دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)30%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70071 / ڈاؤنلوڈ: 4261
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

دعا عند اهل بيت(جلد دوم)

محمد مهدی آصفی

مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی

۳

دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چا ہئے اور کيا نہيں مانگنا چاہئے

اس مقام پر دعا ء کے سلسلہ ميں دو اہم سوال در پيش ہيں:

١۔ہميں دعا کر تے وقت خدا سے کن چيزوں کو مانگنا چاہئے ؟

٢۔اور دعا ميں خداوندعالم سے کن چيزوں کا سوال نہيں کرنا چاہئے ؟

١۔دعا ميں خدا سے کيا مانگنا چاہئے ؟

ہم پہلے سوال سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہيں کہ دعا کرتے وقت الله سے کو نسی چيزیں مانگنا سزوار ہے؟

بيشک بندے کا الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا دعا کہلاتا ہے۔ بند ے کی ضرورت اور حاجت کی کوئی انتہا نہيں ہے جيسا کہ خداوندعالم کے غنی سلطان اور کرم کی کوئی انتہا نہيں ہے ۔

دونوں لامتناہی چيزوں کے جمع ہونے کو دعا کہا جاتا ہے ۔

یعنی بندے کی ضرورت کی کوئی انتہا نہيں ہے اور خداوندعالم کے غنی اور کریم ہو نے کی کوئی انتہا نہيں ہے اس کے ملک کے خزانے ختم نہيں ہوتے، اسکی سلطنت اوراس کی طاقت کی کوئی حد نہيں، اس کے جودو کرم کی کوئی انتہا نہيں، اسی طرح بندے کی حاجت وضرورت کمزوری اور کوتا ہی کی کوئی انتہا نہيں ہے ان تمام باتوں کے مد نظر ہم کو یہ سمجهناچاہئے کہ ہم دعا ميںخداوندعالم سے کيا طلب کریں ؟

۴

١۔دعا ميں محمد وآل محمد (ص) پر صلوات

دعا ميں سب سے اہم نقطہ خداوندعالم کی حمد وثنا کے بعد مسلمانوں کے امور کے اولياء محمد و آل محمد پر صلوات بهيجنا ہے ۔

اور اسلامی روایات ميں اس صلوات پربہت زیادہ زور دیا گيا ہے جس کا سبب واضح وروشن ہے بيشک الله تبارک وتعالیٰ نے دعا کو مسلمانوں اور اور ان کے اوليا ء کے درميان ایک دوسرے سے رابطہ کا وسيلہ قرار دیا ہے اور وہ ولا ومحبت کی رسی کو بڑی مضبوطی کے ساته پکڑے رہيں جس کو الله نے مسلمانوں کےلئے معصوم قرار دیا ہے صلوات، ان نفسی رابطو ں ميں سے سب سے اہم سبب کا نام ہے بيشک محبت کے حلقے (کڑیاں)الله اور اس کے بندوں کے درميان ملی ہو ئی ہيں اور رسول الله اور اہل بيت عليہم السلام کی محبت ان کی سب سے اہم کڑیا ں ہيں ۔

رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے محبت الله کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اہل بيت عليہم السلام کی محبت رسول الله (ص)کی محبت کی کڑی ميں واقع ہے اس محبت کی تا کيد اور تعميق خداوند عالم کی محبت کی تاکيد کا جزء ہے نيز خداوند عالم کی محبت کی تعميق کا جزء ہے یہ معرفت کا ایسا وسيع باب ہے جس کو اس مقام پر تفصيل سے بيان نہيں کيا جا سکتا اور اس سلسلہ ميں ہم کما حقہ گفتگو نہيںکر سکتے ہيںشاید خداوند عالم ہم کو کسی اور مقام پر اسلا می ثقافت اور اسلامی امت کی تکوین کے سلسلہ ميں اس اہم اور حساس نقطہ کے سلسلہ ميں گفتگو کی تو فيق عنایت فر ما ئے ۔

اس مطلب پر اسلامی روایات ميں بہت زور دیا گيا ہے ۔ہم اس مو ضوع سے متعلق بعض روایا ت کو ذیل ميں بيان کر رہے ہيں ۔

۵

اور ان ميں سب سے عظيم خدا وند عالم کا یہ فر مان ہے :

( اِنَّ الله ٰ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَْ عَلیَ النَّبِی یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْصَلُّواعَلَيهِْ وَسَلِّمُواْتَسلِْيمْاً ) (۱)

“بيشک الله اور اس کے ملا ئکہ رسول پر صلوات بهيجتے ہيں تو اے صاحبان ایمان تم بهی ان پر صلوات بهيجتے رہو اور سلام کرتے رہو ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :الصلاة عليّ نورعلی الصراط (۲)

“مجه پر صلوات بهيجنا پل صراط کےلئے نور ہے” یہ بهی رسول اسلام (ص) کا ہی قول ہے:انّ ابخل الناس مَنْ ذُکرت عنده،ولم یصلّ عليّ (۳)

“سب سے بخيل انسان وہ ہے جس کے پاس ميرا تذکرہ کيا جائے اور وہ مجه پر صلوات نہ بهيجے ”

عبد الله بن نعيم سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا جب ميں گهر ميں داخل ہو تا ہوں تو ميں اپنے پاس محمد وآل محمد پر صلوات بهيجنے کے علاوہ کوئی اور دعا نہيں پاتا تو آپ نے فرمایا :آگاہ ہو جاؤ اس سے افضل اور کوئی چيز نہيں ہو سکتی ہے ”حضرت امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے مروی ہے:اثقل مایُوزن في الميزان یوم القيامة الصلاة علیٰ محمّد وآل محمّد “قيامت کے دن ميزان ميں سب سے زیادہ وزنی چيز محمد وآل محمد پر ” صلوات ہو گی(۴)

حضرت امير المو منين عليہ السلام نہج البلا غہ ميں ارشاد فرما تے ہيں :اذاکانَ لکَ اِل یٰ الله سُبحَْانَهُ حَاجَة فَابدَْابِْمَسا لَةِ الصَّلَاةِ عَل یٰ رَسُولِْهِ ثُمَّ سَل حَاجَتُکَ؛فَاِنَّ الله ٰ اَکرَْمُ مِن اَن یُسالَ حَاجَتَينِْ ،فَيَقضْ یٰ اِحدَْاهُمَاوَیَمنَْعُ الاُْخرْ یٰ (۵)

“جب تم خداوندعالم سے کوئی حاجت طلب کرو تو پہلے محمد وآل محمد پر صلوات بهيجو اس کے بعد اس سے سوال کرو بيشک خداوندعالم سب سے زیادہ کریم ہے کہ اس سے دو حاجتيں طلب کی جائيں اور وہ ان ميں سے ایک کو پورا کردے اور دوسری کو پورا نہ کرے ” انبياء ومرسلين اور ان کے اوصيا ء کی دعا ئيں اسی طرح کی دعائيں ہيں ۔

عام طور پر تمام انبياء عليہم السلام اور ان کے اوصيا ء پر صلوات وسلام وارد ہو تے ہيں یا اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعاؤں ميں مشخص ومعين اور نام بنام ان پر صلوات وسلام وارد ہوئے ہيں اور ان ميں وارد ہو نے والی ایک دعا (عمل ام داؤد )ہے جو رجب کے مہينہ ميں ایام بيض کے سلسلہ ميں وارد ہو ئی ہے اور وہ امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے ۔

____________________

۱ سورئہ احزاب آیت/ ۵۶ ۔ ۲ کنز العمال حدیث / ٢١۴٩ ۔ ۳ کنز العمال حدیث/ ٢١۴۴ ۔ ۴ بحارالانوار جلد ٧١ ۔صفحہ/ ٣٧۴ ۔ ۵ نہج البلاغہ حکمت ٣۶١ ۔

۶

محمد وآل محمد (ص)پر صلوات بهيجنے کے چند نمونے صحيفه سجادیه ميں امام زین العابد ین عليه السلام فرما تے هيں : ربِّ صلِّ علی محمّد وآل محمّد،المنتجب،المصطفیٰ المکرّم،المقرّب افضل صلواتک وبارک عليه اتَمّ برکا تک،وترحّم عليه امتع رحماتک

ربِّ صلِّ علی محمّد وآله صلاة زاکية لاتکون صلاة ازکیٰ منها و صلِّ عليه صلاة ناميةلاتکون صلاةانمیٰ منهاوصلِّ عليه صلاةراضية لاتکون صلاة فوقهاربِّ صلِّ علی محمّد صلوة تُرضيه وتزید علی رضاه وصلِّ عليه صلاة تُرضيک وتزید علی رضاک وصلِّ عليه صلاة لانرضیٰ له الَّابها ولاتریٰ غيره لهااهلا ربِّ صلِّ علیٰ محمّد وآله صلاةتنتظم صلوات ملائکتک وانبيائک ورسلک واهل طاعتک

“خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما جو منتخب ،پسندیدہ ،محترم اور مقرب ہيں۔ اپنی بہترین رحمت اور ان پر برکتيں نازل فر ما اپنی تمام ترین برکات ،اور ان پر مہربانی فرما اپنی مفيد ترین مہربانی خدایا محمد وآل محمد پر وہ پاکيزہ صلوات نہ ہو اور وہ مسلسل بڑهنے والی رحمت جس سے زیادہ بڑهنے والی کو ئی رحمت نہ ہو ۔ان پروہ پسندیدہ صلوات نازل فرماجس سے بالا تر کو ئی صلوات نہ ہو ۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جس سے انهيں راضی کر دے اور ان کی رضامندی ميں اضافہ کر دے اپنے پيغمبر پر وہ صلوات نازل فر ما جو تجهے راضی کر دے اور تيری رضا ميں اضافہ کر دے ۔ان پر وہ صلوات نازل فر ما جس کے علا وہ ان کے لئے کسی صلوات سے تو راضی نہ ہو اور اس کا ان کے علاوہ کو ئی اہل نہ سمجهتا ہو ۔۔۔خدایا محمد وآل محمد پر وہ صلوات نازل فر ما جو تيرے ملا ئکہ ،انبياء و مر سلين اور اطا عت گذاروں کی صلوات کو سميٹ لے ”

۷

٢۔مومنين کےلئے دعا

خداوندعالم کی حمد وثنااور محمد وآل محمد انبياء اور ان کے اوصياء پر درودو سلام بهيجنے کے بعد سب سے اہم چيز مومنين کےلئے دعا کرنا ہے یہ دعا ،دعا کے اہم شعبوں ميں سے ہے اس لئے کہ مومنين کے لئے دعا کرنا اس روئے زمين پرہميشہ پوری تاریخ ميں ایک مسلمان کوپوری امت مسلمہ سے جو ڑے رہی ہے جس طرح محمد وآل محمد پر صلوات خداوندعالم کی طرف سے نازل ہو نے والی ولایت کی رسی کے ذریعہ جو ڑے رہی ہے۔

اس رابط کو دعا ایک طرف فردا ور امت کے درميان جوڑتی ہے اور ان سے رابطہ قائم کرنے والے تمام افراد کے درميان اس رابطہ کو جوڑتی ہے یہ رابطہ سب سے بہترین وافضل رابطہ ہے اس لئے کہ اس علاقہ وتعلق سے انسان الله کی بارگاہ ميں جاتا ہے اور یہ تعلق ولگاؤ اس کو ہميشہ خدا سے جوڑے رہتا ہے اور وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نہيں پہچانتا اور یہ الله کی دعوت پرلبيک کہنا ہے ۔یہ دعا دو طریقہ سے ہو تی ہے :عام دعا کسی شخص کو معين اور نام لئے بغير دعا کرنا ۔

دوسرے نام بنام اور مشخص ومعين کرنے کے بعد دعا کرنا ۔ اور ہم انشاء الله ان دونوں قسموں کے متعلق بحث کریں گے :

١۔عام مومنين کےلئے دعا

اس طرح کی دعا کو الله دوست رکهتا ہے ، اس کو اسی طرح مستجاب کرتا ہے خدا وند عالم اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ بعض دعاکو قبول کرے اور بعض دعا کورد کردے۔

دعا کا یہ طریقہ عام مومنين کےلئے ہے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور طول تاریخ ميں روئے زمين پرامت مسلمہ کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتاہے اور ہمارے تعلقات کو اس خاندان سے زیادہ مضبوط ومحکم کرتا ہے ۔

ہماری زندگی ميں دعا کے دو کردار ہيں : پہلا کردار یہ ہے کہ ہم الله سے رابطہ قائم کرتے ہيں ۔

دوسرا کردار یہ ہے کہ طول تاریخ ميں روئے زمين پر ایمان لانے والی امت مسلمہ سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے ۔

۸

دعا کے اس بليغ طریقہ پر اسلامی روایات ميں بہت زیادہ زور دیا گيا ہے اور یہ وارد ہو ا ہے کہ خدا وند عالم دعا کرنے والے کو اس کی بزم ميں حاضر ہونے والے تمام مومنين کی تعداد کے مطابق نيک ثواب دیتا ہے ،اس دعا ميں شامل ہونے والے ہر مومن کی اس وقت شفاعت ہوگی جب خدا اپنے نيک بندوں کو گناہگار بندوں کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے کہ رسول الله (ص)نے فرمایا :

مامن مومن دعا للمومنين والمومنات إلَّاردّاللّٰه عليه مثل الذي دعا لهم به من کلّ مومن ومومنة ،مضی مِنْ اوّل الدهراو هوآت الیٰ یوم القيامة وانّ العبد ليومر به الیٰ النار یوم القيامة فيسحب،فيقول المومنون والمومنات:یاربّ هٰذا الذيکان یدعوالنافشفعنافيه،فيشفعّهم اللّٰه عزَّوجلَّ، فينجو (١)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من و مو منہ کے بدلے خلقت آدم سے قيامت تک نيکی لکھے گا ۔

بيشک قيامت کے دن ایک انسان کو دوزخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس کو کهينچا جا ئيگا اس وقت مو من و مو منات کہيں گے یہ وہی شخص ہے جو ہمارے لئے دعا کرتا تھا لہٰذا ہم کو اس کے سلسلہ ميں شفيع قرار دے تو خداوند عالم ا ن کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جائيگا ” امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

مَنْ قال کلّ یوم خمسا و عشرین مرة :اللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کتب الله له بعددکل مومن وضیٰ وبعددکل مومن ومومنة بقي الیٰ یوم القيامة حسنة ومحا عنه سيئة ورفع له درجة ( ٢)

“جس نے ایک دن ميں پچيس مرتبہاللهم اغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات کہا ،تو خدا وند عالم ہرگز شتہ اور قيامت تک آنے والے مومن اور

____________________

۴،حدیث / ١)اصول کا فی / ۵٣۵ ،آمالی طوسی جلد ٢صفحہ ٩۵ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵١ ) ٨٨٨٩ ۔ /

١١۵١ ،حدیث ٨٨٩١ ۔ / ٢)ثواب الاعمال صفحہ ٨٨ ؛وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۹

مومنہ کی تعداد کے مطابق اس کےلئے حسنات لکھے گا اور اس کی برائيوں کو محو کردے گا اور اس کا درجہ بلند کرے گا ”

ابو الحسن حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :مَنْ دعالإخوانه من المومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات وکّل الله به عن کل مومن ملکا یدعو له (١)

“جس نے مومنين ومومنات اور مسلمين ومسلمات کےلئے دعا کی تو خداوندعالم ہر مومن پر ایک ملک کو معين فرما ئے گا جو اس کےلئے دعا کر ے گا ” ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے :

مامن مومن ید عوللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّاکتب اللّٰهُ لهُ بکُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة (٢)

“جو مو من بهی زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کيلئے دعا کرے گا خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آباؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :مامن مومن اومومنة ،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،الَّا وهم شفعاء لمن یقول فی دعائه:اللهم اغفرللمومنين والمومنات، وان العبدليومر به الی النار یوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات :

____________________

١١۵٢ ،حدیث ٨٨٩٣ ۔ / ١)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

١١۵٢ ،حدیث / ٨٨٩۴ ۔ / ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )

۱۰

یاربَّنا هذاالذي کان یدعولنافشفّعنافيه فيشفّعهم الله ،فينجو ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکے ہيں یا قيامت تک آنے والے ہيں وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والے ہيں جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

ابو الحسن الر ضا عليہ السلام سے مروی ہے:

مامن مومن یدعو للمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات، الاحياء منهم والاموات،الَّا رد اللّٰهُ عليه من کُلِّ مومن ومومنة حسنة،منذ بعث اللّٰه آدم الیٰ ان تقوم الساعة ( ٢)

“جو شخص زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کےلئے دعا کرتا ہے تو خداوند عالم خداوند عالم اس کيلئے ہر مو من اور مو منہ کے بدلہ خلقت آدم سے قيامت تک ایک نيکی لکھے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا واجداد سے انهوں نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے :

مامن عبد دعاء للمومنين والمومنات الاّردّالله عليه مثل الذي دعا لهم من کلّ مومن ومومنة،مضیٰ من اوّل الدهر،او هوآت الیٰ یوم القيامة،وان العبد ليومر به الی الناریوم القيامة،فيُسحب فيقول المومنين والمومنات:یاربّناهذاالذی

____________________

١)امالی صدوق صفحہ ٢٧٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۵ ۔ )

٢)ثواب الاعمال صفحہ / ۴۶ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ /صفحہ ٣٩۶ ۔ )

۱۱

کان یدعولنا فشفّعنافيه فيشفّعهم الله ، فينجومن النار ( ١)

“جو مو من مرد یا مو من عورت زمانہ کے آغاز سے گذر چکا ہے یا قيامت تک آنے والا ہے وہ اس شخص کی شفاعت کرنے والا ہے جو یہ دعا کرے :خدایا مو منين و مو منات کو بخش دے اور قيامت کے دن اس انسان کو دو زخ ميں ڈالے جانے کا حکم دیا جا ئيگا تو اس وقت مو منين و مو منات کہيں گے پروردگار عالم یہ ہمارے لئے دعا کيا کرتا تھا لہٰذا اس کے سلسلہ ميں ہم کو شفيع قرار دے تو خدا وند عالم ان کو شفيع قرار دے گا جس کے نتيجہ ميں وہ شخص نجات پا جا ئے گا ”

امام جعفر صادق رسول خدا سے نقل فرماتے ہيں :

اذا دعا احدکم فليعمَّ فإنّه اوجب للدعاء ( ٢)

“جب دعا مانگو تو سب کيلئے دعا مانگو کيونکہ اس طرح دعا ضرور قبول ہو تی ہے ”

ابو عبد الله الصادق عليہ السلام سے مروی ہے : جب انسان کہتا ہے :اللهم إغفرللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات الاحياء منهم وجميع الاموات ردّ الله عليه بعدد مامضی ومَنْ بقي من کلّ انسان دعوة ( ٣)

“پروردگار تمام زندہ مردہ مو منين و مو منات اور مسلمين و مسلمات کو بخش دے تو خداوند عالم اس کے گذشتہ اور آئندہ انسانوں کی تعداد کے برابر نيکی لکه دیتا ہے ”

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ / ۴٧ ا،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٢)ثواب الا عمال صفحہ / ١۴٧ ۔بحار الا نوار جلد ٩٢ صفحہ/ ٣٨۶ ۔ )

٣)فلاح السائل صفحہ / ۴٣ ۔بحار النوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٨٧ ۔ )

۱۲

عمومی دعا کے کچه نمونے

ہم ذیل ميں اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعا ؤں ميں عام دعا کے

سلسلہ ميں کچه نمونے پيش کرتے ہيں :

اللهم اغنِْ کُلَّ فَقِيرٍْاللهم اشبِْع کُلَّ جَائِعٍ ،اللهم اکسُْ کُلَّ عُریَْانٍ اللهم اقضِْ دَیْنَ مِنْ کُلِّ مَدِیْنٍ اللهم فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوْبٍ اللهم رُدَّ کُلَّ غَرِیْبٍ اللهم فُکَّ کُلَّ اَسِيرٍْاللهم اَصلِْح کُلِّ فَاسِدٍ مِن اُمُورِْالمُْسلِْمِينَْ،اللهم اشفِْ کُلَّ مَرِیضٍْ، اللهم سُدَّ فَقَرنَْا بِغِنَاکَ،اللهم غَيِّرسُْوءَْ حَالَنَا بِحُسنِْ حَالِکَ،وَصَلَّ الله ٰ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَْ

“خدا یا تو ہر فقير کو غنی بنادے، خدایا تو ہر بهوکے کو سيرکردے، خدایا توہر برہنہ کو لباس پہنا،خدایا تو ہرقرضدار کا قرض ادا کر دے، خدایاہر غمگين کے غم کو دور کر،خدایاہر مسافر کو اس کے وطن پہنچا دے، خدایاہر اسير کو آزاد کر ،خدایامسلمانوں کے جملہ فاسد امور کی اصلاح فر ما، خدایاہر مریض کو شفا عطا کر، خدایاہمارے فقر کو اپنی مالداری سے درست کردے ،خدایاہماری بد حالی کو خوش حالی سے بدل دے، خدا یا ہمارے قرض کو ادا کر دے اور ہمارے فقر کو مالداری سے تبدیل کر دے اور محمد اور ان کی آل پاک پر صلوات بهيج”

ان ہی نمونوں ميں سے ہے :

اللهم وتفضّل علی فقراء المومنين والمومنات بالغنیٰ والثروة،وعلیٰ مرضی المومنين والمومنات بالشفاء والصحة ،وعلیٰ احياء المومنين والمومنات باللطف والکرامة وعلیٰ اموات المومنين والمومنات بالمغفرة والرحمة وعلیٰ مسافرالمومنين والمومنات بالردّ الیٰ اوطانهم سالمين غانمين برحمتک یاارحم الراحمين وَصَلَّ اللّٰهُ عَلیٰ سيدنامُحَمَّدٍخاتم النبيين وعترته الطَّاهِرِیْنَ

“خدایامو منين اور مومنات فقراء کو اپنے فضل سے دولت و ثروت عطا کر ، بيمار مو منين او ر مومنات کو شفا و صحت عطا کر ، زندہ مو منين اور مو منات پر لطف و کرم فرما،مردہ مو منين ومو منات پر بخشش و رحمت عطا فرما ،اپنی رحمت سے مسافرمومنين و مومنات کو ان کے وطن ميں صحيح و سالم واپس لوڻااور ہما رے سيد و سردار محمد خا تم النبيين اور ان کی آل پاک پردرود وسلام ہو”

صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۳

اللهم وصلّ علیٰ التابعين منایومنا هذا الیٰ یو م الدین وعلی ازواجهم وعلیٰ ذرِّیاتهم وعلیٰ مَنْ اطاعک منهم صلواةً تعصمهم بها من معصيتک وتفسح لهم فی ریاض جنتک وتمنعهم بها من کيد الشيطان وتعينهم بها علیٰ مااستعانوک عليه من برّ وتقيهم طوارق الليل والنهار الاّ طارقا یطرق بخيرٍ

“خدایاان تمام تا بعين پر آج کے دن سے قيامت کے دن تک مسلسل رحمتيں نا زل کر تے رہنااور ان کی ازواج اور اولا د پر بهی بلکہ ان کے تمام اطاعت گذاروں پر بهی وہ صلوات و رحمت جس کے بعد تو انهيں اپنی معصيت سے بچا لے اور ان کےلئے باغات جنت کی وسعت عطا فر ما دے اور انهيں شيطان کے مکر سے بچا لے اور جس نيکی پر امداد مانگيں ان کی امداد کر دے اور رات اور دن کے نا زل ہو نے والے حوادث سے محفوظ بنا دے ۔علاوہ اس حادثہ کے جو خير کا پيغام ليکر آئے ”

سرحدوں کے محا فظوں کے حق ميں دعا

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ،وَحَصِّن ثُغُورَْالمُْسلِْمِينَْ بِعِزَّتِکَ وَاَیَّدحُْمَاتُهَا بِقُوَّتِکَ وَاَسبِْغ عَطَایَاهُم مِن جِدَتکَ اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَکَثِّرعِْدَّتَهُم وَاشحَْذاَْسلِْحَتَهُم وَاحرُْس حَوزَْتَهُم وَامنَْع حَومَْتَهُم وَاَلِّف جَمعَْهُم وَدَبِّراَْمرَْهُم وَوَاتِر بَينَْ مِيَرِهِم وَتَوَحَّد بِکِفَایَةِ مُونِهِم وَاعضُْدهُْم بِالنَّصرِْوَاَعِنهُْم بِالصَّبرِْوَالطُْف لَهُم فِي المَْکرِْ

اللهم صَلِّ عَل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَعَرِّفهُْم مَایَجهَْلُونَْ وَعَلِّمهُم مَالَایَعلَْمُونَْ وَ بَصِّرهُْم مَالَایُبصِْرُونَْ

“خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر ما اور اپنے غلبہ کے ذریعہ مسلمانوں کی سر حدوں کی محا فظت فر ما اور اپنی قوت کے سہارے محا فظين حدود کی تا ئيد فر ما اور اپنے کرم سے ان کے عطایا کو مکمل بنا دے خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجا ہدوں کی تعداد ميں اضافہ فر ما ان کے اسلحوں کو تيز و تند بنا دے ان کے مر کزی مقا مات کی حفاظت فر ما ،ان کے حدود و اطراف کی حراست فر ما ان کے اجتماع انس و الفت پيدا کر ان کے امور کی تدبير فر ما ان کی رسد کے و سائل کو متواتر بنا دے اور تو تن تنہا ان کی تمام ضروریات کے لئے کا فی ہو جا اپنی نصرت سے ان کے با زووں کو قوی بنا دے اور جو ہر صبر کے ذریعہ ان کی امداد فرما اور باریک تدبيروں کا علم عطا فرما ۔

خدا یا محمد اور آل محمد پر رحمت نا زل فر مااور مسلمانوں کو ان تمام چيزوں سے با خبر کر دے جن سے وہ نا واقف ہيں اور وہ تمام با تيں بتا دے جنهيں نہيں جا نتے ہيں اور وہ سارے منا ظر دکهلا دے جنهيں آنکهيں نہيں دیکه سکتی ہيں ” صحيفہ سجادیہ ميں ایک اور مقام پرامام زین العا بد ین عليہ السلام فرماتے ہيں :

۱۴

اللهم وایّمامسلم اهمّه امرالاسلام واحزنه تحزب اهل الشرک عليهم فنویٰ غزواً او همّ بجهاد فقعد به ضعف اوابطات به فاقة اواخرّه عنه حادث او عرض له دون ارادته مٰانع فاکتب اسمه فی العابدین واوجب له ثواب المجاهدین واجعله فی نظام الشهدٰآ ء والصالحين

“خدا یااور جس مسلمان کے دل ميں اسلام کا درد ہوا ور وہ اہل شرک کی گروہ بندی سے رنجيدہ ہوکرجہاد کاارادہ کر ے اور مقابلہ پر آمادہ ہوجائے ليکن کمزوری اسے بڻها دے یا فاقہ اسے روک دے یا کوئی حادثہ درميان ميں حائل ہوجائے اور اس کے ارادہ کی راہ ميں کوئی مانع پيش آجائے تو اس کا نام بهی عبادت گزاروں ميں لکه دینا اور اسے بهی مجاہدین کا ثواب عطا فرمادینا اور شہداء وصالحين کی فہرست ميں اس کا نام بهی درج کردینا ”

دعا مجاہدین الرساليين صحيفہ سجادیہ ميں امام زین العابدین فرماتے ہيں :اللهم وَاَیُّمَامُسلِْمٍ خَلَفَ غَازِیاً اومُْرَابِطاًفِي دَارِهِ اَوتَْعَهَّدَخَالِفِيهِْ فِی غَيبِْتِهِ اَواَْعَانَهُ بِطَائِفَةٍ مِن مَالِهِ،وَاَمَدَّهُ بِعِتَادٍ،اَو رَع یٰ لَهُ مِن وَّرَائِهِ حُرمَْةً فَ اٰ جِرلَْهُ مِثلَْ اجرِْهِ وَزنْاً بِوَزنٍْ،وَمِثلْاًبِمِثلٍْ

“اور خدایا جو مرد مسلمان کسی غازی یا سرحد کے سپاہی کے گهر کی ذمہ داری لے لے اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے یا اپنے مال سے اس کی مدد کرے یا جنگ کے آلات و ابزار سے اس کی کمک کرے یا پس غيبت اس کی حُر مت کا تحفظ کرے تو اسے بهی اسی جيسا اجر عطا کر ناتا کہ دونوں کا وزن ایک جيسا ہو ”

قرآن کریم ميں دعا کے تين صيغے

قرآن کریم ميں دعا کےلئے تين صيغے آئے ہيں :

١۔ایک انسان کا خود اپنے لئے دعا کرنا ۔

٢۔کسی دوسرے کےلئے دعا کرنا ۔

٣۔کچه افراد کا مل جل کر تمام مومنين کےلئے دعا کرنا ۔

دعا کے سلسلہ ميں ہم ذیل ميں ان تينوں گروہوں کے بارے ميں بيان کرتے ہيں تاکہ مو منين کےلئے دعا کرنے ميں ہم قرآن کے اسلوب سے واقف ہو سکيں:

۱۵

١۔ اپنے لئے دعا

دعا کا یہ مشہور ومعرف طریقہ ہے ہم قرآن کریم ميں انبياء عليہم السلام اور صالحين کی زبانی اس طرح دعا کرنے کے بہت سے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہيں یا خدا کے وہ اپنے بندے جن کو الله نے اس طرح دعا کرنے کی تعليم دی ہے اس سلسلہ ميں قرآن کریم فرماتا ہے :

رَبِّ قَدآتَيتَْنِی مِنَ المُْلکِْ وعَلَّمتَْنِی مِن تَاوِیلِْ الاْحَادِیثِْ فَاطِرَ السَّ مٰوَاتِ وَالاَْرضِْ اَنتَْ وَلِیِّ فِی الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسلِْماً وَاَلحِْقنِْی بِالصَّالِحِينَْ ( ١)

“پروردگار تو نے مجھے ملک بهی عطاکيا اور خوابوں کی تعبير کا علم بهی دیا تو زمين وآسمان کا پيدا کرنے والاہے اور دنيا وآخرت ميں ميراوالی اور سرپرست ہے مجھے دنيا سے فرمانبردارہی اڻهانا اور صالحين سے ملحق کردینا ”

رَبِّ اَدخِْلنِْی مُدخَْلَ صِدقٍْ وَاخرِْجنِْی مُخرَْجَ صِدقٍْ وَاجعَْل لِی مِن لَّدُنکَْ سُلطَْاناً نَصِيرْاً ( ٢)

“اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچهی طرح سے آبادی ميں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور ميرے لئے ایک طاقت قرار دیدے جو ميری مدد گار ثابت ہو ۔

رَبِّ اشرَْح لِی صَدرِی وَیَسِّرلِْی اَمرِْی وَاحلُْل عُقدَْةً مِن لِّسَانِی یَفقَْهُواْ قَولِْی (٣) “موسیٰ نے عرض کی پروردگار ميرے سينے کو کشادہ کردے اور ميرا کام ميرے لئے آسان کردے اور ميری زبان سے لکنت کی گرہ کهول دے تا کہ لوگ ميری بات اچهی طرح سمجهيں ”

رَبِّ تٰ لاَذَرنْی فَردَْاً وَانْتَْ خَيرُْال اْٰورِثينَ (۴)

____________________

١)سورئہ یوسف آیت/ ١٠١ ۔ )

٢)سورئہ اسراء آیت/ ٨٠ ۔ )

٣)سورئہ طہ آیت/ ٢۵ ۔ ٢٨ ۔ )

۴)سورئہ انبياء آیت/ ٨٩ ۔ )

۱۶

“پروردگار مجھے اکيلا نہ چهوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے۔ر َبَّ انزِْلنْی مُنزَْلاًمُ اٰبرَکاً وَانتَْ خَيرُْالمُْنزِْلينَ ( ١)

“اور یہ کہنا کہ پوردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ توبہترین اتارنے والا ہے ۔َبِّ اعُوذُبِکَّ مِن هَمَ اٰزتِ الشَّ اٰيطينِ وَاعُوذُ بِکَ رَبِّ ان یَحضُْرُونِ ( ٢)

“اور کہئے کہ پروردگار ميں شيطانوں کے وسوسوں سے تيری پناہ چاہتا ہوں اور اس بات سے پنا ہ ما نگتا ہوں کہ شياطين مير ے پاس آجائيں ”

رَبِّ هَب لی حُکمَْاًوَالحِْقنْی بِالصاٰلِّحينَ وَاجعَْل لی لِ سٰانَ صِدقٍْ فیِ الآْخِرینَ (وَاجعَْلنْی مِن وَرَثةِجَنّةِالنَّعيمِ ( ٣)

“خدا یا مجھے علم وحکمت عطا فرمااور مجھے صالحين کے ساته ملحق کردے اور آئندہ آنے والی نسلوں ميں ميرا ذکر خير قائم رکه اور مجھے بهی نعمت کے باغ (بہشت)کے وارثوں ميں قراردے”

٢۔ دوسروں کےلئے دعا !

دوسرا طریقہ جس کے سلسلہ ميں قرآنی نمونے اور شواہد موجود ہيں ۔ خدا فرماتا ہے :وَقُل رَبِّ ارحَْمهُْ مٰاکَ مٰارَبّ اٰينی صَغيراً ( ۴)

“پرور دگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فر ما جس طرح کے انهوں نے بچپنے ميں مجھے پالا ہے ”

____________________

١)سورئہ مومنون آیت/ ٢٩ ۔ )

٢)سورئہ مومنون آیت/ ٩٧،٩٨ ۔ )

٣)سورئہ شعراء اآیت/ ٨٣ ۔ ٨۵ ۔ )

۴)سورئہ اسراء آیت/ ٢۴ ۔ )

۱۷

ملة العرش کی مومنين کے لئے دعا:رَبَّ اٰنوَسِعتَْ کُلَّ شَی ءِ رَحمَْة وَعِلمَْاً فَاغفِْرلِْلَّذینٍ اٰتبُواواتَّبَعوُاسَبيلَکَ وَقِهِم عَذابَ الجَْحيمِ رَبَّ اٰنوَادخِْلهُْم جَناٰتِّ عَدنٍْ الَّتی وَعَدتَْهُم وَمَن صَلَحَ مِن آ اٰبئِهم وَاز اْٰوجِهِم وَذُرِّ اٰیتِهِم اِنَّکَ انتَْ العّْزیزُالحَْکيمُ وَقِهِمَ السَيِّ اٰئتِ وَمَن تَقِ السَّيِّ اٰئتِ یَومَْئِذٍ فَقَد رحِمتَْهُ وَ لٰذِکَ هُوَالفَْوزُْ العَْظيمُ ( ١)

“خدایا تيری رحمت اور تيرا علم ہر شے پر محيط ہے لہٰذا ان لوگوں کو بخش دے جنهوں نے تو بہ کی ہے اور تيرے راستہ کا اتباع کيا ہے اور انهيں جہنم سے بچا لے ،پروردگار انهيں اور انکے باپ دادا ازواج اور اولاد ميں سے جو نيک اور صالح افراد ہيں انکو ہميشہ رہنے والے باغات ميں داخل فرما جن کا تونے ان سے وعدہ کيا ہے کہ بيشک تو سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے ،اور انهيں برائيوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تونے برائيوں سے بچاليا گویا انهيں پر رحم کيا ہے اور یہ بہت بڑی کا ميابی ہے ”

٣۔اجتماعی دعا

قرآن کریم کا یہ سب سے مشہور طریقہ ہے اور قرآن کریم کی اکثر دعا ئيں اسی طرح کی ہيں اس سلسلہ ميں قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے :

اِهدِْنَاالصِّراطَ المُْستَْقيمَ صِ اٰرطَ الَّذینَ اَنعَْمتَْ عَلَيهِم غيرِالمَْغضُْوبِْ عَلَيهِْم وَلاَالضاٰلِّّينَْ (٢) ہم سيدهے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں ”

____________________

١)سورئہ غافر آیت/ ٧۔ ٩ )

٢) سورئہ حمد آیت ۶۔ ٧۔ )

۱۸

رَبَّ اٰنتَقَبَّل مِناٰاِّنَّکَ اَنتَْ السّميعُ العَْليِمُ ( ١)

“اور دل ميں یہ دعا تهی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا ہے ”

رَبَّنَاء تِاٰنَا فِی الدُّنيَْاحََسَنَةًوَفِی الآْخِرَةِحَسَنَةًوَقِنَاعَذَابَ النَّارِ ( ٢)

“پروردگار ہميں دنيا ميں بهی نيکی عطا فرما اور آخرت ميں بهی اور ہم کو عذاب جہنم سے محفوظ فرما”

رَبَّ اٰنافرِْغ عَلي اْٰنصَبرَْاًوَثَبِّت اق اْٰ دمَ اٰنوَانصُْر اْٰنعَلی القَْومِ ال اْٰ کفِرینَ ( ٣)

“خدایا ہميں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہميں کافروں کے مقابلہ ميں نصرت عطا فرما”

رَبَّ اٰنلَاتُواخِذنَْااِن نَسِينَْااَواَْخطَْانَارَبَّنَاوَلَاتَحَمِّل عَلَينَْااِصرْاًکَمَاحَمَلتَْهُ عَلیَ الَّذِینَْ مِن قَبلِْنَارَبَّنَاوَلَاتُحَمِّلنَْامَالَاطَاقَةَلَنَابِهِ وَاعفُْ عَنَّاوَاغفِْرلَْنَا وَارحَْمنَْااَنتَْ مَولَْانَا فَانصُْرنَْاعَلیَ القَْومِْ الکَْافِرِینَْ ( ۴)

“پروردگار ہم جو کچه بهول جائيں یا ہم سے غلطی ہوجائے اسکا ہم سے مواخذہ نہ کرنا خدایا ہم پر ویسا بوجه نہ ڈالنا جيسا پہلے والی امتوں پر ڈالاگيا ہے پروردگار ہم پر وہ بارنہ ڈالنا جس کی ہم ميں طاقت نہ ہوہميں معاف کردینا ہميں بخش دیناہم پر رحم کرنا تو ہمارا مولا اور مالک ہے اب کافروں کے مقابلہ ميں ہماری مدد فرما”رَبَّ اٰنلَاتُزِغ قُلُوبَْنَابَعدَْاِذهَْدَیتَْنَاوَهَب لَنَامِن لَّدُنکَْ رَحمَْةًاِنَّکَ اَنتْ

____________________

١)سورئہ بقرہ آیت ١٢٧ )

٢)سورئہ بقرہ آیت ٢٠١ )

٣)سورئہ بقرہ آیت ٢۵٠ ۔ )

۴)سورئہ بقرہ آیت ٢٨۶ ۔ )

۱۹

اَلْوَهَّابُ ( ١)

“ان کا کہنا ہے کہ پروردگار جب تونے ہميں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں ميں کجی نہ پيدا ہونے پائے اور ہميں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہے ”

رَبَّ اٰناِنَّنَاسَمِعنَْامُنَادِیاًیُنَادِی لِلاِْیمَْانِ ان آمِنُواْبِرَبِّکُم فَآمَنَّارَبَّنَافَاغفِْرلَْنَا ذُنُوبَْنَاوَکَفِّرعَْنَّاسَيِّئَاتِنَاوَتَوَفَّنَامَعَ الاَْبرَْارِ رَبَّنَاوَآتِنَامَا وَعَدتَْنَاعَل یٰ رُسُلِکَ وَلَا تُخزِْنَا یَومَْ القِْيَامَةِ اِنَّکَ لَاتُخلِْفُ المِْيعَْادَ ( ٢)

“پروردگار ہم نے اس منادی کو سناجو ایمان کی آواز لگارہاتها کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے پروردگاراب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائيوں کی پردہ پوشی فرما اور ہميں نيک بندوں کے ساته محشور فرما پروردگار جو تو نے اپنے رسول سے وعدہ کيا ہے اسے عطا فرما اور روز قيامت ہميں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہيں کرتا”

( رَبَّنا اٰٴَفرِْغ عَليناْٰصَبرْاً وَتَوَفَّنَا مُسلِْمِينَْ ) ( ٣)

“خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہميں مسلمان دنيا سے اڻهانا”( رَبَّ اٰنآمَنَّافَاغفِْرلَْنَاوَارحَْمنَْاوَاَنتَْ خَيرٌْالرَّاحِمِينَْ ) ( ۴)

“پروردگار ہم ایمان لائے ہيں لہٰذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہم پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے ”’

( رَبَّ اٰناصرِف عَنَّاعَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَاکَانَ غَرَاماً ) (۵)

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت ٨۔ )

٢)سورئہ آل عمران آیت ١٩٣ ۔ ١٩۴ )

٣)سورئہ اعراف آیت / ١٢۶ ۔ )

۴)سورئہ مو منون آیتِ ١٠٩ ۔ )

۵)سورئہ فرقان آیت/ ۶۵ ۔ )

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۸۔تعمیر قبور

وہابیوں کا نظریہ اور ان کے فتاوٰی کے نمونے

قبور کی تعمیر کے شریعت میں جائز ہونے پر بہترین دلیل بیت المقدس کے اطراف میں انبیائے الہی کی قبور کا موجود ہونا ہے اور مسلمانوں کے تمام فرقے بھی ہر زمانے میں اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لیکن وہابی قبور پر عمارت ، گنبد، ان کے تعمیر اور چونا کرنے کو شرک وکفر اور ان کے ویران کرنے کو واجب سمھتے ہیں ۔

۱۔ صنعانی کہتا ہے :

مقبرہ بت کے مانندہے اس لئے کہ جو کام زمانہ جاہلیت میں لوگ بتوں کے لئے انجام دیتے تھے وہی کام (قبوریون یعنی قبروں کے پجاری) اولیائے خدا کی قبروں اور مقبروں کے لئے انجام دیتے ہیں( ۱ )

۲۔ ابن تیمیہ کاشاگرد ابن قیم کہتا ہے :

قبور کے اوپر بنائی گئی عمارات کا نابود کرنا واجب ہے جو بتوں اور طاغوتوں کے عنوان سے پرستش کی جاتی ہیں ۔ ان کو خراب کرنے کی طاقت رکھنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی تاخیر جائز نہیں ہے ۔ چونکہ یہ عمارات دوبتوں لات وعزی کی طرح ہیں۔ اور وہاں پر بد ترین شرک آلودہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔ علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں یوں بیان ہواہے:

قبور کے اوپر عمارت بنانے کا ممنوع ہونا اجماعی ہے جس کی ممنوعیت پر صحیح احادیث دلالت کررہی ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء نے ان کے خراب اور ویران کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ وہ اس فتوی میں (ابو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۶، بہ نقل از تطھیر الاعتقاد صنعانی

۲۔زاد المعاد ۳:س۵۰۶.

۱۲۱

الھیاج ) کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس نے حضرت علی سے نقل کی کہ علی بن ابیطالب

علیہ السلام نے اس سے فرمایا:الا ان ابعثک علی ما بعثنی علیه رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمسته ولا قربا مشرفا الا سویته

آگاہ رہو ! میں تمہیں ایسے کام پر مامور کررہا ہو جس پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے مامور کیا تھا کسی تصویر کو نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اسے محو کردینا اورجو قبر بلند نظر آئے اسے زمین کے برابر کردینا۔( ۱ )

اس فتوی کا رد

ہم اس فتوی کے جواب میں کہتے ہیں۔

وہ اجماع جسے وہابی بیان کرتے ہیں مردود ہے بلکہ اس فتوی کے خلاف ایسے عمل کے جائز ہونے پر اجماع موجود ہے ۔ وہابی فرقہ کی پیدائش سے پہلے تمام مذاہب کے مسلمانوں کی ہر زمانہ میں یہی سیرت رہی ہے ۔

اس بارے میں صنعانی کا سیرت کا اعتراف کرنا ہمارے نظریہ کی تایید کررہا ہے ۔ا س نے اپنی کتاب (تطھیر الاعتقاد ) میں ایک سوال کی صورت میں اس بارے میں لکھا ہے ۔

اس سیرت نے شرق وغرب عالم کے تمام شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک کا کوئی ایسا نقطہ نہیں ہے کہ وہاں پہ قبر یا مقبرہ نہ ہو یہاں تک کہ مسلمانوں کی مساجد بھی قبروں سے خالی نہیں ہیں۔ او رکوئی عقل مندیہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ عمل حرام ہے ۔ علمائے اسلام بھی اس بارے میں ساکت ہیں۔

اس کے بعد صنعانی کہتا ہے ۔ اگر انصاف سے کام لیں او رسلف کی پیروی سے کنارہ کش ہوجائیں تو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۸.

۱۲۲

جان لیں گے کہ حق وہی ہے جو دلیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے نہ کہ ہر نسل کا اتفاق واجماع ۔ لہذا یہ امور جو عوام انجام دیتے ہیں ۔ یہ اپنے آباء واجداد کی تقلید او ربدون دلیل ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو اہل علم کہلواتے ہیں یا منصب قضاوت ، فتوی اور تدریس پر فائز ہیں۔ یا حکومت میں امیر ورئیس ہیں لیکن عمل عوام کی طرح انجام دیتے ہیں۔

البتہ کسی مجہول چیز کے رواج میں علماء یا عالم کا سکوت کرنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے ۔

صنعانی نے اپنے اس کلام میں اس سیرت کے عوام وعلماء کے تمام طبقوں میں پائے جانے کا اعتراف کیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہہ رہا کہ حق وہی ہے جو دلیل سے ثابت ہوچکا ہے ۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ کیا ہر نسل میں امت کے اتفاق سے بڑھ کر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟

اس حدیث پر اعتراض

قابل ذکر ہے کہ جس حدیث سے وہابی استناد کرتے ہیں چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے:

۱۔ کسی حدیث کا وہابیوں کے نزدیک صحیح ہونا یا اس کی مخالفت میں کسی حدیث کا نہ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حدیث دوسروں کے نزدیک بھی صحیح ہو لہذااس موضوع پر اجماع کے پائے جانے کادعوٰی کرناممکن نہیں ہے

۲۔علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں تناقض پایا جاتاہے اس لئے کہ ایک بار یہ کہا جارہا کہ بہت سے علماء نے تخریب قبور کے وجوب کافتوٰی دیاہے تودوسری بار یہ کہاجارہا:حرمت پر دلالت کرنے والی احادیث کے صحیح ہونے پر اجماع موجود ہے

۱۲۳

اگرواقعا اجماع موجود ہے تو پھر تمام علماء نے قبورکی تخریب کے وجوب کافتوٰی کیوں نہ دیا؟

۳۔اس حدیث میں سنداور دلالت دونوں اعتبار سے اشکال موجود ہے.

اس حدیث کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں سے ایک وکیع بن جرّاح ہے.

عبداللہ بن احمد بن حنبل شیبانی اس کے متعلق کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے سناوہ کہا کرتے تھے: ابن مہدی کی تصحیف( ۱ ) وکیع کی نسبت زیادہ اور وکیع کے اشتباہات ابن مہدی سے زیادہ ہیں.

وہی دوسرے مقام پر کہتے ہیں : ابن مہدی نے پانچ سو احادیث میں خطا کی ہے.( ۲ )

ابن المدینی کہتے ہیں : وکیع عربی زبان میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور اگر اپنے الفاظ میں بیان کرتا تو انسان کو تعجب میں ڈال دیتا.وہ ہمیشہ کہا کرتا: حدّثناالشعبی عن عائشہ( ۳ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابو سفیان ثوری ہے

ذہبی اس کے متعلق کہتے ہیں: سفیان ثوری دھوکے اور فریب کاری سے ضعیف راویوں کو ثقہ اور قابل اعتماد بیان کیا کرتا.( ۴ )

یحیٰی بن معین اس کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابو اسحاق کی احادیث میں سفیان سے بڑھ کر کوئی دانا تر نہیں لیکن وہ احادیث میں تدلیس (حدیث میں ایک طرح کا جھوٹ اور اس میں ملاوٹ کرنا ہے )کیا کرتا( ۵ )

اسی حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی حبیب بن ابو ثابت ہے .ابن حبّان حبیب کے

____________________

۱۔لکھنے یا پڑھنے میں کسی بھی قسم کی غلطی کو تصحیف کہاجاتا ہے.

۲۔تہذیب الکمال ۳۰: ۴۷۱.

۳۔میزان الاعتدال ۷:۱۲۷.

۴۔حوالہ سابق.

۵۔الجرح والتعدیل۴: ۲۲۵.

۱۲۴

متعلق کہتے ہیں: وہ حدیث میں تدلیس اور دھوکے سے کام لیا کرتا( ۱ )

ابن خزیمہ ا س کے بارے میں کہتے ہیں: حبیب بن ابو ثابت احادیث میں تدلیس کیا کرتا.( ۲ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابووائل بھی ہے جو دل میں بغض علی علیہ السلام رکھتا تھا ( ۳)جبکہ حدیث معتبر میں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

یا علی لایحبّک الاّ مؤمن ولا یبغضک الاّ منافق

اے علی ! تجھ سے محبت وہی کرے گا جو مومن ہو گا اور تجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہو( ۴ )

دوسری جانب حدیث کے متن کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے چونکہ اس کا راوی تنہا ابو الہیاج ہے لہذا یہ حدیث شاذ کہلائے گی.

جلال الدین سیوطی نے نسائی کی شرح میں لکھا ہے : کتب روایات میں ابوالہیاج سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے

اورپھر یہ حدیث ان کے مدّعا پر دلالت بھی نہیں کر رہی چونکہ ایک طرف قبر کے زمین کے برابر کرنے کی حکم دے رہی ہے تو دوسری جانب اس کے اوپر والے حصے کے ناہموار ہونے سے منع کر رہی ہے .اس لئے کہ شرف کا معنٰی بلندی ہے. اور لغت میں اونٹ کی کوہان کی بلندی کو کہا جاتا ہے.( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب التہذیب ۲: ۱۵۶.

۲۔حوالہ سابق.

۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۴: ۹۹.

۴۔مجمع الزوائد ۹: ۱۳۳.

۵۔القاموس ۳: ۱۶۲.

۱۲۵

اس بنا پر لفظ شرف ہر طرح کی بلندی کو شامل ہو گا جبکہ سوّیتہ کا معنٰی برابر کرنا اس بات پر قرینہ ہے کہ یہاں پر شرف سے مراد اونٹ کی کوہان یا مچھلی کی پشت پرموجود ابھار ہے.

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں تین احتمال موجود ہیں:

۱۔ قبروںکے اوپر موجود بلند عمارتوں کو ویران کیا جائے

۲۔ قبروں کو زمین کے برابر کیا جائے

۳۔ جس قبر کے اوپر اونٹ کی کوہان کے مانندابھار موجود ہو اسے برابر کیا جائے

پہلا احتمال مردود ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا عمل اور سیرت مسلمین اس کے خلاف ہے جس کے نمونوں کی طرف اشارہ کر چکے.

نیز دوسرا احتمال بھی باطل ہے چونکہ سنت قطعی قبر کے زمین سے ایک بالشت بلند ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔

تیسر ا احتمال یہ کہ قبر کے اوپر موجود ہر طرح کی ناہمواری اور کجی جواونٹ کی کوہان کی مانند ہو اسے برابر کیا جائے .بعض اہل سنت علماء جیسے عسقلانی اور نووی وغیرہ نے بھی اس روایت کی یہی شرح بیان کی ہے.

نووی کہتے ہیں: قبر کو زیادہ بلند نہیں ہونا چاہئے اور اوپر سے مسنّم( اونٹ کی کوہان کی طرح )نہ ہوبلکہ زمین سے ایک بالشت بلند اور اوپر سے ہموار ہو ۔( ۱ )

قسطلانی قبروں کے ہموار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابو الہیاج کی حدیث

____________________

۱۔ المجموع ۵: ۲۹۵اور ۱:۲۲۹.

۱۲۶

سے مراد یہ نہیں ہے کہ قبر زمین کے برابر ہوبلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قبر کو اوپر سے ہموار ہونا چاہئے( ۱ )

سیرت صحابہ کرام ومسلمین

بیت المقدس کے اطراف میں بہت سے انبیائے الہی کی قبور موجود ہیں جیسے قدس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ، الخلیل میں حضرت ابراہیم ،حضرت اسحا ق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف علیہم السلام کی قبور جن پر بلند عمارات پائی جاتی ہیں.اسلام سے پہلے ان پر پتھر موجود تھے اور جب اسلام نے اس علاقے کو فتح کیا تویہ قبور اسی صورت میں تھیں.( ۲ )

ابن تیمیہ اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:

شہر الخلیل کی فتح کے دوران صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر پر عمارت موجود تھی مگر یہ کہ اس کا دروازہ ۴۰۰ہجری تک بند رہا۔( ۳ )

بے شک جب حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت بھی یہ عمارت موجود تھی لیکن اس کے ویران کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ابن بلہید یہ دعوٰی کررہا کہ مقبروں کا بنانا پانچویں صدی کے بعد رائج ہوا۔

یہ دعوٰی یقینا درست نہیں ہے چونکہ بہت سے مقبروں کا تعلق پہلی ،دوسری یا تیسری صدی سے ہے( ۴ ) جن کے چندایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

____________________

۱۔ ارشادالساری ۲: ۴۶۸.

۲۔کشف الارتیاب :۳۰۶.

۳۔مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ ۲۷: ۱۴۱.

۴۔اخبار المدینة۱: ۸۱.

۱۲۷

۱۔ اس حجرہ شریفہ کی عمارت جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدفن ہیں۔

۲۔ حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر پر موجود مسجد کی عمارت۔

۳۔محمد بن زید بن علی علیہ السلام کے گھر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند ابراہیم کی قبر

۴۔ امیرالمؤمنین حضرت علیہ السلام کا روضہ مبارک جو ۳۷۲ ہجری میں تعمیر ہوا۔( ۱)

۵۔زبیر کا مقبرہ جو ۳۸۶ ہجری میں تعمیر کروایا گیا.( ۲ )

۶۔حضرت سعد بن معاذ کا مقبر ہ جو دوسری صدی ہجری میں بنا.( ۳ )

۷۔ ۲۵۶ ہجری میں امام بخاری کی قبر پر ضریح کا بنا کر رکھا جانا.( ۴ )

صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مقبروں کی تعمیر نو

ہم اس موضوع کا آغاز اس سوال سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر واقعا مقبروں اور روضوںکابنانا حرام ہے تو پھر صحابہ کرام نے روضہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیوں نہ گرایا جس کی عمارت اب بھی موجودہے؟

اور پھر جس گھر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دفن کیا گیا تھا اس میں دیوار نہیں تھی اور سب سے پہلے جس نے دیوار بنوائی وہ حضرت عمر بن خطاب تھے ۔( ۵ )

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے اس گھر میں اپنے اور قبور کے درمیان دیوار

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱: ۲۵۱.

۲۔المنتظم ۱۴:۳۷۷.

۳۔ سیر اعلام النبلاء ۱۳: ۲۸۵.

۴۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی۲: ۲۳۴.

۵۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۲: ۵۴۱.

۱۲۸

بنوائی اور پھر وہیں پہ نماز بھی پڑھا کرتی تھیں۔

عبداللہ بن زبیر نے اپنے دور حکومت میں قبر مبارک پر عمارت بنوائی جو کچھ عرصہ بعد خراب ہو گئی اور پھر متوکل عباسی کے زمانے میں اس عمارت پر سنگ مرمر لگائی گئی۔

صحابہ کرام اور دیگر افراد کی قبور

۱۔ دوسر ی صد ی ہجری میں ہارون الرشید نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی قبر مبار ک پر گنبد بنوایا۔( ۱)

۲۔ ۲۳۰ ہجری میں نہشل بن حمید طوسی نے معروف شاعر ابو تمام حبیب بن اوس طائی کا مقرہ بنوایا( ۲ )

۳۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ۳۶ ہجری میں وفات پائی .خطیب بغد ادی لکھتے ہیں: ان کی قبر اب بھی ایوان کسرٰی کے قریب موجود ہے اس پر مقبرہ بنا ہوا ہے( ۳ )

۴۔ ابن بطوطہ ، طلحہ بن عبید اللہ ( جو اپنے زمانہ کے امام حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مار اگیا تھا ) کے مقبرہ کے متعلق کہتے ہیں:

اس کی قبر شہر کے اندر موجود ہے اور اس پر گنبد بنا ہوا ہے ۔( ۴ )

۵ ۔ ۲۰۴ ھ میں امام شافعی کی وفات ہوئی ،ذہبی نے لکھا ہے:ملک کامل نے شافعی کی قبر پر گنبد بنوایا (

۶۔ ذہبی کہتے ہیں: ۲۳۶ ھ میں متوکل عباسی نے یہ حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر اور اس کے

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱۶: ۲۵۱.

۲۔شذرارت الذہب ۲:۷۴.

۳۔ تاریخ بغداد ۱: ۱۶۳.

۴۔ سفر نامہ ابن بطوطہ ۱: ۲۰۸.۔

۵۔ دول الاسلام : ۳۴۴.

۱۲۹

اطراف میں موجود عمارتوں کو ویران کیا جائے ۔جب اس کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا تو مسلمان غمگین ہوئے اور اہل بغداد نے مساجد اور شہر کی دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے اور شعراء نے اپنے اشعار میں اس کی مذمت کی ...۔( ۱ )

البتہ طول تاریخ اور تاریخی وقائع میں اس کے بہت زیادہ نمونے واضح طور پر پائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی میں ان کی یہی سیرت رہی ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات تعمیر کرواتے اور یہ سیرت وہابیوں کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ لیکن اس کے باوجود اکرم البوشی جیسا شخص ذہبی کی کتاب سیر اعلام النبلائ) کے حاشیہ پر ان تاریخی حقائق کے ذیل میں لکھتاہے :

یہ سب مسلمان عوام کے خود ساختہ امور ہیں جو اس بارے میں کسی قسم کی آگاہی نہیں رکھتے اور یہ اعمال بدعت ہیں جن سے نہی کی گیٔ ہے۔

خدا وند متعال کا شکر ہے کہ اکرم البوشی نے یہ نہیں کہا : کہ یہ شیعوں کا کام ہے بلکہ کہا : (مسلمان عوام کا کام ہے ۔ ہاں ! گویا خود کو خواص میں سے سمجھتاہے اور باقی مسلمانوں کوعوام !

ابو زبیر کی حدیث سے استناد

وہابیوں نے اپنے مدعاکے اثبات کے لیٔے ابو زبیر کی روایت سے استناد کیا ہے ابوزبیر کہتاہے :

نهی رسول الله ان یجصص القبر وأن یقعد علیه وأن یبنی علیه

رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے قبروں کو چونا کرنے، ان کے پاس بیٹھنے یا ان پر مقبرہ تعمیر کرنے

سے نھی فرمائی ہے ۔

____________________

۱۔مآثر الانافة فی معالم الخلافة ،قلقشندی ۱: ۱۲۰.

۱۳۰

البتہ یہ حدیث چند واسطوں سے نقل ہوئی ہے ۔ مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ ، نسائی ، ابوداؤد اور احمدبن حنبل نے عبارت میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اسے نقل کیا ہے ۔( ۱ )

اس حدیث پر اعتراضات

اس حدیث میں بھی سند اور دلالت کے اعتبار سے اشکال موجود ہے ۔

۱۔اس حدیث کی سند میں ابن جریج ، ابوزبیر ، حفص بن غیاث اور محمد بن ربیعہ جیسے راوی موجود ہیں جن کے بارے میں اہل سنت علمائے رجال نے شک وتردید کا اظہار کای ہے ۔ انہی راویوں میں سے ایک ابن جریج ہے ۔ احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں : اگر ابن جریج کہے کہ فلاں وفلاں نے یوں کہا ہے تو وہ منکر ومجھول احادیث کو نقل کررہاہے ابن حبان نے بھی اسے اہل تدلیس قرار دیا ہے ۔( ۲ )

اس کا دوسرا راوی ابوزبیر ہے جس کے بارے میں نعیم بن حماد کا کہنا ہے : میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ ابوزبیر کو حدیث کے نقل کرنے میں ضعیف قرار دیا کرتے ۔

عبدالرحمان بن ابوحاتم نے اس کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو ابوحاتم نے کہا : ابو زبیر کی احادیث لکھی جائیں گی لیکن ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔( ۳ )

اس حدیث کا ایک اور راوی حفص بن غیاث ہے ۔ یعقوب بن شعبہ حفص کی نقل کردہ روایات کے بارے میں کہتے ہیں : اس کے بعض محفوظات کے بارے میں احتیاط سے کام لیاجائے۔

داؤد بن رشید نے اس کے بارے میں یوں اظہار نظر کیاہے وہ کہتے ہیں : حفص بہت زیادہ

____________________

۱۔صحیح مسلم ۲:۶۶؛سنن ترمذی ۳:۳۶۸؛سنن ابن ماجہ۱:۴۹۸؛سنن نسائی ۴:۸۸؛سنن ابی داؤد۳:۲۱۶؛ مسند احمد ۳:۲۹۵.

۲۔تہذیب الکمال ۱۸:۳۴۸؛ تہذیب التہذیب ۶: ۳۵۷.

۳۔تہذیب الکمال ۲۶:۴۰۷.

۱۳۱

اشتباہ کیا کرتا۔( ۱ )

وہابی کسطرح ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں جن کی سند میں اس قدر فراوان اشکالات پائے جاتے ہیں ۔

۲۔ دلالت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں مشکل پائی جاتی ہے ۔

اولا: یہ حدیث یہ کہہ رہی ہے : (رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے قبروں کوچونا کرنے ، ان کے پاس بیٹھنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے نہی فرمائی ہے جب کہ نہی ہمیشہ حرمت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات کراہت پر دلالت بھی کرتی ہے جس کے نمونے بکثرت موجود ہیں اور یہی کثرت باعث بنتی ہے کہ اس حدیث میں نہی کا ظہور کراہت پر دلالت کرے ۔

اسی بناء پر اہل سنت علماء نے اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں فتوی دیا ہے۔ شافعی اس حدیث کے مطابق کہتے ہیں : مستحب یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو۔

نووی کہتے ہیں : صاحب قبر کی اپنی ملکیت میں قبر پر عمارت بنانامکروہ اور و قف شدہ زمین میں حرام ہے.( ۲ )

سندی نے نیشاپوری سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھاہے : یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ شرق وغرب تک اسلام کے پیشوا قبروں پر عبارات لکھا کرتے اور یہ و ہی چیز ہے جسے آنے والی نسلوں نے سلف سے لیا ہے( ۳ )

ثانیا : ایسی احادیث تعمیر قبور اور ان پر عمارت کے حکم کو بیان نہیں کررہی ہیں اسلئے کہ یہ کام شعائر اللہ اور

____________________

۱۔تاریخ بغداد ۸:۱۹۹.

۲۔شرح صحیح مسلم ۷: ۲۷.

۳۔حاشیہ نسائی ۴:۸۷.

۱۳۲

خدا کی نشانیوں میں سے ہے جن کی تعظیم ضروری ہے اور ان کا شعائر الہی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ان قبروں میں مدفون یا تو انبیائے الہی ہیں یا اولیائے خدا ، یا یہ کہ ان قبور کی تعمیر اور ان پر عمارات کا بنانا مصلحت یا دین میں ان کی اہمیت کی بناء پر ہے ۔ مندرجہ ذیل شواہد ہمارے مدعی کوثابت کررہے ہیں :

۱۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر رکھ کر اسے مشخص کیا ۔( ۱ ) ہیثمی ابن ماجہ کے کلام کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن اور معتبر ہے ۔

۲۔اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: دختر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ ، حضرت حمزہ کی قبر پر تشریف لاتیں تو اس پر نشانی رکھ کر جاتیں تاکہ اسے پہچان سکیں ۔

اسی طرح کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر او رعمر کی قبور پر چھوٹے چھوٹے پتھر موجود تھے۔( ۲ )

مقبروں کے آثار

واضح ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات بنانے میں فوائد و آثارپائے جاتے ہیں مثال کے طور پر :

۱۔ یہ کام شعائر الہی میں سے او ردشمنوںومنکروں کی ناک کو خاک پر ملنا ہے ۔

۲۔ان مقامات میں عبادات کا انجام دینا ان کی شرافت وعظمت کی وجہ سے رجحان رکھتاہے ۔ لہذا زائرین کو گرمی وسردی سے بچانے ، زیارت میں آسانی ، نماز ، تلاوت قرآن اور مجالس وعظ میں شرکت کرنے والوں کیلئے سائبان قرار دینا ایک نیک عمل ہے ۔

۳۔دین کے نمونوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھنا ۔

شاید مقبروں کا مہم ترین اثر یہی ہے کہ اس طرح دین کے بنیادی نمونوں کی حفاظت کی جاسکے اور اگرایسی

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ۱:۴۹۸.

۲۔المصنف ۳: ۵۷۴.

۱۳۳

تعظیم نہ ہو تویہ نمونے فراموشی کی نذر ہوجائیں گے ۔

درحقیقت وہابیوں کا اصلی ہدف مقبروں کی تعمیر کی مخالفت کرکے ایک دینی دستور پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے بلکہ وہ دین کے ان نمونوں کی نابودی چاہتے ہیں جبکہ انسان تربیت میں نمونے کا محتاج ونیازمند ہے ۔

۱۳۴

۹۔قبور پر چراغ روشن کرنا

قبور پر چراغ روشن کرنا

وہابی عوام کو قبروں پر چراغ روشن کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

لعن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زائرات القبور والمتخذین علیهاالمساجد والسرج

رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں ، قبور کو مساجد قرار دینے والوں اوران پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے ۔( ۱ )

اس نظریہ کارد

وہابیوں کے اس نظریہ کی چند جھات سے تحقیق اور اسے رد کیا جاسکتاہے :

۱۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔

حاکم نیشاپوری نے (المستدرک علی الصحیحین ) میں اس روایت کو دو واسطوں کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیاہے جبکہ اس روایت کے دونوں سلسلوں میں ایک راوی ابوصالح باذام ہے جسے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیاہے ۔

ابوحاتم اس کے بارے میں کہتے ہیں : باذام کی روایت کو نقل تو کیاجائے گالیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

نسائی باذام کے بارے میں کہتے ہیں: ابو صالح باذام حدیث کے نقل کرنے میں قابل اعتماد نہیں ہے۲۔

____________________

۱۔ سنن نسائی ۴: ۹۴ ، المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۳۰، ح ۱۳۸۴.

۲۔الکامل فی الضعفاء ۲: ۷۱.

۱۳۵

۲۔ اس حدیث میں بیان شدہ لعنت ان افراد کو شامل ہے جو عام افراد کی قبور پر ایسے اعمال انجام دیتے ہیں نہ کہ انبیاء واولیائے الہی کی قبور پر جن کے احترام کا حکم دیاگیاہے ۔ لہذا اس بناء پر انبیاء واولیاء کی قبور کی زیارت اوران پر چراغ روشن کرنا نہ تنہا مذموم نہیں ہے بلکہ ایساعمل ان کی تعظیم اور رجحان شرعی بھی رکھتاہے

۳۔ لعنت کا تعلق اس صورت سے ہے کہ جب چراغ روشن کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو اورایک لغو کام شمار ہو لیکن اگر قرآن ودعااورنماز پڑھنے کیلئے یا وہاں پہ شب بیداری کرنے والوں کیلئے روشن کیاجائے تاکہ وہ اس کی روشنی سے بہرہ مند ہوسکیں توایسا عمل حرام تو دور کی بات مکروہ بھی نہیں ہوگااور نیکی وتقوی میں تعاون کا مصداق قرار پائے گا۔ جیسا کہ بعض علمائے اہل سنت نے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

عزیزی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی شرح میں کہتے ہیں؛ کہ لعنتِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تنہا ان افراد کو شامل ہوگی جو قبور پرچراغ روشن کریں جبکہ زندہ افراد اس کی روشنی سے فائدہ حاصل نہ کریں ۔ اور اگر لوگ اس سے بہرہ مند ہوں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۱ )

سندی نے سنن نسائی کے حاشیہ پر لکھا ہے : لعنت اس وقت ہوگی جب مال بغیر استفادہ کے ضائع ہوجائے ،اس معنی میں کہ اگر لوگ اس چراغ کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۲ )

شیخ حنفی (جامع صغیر ) کے حاشیہ پر لکھتے ہیں : ولی خدا کی قبر پر چراغ روشن کرنا حرام ہے جب کوئی شخص اس سے استفادہ نہ کرے( ۳ )

____________________

۱۔شرح الجامع الصغیر ۳: ۱۹۸.

۲۔حاشیہ سننن نسائی ۴: ۹۵.

۳۔کشف الارتیاب ؛ ۳۳۸.

۱۳۶

قبروں پر چراغ روشن کرنے کے جواز کی دلیل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل ہے ، ترمذی لکھتے ہیں :

ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رات کے وقت قبرستان میں داخل ہوئے اور ایک قبر پر چراغ روشن کیا ۔( ۱ )

۴۔ سیر ت مسلمین :

وہابیوں کے نظریہ کے باطل ہونے پر چوتھی دلیل سیرت مسلمین ہے جس پر وہ ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی عمل پیرا رہے اور یہ سیرت وہابیوں کے نظریہ کے مخالف ہے ۔ علماء نے اس بارے میں بہت سے شواہد بیان کئے ہیں ۔

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : ولید کہتاہے : ابوایوب انصاری کی قبر پر شمعدان موجود تھے( ۲ )

ابن جوزی کہتے ہیں : ۶۸۳ ھ کے حوادث میں سے ایک یہ ہے کہ بصرہ کے لوگوں نے یہ دعوی کیاکہ انہوں نے زبیر بن عوام کی قبر تلاش کرلی ہے لہذا اس قبر کیلئے شمعدان اور چٹائیاں لے گئے ۔( ۳ )

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : امام موسی کاظم کی قبر ایک مشہور زیارتگاہ ہے ۔جس پر عظیم بارگاہ بنی ہوئی ہے اور یہاں پہ سونے اور چاندی کے شمعدان ، مختلف وسائل اور بے شمار فرش موجود ہیں ۔( ۴ )

____________________

۱۔جامع الصحیح ۳:۳۷۲

۲۔تاریخ بغداد ۱:۱۵۴.

۳۔المنتظم ۱۴:۳۸۷.

۴۔وفیات الاعیان ۵: ۳۱۰.

۱۳۷

۱۰۔ نذر

غیر خدا کیلئے نذر

اسلام کے فرعی احکام میں سے ایک نذر ہے ۔ انسان نذر کرتے وقت یہ ارادہ کرتاہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہوگئی تو خداکیلئے فلاں کام انجام دوں گا۔ یہ حکم مسلمانوں کے درمیان رائج رہا اور اب بھی ہے ۔

جبکہ وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ غیر خدا کیلئے نذر کرنا حرام ہے چونکہ یہ نذر مشرکوں کی بتوں کیلئے نذر کرنے کے مانندہے اور معمولا غیر خدا کیلئے نذرکی وجہ سے یہ ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں غلو او رخاص قسم کا اعتقاد پایا جاتاہے ۔

قصیمی کہتاہے : غیر خدا کیلئے نذر کرنا شیعوں کے شعائر میں سے ہے چونکہ وہ علی اور ان کی اولاد کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے اس بارے میں یوں اظہار خیال کیاہے :

ہمارے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر اورا س کے مجاوروں کیلئے درہم ، روغن ، شمع اور حیوان کی نذر کرنا جائز نہیں ہے چونکہ ایسی نذریں گناہ ہیں او ر صحیح روایت میں بیان ہوا ہے :جوبھی خدا کی اطاعت کی نذر کرے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے اور جو بھی خدا کی معصیت کی نذر کرے تو اسے چاہیے کہ معصیت نہ کرے( ۲ )

وہ کہتاہے :

شرک میں مبتلا ہونے کے خوف سے مردہ شخص سے درخواست کرنے سے منع کیا گیاہے اگرچہ وہ نبی ہی

____________________

۱۔الصراع بین الاسلام والوثنیہ ۱: ۵۴.

۲۔رسالة زیارة القبور ۲۷ ؛ کشف الارتیاب : ۲۸۳.

۱۳۸

کیوں نہ ہو،پس قبور یا انکی عمارات کیلئے نذر کرنا حرام اورباطل ہے ۔ اس اس طرح کی نذر مشرکوں کی اس نذر کے مانند ہے جو وہ اپنے بتوں کیلئے کیا کرتے اور جوبھی یہ عقیدہ رکھے کہ قبور کیلئے نذر نفع یا ثواب رکھتی ہے تو وہ ناداں گمراہ ہے ۔( ۱ )

اس نظریے کا ردّ

ہم ان کے اس عقیدہ کاجواب چند جہات سے دے سکتے ہیں :

اول : یہ کہ نذر کرنے والے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس صدقہ اور ہدیہ کا ثواب نبی خدا یا ولی خدا کو ایصال اور یوں خداوند متعال سے تقرب پیدا کرسکے ۔ پس کیسے ممکن ہے کہ اس کا مقصد نبی یا ولی ہو جبکہ وہ تو مردہ ہیں نہ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی پہن سکتے ہیں ؟

دوم: یہ نذر بالکل اس شخص کے عمل کی طرح ہے جو اپنے والدین کیلئے نذر کرے یا قسم کھائے یا اپنے آپ سے عہد کرے کہ وہ ان کیلئے صدقہ دے گا۔

روایت میں بیان ہوا ہے کہ میمونہ کہتی ہیں :پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں میرے باپ نے یہ منت مانی تھی کہ ایک خاص جگہ پر پچاس گوسفند ذبح کریں گے ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا وہاں پر بتوں کیلئے قربانی کی جاتی ہے ؟

عرض کیا : نہیں ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اوف بنذرک ۔ اپنی نذر پر عمل کرو۔( ۲ )

شاید پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلئے سوال کیا ہوکہ وہاں پر بتوں کی پرستش کی جاتی ہو یا مشرک لوگ وہاںپر اپنی رسومات بجالاتے ہوں چونکہ مسلمان زمانہ جاہلیت سے نزدیک تھے اور اس چیز کا ا حتمال موجود تھا۔

____________________

۱۔الملل والنحل : ۲۹۱.

۲۔معجم البلدان ۱:۵۰۵.

۱۳۹

ہم اس تائید میں کہتے ہیں کہ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں : ایک شخص نے نذر کی کہ (بوانہ ) نامی منطقہ میں ایک اونٹ ذبح کرے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سے آگاہ کیا ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: کیا وہاں پر زمانہ جاہلیت میں کوئی بت موجود تھا جس کی پرستش کیا کرتے ؟

عرض کی : نہیں ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اوف نذرک ، فانه لا وفاء لنذر فی معصیة الله ولا فیما لا یملک ابن آدم

تم اپنی نذر پر عمل کرو اس لئے کہ فقط دومقام پر نذر درست نہیں ہے ۔

۱۔ گناہ ونافرمانی میں ۲۔ جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے ۔( ۱ )

دوسری جانب ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسان نذر کرتے وقت یہ کہتاہے :

اگر میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو خدا کیلئے نذر کرتاہوں کہ فلاں کام انجام دوں گا۔پس جب وہ یہ کہے گا : کہ فلاں کیلئے نذر کرتاہوں تویہ ایک مجازی تعبیر ہے اور اختصار کی بناء پر یوں کہا جاتاہے ورنہ درحقیقت اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ خدا کے لئے انجام دوں گا تاکہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے ۔

سوم: کیا کسی مسلمان کے عمل کا کسی کافر کے عمل سے مشابہ ہونا باعث بنتاہے کہ اس مسلمان کو کافر قرار دینا جائز ہو؟ ابن تیمیہ نے اسی دلیل کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے لہذا ہم یہ کہیں گے کہ اگر صرف شباہت کفر کے جواز کا باعث بنتی ہے تو پھر حج کے اعمال بھی اسی طرح ہیں چونکہ مشرک اپنے بتوں کے اردگرد طواف کرتے تھے اور ان کی پرستش بھی کرتے ۔ علاوہ ازیں قربانی کے دن اپنے بتوں کے لئے قربانی بھی کیا کرتے اور ہم بھی قربانی کرتے ہیں کیا یہ درست ہے کہ ان دو مشابہ اعمال کو ایک جیسا

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۳: ۲۳۸، ح ۳۳۱۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248