دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 57136
ڈاؤنلوڈ: 2456


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57136 / ڈاؤنلوڈ: 2456
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

رسول خدا (ص) سے مروی حدیث ميں آیا ہے :سلوا الله واجزلوا؛فانّه لایتعاظمه شيءٌ (۱) “خداوند عالم سے مانگو اور زیادہ مانگو چو نکہ اس کے سامنے کو ئی چيز بڑی نہيں ہے ”

روایت کی گئی ہے :

لاتستکثروا شيئاًمماتطلبون؛فماعندالله اکثر

“اپنی دعا ؤں ميں کسی چيز کو زیادہ مت سمجهو چونکہ خداوند عالم کے نزدیک جو کچه بهی ہے زیادہ ہے ”

اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایا ت ميں دعا ميں ہر خير کی طلب اور ہر برائی سے دور رہنے کےلئے خدا وند عالم سے سوال کرنا عام طور پر بيان ہو ا ہے ۔ ہم ذیل ميں بعض نمونے بيان کر رہے ہيں :

رجب المرجب کے مہينہ ميں نماز کے بعد یہ دعا پڑهنا وارد ہوا ہے :یَامَن یُعطِْي الکَْثِيرَْبِالقَْلِيلِْ یَامَن یُعطِْي مَن سَالَهُ یَامَن یُعطِْي مَن لَم یَسالهُْ وَمَن لَم یَعرِْفهُْ تَحَنُّنَامِنهُْ وَرَحمَْةً اَعطِْنِي بِمَسٴْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعََ خَيرِْالدُّنيَْاوَجَمِيعَْ خَيرِْ الآخِرَةِ وَاصرِْف عَنِّي بِمَسئَْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعَْ شَرِّالدُّنيَْاوَشَرِّالآخِرَةِفَاِنَّهُ غَيرُْ مَنقُْوصٍْ مَااَعطَْيتَْ وزدني مِن فَضلِْکَ یَاکَرِیمُْ

“اے وہ خدا جو کم کے مقابلہ ميں زیادہ عطا کرتا ہے،اے وہ خدا جو سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے دونوں کو عطا کرتا ہے اور جو اس کو نہ پہچانے ،ميرے سوال کرنے کی بنا پر مجه کو بهی اپنی رحمت ولطف سے عطا کر، دنيا کی کل نيکی اور آخرت کی تمام نيکياں، ميرے سوال کے مطابق مجه کوعطاکردے اوردنيا وآخرت کی تما م برائياں مجه سے دور فر مادے کيونکہ تيری عطا

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٢ ۔ )

۴۱

ميں نقص نہيں ہے اور ميرے لئے اپنے فضل کو زیادہ کر اے کریم! ”

اللهم انّي اسالک مفاتح الخير وخواتمه وسوابغه وفوائده وبرکاته ومابلغ علمه علمي وماقصرعن احصائه حفظي

یَامَن هُوَفِي عُلُوِّهِ قَرِیبٌْ،یَامَن هُوَفِي قُربِْهِ لَطِيفٌْ صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمّد اللهم اِنِّي اَسئَْلُکَ لِدِینِْي وَدُنيَْاي وَآخِرَتِي مِنَ الخَْيرِْکُلِّهِ وَاَعُوذُْ بِکَ مِنَ الشّرِّکُلِّهِ

“خدایا ميں تجه سے خير کی کنجياں ،عاقبت بخير ،نعمتيں ،فوائد برکات نيز جس کا علم مجھے نہيں ہوسکا ہے اور جس چيز کا احاطہ کرنے سے ميری یادداشت قاصر ہے سب کا سوال کرتاہوں”

اے وہ خدا جو اپنی بر تری ميں قریب ہے اے وہ خد ا جو اپنے قرب ميں لطيف ہے درود ورحمت ہو محمد وآل محمد پر، اے خدا ميں تجه سے اپنے دین ،دنيا اور آخرت ميں خير کی دعا کرتا ہوں اور تمام برا ئيوں سے پناہ چا ہتا ہوں ”وَاَدخِْلنِْی فِی کُلِّ خَيرٍْ اَدخَْلتَْ مُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّدٍوَاَخرِْجنِْي مِن کُلِّ اَخرَْجتَْ مِنهُْ مَُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّد

“اے ميرے مو لا مجه کو ہر اس نيکی ميں داخل کردے جس ميں تونے محمد وآل محمد کو داخل کيا ہے اور مجه کو ہر اس برائی سے نکال دے جس سے تو نے محمد وآل محمد کو نکال دیا ہے ”

وَاکفِْنِي مَااَهَمَّنِي مِن اَمرِْدُنيَْايَ وَآخِرَتِي

“اور مجه کودنيا وآخرت کے ان امور سے محفوظ رکه جو ميرے لئے دشواری کا سبب ہيں ”

اللهم لَاتَدَع لِي ذَنبْاًاِلَّاغَفَرتَْهُ وَلَاهَمّاًاِلَّافَرَّجتَْهُ وَلَاسُقمْاًاِلَّاشَفَيتَْهُ وَلَا عَيبْاًاِلَّاسَتَرتَْهُ وَلَارِزقْاًاِلَّابَسَطتَْهُ وَلَاخَوفْاًاِلَّاآمَنتَْهُ وَلَاسُوءْ اًاِلَّاصَرَفتَْهُ وَلَاحَاجَةً هِيَ لَکَ رِضاًوَلِیَ فِيهَْاصَلَاحٌ اِلَّاقَضَيتَْهَایَااَرحَْمَ الرَّاحِمِينَْ

“خدایا ! ميرے لئے کو ئی گناہ نہ چهوڑ مگر تو اس کو بخش دے اور نہ کسی غم کو مگر اس کوخو شی سے بدل دے اور نہ کسی مرض کو مگر یہ کہ تو شفا دیدے اور نہ کسی عيب کو مگر اس کو چهپا دے نہ کسی رزق کو مگر اسے زیادہ کر دے اور نہ کسی خوف کو مگر اس سے امان دیدے اور نہ کسی برائی کو مگر اسے دور کردے اور نہ کسی حاجت کوجس ميں تيری رضا اور جس ميں ميرے لئے صلاح ہو مگر تو اس کو پورا کردے اے سب سے بڑے رحم کرنے والے ”

۴۲

یَامَن بِيَدِهِ مَقَادِیرَْالدُّنيَْاوَالآْخِرَة وَبِيَدِه مَقَادِیرْالنَّصرِْوَالخُْذلَْان، وَبِيَدِه مَقَادِیرْالغِن یٰ وَالفَْقرْوَبِيَدِه مَقَادِیرْالخَيرْوَالشّرّ،صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمد، وَبَارِک لِي فِي دِینِْي الَّذِي هُوَمِلَاکُ اَمرِْي وَدُنيَْايَ اَلَّتِي فِيهَْامَعِيشَْتِي،ْوَآخِرَتِي اَلَّتِي اِلَيهَْامُنقَْلِبِي وَبَارِک لِي فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي ْ اَعُوذُْبِکَ مِن شَرِّالمَْحيَْا وَالمَْمَاتِ، وَاَعُوذُْبِکَ مِن مَکَارِهِ الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ

“اے وہ ذات جس کے اختيار ميں دنيا و آخرت کے اندازے ہيں کا ميابی اور شکست کے اندازے ہيں مالداری اور غربت کا اختيار ہے محمد وآل محمد پر درود بهيج اور مجھے ميری اس دنيا ميں برکت دے جو ميرے امر کا معيار ہے اور اسی دنيا ميں برکت دے جس ميں ميری روزی ہے اور اس آخرت ميں برکت دے جہاں مجھے جانا ہے ميرے تمام امور ميں برکت دے ۔۔۔ميں زندگی اور موت کے شر سے تيری پناہ مانگتا ہوں اور دنيا وآخرت کی نا گواریوں سے تيری پناہ مانگتا ہوں ”

اسالُک بنور وجهک الذي اشرقت به السماوات وانکشفت به الظلمات وصلح عليه امرالاولين والاخرین ان تصلي علی محمّدوآل محمّد وان تصلح لي شاني کلّه ولاتکلني الي نفسی طرفة عين ابداً

“ميں تجه سے تيری ذات کے اس نور کے صدقہ ميں سوال کرتا ہوں جس کے ذریعہ آسمان چمکے تا ریکيا ںچهٹ گئيں اور اس پر آنے والوں اور گذر جانے والوں کا معاملہ درست ہوا تو محمد وآل محمد پر درود بهيج اور یہ کہ تو ميرے لئے ميرے پورے معاملہ کو درست کر دے اور مجه کو ایک لمحہ کيلئے بهی ميرے نفس کے حوالہ نہ کر ”

سحری سے متعلق دعا ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :

اکفِْنِي المُْهِمَّ کُلَّهُ،وَاقضِْ لِی بِالحُْسنْ یٰ،وَبَارِک فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي وَاقضِْ لِي جَمِيعَْ حَوَائِجِی اللهم یَسِّرلِْي مَااَخَافُ تَعسِْيرَْهُ فانّ تيسيرمااخاف تعسيره عليک یسيروسهّل لي مااخاف حزونته ونفّس عني مااخاف ضيقه وکفَّ عني مااخاف غمّه واصرف عنی مااخاف بليّته

“اور ہما رے تمام اہم امور کے لئے کافی ہو جا اور انجام بخير کر اور مجه کو بر کت دے تمام امور ميں اور ميری تمام حا جتوں کو پورا کر خدا یا !ميرے لئے آسان کر جس کی سختی سے ميں ڈرتا ہوں اس کا آسان کرنا تيرے لئے بہت سہل ہے اور سہل بنا دے اس کو جس کی دشواری سے ميں خو ف زدہ ہوں اور جس کی تنگی سے ميں خوفزدہ ہوں ا س ميں کشا دگی عطا کر اور جس کے غم سے خوف زدہ ہوں اس کو روک دے اور جس کی مصيبت سے ميں خوف زدہ ہوں اس کو مجه سے دور کر دے ”

۴۳

اور دعاء الا سحارميں آیا ہے:

وَهب لي رحمة واسعةجامعةاطلب بهاخيرالدنياوالآخرة “اور مجه کو وسيع اور کامل رحمت عطا کر جس سے ميں دنيا و آخرت کی نيکياں حاصل کرسکوں ”

ب۔بڑی حا جتيں چھوٹی حاجتوں پر پردہ نہ ڈال دیں

کبهی کبهی ہم ميں سے بعض افراد اپنی چھوٹی چھوٹی حاجتوں کو خداوندعالم سے مانگنے کو عيب سمجهتے ہيں ليکن انسان کو پروردگار عالم سے مختلف چيزوں کے متعلق سوال کر نا چاہئے چاہے حاجت کتنی ہی چھوٹی کيوں نہ ہو خدا سے سوال کر نے ميں کوئی عيب نہيں سمجهنا چاہئے ۔

بندہ پروردگار عالم سے اپنی تمام حاجتوں اورکمزوریوں کوچهپاتاہے ليکن ہماری تمام حاجتيں، ہمارانقص یہاں تک کہ جن حاجتوں کو ہم خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے پيش کرنے سے بهی شرمند ہ ہوتے ہيں وہ ان سب سے آگا ہ ہے ۔ خداوندعالم سے بڑی بڑی حاجتوں اور سوالات کر نے سے چھوٹی چھوٹی حاجتوں پرپردہ ڈالنا سزاوار نہيں ہے ۔

خداوندعالم اپنے بندے سے اس کی چھوٹی بڑی تمام حاجتوں ميں اس سے رابطہ برقرار رکهنے کو پسندکرتاہے یہاں تک کہ وہ اس سے ہميشہ رابطہ رکهنا چا ہتا ہے اور یہ جاودانہ رابطہ اس وقت تک بر قرار نہيں رہ سکتا جب تک بند ہ خداوندعالم سے اپنی چھوٹی بڑی تمام حاجتوں کا سوال نہ کرے ۔

رسول الله (ص) سے مروی ہے :

سلوا اللّٰه عزّوجلّ مابدا لکم من حوائجکم حتّی شسع النعل،فانّه انْ لم یيسره لم یتيسر

“تم اپنی تمام حا جتيں یہاں تک کہ جو تے کے تسمہ کوبهی خدا سے مانگو چونکہ اگر اس کوخدانہيں دیگا تو نہيں ملے گا ”

یہ بهی رسول اسلام (ص)سے مروی ہے :

ليسال احدکم ربّه حاجاته کلّها،حتّیٰ یساله شسع نعله اذا انقطع (١) “تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے اپنی تمام حاجتيں طلب کرنا چا ہئيں یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ ڻوٹ جا ئے تو اس کو بهی خدا سے مانگنا چا ہئے ”

____________________

١)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١٢ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩۵ ۔ )

۴۴

اور یہ بهی رسول اسلام (ص) سے مروی ہے :

لاتعجزوا عن الدعاء فانّه لم یهلک احدٌ مع الدعاء،وليسا ل احدُکم ربّه حتّیٰ یساله شسع نعله اذا انقطع ،واسالوا اللّٰه مِنْ فضله ؛فانّه یحبّ انْ یسال ( ١)

“تم دعا کرنے سے عا جز نہ ہو نا ؛چو نکہ دعا کے ساته کو ئی ہلا ک نہيں ہوا ،تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے سوال کرنا چا ہئے یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ بهی ڻوٹ جا ئے تو بهی اسی سے مانگنا چا ہئے اور تم الله سے اس کے فضل کا سوال کرو چونکہ خدا وند عالم اس چيز کو دو ست رکهتا ہے کہ اس سے سوال کيا جا ئے ”

سيف تمار سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرماتے سُنا ہے :

عليکم بالدعاء؛فانّکم لاتتقربون بمثله،ولاتترکواصغيرة لصغرها انْ تسالوها،فانّ صاحب الصغائرهوصاحب الکبائر ( ٢)

“تم پر دعا کرنا ضروری ہے چونکہ تم دعا کے مانند کسی اور چيز سے خدا وند عالم کے قریب نہيں ہو سکتے اور چھوٹی چيزوں کے بارے ميں اس کے چهوڻے ہو نے کی وجہ سے اس کے متعلق سوال کرنا نہ چهوڑ دو اس لئے کہ جو چھوٹی چيزوں کا مالک ہے وہی بڑی چيزوں کا مالک ہے ”

حدیث قدسی ميں آیاہے :

یاموسیٰ سلني کلّ ماتحتاج اليه،حتّیٰ علف شاتک وملح عجينک ( ٣)

“اے موسیٰ مجه سے ہر چيز کا سوال کر و یہاں تک کہ اپنی بکریوں کے چارے اور اپنے آڻے کے نمک کيلئے بهی مجه سے سوال کرو ”

____________________

١)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔ )

۴،حدیث / ٢)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ،المجالس صفحہ ١٩ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١٠٩٠ ) ٨۶٣۵ اصول کا فی / ۵ ١ ۶ /

٣)عدة الداعی صفحہ ٩٨ ۔ )

۴۵

دعا کے سلسلہ ميں ان چيزوں پر زور دینے سے ہماری مراد یہ نہيں ہے کہ انسان دعا کر نے کی وجہ سے عمل ميں سستی کر ے بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ جو عمل انجام دے رہا ہے اس تکيہ نہ کرے اور اس عمل کے سلسلہ ميں اس کی اميد و آرزو خداوند عالم کی ذات سے ہو ۔

دوسرے یہ کہ انسان اپنے تمام لوا زمات دعا انجام دیتے وقت اپنی حا جتوں اور خدا کے درميان رابطہ بر قرار رکهے ۔

مذکورہ دونوں چيزوں کایہ تقاضا ہے کہ انسان الله سے اپنی تمام حا جتےں طلب کر ے یہاں تک کہ جو تے کا تسمہ ،اپنے حيوان کےلئے چارہ اور آڻے کےلئے نمک کا بهی اسی سے سوال کرے، جيساکہ حدیث قدسی ميں آیا ہے ۔

ج: خدا وندعالم کی بارگاہ ميں بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے

جہاں ہم پرورد کار عا لم سے ہر چيز ما نگتے ہيں وہيں پر ہميں اس سے بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے

جس طرح ہميں پروردگا ر عالم سے چھوٹی چھوٹی چيزیں مانگنے ميں ندامت نہيں ہونی چاہئے جيسے حيوان کے لئے چارہ ،جوتے کا تسمہ اور آڻے کے لئے نمک اسی طرح ہميں اس سے بڑی بڑی نعمتوں کا سوال کرنا چا ہئے چاہے وہ کتنی ہی بڑی و عظيم کيوں نہ ہو ۔

۴۶

ربيعہ بن کعب سے مروی ہے :

قال لي ذات یوم رسول اللّٰه (ص):یاربيعة خدمتني سبع سنين،افلا تسالنی حاجة ؟فقلت یارسول اللّٰه امهلني حتّیٰ افکر فلمّااصبحت ودخلت عليه قال لي: یاربيعة هات حاجتک ،فقلت:تسا ل اللّٰه ان یدخلني معک الجنة،فقال لی:مَنْ علّمک هذا ؟فقلت :یارسول اللّٰه ماعلّمني احد لکن فکرّت في نفسي وقلت:انْ سالتهُ مالاً کان الیٰ نفاد،وان سالته عمرا طویلاواولاداً کان عاقبتهم الموت قال ربيعة :فنکس راسه (ص)ساعة ثم قال:افعل ذلک،فاعنّي بکثرة السجود قال وسمعته یقول:ستکون بعدي فتنة،فاذاکان ذلک فالتزمواعلي بن ابي طالب ( ١)

“مجه سے ایک روز رسول خدا (ص)نے فرمایا اے ربيعہ تم سات سال سے مير ی خدمت کررہے ہو کيا مجه سے کسی چيز کا سوال نہيں کروگے۔ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)مجھے غور وفکر کرنے کی مہلت د یئجے ۔جب ميں اگلے روز صبح کے وقت آنحضرت (ص) کی خدمت بابرکت ميں پہنچا تو آپ نے فرمایا :ا ے ربيعہ مجه سے اپنی حاجت بيان کرو ۔ ميں نے عرض کيا :خداسے دعا فرماد یجئے کہ وہ مجهکو آپ کے ساته جنت ميں داخل کرے ۔

آپ نے مجه سے فرمایا :تم کو یہ کس نے سکها یا ہے ؟ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)یہ مجھے کسی نے نہيں سکها یا ميں نے بذات خود غوروفکر کيا کہ اگر ميں آپ سے مال کا سوال کرو ں تو وہ ختم ہو جا یگا ،اگر ميں آپ سے اپنی طولانی عمر اور اولاد کا سوال کروں تو یقينا ایک دن موت ضرور آئيگی ۔

ربيعہ کا کہنا ہے کہ آپ نے کچه دیر تو قف کر نے کے بعد فرمایا: خدا ایسا ہی کرے ،لہٰذاتم بہت زیادہ (سجدے )عبادت کيا کرو ۔

ربيعہ کہتے ہيں ميں نے آپ کو یہ فرما تے سُنا ہے :عنقریب ميرے بعد فتنہ بپا ہوگا اور جب ایسا ہو جا ئے تو تم پر علی بن ابی طالب عليہ السلام کی اطاعت کرنا واجب ہے ”

____________________

١)بحاالانوار جلد ٩٣ ۔صفحہ ٣٢٧ ۔ )

۴۷

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

کان النبی (ص)اذا سّئل شيئا فاذا اراد ان یفعله قال:نعم واذا اراد ان لا یفعل سکت،وکان لا یقول لشيٴلا فاتاه اعرابي فساله فسکت ،ثم ساله فسکت، ثم ساله فسکت فقال (ص) کهيئة المسترسل:ماشئت یااعرابي؟فقلنا:الآن یسال الجنّة،فقال الاعرابی:اسالک ناقة ورحلها وزاداً قال:لک ذلک،ثم قال (ص):کم بين مسالة الاعرابي وعجوز بنی اسرائيل؟ثم قال:انّ موسیٰ لمّا اُمران یقطع البحرفانتهیٰ اليه وضربت وجوه الدواب رجعت،فقال موسیٰ:یاربّ مالي؟ قال:یاموسیٰ انّک عند قبریوسف فاحمل عظامه،وقد استویٰ القبر بالارض،فسال مو سیٰ قومه:هل یدري احد منکم این هو؟قالوا:عجوزلعلّها تعلم،فقال لها:هل تعلمين؟قالت:نعم،قال:فدليناعليه ،قالت:لاواللّٰه حتّی تُعطيني مااسئلک،قال:ذلک لک،قالت:فإنی اسالک ان اکون معک فی الدرجة الّتي تکون فی الجنّة،قال:سلي الجنّة قالت:لاواللّٰه الّا ان اکون معک،فجعل موسیٰ یراود فاوحیٰ اللّٰه اليه:ان اعطها ذلک:فإنّها لاتنقصک،فاعطَاهاودلّته علی القبر( ١)

“جب پيغمبر اکرم (ص)سے کسی چيز کے متعلق سوال کيا جاتاتها تواگر آپ کا اراد ہ اس فعل کے انجام کے متعلق ہو تا تھا تو آپ فرما تے تھے :ہاں اور اگر آپ کا ارادہ اس کے انجام نہ دینے کا ہوتا تھا تو آپ ساکت رہتے تھے ۔

اور آپ کسی بهی چيز کے سلسلہ ميں“ نہيں” نہيں فرماتے تھے ،ایک اعرابی نے آپ کی

____________________

۔ ١)بحا الا نوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢٧ ۔ )

۴۸

خدمت ميں حاضر ہوکرسوال کيا تو آپ خاموش رہے ،اس نے پھر سوال کيا تو آپ پھر خاموش رہے، پھر اس نے سوال کيا ،آپ پھر خاموش رہے،توآپ نے فرمایا : اے اعرابی تو کيا چاہتا ہے ؟ہم لوگوں نے کہا کہ اب یہ جنت کے سلسلہ ميں سوال کرے گا ۔

اعرابی نے کہا :ميں آپ سے ناقہ، سواری اور زادراہ چاہتا ہوں ۔

آپ نے فرمایا :ہاں تجه کو عطا کيا جائيگا ،پهر آپ نے فرمایا :اس اعرابی اور اس بنی اسرائيل کی بڑهيا کے درميان کتنا فرق ہے ؟ پهرفرمایا:جب موسیٰ کو دریا پار کرنے کا حکم ملا اور آپ دریا کے کنارے پہونچ گئے تو مو سیٰ نے جانوروں کو آگے بڑهانا چاہا ليکن جانور واپس آگئے ۔

جناب مو سیٰ عليہ السلام نے عرض کيا پالنے والے ميرے لئے کيا فرمان ہے؟ فرمایا :اے مو سیٰ تم حضرت یوسف عليہ السلام کی قبر کے پاس ہواو ر ان کی ہڈیوں کو اڻها لو جبکہ قبر زمين کے برابر ہو چکی تهی ۔ جناب موسیٰ نے اپنی قوم سے سوال کيا :کياتم ميں سے کوئی جانتا ہے ؟ قوم نے کہا:ایک بڑهيا ہے شاید وہ جانتی ہے ؟

بڑهيا سے سوال کيا :کيا تم جانتی ہو؟

اس نے جواب دیا :ہاں آپ نے فرمایا :تو ہميں بتاؤ کہاں ہے ؟ بڑهيا نے کہا :خدا کی قسم ميں اس وقت تک قبر کا پتہ نہيں بتاؤنگی جب تک آپ ميرے سوال کا جواب نہيں دیں گے۔

آپ نے فرمایا :جو تم مانگو گی وہی دیا جائيگا ، اس نے کہا :ميں جنت ميں آپ کے ساته اسی درجہ ميں رہوں جس ميں آپ رہيں گے ۔

آپ نے فرمایا:ہاں تم جنت ميں رہوگی اس نے کہا:نہيں خدا کی قسم ميں جب تک آپ کے ساته نہيں رہوں گی حضرت مو سیٰ عليہ السلام نے فر مایا :تم جنت کا سوال کرو۔تو بڑهيا نے کہا :ميں اس سے کم پر راضی نہيں ہوں ۔ جناب موسیٰ عليہ السلام کچه پس و پيش کرنے لگے تو الله نے آپ پر وحی نازل فرمائی :اگر آپ اس کو عطا کردیں گے توجنت ميںکمی نہيں آئيگی تو آپ نے اس کو عطا کردی اور اس نے قبر کا نشان بتا یا ”

۴۹

د۔دعا کرکے سب کچه تدبير الٰہی کے حوالہ کردینا

دعا ميں خداوندعالم سے یہ طلب کرنا کہ وہ اپنی تدبير کے ذریعہ ہم کو اپنی تدبير سے بے نياز کردے اور اپنی رحمت و حکمت کو ہمارے امر کا ولی بنا دے اور ہمارے نفسوں پر کسی چيز کو مو کول نہ کرے ،دعا ء عرفہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں :

اَغنِْنِي بِتَدبِْيرِْکَ لِي عَن تَدبِْيرِْي،ْوَبِاِختِْيَارِکَ عَن اِختِْيَارِي

“ميرے خدا مجه کو اپنی تدبير کے ذریعہ ميری تدبير سے بے نياز کر اور اپنے اختيار کے مقابلہ ميں ميرے اختيار سے بے نياز کر ”

اور منا جات شعبانيہ ميں آیاہے :وَتَوَلِّ مِن اَمرِْي مَااَنتَْ اَهلُْهُ

“خدایا !جس چيز کا تو اہل ہے ميرے امر ميں سے اس کا تو ذمہ دار ہوگا ”

یہ بهی وارد ہوا ہے :حَسبِْي عَن سُوالِي عِلمْه بِحَالِي (١) “ميرے سوال کرنے سے اس کا ميرے حال سے واقف ہونا ہی کافی ہے”

مروی ہے :جب نمرود نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو آگ ميں ڈالنے کا حکم دیا تو جبرئيل عليہ السلام نے آپ کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کيا :کيا آپ کی کوئی حاجت ہے ؟آپ نے فرمایا: ہاں ميری حاجت تو ہے ليکن تجه سے نہيں ،حَسبِْیَ الله ،وَنِعمَْ الوَْکِيلْ

اس کے بعد ميکائل نے عرض کيا :اگر آپ کا اراد ہ آگ کو بجها نے کا ہے تو ميں آگ کو

____________________

١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )

۵۰

بجها دوں گا چونکہ بارش اور پانی کا خزانہ مير ے اختيار ميں ہے۔ آپ نے فرمایا :مير ا ایسا کوئی ارادہ نہيں ہے ۔

اس کے بعد ہوا کے فرشتہ نے آکر عرض کيا :اگر آپ چاہيں تو ميں آگ کو اڑادو ں آپ نے فرمایا :ميرا ایساکوئی اراد ہ نہيں ہے ۔

جبرئيل نے کہا :تو پھر الله سے اپنی حاجت طلب کيجئے آپ نے فرمایا:خداوندعالم کوميرے حالات کا علم ہے ”( ١)

اس کا مطلب دعا سے منع کرنا نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب بندہ کا تدبير ميں اپنے امر کو الله کے حوالہ کر دینا ہے ۔

اس کو ہر امر ميں الله کی طرف تفویض سے تعبير کيا جاتا ہے اور سختيوں اور بلاوں ميں الله کی تقدیر ،قضا ،حکمت اور تدبير پر اعتماد رکهنا ہے ۔ حضرت امام حسين عليہ السلام دعا ئے عرفہ ميں فرماتے ہيں :

ا هٰلِي اِنَّ اِختِْلَافِ تَدبِْيرْکَ وَ سُرعَْةَ طَوَاءَ مَقَا دِیرِْکَ مَنعْا عِبَادِکَ العَْارِفِينَْ بِکَ عَنِ السَّکُونِْ اِل یٰ عَطَاءٍ وَاليَْاسُ مِنکَْ فِی بَلَا ءٍ

“ميرے معبود! بيشک تيری تدبير کی تبدیلی اور تيرے مقدارات کے سریع تغيرات نے تيرے عارف بندوں کوپر سکون عطا اور مصيبت ميں نا اميد ہونے سے روک دیا ہے ”

امام عليہ السلام فرماتے ہيں بيشک تير ے عارف بند ے کسی عطا پر راضی نہيں ہوتے وہ عطا چا ہے کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو اور کسی مصيبت ميں تجه سے مایوس نہيں ہو تے وہ بلا کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو کيونکہ ان کو معلوم ہے کہ تيرے احکام اور بندوں کے سلسلہ ميں فيصلہ بہت جلد ہوتا ہے نيز ایک

____________________

١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )

۵۱

حالت سے دو سری حالت کی جا نب تيری تدبير بدلتی رہتی ہے لہٰذا تيرے بندے عطا اور روزی پرمطمئن نہيں ہوتے اور تيری رحمت سے کسی مصيبت ميں مایوس نہيں ہوتے البتہ تيری رحمت پر مطمئن رہتے ہيں اور تيرے فضل سے مایوس نہيں ہو تے ہيں ”

امام حسين کے اسی مفہوم کی، قرآن کریم کی یہ آیت براہ راست عکاسی کررہی ہے:

لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم ( ١)

“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جوتمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرو اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” امير المو منين عليہ السلام فرماتے ہيں :زہد قرآن کے ان دو کلموں ميں ہے :

لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم ( ٢)

“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرواور اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” جب خدا وند عالم نے بندوں کو اس کے قضا و قدر پر اعتماد اور اپنے تمام امور کو خد ا پر واگذار کرنے کی توفيق عطا کر دی ہے ۔۔۔تو بندہ اس وقت خوشی اور غم ميں الله کے قضا و قدر پرسکون محسوس کرتا صرف اس کی عطاپرنہيں، اور نہ ہی وہ مصيبتوں ميں ما یوس ہو تا ہے ۔

ماثورہ دعاؤں ميں اس معنی پر بہت زیادہ زور دیا گيا ہے مشہور ومعروف زیارت امين الله ميں آیا ہے :

اللهم فَاجعَْل نَفسِْي مُطمَْئِنَّةً بِقَدرِْکَ رَا ضِيَةً بِقَضَائِکَ،مَولِْعَةً

____________________

١)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )

٢)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )

۵۲

بِذکرْکَ وَدُعَائِکَ صَابِرَةً عِندَْ نُزُولِْ بَلَا ئِکَ شَاکِرَةً لِفَوَاضِلِ نِعمَْائِکَ

“خدایا! ميرے نفس کو اپنے قدر پر مطمئن اور اپنے قضا پرراضی کردے، اپنے ذکر و دعا کا شيدائی بنا دے اور اپنے خالص اور برگزیدہ اولياء کا محبت کرنے والا بنا دے اور اپنے آسمان و زمين ميں محبوب کردے اور اپنی بلا کے نزول پر صابر اور اپنی بہترین نعمتوں پر شاکر بنا دے اپنی تمام نعمتوں کا یاد کرنے والا ” حضرت امام زین العابدین علی بن الحسين عليہما السلام دعا ميں فرماتے ہيں :

وَالهَْمنَْاالاِْنقِْيَادَ لَمَّااَورَْدَت عَلَينَْامِن مَشِيَّتِکَ حَتیّٰ لَانَحبُّْ تَاخِيرُْمَا (عَجَّلَت،ْوَلَاتَعجِْيلَْ مَااَخَّرَت وَلَانَکرَْهُ مَااَحبَْبتَْ وَلَانَتَخَيَّرمَاکَرِهتُْ ( ١)

“ہميں اس مشيت کی اطاعت کا الہام عطا فر ما جو تونے ہم پر وارد کی ہے تا کہ جو چيز جلدی سامنے آجا ئے ہم اس کی تا خير کے خواہاں نہ ہوں اور جو چيز دیر ميں آئے اس کی عجلت کے طلبگار نہ ہوں تيری محبوب اشياء کو مکروہ نہ سمجهيں اور تيری نا پسندیدہ چيزوں کو اختيار نہ کرليں ”

دعا کے ایک اور مقام پر فرماتے ہيں :

وطيب بقضائک نفسي ووسّع بمواقع حکمک صدري ووهب لي الثقة لاُقرمعها بانّ قَضَائک لم یجرالَّا بالْخَيْرِة ( ٢)

“اور ميرے نفس کو اپنے فيصلہ سے مطمئن کردے اور ميرے سينہ کو اپنے فيصلوں کےلئے کشادہ بنا دے مجھے یہ اطمينان عطا فر ما دے کہ ميں اس امر کااقرار کروں کہ تيرا فيصلہ ہميشہ خير ہی کے ساته جاری ہو تا ہے۔

دعا ء صباح ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :

____________________

١)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣٣ ۔ )

٢)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣۵ ۔ )

۵۳

الهي هذهِ ازمة نفسي عقلتهابعقال مشيئتک ( ١)

“خدایا! یہ ميرے نفس کی مہار ہے جس کو مر ضی اور مشيت کے رسّی سے مستحکم باندها ہے ”

ه۔خداوند عالم سے ذات خدا کو طلب کرنا

دعا ميںسب سے زیادہ لطف اوراس کی جلالت یہ ہے کہ انسان دعا ميں الله سے نہ دنيا طلب کرے اور نہ آخرت طلب کرے بلکہ وہ خدا سے اس کے وجہ کریم کا مطالبہ کرے ،اس کی مرضی ، ملاقات ،اس سے قربت ،اس تک رسائی ،اس کی محبت ،اس سے انسيت ،اور اس تک پہنچنے کی تشویق کا مطالبہ کرے حضرت فاطمہ صدیقہ طاہرہ نے دعا ميں ملک الموت کے خداوند عالم کے امر سے ان کی روح پاک قبض کرنے سے پہلے اس کی جانب سے ایسے رزق کا مطالبہ کياجس سے ان کا سينہ ڻھنڈا ہو جائے اور ان کا نفس خوش ہو جائے ،آپ نے دعاميں یوں عرض کيا :پروردگارا تيری طرف سے بشارت ہو نی چا ہئے تيرے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہيں ،اس سے ميرا دل ڻھنڈا ہو گيا، ميرا نفس خوش ہو گيا ،ميری آنکهيں ڻھندی ہو گئيں اور ميرا چہرہ باغ باغ ہو گيا ۔۔۔اور ميرا دل مطمئن ہو گيا اور اس سے ميرا پورا جسم خوش ہو گيا ”( ٢)

حضرت امام حسين عليہ السلام دعائے عرفہ ميں فرما تے ہيں :منک اطلبْ الوصول اليک

“تجه ہی سے تجه تک پہنچنے کا مطالبہ کرتا ہوں ”

حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ء صباح ميں فرماتے ہيں :اَنتَْ غَایَةُ مَطلُْوبِْی وَمُنَایَ

“اور تو ہی ميرا آخری مطلوب ہے اور دنيا اور آخرت ميں ميری اميد ہے ”

____________________

١)دعا ء صباح ۔ )

٢)فلا ح السائل ۔ )

۵۴

پندرہ مناجات ميں سے مناجات “محبين ”ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں:اِ هٰلِي مَن ذَا لَّذِی ذَاقَ حَلاَوةَ مَحَبَّتِکَ فَرَامَ مِنکَْ بَدَلاًوَمَن ذَاالَّذِي اَنِسَ بِقُربِْکَ فَابتَْغ یٰ عَنکَْ حِوَلاً

“خدایا وہ کون شخص ہے جس نے تيری محبت کی مڻهاس کو چکها ہو اور تيرے علاوہ کا خواہش مند ہو اور وہ کون شخص ہے جس نے تيری قربت کا انس پایا ہو اور ایک لمحہ کے لئے بهی اس سے روگردانی کرے ’پندرہ مناجات ميں سے مناجات مرید ین ميں امام زین العابدین عليہ السلام فرماتے ہيں:اِ هٰلِي فَاسلُْک بِنَا سُبُلَ الوُْصُولِْ اِلَيکَْ وَسَيِّرنَْا فِي اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوُْفُودِْ عَلَيکَْ “خدایا! ہم کو اپنی طرف پہنچنے کے راستوں پر چلا دے اور ہم کو تيری طرف پہنچنے والے قریب ترین راستہ سے لے چل ،ہمارے اوپر دور کو قریب کردے ” مناجات متو سلين ميں فرماتے ہيں :

وَاجعَْلنِْي مِن صَفوَْتِکَ اَلَّذِینَْ اَقرَْرتَْ اَعيُْنَهُم بِالنَّظَرِاِلَيکَْ یَومَْ لِقَائِکَ ” “اور مجه کو ان منتخب بندوں ميں قرار دے جن کی آنکهوں کو روز ملاقات اپنے دیدار سے خنکی عطا کی ہے ”

دعا عرفہ ميں امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں : اَطلُْبنِْي بِرَحمَْتِکَ حَتّ یٰ اَصِلَ اِلَيکَْ

“ميرے معبود مجه کو اپنے درِرحمت پر طلب کر، تا کہ ميں تجه سے مل جاوں”

حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ئے کميل ميں فر ما تے ہيں :وَاستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَهَب لِيَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِي الاِْتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُّوَالمُْخلِْصِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْومِْنِينَْ

“اور تيری ہی ذات کو اپنا سفارشی بناتا ہوں ،اور تومجه کو خوف و خشيت ميں کو شش کی توفيق عطا کر نيز تيری خدمت کے لگاتار انجام دینے کی ۔۔۔اور تيری بارگاہ ميں خلوص رکهنے والوں کا سا قرب حا صل ہو ،اور تيری بارگا ہ ميں مو منين کے ساته جمع ہو جا ؤں ”

مناجات محبين ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں :اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِمَّن هَيَّمتَْ قَلبَْهُ لِاِرَادَتِکَ وَاجتَْبَيتَْهُ لِمُشَاهَدَتِکَ وَ اَخلَْيتَْ وَجهَْهُ لَکَ وَفَرَّغتَْ فُوادَهُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبتَْهُ فِيمَْاعِندَْکَ وَقَطَعتَْ عَنهُْ کُلَّ شَی ءٍ یَقطَْعُهُ عَنکَْ

“خدایا!تو مجه کو ان لوگوں ميں سے قرار دے جس کے دل کو اپنے ارادہ کا مسکن بنایا ہو اور جس کو تو نے اپنے مشاہدہ کے لئے منتحب کيا ہو اور جس کے چہرے کو اپنے لئے خالی کر ليا ہے اور جس کے دل کو اپنی محبت کے لئے فارغ کرليا ہے اور جس کو اس چيز کی رغبت دی ہے جو تيرے پاس ہے اور جس سے ہر اس چيز کو دور کر دیا ہے جوتجه سے دور کر تی ہے ”

۵۵

ب۔جوچيز یں دعا ميں سزاوار نہيں ہيں

اب ہم ان چيزوں کے سلسلہ ميں بحث کریں گے جو دعا ميں نہيں ہونا چاہئيں اور ہم ان سب چيزوں کو قرآن اور حدیث کی روشنی ميں بيان کریں گے جو مندرجہ ذیل ہيں :

١۔کائنات اور حيات بشری ميں الله کی عام سنتوں کے خلاف دعا کرنا

حضرت نوح عليہ السلام نے اپنے بيڻے کی شفاعت اور اس کے پانی ميں غرق ہو نے سے بچانے کيلئے خداوند عالم کے وعدہ کے مطابق کہ وہ ان کے اہل کو نجات دے گا خدا سے دعا کی ليکن خداوندعالم نے اپنے بندے اور اپنے نبی نوح عليہ السلام کی دعا قبول نہيں کی اور ان کی دعا کو رد فرما یا :انه ليس من اهلک اے نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے ”اور ان کو پھر اس کے مثل کبهی دعا نہ کرنے کی نصيحت فرمائی۔

وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ الحَْاکِمِينَْ قَا لَ یَانُوحُْ اِنَّهُ لَيسَْ مِن اَهلِْکَ اِنَّهُ عَمَلٌغَيرُْصَا لِحٍ فَلَا تَسالنِْ مَا لَيسَْ لَکَ بِهِ عِلمٌْ اِنِّی اَعِظُکَ ا تَکُونَْ مِنَ الجَْاهِلِينَْ قَالِ رَبِّ اِنِّی اعُوذُْبِکَ اَن اَسئَْلَکَ مَالَيسَْ بِهِ عِلمٌْ وِاِلَّاتَغفِْرلِْی وَتَرحَْمنِْی اکُن مِنَ الخَْا سِرِینَْ ( ١)

“اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار ميرا فرزند ميرے اہل ميں سے ہے اور تيرا وعدہ اہل کو بچا نے کا بر حق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ،ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے یہ عمل غير صالح ہے لہٰذا مجه سے اس چيز کے بارے ميں سوال نہ کرو جس کا تمہيں علم نہيں ہے ميں تمہيں نصيحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جا ہلوں ميں نہ ہو جا ئے نوح نے کہا کہ خدایا !ميں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس چيز کا سوال کروں جس کا علم نہ ہو اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے گا اور مجه پر رحم نہ کرے گا تو ميں خسارہ اڻهانے والوں ميں ہو جا ؤں گا ” حضرت نوح عليہ السلام کوخداوندعالم سے اپنے اہل وعيال کی نجات کا سوال کرنے کا حق تھا ليکن جوان کے اہل سے نہ ہو اس کو غرق ہو نے سے نجات دلانے کے سلسلہ ميں سوال کرنے کا کوئی حق نہيں تھا ۔

ان کا بيڻا ان کے اہل ميں نہيں تھا یہ الله کا حکم ہے اور حضرت نوح عليہ السلام کو پروردگار عالم کے قوانين اور احکام کی خلاف ورزی کرنے کا حق نہيں ہے ۔ ذرا حضرت نو ح عليہ السلام کے جواب پر غور وفکر کيجئے ۔

دعا ميں الله کی سنتوں کے امر کو سمجهنا ضروری ہے دعا کا کام ان سنتوں کوتوڑنا اور ان سے تجاوز

____________________

١)سورئہ ہودآیت ۴۵ سے ۴٧ ۔ )

۵۶

کرنا نہيں ہے بلکہ دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ بندہ خدا وند عالم کی سنتوں اور اس کے قوانين کے دائرہ ميں رہ کرخداوند عالم سے سوال کرے ۔بيشک الله کی سنتيں ہميشہ الله کے ارادہ تکوینی کومجسم کرتی ہيں ،اور دعا کی شان الله کے ارادہ کے زیر سایہ ہے نہ اس سے تجا وز کرتی ہے اور نہ ہی اس کی حدود کو پارکر تی ہے ۔

خداوندعالم فرماتا ہے :

وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ الله تَبدِْیلْاً ( ١)

“اور تم خدا کی سنت ميں ہر گز تبدیلی نہيں پا ؤ گے ” نظام کا ئنات الله کے اس ارادہ کی مجسم شکل ہے جس کے بغير کا ئنات کا نظا م درست نہيں رہ سکتا ہے ،بندہ کےلئے اس کی تبدیلی کےلئے دعا کر نا صحيح نہيں ہے بيشک دعا بندوں کےلئے الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دروازہ ہے ؛اور الله کا ارادہ ہميشہ اس کی رحمت کے مطابق ہو تا ہے اور بندہ کے لئے اس ميں تغير و تبدل کی دعا کرنا صحيح نہيں ہے ۔

ایک سنت دوسری سنت سے مختلف نہيں ہو سکتی ہے ،ہر سنت الله کے ارادہ کو مجسم کرتی ہے اور الله کا ارادہ اس کی اس رحمت اور حکمت کو مجسم کرتا ہے جس سے بلند نہ کو ئی رحمت ہے اور نہ حکمت ہے۔چا ہے وہ تکوینی سنتيں ہوں یا تاریخی اور اجتماعی سنتيں ہوں ۔

یہ الله کی سنت ہے جو لوگ بعض دوسر ے لوگوں سے اپنے دین ودنيا کے سلسلہ ميں سوال کيا کرتے ہيں اور انسان کا الله سے اور ایک دوسرے سے بے نياز رہنے کا سوال کرنا صحيح نہيں ہے چونکہ اس طرح کی دعا کرنابا لکل الله کی سنت اور اس کے ارادہ کے خلاف ہے ۔

حدیث ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :

اللهم لاتحوجني الیٰ احد من خلقک

____________________

١)سورئہ فا طر آیت/ ۴٣ ۔ )

۵۷

“خدا یا مجه کو اپنی مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ بنا” رسول الله (ص)نے فرمایا :اس طرح مت کہو چونکہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے :

حضرت علی عليہ السلام نے عرض کيا :پهر ميں کيسے کہوں یا رسول الله ؟ رسول الله (ص) نے فرمایا :

اللهم لاتحوجني إلی شرارخلقک ( ١)

“پروردگارا !مجھے اپنی شریر مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ کرنا ” شعيب نے حضرت ابو عبد الله عليہ السلام سے نقل کياہے کہ آپ سے عرض کيا گيا:

ادعُ الله یغنيني عن خلقه قال:انّ اللّٰه قسّم رزق مَن شاء علیٰ یدی مَن شاء،ولکن اسال اللّٰه ان یغنيک عن الحاجة التي تضطرک الیٰ لئام خلقه( ٢)

“ آپ یہ دعا فرما دیجئے کہ خدا مجه کو مخلوق سے بے نياز کر دے آپ نے فرمایا :اللهنے رزق کو کسی نہ کسی کے ذریعہ تقسيم کيا ہے لہٰذا تم خداوندعالم سے یہ دعا کرو کہ خدا مجهکو بر ے لوگوں کے سامنے اپنی حاجت بيان کرنے پر مجبور نہ کرے ”

دعا کے اس طریقہ سے دعا کر نے ميں ہم یہ دیکهتے ہيں کہ اسلامی روایات ميں دعا ئيں کرنے کا ایک واقعی محدود دائر ہ ہے اور غير واقعی اور خيالی دائروں سے دعا خارج ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

انه ساله شيخ من الشام :اي دعوة اضلّ؟فقال:“الداعي بمالایکون(٣)

آپ سے شام کے ایک بزرگ نے سوال کيا :سب سے زیادہ گمراہ کُن کو نسی دعا ہے؟

____________________

١)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )

١١٧ حدیث صفحہ / ٨٩۴۶ ۔ : ٢)اصول کافی صفحہ / ۴٣٨ ،وسائل اشيعہ جلد ۴ )

٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )

۵۸

آپ نے فرمایا :“نہ ہو نے والی چيز کيلئے دعاکرنا ”

حيات بشری ميں نہ ہو نے والی چيز الله کی متعارف سنتوں کے دائرہ حدود سے خارج ہے ان ميں واقعی و حقيقی طور پر کو ئی تفکر نہيں کيا جا سکتا ہے ۔

عدةالداعی ميں امير المو منين سے مر وی ہے :

مَن سال فوق قدره استحق الحرمان ( ١)

“جس نے اپنی مقدار سے زیادہ سوال کيا وہ اس سے محروم ہو نے کا مستحق ہے ”

ہمارے عقيدے کے مطابق (فوق قدرہ )کے ذریعہ ان چيزوں کے بارے ميں سوال کيا جاتا ہے جن کو حقيقی طور پر طلب نہيں کيا جاتاہے ۔

٢۔حل نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا

جس طرح نہ ہونے والی چيزوں کے بارے ميں سوال اور دعا نہيں کرنا چاہئے اسی طرح حلال نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا بهی سزا وار نہيں ہے اور یہ دونوں ایک ہی باب سے ہيں پہلی بات الله کے ارادئہ تکو ینيہ سے خارج ہے اور دوسری بات الله کے تشریعی ارادہ سے خارج ہے ۔

الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :

اِن تَستَْغفِْرلَْهُم سَبعِْينَْ مَرَّةً فَلَن یَغفِْرَالله لَهُم ( ٢)

“اگر ستر مرتبہ بهی استغفار کریں گے تو خدا انهيں بخشنے والا نہيں ہے ” امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں :

لاتسال مالایکون ومالایحلّ ( ٣)

“نہ ہو نے والی اور غير حلال چيزوں کے متعلق سوال نہ کرو”

____________________

١)بحارالا نوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٢٧ حدیث/ ١١ ۔)

(٢)سورئہ توبہ آیت/ ٨٠ ۔

٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )

۵۹

٣۔دوسروں کی نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا

انسان کا الله سے یہ دعا کرنا کہ وہ دوسروں کی نعمتوں کو مجھے دیدے تو ایسی دعا کرنا جائز نہيں ہے :خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ الله بِهِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ ) ( ١)

“اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرنا ”

انسان کا الله سے نعمتوں کی آرزو کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور اس کے اس آرزو کرنے ميں بهی کوئی حرج نہيں ہے کہ جس طرح دوسروں کو نعمت دی ہے ہم کو بهی بلکہ دوسروں سے زیادہ ہم پر فضل وکرم کرے ليکن خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس چيز کو پسند نہيں کرتا کہ جن بندوں کو اس نے نعمت دی ہے وہ ان نعمتوں کو دیرتک ڻکڻکی باندهے دیکهتا رہے ۔

خدا وندعالم فرماتا ہے :

( وَلَاتَمُدَّ نَّ عَينَْيکَْ اِل یٰ مَامَتَّعنَْابِهِ اَزوَْاجاً مِنهُْم زَهرَْةَالحَْ وٰيةِالدُّنيَْا ) ( ٢)

“اور خبر دار ہم نے ان ميں سے بعض لوگوں کو دنيا کی اس ذرا سی زندگی کی رونق سے مالا مال کر دیا ہے اس کی طرف آپ آنکه اڻها کر بهی نہ دیکهيں ” خداوندعالم اس بات کو بهی دوست نہيں رکهتا ہے کہ انسان دوسروں کی نعمتوں کو اپنی طرف منتقل کرنے کی آرزو کرے۔بيشک اس طرح کی تمنا کر نے کا مطلب دوسروں سے نعمت چهيننا ہے اور خداوند عالم اس چيز کو اپنے بندوں سے پسند نہيں کرتا ہے ،یہ تو تنگ نظری اور اپنی حيثيت سے زیادہ تمنا اور آرزو کرنا ہے جس کو الله تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے با لکل پسند نہيں کرتا ہے بيشک الله کی سلطنت و

____________________

١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت/ ١٣١ ۔ )

۶۰