دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68464 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس جنگ کے دائرہ حدودميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام فرزند رسول کےلئے نماز قائم کر نے زکات ادا کرنے اور فی سبيل الله جهاد کر نے کی گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد اس جنگ کے پس منظر کو بر قرار رکهتے ہوئے اس سلسلہ کو واقعہ کربلا کے بعد خدا کی طرف سے امامت ولایت اور قيادت سے متصل کر تاہے ہم اس گواہی کے سلسلہ ميں بہت سے فقرے حضرت امام حسين السلام کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :اشهدانک قد بلغت عن اللّٰهِ مَاامرک به ولم تخش احدا غيره،وجاهدت فی سبيله،وعبد ته،مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين واشهد انک کلمة التقویٰ،والعروة الوثقیٰ،والحجة علیٰ مَن یبقیٰ واشهد انک عبد الله وامينه،بلّغت ناصحاًوادیت اميناً،وقُتلتَ صدّیقاً،ومضيت علیٰ یقين،لم توثرعمیٰ علیٰ هدیٰ،ولم تُمل من حق الیٰ باطل اشهد انک قد اقمت الصلاة ،وآتيت الزکاة ،وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکرواتبعت الرسول وتلوت الکتاب حقّ تلاوته و دعوت الیٰ سبيل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة اشهد انک کنت علیٰ بيّنة من ربک قدبلّغت مااُمرت به وقمت بحقّهِ،وصدّقت مَن قبلک غيرواهن ولا موهن اشهد ان الجهاد معک،وان الحقّ معک واليک وانت اهله و معدنه،و ميراث النبوة عندک ”۔

“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے الله کے اس پيغام کو پہنچایا جس کا اس نے آپ کو حکم دیاتها اور آپ خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہيں ہوئے اورآپ نے راہ خدا ميں جہاد کيا اور اس کی خلوص کے ساته عبادت کی یہاں تک کہ آ پ کو موت آگئی ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کلمہ تقویٰ اور عروہ وثقیٰ اور اہل دنيا پر حجت ہيں اور ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے بندہ اور اس کے امين ہيں ، آ پ نے ناصحانہ انداز ميں پيغام حق پہنچایا اور امانت کو ادا کيا آپ صدیق شہيد کئے گئے ، اور یقين پر دنيا سے گئے ،ہدایت کے بارے ميں کبهی گمراہی کو ترجيح نہيں دی اورکبهی حق سے باطل کی طرف مائل نہيں ہوئے ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے نماز قائم کی ،اور زکوٰة ادا کی اور نيکيوں کا حکم دیابرائيوں سے روکااور رسول کا اتباع کيا اور قرآن کی تلا وت کی جوتلا وت کاحق تھا اورحکمت اور مو عظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلایا،ميں گواہی دیتا ہوںکہ آپ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے اور جو آپ کو حکم دیا گيا تهاآپ نے اسی کو پہنچایا،اس کے حق کے ساته قيام کياجس نے آپ کو قبول کيااس کی آپ نے اس طرح تصدیق کی کہ نہ اس کی کو ئی تو ہين ہواور نہ آپ کی تو ہين ہو ،ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ جہاد آپ کے ساته ہے اور حق آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کا معدن ہيں ” وارثت کی گواہی

۲۲۱

یہی وہ امامت ہے جس کی ہم نے اس زیارت ميں گواہی دی ہے اور وہ امامت حضرت امام حسين عليہ السلام کے بعد آپ کی نسل درنسل باقی رہے گی یہ امامت درميان ميں منقطع ہونے والی نہيں ہے یہ امامت ائمہ توحيد کی امامت ہے جو تاریخ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام سے مستقر ہوئی ہے حضرت آدم حضرت نوح اور حضرت ابراہيم سے رسول خدا (ص) حضرت علی اورامام حسن تک پہنچی ہے حضرت امام حسين عليہ السلام اس امامت کی تمام ارزشوں اور ذمہ داریوں کے وارث ہيں :

( انّ الله اصط فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْهِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَل یٰ العَْالَمِينَْ ذُرِّیَّةً بَعضُْهَا مِن بَعضٍْ وَالله ٰ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ ) ( ١)

“الله نے آدم ،نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے ”

حضرت امام حسين عليہ السلام کر بلا ميں اس وارثت کے عہدہ دارتھے :امام حسين عليہ السلام اس عظيم ميراث کو کر بلا تک لے گئے تا کہ لوگ اس کے ذریعہ دليل پيش کریں اس کا دفاع کریں اس

____________________

١)سورئہ آلِ عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔ )

۲۲۲

کی مخالفت کر نے والوں سے جنگ کریں یہ بلاغ المبين اسی رسالت کےلئے ہے جس ميراث کو حضرت امام حسين عليہ السلام نے آل ابراہيم اور آل عمران سے پایا تھا ۔

اس معرکہ کے وسط ميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام کےلئے گواہی دیتا ہے:

١۔اس مقام پر واضح طورپر یہ ثابت ہوجا تا ہے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام کی یزید سے جنگ اور حضرت ابراہيم عليہ السلام کے نمرود سے مقابلہ اسی طرح حضرت موسیٰ کا فرعون سے ڻکراؤ اور رسول خدا (ص)کی ابو سفيان سے مخالفت نيز حضرت علی کی معاویہ سے جنگ ميں کوئی فرق نہيں ہے۔

٢۔تمام مرحلوں ميں اس جنگ کا محور، روح توحيد ہے ۔

٣۔جو ميراث حضرت امام حسين عليہ السلام کو آل ابراہيم اور آل عمران سے ورثہ ميں ملی جس کےلئے آپ نے کربلا کے ميدان ميں قيام کيا وہ ميراث آپ کے بعد آپ کی ذریت ميں موجود رہی انصار جنهوں نے امام حسين عليہ السلام کا اتباع کيااسی طرح یہ ميراث ان کے تابعين جو آل ابرا ہيم اور آل عمران کی راہ سے ہدایت حاصل کرتے رہے ان ميں باقی رہی۔

ہم صالحين کی وراثت کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کی شہادت کےلئے زیارت وارثہ کے جملے پڑهتے ہيں :

السلام عليک یاوارث آدم صفوةالله ،السلام عليک یاوارث نوح نبي اللّٰه السلام عليک یاوارث ابراهيم خليل اللّٰه ،السلام عليک یاوارث مو سیٰ کليم اللّٰه،السلام عليک یاوارث عيسیٰ روح اللّٰه،السلام عليک یاوارث محمّدحبيب اللّٰه،السلام عليک یاوارث اميرالمومنين ولي اللّٰه

۲۲۳

“سلام آپ پر اے آدم صفی الله کے وارث ،سلام آ پ پراے نوح نبی خدا کے وارث، سلام آپ پر اے ابراہيم خليل خدا کے وارث،سلام آپ پراے مو سیٰ کليم الله کے وارث ،سلام آپ پر اے عيسیٰ روح الله کے وارث ،سلام ہوآ پ پر اے محمدصلی الله عليہ وآلہ حبيب خدامحمدمصطفےٰ کے وارث،سلام ہو آپ پر اے اميرالمو منين ولی الله کے وارث ”

آل ابراہيم اور آل عمران کی اس وراثت کی اگر چہ قرآن کی آیت کے مطابق ایک نسل ذریت کی طرف نسبت دی گئی ہے :

( ذُرِّیَّةً بَعضُْهَامِن بَعضٍْ ) ( ١)

“یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ” مگر یہ کہ یہ رسول خدا (ص)اور مو لا ئے کائنات کی جانب فرزندی کی طرف ذریتی انتساب کے عنوان کے علاوہ ایک اور عنوان ہے کيونکہ یہ عنوان براہ راست اس شہادت کے بعد وارد ہوا ہے :

“السلام عليک یابن محمّد المصطفیٰ ،السلام عليک یابن علی المر تضیٰ السلام عليک یابن فاطمة الزهراء السلام یابن خدیجة الکبری ” “سلام آپ پر اے محمد مصطفے کے فرزند سلام آپ پر اے علی مر تضیٰ کے دلبند سلام آپ پر اے فاطمہ زہرا کے لخت جگر سلام آپ پر اے خدیجة الکبریٰ کے فرزند ”

شاہد ومشہود

زیارتوں ميں گواہی سے متعلق روایات ميں شاہد اور مشہود کے درميان کوئی ربط نہيں ہے ان گواہيوں ميں زائر جس کی زیارت کر رہا ہے اس کی گواہی دیتا ہے :

انّک قد اقمت الصلاة وآتيت الزکاة وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکروجاهدت في سبيل الله حقّ جهادہ

“بيشک آپ نے نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اورنيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں سے روکا اور الله کی

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت/ ٣۴ ۔ )

۲۲۴

راہ ميں جہاد کيا جو جہاد کا حق تھا ” پس زائر شاہد اور جس کی زیارت کر رہا ہے وہ مشہودلہ ہے اور اس کا عکس بهی صحيح ہے

بيشک الله کے انبياء عليہم السلام اس کے رسول اور ان کے اوصياء امتوں پر شاہد ہيں اور رسول الله (ص) ان کے اوصياء اس امت کے شاہد ہيں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( وَیَومَ نبعثُ فی کُلّ اُمّةٍ شهيداًعليهم مِن انفُْسِهِم وَجِئْنٰابک شهيداًعلیٰ هٰولاٰء ) ( ١)

“اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انهيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئيں گے ۔۔۔”

( یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ اِنَّااَرسَْلنَْاکَ شَاهِداًوَمُبَشِّراًوَنَذِیرْاً ) ( ٢)

“اے پيغمبر ہم نے آپ کو گواہ،بشارت دینے والا ،عذاب الٰہی سے ڈرانے والا”( کَ لٰ ذِکَ جَعَلنَْاکُم اُمَّةً وَسَطاًلِتَکُونُْواْشُهَدَاءَ عَل یٰ النَّاسِ وَیَکُونَْ الرَّسُولُْ عَلَيکُْم شَهِيدْاً ) (٣)

“اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پيغمبر تمہا رے اعمال کے گواہ رہيں ” (( وَلِيَعلَْمَ الله الَّذِینَْ آمَنُواْوَیَتَّخَذَمِنکُْم شُهَدَاءَ ) (۴)

____________________

١)سورئہ نحل آیت/ ٨٩ ۔ )

٢)سورئہ احزاب آیت/ ۴۵ ۔ )

٣)سورئہ بقرہ آیت/ ١۴٣ ۔ )

۴)سورئہ آل عمران آیت/ ١۴٠ ۔ )

۲۲۵

“تا کہ خدا صاحبان ایمان کو دیکه لے اور تم ميں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمين کو دوست نہيں رکهتا ہے ”

( فاو ئِٰلکَ مَعَ الَّذِینَْ اَنعَْمَ الله عَلَيهِْم مِنَ النَّبِيِّينَْ وَالصِّدِّیقِْينَْ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَْ ) ( ١)

“وہ ان لوگوں کے ساته رہے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل کی ہيں انبياء ،صدیقين،شہداء اور صالحين ”

پس زائر ین شاہد کی منزل سے مشہود کی منزل ميں پہونچ جاتے ہيں اسی طرح مشہود لہ جن کے لئے ہم نماز زکات، امر بالمعروف اور جہاد کی گو اہی دیتے ہيں وہ شاہد بن جاتے ہيں ۔

زیارتو ں ميں واردہوا ہے :انتم الصراط الاقوم وشهداء دارالفناء وشفعاء دارالبقاء

اور حضرت اميرالمو منين عليہ السلام کی آڻهویں زیارت ميں آیا ہے :

مضيت للذی کنت عليه شهيداًوشاهداًومشهوداً

“اور جس مقصد پر آپ تھے اسی پر شہيد ہوئے اور شاہد و مشہود ہوئے ”

____________________

١)سورئہ نساء آیت/ ۶٩ ۔ )

۲۲۶

ب:الموقف

شہادت کے فيصلہ ميں حکم کا تابع ہے ۔

اور حکم سياست ميں موقف کاتابع ہوتا ہے ۔

مو قف کو واضح و صاف شفاف اورقوی ہونا چاہئے نيز نفس کو قربانی اور فدا کاری کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ۔

اور مسلمانوں کی تاریخ صفين اور کربلا جيسے واقعات ميں ان افراد سے مخصوص نہيں ہے جو اس حادثہ کے زمانہ ميں مو جود تھے بلکہ یہ مو قف خوشنودی ،رضایت ،محبت اور دشمنی کا لحاظ ان افراد کے لئے بهی ہوگا جو اُس حادثہ کے زمانہ ميں موجود نہيں تھے ۔

تاریخ ميں یہ ایام فرقان کی خصوصيات ميںسے ہے جن ميں لوگ دو ممتازمحاذوں ميں تقسيم ہوجا تے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک سے اختلاف بر طرف ہوجاتا ہے جس کی بناء پر حق اور باطل کسی شخص پر مخفی نہيں رہ جاتامگر یہ کہ الله نے اس کے دل،کان اور آنکه پر مہر لگا دی ہو ۔

یہ ایام لوگوںکو دو حصوں ميںتقسيم کرتے رہے ہيں اور اُن کو تاریخ ميںخو شنودگی ناراضگی، محبت اور دو ستی کی بنا پردو حصوں ميں تقسيم کرتے رہے ہيں اور تيسرے فریق کو ميدان ميں چهوڑتے رہے ہيں صفين اور کربلا انهيں ميں سے ہے۔

جو شخص بهی دونوںبر سر پيکار فریقوں کو درک کرکے بدر ،صفين اور کربلا کے واقعہ کاجا ئزہ لے وہ یا تو اِس فریق کی طرفدار ی کرے گا اوراس محاذميں داخل ہو جا ئيگا یا دوسرے فریق کی طرفداری کرے گااور دوسرے محاذ ميں داخل ہو جائيگا اس کو ان دونوں ميں سے کسی ایک سے مفر نہيں ہے اور یہی مو قف ہے ۔ خداوندعالم سيد حميری پر رحم کرے جنهوں نے اس تاریخی پہلو کو حق اور باطل کے درميان ہو نے والی جنگ کو اشعار ميں بيان کيا ہے :انی ادین بما دان الوصی به یوم الربيضة من قتل المحلينا وبالذی دان یوم النهر دنت له وصافحت کفه کفی بصفينا تلک الدماء جميعاربّ فی عُنُقی ومثله معه آمين آمينا “ميں جنگ جمل کے دن اسی مو قف کا حامل ہوں جس کو مو لائے کائنات نے اختيار کيا تهایعنی مخالفين کو قتل کرنا ” “اور نہروان کے دن بهی ایسے ہی مو قف کا حامل ہوں اورميرا یہی حال صفين کے سلسلہ ميں ہے ”

۲۲۷

“پروردگار وہ سارے خون ميری گردن پر ہيں اور مو لائے کائنات کے ساته ایسے وقائع ميں ہمراہی کےلئے ميں ہميشہ آمين کہتا رہتا ہوں ”

جو کچه صفين اور کربلا کی جنگ ميں رونما ہوا وہ حقيقی اور آمنے سامنے کی جنگ تهی جو مصاحف کے اڻه جانے اور حکمين کے صفين ميں حکم کرنے اور کر بلا ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اصحاب کے شہيد ہوجانے سے منقطع نہيں ہوئی بلکہ صفين اور کر بلا کو مخصوص طور پر یاد کيا جانے لگا اس لئے کہ یہ ہمارے نظر یہ کے مطابق تاریخ اسلام ميں حق اور باطل کے درميان فيصلہ کر نے والی جنگيں تين ہيں جنگ بدر ،صفين اور کر بلا تاریخ اسلام ميں ان ہی تينوں کو ایام فرقان کہا جاتا ہے ۔

یہ جنگ آج بهی فریقين کے درميان اسی طرح باقی وساری ہے ۔۔۔یہ تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخ موجود ہ امت کےلئے یہی سياسی اور متمدن تاریخ کی ترکيب شدہ شکل ہے اور ماضی (گزرے ہو ئے زما نہ) اور موجود ہ زمانہ ميں فاصلہ ڈالنا نہ ممکن ہے اور نہ ہی صحيح ہے ۔چونکہ فرزند اپنے آباء و اجداد سے “مواقع” اور“ مواقف ”ميں ميراث پاتے ہيں ۔موقف سے ہماری مراد تاریخ ميں حادث ہونے والے واقعات ہيں اور واقعہ حادث ہونے کے وقت انسان پر اپنے رفتار وگفتار سے عکس العمل دکها نا واجب ہے اس کو موقف کہا جاتاہے۔تو جب یہ جنگ ثقافتی جنگ تهی اور سمندر کے کسی جزیرہ یا زمين کے کسی ڻکڑے سے مخصوص نہيں تهی تو یہ جنگ یقينا ایک نسل سے دو سری نسل کی طرف منتقل ہوگی ما ضی کو پارہ کر کے حال سے متصل ہو جا ئيگی اور اس کو اولاد اپنے آباء و اجداد سے ميراث ميں پائيگی ایسی صورت ميں مو قف کو موقع سے جدا کرنا ممکن نہ ہوگا جس کی بنا ء پر یہ مواقع مو جودہ نسل کی طرف دونوں بر سر پيکار فریقوں ميں سے ہر ایک کے مو قف کی حمایت کی بناء پرمنتقل ہو جا ئيں گے ۔

یہ ميراث ایک فریق سے مخصوص نہيں ہے بلکہ جس طرح مو اقع و مو اقف سے صالحين کو صالحين کی ميراث ملتی ہے اسی طرح مستکبرین اور ان کی اتباع کرنے والے مستکبرین کے مو اقع اور مواقف کی ميراث پاتے ہيں ۔ہم اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایات ميں واضح طور پر مواقف کی ميراث کا مختلف صورتوں ميں زیارتوں ميں مشا ہدہ کرتے ہيں ہم ذیل ميں ان کے کچه نمونے پيش کرتے ہيں : ولایت و برائت

۲۲۸

اس کا آشکار نمونہ او لياء الله سے دو ستی اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے اس دو ستی اور دشمنی کا مطلب ان جنگوں اور ڻکراؤ سے خالی ہو نا نہيں ہے بلکہ یہ تو اس کا ایسا جزء ہے جو اِن جنگوں ميںسياسی مو قف سے جدا نہيں ہو سکتا جس کو اسلام نے دو حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ہم دو ستی کے سلسلہ ميں زیارت جا معہ معروفہ ميں پڑهتے ہيں :

اشهد الله واشهدکم انی مومن بکم وبماآمنتم به،کافربعدوکم وبما کفرتم به مستبصربکم وبضلالةمن خالفکم،موال لکم ولاوليائکم مبغض لاعدائکم ومعادٍلهم،سلم لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم محقق لماحققتم، مبطل لماابطلتم

“ميں خدا کو اور آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ ميں آپ پراور ہر اس چيزپر ایمان رکهتا ہوں جس پر آپ کاایمان ہے ،آپ کے دشمن کا اور جس کا آپ انکار کردیں سب کا منکر ہوں آپ کی شان کو اور آپ کے دشمن کی گمرا ہی کو جانتا ہوں ۔آپ کا اور آپ کے اولياء کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے عداوت رکهتا ہوں اس سے ميری صلح ہے جس سے آپ نے صلح کی ہے اور جس سے آپ کی جنگ ہے اس سے ميری جنگ ہے جسے آپ حق کہيں وہ ميری نظرميں بهی حق ہے اور جس کو آپ باطل کہيں وہ ميری نظرميں بهی باطل ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام ميں پڑهتے ہيں :لعن الله امةاسست اساس الظلم والجورعليکم اهل البيت،ولعن الله امة دفعتکم عن مقامکم وازالتکم عن مراتبکم التی رتبکم الله فيها

“خدا یا!اس قوم پر لعنت کرے جس نے آپ کے اہل بيت پرظلم وجورکئے اور اس قوم پرلعنت کرے جس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہڻادیا اور اس جگہ سے گرادیا جس منزل پر خدا نے آپ کورکها تھا ” اور

اللهم العن اول ظالم ظلم حقّ محمّدوآل محمّدوآخرتابع له علی ذلک،اللهم العن العصابةالتی جاهدت الحسين وشایعت وتابعت علی قتله اللهم العنهم جميعا

“خدایا !اس پہلے ظالم پر لعنت کر جس نے محمد وآل محمد پر ظلم کيا ہے اور اس کا اتباع کرنے والے ہيں ۔خدایا !اس گروہ پر لعنت کر جس نے حسين سے جنگ کی اورجس نے جنگ پراس سے اتفاق کر ليا اورقتل حسين پرظالموں کی بيعت کرلی ”

۲۲۹

زیارت عاشوراء غير معروفہ ميں آیا ہے :

اللهم وهذایوم تجددفيه النقمةوتنزل فيه اللعنةعلی یزیدوعلی آل زیاد وعمربن سعدوالشمر اللهم العنهم والعن مَن رضي بقولهم وفعلهم من اول وآخر لعناًکثيرا واصلهم حرنارک واسکنهم جهنم وساء ت مصيرا،واوجب عليهم وعلی کلّ مَن شایعهم وبایعهم وتابعهم وساعدهم ورضي بفعلهم لعناتک التي لعنت بهاکل ظالم وکل غاصب وکل جاحد،اللهم العن یزیذوآل زیادوبنی مروان جميعا،اللهم وضاعف غضبک وسخطک وعذابک ونقمتک علی اوّل ظالم ظلم اهل بيت نبيک،اللهم والعن جميع الظالمين لهم وانتقم منهم انک ذونقمةمن المجرمين

“خدایا ! یہ وہ دن ہے جب تيرا غضب تازہ ہوتاہے اور تيری طرف سے لعنت کا نزول ہوتا ہے یزید، آل زیاد، عمر بن سعد اور شمر پر۔خدایا ان سب پر لعنت کر اور ان کے قول و فعل پر راضی ہوجانے والوں پر بهی لعنت کر چاہے اولين ميں ہوںيا آخرین ميں سے کثير لعنت فرما اور انهيں آتش جہنم ميں جلادے اور دوزخ ميں ساکن کردے جو بدترین ڻهکانا ہے اور ان کے لئے اور ان کے تمام اتباع اور پيروی کرنے والوں اور ان کے فعل سے راضی ہوجانے والوں کے لئے ان لعنتوںکے دروازے کوکهول دے جوتو نے کسی ظالم ،غاصب ،کافر، مشرک اور شيطان رجيم یا جبار و سرکش پرنازل کی ہے۔ خدا لعنت کرے یزید و آل یزید اور بنی مروان پر خدایا اپنے غضب اپنی ناراضگی اوراپنے عذاب و عقاب کومزید کردے ا س پہلے ظالم پرجس نے اہل بيت پيغمبر پر ظلم کياہے اورپهر ان کے تمام ظالموں پر لعنت کر اور ان سے انتقام لے کہ تو مجرمين سے انتقام لينے والا ہے ”

۲۳۰

رضا اور غضب

دو ستی اور دشمنی ميں رضا اور غضب بهی داخل ہے :رضا یعنی جس سے او ليا ء الله راضی ہو تے ہيں غضب جن سے اولياء الله غضب ناک ہوتے ہيں ۔ خوشی اور غضب ،محبت اور عداوت ایمان کی واضح نشانياں ہيں اور ان کے ستون ميں سے ہيں یہ سياسی موقف کےلئے عميق فکر ہے ان دونوں (رضااور غضب) کے بغير سياسی موقف مضمحل اور پائيدار نہيں ہے ۔

یہ وہ رابطہ اور ذاتی ایمان ہے جو سياسی موقف کو عمق ،مقاومت اور استحکام عطا کرتا ہے رضا اور غضب کے سلسلہ ميں زیارت صدیقہ فاطمة الزہرا عليہا السلام ميں آیا ہے :

اشهدالله ورسله وملائکته انيراض عمّن رضيت عنه ساخط علی مَن سخطت عليه،متبرء ممن تبرّئت منه موالٍ لمن واليت معادٍلمَن عادیت مبغض لمن ابغضت،محبّ لمن احبّبت

“ميں الله، رسول اور ملا ئکہ کو گواہ بناکرکہتا ہوں کہ ميں اس شخص سے راضی ہوں جس سے آپ راضی ہيں اورہر اس شخص سے ناراض ہوں جس سے آپ ناراض ہيں ہراس شخص سے بيزارہوں جس سے آپ بيزار ہيں آپ کے چاہنے والوں کا چاہنے والا آپ کے دشمنوںکا دشمن، آپ سے بغض رکهنے والوں کادشمن اورآپ سے محبت کرنے والوںکادوست ہوں ”

اور زیارت کے دوسرے فقر ے ميں آیاہے :

اشهد انی ولی لمن والاک وعدولمن عاداک وحرب لمن حاربک “ميں آپ کے دوستوں کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں جو آپ سے جنگ کرنے والے ہيں اس سے ہماری جنگ ہے ”

سلم اور تسليم

موقف کی خصوصيات ميں سے سلم اور تسليم ہے تسليم کا سلم وصلح سے بلند مر تبہ ہے لہٰذا موقف ميں سب سے پہلے مسالحت صلح ہونی چاہئے اور سلم ميں الله ،رسول اور اولياء الله اور اس کے صالحين بندوں کی اتباع کی جا ئے :

( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْادخُْلُواْفِی السِّلمِْ کَافَّةً ) (١)

____________________

١)سورئہ بقرةآیت / ٢٠٨ ۔ )

۲۳۱

“ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاؤ ” اس سے چيلنج کو شامل نہ کيا گيا ہو:

( اَلَم یَعلَْمُواْاَنَّهُ مَن یُحَادِدِالله وَرَسُولَْهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَجَهَنَّمَ خَالِداًفِيهَْا ) (١) “کيا یہ نہيں جانتے ہيں کہ جو خداو رسول سے مخالفت کرے گا اس کيلئے آتش جہنم ہے اور اسی ميں ہميشہ رہنا ہے ”

نہ الله کے سامنے سرکشی اور استکبار کيا جا ئے :( وَلَاتَطغَْواْفِيهِْ فَيَحِلّ عَلَيکُْم غَضَبِی ) ( ٢)

“اور اس ميں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر ميرا غضب نازل ہو جائے ” مخالفت نہ ہو :

( وَاِنَّ الظَّالِمِينَْ لَفِی شِقَاقٍ بَعِيدٍْ ) ( ٣)

“اور ظالمين یقينابہت دور رس نا فر مانی ميں پڑے ہوئے ہيں ” دو سرے مر حلہ ميں اس مو قف کو رسول اور مسلمين کے امور کے سر پرستوں سے تسليم کی اطاعت پر قائم ہو نا چا ہئے صلح اور تسليم ميں سے ہر ایک کو انسان کی نيت ،قلب ،عمل اور رفتار ميں ایک ہی وقت ميں رچ بس جانا چا ہئے صلح ،تسليم اور پيروی دل سے ہو نی چا ہئے اور جب ایسی صورت حال ہواور سياسی مو قف ،نيت ،عمل اور با طن و ظا ہر ميں صلح و تسليم سے متصف ہو تو لو گ اکڻها ہو کر اس مو قف کو اختيار کریں اور اس مو قف کے لوگ اس کے خلاف موقف والوں کے ساته جمع نہيں ہوسکتے ۔ایسی صورت ميں مو من انسان اکيلا ہی ایک امت شمار ہوگا جو امت کا پيغام ليکر قيام کرتا ہے اور وہ امت کی

____________________

١)سورئہ توبةآیت/ ۶٣ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت / ٨١ ۔ )

٣)سورئہ حج آیت ۵٣ ۔ )

۲۳۲

طرح پائيدار اور مضبوط ہو گاجيسا کہ ہمارے باپ ابوالانبياء جناب ابراہيم عليہ السلام اکيلے ہی قرآن کی نص کے مطابق ایک امت تھے :

( اِنَّ اِبرَْاهِيمَْ کَانَ اُمَّةً قَانِتاً لِلهِّٰ حَنِيفْاًوَلَم یَکُ مِنَ المُْشرِْکِينَْ ) (١) “بيشک ابراہيم ایک مستقل امت اور الله کے اطاعت گذار اور باطل سے کتراکر چلنے والے تھے اور مشرکين ميں سے نہيں تھے ”

اور صلح و سلا متی کے بغير تاریخ ميں کو ئی مو قف رونما نہيں ہو تا اور اگر ہم مو قف کو صلح و سلا متی سے خالی کردیں تو مو قف کالعدم ہو جائيگا صلح تسليم خدا و رسول اور مسلمانوں کے پيشواؤں کی ہر بيعت کی جان ہے کيونکہ بيعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کی عطا کردہ ہر چيز منجملہ محبت، نفرت ، جان ،مال اور اولاد کو یکبارگی خداوند عالم کے ہاتهوں فروخت کردے اوروہ دل خداوند عالم کيلئے ہر چيز سے خالی ہو جا ئے ،پهر اس کے بعد اپنے معا ملہ پر نہ حسرت کرے اور ہی اپنے کام ميں شک کرے کيو نکہ وہ اب ہر چيز خداوند عالم کے ہاتهوں بيچ چکا ہے اور اس کی قيمت لے چکا ہے لہٰذا نہ معا ملہ فسخ کرسکتا ہے اورنہ فسخ کرنے کامطالبہ کرسکتاہے اوریہ سودمندمعاملہ ہے یہ امور مسلمين کے سرپرستوں اور مو منين کے پيشواؤں کے مو قف کی جان ہے جنهوں نے اس سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام ج(و مسلمانوں کے امام ہيں) کی زیارت ميں انے والی عبارتوں پر غور کریں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں آیاہے :

فَقَلبِی لَکُم مُسَلِّمٌ ونصرتي لکم معدةحتّیٰ یحکم الله بدینه فمعکم معکم لامع عدوکم

“ ميرا دل آپ کے سامنے سراپاتسليم ہے اور ميری نصرت آ پ کےلئے حاضر ہے یہاں تک

____________________

١)سورئہ نحل آیت / ١٢٠ ۔ )

۲۳۳

کہ پروردگاراپنے دین کا فيصلہ کردے تو ميں اپ کے ساته ہوں آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ”

حضرت امام حسن عليہ السلام کی زیارت ميں واردہوا ہے : لبيک داعي اللهان کان لم یجبک بدني عنداستغاثتک ولساني عند استنصارک قد اجابک قلبي وسمعي وبصري

“ميں نے خداوند عالم کی دعوت پر لبيک کہی اے الله کی طرف بلانے والے اگر چہ ميرے جسم نے آپ کے استغاثہ کے وقت لبيک نہيں کہی اور ميری زبان نے آپ کے طلب نصرت کے وقت جواب نہيں دیا ليکن ميرے دل ،کان اور آنکه نے لبيک کہی ”

زیارت حضرت ابو الفضل العباس :

وقلبي لکم مسلّم وانالکم تابع ونصرتي لکم معدةحتی یحکم الله وهو خيرالحاکمين

“ميرا دل آپ کے سامنے جهکا ہے اور تابع فرمان ہے اور ميں آپ کا تابع ہوں اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ خدا فيصلہ کردے اور وہ بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام روز اربعين :وقلبي لقلبکم سلم،وامريلامرکم متبع،ونصرتي لکم معدة،حتّیٰ یاذن الله لکم،فمعکم معکم لامع عدوکم

“اور ميرا دل آپ کے سامنے سراپا تسليم ہے اور ميرا امر آپ کے امر کے تابع ہے اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ الله آپ کو اجا زت دے تو ہم آپ کے ساته ہيں اور آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ہيں ”

یہ معيت جس کو زائر اپنے موقف اور ائمہ مسلمين سے دوستی کے ذریعہ آمادہ وتيار کرتا ہے یہ موقف اور دوستی کی روح ہے ۔ان کی خوشی وغم، صلح وجنگ آسانی عافيت اور سختی ومشکل ميں ساته رہنا دنيا ميں ان کے ساته رہنا انشاء الله آخرت ميں ان کے ساته رہنا ہے ۔

۲۳۴

انتقام کےلئے مدد کی دعا

موقف کے مطالبوں ميں سے ایک مطالبہ مدد کےلئے دعا مانگنا ہے ۔جب مو قف کا سر چشمہ سچا دل ہوگا تو انسان الله سے مسلمانوں کے امام اور مسلمانوں کی مددکےلئے ہر وسيلہ سے دعا مانگے گا دعاکے ان وسائل ميں سے ایک وسيلہ الله کی بارگاہ ميں حاضر ہوکر دعا مانگتا ہے اور دعا ان وسائل ميں سے سب سے افضل اور بہترین وسيلہ ہے مگر دعا عمل ،عطا اور قربانی دینے سے مستغنی نہيں ہے ۔

سياسی موقف کے ستون کے لئے اس مضمون کی دعا اہلبيت عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعا ؤں ميں ہے اور ہم ذیل ميں اس دعا کے چند نمونے پيش کرتے ہيں :

ہم آل محمد عليہم السلام سے مہدی منتظر عجل الله فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :

اللهم انصره وانتصربه لدینک،وانصربه اوليائک،اللهم واظهربه العدل،وایّده بالنصر،وانصرناصریه واخذل خاذليه،واقصم به جبابرةالکفرواقتل الکفاروالمنافقين واملابه الارض عدلاًواظهربه دین نبيک

“خدا یا! اپنے ولی کی نصرت فرما اور ان کے ذریعہ دین کی مددفرما اپنے اولياء اور ان کے اولياء کی مدد فرما ۔۔۔اور ان کے ذریعہ عدل کو ظاہر فرما نااور اپنی نصرت سے ان کی تائيد فرمانا ان کے ناصروں کی مدد کرنا اور ان کو رسوا کرنے والوں کو ذليل کر اور دشمنوں کی کمر توڑدے تمام جابر کافروں کی کمر توڑ دے تمام کفار و منافقين اور تمام ملحدین کوفنا کردے ۔۔۔اور ان کے ذریعہ زمين کو عدل سے بهردے اور ان کے ذریعہ اپنے نبی کے دین کو غالب فرما”

۲۳۵

حضرت امام مہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کےلئے دعاؤں کے چندنمونے :

اللهم انّک ایدت دینک في کل اوان بامام اقمته لعبادک ومنارافي بلادک،بعدان اوصلت حبله بحبلک،وجعلته الذریعةالی رضوانک اللهم فاوزع لوليک شکرماانعمت به عليه،واوزعنامثله فيه،وآته مِن لدنک سلطانا نصيرا،وافتح له فتحایسيراًواعنه برکنک الاعز،واشددازره،وقوّعضده وراعه بعينک،واحمه بحفظک،وانصره بملائکتک وامدد،بجندک الاغلب،واقم به کتابک وحدودک وشرائعک وسنن رسولک واحيی به مااماته الظّالمون من معالم دینک،واجل به صداالجورعن طریقک،وابن به الضراء من سبيلک،وازل به الناکبين عن صراطک وامحق به بغاةقصدک عوجاً،والن جانبه لاوليائک،وابسط یده علی اعدائک،وهبّ لنارافته ورحمته وتعطفه وتحنّنه،واجعلناله سامعين مطيعين،وفی رضاه ساعين والی نصرته والمدافعةعنه مکنفين

“بار الٰہا! تو نے اپنے دین کی، ہر زمانہ ميں ایسے امام کے ذریعہ نصرت کی ہے جس کو تو نے اپنے بندوں کےلئے منصوب فر مایا اپنی مملکت ميں منارئہ ہدایت قرار دیا اس کے بعد جبکہ تو نے اس کو اپنی رضا تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا با ر الٰہا لہٰذا اپنے ولی کو اپنے اوپر نا زل ہو نے والی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کی تو فيق عطا فرما اور اس سلسلہ ميں ہم کو بهی شکر ادا کرنے کی توفيق عطا فرما اپنی جانب سے اس امام کو کامياب حکو مت عطا فرما آسانی کے ساته فتح و نصرت عطا فرما اپنے مضبوط ارکان کے ذریعہ اس کی مدد فرما اس کو ہمت دے ،اس کو قوی کر ، اس کی نگرانی کر ،اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مددکر، اپنے فاتح لشکر کے ذریعہ ظفریاب کر ،اس کے ذریعہ اپنی کتاب ،حدود شریعت اور اپنے رسول کی سنتوں کو قائم کر ،اس کے ذریعہ اپنے دین کی ان نشانيوں کو زندہ کر جن کو ظالمين نے مردہ کر دیا ہے، اس کے ذریعہ اپنی راہ سے انحراف کی جِلا بخش ،اس کے ذریعہ اپنی تاریک راہ کو رو شن کر ،اس کے ذریعہ اپنی راہ سے دو ری اختيار کرنے والو ں کو نا بود کر ،اس کے ذریعہ تيرا بيجا طور پر قصد کرنے والوں کو فنا کردے ،اس کو اپنے دو ست داروں کےلئے خوش اخلاق کردے اس کو اپنے دشمنوں پر مسلّط کردے اس کی محبت سے ہم کو بہرہ مند فرما ،ہم کو اس کا اطاعت گذار قرار دے اس کی رضا کے سلسلہ ميں کو شش کرنے والا قرار دے اس کی مدد اور دفاع کرنے کے سلسلہ ميں آمادہ کردے ”

نيز زیارت امام صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہے :

۲۳۶

اللهم انجزلوليک ماوعدته،اللهم اظهرکلمته واعل دعوته وانصره علی عدوه وعدوک،اللهم انصره نصراعزیزاً،وافتح له فتحایسيراً،اللهم واعزّبه الدین بعدالخمول،واطلع به الحق بعدالافول،واجل به الظلمة،واکشف به الغمة، وآمن به البلادواهدبه العباد،اللهم املابه الارض عدلاًوقسطاًکماملئت ظلماًوجوراً

“خدایا!جس کا تونے وعدہ کيا ہے اسے اپنے نبی کيلئے پورا کردے خدایا! اس کے کلمہ کو ظاہر کر دے اور اس کی دعوت کی آواز کو بلند کر اور اس کے اور اپنے دشمن کے مقابلہ ميں اس کی مدد فرما۔۔۔خدایا !اس کی غلبہ عطا کرنے والی مدد سے مدد کر اور اس کو آسانی سے مکمل فتح عطا کر خدایا! اس کے ذریعہ سے گمنامی کے بعد دین کو غلبہ عطا کر اور اس کے ذریعہ حق کو ڈوبنے کے بعد طالع کر اور اس کے ذریعہ سے ظلمت کو نورانيت عطا کر اور اس کے ذریعہ مشکلات کو دور فرمااور خدایا اس کے ذریعہ شہروں کوامن عطا کر اور بندوں کی ہدایت کر خدایا اس کے ذریعہ زمين کو عدل و انصاف سے بهردے جبکہ وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہو ”

انتقام اور خون خواہی کےلئے دعا

“انتقام ”اور انتقام کےلئے دعا مانگنا موقف کا جزء ہے حضرت ابراہيم بلکہ حضرت نوح سے ليکر آج تک خاندان توحيد کا ایک ہی موقف ہے ۔ان کا راستہ اور ان کی غرض وغایت ومقصد ایک ہے اور یہ موقف حضرت ابراہيم سے ليکر امام مہدی کے ظہور تک اس طرح باقی رہے گا تا کہ خداوندعالم ان کے ذریعہ اس خون واشک کے فتوحات ،اور مشکلات کی راہ ميں ان کو فتح ونصرت عطا کرے اور خدا ان لوگوں سے جنهوں نے ان کو شہيد کيا ،ان پر ظلم وستم کيا اس راستہ ميں ظلم وستم کر نے والوں کی قيادت کی ،ان کے رہبر ،ان کی نسل اور جنهوں نے الله کے دین سے روکا ان سے انتقام لے ۔

اس خاندان پر سب سے زیادہ ظلم وستم ،مصائب ،پياس قتل وغارت کربلا کے ميدان ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اہل بيت عليہم السلام اور اصحاب پر ڈها ئے گئے ۔

۲۳۷

ہم خداوند قدوس سے دعا کر تے ہيں کہ وہ ہم کو ان لوگوں سے انتقام لينے والوں ميں سے قراردے جنهوں نے ظلم وستم ڈهائے ،اس روش پر برقرار رہے ،ان کی اتباع کی اور جو ان کے اس فعل پر راضی رہے ۔

اللهم واجعلنامن الطالبين بثاره مع امام عدل تعزّبه الاسلام واهله یاربّ العالمين

“خدایا !ہم کوامام حسين عليہ السلام کے خون کا بدلہ لينے والوں ميں امام عادل (امام زمانہ) کے ساته قرار دے جس کے ذریعہ تو اسلام اور اہل اسلام کو عزت دے گا اے عالمين کے پروردگا ر ” ١۔رسول اسلام (ص)او ران کے اہل بيت عليہم السلام کيلئے دعا ان پر درود اور خداوند عالم کی جانب سے ان کيلئے طلب رحمت :اللهم صلّ علی محمّدوآله صلوات تجزل لهم بهامن نحلک و کرامتک،وتکمل لهم الاشياء من عطایاک ونوافلک،وتوفّرعليهم الحظ من عوائدک وفواضلک

“خدایا !محمد وآل محمد پر ایسے درود بهيج جس کے ذریعہ تو ان کيلئے اپنی بزرگواری اور کرم کو وافر مقدار ميں ان کو عطا کر اور ان کيلئے اپنی بخششيں کامل کر اور ان پر بکثرت اپنی نعمتيں نازل فر ما ”

اللهم صلّ علی محمّدوبارک علی محمّد وآل محمّد،کافضل ماصلّيت وبارکت وترحمت وتحنّنت وسلّمت علی ابراهيم وآل ابراهيم

“خدایا محمد اور آل محمد پر درودبهيج اورمحمد وآل محمدپر برکت نازل فرماجس طرح کہ تو نے صلوات و برکت ورحمت،مہربانی اور سلام ابراہيم اور آل ابراہيم پر قرار دیاہے ،

٢۔رسول کيلئے دعا :رسول اور اہل بيت عليہم السلام کے سلسلہ ميں یہ دعا خدا ان کو اپنے بندوں کيلئے اپنی رحمت تک پہنچنے کا ذریعہ اور شفيع قرار دے اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :

اللهم اعط محمداً الوسيلةوالشرف والفضيلةوالمنزلةالکریمةاللهم اعط محمّداًاشرف المقام وحباء السلام وشفاعةالاسلام،اللهم الحقنابه غير خزایاولاناکثين ولانادمين

۲۳۸

“خدایا !محمد کو وسيلہ ،شرف اور فضيلت اور کریم منزلت عطا فرما خدایا تو محمد کو بہترین مقام اور سلام کا تحفہ اور شفاعت اسلام عطا کر خدایا ہم کو ان سے اس طرح ملا کہ نہ رسوا وذليل ہوں نہ عہد کے توڑنے والے اور نہ شرمندہ ہوں ” اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :اللهم واعطه الدرجةوالوسيلةمن الجنةوابعثه المقام المحمود،یغبطه به الاوّلون والآخرون

“خدایا !ان کو بلند درجہ عطا کر اور وسيلہ جنت عطا کر اور ان کو مقام محمود پر مبعوث کر کہ ان پر اولين وآخرین غبطہ کریں ” ٣۔رسول خدا (ص)اور ان کے اہل بيت عليہم السلام سے الله کے اذن سے توسل کرنا :

فاجعلني اللهم بمحمّدواهل بيته عندک وجيهاًفی الدنياوالآخرة،یا رسول الله اني اتوجه بک الی الله ربّک وربي ليغفرلي ذنوبي ویتقبل مني عملي ویقضي لي حوائجي فکن لي شفيعاًعندربّک وربي فنعم المسوول المولیٰ ربي و نعم الشفيع انت یامحمّدعليک وعلی اهل بيتک السلام

“بار الٰہا !پس مجه کو محمد اور ان کے اہل بيت کے نزدیک دنيا اور آخرت ميں سرخرو قرار دے یا رسول الله بيشک ميں آپ کے اور اپنے پروردگار کی طرف آپ کے وسيلہ سے متوجہ ہوتا ہوں تا کہ وہ ميرے گناہ بخش دے اور مجه سے ميرا عمل قبول کرے اور ميری حا جتيں پوری کرے ،لہٰذا آپ اپنے اور ميرے پروردگار کے نزدیک ميرے شفيع ہو جا ئيے کيونکہ پرور دگار بہت اچها آقا اور سوال کرنے کے لائق ہے اور اے محمد! آپ بہترین شفيع ہيں آپ پر اور آپ کے اہل بيت پر درود وسلا م ہو ” زیارت ائمہ اہل بقيع عليہم السلام ميں آیا ہے :

وهذامقام مَن اسرف واخطاواستکان،واقرّبماجنیٰ،ورجیٰ بمقامه الخلاص فکونوالی شفعاء فقد وفدت اليکم اذ رغب عنکم اهل الدنياواتخدوا آیات الله هزواًواستکبرواعنها

“آپ کے سامنے وہ شخص کهڑا ہے جس نے زیادتی کی ہے غلطی کی ہے مسکين ہے، اپنے گناہوں کامعترف ہے اور اب نجات کا اميدوارہے ۔۔۔آپ اہل بيت اس کی بارگاہ ميں ميرے شفيع بن جائيں کہ ميں آپ کی بارگاہ ميں اس وقت آیا ہوں جب اہل دنيا آپ سے کنارہ کش ہوگئے اور انهوں نے آیات خدا کا مذاق اڑایا ہے ” رسول خدا (ص) کے چچا حضرت حمزہ عليہ السلام کی زیارت ميں آیا ہے:

۲۳۹

اتيتک من شقةطالب فکاک رقبتي من الناروقداوقرت ظهري ذنوبي وآتيت مااسخط ربي ولم اجداحداًافزع اليه خيراًلي منکم اهل بيت الرحمه فکن لي شفيعاً

“ميںبہت دور سے آیا ہوں ميرا مقصد یہ ہے کہ الله ميری گردن کو جہنم سے آزاد کر دے کہ گنا ہوں نے ميری کمرتوڑ دی ہے اور ميں نے وہ کام کئے ہيں جنهوں نے ميرے خدا کوناراض کردیاہے اوراب کو ئی نہيں ہے جس کے سامنے فریاد کروں یاآپ سے بہتر ہوآپ اہل بيت رحمت ہيںلہٰذا روز فقر و فاقہ ميری شفاعت فرمائيں” ۴ ۔الله تبارک و تعالیٰ کی جانب اہل بيت عليہم السلام کی ہمنشينی قيامت ميں ان کی ہمسا ئيگی اور دنيا ميں ان کی ہدایت اور ان کے راستہ پر ثابت قدمی کا سوال کرکے متوجہ ہونااور یہ کہ ہم دنيا ميں انهيں کی طرح زندہ رہيں او ر ہم کو انهيں کی طرح مو ت آئے اورہم آخرت ميں اُن ہی کے گروہ بلکہ ان ہی کے ساته محشور کئے جا ئيں جيسے الله نے مجھے دنياميں ان کی ہدایت اور ان سے محبت کرنے کی توفيق عطا کی ہے ۔

رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں وارد ہوا ہے :اللهم واعوذبکرم وجهک ان تقيمني مقام الخزي والذّل یوم تهتک فيه الاستاروتبدوفيه الاسرار،وترعدفيه الفرائص ویوم الحسرةوالندامة،یوم الآفکة،یوم الآزفة،یوم التغابن،یوم الفصل،یوم الجزاء،یوماًکان مقداره خمسين الف سنة،یوم النفخة،یوم ترجف الراجفة،تتبعهاالرادفة،یوم النشر،یوم العرض، یوم یقوم الناس لربّ العالمين،یوم یفرّالمرء من اخيه وامّه وابيه وصاحبته وبنيه، یوم تشقق الارض واکناف السماء،یوم تاتی کلّ نفس تجادل عن نفسها،یوم یُردون الی الله فيُنبوهم بماعملوا،یوم لایغني مولیٰ عن مولیٰ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248