دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 57133
ڈاؤنلوڈ: 2455


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57133 / ڈاؤنلوڈ: 2455
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

پہلی جلد :جس کا نام “فلاح السائل ”ہے جو رات اور دن کے اعمال کے سلسلہ ميں ہے اور اس کی دو جلدیں ہيں ۔

تيسری جلد :اس کتاب کا نام “زهرة الربيع فی ادعية الاسابيع ”۔

چو تهی جلد :اس کتاب کا نام جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع”۔

پانچویں جلد :اس کتاب کا نام “الدروع الواقية من الاخطار ”۔

چهڻی جلد :اس کتاب کا نام “المضمار للسباق واللحاق ”۔

ساتویں جلد:اس کتاب کا نام “السالک المحتاج الیٰ معرفة منا سک الحجاج ”۔

آڻهویں اور نویں جلد :ان دونوں کتابوں کا نام “الاقبال بالاعمال الحسنة فيما نذکرہ ممایعمل ميقاتاواحداًکل سنة ”۔

دسویں جلد :اس کتاب کا نام السعادات بالعبادات التی ليس لهاوقت محتوم و معلوم فی الروایات بل وقتهابحسب الحا دثات المقتضية والادوات المتعلقة بها جب ہم الله کے فضل وکرم سے ان کتابوں کو لکه کر فارغ ہو ئے تو ہم کو محسوس ہوا کہ ہم سے پہلے اس طرح کے علوم سے پرُ کتابيں کسی نے نہيں لکهيں اور یہ انسان کی ضروریات ميں سے ہے کہ انسان مرنے سے پہلے جزاکے طور پراپنی عبادات کو قبول کرانے اور قيامت ميں سرخرو ہونے کی استعدادکا ارادہ رکهتا ہے :

پہلا حصہ :“فلاح السائل ونجاح السائل فی عمل یوم و ليلة”۔ دوسرا حصہ : “زهرة الربيع فی ادعية الاسابيع ”۔

تيسرا حصہ :کتاب الرجوع فی زیارات وزیادات صلوات ودعوات الاسبوع فی الليل والنهار ۔

چو تھا حصہ :“الاقبال ”وہ اعمال حسنة جن کو انسان ہر سال ميں ایک مرتبہ انجام دیتا ہے ۔

۱۸۱

پانچواں حصہ :“اسرار الصلوات وانوار الدعوات ” اگر پروردگار نے مجھے اس کی تاليف کی مہلت دی تو ميں اس کو پوری زندگی ميں محفوظ رکهوں گا مگر یہ کہ خداوند عالم ایسے شخص کو اذن دے جس کو ميری وفات سے قبل اس ميں تصرف (کر نے کا حق حاصل ہو ”(١ )

سيد ابن طاووس سے متاخر دعا ؤں کے مصادر

آقا بزرگ محقق تہرانی تحریر کرتے ہيں :پهر علماء نے سيد بن طاووس کی مدون کتابوں ميں ان ادعيہ و اذکار کا اضافہ کياجو ائمہ عليہم السلام سے منسوب تھے اور جو پرانی دعاؤں کی کتابوں ميں درج تھے اور وہ کتابيں سيد ابن طاووس کے پاس مو جود نہيں تهيں اور وہ جلنے ،غرق ہو نے، زميں بوس ہو نے اور دیمک کے کهانے سے محفوظ رہ گئيں تهيں یہاں تک کہ وہ ہم تک پہونچيں ،تو ہم نے ان دعاؤں کو ان کی دعا کی کتابوں ميں درج کردیا ۔

ان افراد ميں سے شيخ سعيد محمد بن مکی ہيں جو ٧٨ ۶ ئه ميں شہيد ہو ئے ؛

شيخ جمال السالکين موجودہ کتاب “المزار ”کے مو لف ہيں، ابو العباس احمد بن فہد حلی مو لف کتاب “عدة الداعی ”اور کتاب “التحصين فی صفات العارفين ”متو فیٰ ٨ ۴ ١ ئه ۔

شيخ تقی الدین ابراہيم الکفعميمتوفیٰ ٩٠ ۵ ئه ،انهوں نے کتاب “جنة الامان الواقيہ ”،“بلد الامين ”،محا سبة النفس اور ائمہ عليہم السلام سے دوسری تمام ماثورہ دعائيں اور اذکار تحریرکئے ہيں انهوں کتاب “الجنة ”کے شروع ميں یہ تحریر کيا ہے کہ یہ کتاب معتمد اور صحيح السند کتابوں سے اخذ شدہ مطالب سے تحریر کی گئی ہے اور کتاب “الجنة ”اور “البلد ”کے دوسو سے زیادہ مصادر شمار

____________________

١)فلا ح السا ئل صفحہ / ٧۔ ٩ طبع ١٣٧٢ ئه شمسی ۔ )

۱۸۲

کئے ہيں اور ان ميں اصل متن کتاب کو بهی نقل کيا ہے اور ان ميں اکثر دعاوں کی قدیم کتابيں ہيں:

جيسے کتاب “روضة العابدین ”مو لف کراجکی ،متوفیٰ ۴۴ ٩ ئه ۔

کتاب “مفتاح الفلاح مولف شيخ بہا ئی متوفیٰ ١٠٣١ ئه ۔

کتاب “خلا صة الاذکار مولف محدث فيض کا شانی متوفیٰ ١٠٩١ ئه۔

اور علا مہ مجلسی متوفیٰ ١١١١ ئه ۔انهوں نے عربی زبان ميں بحار الانوار

تحریر کی ہے اور “زاد المعاد ” ، “تحفة الزائر ”،مقباح المصابيح ”، ربيع الاسابيع ”اور (مفاتح الغيب ”فارسی زبا ن ميںتحریر کی ہيں۔(١)

____________________

١٧٩ ۔ ١٨٠ ۔ / ١)الذریعہ الیٰ تصانيف الشيعہ جلد ٨ )

۱۸۳

دعااور قضا و قدر

دعااورقضاء و قدرخدا وند عالم نے ہر چيز کےلئے قضا و قدر قرار دیا ہے اور انسان ان دونوں سے کسی صورت ميں نہيں بچ سکتا ہے وہ خدا وند عالم کا حتمی و یقينی ارادہ ہے تو دعا کے مو قع پر انسان کيا کرے ؟

کيا جس چيز سے مشيت الٰہی اور اس کا علم یقينی طور پر متعلق ہو گياہو کيا دعا اس کو بدل سکتی ہے ؟

اور جب دعاميں اتنا اثر ہے کہ وہ قضا و قدر الٰہی ميں رد و بدل کر سکتی ہے تو یہ کيسے ہو سکتا ہے ؟

اس سوال کے جواب کےلئے قضا و قدر کی بحث کاچهيڑنا لا زم و ضروری ہے ۔۔۔اگر چہ ہم اس بحث کو چهيڑنے سے دعا کی بحث سے دور ہو کر فلسفہ کی بحث ميں دا خل ہو جا ئيں گے لہٰذا ہم اپنی ضرورت کے مطابق اس سوال سے متعلق بحث کو مختصر طور پربيان کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہيں ۔

تا ریخ اور کا ئنات ميں قا نو ن عليت

تاریخ اور کا ئنات کی حرکت کے مطابق یقينی اور عام طور پر بغير کسی استثنا ء کے قانون عليت جا ری و ساری ہے ۔

( للهِ مُلکُْ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرضِْ یَخلُْقُ مَایَشَا ءُ ) (١)

____________________

١)سورئہ شوریٰ آیت/ ۴٩ ۔ )

۱۸۴

“بيشک آسمان و زمين کا اختيار صرف الله کے ہاتهوں ميں ہے وہ جو کچه چا ہتا ہے پيدا کرتا ہے ’

( اِنَّ الله یَفعَْلُ مَایُرِیدُْ ) ( ١)

“الله جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے ”

( اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَایُرِیدُْ ) ( ٢)

“بيشک تمہارا پروردگا ر جو بهی چا ہے کرسکتا ہے ”

( اِنَّمَاقَولُْنَالِشَیءٍْ اِذَااَرَدنَْاهُ اَن نَقُولَْ لَهُ کُن فَيَکُونُْ ) ( ٣)

“ہم جس چيز کا ارادہ کرليتے ہيں اس سے فقط اتنا کہتے ہيں کہ ہو جا پھر وہ ہو جا تی ہے ”

( وَلَوشَْاءَ ال لٰ هُ لَذَهَبَ بِسَمعِْهِم وَاَبصَْارِهِم ) ( ۴)

“خدا چا ہے تو ان کی سماعت و بصارت کو بهی ختم کر سکتا ہے ”( وَال لٰ هُ یَختَْصُّ بِرَحمَْتِهِ مَن یَّشَا ءُ ) ( ۵)

“الله جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کر ليتا ہے ”

( یَرزَْقُ مَن یَّشَاءُ بِغَيرِْحِسَابٍ ) ( ۶)

“وہ جسے چاہتا ہے رزق بے حساب عطا کر دیتا ہے ”

____________________

١)سورئہ حج آیت/ ۴ا۔ )

٢)سورئہ هود آیت/ ٠٧ ا۔ )

٣)سورئہ نحل آیت/ ۴٠ ۔ )

۴)سورئہ بقرہ آیت / ٢٠ ۔ )

۵)سورئہ بقرہ آیت/ ٠۵ ا۔ )

۶)سورئہ آل عمران آیت/ ٣٧ ۔ )

۱۸۵

( وَالله یُوتِْی مُلکَْهُ مَن یَّشَاءُ ) ( ١)

“اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیدیتا ہے ”

( قُلِ الله ُّٰمَّ مَالِک المُْلکْ مَن تَشَاءُ وَتَنزَْعُ المُْلکَْ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّمَن تَشَاءُ وَتُذِلّ ( مَن تَشَاءُ بِيَدِکَ الخَْيرَْاِنَّکَ عَل یٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیرٌْ ) ( ٢)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خدا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتاہے اور جسے چا ہتا ہے سلب کرليتا ہے ۔جس کو چا ہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چا ہتا ہے ذليل کرتا ہے سارا خير تيرے ہاته ميں ہے اور تو ہی ہر شی پر قادر ہے ”

( اِن یَّشَایُذهِْبکُْم اَیُّهَاالنَّاسُ وَیَاتِ بِآخَرِینَْ ) ( ٣)

“وہ چاہے تو سب کو اڻها لے جا ئے اور دو سرے لوگوں کو لے آئے ” یہ آیات اور ان آیات کے مانند آیات قرآن کریم ميں بہت زیادہ مو جود ہيں اور ان آیات سے یہ صاف طور پر وا ضح ہے کہ الله تبارک و تعا لیٰ کا ئنات پر سلطان مطلق ہے اس کی کو ئی حد و حدود نہيں ہے اس کو کو ئی چيز عا جز نہيں کر سکتی اور نہ کو ئی چيز اس کےلئے ما نع ہو سکتی ہے ۔

وہ ہرچيز پر قا در ہے وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے وہ جو بهی چا ہے کر سکتا ہے ،اس سے کسی چيز کے بارے ميں سوال نہيں کيا جا ئے گا اور اُن سے سوال کيا جا ئيگا اور اس کو کو ئی چيز عا جز نہيں کر سکتی ہے ۔

یہود یوں کا یہ نظریہ ہے کہ خدا وند عالم کا ارادہ اس عام نظام عليت کا محکوم ہے جو کائنات اور تا ریخ پر حکم کر تا ہے ،اور خداوند عالم (یہودیوں کی نظر ميں )کائنات اور تا ریخ کو خلق کر نے کے بعد ان پر با دشاہت نہيں رکهتا ہے ۔

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت/ ٢۴٧ ۔ )

٢)سورئہ آل عمران آیت/ ٢۶ ۔ )

٣)سورئہ نساء آیت/ ٣٣ ا۔ )

۱۸۶

قرآن کریم اس بارے ميں فر ماتا ہے :

( وَقَالَتِ اليَْهُودُْیَدُال لٰ هِ مَغلُْولَْةٌ غُلَّت اَیدِْیهِْم وَلُعِنُواْبِمَاقَالُواْبَل یَدَاهُ مَبسُْوطَْتَانِ ) ( ١)

“اور یہو دی کہتے ہيں کہ خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں جبکہ اصل ميں انهيں کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں اور یہ اپنے قول کی بنا پر ملعون ہيں اور خدا کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”

ہم نے جوکچه بيان کياہے اس ميں کو ئی شک نہيں ہے اور اس بارے ميں قرآن کریم صاف طور پر بيان کر رہا ہے اور یہود یوں نے جو کچه کہا ہے اس کا باطل ہونا خود بخود ظاہر ہے۔

____________________

١)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶۴ ۔ )

۱۸۷

خدا وند عالم کے ارادہ کا قا نون عليت سے رابطہ

ہم اس قدرت اور حکومت کی رو شنی ميں جس کو قرآن کریم نے الٰہی ارادہ کے تحت کائنات، تا ریخ اور معا شرہ ميں مقرر کيا ہے تو فطری طور پر یہ سوال ذہن ميں آتا ہے کہ قانون عليت سے خدا کا کيا رابطہ ہے ؟

کيا یہ تعطيل ہے ؟یعنی الٰہی ارادہ قانون عليت کو معطل کر دیتا ہے جب خدا وند عالم اس کاارادہ کرنا چا ہے ۔

اس کا جواب بغير کسی شک و شبہ کے نفی ميں ہے ۔

الله نے علت کو خلق کيا ہے اور اس کے علاوہ کسی نے علت کی تخليق نہيں کی ہے ،علت کا خلق کرنا عليت کو با لضرورہ خلق کر نے کے برابر ہے ۔جس طرح اس نے آگ کو پيدا کيا اسی طرح اس ميں حرارت کو بهی پيدا کيا اور آگ کو (حرارت کے بغير پيدا کرنا زوج کو زوجيت(۱)

____________________

۱)اس ميں بہت کم فرق ہے پہلا وجو د کےلئے ضروری ہے اور دوسرا ما هيت کےلئے لا زم ) ہے ۔

۱۸۸

کے بغير پيدا کرنے کے مانند ہے ۔یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ الله آگ کو اس کے بغير پيدا کرے کہ وہ حرارت کےلئے علت ہوہاں وہ آگ کے علاوہ اس کو ایسی چيز ميں تو تبدیل کر سکتا ہے جو آگ کے مشابہ ہے ۔پس اس قول کا مطلب یہ نہيں ہے کہ کا ئنات اور تا ریخ پر ارادئہ الٰہيہ کے حاکم ہو نے سے قانون عليت کا معطل ہو جانا ہے ۔ پس ارادئہ الٰہيہ اور قانون عليت ميں کيا رابطہ ہے ؟

ارادئہ الٰہيہ قانون عليت پر بنفس نفيس قانون کی طرح حاکم ہے

قرآن کر یم نے اس علاقہ و رابطہ کی متعدد مقامات پرو ضاحت کی ہے اور بيان فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ حاکم مطلق ہے اور اسے اس قانون پر خوداس قانون کے با لکل اپنی جگہ پر باقی رہتے ہوئے مطلق تسلط حاصل ہے قرآن الله کے ارادہ کو معطل نہيں کرتا جيسا یہودیوں نے کہا ہے اور نہ نظام علت کو معطل کرتا ہے جيسا کہ اشاعرہ نے کہا ہے بلکہ یہ تو اس کا ئنات اور اس قانون پر الله کی حاکميت کو مقرر کرتا ہے جب وہ کسی قوم پر نعمت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس قوم پرہواؤ ں کو رحمت کی بشارت کےلئے رواں دواں کرتا ہے :

( هُوَ الَّذِی اَرسَْلَ الرِّیَاحَ بُشرْاً بَينَْ یَدَیهِْ رَحمَْتِهِ ) ( ١)

“اور وہی وہ ہے جس نے ہوا ؤں کو رحمت کی بشارت کے لئے رواں کر دیا ہے”

( الله الَّذِی اَرسَْلَ الرِّیَاحَ فَتُثِيرُْسَحَاباً ) ( ٢)

“الله وہی ہے جس نے ہوا ؤں کو بهيجا تو وہ بادلوں کو منتشر کر تی ہيں ”

( وَاَرسَْلنَْا الرِّیَاح لَوَا قِحَ فَا نزَْلنَْا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ) (٣)

____________________

١)سورئہ فر قان آیت/ ۴٨ ۔ )

٢)سورئہ فاطر آیت/ ٩۔ )

٣)سورئہ حجرآیت/ ٢٢ ۔ )

۱۸۹

“اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجه اڻها نے والا بنا کر چلا یا ہے پھر آسمان سے پا نی برسایا ہے ’

پاک و پاکيزہ ہے وہ ذات جو بادلوں کا بوجه اڻهانے والی ہواؤں کو بهيج کر آسمان سے پانی برساتا ہے اور جب وہ کسی قوم کو اپنی رحمت کی بشارت دینا چا ہتا ہے تو وہ اس پر ہواؤں کو رحمت کی بشارت دینے کے لئے رواں کرتا ہے تا کہ وہ بادلوں کو ليجا ئيں اور ان پر آسمان سے پانی برسائے تا کہ ان کی زمين ہری بهری ہو جا ئے جس ميں الله نے اپنی رحمت ودیعت کی ہے ۔

الله جس پر اپنی نعمتيں نازل کرناچا ہتا ہے اپنی نعمت کے ان ہی اسباب کے ذریعہ نعمتيں نازل کرتا ہے جس طرح وہ جب کسی قوم سے اس کے برے عمل کی وجہ سے انتقام لينا چا ہتا ہے عذاب کے اسباب کے ذریعہ انتقام ليتا ہے خدا وند عالم آل فرعون کی تنبيہ کے سلسلہ ميں ارشاد فر ماتا ہے :

( وَلَقَد اَخَذ اْٰنآلَ فِرعَْونَْ بِالسَّنينَ وَنَقصٍْ مِن اَ لثَّمَ اٰرتِ لَعَلَّهُم یَذَّکَّرُونَْ ) ( ١)

“اور ہم نے آل فر عون کو قحط اور ثمرات کی کمی کی گرفت ميں لے ليا کہ وہ شاید اسی طرح نصيحت حاصل کر سکيں ”

آل فرعون کے عذاب اور ان کی تنبيہ کا اختتام قحط اور خشک سالی پر ہوا اور“ سنون”سنة” کی جمع ہے جس کا مطلب قحط اور خشک سالی ہے ۔

جب خداوند عالم کسی قوم پر نعمت نازل کرنا چا ہتا ہے تو اسباب نعمت کے ذریعہ اس پر نعمت نا زل کرتا ہے اور اسباب نعمت سے ہوا اور بادل ہيں ۔جب کسی قوم پر عذاب نازل کرنا چا ہتا ہے تو اسباب عذاب کے ذریعہ اس پر عذاب نا زل کرتا ہے اور اسباب عذاب ميں سے قحط اور بہت کم بارش ہو نا ہے ۔

قانون تسبيب

قانو ن تسبيب سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم جس چيز کو چا ہتا ہے اس کو اخذ کرليتاہے اور

____________________

١) سورئہ اعراف آیت/ ١٣٠ ۔ )

۱۹۰

جس چيز ميں چا ہتا ہے اپنی مشيت کے اسباب متحقق کر دیتا ہے قرآن کریم ميں اس مطلب کے سلسلہ ميں بہت زیادہ شواہد مو جود ہيں خداوند عالم فر ماتا ہے :

( فَمَن یُرِدِالله اَن یَهدِْیَهُ یَشرَْح صَدرَْهُ لِلاِْسلْاَمِ وَمَن یُرِدَاَن یُّظِلَّهُ یَجعَْل صَدرَْهُ ضَيِّقاًحَرجاًکَاَنَّمَایَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ ) ( ١)

“پس خدا جسے ہدایت دینا چا ہتا ہے اس کے سينہ کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہی ميں چهوڑنا چا ہتا ہے اس کے سينہ کو ایسا تنگ اور دشوار گذار بنا دیتا ہے جيسے آسمان کی طرف بلند ہو رہا ہو وہ اسی طرح بے ایمانوں پر ان کی کثافت کو مسلط کر دیتا ہے ”

اور جس مطلب کا ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہيں اس مطلب کو یہ آیت مکمل طور پر واضح کر رہی ہے بيشک خدا وند عالم کسی قوم کی اس کے اعمال کے ذریعہ ہدایت یااس کو گمرا ہ کر نے کا ارادہ رکهتا ہے تو اگر ہدایت کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب فراہم کردیتا ہے یا ان کا سينہ اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جب وہ کسی قوم کو گمراہ کرنا چا ہتا ہے تو اس کے محقق ہو نے کے اسباب فراہم کرتا ہے اور اس قوم کے سينہ کو تنگ بنا دیتا ہے اور فرماتا ہے :

( وَاِذَااَرَدنَْااَن نُّهلِْکَ قَریَْةً اَمَرَنَامُترَْفِيهَْافَفَسَقُواْفِيهَْافَحَقَّ عَلَيهَْاالقَْولُْ فَدَمَّر َاهَاتَدمِْيرْاً ) ( ٢)

“اور ہم نے جب بهی کسی قریہ کو ہلاک کر نا چاہا تو اس کے ثروتمندوں پر احکام نافذ کردئے اور انهوں نے ان کی نا فرمانی کی تو ہماری بات ثابت ہو گئی اور ہم نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ”

جب خدا وند عالم کسی معاشرہ کو (ان کے اعمال کے سبب )ہلاک کرنا چا ہتا ہے تو تو اسی سبب

____________________

١)سورئہ انعام آیت/ ١٢۵ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت / ١۶ ۔ )

۱۹۱

کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے فاسد ہو نے کا سبب ہوتا ہے تو وہ اس کو آرام ميں ڈال دیتا ہے اور یہ آرام آہستہ آہستہ ان کے فسق ونافرمانی کا سبب ہو جاتا ہے پھر خدا وند عالم ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے ۔خدا وند عالم فر ماتا ہے :

( وَتَوَدُّونَْ اَنَّ غَيرَْذَاتِ الشَّوکَْةِ تَکُونُْ لَکُم وَیُرِیدُْ الله اَن یُحِقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَیَقطَْع دَابِرَالکَافِرِینَْ ) ( ١)

“اور تم چا ہتے تھے کہ وہ طاقت والا گروہ نہ ہو اور الله اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کر نا چا ہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو منقطع کر دینا چا ہتا ہے ” جب خدا وند عالم رسول اسلام (ص) کے ساته ثابت قدم رہنے والے مسلمانوں کے لئے حقانيت کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو جاہ و حشم اور شان و شوکت کے اسباب فراہم کردیتا ہے۔

جيسا کہ پرور دگار عالم نے ذات شوکت کے طریقہ کو مسلمانوں کے تکامل کا سبب قرار دیا ہے اور زمين پر لوگوں کے لئے ان کو قيموم اور ان کا امام قرار دیا ہے اسی طرح خداوند عالم نے لوگوں کے ہلاک کرنے کے لئے آزمائش و امتحان و آرام قرار دیا ہے ۔خداوند عالم فرماتا ہے :

( فَلاَتُعجِْبکَْ اَموَْالُهُم وَلَا اَولْاَدُهُم اِنَّمَایُرِیدُْالله لِيُعَذِّبَهُم بِهَافِی الحَْ اٰيةِ الدُّنيَْا وَتَزهَْقَ اَنفُْسُهُم وَهُم کَافِرُونَْ ) ( ٢)

“تمہيں ان کے اموال و اولاد حيرت ميں نہ ڈال دیں بس الله کا ارادہ یہی ہے کہ انهيںکے ذریعہ ان پر زندگانی دنيا ميں عذاب کرے اور حالت کفر ہی ميں ان کی جان نکل جا ئے ”

خداوند عالم نے ان کے اموال اور اولاد کو ان کے عذاب اور ہلاکت کا سبب قرار دیا ہے

____________________

١)سورئہ الا نفال آیت/ ٧۔ )

٢)سورئہ توبہ آیت/ ۵۵ ۔ )

۱۹۲

قانون توفيق

قانون توفيق قانون تسبيب سے قریب ہے یعنی خداوند عالم بندہ کے ذریعہ اسباب خير کو نافذ کرا دیتا ہے جب خداوند عالم کسی مریض کو شفا دینے کا ارادہ کرتا ہے تو ایک ایسے طبيب کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اس بندہ کے مرض کی علت کو پہچانتا ہے اور وہ دوائيں فراہم کردیتا ہے جس سے وہ مریض کا علاج کرتا ہے ۔

جب کسی بندہ کے خير کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اسباب ہدایت اور خير کی طرف ہدایت کردیتا ہے ، جب کسی بندہ کو رزق دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے اسباب رزق فراہم کردیتا ہے اور جب اس کے خلاف ارادہ کرتا ہے تو اسباب رزق کے مابين پردے حائل کردیتا ہے ۔

کائنات ميں سلطان مطلق الله کا ارادہ

ہر چيز الله کے ہاته ميں ہے اور وہ اس کی حکمت اور بادشاہت کے سامنے خاضع ہے :

( مَایَفتَْحِ الله لِلنَّاسِ مِن رَحمَْةٍ فَلاَ مُمسِْکَ لَهَاوَمَایُمسِْکَ فَلاَمُرسِْلَ لَهُ مِن بَعدِْهِ وَهُوَالعَْزِیزُْالحَْکِيمُْ ) ( ١)

“الله انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے اس کا کوئی روکنے والا نہيں ہے اور جس کو روک دے اس کا کو ئی بهيجنے والا نہيں ہے وہ ہر شے پر غالب اور صاحب حکمت ہے ”

( اِنَّ الله ٰ بَالِغُ اَمرِْهِ ) ( ٢)

“بيشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے ”( اِن یَنصُْرکُْمُ الله ٰ فَلَاغَالِبَ لَکُم وَاِن یَخذُْلَکُم فَمَن ذَاالَّذِی یَنصُْرکُْم )

____________________

١)سورئہ فاطر آیت/ ٢۔ )

٢)سورئہ طلاق آیت/ ٣۔ )

۱۹۳

( من بَعدِْهِ ) ( ١)

“الله تمہاری مدد کرے گا تو کو ئی تم پر غالب نہيں آسکتا اور وہ تمہيں چهوڑدے گا تو اس کے بعد کون مدد کرے گا ”

( وَاِذَا اَرَادَ الله ٰ بِقَومٍْ سُوءًْ فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَالَهمُْ مِن دُونِْه مِن اٰولٍ ) (٢) “اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کر ليتا ہے تو کو ئی ڻال نہيں سکتا ہے اور نہ اس کے علا وہ کو ئی کسی کا والی و سر پرست ہے ”

( اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیدُْ ) ( ٣)

“بيشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کر ہی کے رہتا ہے ”

( اِنَّ الله ٰ یَفعَْلُ مَایُرِیدُْ ) ( ۴)

“الله جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے ”

( اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُومِنُ الْمُهَيْمِنُ ) ( ۵)

“وہ بادشاہ ،پاکيزہ صفات ،بے عيب ،امان دینے والا ،نگرانی کرنے والاہے ”

خداوند عالم کے ارادہ اور قانون عليت کے مابين رابطہ

الله کے ارادہ اور قانون عليت کے مابين حتمی نظریہ فيصلہ کن قول یہ ہے کہ قانون عليت کائنات ميں یقينی اور عام طور پر نافذ ہو تا ہے ۔

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت/ ١۶٠ ۔ )

٢)سورئہ رعد آیت / ١١ ۔ )

٣)سورئہ ہود آیت/ ١٠٧ ۔ )

۴)سورئہ حج آیت/ ١۴ ۔ )

۵)سورئہ حشر آیت ٢٣ ۔ )

۱۹۴

مگر یہ قانون الله کی مشيئت کے سامنے محکوم ہے حاکم نہيں ہے اور الله کا ارادہ اس پر حاکم ہے الله کے ارادہ کے حاکم ہو نے کا مطلب اس قانون کوملغیٰ اور معطل قرار دینا نہيں ہے اور کيسے خدا اس قانون کوملغیٰ قرار دے سکتا ہے جبکہ اسی نے اس کو خلق فرمایا ہے ليکن خداوند عالم ان اسباب ميں سے جس کو چا ہتا ہے مڻا دیتا ہے اور جن کو چاہتا ہے قائم و دائم رکهتا ہے اور اس کائنات ميں جيسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اسباب عزت کے ذریعہ عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اسباب ذلت کے ذریعہ ذليل کرتا ہے ۔

اس بنا پر یہ انسان کے بس کی بات نہيں ہے کہ وہ اسباب و علل کے ذریعہ کائنات اور تاریخ کے مستقبل کا مطالعہ کرسکے چونکہ ہر امرميں الله کی مشيئت کا دخل ہے لہٰذا یہ اسباب و علل جس طرح الله چا ہتا ہے اسی طرح متغير ہو جا تے ہيں۔ کبهی طاقتور اور کمزور لشکر ایک دوسرے سے ڻکراتے ہيں جب ہم ميں سے کو ئی ایک ان دونوں کے مستقبل کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ یہی خبر دیتا ہے کہ طاقتور لشکر کو فتح نصيب ہو گی اور کمزور لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا مگرجب خداوند عالم چهوڻے گروہ کوبڑے لشکر پر غالب کرنا چاہتاہے تو ایسے اسباب فراہم کر دیتا جن کا گمان بهی نہيں ہوتاہے وہ بڑے گروہ کے دلوں ميں رعب و خوف پيدا کردیتا ہے اور چهوڻے گروہ کے دلوں ميں طاقت اور عزم و ارادہ کو محکم کردیتا ہے اور اس چھوٹی جماعت کے کارنامہ کو مضبوط کر دیتا ہے ليکن بڑے گروہ کے اس فعل کو مضبوط نہيں کرتا (یعنی ان کے دلوں ميں خوف و رعب اسی طرح باقی رہتا ہے )اور بڑی جماعت کوعسکری غلطيوں ميں مبتلاکر دیتا ہے اور چهوڻے گروہ کو مضبوط ومحکم کر دیتا ہے اور امور کو اسی کے مطابق انجام دیتا ہے :فتنصرالفئة القليلة علی الفئة الکثيرة اذاشاء الله

۱۹۵

“پس چهوڻے گروہ کو بڑے گروہ پر کامياب کردیتا ہے جب وہ چا ہتا ہے ”

چهوڻے اور بڑے گروہ کے جنگ کے راستہ کو ایک نہيں قرار دیتا جيسا کہ الله پر ایمان نہ لانے والے افراد گمان کرتے ہيں ،اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ کثرت اسباب مدد ميں سے نہيں ہے اور اقليت اسباب شکست ميں سے نہيں ہے ۔بيشک ہمارا یہ کہنا ہے کہ مدد کے دوسرے اسباب بهی ہيں اسی طرح شکست کے بهی دوسرے اسباب ہيں ،جب خداوند عالم کسی چهوڻے گروہ کی مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کےلئے فتح کے اسباب مہيا کردیتا ہے اور یہ اس کے قبضہ قدرت ميں ہے اور جب کسی بڑے گروہ کو شکست سے دو چار کرنا چا ہتا ہے تو اس کے اسباب فراہم کردیتا ہے اور یہ بهی اسی کے قبضہ قدرت ميں ہے :

( قَالَ الَّذِینَْ یَظُنُّونَْ اَنَّهُم مُلاَقُواْالله کَم مِن فِئَةٍ قَلِيلَْةٍ غَلَبَت فِئَةًکَثِيرَْةًبِاِذنِْ الله ( وَالله مَعَ الصَّابِرِینَْ ) ( ١)

“اور ایک جماعت جس نے خدا سے ملاقات کر نے کا خيال کيا تھا کہا کہ اکثر چهوڻے چهوڻے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجا تے ہيں اور الله صبر کرنے والوں کے ساته ہے ”

تکوین (موجودات )ميں بداء

کائنات ميں بداء کا مطلب یہ ہے :کائنات اور تاریخ ميں جو حادثات رونما ہو نے والے ہيں ان کے راستہ کو بدل دینا ۔اگر قانو ن عليت لوگوں کی زندگی پر حاکم ہو تا تو بہت سے مقامات ایسے آئے ہيں جہاں پر انسان پستی کے گڑهے ميں گرنے والا تھا تو اس مو قع پر مشيت الٰہی نے بڑه کر اس کو سہارا دیا اور پستی کے گڑهے ميں گرنے سے اس کو نجات دی ۔۔۔ جو قانون عليت کی حرکت کے خلاف ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ یہ قانون ملغیٰ (بے کار ) ہے اور اس کی کو ئی حيثيت نہيں ہے

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت ٢۴٩ ۔ )

۱۹۶

بلکہ خداوند عالم کی جانب سے یہ قانون محکوم ہے اوراس کے محکوم ہونے کے وہ نتائج ہيں جو لوگوں کی سمجه کے خلاف ہيں اور لوگ ان کو اسباب و مسببات اور علل و معلولات کا تسلسل کہتے ہيں ۔

قانون عليت ميں یہ تحکم الٰہی جو لوگوں کو چونکا دیتا ہے اور ان کے حسابات ميں تغير و تبدل کردیتا ہے اسے بداء کہا جاتا ہے جو اہل بيت عليہم السلام سے وارد ہو نے والی بہت سی روایات ميں بيان کيا گيا ہے ۔

“بداء ”کے ذریعہ کائنات ،تاریخ اور معاشرہ ميں تغير واقع ہو جاتا ہے وہ حادثات واقع ہو جاتے ہيں جن کو انسان شمار نہيں کر سکتا ،لوگوں کی توقع کے خلاف مدد ہو جا تی ہے ،وہ لوگ شکست کها جاتے ہيں جو کبهی شکست کے بارے ميں سوچ بهی نہيں سکتے تھے ،کمزور باشاہ بن جاتا ہے اور بادشاہ ذليل ہو جاتے ہيں ۔

۱۹۷

محو اور اثبات

محو اور اثبات کے معنی ميں بداء کے یہی معنی قرآن کریم ميں بيان ہو ئے ہيں :

( یَمحُْوالله مَایَشَاءُ وَیُثبِْتُ وَعِندَْهُ اُمُّ الکِْتَابِ ) (١) “الله جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے یا بر قرار رکهتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے ”

“اُمّ الکتاب ”سے مراد الله تعالیٰ کا علم ہے جس کو روایات کی زبان ميں “لوح محفوظ ”سے تعبير کی گئی ہے جس ميں محو اور تغيير واقع نہيں ہو تا اور نہ ہی خدا وند عالم ایسا ہے کہ وہ پہلے ایک چيز سے نا آگاہ ہو اور بعد ميں اس کو اس چيز کا علم حاصل ہو ۔

شيخ صدوق نے کتاب “ اکمال الدین ”ميں ابو بصير اور سماعة سے اور انهوں نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

____________________

١)سورئہ رعد آیت/ ٣٩ ۔ )

۱۹۸

من زعم انّ اللّٰه عزّوجلّ یبدوله في شي ءٍ لم یعلمه امس فابرووامنه (١) “جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ الله عز و جل کےلئے ایسی چيز کا علم حاصل ہو تا ہے جس کو وہ کل نہيں جانتا تهاتو اسے ہم سے برائت کرناچا ہئے ” محو “ کتاب تکوین ” ميں تو جاری ہو سکتا ہے ليکن “اُمُّ الکتاب ”جو خداوند عالم کا علم ہے اس ميں جا ری نہيں ہو سکتا ہے ۔

خداوند عالم کا علم ثابت ہے اس ميں کسی قسم کی رد و بدل اور تغير وتبدل واقع نہيں ہو سکتا ہے اور تغير و تبدل کائنات ،مجتمع اور تاریخ ميں ان اسباب کے ذریعہ واقع ہو تا ہے جن کو خداوند عالم نے ان کےلئے فراہم کر رکها ہے ۔عياشی نے ابن سنان سے اور انهوں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

انَّ اللّٰه یقدِّم مایشاء ویوخرمایشاء،ویمحومایشاء ویثبت مایشاء وعنده امّ الکتاب وقال فکل امریریده اللّٰه فهو فِيْ علمه قبل ان یصنعه ليس شي ء یبدوله الّاوقدکان فِيْ علمه، انّ اللّٰه لایبدوله من جهل ( ٢)

بيشک خداوند عالم جس چيز کو چا ہتا ہے مقدم کر دیتا ہے اور جس چيز کو چا ہتا ہے مو خر کردیتا ہے جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے ثابت (برقرار ) رکهتا ہے اس کے پاس اُمّ الکتاب ہے اور ہر وہ امر جس کا خداوند عالم ارادہ کرتا ہے وہ اس سے پہلے کہ اس چيز کو موجود کرے اس کے علم ميں ہے کو ئی ایسی چيز نہيں ہے جس کی وہ ابتدا کرے وہ اس کے علم ميں نہ ہو ،بيشک خداوندعالم کسی چيز کی ابتدا کرنے سے نا آگاہ نہيں ہے ”

____________________

١)بحار الانوار جلد ۴ صفحہ ١١١ ۔ )

٢)بحار الانوار جلد ۴ صفحہ ١٢١ ۔ )

۱۹۹

عمار بن مو سیٰ نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “جب حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سےیمحوالله کے سلسلہ ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:

اِنَّ ذلک الکتاب کتاب یمحواللّٰه مایشاء ویثبت،فمن ذلک یَرُدُّ الدعاء القضاء وذالک الدعاء مکتوب عليه الّذي یُرَدُّبه القضاء حتّٰی اذاصارالیٰ اُمِّ الکتاب لم یغن الدعاء فيه شيئاً ( ١)

“بيشک وہ کتاب ایسی کتاب ہے جس ميں سے الله جو چاہتا ہے اس کو مڻا دیتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے برقرار رکهتا ہے جو شخص دعا کے ذریعہ قضا کو رد کرنا چاہتا ہے تو وہ دعا خداوند عالم کے پاس لکهی ہو ئی ہے جس کے ذریعہ سے قضا ڻل جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ ام الکتاب تک پہنچتی ہے تو دعا اس ميں کچه نہيں کرسکتی ہے ”

خداوند عالم کائنات کے نظام ميں قانون عليت کے ذریعہ جس چيز کو چاہتا ہے ثابت رکهتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے ۔کبهی ایک معين و مشخص مرض صاحب مرض کی طبيعی اسباب کے ذریعہ مو ت کا سبب ہو تا ہے تو خداوند عالم اس کو اپنے اذن و امر سے اس کےلئے بر قرار رکهتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو مڻا دیتا ہے اور صاحب مرض کی شفا ء کے اسباب فراہم کردیتا ہے ۔اسباب کے معطل کرنے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ تکوین ميں توقانون محو جاری ہو جاتا ہے ليکن ام الکتاب ميں نہ محو جاری ہو تا ہے نہ کو ئی تغير وتبدل ہو تا ہے اور نہ ہی خداوند عالم کسی چيز سے ناآگاہ ہو نے کے بعد اس کا عالم ہوتا ہے۔

کتاب تکوین ميں یہ محو اسباب و مسببات کے نظام کےلئے خدا وند عالم کی “حکمت ”اور “رحمت ’ کی بنا پر جاری ہو تے ہيں ۔جب خداوند عالم کی “حکمت ”اور “رحمت ’ کائنات اورمعاشرہ ميں کسی چيز

____________________

١)بحارالانوار )

۲۰۰