دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68433 / ڈاؤنلوڈ: 4047
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

با دشاہت وسيع ہے ،ا س کے خزانے ختم ہو نے والے نہيں ہيں ،اس کے ملک کی کو ئی حد نہيں ہے اور انسان کے الله سے ہر چيز کا سوال کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے ہاں، یہ تمنا و آرزو کرسکتا ہے کہ خدا اس کو دوسروں سے بہتر رزق عطا فر ما ئے ۔دعا ميں وارد ہوا ہے :

اللهم آثرنیْ ولاتوثرعليّ احداً

“خدایا مجه کو منتخب فرما مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”وَاجعَْلنِْي مِن اَفضَْلِ عِبَادِکَ نَصِيبْاًعِندَْک،ْوَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ

“اور مجھے ان بندوں ميں قرار دے جو حصہ پانے ميں تيرے نزدیک سب سے اچهے ہوں اور تيرے قرب ميں بڑی منزلت رکهتے ہوں ”

ا ن تمام چيزوں کے خدا وند عالم سے ما نگنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور الله بهی ان تمام چيزوں کو دو ست رکهتا ہے ،اور ہما رے پرور دگار کو اس چيز کا ارادہ کرنے کی ضرورت نہيں ہے کہ جب وہ اپنے کسی بندہ کو کو ئی نعمت عطا کر نے کا ارادہ کرے تو وہ اس بندہ سے چهين کر کسی دو سرے بندہ کو عطا کردے ۔

عبدالرحمان بن ابی نجران سے مروی ہے کہ :حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے الله کے اس قول( وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ الله بِهِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ ) (١) “اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے ”کے سلسلہ ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:

لایتمنی الرجل امراة الرجل ولاابنته ولکن یتمنّی مثلها ( ٢)

“انسان کو کسی کی عورت یا اس کی بيڻی کی تمنا نہيں کرنی چا ہئے بلکہ اسکے مثل کی تمنا کرناچا ہئے ’

____________________

١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)تفسير عياشی صفحہ ٢٣٩ ۔ )

۶۱

۴ ۔مصلحت کے خلاف دعا کرنا

انسان کا اپنی مصلحت کے خلاف دعا کرنا سزاوار نہيں ہے ،جب انسان دعا کے نفع اور نقصان سے جاہل ہوتا ہے ليکن الله اس کو جانتا ہے خدا وند عالم دعا کو کسی دوسری نعمت کے ذریعہ مستجاب کرتا ہے یا بلا دور کردیتا ہے یا جب تک اس دعا ميں نفع دیکها ہے اس کے مستجاب کرنے ميں تا خير کردیتا ہے ،دعا افتتاح ميں وارد ہوا ہے:

ا سالُکَ مُستَْانِساً لَاخَائِفاًوَلَاوَجِلاً ،مُدِلّاًعَلَيکَْ فِيمَْاقَصَدتُْ فِيهِْ اِلَيکَْ ،فَاِن اَبطَْاعَنِّي عَتَبتَْ بِجَهلِْي عَلَيکَْ، وَلَعَلَّ الَّذِي اَبطَْاعَنِّی هُوَخَيرٌْلِي لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَة الاُْمُورِْ فَلَم ارِمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرُعَل یٰ عَبدٍْ لَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ یَارَبِّ

“اور انس و رغبت کے ساته بلا خوف وخطر اور ہيبت کے تجه سے سوال کرتا ہوں جس کا بهی ميں نے تيری جانب ارادہ کيا ہے اگر تو نے ميری حا جت کے پورا کرنے ميں دیر کی تو جہالت سے ميں نے عتاب کيا اور شاید کہ جس کی تا خير کی ہے وہ ميرے لئے بہتر ہو کيو نکہ تو امور کے انجام کاجا ننے والا ہے ميں نے نہيں دیکها کسی کریم مالک کو جولئيم بندہ پر تجه سے زیادہ صبر کرنے والا ہو ” دعا ميں اس طرح کے حالات ميں انسان کو الله سے دعا کر نا چاہئے اپنے تمام امور اسکے حوا لہ کردینا چاہئے ،جب بندہ اپنی دعا کے قبول ہو نے ميں دیر دیکهے یا اسکی دعا مستجاب نہ ہو رہی ہو تو اسے الله سے ناراض نہيں ہو نا چا ہئے ليکن کبهی کبهی انسان خدا وند عالم سے ان چيزو ں کا سوال کرتا ہے جو اس کےلئے مضر ہو تی ہيں ،کبهی کبهی وہ خير طلب کرنے کی طرح شر(برائی ) طلب کرتا ہے اور اپنے لئے نقصان دہ چيزوں کےلئے جلدی کيا کرتا ہے ۔

خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (١)

____________________

١)اسرا آیت/ ١١ ۔ )

۶۲

“اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

حضرت صالح عليہ السلام نے اپنی قوم سے مخا طب ہو کر فرمایا :قَالَ یَاقَومِْ لِمَ تَستَْعجِْلُونَْ بِالسَّيِّئَةِ قَبلَْ الحَْسَنَةِ ( ١)

“صالح نے کہا کہ قوم والو آخر بهلا ئی سے پہلے برا ئی کی جلدی کيوں کر رہے ہو ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : اپنی نجات کے راستوں کو پہچانو کہ کہيں تم اس ميں وہ دعا نہ کر بيڻهو جو تمہاری ہلا کت کا باعث بن جا ئےں اور تم اس کو اپنے لئے نجات کا باعث سمجهتے رہو خداوندعالم فرما تا ہے :

وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ هُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً (٢) “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

۵ ۔فتنہ سے پنا ہ مانگنا

فتنہ سے پناہ مانگنا صحيح نہيں ہے چو نکہ انسان کی زوجہ ،اولاد اور اس کا مال فتنہ ہيں اور نہ ہی انسان کا اپنے اہل و عيال اور ما ل کے لئے الله کی پناہ ما نگنا صحيح ہے ليکن انسان کا گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ چا ہنا صحيح ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقولَنّ احدکم:اللهم انّي اعوذ بک من الفتنة؛لانّه ليس من احد إلاٰ

____________________

١)سورئہ نمل آیت/ ۴۶ ۔ )

٢)بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٢ ؛سورئہ اسر ١آیت/ ١١ ۔ )

۶۳

وهومشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فليستعذمن مضلاّت الفتن؛فانّ الله یقو ل :( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ١)

“تم ميں سے کو ئی ایک بهی یہ نہ کہے کہ ميں فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں چونکہ تم ميں سے ہر ایک فتنہ گرہے ليکن تم فتنوں کی گمراہی سے پناہ مانگواور خداوند عالم اس سلسلہ ميں فرماتا ہے :

“اور جان لو !کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہيں ” ابو الحسن الثالث عليہ السلام نے اپنے آبا ؤو اجد اد عليہم السلام سے نقل کيا ہے :ہم نے امير المو منين عليہ السلام سے ایک شخص کو یہ کہتے سُنا :

اللهم اِنِّی اَعُوذُْبِکَ مِنَ الفِْتنَْةِ

“اے پروردگار ميں تجه سے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ” امام عليہ السلام نے فرما یا :ميں یہ دیکهتا ہوں کہ تم اپنے مال اپنی اولاد سے پناہ ما نگ رہے ہو چونکہ خداوندعالم فرما تا ہے :

( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ ) ( ٣)

“تمہا رے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہيں ” ليکن یہ کہو :

اللهم انّي اعوذ بک من مضلاّت الفتن ( ۴)

“اے پروردگار ميں تجه سے گمراہ کر نے والے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ”

____________________

١)سورئہ انفال آیت/ ٢٨ ۔ )

٢)نہج البلاغہ القسم الثانی : ١۶٢ ۔ )

٣)سورئہ تغا بن آیت/ ١۵ ۔ )

۴)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ/ ١٩٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )

۶۴

۶ ۔مومنين کے لئے بد دعا کر نا

دعا کی اہميت اور اس کی غرض و غایت ميں سے ایک چيز مسلمان خاندانوں کے مابين را بطہ کا محکم کرنا اور ان کے درميا ن سے غلط فہميوں اورجهگڑوں کو دور کرنا ہے جو عام طور سے دنياوی زندگی ميں مزاحمت کا سبب ہو تے ہيں ،غائب شخص کےلئے دعا کرنا اس رابطہ کا سب سے بہترین سبب ہے جو زندگی کے مائل ہو نے کو پيش کرتا ہے ،البتہ اس کے برعکس ایسے حالات جو تعلقات ميں منفی صورت حال پيداکرتے ہيں ان حالات ميں پروردگار عالم دعا کرنے کو دوست نہيں رکهتا ہے ۔

خدا وندعالم مومنين کے ایک دوسرے کی موجودگی ميں دعا کرنے دعا کے ذریعہ ایک ایک دوسرے پر ایثار و فدا کاری کرنے اور دعا کرنے والے کے دوسرے کی حاجتوں اور ان کے اسماء کو اپنے نفس پر مقدم کرنے کو دوست رکهتا ہے ۔

خدا وند عالم دعا ميں اپنے دوسرے بهائی کی نعمتوں کے زائل وختم ہو نے کی دعا کرنے کو پسند نہيں کرتا ہے ،جيسا کہ ہم ابهی بيان کرچکے ہيں ۔

اور نہ ہی خدا وند عالم دعا ميں کسی انسان کے اپنے مومن بهائی کے خلاف دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ، اگر چہ اس نے اس کو تکليف یا اس پر ظلم ہی کيوں نہ کيا ہو اگر وہ اس کا ایمانی بهائی ہو اور ظلم کرکے ایمانی برادری کے دائرہ سے خارج نہ ہوا ہو )اور نہ ہی خدا وند عالم اس چيز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کو برا ئی کے ساته یا دکریں ۔

دعوات را وندی ميں ہے کہ توریت ميں آیا ہے کہ خدا وند عالم اپنے بندے سے فرماتاہے:

۶۵

انّک متیٰ ظلمت تدعوني علیٰ عبد من عبيدي من اجل انّه ظلمک فلک من عبيدي من یدعوعليک من اجل انّک ظلمته فان شئت اجبتک و اجبته منک،وان شئت اخرتکما الیٰ یوم القيامة ( ١)

“خداوند عالم اپنے بندہ سے خطاب کرتا ہے کہ جب تجه پر ظلم کيا جاتا ہے تو تو اس ظلم کی وجہ سے اس کے خلاف بد دعا کرتاہے تو تجهے یہ بهی معلوم ہونا چاہئے کہ کچه بندے ایسے بهی ہيں کہ جن پر تم نے ظلم کيا ہے اور وہ تيرے لئے بددعا کرتے ہيں تو اگر ميری مرضی ہو تی ہے تو ميں تيری دعا قبول کرليتا ہوں اور اس بندے کی دعابهی تيرے حق ميں قبول کرليتا ہوں ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :اذا ظلم الرجل فظلّ یدعوعلیٰ صاحبه،قال اللّٰه عزّوجلّ:انّ ها هناآخر یدعو عليک یزعم انّک ظلمته،فان شئت اجبتک واجبت عليک وان شئت اخّرتکما فيوسعکماعفوي ( ٢)

“جب کو ئی انسان پر ظلم کرتا ہے اور وہ بد دعا کرتا ہے تو خداوند عالم فر ماتا ہے کہ کل جب تم کسی پر ظلم کروگے تو وہ تمہارے لئے بد دعا کرے گا پس اگر چا ہو تو ميں دونوں کی بد دعا قبول کرلونگا اور اگر چاہو تو ميں اس کو قيامت تک کےلئے ڻال دونگا ”

ہشام بن سالم سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے :

انّ العبد ليکون مظلوما فلایزال یدعوحتّیٰ یکون ظالماً (٣) “جب کو ئی مظلوم بد دعا کرتا ہے تو وہ ظالم ہو جاتا ہے ” حضرت علی بن الحسين عليہ السلام سے مروی ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۶ ۔ )

٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ / ١١٧٧ ،حدیث ٨٩٧٢ ؛امالی الصدوق صفحہ / ١٩١ ۔ )

٣)اصول کا فی صفحہ ۴٣٨ ؛عقاب الاعمال صفحہ ۴١ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ) ١١۶۴ ،حدیث ٨٩٢۶ ۔

۶۶

ان الملائکة اذاسمعواالمومن یذکراخاه بسوء ویدعوعليه قالوا له:بئس الاخ انت لاخيک کفّ ایّهاالمستّرعلیٰ ذنوبه وعورته،واربع علیٰ نفسک،و احمداللّٰه الَّذي سترعليک،واعلم اَّن اللّٰه عزّوجلّ اعلم بعبده منک ( ١)

“جب ملا ئکہ سنتے ہيں کہ مو من اپنے کسی بها ئی کی برا ئی اور اس کےلئے بد دعا کر رہا ہے تو کہتے ہيں کہ تو بہت برا بها ئی ہے اے وہ شخص جس کے گناہ کی خداوند عالم نے پردہ پو شی کر رکهی ہے تو اپنی زبان کو قابو ميں رکه اس خدا کی تعریف کر جس نے تيرے گناہ کی پردہ پوشی کی ہے اور تجهے معلوم ہونا چا ہئے کہ خداوند عالم کو تيرے مقابلہ ميں اپنے بندے کے بارے ميں زیادہ علم ہے ”

بيشک الله تبارک وتعالےٰ“ السلام ”ہے ،سلام اسی کی طرف پلڻتا ہے ،ذات خدا سلا متی سے برخوردار ہے، سلامتی اسی کی طرف پلڻتی ہے ،سلا متی اسی کی جا نب سے ہے ،اس کا دربار، سلا متی کا دربار ہے ۔جب ہم سلام و سلا متی سے بهرے دلوں سے خداوند عالم کی با رگاہ ميں حا ضر ہو ں گے ، ایک دو سرے کيلئے دعا کریں گے ،اور ہم ميںسے بعض دو سرے بعض افراد کيلئے رحمت کا سوال کریں گے ،اور ہم ميں سے بعض کی دعائيں الله کی رحمت نازل ہو نے ميں مو ثر ہوں گی تو ہم پر جو الله کی رحمت نازل ہو گی وہ سب کو شامل ہو گی ،بيشک خداوند عالم کی رحمت محبت اور سلامتی کے مقامات پر نا زل ہو تی ہے ،جو قلوب مو منين سے محبت و مسالمت کرتے ہيں ،ہمارے اعمال ،نمازیں ،دعا ئيں ، اور قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلندہوتے ہيں کلم طيب(پاکيزہ کلمات ) اور کلم طيب (پاکيزہ کلمات ) سے زندہ قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہيں :اِلَيهِْ یَصعَْدُالکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعَهُ (٢)

____________________

١)اصول کا فی صفحہ ۵٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١۶۴ ،حدیث / ٨٩٢٧ ۔ )

٢)سورئہ فا طر آیت/ ١٠ ۔ )

۶۷

“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”

جب ہم الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ميں ایسے ڻيڑهے اورکينہ بهر ے دل جن ميں محبت وسلامتی نہ ہواُن کے ساته کهڑے ہو کر ایک دوسرے مومن کے خلاف دعا کریں گے تو ہم سے خدا کی تمام نعمتيں منقطع ہو جا ئينگی ،اور اس کا ئنات ميں خدا کی وسيع رحمت ہم پر نازل نہيں ہو گی ،اور ہمارے اعمال، نماز یں، دعائيں اور قلوب الله تک نہيں پہنچ پائيں گے ۔

بيشک محبت سے لبریز اور محبت سے زندہ دلوں کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہو تی ہے اور مو منين سے بلائيں اور عذاب دور ہو تا ہے اس کے برخلاف (مومنوں کے )مخالف اور دشمن دلوں کے ذریعہ ان سے الله کی رحمت دور ہو تی ہے اور ان کے لئے بلائيں اور عذاب کو نزدیک کرتی ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا ؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا سے نقل کيا ہے :

انّ اللّٰه تبارک وتعالیٰ إذا رای اهل قریة قد اسرفوا في المعاصي وفيهم ثلاثة نفرمن المومنين،ناداهم جلّ جلاله:یااهل معاصيتی،لولا فيکم من المومنين المتحاببين بجلا لي العامرین بصلاتهم ارضي ومساجدي المستغفرین بالاسحار خوفاً مني لانزلت بکم العذاب ( ١)

“بيشک جب الله تعالیٰ نے ایک قریہ کے لوگوں کو معصيت ميں زندگی بسر کرتے دیکها حالانکہ ان کے مابين صرف تين افراد مو من تھے تو پروردگار عالم کی طرف سے ندا آئی :اے گناہ کرنے والو!اگر تمہارے درميان محبت سے بهرے دل نہ ہو تے جو اپنی نمازوں کے ذریعہ ميری زمين کو آباد رکهتے ہيں اور مسجدوں ميںسحر کے وقت ميرے خوف کی وجہ سے استغفار کيا کرتے ہيںتو ميں تم پر عذاب نازل کردیتا ”

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٧۴ صفحہ ٣٩٠ ۔ )

۶۸

جميل بن دراج نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :مَن فضّل الرجل عند اللّٰه محبّته لاخوانه،ومن عرّفه اللّٰه محبّة اخوانه احبّه اللّٰه ومَن احبّه اللّٰه اوفاه اجره یوم القيامة ( ١)

“الله کے نزدیک وہ شخص با فضيلت ہے جو اپنے بها ئيوں سے محبت کرتا ہے اور جس کو خدا وند عالم اس کے بها ئيوں کی محبت سے آشنا کردیتا ہے اس کو دو ست رکهتا ہے اور جس کو دو ست رکهتا ہے اس کو قيامت کے دن پورا اجر دیگا ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

لاتزال امتی بخيرماتحابوا،وادّو الامانة،وآتواالزکاة،وسياتي علیٰ امتي زمان تخبث فيه سرائرهم،وتحسن فيه علانيتهم ان یعمّهم اللّٰه ببلاء فيدعونه دعاء الغریق فلایستجاب لهم ( ٢)

“ميری امت اس وقت تک نيک رہے گی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے رہيں ،امانت ادا کرتے رہيں ،زکات دیتے رہيں ،مير ی امت پر ایک ایسا زمانہ آئيگا جب ان کے باطن برے ہوں گے اور ان کا ظاہر اچها ہوگا اور اگر خدا وند عالم ان کو کسی مصيبت ميں مبتلا کرے گا اور وہ ڈوبتے شخص کے مثل بهی دعا ما نگيں گے تو بهی ان کی دعا قبول نہ ہو گی ”

محبت بهرے دلوں سے خداکی رحمت نازل ہو تی ہے

حضرت امام جعفر دق عليہ السلام سے مروی ہے :

انّ المومنين اذاالتقيا فتصافحا انزل اللّٰه تعالیٰ الرحمة عليهما،فکانت

____________________

١)ثواب الاعمال صفحہ/ ۴٨ ؛بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ٣٩٧ ۔ )

٢)عدة الداعی صفحہ ١٣۵ ،بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ۴٠٠ ۔ )

۶۹

تسعة وتسعين لاشدّهماحبّالصاحبه،فاذا تواقفاغمرتهماالرحمة،واذاقعدایتحدثان قالت الحفظة بعضهالبعض:اعتزلوا بنا فلعل لهماسرّا وقد ستراللّٰه عليهما

“بيشک جب مو منين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں مصافحہ کرتے ہيں تو خداوند عالم ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے ان ميں سے ننانوے رحمتيں اس شخص کيلئے ہيں جو ان ميں اپنے دوسرے بهائی سے زیادہ محبت رکهتا ہے اور جب ان ميں توافق ہو جاتا ہے تو دونوں کو رحمت خدا گهير ليتی ہے اور جب وہ دونوں گفتگو کرنے کيلئے بيڻهتے ہيں تو نا مہ اعمال لکهنے والے فرشتہ کہتے ہيں کہ ان دونوں سے دور ہو جاؤ چونکہ یہ راز کی باتيں کررہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ”

اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “انّ المو منين اذااعتنقاغمرتهماالرحمة فاذاالتزما لایریدان عرضاً من اعراض الدنياقيل لهما:مغفور لکما فاستانفا؛فاذااقبلا علی المساء لة قالت الملا ئکة بعضها لبعض:تنحّواعنهما؛فانّ لهماسرّا قد ستراللّٰه عليهما قال اسحق :فقلت:جعلت فداک،ویکتب عليهمالفظهماوقد قال اللّٰه تعالیٰ ( مَایَلفِْظُ مِن قَولٍْ اِلّالَدَیهِْ رَقِيبٌْ عَتِيدٌْ ) (١) ؟قال فتنفس ابوعبد اللّٰه الصعداء ثم بکی و قال:یااسحق ،انّ اللّٰه تعالیٰ انماامرالملائکة ان تعتزل المومنين اذا التقيااجلالاً لهما،وان کانت الملائکة لاتکتب لفظهما،ولاتعرف کلاهما،فانه یعرفه ویحفظه عليهماعالم السر واخفیٰ( ٢)

“بيشک جب مومنين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں اور مصافحہ کرتے ہيں توان دونوں کو رحمت گهير ليتی ہے جب وہ بے لوث انداز ميں ایک دو سرے سے چمٹ جاتے ہيں تو ان سے کہا جاتا

____________________

١)سورہ ق آیت/ ١٨ ۔ )

٢)معالم الزلفیٰ للمحدث البحرانی صفحہ / ٣۴ ۔ )

۷۰

ہے کہ تمہارے سب گنا ہ بخش دئے گئے لہٰذا اب شروع سے نيک عمل انجام دو ،جب وہ ایک دو سرے سے کچه چيز دریافت کرنے کی جا نب بڑهتے ہيں تو فرشتے ایک دو سرے سے کہتے ہيں ان دونوں سے دور ہو جاؤ کيونکہ یہ راز کی بات کر رہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ۔

اسحاق کا کہنا ہے کہ ميں نے آپ کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو کيا ان دو نوں کے الفاظ لکھے جاتے ہيں جبکہ خداوند عالم فر ماتا ہے مو من جوبهی بات کرتا ہے اس کے پاس ایک نگراں فرشتہ مو جود ہوتا ہے اس وقت حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فر مایا :اے اسحاق خداوند عالم نے فرشتوں کو مو منين سے ان کے ملاقات کے وقت جدا رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ ان مو منين کی تعظيم کرسکے اور فرشتے اگر چہ ان کے الفاظ نہيں لکهتے اور ان کے کلا م کو نہيں پہچانتے ليکن خداوند عالم تو پہچانتا ہی ہے جو راز اور مخفی باتوں کا جاننے والا ہے ”

۷۱

مومنين کے ساته ملاوٹ کرنے سے الله کاغضب نازل ہوتا ہے

اس موضوع سے جو چيز متعلق ہو تی ہے اور دعا وصاحب دعا کے درميان حائل ہو تی ہے وہ مومنين کيلئے فریب ودهو کہ کا مخفی رکهنا ہے ۔ حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

من بات وفی قلبه غش لاخيه المسلم بات فی سخط اللّٰه ،واصبح کذلک وهوفی سخط اللّٰه حتّیٰ یتوب ویرجع،واین مات کذلک مات علی غيردین الاسلام ( ١)

“جو ساری رات عبادت ميں بسر کرے اور وہ اپنے دل ميں ایسا اردہ کرے جس کے ذریعہ مومن بهائی فریب کها جائيں تو وہ پوری رات الله کے غضب و ناراضگی ميں بسر کرتا ہے اور یہی اس

____________________

١)الوسائل جلد ٢۵ صفحہ ٢٠۴ ۔ )

۷۲

کے بعد والے دن کا حال ہے یعنی الله کے غضب ميں پورا دن گزارتا ہے یہاں تک کہ وہ الله سے توبہ کرے اور اپنی اصلی حالت پر آجا ئے اور اگر وہ اسی کينہ و بغض کی حالت ميں مر جائے تو وہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا ”

مومنين سے سو ء ظن قبوليت عمل کی راہ ميں رکاوٹ

جس طرح سے باطن ميں برائی چهپائے رکهنے کی وجہ سے عمل خداوند عالم تک نہيں پہنچتاہے

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

لایقبل اللّٰه من مومن عملاًوهومضمرعلیٰ اخيه المومن سوء اً “الله تبار ک وتعالیٰ اس مومن کے عمل کو قبول نہيں کرتا جو اپنے مومن بهائی سے اپنے دل ميں برائی رکهے ہوئے ہو ” خداوندعالم مومنين سے بغض رکهنے والوں پر اپنا کر م نہيں فرماتا حضرت امير المو منين عليہ السلام حضرت رسول خدا (ص)سے نقل فرما تے ہيں :

شرارالناس مَن یبغض المومنين وتبغضه قلوبهم،المشّاوون بالنميمة المفرقون بين الاحبة،اُولئک لاینظراللّٰه اليهم،ولایزکّيهم یوم القيامة ( ١)

“لوگوں ميں سب سے شریر لوگ وہ ہيں جو اپنے مو من برادرا ن سے بغض رکهتے ہيں اور مسلسل چغلی کرتے رہتے ہيں دوستوں کے درميان تفرقہ ڈالتے ہيںخداوند عالم قيامت کے دن ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہيں دیکهے گا ”۔

____________________

١)وسائل جلد ٢۵ صفحہ / ٢٠۴ ۔ )

۷۳

اہل بيت عليہم السلام کی دعاؤں ميں حبّ خدا الله سے لو لگا نا

قُل اِن کَانَ آبَاءُ کُم وَاَبنَْاوکُم وَاِخوَْانُکُم وَاَزوَْاجُکُم وَعَشِيرَْتُکُم وَاَموَْالٌ اقتَْرَفتُْمُوهَْاوَتِجَارَةً تَخشَْونَْ کَ سٰادَ هٰاوَمَ سٰاکِنَ تَرضَْونَْ هٰااَحَبُّ اِلَيکُْم مِنَ الله وَرَسُولِْهِ وجِ هٰادٍ (فِی سَبِيلِْهِ فَتَرَبَّصُواْحَتّ یٰ یَاتِیَ الله بِامرِْهِ وَالله یٰ لاَهدِْی القَْومَْ الفَْاسِقِينَْ ( ١)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا ،اولاد ،برادرن ،ازواج ،عشيرہ وقبيلہ اور وہ اموال حنهيں تم نے جمع کيا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنهيں پسند کرتے ہو تمہاری نگا ہ ميں الله ،اس کے رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے زیادہ محبوب ہيں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الٰہی آجا ئے اور الله فاسق قوم کی ہدایت نہيں کرتا ہے ”

صحيح صورت ميںخداوندعالم سے ایک دوسرے سے ہما ہنگ اور تمام سازگار عناصر کے ذریعہ ہی لولگا ئی جاسکتی ہے اوریہی چند چيزیں مجمو عی طور پر الله سے لولگا نے کے صحيح طریقہ معين کرتی ہيں ۔

اسلامی روایات ميں ایک ہی عنصر جيسے خوف یا رجاء (اميد )یا محبت یا خشوع کی بنياد پر الله سے لولگا نے کو منع کيا گيا ہے ۔جو عناصر خداوندعالم سے مجموعی اور وسيعی طور پر رابطہ کو تشکيل دیتے ہيں

____________________

١)سورئہ توبہ آیت/ ٢۴ ۔ )

۷۴

ان کا آیات، روایات اور دعاؤں ميں تفصيلی طور پر ذکر کيا گيا ہے جيسے اميد، خوف، تضرع، خشوع، تذلل، ترس،محبت، شوق، اُنس، انا بہ، ایک دوسرے سے کنارہ کشی، استغفار، استعاذ ہ، استرحام، انقطاع، تمجيد، حمد، رغبت رهبت، طاعت ،عبودیت، ذکر،فقراور اعتصام ہيں ۔

حضرت امام زین العا بدین بن حسين عليہ السلام سے دعا ميں وارد ہو اہے :اللهم اني اسالک انْ تملا قلبی حباًوخشيةمنک وتصدیقاًلک وایمانابک وفرقاًمنک وشوقاً اليک ( ١)

“پرور دگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں دست بہ دعا ہوں کہ ميرے دل کو اپنی محبت سے لبریز فر مادے ،ميں تجه سے خوف کها ؤں ،تيری تصدیق کروں ،تجه پر ایمان رکهوں اور تجه سے فرق کروں اور تيری طرف شوق سے رغبت کروں ” ان تمام عناصرکے ذریعہ خداوندعالم سے خاص طریقہ سے لو لگا ئی جاتی ہے اور ان عنصروں ميں سے ہر عنصر الله کی رحمت اور معرفت کے ابواب ميں سے ہر باب کيلئے ایک کنجی ہے ۔

استر حام الله کی رحمت کی کنجی ہے اور استغفار مغفرت کی کنجی ہے ۔

ان عنصروں ميں سے ہر عنصر بذات خود الله سے لولگا نے کا ایک طریقہ ہے شوق محبت اور انسيت اللهتک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے ،خوف اور رهبت اللهتک پہنچنے کا دوسرا طریقہ ہے خشوع اللهتک پہنچنے کاتيسرا طریقہ ہے ۔دعا اور تمنا اللهتک رسائی کا ایک اورطریقہ ہے ۔

انسان کيلئے الله تک رسائی کی خاطر مختلف طریقوں سے حرکت کرنا ضروری ہے اس کو ایک ہی طریقہ پر اکتفا ء نہيں کرنا چاہئے کيو نکہ ہر طریقہ کا ایک خاص ذوق کمال اور ثمر ہوتا ہے جو دوسرے طریقہ ميں نہيں پایاجاتاہے ۔

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٩٢ ۔ )

۷۵

اس بنياد پر اسلام اللهتک رسائی کے متعدد طریقوں کو بيان کرتاہے یہ ایک وسيع بحث ہے جس کو ہم اِس وقت بيان کر نے سے قاصر ہيں ۔

الله کی محبت

الله تعالیٰ کی محبت ان تمام عناصر سے افضل اور قوی ترہے ،یہ انسان کو الله سے لولگا نے کيلئے آمادہ کرتی ہے اور الله سے اس کے رابطہ کو محکم ومضبوط کرتی ہے ۔

محبت کے علاوہ کسی اور طریقہ ميں اتنا محکم اور بليغ رابطہ خدا اور بندے کے درميان نہيں پایا جاتا ہے خدا وند عالم سے یہ رابطہ اسلامی روایات ميں بيان ہوا

ہے جن ميں سے ہم بعض روایات کا تذکرہ کررہے ہيں :

روایات ميں آیا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤ دکی طرف وحی کی :یاداود ذکري للذاکرین وجنتي للمطيعين وحبي للمشتاقين وانا خاصة للمحبين ( ١)

“اے داود ذاکرین کےلئے ميرا ذکر کرو ،ميری جنت اطاعت کرنے والوں کےلئے ہے اور ميری محبت مشتاقين کےلئے ہے اور ميں محبت کرنے والوں کےلئے مخصوص ہوں ”

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :الحبّ افضل من الخوف

“محبت ،خوف سے افضل ہے ”( ٢)

محمد بن یعقوب کلينی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :

العبّاد ثلا ثة:قوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ خوفاًفتلک عبادة العبيد،وقوم

____________________

١)بحا الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٧٨ ۔صفحہ ٢٢۶ ۔ )

۷۶

عبدوا اللّٰه تبارک وتعالیٰ طلب الثواب،فتلک عبادة التجار،وقوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ (حبّاً،فتلک عبادةالاحرار،وهي افضل عبادة ( ١)

“عبادت تين طرح سے کی جاتی ہے یا عبادت کرنے والے تين طریقہ سے عبادت کر تے ہيں ایک قوم نے الله کے خوف سے عبادت کی جس کو غلاموں کی عبادت کہاجاتا ہے ،ایک قوم نے اللهتبارک وتعا لیٰ کی طلب ثواب کی خاطر عبادت کی جس کو تاجروں کی عبادت کہاجاتا ہے اور ایک قوم نے اللهعزوجل سے محبت کی خاطر عبادت کی جس کو احرار(آزاد لوگوں) کی عبادت کہاجاتاہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے”۔

جناب کلينی نے رسول اسلام (ص)سے نقل کيا ہے :

افضل الناس مَن عشق العبادة،فعانقها،واحبّهابقلبه،وباشرهابجسده، وتفرّغ لها،فهولایبالي علیٰ مااصبح من الدنيا علی عسرام یسر ( ٢)

“لوگوں ميں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کرتے ہوئے اس سے معانقہ کيا ،اس کو اپنے دل سے دوست رکهااور اپنے اعضاء و جوارح سے اس سے وابستہ رہے ، اس کو پرواہ نہيں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی سے گزرے گا یا غم کے ساته گذرے گا ”

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

نجویٰ العارفين تدورعلیٰ ثلاثة اصول:الخوف،والرجاء والحبّ فالخوف فرع العلم،والرجاء فرع اليقين،والحبّ فرع المعرفة فدليل الخوف الهرب،ودليل الرجاء الطلب،ودليل الحبّ ایثارالمحبوب،علیٰ

____________________

١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٨۴ ۔ )

٢) اصول کافی جلد ٢صفحہ ٢٨٣ ۔ )

۷۷

ماسواه فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف هرب،واذاهرب نجاواذا اشرق نوراليقين فی القلب شاهد الفضل واذاتمکن من رویة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد واذا تجلّیٰ ضياء المعرفة فی الفواد هاج ریح المحبة،واذاهاج ریح المحبة استانس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواه،وباشر اوامره ومثال هذه الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم امن من الخلق،ومن دخل المسجد امنت جوارحه ان یستعملهافيالمعصية،ومَن دخل الکعبة امن قلبه من ان یشغله بغيرذکراللّٰه( ١)

“عارفوں کی مناجات تين اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،اميد اور محبت ۔خوف علم کی شاخ ہے ،اميد یقين کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے خوف کی دليل ہر ب (فرار اختيار کرنا) ہے ،اميد کی دليل طلب ہے اور محبت کی دليل محبوب کو دوسروں پر تر جيح دینا ہے ،جب سينہ ميں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف ہوتا ہے اور جب صحيح طریقہ سے خوف پيداہوتاہے توفراروجود ميں اتاہے اورجب فراروجودميں اجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل ميں یقين کا نور چمک اڻهتا ہے تو عارف انسان فضل کا مشا ہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکه ليتا ہے تو اميد وار ہو جاتا ہے ،جب اميد کی شرینی محسوس کر ليتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب طلب کی تو فيق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرليتا ہے ،جب دل ميں معرفت کی ضياء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ ميں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے علاوہ انسان ہر چيز سے لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع فرمان ہو جاتا ہے ۔ان تين اصول کی مثال حرم

____________________

١)مصباح الشریعہ صفحہ ٢۔ ٣۔ )

۷۸

مسجداور کعبہ جيسی ہے جو حرم ميں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو جاتا ہے ،جو مسجد ميں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصيت ميں استعمال ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہيں جو کعبہ ميں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا کے علا وہ کسی اور چيز ميں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ”

حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے:

بکی شعيب من حبّ الله عزّوجلّ حتّیٰ عمي اوحیٰ الله اليه: یاشعيب،ان یکن هذاخوفاًمن النار،فقداجرتک،وان یکن شوقاالی الجنة فقد ابحتک فقال:الهي وسيدي،انت تعلم انی مابکيت خوفامن نارک،ولاشوقاالی جنتک،ولکن عقدحبک علی قلبی،فلست اصبرا واراک،فاوحی الله جلّ جلاله اليه:امااذاکان هذاهکذافمن اجل هذاساخدمک کليمي موسی بن عمران( ١)

“ الله سے محبت کی وجہ سے گریہ کرتے کرتے حضرت شعيب عليہ السلام کی آنکهوں سے نور چلا گيا ۔تو اللهنے حضرت شعيب عليہ السلام پر وحی کی :اے شعيب اگر یہ گریہ وزار ی دوزخ کے خوف سے ہے تو ميں نے تم کو اجردیا اور اگر جنت کے شوق کی وجہ سے ہے تو ميں نے تمہارے لئے جنت کو مباح کيا ۔

جناب شعيب عليہ السلام نے عرض کيا :اے ميرے الله اور اے ميرے سيد وسردار تو جانتا ہے کہ ميں نہ تو دوزخ کے خوف سے گریہ کررہاہوں اور نہ جنت کے شوق ولالچ ميں ليکن ميرے دل ميں تيری محبت ہے اللهنے وحی کی اے شعيب! اگر ایسا ہے تو ميں عنقریب تمہاری خدمت کيلئے اپنے کليم موسیٰ بن عمران کو بهيجو ں گا ”

حضرت ادریس عليہ السلام کے صحيفہ ميں آیا ہے :

____________________

١)بحارالانوار جلد ١٢ صفحہ ٣٨٠ ۔ )

۷۹

طوبیٰ لقوم عبدوني حبّاً،واتخذوني الٰهاًوربّاً،سهرواالليل،ودابواالنهار طلباًلوجهي من غيررهبة ولارغبة،ولالنار،ولاجنّة،بل للمحبّة الصحيحة،والارادة الصریحة والانقطاع عن الکل اليَّ ( ١)

“اس قوم کيلئے بشارت ہے جس نے مير ی محبت ميں مير ی عبادت کی ہے ،وہ راتوں کو جا گتے ہيں اور دن ميں بغير کسی رغبت اور خوف کے ، نہ ان کو دوزخ کا خوف ہے اور نہ جنت کا لالچ ہے بلکہ صحيح محبت اور پاک وصاف اراد ہ اور ہر چيز سے بے نياز ہو کر مجه سے لولگا تے ہيں ۔

اور دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں :عميت عين لاتراک عليهارقيباًوخسرت صفقةعبدلم تجعل له من حبّک نصيباً (٢)

“وہ آنکه اندهی ہے جوخود پر تجه کونگران نہ سمجھے ،اور اس انسان کا معاملہ گهاڻے ميں ہے جس کےلئے تو اپنی محبت کا حصہ نہ قرار دے ”

ایمان اور محبت

اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے بيشک ایمان محبت ہے ۔ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے :الایمان حبّ وبغض “ایمان محبت اور بغض ہے ”(٣ )

فضيل بن یسار سے مروی ہے :

____________________

١)بحار الا نوار جلد ٩۵ صفحہ ۴۶٧ ۔ )

٢)بحار الا نوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )

٣)بحار الانو ار جلد ٧٨ صفحہ / ١٧۵ ۔ )

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248