دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 56163
ڈاؤنلوڈ: 2335


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56163 / ڈاؤنلوڈ: 2335
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

اس جنگ کے دائرہ حدودميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام فرزند رسول کےلئے نماز قائم کر نے زکات ادا کرنے اور فی سبيل الله جهاد کر نے کی گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد اس جنگ کے پس منظر کو بر قرار رکهتے ہوئے اس سلسلہ کو واقعہ کربلا کے بعد خدا کی طرف سے امامت ولایت اور قيادت سے متصل کر تاہے ہم اس گواہی کے سلسلہ ميں بہت سے فقرے حضرت امام حسين السلام کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :اشهدانک قد بلغت عن اللّٰهِ مَاامرک به ولم تخش احدا غيره،وجاهدت فی سبيله،وعبد ته،مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين واشهد انک کلمة التقویٰ،والعروة الوثقیٰ،والحجة علیٰ مَن یبقیٰ واشهد انک عبد الله وامينه،بلّغت ناصحاًوادیت اميناً،وقُتلتَ صدّیقاً،ومضيت علیٰ یقين،لم توثرعمیٰ علیٰ هدیٰ،ولم تُمل من حق الیٰ باطل اشهد انک قد اقمت الصلاة ،وآتيت الزکاة ،وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکرواتبعت الرسول وتلوت الکتاب حقّ تلاوته و دعوت الیٰ سبيل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة اشهد انک کنت علیٰ بيّنة من ربک قدبلّغت مااُمرت به وقمت بحقّهِ،وصدّقت مَن قبلک غيرواهن ولا موهن اشهد ان الجهاد معک،وان الحقّ معک واليک وانت اهله و معدنه،و ميراث النبوة عندک ”۔

“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے الله کے اس پيغام کو پہنچایا جس کا اس نے آپ کو حکم دیاتها اور آپ خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہيں ہوئے اورآپ نے راہ خدا ميں جہاد کيا اور اس کی خلوص کے ساته عبادت کی یہاں تک کہ آ پ کو موت آگئی ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کلمہ تقویٰ اور عروہ وثقیٰ اور اہل دنيا پر حجت ہيں اور ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے بندہ اور اس کے امين ہيں ، آ پ نے ناصحانہ انداز ميں پيغام حق پہنچایا اور امانت کو ادا کيا آپ صدیق شہيد کئے گئے ، اور یقين پر دنيا سے گئے ،ہدایت کے بارے ميں کبهی گمراہی کو ترجيح نہيں دی اورکبهی حق سے باطل کی طرف مائل نہيں ہوئے ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے نماز قائم کی ،اور زکوٰة ادا کی اور نيکيوں کا حکم دیابرائيوں سے روکااور رسول کا اتباع کيا اور قرآن کی تلا وت کی جوتلا وت کاحق تھا اورحکمت اور مو عظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلایا،ميں گواہی دیتا ہوںکہ آپ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے اور جو آپ کو حکم دیا گيا تهاآپ نے اسی کو پہنچایا،اس کے حق کے ساته قيام کياجس نے آپ کو قبول کيااس کی آپ نے اس طرح تصدیق کی کہ نہ اس کی کو ئی تو ہين ہواور نہ آپ کی تو ہين ہو ،ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ جہاد آپ کے ساته ہے اور حق آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کا معدن ہيں ” وارثت کی گواہی

۲۲۱

یہی وہ امامت ہے جس کی ہم نے اس زیارت ميں گواہی دی ہے اور وہ امامت حضرت امام حسين عليہ السلام کے بعد آپ کی نسل درنسل باقی رہے گی یہ امامت درميان ميں منقطع ہونے والی نہيں ہے یہ امامت ائمہ توحيد کی امامت ہے جو تاریخ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام سے مستقر ہوئی ہے حضرت آدم حضرت نوح اور حضرت ابراہيم سے رسول خدا (ص) حضرت علی اورامام حسن تک پہنچی ہے حضرت امام حسين عليہ السلام اس امامت کی تمام ارزشوں اور ذمہ داریوں کے وارث ہيں :

( انّ الله اصط فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْهِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَل یٰ العَْالَمِينَْ ذُرِّیَّةً بَعضُْهَا مِن بَعضٍْ وَالله ٰ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ ) ( ١)

“الله نے آدم ،نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے ”

حضرت امام حسين عليہ السلام کر بلا ميں اس وارثت کے عہدہ دارتھے :امام حسين عليہ السلام اس عظيم ميراث کو کر بلا تک لے گئے تا کہ لوگ اس کے ذریعہ دليل پيش کریں اس کا دفاع کریں اس

____________________

١)سورئہ آلِ عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔ )

۲۲۲

کی مخالفت کر نے والوں سے جنگ کریں یہ بلاغ المبين اسی رسالت کےلئے ہے جس ميراث کو حضرت امام حسين عليہ السلام نے آل ابراہيم اور آل عمران سے پایا تھا ۔

اس معرکہ کے وسط ميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام کےلئے گواہی دیتا ہے:

١۔اس مقام پر واضح طورپر یہ ثابت ہوجا تا ہے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام کی یزید سے جنگ اور حضرت ابراہيم عليہ السلام کے نمرود سے مقابلہ اسی طرح حضرت موسیٰ کا فرعون سے ڻکراؤ اور رسول خدا (ص)کی ابو سفيان سے مخالفت نيز حضرت علی کی معاویہ سے جنگ ميں کوئی فرق نہيں ہے۔

٢۔تمام مرحلوں ميں اس جنگ کا محور، روح توحيد ہے ۔

٣۔جو ميراث حضرت امام حسين عليہ السلام کو آل ابراہيم اور آل عمران سے ورثہ ميں ملی جس کےلئے آپ نے کربلا کے ميدان ميں قيام کيا وہ ميراث آپ کے بعد آپ کی ذریت ميں موجود رہی انصار جنهوں نے امام حسين عليہ السلام کا اتباع کيااسی طرح یہ ميراث ان کے تابعين جو آل ابرا ہيم اور آل عمران کی راہ سے ہدایت حاصل کرتے رہے ان ميں باقی رہی۔

ہم صالحين کی وراثت کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کی شہادت کےلئے زیارت وارثہ کے جملے پڑهتے ہيں :

السلام عليک یاوارث آدم صفوةالله ،السلام عليک یاوارث نوح نبي اللّٰه السلام عليک یاوارث ابراهيم خليل اللّٰه ،السلام عليک یاوارث مو سیٰ کليم اللّٰه،السلام عليک یاوارث عيسیٰ روح اللّٰه،السلام عليک یاوارث محمّدحبيب اللّٰه،السلام عليک یاوارث اميرالمومنين ولي اللّٰه

۲۲۳

“سلام آپ پر اے آدم صفی الله کے وارث ،سلام آ پ پراے نوح نبی خدا کے وارث، سلام آپ پر اے ابراہيم خليل خدا کے وارث،سلام آپ پراے مو سیٰ کليم الله کے وارث ،سلام آپ پر اے عيسیٰ روح الله کے وارث ،سلام ہوآ پ پر اے محمدصلی الله عليہ وآلہ حبيب خدامحمدمصطفےٰ کے وارث،سلام ہو آپ پر اے اميرالمو منين ولی الله کے وارث ”

آل ابراہيم اور آل عمران کی اس وراثت کی اگر چہ قرآن کی آیت کے مطابق ایک نسل ذریت کی طرف نسبت دی گئی ہے :

( ذُرِّیَّةً بَعضُْهَامِن بَعضٍْ ) ( ١)

“یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ” مگر یہ کہ یہ رسول خدا (ص)اور مو لا ئے کائنات کی جانب فرزندی کی طرف ذریتی انتساب کے عنوان کے علاوہ ایک اور عنوان ہے کيونکہ یہ عنوان براہ راست اس شہادت کے بعد وارد ہوا ہے :

“السلام عليک یابن محمّد المصطفیٰ ،السلام عليک یابن علی المر تضیٰ السلام عليک یابن فاطمة الزهراء السلام یابن خدیجة الکبری ” “سلام آپ پر اے محمد مصطفے کے فرزند سلام آپ پر اے علی مر تضیٰ کے دلبند سلام آپ پر اے فاطمہ زہرا کے لخت جگر سلام آپ پر اے خدیجة الکبریٰ کے فرزند ”

شاہد ومشہود

زیارتوں ميں گواہی سے متعلق روایات ميں شاہد اور مشہود کے درميان کوئی ربط نہيں ہے ان گواہيوں ميں زائر جس کی زیارت کر رہا ہے اس کی گواہی دیتا ہے :

انّک قد اقمت الصلاة وآتيت الزکاة وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکروجاهدت في سبيل الله حقّ جهادہ

“بيشک آپ نے نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اورنيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں سے روکا اور الله کی

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت/ ٣۴ ۔ )

۲۲۴

راہ ميں جہاد کيا جو جہاد کا حق تھا ” پس زائر شاہد اور جس کی زیارت کر رہا ہے وہ مشہودلہ ہے اور اس کا عکس بهی صحيح ہے

بيشک الله کے انبياء عليہم السلام اس کے رسول اور ان کے اوصياء امتوں پر شاہد ہيں اور رسول الله (ص) ان کے اوصياء اس امت کے شاہد ہيں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( وَیَومَ نبعثُ فی کُلّ اُمّةٍ شهيداًعليهم مِن انفُْسِهِم وَجِئْنٰابک شهيداًعلیٰ هٰولاٰء ) ( ١)

“اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انهيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئيں گے ۔۔۔”

( یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ اِنَّااَرسَْلنَْاکَ شَاهِداًوَمُبَشِّراًوَنَذِیرْاً ) ( ٢)

“اے پيغمبر ہم نے آپ کو گواہ،بشارت دینے والا ،عذاب الٰہی سے ڈرانے والا”( کَ لٰ ذِکَ جَعَلنَْاکُم اُمَّةً وَسَطاًلِتَکُونُْواْشُهَدَاءَ عَل یٰ النَّاسِ وَیَکُونَْ الرَّسُولُْ عَلَيکُْم شَهِيدْاً ) (٣)

“اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پيغمبر تمہا رے اعمال کے گواہ رہيں ” (( وَلِيَعلَْمَ الله الَّذِینَْ آمَنُواْوَیَتَّخَذَمِنکُْم شُهَدَاءَ ) (۴)

____________________

١)سورئہ نحل آیت/ ٨٩ ۔ )

٢)سورئہ احزاب آیت/ ۴۵ ۔ )

٣)سورئہ بقرہ آیت/ ١۴٣ ۔ )

۴)سورئہ آل عمران آیت/ ١۴٠ ۔ )

۲۲۵

“تا کہ خدا صاحبان ایمان کو دیکه لے اور تم ميں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمين کو دوست نہيں رکهتا ہے ”

( فاو ئِٰلکَ مَعَ الَّذِینَْ اَنعَْمَ الله عَلَيهِْم مِنَ النَّبِيِّينَْ وَالصِّدِّیقِْينَْ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَْ ) ( ١)

“وہ ان لوگوں کے ساته رہے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل کی ہيں انبياء ،صدیقين،شہداء اور صالحين ”

پس زائر ین شاہد کی منزل سے مشہود کی منزل ميں پہونچ جاتے ہيں اسی طرح مشہود لہ جن کے لئے ہم نماز زکات، امر بالمعروف اور جہاد کی گو اہی دیتے ہيں وہ شاہد بن جاتے ہيں ۔

زیارتو ں ميں واردہوا ہے :انتم الصراط الاقوم وشهداء دارالفناء وشفعاء دارالبقاء

اور حضرت اميرالمو منين عليہ السلام کی آڻهویں زیارت ميں آیا ہے :

مضيت للذی کنت عليه شهيداًوشاهداًومشهوداً

“اور جس مقصد پر آپ تھے اسی پر شہيد ہوئے اور شاہد و مشہود ہوئے ”

____________________

١)سورئہ نساء آیت/ ۶٩ ۔ )

۲۲۶

ب:الموقف

شہادت کے فيصلہ ميں حکم کا تابع ہے ۔

اور حکم سياست ميں موقف کاتابع ہوتا ہے ۔

مو قف کو واضح و صاف شفاف اورقوی ہونا چاہئے نيز نفس کو قربانی اور فدا کاری کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ۔

اور مسلمانوں کی تاریخ صفين اور کربلا جيسے واقعات ميں ان افراد سے مخصوص نہيں ہے جو اس حادثہ کے زمانہ ميں مو جود تھے بلکہ یہ مو قف خوشنودی ،رضایت ،محبت اور دشمنی کا لحاظ ان افراد کے لئے بهی ہوگا جو اُس حادثہ کے زمانہ ميں موجود نہيں تھے ۔

تاریخ ميں یہ ایام فرقان کی خصوصيات ميںسے ہے جن ميں لوگ دو ممتازمحاذوں ميں تقسيم ہوجا تے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک سے اختلاف بر طرف ہوجاتا ہے جس کی بناء پر حق اور باطل کسی شخص پر مخفی نہيں رہ جاتامگر یہ کہ الله نے اس کے دل،کان اور آنکه پر مہر لگا دی ہو ۔

یہ ایام لوگوںکو دو حصوں ميںتقسيم کرتے رہے ہيں اور اُن کو تاریخ ميںخو شنودگی ناراضگی، محبت اور دو ستی کی بنا پردو حصوں ميں تقسيم کرتے رہے ہيں اور تيسرے فریق کو ميدان ميں چهوڑتے رہے ہيں صفين اور کربلا انهيں ميں سے ہے۔

جو شخص بهی دونوںبر سر پيکار فریقوں کو درک کرکے بدر ،صفين اور کربلا کے واقعہ کاجا ئزہ لے وہ یا تو اِس فریق کی طرفدار ی کرے گا اوراس محاذميں داخل ہو جا ئيگا یا دوسرے فریق کی طرفداری کرے گااور دوسرے محاذ ميں داخل ہو جائيگا اس کو ان دونوں ميں سے کسی ایک سے مفر نہيں ہے اور یہی مو قف ہے ۔ خداوندعالم سيد حميری پر رحم کرے جنهوں نے اس تاریخی پہلو کو حق اور باطل کے درميان ہو نے والی جنگ کو اشعار ميں بيان کيا ہے :انی ادین بما دان الوصی به یوم الربيضة من قتل المحلينا وبالذی دان یوم النهر دنت له وصافحت کفه کفی بصفينا تلک الدماء جميعاربّ فی عُنُقی ومثله معه آمين آمينا “ميں جنگ جمل کے دن اسی مو قف کا حامل ہوں جس کو مو لائے کائنات نے اختيار کيا تهایعنی مخالفين کو قتل کرنا ” “اور نہروان کے دن بهی ایسے ہی مو قف کا حامل ہوں اورميرا یہی حال صفين کے سلسلہ ميں ہے ”

۲۲۷

“پروردگار وہ سارے خون ميری گردن پر ہيں اور مو لائے کائنات کے ساته ایسے وقائع ميں ہمراہی کےلئے ميں ہميشہ آمين کہتا رہتا ہوں ”

جو کچه صفين اور کربلا کی جنگ ميں رونما ہوا وہ حقيقی اور آمنے سامنے کی جنگ تهی جو مصاحف کے اڻه جانے اور حکمين کے صفين ميں حکم کرنے اور کر بلا ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اصحاب کے شہيد ہوجانے سے منقطع نہيں ہوئی بلکہ صفين اور کر بلا کو مخصوص طور پر یاد کيا جانے لگا اس لئے کہ یہ ہمارے نظر یہ کے مطابق تاریخ اسلام ميں حق اور باطل کے درميان فيصلہ کر نے والی جنگيں تين ہيں جنگ بدر ،صفين اور کر بلا تاریخ اسلام ميں ان ہی تينوں کو ایام فرقان کہا جاتا ہے ۔

یہ جنگ آج بهی فریقين کے درميان اسی طرح باقی وساری ہے ۔۔۔یہ تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخ موجود ہ امت کےلئے یہی سياسی اور متمدن تاریخ کی ترکيب شدہ شکل ہے اور ماضی (گزرے ہو ئے زما نہ) اور موجود ہ زمانہ ميں فاصلہ ڈالنا نہ ممکن ہے اور نہ ہی صحيح ہے ۔چونکہ فرزند اپنے آباء و اجداد سے “مواقع” اور“ مواقف ”ميں ميراث پاتے ہيں ۔موقف سے ہماری مراد تاریخ ميں حادث ہونے والے واقعات ہيں اور واقعہ حادث ہونے کے وقت انسان پر اپنے رفتار وگفتار سے عکس العمل دکها نا واجب ہے اس کو موقف کہا جاتاہے۔تو جب یہ جنگ ثقافتی جنگ تهی اور سمندر کے کسی جزیرہ یا زمين کے کسی ڻکڑے سے مخصوص نہيں تهی تو یہ جنگ یقينا ایک نسل سے دو سری نسل کی طرف منتقل ہوگی ما ضی کو پارہ کر کے حال سے متصل ہو جا ئيگی اور اس کو اولاد اپنے آباء و اجداد سے ميراث ميں پائيگی ایسی صورت ميں مو قف کو موقع سے جدا کرنا ممکن نہ ہوگا جس کی بنا ء پر یہ مواقع مو جودہ نسل کی طرف دونوں بر سر پيکار فریقوں ميں سے ہر ایک کے مو قف کی حمایت کی بناء پرمنتقل ہو جا ئيں گے ۔

یہ ميراث ایک فریق سے مخصوص نہيں ہے بلکہ جس طرح مو اقع و مو اقف سے صالحين کو صالحين کی ميراث ملتی ہے اسی طرح مستکبرین اور ان کی اتباع کرنے والے مستکبرین کے مو اقع اور مواقف کی ميراث پاتے ہيں ۔ہم اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایات ميں واضح طور پر مواقف کی ميراث کا مختلف صورتوں ميں زیارتوں ميں مشا ہدہ کرتے ہيں ہم ذیل ميں ان کے کچه نمونے پيش کرتے ہيں : ولایت و برائت

۲۲۸

اس کا آشکار نمونہ او لياء الله سے دو ستی اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے اس دو ستی اور دشمنی کا مطلب ان جنگوں اور ڻکراؤ سے خالی ہو نا نہيں ہے بلکہ یہ تو اس کا ایسا جزء ہے جو اِن جنگوں ميںسياسی مو قف سے جدا نہيں ہو سکتا جس کو اسلام نے دو حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ہم دو ستی کے سلسلہ ميں زیارت جا معہ معروفہ ميں پڑهتے ہيں :

اشهد الله واشهدکم انی مومن بکم وبماآمنتم به،کافربعدوکم وبما کفرتم به مستبصربکم وبضلالةمن خالفکم،موال لکم ولاوليائکم مبغض لاعدائکم ومعادٍلهم،سلم لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم محقق لماحققتم، مبطل لماابطلتم

“ميں خدا کو اور آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ ميں آپ پراور ہر اس چيزپر ایمان رکهتا ہوں جس پر آپ کاایمان ہے ،آپ کے دشمن کا اور جس کا آپ انکار کردیں سب کا منکر ہوں آپ کی شان کو اور آپ کے دشمن کی گمرا ہی کو جانتا ہوں ۔آپ کا اور آپ کے اولياء کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے عداوت رکهتا ہوں اس سے ميری صلح ہے جس سے آپ نے صلح کی ہے اور جس سے آپ کی جنگ ہے اس سے ميری جنگ ہے جسے آپ حق کہيں وہ ميری نظرميں بهی حق ہے اور جس کو آپ باطل کہيں وہ ميری نظرميں بهی باطل ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام ميں پڑهتے ہيں :لعن الله امةاسست اساس الظلم والجورعليکم اهل البيت،ولعن الله امة دفعتکم عن مقامکم وازالتکم عن مراتبکم التی رتبکم الله فيها

“خدا یا!اس قوم پر لعنت کرے جس نے آپ کے اہل بيت پرظلم وجورکئے اور اس قوم پرلعنت کرے جس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہڻادیا اور اس جگہ سے گرادیا جس منزل پر خدا نے آپ کورکها تھا ” اور

اللهم العن اول ظالم ظلم حقّ محمّدوآل محمّدوآخرتابع له علی ذلک،اللهم العن العصابةالتی جاهدت الحسين وشایعت وتابعت علی قتله اللهم العنهم جميعا

“خدایا !اس پہلے ظالم پر لعنت کر جس نے محمد وآل محمد پر ظلم کيا ہے اور اس کا اتباع کرنے والے ہيں ۔خدایا !اس گروہ پر لعنت کر جس نے حسين سے جنگ کی اورجس نے جنگ پراس سے اتفاق کر ليا اورقتل حسين پرظالموں کی بيعت کرلی ”

۲۲۹

زیارت عاشوراء غير معروفہ ميں آیا ہے :

اللهم وهذایوم تجددفيه النقمةوتنزل فيه اللعنةعلی یزیدوعلی آل زیاد وعمربن سعدوالشمر اللهم العنهم والعن مَن رضي بقولهم وفعلهم من اول وآخر لعناًکثيرا واصلهم حرنارک واسکنهم جهنم وساء ت مصيرا،واوجب عليهم وعلی کلّ مَن شایعهم وبایعهم وتابعهم وساعدهم ورضي بفعلهم لعناتک التي لعنت بهاکل ظالم وکل غاصب وکل جاحد،اللهم العن یزیذوآل زیادوبنی مروان جميعا،اللهم وضاعف غضبک وسخطک وعذابک ونقمتک علی اوّل ظالم ظلم اهل بيت نبيک،اللهم والعن جميع الظالمين لهم وانتقم منهم انک ذونقمةمن المجرمين

“خدایا ! یہ وہ دن ہے جب تيرا غضب تازہ ہوتاہے اور تيری طرف سے لعنت کا نزول ہوتا ہے یزید، آل زیاد، عمر بن سعد اور شمر پر۔خدایا ان سب پر لعنت کر اور ان کے قول و فعل پر راضی ہوجانے والوں پر بهی لعنت کر چاہے اولين ميں ہوںيا آخرین ميں سے کثير لعنت فرما اور انهيں آتش جہنم ميں جلادے اور دوزخ ميں ساکن کردے جو بدترین ڻهکانا ہے اور ان کے لئے اور ان کے تمام اتباع اور پيروی کرنے والوں اور ان کے فعل سے راضی ہوجانے والوں کے لئے ان لعنتوںکے دروازے کوکهول دے جوتو نے کسی ظالم ،غاصب ،کافر، مشرک اور شيطان رجيم یا جبار و سرکش پرنازل کی ہے۔ خدا لعنت کرے یزید و آل یزید اور بنی مروان پر خدایا اپنے غضب اپنی ناراضگی اوراپنے عذاب و عقاب کومزید کردے ا س پہلے ظالم پرجس نے اہل بيت پيغمبر پر ظلم کياہے اورپهر ان کے تمام ظالموں پر لعنت کر اور ان سے انتقام لے کہ تو مجرمين سے انتقام لينے والا ہے ”

۲۳۰

رضا اور غضب

دو ستی اور دشمنی ميں رضا اور غضب بهی داخل ہے :رضا یعنی جس سے او ليا ء الله راضی ہو تے ہيں غضب جن سے اولياء الله غضب ناک ہوتے ہيں ۔ خوشی اور غضب ،محبت اور عداوت ایمان کی واضح نشانياں ہيں اور ان کے ستون ميں سے ہيں یہ سياسی موقف کےلئے عميق فکر ہے ان دونوں (رضااور غضب) کے بغير سياسی موقف مضمحل اور پائيدار نہيں ہے ۔

یہ وہ رابطہ اور ذاتی ایمان ہے جو سياسی موقف کو عمق ،مقاومت اور استحکام عطا کرتا ہے رضا اور غضب کے سلسلہ ميں زیارت صدیقہ فاطمة الزہرا عليہا السلام ميں آیا ہے :

اشهدالله ورسله وملائکته انيراض عمّن رضيت عنه ساخط علی مَن سخطت عليه،متبرء ممن تبرّئت منه موالٍ لمن واليت معادٍلمَن عادیت مبغض لمن ابغضت،محبّ لمن احبّبت

“ميں الله، رسول اور ملا ئکہ کو گواہ بناکرکہتا ہوں کہ ميں اس شخص سے راضی ہوں جس سے آپ راضی ہيں اورہر اس شخص سے ناراض ہوں جس سے آپ ناراض ہيں ہراس شخص سے بيزارہوں جس سے آپ بيزار ہيں آپ کے چاہنے والوں کا چاہنے والا آپ کے دشمنوںکا دشمن، آپ سے بغض رکهنے والوں کادشمن اورآپ سے محبت کرنے والوںکادوست ہوں ”

اور زیارت کے دوسرے فقر ے ميں آیاہے :

اشهد انی ولی لمن والاک وعدولمن عاداک وحرب لمن حاربک “ميں آپ کے دوستوں کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں جو آپ سے جنگ کرنے والے ہيں اس سے ہماری جنگ ہے ”

سلم اور تسليم

موقف کی خصوصيات ميں سے سلم اور تسليم ہے تسليم کا سلم وصلح سے بلند مر تبہ ہے لہٰذا موقف ميں سب سے پہلے مسالحت صلح ہونی چاہئے اور سلم ميں الله ،رسول اور اولياء الله اور اس کے صالحين بندوں کی اتباع کی جا ئے :

( یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْادخُْلُواْفِی السِّلمِْ کَافَّةً ) (١)

____________________

١)سورئہ بقرةآیت / ٢٠٨ ۔ )

۲۳۱

“ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاؤ ” اس سے چيلنج کو شامل نہ کيا گيا ہو:

( اَلَم یَعلَْمُواْاَنَّهُ مَن یُحَادِدِالله وَرَسُولَْهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَجَهَنَّمَ خَالِداًفِيهَْا ) (١) “کيا یہ نہيں جانتے ہيں کہ جو خداو رسول سے مخالفت کرے گا اس کيلئے آتش جہنم ہے اور اسی ميں ہميشہ رہنا ہے ”

نہ الله کے سامنے سرکشی اور استکبار کيا جا ئے :( وَلَاتَطغَْواْفِيهِْ فَيَحِلّ عَلَيکُْم غَضَبِی ) ( ٢)

“اور اس ميں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر ميرا غضب نازل ہو جائے ” مخالفت نہ ہو :

( وَاِنَّ الظَّالِمِينَْ لَفِی شِقَاقٍ بَعِيدٍْ ) ( ٣)

“اور ظالمين یقينابہت دور رس نا فر مانی ميں پڑے ہوئے ہيں ” دو سرے مر حلہ ميں اس مو قف کو رسول اور مسلمين کے امور کے سر پرستوں سے تسليم کی اطاعت پر قائم ہو نا چا ہئے صلح اور تسليم ميں سے ہر ایک کو انسان کی نيت ،قلب ،عمل اور رفتار ميں ایک ہی وقت ميں رچ بس جانا چا ہئے صلح ،تسليم اور پيروی دل سے ہو نی چا ہئے اور جب ایسی صورت حال ہواور سياسی مو قف ،نيت ،عمل اور با طن و ظا ہر ميں صلح و تسليم سے متصف ہو تو لو گ اکڻها ہو کر اس مو قف کو اختيار کریں اور اس مو قف کے لوگ اس کے خلاف موقف والوں کے ساته جمع نہيں ہوسکتے ۔ایسی صورت ميں مو من انسان اکيلا ہی ایک امت شمار ہوگا جو امت کا پيغام ليکر قيام کرتا ہے اور وہ امت کی

____________________

١)سورئہ توبةآیت/ ۶٣ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت / ٨١ ۔ )

٣)سورئہ حج آیت ۵٣ ۔ )

۲۳۲

طرح پائيدار اور مضبوط ہو گاجيسا کہ ہمارے باپ ابوالانبياء جناب ابراہيم عليہ السلام اکيلے ہی قرآن کی نص کے مطابق ایک امت تھے :

( اِنَّ اِبرَْاهِيمَْ کَانَ اُمَّةً قَانِتاً لِلهِّٰ حَنِيفْاًوَلَم یَکُ مِنَ المُْشرِْکِينَْ ) (١) “بيشک ابراہيم ایک مستقل امت اور الله کے اطاعت گذار اور باطل سے کتراکر چلنے والے تھے اور مشرکين ميں سے نہيں تھے ”

اور صلح و سلا متی کے بغير تاریخ ميں کو ئی مو قف رونما نہيں ہو تا اور اگر ہم مو قف کو صلح و سلا متی سے خالی کردیں تو مو قف کالعدم ہو جائيگا صلح تسليم خدا و رسول اور مسلمانوں کے پيشواؤں کی ہر بيعت کی جان ہے کيونکہ بيعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کی عطا کردہ ہر چيز منجملہ محبت، نفرت ، جان ،مال اور اولاد کو یکبارگی خداوند عالم کے ہاتهوں فروخت کردے اوروہ دل خداوند عالم کيلئے ہر چيز سے خالی ہو جا ئے ،پهر اس کے بعد اپنے معا ملہ پر نہ حسرت کرے اور ہی اپنے کام ميں شک کرے کيو نکہ وہ اب ہر چيز خداوند عالم کے ہاتهوں بيچ چکا ہے اور اس کی قيمت لے چکا ہے لہٰذا نہ معا ملہ فسخ کرسکتا ہے اورنہ فسخ کرنے کامطالبہ کرسکتاہے اوریہ سودمندمعاملہ ہے یہ امور مسلمين کے سرپرستوں اور مو منين کے پيشواؤں کے مو قف کی جان ہے جنهوں نے اس سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام ج(و مسلمانوں کے امام ہيں) کی زیارت ميں انے والی عبارتوں پر غور کریں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں آیاہے :

فَقَلبِی لَکُم مُسَلِّمٌ ونصرتي لکم معدةحتّیٰ یحکم الله بدینه فمعکم معکم لامع عدوکم

“ ميرا دل آپ کے سامنے سراپاتسليم ہے اور ميری نصرت آ پ کےلئے حاضر ہے یہاں تک

____________________

١)سورئہ نحل آیت / ١٢٠ ۔ )

۲۳۳

کہ پروردگاراپنے دین کا فيصلہ کردے تو ميں اپ کے ساته ہوں آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ”

حضرت امام حسن عليہ السلام کی زیارت ميں واردہوا ہے : لبيک داعي اللهان کان لم یجبک بدني عنداستغاثتک ولساني عند استنصارک قد اجابک قلبي وسمعي وبصري

“ميں نے خداوند عالم کی دعوت پر لبيک کہی اے الله کی طرف بلانے والے اگر چہ ميرے جسم نے آپ کے استغاثہ کے وقت لبيک نہيں کہی اور ميری زبان نے آپ کے طلب نصرت کے وقت جواب نہيں دیا ليکن ميرے دل ،کان اور آنکه نے لبيک کہی ”

زیارت حضرت ابو الفضل العباس :

وقلبي لکم مسلّم وانالکم تابع ونصرتي لکم معدةحتی یحکم الله وهو خيرالحاکمين

“ميرا دل آپ کے سامنے جهکا ہے اور تابع فرمان ہے اور ميں آپ کا تابع ہوں اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ خدا فيصلہ کردے اور وہ بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ”

زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام روز اربعين :وقلبي لقلبکم سلم،وامريلامرکم متبع،ونصرتي لکم معدة،حتّیٰ یاذن الله لکم،فمعکم معکم لامع عدوکم

“اور ميرا دل آپ کے سامنے سراپا تسليم ہے اور ميرا امر آپ کے امر کے تابع ہے اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ الله آپ کو اجا زت دے تو ہم آپ کے ساته ہيں اور آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ہيں ”

یہ معيت جس کو زائر اپنے موقف اور ائمہ مسلمين سے دوستی کے ذریعہ آمادہ وتيار کرتا ہے یہ موقف اور دوستی کی روح ہے ۔ان کی خوشی وغم، صلح وجنگ آسانی عافيت اور سختی ومشکل ميں ساته رہنا دنيا ميں ان کے ساته رہنا انشاء الله آخرت ميں ان کے ساته رہنا ہے ۔

۲۳۴

انتقام کےلئے مدد کی دعا

موقف کے مطالبوں ميں سے ایک مطالبہ مدد کےلئے دعا مانگنا ہے ۔جب مو قف کا سر چشمہ سچا دل ہوگا تو انسان الله سے مسلمانوں کے امام اور مسلمانوں کی مددکےلئے ہر وسيلہ سے دعا مانگے گا دعاکے ان وسائل ميں سے ایک وسيلہ الله کی بارگاہ ميں حاضر ہوکر دعا مانگتا ہے اور دعا ان وسائل ميں سے سب سے افضل اور بہترین وسيلہ ہے مگر دعا عمل ،عطا اور قربانی دینے سے مستغنی نہيں ہے ۔

سياسی موقف کے ستون کے لئے اس مضمون کی دعا اہلبيت عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعا ؤں ميں ہے اور ہم ذیل ميں اس دعا کے چند نمونے پيش کرتے ہيں :

ہم آل محمد عليہم السلام سے مہدی منتظر عجل الله فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :

اللهم انصره وانتصربه لدینک،وانصربه اوليائک،اللهم واظهربه العدل،وایّده بالنصر،وانصرناصریه واخذل خاذليه،واقصم به جبابرةالکفرواقتل الکفاروالمنافقين واملابه الارض عدلاًواظهربه دین نبيک

“خدا یا! اپنے ولی کی نصرت فرما اور ان کے ذریعہ دین کی مددفرما اپنے اولياء اور ان کے اولياء کی مدد فرما ۔۔۔اور ان کے ذریعہ عدل کو ظاہر فرما نااور اپنی نصرت سے ان کی تائيد فرمانا ان کے ناصروں کی مدد کرنا اور ان کو رسوا کرنے والوں کو ذليل کر اور دشمنوں کی کمر توڑدے تمام جابر کافروں کی کمر توڑ دے تمام کفار و منافقين اور تمام ملحدین کوفنا کردے ۔۔۔اور ان کے ذریعہ زمين کو عدل سے بهردے اور ان کے ذریعہ اپنے نبی کے دین کو غالب فرما”

۲۳۵

حضرت امام مہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کےلئے دعاؤں کے چندنمونے :

اللهم انّک ایدت دینک في کل اوان بامام اقمته لعبادک ومنارافي بلادک،بعدان اوصلت حبله بحبلک،وجعلته الذریعةالی رضوانک اللهم فاوزع لوليک شکرماانعمت به عليه،واوزعنامثله فيه،وآته مِن لدنک سلطانا نصيرا،وافتح له فتحایسيراًواعنه برکنک الاعز،واشددازره،وقوّعضده وراعه بعينک،واحمه بحفظک،وانصره بملائکتک وامدد،بجندک الاغلب،واقم به کتابک وحدودک وشرائعک وسنن رسولک واحيی به مااماته الظّالمون من معالم دینک،واجل به صداالجورعن طریقک،وابن به الضراء من سبيلک،وازل به الناکبين عن صراطک وامحق به بغاةقصدک عوجاً،والن جانبه لاوليائک،وابسط یده علی اعدائک،وهبّ لنارافته ورحمته وتعطفه وتحنّنه،واجعلناله سامعين مطيعين،وفی رضاه ساعين والی نصرته والمدافعةعنه مکنفين

“بار الٰہا! تو نے اپنے دین کی، ہر زمانہ ميں ایسے امام کے ذریعہ نصرت کی ہے جس کو تو نے اپنے بندوں کےلئے منصوب فر مایا اپنی مملکت ميں منارئہ ہدایت قرار دیا اس کے بعد جبکہ تو نے اس کو اپنی رضا تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا با ر الٰہا لہٰذا اپنے ولی کو اپنے اوپر نا زل ہو نے والی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کی تو فيق عطا فرما اور اس سلسلہ ميں ہم کو بهی شکر ادا کرنے کی توفيق عطا فرما اپنی جانب سے اس امام کو کامياب حکو مت عطا فرما آسانی کے ساته فتح و نصرت عطا فرما اپنے مضبوط ارکان کے ذریعہ اس کی مدد فرما اس کو ہمت دے ،اس کو قوی کر ، اس کی نگرانی کر ،اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مددکر، اپنے فاتح لشکر کے ذریعہ ظفریاب کر ،اس کے ذریعہ اپنی کتاب ،حدود شریعت اور اپنے رسول کی سنتوں کو قائم کر ،اس کے ذریعہ اپنے دین کی ان نشانيوں کو زندہ کر جن کو ظالمين نے مردہ کر دیا ہے، اس کے ذریعہ اپنی راہ سے انحراف کی جِلا بخش ،اس کے ذریعہ اپنی تاریک راہ کو رو شن کر ،اس کے ذریعہ اپنی راہ سے دو ری اختيار کرنے والو ں کو نا بود کر ،اس کے ذریعہ تيرا بيجا طور پر قصد کرنے والوں کو فنا کردے ،اس کو اپنے دو ست داروں کےلئے خوش اخلاق کردے اس کو اپنے دشمنوں پر مسلّط کردے اس کی محبت سے ہم کو بہرہ مند فرما ،ہم کو اس کا اطاعت گذار قرار دے اس کی رضا کے سلسلہ ميں کو شش کرنے والا قرار دے اس کی مدد اور دفاع کرنے کے سلسلہ ميں آمادہ کردے ”

نيز زیارت امام صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی زیارت ميں پڑهتے ہے :

۲۳۶

اللهم انجزلوليک ماوعدته،اللهم اظهرکلمته واعل دعوته وانصره علی عدوه وعدوک،اللهم انصره نصراعزیزاً،وافتح له فتحایسيراً،اللهم واعزّبه الدین بعدالخمول،واطلع به الحق بعدالافول،واجل به الظلمة،واکشف به الغمة، وآمن به البلادواهدبه العباد،اللهم املابه الارض عدلاًوقسطاًکماملئت ظلماًوجوراً

“خدایا!جس کا تونے وعدہ کيا ہے اسے اپنے نبی کيلئے پورا کردے خدایا! اس کے کلمہ کو ظاہر کر دے اور اس کی دعوت کی آواز کو بلند کر اور اس کے اور اپنے دشمن کے مقابلہ ميں اس کی مدد فرما۔۔۔خدایا !اس کی غلبہ عطا کرنے والی مدد سے مدد کر اور اس کو آسانی سے مکمل فتح عطا کر خدایا! اس کے ذریعہ سے گمنامی کے بعد دین کو غلبہ عطا کر اور اس کے ذریعہ حق کو ڈوبنے کے بعد طالع کر اور اس کے ذریعہ سے ظلمت کو نورانيت عطا کر اور اس کے ذریعہ مشکلات کو دور فرمااور خدایا اس کے ذریعہ شہروں کوامن عطا کر اور بندوں کی ہدایت کر خدایا اس کے ذریعہ زمين کو عدل و انصاف سے بهردے جبکہ وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہو ”

انتقام اور خون خواہی کےلئے دعا

“انتقام ”اور انتقام کےلئے دعا مانگنا موقف کا جزء ہے حضرت ابراہيم بلکہ حضرت نوح سے ليکر آج تک خاندان توحيد کا ایک ہی موقف ہے ۔ان کا راستہ اور ان کی غرض وغایت ومقصد ایک ہے اور یہ موقف حضرت ابراہيم سے ليکر امام مہدی کے ظہور تک اس طرح باقی رہے گا تا کہ خداوندعالم ان کے ذریعہ اس خون واشک کے فتوحات ،اور مشکلات کی راہ ميں ان کو فتح ونصرت عطا کرے اور خدا ان لوگوں سے جنهوں نے ان کو شہيد کيا ،ان پر ظلم وستم کيا اس راستہ ميں ظلم وستم کر نے والوں کی قيادت کی ،ان کے رہبر ،ان کی نسل اور جنهوں نے الله کے دین سے روکا ان سے انتقام لے ۔

اس خاندان پر سب سے زیادہ ظلم وستم ،مصائب ،پياس قتل وغارت کربلا کے ميدان ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اہل بيت عليہم السلام اور اصحاب پر ڈها ئے گئے ۔

۲۳۷

ہم خداوند قدوس سے دعا کر تے ہيں کہ وہ ہم کو ان لوگوں سے انتقام لينے والوں ميں سے قراردے جنهوں نے ظلم وستم ڈهائے ،اس روش پر برقرار رہے ،ان کی اتباع کی اور جو ان کے اس فعل پر راضی رہے ۔

اللهم واجعلنامن الطالبين بثاره مع امام عدل تعزّبه الاسلام واهله یاربّ العالمين

“خدایا !ہم کوامام حسين عليہ السلام کے خون کا بدلہ لينے والوں ميں امام عادل (امام زمانہ) کے ساته قرار دے جس کے ذریعہ تو اسلام اور اہل اسلام کو عزت دے گا اے عالمين کے پروردگا ر ” ١۔رسول اسلام (ص)او ران کے اہل بيت عليہم السلام کيلئے دعا ان پر درود اور خداوند عالم کی جانب سے ان کيلئے طلب رحمت :اللهم صلّ علی محمّدوآله صلوات تجزل لهم بهامن نحلک و کرامتک،وتکمل لهم الاشياء من عطایاک ونوافلک،وتوفّرعليهم الحظ من عوائدک وفواضلک

“خدایا !محمد وآل محمد پر ایسے درود بهيج جس کے ذریعہ تو ان کيلئے اپنی بزرگواری اور کرم کو وافر مقدار ميں ان کو عطا کر اور ان کيلئے اپنی بخششيں کامل کر اور ان پر بکثرت اپنی نعمتيں نازل فر ما ”

اللهم صلّ علی محمّدوبارک علی محمّد وآل محمّد،کافضل ماصلّيت وبارکت وترحمت وتحنّنت وسلّمت علی ابراهيم وآل ابراهيم

“خدایا محمد اور آل محمد پر درودبهيج اورمحمد وآل محمدپر برکت نازل فرماجس طرح کہ تو نے صلوات و برکت ورحمت،مہربانی اور سلام ابراہيم اور آل ابراہيم پر قرار دیاہے ،

٢۔رسول کيلئے دعا :رسول اور اہل بيت عليہم السلام کے سلسلہ ميں یہ دعا خدا ان کو اپنے بندوں کيلئے اپنی رحمت تک پہنچنے کا ذریعہ اور شفيع قرار دے اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :

اللهم اعط محمداً الوسيلةوالشرف والفضيلةوالمنزلةالکریمةاللهم اعط محمّداًاشرف المقام وحباء السلام وشفاعةالاسلام،اللهم الحقنابه غير خزایاولاناکثين ولانادمين

۲۳۸

“خدایا !محمد کو وسيلہ ،شرف اور فضيلت اور کریم منزلت عطا فرما خدایا تو محمد کو بہترین مقام اور سلام کا تحفہ اور شفاعت اسلام عطا کر خدایا ہم کو ان سے اس طرح ملا کہ نہ رسوا وذليل ہوں نہ عہد کے توڑنے والے اور نہ شرمندہ ہوں ” اور رسول خدا (ص) کی زیارت ميں آیا ہے :اللهم واعطه الدرجةوالوسيلةمن الجنةوابعثه المقام المحمود،یغبطه به الاوّلون والآخرون

“خدایا !ان کو بلند درجہ عطا کر اور وسيلہ جنت عطا کر اور ان کو مقام محمود پر مبعوث کر کہ ان پر اولين وآخرین غبطہ کریں ” ٣۔رسول خدا (ص)اور ان کے اہل بيت عليہم السلام سے الله کے اذن سے توسل کرنا :

فاجعلني اللهم بمحمّدواهل بيته عندک وجيهاًفی الدنياوالآخرة،یا رسول الله اني اتوجه بک الی الله ربّک وربي ليغفرلي ذنوبي ویتقبل مني عملي ویقضي لي حوائجي فکن لي شفيعاًعندربّک وربي فنعم المسوول المولیٰ ربي و نعم الشفيع انت یامحمّدعليک وعلی اهل بيتک السلام

“بار الٰہا !پس مجه کو محمد اور ان کے اہل بيت کے نزدیک دنيا اور آخرت ميں سرخرو قرار دے یا رسول الله بيشک ميں آپ کے اور اپنے پروردگار کی طرف آپ کے وسيلہ سے متوجہ ہوتا ہوں تا کہ وہ ميرے گناہ بخش دے اور مجه سے ميرا عمل قبول کرے اور ميری حا جتيں پوری کرے ،لہٰذا آپ اپنے اور ميرے پروردگار کے نزدیک ميرے شفيع ہو جا ئيے کيونکہ پرور دگار بہت اچها آقا اور سوال کرنے کے لائق ہے اور اے محمد! آپ بہترین شفيع ہيں آپ پر اور آپ کے اہل بيت پر درود وسلا م ہو ” زیارت ائمہ اہل بقيع عليہم السلام ميں آیا ہے :

وهذامقام مَن اسرف واخطاواستکان،واقرّبماجنیٰ،ورجیٰ بمقامه الخلاص فکونوالی شفعاء فقد وفدت اليکم اذ رغب عنکم اهل الدنياواتخدوا آیات الله هزواًواستکبرواعنها

“آپ کے سامنے وہ شخص کهڑا ہے جس نے زیادتی کی ہے غلطی کی ہے مسکين ہے، اپنے گناہوں کامعترف ہے اور اب نجات کا اميدوارہے ۔۔۔آپ اہل بيت اس کی بارگاہ ميں ميرے شفيع بن جائيں کہ ميں آپ کی بارگاہ ميں اس وقت آیا ہوں جب اہل دنيا آپ سے کنارہ کش ہوگئے اور انهوں نے آیات خدا کا مذاق اڑایا ہے ” رسول خدا (ص) کے چچا حضرت حمزہ عليہ السلام کی زیارت ميں آیا ہے:

۲۳۹

اتيتک من شقةطالب فکاک رقبتي من الناروقداوقرت ظهري ذنوبي وآتيت مااسخط ربي ولم اجداحداًافزع اليه خيراًلي منکم اهل بيت الرحمه فکن لي شفيعاً

“ميںبہت دور سے آیا ہوں ميرا مقصد یہ ہے کہ الله ميری گردن کو جہنم سے آزاد کر دے کہ گنا ہوں نے ميری کمرتوڑ دی ہے اور ميں نے وہ کام کئے ہيں جنهوں نے ميرے خدا کوناراض کردیاہے اوراب کو ئی نہيں ہے جس کے سامنے فریاد کروں یاآپ سے بہتر ہوآپ اہل بيت رحمت ہيںلہٰذا روز فقر و فاقہ ميری شفاعت فرمائيں” ۴ ۔الله تبارک و تعالیٰ کی جانب اہل بيت عليہم السلام کی ہمنشينی قيامت ميں ان کی ہمسا ئيگی اور دنيا ميں ان کی ہدایت اور ان کے راستہ پر ثابت قدمی کا سوال کرکے متوجہ ہونااور یہ کہ ہم دنيا ميں انهيں کی طرح زندہ رہيں او ر ہم کو انهيں کی طرح مو ت آئے اورہم آخرت ميں اُن ہی کے گروہ بلکہ ان ہی کے ساته محشور کئے جا ئيں جيسے الله نے مجھے دنياميں ان کی ہدایت اور ان سے محبت کرنے کی توفيق عطا کی ہے ۔

رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں وارد ہوا ہے :اللهم واعوذبکرم وجهک ان تقيمني مقام الخزي والذّل یوم تهتک فيه الاستاروتبدوفيه الاسرار،وترعدفيه الفرائص ویوم الحسرةوالندامة،یوم الآفکة،یوم الآزفة،یوم التغابن،یوم الفصل،یوم الجزاء،یوماًکان مقداره خمسين الف سنة،یوم النفخة،یوم ترجف الراجفة،تتبعهاالرادفة،یوم النشر،یوم العرض، یوم یقوم الناس لربّ العالمين،یوم یفرّالمرء من اخيه وامّه وابيه وصاحبته وبنيه، یوم تشقق الارض واکناف السماء،یوم تاتی کلّ نفس تجادل عن نفسها،یوم یُردون الی الله فيُنبوهم بماعملوا،یوم لایغني مولیٰ عن مولیٰ

۲۴۰