دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68431 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

رسول خدا (ص) سے مروی حدیث ميں آیا ہے :سلوا الله واجزلوا؛فانّه لایتعاظمه شيءٌ (۱) “خداوند عالم سے مانگو اور زیادہ مانگو چو نکہ اس کے سامنے کو ئی چيز بڑی نہيں ہے ”

روایت کی گئی ہے :

لاتستکثروا شيئاًمماتطلبون؛فماعندالله اکثر

“اپنی دعا ؤں ميں کسی چيز کو زیادہ مت سمجهو چونکہ خداوند عالم کے نزدیک جو کچه بهی ہے زیادہ ہے ”

اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایا ت ميں دعا ميں ہر خير کی طلب اور ہر برائی سے دور رہنے کےلئے خدا وند عالم سے سوال کرنا عام طور پر بيان ہو ا ہے ۔ ہم ذیل ميں بعض نمونے بيان کر رہے ہيں :

رجب المرجب کے مہينہ ميں نماز کے بعد یہ دعا پڑهنا وارد ہوا ہے :یَامَن یُعطِْي الکَْثِيرَْبِالقَْلِيلِْ یَامَن یُعطِْي مَن سَالَهُ یَامَن یُعطِْي مَن لَم یَسالهُْ وَمَن لَم یَعرِْفهُْ تَحَنُّنَامِنهُْ وَرَحمَْةً اَعطِْنِي بِمَسٴْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعََ خَيرِْالدُّنيَْاوَجَمِيعَْ خَيرِْ الآخِرَةِ وَاصرِْف عَنِّي بِمَسئَْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعَْ شَرِّالدُّنيَْاوَشَرِّالآخِرَةِفَاِنَّهُ غَيرُْ مَنقُْوصٍْ مَااَعطَْيتَْ وزدني مِن فَضلِْکَ یَاکَرِیمُْ

“اے وہ خدا جو کم کے مقابلہ ميں زیادہ عطا کرتا ہے،اے وہ خدا جو سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے دونوں کو عطا کرتا ہے اور جو اس کو نہ پہچانے ،ميرے سوال کرنے کی بنا پر مجه کو بهی اپنی رحمت ولطف سے عطا کر، دنيا کی کل نيکی اور آخرت کی تمام نيکياں، ميرے سوال کے مطابق مجه کوعطاکردے اوردنيا وآخرت کی تما م برائياں مجه سے دور فر مادے کيونکہ تيری عطا

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٢ ۔ )

۴۱

ميں نقص نہيں ہے اور ميرے لئے اپنے فضل کو زیادہ کر اے کریم! ”

اللهم انّي اسالک مفاتح الخير وخواتمه وسوابغه وفوائده وبرکاته ومابلغ علمه علمي وماقصرعن احصائه حفظي

یَامَن هُوَفِي عُلُوِّهِ قَرِیبٌْ،یَامَن هُوَفِي قُربِْهِ لَطِيفٌْ صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمّد اللهم اِنِّي اَسئَْلُکَ لِدِینِْي وَدُنيَْاي وَآخِرَتِي مِنَ الخَْيرِْکُلِّهِ وَاَعُوذُْ بِکَ مِنَ الشّرِّکُلِّهِ

“خدایا ميں تجه سے خير کی کنجياں ،عاقبت بخير ،نعمتيں ،فوائد برکات نيز جس کا علم مجھے نہيں ہوسکا ہے اور جس چيز کا احاطہ کرنے سے ميری یادداشت قاصر ہے سب کا سوال کرتاہوں”

اے وہ خدا جو اپنی بر تری ميں قریب ہے اے وہ خد ا جو اپنے قرب ميں لطيف ہے درود ورحمت ہو محمد وآل محمد پر، اے خدا ميں تجه سے اپنے دین ،دنيا اور آخرت ميں خير کی دعا کرتا ہوں اور تمام برا ئيوں سے پناہ چا ہتا ہوں ”وَاَدخِْلنِْی فِی کُلِّ خَيرٍْ اَدخَْلتَْ مُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّدٍوَاَخرِْجنِْي مِن کُلِّ اَخرَْجتَْ مِنهُْ مَُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّد

“اے ميرے مو لا مجه کو ہر اس نيکی ميں داخل کردے جس ميں تونے محمد وآل محمد کو داخل کيا ہے اور مجه کو ہر اس برائی سے نکال دے جس سے تو نے محمد وآل محمد کو نکال دیا ہے ”

وَاکفِْنِي مَااَهَمَّنِي مِن اَمرِْدُنيَْايَ وَآخِرَتِي

“اور مجه کودنيا وآخرت کے ان امور سے محفوظ رکه جو ميرے لئے دشواری کا سبب ہيں ”

اللهم لَاتَدَع لِي ذَنبْاًاِلَّاغَفَرتَْهُ وَلَاهَمّاًاِلَّافَرَّجتَْهُ وَلَاسُقمْاًاِلَّاشَفَيتَْهُ وَلَا عَيبْاًاِلَّاسَتَرتَْهُ وَلَارِزقْاًاِلَّابَسَطتَْهُ وَلَاخَوفْاًاِلَّاآمَنتَْهُ وَلَاسُوءْ اًاِلَّاصَرَفتَْهُ وَلَاحَاجَةً هِيَ لَکَ رِضاًوَلِیَ فِيهَْاصَلَاحٌ اِلَّاقَضَيتَْهَایَااَرحَْمَ الرَّاحِمِينَْ

“خدایا ! ميرے لئے کو ئی گناہ نہ چهوڑ مگر تو اس کو بخش دے اور نہ کسی غم کو مگر اس کوخو شی سے بدل دے اور نہ کسی مرض کو مگر یہ کہ تو شفا دیدے اور نہ کسی عيب کو مگر اس کو چهپا دے نہ کسی رزق کو مگر اسے زیادہ کر دے اور نہ کسی خوف کو مگر اس سے امان دیدے اور نہ کسی برائی کو مگر اسے دور کردے اور نہ کسی حاجت کوجس ميں تيری رضا اور جس ميں ميرے لئے صلاح ہو مگر تو اس کو پورا کردے اے سب سے بڑے رحم کرنے والے ”

۴۲

یَامَن بِيَدِهِ مَقَادِیرَْالدُّنيَْاوَالآْخِرَة وَبِيَدِه مَقَادِیرْالنَّصرِْوَالخُْذلَْان، وَبِيَدِه مَقَادِیرْالغِن یٰ وَالفَْقرْوَبِيَدِه مَقَادِیرْالخَيرْوَالشّرّ،صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمد، وَبَارِک لِي فِي دِینِْي الَّذِي هُوَمِلَاکُ اَمرِْي وَدُنيَْايَ اَلَّتِي فِيهَْامَعِيشَْتِي،ْوَآخِرَتِي اَلَّتِي اِلَيهَْامُنقَْلِبِي وَبَارِک لِي فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي ْ اَعُوذُْبِکَ مِن شَرِّالمَْحيَْا وَالمَْمَاتِ، وَاَعُوذُْبِکَ مِن مَکَارِهِ الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ

“اے وہ ذات جس کے اختيار ميں دنيا و آخرت کے اندازے ہيں کا ميابی اور شکست کے اندازے ہيں مالداری اور غربت کا اختيار ہے محمد وآل محمد پر درود بهيج اور مجھے ميری اس دنيا ميں برکت دے جو ميرے امر کا معيار ہے اور اسی دنيا ميں برکت دے جس ميں ميری روزی ہے اور اس آخرت ميں برکت دے جہاں مجھے جانا ہے ميرے تمام امور ميں برکت دے ۔۔۔ميں زندگی اور موت کے شر سے تيری پناہ مانگتا ہوں اور دنيا وآخرت کی نا گواریوں سے تيری پناہ مانگتا ہوں ”

اسالُک بنور وجهک الذي اشرقت به السماوات وانکشفت به الظلمات وصلح عليه امرالاولين والاخرین ان تصلي علی محمّدوآل محمّد وان تصلح لي شاني کلّه ولاتکلني الي نفسی طرفة عين ابداً

“ميں تجه سے تيری ذات کے اس نور کے صدقہ ميں سوال کرتا ہوں جس کے ذریعہ آسمان چمکے تا ریکيا ںچهٹ گئيں اور اس پر آنے والوں اور گذر جانے والوں کا معاملہ درست ہوا تو محمد وآل محمد پر درود بهيج اور یہ کہ تو ميرے لئے ميرے پورے معاملہ کو درست کر دے اور مجه کو ایک لمحہ کيلئے بهی ميرے نفس کے حوالہ نہ کر ”

سحری سے متعلق دعا ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :

اکفِْنِي المُْهِمَّ کُلَّهُ،وَاقضِْ لِی بِالحُْسنْ یٰ،وَبَارِک فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي وَاقضِْ لِي جَمِيعَْ حَوَائِجِی اللهم یَسِّرلِْي مَااَخَافُ تَعسِْيرَْهُ فانّ تيسيرمااخاف تعسيره عليک یسيروسهّل لي مااخاف حزونته ونفّس عني مااخاف ضيقه وکفَّ عني مااخاف غمّه واصرف عنی مااخاف بليّته

“اور ہما رے تمام اہم امور کے لئے کافی ہو جا اور انجام بخير کر اور مجه کو بر کت دے تمام امور ميں اور ميری تمام حا جتوں کو پورا کر خدا یا !ميرے لئے آسان کر جس کی سختی سے ميں ڈرتا ہوں اس کا آسان کرنا تيرے لئے بہت سہل ہے اور سہل بنا دے اس کو جس کی دشواری سے ميں خو ف زدہ ہوں اور جس کی تنگی سے ميں خوفزدہ ہوں ا س ميں کشا دگی عطا کر اور جس کے غم سے خوف زدہ ہوں اس کو روک دے اور جس کی مصيبت سے ميں خوف زدہ ہوں اس کو مجه سے دور کر دے ”

۴۳

اور دعاء الا سحارميں آیا ہے:

وَهب لي رحمة واسعةجامعةاطلب بهاخيرالدنياوالآخرة “اور مجه کو وسيع اور کامل رحمت عطا کر جس سے ميں دنيا و آخرت کی نيکياں حاصل کرسکوں ”

ب۔بڑی حا جتيں چھوٹی حاجتوں پر پردہ نہ ڈال دیں

کبهی کبهی ہم ميں سے بعض افراد اپنی چھوٹی چھوٹی حاجتوں کو خداوندعالم سے مانگنے کو عيب سمجهتے ہيں ليکن انسان کو پروردگار عالم سے مختلف چيزوں کے متعلق سوال کر نا چاہئے چاہے حاجت کتنی ہی چھوٹی کيوں نہ ہو خدا سے سوال کر نے ميں کوئی عيب نہيں سمجهنا چاہئے ۔

بندہ پروردگار عالم سے اپنی تمام حاجتوں اورکمزوریوں کوچهپاتاہے ليکن ہماری تمام حاجتيں، ہمارانقص یہاں تک کہ جن حاجتوں کو ہم خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے پيش کرنے سے بهی شرمند ہ ہوتے ہيں وہ ان سب سے آگا ہ ہے ۔ خداوندعالم سے بڑی بڑی حاجتوں اور سوالات کر نے سے چھوٹی چھوٹی حاجتوں پرپردہ ڈالنا سزاوار نہيں ہے ۔

خداوندعالم اپنے بندے سے اس کی چھوٹی بڑی تمام حاجتوں ميں اس سے رابطہ برقرار رکهنے کو پسندکرتاہے یہاں تک کہ وہ اس سے ہميشہ رابطہ رکهنا چا ہتا ہے اور یہ جاودانہ رابطہ اس وقت تک بر قرار نہيں رہ سکتا جب تک بند ہ خداوندعالم سے اپنی چھوٹی بڑی تمام حاجتوں کا سوال نہ کرے ۔

رسول الله (ص) سے مروی ہے :

سلوا اللّٰه عزّوجلّ مابدا لکم من حوائجکم حتّی شسع النعل،فانّه انْ لم یيسره لم یتيسر

“تم اپنی تمام حا جتيں یہاں تک کہ جو تے کے تسمہ کوبهی خدا سے مانگو چونکہ اگر اس کوخدانہيں دیگا تو نہيں ملے گا ”

یہ بهی رسول اسلام (ص)سے مروی ہے :

ليسال احدکم ربّه حاجاته کلّها،حتّیٰ یساله شسع نعله اذا انقطع (١) “تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے اپنی تمام حاجتيں طلب کرنا چا ہئيں یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ ڻوٹ جا ئے تو اس کو بهی خدا سے مانگنا چا ہئے ”

____________________

١)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١٢ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩۵ ۔ )

۴۴

اور یہ بهی رسول اسلام (ص) سے مروی ہے :

لاتعجزوا عن الدعاء فانّه لم یهلک احدٌ مع الدعاء،وليسا ل احدُکم ربّه حتّیٰ یساله شسع نعله اذا انقطع ،واسالوا اللّٰه مِنْ فضله ؛فانّه یحبّ انْ یسال ( ١)

“تم دعا کرنے سے عا جز نہ ہو نا ؛چو نکہ دعا کے ساته کو ئی ہلا ک نہيں ہوا ،تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے سوال کرنا چا ہئے یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ بهی ڻوٹ جا ئے تو بهی اسی سے مانگنا چا ہئے اور تم الله سے اس کے فضل کا سوال کرو چونکہ خدا وند عالم اس چيز کو دو ست رکهتا ہے کہ اس سے سوال کيا جا ئے ”

سيف تمار سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرماتے سُنا ہے :

عليکم بالدعاء؛فانّکم لاتتقربون بمثله،ولاتترکواصغيرة لصغرها انْ تسالوها،فانّ صاحب الصغائرهوصاحب الکبائر ( ٢)

“تم پر دعا کرنا ضروری ہے چونکہ تم دعا کے مانند کسی اور چيز سے خدا وند عالم کے قریب نہيں ہو سکتے اور چھوٹی چيزوں کے بارے ميں اس کے چهوڻے ہو نے کی وجہ سے اس کے متعلق سوال کرنا نہ چهوڑ دو اس لئے کہ جو چھوٹی چيزوں کا مالک ہے وہی بڑی چيزوں کا مالک ہے ”

حدیث قدسی ميں آیاہے :

یاموسیٰ سلني کلّ ماتحتاج اليه،حتّیٰ علف شاتک وملح عجينک ( ٣)

“اے موسیٰ مجه سے ہر چيز کا سوال کر و یہاں تک کہ اپنی بکریوں کے چارے اور اپنے آڻے کے نمک کيلئے بهی مجه سے سوال کرو ”

____________________

١)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔ )

۴،حدیث / ٢)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ،المجالس صفحہ ١٩ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١٠٩٠ ) ٨۶٣۵ اصول کا فی / ۵ ١ ۶ /

٣)عدة الداعی صفحہ ٩٨ ۔ )

۴۵

دعا کے سلسلہ ميں ان چيزوں پر زور دینے سے ہماری مراد یہ نہيں ہے کہ انسان دعا کر نے کی وجہ سے عمل ميں سستی کر ے بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ جو عمل انجام دے رہا ہے اس تکيہ نہ کرے اور اس عمل کے سلسلہ ميں اس کی اميد و آرزو خداوند عالم کی ذات سے ہو ۔

دوسرے یہ کہ انسان اپنے تمام لوا زمات دعا انجام دیتے وقت اپنی حا جتوں اور خدا کے درميان رابطہ بر قرار رکهے ۔

مذکورہ دونوں چيزوں کایہ تقاضا ہے کہ انسان الله سے اپنی تمام حا جتےں طلب کر ے یہاں تک کہ جو تے کا تسمہ ،اپنے حيوان کےلئے چارہ اور آڻے کےلئے نمک کا بهی اسی سے سوال کرے، جيساکہ حدیث قدسی ميں آیا ہے ۔

ج: خدا وندعالم کی بارگاہ ميں بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے

جہاں ہم پرورد کار عا لم سے ہر چيز ما نگتے ہيں وہيں پر ہميں اس سے بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے

جس طرح ہميں پروردگا ر عالم سے چھوٹی چھوٹی چيزیں مانگنے ميں ندامت نہيں ہونی چاہئے جيسے حيوان کے لئے چارہ ،جوتے کا تسمہ اور آڻے کے لئے نمک اسی طرح ہميں اس سے بڑی بڑی نعمتوں کا سوال کرنا چا ہئے چاہے وہ کتنی ہی بڑی و عظيم کيوں نہ ہو ۔

۴۶

ربيعہ بن کعب سے مروی ہے :

قال لي ذات یوم رسول اللّٰه (ص):یاربيعة خدمتني سبع سنين،افلا تسالنی حاجة ؟فقلت یارسول اللّٰه امهلني حتّیٰ افکر فلمّااصبحت ودخلت عليه قال لي: یاربيعة هات حاجتک ،فقلت:تسا ل اللّٰه ان یدخلني معک الجنة،فقال لی:مَنْ علّمک هذا ؟فقلت :یارسول اللّٰه ماعلّمني احد لکن فکرّت في نفسي وقلت:انْ سالتهُ مالاً کان الیٰ نفاد،وان سالته عمرا طویلاواولاداً کان عاقبتهم الموت قال ربيعة :فنکس راسه (ص)ساعة ثم قال:افعل ذلک،فاعنّي بکثرة السجود قال وسمعته یقول:ستکون بعدي فتنة،فاذاکان ذلک فالتزمواعلي بن ابي طالب ( ١)

“مجه سے ایک روز رسول خدا (ص)نے فرمایا اے ربيعہ تم سات سال سے مير ی خدمت کررہے ہو کيا مجه سے کسی چيز کا سوال نہيں کروگے۔ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)مجھے غور وفکر کرنے کی مہلت د یئجے ۔جب ميں اگلے روز صبح کے وقت آنحضرت (ص) کی خدمت بابرکت ميں پہنچا تو آپ نے فرمایا :ا ے ربيعہ مجه سے اپنی حاجت بيان کرو ۔ ميں نے عرض کيا :خداسے دعا فرماد یجئے کہ وہ مجهکو آپ کے ساته جنت ميں داخل کرے ۔

آپ نے مجه سے فرمایا :تم کو یہ کس نے سکها یا ہے ؟ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)یہ مجھے کسی نے نہيں سکها یا ميں نے بذات خود غوروفکر کيا کہ اگر ميں آپ سے مال کا سوال کرو ں تو وہ ختم ہو جا یگا ،اگر ميں آپ سے اپنی طولانی عمر اور اولاد کا سوال کروں تو یقينا ایک دن موت ضرور آئيگی ۔

ربيعہ کا کہنا ہے کہ آپ نے کچه دیر تو قف کر نے کے بعد فرمایا: خدا ایسا ہی کرے ،لہٰذاتم بہت زیادہ (سجدے )عبادت کيا کرو ۔

ربيعہ کہتے ہيں ميں نے آپ کو یہ فرما تے سُنا ہے :عنقریب ميرے بعد فتنہ بپا ہوگا اور جب ایسا ہو جا ئے تو تم پر علی بن ابی طالب عليہ السلام کی اطاعت کرنا واجب ہے ”

____________________

١)بحاالانوار جلد ٩٣ ۔صفحہ ٣٢٧ ۔ )

۴۷

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

کان النبی (ص)اذا سّئل شيئا فاذا اراد ان یفعله قال:نعم واذا اراد ان لا یفعل سکت،وکان لا یقول لشيٴلا فاتاه اعرابي فساله فسکت ،ثم ساله فسکت، ثم ساله فسکت فقال (ص) کهيئة المسترسل:ماشئت یااعرابي؟فقلنا:الآن یسال الجنّة،فقال الاعرابی:اسالک ناقة ورحلها وزاداً قال:لک ذلک،ثم قال (ص):کم بين مسالة الاعرابي وعجوز بنی اسرائيل؟ثم قال:انّ موسیٰ لمّا اُمران یقطع البحرفانتهیٰ اليه وضربت وجوه الدواب رجعت،فقال موسیٰ:یاربّ مالي؟ قال:یاموسیٰ انّک عند قبریوسف فاحمل عظامه،وقد استویٰ القبر بالارض،فسال مو سیٰ قومه:هل یدري احد منکم این هو؟قالوا:عجوزلعلّها تعلم،فقال لها:هل تعلمين؟قالت:نعم،قال:فدليناعليه ،قالت:لاواللّٰه حتّی تُعطيني مااسئلک،قال:ذلک لک،قالت:فإنی اسالک ان اکون معک فی الدرجة الّتي تکون فی الجنّة،قال:سلي الجنّة قالت:لاواللّٰه الّا ان اکون معک،فجعل موسیٰ یراود فاوحیٰ اللّٰه اليه:ان اعطها ذلک:فإنّها لاتنقصک،فاعطَاهاودلّته علی القبر( ١)

“جب پيغمبر اکرم (ص)سے کسی چيز کے متعلق سوال کيا جاتاتها تواگر آپ کا اراد ہ اس فعل کے انجام کے متعلق ہو تا تھا تو آپ فرما تے تھے :ہاں اور اگر آپ کا ارادہ اس کے انجام نہ دینے کا ہوتا تھا تو آپ ساکت رہتے تھے ۔

اور آپ کسی بهی چيز کے سلسلہ ميں“ نہيں” نہيں فرماتے تھے ،ایک اعرابی نے آپ کی

____________________

۔ ١)بحا الا نوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢٧ ۔ )

۴۸

خدمت ميں حاضر ہوکرسوال کيا تو آپ خاموش رہے ،اس نے پھر سوال کيا تو آپ پھر خاموش رہے، پھر اس نے سوال کيا ،آپ پھر خاموش رہے،توآپ نے فرمایا : اے اعرابی تو کيا چاہتا ہے ؟ہم لوگوں نے کہا کہ اب یہ جنت کے سلسلہ ميں سوال کرے گا ۔

اعرابی نے کہا :ميں آپ سے ناقہ، سواری اور زادراہ چاہتا ہوں ۔

آپ نے فرمایا :ہاں تجه کو عطا کيا جائيگا ،پهر آپ نے فرمایا :اس اعرابی اور اس بنی اسرائيل کی بڑهيا کے درميان کتنا فرق ہے ؟ پهرفرمایا:جب موسیٰ کو دریا پار کرنے کا حکم ملا اور آپ دریا کے کنارے پہونچ گئے تو مو سیٰ نے جانوروں کو آگے بڑهانا چاہا ليکن جانور واپس آگئے ۔

جناب مو سیٰ عليہ السلام نے عرض کيا پالنے والے ميرے لئے کيا فرمان ہے؟ فرمایا :اے مو سیٰ تم حضرت یوسف عليہ السلام کی قبر کے پاس ہواو ر ان کی ہڈیوں کو اڻها لو جبکہ قبر زمين کے برابر ہو چکی تهی ۔ جناب موسیٰ نے اپنی قوم سے سوال کيا :کياتم ميں سے کوئی جانتا ہے ؟ قوم نے کہا:ایک بڑهيا ہے شاید وہ جانتی ہے ؟

بڑهيا سے سوال کيا :کيا تم جانتی ہو؟

اس نے جواب دیا :ہاں آپ نے فرمایا :تو ہميں بتاؤ کہاں ہے ؟ بڑهيا نے کہا :خدا کی قسم ميں اس وقت تک قبر کا پتہ نہيں بتاؤنگی جب تک آپ ميرے سوال کا جواب نہيں دیں گے۔

آپ نے فرمایا :جو تم مانگو گی وہی دیا جائيگا ، اس نے کہا :ميں جنت ميں آپ کے ساته اسی درجہ ميں رہوں جس ميں آپ رہيں گے ۔

آپ نے فرمایا:ہاں تم جنت ميں رہوگی اس نے کہا:نہيں خدا کی قسم ميں جب تک آپ کے ساته نہيں رہوں گی حضرت مو سیٰ عليہ السلام نے فر مایا :تم جنت کا سوال کرو۔تو بڑهيا نے کہا :ميں اس سے کم پر راضی نہيں ہوں ۔ جناب موسیٰ عليہ السلام کچه پس و پيش کرنے لگے تو الله نے آپ پر وحی نازل فرمائی :اگر آپ اس کو عطا کردیں گے توجنت ميںکمی نہيں آئيگی تو آپ نے اس کو عطا کردی اور اس نے قبر کا نشان بتا یا ”

۴۹

د۔دعا کرکے سب کچه تدبير الٰہی کے حوالہ کردینا

دعا ميں خداوندعالم سے یہ طلب کرنا کہ وہ اپنی تدبير کے ذریعہ ہم کو اپنی تدبير سے بے نياز کردے اور اپنی رحمت و حکمت کو ہمارے امر کا ولی بنا دے اور ہمارے نفسوں پر کسی چيز کو مو کول نہ کرے ،دعا ء عرفہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں :

اَغنِْنِي بِتَدبِْيرِْکَ لِي عَن تَدبِْيرِْي،ْوَبِاِختِْيَارِکَ عَن اِختِْيَارِي

“ميرے خدا مجه کو اپنی تدبير کے ذریعہ ميری تدبير سے بے نياز کر اور اپنے اختيار کے مقابلہ ميں ميرے اختيار سے بے نياز کر ”

اور منا جات شعبانيہ ميں آیاہے :وَتَوَلِّ مِن اَمرِْي مَااَنتَْ اَهلُْهُ

“خدایا !جس چيز کا تو اہل ہے ميرے امر ميں سے اس کا تو ذمہ دار ہوگا ”

یہ بهی وارد ہوا ہے :حَسبِْي عَن سُوالِي عِلمْه بِحَالِي (١) “ميرے سوال کرنے سے اس کا ميرے حال سے واقف ہونا ہی کافی ہے”

مروی ہے :جب نمرود نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو آگ ميں ڈالنے کا حکم دیا تو جبرئيل عليہ السلام نے آپ کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کيا :کيا آپ کی کوئی حاجت ہے ؟آپ نے فرمایا: ہاں ميری حاجت تو ہے ليکن تجه سے نہيں ،حَسبِْیَ الله ،وَنِعمَْ الوَْکِيلْ

اس کے بعد ميکائل نے عرض کيا :اگر آپ کا اراد ہ آگ کو بجها نے کا ہے تو ميں آگ کو

____________________

١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )

۵۰

بجها دوں گا چونکہ بارش اور پانی کا خزانہ مير ے اختيار ميں ہے۔ آپ نے فرمایا :مير ا ایسا کوئی ارادہ نہيں ہے ۔

اس کے بعد ہوا کے فرشتہ نے آکر عرض کيا :اگر آپ چاہيں تو ميں آگ کو اڑادو ں آپ نے فرمایا :ميرا ایساکوئی اراد ہ نہيں ہے ۔

جبرئيل نے کہا :تو پھر الله سے اپنی حاجت طلب کيجئے آپ نے فرمایا:خداوندعالم کوميرے حالات کا علم ہے ”( ١)

اس کا مطلب دعا سے منع کرنا نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب بندہ کا تدبير ميں اپنے امر کو الله کے حوالہ کر دینا ہے ۔

اس کو ہر امر ميں الله کی طرف تفویض سے تعبير کيا جاتا ہے اور سختيوں اور بلاوں ميں الله کی تقدیر ،قضا ،حکمت اور تدبير پر اعتماد رکهنا ہے ۔ حضرت امام حسين عليہ السلام دعا ئے عرفہ ميں فرماتے ہيں :

ا هٰلِي اِنَّ اِختِْلَافِ تَدبِْيرْکَ وَ سُرعَْةَ طَوَاءَ مَقَا دِیرِْکَ مَنعْا عِبَادِکَ العَْارِفِينَْ بِکَ عَنِ السَّکُونِْ اِل یٰ عَطَاءٍ وَاليَْاسُ مِنکَْ فِی بَلَا ءٍ

“ميرے معبود! بيشک تيری تدبير کی تبدیلی اور تيرے مقدارات کے سریع تغيرات نے تيرے عارف بندوں کوپر سکون عطا اور مصيبت ميں نا اميد ہونے سے روک دیا ہے ”

امام عليہ السلام فرماتے ہيں بيشک تير ے عارف بند ے کسی عطا پر راضی نہيں ہوتے وہ عطا چا ہے کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو اور کسی مصيبت ميں تجه سے مایوس نہيں ہو تے وہ بلا کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو کيونکہ ان کو معلوم ہے کہ تيرے احکام اور بندوں کے سلسلہ ميں فيصلہ بہت جلد ہوتا ہے نيز ایک

____________________

١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )

۵۱

حالت سے دو سری حالت کی جا نب تيری تدبير بدلتی رہتی ہے لہٰذا تيرے بندے عطا اور روزی پرمطمئن نہيں ہوتے اور تيری رحمت سے کسی مصيبت ميں مایوس نہيں ہوتے البتہ تيری رحمت پر مطمئن رہتے ہيں اور تيرے فضل سے مایوس نہيں ہو تے ہيں ”

امام حسين کے اسی مفہوم کی، قرآن کریم کی یہ آیت براہ راست عکاسی کررہی ہے:

لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم ( ١)

“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جوتمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرو اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” امير المو منين عليہ السلام فرماتے ہيں :زہد قرآن کے ان دو کلموں ميں ہے :

لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم ( ٢)

“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرواور اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” جب خدا وند عالم نے بندوں کو اس کے قضا و قدر پر اعتماد اور اپنے تمام امور کو خد ا پر واگذار کرنے کی توفيق عطا کر دی ہے ۔۔۔تو بندہ اس وقت خوشی اور غم ميں الله کے قضا و قدر پرسکون محسوس کرتا صرف اس کی عطاپرنہيں، اور نہ ہی وہ مصيبتوں ميں ما یوس ہو تا ہے ۔

ماثورہ دعاؤں ميں اس معنی پر بہت زیادہ زور دیا گيا ہے مشہور ومعروف زیارت امين الله ميں آیا ہے :

اللهم فَاجعَْل نَفسِْي مُطمَْئِنَّةً بِقَدرِْکَ رَا ضِيَةً بِقَضَائِکَ،مَولِْعَةً

____________________

١)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )

٢)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )

۵۲

بِذکرْکَ وَدُعَائِکَ صَابِرَةً عِندَْ نُزُولِْ بَلَا ئِکَ شَاکِرَةً لِفَوَاضِلِ نِعمَْائِکَ

“خدایا! ميرے نفس کو اپنے قدر پر مطمئن اور اپنے قضا پرراضی کردے، اپنے ذکر و دعا کا شيدائی بنا دے اور اپنے خالص اور برگزیدہ اولياء کا محبت کرنے والا بنا دے اور اپنے آسمان و زمين ميں محبوب کردے اور اپنی بلا کے نزول پر صابر اور اپنی بہترین نعمتوں پر شاکر بنا دے اپنی تمام نعمتوں کا یاد کرنے والا ” حضرت امام زین العابدین علی بن الحسين عليہما السلام دعا ميں فرماتے ہيں :

وَالهَْمنَْاالاِْنقِْيَادَ لَمَّااَورَْدَت عَلَينَْامِن مَشِيَّتِکَ حَتیّٰ لَانَحبُّْ تَاخِيرُْمَا (عَجَّلَت،ْوَلَاتَعجِْيلَْ مَااَخَّرَت وَلَانَکرَْهُ مَااَحبَْبتَْ وَلَانَتَخَيَّرمَاکَرِهتُْ ( ١)

“ہميں اس مشيت کی اطاعت کا الہام عطا فر ما جو تونے ہم پر وارد کی ہے تا کہ جو چيز جلدی سامنے آجا ئے ہم اس کی تا خير کے خواہاں نہ ہوں اور جو چيز دیر ميں آئے اس کی عجلت کے طلبگار نہ ہوں تيری محبوب اشياء کو مکروہ نہ سمجهيں اور تيری نا پسندیدہ چيزوں کو اختيار نہ کرليں ”

دعا کے ایک اور مقام پر فرماتے ہيں :

وطيب بقضائک نفسي ووسّع بمواقع حکمک صدري ووهب لي الثقة لاُقرمعها بانّ قَضَائک لم یجرالَّا بالْخَيْرِة ( ٢)

“اور ميرے نفس کو اپنے فيصلہ سے مطمئن کردے اور ميرے سينہ کو اپنے فيصلوں کےلئے کشادہ بنا دے مجھے یہ اطمينان عطا فر ما دے کہ ميں اس امر کااقرار کروں کہ تيرا فيصلہ ہميشہ خير ہی کے ساته جاری ہو تا ہے۔

دعا ء صباح ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :

____________________

١)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣٣ ۔ )

٢)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣۵ ۔ )

۵۳

الهي هذهِ ازمة نفسي عقلتهابعقال مشيئتک ( ١)

“خدایا! یہ ميرے نفس کی مہار ہے جس کو مر ضی اور مشيت کے رسّی سے مستحکم باندها ہے ”

ه۔خداوند عالم سے ذات خدا کو طلب کرنا

دعا ميںسب سے زیادہ لطف اوراس کی جلالت یہ ہے کہ انسان دعا ميں الله سے نہ دنيا طلب کرے اور نہ آخرت طلب کرے بلکہ وہ خدا سے اس کے وجہ کریم کا مطالبہ کرے ،اس کی مرضی ، ملاقات ،اس سے قربت ،اس تک رسائی ،اس کی محبت ،اس سے انسيت ،اور اس تک پہنچنے کی تشویق کا مطالبہ کرے حضرت فاطمہ صدیقہ طاہرہ نے دعا ميں ملک الموت کے خداوند عالم کے امر سے ان کی روح پاک قبض کرنے سے پہلے اس کی جانب سے ایسے رزق کا مطالبہ کياجس سے ان کا سينہ ڻھنڈا ہو جائے اور ان کا نفس خوش ہو جائے ،آپ نے دعاميں یوں عرض کيا :پروردگارا تيری طرف سے بشارت ہو نی چا ہئے تيرے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہيں ،اس سے ميرا دل ڻھنڈا ہو گيا، ميرا نفس خوش ہو گيا ،ميری آنکهيں ڻھندی ہو گئيں اور ميرا چہرہ باغ باغ ہو گيا ۔۔۔اور ميرا دل مطمئن ہو گيا اور اس سے ميرا پورا جسم خوش ہو گيا ”( ٢)

حضرت امام حسين عليہ السلام دعائے عرفہ ميں فرما تے ہيں :منک اطلبْ الوصول اليک

“تجه ہی سے تجه تک پہنچنے کا مطالبہ کرتا ہوں ”

حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ء صباح ميں فرماتے ہيں :اَنتَْ غَایَةُ مَطلُْوبِْی وَمُنَایَ

“اور تو ہی ميرا آخری مطلوب ہے اور دنيا اور آخرت ميں ميری اميد ہے ”

____________________

١)دعا ء صباح ۔ )

٢)فلا ح السائل ۔ )

۵۴

پندرہ مناجات ميں سے مناجات “محبين ”ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں:اِ هٰلِي مَن ذَا لَّذِی ذَاقَ حَلاَوةَ مَحَبَّتِکَ فَرَامَ مِنکَْ بَدَلاًوَمَن ذَاالَّذِي اَنِسَ بِقُربِْکَ فَابتَْغ یٰ عَنکَْ حِوَلاً

“خدایا وہ کون شخص ہے جس نے تيری محبت کی مڻهاس کو چکها ہو اور تيرے علاوہ کا خواہش مند ہو اور وہ کون شخص ہے جس نے تيری قربت کا انس پایا ہو اور ایک لمحہ کے لئے بهی اس سے روگردانی کرے ’پندرہ مناجات ميں سے مناجات مرید ین ميں امام زین العابدین عليہ السلام فرماتے ہيں:اِ هٰلِي فَاسلُْک بِنَا سُبُلَ الوُْصُولِْ اِلَيکَْ وَسَيِّرنَْا فِي اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوُْفُودِْ عَلَيکَْ “خدایا! ہم کو اپنی طرف پہنچنے کے راستوں پر چلا دے اور ہم کو تيری طرف پہنچنے والے قریب ترین راستہ سے لے چل ،ہمارے اوپر دور کو قریب کردے ” مناجات متو سلين ميں فرماتے ہيں :

وَاجعَْلنِْي مِن صَفوَْتِکَ اَلَّذِینَْ اَقرَْرتَْ اَعيُْنَهُم بِالنَّظَرِاِلَيکَْ یَومَْ لِقَائِکَ ” “اور مجه کو ان منتخب بندوں ميں قرار دے جن کی آنکهوں کو روز ملاقات اپنے دیدار سے خنکی عطا کی ہے ”

دعا عرفہ ميں امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں : اَطلُْبنِْي بِرَحمَْتِکَ حَتّ یٰ اَصِلَ اِلَيکَْ

“ميرے معبود مجه کو اپنے درِرحمت پر طلب کر، تا کہ ميں تجه سے مل جاوں”

حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ئے کميل ميں فر ما تے ہيں :وَاستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَهَب لِيَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِي الاِْتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُّوَالمُْخلِْصِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ

“اور تيری ہی ذات کو اپنا سفارشی بناتا ہوں ،اور تومجه کو خوف و خشيت ميں کو شش کی توفيق عطا کر نيز تيری خدمت کے لگاتار انجام دینے کی ۔۔۔اور تيری بارگاہ ميں خلوص رکهنے والوں کا سا قرب حا صل ہو ،اور تيری بارگا ہ ميں مو منين کے ساته جمع ہو جا ؤں ”

مناجات محبين ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں :اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِمَّن هَيَّمتَْ قَلبَْهُ لِاِرَادَتِکَ وَاجتَْبَيتَْهُ لِمُشَاهَدَتِکَ وَ اَخلَْيتَْ وَجهَْهُ لَکَ وَفَرَّغتَْ فُوادَهُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبتَْهُ فِيمَْاعِندَْکَ وَقَطَعتَْ عَنهُْ کُلَّ شَی ءٍ یَقطَْعُهُ عَنکَْ

“خدایا!تو مجه کو ان لوگوں ميں سے قرار دے جس کے دل کو اپنے ارادہ کا مسکن بنایا ہو اور جس کو تو نے اپنے مشاہدہ کے لئے منتحب کيا ہو اور جس کے چہرے کو اپنے لئے خالی کر ليا ہے اور جس کے دل کو اپنی محبت کے لئے فارغ کرليا ہے اور جس کو اس چيز کی رغبت دی ہے جو تيرے پاس ہے اور جس سے ہر اس چيز کو دور کر دیا ہے جوتجه سے دور کر تی ہے ”

۵۵

ب۔جوچيز یں دعا ميں سزاوار نہيں ہيں

اب ہم ان چيزوں کے سلسلہ ميں بحث کریں گے جو دعا ميں نہيں ہونا چاہئيں اور ہم ان سب چيزوں کو قرآن اور حدیث کی روشنی ميں بيان کریں گے جو مندرجہ ذیل ہيں :

١۔کائنات اور حيات بشری ميں الله کی عام سنتوں کے خلاف دعا کرنا

حضرت نوح عليہ السلام نے اپنے بيڻے کی شفاعت اور اس کے پانی ميں غرق ہو نے سے بچانے کيلئے خداوند عالم کے وعدہ کے مطابق کہ وہ ان کے اہل کو نجات دے گا خدا سے دعا کی ليکن خداوندعالم نے اپنے بندے اور اپنے نبی نوح عليہ السلام کی دعا قبول نہيں کی اور ان کی دعا کو رد فرما یا :انه ليس من اهلک اے نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے ”اور ان کو پھر اس کے مثل کبهی دعا نہ کرنے کی نصيحت فرمائی۔

وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ الحَْاکِمِينَْ قَا لَ یَانُوحُْ اِنَّهُ لَيسَْ مِن اَهلِْکَ اِنَّهُ عَمَلٌغَيرُْصَا لِحٍ فَلَا تَسالنِْ مَا لَيسَْ لَکَ بِهِ عِلمٌْ اِنِّی اَعِظُکَ ا تَکُونَْ مِنَ الجَْاهِلِينَْ قَالِ رَبِّ اِنِّی اعُوذُْبِکَ اَن اَسئَْلَکَ مَالَيسَْ بِهِ عِلمٌْ وِاِلَّاتَغفِْرلِْی وَتَرحَْمنِْی اکُن مِنَ الخَْا سِرِینَْ ( ١)

“اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار ميرا فرزند ميرے اہل ميں سے ہے اور تيرا وعدہ اہل کو بچا نے کا بر حق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ،ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے یہ عمل غير صالح ہے لہٰذا مجه سے اس چيز کے بارے ميں سوال نہ کرو جس کا تمہيں علم نہيں ہے ميں تمہيں نصيحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جا ہلوں ميں نہ ہو جا ئے نوح نے کہا کہ خدایا !ميں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس چيز کا سوال کروں جس کا علم نہ ہو اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے گا اور مجه پر رحم نہ کرے گا تو ميں خسارہ اڻهانے والوں ميں ہو جا ؤں گا ” حضرت نوح عليہ السلام کوخداوندعالم سے اپنے اہل وعيال کی نجات کا سوال کرنے کا حق تھا ليکن جوان کے اہل سے نہ ہو اس کو غرق ہو نے سے نجات دلانے کے سلسلہ ميں سوال کرنے کا کوئی حق نہيں تھا ۔

ان کا بيڻا ان کے اہل ميں نہيں تھا یہ الله کا حکم ہے اور حضرت نوح عليہ السلام کو پروردگار عالم کے قوانين اور احکام کی خلاف ورزی کرنے کا حق نہيں ہے ۔ ذرا حضرت نو ح عليہ السلام کے جواب پر غور وفکر کيجئے ۔

دعا ميں الله کی سنتوں کے امر کو سمجهنا ضروری ہے دعا کا کام ان سنتوں کوتوڑنا اور ان سے تجاوز

____________________

١)سورئہ ہودآیت ۴۵ سے ۴٧ ۔ )

۵۶

کرنا نہيں ہے بلکہ دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ بندہ خدا وند عالم کی سنتوں اور اس کے قوانين کے دائرہ ميں رہ کرخداوند عالم سے سوال کرے ۔بيشک الله کی سنتيں ہميشہ الله کے ارادہ تکوینی کومجسم کرتی ہيں ،اور دعا کی شان الله کے ارادہ کے زیر سایہ ہے نہ اس سے تجا وز کرتی ہے اور نہ ہی اس کی حدود کو پارکر تی ہے ۔

خداوندعالم فرماتا ہے :

وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ الله تَبدِْیلْاً ( ١)

“اور تم خدا کی سنت ميں ہر گز تبدیلی نہيں پا ؤ گے ” نظام کا ئنات الله کے اس ارادہ کی مجسم شکل ہے جس کے بغير کا ئنات کا نظا م درست نہيں رہ سکتا ہے ،بندہ کےلئے اس کی تبدیلی کےلئے دعا کر نا صحيح نہيں ہے بيشک دعا بندوں کےلئے الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دروازہ ہے ؛اور الله کا ارادہ ہميشہ اس کی رحمت کے مطابق ہو تا ہے اور بندہ کے لئے اس ميں تغير و تبدل کی دعا کرنا صحيح نہيں ہے ۔

ایک سنت دوسری سنت سے مختلف نہيں ہو سکتی ہے ،ہر سنت الله کے ارادہ کو مجسم کرتی ہے اور الله کا ارادہ اس کی اس رحمت اور حکمت کو مجسم کرتا ہے جس سے بلند نہ کو ئی رحمت ہے اور نہ حکمت ہے۔چا ہے وہ تکوینی سنتيں ہوں یا تاریخی اور اجتماعی سنتيں ہوں ۔

یہ الله کی سنت ہے جو لوگ بعض دوسر ے لوگوں سے اپنے دین ودنيا کے سلسلہ ميں سوال کيا کرتے ہيں اور انسان کا الله سے اور ایک دوسرے سے بے نياز رہنے کا سوال کرنا صحيح نہيں ہے چونکہ اس طرح کی دعا کرنابا لکل الله کی سنت اور اس کے ارادہ کے خلاف ہے ۔

حدیث ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :

اللهم لاتحوجني الیٰ احد من خلقک

____________________

١)سورئہ فا طر آیت/ ۴٣ ۔ )

۵۷

“خدا یا مجه کو اپنی مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ بنا” رسول الله (ص)نے فرمایا :اس طرح مت کہو چونکہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے :

حضرت علی عليہ السلام نے عرض کيا :پهر ميں کيسے کہوں یا رسول الله ؟ رسول الله (ص) نے فرمایا :

اللهم لاتحوجني إلی شرارخلقک ( ١)

“پروردگارا !مجھے اپنی شریر مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ کرنا ” شعيب نے حضرت ابو عبد الله عليہ السلام سے نقل کياہے کہ آپ سے عرض کيا گيا:

ادعُ الله یغنيني عن خلقه قال:انّ اللّٰه قسّم رزق مَن شاء علیٰ یدی مَن شاء،ولکن اسال اللّٰه ان یغنيک عن الحاجة التي تضطرک الیٰ لئام خلقه( ٢)

“ آپ یہ دعا فرما دیجئے کہ خدا مجه کو مخلوق سے بے نياز کر دے آپ نے فرمایا :اللهنے رزق کو کسی نہ کسی کے ذریعہ تقسيم کيا ہے لہٰذا تم خداوندعالم سے یہ دعا کرو کہ خدا مجهکو بر ے لوگوں کے سامنے اپنی حاجت بيان کرنے پر مجبور نہ کرے ”

دعا کے اس طریقہ سے دعا کر نے ميں ہم یہ دیکهتے ہيں کہ اسلامی روایات ميں دعا ئيں کرنے کا ایک واقعی محدود دائر ہ ہے اور غير واقعی اور خيالی دائروں سے دعا خارج ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

انه ساله شيخ من الشام :اي دعوة اضلّ؟فقال:“الداعي بمالایکون(٣)

آپ سے شام کے ایک بزرگ نے سوال کيا :سب سے زیادہ گمراہ کُن کو نسی دعا ہے؟

____________________

١)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )

١١٧ حدیث صفحہ / ٨٩۴۶ ۔ : ٢)اصول کافی صفحہ / ۴٣٨ ،وسائل اشيعہ جلد ۴ )

٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )

۵۸

آپ نے فرمایا :“نہ ہو نے والی چيز کيلئے دعاکرنا ”

حيات بشری ميں نہ ہو نے والی چيز الله کی متعارف سنتوں کے دائرہ حدود سے خارج ہے ان ميں واقعی و حقيقی طور پر کو ئی تفکر نہيں کيا جا سکتا ہے ۔

عدةالداعی ميں امير المو منين سے مر وی ہے :

مَن سال فوق قدره استحق الحرمان ( ١)

“جس نے اپنی مقدار سے زیادہ سوال کيا وہ اس سے محروم ہو نے کا مستحق ہے ”

ہمارے عقيدے کے مطابق (فوق قدرہ )کے ذریعہ ان چيزوں کے بارے ميں سوال کيا جاتا ہے جن کو حقيقی طور پر طلب نہيں کيا جاتاہے ۔

٢۔حل نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا

جس طرح نہ ہونے والی چيزوں کے بارے ميں سوال اور دعا نہيں کرنا چاہئے اسی طرح حلال نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا بهی سزا وار نہيں ہے اور یہ دونوں ایک ہی باب سے ہيں پہلی بات الله کے ارادئہ تکو ینيہ سے خارج ہے اور دوسری بات الله کے تشریعی ارادہ سے خارج ہے ۔

الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :

اِن تَستَْغفِْرلَْهُم سَبعِْينَْ مَرَّةً فَلَن یَغفِْرَالله لَهُم ( ٢)

“اگر ستر مرتبہ بهی استغفار کریں گے تو خدا انهيں بخشنے والا نہيں ہے ” امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں :

لاتسال مالایکون ومالایحلّ ( ٣)

“نہ ہو نے والی اور غير حلال چيزوں کے متعلق سوال نہ کرو”

____________________

١)بحارالا نوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٢٧ حدیث/ ١١ ۔)

(٢)سورئہ توبہ آیت/ ٨٠ ۔

٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )

۵۹

٣۔دوسروں کی نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا

انسان کا الله سے یہ دعا کرنا کہ وہ دوسروں کی نعمتوں کو مجھے دیدے تو ایسی دعا کرنا جائز نہيں ہے :خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ الله بِهِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ ) ( ١)

“اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرنا ”

انسان کا الله سے نعمتوں کی آرزو کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور اس کے اس آرزو کرنے ميں بهی کوئی حرج نہيں ہے کہ جس طرح دوسروں کو نعمت دی ہے ہم کو بهی بلکہ دوسروں سے زیادہ ہم پر فضل وکرم کرے ليکن خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس چيز کو پسند نہيں کرتا کہ جن بندوں کو اس نے نعمت دی ہے وہ ان نعمتوں کو دیرتک ڻکڻکی باندهے دیکهتا رہے ۔

خدا وندعالم فرماتا ہے :

( وَلَاتَمُدَّ نَّ عَينَْيکَْ اِل یٰ مَامَتَّعنَْابِهِ اَزوَْاجاً مِنهُْم زَهرَْةَالحَْ وٰيةِالدُّنيَْا ) ( ٢)

“اور خبر دار ہم نے ان ميں سے بعض لوگوں کو دنيا کی اس ذرا سی زندگی کی رونق سے مالا مال کر دیا ہے اس کی طرف آپ آنکه اڻها کر بهی نہ دیکهيں ” خداوندعالم اس بات کو بهی دوست نہيں رکهتا ہے کہ انسان دوسروں کی نعمتوں کو اپنی طرف منتقل کرنے کی آرزو کرے۔بيشک اس طرح کی تمنا کر نے کا مطلب دوسروں سے نعمت چهيننا ہے اور خداوند عالم اس چيز کو اپنے بندوں سے پسند نہيں کرتا ہے ،یہ تو تنگ نظری اور اپنی حيثيت سے زیادہ تمنا اور آرزو کرنا ہے جس کو الله تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے با لکل پسند نہيں کرتا ہے بيشک الله کی سلطنت و

____________________

١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت/ ١٣١ ۔ )

۶۰

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248