل ہے ،اسکے چار رکن ہيں :توکل، تفکر ،انس اور ذکر ۔اس کے چار دروازے ہيں :علم ، حکمت ،صبر اور رضا ۔۔۔آگاہ ہو جاؤ وہی دل ہے ”

روایت (جيسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے )سوال اور جواب کی صورت ميں رمزی طور پر گفتگو کرتی ہے اور اسلامی روایات ميں یہ مشہور و معروف لغت ہے

۔روایت ميں ہے کہ خدانے حضرت مو سیٰ سے فر مایا : “یاموسیٰ جرّد قلبک لحبّي،فاني جعلت قلبک ميدان حبي،وبسطت في قلبک ارضاً من معرفتي،وبنيت في قلبک شمساًمن شوقي،وامضيت في قلبک قمراًمن محبتي،وجعلت في قلبک عيناًمن التفکّروادرت في قلبک ریحاًمن توفيقي، وامطرت في قلبک مطراًمن تفضّلي،وزرعت في قلبک زرعاًمن صدقي،وانبت في قلبک اشجاراًمن طاعتي،ووضعت في قلبک جبالاًمن یقيني ( ١)

“اے مو سیٰ اپنے دل کو ميری محبت کے لئے خالی کر دو ،کيونکہ ميں نے تمہارے دل کو اپنی محبت کا ميدان قرار دیا ہے، اور تمہارے دل ميں اپنی معرفت کی کچه زمين ایجاد کی ہے ،اور تمہارے دل ميں اپنے شوق کاسورج تعمير کيا ہے تمہارے دل ميں اپنی محبت کا چاند بنایا ہے ،تمہارے دل ميں فکر کی آنکه بنا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنی تو فيق کی ہوا چلا ئی ہے تمہارے دل ميں اپنے فضل کی بارش کی ہے تمہارے دل ميں اپنی سچا ئی کی کهيتی کی ہے تمہارے دل ميں اپنی اطاعت کے درخت اُگا ئے ہيں تمہارے دل ميں اپنے یقين کے پہاڑ رکهے ہيں ”

____________________

١)بحارالانوارجلد ١۵ صفحہ ٣٩ ۔ )

۱۲۹

اس روایت ميں بهی راز دارانہ گفتگو کی گئی ہے اور دونوں روایات دل کےلئے حق کو باطل اور ہدایت کو ضلالت و گمرا ہی سے جدا کرنے کےلئے واعی کی شرح کر رہی ہيں ۔

ہم پھر مناجات کا رخ کرتے ہيں اس کے بعد امام عليہ السلام خدا وند عالم کو اس لطيف و رقيق انداز ميں پکا رتے ہيں :

فَيَامَن هُوَعَل یٰ المُْقبِْلِينَْ عَلَيهِْ مُقبِْلٌ،وَ بِالعَْطفِْ عَلَيهِْم عَائِدٌ مُفضِْلٌ،وَبِا الغَْافِلِينَْ عَن ذِکرِْهِ رَحِيمٌْ رَءُ وفٌ،وَبِجَذبِْهِم اِل یٰ بَابِهِ وَدُودٌْعَطُوفٌْ

“ اے وہ خدا جو اپنی طرف آنے والوں کااستقبال کرتا ہے اور ان پرمسلسل مہر بانی کرتاہے اپنی یاد سے غافل رہنے والوں پربهی مہربان رہتا ہے اور انهيں محبت کے ساته اپنے در وازے کی طرف کهينچ ليتا ہے ”

اس مناجات ميں دو باتيں شامل ہيں :

بيشک پروردگار عالم اس بندے کا استقبال کرتا ہے جو اس کی خدا ئی کا اقرار کرتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے ۔

خدا وند عالم اپنے سے غفلت کرنے والے بندوں پرمہربانی و عطوفت کرتا ہے اور ربانی جذبات کے ذریعہ ان سے غفلت دور کردیتا ہے ۔

اس کے بعد امام عليہ السلام الله سے اس طرح منا جات کرتے ہيں :اَسئَْلُکَ اَن تَجعَْلَني مِن اَوفَْرِهِم مِنکَْ حَظّاًوَاَعلَْاهُم عِندَْکَ مَنزِْلاً وَاَجزَْلِهِم مِن وُدِّکَ قِسمْاًوَاَفضَْلِهِم فِي مَعرَْفَتِکَ نَصِيبْاً “ خدایا ميرا سوال یہ ہے کہ ميرے لئے اپنی بہترین نعمت کاسب سے زیادہ حصہ قرار دے اور بہترین منزل کا مالک بنا دے اور اپنی محبت کاعظيم ترین حصہ عطا فرمادے اور اپنی معرفت کا بلند ترین مرتبہ دیدے ”

۱۳۰

دعا کے اس فقرہ سے ذہن ميں یہ سوال پيدا ہو تا ہے :اس جملہ سے پہلے توامام عليہ السلام خدا وند عالم سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ مجه کو ان سے ملحق کردے اور اب یہ تمنا و آرزو کر رہے ہيں کہ اپنے پاس سے ميرے زیادہ فضل اور بلند ترین مقام و منزلت قرار دے ،اب اس سوال کو پہلے سوال سے کيسے ملایا جا سکتا ہے ؟

دعا ميں اور دعا کرتے وقت امام عليہ السلام کے نفس ميں کو نسی چيز مو جزن ہو رہی تهی کہ امام عليہ السلام نے صالحين سے ملحق ہو نے کی دعا کرنے سے پہلے ان پر اپنی سبقت اور امامت کی دعا فر ما ئی ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس سوال کی تشریح ضروری ہے اور یہ دعا کے اسرار ميں سے ایک راز ہے ۔خداوند عالم نے ہم کو یہ تعليم دی ہے کہ ہم اس سے دعا کرنے سے فرار اختيار نہ کریں ،دعا کرنے ميں بخل سے کام نہ ليں ،جب ہمار ا مو لا کریم ہے ،جب مسئول (جس سے سوال کيا جا رہا ہے )کریم ہے تو اس سے سوال کرنے ميں بخل سے کام لينا بہت بری بات ہے ،جس کی رحمت کے خزانوں کی کو ئی انتہا نہيں ہے ،جو ختم ہو نے والے نہيں ہيں اور اس کی کثرت عطا سے صرف اس کا جود و کرم ہی زیادہ ہو تا ہے ۔(ا)

خدا وند عالم نے ہم کو “عباد الر حمن ”کے آداب و اخلاق ميں یہ تعليم دی ہے کہ ہم خدا وند عالم

____________________

١)دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے : )

۱۳۱

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الفَْا شِی فِی الخَْلقِْ اَمرُْهُ وَحَمدُْ هُ الظَّاهِرِ بِالکَْرَمِ مَجدُْهُ البَْاسِطِ بِالجُْودِْ یَدَهُ اَلَّذِی لَاتَنقُْصُ خَزَائِنُهُ وَلَاتَزِیدُْهُ کَثرَْةُ العَْطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماًاِنَّهُ هُوَالعَْزِیزُْالوَْهَّابُ “ساری حمد اس خدا کےلئے ہے جس کا امر اوراس کی حمد مخلوقات ميں نمایاں ہے اور جس کی بزرگی اس کے کرم کے ذریعہ نمایاں ہے،اور اس کے دونوں ہاته بخشش کےلئے کهلے ہوئے ہيں ،اس کے خزانوں ميں کمی نہيں ہے ،اور کثرت عطا اس کے یہاں سوائے جود و کرم کے کسی بات کااضافہ نہيں ہو تا ہے”

سے یہ سوال کریں کہ وہ ہم کو متقين کا امام قرار دے:وَاجعَْلنَْالِلمُْتَّقِينَْ اِمَاماً ( ١)

“اور ہم کو متقين کا امام قرار دے ” ہم معصوم عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ؤں ميں یہ او لو االعزمی والا جملہ بہت زیادہ پڑها کر تے ہيں : آثَرنِی وَلَاتُوثِّرعَْلَیَّ اَحَداً “مجه کو ترجيح دے اور مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”

دعائے قاع اور قمہ

دعاؤں کی دو قسميں ہيں ایک ميں بندہ کے مقام اور ان برا ئيوں اور گناہوں کو مجسم کياجا تا ہے جن سے انسان مرکب ہے جس کو عربی ميں قاع کے نام سے یاد کيا گياہے دوسری قسم ميںخداوند عالم کے سلسلہ ميں انسان کے شوق اور رجحان کو مجسم کياجاتاہے اور خدا وند عالم کے جود و کرم وسخاوت اور اس کی رحمت کے خزا نوں کی کو ئی حدنہيں ہے اس کوعربی ميں قمہ کہا جاتاہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام دعائے اسحا ر ميں دونوںکے ما بين اسی نفسی فا صلہ کو بيان فر ما تے ہيں :

اِذَارَایتُْ مَولَْي ذُنُوبْي فَزَعتُْ،وَاِذَارَایتَْ کَرَمَکَ طَمَعتُْ

“جب ميں اپنے گنا ہوں کو دیکهتا ہوں تو ڈرجاتا ہوں اور جب ميں تيرے کرم کو دیکهتا ہوں تو پُراميدہوجاتا ہوں ”

اور اسی دعا ميں آپ فر ما تے ہيں :عَظُمَ یَاسَيَّدِي اَمَلِي وَسَاءَ عَمَلِي فَاَعطِْنِي مِن عَفوِْکَ بِمِقدَْارِعَمَلِي وَلَاتُواخِذنِْي بِاسوَْءِ عَمَلي

____________________

١)سورئہ فر قان آیت/ ٧۴ )

۱۳۲

“اے ميرے مالک ميری اميدیں عظيم ہيں اور ميرے اعمال بدترین ہيں مجھے اپنے عفوکرم سے بقدراميد دیدے اور ميرے بد ترین اعمال کا محاسبہ نہ فرما ” حضرت امير المو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام نے جو دعا کميل بن زیاد نخعی کو تعليم فر ما ئی تهی اس ميں آپ نے قاع سے ہی آغاز فر ما یا ہے :

اللهم اغفِْر لِيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَهتَْکُ العِْصَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ النِّقَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُغَيِّرُالنِّعَمَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَحبِْسُ الدُّعَاءَ اللهم اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ البَْلَاءَ اللهم اغفِْرلِْي کُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْهُ وَکُلَّ خَطِيئَْةٍ اَخطَْاتُهَااللهم اِنِّي اَتَقَرَّبُ اِلَيکَْ بِذکرِْکَ وَاَستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَاَسئَْلُکَ بِجُودِْکَ اَن تُدنِْيَنِي مِن قُربِْکَ وَاَن تُوزِْعَني شُکرَْکَ وَاَن تُلهِْمَنِي ذِکرَْکَ اللهم اِنِّي اسئَْلُکَ سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَ لِّلٍ خَا شِعٍ اَن تُسَامِحَنِي وَتَرحَْمَنِي وَتَجعَْلَنِي بِقِسمِْکَ رَاضِياًقَانِعاًوَفِی جَمِيعِْ الاَْحوَْالِ مُتَوَاضِعاًاللهم وَاَسئَْلکَ سُئَوالَ مَنِ اشتَْدَّت فَاَقَتُهُ وَاَنزَْلَ بِکَ عِندَْ الشَّدَائِدِحَاجَتَهُ وَعَظُمَ فِيمَْاعِندَْکَ رَغبَْتُهُ اللهم عَظُمَ سُلطَْانُکَ وَعَلَامَکَانُکَ وَخَفِیَ مَکرُْکَ وَظَهَرَاَمرُْکَ وَغَلَبَ قَهرُْکَ وَجَرَت قُدرَْتُکَ وَلَایُمکِْنُ الفِْرَارُمِن حُکُومَْتِکَ اللهم لَا اَجِدُلِذُنُوبِْي غَافِراًوَلَالِقَبَائِحِي سَاتِراًوَلَالِشيءٍ مِن عَمَلِي القَْبِيحِْ بِالحَْسَنِ مُبَدِّلاً غَيرَْکَ لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ وَبِحَمدِْکَ ظَلَمتُْ نَفسِْي وَتَجَرّاتُْ بِجَهلِْي وَسَکَنتُْ اِ لٰ ی قَدِیمِْ ذِکرِْکَ لِي وَمَنِّکَ عَلَیَّ اللهم مَولَْايَ کَم مِن قَبِيحٍْ سَتَرتَْهوَکَم مِن فَادِحٍ مِنَ البَْلَاءِ اَقَلتَْهُ وَکَم مِن عِثَارِوَقَيتَْهُ وَکَم مِن مَکرُْوهٍْ دَفَعتَْه وَکَم مِن ثَنَاءٍ جَمِيلٍْ لَستُْ اَهلْاً لَهُ نّشَرتَْهُ اللهم عَظُمَ بَلَائِي وَاَفرَْطَ بِي سُوءُْ حَالِي وَقَصُرَت بِي اَعمَْالِي وَقَعَدَت بِي اَغلَْالِي وَحَبَسَنِي عَن نَفعِْي بُعدُْ اَمَلِي وَخَدَعَتنِْي الدُّنيَْابِغُرُورِْهَاوَنَفسِْي بِجِنَایَتِهَاوَمِطَالِي یَاسَيِّدِي فَاسئَْلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَایَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائِي سُوءُْ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلَاتَفضَْحَني بِخَفِيِّ مَااطَّلَعتَْ عَلَيهِْ مِن سِرِّي

۱۳۳

“خدایا ميرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بڻہ لگادیتے ہيں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہيں،ا ن گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغير کر دیا کرتے ہيں ،ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوں کو تيری بارگاہ تک پہنچنے سے روک دیتے ہيں،خدایا ميرے ان گناہوں کو بخش دے جن سے بلا ئيں نازل ہوتی ہيںخدایا ميرے تمام گناہوں اور ميری تمام خطاؤں کو بخش دے خدایا ميں تيری یاد کے ذریعہ تجه سے قریب ہو رہا ہوں اور تيری ذات کو تيری بارگاہ ميں شفيع بنا رہا ہوںتيرے کرم کے سہارے ميرا یہ سوال ہے کہ مجھے اپنے سے قریب بنا لے اور اپنے شکر کی توفيق عطا فرمااور اپنے ذکر کا الہام کرا مت فر ما خدایا! ميں نہایت درجہ خشوع خضوع اور ذلت کے ساته یہ سوال کر رہا ہوں کہ ميرے ساته مہربانی فرما مجه پر رحم کر اور جو کچه مقدر ميں ہے مجھے اسی پر قانع بنا دے ، مجھے ہر حال ميں تواضع اور فروتنی کی توفيق عطا فرما،خدایا ! ميرا سوال اس بے نوا جيسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حا جتيں تيرے سا منے رکه دی ہوں اور جس کی رغبت تيری بارگاہ ميں عظيم ہو ،خدایا! تيری سلطنت عظيم،تيری منزلت بلند،تيری تدبير مخفی،تيرا امی ظاہر،تيرا قہر غالب ، اور تيری قدرت نافذ ہے اور تيری حکومت سے فرار نا ممکن ہے ۔۔۔خدایا ميرے گناہوں کے لئے بخشنے والا۔ميرے عيوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا ، ميرے قبيح اعمال کو نيکيوں ميں تبدیل کرنے والا تيرے علاوہ کوئی نہيں ہے۔۔خدایا ميں نے اپنے نفس پر ظلم کيا ہے،اپنی جہالت سے جسارت کی ہے اور اس بات پر مطمئن بيڻها ہوں کہ تونے مجھے ہميشہ یا د رکها ہے

اور ہميشہ احسان فرمایا ہے ۔۔۔خدایا ميری مصيبت عظيم ہے ۔ميری بدحالی حد سے آگے بڑهی ہوئی ہے ۔ميرے اعمال ميں کوتاہی ہے ۔ مجھے کمزوریوں کی زنجيروں نے جکڑکر بڻها دیا ہے اور مجھے دور دراز اميدوں نے فوائد سے روک دیا ہے، دنيا نے دهوکہ ميں مبتلا رکها ہے اور نفس نے خيانت اور ڻال مڻول ميں مبتلا رکها ہے ۔۔۔ميرے آقا و مولا!تجهے تيری عزت کا واسطہ ۔ميری دعاوں کو ميری بد اعمالياں روکنے نہ پائيں اور ميں اپنے مخفی عيوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں ” یہ قاع عبودیت اور اس پر محيط برائيوں کا مخزن ہے۔ پھر دعا کے آخر ميں ہم محبت کی اس بلندی تک پہونچتے ہيں جو بندہ کی آرزو اور الله کی وسيع رحمت کے

سایہ ميں اس کی عظيم آرزو کومجسم کرتی ہے :

۱۳۴

وَهَب لِیَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِی الاِتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ حَتّ یٰ اَسرَْحَ اِلَيکَْ فِی مَيَادِینِْ السَّابِقِينَْ وَاُسرِْعَ اِلَيکَْ فِی البَْارِزِینَْ واشتَْاقَ اِل یٰ قُربِْکَ فِی المُْشتَْاقِينَْ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُوَّالمُْخلِْصِينَْ وَاَخَافَکَ مَخَافَةَ المُْوقِْنِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ اللهم وَمَن اَرَادَنِی بِسُوءٍ فَاَرِدهُْ وَمَن کَادَنِی فَکِدهُْ وَاجعَْلنِْی مِن اَحسَْنِ عَبِيدِْکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ وَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ فَاِنَّهُ لَایُنَالُ ذَلِکَ اِلَّابِفَظلِْکَ ( ١)

“اپنا خوف پيدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تيری طرف سابقين کے ساته آگے بڑهوں اور تيز رفتار افراد کے ساته قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقين کے درميان تيرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصين کی طرح تيری قربت اختيار کروں ۔۔۔خدایا جو بهی کوئی ميرے لئے برائی چاہے یا ميرے ساته کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا اور مجھے بہترین

____________________

١)دعا ئے کميل )

۱۳۵

حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکهنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تيرے جود وکرم کے بغير نہيں ہو سکتا ” ہم ابو حمزہ ثما لی سے حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے مروی ماہ رمضان المبارک کی دعائے اسحار ميں “قاع ”اور “قمّہ ”کے مابين بہت زیادہ فا صلہ کا مشا ہدہ کرتے ہيں اس دعا ميں امام عليہ السلام “قاع ” سے شروع فر ماتے ہيں :

وَمَااَنَایَارَبِّ وَمَاخَطَرِی هَبنِْی بِفَضلِْکَ وَتَصَدَّقَ عَلَیَّ بِعَفوِْکَ اَی رَبِّ جَلِّلنِْی بِسِترِْکَ وَاعفُْ عَن تَوبِْيخِْی بِکَرَمِ وَجهِْکَ

“اے ميرے خدا ميں کيا اور ميری اوقات کيا ؟ تومجه کو اپنے فضل وکرم و مغفرت سے بخش دے اے ميرے خدا اپنی پردہ پوشی سے مجھے عزت دے اوراپنے کرم سے ميری تنبيہ کونظرانداز گنا ہ فرمادے ”

فَلَاتُحرِْقنِْي بِالنَّارِوَاَنتَْ مَوضِْعُ اَمَلِي وَلَاتُسکِْنِّي الهَْاوِیَةَ فَاِنَّکَ قُرَّةُ عَينِي ْ اِرحَْم فِي هٰذِهِ الدُّنيَْاغُربَْتِي وَعِندَْ المَْوتَْ کُربَْتِي وَفِي القَْبرِْوَحدَْتِي وَفِي اللَّحدِْوَحشَْتِي وَاِذَانُشِرَت فِي الحِْسَابِ بَينَْ یَدَیکَْ ذُلَّ مَوقِْفِي وَاغفِْرلِْي مَاخَفِيَ عَل یٰ الاْ دَٰٴمِيِّينَْ مِن عَمَلِي وَاَدِم لِی مَابِهِ سَتَرتَْنِي وَارحَْمنْي صَرِیعْاًعَل یٰ الفِْرَاشِ تُقَلِّبُنِي اَیدِْي اَحِبَّتِي وَتُفَضَّل عَلَيَّ مَمدُْودْاًعَل یٰ المُْغتَْسَلِ یُقَلِّبُنِي صَالِحُ جِيرَْتِي وَتَحَنَّن عَلَیَّ مَحمُْولْاًقَد تَنَاوُلَ الاَْقرِْبَاءُ اَطرَْا فَ جَنَازَتِي وَجُد عَلَيَّ مَنقُْولْاًقَدنَْزَلتُْ بِکَ وَحِيدْاً فِی حُفرَْتِي

“تو مجه کو ایسے حالات ميں جہنم ميں جلانہ د ینا اورقعر جہنم ميںڈال نہ دینا کيونکہ تو ہماری آنکهوں کی ڻھنڈک ہے۔۔۔ اس دنيا ميں ميری غربت اور موت کے وقت ميرے کرب ،قبرميں ميری تنہائی اور لحد ميں ميری وحشت اور وقت حساب ميری ذلت پر رحم کرنا ،اور ميرے تمام گناہوں کو معاف کر دےنا جن کی لوگوں کواطلاع بهی نہيں ہے اور اس پردہ داری کو برقراررکهنا۔ پروردگار!اس وقت ميرے حال پر رحم کرنا جب ميںبستر مرگ پر ہوں اور احباب کروڻيںبدلوارہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب ميں تختہ غسل پرہوں اور ہمسایہ کے نيک افراد مجه کو غسل دے رہے ہوں اس وقت رحم کرنا جب تابوت ميں اقرباء کے کاندهوںپرسوار ہوں اس وقت مہربانی کرنا جب ميں تنہا قبر ميں وارد ہوں ”

۱۳۶

اس کے بعد امام عليہ السلام مر حلہ او لواالعزمی اور قمہ دعا کے سلسلہ ميں فر ما تے ہيں :

اللهم اِنِّي اَسالُکَ مِن خَيرِْمَاسَالَکَ مِنهُْ عِبَادُکَ الصَّالِحُونَْ یَاخَيرَْمَن سُئِلَ وَاَجوَْدَمَن اَعطْ یٰ اَعطِْنِي سُولِْي فِي نَفسِْي وَاَهلِْي وَوَلَدِي،ْوَارغَْدعَْيشِْي،ْ وَاَظهِْرمُْرُوَّتِي،ْوَاَصلِْح جَمِيعَْ اَحوَْالِي،ْوَاجعَْلنِْي اَطَلتَْ عُمرُْهُ وَحَسَّنتَْ عَمَلَهُ وَاَتمَْمتَْ عَلَيهِْ نِعمَْتَکَ وَرَضِيتَْ عَنهُْ وَاَحيَْيتَْهُ حَ وٰيةً طَيِّبَةً اللهم خَصَّنِي بِخَاصَّةِ ذِکرِْکَ وَاجعَْلنِْي مِن اَوفَْرِعِبَادَکَ نَصِيبْاًعِندَْکَ فِي کُلِّ خَيرٍْاَنزَْلتَْهُ وَتُنزِْلُهُ

“اے خدا ميں تجه سے وہ سب کچه مانگ رہا ہوں جو بندگان صالحين نے مانگا ہے کہ تو بہترین مسئول اور سخی ترین عطا کرنے والا ہے ميری د عا کو ميرے نفس، ميرے اہل و عيال ،ميرے والدین ،ميری اولاد،متعلقين اور برا دران سب کے با رے ميں قبول فرما، ميری زندگی کو خو شگوار بنا مروت کو واضح فرماکر ميرے تمام حالات کی اصلاح فرما مجھے طولا نی عمر،نيک عمل،کامل نعمت اور پسندیدہ بندوں کی مصاحبت عطا فرما ۔۔۔خدا یا! مجھے اپنے ذکر خاص سے مخصوص کردے ۔۔اور ميرے لئے اپنے بندوں ميں ہر نيکی ميں جس کو تو نے نا زل کيا ہے اور جس کو تو نا زل کرتا ہے سب سے زیادہ حصہ قرار دے ’

اس “قاع ”سے “قمہ ”تک کے سفر کو انسان کے الله تک سفر کی تعبير سے یاد کيا گيا ہے یہ سواری آرزو ، اميد اور اولواالعزمی ہے جب انسان کی آرزو ،رجاء (اميد)اور او لواالعزمی الله سے ہو تو اس سفر کی کو ئی حد نہيں ہے ۔

۱۳۷

تين وسيلے

حضرت علی بن الحسين زین العابدین عليہ السلام تين چيزوں کوخداوند عالم تک پہنچنے کا وسيلہ قرار دیتے ہيں اور الله نے ہم کو اس تک پہنچنے کےلئے وسيلے تلاش کرنے کا حکم دیاہے ارشادخداوندعالم ہے :( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْالله وَابتَْغُواْاِلَيهِْ الوَْسِيلَْة ) ( ١)

“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ”( اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِ لٰ ی رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ ) ( ٢)

“یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ تلاش کر رہے ہيں ”

جن وسائل سے امام عليہ السلام اس سفر ميں متوسل ہوئے ہيں وہ حاجت سوال اور محبت ہيں امام عليہ السلام کا کيا کہنا آپ دعا کی کتنی بہترین تعليم دینے والے ہيں ۔ وہ یہ جانتے ہيں کہ اُنهيں الله سے کياطلب کرنا چاہئے ،اور کيسے طلب کرنا چاہئے اور الله کی رحمت کے مواقع کہاں ہيں :

پہلا وسيلہ :حاجت

حاجت بذات خودالله کی رحمت کی ایک منزل ہے بيشک خداوندعالم کریم ہے وہ اپنی مخلوق یہاں تک کہ حيوان اور نباتات پر ان کی ضرورت کے مطابق بغير کسی سوال کے اپنی رحمت نازل کر تا ہے اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ خداسے طلب اور سوال نہيں کرنا چاہئے اس لئے کہ حاجت کے پہلوميں سوال اور طلب الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دوسرا دروازہ ہے ۔جب لوگ پياس کا احساس کر تے ہيں تو خداوندعالم ان کو سيراب کرتا ہے جب ان کو بهوک لگتی ہے تو خداوندعالم

____________________

١)سورئہ مائدہ آیت / ٣۵ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت ۵٧ ۔ )

۱۳۸

انکو کها نا دیتا ہے اور جب وہ برہنہ ہو تے ہيں تو خداوندعالم ان کو کپڑا عطا کر تا ہے :( وَاِذَامَرِضتُْ فَهُوَیَشفِْينِْ ) ( ١)

“اور جب بيمار ہو جاتا ہوں تو وہی شفا بهی دیتا ہے ” یہاں تک کہ اگر ان کو خداکی معرفت نہ ہو وہ یہ بهی نہ جانتے ہوں کہ کيسے الله سے دعا کرنا چاہئے اور اس سے کيا طلب کرنا چاہئے :یامَن یُعطي من سئاله یامن یعطي من لم یساله ومَن لم یعرفه تحنُّنامنه ورحمة ( ٢)

“اے وہ خدا جو اپنے تمام سائلوںکودیتا ہے اے وہ خدا جو اسے بهی دیتا ہے جو سوال نہيں کرتاہے بلکہ اسے پہچا نتابهی نہيں ہے ” ہم حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کی مناجات ميں الله کی رحمت نازل کرنے کے لئے اس عمدہ اور رباّنی نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہيں :

مولايَ یامولاي انت المولیٰ واناالعبد،وهل یرحم العبدالاالمولیٰ مولايَ یامولاي انت المالک واناالمملوک،وهل یرحم المملوک الاالمالک مولایَ یامولایَ انت العزیزواناالذليل وهل یرحم الذليل الاالعزیزمولايَ یامولاي انت الخالق واناالمخلوق،وهل یرحم المخلوق الاالخالق مولايَ یامولايَ انت العظيم واناالحقير،وهل یرحم الحقيرالاالعظيم،مولايَ یامولايَ انت القوي واناالضعيف،وهل یرحم الضعيف الاالقوی مولايَ یامولايَ انت الغنيّ واناالفقير،وهل یرحم الفقيرالاالغنيّ مولايَ یامولايانت المعطي واناالسائل،

____________________

١)شعراء آیت / ٨٠ ۔ )

٢)رجب کے مہينہ کی دعائيں ۔ )

۱۳۹

وهل یرحم السائل الاالمعطي،مولايَ یامولاي انت الحي واناالميت،وهل یرحم الميت الاالحي مولايَ یامولايَ انت الباقي واناالفاني،وهل یرحم الفاني الاالباقي مولايَ یامولايَ انت الدائم واناالزائل،وهل یرحم الزائل الاالدائم مولايَ یامولاي انت الرازق واناالمرزوق،وهل یرحم المرزوق الاالرازق مولايَ یامولايَ انت الجوادواناالبخيل وهل یرحم البخيل الاالجواد مولايَ یامولاي انت المعافي واناالمتلیٰ،وهل یرحم المبتلیٰ الاالمعافي مولايَ یامولايَ انت الکبير واناالصغير،وهل یرحم الصغيرالّاالکبير مولايَ یامولايانت الهادی وانا الضال،وهل یرحم الضال الاالهادی مولايَ یامولايَ انت الغفوروانا المذنب،وهل یرحم المذنب الاالغفور مولايَ یامولايَ انت الغالب واناالمغلوب، وهل یرحم المغلوب الاالغالب مولايَ یامولايَ انت الرب واناالمربوب،وهل یرحم المربوب الاالرب مولايَ یامولايَ انت المتکبرواناالخاشع،وهل یرحم الخاشع الاالمتکبر مولايَ یامولاي ارحمنی برحمتک،وارض عنی بجودک و کرمک وفضلک یاذاالجودوالاحسان، والطول والامتنان (ا)

“اے ميرے مو لا تو مو لا ہے اور ميںتيرا بندہ۔ اب بندہ پر مو لا کے علا وہ کون رحم کرے گا۔ اے ميرے مو لا اے ميرے مالک تومالک ہے اور ميں مملوک اور مملوک پرمالک کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مولا توعزیزہے ا ور ميں ذليل ہوں اور ذليل پر عزیز کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لاتوخالق ہے اور ميں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توعظيم ہے اور ميں حقير ہوں اور حقير پر عظيم کے علاوہ

____________________

١)مفاتح الجنان اعمال مسجد کوفہ مناجت اميرالمو منين عليہ السلام ۔ )

۱۴۰