دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68445 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

با دشاہت وسيع ہے ،ا س کے خزانے ختم ہو نے والے نہيں ہيں ،اس کے ملک کی کو ئی حد نہيں ہے اور انسان کے الله سے ہر چيز کا سوال کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے ہاں، یہ تمنا و آرزو کرسکتا ہے کہ خدا اس کو دوسروں سے بہتر رزق عطا فر ما ئے ۔دعا ميں وارد ہوا ہے :

اللهم آثرنیْ ولاتوثرعليّ احداً

“خدایا مجه کو منتخب فرما مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”وَاجعَْلنِْي مِن اَفضَْلِ عِبَادِکَ نَصِيبْاًعِندَْک،ْوَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ

“اور مجھے ان بندوں ميں قرار دے جو حصہ پانے ميں تيرے نزدیک سب سے اچهے ہوں اور تيرے قرب ميں بڑی منزلت رکهتے ہوں ”

ا ن تمام چيزوں کے خدا وند عالم سے ما نگنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور الله بهی ان تمام چيزوں کو دو ست رکهتا ہے ،اور ہما رے پرور دگار کو اس چيز کا ارادہ کرنے کی ضرورت نہيں ہے کہ جب وہ اپنے کسی بندہ کو کو ئی نعمت عطا کر نے کا ارادہ کرے تو وہ اس بندہ سے چهين کر کسی دو سرے بندہ کو عطا کردے ۔

عبدالرحمان بن ابی نجران سے مروی ہے کہ :حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے الله کے اس قول( وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ الله بِهِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ ) (١) “اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے ”کے سلسلہ ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:

لایتمنی الرجل امراة الرجل ولاابنته ولکن یتمنّی مثلها ( ٢)

“انسان کو کسی کی عورت یا اس کی بيڻی کی تمنا نہيں کرنی چا ہئے بلکہ اسکے مثل کی تمنا کرناچا ہئے ’

____________________

١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)تفسير عياشی صفحہ ٢٣٩ ۔ )

۶۱

۴ ۔مصلحت کے خلاف دعا کرنا

انسان کا اپنی مصلحت کے خلاف دعا کرنا سزاوار نہيں ہے ،جب انسان دعا کے نفع اور نقصان سے جاہل ہوتا ہے ليکن الله اس کو جانتا ہے خدا وند عالم دعا کو کسی دوسری نعمت کے ذریعہ مستجاب کرتا ہے یا بلا دور کردیتا ہے یا جب تک اس دعا ميں نفع دیکها ہے اس کے مستجاب کرنے ميں تا خير کردیتا ہے ،دعا افتتاح ميں وارد ہوا ہے:

ا سالُکَ مُستَْانِساً لَاخَائِفاًوَلَاوَجِلاً ،مُدِلّاًعَلَيکَْ فِيمَْاقَصَدتُْ فِيهِْ اِلَيکَْ ،فَاِن اَبطَْاعَنِّي عَتَبتَْ بِجَهلِْي عَلَيکَْ، وَلَعَلَّ الَّذِي اَبطَْاعَنِّی هُوَخَيرٌْلِي لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَة الاُْمُورِْ فَلَم ارِمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرُعَل یٰ عَبدٍْ لَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ یَارَبِّ

“اور انس و رغبت کے ساته بلا خوف وخطر اور ہيبت کے تجه سے سوال کرتا ہوں جس کا بهی ميں نے تيری جانب ارادہ کيا ہے اگر تو نے ميری حا جت کے پورا کرنے ميں دیر کی تو جہالت سے ميں نے عتاب کيا اور شاید کہ جس کی تا خير کی ہے وہ ميرے لئے بہتر ہو کيو نکہ تو امور کے انجام کاجا ننے والا ہے ميں نے نہيں دیکها کسی کریم مالک کو جولئيم بندہ پر تجه سے زیادہ صبر کرنے والا ہو ” دعا ميں اس طرح کے حالات ميں انسان کو الله سے دعا کر نا چاہئے اپنے تمام امور اسکے حوا لہ کردینا چاہئے ،جب بندہ اپنی دعا کے قبول ہو نے ميں دیر دیکهے یا اسکی دعا مستجاب نہ ہو رہی ہو تو اسے الله سے ناراض نہيں ہو نا چا ہئے ليکن کبهی کبهی انسان خدا وند عالم سے ان چيزو ں کا سوال کرتا ہے جو اس کےلئے مضر ہو تی ہيں ،کبهی کبهی وہ خير طلب کرنے کی طرح شر(برائی ) طلب کرتا ہے اور اپنے لئے نقصان دہ چيزوں کےلئے جلدی کيا کرتا ہے ۔

خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (١)

____________________

١)اسرا آیت/ ١١ ۔ )

۶۲

“اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

حضرت صالح عليہ السلام نے اپنی قوم سے مخا طب ہو کر فرمایا :قَالَ یَاقَومِْ لِمَ تَستَْعجِْلُونَْ بِالسَّيِّئَةِ قَبلَْ الحَْسَنَةِ ( ١)

“صالح نے کہا کہ قوم والو آخر بهلا ئی سے پہلے برا ئی کی جلدی کيوں کر رہے ہو ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : اپنی نجات کے راستوں کو پہچانو کہ کہيں تم اس ميں وہ دعا نہ کر بيڻهو جو تمہاری ہلا کت کا باعث بن جا ئےں اور تم اس کو اپنے لئے نجات کا باعث سمجهتے رہو خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (٢) “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

۵ ۔فتنہ سے پنا ہ مانگنا

فتنہ سے پناہ مانگنا صحيح نہيں ہے چو نکہ انسان کی زوجہ ،اولاد اور اس کا مال فتنہ ہيں اور نہ ہی انسان کا اپنے اہل و عيال اور ما ل کے لئے الله کی پناہ ما نگنا صحيح ہے ليکن انسان کا گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ چا ہنا صحيح ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقولَنّ احدکم:اللهم انّي اعوذ بک من الفتنة؛لانّه ليس من احد إلاٰ

____________________

١)سورئہ نمل آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٢ ؛سورئہ اسر ١آیت/ ١١ ۔ )

۶۳

وهومشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فليستعذمن مضلاّت الفتن؛فانّ الله یقو ل :( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ١)

“تم ميں سے کو ئی ایک بهی یہ نہ کہے کہ ميں فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں چونکہ تم ميں سے ہر ایک فتنہ گرہے ليکن تم فتنوں کی گمراہی سے پناہ مانگواور خداوند عالم اس سلسلہ ميں فرماتا ہے :

“اور جان لو !کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہيں ” ابو الحسن الثالث عليہ السلام نے اپنے آبا ؤو اجد اد عليہم السلام سے نقل کيا ہے :ہم نے امير المو منين عليہ السلام سے ایک شخص کو یہ کہتے سُنا :

اللهم اِنِّی اَعُوذُْبِکَ مِنَ الفِْتنَْةِ

“اے پروردگار ميں تجه سے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ” امام عليہ السلام نے فرما یا :ميں یہ دیکهتا ہوں کہ تم اپنے مال اپنی اولاد سے پناہ ما نگ رہے ہو چونکہ خداوندعالم فرما تا ہے :

( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ٣)

“تمہا رے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہيں ” ليکن یہ کہو :

اللهم انّي اعوذ بک من مضلاّت الفتن ( ۴)

“اے پروردگار ميں تجه سے گمراہ کر نے والے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ”

____________________

١)سورئہ انفال آیت/ ٢٨ ۔ )

٢)نہج البلاغہ القسم الثانی : ١۶٢ ۔ )

٣)سورئہ تغا بن آیت/ ١۵ ۔ )

۴)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ/ ١٩٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )

۶۴

۶ ۔مومنين کے لئے بد دعا کر نا

دعا کی اہميت اور اس کی غرض و غایت ميں سے ایک چيز مسلمان خاندانوں کے مابين را بطہ کا محکم کرنا اور ان کے درميا ن سے غلط فہميوں اورجهگڑوں کو دور کرنا ہے جو عام طور سے دنياوی زندگی ميں مزاحمت کا سبب ہو تے ہيں ،غائب شخص کےلئے دعا کرنا اس رابطہ کا سب سے بہترین سبب ہے جو زندگی کے مائل ہو نے کو پيش کرتا ہے ،البتہ اس کے برعکس ایسے حالات جو تعلقات ميں منفی صورت حال پيداکرتے ہيں ان حالات ميں پروردگار عالم دعا کرنے کو دوست نہيں رکهتا ہے ۔

خدا وندعالم مومنين کے ایک دوسرے کی موجودگی ميں دعا کرنے دعا کے ذریعہ ایک ایک دوسرے پر ایثار و فدا کاری کرنے اور دعا کرنے والے کے دوسرے کی حاجتوں اور ان کے اسماء کو اپنے نفس پر مقدم کرنے کو دوست رکهتا ہے ۔

خدا وند عالم دعا ميں اپنے دوسرے بهائی کی نعمتوں کے زائل وختم ہو نے کی دعا کرنے کو پسند نہيں کرتا ہے ،جيسا کہ ہم ابهی بيان کرچکے ہيں ۔

اور نہ ہی خدا وند عالم دعا ميں کسی انسان کے اپنے مومن بهائی کے خلاف دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ، اگر چہ اس نے اس کو تکليف یا اس پر ظلم ہی کيوں نہ کيا ہو اگر وہ اس کا ایمانی بهائی ہو اور ظلم کرکے ایمانی برادری کے دائرہ سے خارج نہ ہوا ہو )اور نہ ہی خدا وند عالم اس چيز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کو برا ئی کے ساته یا دکریں ۔

دعوات را وندی ميں ہے کہ توریت ميں آیا ہے کہ خدا وند عالم اپنے بندے سے فرماتاہے:

۶۵

انّک متیٰ ظلمت تدعوني علیٰ عبد من عبيدي من اجل انّه ظلمک فلک من عبيدي من یدعوعليک من اجل انّک ظلمته فان شئت اجبتک و اجبته منک،وان شئت اخرتکما الیٰ یوم القيامة ( ١)

“خداوند عالم اپنے بندہ سے خطاب کرتا ہے کہ جب تجه پر ظلم کيا جاتا ہے تو تو اس ظلم کی وجہ سے اس کے خلاف بد دعا کرتاہے تو تجهے یہ بهی معلوم ہونا چاہئے کہ کچه بندے ایسے بهی ہيں کہ جن پر تم نے ظلم کيا ہے اور وہ تيرے لئے بددعا کرتے ہيں تو اگر ميری مرضی ہو تی ہے تو ميں تيری دعا قبول کرليتا ہوں اور اس بندے کی دعابهی تيرے حق ميں قبول کرليتا ہوں ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :اذا ظلم الرجل فظلّ یدعوعلیٰ صاحبه،قال اللّٰه عزّوجلّ:انّ ها هناآخر یدعو عليک یزعم انّک ظلمته،فان شئت اجبتک واجبت عليک وان شئت اخّرتکما فيوسعکماعفوي ( ٢)

“جب کو ئی انسان پر ظلم کرتا ہے اور وہ بد دعا کرتا ہے تو خداوند عالم فر ماتا ہے کہ کل جب تم کسی پر ظلم کروگے تو وہ تمہارے لئے بد دعا کرے گا پس اگر چا ہو تو ميں دونوں کی بد دعا قبول کرلونگا اور اگر چاہو تو ميں اس کو قيامت تک کےلئے ڻال دونگا ”

ہشام بن سالم سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے :

انّ العبد ليکون مظلوما فلایزال یدعوحتّیٰ یکون ظالماً (٣) “جب کو ئی مظلوم بد دعا کرتا ہے تو وہ ظالم ہو جاتا ہے ” حضرت علی بن الحسين عليہ السلام سے مروی ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۶ ۔ )

٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ / ١١٧٧ ،حدیث ٨٩٧٢ ؛امالی الصدوق صفحہ / ١٩١ ۔ )

٣)اصول کا فی صفحہ ۴٣٨ ؛عقاب الاعمال صفحہ ۴١ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ) ١١۶۴ ،حدیث ٨٩٢۶ ۔

۶۶

ان الملائکة اذاسمعواالمومن یذکراخاه بسوء ویدعوعليه قالوا له:بئس الاخ انت لاخيک کفّ ایّهاالمستّرعلیٰ ذنوبه وعورته،واربع علیٰ نفسک،و احمداللّٰه الَّذي سترعليک،واعلم اَّن اللّٰه عزّوجلّ اعلم بعبده منک ( ١)

“جب ملا ئکہ سنتے ہيں کہ مو من اپنے کسی بها ئی کی برا ئی اور اس کےلئے بد دعا کر رہا ہے تو کہتے ہيں کہ تو بہت برا بها ئی ہے اے وہ شخص جس کے گناہ کی خداوند عالم نے پردہ پو شی کر رکهی ہے تو اپنی زبان کو قابو ميں رکه اس خدا کی تعریف کر جس نے تيرے گناہ کی پردہ پوشی کی ہے اور تجهے معلوم ہونا چا ہئے کہ خداوند عالم کو تيرے مقابلہ ميں اپنے بندے کے بارے ميں زیادہ علم ہے ”

بيشک الله تبارک وتعالےٰ“ السلام ”ہے ،سلام اسی کی طرف پلڻتا ہے ،ذات خدا سلا متی سے برخوردار ہے، سلامتی اسی کی طرف پلڻتی ہے ،سلا متی اسی کی جا نب سے ہے ،اس کا دربار، سلا متی کا دربار ہے ۔جب ہم سلام و سلا متی سے بهرے دلوں سے خداوند عالم کی با رگاہ ميں حا ضر ہو ں گے ، ایک دو سرے کيلئے دعا کریں گے ،اور ہم ميںسے بعض دو سرے بعض افراد کيلئے رحمت کا سوال کریں گے ،اور ہم ميں سے بعض کی دعائيں الله کی رحمت نازل ہو نے ميں مو ثر ہوں گی تو ہم پر جو الله کی رحمت نازل ہو گی وہ سب کو شامل ہو گی ،بيشک خداوند عالم کی رحمت محبت اور سلامتی کے مقامات پر نا زل ہو تی ہے ،جو قلوب مو منين سے محبت و مسالمت کرتے ہيں ،ہمارے اعمال ،نمازیں ،دعا ئيں ، اور قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلندہوتے ہيں کلم طيب(پاکيزہ کلمات ) اور کلم طيب (پاکيزہ کلمات ) سے زندہ قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہيں :اِلَيهِْ یَصعَْدُالکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعَهُ (٢)

____________________

١)اصول کا فی صفحہ ۵٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١۶۴ ،حدیث / ٨٩٢٧ ۔ )

٢)سورئہ فا طر آیت/ ١٠ ۔ )

۶۷

“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”

جب ہم الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ميں ایسے ڻيڑهے اورکينہ بهر ے دل جن ميں محبت وسلامتی نہ ہواُن کے ساته کهڑے ہو کر ایک دوسرے مومن کے خلاف دعا کریں گے تو ہم سے خدا کی تمام نعمتيں منقطع ہو جا ئينگی ،اور اس کا ئنات ميں خدا کی وسيع رحمت ہم پر نازل نہيں ہو گی ،اور ہمارے اعمال، نماز یں، دعائيں اور قلوب الله تک نہيں پہنچ پائيں گے ۔

بيشک محبت سے لبریز اور محبت سے زندہ دلوں کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہو تی ہے اور مو منين سے بلائيں اور عذاب دور ہو تا ہے اس کے برخلاف (مومنوں کے )مخالف اور دشمن دلوں کے ذریعہ ان سے الله کی رحمت دور ہو تی ہے اور ان کے لئے بلائيں اور عذاب کو نزدیک کرتی ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا ؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا سے نقل کيا ہے :

انّ اللّٰه تبارک وتعالیٰ إذا رای اهل قریة قد اسرفوا في المعاصي وفيهم ثلاثة نفرمن المومنين،ناداهم جلّ جلاله:یااهل معاصيتی،لولا فيکم من المومنين المتحاببين بجلا لي العامرین بصلاتهم ارضي ومساجدي المستغفرین بالاسحار خوفاً مني لانزلت بکم العذاب ( ١)

“بيشک جب الله تعالیٰ نے ایک قریہ کے لوگوں کو معصيت ميں زندگی بسر کرتے دیکها حالانکہ ان کے مابين صرف تين افراد مو من تھے تو پروردگار عالم کی طرف سے ندا آئی :اے گناہ کرنے والو!اگر تمہارے درميان محبت سے بهرے دل نہ ہو تے جو اپنی نمازوں کے ذریعہ ميری زمين کو آباد رکهتے ہيں اور مسجدوں ميںسحر کے وقت ميرے خوف کی وجہ سے استغفار کيا کرتے ہيںتو ميں تم پر عذاب نازل کردیتا ”

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٧۴ صفحہ ٣٩٠ ۔ )

۶۸

جميل بن دراج نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :مَن فضّل الرجل عند اللّٰه محبّته لاخوانه،ومن عرّفه اللّٰه محبّة اخوانه احبّه اللّٰه ومَن احبّه اللّٰه اوفاه اجره یوم القيامة ( ١)

“الله کے نزدیک وہ شخص با فضيلت ہے جو اپنے بها ئيوں سے محبت کرتا ہے اور جس کو خدا وند عالم اس کے بها ئيوں کی محبت سے آشنا کردیتا ہے اس کو دو ست رکهتا ہے اور جس کو دو ست رکهتا ہے اس کو قيامت کے دن پورا اجر دیگا ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

لاتزال امتی بخيرماتحابوا،وادّو الامانة،وآتواالزکاة،وسياتي علیٰ امتي زمان تخبث فيه سرائرهم،وتحسن فيه علانيتهم ان یعمّهم اللّٰه ببلاء فيدعونه دعاء الغریق فلایستجاب لهم ( ٢)

“ميری امت اس وقت تک نيک رہے گی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے رہيں ،امانت ادا کرتے رہيں ،زکات دیتے رہيں ،مير ی امت پر ایک ایسا زمانہ آئيگا جب ان کے باطن برے ہوں گے اور ان کا ظاہر اچها ہوگا اور اگر خدا وند عالم ان کو کسی مصيبت ميں مبتلا کرے گا اور وہ ڈوبتے شخص کے مثل بهی دعا ما نگيں گے تو بهی ان کی دعا قبول نہ ہو گی ”

محبت بهرے دلوں سے خداکی رحمت نازل ہو تی ہے

حضرت امام جعفر دق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ المومنين اذاالتقيا فتصافحا انزل اللّٰه تعالیٰ الرحمة عليهما،فکانت

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ/ ۴٨ ؛بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ٣٩٧ ۔ )

٢)عدة الداعی صفحہ ١٣۵ ،بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ۴٠٠ ۔ )

۶۹

تسعة وتسعين لاشدّهماحبّالصاحبه،فاذا تواقفاغمرتهماالرحمة،واذاقعدایتحدثان قالت الحفظة بعضهالبعض:اعتزلوا بنا فلعل لهماسرّا وقد ستراللّٰه عليهما

“بيشک جب مو منين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں مصافحہ کرتے ہيں تو خداوند عالم ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے ان ميں سے ننانوے رحمتيں اس شخص کيلئے ہيں جو ان ميں اپنے دوسرے بهائی سے زیادہ محبت رکهتا ہے اور جب ان ميں توافق ہو جاتا ہے تو دونوں کو رحمت خدا گهير ليتی ہے اور جب وہ دونوں گفتگو کرنے کيلئے بيڻهتے ہيں تو نا مہ اعمال لکهنے والے فرشتہ کہتے ہيں کہ ان دونوں سے دور ہو جاؤ چونکہ یہ راز کی باتيں کررہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ”

اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “انّ المو منين اذااعتنقاغمرتهماالرحمة فاذاالتزما لایریدان عرضاً من اعراض الدنياقيل لهما:مغفور لکما فاستانفا؛فاذااقبلا علی المساء لة قالت الملا ئکة بعضها لبعض:تنحّواعنهما؛فانّ لهماسرّا قد ستراللّٰه عليهما قال اسحق :فقلت:جعلت فداک،ویکتب عليهمالفظهماوقد قال اللّٰه تعالیٰ ( مَایَلفِْظُ مِن قَولٍْ اِلّالَدَیهِْ رَقِيبٌْ عَتِيدٌْ ) (١) ؟قال فتنفس ابوعبد اللّٰه الصعداء ثم بکی و قال:یااسحق ،انّ اللّٰه تعالیٰ انماامرالملائکة ان تعتزل المومنين اذا التقيااجلالاً لهما،وان کانت الملائکة لاتکتب لفظهما،ولاتعرف کلاهما،فانه یعرفه ویحفظه عليهماعالم السر واخفیٰ( ٢)

“بيشک جب مومنين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں اور مصافحہ کرتے ہيں توان دونوں کو رحمت گهير ليتی ہے جب وہ بے لوث انداز ميں ایک دو سرے سے چمٹ جاتے ہيں تو ان سے کہا جاتا

____________________

١)سورہ ق آیت/ ١٨ ۔ )

٢)معالم الزلفیٰ للمحدث البحرانی صفحہ / ٣۴ ۔ )

۷۰

ہے کہ تمہارے سب گنا ہ بخش دئے گئے لہٰذا اب شروع سے نيک عمل انجام دو ،جب وہ ایک دو سرے سے کچه چيز دریافت کرنے کی جا نب بڑهتے ہيں تو فرشتے ایک دو سرے سے کہتے ہيں ان دونوں سے دور ہو جاؤ کيونکہ یہ راز کی بات کر رہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ۔

اسحاق کا کہنا ہے کہ ميں نے آپ کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو کيا ان دو نوں کے الفاظ لکھے جاتے ہيں جبکہ خداوند عالم فر ماتا ہے مو من جوبهی بات کرتا ہے اس کے پاس ایک نگراں فرشتہ مو جود ہوتا ہے اس وقت حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فر مایا :اے اسحاق خداوند عالم نے فرشتوں کو مو منين سے ان کے ملاقات کے وقت جدا رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ ان مو منين کی تعظيم کرسکے اور فرشتے اگر چہ ان کے الفاظ نہيں لکهتے اور ان کے کلا م کو نہيں پہچانتے ليکن خداوند عالم تو پہچانتا ہی ہے جو راز اور مخفی باتوں کا جاننے والا ہے ”

۷۱

مومنين کے ساته ملاوٹ کرنے سے الله کاغضب نازل ہوتا ہے

اس موضوع سے جو چيز متعلق ہو تی ہے اور دعا وصاحب دعا کے درميان حائل ہو تی ہے وہ مومنين کيلئے فریب ودهو کہ کا مخفی رکهنا ہے ۔ حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

من بات وفی قلبه غش لاخيه المسلم بات فی سخط اللّٰه ،واصبح کذلک وهوفی سخط اللّٰه حتّیٰ یتوب ویرجع،واین مات کذلک مات علی غيردین الاسلام ( ١)

“جو ساری رات عبادت ميں بسر کرے اور وہ اپنے دل ميں ایسا اردہ کرے جس کے ذریعہ مومن بهائی فریب کها جائيں تو وہ پوری رات الله کے غضب و ناراضگی ميں بسر کرتا ہے اور یہی اس

____________________

١)الوسائل جلد ٢۵ صفحہ ٢٠۴ ۔ )

۷۲

کے بعد والے دن کا حال ہے یعنی الله کے غضب ميں پورا دن گزارتا ہے یہاں تک کہ وہ الله سے توبہ کرے اور اپنی اصلی حالت پر آجا ئے اور اگر وہ اسی کينہ و بغض کی حالت ميں مر جائے تو وہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا ”

مومنين سے سو ء ظن قبوليت عمل کی راہ ميں رکاوٹ

جس طرح سے باطن ميں برائی چهپائے رکهنے کی وجہ سے عمل خداوند عالم تک نہيں پہنچتاہے

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقبل اللّٰه من مومن عملاًوهومضمرعلیٰ اخيه المومن سوء اً “الله تبار ک وتعالیٰ اس مومن کے عمل کو قبول نہيں کرتا جو اپنے مومن بهائی سے اپنے دل ميں برائی رکهے ہوئے ہو ” خداوندعالم مومنين سے بغض رکهنے والوں پر اپنا کر م نہيں فرماتا حضرت امير المو منين عليہ السلام حضرت رسول خدا (ص)سے نقل فرما تے ہيں :

شرارالناس مَن یبغض المومنين وتبغضه قلوبهم،المشّاوون بالنميمة المفرقون بين الاحبة،اُولئک لاینظراللّٰه اليهم،ولایزکّيهم یوم القيامة ( ١)

“لوگوں ميں سب سے شریر لوگ وہ ہيں جو اپنے مو من برادرا ن سے بغض رکهتے ہيں اور مسلسل چغلی کرتے رہتے ہيں دوستوں کے درميان تفرقہ ڈالتے ہيںخداوند عالم قيامت کے دن ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہيں دیکهے گا ”۔

____________________

١)وسائل جلد ٢۵ صفحہ / ٢٠۴ ۔ )

۷۳

اہل بيت عليہم السلام کی دعاؤں ميں حبّ خدا الله سے لو لگا نا

قُل اِن کَانَ آبَاءُ کُم وَاَبنَْاوکُم وَاِخوَْانُکُم وَاَزوَْاجُکُم وَعَشِيرَْتُکُم وَاَموَْالٌ اقتَْرَفتُْمُوهَْاوَتِجَارَةً تَخشَْونَْ کَ سٰادَ هٰاوَمَ سٰاکِنَ تَرضَْونَْ هٰااَحَبُّ اِلَيکُْم مِنَ الله وَرَسُولِْهِ وجِ هٰادٍ (فِی سَبِيلِْهِ فَتَرَبَّصُواْحَتّ یٰ یَاتِیَ الله بِامرِْهِ وَالله یٰ لاَهدِْی القَْومَْ الفَْاسِقِينَْ ( ١)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا ،اولاد ،برادرن ،ازواج ،عشيرہ وقبيلہ اور وہ اموال حنهيں تم نے جمع کيا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنهيں پسند کرتے ہو تمہاری نگا ہ ميں الله ،اس کے رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے زیادہ محبوب ہيں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الٰہی آجا ئے اور الله فاسق قوم کی ہدایت نہيں کرتا ہے ”

صحيح صورت ميںخداوندعالم سے ایک دوسرے سے ہما ہنگ اور تمام سازگار عناصر کے ذریعہ ہی لولگا ئی جاسکتی ہے اوریہی چند چيزیں مجمو عی طور پر الله سے لولگا نے کے صحيح طریقہ معين کرتی ہيں ۔

اسلامی روایات ميں ایک ہی عنصر جيسے خوف یا رجاء (اميد )یا محبت یا خشوع کی بنياد پر الله سے لولگا نے کو منع کيا گيا ہے ۔جو عناصر خداوندعالم سے مجموعی اور وسيعی طور پر رابطہ کو تشکيل دیتے ہيں

____________________

١)سورئہ توبہ آیت/ ٢۴ ۔ )

۷۴

ان کا آیات، روایات اور دعاؤں ميں تفصيلی طور پر ذکر کيا گيا ہے جيسے اميد، خوف، تضرع، خشوع، تذلل، ترس،محبت، شوق، اُنس، انا بہ، ایک دوسرے سے کنارہ کشی، استغفار، استعاذ ہ، استرحام، انقطاع، تمجيد، حمد، رغبت رهبت، طاعت ،عبودیت، ذکر،فقراور اعتصام ہيں ۔

حضرت امام زین العا بدین بن حسين عليہ السلام سے دعا ميں وارد ہو اہے :اللهم اني اسالک انْ تملا قلبی حباًوخشيةمنک وتصدیقاًلک وایمانابک وفرقاًمنک وشوقاً اليک ( ١)

“پرور دگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں دست بہ دعا ہوں کہ ميرے دل کو اپنی محبت سے لبریز فر مادے ،ميں تجه سے خوف کها ؤں ،تيری تصدیق کروں ،تجه پر ایمان رکهوں اور تجه سے فرق کروں اور تيری طرف شوق سے رغبت کروں ” ان تمام عناصرکے ذریعہ خداوندعالم سے خاص طریقہ سے لو لگا ئی جاتی ہے اور ان عنصروں ميں سے ہر عنصر الله کی رحمت اور معرفت کے ابواب ميں سے ہر باب کيلئے ایک کنجی ہے ۔

استر حام الله کی رحمت کی کنجی ہے اور استغفار مغفرت کی کنجی ہے ۔

ان عنصروں ميں سے ہر عنصر بذات خود الله سے لولگا نے کا ایک طریقہ ہے شوق محبت اور انسيت اللهتک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے ،خوف اور رهبت اللهتک پہنچنے کا دوسرا طریقہ ہے خشوع اللهتک پہنچنے کاتيسرا طریقہ ہے ۔دعا اور تمنا اللهتک رسائی کا ایک اورطریقہ ہے ۔

انسان کيلئے الله تک رسائی کی خاطر مختلف طریقوں سے حرکت کرنا ضروری ہے اس کو ایک ہی طریقہ پر اکتفا ء نہيں کرنا چاہئے کيو نکہ ہر طریقہ کا ایک خاص ذوق کمال اور ثمر ہوتا ہے جو دوسرے طریقہ ميں نہيں پایاجاتاہے ۔

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٩٢ ۔ )

۷۵

اس بنياد پر اسلام اللهتک رسائی کے متعدد طریقوں کو بيان کرتاہے یہ ایک وسيع بحث ہے جس کو ہم اِس وقت بيان کر نے سے قاصر ہيں ۔

الله کی محبت

الله تعالیٰ کی محبت ان تمام عناصر سے افضل اور قوی ترہے ،یہ انسان کو الله سے لولگا نے کيلئے آمادہ کرتی ہے اور الله سے اس کے رابطہ کو محکم ومضبوط کرتی ہے ۔

محبت کے علاوہ کسی اور طریقہ ميں اتنا محکم اور بليغ رابطہ خدا اور بندے کے درميان نہيں پایا جاتا ہے خدا وند عالم سے یہ رابطہ اسلامی روایات ميں بيان ہوا

ہے جن ميں سے ہم بعض روایات کا تذکرہ کررہے ہيں :

روایات ميں آیا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤ دکی طرف وحی کی :یاداود ذکري للذاکرین وجنتي للمطيعين وحبي للمشتاقين وانا خاصة للمحبين ( ١)

“اے داود ذاکرین کےلئے ميرا ذکر کرو ،ميری جنت اطاعت کرنے والوں کےلئے ہے اور ميری محبت مشتاقين کےلئے ہے اور ميں محبت کرنے والوں کےلئے مخصوص ہوں ”

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :الحبّ افضل من الخوف

“محبت ،خوف سے افضل ہے ”( ٢)

محمد بن یعقوب کلينی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

العبّاد ثلا ثة:قوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ خوفاًفتلک عبادة العبيد،وقوم

____________________

١)بحا الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٧٨ ۔صفحہ ٢٢۶ ۔ )

۷۶

عبدوا اللّٰه تبارک وتعالیٰ طلب الثواب،فتلک عبادة التجار،وقوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ (حبّاً،فتلک عبادةالاحرار،وهي افضل عبادة ( ١)

“عبادت تين طرح سے کی جاتی ہے یا عبادت کرنے والے تين طریقہ سے عبادت کر تے ہيں ایک قوم نے الله کے خوف سے عبادت کی جس کو غلاموں کی عبادت کہاجاتا ہے ،ایک قوم نے اللهتبارک وتعا لیٰ کی طلب ثواب کی خاطر عبادت کی جس کو تاجروں کی عبادت کہاجاتا ہے اور ایک قوم نے اللهعزوجل سے محبت کی خاطر عبادت کی جس کو احرار(آزاد لوگوں) کی عبادت کہاجاتاہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے”۔

جناب کلينی نے رسول اسلام (ص)سے نقل کيا ہے :

افضل الناس مَن عشق العبادة،فعانقها،واحبّهابقلبه،وباشرهابجسده، وتفرّغ لها،فهولایبالي علیٰ مااصبح من الدنيا علی عسرام یسر ( ٢)

“لوگوں ميں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کرتے ہوئے اس سے معانقہ کيا ،اس کو اپنے دل سے دوست رکهااور اپنے اعضاء و جوارح سے اس سے وابستہ رہے ، اس کو پرواہ نہيں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی سے گزرے گا یا غم کے ساته گذرے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

نجویٰ العارفين تدورعلیٰ ثلاثة اصول:الخوف،والرجاء والحبّ فالخوف فرع العلم،والرجاء فرع اليقين،والحبّ فرع المعرفة فدليل الخوف الهرب،ودليل الرجاء الطلب،ودليل الحبّ ایثارالمحبوب،علیٰ

____________________

١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٨۴ ۔ )

٢) اصول کافی جلد ٢صفحہ ٢٨٣ ۔ )

۷۷

ماسواه فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف هرب،واذاهرب نجاواذا اشرق نوراليقين فی القلب شاهد الفضل واذاتمکن من رویة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد واذا تجلّیٰ ضياء المعرفة فی الفواد هاج ریح المحبة،واذاهاج ریح المحبة استانس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواه،وباشر اوامره ومثال هذه الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم امن من الخلق،ومن دخل المسجد امنت جوارحه ان یستعملهافيالمعصية،ومَن دخل الکعبة امن قلبه من ان یشغله بغيرذکراللّٰه( ١)

“عارفوں کی مناجات تين اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،اميد اور محبت ۔خوف علم کی شاخ ہے ،اميد یقين کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے خوف کی دليل ہر ب (فرار اختيار کرنا) ہے ،اميد کی دليل طلب ہے اور محبت کی دليل محبوب کو دوسروں پر تر جيح دینا ہے ،جب سينہ ميں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف ہوتا ہے اور جب صحيح طریقہ سے خوف پيداہوتاہے توفراروجود ميں اتاہے اورجب فراروجودميں اجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل ميں یقين کا نور چمک اڻهتا ہے تو عارف انسان فضل کا مشا ہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکه ليتا ہے تو اميد وار ہو جاتا ہے ،جب اميد کی شرینی محسوس کر ليتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب طلب کی تو فيق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرليتا ہے ،جب دل ميں معرفت کی ضياء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ ميں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے علاوہ انسان ہر چيز سے لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع فرمان ہو جاتا ہے ۔ان تين اصول کی مثال حرم

____________________

١)مصباح الشریعہ صفحہ ٢۔ ٣۔ )

۷۸

مسجداور کعبہ جيسی ہے جو حرم ميں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو جاتا ہے ،جو مسجد ميں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصيت ميں استعمال ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہيں جو کعبہ ميں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا کے علا وہ کسی اور چيز ميں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ”

حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے:

بکی شعيب من حبّ الله عزّوجلّ حتّیٰ عمي اوحیٰ الله اليه: یاشعيب،ان یکن هذاخوفاًمن النار،فقداجرتک،وان یکن شوقاالی الجنة فقد ابحتک فقال:الهي وسيدي،انت تعلم انی مابکيت خوفامن نارک،ولاشوقاالی جنتک،ولکن عقدحبک علی قلبی،فلست اصبرا واراک،فاوحی الله جلّ جلاله اليه:امااذاکان هذاهکذافمن اجل هذاساخدمک کليمي موسی بن عمران( ١)

“ الله سے محبت کی وجہ سے گریہ کرتے کرتے حضرت شعيب عليہ السلام کی آنکهوں سے نور چلا گيا ۔تو اللهنے حضرت شعيب عليہ السلام پر وحی کی :اے شعيب اگر یہ گریہ وزار ی دوزخ کے خوف سے ہے تو ميں نے تم کو اجردیا اور اگر جنت کے شوق کی وجہ سے ہے تو ميں نے تمہارے لئے جنت کو مباح کيا ۔

جناب شعيب عليہ السلام نے عرض کيا :اے ميرے الله اور اے ميرے سيد وسردار تو جانتا ہے کہ ميں نہ تو دوزخ کے خوف سے گریہ کررہاہوں اور نہ جنت کے شوق ولالچ ميں ليکن ميرے دل ميں تيری محبت ہے اللهنے وحی کی اے شعيب! اگر ایسا ہے تو ميں عنقریب تمہاری خدمت کيلئے اپنے کليم موسیٰ بن عمران کو بهيجو ں گا ”

حضرت ادریس عليہ السلام کے صحيفہ ميں آیا ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ١٢ صفحہ ٣٨٠ ۔ )

۷۹

طوبیٰ لقوم عبدوني حبّاً،واتخذوني الٰهاًوربّاً،سهرواالليل،ودابواالنهار طلباًلوجهي من غيررهبة ولارغبة،ولالنار،ولاجنّة،بل للمحبّة الصحيحة،والارادة الصریحة والانقطاع عن الکل اليَّ ( ١)

“اس قوم کيلئے بشارت ہے جس نے مير ی محبت ميں مير ی عبادت کی ہے ،وہ راتوں کو جا گتے ہيں اور دن ميں بغير کسی رغبت اور خوف کے ، نہ ان کو دوزخ کا خوف ہے اور نہ جنت کا لالچ ہے بلکہ صحيح محبت اور پاک وصاف اراد ہ اور ہر چيز سے بے نياز ہو کر مجه سے لولگا تے ہيں ۔

اور دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں :عميت عين لاتراک عليهارقيباًوخسرت صفقةعبدلم تجعل له من حبّک نصيباً (٢)

“وہ آنکه اندهی ہے جوخود پر تجه کونگران نہ سمجھے ،اور اس انسان کا معاملہ گهاڻے ميں ہے جس کےلئے تو اپنی محبت کا حصہ نہ قرار دے ”

ایمان اور محبت

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے بيشک ایمان محبت ہے ۔ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے :الایمان حبّ وبغض “ایمان محبت اور بغض ہے ”(٣ )

فضيل بن یسار سے مروی ہے :

____________________

١)بحار الا نوار جلد ٩۵ صفحہ ۴۶٧ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )

٣)بحار الانو ار جلد ٧٨ صفحہ / ١٧۵ ۔ )

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248