دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)30%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68440 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

دعا عند اهل بيت(جلد دوم)

محمد مهدی آصفی

مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی

۳

دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چا ہئے اور کيا نہيں مانگنا چاہئے

اس مقام پر دعا ء کے سلسلہ ميں دو اہم سوال در پيش ہيں:

١۔ہميں دعا کر تے وقت خدا سے کن چيزوں کو مانگنا چاہئے ؟

٢۔اور دعا ميں خداوندعالم سے کن چيزوں کا سوال نہيں کرنا چاہئے ؟

١۔دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چاہئے ؟

ہم پہلے سوال سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہيں کہ دعا کرتے وقت الله سے کو نسی چيزیں مانگنا سزوار ہے؟

بيشک بندے کا الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا دعا کہلاتا ہے۔ بند ے کی ضرورت اور حاجت کی کوئی انتہا نہيں ہے جيسا کہ خداوندعالم کے غنی سلطان اور کرم کی کوئی انتہا نہيں ہے ۔

دونوں لامتناہی چيزوں کے جمع ہونے کو دعا کہا جاتا ہے ۔

یعنی بندے کی ضرورت کی کوئی انتہا نہيں ہے اور خداوندعالم کے غنی اور کریم ہو نے کی کوئی انتہا نہيں ہے اس کے ملک کے خزانے ختم نہيں ہوتے، اسکی سلطنت اوراس کی طاقت کی کوئی حد نہيں، اس کے جودو کرم کی کوئی انتہا نہيں، اسی طرح بندے کی حاجت وضرورت کمزوری اور کوتا ہی کی کوئی انتہا نہيں ہے ان تمام باتوں کے مد نظر ہم کو یہ سمجهناچاہئے کہ ہم دعا ميںخداوندعالم سے کيا طلب کریں ؟

۴

١۔دعا ميں محمد وآل محمد (ص) پر صلوات

دعا ميں سب سے اہم نقطہ خداوندعالم کی حمد وثنا کے بعد مسلمانوں کے امور کے اولياء محمد و آل محمد پر صلوات بهيجنا ہے ۔

اور اسلامی روایات ميں اس صلوات پربہت زیادہ زور دیا گيا ہے جس کا سبب واضح وروشن ہے بيشک الله تبارک وتعالیٰ نے دعا کو مسلمانوں اور اور ان کے اوليا ء کے درميان ایک دوسرے سے رابطہ کا وسيلہ قرار دیا ہے اور وہ ولا ومحبت کی رسی کو بڑی مضبوطی کے ساته پکڑے رہيں جس کو الله نے مسلمانوں کےلئے معصوم قرار دیا ہے صلوات، ان نفسی رابطو ں ميں سے سب سے اہم سبب کا نام ہے بيشک محبت کے حلقے (کڑیاں)الله اور اس کے بندوں کے درميان ملی ہو ئی ہيں اور رسول الله اور اہل بيت عليہم السلام کی محبت ان کی سب سے اہم کڑیا ں ہيں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے محبت الله کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اہل بيت عليہم السلام کی محبت رسول الله (ص)کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اس محبت کی تا کيد اور تعميق خداوند عالم کی محبت کی تاکيد کا جزء ہے نيز خداوند عالم کی محبت کی تعميق کا جزء ہے یہ معرفت کا ایسا وسيع باب ہے جس کو اس مقام پر تفصيل سے بيان نہيں کيا جا سکتا اور اس سلسلہ ميں ہم کما حقہ گفتگو نہيںکر سکتے ہيںشاید خداوند عالم ہم کو کسی اور مقام پر اسلا می ثقافت اور اسلامی امت کی تکوین کے سلسلہ ميں اس اہم اور حساس نقطہ کے سلسلہ ميں گفتگو کی تو فيق عنایت فر ما ئے ۔

اس مطلب پر اسلامی روایات ميں بہت زور دیا گيا ہے ۔ہم اس مو ضوع سے متعلق بعض روایا ت کو ذیل ميں بيان کر رہے ہيں ۔

۵

اور ان ميں سب سے عظيم خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :

( اِنَّ الله ٰ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَْ عَلیَ النَّبِی یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْصَلُّواعَلَيهِْ وَسَلِّمُواْتَسلِْيمْاً ) (۱)

“بيشک الله اور اس کے ملا ئکہ رسول پر صلوات بهيجتے ہيں تو اے صاحبان ایمان تم بهی ان پر صلوات بهيجتے رہو اور سلام کرتے رہو ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :الصلاة عليّ نورعلی الصراط (۲)

“مجه پر صلوات بهيجنا پل صراط کےلئے نور ہے” یہ بهی رسول اسلام (ص) کا ہی قول ہے:انّ ابخل الناس مَنْ ذُکرت عنده،ولم یصلّ عليّ (۳)

“سب سے بخيل انسان وہ ہے جس کے پاس ميرا تذکرہ کيا جائے اور وہ مجه پر صلوات نہ بهيجے ”

عبد الله بن نعيم سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا جب ميں گهر ميں داخل ہو تا ہوں تو ميں اپنے پاس محمد وآل محمد پر صلوات بهيجنے کے علاوہ کوئی اور دعا نہيں پاتا تو آپ نے فرمایا :آگاہ ہو جاؤ اس سے افضل اور کوئی چيز نہيں ہو سکتی ہے ”حضرت امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے مروی ہے:اثقل مایُوزن في الميزان یوم القيامة الصلاة علیٰ محمّد وآل محمّد “قيامت کے دن ميزان ميں سب سے زیادہ وزنی چيز محمد وآل محمد پر ” صلوات ہو گی(۴)

حضرت امير المو منين عليہ السلام نہج البلا غہ ميں ارشاد فرما تے ہيں :اذاکانَ لکَ اِل یٰ الله سُبحَْانَهُ حَاجَة فَابدَْابِْمَسا لَةِ الصَّلَاةِ عَل یٰ رَسُولِْهِ ثُمَّ سَل حَاجَتُکَ؛فَاِنَّ الله ٰ اَکرَْمُ مِن اَن یُسالَ حَاجَتَينِْ ،فَيَقضْ یٰ اِحدَْاهُمَاوَیَمنَْعُ الاُْخرْ یٰ (۵)

“جب تم خداوندعالم سے کوئی حاجت طلب کرو تو پہلے محمد وآل محمد پر صلوات بهيجو اس کے بعد اس سے سوال کرو بيشک خداوندعالم سب سے زیادہ کریم ہے کہ اس سے دو حاجتيں طلب کی جائيں اور وہ ان ميں سے ایک کو پورا کردے اور دوسری کو پورا نہ کرے ” انبياء ومرسلين اور ان کے اوصيا ء کی دعا ئيں اسی طرح کی دعائيں ہيں ۔

عام طور پر تمام انبياء عليہم السلام اور ان کے اوصيا ء پر صلوات وسلام وارد ہو تے ہيں یا اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعاؤں ميں مشخص ومعين اور نام بنام ان پر صلوات وسلام وارد ہوئے ہيں اور ان ميں وارد ہو نے والی ایک دعا (عمل ام داؤد )ہے جو رجب کے مہينہ ميں ایام بيض کے سلسلہ ميں وارد ہو ئی ہے اور وہ امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے ۔

____________________

۱ سورئہ احزاب آیت/ ۵۶ ۔ ۲ کنز العمال حدیث / ٢١۴٩ ۔ ۳ کنز العمال حدیث/ ٢١۴۴ ۔ ۴ بحارالانوار جلد ٧١ ۔صفحہ/ ٣٧۴ ۔ ۵ نہج البلاغہ حکمت ٣۶١ ۔

۶

محمد وآل محمد (ص)پر صلوات بهيجنے کے چند نمونے صحيفه سجادیه ميں امام زین العابد ین عليه السلام فرما تے هيں : ربِّ صلِّ علی محمّد وآل محمّد،المنتجب،المصطفیٰ المکرّم،المقرّب افضل صلواتک وبارک عليه اتَمّ برکا تک،وترحّم عليه امتع رحماتک

ربِّ صلِّ علی محمّد وآله صلاة زاکية لاتکون صلاة ازکیٰ منها و صلِّ عليه صلاة ناميةلاتکون صلاةانمیٰ منهاوصلِّ عليه صلاةراضية لاتکون صلاة فوقهاربِّ صلِّ علی محمّد صلوة تُرضيه وتزید علی رضاه وصلِّ عليه صلاة تُرضيک وتزید علی رضاک وصلِّ عليه صلاة لانرضیٰ له الَّابها ولاتریٰ غيره لهااهلا ربِّ صلِّ علیٰ محمّد وآله صلاةتنتظم صلوات ملائکتک وانبيائک ورسلک واهل طاعتک

“خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما جو منتخب ،پسندیدہ ،محترم اور مقرب ہيں۔ اپنی بہترین رحمت اور ان پر برکتيں نازل فر ما اپنی تمام ترین برکات ،اور ان پر مہربانی فرما اپنی مفيد ترین مہربانی خدایا محمد وآل محمد پر وہ پاکيزہ صلوات نہ ہو اور وہ مسلسل بڑهنے والی رحمت جس سے زیادہ بڑهنے والی کو ئی رحمت نہ ہو ۔ان پروہ پسندیدہ صلوات نازل فرماجس سے بالا تر کو ئی صلوات نہ ہو ۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جس سے انهيں راضی کر دے اور ان کی رضامندی ميں اضافہ کر دے اپنے پيغمبر پر وہ صلوات نازل فر ما جو تجهے راضی کر دے اور تيری رضا ميں اضافہ کر دے ۔ان پر وہ صلوات نازل فر ما جس کے علا وہ ان کے لئے کسی صلوات سے تو راضی نہ ہو اور اس کا ان کے علاوہ کو ئی اہل نہ سمجهتا ہو ۔۔۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جو تيرے ملا ئکہ ،انبياء و مر سلين اور اطا عت گذاروں کی صلوات کو سميٹ لے ”

۷

٢۔مومنين کےلئے دعا

خداوندعالم کی حمد وثنااور محمد وآل محمد انبياء اور ان کے اوصياء پر درودو سلام بهيجنے کے بعد سب سے اہم چيز مومنين کےلئے دعا کرنا ہے یہ دعا ،دعا کے اہم شعبوں ميں سے ہے اس لئے کہ مومنين کے لئے دعا کرنا اس روئے زمين پرہميشہ پوری تاریخ ميں ایک مسلمان کوپوری امت مسلمہ سے جو ڑے رہی ہے جس طرح محمد وآل محمد پر صلوات خداوندعالم کی طرف سے نازل ہو نے والی ولایت کی رسی کے ذریعہ جو ڑے رہی ہے۔

اس رابط کو دعا ایک طرف فردا ور امت کے درميان جوڑتی ہے اور ان سے رابطہ قائم کرنے والے تمام افراد کے درميان اس رابطہ کو جوڑتی ہے یہ رابطہ سب سے بہترین وافضل رابطہ ہے اس لئے کہ اس علاقہ وتعلق سے انسان الله کی بارگاہ ميں جاتا ہے اور یہ تعلق ولگاؤ اس کو ہميشہ خدا سے جوڑے رہتا ہے اور وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نہيں پہچانتا اور یہ الله کی دعوت پرلبيک کہنا ہے ۔یہ دعا دو طریقہ سے ہو تی ہے :عام دعا کسی شخص کو معين اور نام لئے بغير دعا کرنا ۔

دوسرے نام بنام اور مشخص ومعين کرنے کے بعد دعا کرنا ۔ اور ہم انشاء الله ان دونوں قسموں کے متعلق بحث کریں گے :

١۔عام مومنين کےلئے دعا

اس طرح کی دعا کو الله دوست رکهتا ہے ، اس کو اسی طرح مستجاب کرتا ہے خدا وند عالم اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ بعض دعاکو قبول کرے اور بعض دعا کورد کردے۔

دعا کا یہ طریقہ عام مومنين کےلئے ہے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور طول تاریخ ميں روئے زمين پرامت مسلمہ کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتاہے اور ہمارے تعلقات کو اس خاندان سے زیادہ مضبوط ومحکم کرتا ہے ۔

ہماری زندگی ميں دعا کے دو کردار ہيں : پہلا کردار یہ ہے کہ ہم الله سے رابطہ قائم کرتے ہيں ۔

دوسرا کردار یہ ہے کہ طول تاریخ ميں روئے زمين پر ایمان لانے والی امت مسلمہ سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے ۔

۸

دعا کے اس بليغ طریقہ پر اسلامی روایات ميں بہت زیادہ زور دیا گيا ہے اور یہ وارد ہو ا ہے کہ خدا وند عالم دعا کرنے والے کو اس کی بزم ميں حاضر ہونے والے تمام مومنين کی تعداد کے مطابق نيک ثواب دیتا ہے ،اس دعا ميں شامل ہونے والے ہر مومن کی اس وقت شفاعت ہوگی جب خدا اپنے نيک بندوں کو گناہگار بندوں کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے کہ رسول الله (ص)نے فرمایا :

مامن مومن دعا للمومنين والمومنات إلَّاردّاللّٰه عليه مثل الذي دعا لهم به من کلّ مومن ومومنة ،مضی مِنْ اوّل الدهراو هوآت الیٰ یوم القيامة وانّ العبد ليومر به الیٰ النار یوم القيامة فيسحب،فيقول المومنون والمومنات:یاربّ هٰذا الذيکان یدعوالنافشفعنافيه،فيشفعّهم اللّٰه عزَّوجلَّ، فينجو (١)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من و مو منہ کے بدلے خلقت آدم سے قيامت تک نيکی لکھے گا ۔

بيشک قيامت کے دن ایک انسان کو دوزخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس کو کهينچا جا ئيگا اس وقت مو من و مو منات کہيں گے یہ وہی شخص ہے جو ہمارے لئے دعا کرتا تھا لہٰذا ہم کو اس کے سلسلہ ميں شفيع قرار دے تو خداوند عالم ا ن کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جائيگا ” امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

مَنْ قال کلّ یوم خمسا و عشرین مرة :اللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کتب الله له بعددکل مومن وضیٰ وبعددکل مومن ومومنة بقي الیٰ یوم القيامة حسنة ومحا عنه سيئة ورفع له درجة ( ٢)

“جس نے ایک دن ميں پچيس مرتبہاللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کہا ،تو خدا وند عالم ہرگز شتہ اور قيامت تک آنے والے مومن اور

____________________

۴،حدیث / ١)اصول کا فی / ۵٣۵ ،آمالی طوسی جلد ٢صفحہ ٩۵ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵١ ) ٨٨٨٩ ۔ /

١١۵١ ،حدیث ٨٨٩١ ۔ / ٢)ثواب الاعمال صفحہ ٨٨ ؛وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۹

مومنہ کی تعداد کے مطابق اس کےلئے حسنات لکھے گا اور اس کی برائيوں کو محو کردے گا اور اس کا درجہ بلند کرے گا ”

ابو الحسن حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :مَنْ دعالإخوانه من المومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات وکّل الله به عن کل مومن ملکا یدعو له (١)

“جس نے مومنين ومومنات اور مسلمين ومسلمات کےلئے دعا کی تو خداوندعالم ہر مومن پر ایک ملک کو معين فرما ئے گا جو اس کےلئے دعا کر ے گا ” ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے :

مامن مومن ید عوللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّاکتب اللّٰهُ لهُ بکُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة (٢)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کيلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آباؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :مامن مومن اومومنة ،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،الَّا وهم شفعاء لمن یقول فی دعائه:اللهم اغفرللمومنين والمومنات، وان العبدليومر به الی النار یوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات :

____________________

١١۵٢ ،حدیث ٨٨٩٣ ۔ / ١)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

١١۵٢ ،حدیث / ٨٨٩۴ ۔ / ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۰

یاربَّنا هذاالذي کان یدعولنافشفّعنافيه فيشفّعهم الله ،فينجو ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکے ہيں یا قيامت تک آنے والے ہيں وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والے ہيں جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے:

مامن مومن یدعو للمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّا رد اللّٰهُ عليه من کُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة ( ٢)

“جو شخص زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرتا ہے تو خداوند عالم خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا واجداد سے انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :

مامن عبد دعاء للمومنين والمومنات الاّردّالله عليه مثل الذي دعا لهم من کلّ مومن ومومنة،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،وان العبد ليومر به الی الناریوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات:یاربّناهذاالذی

____________________

١)امالی صدوق صفحہ ٢٧٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۵ ۔ )

٢)ثواب الاعمال صفحہ / ۴۶ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ /صفحہ ٣٩۶ ۔ )

۱۱

کان یدعولنا فشفّعنافيه فيشفّعهم الله ، فينجومن النار ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکا ہے یا قيامت تک آنے والا ہے وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والا ہے جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن اس انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

امام جعفر صادق رسول خدا سے نقل فرماتے ہيں :

اذا دعا احدکم فليعمَّ فإنّه اوجب للدعاء ( ٢)

“جب دعا مانگو تو سب کيلئے دعا مانگو کيونکہ اس طرح دعا ضرور قبول ہو تی ہے ”

ابو عبد الله الصادق عليہ السلام سے مروی ہے : جب انسان کہتا ہے :اللهم إغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات الاحياء منهم وجميع الاموات ردّ الله عليه بعدد مامضی ومَنْ بقي من کلّ انسان دعوة ( ٣)

“پروردگار تمام زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کو بخش دے تو خداوند عالم اس کے گذشتہ اور آئندہ انسانوں کی تعداد کے برابر نيکی لکه دیتا ہے ”

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ / ۴٧ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٢)ثواب الا عمال صفحہ / ١۴٧ ۔بحار الا نوار جلد ٩٢ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٣)فلاح السائل صفحہ / ۴٣ ۔بحار النوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨٧ ۔ )

۱۲

عمومی دعا کے کچه نمونے

ہم ذیل ميں اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعا ؤں ميں عام دعا کے

سلسلہ ميں کچه نمونے پيش کرتے ہيں :

اللهم اغنِْ کُلَّ فَقِيرٍْاللهم اشبِْع کُلَّ جَائِعٍ ،اللهم اکسُْ کُلَّ عُریَْانٍ اللهم اقضِْ دَیْنَ مِنْ کُلِّ مَدِیْنٍ اللهم فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوْبٍ اللهم رُدَّ کُلَّ غَرِیْبٍ اللهم فُکَّ کُلَّ اَسِيرٍْاللهم اَصلِْح کُلِّ فَاسِدٍ مِن اُمُورِْالمُْسلِْمِينَْ،اللهم اشفِْ کُلَّ مَرِیضٍْ، اللهم سُدَّ فَقَرنَْا بِغِنَاکَ،اللهم غَيِّرسُْوءَْ حَالَنَا بِحُسنِْ حَالِکَ،وَصَلَّ الله ٰ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَْ

“خدا یا تو ہر فقير کو غنی بنادے، خدایا تو ہر بهوکے کو سيرکردے، خدایا توہر برہنہ کو لباس پہنا،خدایا تو ہرقرضدار کا قرض ادا کر دے، خدایاہر غمگين کے غم کو دور کر،خدایاہر مسافر کو اس کے وطن پہنچا دے، خدایاہر اسير کو آزاد کر ،خدایامسلمانوں کے جملہ فاسد امور کی اصلاح فر ما، خدایاہر مریض کو شفا عطا کر، خدایاہمارے فقر کو اپنی مالداری سے درست کردے ،خدایاہماری بد حالی کو خوش حالی سے بدل دے، خدا یا ہمارے قرض کو ادا کر دے اور ہمارے فقر کو مالداری سے تبدیل کر دے اور محمد اور ان کی آل پاک پر صلوات بهيج”

ان ہی نمونوں ميں سے ہے :

اللهم وتفضّل علی فقراء المومنين والمومنات بالغنیٰ والثروة،وعلیٰ مرضی المومنين والمومنات بالشفاء والصحة ،وعلیٰ احياء المومنين والمومنات باللطف والکرامة وعلیٰ اموات المومنين والمومنات بالمغفرة والرحمة وعلیٰ مسافرالمومنين والمومنات بالردّ الیٰ اوطانهم سالمين غانمين برحمتک یاارحم الراحمين وَصَلَّ اللّٰهُ عَلیٰ سيدنامُحَمَّدٍخاتم النبيين وعترته الطَّاهِرِیْنَ

“خدایامو منين اور مومنات فقراء کو اپنے فضل سے دولت و ثروت عطا کر ، بيمار مو منين او ر مومنات کو شفا و صحت عطا کر ، زندہ مو منين اور مو منات پر لطف و کرم فرما،مردہ مو منين ومو منات پر بخشش و رحمت عطا فرما ،اپنی رحمت سے مسافرمومنين و مومنات کو ان کے وطن ميں صحيح و سالم واپس لوڻااور ہما رے سيد و سردار محمد خا تم النبيين اور ان کی آل پاک پردرود وسلام ہو”

صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۳

اللهم وصلّ علیٰ التابعين منایومنا هذا الیٰ یو م الدین وعلی ازواجهم وعلیٰ ذرِّیاتهم وعلیٰ مَنْ اطاعک منهم صلواةً تعصمهم بها من معصيتک وتفسح لهم فی ریاض جنتک وتمنعهم بها من کيد الشيطان وتعينهم بها علیٰ مااستعانوک عليه من برّ وتقيهم طوارق الليل والنهار الاّ طارقا یطرق بخيرٍ

“خدایاان تمام تا بعين پر آج کے دن سے قيامت کے دن تک مسلسل رحمتيں نا زل کر تے رہنااور ان کی ازواج اور اولا د پر بهی بلکہ ان کے تمام اطاعت گذاروں پر بهی وہ صلوات و رحمت جس کے بعد تو انهيں اپنی معصيت سے بچا لے اور ان کےلئے باغات جنت کی وسعت عطا فر ما دے اور انهيں شيطان کے مکر سے بچا لے اور جس نيکی پر امداد مانگيں ان کی امداد کر دے اور رات اور دن کے نا زل ہو نے والے حوادث سے محفوظ بنا دے ۔علاوہ اس حادثہ کے جو خير کا پيغام ليکر آئے ”

سرحدوں کے محا فظوں کے حق ميں دعا

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ،وَحَصِّن ثُغُورَْالمُْسلِْمِينَْ بِعِزَّتِکَ وَاَیَّدحُْمَاتُهَا بِقُوَّتِکَ وَاَسبِْغ عَطَایَاهُم مِن جِدَتکَ اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَکَثِّرعِْدَّتَهُم وَاشحَْذاَْسلِْحَتَهُم وَاحرُْس حَوزَْتَهُم وَامنَْع حَومَْتَهُم وَاَلِّف جَمعَْهُم وَدَبِّراَْمرَْهُم وَوَاتِر بَينَْ مِيَرِهِم وَتَوَحَّد بِکِفَایَةِ مُونِهِم وَاعضُْدهُْم بِالنَّصرِْوَاَعِنهُْم بِالصَّبرِْوَالطُْف لَهُم فِي المَْکرِْ

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَعَرِّفهُْم مَایَجهَْلُونَْ وَعَلِّمهُم مَالَایَعلَْمُونَْ وَ بَصِّرهُْم مَالَایُبصِْرُونَْ

“خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر ما اور اپنے غلبہ کے ذریعہ مسلمانوں کی سر حدوں کی محا فظت فر ما اور اپنی قوت کے سہارے محا فظين حدود کی تا ئيد فر ما اور اپنے کرم سے ان کے عطایا کو مکمل بنا دے خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجا ہدوں کی تعداد ميں اضافہ فر ما ان کے اسلحوں کو تيز و تند بنا دے ان کے مر کزی مقا مات کی حفاظت فر ما ،ان کے حدود و اطراف کی حراست فر ما ان کے اجتماع انس و الفت پيدا کر ان کے امور کی تدبير فر ما ان کی رسد کے و سائل کو متواتر بنا دے اور تو تن تنہا ان کی تمام ضروریات کے لئے کا فی ہو جا اپنی نصرت سے ان کے با زووں کو قوی بنا دے اور جو ہر صبر کے ذریعہ ان کی امداد فرما اور باریک تدبيروں کا علم عطا فرما ۔

خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر مااور مسلمانوں کو ان تمام چيزوں سے با خبر کر دے جن سے وہ نا واقف ہيں اور وہ تمام با تيں بتا دے جنهيں نہيں جا نتے ہيں اور وہ سارے منا ظر دکهلا دے جنهيں آنکهيں نہيں دیکه سکتی ہيں ” صحيفہ سجادیہ ميں ایک اور مقام پرامام زین العا بد ین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۴

اللهم وایّمامسلم اهمّه امرالاسلام واحزنه تحزب اهل الشرک عليهم فنویٰ غزواً او همّ بجهاد فقعد به ضعف اوابطات به فاقة اواخرّه عنه حادث او عرض له دون ارادته مٰانع فاکتب اسمه فی العابدین واوجب له ثواب المجاهدین واجعله فی نظام الشهدٰآ ء والصالحين

“خدا یااور جس مسلمان کے دل ميں اسلام کا درد ہوا ور وہ اہل شرک کی گروہ بندی سے رنجيدہ ہوکرجہاد کاارادہ کر ے اور مقابلہ پر آمادہ ہوجائے ليکن کمزوری اسے بڻها دے یا فاقہ اسے روک دے یا کوئی حادثہ درميان ميں حائل ہوجائے اور اس کے ارادہ کی راہ ميں کوئی مانع پيش آجائے تو اس کا نام بهی عبادت گزاروں ميں لکه دینا اور اسے بهی مجاہدین کا ثواب عطا فرمادینا اور شہداء وصالحين کی فہرست ميں اس کا نام بهی درج کردینا ”

دعا مجاہدین الرساليين صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العابدین فرماتے ہيں :اللهم وَاَیُّمَامُسلِْمٍ خَلَفَ غَازِیاً اومُْرَابِطاًفِي دَارِهِ اَوتَْعَهَّدَخَالِفِيهِْ فِی غَيبِْتِهِ اَواَْعَانَهُ بِطَائِفَةٍ مِن مَالِهِ،وَاَمَدَّهُ بِعِتَادٍ،اَو رَع یٰ لَهُ مِن وَّرَائِهِ حُرمَْةً فَ اٰ جِرلَْهُ مِثلَْ اجرِْهِ وَزنْاً بِوَزنٍْ،وَمِثلْاًبِمِثلٍْ

“اور خدایا جو مرد مسلمان کسی غازی یا سرحد کے سپاہی کے گهر کی ذمہ داری لے لے اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے یا اپنے مال سے اس کی مدد کرے یا جنگ کے آلات و ابزار سے اس کی کمک کرے یا پس غيبت اس کی حُر مت کا تحفظ کرے تو اسے بهی اسی جيسا اجر عطا کر ناتا کہ دونوں کا وزن ایک جيسا ہو ”

قرآن کریم ميں دعا کے تين صيغے

قرآن کریم ميں دعا کےلئے تين صيغے آئے ہيں :

١۔ایک انسان کا خود اپنے لئے دعا کرنا ۔

٢۔کسی دوسرے کےلئے دعا کرنا ۔

٣۔کچه افراد کا مل جل کر تمام مومنين کےلئے دعا کرنا ۔

دعا کے سلسلہ ميں ہم ذیل ميں ان تينوں گروہوں کے بارے ميں بيان کرتے ہيں تاکہ مو منين کےلئے دعا کرنے ميں ہم قرآن کے اسلوب سے واقف ہو سکيں:

۱۵

١۔ اپنے لئے دعا

دعا کا یہ مشہور ومعرف طریقہ ہے ہم قرآن کریم ميں انبياء عليہم السلام اور صالحين کی زبانی اس طرح دعا کرنے کے بہت سے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہيں یا خدا کے وہ اپنے بندے جن کو الله نے اس طرح دعا کرنے کی تعليم دی ہے اس سلسلہ ميں قرآن کریم فرماتا ہے :

رَبِّ قَدآتَيتَْنِی مِنَ المُْلکِْ وعَلَّمتَْنِی مِن تَاوِیلِْ الاْحَادِیثِْ فَاطِرَ السَّ مٰوَاتِ وَالاَْرضِْ اَنتَْ وَلِیِّ فِی الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسلِْماً وَاَلحِْقنِْی بِالصَّالِحِينَْ ( ١)

“پروردگار تو نے مجھے ملک بهی عطاکيا اور خوابوں کی تعبير کا علم بهی دیا تو زمين وآسمان کا پيدا کرنے والاہے اور دنيا وآخرت ميں ميراوالی اور سرپرست ہے مجھے دنيا سے فرمانبردارہی اڻهانا اور صالحين سے ملحق کردینا ”

رَبِّ اَدخِْلنِْی مُدخَْلَ صِدقٍْ وَاخرِْجنِْی مُخرَْجَ صِدقٍْ وَاجعَْل لِی مِن لَّدُنکَْ سُلطَْاناً نَصِيرْاً ( ٢)

“اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچهی طرح سے آبادی ميں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور ميرے لئے ایک طاقت قرار دیدے جو ميری مدد گار ثابت ہو ۔

رَبِّ اشرَْح لِی صَدرِی وَیَسِّرلِْی اَمرِْی وَاحلُْل عُقدَْةً مِن لِّسَانِی یَفقَْهُواْ قَولِْی (٣) “موسیٰ نے عرض کی پروردگار ميرے سينے کو کشادہ کردے اور ميرا کام ميرے لئے آسان کردے اور ميری زبان سے لکنت کی گرہ کهول دے تا کہ لوگ ميری بات اچهی طرح سمجهيں ”

رَبِّ تٰ لاَذَرنْی فَردَْاً وَانْتَْ خَيرُْال اْٰورِثينَ (۴)

____________________

١)سورئہ یوسف آیت/ ١٠١ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت/ ٨٠ ۔ )

٣)سورئہ طہ آیت/ ٢۵ ۔ ٢٨ ۔ )

۴)سورئہ انبياء آیت/ ٨٩ ۔ )

۱۶

“پروردگار مجھے اکيلا نہ چهوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے۔ر َبَّ انزِْلنْی مُنزَْلاًمُ اٰبرَکاً وَانتَْ خَيرُْالمُْنزِْلينَ ( ١)

“اور یہ کہنا کہ پوردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ توبہترین اتارنے والا ہے ۔َبِّ اعُوذُبِکَّ مِن هَمَ اٰزتِ الشَّ اٰيطينِ وَاعُوذُ بِکَ رَبِّ ان یَحضُْرُونِ ( ٢)

“اور کہئے کہ پروردگار ميں شيطانوں کے وسوسوں سے تيری پناہ چاہتا ہوں اور اس بات سے پنا ہ ما نگتا ہوں کہ شياطين مير ے پاس آجائيں ”

رَبِّ هَب لی حُکمَْاًوَالحِْقنْی بِالصاٰلِّحينَ وَاجعَْل لی لِ سٰانَ صِدقٍْ فیِ الآْخِرینَ (وَاجعَْلنْی مِن وَرَثةِجَنّةِالنَّعيمِ ( ٣)

“خدا یا مجھے علم وحکمت عطا فرمااور مجھے صالحين کے ساته ملحق کردے اور آئندہ آنے والی نسلوں ميں ميرا ذکر خير قائم رکه اور مجھے بهی نعمت کے باغ (بہشت)کے وارثوں ميں قراردے”

٢۔ دوسروں کےلئے دعا !

دوسرا طریقہ جس کے سلسلہ ميں قرآنی نمونے اور شواہد موجود ہيں ۔ خدا فرماتا ہے :وَقُل رَبِّ ارحَْمهُْ مٰاکَ مٰارَبّ اٰينی صَغيراً ( ۴)

“پرور دگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فر ما جس طرح کے انهوں نے بچپنے ميں مجھے پالا ہے ”

____________________

١)سورئہ مومنون آیت/ ٢٩ ۔ )

٢)سورئہ مومنون آیت/ ٩٧،٩٨ ۔ )

٣)سورئہ شعراء اآیت/ ٨٣ ۔ ٨۵ ۔ )

۴)سورئہ اسراء آیت/ ٢۴ ۔ )

۱۷

ملة العرش کی مومنين کے لئے دعا:رَبَّ اٰنوَسِعتَْ کُلَّ شَی ءِ رَحمَْة وَعِلمَْاً فَاغفِْرلِْلَّذینٍ اٰتبُواواتَّبَعوُاسَبيلَکَ وَقِهِم عَذابَ الجَْحيمِ رَبَّ اٰنوَادخِْلهُْم جَناٰتِّ عَدنٍْ الَّتی وَعَدتَْهُم وَمَن صَلَحَ مِن آ اٰبئِهم وَاز اْٰوجِهِم وَذُرِّ اٰیتِهِم اِنَّکَ انتَْ العّْزیزُالحَْکيمُ وَقِهِمَ السَيِّ اٰئتِ وَمَن تَقِ السَّيِّ اٰئتِ یَومَْئِذٍ فَقَد رحِمتَْهُ وَ لٰذِکَ هُوَالفَْوزُْ العَْظيمُ ( ١)

“خدایا تيری رحمت اور تيرا علم ہر شے پر محيط ہے لہٰذا ان لوگوں کو بخش دے جنهوں نے تو بہ کی ہے اور تيرے راستہ کا اتباع کيا ہے اور انهيں جہنم سے بچا لے ،پروردگار انهيں اور انکے باپ دادا ازواج اور اولاد ميں سے جو نيک اور صالح افراد ہيں انکو ہميشہ رہنے والے باغات ميں داخل فرما جن کا تونے ان سے وعدہ کيا ہے کہ بيشک تو سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے ،اور انهيں برائيوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تونے برائيوں سے بچاليا گویا انهيں پر رحم کيا ہے اور یہ بہت بڑی کا ميابی ہے ”

٣۔اجتماعی دعا

قرآن کریم کا یہ سب سے مشہور طریقہ ہے اور قرآن کریم کی اکثر دعا ئيں اسی طرح کی ہيں اس سلسلہ ميں قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے :

اِهدِْنَاالصِّراطَ المُْستَْقيمَ صِ اٰرطَ الَّذینَ اَنعَْمتَْ عَلَيهِم غيرِالمَْغضُْوبِْ عَلَيهِْم وَلاَالضاٰلِّّينَْ (٢) ہم سيدهے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں ”

____________________

١)سورئہ غافر آیت/ ٧۔ ٩ )

٢) سورئہ حمد آیت ۶۔ ٧۔ )

۱۸

رَبَّ اٰنتَقَبَّل مِناٰاِّنَّکَ اَنتَْ السّميعُ العَْليِمُ ( ١)

“اور دل ميں یہ دعا تهی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا ہے ”

رَبَّنَاء تِاٰنَا فِی الدُّنيَْاحََسَنَةًوَفِی الآْخِرَةِحَسَنَةًوَقِنَاعَذَابَ النَّارِ ( ٢)

“پروردگار ہميں دنيا ميں بهی نيکی عطا فرما اور آخرت ميں بهی اور ہم کو عذاب جہنم سے محفوظ فرما”

رَبَّ اٰنافرِْغ عَلي اْٰنصَبرَْاًوَثَبِّت اق اْٰ دمَ اٰنوَانصُْر اْٰنعَلی القَْومِ ال اْٰ کفِرینَ ( ٣)

“خدایا ہميں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہميں کافروں کے مقابلہ ميں نصرت عطا فرما”

رَبَّ اٰنلَاتُواخِذنَْااِن نَسِينَْااَواَْخطَْانَارَبَّنَاوَلَاتَحَمِّل عَلَينَْااِصرْاًکَمَاحَمَلتَْهُ عَلیَ الَّذِینَْ مِن قَبلِْنَارَبَّنَاوَلَاتُحَمِّلنَْامَالَاطَاقَةَلَنَابِهِ وَاعفُْ عَنَّاوَاغفِْرلَْنَا وَارحَْمنَْااَنتَْ مَولَْانَا فَانصُْرنَْاعَلیَ القَْومِْ الکَْافِرِینَْ ( ۴)

“پروردگار ہم جو کچه بهول جائيں یا ہم سے غلطی ہوجائے اسکا ہم سے مواخذہ نہ کرنا خدایا ہم پر ویسا بوجه نہ ڈالنا جيسا پہلے والی امتوں پر ڈالاگيا ہے پروردگار ہم پر وہ بارنہ ڈالنا جس کی ہم ميں طاقت نہ ہوہميں معاف کردینا ہميں بخش دیناہم پر رحم کرنا تو ہمارا مولا اور مالک ہے اب کافروں کے مقابلہ ميں ہماری مدد فرما”رَبَّ اٰنلَاتُزِغ قُلُوبَْنَابَعدَْاِذهَْدَیتَْنَاوَهَب لَنَامِن لَّدُنکَْ رَحمَْةًاِنَّکَ اَنتْ

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت ١٢٧ )

٢)سورئہ بقرہ آیت ٢٠١ )

٣)سورئہ بقرہ آیت ٢۵٠ ۔ )

۴)سورئہ بقرہ آیت ٢٨۶ ۔ )

۱۹

اَلْوَهَّابُ ( ١)

“ان کا کہنا ہے کہ پروردگار جب تونے ہميں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں ميں کجی نہ پيدا ہونے پائے اور ہميں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہے ”

رَبَّ اٰناِنَّنَاسَمِعنَْامُنَادِیاًیُنَادِی لِلاِْیمَْانِ ان آمِنُواْبِرَبِّکُم فَآمَنَّارَبَّنَافَاغفِْرلَْنَا ذُنُوبَْنَاوَکَفِّرعَْنَّاسَيِّئَاتِنَاوَتَوَفَّنَامَعَ الاَْبرَْارِ رَبَّنَاوَآتِنَامَا وَعَدتَْنَاعَل یٰ رُسُلِکَ وَلَا تُخزِْنَا یَومَْ القِْيَامَةِ اِنَّکَ لَاتُخلِْفُ المِْيعَْادَ ( ٢)

“پروردگار ہم نے اس منادی کو سناجو ایمان کی آواز لگارہاتها کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے پروردگاراب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائيوں کی پردہ پوشی فرما اور ہميں نيک بندوں کے ساته محشور فرما پروردگار جو تو نے اپنے رسول سے وعدہ کيا ہے اسے عطا فرما اور روز قيامت ہميں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہيں کرتا”

( رَبَّنا اٰٴَفرِْغ عَليناْٰصَبرْاً وَتَوَفَّنَا مُسلِْمِينَْ ) ( ٣)

“خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہميں مسلمان دنيا سے اڻهانا”( رَبَّ اٰنآمَنَّافَاغفِْرلَْنَاوَارحَْمنَْاوَاَنتَْ خَيرٌْالرَّاحِمِينَْ ) ( ۴)

“پروردگار ہم ایمان لائے ہيں لہٰذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہم پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے ”’

( رَبَّ اٰناصرِف عَنَّاعَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَاکَانَ غَرَاماً ) (۵)

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت ٨۔ )

٢)سورئہ آل عمران آیت ١٩٣ ۔ ١٩۴ )

٣)سورئہ اعراف آیت / ١٢۶ ۔ )

۴)سورئہ مو منون آیتِ ١٠٩ ۔ )

۵)سورئہ فرقان آیت/ ۶۵ ۔ )

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

صلح حديبيہ كے سياسي، مذہبى اور معاشرتى نتائج

بعض مسلمانوں كى رائے كے برعكس(۳۴) صلح حديبيہ اسلام كى عظيم الشان فتح وكامرانى تھى چنانچہ قرآن نے اسے ''فتح مبين'' كے عنوان(۳۵) سے ياد كرتے ہوئے فرمايا ہے :

( إنَّا فَتَحنَا لَكَ فَتحًا مُبينًا )

''اے نبى (ص) ہم نے تم كو كھلى فتح عطا كردي''_

اور رسول خدا (ص) نے اسے ''اعظم الفتوح'' يعنى عظیم ترين فتح سے تعبير فرمايا ہے(۳۶)

اس دوركے اسلامى معاشرے كيلئے اس فتح ونصرت كے بہت سے عمدہ اورسود مند نتائج برآمد ہوئے جن ميں سے ہم بعض كا ذكر ذيل ميں كريں گے_

۱_رسول خد ا(ص) كى پيش قدمى كے باعث ايك طرف تو صلح وامن كے امكانات روشن ہوگئے اور دوسرى طرف مكہ كے فريب خوردہ لوگوں پر يہ حقيقت عياں ہوگئي كہ رسول خدا (ص) كے دل ميں حرمت كے مہينوں ' شہر مكہ اور خانہ خدا كے لئے بہت زيادہ عقيدت و احترام پايا جاتا ہے_

۲_ صلح حديبيہ كى وجہ سے اسلام كوباقاعدہ طور پر تسليم كرليا گيا اور قريش كے دلوں پر اس كى طاقت و عظمت بيٹھ گئي، اس صلح كے باعث ہى جزيرہ نما ئے عرب ميں اسلام كے وقار كو بلندى حاصل ہوئي اور مسلمانوں كے اثر و رسوخ كے امكانات وسيع ہوگئے _

۳_مسلمانوں پر اس وقت تك جو پابندياں عائد تھيں وہ ختم ہوگئيں اور وہ ہر جگہ رفت و آمد كرسكتے تھے چنانچہ اس باہمى ربط و ضبط كا ہى نتيجہ تھا كہ لوگوں نے اسلام كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ واقفيت حاصل كى _

۲۲۱

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں دين اسلام كى اشاعت كيلئے مناسب ميدان فراہم ہوگيا اب تك مختلف قبائل كے دلوں ميں اسلام كے بارے ميں غلط فہمى اور بدگمانى تھى ان افراد كو جب رسول خدا (ص) نے صلح پسندى كى دعوت عام دى تو وہ لوگ اسلام كے بارے ميں از سر نو غور وفكر كرنے مجبور ہوگئے اور اس كى وجہ سے وہ رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے زيادہ نزديك آگئے_ صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے درميان تقريباً دو سال كا ہى فاصلہ ہے اور يہ فتح اس حقيقت پردلالت كرتى ہے كہ اس كے باعث مسلمانوں كے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوا_

۵_ اس فتح كے باعث ہى مسلمانوں پر ''فتح خيبر'' كى راہيں كھليں''خيبر'' درحقيقت يہود يوں كى وہ سرطانى غدود تھى جو اسلامى حكومت كيلئے بہت بڑا خطرہ بنى ہوئي تھى اسى طرح مركز شرك ، مكہ كى فتح كا باعث بنى اور سب سے اہم بات يہ تھى كہ عرب معاشرے ميں جو انقلاب رونما ہوا تھا اب وہ حجاز كى باہر پہنچنے لگا چنانچہ يہ صلح حديبيہ كا ہى فيض تھا كہ رسول خدا (ص) كو يہ موقع مل گيا كہ آنحضرت (ص) ايران ، روم اور حبشہ جيسے ممالك كے حكمرانوں كو متعدد خط روانہ كريں اور انہيں دعوت اسلام ديں_

۲۲۲

سوالات

۱_ سپاہ احزاب كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ رسول خدا (ص) نے كونسى جنگ كے بعد :''اَلْيَوْمَ نَغْزُوْهُمْ وَ لَا يَغْزُونَا'' كا جملہ ارشاد فرمايا؟_ مختصر الفاظ ميں اس كا جواب ديجئے_

۳_ رسول خدا (ص) نے ''بنى قريظہ'' كے عہد شكن لوگوں كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۴_ '' بنى قريظہ'' پر جو مسلمانوں كو فتح ونصرت حاصل ہوئي اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ غزوہ ''بنى مصطلق'' كا واقعہ كب اور كس وجہ سے پيش آيا اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۶_ قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے لوگ كس وجہ سے دين اسلام كى جانب مائل ہوئے ؟

۷_ رسول خدا (ص) كب اور كتنے مسلمانوں كے ہمراہ عمرہ كرنے كى خاطر مكہ كى جانب روانہ ہوئے ؟

۸_ وہ كون لوگ تھے جنہوں نے غزوہ حديبيہ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ شركت كرنے سے روگردانى كى ؟ اس سفر كے بارے ميں ان كى كيا رائے تھي؟

۹_ ''بيعت رضوان'' كس طرح اور كس مقصد كے تحت كى گئي تھى ؟

۱۰_ صلح حديبيہ كے كيا سودمند اور مفيد نتائج برآمد ہوئے؟

۲۲۳

حوالہ جات

۱_سورہ احزاب آيت ۹_

۲_اس كے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا :لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منْ بُيُوْت الْمُشْركيْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ وَهْنٌ بقَتْل عَمْرو: _ وَ لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منَ الْمُسْلميْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ عزُّ بقَتْل عَمْرو :_بحارالانوار ج ۲۰ _ ص ۲۰۵(مشركين كے گھروں ميں كوئي گھرايسا نہ بچا جس نے عمرو ابن عبدود كے قتل پر سوگ اور ذلت محسوس نہ كى ہو اور مسلمانوں كے گھروں ميں كوئي گھر ايسا نہ تھا جس نے عمركے قتل پر اظہار خوشى اور اس ميں اپنى عزت محسوس نہ كى ہو''_

۳_اس واقعہ كى تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۲۴_ ۳۲۶_

۴_الارشاد ص ۵۶ و بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۹_

۵_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۷_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۹_''سعد '' كے حاكم مقرر كئے جانے كى ممكن ہے يہ وجہ ہو كہ چونكہ قبيلہ اوس اور يہود بنى قريظہ ايك دوسرے كے حليف تھے اور جب مسلمانوں كے ہاتھوں يہودى گرفتار ہو كر آرہے تھے تو اوس قبيلہ كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تھى اور آنحضرت (ص) سے اصرار كے ساتھ درخواست كى تھى كہ ان كى خاطر ''بنى قريظہ'' كو بالكل اسى طرح آزاد كرديا جائے جيسے كہ ''بنى قينقاع'' كو عبداللہ ابن ابى خزرجى كى درخواست پر رہا كيا گيا تھا _ رسول خدا (ص) نے اس خےال كے پيش نظر كہ وہ يہ محسوس نہ كريں كہ ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھاجارہا ہے ان كے سردار كو حاكم مقرر فرمايا _

۱۰_''ابوعزہ'' وہ مشرك تھا جو اشعار ميں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كى ہجو كيا كرتا تھا جنگ بدر ميں وہ اسير ہوا _ اور اس قدر گريہ وزارى كى كہ رسول خدا (ص) نے اسے فديہ لئے بغير ہى اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ اسلام كے خلاف آئندہ كوئي اقدام نہ كرے گا ليكن اس نے اپنے عہد كا پاس نہ كيا اور جنگ احد ميں بھى شريك ہوا

۲۲۴

اور اشعار ميں رسول خدا(ص) (ص) كى ہجو بھى كى چنانچہ غزوہ ''حمراء الاسد '' ميں جب دوبارہ گرفتار ہو كر آيا اور رسول خدا (ص) سے معافى كى درخواست كى تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ : ''لَايُلْدَغُ الْمُوْمنُ منْ حُجْر: وَاحد: مَرَّتَيْن '' (مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا) اور اس كے قتل كئے جانے كا حكم صادر فرمايا_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۵۲ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۴۰_

۱۲_اعلام الورى ص ۷۹_

۱۳_تاريخ اسلام تاليف ڈاكٹر سيد جعفر شہيدى ص ۷۳ _ ۷۵_

۱۴_قرآن مجيد نے جنگ احزاب ميں ''بنى قريظہ '' كے كردار كو اس طرح بيان فرمايا ہے :( وَأَنزَلَ الَّذينَ ظَاهَرُوهُم من أَهل الكتَاب من صَيَاصيهم وَقَذَفَ فى قُلُوبهم الرُّعبَ فَريقًا تَقتُلُونَ وَتَأسرُونَ فَريقًا _وَأَورَثَكُم أَرضَهُم وَديَارَهُم وَأَموَالَهُم وَأَرضًا لَم تَطَئُوهَا وَكَانَ الله ُ عَلى كُلّ شَيئ: قَديرًا ) _ ''(احزاب ۲۶_ ۲۷) _''پھر اہل كتاب ميں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں كا ساتھ ديا تھا اللہ ان كے قلعوں سے انہيں اتار لايا اور ان كے دلوں ميں ايسارعب ڈال ديا كہ آج ان ميں سے ايك گروہ كو تم قتل كر رہے ہو اور دوسرے گروہ كو قيد كررہے ہو اور ان كے اموال كا وارث بنا ديا اور وہ علاقہ تمہيں ديا جس پر تم نے كبھى قدم بھى نہيں ركھا تھا اوراللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

۱۵_الارشاد ص ۵۸_

۱۶_مناقب آل ابى طالب ج ۱ ص ۱۹ _۲۰_

۱۷_تفسير القمى ج ۲ ص ۱۸۹_ ۱۹۲_

۱۸_اعلام الورى ص ۱۰۲ ومجمع البيان ج ۷ ص ۳۵۲ _ ۳۵۳_

۱۹_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۱۰_ ۲۱۲_

۲۰_الميزان ج ۱۶ ص ۳۰۲_

۲۱_التنبيہ و الاشراف مسعودى ص ۲۱۸_

۲۲_اس كى وجہ تسميہ شايد يہ تھى كہ اس سال صلح حديبيہ كے فيض سے مسلمين اور غير مسلمين كے درميان ديگر برسوں كى نسبت تعلقات زيادہ خوشگوار رہے اور مختلف افراد ايك دوسرے كے ساتھ بالخصوص اسلام اور رسول

۲۲۵

خدا (ص) سے زيادہ مانوس ہوئے_مترجم_

۲۳_ان غزوات اور سرايا سے متعلق مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو : تاريخ پيامبر(ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۳۹۰ _۴۲۵_

۲۴_واقدى اور ابن سعد نے لكھا ہے كہ يہ غزوہ ماہ شعبان سنہ ۵ ہجرى ميں پيش آيا ملاحظہ ہو المغازى ج ۱ ص ۴۰۴ واطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۳_

۲۵_فريد'' نامى مقام كے نواح ميں ساحل كى جانب ايك علاقہ ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۱۸_

۲۶_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۰۷_ ۳۰۸_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۵۷۲ _ ۵۷۴ ، الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۹۵_

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۵۷۴_ ۵۷۵_

۲۹_سورہ فتح آيت ۱۲_

۳۰_يہ جگہ مكہ سے تقريباً ۲۰ كيلومٹر دور واقع ہے اور چونكہ يہاں اس نام كا پانى كا كنواں تھايا اس نام كے درخت كثرت سے تھے اس لئے يہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئي (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۲۲۹) آج يہ مقام مكہ كے بالكل كنارے پر واقع ہے_

۳۱_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۲۵ _۳۲۹_

۳۲_ سورہ فتح آيت ۱۸_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۳۰ _ ۳۳۴_

۳۴_ان لوگوں كا كہنا تھا كہ يہ كيسى فتح ہے ہميں نہ تو زيارت خانہ كعبہ ميسر آئي اور نہ ہى ہم منا ميں قربانى كرسكے : نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸ بلكہ بعض تو آپ(ص) كى نبوت كے متعلق بھى شكوك و شبہات كا شكار ہوگئے_

۳۵_سورہ فتح آيت ۱_

۳۶_تفسير نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸_

۲۲۶

سبق ۱۳:

جنگ موتہ

۲۲۷

دنيا كے بڑے بڑے حكمرانوں كو دعوت اسلام

صلح ''حديبيہ '' كے بعد رسول خد ا(ص) كو قريش كى جانب سے اطمينان خاطر ہوگيا _ اب وقت آگيا تھا كہ آنحضرت (ص) تبليغ دينكے محدودے كو سرزمين حجاز سے باہر تك پھيلائيں چنانچہ آپ (ص) نے دنيا كے ارباب اقتدار كو دين اسلام كى دعوت دينے كا عزم كرليا اور ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں چھ سفير رسول خدا (ص) كے چھ خط لے كر ايران، روم ، حبشہ ، مصر ، اسكندريہ اوريمامہ كى جانب روانہ ہوئے_(۱)

رسول خد ا(ص) كے خطوط جب مذكورہ بالا ممالك كے بادشاہوں تك پہنچے تو ہر ايك سے مختلف رد عمل ظاہر ہوا ، حبشہ كے بادشاہ نجاشى اور روم كے فرمانروا ''ہرقل'' نے آنحضرت (ص) كے رسول خدا (ص) ہونے كى گواہى دى اور كہا كہ انجيل ميں ہميں آپ (ص) كى آمد كے بارے ميں خوشخبرى دى جا چكى ہے اوريہ آرزو كى كہ آپ (ص) كى ركاب ميں رہنے كا شرف حاصل كريں_(۲)

مصر اور اسكندريہ كا فرمانروا ''مقوقس''اگرچہ دين اسلام سے تو مشرف نہ ہوسكا ليكن رسول خد ا(ص) كے خط كا جواب اس نے بہت نرم لہجے ميں ديا اور ساتھ ہى چند تحائف بھى روانہ كئے انہى ميں حضرت ''ماريہ قبطيہ'' بھى شامل تھيں جن كے بطن سے رسول خدا (ص) كے فرزند حضرت ابراہيم (ع) كى ولادت ہوئي_(۳)

''تخوم شام'' كے حاكم ''حارث بن ابى شَمر'' ،يمامہ كے فرمانروا ''سليط بن عمرو'' اور

۲۲۸

بادشاہ ايران ''خسرو پرويز'' نے اس بنا پر كہ ان كے دلوں ميں حكومت كى چاہ تھى رسول خدا (ص) كے خط كا جواب نفى ميں ديا_

بادشاہ ايران نے رسول خد ا(ص) كے نامہ مبارك كو چاك كرنے كے علاوہ يمن كے فرمانروا كو جو اس كے تابع تھا ،اس كام پرمامور كيا كہ وہ افراد كو حجاز بھيجے تاكہ رسول خدا (ص) كے بارے ميں تحقيقات كريں _(۴)

حجاز سے يہوديوں كے نفوذ كا خاتمہ

رسول خد ا(ص) جب صلح ''حديبيہ'' كے فيض و بركت سے جنوبى علاقے (مكہ) كى طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ (ص) نے فيصلہ كيا كہ وہ يہودى جو مدينہ كے شمال ميں آباد ہيں ان كا معاملہ بھى بنٹا ديں كيونكہ ان كا وجود اسلامى حكومت كيلئے خطرہ ہونے كے علاوہ شمالى حدود ميں اسلام كى توسيع و تبليغ ميں بھى مانع تھا اس لئے كہ جب رسول خدا (ص) كے قطعى لہجے اور عزم راسخ كى بنياد پر بڑى طاقتوں نے يا تو دين اسلام قبول كيا تھا ياپھر انہيں حكومت كى چاہ نے شديد رد عمل كيلئے مجبوركيا تھا صورت ضرورى تھا كہ اسلامى حكومت كا اندرونى حلقہ ان خيانت كار عوامل اور ان غدار اقليتوں سے پاك و صاف رہے جو دشمن كے ساتھ سازباز كرنے والى تھيںاور ان كے لئے پانچويں ستوں كا كام دے رہى تھيں تاكہ جنگ ''احد'' اور ''احزاب'' جيسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ايسا ميدان ہموار ہوجائے كہ بالفرض باہر سے كسى عسكرى و اقتصادى خطرے كا احتمال ہو تو اس كا اطمينان سے سد باب كياجاسكے_

۲۲۹

غزوہ خيبر

خيبر(۵) يہوديوں كا مضبوط ترين عسكرى مركز تھا كہ جس ميں دس ہزار سے زيادہ جنگجو(۶) سپاہى مقيم تھے ، رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ سب سے پہلے اس جگہ كو ان كے وجود سے پاك كياجائے(۷) چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں سولہ سو (۱۶۰۰)جنگ آزما سپاہيوں كو ساتھ لے كر آپ (ص) مدينہ سے خيبر كى جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان كے قلعوں كا محاصرہ كرليا ، اس لشكر كے علمدار حضرت على (ع) تھے_

قلعہ والوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عورتوں اور بچوں كو ايك اور ساز وسامان و خوراك كو دوسرے مطمئن قلعے ميں محفوظ كرديں ،اس اقدام كے بعد انہوں نے ہر قلعے كے تير اندازوں كو حكم ديا كہ مسلم سپاہ كو اندر داخل ہونے سے روكيں اور ضرورت پڑنے پر قلعے كے باہر موجود دشمن سے بھى جنگ كريں _

سپاہ اسلام نے دشمن كے سات ميں سے پانچ قلعے فتح كرلئے اس جنگ ميں تقريباً پچاس(۵۰) مجاہدين اسلام زخمى ہوئے اور ايك كو شہادت نصيب ہوئي_

باقى دو قلعوں كو فتح كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے پہلے پرچم جناب ابوبكر كو ديا مگر انہيں اس مقصد ميں كاميابى نصيب نہ ہوئي اگلے دن حضرت عمر كو سپاہ كى قيادت دى گئي ليكن وہ بھى كامياب نہ ہوسكے_

تيسرے روز حضرت على (ع) كو يہ قلعہ فتح كرنے پر ماموركيا گيا، آپ (ع) نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ كرنے كيلئے روانہ ہوئے _

ادھر سے يہوديوں كے معروف دلير شہ زور '' مرحب '' بھى زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نكل كر باہر آيا اور پھردونوں شہ زوروں كے درميان نبرد آزمائي شروع ہوئي دونوں ايك دوسرے پر وار كرتے رہے كہاچانك حضرت (ع) كى شمشير براں مرحب كے فرق پر پڑى جس

۲۳۰

كے باعث اس كے خود اور سر كى ہڈى كے دو ٹكڑے ہوگئے ، مرحب كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ان كے حوصلے پست ہو گئے اور وہ فرار كركے قلعوں ميں پناہ گزيں ہوئے جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس كا دروازہ بھى بند كرليا ليكن حضرت على (ع) نے اپنى روحانى طاقت اور قدرت خدا كى مدد سے قلعے كے اس دروازے كو جسے كھولنے اور بند كرنے پر بيس(۸) آدمى مقرر تھے اكھاڑليا اور قلعہ كے باہر بنى ہوئي خندق پر ركھ ديا تاكہ سپاہى اس پر سے گزر كر قلعے ميںداخل ہوسكيں _(۹)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے دشمن كے سب سے زيادہ محكم ومضبوط قلعہ كو فتح كركے فتنہ خيبر كا خاتمہ كرديا اور يہوديوں نے اپنى شكست تسليم كرلي، اس جنگ ميں پندرہ مسلمان شہيد اور ترانوے(۹۳) يہودى تہ تيغ ہوئے _(۱۰)

يہوديوں پر فتح پانے كے بعد اگر رسول خد ا(ص) چاہتے تو تمام خيانت كاروں كو سزائے موت دے سكتے تھے ، انہيں شہر بدر اور ان كے تمام مال كو ضبط كيا جاسكتا تھا مگر آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں نہايت درگذراور فراخ دلى سے كام ليا چنانچہ انہى كى تجويز پر انہيں يہ اجازت دے دى گئي كہ اگر چاہيں تو اپنے ہى وطن ميں رہيں اور اپنے دينى احكام كو پورى آزادى كے ساتھ انجام ديں بشرطيكہ ہر سال اپنى آمدنى كا نصف حصہ بطور جزيہ اسلامى حكومت كو ادا كريں اور رسول خدا(ص) جب بھى مصلحت سمجھيں گے انہيں خيبر سے نكال ديں گے_(۱۱)

غزوہ خيبر ميں ''حُيَّى بن اخطب'' كى بيٹى ''صفيہ'' دوران جنگ مسلمانوں كى قيد ميں آئي تھيں رسول خدا(ص) نے''غزوہ خيبر'' سے فراغت پانے كے بعد پہلے تو انہيں آزاد كيا اورپھر اس سے نكاح كرليا _(۱۲) اسى عرصے ميں يہ اطلاع بھى ملى كہ حضرت''جعفر بن ابى

۲۳۱

طالب'' حبشہ سے واپس آگئے ہيں جسے سن كر آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ :''ان دو خبروں ميں سے كس پر اپنى مسرت كا اظہار كروں ، جعفر كى آمد پر يا خيبر كے فتح ہونے پر _(۱۳)

فدك

خيبر كے يہوديوں پر فتح پانے كے بعد مسلمانوں كا سياسى ، اقتصادى اور عسكرى مقام ومرتبہ بہت بلند ہوگيا اس علاقے ميں آباد يہوديوں پر كارى ضرب لگى اور ان پر مسلمانوں كا رعب بيٹھ گيا _

رسول خد ا(ص) كو جب خيبر كے يہوديوں كى طرف سے يكسوئي ہوئي تو آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كو وفد كے ہمراہ ''فَدَك''(۱۴) كے يہوديوں كے پاس روانہ كيا اور فرمايا كہ يا تو وہ دين اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا پھر جنگ كےلئے تيار ہوجائيں_

فدك كے يہودى اپنى آنكھوں سے خيبر كے يہوديوں كى شكست ديكھ چكے تھے اور انہيں يہ بھى معلوم تھا كہ انہوں نے رسول خد ا(ص) كے ساتھ مصالحت كرلى ہے اسى لئے انہوں نے صلح كو قتل اور قيد و بند پر ترجيح دى اور اس بات كيلئے آمادہ ہوگئے كہ ان كے ساتھ بھى وہى سلوك كيا جائے جو خيبر كے يہوديوں كے ساتھ روا ركھا گيا ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا(۱۵) چونكہ فدك كسى جنگ و خون ريزى كے بغير فتح ہوگيا تھا اسى لئے اسے خالص رسول خدا(ص) كى ذاتى ملكيت ميںشامل كرليا گيا اس جگہ كے متعلق ايسى بہت سى روايات موجود ہيں جن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ خداوند تعالى كے حكم سے رسول خدا(ص) نے فدك اپنى دختر نيك اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كو عطا كرديا_(۱۶)

۲۳۲

غزوہ وادى القري

رسول خدا (ص) نے يہود كى ''خيبر'' اور ''فدك'' جيسى پناہ گاہوں كو نيست ونابود كرنے كے بعد ''وادى القري'' كى تسخير كا ارادہ كيا اور يہوديوں كے قلعے كا محاصرہ كرليا ، انہوںنے جب يہ ديكھا كہ قلعہ بند رہنے سے كوئي فائدہ نہيں تو انہوں نے بھى اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے ان كے ساتھ بھى وہى معاہدہ كيا جو اس سے قبل خيبر كے يہوديوں كے ساتھ كيا جاچكاتھا(۱۷) _

''تيماء يہود'' كے نام سے مشہور(۱۸) علاقہ '' تيمائ''(۱۹) كے يہودى باشندوں نے جو رسول خدا (ص) كے سخت دشمن تھے ، جب دوسرے بھائيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان سے درس عبرت حاصل كيا اور اس سے قبل كہ رسول خدا(ص) انكى گوشمالى كے لئے ان كى جانب رخ كريں وہ خود ہى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور يہ وعدہ كركے كہ ''جزيہ'' ادا كريںگے رسول خدا (ص) سے معاہدہ صلح كرليا(۲۰) اور اس طرح حجاز ميں جتنے بھى يہودى آباد تھے انہوں نے اپنى شكست قبول كرلى اور يہ تسليم كرليا كہ اس علاقے كى اصل طاقت اسلام ہى ہے_

مكہ كى جانب روانگي

جب حجاز ميں اندرونى طور پر امن بحال ہوگيا اور دشمنوں كو غير مسلح كركے شورشوں اور سازشوں كا قلع قمع كرديا گيا نيز صلح ''حديبيہ'' كو ايك سال گزر گياتو رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ اصحاب كے ہمراہ مكہ تشريف لے جائيں اور زيارت كعبہ سے مشرف ہوں چنانچہ يكم ذى القعدہ سنہ ۷ ہجرى كو آنحضرت (ص) دو ہزار (۲۰۰۰) مسلم افراد كے ہمراہ عمرہ كرنے كى نيت

۲۳۳

سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_

وہ قافلہ جو عمرہ كرنے كى نيت سے روانہ ہوا تھا اس كے آگے آگے (۱۰۰) مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاكہ دشمن كى طرف سے كوئي خطرہ ہو تو وہ ان مسافرين كا دفاع كرسكيں جن كے پاس اتنا ہى اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں ركھا كرتے تھے _

جس وقت سپاہ اسلام كا مسلح ہر اول دستہ ''مرالظہران''(۲۱) نامى مقام پر پہنچا تو قريش كے سرداروں كو مسافرين كى آمد كا علم ہو اچنانچہ انہوں نے يہ اعتراض كيا كہ اسلحہ كے ساتھ مكہ ميں داخل ہونا ''صلح حديبيہ'' كے معاہدے كى خلاف ورزى ہے_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ ہم اسلحہ ساتھ لے كر حرم ميں نہيںجائيں گے، مشركين نے مكہ خالى كرديا اور اطراف كے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاكہ رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول(ص) كى تبليغ سے محفوظ رہتے ہوئے اوران كى حركات نيز افعال كا مشاہدہ كرسكيں_

رسول اكرم (ص) اپنے دو ہزار صحابيوں سميت خاص جاہ وجلال كے ساتھ مكہ ميں تشريف فرماہوئے ، جس وقت آپ (ص) خانہ كعبہ كى جانب تشريف لے جارہے تھے تو فضا''لبَبَّيكَ اللَّهُمَّ لَبَّيكَ'' كے نعروں سے ايسى گونج رہى تھى كہ مشركين كے دلوں پرغير معمولى رعب وخوف طارى تھا _

ناقہ رسول اكرم(ص) كى مہار حضرت'' عبداللہ ابن رواحہ'' پكڑكرچل رہے تھے وہ نہايت ہى فخريہ انداز ميں رجزيہ بيت پڑھ رہے تھے_

خَلُّوا بَني الكُفَّارَ عَن سَبيله

خَلُّوا فَكُلُّ الخَير في رَسُوله(۲۲)

''اے كفار كى اولاد رسول خد ا(ص) كےلئے راستہ صاف كردو انہيں آگے آنے كيلئے راستہ دو كيونكہ آنحضرت (ص) ہر خير كا منبع اور ہر نيكى كا سرچشمہ ہيں ''_

۲۳۴

رسول خدا (ص) پر اصحاب رسول (ص) پروانہ وار نثار تھے چنانچہ آپ(ص) ان كے حلقے ميں خاص رعب ودبدبے كے ساتھ داخل مكہ ہوئے اور طواف كرنے كيلئے ''مسجدالحرام'' ميں تشريف لے گئے_

اس سياسى عبادى سفر سے ممكن فائدہ اٹھانے كى خاطر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ زائرين زيادہ سے زيادہ اپنى دينى قوت كا مظاہرہ كريں(۲۳) نيز جس وقت طواف كريں تو حركت تيزى كے ساتھ كى جائے ، احرام كے كپڑے كو اپنے جسم كے ساتھ اس طرح لپيٹيں كہ قوى و تند مند بازو لوگوں كو نظر آئيں تاكہ ديكھنے والوں پر ان كى ہيبت طارى ہو _(۲۴)

ظہر كے وقت حضرت ''بلال'' كو حكم ديا گيا كہ وہ خانہ كعبہ كى چھت پر جائيں اور وہاں سے اذان ديں تاكہ خداوند تعالى كى وحدانيت اور رسول خد ا(ص) كى عظمت مجسم كا اہل مكہ عينى مشاہدہ كرسكيں اور جو لوگ فرار كركے پہاڑوں پر چلے گئے ہيں وہ يہ بات اچھى طرح جان ليں كہ اب وقت فرار گزر چكا ہے واپس آجائو ، نماز اور فلاح كى جانب آنے ميں جلدى كرو_

''حَيَّ عَلَى الصَّلوة ، حَيَّ عَلَى الفَلَاَح''

حضرت بلال كى آواز نے قريش كے سرداروں پر ہر كچل دينے والى ضرب اور ہر شمشير براں سے زيادہ اثر كيا اور انتہائي طيش وغضب ميں آكر ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ''خدا كا شكر ہے كہ ہمارے باپ دادا اس غلام كى آواز سننے سے پہلے ہى اس دنيا سے كو چ كرگئے اور انہيں يہ دن ديكھنا نصيب نہ ہوا''_

اس طرح ''عمرہ القضا'' كاميابى اور كامرانى كے ساتھ ادا ہوا ، جس كے ذريعے خانہ كعبہ كى زيارت بھى ہوگئي اور عبادت بھى اس كے ساتھ ہى كفر كو اسلام كى طاقت كا اندازہ

۲۳۵

ہوا اور آئندہ سال فتح مكہ كا ميدان بھى ہموار ہوگيا چنانچہ اس كے بہت سے سياسى ، عسكرى اورثقافتى اثرات نہ صرف اہل مكہ و قبائل اطراف بلكہ خود مسلمانوں كے قلوب پر نقش ہوئے_

يہ سياسى عبادى تحريك قريش كے سرداروں كے دلوں پر ايسى شقاق و گراں گزرى كہ انہوں نے تين دن بعد ہى رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں اپنا نمائندہ روانہ كيا اور كہا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے مكہ سے چلے جائيں_

اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكہ كى ''ميمونہ'' نامى خاتون سے رشتہ ازدواج قائم كيا تاكہ قرش كا تعلق آپ (ص) كے ساتھ مستحكم اور دشمنى وعداوت كا جذبہ كم ہوجائے كيونكہ اس كى قريش كے سرداروں سے قرابت دارى تھى(۲۵) يہى نہيں بلكہ رسول خدا (ص) نے يہ بھى چاہاكہ شادى كى رسومات مكہ ميں ادا كردى جائيں اور آپ (ص) قريش كو دعوت وليمہ ميں مدعو فرمائيں اگريہ كام انجام پذير ہوجاتا تو اہل مكہ كو اپنى طرف مائل كرنے ميںمؤثر ہوتا مگر افسوس اہل مكہ نے اس تجويز كوقبول نہ كيا چنانچہ رسول خدا (ص) نے يہ رسم مكہ سے واپس آتے وقت ''سرف''(۲۶) نامى مقام پر پورى كي_(۲۷)

جنگ ''موتہ''

مدينہ كے شمال ميں اور مدينہ سے شام كى طرف پرنے والے تجارتى رستے ميں آبادخيبر' فدك ' وادى القرى اور تيماء جيسے يہود يوں كے مراكز اور اہم مقامات كا قلع قمع ہونے كے ساتھ ہى اسلام كے سياسى اورمعنوى نفوذكا ميدان شمالى سرحدوں كى جانب مزيد ہموار ہوگيا_

۲۳۶

اس علاقے كى اولاً اہميت اس وجہ سے تھى كہ وہ عظیم ترين تمدن جو اس زمانے ميں سياسى 'عسكرى ' اجتماعى اور ثقافتى اعتبار سے انسانى معاشرے كا اعلى و نماياں ترين تمدن شمار كيا جاتا تھا يہيں پرورش پارہا تھا دوسرى وجہ اس كا سرچشمہ آسمانى آئين و قانون تھا يعنى وہ آئين و قانون جس كى دين اسلام سے بيشتر واقفيت و ہم آہنگى ہونے كے علاوہ اس كے اور اسلام كے درميان بہت سى مشترك اقدار تھيں او ريہ مقام ديگر مقامات كى نسبت بہتر طور پر اور زيادہ جلدى حالات كو درك كرسكتا تھا اس كے علاوہ جغرافيائي اعتبار سے بھى يہ جگہ مدينہ سے نزديك تر تھى اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ سے قبل روم كى جانب توجہ فرمائي_

رسول خدا (ص) نے حضرت ''حارث بن عمير'' كے ہاتھ اپنا خط ''بصرہ'' كے بادشاہ كے نام جو ''قيصر'' كا دست پروردہ تھا روانہ كيا جس وقت رسول خدا (ص) كا يہ ايلچى ''موتہ''(۲۸) نامى گائوں پہنچا تو شرحبيل غسانى نے اسے قتل كرديا يہ واقعہ رسول خدا (ص) پر انتہائي شاق گزرا اور آنحضرت (ص) نے فوراً يہ فيصلہ كرليا كہ اس كا سد باب كياجائے چنانچہ آپ (ص) نے ماہ جمادى الاول سنہ ۸ ہجرى ميں تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل لشكر ''موتہ'' كى جانب روانہ كرديا_

اس وقت تك مدينہ سے باہر جتنے بھى لشكر روانہ كئے گئے ان ميں سے سب سے بڑا لشكر تھا ،رسول خدا (ص) اسے رخصت كرنے كيلئے مسلمانوں اور سپاہيوں كے قرابت داروں كے ہمراہ مدينہ كے باہر تك تشريف لائے حضرت'' زيد بن حارثہ'' كوسپہ سالار نيز حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' و حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' كو حضرت زيد كا پہلا اور دوسرا نائب مقرر كرنے(۲۹) كے بعد آپ (ص) نے اس كى وضاحت فرمائي كہ جس معركہ كو سر كرنے كيلئے جارہے ہيں اس كى كيا اہميت ہے اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں دعائے

۲۳۷

خير فرمائي_

لشكر اسلام شام كى جانب روانہ ہوا ،''معان''(۳۰) نامى جگہ پر اطلاع ملى كہ قيصر كے دو لاكھ عرب اور رومى سپاہى ''مآب'' نامى مقام پر جمع ہوگئے ہيں_

يہ خبر سننے كے بعد مسلمانوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ واپس چلے جائيں يا وہيں مقيم رہيں اور پورے واقعے كى اطلاع رسول خدا (ص) كو پہنچائيں يا پھر اسى مختصر سپاہ كے ساتھ اس فرض كو انجام ديں جس پر انہيں مامور كيا گيا ہے اور سپاہ روم كے ساتھ جنگ كريں_

اس اثناء ميں حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' اپنى جگہ سے اٹھے اور لشكر كے سامنے تقرير كرتے ہوئے انہيں يہ ترغيب دلائي كہ اپنے فرض كو ادا كريں اور سپاہ روم كے ساتھ نبردآزماہوں ان كى تقرير نے سپاہ كے اندر ايسا جوش و ولولہ پيدا كيا كہ سب نے متفقہ طور پر فيصلہ كيا كہ سپاہ روم كے ساتھ جنگ كى جائے چنانچہ اس كے بعد وہ لشكر موتہ ميں ايك دوسرے كے مقابل تھے_

حضرت زيد نے پرچم سنبھالا اور جان پر كھيل كر وہ دوسرے مجاہدين كے ساتھ شہادت كے شوق ميں بجلى كى طرح كوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے دشمن تجربہ كا راور جنگ آموزدہ تھا اس كا لشكر نيزوں 'تلواروں اور تيز دھار تيروں سے آراستہ تھا اور اس طرف كلمہ توحيد ' جسے بلند وبالا كرنے كيلئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنى جان پر مول ليا تھا اورسپاہ روم پر يہ ثابت كرديا كہ وہ اپنے دين و آئين اور مقدس مقصد كو فروغ دينے كى خاطر جان تك دينے كيلئے دريغ نہيں كرتے_

دشمن كى توجہ سپاہ اسلام كے عملدار كى جانب مبذول ہوئي اس نے اسے اپنے نيزوں

۲۳۸

كے حلقے ميں لے كر اسے زمين پر گراديا، حضرت ''جعفر(ع) ابن ابى طالب(ع) '' نے فوراً ہى پرچم كو اپنے ہاتھ ميں لے كرلہر ايا اور دشمن پر حملہ كرديا ، جس وقت انہوں نے خود كو دشمن كے نرغے ميں پايا اور يہ يقين ہوگيا كہ شہادت قطعى ہے تو اس خيال سے كہ ان كا گھوڑا دشمن كے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پيدل جنگ كرنے لگے يہاں تك كہ ان كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے آخر كار تقريباً اسى(۸۰) كارى زخم كھا كر شہادت سے سرفراز ہوئے_

حضرت جعفر (ع) كى شہادت كے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اسلام سنبھالا اور سپاہ روم كے قلب پر حملہ كرديا وہ بھى دليرانہ جنگ كرتے كرتے شہادت سے ہمكنار ہوئے_

''خالد بن وليد حال ہى میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے وہ بڑے ہى چالاك اور جنگجو انسان تھے ، مجاہدوں كى تجويز اور رائے پر اسے سپہ سالار مقرر كرديا گيا جب انہيں جنگ كرنے ميں كوئي فائدہ نظر نہ آيا تو انہوں نے اب جنگى حربہ تبديل كيا(۳۱) جس كى وجہ سے روميوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور اس نے اپنى فوج كو يہ سوچ كر پيچھے ہٹا ديا كہ آيا جنگ كى جائے يا نہيں ؟ _ اپنى اس حكمت عملى سے انہوں نے دشمن كے دولاكھ سپاہيوں سے سپاہ اسلام كو نجات دلائي اور واپس مدينہ آگئے_(۳۲)

ابن ہشام نے جنگ ميں شہداء كى تعدادبارہ(۳۳) اور واقدى نے آٹھ آدمى بيان كى ہے(۳۴) _

جنگ موتہ كے نتائج

جنگ موتہ گرچہ بظاہر مسلمانوں كى شكست اور سپہ سالاروں كى شہادت پر تمام ہوئي اور

۲۳۹

قريش نے اسے اپنى دانست ميں مسلمانوں كى ناتوانى سے تعبير كى _اس لئے اس جنگ كے بعد وہ ايسے دلير ہوگئے كہ انہوں نے قبيلہ ''بنى بكر'' كو اس وجہ سے مدد دينى شروع كردى كہ اس كى ان لوگوں كے ساتھ سازو باز ہوچكى تھى جس كے پس پردہ يہ سازش تھيكہ وہ ان كے اور قبيلہ ''خزاعہ'' كے درميان اس بناپر كشت وكشتار كا بازار گرم كردايں كہ اس قبيلے كا رسول خد ا(ص) كے ساتھ دوستى كا عہد وپيمان ہے چنانچہ انہوں نے قبيلہ ''خزاعہ'' كے چند افراد كو قتل كرديا اور صلحنامہ حديبيہ سے بھى روگردان ہوگئے نيز رسول خدا(ص) كے خلاف اعلان جنگ كرديا(۳۵) ليكن جب ہم اس جنگ كى اہميت كے بارے ميں غورو فكر كريں گے تو اس نتيجے پر پہنچيں گے يہ جنگ سياسى طور پر اور دين اسلام كى اشاعت كيلئے نہايت سودمند ثابت ہوئي كيونكہ اس وقت ايران وروم جيسى دو بڑى طاقتوں كا اس عہد كى دنيا پر غلبہ تھا ان كے علاوہ جو بھى دوسرى حكومتيں تھيں وہ سب كسى نہ كسى طرح سے انہى كى دست پروردہ تھيں اور ان ميں اتنى تاب ومجال تك نہ تھى كہ يہ سوچ سكيں كہ ايسا دن بھى آسكتا ہے كہ وہ ان كے مقابلے پرآ سكيں گے ان دونوں حكومتوں ميں بھى روميوں كو ايرانيوں پر اس وجہ سے برترى حاصل تھى كہ انہوں نے ايران سے جنگ ميں مسلسل كئي فتوحات حاصل كى تھيں_

جزيرہ نمائے عرب كو ايران نے مشرقى جانب سے اورروم نے مغربى طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے ميں لے ركھا تھا جيسے انگوٹھى كے درميان نگينہ اور ان دونوں ہى بڑى طاقتوں كے اس خطہ ارض سے مفادات وابستہ تھے اورانہوںنے يہاں اپنى نو آباديات بھى قائم كر ركھى تھيں(۳۶) _

جنگ موتہ نے ان دونوں بڑى طاقتوں بالخصوص روم كو يہ بات سمجھادى كہ اس كے اقتدار كا زمانہ اب ختم ہوا چاہتاہے اور دنيا ميں تيسرى طاقت ''اسلام'' كے نام سے پورے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248