دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)30%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68425 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9)(1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

۴۱

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59)(1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۲

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9)(1)

اور یہ آیت(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۳

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32)(2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

۴۴

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ)(1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود 

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود      

کہ من نان برگ از کجا آرمش     

                                مروت نباشد کہ بگزارمش  

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                           

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

۴۵

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱)(1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

۴۶

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

۴۷

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

۴۸

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                        

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                 

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

۴۹

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

۵۰

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93)(1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

۵۱

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲)(1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

۵۲

محل بحث آئیہ کریمہ دو حصوں پر مشمل ہیں ۔ جملہ مستثنی اور جملہ مستثنی منہ ۔اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ مستثنی منہ کے مورد میں ہے ۔لیکن مستثنی یعنی مخصوص مواردمیں قتل کا جائز ہونامحل بحث آیت میں بطور کلی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ارشاد ہوتا ہے۔:الابالحق:اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ ان موارد میں افراد کا قتل کرنا حق ہے ۔اسطرح کہ اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور یہ موارد تین عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں ۔  

    ۱: باب قصاص:

  اگر کسی نے دوسرے کے قتل کا اقدام کیا لیکن مقتول یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کو اس کے جرم میں کہ جسکا وہ مرتکب ہوا ہے ۔اور محترم جان کو مار ڈالا ہے ۔قتل کر دیا جائے ۔البتہ خودیہ کام معاشرہ سے قتل کو ختم کرنے  اور نفسوں کی حفاظت کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔ اور یہ حکم صراحت کے ساتھقرآنمجیدمیںآیاہے ۔اسطرحسےکہجوقابل تصرف وتاویل نہیں ہے ۔

ایک مصری دانشمند فرید وجدی   کہتا ہے کہ : اکثر یورپی قوانین قاتل پر قتل کا حکم لگاتی ہیں کہ اسکو قتل کر دیا جائے ۔لیکن ایک نیا نظریہ وجود میں آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ قاتل کو قتل نہیں کرنا چاہئے ۔بلکہ قید و بند ہی اسکے لئے کافی ہے بعض ممالک جیسے سوئزر اوراٹلی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔ قاتل کو ان ممالک کی شریعتوں اور قوانین کے تحت قتل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انفرادی قید خانہ میں قید کر دیا جاتا ہے ۔کہ جہاں کوئی آواز اسکے کانوں تک نہ پہونچے اور اسکو چند سال تک اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکے بعد اسکو عمومی زندان کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے ۔اور اس سے سخت سے سخت کام لئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

۵۳

ان اسلامی قوانین کےاحکام کی حکمت (کہ جن کے قتل کی سزا بعض یوروپی ممالک میں ایک دوسری صورت میں لاگو ہوتی ہے )سے موازنہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ ہے ۔؟ اسکے علاوہ قتل کے ذریعہ قصاص ،خود اس عمل کی قسم میں سے ہے ۔قید کے برخلاف کہ یہ ایک سزا کی الگ قسم ہے اور  اسکا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ۔جرم اور اسکی سزا کے درمیان کا تناسب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ولی قاتل کو قتل کرے ۔اوروہ روک تھام کہ جو قتل کے قصاص میں ہے حبس اور اسی کے مثل دوسری سزائوں میں نہیں ہے ۔                        

۲ : باب حدود:۔

 زنا کےبعض  اقسام میں صرف قتل کا حکم یا پھرخاص اندازمیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

الف: اپنے نسبی محرم کے ساتھ زنا کرنا ۔   

ب: کافر ،مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرے ۔

ج: وہ مرد کہ جو کسی عورت کو زنا پر مجبور کرے ۔  

د:شادی شدہ مرد یا عورت لذت جنسی کے امکان کے باوجود زنا کریں  ۔

جیسا کہ لواط کی حد میں قضیہ کے طرفین کی بنسبت اپنے خاص شرائط کے ساتھ قتل کا حکم ہے ۔البتہ دوسرے موارد  بھی ہیں کہ جو مفصل کتابوں میں بیان ہوئے ہیں  ۔(1)

--------------

(1):- ہم نے اسکو اپنی کتاب الدر المنضود فی احکام الحدود[ جو تین جلدوں میں لکھی گئی ہے ] مفصل طور پر بیان کیا ہے

۵۴

۳:باب ارتداد:

مسلمان کا اسلام سے پھر جانا ۔اور توحید اور اسلام کے بعدراہ کفر وشرک کو اختیار کرنا  وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ اسکا یقینی اثبات قتل کا سبب ہوتا ہے ۔ اور اسکے تمام احکام و شرائط فقہ کی تفصیلی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں کہ خواہشمند حضرات ان کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  ۔(1)

لیکن اس مقام پر اس نکتہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قتل کا حکم ابتدائی مورد میں یعنی باب قصاص میں مقتول کے ولی سے مربوط ہے اور اسکے اختیار میں ہے کہ قاتل سےقصاص لے یا اسے معاف کر دے ۔

       لیکن دوسرے اور تیسرے مورد میں یہ حکم  خود حاکم شرع سے مربوط ہے  کہ پہلے قضیہ  واضح ہو جائے اور اسکے بعد قتل کا حکم اور اسی کی مانند حاکم اور قاضی کی قضاوت سے وابستہہوتا ہے ۔

اس بحث کے اختتام میں مسلمان جوانوں :ہم لڑکے اور لڑکیوں کو خیر خواہی کے ساتھ یہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنے نفوس کی کڑی حفاظت کریں ،۔تاکہ ان تین ہلاکتوں میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔اور بے گناہ انسان کے خون کے بہنے کا سبب نہ بنیں ۔قتل کی حد کے مستحق نہ بنیں ۔اور کسی ایسے گناہ سے اپنے دامن کو داغدار نہ کریں کہ خدا نہ خواستہ دین الہی سے بدبین ہو کر کافر ہو جائیں کہ نتیجہ میں ارتدای قتل کے مستحق قرار پائیں ۔

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا

        آئیہ کریمہ میں چھٹا  امر یتیموں {یعنی وہ بچے جنکے باپ اور سرپرست نہ ہوں } کے مال کی رعایت کرنا ہے ۔اس مقام کو بھی اس امرکو قرب {لاتقربوا } کے ذریعہ بیان کیا ہے۔یہاں تک کے یتیم کے مال سے قریب تک ہونے  کو منع کیا گیا ہے اس لئے کہ اس سے نزدیک ہونا خطرہ میں پڑنا ہے ۔

--------------

(1):- ر،ک بہ نتائج افکار ،مئولف کی کتاب

۵۵

یہ بات واضح ہے کہ تمام لوگوں کے مال کو محترم شمار کرنا اور اسکو ضایع کرنے اور بغیر اجازت کے خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔لیکن یتیم کے مال کا خاص طور سے ذکر کرنا اس اہمیت کی وجہ سے ہے کہ جو یتیم کے متعلق ہے اور اسکی علت یہ ہے کہ وہ بچپنے اور کمسنی کی وجہ سے عدم ورود اور خود  اسکے لئے اپنا دفاع ممکن نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے مال و دلت کے متعلق بہتر تدبیر اور اسکی حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔اس بنیاد پر مخصوص توجہ اور خاص شفارش کی گئی ہے ۔اور حکیم علی الاطلاق خدا وند عالم نے اس آیت میں یتیم کے مال کو خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔اور اسکے مال میں تصرف سے بھی منع کیا گیا ہے۔

حقیقت میں کس قدر عظیم گناہ ہے کہ انسان اس شخص کے مال کو ہاتھ لگائے کہ جو نہ اپنی اور نہ اپنے مال کے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ۔اور یہ کھلا اور واضح ضعیف پر ظلم کا مصداق ہوتا ہے ۔

اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جملئہ مبارک اور قرآن مجید کا محل بحث فقرہ اسی لفظ اور خاص عبارت کے ساتھ قرآن میں دو مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

سورہ انعام کی وہ آیت کہ جو ہماری موضوع بحث ہے ۔

اور دوسری آیت سو رہ اسراء یا بنی اسرا ئیل کی ۳۴ ویں میں فر ما تا ہے ۔

(وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )(1)

اور یہ آیت  اس مو ضو ع کی اہمیت کو بیا ن کر سکتی ہے ۔قا بل تو جہ با ت یہ ہے کہ سو رہ انعا م میں اس مو ضوع کو صرا ط مستقیم کے عنا صر اور احکام کے عنوا ن سے ذکر کیا گیا ہے ۔اور سو رہ اسرا ء میں اس دلیل کے سا تھ کہ یہ حکمت الہی کے حکم کا جز ہے بیا ن کیا گیا ہے ۔جیسا کہ مندر جہ ذیل آیت میں ارشا د ہو تا ہے کہ

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۲

۵۶

(ذلِكَ مِمَّا أَوْحى‏ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَة )(1)

یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہا رے پر ور دگا ر نے تمہا ری طرف کی ہے۔

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر

        ایک انسا ن دنیا سے چل بسا اور کچھ یتیم بچو ں کو چھو ڑ گیا اور ایک با ایمان شخص کو اپنا وصی اور اپنے چھوٹے بچو ں کا محا فظ قرار دیا ۔اس زمانے کے ظا لم اور طا قتور حاکم نے ایک شخص کو وصی کے پا س بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ فلا ں شخص مر گیا ہے اور اتنی مقدار نقد چھو ڑ گیا ہے اس میں سے اتنی مقدا ر مجھ کوقرض دو  ۔وصی نے دو تھیلی پیسے اس یتیم بچے کے دا من میں رکھےاور اس کو حاکم کے پا س بھیج دیا ۔

اور حا کم کو ایک خط لکھا کہ پیسہ اس بچے کا ہے ۔خود اس سے لے لو اور قیامت کے دن خو د اس کو پلٹا  دینا۔اور اس کا مجھ سے  کو ئی تعلق نہیں ہے ۔حاکم نے جیسے ہی یہ خط پڑھا تو آئیہ شریفہ کا مضمو ن اس کی نظروں میں گھو م گیا کہ جس میں خدا ارشا د فر ما تا ہے ۔

(انَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً) (10)(2)

جو لوگ ظا لمانہ اندا ز سے یتیمو ں کا مال کھا جا تے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر ر ہے ہیں اور عنقریب وا صل جہنم ہو ں گے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۹

(2):- سورہ نساء، آیۃ ۱۰

۵۷

حا کم خدا وند عا لم کے عذاب سے خوفزدہ ہوا او ر گریہ کرنے لگا اور بچے سے پوچھا:کیا تم مکتب جا تے ہو؟ بچے نے جو اب دیا :ہا ں۔پو چھا کیا پڑھتے ہو ؟اس نے جو ا ب دیا :قر آن ۔

اس نے پو چھا ۔کیا قرآن حفظ کر تے ہو ؟اس نے جو اب دیا :ہا ں

اس نے کہا پڑھو ۔دیکھو ں کس طرح حفظ کیا ہے ؟بچے نےیہ آیت پڑھنا شرو ع کیا ۔

(اعوذ بالل من الشیطان الرجیم ، وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )

حا کم نے دو با رہ گر یہ کیا ااور کہا :میں خدا وند عا لم کے حکم کے خلا ف کوئی کام نہیں کرو ں گا ۔اور پھرتھیلیو ں کو ہا تھ  نہیں لگا یا ۔بلکہ ایک خلعت بچے کو اپنی طرف سے دیا اور ایک خلعت وصی کے لئے بھی دے کر اس کو وا پس کر دیا  ۔(1)

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج

        عظیم الشا ن محدثمر حو م دیلمی رضوا ن اللہ علیہ لکھتے ہیں :ایک سات سالہ بچہ حجا ج کے سا منے آیا اور کہا اے امیر :یہ با ت جا ن لو کہ میرا با پ اس وقت اس دنیا سے گذرگیا جب میں اپنی ما ں کے شکم میں تھا اور میری ماں بھی اس وقت دنیا سے گذر گئی جب میں شیر خوا ر تھا ۔          

اور دو سرے لو گ میرے امو ر کی کفا لت کر تے تھے ۔اور میرے باپ نے ایک باغ میرے لئے چھو ڑا کہ جو میرا معین و مددگا ر تھا اور میری زندگی کے لوا زما ت اسی سے پورے ہو تے تھے ۔لیکن فی الحا ل تمہا رے عمّال میں سے ایک نے اس کو غصب کر لیا ہے۔جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ہے تو وہ امیر کی شا ن وشو کت اور قدرت و منزلت سے کیا ڈرے گا ۔یہ تمہا ری ذمہ دا ری ہے کہ ظا لم کو منع کرو اور لو گو ں کے حقوق ان کو پلٹا دو تاکہ اس کا نتیجہ حا صل کرسکو ۔

--------------

(1):- عدد السنۃ،سبزواری ، ص ۱۲۴

۵۸

(يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَ بَيْنَهُ أَمَداً بَعيدا) (۳۰)(1)

اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اوربد اعمال کوبھی ۔کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا  ۔

حجاج نے حکم دیا کہ اسکا باغ اسکو پلٹا دیا جائے ۔اور یہ بھی حکم دیا کہ ادیبوں کو بھی اسکے گھر سے دور کر دو اسلئے کہ وہ ان سب سے بڑا ادیب ہے  ۔(2)

ہم کومتوجہ رہنا چاہئے کہ مورد بحث آیہ کریمہ اور اس سے مشابہ آیات مورد استثناء پر مشتمل ہیں ۔{إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ } یعنی یتیموں کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر اس طریقہ سے کہ جو بہترین طریقہ ہے اور اسکے مال کی حفاظت وسعت کا سبب ہو۔ البتہ وہ تصرف کہ جسکا نتیجہ یتیم کے مال کی حفاظت یا فائدہ ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات مطلوب اور پسندیدہ ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیئہ کریمہ دونوں مقام  یعنی محل بحث آیئہ کریمہ  اور اس سے مشابہ سورہ اسراء کی  آیئہ کریمہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔ کہ  یتیم کے مال کے نزدیک ہونے کی حرمت کے  معنی اسکے مال میں تصرف حاصل کرنا  ہے ۔ کہ جو اقتصادی امور کی تدبیر کی قدرت اور اپنے مال کی حفاظت اور اس سے فایدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔لیکن جس وقت وہ حد بلوغ تک پہونچ جائے اورتم کویہ  احساس ہو کہ اب وہ خوداپنے مال کی حفاظت اور اسکو صحیح جگہ پر تصرف اور فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا  ہے ۔تو اس وقت اسکے مال میں تصرف سے منع کیا گیا ہے ۔مگر یہ کہ وہ شرعی ضوابط کی بنیاد پر ہو ۔

--------------

(1):- سورہ آل عمران ،آیۃ ۳۰

(2):- ارشاد القلوب ،ص ۲۳۰

۵۹

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا

        ساتواں محل بحث موضوع ناپ تول میں عدل اور انصاف سے کام لیناہے ۔

        خریدار کواسکی چیز صحیح و سالم اور مکمل حوالہ کرنا خود ایک اہم موضوع  ہے ۔ کہ جو  عوام الناس کے اعتماد کوبحال کرتا ہے ۔اور معاشرہ کے مختلف افراد کو زندگی میں متحرک کر دیتا ہے ۔اور ایک راہ پر لگا دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود قوانین کی رعایت دولت کی عادلانہ تقسیم کا ایک  وسیلہ ہے  ۔  اور ان قوانین کی رعایت کرکے جھوٹی اور نا مشروع دولت غلط لوگوں کے پاس جمع نہیں ہو سکتی ۔ اور ہر ایک اپنا شرعی اور واقعی حق کو حاصل کر سکتا ہے ۔

اور انہیں کے مقابل میں جو شخص  اشیاء کے تولنے کا ذمہ دار ہو ۔لیکن اگر وہ امانت دار اور قابل اعتماد نہ ہو اور خریدار کے  حق میں کٹوتی  اور ناپ اور تول میں خیانت کرے  گا۔تومعاشرہ میں ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد کی روح ختم ہو جائیگی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی جگہ بدگمانی پیدا ہو جائے گی ۔اور اسی کے ساتھ معاشرہ میں دشمنی ، عداوت ،بغض و حسد اور کینہ  رائج ہو جائیگا  ۔

اور نتیجہ میں طرف مقابل کم تولنے  پر مجبور ہوگا کہ جسکی وجہ سے معاشرہ میں ایک دوسرے کے تئیں خیانت کا دروازہ کھل جائیگا۔اور پھر یہی چیز رواج پیدا کر لے گی ۔اور صحیح و سالم اجتماعی روابط باقی نہیں رہیں گے  بلکہ نظام اجتماعی درہم برہم ہو جائیگا  ۔اور ایک بدگمان اور خیانت کار معاشرہ کی داغ بیل پڑ جائیگی  اسطرح کہ لوگوں کے اجتماعی اور اخلاقی حقوق ضایع ہونے لگے گیں ۔

اور خریدارنے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل اسے جنس نہیں ملسکے گی۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں حق کشی اور ایک دوسرے کےحق کو ضایع کرنا بھی مکمل طور پر رائج ہو جائیگا  اور پھر غلط اور نا جائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھل جائیگا ۔ اور ایک سالم اور الہی معاشرہ کی جگہ مادی اور شیطانی معاشرہ وجود میں آجائیگا۔اس سلسلے میں ہم کو خدا سے پناہ ماگنا چاہئے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

“تم الله سے اپنے پورے دلوں کے ساته دو ستی کرو ” اور حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے مروی دعا ميں آیا ہے:اللهم انّي اسالک ان تملاقلبي حبّالک وخشية منک،وتصدیقالک وایمانابک وفرقاًمنک وشوقااليک ( ١)

“بار الٰہا ميں تجه سے سوال کرتا ہوں کہ تو ميرے دل کو اپنی محبت ،خوف ،تصدیق ایمان اور اپنے شوق سے لبریز فر ما دے ” اگر الله سے محبت اور اس سے شوق ملاقات سے بندہ کا دل لبریز ہوجائے تو پھر اس ميں الله سے محبت کے علا وہ کسی دوسرے سے محبت کی کو ئی خالی جگہ ہی باقی نہيں رہ جاتی مگر یہ کہ محبت اس خدا کی محبت کے طول ميں اور اسی کی محبت کے نتيجہ پرکہ محبت بهی درحقيقت الله کی محبت ہے اور اسی شوق کا نتيجہ ہے۔

ماہ رمضان کے آجانے پر حضرت امام صادق عليہ السلام کی دعاکا ایک حصہ یہ ہے :

صلّ عل یٰ مُحَمَّدٍوَآل مُحَمَّدٍوَاشغَْل قَلبِْی بِعَظِيمِْ شَانِکَ،وَاَرسَْلَ مُحَبَّتَکَ اِلَيهِْ حَتّ یٰ اَلقَْاکَ وَاَودَْاجِي تَشخَْبُ دَماً ( ٢)

“خدایا! محمد وآل محمد پر درود بهيج اپنی شان کی عظمت کے صدقہ ميں ميرے دل کو اپنی یاد ميں مصروف رکه ميرے دل ميں اپنی محبت ڈال دے تاکہ ميں تجه سے خون ميں غلطاں حالت ميں ملاقات کروں ” اس کا مطلب خداوند عالم کيلئے خالص محبت کرنا ہے چونکہ خدا کی محبت دل کو مصروف کرنے

والا کام ہے اور اس سے جدا نہ ہو نے والا امر ہے ۔

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٨ صفحہ/ ٨٩ ۔ )

٢)بحا ر الانوار جلد ٩٧ صفحہ ٣٣۴ ۔ )

۱۶۱

بندہ سے متعلق خداوند عالم کی حميت

بيشک الله اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور محبت کی ایک خصوصيت غيرت ہے وہ غيور بندوں کے دلوں ميں ہوتی ہے بندے الله سے خالص محبت کریں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے سے محبت نہ کریں اور بندوں کو اپنے دل ميں دوسروں کی محبت داخل کرنے کی اجازت نہيں ہے ۔ روایت ميں آیا ہے کہ موسیٰ بن عمران عليہ السلام نے اپنے رب سے وادی مقدس ميں مناجات کرتے ہوئے عرض کيا اے پروردگار :اني اخلصت لک المحبّة منيّ وغسلت قلبي ممّن سواک (ا)

“ميں صرف تيرا مخلص ہوں اور تيرے علاوہ کسی اور سے محبت نہيں کرتا”اور مجھے اپنے اہل وعيال سے شدید محبت ہے خداوندعالم نے فرمایا ۔اگر تم مجه سے خالص محبت کرتے ہوتو اپنے اہل وعيال کی محبت اپنے دل سے الگ کردو ” الله کی اپنے بندے پر یہ مہربانی ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے غيرکی محبت کو زائل کر دیتا ہے اور جب خداوند عالم اپنے بندے کو اپنے علاوہ کسی اور سے محبت کرتے ہوئے پاتاہے تو اس کی محبت کو بندے سے سلب کردیتا ہے یہاں تک کہ بندہ کا دل اس کی محبت کےلئے خالص ہوجاتاہے اور حضرت امام حسين عليہ السلام سے مروی دعا ميں آیاہے :

انت الذي ازلت الاغيارعن قلوب احبّّائک حتیٰ لم یحبّواسواک ماذا وجد مَن فقدک وماالذی فقد مَن وجدک لقدخاب من رضي دونک بدلا(٢ ) “تونے اپنے محبوں کے دلوں سے غيروں کی محبت کو اس حد تک دور کردیا کہ وہ تيرے علاوہ

____________________

١)بحارالانوار جلد ٨٣ صفحہ ٢٣۶ ۔ )

٢)بحارا لانوارجلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )

۱۶۲

کسی سے محبت ہی نہيں کرتے ۔جس نے تجهے کهو دیا اس نے کيا پایا ؟اور جس نے تجهے پاليا اس نے کيا کهویا ؟جو شخص تيرے علاوہ کسی اور سے راضی ہوا وہ نا مراد رہا ”

ہمارے لئے اس سلسلہ ميں اس تربيت کرنے والی خاتون کا واقعہ نقل کرنابہتر ہے جس کو شيخ حسن البنانے اپنی کتاب “مذاکرات الدعوة والداعية ”ميں نقل کيا ہے۔ حسن البنّاکہتے ہيں :شيخ سلبی (مصرکے علم عرفان اور اخلاق کی بڑی شخصيت)کو خداوندعالم نے ان کی آخری عمرميں ایک بيڻی عطاکی شيخ اس سے بہت زیادہ محبت کر تے تھے یہاں تک کہ آپ اس سے جدا نہيں ہوتے تھے وہ جوں جوں جوان اور بڑی ہو رہی تهی شيخ کی اس سے محبت ميں اضافہ ہوتا جا رہا تھا شيخ بنّا نے اپنے کچه ساتهيوں کے ہمراہ ایک شب پيغمبر اکرم کی شب ولا دت شيخ شلبی کے گهر کے نزدیک ایک خوشی کی محفل سے لوڻنے کے بعد شيخ شلبی سے ملا قات کی جب وہ چلنے لگے تو شيخ نے مسکرا کر کہا :انشاء الله کل تم مجه سے اس حال ميں ملاقات کروگے کہ جب ہم روحيہ کو دفن کرینگے ۔ روحيہ ان کی وہی اکلو تی بيڻی تهی جو شادی کے گيارہ سال بعد خداوند عالم نے ان کو عطا کی تهی اور جس سے آپ کام کرتے وقت بهی جدا نہيں ہوتے تھے اب وہ جوان ہو چکی تهی اس کا نام روحيہ اس لئے رکها تھا کيونکہ وہ ان کےلئے روح کی طرح تهی ۔

بنّا کہتے ہيں کہ : ہم نے اُن سے رو تے ہوئے سوال کيا کہ اس کا انتقال کب ہوا ؟شيخ نے شلبی نے کہا آج مغرب سے کچه دیر پہلے ۔ہم نے عرض کيا :تو آپ نے ہم کو کيوں نہيں بتایا تا کہ ہم دو سرے گهر سے تشيع کی جماعت کے ساته نکلتے ۔؟شيخ نے کہا : کيا ہوا ؟ہمارا رنج و غم کم ہو گيا غم خو شی ميں بدل گيا ۔کيا تم کو اس سے بڑی نعمت چا ہئے تهی ؟

گفتگو شيخ کے صوفيانہ درس ميں تبدیل ہو گئی اور وہ اپنی بيڻی کی وفات کی وجہ یہ بيان کرنے لگے کہ خداوند عالم ان کے دل پر غيرت سے کام لينا چاہتا تھا کيونکہ خداوند عالم کو اپنے نيک بندوں کے دلوں کے سلسلہ ميں اسی بات سے غيرت آتی ہے کہ وہ کسی دو سرے سے وابستہ ہوں یا کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہوں ۔انهوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کی مثال پيش کی جن کا دل اسماعيل عليہ السلام ميں لگ گيا تھا تو خداوند عالم نے ان کو اسما عيل کو ذبح کرنے کا حکم دیدیا اور حضرت یعقوب عليہ السلام جن کا دل حضرت یوسف عليہ السلام ميں لگ گيا تھا تو خداوند عالم نے حضرت یوسف کو کئی سال تک دور رکها اس لئے انسان کے دل کو خداوند عالم کے علاوہ کسی اور سے وابستہ نہيں ہو نا چا ہئے ورنہ وہ محبت کے دعوے ميں جهوڻا ہوگا ۔

۱۶۳

پهر انهوں نے فضيل بن عياض کا قصہ چهيڑا جب انهوں نے اپنی بيڻی کے ہاته کا بوسہ ليا تو بيڻی نے کہا بابا کيا آپ مجھے بہت زیادہ دوست رکهتے ہيں ؟تو فضيل نے کہا : ہاں ۔بيڻی نے کہا : خدا کی قسم ميں آج سے پہلے آپ کو جهوڻا نہيں سمجهتی تهی ۔فضيل نے کہا :کيسے اور ميں نے کيوں جهوٹ بولا؟بيڻی نے کہا کہ : ميں سوچتی تهی کہ آپ خداوند عالم کے ساته اپنی اس حالت کی بنا پر خدا کے ساته کسی کو دو ست نہيں رکهتے ہوں گے ۔تو فضيل نے رو کر کہا کہ :اے ميرے مو لا اور آقا چهوڻے بچوں نے بهی تيرے بندے کی ریا کاری کوظاہر کردیا ۔ایسی باتوں کے ذریعہ شيخ شلبی ہم سے روحيہ کے غم کو دور کرنا چا ہتے تھے اور اس کی مصيبت کے دردو الم سے ہو نے والے غم کوہم سے برطرف کرنا چا ہتے تھے ہم نے ان کو خدا حافظ کہا اور اگلے دن صبح کے وقت روحيہ کو دفن کردیا گيا ہم نے گریہ و زاری کی کو ئی آواز نہ سنی بلکہ صرف صبر و تسليم و رضا کے مناظرکا مشا ہدہ کيا ۔

۱۶۴

الله کےلئے اور الله کے بارے ميں محبت

اب ہم مندرجہ ذیل سوال کا جواب بيان کریں گے الله کےلئے خالص محبت کے یہ معنی فطرت انسان کے خلاف ہيں چونکہ اللهنے انسان کو متعدد چيزوں سے محبت اور متعدد چيزوں سے کراہت کرنے والی فطرت د ے کرخلق کيا ہے اوراس معنی ميں الله سے خالص محبت کرنے کا مطلب یہ ہے انسان کی اس فطرت کے خلاف محافظت کرے جس فطرت پر اللهنے اس کو خلق کيا ہے ؟

جواب :الله سے خالص محبت کرنے کا مقصد انسانی فطرت کا انکار کر نا نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چيزوں سے اللهمحبت کرتاہے اور جن چيزوں کو ناپسند کرتاہے ان کی محبت اور کراہت کی توجيہ کرنا ہے لہٰذا پر وردگار عالم اپنے بندے اور کليم حضرت موسیٰ بن عمران سے ان کے اہل کی محبت ان کے دل سے نکلوانا نہيںچاہتا ہے بلکہ خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ ان کے اہل وعيال کی محبت خداوندعالم کی محبت کے زیرسایہ ہو اور ہر محبت کےلئے بندے کے دل ميں وہی ایک منبع ومصدر ہونا چاہئے دوسرے لفظو ں ميں :بيشک پر وردگار عالم اپنے بندے اور کليم موسیٰ بن عمران سے یہ چاہتا ہے کہ ہر محبت کو الله کی محبت کے منبع اور مصدرسے مر بوط ہونا چاہئے اس وقت بندے کی اپنے اہل وعيال سے محبت تعظيم کےلئے ہوگی یہی اس کا دقيق مطلب ہے اور تربيت کا بہترین اور عمدہ طریقہ ہے اور اسی طریقہ تک صرف اسی کی رسائی ہو سکتی ہے جس کو اللهنے اپنی محبت کےلئے مخصوص کرليا ہے اور اس کو منتخب کرليا ہے بيشک رسول الله (ص)لوگوں ميں سب سے زیادہ پاک وپاکيزہ اور طيب وطاہرتھے آپ کا فرمان ہے ميں دنيا کی تين چيزوں سے محبت کرتاہوں :عورت خوشبو اور ميری آنکهوں کی ڻھنڈ ک (نمازہے ۔( ١)

بيشک یہ وہ محبت ہے جو الله کی محبت کے زیرسایہ جاری رہتی ہے اور ان تينوں ميں رسول خدا سب سے زیادہ نمازسے محبت کر تے تھے اس لئے کہ نمازان کی آنکهوں کی ڻھنڈک ہے بيشک نماز سے رسول الله (ص)کی محبت الله کی محبت کے زیرسایہ جاری تهی ۔پس الله سے محبت کرنے ميں انسان کی فطرت ميں کوئی خلل واقع نہيں ہوتا ہے جس فطرت پر الله نے انسان کو خلق کياہے ۔بلکہ جدید معيار و ملاک کے ذریعہ حيات انسانی ميں محبت اور عداوت کے نقشہ کو اسی نظام کے تحت کرنا ہے جس کو اسلام نے بيان کيا ہے ۔

انسان کی فطری محبت خود اسکے مقام پر باقی ہے ليکن جدید طریقہ کی وجہ سے الله کی تعظيم وتکریم کرنا ہے ۔

____________________

١)الخصال صفحہ / ١۶۵ ۔ )

۱۶۵

اس بنياد پر الله کےلئے محبت اور الله کے سلسلہ ميں محبت کی قيمت کےلئے اسلامی روایات ميں بہت زیادہ زور دیا گيا ہے۔

حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام سے مروی ہے :المحبّةللهاقرب نسب ( ١)

“خدا سے محبت سب سے نزدیکی رشتہ داری ہے ”

اور حضرت علی عليہ السلام کا ہی فرمان ہے :المحبّةفي الله آکد من وشيج الرحم ( ٢)

“خدا سے محبت خو نی رشتہ داری سے بهی زیادہ مضبوط ہے ”

یہ تعبير بہت دقيق ہے اور ایک اہم فکر کی طلبگار ہے ۔بيشک لوگوں کے اپنی زندگی ميں بہت گہری رشتہ داری اور تعلقات ہوتے ہيں ۔ان تمام تعلقات ميں رشتہ داری کے تعلقات بہت زیادہ معتبر ہيں ،اور الله تعالی کی محبت کی رشتہ داروں کی محبت سے زیادہ محبت کی تاکيد کی گئی ہے جب انسان اپنی محبت اور تعلقات رشتہ داری کے ذریعہ قائم کرلے۔اسی محبت سے اور عداوت کی وجہ سے رشتہ داری کا مل اور ناقص ہوگی۔

رشتہ داروں کی محبت پر اس لئے زیادہ زور دیا گيا ہے کہ جب الله کے علاوہ کسی اور سے محبت ہوگی تو اس محبت ميں تغير وتبدل ہوگا اور خلل واقع ہوگا ۔

اسی وجہ سے بعض لوگوں کے تاثرات دوسرے بعض لوگوں سے مختلف ہوتے ہيں ليکن جب انسان اپنے بهائی سے الله کےلئے محبت کرے گا تو وہ بہت زیادہ قوی محبت ہوگی اور یہ محبت مختلف اور ایک دوسرے کےلئے متضاد محبت سے کہيں زیادہ موثر ہوگی ۔

____________________

١)ميزان الحکمة جلد ٢ص ٢٢٣ ۔ )

٢)ميزان الحکمةجلد ٢صفحہ/ ٢٣٣ ۔ )

۱۶۶

الله کےلئے خالص محبت صرف انسان کے فطری تعلقات کی نفی نہيں کرتی بلکہ انسان پر اس بات پر زور دیتی ہے اور اس کے ذہن ميں یہ بات راسخ کرتی ہے کہ اس محبت کو ایک بڑے منبع کے تحت منظم کرے جس کو ہر صدیق اور ولی خدانے منظم و مرتب کيا ہے ۔ پس الله کے نزدیک لوگوں ميں وہ شخص زیادہ افضل ہوگا جو اپنے بهائی سے الله کی محبت کے زیر سایہ محبت کرے ۔حضرت امام

جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

ماالتقی مومنان قط الاکان افضلهمااشدّهماحبّالاخيه (١) “مو من جب بهی آپس ميں مليں گے تو ان ميں وہ افضل ہو گا جو اپنے بهائی سے بہت زیادہ محبت کرتا ہو ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کا ہی فرمان ہے :انّ المتحابين فی اللّٰه یوم القيامة علی منابرمن نور،قد اضاء نوراجسادهم ونورمنابرهم کلّ شیٴ حتی یُعرفوابه،فيُقال:هولاء المتحابّون فِيْ اللّٰه ( ٢)

“الله کی محبت ميں فنا ہوجانے والے قيامت کے دن نور کے منبروں پر ہو ں گے ان کے اجساد اور ان کے منبروں کے نور کی روشنی سے ہر چيزروشن ہو گی یہاں تک کہ ان کا تعارف بهی اسی نور کے ذریعہ ہوگا ۔پس کہا جائيگا :یہ لوگ الله کی محبت ميں فناء فی الله ہوگئے ہيں ”

روایت کی گئی ہے کہ پروردگار عالم نے موسیٰ بن عمران عليہ السلام سے کہا :

هل عملت لي عملاً ؟قال:صلّيت لک وصمت،وتصدّقت وذکرت لک،فقال اللّٰه تبارک وتعالیٰ:امّا الصلاة فلک برهان،والصوم جُنّة،والصدقة قدظلّ،والذکرنور،فاي عمل عملت لی؟قال موسیٰ:دلّنی علی العمل الذي هو

____________________

١)بحار الانوار جلد ٧۴ ص ٣٩٨ )

٢)بحار الانوار جلد ٧۴ ص ٣٩٩ ۔ )

۱۶۷

لک قال:یاموسیٰ،هل واليت لي وليّاوهل عادیت لي عدوّاًقطّ؟فعلم موسیٰ انّ افضل الاعمال الحبّ فی اللّٰه والبغض في اللّٰه ( ١)

“کيا تم نے ميرے لئے کوئی عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ عليہ السلام نے عرض کيا :

ميںنے تيرے لئے نماز پڑهی ہے، روزہ رکهاہے ،صدقہ دیاہے اور تجه کو یاد کيا ہے پروردگار عالم نے فرمایا :نماز تمہارے لئے دليل ہے ،روزہ سپر ہے صدقہ سایہ اور ذکر نور ہے پس تم نے ميرے لئے کونسا عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ نے عرض کيا :ہر وہ چيز جس پر عمل کا اطلاق ہوتا ہے وہ تيرے لئے ہے خداوندعالم نے فرمایا :کيا تم نے کسی کو ميرے لئے ولی بنایااور کيا تم نے کسی کو ميرا دشمن بنایا ہرگز؟تو موسیٰ کو یہ معلوم ہوگيا کہ سب سے افضل عمل الله کی محبت اور بغض ميں فنا ہوجانا ہے”

حدیث بہت دقيق ہے نماز کےلئے امکان ہے کہ انسان اسکو الله کی محبت کے عنوان سے پيش کرے یا ممکن ہے نماز کو اپنے لئے جنت ميں دليل کے عنوان سے پيش کرے ۔روزہ کو ممکن ہے انسان الله کی محبت کےلئے مقدم کرے اور ممکن ہے اسکو اپنے لئے جہنم کی آگ سے سپر قرار دے ليکن اولياء الله کی محبت اور الله کے دشمنوں سے برائت الله کی محبت کے بغير نہيں ہوسکتی ہے ۔

محبت کا پہلا سر چشمہ

ہم الله کی محبت کےلئے کہاں سے سيراب ہوں؟ہماری اس بحث ميں یہ سوال بہت اہم ہے ۔ جب ہم الله کی محبت کی قيمت سے متعارف ہوگئے تو ہمارے لئے اس چيز سے متعارف ہونا بهی ضروری ہے کہ ہم اس محبت کو کہاں سے اخذ کریں اور اسکا سرچشمہ و منبع کيا ہے ؟

اس سوال کا مجمل جواب یہ ہے کہ اس محبت کا سرچشمہ ابتدا وانتہاء الله تبارک وتعالیٰ ہے۔ اس مجمل جواب کی تفصيل بيان کرنا ضروری ہے اور تفصيل یہ ہے :

____________________

١) بحارالانوار جلد ۶٩ ص ٢۵٣ ۔ )

۱۶۸

ا۔الله اپنے بندوں کو دوست رکهتا ہے

بيشک الله اپنے بندوں کو دوست رکهتا ہے ،ان کو رزق دیتا ہے ،ان کو کپڑا پہناتا ہے ، ان کو بے انتہا مال ودولت عطا کرتا ہے ،ان کو معاف کرتا ہے ،ان کی توبہ قبول کرتا ہے ،ان کو سيدها راستہ دکهاتا ہے ،ان کو توفيق عطا کرتا ہے ،ان کو اپنے صراط مستقيم کی طرف ہدایت کرتا ہے ،ان کو اپنی رعایاکا ولی بنا تا ہے اور ان پر فضيلت دیتا ہے ،ان سے برائی اور شر کو دور کرتا ہے یہ سب محبت کی نشانياں ہيں۔

٢۔ان کو اپنی محبت والفت عطا کرتا ہے

الله کی بندوں کےلئے یہ محبت ہے کہ وہ ان (بندوں)سے محبت کرتا ہے اور ان کو اپنی محبت کا رزق عطا کرتا ہے ۔محبت کا یہ حکم بڑا عجيب و غریب ہے بيشک محبت کا دینے والا وہ خداہے جو اپنے بندوں سے محبت سے ملاقات کرتا ہے ان کو جذبہ عطا کرتا ہے پھر اس جذبہ کے ذریعہ ان کو مجذوب کرتا ہے ۔ ہم یہ مشاہدہ کرچکے ہيں کہ ماثورہ روایات اور دعاؤں ميں اس مطلب کی طرف متعدد مرتبہ ارشارہ کياگياہے حضرت امام زین العابدین عليہ السلام بارہوےں مناجات ميں فرماتے ہيں :

اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْا رُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِي حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم “خدا یا !ہميں ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز وگدازنے جن کے دلوں پرقبضہ کر ليا ہے ”

ہم اس دعا کی پہلے شرح بيان کرچکے ہيں ۔

چودهویں مناجات ميں آیا ہے :اَسالُکَ اَن تَجعَْلَ عَلَينَْاوَاقِيَةًتُنجِْينَْا مِنَ الهَْلَ اٰ کتِ،وَتُجَنِّبُنَامِنَ الآْ اٰفتِ،وَ تُکِنُّنَامِن دَواهِي المُْصي اٰبتِ،وَاَن تُنزِْلَ عَلَي اْٰنمِن سَکينَتِکَ،وَاَن تُغَشِّيَ وُجُوهَ اٰنبِاَن اْٰورِمَحَبَّتِکَ،وَاَن تُووِیَ اٰناِ لٰ ی شَدیدِرُکنِْکَ،وَاَن تَحوِْیَ اٰنفَي اَک اْٰنفِ عِصمَْتِکَ،بِرَافَتِکَ وَرَحمَْتِکَ اٰیاَرحَْمَ الراٰحِّمينَْ

۱۶۹

“ ہمارے لئے وہ تحفظ قراردےدے جو ہميں ہلاکتوں سے بچا لے اور آفتوں سے محفوظ کرکے مصيبتوں سے اپنی پناہ ميںرکهے ۔ ہم پر اپنا سکون نازل کردے اور ہمارے چہر وںپر اپنی محبت کی تابانيوں کا غلبہ کردے۔ ہم کو اپنے مستحکم رکن کی پناہ ميں لے لے اور ہم کو اپنی مہربانيوںکی عصمت کے زیرسایہ محفوظ بنادے” پندرهویں مناجات (زاہدین )ميں آیا ہے :

اِ هٰلِي فَزَهِّد اْٰنفي هٰاوَسَلِّم اْٰنفي هٰا،وَ سَلِّم اْٰنمِن هْٰابِتَوفْيقِکَ وَ عِصمَْتِکَ،وَانْزَع عَناٰجَّ لاٰبيبَ مُ خٰالَفَتِکَ،وَتَولَّ اُمُورَ اٰن بِحُسنِْ کِ اٰ فیَتِکَ،وَاَجمِْل صِ اٰلتِ اٰنمِن فَيضِْ مَ اٰوهِبِکَ،وَاَغرِْسفِْي اَفئِْدَتِ اٰناَش جْٰارَمَحَبَّتِکَ وَاَتمِْم لَ اٰناَن اْٰورَمَعرِْفَتِکَ،وَاَذِق اْٰنحَ اٰلوَةَعَفوِْکَ وَلَذَّةَمَغفِْرَتِکَ،وَاَقرِْراَْعيُْنَ اٰنیَومَْ لِ اٰ قئِکَ بِرُویَتِکَ،وَاَخرِْج حُبَّ الدُّن اْٰيمِن قُلوُبِ اٰنکَ مٰافَعَلتَْ بِالصاٰلِّحينَ مِن صَفوَْتِکَ،وَالاَْب اْٰررِمِن خٰاصَّتِکَ بِرَحمَْتِکَ اٰیاَرحَْمَ الراٰحِّمينَ

“خدا یا ہم کو اس دنياميں زہد عطا فرما اور اس کے شرسے محفوظ فرما اپنی توفيق اور عصمت کے ذریعہ ہم سے اپنی مخالفت کے لباس اتر وادے اور ہمارے امور کا تو ہی ذمہ دار بن کر ان کی بہترین کفایت فرمااپنی وسيع رحمت سے مزید عطافرمااور اپنے بہترین عطایا سے ہمارے ساته اچهے اچهے برتاو کرنا اور ہمارے دلوں ميں اشجار محبت بڻها دے اور ہمارے لئے انوار معرفت کو مکمل کردے اور ہميں اپنی معافی کی حلاوت عطا فرمااور ہميں مغفرت کی لذت سے آشنابنا دے ہماری آنکهوں کوروز قيامت اپنے دیدار سے ڻھنڈاکر دےنا اور ہمارے دلوں سے دنيا کی محبت نکال دےنا جيسے تونے اپنے نيک اور منتخب اورتمام مخلوقات ميں نيک کردار لوگوں کے ساته سلوک کيا ہے اور اپنی رحمت کے سہارے اے ارحم الراحمين ” آخر ميں ہم اس مطلب کی تکميل کےلئے سيد ابن طاوؤس کی نقل کی ہوئی روز عرفہ پڑهی جانے والی امام حسين عليہ السلام کی دعا نقل کررہے ہيں :

۱۷۰

کيف یستدل عليک بماهو فی وجوده مفتقر اليک اَیَکُوْنُ لِغَيْرِکَ مِنَ الظُّهُورِْمَالَيسَْ لَکَ حَتی یَکُونَْ هُوَالمُْظهِْرَلَکَ مَت یٰ غِبتَْ حَتّ یٰ تَحتَْاجَ اِل یٰ دَلِيلٍْ یَدُلُّ عَلَيکَْ وَمَت یٰ بَعُدَت حَتی تَکُونَْ الآثَارُهِیٍ الَّتِی تُوصِْلُ اِلَيکَْ عَمِيَت عَينٌْ لَاتَرَاکَ عَلَيهَْارَقِيبْاًوَخَسِرَت صَفقَْتُهُ عَبدٍْ لَم تَجعَْل لَّهُ مِن حُبِّکَ نَصِيبْا فَاهدِْنِی بِنُورِْکَ اِلَيکَْ،وَاَقِمنِْی بِصِدقِْ العُْبُودِْیَّةِ بَينَْ یَدَیکَْ وَصُنَّی بِسِترِْکَ المَْصُونِْ وَاسلُْک بِی مَسلَْکَ اَهلَْ الجَْذبِْ،اِ هٰلِی اَغنِْنِی بِتَدبِْيرِْکَ لِی عَن تَدبِْيرِْی،ْوَبِاِختِْيَارِکَ عَن اِختِْيَارِی وَاَوقِْفنِْی عَن مَرَاکِزِ اِضطِْرَارِی انتَْ الَّذِی اَشرَْقَتَ الاَْنوَْارَ فِی قُلُوبِْ اولِْيَائِکَ حَتیّٰ عَرَفُوکَْ وَوَحَّدُوکَْ وَاَنتَْ الَّذِی ازَلتَْ الاَْغيَْارَعَن قُلُوبِْ اَحِبَّائِکَ حَتّ یٰ لَم یُحِبُّواسِوَاکَ وَلَم یَلجَْوااِل یٰ غَيرِْکَ اَنتَْ المُْونِْسُ لَهُم حَيثُْ اَوحَْشتَْهُمُ العَْوَالِمُ وَاَنتَْ الَّذِی هَدَیتَْهُم حَيثُْ اِستِْبَانَت لَهُمُ المَْعَالِمُ مَاذَاوَجَدَمَن فَقَدَکَ ؟وَمَاالَّذِی فَقَدَ مَن وَجَدَک ؟لَقَد خَابَ مَن رَضِیَ دُونَْکَ بَدَلاً،وَلَقَدخَْسِرَمَن بَغ یٰ عَنکَْ مُتَحَوِّلاً کَيفَْ یُرجْ یٰ سِوَاکَ وَاَنتَْ مَاقَطَعتَْ الاِْحسَْانَ؟وَکَيفَْ یُطلَْبُ مِن غَيرِْکَ وَاَنتَْ مَابَدَّلتَْ عَادَةَ الاِْمتِْنَانِ ؟یَامَن اَذَاقَ اَحِبَّائَهُ حَلَاوَةَ المُْوَانَسَةَ فَقَامُواْبَينَْ یَدَیهِْ مُتَمَلِّقِينَْ وَیَامَن اَلبَْسَ اَولِْيَائَهُ مَلَبَسَ هَيبَْتِهِ فَقَامُواْبَينَْ یَدَیهِْ مُستَْغفِْرِینَْ اِ هٰلِی اَطلُْبنِْی بِرَحمَْتِکَ حَتّ یٰ اَصِلَ اِلَيکَْ،وَاجذُْبنِْی بِمَنِّکَ حَتّ یٰ اَقبَْلَ عَلَيکَْ (١)

____________________

١)بحارالانوار ج ٩٨ ص ٢٢۶ ۔ )

۱۷۱

“ميں ان چيز وںکو کس طرح راہنمابناوںجو خود ہی اپنے جود ميںتيری محتاج ہيں کيا تيرے کسی شی کوتجه سے بهی زیادہ ظہورحاصل ہے کہ وہ دليل بن کر تجه کو ظاہر کرسکے تو کب ہم سے غائب رہا ہے کہ تيرے لے کسی دليل اور راہنمائی کی ضرورت ہو ،اور کب ہم سے دور رہا ہے کہ آثار تيری بارگاہ تک پہنچا نے کا ذریعہ بنيں وہ آنکهيں اندهی ہيں جو تجهے اپنا نگراں نہيںسمجه رہی ہيں اور وہ بندہ اپنے معاملات حيات ميں سخت خسارہ ميں ہے جسے تيری محبت کاکوئی حصہ نہيں ملا ۔۔۔تو اپنی طرف اپنے نور سے ميری ہدایت فرما، اور مجه کو اپنی سچی بندگی کے ساته اپنی بارگاہ ميںحاضری کی سعادت کرامت فرما ۔۔۔اور اپنے محفوظ پردوں سے ميری حفاظت فرما ۔۔۔اور جذب و کشش رکهنے والوں کے مسلک پر چلنے کی توفيق عطا فرما اپنی تدبير کے ذریعہ مجھے ميری تدبير سے بے نياز کردے اوراپنے اختيار کے ذریعہ ميرے اختيار اورانتخاب سے مستغنی بنا دے

اوراضطرارواضطراب کے مواقع کی اطلاع اورآگاہی عطافرما۔۔۔تو ہی وہ ہے جس نے اپنے دوستوں کے دلوں ميں انوارالوہيت کی روشنی پيدا کر دی تووہ تجهے پہچان گئے اور تيری وحدانيت کا اقرار کرنے لگے اور توہی وہ ہے جس نے اپنے محبوں کے دلوں سے اغيار کو نکال کرباہرکردیا تواب تيرے علا وہ کسی کے چاہنے والے نہيں ہيں، اور کسی کی پناہ نہيں مانگتے تو نے اس وقت ان کا سمان فراہم کياجب سارے عالم سبب وحشت بنے ہو ئے تھے اور تو نے ان کی اس طرح ہدایت کی کہ سارے راستے روشن ہو گئے پروردگارجس نے تجه کو کهو دیا اس نے کياپایا؟اور جس نے تجه کو پاليا اس نے کيا کهویا؟جو تيرے بدل پر راضی ہوگياوہ نا مراد ہوگيا،اور جس نے تجه سے رو گردانی کی وہ گهاڻے ميں رہا ،تيرے علاوہ غيرسے اميد کيوں کی جائے جبکہ تونے احسان کاسلسلہ روکانہيں اور تيرے علاوہ دوسرے سے مانگا ہی کيوں جا ئے جبکہ تيرے فضل و کرم کی عادت ميں فرق نہيں ایا ہے وہ پرور دگارجس نے اپنے دو ستوں کو انس و محبت کی حلاوت کا مزہ چکها دیاہے تو اس کی بارگاہ ميں ہاته پهيلائے کهڑے ہوئے ہيں اور اپنے اولياء کو ہيبت کا لباس پہنا دیاہے تو اس کے سامنے استغفار کرنے کے لئے استادہ ہيں۔۔۔ميرے معبود مجه کو اپنی رحمت سے طلب کر لے تا کہ ميں تيری بارگاہ تک پہونچ جا ؤں اور مجھے اپنے احسان کے سہارے اپنی طرف کهينچ لے تا کہ ميں تيری طرف متوجہ ہوجاؤں ”

۱۷۲

٣۔بندوں سے خداوندعالم کا اظہاردوستی

خداوندعالم اپنے بندوں سے دوستی کا اظہار کرتا ہے اور بندوں کو اپنی ذات سے محبت کرانے کےلئے نعمتوں سے مالامال کردیتا ہے بيشک پروردگار عالم دلوں پر نعمت اس لئے نازل کرتاہے کہ خداوندعالم نے جن پر نعمت نازل کی ہے وہ الله کو دوست رکهيں ۔

حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے دعائے سحر ميں آیا ہے :تَتَحَبَّبُ اِلَينَْابِالنِّعَمِ وَنُعَارِضُکَ بِالذُّنُوبِْ خَيرُْکَ اِلَينَْانَازِلٌ وَشَرُنَا اِلَيکَْ صَاعِدٌ وَلَم یَزَل وَلَایَزَالُ مَلَکٌ کَرِیمٌْ یَاتِْيکَْ عَنَّابِعَمَلٍ قَبِيحٍْ فَلَا یَمنَْعُکَ لٰذِکَ مِن اَن تَحُوطَْنَابِرَحمَْتِکَ وَتَتَفَضَّل عَلَينَْابِآلَائِکَ فَسُبحَْانَکَ مَااَحلَْمَکَ وَاَعظَْمَکَ وَاَکرَْمَکَ مُبدِْئاًوَمُعِيدْ اً (١)

“تو نعمتيں دے کرہم سے محبت کرتا ہے اور ہم گناہ کر کے اس کا مقابلہ کرتے ہيں تيراخيربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تيری طرف جارہا ہے فرشتہ برابر تيری بارگاہ ميں ہماری بد اعماليوں کادفتر لے کر حاضر ہوتاہے ليکن اس کے باوجود تيری نعمتوں ميںکمی نہيں اتی اورتو برابر فضل و کرم کر رہاہے تو پاک پاکيزہ ہے تو تجه جيسا حليم عظيم اور کریم کون ہے ابتدا اور انتہا ميں تيرے نام پاکيزہ ہيں ”

الله کا اپنے بندے پر نعمت فضل ،بهلائی عفواور ستر (عيب پوشی)نازل کرنے اور بندہ کی طرف سے الله کی طرف سے جوبرائی اور شر صعود کرتا ہے ان دونوںکے درميان مقائسہ سے اس بات

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٨۵ ۔ )

۱۷۳

کا پتہ چلتا ہے کہ بندہ اپنے مولا سے شرمندہ ہے ،وہ الله کی طرف سے اس محبت اور دوستی کا روگردانی اور دشمنی کے ذریعہ جواب دیتا ہے ۔ انسان کتنا شقی اور بدبخت ہے کہ الله کی محبت اوردوستی کا جواب ردگردانی اور دشمنی سے دیتا ہے ۔

امام زمانہ حضرت حجة عليہ السلام کے دعاء افتتاح ميں ان کلمات کے سلسلہ ميں غوروفکر کریں

اِنَّکَ تَدعُْونِْی فَاوَلِّي عَنکَْ وَتَتَحَبَّبُ اِلَيَّ فَاَتَبَغَّضُ اِلَيکَْ،وَتَتَوَدَّدُاِلَيَّ فَلاَاَقبَْلُ مِنکَْ،کَانَّ لِیَ التَّطَوُّلَ عَلَيکَْ،فَلَم یَمنَْعُکَ لٰذِکَ مِنَ الرَّحمَْةِلِي وَ الاِحسَْانِ اِلَيَّ وَالتُّفَضُّلِ عَليَّ ( ١)

“اے پروردگار بيشک تو نے مجه کو دعوت دی اور ميں نے تجه سے رو گر دانی کی اور تونے محبت کی اور ميں نے تجه سے بغض و عناد رکها اور توميرے ساته دو ستی کرتا ہے تو ميں اس کو قبول نہيں کرتا ہوں گویا کہ ميرا تيرے اوپر حق ہے اور اس کے باوجود اس نے تجه کو ميرے اوپر احسا ن کر نے اور فضل کر نے سے نہيں رو کا ”

خيرک الينانازل وشَرُّنَااِلَيکَْ صَاعِدٌ ( ٢)

“تيراخيربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تيری طرف جارہا ہے”

____________________

١)مفاتيح الجنان دعائے افتتاح ۔ )

٢)بحارالانوار جلد ٨ا صفحہ ٨۵ ۔ )

۱۷۴

اہل بيت عليہم السلام کی ميراث ميں دعاؤں کے مصادر

ہمارے پاس ائمہ اہل بيت عليہم السلام کی احادیث ميں مناجات اور دعاؤں کاصاف شفاّف اور طيب و طاہر دولت کا بہت بڑا ذخيرہ موجود ہے ۔

اصحاب ائمہ عليہم السلام اور تدوین حدیث کا اہتمام

ائمہ عليہم السلام اپنے اصحاب سے دعاؤں کے سلسلہ ميں جو کچه وصيت فرماتے تھے تووہ ان کو لکهنے کے بڑے پابند تھے ۔

سيد رضی الدین علی بن طاوؤس نے کتاب مہج الدعوات ميں امام مو سیٰ بن جعفر سے منسوب دعا ئے جوشن صغير کو نقل کرتے وقت یہ تحریر کياہے کہ امام کاظم عليہ السلام کے صحابی ابو وصاح محمدبن عبدالله بن زید النهشلی نے اپنے والد بزگوار عبدالله بن زید سے نقل کيا ہے کہ عبد الله بن زید کا کہنا ہے کہ ابوالحسن کاظم کے اہل بيت عليہم السلام اور ان کے شيعوں کی ایک خاص جماعت تهی جو مجلس ميں اپنے ساته غلاف ميں بڑی نرم و نازک آبنوس کی تختياں ليکرحاضرہو اکر تے تھے جب بهی آپ اپنی زبان اقدس سے کو ئی کلمہ ادا فر ما تے تھے یا کو ئی فتویٰ صادر فرما تے تھے تو وہ قوم جو کچه سنا کرتی تهی اس کو لکه ليا کرتی تهی۔اسی بنياد پر عبدالله نے کہا کہ ہم نے آپ کو دعا ميں یہ فر ما تے سناہے اور اس

____________________

(ا)مہج الدعوات مولف سيد رضی الدین علی بن طاؤس ۔

۱۷۵

سلسلہ ميں مشہور و معروف دعا “جو شن صغير” مو سیٰ بن جعفر عليہ السلام سے ذکر فرمائی ہے۔

حدیث کے سلسلہ ميں(اصول اربعماة) چا رسو اصول

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے اصحاب نے آپ کی احا دیث کی تدوین چارسو کتابوں ميں کی ہے جو اصول اربعمات کے نا م سے مشہور ہو ئيں۔شيخ امين الاسلام طبر سی (متوفی ۵۴ ٨ ئه )نے اعلام الوریٰ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ کے چار ہزار اہل علم شاگرد مشہور تھے اور آپ نے ان کے جوابات ميں مسائل کے سلسلہ ميں چار سو کتابيں تحریر کيں جن کو اصول اربعماة کہا جاتاہے اور اصحاب اصول کا طریقہ کار ائمہ عليہم السلام سے سنی جا نے والی تمام چيزوں کو لکهنا اور تدوین کرنا تھا ۔

شيخ بہا ئی کتاب الشمسين ميں تحریر کرتے ہيں :“ہما رے بزرگان سے یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ اصحاب اصول کی یہ عادت تهی کہ وہ جب بهی کسی امام سے کو ئی حدیث سنتے تھے تو وہ اس حدیث کو اپنے اصول ميں درج کرنے کےلئے سبقت کرتے تھے کہ ہم کہيں دنوں کے گذر نے کے ساته ساته اس پوری حدیث یا بعض حصہ کو فر اموش نہ کر دیں ”اس لئے یہ اصول اصحاب کی طرف سے مورد وثوق تھے جب وہ ان سے کو ئی روایت نقل کرتے تھے تو اس کے صحيح ہو نے کا حکم لگا تے تھے اور اس پر اعتماد کرتے تھے ۔

جناب محقق داماداصول اربعمات نقل کرنے کے بعد انتيسویں نمبر پر ذکر کرتے ہيں :یہ با ت جان لينی چا ہئے کہ معتمد اصول مصححہ کو اخذ کرنا روایت کو صحيح قرار دینے کا ایک رکن ہے ”۔

ائمہ عليہم السلام کے اصحاب کی بڑی تعداد نے اصول کی کتابت کے سلسلہ ميں کہا ہے کہ ان اصول کا پورا کرنا اور ان اصول سے مکمل طور پر استفادہ کرنا ممکن نہيں ہے جناب شيخ طو سی اپنی کتاب فہرست کی ابتدا ميں تحریر فر ما تے ہيں :

ہم ان اصول کے مکمل ہو نے کی ضمانت نہيں لے سکتے چونکہ ہمارے اصحاب کی تصانيف اور ان کے اصول اکثر شہروں ميں منتشر ہو نے کی وجہ سے صحيح طور پر ضبط نہ ہو سکے ليکن ہاں کتاب الذریعہ ميں آقائے بزرگ طہرانی کے قول کے مطابق ان کی تعداد چار سو سے کم نہيں ہے۔

۱۷۶

محقق داماداپنے مذکورہ تلخيص نمبرميں تحریر کرتے ہيں :یہ مشہور ہے کہ اصول اربعمات حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے شا گردوں کے ذریعہ تحریر کئے گئے ہيں جبکہ ان کے جلسوں ميں شریک ہو نے اور ان سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعدادتقریباً چار ہزار ہے اور ان کی کتابيں اور تصنيفات بہت زیادہ ہيں ليکن ان ميں سے قابل اعتماد یہی چار سو اصول ہيں ”

ميراث اہل بيت عليہم السلام اور طغرل بيگ کی آتش زنی

اہل بيت عليہم السلام کی ميراث ميں سے یہ اصول متعدد طا ئفوں کے پاس تھے ان ہی ميں سے دعا ؤں کی کتابيں بهی تهيں جو کتا بوں کے اس مخزن کے جلنے کی وجہ سے تلف ہو گئيں تهيں جس کو وزیر ابو نصر سابور بن ارد شير (شيعہ وزیر جس کو بہاء الدولہ نے وزارت دی تهی )نے وقف کيا تھا یہ اس دور ميں کتابوں کا سب سے بڑا مخرن شمار کيا جاتا تها۔یا قوت حموی نے معجم البلدان جلد ٢صفحہ/ ٣ ۴ ٢ پر مادہ بين سورین ميں کہا ہے کہ : بيشک بين السورین کرخ بغداد ميں آبادی کے لحاظ سے سب سے اچها محلہ تھا ”اس ميں کتابوں کا مخزن تھا جس کو ابو نصرسابور بن ارد شير وزیرکو بہا ء الدولہ بو یہی کے وزیر نے وقف کيا تھا ،دنيا ميں اس سے اچهی کتابيں کہيں نہيں تهيں تمام کتابےں معتبر ائمہ اور ان کے محرز اصول کے تحت تحریر کی گئی تهيں جب محلہ کرخ کو جلایا گياتواس ميںيہ تمام کتابيں جل کر راکه ہوگئيں اورانهيں کتابوں ميں جن کو طغرل بيگ نے جلایا اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعاؤں کی کتابيں بهی تهيں۔

محقق،طہرانی کتاب یا قوت ميں، حموی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد لکهتے ہيں :“ ہم کو اس بات کا گمان ہے کہ بغداد کے محلہ کرخ ميں شيعوں کےلئے وقف کی گئی اس لا ئبریری کی کچه کتابيں وہی دعا ئی اصول ہيں جن کو ائمہ کے قدیم اصحاب نے ائمہ سے نقل کيا ہے اور بزرگان رجال نے ان سے ہر ایک کی سوانح عمری ميں صاف صاف کہا ہے کہ یہ کتابيں انهيں کی ہيں اس کو کتاب ادعيہ بهی کہا ہے نيز اس کتاب کے اس کے مو لف سے نقل کرنے کی روش کو بهی ذکر کيا (ہے ”( ١)

۱۷۷

اہل بيت عليہم السلام کی محفوظ رہ جانے والی ميراث

ان اصول کی کچه کتابےں شيخ الطائفہ ،شيخ ابو جعفر طوسی کی کتاب “التہذیب”اور الاستبصار مولف کے پاس تهيں۔اس وقت بغداد ميں امهات اصول کے نام سے بهرے ہوئے دو کتاب خانہ تھے ان ميں سے ایک کتابخانہ سابور تھا جس کے بانی شيعہ علماء تھے جو بغداد ميں کرخ کی طرف بنایا گيا تھا اوردوسرا کتابخانہ ان کے استاد محترم شریف مرتضیٰ کا تھا جس ميں اسّی ہزار کتابيں تهيں وہ کتابيں ابن ادریس حلی کے زمانہ تک باقی رہيں جن ميں سے “مستطرفات السرائر”کا استخراج کيا گيا۔

دعاؤںکے کچه مصادر کا تلف ہونے سے محفوظ رہنا

محقق بزرگ طہرانی کتاب الذریعہ ميں تحریر کرتے ہيں :منجملہ دعائی اصول جو شاپور کتاب خانہ ميں یا خاص عناوین کے تحت موجود تھے یا قوت حموی کی تشریح کے مطابق سب کے سب جل کر راکه ہوگئے ليکن ان ميں سے جو کچه شخصی طورپر دوسروں کے پاس موجود تھے ، وہ محفوظ رہ گئے ادعيہ ، اذکار اور زیارتوں کے مطالب ہم تک اسی طرح پہنچے ہيں جس طرح ان اصول ميں مندرج تھے چونکہ کتاب خانہ کے جلائے جانے سے چندسال پہلے متعدد علماء اعلام نے ادعيہ ، اعمال اور زیارتوں کی کتابيں تاليف کی تهيں اور جوکچه ان کتابوں ميں دعاؤں کے اصول موجود تھے ان کو اخذ کرليا تھا ۔

ان اصول سے تاليف کی گئيں کتابيں کتاب خانہ کے جلائے جانے سے پہلے اسی طرح موجود تهيں اور آج بهی موجود ہيں ،جيسے کتاب دعا مولف شيخ کامل الزیارات۔مولف قولویہ متوفی ٣ ۶ ٠ ئه ق،کتاب الدعا والمزار مولف شيخ صدوق متوفی ٣٨١ ئه، کتاب المزار مولف شيخ مفيد متوفی ٢ ا ۴ ء قاور کتاب روضةالعابدین مولف کراجکی متوفی ۴۴ ٩ ئه ق۔ کلينی متوفی ٣٢٩ ئه ق۔ کتاب

____________________

١)الذریعہ جلد ٨ صفحہ ١٧۴ ۔ )

۱۷۸

کتاب مصباح المتہجد کے ذریعہ محفوظ رہنے والی دعائےں

وہ دعائيہ مصادر جو ان قدیمی اصول سے اخذ کئے گئے ہيں ان ميں سے کتاب مصباح المتہجد ہے جو شيخ الطائفہ طوسی متوفی ۴۶ ٠ ئه ق )کی تاليف ہے آپ نے ۴ ٠٨ ء ه ق ميں عراق آنے کے بعد ان قدیم اصول کو اخذ کيا جو کتابخانہ شاہ پور اور کتاب خانہ شریف مرتضی کے ماتحت موجود تھے آپ نے احادیث احکام کے سلسلہ ميں تہذیب الاحکام اور اسبتصار تاليف کی اور دعا واعمال کے متعلق مصباح المتہجدنام کی کتاب تحریرکی ہے اور اس ميں ان ہی مقدار ميں ان اصول کو تحریر کيا ہے جن کو عبّاد متہجدین سے آسانی سے اخذ کرسکےں۔

سيد ابن طاؤوس تک پہنچنے والے دعاؤں کے کچه مصادر

دعاؤں کے کچه وہ مصادر جو ساتویں ہجری تک کرخ ميں شاپور کتاب خانہ کے جل جانے سے بچ گئے اور وہ سيد رضی الدین ابن طاؤوس متوفی ۶۶۴ ئه ق کے ہاتهوں ميں آئے ۔

وہ اپنی کتاب کشف المحجہ جس کو اپنے فرزندکيلئے تاليف کيا تھا اسکی بياليسيوں فصل ميں اس طرح تحریر کرتے ہيں : خداوند بزرگ و تعالیٰ نے ميرے سامنے تمہارے لئے متعددکتابيں لکهنے کا موقع فراہم کيا ۔۔۔اور الله نے ميرے لئے (“دعوات ”کی ساڻه جلدوں سے زیادہ جلدیں لکهنے کا موقع فراہم کيا ۔(١) جب سيد ابن طاؤوس نے کتاب مهج الدعوات تحریر کی تو آپ کے پاس دعاؤں کی ستّرسے زیادہ کتابےں موجود تهيں۔

____________________

١)کشف المحجہ ثمرةالمہجہ مولف ابن طاؤوس۔ )

۱۷۹

آپ کتابِ مہج الدعوات کے آخر ميں اس طرح تحریر فرماتے ہيں :یہ ميری زندگی کی آخری کتاب ہے۔۔۔

سيد ابن طاؤوس اپنی زندگی کی آخری کتاب اليقين ميں تحریرکرتے ہيں کہ ميں نے اپنی زندگی کی اس آخری کتاب کو اس وقت تحریر کيا ہے جب ميرے پاس (دعاؤں کی ستّرسے زیادہ کتابيں موجود تهيں۔(١)

سيد ابن طاؤوس کے پاس حدیث اور دعا کے پندرہ سو مصادر

جب سيد نے دعا کے سلسلہ ميں اپنی بڑی کتاب “اقبال”تحریر کی توشہيد کے اپنے مجموعہ ميں جبعی کے نقل کے مطابق ان کے پاس ان کی اپنی پندرہ سو کتابےں موجود تهيں اور یہ ۶۵ ٠ ئه ق کی بات ہے جب سيد رضی الدین ابن طاؤوس کتاب اقبال لکه کر فارغ ہوئے ۔

شہيد تحریرکرتے ہيں ۶۵ ٠ ئه ق ميں آپ کی ملکيت ميں چه سو پچاس (کتابيں تهيں۔( ٢)

سيد ابن طاؤوس کی ادعيہ اور اذکار کے سلسلہ ميں پندرہ کتابےں سيد ابن طاووس اپنی کتاب “فلاح السائل ”ميں تحریر کرتے ہيں کہ ميں نے جب دعاوں کے سلسلہ ميں اپنے جد شيخ ابو جعفر طوسی کی کتاب“المصباح الکبير ”پڑهی تو ہم کو اس ميں بہت سے اہم مطالب نظر آئے جن کو شيخ طوسی نے اپنی کتاب ميں ملحق نہيں فر ما یا تھا لہٰذا ہم نے کتاب“المصباح الکبير ”پر پندرہ جلدوں ميں “تتمات مصباح المتہجد و مهمات فی صلاح المتعبد ” نامی کتاب مستدرک تحریر کی ہے ۔وہ کتاب فلاح السائل کے مقدمہ ميں تحریر کرتے ہيں :

ہم نے الله کی مدد سے چند جلد کتابيں مرتب و منظم کی ہيں جن کو اہم اور تتمہ کے عنوان سے شمار کيا جاتا ہے ۔

____________________

١)الذریعہ جلد ٢ص ٢۶۵ ۔ )

٢)الذریعہ جلد ٢ص ٢۶۴ ۔ ٢۶۵ ۔ )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248