دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)15%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68452 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس جنگ کے دائرہ حدودميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام فرزند رسول کےلئے نماز قائم کر نے زکات ادا کرنے اور فی سبيل الله جهاد کر نے کی گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد اس جنگ کے پس منظر کو بر قرار رکهتے ہوئے اس سلسلہ کو واقعہ کربلا کے بعد خدا کی طرف سے امامت ولایت اور قيادت سے متصل کر تاہے ہم اس گواہی کے سلسلہ ميں بہت سے فقرے حضرت امام حسين السلام کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :اشهدانک قد بلغت عن اللّٰهِ مَاامرک به ولم تخش احدا غيره،وجاهدت فی سبيله،وعبد ته،مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين واشهد انک کلمة التقویٰ،والعروة الوثقیٰ،والحجة علیٰ مَن یبقیٰ واشهد انک عبد الله وامينه،بلّغت ناصحاًوادیت اميناً،وقُتلتَ صدّیقاً،ومضيت علیٰ یقين،لم توثرعمیٰ علیٰ هدیٰ،ولم تُمل من حق الیٰ باطل اشهد انک قد اقمت الصلاة ،وآتيت الزکاة ،وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکرواتبعت الرسول وتلوت الکتاب حقّ تلاوته و دعوت الیٰ سبيل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة اشهد انک کنت علیٰ بيّنة من ربک قدبلّغت مااُمرت به وقمت بحقّهِ،وصدّقت مَن قبلک غيرواهن ولا موهن اشهد ان الجهاد معک،وان الحقّ معک واليک وانت اهله و معدنه،و ميراث النبوة عندک ”۔

“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے الله کے اس پيغام کو پہنچایا جس کا اس نے آپ کو حکم دیاتها اور آپ خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہيں ہوئے اورآپ نے راہ خدا ميں جہاد کيا اور اس کی خلوص کے ساته عبادت کی یہاں تک کہ آ پ کو موت آگئی ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کلمہ تقویٰ اور عروہ وثقیٰ اور اہل دنيا پر حجت ہيں اور ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے بندہ اور اس کے امين ہيں ، آ پ نے ناصحانہ انداز ميں پيغام حق پہنچایا اور امانت کو ادا کيا آپ صدیق شہيد کئے گئے ، اور یقين پر دنيا سے گئے ،ہدایت کے بارے ميں کبهی گمراہی کو ترجيح نہيں دی اورکبهی حق سے باطل کی طرف مائل نہيں ہوئے ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے نماز قائم کی ،اور زکوٰة ادا کی اور نيکيوں کا حکم دیابرائيوں سے روکااور رسول کا اتباع کيا اور قرآن کی تلا وت کی جوتلا وت کاحق تھا اورحکمت اور مو عظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلایا،ميں گواہی دیتا ہوںکہ آپ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے اور جو آپ کو حکم دیا گيا تهاآپ نے اسی کو پہنچایا،اس کے حق کے ساته قيام کياجس نے آپ کو قبول کيااس کی آپ نے اس طرح تصدیق کی کہ نہ اس کی کو ئی تو ہين ہواور نہ آپ کی تو ہين ہو ،ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ جہاد آپ کے ساته ہے اور حق آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کا معدن ہيں ” وارثت کی گواہی

۲۲۱

یہی وہ امامت ہے جس کی ہم نے اس زیارت ميں گواہی دی ہے اور وہ امامت حضرت امام حسين عليہ السلام کے بعد آپ کی نسل درنسل باقی رہے گی یہ امامت درميان ميں منقطع ہونے والی نہيں ہے یہ امامت ائمہ توحيد کی امامت ہے جو تاریخ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام سے مستقر ہوئی ہے حضرت آدم حضرت نوح اور حضرت ابراہيم سے رسول خدا (ص) حضرت علی اورامام حسن تک پہنچی ہے حضرت امام حسين عليہ السلام اس امامت کی تمام ارزشوں اور ذمہ داریوں کے وارث ہيں :

( انّ الله اصط فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْهِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَل یٰ العَْالَمِينَْ ذُرِّیَّةً بَعضُْهَا مِن بَعضٍْ وَالله ٰ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ ) ( ١)

“الله نے آدم ،نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے ”

حضرت امام حسين عليہ السلام کر بلا ميں اس وارثت کے عہدہ دارتھے :امام حسين عليہ السلام اس عظيم ميراث کو کر بلا تک لے گئے تا کہ لوگ اس کے ذریعہ دليل پيش کریں اس کا دفاع کریں اس

____________________

١)سورئہ آلِ عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔ )

۲۲۲

کی مخالفت کر نے والوں سے جنگ کریں یہ بلاغ المبين اسی رسالت کےلئے ہے جس ميراث کو حضرت امام حسين عليہ السلام نے آل ابراہيم اور آل عمران سے پایا تھا ۔

اس معرکہ کے وسط ميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام کےلئے گواہی دیتا ہے:

١۔اس مقام پر واضح طورپر یہ ثابت ہوجا تا ہے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام کی یزید سے جنگ اور حضرت ابراہيم عليہ السلام کے نمرود سے مقابلہ اسی طرح حضرت موسیٰ کا فرعون سے ڻکراؤ اور رسول خدا (ص)کی ابو سفيان سے مخالفت نيز حضرت علی کی معاویہ سے جنگ ميں کوئی فرق نہيں ہے۔

٢۔تمام مرحلوں ميں اس جنگ کا محور، روح توحيد ہے ۔

٣۔جو ميراث حضرت امام حسين عليہ السلام کو آل ابراہيم اور آل عمران سے ورثہ ميں ملی جس کےلئے آپ نے کربلا کے ميدان ميں قيام کيا وہ ميراث آپ کے بعد آپ کی ذریت ميں موجود رہی انصار جنهوں نے امام حسين عليہ السلام کا اتباع کيااسی طرح یہ ميراث ان کے تابعين جو آل ابرا ہيم اور آل عمران کی راہ سے ہدایت حاصل کرتے رہے ان ميں باقی رہی۔

ہم صالحين کی وراثت کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کی شہادت کےلئے زیارت وارثہ کے جملے پڑهتے ہيں :

السلام عليک یاوارث آدم صفوةالله ،السلام عليک یاوارث نوح نبي اللّٰه السلام عليک یاوارث ابراهيم خليل اللّٰه ،السلام عليک یاوارث مو سیٰ کليم اللّٰه،السلام عليک یاوارث عيسیٰ روح اللّٰه،السلام عليک یاوارث محمّدحبيب اللّٰه،السلام عليک یاوارث اميرالمومنين ولي اللّٰه

۲۲۳

“سلام آپ پر اے آدم صفی الله کے وارث ،سلام آ پ پراے نوح نبی خدا کے وارث، سلام آپ پر اے ابراہيم خليل خدا کے وارث،سلام آپ پراے مو سیٰ کليم الله کے وارث ،سلام آپ پر اے عيسیٰ روح الله کے وارث ،سلام ہوآ پ پر اے محمدصلی الله عليہ وآلہ حبيب خدامحمدمصطفےٰ کے وارث،سلام ہو آپ پر اے اميرالمو منين ولی الله کے وارث ”

آل ابراہيم اور آل عمران کی اس وراثت کی اگر چہ قرآن کی آیت کے مطابق ایک نسل ذریت کی طرف نسبت دی گئی ہے :

( ذُرِّیَّةً بَعضُْهَامِن بَعضٍْ ) ( ١)

“یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ” مگر یہ کہ یہ رسول خدا (ص)اور مو لا ئے کائنات کی جانب فرزندی کی طرف ذریتی انتساب کے عنوان کے علاوہ ایک اور عنوان ہے کيونکہ یہ عنوان براہ راست اس شہادت کے بعد وارد ہوا ہے :

“السلام عليک یابن محمّد المصطفیٰ ،السلام عليک یابن علی المر تضیٰ السلام عليک یابن فاطمة الزهراء السلام یابن خدیجة الکبری ” “سلام آپ پر اے محمد مصطفے کے فرزند سلام آپ پر اے علی مر تضیٰ کے دلبند سلام آپ پر اے فاطمہ زہرا کے لخت جگر سلام آپ پر اے خدیجة الکبریٰ کے فرزند ”

شاہد ومشہود

زیارتوں ميں گواہی سے متعلق روایات ميں شاہد اور مشہود کے درميان کوئی ربط نہيں ہے ان گواہيوں ميں زائر جس کی زیارت کر رہا ہے اس کی گواہی دیتا ہے :

انّک قد اقمت الصلاة وآتيت الزکاة وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکروجاهدت في سبيل الله حقّ جهادہ

“بيشک آپ نے نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اورنيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں سے روکا اور الله کی

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت/ ٣۴ ۔ )

۲۲۴

راہ ميں جہاد کيا جو جہاد کا حق تھا ” پس زائر شاہد اور جس کی زیارت کر رہا ہے وہ مشہودلہ ہے اور اس کا عکس بهی صحيح ہے

بيشک الله کے انبياء عليہم السلام اس کے رسول اور ان کے اوصياء امتوں پر شاہد ہيں اور رسول الله (ص) ان کے اوصياء اس امت کے شاہد ہيں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( وَیَومَ نبعثُ فی کُلّ اُمّةٍ شهيداًعليهم مِن انفُْسِهِم وَجِئْنٰابک شهيداًعلیٰ هٰولاٰء ) ( ١)

“اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انهيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئيں گے ۔۔۔”

( یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ اِنَّااَرسَْلنَْاکَ شَاهِداًوَمُبَشِّراًوَنَذِیرْاً ) ( ٢)

“اے پيغمبر ہم نے آپ کو گواہ،بشارت دینے والا ،عذاب الٰہی سے ڈرانے والا”( کَ لٰ ذِکَ جَعَلنَْاکُم اُمَّةً وَسَطاًلِتَکُونُْواْشُهَدَاءَ عَل یٰ النَّاسِ وَیَکُونَْ الرَّسُولُْ عَلَيکُْم شَهِيدْاً ) (٣)

“اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پيغمبر تمہا رے اعمال کے گواہ رہيں ” (( وَلِيَعلَْمَ الله الَّذِینَْ آمَنُواْوَیَتَّخَذَمِنکُْم شُهَدَاءَ ) (۴)

____________________

١)سورئہ نحل آیت/ ٨٩ ۔ )

٢)سورئہ احزاب آیت/ ۴۵ ۔ )

٣)سورئہ بقرہ آیت/ ١۴٣ ۔ )

۴)سورئہ آل عمران آیت/ ١۴٠ ۔ )

۲۲۵

“تا کہ خدا صاحبان ایمان کو دیکه لے اور تم ميں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمين کو دوست نہيں رکهتا ہے ”

( فاو ئِٰلکَ مَعَ الَّذِینَْ اَنعَْمَ الله عَلَيهِْم مِنَ النَّبِيِّينَْ وَالصِّدِّیقِْينَْ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَْ ) ( ١)

“وہ ان لوگوں کے ساته رہے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل کی ہيں انبياء ،صدیقين،شہداء اور صالحين ”

پس زائر ین شاہد کی منزل سے مشہود کی منزل ميں پہونچ جاتے ہيں اسی طرح مشہود لہ جن کے لئے ہم نماز زکات، امر بالمعروف اور جہاد کی گو اہی دیتے ہيں وہ شاہد بن جاتے ہيں ۔

زیارتو ں ميں واردہوا ہے :انتم الصراط الاقوم وشهداء دارالفناء وشفعاء دارالبقاء

اور حضرت اميرالمو منين عليہ السلام کی آڻهویں زیارت ميں آیا ہے :

مضيت للذی کنت عليه شهيداًوشاهداًومشهوداً

“اور جس مقصد پر آپ تھے اسی پر شہيد ہوئے اور شاہد و مشہود ہوئے ”

____________________

١)سورئہ نساء آیت/ ۶٩ ۔ )

۲۲۶

ب:الموقف

شہادت کے فيصلہ ميں حکم کا تابع ہے ۔

اور حکم سياست ميں موقف کاتابع ہوتا ہے ۔

مو قف کو واضح و صاف شفاف اورقوی ہونا چاہئے نيز نفس کو قربانی اور فدا کاری کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ۔

اور مسلمانوں کی تاریخ صفين اور کربلا جيسے واقعات ميں ان افراد سے مخصوص نہيں ہے جو اس حادثہ کے زمانہ ميں مو جود تھے بلکہ یہ مو قف خوشنودی ،رضایت ،محبت اور دشمنی کا لحاظ ان افراد کے لئے بهی ہوگا جو اُس حادثہ کے زمانہ ميں موجود نہيں تھے ۔

تاریخ ميں یہ ایام فرقان کی خصوصيات ميںسے ہے جن ميں لوگ دو ممتازمحاذوں ميں تقسيم ہوجا تے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک سے اختلاف بر طرف ہوجاتا ہے جس کی بناء پر حق اور باطل کسی شخص پر مخفی نہيں رہ جاتامگر یہ کہ الله نے اس کے دل،کان اور آنکه پر مہر لگا دی ہو ۔

یہ ایام لوگوںکو دو حصوں ميںتقسيم کرتے رہے ہيں اور اُن کو تاریخ ميںخو شنودگی ناراضگی، محبت اور دو ستی کی بنا پردو حصوں ميں تقسيم کرتے رہے ہيں اور تيسرے فریق کو ميدان ميں چهوڑتے رہے ہيں صفين اور کربلا انهيں ميں سے ہے۔

جو شخص بهی دونوںبر سر پيکار فریقوں کو درک کرکے بدر ،صفين اور کربلا کے واقعہ کاجا ئزہ لے وہ یا تو اِس فریق کی طرفدار ی کرے گا اوراس محاذميں داخل ہو جا ئيگا یا دوسرے فریق کی طرفداری کرے گااور دوسرے محاذ ميں داخل ہو جائيگا اس کو ان دونوں ميں سے کسی ایک سے مفر نہيں ہے اور یہی مو قف ہے ۔ خداوندعالم سيد حميری پر رحم کرے جنهوں نے اس تاریخی پہلو کو حق اور باطل کے درميان ہو نے والی جنگ کو اشعار ميں بيان کيا ہے :انی ادین بما دان الوصی به یوم الربيضة من قتل المحلينا وبالذی دان یوم النهر دنت له وصافحت کفه کفی بصفينا تلک الدماء جميعاربّ فی عُنُقی ومثله معه آمين آمينا “ميں جنگ جمل کے دن اسی مو قف کا حامل ہوں جس کو مو لائے کائنات نے اختيار کيا تهایعنی مخالفين کو قتل کرنا ” “اور نہروان کے دن بهی ایسے ہی مو قف کا حامل ہوں اورميرا یہی حال صفين کے سلسلہ ميں ہے ”

۲۲۷

“پروردگار وہ سارے خون ميری گردن پر ہيں اور مو لائے کائنات کے ساته ایسے وقائع ميں ہمراہی کےلئے ميں ہميشہ آمين کہتا رہتا ہوں ”

جو کچه صفين اور کربلا کی جنگ ميں رونما ہوا وہ حقيقی اور آمنے سامنے کی جنگ تهی جو مصاحف کے اڻه جانے اور حکمين کے صفين ميں حکم کرنے اور کر بلا ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اصحاب کے شہيد ہوجانے سے منقطع نہيں ہوئی بلکہ صفين اور کر بلا کو مخصوص طور پر یاد کيا جانے لگا اس لئے کہ یہ ہمارے نظر یہ کے مطابق تاریخ اسلام ميں حق اور باطل کے درميان فيصلہ کر نے والی جنگيں تين ہيں جنگ بدر ،صفين اور کر بلا تاریخ اسلام ميں ان ہی تينوں کو ایام فرقان کہا جاتا ہے ۔

یہ جنگ آج بهی فریقين کے درميان اسی طرح باقی وساری ہے ۔۔۔یہ تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخ موجود ہ امت کےلئے یہی سياسی اور متمدن تاریخ کی ترکيب شدہ شکل ہے اور ماضی (گزرے ہو ئے زما نہ) اور موجود ہ زمانہ ميں فاصلہ ڈالنا نہ ممکن ہے اور نہ ہی صحيح ہے ۔چونکہ فرزند اپنے آباء و اجداد سے “مواقع” اور“ مواقف ”ميں ميراث پاتے ہيں ۔موقف سے ہماری مراد تاریخ ميں حادث ہونے والے واقعات ہيں اور واقعہ حادث ہونے کے وقت انسان پر اپنے رفتار وگفتار سے عکس العمل دکها نا واجب ہے اس کو موقف کہا جاتاہے۔تو جب یہ جنگ ثقافتی جنگ تهی اور سمندر کے کسی جزیرہ یا زمين کے کسی ڻکڑے سے مخصوص نہيں تهی تو یہ جنگ یقينا ایک نسل سے دو سری نسل کی طرف منتقل ہوگی ما ضی کو پارہ کر کے حال سے متصل ہو جا ئيگی اور اس کو اولاد اپنے آباء و اجداد سے ميراث ميں پائيگی ایسی صورت ميں مو قف کو موقع سے جدا کرنا ممکن نہ ہوگا جس کی بنا ء پر یہ مواقع مو جودہ نسل کی طرف دونوں بر سر پيکار فریقوں ميں سے ہر ایک کے مو قف کی حمایت کی بناء پرمنتقل ہو جا ئيں گے ۔

یہ ميراث ایک فریق سے مخصوص نہيں ہے بلکہ جس طرح مو اقع و مو اقف سے صالحين کو صالحين کی ميراث ملتی ہے اسی طرح مستکبرین اور ان کی اتباع کرنے والے مستکبرین کے مو اقع اور مواقف کی ميراث پاتے ہيں ۔ہم اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایات ميں واضح طور پر مواقف کی ميراث کا مختلف صورتوں ميں زیارتوں ميں مشا ہدہ کرتے ہيں ہم ذیل ميں ان کے کچه نمونے پيش کرتے ہيں : ولایت و برائت

۲۲۸

اس کا آشکار نمونہ او لياء الله سے دو ستی اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے اس دو ستی اور دشمنی کا مطلب ان جنگوں اور ڻکراؤ سے خالی ہو نا نہيں ہے بلکہ یہ تو اس کا ایسا جزء ہے جو اِن جنگوں ميںسياسی مو قف سے جدا نہيں ہو سکتا جس کو اسلام نے دو حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ہم دو ستی کے سلسلہ ميں زیارت جا معہ معروفہ ميں پڑهتے ہيں :

اشهد الله واشهدکم انی مومن بکم وبماآمنتم به،کافربعدوکم وبما کفرتم به مستبصربکم وبضلالةمن خالفکم،موال لکم ولاوليائکم مبغض لاعدائکم ومعادٍلهم،سلم لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم محقق لماحققتم، مبطل لماابطلتم

“ميں خدا کو اور آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ ميں آپ پراور ہر اس چيزپر ایمان رکهتا ہوں جس پر آپ کاایمان ہے ،آپ کے دشمن کا اور جس کا آپ انکار کردیں سب کا منکر ہوں آپ کی شان کو اور آپ کے دشمن کی گمرا ہی کو جانتا ہوں ۔آپ کا اور آپ کے اولياء کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے عداوت رکهتا ہوں اس سے ميری صلح ہے جس سے آپ نے صلح کی ہے اور جس سے آپ کی جنگ ہے اس سے ميری جنگ ہے جسے آپ حق کہيں وہ ميری نظرميں بهی حق ہے اور جس کو آپ باطل کہيں وہ ميری نظرميں بهی باطل ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام ميں پڑهتے ہيں :لعن الله امةاسست اساس الظلم والجورعليکم اهل البيت،ولعن الله امة دفعتکم عن مقامکم وازالتکم عن مراتبکم التی رتبکم الله فيها

“خدا یا!اس قوم پر لعنت کرے جس نے آپ کے اہل بيت پرظلم وجورکئے اور اس قوم پرلعنت کرے جس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہڻادیا اور اس جگہ سے گرادیا جس منزل پر خدا نے آپ کورکها تھا ” اور

اللهم العن اول ظالم ظلم حقّ محمّدوآل محمّدوآخرتابع له علی ذلک،اللهم العن العصابةالتی جاهدت الحسين وشایعت وتابعت علی قتله اللهم العنهم جميعا

“خدایا !اس پہلے ظالم پر لعنت کر جس نے محمد وآل محمد پر ظلم کيا ہے اور اس کا اتباع کرنے والے ہيں ۔خدایا !اس گروہ پر لعنت کر جس نے حسين سے جنگ کی اورجس نے جنگ پراس سے اتفاق کر ليا اورقتل حسين پرظالموں کی بيعت کرلی ”

۲۲۹

زیارت عاشوراء غير معروفہ ميں آیا ہے :

اللهم وهذایوم تجددفيه النقمةوتنزل فيه اللعنةعلی یزیدوعلی آل زیاد وعمربن سعدوالشمر اللهم العنهم والعن مَن رضي بقولهم وفعلهم من اول وآخر لعناًکثيرا واصلهم حرنارک واسکنهم جهنم وساء ت مصيرا،واوجب عليهم وعلی کلّ مَن شایعهم وبایعهم وتابعهم وساعدهم ورضي بفعلهم لعناتک التي لعنت بهاکل ظالم وکل غاصب وکل جاحد،اللهم العن یزیذوآل زیادوبنی مروان جميعا،اللهم وضاعف غضبک وسخطک وعذابک ونقمتک علی اوّل ظالم ظلم اهل بيت نبيک،اللهم والعن جميع الظالمين لهم وانتقم منهم انک ذونقمةمن المجرمين

“خدایا ! یہ وہ دن ہے جب تيرا غضب تازہ ہوتاہے اور تيری طرف سے لعنت کا نزول ہوتا ہے یزید، آل زیاد، عمر بن سعد اور شمر پر۔خدایا ان سب پر لعنت کر اور ان کے قول و فعل پر راضی ہوجانے والوں پر بهی لعنت کر چاہے اولين ميں ہوںيا آخرین ميں سے کثير لعنت فرما اور انهيں آتش جہنم ميں جلادے اور دوزخ ميں ساکن کردے جو بدترین ڻهکانا ہے اور ان کے لئے اور ان کے تمام اتباع اور پيروی کرنے والوں اور ان کے فعل سے راضی ہوجانے والوں کے لئے ان لعنتوںکے دروازے کوکهول دے جوتو نے کسی ظالم ،غاصب ،کافر، مشرک اور شيطان رجيم یا جبار و سرکش پرنازل کی ہے۔ خدا لعنت کرے یزید و آل یزید اور بنی مروان پر خدایا اپنے غضب اپنی ناراضگی اوراپنے عذاب و عقاب کومزید کردے ا س پہلے ظالم پرجس نے اہل بيت پيغمبر پر ظلم کياہے اورپهر ان کے تمام ظالموں پر لعنت کر اور ان سے انتقام لے کہ تو مجرمين سے انتقام لينے والا ہے ”

۲۳۰

رضا اور غضب

دو ستی اور دشمنی ميں رضا اور غضب بهی داخل ہے :رضا یعنی جس سے او ليا ء الله راضی ہو تے ہيں غضب جن سے اولياء الله غضب ناک ہوتے ہيں ۔ خوشی اور غضب ،محبت اور عداوت ایمان کی واضح نشانياں ہيں اور ان کے ستون ميں سے ہيں یہ سياسی موقف کےلئے عميق فکر ہے ان دونوں (رضااور غضب) کے بغير سياسی موقف مضمحل اور پائيدار نہيں ہے ۔

یہ وہ رابطہ اور ذاتی ایمان ہے جو سياسی موقف کو عمق ،مقاومت اور استحکام عطا کرتا ہے رضا اور غضب کے سلسلہ ميں زیارت صدیقہ فاطمة الزہرا عليہا السلام ميں آیا ہے :

اشهدالله ورسله وملائکته انيراض عمّن رضيت عنه ساخط علی مَن سخطت عليه،متبرء ممن تبرّئت منه موالٍ لمن واليت معادٍلمَن عادیت مبغض لمن ابغضت،محبّ لمن احبّبت

“ميں الله، رسول اور ملا ئکہ کو گواہ بناکرکہتا ہوں کہ ميں اس شخص سے راضی ہوں جس سے آپ راضی ہيں اورہر اس شخص سے ناراض ہوں جس سے آپ ناراض ہيں ہراس شخص سے بيزارہوں جس سے آپ بيزار ہيں آپ کے چاہنے والوں کا چاہنے والا آپ کے دشمنوںکا دشمن، آپ سے بغض رکهنے والوں کادشمن اورآپ سے محبت کرنے والوںکادوست ہوں ”

اور زیارت کے دوسرے فقر ے ميں آیاہے :

اشهد انی ولی لمن والاک وعدولمن عاداک وحرب لمن حاربک “ميں آپ کے دوستوں کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں جو آپ سے جنگ کرنے والے ہيں اس سے ہماری جنگ ہے ”

سلم اور تسليم

موقف کی خصوصيات ميں سے سلم اور تسليم ہے تسليم کا سلم وصلح سے بلند مر تبہ ہے لہٰذا موقف ميں سب سے پہلے مسالحت صلح ہونی چاہئے اور سلم ميں الله ،رسول اور اولياء الله اور اس کے صالحين بندوں کی اتباع کی جا ئے :

( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْادخُْلُواْفِی السِّلمِْ کَافَّةً ) (١)

____________________

١)سورئہ بقرةآیت / ٢٠٨ ۔ )

۲۳۱

“ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاؤ ” اس سے چيلنج کو شامل نہ کيا گيا ہو:

( اَلَم یَعلَْمُواْاَنَّهُ مَن یُحَادِدِالله وَرَسُولَْهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَجَهَنَّمَ خَالِداًفِيهَْا ) (١) “کيا یہ نہيں جانتے ہيں کہ جو خداو رسول سے مخالفت کرے گا اس کيلئے آتش جہنم ہے اور اسی ميں ہميشہ رہنا ہے ”

نہ الله کے سامنے سرکشی اور استکبار کيا جا ئے :( وَلَاتَطغَْواْفِيهِْ فَيَحِلّ عَلَيکُْم غَضَبِی ) ( ٢)

“اور اس ميں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر ميرا غضب نازل ہو جائے ” مخالفت نہ ہو :

( وَاِنَّ الظَّالِمِينَْ لَفِی شِقَاقٍ بَعِيدٍْ ) ( ٣)

“اور ظالمين یقينابہت دور رس نا فر مانی ميں پڑے ہوئے ہيں ” دو سرے مر حلہ ميں اس مو قف کو رسول اور مسلمين کے امور کے سر پرستوں سے تسليم کی اطاعت پر قائم ہو نا چا ہئے صلح اور تسليم ميں سے ہر ایک کو انسان کی نيت ،قلب ،عمل اور رفتار ميں ایک ہی وقت ميں رچ بس جانا چا ہئے صلح ،تسليم اور پيروی دل سے ہو نی چا ہئے اور جب ایسی صورت حال ہواور سياسی مو قف ،نيت ،عمل اور با طن و ظا ہر ميں صلح و تسليم سے متصف ہو تو لو گ اکڻها ہو کر اس مو قف کو اختيار کریں اور اس مو قف کے لوگ اس کے خلاف موقف والوں کے ساته جمع نہيں ہوسکتے ۔ایسی صورت ميں مو من انسان اکيلا ہی ایک امت شمار ہوگا جو امت کا پيغام ليکر قيام کرتا ہے اور وہ امت کی

____________________

١)سورئہ توبةآیت/ ۶٣ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت / ٨١ ۔ )

٣)سورئہ حج آیت ۵٣ ۔ )

۲۳۲

طرح پائيدار اور مضبوط ہو گاجيسا کہ ہمارے باپ ابوالانبياء جناب ابراہيم عليہ السلام اکيلے ہی قرآن کی نص کے مطابق ایک امت تھے :

( اِنَّ اِبرَْاهِيمَْ کَانَ اُمَّةً قَانِتاً لِلهِّٰ حَنِيفْاًوَلَم یَکُ مِنَ المُْشرِْکِينَْ ) (١) “بيشک ابراہيم ایک مستقل امت اور الله کے اطاعت گذار اور باطل سے کتراکر چلنے والے تھے اور مشرکين ميں سے نہيں تھے ”

اور صلح و سلا متی کے بغير تاریخ ميں کو ئی مو قف رونما نہيں ہو تا اور اگر ہم مو قف کو صلح و سلا متی سے خالی کردیں تو مو قف کالعدم ہو جائيگا صلح تسليم خدا و رسول اور مسلمانوں کے پيشواؤں کی ہر بيعت کی جان ہے کيونکہ بيعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کی عطا کردہ ہر چيز منجملہ محبت، نفرت ، جان ،مال اور اولاد کو یکبارگی خداوند عالم کے ہاتهوں فروخت کردے اوروہ دل خداوند عالم کيلئے ہر چيز سے خالی ہو جا ئے ،پهر اس کے بعد اپنے معا ملہ پر نہ حسرت کرے اور ہی اپنے کام ميں شک کرے کيو نکہ وہ اب ہر چيز خداوند عالم کے ہاتهوں بيچ چکا ہے اور اس کی قيمت لے چکا ہے لہٰذا نہ معا ملہ فسخ کرسکتا ہے اورنہ فسخ کرنے کامطالبہ کرسکتاہے اوریہ سودمندمعاملہ ہے یہ امور مسلمين کے سرپرستوں اور مو منين کے پيشواؤں کے مو قف کی جان ہے جنهوں نے اس سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام ج(و مسلمانوں کے امام ہيں) کی زیارت ميں انے والی عبارتوں پر غور کریں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں آیاہے :

فَقَلبِی لَکُم مُسَلِّمٌ ونصرتي لکم معدةحتّیٰ یحکم الله بدینه فمعکم معکم لامع عدوکم

“ ميرا دل آپ کے سامنے سراپاتسليم ہے اور ميری نصرت آ پ کےلئے حاضر ہے یہاں تک

____________________

١)سورئہ نحل آیت / ١٢٠ ۔ )

۲۳۳

کہ پروردگاراپنے دین کا فيصلہ کردے تو ميں اپ کے ساته ہوں آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ”

حضرت امام حسن عليہ السلام کی زیارت ميں واردہوا ہے : لبيک داعي اللهان کان لم یجبک بدني عنداستغاثتک ولساني عند استنصارک قد اجابک قلبي وسمعي وبصري

“ميں نے خداوند عالم کی دعوت پر لبيک کہی اے الله کی طرف بلانے والے اگر چہ ميرے جسم نے آپ کے استغاثہ کے وقت لبيک نہيں کہی اور ميری زبان نے آپ کے طلب نصرت کے وقت جواب نہيں دیا ليکن ميرے دل ،کان اور آنکه نے لبيک کہی ”

زیارت حضرت ابو الفضل العباس :

وقلبي لکم مسلّم وانالکم تابع ونصرتي لکم معدةحتی یحکم الله وهو خيرالحاکمين

“ميرا دل آپ کے سامنے جهکا ہے اور تابع فرمان ہے اور ميں آپ کا تابع ہوں اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ خدا فيصلہ کردے اور وہ بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام روز اربعين :وقلبي لقلبکم سلم،وامريلامرکم متبع،ونصرتي لکم معدة،حتّیٰ یاذن الله لکم،فمعکم معکم لامع عدوکم

“اور ميرا دل آپ کے سامنے سراپا تسليم ہے اور ميرا امر آپ کے امر کے تابع ہے اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ الله آپ کو اجا زت دے تو ہم آپ کے ساته ہيں اور آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ہيں ”

یہ معيت جس کو زائر اپنے موقف اور ائمہ مسلمين سے دوستی کے ذریعہ آمادہ وتيار کرتا ہے یہ موقف اور دوستی کی روح ہے ۔ان کی خوشی وغم، صلح وجنگ آسانی عافيت اور سختی ومشکل ميں ساته رہنا دنيا ميں ان کے ساته رہنا انشاء الله آخرت ميں ان کے ساته رہنا ہے ۔

۲۳۴

انتقام کےلئے مدد کی دعا

موقف کے مطالبوں ميں سے ایک مطالبہ مدد کےلئے دعا مانگنا ہے ۔جب مو قف کا سر چشمہ سچا دل ہوگا تو انسان الله سے مسلمانوں کے امام اور مسلمانوں کی مددکےلئے ہر وسيلہ سے دعا مانگے گا دعاکے ان وسائل ميں سے ایک وسيلہ الله کی بارگاہ ميں حاضر ہوکر دعا مانگتا ہے اور دعا ان وسائل ميں سے سب سے افضل اور بہترین وسيلہ ہے مگر دعا عمل ،عطا اور قربانی دینے سے مستغنی نہيں ہے ۔

سياسی موقف کے ستون کے لئے اس مضمون کی دعا اہلبيت عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعا ؤں ميں ہے اور ہم ذیل ميں اس دعا کے چند نمونے پيش کرتے ہيں :

ہم آل محمد عليہم السلام سے مہدی منتظر عجل الله فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :

اللهم انصره وانتصربه لدینک،وانصربه اوليائک،اللهم واظهربه العدل،وایّده بالنصر،وانصرناصریه واخذل خاذليه،واقصم به جبابرةالکفرواقتل الکفاروالمنافقين واملابه الارض عدلاًواظهربه دین نبيک

“خدا یا! اپنے ولی کی نصرت فرما اور ان کے ذریعہ دین کی مددفرما اپنے اولياء اور ان کے اولياء کی مدد فرما ۔۔۔اور ان کے ذریعہ عدل کو ظاہر فرما نااور اپنی نصرت سے ان کی تائيد فرمانا ان کے ناصروں کی مدد کرنا اور ان کو رسوا کرنے والوں کو ذليل کر اور دشمنوں کی کمر توڑدے تمام جابر کافروں کی کمر توڑ دے تمام کفار و منافقين اور تمام ملحدین کوفنا کردے ۔۔۔اور ان کے ذریعہ زمين کو عدل سے بهردے اور ان کے ذریعہ اپنے نبی کے دین کو غالب فرما”

۲۳۵

حضرت امام مہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کےلئے دعاؤں کے چندنمونے :

اللهم انّک ایدت دینک في کل اوان بامام اقمته لعبادک ومنارافي بلادک،بعدان اوصلت حبله بحبلک،وجعلته الذریعةالی رضوانک اللهم فاوزع لوليک شکرماانعمت به عليه،واوزعنامثله فيه،وآته مِن لدنک سلطانا نصيرا،وافتح له فتحایسيراًواعنه برکنک الاعز،واشددازره،وقوّعضده وراعه بعينک،واحمه بحفظک،وانصره بملائکتک وامدد،بجندک الاغلب،واقم به کتابک وحدودک وشرائعک وسنن رسولک واحيی به مااماته الظّالمون من معالم دینک،واجل به صداالجورعن طریقک،وابن به الضراء من سبيلک،وازل به الناکبين عن صراطک وامحق به بغاةقصدک عوجاً،والن جانبه لاوليائک،وابسط یده علی اعدائک،وهبّ لنارافته ورحمته وتعطفه وتحنّنه،واجعلناله سامعين مطيعين،وفی رضاه ساعين والی نصرته والمدافعةعنه مکنفين

“بار الٰہا! تو نے اپنے دین کی، ہر زمانہ ميں ایسے امام کے ذریعہ نصرت کی ہے جس کو تو نے اپنے بندوں کےلئے منصوب فر مایا اپنی مملکت ميں منارئہ ہدایت قرار دیا اس کے بعد جبکہ تو نے اس کو اپنی رضا تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا با ر الٰہا لہٰذا اپنے ولی کو اپنے اوپر نا زل ہو نے والی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کی تو فيق عطا فرما اور اس سلسلہ ميں ہم کو بهی شکر ادا کرنے کی توفيق عطا فرما اپنی جانب سے اس امام کو کامياب حکو مت عطا فرما آسانی کے ساته فتح و نصرت عطا فرما اپنے مضبوط ارکان کے ذریعہ اس کی مدد فرما اس کو ہمت دے ،اس کو قوی کر ، اس کی نگرانی کر ،اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مددکر، اپنے فاتح لشکر کے ذریعہ ظفریاب کر ،اس کے ذریعہ اپنی کتاب ،حدود شریعت اور اپنے رسول کی سنتوں کو قائم کر ،اس کے ذریعہ اپنے دین کی ان نشانيوں کو زندہ کر جن کو ظالمين نے مردہ کر دیا ہے، اس کے ذریعہ اپنی راہ سے انحراف کی جِلا بخش ،اس کے ذریعہ اپنی تاریک راہ کو رو شن کر ،اس کے ذریعہ اپنی راہ سے دو ری اختيار کرنے والو ں کو نا بود کر ،اس کے ذریعہ تيرا بيجا طور پر قصد کرنے والوں کو فنا کردے ،اس کو اپنے دو ست داروں کےلئے خوش اخلاق کردے اس کو اپنے دشمنوں پر مسلّط کردے اس کی محبت سے ہم کو بہرہ مند فرما ،ہم کو اس کا اطاعت گذار قرار دے اس کی رضا کے سلسلہ ميں کو شش کرنے والا قرار دے اس کی مدد اور دفاع کرنے کے سلسلہ ميں آمادہ کردے ”

نيز زیارت امام صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہے :

۲۳۶

اللهم انجزلوليک ماوعدته،اللهم اظهرکلمته واعل دعوته وانصره علی عدوه وعدوک،اللهم انصره نصراعزیزاً،وافتح له فتحایسيراً،اللهم واعزّبه الدین بعدالخمول،واطلع به الحق بعدالافول،واجل به الظلمة،واکشف به الغمة، وآمن به البلادواهدبه العباد،اللهم املابه الارض عدلاًوقسطاًکماملئت ظلماًوجوراً

“خدایا!جس کا تونے وعدہ کيا ہے اسے اپنے نبی کيلئے پورا کردے خدایا! اس کے کلمہ کو ظاہر کر دے اور اس کی دعوت کی آواز کو بلند کر اور اس کے اور اپنے دشمن کے مقابلہ ميں اس کی مدد فرما۔۔۔خدایا !اس کی غلبہ عطا کرنے والی مدد سے مدد کر اور اس کو آسانی سے مکمل فتح عطا کر خدایا! اس کے ذریعہ سے گمنامی کے بعد دین کو غلبہ عطا کر اور اس کے ذریعہ حق کو ڈوبنے کے بعد طالع کر اور اس کے ذریعہ سے ظلمت کو نورانيت عطا کر اور اس کے ذریعہ مشکلات کو دور فرمااور خدایا اس کے ذریعہ شہروں کوامن عطا کر اور بندوں کی ہدایت کر خدایا اس کے ذریعہ زمين کو عدل و انصاف سے بهردے جبکہ وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہو ”

انتقام اور خون خواہی کےلئے دعا

“انتقام ”اور انتقام کےلئے دعا مانگنا موقف کا جزء ہے حضرت ابراہيم بلکہ حضرت نوح سے ليکر آج تک خاندان توحيد کا ایک ہی موقف ہے ۔ان کا راستہ اور ان کی غرض وغایت ومقصد ایک ہے اور یہ موقف حضرت ابراہيم سے ليکر امام مہدی کے ظہور تک اس طرح باقی رہے گا تا کہ خداوندعالم ان کے ذریعہ اس خون واشک کے فتوحات ،اور مشکلات کی راہ ميں ان کو فتح ونصرت عطا کرے اور خدا ان لوگوں سے جنهوں نے ان کو شہيد کيا ،ان پر ظلم وستم کيا اس راستہ ميں ظلم وستم کر نے والوں کی قيادت کی ،ان کے رہبر ،ان کی نسل اور جنهوں نے الله کے دین سے روکا ان سے انتقام لے ۔

اس خاندان پر سب سے زیادہ ظلم وستم ،مصائب ،پياس قتل وغارت کربلا کے ميدان ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اہل بيت عليہم السلام اور اصحاب پر ڈها ئے گئے ۔

۲۳۷

ہم خداوند قدوس سے دعا کر تے ہيں کہ وہ ہم کو ان لوگوں سے انتقام لينے والوں ميں سے قراردے جنهوں نے ظلم وستم ڈهائے ،اس روش پر برقرار رہے ،ان کی اتباع کی اور جو ان کے اس فعل پر راضی رہے ۔

اللهم واجعلنامن الطالبين بثاره مع امام عدل تعزّبه الاسلام واهله یاربّ العالمين

“خدایا !ہم کوامام حسين عليہ السلام کے خون کا بدلہ لينے والوں ميں امام عادل (امام زمانہ) کے ساته قرار دے جس کے ذریعہ تو اسلام اور اہل اسلام کو عزت دے گا اے عالمين کے پروردگا ر ” ١۔رسول اسلام (ص)او ران کے اہل بيت عليہم السلام کيلئے دعا ان پر درود اور خداوند عالم کی جانب سے ان کيلئے طلب رحمت :اللهم صلّ علی محمّدوآله صلوات تجزل لهم بهامن نحلک و کرامتک،وتکمل لهم الاشياء من عطایاک ونوافلک،وتوفّرعليهم الحظ من عوائدک وفواضلک

“خدایا !محمد وآل محمد پر ایسے درود بهيج جس کے ذریعہ تو ان کيلئے اپنی بزرگواری اور کرم کو وافر مقدار ميں ان کو عطا کر اور ان کيلئے اپنی بخششيں کامل کر اور ان پر بکثرت اپنی نعمتيں نازل فر ما ”

اللهم صلّ علی محمّدوبارک علی محمّد وآل محمّد،کافضل ماصلّيت وبارکت وترحمت وتحنّنت وسلّمت علی ابراهيم وآل ابراهيم

“خدایا محمد اور آل محمد پر درودبهيج اورمحمد وآل محمدپر برکت نازل فرماجس طرح کہ تو نے صلوات و برکت ورحمت،مہربانی اور سلام ابراہيم اور آل ابراہيم پر قرار دیاہے ،

٢۔رسول کيلئے دعا :رسول اور اہل بيت عليہم السلام کے سلسلہ ميں یہ دعا خدا ان کو اپنے بندوں کيلئے اپنی رحمت تک پہنچنے کا ذریعہ اور شفيع قرار دے اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :

اللهم اعط محمداً الوسيلةوالشرف والفضيلةوالمنزلةالکریمةاللهم اعط محمّداًاشرف المقام وحباء السلام وشفاعةالاسلام،اللهم الحقنابه غير خزایاولاناکثين ولانادمين

۲۳۸

“خدایا !محمد کو وسيلہ ،شرف اور فضيلت اور کریم منزلت عطا فرما خدایا تو محمد کو بہترین مقام اور سلام کا تحفہ اور شفاعت اسلام عطا کر خدایا ہم کو ان سے اس طرح ملا کہ نہ رسوا وذليل ہوں نہ عہد کے توڑنے والے اور نہ شرمندہ ہوں ” اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :اللهم واعطه الدرجةوالوسيلةمن الجنةوابعثه المقام المحمود،یغبطه به الاوّلون والآخرون

“خدایا !ان کو بلند درجہ عطا کر اور وسيلہ جنت عطا کر اور ان کو مقام محمود پر مبعوث کر کہ ان پر اولين وآخرین غبطہ کریں ” ٣۔رسول خدا (ص)اور ان کے اہل بيت عليہم السلام سے الله کے اذن سے توسل کرنا :

فاجعلني اللهم بمحمّدواهل بيته عندک وجيهاًفی الدنياوالآخرة،یا رسول الله اني اتوجه بک الی الله ربّک وربي ليغفرلي ذنوبي ویتقبل مني عملي ویقضي لي حوائجي فکن لي شفيعاًعندربّک وربي فنعم المسوول المولیٰ ربي و نعم الشفيع انت یامحمّدعليک وعلی اهل بيتک السلام

“بار الٰہا !پس مجه کو محمد اور ان کے اہل بيت کے نزدیک دنيا اور آخرت ميں سرخرو قرار دے یا رسول الله بيشک ميں آپ کے اور اپنے پروردگار کی طرف آپ کے وسيلہ سے متوجہ ہوتا ہوں تا کہ وہ ميرے گناہ بخش دے اور مجه سے ميرا عمل قبول کرے اور ميری حا جتيں پوری کرے ،لہٰذا آپ اپنے اور ميرے پروردگار کے نزدیک ميرے شفيع ہو جا ئيے کيونکہ پرور دگار بہت اچها آقا اور سوال کرنے کے لائق ہے اور اے محمد! آپ بہترین شفيع ہيں آپ پر اور آپ کے اہل بيت پر درود وسلا م ہو ” زیارت ائمہ اہل بقيع عليہم السلام ميں آیا ہے :

وهذامقام مَن اسرف واخطاواستکان،واقرّبماجنیٰ،ورجیٰ بمقامه الخلاص فکونوالی شفعاء فقد وفدت اليکم اذ رغب عنکم اهل الدنياواتخدوا آیات الله هزواًواستکبرواعنها

“آپ کے سامنے وہ شخص کهڑا ہے جس نے زیادتی کی ہے غلطی کی ہے مسکين ہے، اپنے گناہوں کامعترف ہے اور اب نجات کا اميدوارہے ۔۔۔آپ اہل بيت اس کی بارگاہ ميں ميرے شفيع بن جائيں کہ ميں آپ کی بارگاہ ميں اس وقت آیا ہوں جب اہل دنيا آپ سے کنارہ کش ہوگئے اور انهوں نے آیات خدا کا مذاق اڑایا ہے ” رسول خدا (ص) کے چچا حضرت حمزہ عليہ السلام کی زیارت ميں آیا ہے:

۲۳۹

اتيتک من شقةطالب فکاک رقبتي من الناروقداوقرت ظهري ذنوبي وآتيت مااسخط ربي ولم اجداحداًافزع اليه خيراًلي منکم اهل بيت الرحمه فکن لي شفيعاً

“ميںبہت دور سے آیا ہوں ميرا مقصد یہ ہے کہ الله ميری گردن کو جہنم سے آزاد کر دے کہ گنا ہوں نے ميری کمرتوڑ دی ہے اور ميں نے وہ کام کئے ہيں جنهوں نے ميرے خدا کوناراض کردیاہے اوراب کو ئی نہيں ہے جس کے سامنے فریاد کروں یاآپ سے بہتر ہوآپ اہل بيت رحمت ہيںلہٰذا روز فقر و فاقہ ميری شفاعت فرمائيں” ۴ ۔الله تبارک و تعالیٰ کی جانب اہل بيت عليہم السلام کی ہمنشينی قيامت ميں ان کی ہمسا ئيگی اور دنيا ميں ان کی ہدایت اور ان کے راستہ پر ثابت قدمی کا سوال کرکے متوجہ ہونااور یہ کہ ہم دنيا ميں انهيں کی طرح زندہ رہيں او ر ہم کو انهيں کی طرح مو ت آئے اورہم آخرت ميں اُن ہی کے گروہ بلکہ ان ہی کے ساته محشور کئے جا ئيں جيسے الله نے مجھے دنياميں ان کی ہدایت اور ان سے محبت کرنے کی توفيق عطا کی ہے ۔

رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں وارد ہوا ہے :اللهم واعوذبکرم وجهک ان تقيمني مقام الخزي والذّل یوم تهتک فيه الاستاروتبدوفيه الاسرار،وترعدفيه الفرائص ویوم الحسرةوالندامة،یوم الآفکة،یوم الآزفة،یوم التغابن،یوم الفصل،یوم الجزاء،یوماًکان مقداره خمسين الف سنة،یوم النفخة،یوم ترجف الراجفة،تتبعهاالرادفة،یوم النشر،یوم العرض، یوم یقوم الناس لربّ العالمين،یوم یفرّالمرء من اخيه وامّه وابيه وصاحبته وبنيه، یوم تشقق الارض واکناف السماء،یوم تاتی کلّ نفس تجادل عن نفسها،یوم یُردون الی الله فيُنبوهم بماعملوا،یوم لایغني مولیٰ عن مولیٰ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248