دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 57092
ڈاؤنلوڈ: 2443


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57092 / ڈاؤنلوڈ: 2443
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

با دشاہت وسيع ہے ،ا س کے خزانے ختم ہو نے والے نہيں ہيں ،اس کے ملک کی کو ئی حد نہيں ہے اور انسان کے الله سے ہر چيز کا سوال کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے ہاں، یہ تمنا و آرزو کرسکتا ہے کہ خدا اس کو دوسروں سے بہتر رزق عطا فر ما ئے ۔دعا ميں وارد ہوا ہے :

اللهم آثرنیْ ولاتوثرعليّ احداً

“خدایا مجه کو منتخب فرما مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”وَاجعَْلنِْي مِن اَفضَْلِ عِبَادِکَ نَصِيبْاًعِندَْک،ْوَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ

“اور مجھے ان بندوں ميں قرار دے جو حصہ پانے ميں تيرے نزدیک سب سے اچهے ہوں اور تيرے قرب ميں بڑی منزلت رکهتے ہوں ”

ا ن تمام چيزوں کے خدا وند عالم سے ما نگنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور الله بهی ان تمام چيزوں کو دو ست رکهتا ہے ،اور ہما رے پرور دگار کو اس چيز کا ارادہ کرنے کی ضرورت نہيں ہے کہ جب وہ اپنے کسی بندہ کو کو ئی نعمت عطا کر نے کا ارادہ کرے تو وہ اس بندہ سے چهين کر کسی دو سرے بندہ کو عطا کردے ۔

عبدالرحمان بن ابی نجران سے مروی ہے کہ :حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے الله کے اس قول( وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ الله بِهِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ ) (١) “اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے ”کے سلسلہ ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:

لایتمنی الرجل امراة الرجل ولاابنته ولکن یتمنّی مثلها ( ٢)

“انسان کو کسی کی عورت یا اس کی بيڻی کی تمنا نہيں کرنی چا ہئے بلکہ اسکے مثل کی تمنا کرناچا ہئے ’

____________________

١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)تفسير عياشی صفحہ ٢٣٩ ۔ )

۶۱

۴ ۔مصلحت کے خلاف دعا کرنا

انسان کا اپنی مصلحت کے خلاف دعا کرنا سزاوار نہيں ہے ،جب انسان دعا کے نفع اور نقصان سے جاہل ہوتا ہے ليکن الله اس کو جانتا ہے خدا وند عالم دعا کو کسی دوسری نعمت کے ذریعہ مستجاب کرتا ہے یا بلا دور کردیتا ہے یا جب تک اس دعا ميں نفع دیکها ہے اس کے مستجاب کرنے ميں تا خير کردیتا ہے ،دعا افتتاح ميں وارد ہوا ہے:

ا سالُکَ مُستَْانِساً لَاخَائِفاًوَلَاوَجِلاً ،مُدِلّاًعَلَيکَْ فِيمَْاقَصَدتُْ فِيهِْ اِلَيکَْ ،فَاِن اَبطَْاعَنِّي عَتَبتَْ بِجَهلِْي عَلَيکَْ، وَلَعَلَّ الَّذِي اَبطَْاعَنِّی هُوَخَيرٌْلِي لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَة الاُْمُورِْ فَلَم ارِمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرُعَل یٰ عَبدٍْ لَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ یَارَبِّ

“اور انس و رغبت کے ساته بلا خوف وخطر اور ہيبت کے تجه سے سوال کرتا ہوں جس کا بهی ميں نے تيری جانب ارادہ کيا ہے اگر تو نے ميری حا جت کے پورا کرنے ميں دیر کی تو جہالت سے ميں نے عتاب کيا اور شاید کہ جس کی تا خير کی ہے وہ ميرے لئے بہتر ہو کيو نکہ تو امور کے انجام کاجا ننے والا ہے ميں نے نہيں دیکها کسی کریم مالک کو جولئيم بندہ پر تجه سے زیادہ صبر کرنے والا ہو ” دعا ميں اس طرح کے حالات ميں انسان کو الله سے دعا کر نا چاہئے اپنے تمام امور اسکے حوا لہ کردینا چاہئے ،جب بندہ اپنی دعا کے قبول ہو نے ميں دیر دیکهے یا اسکی دعا مستجاب نہ ہو رہی ہو تو اسے الله سے ناراض نہيں ہو نا چا ہئے ليکن کبهی کبهی انسان خدا وند عالم سے ان چيزو ں کا سوال کرتا ہے جو اس کےلئے مضر ہو تی ہيں ،کبهی کبهی وہ خير طلب کرنے کی طرح شر(برائی ) طلب کرتا ہے اور اپنے لئے نقصان دہ چيزوں کےلئے جلدی کيا کرتا ہے ۔

خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (١)

____________________

١)اسرا آیت/ ١١ ۔ )

۶۲

“اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

حضرت صالح عليہ السلام نے اپنی قوم سے مخا طب ہو کر فرمایا :قَالَ یَاقَومِْ لِمَ تَستَْعجِْلُونَْ بِالسَّيِّئَةِ قَبلَْ الحَْسَنَةِ ( ١)

“صالح نے کہا کہ قوم والو آخر بهلا ئی سے پہلے برا ئی کی جلدی کيوں کر رہے ہو ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : اپنی نجات کے راستوں کو پہچانو کہ کہيں تم اس ميں وہ دعا نہ کر بيڻهو جو تمہاری ہلا کت کا باعث بن جا ئےں اور تم اس کو اپنے لئے نجات کا باعث سمجهتے رہو خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (٢) “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

۵ ۔فتنہ سے پنا ہ مانگنا

فتنہ سے پناہ مانگنا صحيح نہيں ہے چو نکہ انسان کی زوجہ ،اولاد اور اس کا مال فتنہ ہيں اور نہ ہی انسان کا اپنے اہل و عيال اور ما ل کے لئے الله کی پناہ ما نگنا صحيح ہے ليکن انسان کا گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ چا ہنا صحيح ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقولَنّ احدکم:اللهم انّي اعوذ بک من الفتنة؛لانّه ليس من احد إلاٰ

____________________

١)سورئہ نمل آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٢ ؛سورئہ اسر ١آیت/ ١١ ۔ )

۶۳

وهومشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فليستعذمن مضلاّت الفتن؛فانّ الله یقو ل :( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ١)

“تم ميں سے کو ئی ایک بهی یہ نہ کہے کہ ميں فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں چونکہ تم ميں سے ہر ایک فتنہ گرہے ليکن تم فتنوں کی گمراہی سے پناہ مانگواور خداوند عالم اس سلسلہ ميں فرماتا ہے :

“اور جان لو !کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہيں ” ابو الحسن الثالث عليہ السلام نے اپنے آبا ؤو اجد اد عليہم السلام سے نقل کيا ہے :ہم نے امير المو منين عليہ السلام سے ایک شخص کو یہ کہتے سُنا :

اللهم اِنِّی اَعُوذُْبِکَ مِنَ الفِْتنَْةِ

“اے پروردگار ميں تجه سے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ” امام عليہ السلام نے فرما یا :ميں یہ دیکهتا ہوں کہ تم اپنے مال اپنی اولاد سے پناہ ما نگ رہے ہو چونکہ خداوندعالم فرما تا ہے :

( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ٣)

“تمہا رے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہيں ” ليکن یہ کہو :

اللهم انّي اعوذ بک من مضلاّت الفتن ( ۴)

“اے پروردگار ميں تجه سے گمراہ کر نے والے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ”

____________________

١)سورئہ انفال آیت/ ٢٨ ۔ )

٢)نہج البلاغہ القسم الثانی : ١۶٢ ۔ )

٣)سورئہ تغا بن آیت/ ١۵ ۔ )

۴)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ/ ١٩٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )

۶۴

۶ ۔مومنين کے لئے بد دعا کر نا

دعا کی اہميت اور اس کی غرض و غایت ميں سے ایک چيز مسلمان خاندانوں کے مابين را بطہ کا محکم کرنا اور ان کے درميا ن سے غلط فہميوں اورجهگڑوں کو دور کرنا ہے جو عام طور سے دنياوی زندگی ميں مزاحمت کا سبب ہو تے ہيں ،غائب شخص کےلئے دعا کرنا اس رابطہ کا سب سے بہترین سبب ہے جو زندگی کے مائل ہو نے کو پيش کرتا ہے ،البتہ اس کے برعکس ایسے حالات جو تعلقات ميں منفی صورت حال پيداکرتے ہيں ان حالات ميں پروردگار عالم دعا کرنے کو دوست نہيں رکهتا ہے ۔

خدا وندعالم مومنين کے ایک دوسرے کی موجودگی ميں دعا کرنے دعا کے ذریعہ ایک ایک دوسرے پر ایثار و فدا کاری کرنے اور دعا کرنے والے کے دوسرے کی حاجتوں اور ان کے اسماء کو اپنے نفس پر مقدم کرنے کو دوست رکهتا ہے ۔

خدا وند عالم دعا ميں اپنے دوسرے بهائی کی نعمتوں کے زائل وختم ہو نے کی دعا کرنے کو پسند نہيں کرتا ہے ،جيسا کہ ہم ابهی بيان کرچکے ہيں ۔

اور نہ ہی خدا وند عالم دعا ميں کسی انسان کے اپنے مومن بهائی کے خلاف دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ، اگر چہ اس نے اس کو تکليف یا اس پر ظلم ہی کيوں نہ کيا ہو اگر وہ اس کا ایمانی بهائی ہو اور ظلم کرکے ایمانی برادری کے دائرہ سے خارج نہ ہوا ہو )اور نہ ہی خدا وند عالم اس چيز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کو برا ئی کے ساته یا دکریں ۔

دعوات را وندی ميں ہے کہ توریت ميں آیا ہے کہ خدا وند عالم اپنے بندے سے فرماتاہے:

۶۵

انّک متیٰ ظلمت تدعوني علیٰ عبد من عبيدي من اجل انّه ظلمک فلک من عبيدي من یدعوعليک من اجل انّک ظلمته فان شئت اجبتک و اجبته منک،وان شئت اخرتکما الیٰ یوم القيامة ( ١)

“خداوند عالم اپنے بندہ سے خطاب کرتا ہے کہ جب تجه پر ظلم کيا جاتا ہے تو تو اس ظلم کی وجہ سے اس کے خلاف بد دعا کرتاہے تو تجهے یہ بهی معلوم ہونا چاہئے کہ کچه بندے ایسے بهی ہيں کہ جن پر تم نے ظلم کيا ہے اور وہ تيرے لئے بددعا کرتے ہيں تو اگر ميری مرضی ہو تی ہے تو ميں تيری دعا قبول کرليتا ہوں اور اس بندے کی دعابهی تيرے حق ميں قبول کرليتا ہوں ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :اذا ظلم الرجل فظلّ یدعوعلیٰ صاحبه،قال اللّٰه عزّوجلّ:انّ ها هناآخر یدعو عليک یزعم انّک ظلمته،فان شئت اجبتک واجبت عليک وان شئت اخّرتکما فيوسعکماعفوي ( ٢)

“جب کو ئی انسان پر ظلم کرتا ہے اور وہ بد دعا کرتا ہے تو خداوند عالم فر ماتا ہے کہ کل جب تم کسی پر ظلم کروگے تو وہ تمہارے لئے بد دعا کرے گا پس اگر چا ہو تو ميں دونوں کی بد دعا قبول کرلونگا اور اگر چاہو تو ميں اس کو قيامت تک کےلئے ڻال دونگا ”

ہشام بن سالم سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے :

انّ العبد ليکون مظلوما فلایزال یدعوحتّیٰ یکون ظالماً (٣) “جب کو ئی مظلوم بد دعا کرتا ہے تو وہ ظالم ہو جاتا ہے ” حضرت علی بن الحسين عليہ السلام سے مروی ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۶ ۔ )

٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ / ١١٧٧ ،حدیث ٨٩٧٢ ؛امالی الصدوق صفحہ / ١٩١ ۔ )

٣)اصول کا فی صفحہ ۴٣٨ ؛عقاب الاعمال صفحہ ۴١ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ) ١١۶۴ ،حدیث ٨٩٢۶ ۔

۶۶

ان الملائکة اذاسمعواالمومن یذکراخاه بسوء ویدعوعليه قالوا له:بئس الاخ انت لاخيک کفّ ایّهاالمستّرعلیٰ ذنوبه وعورته،واربع علیٰ نفسک،و احمداللّٰه الَّذي سترعليک،واعلم اَّن اللّٰه عزّوجلّ اعلم بعبده منک ( ١)

“جب ملا ئکہ سنتے ہيں کہ مو من اپنے کسی بها ئی کی برا ئی اور اس کےلئے بد دعا کر رہا ہے تو کہتے ہيں کہ تو بہت برا بها ئی ہے اے وہ شخص جس کے گناہ کی خداوند عالم نے پردہ پو شی کر رکهی ہے تو اپنی زبان کو قابو ميں رکه اس خدا کی تعریف کر جس نے تيرے گناہ کی پردہ پوشی کی ہے اور تجهے معلوم ہونا چا ہئے کہ خداوند عالم کو تيرے مقابلہ ميں اپنے بندے کے بارے ميں زیادہ علم ہے ”

بيشک الله تبارک وتعالےٰ“ السلام ”ہے ،سلام اسی کی طرف پلڻتا ہے ،ذات خدا سلا متی سے برخوردار ہے، سلامتی اسی کی طرف پلڻتی ہے ،سلا متی اسی کی جا نب سے ہے ،اس کا دربار، سلا متی کا دربار ہے ۔جب ہم سلام و سلا متی سے بهرے دلوں سے خداوند عالم کی با رگاہ ميں حا ضر ہو ں گے ، ایک دو سرے کيلئے دعا کریں گے ،اور ہم ميںسے بعض دو سرے بعض افراد کيلئے رحمت کا سوال کریں گے ،اور ہم ميں سے بعض کی دعائيں الله کی رحمت نازل ہو نے ميں مو ثر ہوں گی تو ہم پر جو الله کی رحمت نازل ہو گی وہ سب کو شامل ہو گی ،بيشک خداوند عالم کی رحمت محبت اور سلامتی کے مقامات پر نا زل ہو تی ہے ،جو قلوب مو منين سے محبت و مسالمت کرتے ہيں ،ہمارے اعمال ،نمازیں ،دعا ئيں ، اور قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلندہوتے ہيں کلم طيب(پاکيزہ کلمات ) اور کلم طيب (پاکيزہ کلمات ) سے زندہ قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہيں :اِلَيهِْ یَصعَْدُالکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعَهُ (٢)

____________________

١)اصول کا فی صفحہ ۵٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١۶۴ ،حدیث / ٨٩٢٧ ۔ )

٢)سورئہ فا طر آیت/ ١٠ ۔ )

۶۷

“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”

جب ہم الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ميں ایسے ڻيڑهے اورکينہ بهر ے دل جن ميں محبت وسلامتی نہ ہواُن کے ساته کهڑے ہو کر ایک دوسرے مومن کے خلاف دعا کریں گے تو ہم سے خدا کی تمام نعمتيں منقطع ہو جا ئينگی ،اور اس کا ئنات ميں خدا کی وسيع رحمت ہم پر نازل نہيں ہو گی ،اور ہمارے اعمال، نماز یں، دعائيں اور قلوب الله تک نہيں پہنچ پائيں گے ۔

بيشک محبت سے لبریز اور محبت سے زندہ دلوں کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہو تی ہے اور مو منين سے بلائيں اور عذاب دور ہو تا ہے اس کے برخلاف (مومنوں کے )مخالف اور دشمن دلوں کے ذریعہ ان سے الله کی رحمت دور ہو تی ہے اور ان کے لئے بلائيں اور عذاب کو نزدیک کرتی ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا ؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا سے نقل کيا ہے :

انّ اللّٰه تبارک وتعالیٰ إذا رای اهل قریة قد اسرفوا في المعاصي وفيهم ثلاثة نفرمن المومنين،ناداهم جلّ جلاله:یااهل معاصيتی،لولا فيکم من المومنين المتحاببين بجلا لي العامرین بصلاتهم ارضي ومساجدي المستغفرین بالاسحار خوفاً مني لانزلت بکم العذاب ( ١)

“بيشک جب الله تعالیٰ نے ایک قریہ کے لوگوں کو معصيت ميں زندگی بسر کرتے دیکها حالانکہ ان کے مابين صرف تين افراد مو من تھے تو پروردگار عالم کی طرف سے ندا آئی :اے گناہ کرنے والو!اگر تمہارے درميان محبت سے بهرے دل نہ ہو تے جو اپنی نمازوں کے ذریعہ ميری زمين کو آباد رکهتے ہيں اور مسجدوں ميںسحر کے وقت ميرے خوف کی وجہ سے استغفار کيا کرتے ہيںتو ميں تم پر عذاب نازل کردیتا ”

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٧۴ صفحہ ٣٩٠ ۔ )

۶۸

جميل بن دراج نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :مَن فضّل الرجل عند اللّٰه محبّته لاخوانه،ومن عرّفه اللّٰه محبّة اخوانه احبّه اللّٰه ومَن احبّه اللّٰه اوفاه اجره یوم القيامة ( ١)

“الله کے نزدیک وہ شخص با فضيلت ہے جو اپنے بها ئيوں سے محبت کرتا ہے اور جس کو خدا وند عالم اس کے بها ئيوں کی محبت سے آشنا کردیتا ہے اس کو دو ست رکهتا ہے اور جس کو دو ست رکهتا ہے اس کو قيامت کے دن پورا اجر دیگا ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

لاتزال امتی بخيرماتحابوا،وادّو الامانة،وآتواالزکاة،وسياتي علیٰ امتي زمان تخبث فيه سرائرهم،وتحسن فيه علانيتهم ان یعمّهم اللّٰه ببلاء فيدعونه دعاء الغریق فلایستجاب لهم ( ٢)

“ميری امت اس وقت تک نيک رہے گی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے رہيں ،امانت ادا کرتے رہيں ،زکات دیتے رہيں ،مير ی امت پر ایک ایسا زمانہ آئيگا جب ان کے باطن برے ہوں گے اور ان کا ظاہر اچها ہوگا اور اگر خدا وند عالم ان کو کسی مصيبت ميں مبتلا کرے گا اور وہ ڈوبتے شخص کے مثل بهی دعا ما نگيں گے تو بهی ان کی دعا قبول نہ ہو گی ”

محبت بهرے دلوں سے خداکی رحمت نازل ہو تی ہے

حضرت امام جعفر دق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ المومنين اذاالتقيا فتصافحا انزل اللّٰه تعالیٰ الرحمة عليهما،فکانت

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ/ ۴٨ ؛بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ٣٩٧ ۔ )

٢)عدة الداعی صفحہ ١٣۵ ،بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ۴٠٠ ۔ )

۶۹

تسعة وتسعين لاشدّهماحبّالصاحبه،فاذا تواقفاغمرتهماالرحمة،واذاقعدایتحدثان قالت الحفظة بعضهالبعض:اعتزلوا بنا فلعل لهماسرّا وقد ستراللّٰه عليهما

“بيشک جب مو منين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں مصافحہ کرتے ہيں تو خداوند عالم ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے ان ميں سے ننانوے رحمتيں اس شخص کيلئے ہيں جو ان ميں اپنے دوسرے بهائی سے زیادہ محبت رکهتا ہے اور جب ان ميں توافق ہو جاتا ہے تو دونوں کو رحمت خدا گهير ليتی ہے اور جب وہ دونوں گفتگو کرنے کيلئے بيڻهتے ہيں تو نا مہ اعمال لکهنے والے فرشتہ کہتے ہيں کہ ان دونوں سے دور ہو جاؤ چونکہ یہ راز کی باتيں کررہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ”

اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “انّ المو منين اذااعتنقاغمرتهماالرحمة فاذاالتزما لایریدان عرضاً من اعراض الدنياقيل لهما:مغفور لکما فاستانفا؛فاذااقبلا علی المساء لة قالت الملا ئکة بعضها لبعض:تنحّواعنهما؛فانّ لهماسرّا قد ستراللّٰه عليهما قال اسحق :فقلت:جعلت فداک،ویکتب عليهمالفظهماوقد قال اللّٰه تعالیٰ ( مَایَلفِْظُ مِن قَولٍْ اِلّالَدَیهِْ رَقِيبٌْ عَتِيدٌْ ) (١) ؟قال فتنفس ابوعبد اللّٰه الصعداء ثم بکی و قال:یااسحق ،انّ اللّٰه تعالیٰ انماامرالملائکة ان تعتزل المومنين اذا التقيااجلالاً لهما،وان کانت الملائکة لاتکتب لفظهما،ولاتعرف کلاهما،فانه یعرفه ویحفظه عليهماعالم السر واخفیٰ( ٢)

“بيشک جب مومنين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں اور مصافحہ کرتے ہيں توان دونوں کو رحمت گهير ليتی ہے جب وہ بے لوث انداز ميں ایک دو سرے سے چمٹ جاتے ہيں تو ان سے کہا جاتا

____________________

١)سورہ ق آیت/ ١٨ ۔ )

٢)معالم الزلفیٰ للمحدث البحرانی صفحہ / ٣۴ ۔ )

۷۰

ہے کہ تمہارے سب گنا ہ بخش دئے گئے لہٰذا اب شروع سے نيک عمل انجام دو ،جب وہ ایک دو سرے سے کچه چيز دریافت کرنے کی جا نب بڑهتے ہيں تو فرشتے ایک دو سرے سے کہتے ہيں ان دونوں سے دور ہو جاؤ کيونکہ یہ راز کی بات کر رہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ۔

اسحاق کا کہنا ہے کہ ميں نے آپ کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو کيا ان دو نوں کے الفاظ لکھے جاتے ہيں جبکہ خداوند عالم فر ماتا ہے مو من جوبهی بات کرتا ہے اس کے پاس ایک نگراں فرشتہ مو جود ہوتا ہے اس وقت حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فر مایا :اے اسحاق خداوند عالم نے فرشتوں کو مو منين سے ان کے ملاقات کے وقت جدا رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ ان مو منين کی تعظيم کرسکے اور فرشتے اگر چہ ان کے الفاظ نہيں لکهتے اور ان کے کلا م کو نہيں پہچانتے ليکن خداوند عالم تو پہچانتا ہی ہے جو راز اور مخفی باتوں کا جاننے والا ہے ”

۷۱

مومنين کے ساته ملاوٹ کرنے سے الله کاغضب نازل ہوتا ہے

اس موضوع سے جو چيز متعلق ہو تی ہے اور دعا وصاحب دعا کے درميان حائل ہو تی ہے وہ مومنين کيلئے فریب ودهو کہ کا مخفی رکهنا ہے ۔ حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

من بات وفی قلبه غش لاخيه المسلم بات فی سخط اللّٰه ،واصبح کذلک وهوفی سخط اللّٰه حتّیٰ یتوب ویرجع،واین مات کذلک مات علی غيردین الاسلام ( ١)

“جو ساری رات عبادت ميں بسر کرے اور وہ اپنے دل ميں ایسا اردہ کرے جس کے ذریعہ مومن بهائی فریب کها جائيں تو وہ پوری رات الله کے غضب و ناراضگی ميں بسر کرتا ہے اور یہی اس

____________________

١)الوسائل جلد ٢۵ صفحہ ٢٠۴ ۔ )

۷۲

کے بعد والے دن کا حال ہے یعنی الله کے غضب ميں پورا دن گزارتا ہے یہاں تک کہ وہ الله سے توبہ کرے اور اپنی اصلی حالت پر آجا ئے اور اگر وہ اسی کينہ و بغض کی حالت ميں مر جائے تو وہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا ”

مومنين سے سو ء ظن قبوليت عمل کی راہ ميں رکاوٹ

جس طرح سے باطن ميں برائی چهپائے رکهنے کی وجہ سے عمل خداوند عالم تک نہيں پہنچتاہے

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقبل اللّٰه من مومن عملاًوهومضمرعلیٰ اخيه المومن سوء اً “الله تبار ک وتعالیٰ اس مومن کے عمل کو قبول نہيں کرتا جو اپنے مومن بهائی سے اپنے دل ميں برائی رکهے ہوئے ہو ” خداوندعالم مومنين سے بغض رکهنے والوں پر اپنا کر م نہيں فرماتا حضرت امير المو منين عليہ السلام حضرت رسول خدا (ص)سے نقل فرما تے ہيں :

شرارالناس مَن یبغض المومنين وتبغضه قلوبهم،المشّاوون بالنميمة المفرقون بين الاحبة،اُولئک لاینظراللّٰه اليهم،ولایزکّيهم یوم القيامة ( ١)

“لوگوں ميں سب سے شریر لوگ وہ ہيں جو اپنے مو من برادرا ن سے بغض رکهتے ہيں اور مسلسل چغلی کرتے رہتے ہيں دوستوں کے درميان تفرقہ ڈالتے ہيںخداوند عالم قيامت کے دن ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہيں دیکهے گا ”۔

____________________

١)وسائل جلد ٢۵ صفحہ / ٢٠۴ ۔ )

۷۳

اہل بيت عليہم السلام کی دعاؤں ميں حبّ خدا الله سے لو لگا نا

قُل اِن کَانَ آبَاءُ کُم وَاَبنَْاوکُم وَاِخوَْانُکُم وَاَزوَْاجُکُم وَعَشِيرَْتُکُم وَاَموَْالٌ اقتَْرَفتُْمُوهَْاوَتِجَارَةً تَخشَْونَْ کَ سٰادَ هٰاوَمَ سٰاکِنَ تَرضَْونَْ هٰااَحَبُّ اِلَيکُْم مِنَ الله وَرَسُولِْهِ وجِ هٰادٍ (فِی سَبِيلِْهِ فَتَرَبَّصُواْحَتّ یٰ یَاتِیَ الله بِامرِْهِ وَالله یٰ لاَهدِْی القَْومَْ الفَْاسِقِينَْ ( ١)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا ،اولاد ،برادرن ،ازواج ،عشيرہ وقبيلہ اور وہ اموال حنهيں تم نے جمع کيا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنهيں پسند کرتے ہو تمہاری نگا ہ ميں الله ،اس کے رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے زیادہ محبوب ہيں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الٰہی آجا ئے اور الله فاسق قوم کی ہدایت نہيں کرتا ہے ”

صحيح صورت ميںخداوندعالم سے ایک دوسرے سے ہما ہنگ اور تمام سازگار عناصر کے ذریعہ ہی لولگا ئی جاسکتی ہے اوریہی چند چيزیں مجمو عی طور پر الله سے لولگا نے کے صحيح طریقہ معين کرتی ہيں ۔

اسلامی روایات ميں ایک ہی عنصر جيسے خوف یا رجاء (اميد )یا محبت یا خشوع کی بنياد پر الله سے لولگا نے کو منع کيا گيا ہے ۔جو عناصر خداوندعالم سے مجموعی اور وسيعی طور پر رابطہ کو تشکيل دیتے ہيں

____________________

١)سورئہ توبہ آیت/ ٢۴ ۔ )

۷۴

ان کا آیات، روایات اور دعاؤں ميں تفصيلی طور پر ذکر کيا گيا ہے جيسے اميد، خوف، تضرع، خشوع، تذلل، ترس،محبت، شوق، اُنس، انا بہ، ایک دوسرے سے کنارہ کشی، استغفار، استعاذ ہ، استرحام، انقطاع، تمجيد، حمد، رغبت رهبت، طاعت ،عبودیت، ذکر،فقراور اعتصام ہيں ۔

حضرت امام زین العا بدین بن حسين عليہ السلام سے دعا ميں وارد ہو اہے :اللهم اني اسالک انْ تملا قلبی حباًوخشيةمنک وتصدیقاًلک وایمانابک وفرقاًمنک وشوقاً اليک ( ١)

“پرور دگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں دست بہ دعا ہوں کہ ميرے دل کو اپنی محبت سے لبریز فر مادے ،ميں تجه سے خوف کها ؤں ،تيری تصدیق کروں ،تجه پر ایمان رکهوں اور تجه سے فرق کروں اور تيری طرف شوق سے رغبت کروں ” ان تمام عناصرکے ذریعہ خداوندعالم سے خاص طریقہ سے لو لگا ئی جاتی ہے اور ان عنصروں ميں سے ہر عنصر الله کی رحمت اور معرفت کے ابواب ميں سے ہر باب کيلئے ایک کنجی ہے ۔

استر حام الله کی رحمت کی کنجی ہے اور استغفار مغفرت کی کنجی ہے ۔

ان عنصروں ميں سے ہر عنصر بذات خود الله سے لولگا نے کا ایک طریقہ ہے شوق محبت اور انسيت اللهتک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے ،خوف اور رهبت اللهتک پہنچنے کا دوسرا طریقہ ہے خشوع اللهتک پہنچنے کاتيسرا طریقہ ہے ۔دعا اور تمنا اللهتک رسائی کا ایک اورطریقہ ہے ۔

انسان کيلئے الله تک رسائی کی خاطر مختلف طریقوں سے حرکت کرنا ضروری ہے اس کو ایک ہی طریقہ پر اکتفا ء نہيں کرنا چاہئے کيو نکہ ہر طریقہ کا ایک خاص ذوق کمال اور ثمر ہوتا ہے جو دوسرے طریقہ ميں نہيں پایاجاتاہے ۔

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٩٢ ۔ )

۷۵

اس بنياد پر اسلام اللهتک رسائی کے متعدد طریقوں کو بيان کرتاہے یہ ایک وسيع بحث ہے جس کو ہم اِس وقت بيان کر نے سے قاصر ہيں ۔

الله کی محبت

الله تعالیٰ کی محبت ان تمام عناصر سے افضل اور قوی ترہے ،یہ انسان کو الله سے لولگا نے کيلئے آمادہ کرتی ہے اور الله سے اس کے رابطہ کو محکم ومضبوط کرتی ہے ۔

محبت کے علاوہ کسی اور طریقہ ميں اتنا محکم اور بليغ رابطہ خدا اور بندے کے درميان نہيں پایا جاتا ہے خدا وند عالم سے یہ رابطہ اسلامی روایات ميں بيان ہوا

ہے جن ميں سے ہم بعض روایات کا تذکرہ کررہے ہيں :

روایات ميں آیا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤ دکی طرف وحی کی :یاداود ذکري للذاکرین وجنتي للمطيعين وحبي للمشتاقين وانا خاصة للمحبين ( ١)

“اے داود ذاکرین کےلئے ميرا ذکر کرو ،ميری جنت اطاعت کرنے والوں کےلئے ہے اور ميری محبت مشتاقين کےلئے ہے اور ميں محبت کرنے والوں کےلئے مخصوص ہوں ”

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :الحبّ افضل من الخوف

“محبت ،خوف سے افضل ہے ”( ٢)

محمد بن یعقوب کلينی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

العبّاد ثلا ثة:قوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ خوفاًفتلک عبادة العبيد،وقوم

____________________

١)بحا الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٧٨ ۔صفحہ ٢٢۶ ۔ )

۷۶

عبدوا اللّٰه تبارک وتعالیٰ طلب الثواب،فتلک عبادة التجار،وقوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ (حبّاً،فتلک عبادةالاحرار،وهي افضل عبادة ( ١)

“عبادت تين طرح سے کی جاتی ہے یا عبادت کرنے والے تين طریقہ سے عبادت کر تے ہيں ایک قوم نے الله کے خوف سے عبادت کی جس کو غلاموں کی عبادت کہاجاتا ہے ،ایک قوم نے اللهتبارک وتعا لیٰ کی طلب ثواب کی خاطر عبادت کی جس کو تاجروں کی عبادت کہاجاتا ہے اور ایک قوم نے اللهعزوجل سے محبت کی خاطر عبادت کی جس کو احرار(آزاد لوگوں) کی عبادت کہاجاتاہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے”۔

جناب کلينی نے رسول اسلام (ص)سے نقل کيا ہے :

افضل الناس مَن عشق العبادة،فعانقها،واحبّهابقلبه،وباشرهابجسده، وتفرّغ لها،فهولایبالي علیٰ مااصبح من الدنيا علی عسرام یسر ( ٢)

“لوگوں ميں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کرتے ہوئے اس سے معانقہ کيا ،اس کو اپنے دل سے دوست رکهااور اپنے اعضاء و جوارح سے اس سے وابستہ رہے ، اس کو پرواہ نہيں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی سے گزرے گا یا غم کے ساته گذرے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

نجویٰ العارفين تدورعلیٰ ثلاثة اصول:الخوف،والرجاء والحبّ فالخوف فرع العلم،والرجاء فرع اليقين،والحبّ فرع المعرفة فدليل الخوف الهرب،ودليل الرجاء الطلب،ودليل الحبّ ایثارالمحبوب،علیٰ

____________________

١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٨۴ ۔ )

٢) اصول کافی جلد ٢صفحہ ٢٨٣ ۔ )

۷۷

ماسواه فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف هرب،واذاهرب نجاواذا اشرق نوراليقين فی القلب شاهد الفضل واذاتمکن من رویة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد واذا تجلّیٰ ضياء المعرفة فی الفواد هاج ریح المحبة،واذاهاج ریح المحبة استانس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواه،وباشر اوامره ومثال هذه الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم امن من الخلق،ومن دخل المسجد امنت جوارحه ان یستعملهافيالمعصية،ومَن دخل الکعبة امن قلبه من ان یشغله بغيرذکراللّٰه( ١)

“عارفوں کی مناجات تين اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،اميد اور محبت ۔خوف علم کی شاخ ہے ،اميد یقين کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے خوف کی دليل ہر ب (فرار اختيار کرنا) ہے ،اميد کی دليل طلب ہے اور محبت کی دليل محبوب کو دوسروں پر تر جيح دینا ہے ،جب سينہ ميں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف ہوتا ہے اور جب صحيح طریقہ سے خوف پيداہوتاہے توفراروجود ميں اتاہے اورجب فراروجودميں اجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل ميں یقين کا نور چمک اڻهتا ہے تو عارف انسان فضل کا مشا ہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکه ليتا ہے تو اميد وار ہو جاتا ہے ،جب اميد کی شرینی محسوس کر ليتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب طلب کی تو فيق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرليتا ہے ،جب دل ميں معرفت کی ضياء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ ميں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے علاوہ انسان ہر چيز سے لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع فرمان ہو جاتا ہے ۔ان تين اصول کی مثال حرم

____________________

١)مصباح الشریعہ صفحہ ٢۔ ٣۔ )

۷۸

مسجداور کعبہ جيسی ہے جو حرم ميں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو جاتا ہے ،جو مسجد ميں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصيت ميں استعمال ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہيں جو کعبہ ميں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا کے علا وہ کسی اور چيز ميں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ”

حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے:

بکی شعيب من حبّ الله عزّوجلّ حتّیٰ عمي اوحیٰ الله اليه: یاشعيب،ان یکن هذاخوفاًمن النار،فقداجرتک،وان یکن شوقاالی الجنة فقد ابحتک فقال:الهي وسيدي،انت تعلم انی مابکيت خوفامن نارک،ولاشوقاالی جنتک،ولکن عقدحبک علی قلبی،فلست اصبرا واراک،فاوحی الله جلّ جلاله اليه:امااذاکان هذاهکذافمن اجل هذاساخدمک کليمي موسی بن عمران( ١)

“ الله سے محبت کی وجہ سے گریہ کرتے کرتے حضرت شعيب عليہ السلام کی آنکهوں سے نور چلا گيا ۔تو اللهنے حضرت شعيب عليہ السلام پر وحی کی :اے شعيب اگر یہ گریہ وزار ی دوزخ کے خوف سے ہے تو ميں نے تم کو اجردیا اور اگر جنت کے شوق کی وجہ سے ہے تو ميں نے تمہارے لئے جنت کو مباح کيا ۔

جناب شعيب عليہ السلام نے عرض کيا :اے ميرے الله اور اے ميرے سيد وسردار تو جانتا ہے کہ ميں نہ تو دوزخ کے خوف سے گریہ کررہاہوں اور نہ جنت کے شوق ولالچ ميں ليکن ميرے دل ميں تيری محبت ہے اللهنے وحی کی اے شعيب! اگر ایسا ہے تو ميں عنقریب تمہاری خدمت کيلئے اپنے کليم موسیٰ بن عمران کو بهيجو ں گا ”

حضرت ادریس عليہ السلام کے صحيفہ ميں آیا ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ١٢ صفحہ ٣٨٠ ۔ )

۷۹

طوبیٰ لقوم عبدوني حبّاً،واتخذوني الٰهاًوربّاً،سهرواالليل،ودابواالنهار طلباًلوجهي من غيررهبة ولارغبة،ولالنار،ولاجنّة،بل للمحبّة الصحيحة،والارادة الصریحة والانقطاع عن الکل اليَّ ( ١)

“اس قوم کيلئے بشارت ہے جس نے مير ی محبت ميں مير ی عبادت کی ہے ،وہ راتوں کو جا گتے ہيں اور دن ميں بغير کسی رغبت اور خوف کے ، نہ ان کو دوزخ کا خوف ہے اور نہ جنت کا لالچ ہے بلکہ صحيح محبت اور پاک وصاف اراد ہ اور ہر چيز سے بے نياز ہو کر مجه سے لولگا تے ہيں ۔

اور دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں :عميت عين لاتراک عليهارقيباًوخسرت صفقةعبدلم تجعل له من حبّک نصيباً (٢)

“وہ آنکه اندهی ہے جوخود پر تجه کونگران نہ سمجھے ،اور اس انسان کا معاملہ گهاڻے ميں ہے جس کےلئے تو اپنی محبت کا حصہ نہ قرار دے ”

ایمان اور محبت

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے بيشک ایمان محبت ہے ۔ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے :الایمان حبّ وبغض “ایمان محبت اور بغض ہے ”(٣ )

فضيل بن یسار سے مروی ہے :

____________________

١)بحار الا نوار جلد ٩۵ صفحہ ۴۶٧ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )

٣)بحار الانو ار جلد ٧٨ صفحہ / ١٧۵ ۔ )

۸۰