دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68449 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

دعا عند اهل بيت(جلد دوم)

محمد مهدی آصفی

مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی

۳

دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چا ہئے اور کيا نہيں مانگنا چاہئے

اس مقام پر دعا ء کے سلسلہ ميں دو اہم سوال در پيش ہيں:

١۔ہميں دعا کر تے وقت خدا سے کن چيزوں کو مانگنا چاہئے ؟

٢۔اور دعا ميں خداوندعالم سے کن چيزوں کا سوال نہيں کرنا چاہئے ؟

١۔دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چاہئے ؟

ہم پہلے سوال سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہيں کہ دعا کرتے وقت الله سے کو نسی چيزیں مانگنا سزوار ہے؟

بيشک بندے کا الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا دعا کہلاتا ہے۔ بند ے کی ضرورت اور حاجت کی کوئی انتہا نہيں ہے جيسا کہ خداوندعالم کے غنی سلطان اور کرم کی کوئی انتہا نہيں ہے ۔

دونوں لامتناہی چيزوں کے جمع ہونے کو دعا کہا جاتا ہے ۔

یعنی بندے کی ضرورت کی کوئی انتہا نہيں ہے اور خداوندعالم کے غنی اور کریم ہو نے کی کوئی انتہا نہيں ہے اس کے ملک کے خزانے ختم نہيں ہوتے، اسکی سلطنت اوراس کی طاقت کی کوئی حد نہيں، اس کے جودو کرم کی کوئی انتہا نہيں، اسی طرح بندے کی حاجت وضرورت کمزوری اور کوتا ہی کی کوئی انتہا نہيں ہے ان تمام باتوں کے مد نظر ہم کو یہ سمجهناچاہئے کہ ہم دعا ميںخداوندعالم سے کيا طلب کریں ؟

۴

١۔دعا ميں محمد وآل محمد (ص) پر صلوات

دعا ميں سب سے اہم نقطہ خداوندعالم کی حمد وثنا کے بعد مسلمانوں کے امور کے اولياء محمد و آل محمد پر صلوات بهيجنا ہے ۔

اور اسلامی روایات ميں اس صلوات پربہت زیادہ زور دیا گيا ہے جس کا سبب واضح وروشن ہے بيشک الله تبارک وتعالیٰ نے دعا کو مسلمانوں اور اور ان کے اوليا ء کے درميان ایک دوسرے سے رابطہ کا وسيلہ قرار دیا ہے اور وہ ولا ومحبت کی رسی کو بڑی مضبوطی کے ساته پکڑے رہيں جس کو الله نے مسلمانوں کےلئے معصوم قرار دیا ہے صلوات، ان نفسی رابطو ں ميں سے سب سے اہم سبب کا نام ہے بيشک محبت کے حلقے (کڑیاں)الله اور اس کے بندوں کے درميان ملی ہو ئی ہيں اور رسول الله اور اہل بيت عليہم السلام کی محبت ان کی سب سے اہم کڑیا ں ہيں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے محبت الله کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اہل بيت عليہم السلام کی محبت رسول الله (ص)کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اس محبت کی تا کيد اور تعميق خداوند عالم کی محبت کی تاکيد کا جزء ہے نيز خداوند عالم کی محبت کی تعميق کا جزء ہے یہ معرفت کا ایسا وسيع باب ہے جس کو اس مقام پر تفصيل سے بيان نہيں کيا جا سکتا اور اس سلسلہ ميں ہم کما حقہ گفتگو نہيںکر سکتے ہيںشاید خداوند عالم ہم کو کسی اور مقام پر اسلا می ثقافت اور اسلامی امت کی تکوین کے سلسلہ ميں اس اہم اور حساس نقطہ کے سلسلہ ميں گفتگو کی تو فيق عنایت فر ما ئے ۔

اس مطلب پر اسلامی روایات ميں بہت زور دیا گيا ہے ۔ہم اس مو ضوع سے متعلق بعض روایا ت کو ذیل ميں بيان کر رہے ہيں ۔

۵

اور ان ميں سب سے عظيم خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :

( اِنَّ الله ٰ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَْ عَلیَ النَّبِی یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْصَلُّواعَلَيهِْ وَسَلِّمُواْتَسلِْيمْاً ) (۱)

“بيشک الله اور اس کے ملا ئکہ رسول پر صلوات بهيجتے ہيں تو اے صاحبان ایمان تم بهی ان پر صلوات بهيجتے رہو اور سلام کرتے رہو ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :الصلاة عليّ نورعلی الصراط (۲)

“مجه پر صلوات بهيجنا پل صراط کےلئے نور ہے” یہ بهی رسول اسلام (ص) کا ہی قول ہے:انّ ابخل الناس مَنْ ذُکرت عنده،ولم یصلّ عليّ (۳)

“سب سے بخيل انسان وہ ہے جس کے پاس ميرا تذکرہ کيا جائے اور وہ مجه پر صلوات نہ بهيجے ”

عبد الله بن نعيم سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا جب ميں گهر ميں داخل ہو تا ہوں تو ميں اپنے پاس محمد وآل محمد پر صلوات بهيجنے کے علاوہ کوئی اور دعا نہيں پاتا تو آپ نے فرمایا :آگاہ ہو جاؤ اس سے افضل اور کوئی چيز نہيں ہو سکتی ہے ”حضرت امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے مروی ہے:اثقل مایُوزن في الميزان یوم القيامة الصلاة علیٰ محمّد وآل محمّد “قيامت کے دن ميزان ميں سب سے زیادہ وزنی چيز محمد وآل محمد پر ” صلوات ہو گی(۴)

حضرت امير المو منين عليہ السلام نہج البلا غہ ميں ارشاد فرما تے ہيں :اذاکانَ لکَ اِل یٰ الله سُبحَْانَهُ حَاجَة فَابدَْابِْمَسا لَةِ الصَّلَاةِ عَل یٰ رَسُولِْهِ ثُمَّ سَل حَاجَتُکَ؛فَاِنَّ الله ٰ اَکرَْمُ مِن اَن یُسالَ حَاجَتَينِْ ،فَيَقضْ یٰ اِحدَْاهُمَاوَیَمنَْعُ الاُْخرْ یٰ (۵)

“جب تم خداوندعالم سے کوئی حاجت طلب کرو تو پہلے محمد وآل محمد پر صلوات بهيجو اس کے بعد اس سے سوال کرو بيشک خداوندعالم سب سے زیادہ کریم ہے کہ اس سے دو حاجتيں طلب کی جائيں اور وہ ان ميں سے ایک کو پورا کردے اور دوسری کو پورا نہ کرے ” انبياء ومرسلين اور ان کے اوصيا ء کی دعا ئيں اسی طرح کی دعائيں ہيں ۔

عام طور پر تمام انبياء عليہم السلام اور ان کے اوصيا ء پر صلوات وسلام وارد ہو تے ہيں یا اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعاؤں ميں مشخص ومعين اور نام بنام ان پر صلوات وسلام وارد ہوئے ہيں اور ان ميں وارد ہو نے والی ایک دعا (عمل ام داؤد )ہے جو رجب کے مہينہ ميں ایام بيض کے سلسلہ ميں وارد ہو ئی ہے اور وہ امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے ۔

____________________

۱ سورئہ احزاب آیت/ ۵۶ ۔ ۲ کنز العمال حدیث / ٢١۴٩ ۔ ۳ کنز العمال حدیث/ ٢١۴۴ ۔ ۴ بحارالانوار جلد ٧١ ۔صفحہ/ ٣٧۴ ۔ ۵ نہج البلاغہ حکمت ٣۶١ ۔

۶

محمد وآل محمد (ص)پر صلوات بهيجنے کے چند نمونے صحيفه سجادیه ميں امام زین العابد ین عليه السلام فرما تے هيں : ربِّ صلِّ علی محمّد وآل محمّد،المنتجب،المصطفیٰ المکرّم،المقرّب افضل صلواتک وبارک عليه اتَمّ برکا تک،وترحّم عليه امتع رحماتک

ربِّ صلِّ علی محمّد وآله صلاة زاکية لاتکون صلاة ازکیٰ منها و صلِّ عليه صلاة ناميةلاتکون صلاةانمیٰ منهاوصلِّ عليه صلاةراضية لاتکون صلاة فوقهاربِّ صلِّ علی محمّد صلوة تُرضيه وتزید علی رضاه وصلِّ عليه صلاة تُرضيک وتزید علی رضاک وصلِّ عليه صلاة لانرضیٰ له الَّابها ولاتریٰ غيره لهااهلا ربِّ صلِّ علیٰ محمّد وآله صلاةتنتظم صلوات ملائکتک وانبيائک ورسلک واهل طاعتک

“خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما جو منتخب ،پسندیدہ ،محترم اور مقرب ہيں۔ اپنی بہترین رحمت اور ان پر برکتيں نازل فر ما اپنی تمام ترین برکات ،اور ان پر مہربانی فرما اپنی مفيد ترین مہربانی خدایا محمد وآل محمد پر وہ پاکيزہ صلوات نہ ہو اور وہ مسلسل بڑهنے والی رحمت جس سے زیادہ بڑهنے والی کو ئی رحمت نہ ہو ۔ان پروہ پسندیدہ صلوات نازل فرماجس سے بالا تر کو ئی صلوات نہ ہو ۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جس سے انهيں راضی کر دے اور ان کی رضامندی ميں اضافہ کر دے اپنے پيغمبر پر وہ صلوات نازل فر ما جو تجهے راضی کر دے اور تيری رضا ميں اضافہ کر دے ۔ان پر وہ صلوات نازل فر ما جس کے علا وہ ان کے لئے کسی صلوات سے تو راضی نہ ہو اور اس کا ان کے علاوہ کو ئی اہل نہ سمجهتا ہو ۔۔۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جو تيرے ملا ئکہ ،انبياء و مر سلين اور اطا عت گذاروں کی صلوات کو سميٹ لے ”

۷

٢۔مومنين کےلئے دعا

خداوندعالم کی حمد وثنااور محمد وآل محمد انبياء اور ان کے اوصياء پر درودو سلام بهيجنے کے بعد سب سے اہم چيز مومنين کےلئے دعا کرنا ہے یہ دعا ،دعا کے اہم شعبوں ميں سے ہے اس لئے کہ مومنين کے لئے دعا کرنا اس روئے زمين پرہميشہ پوری تاریخ ميں ایک مسلمان کوپوری امت مسلمہ سے جو ڑے رہی ہے جس طرح محمد وآل محمد پر صلوات خداوندعالم کی طرف سے نازل ہو نے والی ولایت کی رسی کے ذریعہ جو ڑے رہی ہے۔

اس رابط کو دعا ایک طرف فردا ور امت کے درميان جوڑتی ہے اور ان سے رابطہ قائم کرنے والے تمام افراد کے درميان اس رابطہ کو جوڑتی ہے یہ رابطہ سب سے بہترین وافضل رابطہ ہے اس لئے کہ اس علاقہ وتعلق سے انسان الله کی بارگاہ ميں جاتا ہے اور یہ تعلق ولگاؤ اس کو ہميشہ خدا سے جوڑے رہتا ہے اور وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نہيں پہچانتا اور یہ الله کی دعوت پرلبيک کہنا ہے ۔یہ دعا دو طریقہ سے ہو تی ہے :عام دعا کسی شخص کو معين اور نام لئے بغير دعا کرنا ۔

دوسرے نام بنام اور مشخص ومعين کرنے کے بعد دعا کرنا ۔ اور ہم انشاء الله ان دونوں قسموں کے متعلق بحث کریں گے :

١۔عام مومنين کےلئے دعا

اس طرح کی دعا کو الله دوست رکهتا ہے ، اس کو اسی طرح مستجاب کرتا ہے خدا وند عالم اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ بعض دعاکو قبول کرے اور بعض دعا کورد کردے۔

دعا کا یہ طریقہ عام مومنين کےلئے ہے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور طول تاریخ ميں روئے زمين پرامت مسلمہ کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتاہے اور ہمارے تعلقات کو اس خاندان سے زیادہ مضبوط ومحکم کرتا ہے ۔

ہماری زندگی ميں دعا کے دو کردار ہيں : پہلا کردار یہ ہے کہ ہم الله سے رابطہ قائم کرتے ہيں ۔

دوسرا کردار یہ ہے کہ طول تاریخ ميں روئے زمين پر ایمان لانے والی امت مسلمہ سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے ۔

۸

دعا کے اس بليغ طریقہ پر اسلامی روایات ميں بہت زیادہ زور دیا گيا ہے اور یہ وارد ہو ا ہے کہ خدا وند عالم دعا کرنے والے کو اس کی بزم ميں حاضر ہونے والے تمام مومنين کی تعداد کے مطابق نيک ثواب دیتا ہے ،اس دعا ميں شامل ہونے والے ہر مومن کی اس وقت شفاعت ہوگی جب خدا اپنے نيک بندوں کو گناہگار بندوں کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے کہ رسول الله (ص)نے فرمایا :

مامن مومن دعا للمومنين والمومنات إلَّاردّاللّٰه عليه مثل الذي دعا لهم به من کلّ مومن ومومنة ،مضی مِنْ اوّل الدهراو هوآت الیٰ یوم القيامة وانّ العبد ليومر به الیٰ النار یوم القيامة فيسحب،فيقول المومنون والمومنات:یاربّ هٰذا الذيکان یدعوالنافشفعنافيه،فيشفعّهم اللّٰه عزَّوجلَّ، فينجو (١)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من و مو منہ کے بدلے خلقت آدم سے قيامت تک نيکی لکھے گا ۔

بيشک قيامت کے دن ایک انسان کو دوزخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس کو کهينچا جا ئيگا اس وقت مو من و مو منات کہيں گے یہ وہی شخص ہے جو ہمارے لئے دعا کرتا تھا لہٰذا ہم کو اس کے سلسلہ ميں شفيع قرار دے تو خداوند عالم ا ن کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جائيگا ” امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

مَنْ قال کلّ یوم خمسا و عشرین مرة :اللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کتب الله له بعددکل مومن وضیٰ وبعددکل مومن ومومنة بقي الیٰ یوم القيامة حسنة ومحا عنه سيئة ورفع له درجة ( ٢)

“جس نے ایک دن ميں پچيس مرتبہاللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کہا ،تو خدا وند عالم ہرگز شتہ اور قيامت تک آنے والے مومن اور

____________________

۴،حدیث / ١)اصول کا فی / ۵٣۵ ،آمالی طوسی جلد ٢صفحہ ٩۵ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵١ ) ٨٨٨٩ ۔ /

١١۵١ ،حدیث ٨٨٩١ ۔ / ٢)ثواب الاعمال صفحہ ٨٨ ؛وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۹

مومنہ کی تعداد کے مطابق اس کےلئے حسنات لکھے گا اور اس کی برائيوں کو محو کردے گا اور اس کا درجہ بلند کرے گا ”

ابو الحسن حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :مَنْ دعالإخوانه من المومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات وکّل الله به عن کل مومن ملکا یدعو له (١)

“جس نے مومنين ومومنات اور مسلمين ومسلمات کےلئے دعا کی تو خداوندعالم ہر مومن پر ایک ملک کو معين فرما ئے گا جو اس کےلئے دعا کر ے گا ” ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے :

مامن مومن ید عوللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّاکتب اللّٰهُ لهُ بکُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة (٢)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کيلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آباؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :مامن مومن اومومنة ،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،الَّا وهم شفعاء لمن یقول فی دعائه:اللهم اغفرللمومنين والمومنات، وان العبدليومر به الی النار یوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات :

____________________

١١۵٢ ،حدیث ٨٨٩٣ ۔ / ١)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

١١۵٢ ،حدیث / ٨٨٩۴ ۔ / ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۰

یاربَّنا هذاالذي کان یدعولنافشفّعنافيه فيشفّعهم الله ،فينجو ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکے ہيں یا قيامت تک آنے والے ہيں وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والے ہيں جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے:

مامن مومن یدعو للمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّا رد اللّٰهُ عليه من کُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة ( ٢)

“جو شخص زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرتا ہے تو خداوند عالم خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا واجداد سے انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :

مامن عبد دعاء للمومنين والمومنات الاّردّالله عليه مثل الذي دعا لهم من کلّ مومن ومومنة،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،وان العبد ليومر به الی الناریوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات:یاربّناهذاالذی

____________________

١)امالی صدوق صفحہ ٢٧٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۵ ۔ )

٢)ثواب الاعمال صفحہ / ۴۶ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ /صفحہ ٣٩۶ ۔ )

۱۱

کان یدعولنا فشفّعنافيه فيشفّعهم الله ، فينجومن النار ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکا ہے یا قيامت تک آنے والا ہے وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والا ہے جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن اس انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

امام جعفر صادق رسول خدا سے نقل فرماتے ہيں :

اذا دعا احدکم فليعمَّ فإنّه اوجب للدعاء ( ٢)

“جب دعا مانگو تو سب کيلئے دعا مانگو کيونکہ اس طرح دعا ضرور قبول ہو تی ہے ”

ابو عبد الله الصادق عليہ السلام سے مروی ہے : جب انسان کہتا ہے :اللهم إغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات الاحياء منهم وجميع الاموات ردّ الله عليه بعدد مامضی ومَنْ بقي من کلّ انسان دعوة ( ٣)

“پروردگار تمام زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کو بخش دے تو خداوند عالم اس کے گذشتہ اور آئندہ انسانوں کی تعداد کے برابر نيکی لکه دیتا ہے ”

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ / ۴٧ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٢)ثواب الا عمال صفحہ / ١۴٧ ۔بحار الا نوار جلد ٩٢ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٣)فلاح السائل صفحہ / ۴٣ ۔بحار النوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨٧ ۔ )

۱۲

عمومی دعا کے کچه نمونے

ہم ذیل ميں اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعا ؤں ميں عام دعا کے

سلسلہ ميں کچه نمونے پيش کرتے ہيں :

اللهم اغنِْ کُلَّ فَقِيرٍْاللهم اشبِْع کُلَّ جَائِعٍ ،اللهم اکسُْ کُلَّ عُریَْانٍ اللهم اقضِْ دَیْنَ مِنْ کُلِّ مَدِیْنٍ اللهم فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوْبٍ اللهم رُدَّ کُلَّ غَرِیْبٍ اللهم فُکَّ کُلَّ اَسِيرٍْاللهم اَصلِْح کُلِّ فَاسِدٍ مِن اُمُورِْالمُْسلِْمِينَْ،اللهم اشفِْ کُلَّ مَرِیضٍْ، اللهم سُدَّ فَقَرنَْا بِغِنَاکَ،اللهم غَيِّرسُْوءَْ حَالَنَا بِحُسنِْ حَالِکَ،وَصَلَّ الله ٰ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَْ

“خدا یا تو ہر فقير کو غنی بنادے، خدایا تو ہر بهوکے کو سيرکردے، خدایا توہر برہنہ کو لباس پہنا،خدایا تو ہرقرضدار کا قرض ادا کر دے، خدایاہر غمگين کے غم کو دور کر،خدایاہر مسافر کو اس کے وطن پہنچا دے، خدایاہر اسير کو آزاد کر ،خدایامسلمانوں کے جملہ فاسد امور کی اصلاح فر ما، خدایاہر مریض کو شفا عطا کر، خدایاہمارے فقر کو اپنی مالداری سے درست کردے ،خدایاہماری بد حالی کو خوش حالی سے بدل دے، خدا یا ہمارے قرض کو ادا کر دے اور ہمارے فقر کو مالداری سے تبدیل کر دے اور محمد اور ان کی آل پاک پر صلوات بهيج”

ان ہی نمونوں ميں سے ہے :

اللهم وتفضّل علی فقراء المومنين والمومنات بالغنیٰ والثروة،وعلیٰ مرضی المومنين والمومنات بالشفاء والصحة ،وعلیٰ احياء المومنين والمومنات باللطف والکرامة وعلیٰ اموات المومنين والمومنات بالمغفرة والرحمة وعلیٰ مسافرالمومنين والمومنات بالردّ الیٰ اوطانهم سالمين غانمين برحمتک یاارحم الراحمين وَصَلَّ اللّٰهُ عَلیٰ سيدنامُحَمَّدٍخاتم النبيين وعترته الطَّاهِرِیْنَ

“خدایامو منين اور مومنات فقراء کو اپنے فضل سے دولت و ثروت عطا کر ، بيمار مو منين او ر مومنات کو شفا و صحت عطا کر ، زندہ مو منين اور مو منات پر لطف و کرم فرما،مردہ مو منين ومو منات پر بخشش و رحمت عطا فرما ،اپنی رحمت سے مسافرمومنين و مومنات کو ان کے وطن ميں صحيح و سالم واپس لوڻااور ہما رے سيد و سردار محمد خا تم النبيين اور ان کی آل پاک پردرود وسلام ہو”

صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۳

اللهم وصلّ علیٰ التابعين منایومنا هذا الیٰ یو م الدین وعلی ازواجهم وعلیٰ ذرِّیاتهم وعلیٰ مَنْ اطاعک منهم صلواةً تعصمهم بها من معصيتک وتفسح لهم فی ریاض جنتک وتمنعهم بها من کيد الشيطان وتعينهم بها علیٰ مااستعانوک عليه من برّ وتقيهم طوارق الليل والنهار الاّ طارقا یطرق بخيرٍ

“خدایاان تمام تا بعين پر آج کے دن سے قيامت کے دن تک مسلسل رحمتيں نا زل کر تے رہنااور ان کی ازواج اور اولا د پر بهی بلکہ ان کے تمام اطاعت گذاروں پر بهی وہ صلوات و رحمت جس کے بعد تو انهيں اپنی معصيت سے بچا لے اور ان کےلئے باغات جنت کی وسعت عطا فر ما دے اور انهيں شيطان کے مکر سے بچا لے اور جس نيکی پر امداد مانگيں ان کی امداد کر دے اور رات اور دن کے نا زل ہو نے والے حوادث سے محفوظ بنا دے ۔علاوہ اس حادثہ کے جو خير کا پيغام ليکر آئے ”

سرحدوں کے محا فظوں کے حق ميں دعا

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ،وَحَصِّن ثُغُورَْالمُْسلِْمِينَْ بِعِزَّتِکَ وَاَیَّدحُْمَاتُهَا بِقُوَّتِکَ وَاَسبِْغ عَطَایَاهُم مِن جِدَتکَ اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَکَثِّرعِْدَّتَهُم وَاشحَْذاَْسلِْحَتَهُم وَاحرُْس حَوزَْتَهُم وَامنَْع حَومَْتَهُم وَاَلِّف جَمعَْهُم وَدَبِّراَْمرَْهُم وَوَاتِر بَينَْ مِيَرِهِم وَتَوَحَّد بِکِفَایَةِ مُونِهِم وَاعضُْدهُْم بِالنَّصرِْوَاَعِنهُْم بِالصَّبرِْوَالطُْف لَهُم فِي المَْکرِْ

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَعَرِّفهُْم مَایَجهَْلُونَْ وَعَلِّمهُم مَالَایَعلَْمُونَْ وَ بَصِّرهُْم مَالَایُبصِْرُونَْ

“خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر ما اور اپنے غلبہ کے ذریعہ مسلمانوں کی سر حدوں کی محا فظت فر ما اور اپنی قوت کے سہارے محا فظين حدود کی تا ئيد فر ما اور اپنے کرم سے ان کے عطایا کو مکمل بنا دے خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجا ہدوں کی تعداد ميں اضافہ فر ما ان کے اسلحوں کو تيز و تند بنا دے ان کے مر کزی مقا مات کی حفاظت فر ما ،ان کے حدود و اطراف کی حراست فر ما ان کے اجتماع انس و الفت پيدا کر ان کے امور کی تدبير فر ما ان کی رسد کے و سائل کو متواتر بنا دے اور تو تن تنہا ان کی تمام ضروریات کے لئے کا فی ہو جا اپنی نصرت سے ان کے با زووں کو قوی بنا دے اور جو ہر صبر کے ذریعہ ان کی امداد فرما اور باریک تدبيروں کا علم عطا فرما ۔

خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر مااور مسلمانوں کو ان تمام چيزوں سے با خبر کر دے جن سے وہ نا واقف ہيں اور وہ تمام با تيں بتا دے جنهيں نہيں جا نتے ہيں اور وہ سارے منا ظر دکهلا دے جنهيں آنکهيں نہيں دیکه سکتی ہيں ” صحيفہ سجادیہ ميں ایک اور مقام پرامام زین العا بد ین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۴

اللهم وایّمامسلم اهمّه امرالاسلام واحزنه تحزب اهل الشرک عليهم فنویٰ غزواً او همّ بجهاد فقعد به ضعف اوابطات به فاقة اواخرّه عنه حادث او عرض له دون ارادته مٰانع فاکتب اسمه فی العابدین واوجب له ثواب المجاهدین واجعله فی نظام الشهدٰآ ء والصالحين

“خدا یااور جس مسلمان کے دل ميں اسلام کا درد ہوا ور وہ اہل شرک کی گروہ بندی سے رنجيدہ ہوکرجہاد کاارادہ کر ے اور مقابلہ پر آمادہ ہوجائے ليکن کمزوری اسے بڻها دے یا فاقہ اسے روک دے یا کوئی حادثہ درميان ميں حائل ہوجائے اور اس کے ارادہ کی راہ ميں کوئی مانع پيش آجائے تو اس کا نام بهی عبادت گزاروں ميں لکه دینا اور اسے بهی مجاہدین کا ثواب عطا فرمادینا اور شہداء وصالحين کی فہرست ميں اس کا نام بهی درج کردینا ”

دعا مجاہدین الرساليين صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العابدین فرماتے ہيں :اللهم وَاَیُّمَامُسلِْمٍ خَلَفَ غَازِیاً اومُْرَابِطاًفِي دَارِهِ اَوتَْعَهَّدَخَالِفِيهِْ فِی غَيبِْتِهِ اَواَْعَانَهُ بِطَائِفَةٍ مِن مَالِهِ،وَاَمَدَّهُ بِعِتَادٍ،اَو رَع یٰ لَهُ مِن وَّرَائِهِ حُرمَْةً فَ اٰ جِرلَْهُ مِثلَْ اجرِْهِ وَزنْاً بِوَزنٍْ،وَمِثلْاًبِمِثلٍْ

“اور خدایا جو مرد مسلمان کسی غازی یا سرحد کے سپاہی کے گهر کی ذمہ داری لے لے اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے یا اپنے مال سے اس کی مدد کرے یا جنگ کے آلات و ابزار سے اس کی کمک کرے یا پس غيبت اس کی حُر مت کا تحفظ کرے تو اسے بهی اسی جيسا اجر عطا کر ناتا کہ دونوں کا وزن ایک جيسا ہو ”

قرآن کریم ميں دعا کے تين صيغے

قرآن کریم ميں دعا کےلئے تين صيغے آئے ہيں :

١۔ایک انسان کا خود اپنے لئے دعا کرنا ۔

٢۔کسی دوسرے کےلئے دعا کرنا ۔

٣۔کچه افراد کا مل جل کر تمام مومنين کےلئے دعا کرنا ۔

دعا کے سلسلہ ميں ہم ذیل ميں ان تينوں گروہوں کے بارے ميں بيان کرتے ہيں تاکہ مو منين کےلئے دعا کرنے ميں ہم قرآن کے اسلوب سے واقف ہو سکيں:

۱۵

١۔ اپنے لئے دعا

دعا کا یہ مشہور ومعرف طریقہ ہے ہم قرآن کریم ميں انبياء عليہم السلام اور صالحين کی زبانی اس طرح دعا کرنے کے بہت سے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہيں یا خدا کے وہ اپنے بندے جن کو الله نے اس طرح دعا کرنے کی تعليم دی ہے اس سلسلہ ميں قرآن کریم فرماتا ہے :

رَبِّ قَدآتَيتَْنِی مِنَ المُْلکِْ وعَلَّمتَْنِی مِن تَاوِیلِْ الاْحَادِیثِْ فَاطِرَ السَّ مٰوَاتِ وَالاَْرضِْ اَنتَْ وَلِیِّ فِی الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسلِْماً وَاَلحِْقنِْی بِالصَّالِحِينَْ ( ١)

“پروردگار تو نے مجھے ملک بهی عطاکيا اور خوابوں کی تعبير کا علم بهی دیا تو زمين وآسمان کا پيدا کرنے والاہے اور دنيا وآخرت ميں ميراوالی اور سرپرست ہے مجھے دنيا سے فرمانبردارہی اڻهانا اور صالحين سے ملحق کردینا ”

رَبِّ اَدخِْلنِْی مُدخَْلَ صِدقٍْ وَاخرِْجنِْی مُخرَْجَ صِدقٍْ وَاجعَْل لِی مِن لَّدُنکَْ سُلطَْاناً نَصِيرْاً ( ٢)

“اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچهی طرح سے آبادی ميں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور ميرے لئے ایک طاقت قرار دیدے جو ميری مدد گار ثابت ہو ۔

رَبِّ اشرَْح لِی صَدرِی وَیَسِّرلِْی اَمرِْی وَاحلُْل عُقدَْةً مِن لِّسَانِی یَفقَْهُواْ قَولِْی (٣) “موسیٰ نے عرض کی پروردگار ميرے سينے کو کشادہ کردے اور ميرا کام ميرے لئے آسان کردے اور ميری زبان سے لکنت کی گرہ کهول دے تا کہ لوگ ميری بات اچهی طرح سمجهيں ”

رَبِّ تٰ لاَذَرنْی فَردَْاً وَانْتَْ خَيرُْال اْٰورِثينَ (۴)

____________________

١)سورئہ یوسف آیت/ ١٠١ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت/ ٨٠ ۔ )

٣)سورئہ طہ آیت/ ٢۵ ۔ ٢٨ ۔ )

۴)سورئہ انبياء آیت/ ٨٩ ۔ )

۱۶

“پروردگار مجھے اکيلا نہ چهوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے۔ر َبَّ انزِْلنْی مُنزَْلاًمُ اٰبرَکاً وَانتَْ خَيرُْالمُْنزِْلينَ ( ١)

“اور یہ کہنا کہ پوردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ توبہترین اتارنے والا ہے ۔َبِّ اعُوذُبِکَّ مِن هَمَ اٰزتِ الشَّ اٰيطينِ وَاعُوذُ بِکَ رَبِّ ان یَحضُْرُونِ ( ٢)

“اور کہئے کہ پروردگار ميں شيطانوں کے وسوسوں سے تيری پناہ چاہتا ہوں اور اس بات سے پنا ہ ما نگتا ہوں کہ شياطين مير ے پاس آجائيں ”

رَبِّ هَب لی حُکمَْاًوَالحِْقنْی بِالصاٰلِّحينَ وَاجعَْل لی لِ سٰانَ صِدقٍْ فیِ الآْخِرینَ (وَاجعَْلنْی مِن وَرَثةِجَنّةِالنَّعيمِ ( ٣)

“خدا یا مجھے علم وحکمت عطا فرمااور مجھے صالحين کے ساته ملحق کردے اور آئندہ آنے والی نسلوں ميں ميرا ذکر خير قائم رکه اور مجھے بهی نعمت کے باغ (بہشت)کے وارثوں ميں قراردے”

٢۔ دوسروں کےلئے دعا !

دوسرا طریقہ جس کے سلسلہ ميں قرآنی نمونے اور شواہد موجود ہيں ۔ خدا فرماتا ہے :وَقُل رَبِّ ارحَْمهُْ مٰاکَ مٰارَبّ اٰينی صَغيراً ( ۴)

“پرور دگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فر ما جس طرح کے انهوں نے بچپنے ميں مجھے پالا ہے ”

____________________

١)سورئہ مومنون آیت/ ٢٩ ۔ )

٢)سورئہ مومنون آیت/ ٩٧،٩٨ ۔ )

٣)سورئہ شعراء اآیت/ ٨٣ ۔ ٨۵ ۔ )

۴)سورئہ اسراء آیت/ ٢۴ ۔ )

۱۷

ملة العرش کی مومنين کے لئے دعا:رَبَّ اٰنوَسِعتَْ کُلَّ شَی ءِ رَحمَْة وَعِلمَْاً فَاغفِْرلِْلَّذینٍ اٰتبُواواتَّبَعوُاسَبيلَکَ وَقِهِم عَذابَ الجَْحيمِ رَبَّ اٰنوَادخِْلهُْم جَناٰتِّ عَدنٍْ الَّتی وَعَدتَْهُم وَمَن صَلَحَ مِن آ اٰبئِهم وَاز اْٰوجِهِم وَذُرِّ اٰیتِهِم اِنَّکَ انتَْ العّْزیزُالحَْکيمُ وَقِهِمَ السَيِّ اٰئتِ وَمَن تَقِ السَّيِّ اٰئتِ یَومَْئِذٍ فَقَد رحِمتَْهُ وَ لٰذِکَ هُوَالفَْوزُْ العَْظيمُ ( ١)

“خدایا تيری رحمت اور تيرا علم ہر شے پر محيط ہے لہٰذا ان لوگوں کو بخش دے جنهوں نے تو بہ کی ہے اور تيرے راستہ کا اتباع کيا ہے اور انهيں جہنم سے بچا لے ،پروردگار انهيں اور انکے باپ دادا ازواج اور اولاد ميں سے جو نيک اور صالح افراد ہيں انکو ہميشہ رہنے والے باغات ميں داخل فرما جن کا تونے ان سے وعدہ کيا ہے کہ بيشک تو سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے ،اور انهيں برائيوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تونے برائيوں سے بچاليا گویا انهيں پر رحم کيا ہے اور یہ بہت بڑی کا ميابی ہے ”

٣۔اجتماعی دعا

قرآن کریم کا یہ سب سے مشہور طریقہ ہے اور قرآن کریم کی اکثر دعا ئيں اسی طرح کی ہيں اس سلسلہ ميں قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے :

اِهدِْنَاالصِّراطَ المُْستَْقيمَ صِ اٰرطَ الَّذینَ اَنعَْمتَْ عَلَيهِم غيرِالمَْغضُْوبِْ عَلَيهِْم وَلاَالضاٰلِّّينَْ (٢) ہم سيدهے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں ”

____________________

١)سورئہ غافر آیت/ ٧۔ ٩ )

٢) سورئہ حمد آیت ۶۔ ٧۔ )

۱۸

رَبَّ اٰنتَقَبَّل مِناٰاِّنَّکَ اَنتَْ السّميعُ العَْليِمُ ( ١)

“اور دل ميں یہ دعا تهی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا ہے ”

رَبَّنَاء تِاٰنَا فِی الدُّنيَْاحََسَنَةًوَفِی الآْخِرَةِحَسَنَةًوَقِنَاعَذَابَ النَّارِ ( ٢)

“پروردگار ہميں دنيا ميں بهی نيکی عطا فرما اور آخرت ميں بهی اور ہم کو عذاب جہنم سے محفوظ فرما”

رَبَّ اٰنافرِْغ عَلي اْٰنصَبرَْاًوَثَبِّت اق اْٰ دمَ اٰنوَانصُْر اْٰنعَلی القَْومِ ال اْٰ کفِرینَ ( ٣)

“خدایا ہميں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہميں کافروں کے مقابلہ ميں نصرت عطا فرما”

رَبَّ اٰنلَاتُواخِذنَْااِن نَسِينَْااَواَْخطَْانَارَبَّنَاوَلَاتَحَمِّل عَلَينَْااِصرْاًکَمَاحَمَلتَْهُ عَلیَ الَّذِینَْ مِن قَبلِْنَارَبَّنَاوَلَاتُحَمِّلنَْامَالَاطَاقَةَلَنَابِهِ وَاعفُْ عَنَّاوَاغفِْرلَْنَا وَارحَْمنَْااَنتَْ مَولَْانَا فَانصُْرنَْاعَلیَ القَْومِْ الکَْافِرِینَْ ( ۴)

“پروردگار ہم جو کچه بهول جائيں یا ہم سے غلطی ہوجائے اسکا ہم سے مواخذہ نہ کرنا خدایا ہم پر ویسا بوجه نہ ڈالنا جيسا پہلے والی امتوں پر ڈالاگيا ہے پروردگار ہم پر وہ بارنہ ڈالنا جس کی ہم ميں طاقت نہ ہوہميں معاف کردینا ہميں بخش دیناہم پر رحم کرنا تو ہمارا مولا اور مالک ہے اب کافروں کے مقابلہ ميں ہماری مدد فرما”رَبَّ اٰنلَاتُزِغ قُلُوبَْنَابَعدَْاِذهَْدَیتَْنَاوَهَب لَنَامِن لَّدُنکَْ رَحمَْةًاِنَّکَ اَنتْ

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت ١٢٧ )

٢)سورئہ بقرہ آیت ٢٠١ )

٣)سورئہ بقرہ آیت ٢۵٠ ۔ )

۴)سورئہ بقرہ آیت ٢٨۶ ۔ )

۱۹

اَلْوَهَّابُ ( ١)

“ان کا کہنا ہے کہ پروردگار جب تونے ہميں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں ميں کجی نہ پيدا ہونے پائے اور ہميں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہے ”

رَبَّ اٰناِنَّنَاسَمِعنَْامُنَادِیاًیُنَادِی لِلاِْیمَْانِ ان آمِنُواْبِرَبِّکُم فَآمَنَّارَبَّنَافَاغفِْرلَْنَا ذُنُوبَْنَاوَکَفِّرعَْنَّاسَيِّئَاتِنَاوَتَوَفَّنَامَعَ الاَْبرَْارِ رَبَّنَاوَآتِنَامَا وَعَدتَْنَاعَل یٰ رُسُلِکَ وَلَا تُخزِْنَا یَومَْ القِْيَامَةِ اِنَّکَ لَاتُخلِْفُ المِْيعَْادَ ( ٢)

“پروردگار ہم نے اس منادی کو سناجو ایمان کی آواز لگارہاتها کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے پروردگاراب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائيوں کی پردہ پوشی فرما اور ہميں نيک بندوں کے ساته محشور فرما پروردگار جو تو نے اپنے رسول سے وعدہ کيا ہے اسے عطا فرما اور روز قيامت ہميں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہيں کرتا”

( رَبَّنا اٰٴَفرِْغ عَليناْٰصَبرْاً وَتَوَفَّنَا مُسلِْمِينَْ ) ( ٣)

“خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہميں مسلمان دنيا سے اڻهانا”( رَبَّ اٰنآمَنَّافَاغفِْرلَْنَاوَارحَْمنَْاوَاَنتَْ خَيرٌْالرَّاحِمِينَْ ) ( ۴)

“پروردگار ہم ایمان لائے ہيں لہٰذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہم پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے ”’

( رَبَّ اٰناصرِف عَنَّاعَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَاکَانَ غَرَاماً ) (۵)

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت ٨۔ )

٢)سورئہ آل عمران آیت ١٩٣ ۔ ١٩۴ )

٣)سورئہ اعراف آیت / ١٢۶ ۔ )

۴)سورئہ مو منون آیتِ ١٠٩ ۔ )

۵)سورئہ فرقان آیت/ ۶۵ ۔ )

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(1)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ غرر الحکم :ج2  ص9 9 4

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(1)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ابراہیم آیت: 4 2

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

1 ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

2 ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

3 ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

   2 ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   1 ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   2 ۔ گمراہوں کی صحبت

   3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (1)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غر ر الحکم :ج5ص  87

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (1)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی:ج 1ص  20

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (1)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]بحار الانوار:ج 1  ص5 20۔

۱۱۳

2 ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(1)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (2)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ زخرف ، آ یت 67 ، بحار الا نوار:ج 77ص  2 10

[2]۔ بحار الانوار:ج 77ص  86

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(1)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[3]۔ بحا ر الانوار:ج 19ص  81

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(1)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج71 ص 40 3

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (1)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی :ج۱  ص30

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(1)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 69

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248